مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953) نے اپنا ایک واقعہ اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’1920 کی تحریک خلافت کے سلسلے میں میرا یورپ جانا ہوا- وہاں میں ایک بار انگلستان سے فرانس گیا- اُس وقت میں اِسی مشرقی لباس میں تھا- اگر چہ میں انگریزی زبان جانتا اور سمجھتاتھا، لیکن فرنچ زبان سے واقفیت نہیں تھی- فرانس کے ساحل پر اترتے ہی ایک کانسٹبل نے فرنچ زبان میں کچھ کہا- میں سمجھا کہ اس نے میرے مشرقی لباس پر کچھ طنز کیا ہوگا- چناں چہ میں نے اس کا وہ فرنچ جملہ یاد رکھا اور ہوٹل پہنچ کر اپنے ایک فرنچ رفیق سے اُس جملے کا ترجمہ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اُس کانسٹبل نے مجھے اجنبی دیکھ کر خوش آمدید کہا اور کہا کہ دیکھو، ہمارا ملک کتنا اچھا ہے- میرے دل پر اس کا بڑا اثر ہوا اور یہ احساس ہوا کہ یہاں کے معمولی درجے کے لوگوں میں بھی اپنے ملک کی عزت اور مسافروں کو خوش آمدید کہنے کا کتنا جذبہ پایا جاتاہے‘‘- (مجلہ الشارق، اعظم گڑھ، مارچ- اپریل 2014)
فرانس کے ساحل پر خوش آمدید کا یہ واقعہ پڑھ کر مجھے خوش آمدید کا دوسرا واقعہ یاد آیا جو اللہ کے مخلص بندوں کے ساتھ آخرت میں پیش آئے گا- اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاۭ حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْہَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَـــتُہَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ (
مومن ایک حساس انسان کا نام ہے- مومن کی بڑھی ہوئی حساسیت اس کے اندر یہ مزاج پیدا کرتی ہے کہ ہر تجربہ میں اس کو آخرت کی تصویر دکھائی دے- سچا مومن وہ ہے جس کا حال یہ ہوجائے کہ دنیا کا ہربراتجربہ اس کو جہنم کی یاد دلائے اور دنیا کا ہر اچھا تجربہ اس کو جنت کی یاد دلانے والا بن جائے-
واپس اوپر جائیں
مشہور محدث عبد اللہ بن مبارک (وفات:
تاریخ کے اِس واقعے میں بہت بڑا سبق ہے، وہ یہ کہ سیاسی بادشاہت سے زیادہ بڑی چیز علم کی بادشاہت ہے- سیاسی بادشاہت کے لیے زوال ہے، لیکن علم کی بادشاہت کے لیے کوئی زوال نہیں- سیاسی بادشاہت ایک محدود بادشاہت ہے، لیکن علم کی بادشاہت ایک ایسی بادشاہت ہے جو کسی جغرافی حد کی پابند نہیں-موجودہ زمانے میں اِس معاملے کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے- موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے- آج اگر آدمی ایک کتاب کو لکھ کر اس کو چھاپے اور اس کے مطبوعہ نسخے تیار کرے تو یہ مطبوعہ کتاب وہاں بھی ہوگی جہاں آدمی جسمانی طورپر موجود نہ ہوگا- موجود ہ زمانہ ٹکنالوجی کا زمانہ ہے- آج یہ ممکن ہے کہ آدمی ایک جگہ بولے اور اس کی آواز زمین کے ہر حصے میں سنائی دے، حتی کہ عین اُسی وقت اس کی متحرک تصویر بھی لوگوں کے سامنے آجائے- کسی بادشاہت کا ایک زمینی رقبہ ہوتا ہے، لیکن اہلِ علم کے اثر کی وسعت کسی زمینی رقبے کی پابند نہیں، وہ ہرجگہ اور ہر مقام پر یکساں طور پر پہنچ سکتی ہے-علم کی اہمیت بلا شبہہ تمام چیزوں سے زیادہ ہے، عالم کی اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور دوسروں کے اعتبار سے بھی- انسان کو چاہیے کہ وہ سیاست میں اعلی مقام حاصل کرنے کے بجائے علم کے میدان میںاعلی مقام حاصل کرنے کی کوشش کرے- سیاست کے میدان میں ہمیشہ مزاحمت کا اندیشہ ہوتا ہے، لیکن علم کے میدان میں کسی مزاحمت کا کوئی اندیشہ نہیں- علم کا میدان ایک ایسا میدان ہے جو ہمیشہ خالی رہتاہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الکہف میں ایک کردار کو اِس طرح بیان کیا گیاہے:قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا (
قرآن کی اِس آیت میں دراصل اُس نفسیاتی حالت کا ذکر ہے جس کو موجودہ زمانے میں کنڈیشننگ کہاجاتا ہے- جن لوگوں کا کیس کنڈیشنڈ مائنڈ (conditioned mind) کا کیس ہو، اُن کا حال یہ ہوجاتا ہےکہ وہ اپنے مانوس تصور ہی کو درست سمجھنے لگتے ہیں-
اپنے اِس ذہنی شاکلہ (mind-set) کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں، وہی حقیقت کے اعتبار سے بھی صحیح ہے- لیکن آخرت میں ان کے یہ اعمال باطل قرار پائیں گے، یعنی بے نتیجہ ہوجائیں گے-
اعمال کا باطل ہونا کوئی پراسرار چیز نہیں -اُس سے مراد ہے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہونا- دنیا میں کسی انسان سے جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ کہ اس کے اندر مزکیّٰ شخصیت بنے، یعنی وہ شخصیت جو جنت میں داخلے کے قابل ہو- ایسے لوگوں کو آخرت میں معلوم ہوگا کہ جو کچھ وہ کرتے رہے، وہ صرف ایک غیر متعلق کام تھا- وہ ان کی شخصیت کو مزکیّٰ شخصیت بنانے میں کار آمد نہ تھا-
لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ بطور خود اپنی زندگی کا ایک نشانہ بناتے ہیں- وہ اس میں اپنی ساری طاقت لگا دیتے ہیں- اُن کا ذاتی خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کررہے ہیں، لیکن اچانک موت آتی ہے جو اُن کے پورے محل کو ڈھا دیتی ہے- موت کے بعد آدمی اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے جہاں اس کی سابقہ کوششیں کچھ بھی اس کے کام نہیں آتیں-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ یوسف میں ایک پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَى اللّٰہِ (
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی انسان یا انسانوں کے کسی گروہ کے خلاف شکایت میں مبتلا ہوجائے-اِس واضح قرآنی تعلیم کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ تمام مسلمان شکایت کی نفسیات میں جیتے ہیں- ہر ایک نے کوئی دشمن یا ظالم دریافت کر رکھا ہے جس کے خلاف وہ تقریر یا تحریر کی صورت میں شکایت کی زبان استعمال کرتا رہتا ہے- یہ ایک عمومی گمراہی ہے جو مشرق سے مغرب تک تمام مسلمانوں میں کم وبیش چھائی ہوئی ہے-
اِس کا سبب کیا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے شکایت کو حق وانصاف کے مسئلے سے جوڑرکھا ہے- شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف ظلم اور دشمنی کا معاملہ کیا جارہا ہے- ایسی حالت میں از روئے انصاف ہم کو حق ہے کہ ہم شکایت کی زبان بولیں- یہ ایک جائزکردہ برائی (justified evil) کا معاملہ ہے- اِسی کی بابت کہا گیا ہے کہ شکایت کا تعلق کسی دوسرے سے نہیں، بلکہ انسان کی اپنی ذات سے ہے- شکایت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان کے اندر منفی سوچ آجاتی ہے اور منفی سوچ بلا شبہہ تمام نیکیو ں کی قاتل ہے- اِسی بنا پر اسلام میں دوسروں کے لیے دعوت ہے، دوسرے کے لیے شکایت نہیں-موجودہ زمانے کے مسلمان کا کیس ایک لفظ میں وکٹم ہڈ (victimhood) کا کیس ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں عام طورپر زیادتی کے احساس (feeling of victimhood) میں جی رہے ہیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی اصلاح کا صحیح آغاز یہ ہے کہ اُن کے اِس منفی احساس کو بدل کر اُن کے اندر صحیح احساس پیدا کیا جائے- یہ صرف اُس وقت ہوسکتا ہے جب کہ مسلمانوں کو ذہنی اعتبار سے اِس کے لیے تیار کیا جائے کہ تم جن شکایتوں کو لے کر احساسِ محرومی میں مبتلا ہو، وہ زندگی کے حقائق ہیں، وہ چیلنج کے واقعات ہیں، نہ کہ ظلم کے واقعات-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ الانعام میں ارشاد ہوا ہے:وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ (
دعوت کا یہ مسئلہ جس طرح قرآن میں مذکور ہے، اِسی طرح وہ حدیث میں بھی بیان ہوا ہے- چناں چہ حجة الوداع کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو، اور نیابةً پوری امت کو، خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مجھے اللہ نے تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے- تم میری طرف سے میرا پیغام تمام لوگوں تک پہنچا دو- اِسی طرح آپ نے فرمایا تھا کہ جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں (فلیبلغ الشاہدُ الغائب)-
واپس اوپر جائیں
علماءِ سلف کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے درمیان دینی مسائل میں کثرت سے اختلاف پایا جاتا تھا- اِس کے باوجود ہر عالم دوسرے عالم کا احترام کرتا تھا-اِس سلسلے میں یہاں دو واقعات نقل کیے جاتے ہیں: ’’ابن عبد البر نے نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کے درمیان ایک مسئلے پر بحث ہوئی اور بحث ایسی ہوئی کہ دونوں طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں- مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ آپس میں بد مزگی پیدا ہوجائے گی، لیکن علی بن المدینی واپس جانے لگے تو امام احمد بن حنبل نے ان کے ساتھ اِس درجہ احترام کا معاملہ کیا کہ آگے بڑھ کر ان کی رکاب تھام لی (جامع بیان العلم:
اِسی طرح یونس صدقی امام شافعی کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں- ایک دن ایک مسئلے میں استاذ سے خوب بحث ہوئی، پھر جب اگلی ملاقات ہوئی تو امام شافعی نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ کیا یہ بات بہتر نہ ہوگی کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی ہمارے درمیان اتفاق پیدا نہ ہوسکے: ألا یستقیم أن نکون إخواناً وإن لم نتفق فی مسألة‘‘- (سیر أعلام النبلاء:
اِس طرح کے واقعات کا مطلب صرف باہمی احترام (mutual respect) نہیں ہے، بلکہ اِن واقعات میں ایک اور زیادہ بڑا پہلو ہے اور وہ ہے اختلافِ رائے (difference of opinion) کا احترام- دوسرے الفاظ میں یہ کہ اختلاف ِ رائے کو علمی پہلو سے دیکھنا، نہ کہ شخصی پہلو سے-
اختلافِ رائے کا احترام کوئی سادہ بات نہیں، اس کا براہِ راست تعلق ذہنی ارتقا سے ہے- جس ماحول میں اختلافِ رائے کو برا نہ سمجھا جائے، وہاں لازماً ڈسکشن کا ماحول ہوگا- لوگ علمی دلائل کے ذریعے اپنا اپنا نقطہ نظربیان کریں گے- جہاں اختلافِ رائے کو برا سمجھنے کے بجائے اختلافِ رائے کا احترام پایا جاتا ہو، وہاں ذہنی جمود نہ ہوگا، بلکہ ایسے ماحول میں ذہنی ارتقا کا عمل جاری رہے گا اور ذہنی ارتقا بلاشبہہ کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے-
واپس اوپر جائیں
انسانی تاریخ(human history)، اپنے آغاز سے لے کر اپنے انجام تک، ایک بامعنی تسلسل (meaningful continuation) ہے- انسانی تاریخ آدم اور حوا کی تخلیق سے شروع ہوئی-آخر میں یہ ہوگاکہ پوری تاریخ میں بکھرے ہوئے منتخب افراد (selected persons)کو یکجا کرکے جنت کی پرامن کالونیوں میں بسا دیا جائے گا، جہاں وہ ہر قسم کے خوف اور اندیشے سے محفوظ ہو کر زندگی گزاریں گے اور کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے-
عام طورپر لوگوں کی نظر میں تاریخ کی منفی تصویر ہے- اس کا سبب یہ ہے کہ وہ تاریخ کو اپنے خود ساختہ ماڈل کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، وہ تاریخ کو خالق کے نقشۂ تخلیق (creation plan) کی نسبت سے نہیں دیکھتے- لوگ تاریخ کو مبنی بر نظام ماڈل (system-based model)کے اعتبار سے دیکھتے ہیں، جب کہ خالق نے موجودہ دنیا کو افراد کے انتخابی مقام(selection ground)کے اعتبار سے بنایا ہے-
موجودہ دنیا میں ہر فرد حالتِ امتحان میں ہے- جو فرد امتحان میں پورا اترتا ہے، وہ خالق کی انتخابی فہرست میں آجاتا ہے- خالق کا تخلیقی منصوبہ مبنی بر فرد (individual-based) ہے، نہ کہ مبنی برمجموعہ (mass-based)- خالق کا نشانہ پورا مجموعۂ انسانی نہیں ہے، بلکہ وہ استثنائی افراد ہیں جو مختلف قسم کے امتحانی حالات سے گزرتے ہوئے اپنے آپ کو مطلوب ربانی انسان کی حیثیت سے تیار کریں- موجودہ دنیا میں انسانی سرگرمیاں اور خالق کا منصوبہ دونوں متوازی طورپر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں- خالق، انسان کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر، تاریخ کو اِس طرح مینج (manage)کررہا ہے کہ انسان کے لیے آزادیِ اختیار (freedom of choice) کا موقع پوری طرح باقی رہے اور اِسی کے ساتھ تاریخ میں ربانی تہذیب کا ڈیولپمنٹ بھی مسلسل طورپر جاری رہے-
اِس دو طرفہ عمل (two-fold process) میں بظاہر انسانی سرگرمیوں کے واقعات غالب نظر آتے ہیں- انسانی سرگرمیوں کا عمل بالائے سطح (surface) پر ہوتا ہے- اس کے مقابلے میں، خالق کے منصوبے کا عمل زیر ِ سطح (underneath) جاری رہتا ہے-انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے یہی صورت قابلِ عمل تھی، اِس لیے خالق نے اُس کو اختیار فرمایا-
اِس فرق کی بنا پر خالق کے منصوبے کو سمجھنے کے لیے گہری بصیرت درکار ہے- خالق کے منصوبے کو وہی لوگ دریافت کرسکتے ہیں جو انسانی تاریخ کو مجموعہ کی نسبت سے دیکھنے کے بجائے فرد کی نسبت سے دیکھیں، جو تاریخ کے بظاہر منفی جنگل میں چھپے ہوئے مثبت اجزا کو دریافت کرسکیں-
تاریخ کا مطالعہ خود اپنے ذہنی مفر وضات کی روشنی میں کیا جائے تو مطالعہ کرنے والے کو مایوسی اور کنفیوزن کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، لیکن اگر مطالعہ کرنے والا ایسا کرے کہ وہ خالق کے تخلیقی منصوبے کو اپنا رہنما بنا کر تاریخ کو دیکھے تو وہ پائے گا کہ تاریخ میں ایک با معنی منصوبہ (meaningful planning) موجود ہے- بظاہر مفسد (corrupt) بھیڑ کے درمیان افراد کی سطح پر مطلوب شخصیتیں اُسی طرح موجود ہیں جیسے خاردار جھاڑیوں کے درمیان جا بجا خوب صورت پھول-
اِسی دریافت کا نام معرفت ہے- اِسی معرفت کی بنیاد پر وہ کیرکٹر بنتے ہیں جو اللہ کے یہاں سچائی کی سیٹ (
واپس اوپر جائیں
ایک روایت اِن الفاظ میں آئی ہے: عن سہل بن سعد الساعدی، قال: أتى النبی صلى اللہ علیہ وسلم رجل، فقال، یا رسول اللہ دُلّنی على عمل إذا أنا عملتہ احبنی اللہ وأحبنی الناس؟ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ازہد فی الدنیا یحبک اللہ، وازہد فیما فی أیدی الناس یحبک الناس (ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4102) یعنی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا- اس نے کہا کہ اے خداکے رسول، مجھے ایک ایساعمل بتائے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو میں اللہ کا محبوب بن جاؤں اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کے معاملے میں تم زاہد بن جاؤ، اللہ تم سے محبت کرے گا- اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے، اس کے معاملے میں تم زاہد بن جاؤ تو لوگ تم سے محبت کریں گے-
اِس حدیثِ رسول میں ’زہد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے- زہد کا لفظی مطلب بے رغبتی (indifference) ہے، یعنی دلچسپی نہ رکھنا، بے تعلق ہوجانا- دنیا سے بے رغبتی کا مطلب دنیا کو عملاً چھوڑنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں رہے، لیکن قلبی تعلق کے اعتبار سے، وہ آخرت سے جڑا ہوا ہو- جس آدمی کے اندر زہد کی یہ صفت ہوگی، اس کے اندر فطری طور پر ایک نئی شخصیت پیدا ہوگی- اپنی سوچ اور اپنے قول وعمل کے اعتبار سے وہ عام دنیا داروں سے مختلف ہوجائے گا- اس کے اندر وہ اخلاقی اور روحانی اوصاف پیدا ہوں گے جو خدا پرستانہ زندگی کے اعتبار سے مطلوب ہیں-
جو آدمی لوگوں کے درمیان اِس طرح رہے کہ وہ اُن سے پانے کی امید رکھتا ہو، وہ لوگوں کی نظر میں حقیر بن جائے گا- لوگ ایسے آدمی کو عزت دیتےہیں جو اُن کو اپنے آپ سے اونچا دکھائی دے- حریص آدمی کبھی دوسروں سے اونچا نہیں ہوتا، اِس لیے وہ دوسروں کی نظر میں قابلِ عزت بھی نہیں ہوتا— بے غرضی کی روش آدمی کو لوگوں کے درمیان باعزت بناتی ہے اور خودغرضی کی روش آدمی کو دوسروںکی نگاہوں میں ذلیل کردیتی ہے-
واپس اوپر جائیں
دنیا بقدر ضرورت، دین بقدر ہمت — ایک عالم کا یہ قول کسی انسان کے لیے سب سے اچھا فارمولا ہے۔ ہر آدمی کی ایک ضرورت ہے، اور دوسرا اس کا مقصد ہے۔ ہر فرد اور گروہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کی پلاننگ اِس طرح کرے کہ دنیا کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو بقدر ضرورت پر قانع بنائے، اور اپنے مقصد کے معاملے میں وہ اپنی زیادہ سے زیادہ توانائی صرف کرے۔
یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔ ایک سچے انسان کے لیے سیاست یا سیاسی اقتدار کبھی زندگی کی منزل نہیں بن سکتا۔ اِس معاملے میں صرف ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ سیاسی اعتبار سے جو کچھ اُس کو عملاً ملا ہواہے، وہ اس پر راضی ہوجائے، اور غیر سیاسی دائرے میں وہ اپنے پورے حوصلے کے ساتھ اپنا حصہ ادا کرے۔دنیا کی دوسری چیزوں کی طرح سیاست کے معاملے میں بھی یہ ہوتا ہے کہ کسی کو کم ملتاہے اور کسی کو زیادہ۔ تاریخ میں جو لڑائیاں ہوئی ہیں، وہ اِس لیے ہوئیں کہ جن لوگوں کو سیاست میں کم حصہ ملا تھا، وہ اُن سے لڑ گئے جن کو بظاہر سیاست میں زیادہ حصہ ملا تھا۔ یہی تمام خرابیوںکی جڑ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دوسری مادی چیزوں میں قناعت مطلوب ہے، اُسی طرح سیاست کے معاملے میں بھی قناعت مطلوب ہے۔ سیاسی قناعت سے امن قائم ہوتاہے، اور سیاسی عدم قناعت سے جنگ اور ٹکراؤ۔ مزید یہ کہ سیاسی عدم قناعت کا نقصان مادی عدم قناعت سے بھی زیادہ ہے۔ مادی عدم قناعت کسی آدمی کو صرف اپنی ذات کے اعتبار سے غیر مطمئن بناتی ہے، مگر سیاسی عدم قناعت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا سماج مہلک بے اطمینانی میں مبتلا ہوجاتاہے۔ مادی عدم قناعت اگر صرف ذاتی نادانی ہے تو سیاسی عدم قناعت ایک قومی نادانی۔
قناعت کا اصول ایک بے حد حکیمانہ اصول ہے- اس کی ضرورت جس طرح ذاتی معاملات میں ہے، اُسی طرح بلکہ مزید شدت کے ساتھ اس کی اہمیت اجتماعی اور سیاسی معاملات میں بھی ہے- قناعت ایک حکمت کی بات ہے، معروف معنوں میں وہ کوئی درویشی کی بات نہیں-
واپس اوپر جائیں
یوپی کے ایک مسلمان دہلی میں آکر آباد ہوئے- انھوںنے پراپرٹی کا بزنس کیا- انھوں نے اِس بزنس میں کافی دولت کمائی- مگر اُن کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی- ایک بار ان کی ماں دہلی آئیں- انھوں نے دیکھا کہ ان کا بیٹا دہلی میں ایک بڑے گھر میں رہتا ہے- دنیا کی ہر چیز اس کے پاس ہے، مگر شادی کو کافی عرصہ گزرنے کے باوجود اُن کے یہاں اولاد نہیں ہوئی-اُن کی ماں اِس بات پر کافی پریشان ہوئیں- وہ اکثر کہتی تھیں کہ — ہائے میرے بیٹے کی دولت کون لے گا-
اِس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ (
اولاد کے بارے میں اِسی تصور کی بنا پر لوگوں کے لیے اولاد ایک فتنہ بن جاتی ہے- اِس تصور کے تحت جو ذہن بنتا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی موت کی سنگینی سے غافل ہوجاتا ہے- موت کے بعد کے احوال پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں سوچتا- شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ موت اور موت کے بعد کی حقیقتوں کے معاملے سے بے خبر ہوجاتا ہے-
اولاد کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اُس کے ذریعے نسلِ انسانی کا بقا وتسلسل جاری رہتا ہے- جہاں تک دولت کی بات ہے، وہ باپ کے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے اور بیٹےکے لیے بھی امتحان کا ایک پرچہ- دولت کو اگر اِس ذہن کے تحت دیکھا جائے تو دولت کبھی مسئلہ نہ بنے- کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے بہترین تحفہ یہ ہے کہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعے اس کو اچھا انسان بنائے-اِسی حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ما نَحَلَ والد ولدَہ من نُحل أفضل من أدب حسن- (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 1952)
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو ذر غفاری کی ایک روایت کے مطابق، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر الدجال أخوف علی أمتی (مسند احمد: 145/5) یعنی میں اپنی امت پر دجال سے بھی زیادہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، وہ کیا چیز ہے جس سے آپ اپنی امت کے اوپر دجال سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ گمراہ کرنے والے لیڈر (الأئمۃ المضلین)۔
اِس حدیث میںدجال کا حوالہ بتاتا ہے کہ یہ گمراہ کرنے والے رہنما دجال کے زمانے میں ظاہر ہوں گے- مزید غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس سے مراد جدید میڈیا اور جدید کمیونکیشن کا زمانہ ہے- اِن ذرائع کی بنا پر یہ ممکن ہوجائے گا کہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایڈریس کیا جائے اور اِس طرح غلط رہنمائی (mislead) کرکے اُن کو بھٹکا دیا جائے- موجودہ زمانے میں اپوزیشن کی سیاست (politics of opposition) اِسی کی ایک مثال ہے-اِس سیاست کی سب سے زیادہ تباہ کن صورت وہ ہے جس کو اینٹی انکمبنسی فیکٹر (anti-incumbency factor) کو استعمال کرنا کہا جاتا ہے، یعنی حکمرانوں کے خلاف شکایتوں کو لے کر جذباتی تحریکیں چلانا اور اِس طرح عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کردینا- سیکولر جماعتوں کی کامیابی کا راز بھی یہی منفی سیاست ہے اور نام نہاد اسلامی جماعتوں کی کامیابی کا راز بھی یہی منفی سیاست-
موجودہ زمانے کے سیاست پسندرہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ اسلامی جماعت کے نام پر ایک پارٹی بنائیں گے اور پھر حکمرانوں کی کمیوں کو تلاش کرکے وہ اُن کے خلاف دھواں دھار تحریکیں چلائیں گے- اِس کے بعد جب وہ بظاہر سیاسی کامیابی حاصل کرلیں گے تو وہ کہیں گے کہ اسلام جیت گیا، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک اسلامی سیاست کی جیت ہوتی ہے، نہ کہ اسلام کی جیت-یہ کامیابی عوامی جذبات کے استحصال(exploitation)کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، نہ کہ حقیقتاً دین خداوندی کے احیا کی بنیاد پر-
واپس اوپر جائیں
دورِ اوّل میںجو لوگ اسلام میں داخل ہوئے، اُن کے لیے اسلام ایک ذاتی دریافت (discovery) تھا۔ وہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت میں جینے والے لوگ تھے۔ تقریباً سو سال کے بعد مسلمانوں کی یہ پہلی نسل ختم ہوگئی۔ اِس کے بعد نسلی مسلمانوں کا دَور آیا۔
اِس دور کے لوگوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اُس میںاہلِ اسلام کو سیاسی دبدبہ حاصل ہوچکا تھا۔پہلے دور میں اگر اسلام دریافتِ خداوندی کے ہم معنیٰ تھا تو دوسرے دور میں اسلام ایک پولٹکل ایمپائر کے ہم معنیٰ بن چکا تھا۔یہ دوسرا دور قریب ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس ہزار سال کے اندر مسلم فکر کا جو ارتقا ہوا، وہ خلافت کے نام پر سیاسی عظمت (political glory)پر مبنی تھا۔ اب مسلمانوں کے تمام ادارے، مسلم نسلوں کو فخر اور عظمت کا سبق دینے لگے۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بر تر سمجھنے لگے۔ بعد کی مسلم نسلوں میں، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ ذہن بن گیا کہ ہم ہر اعتبار سے دوسری قوموں سے افضل ہیں، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
مگر اٹھارھویں صدی عیسوی میں ایک نیا انقلاب آیا۔ قانونِ فطرت کے تحت، اب مسلم ایمپائر ٹوٹنے لگا۔ مسلمان زندگی کے ہر میدان میں دوسروں سے پیچھے جانے لگے۔ اب مغربی قوموں نے سیاسی اور تہذیبی برتری کا درجہ حاصل کرلیا۔ اچانک مسلمانوں کے ساتھ یہ فکری حادثہ پیش آیا کہ جس دنیا میں وہ دوسروں کے مقابلے میں برتری کے احساس میں جی رہے تھے، وہاں وہ مجبور ہوگیے کہ دوسروں کے مقابلے میں کم تری کے احساس میں زندگی گزاریں۔بیسویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں یہ صورتِ حال پوری طرح واضح ہوگئی۔ اُس وقت مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مصلحین (reformers) پیدا ہوئے، مگر اِس نیے مرحلے میںہمارے رہنماؤں سے یہ بھیانک غلطی ہوئی کہ وہ ردّعمل کی نفسیا ت کے ساتھ اُبھرے۔ میرے علم کے مطابق، اِس دَور کاکوئی ایک بھی مسلم رہنما ایسا نہیںہے جو ردّ عمل کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملے کو سمجھے اور خالص مثبت انداز میں مسلمانوں کو فکری رہنمائی دے۔
حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی ٔاقتدار کا یہ معاملہ، فطرت کے ایک قانون (
ایسے وقت میں مسلم رہنماؤں کو صرف ایک کام کرنا تھا، وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کے اندر خود احتسابی (introspection)کا مزاج پیدا کریں۔ وہ مسلمانوں کو اصلاح اور تعمیر اور استحکام کے داخلی کاموںمیں لگائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید تعلیم میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید سائنس اور جدید صنعت اور تجارت کے میدان میں ترقی کرنے کا سبق دیں۔ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ سیاسی اقتدار کے باہر سیکڑوں قیمتی مواقع (opportunities)ہیں جو اُن کے لیے پوری طرح کھُلے ہوئے ہیں، اِس لیے انھیں چاہیے کہ وہ سیاسی ٹکراؤ کا راستہ چھوڑ کر پُرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ ماضی کو بھُلا کر مستقبل کی نئی تعمیر کو اپنا نشانہ بنائیں۔
اِس دَور کے مسلم رہنماؤں کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کو تعمیری رہنمائی دیں، یعنی پُرامن طورپر داخلی تعمیر واستحکام کا راستہ بتانا۔ مگر ہر ایک نے مسئلے کو صرف ایک خارجی مسئلہسمجھا۔ ہر ایک نے مسلمانوں سے کہا کہ دوسرے لوگ ظالم اور غاصب ہیں تم اُن سے لڑ کر اپنے لیے زندگی کا حق حاصل کرو، یعنی انھوں نے تعمیری رہنمائی کے بجائے، عسکری رہنمائی دی۔ اِس معاملے میں عرب لوگوں کو اپنے موجودہ مزاج کے تحت صرف ایک ماڈل نظر آیا، اور وہ صلاح الدین ایوبی (وفات: 1193 ) کا ماڈل تھا۔ چناں چہ عرب ذہن کی نمائندگی کرتے ہوئے عرب شاعرالزرکلی نے کہا:
ہاتِ صلاح الدین، ثانیۃً فینا جدّدی حطّین، أوشبہ حطّینا
صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے پاس لاؤ، اور حطین کا معرکہ یا حطین جیسا معرکہ دوبارہ گرم کرو۔
امیر شکیب ارسلان (وفات: 1946 ) نے اپنی مشہور کتاب : لماذا تأخّر المسلمون وتقدّم غیرھم (1938) میں مسلمانوں کو دوبارہ عسکری معرکہ آرائی پر ابھارا ہے اور عسکری اقدام کو کامیابی کا راز بتایا ہے۔ اِس سلسلے میں انھوں نے حسب ذیل شعر نقل کیا ہے:
تأخّرتُ أستبقی الحیاۃَ، فلم أجد لنفسی حیاۃً، مثل أن أتقدّما
میں زندہ رہنے کے لیے (میدانِ جنگ) سے پیچھے رہا، لیکن میں نے اپنے لیے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لیے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے دورِ جدید کے مسلم ذہن کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ عسکریت (militancy)کی تصویر ہے۔ اِس سلسلے میں رام موہن گاندھی نے اقبال کا یہ مصرعہ نقل کیا ہے:
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اِس مصرعے کا انگریزی ترجمہ انھوںنے حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
For every vein of falsehood, every Muslim was a knife.
اِس دور کے تمام مسلم رہنما ردّ ِ عمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے تھے، اِس لیے وہ صرف منفی رُخ پر سوچتے رہے۔ انھوں نے انتہائی غیر دانش مندانہ طورپر یہ کیا کہ غیر مسلم قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر، مسلمانوں کو اُن سے متنفّر کردیا۔ مسلمان اِس قابل نہ رہے کہ وہ نئی ابھرتی ہوئی قوموں کے بارے میں مثبت رائے قائم کریں، وہ اُن سے نئی حقیقتوں کو سیکھیں۔
اِس نئی صورت حال کے پیش آنے کے بعد، اصل ضرورت یہ تھی کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ غیرمسلم اقوام کا کیس اُن کے خلاف دشمنی کا کیس نہیں، بلکہ وہ اُ ن کے لیے چیلنج کا کیس ہے۔ فطرت کے عمومی قانون کے تحت، اِن قوموں نے مسلمانوں کو چیلنج دیا ہے، اور اب مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ مثبت ذہن کے ساتھ اِس کا سامنا کریں۔ وہ پورے معاملے پر نظر ثانی کرکے نئی منصوبہ بندی کے تحت دنیا میں دوبارہ اپنا مقام بنائیں۔ یہی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی تھی، مگر منفی نفسیات میں مبتلا رہنما مسلمانوں کو یہ صحت مند رہنمائی دے سکے اور پوری مسلم دنیا منفی سوچ اور غصہ اور نفرت میں مبتلا ہو کر رہ گئی۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں پوری مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مسلم رہنما پیدا ہوئے، مگر اِن تمام مسلم رہنماؤں کا کیس مشترک طورپر وہی تھا جو اوپر بیان ہوا۔ عرب دنیا میں اِس زمانے میں سیدجمال الدین افغانی، سید قطب، امیر شکیب ارسلان، وغیرہ نے یہی کام کیا۔
میرے علم کے مطابق، رہنماؤں کی لمبی فہرست میں کوئی بھی اِس معاملے میں استثنا (exception)کی مثال نہیں۔ یہ منفی رہنمائی مسلمانوں کو جہاد کے نام پر تشدد تک لے گئی، اور جب مسلمان دوسروں کو ہلاک کرنے پر قادر نہ ہوسکے تو انھوں نے خود کُش بم باری (suicide bombing) کے ذریعے خود اپنے آپ کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔
اِس صورت حال کا ایک انوکھا ظاہرہ وہ ہے جس کو میں نظر یاتی خود فریبی سے تعبیر کروں گا۔ موجودہ زمانے میں آپ کو بہت سے مسلمان ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم کو سید قطب کی تحریروں اور ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور احمد دیدات کے کیسیٹس کے ذریعے نیا ایمان حاصل ہوا ہے۔ اِن حضرات کے افکار سے ہم کو دوبارہ اسلام ملا ہے، ورنہ ہم اسلام سے دور چلے گیے تھے۔
میںنے اِن حضرات کے کیس پر بہت غور کیا۔ میرے نزدیک یہ مسلم رہنما منفی خوراک دیتے ہیں، نہ کہ مثبت خوراک۔ پھر کیسے ایسا ہوا کہ اُن کی باتوں سے کچھ لوگوں کو مثبت اسلام مل گیا۔ اِس قسم کے بہت سے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ گہرے جائزے کے بعد آخری طورپر جوبات میری سمجھ میں آئی، وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو چیز ملی ہے، وہ قومی اسلام ہے نہ کہ حقیقی اسلام۔ بیسویں صدی میں بہت سے مسلمان، خاص طورپر مسلم نوجوان، اِس احساس میں جی رہے تھے کہ دوسری قوموں نے اُن کا قومی فخر اُن سے چھین لیا ہے۔ مسلّح جہاد کے باوجود وہ اپنے اِس قومی فخر کو دوبارہ حاصل نہ کرسکے۔
اِس دوران میں یہ ہوا کہ کچھ ایسے لوگ نکلے جوالفاظ کی دنیا میں ان کے جذباتِ فخر کی تسکین فراہم کررہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ مغرب کی سائنسی ترقی مسلم دماغوں کی خوشہ چینی کے ذریعے ہوئی ہے۔ کسی نے مسلمانوں کی سیاسی فتوحات پر کتابیں لکھ کر اُن کو ماضی کی عظمت دوبارہ یاد دلائی۔ کسی نے بتایا کہ اسلام کا نظام دنیا کے تمام نظاموں سے زیادہ اعلیٰ اور برتر(superior) ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب ایک ایسا درخت ہے جو صرف زہریلے پھل دے سکتا ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب اپنی موت آپ مررہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو دوبارہ ان کا بلند مقام حاصل ہوجائے۔ کسی نے بتایا کہ دنیا کا اسٹیج مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance)کا انتظار کررہا ہے:
اُٹھ، کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
موجودہ زمانے میں شاعروں اور خطیبوں اور انشا پردازوں کے علاوہ، ایک اور طبقہ پیداہوا جس کو مسلم ڈبیٹر (مُناظر) کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے شان دار اسٹیج بنائے اور وہاں پُرجوش تقریریں کیں۔ انھوںنے ٹی وی کے اسکرین پر مناظرانہ مظاہرے کیے۔ انھوں نے مسلم نفسیات کو یہ کہہ کر فرضی فتوحات کی خوراک دی کہ — اِن سب کو بُل ڈوز کردو:
Bulldoze them all.
یہ مسلم ڈبیٹر اِس آخری حد تک گیے کہ جب مسلمانوں کو ٹررسٹ (terrorist)کہاگیا تو انھوںنے کہا کہ ہاں، ہم ٹررسٹ ہیں۔ مگر ہم پولس کی طرح مجرمین کے لیے ٹررسٹ ہیں:
Every Muslim should be a terrorist. A terrorist is a person who causes terror. The moment a robber sees a policeman, he is terrified. A policeman is a terrorist for the robber. Similarly, every Muslim should be a terrorist for the anti-social elements of society, such as thieves, dacoits and rapists.
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو قطب اور اقبال اور مودودی اور احمد دیدات کے ذریعے اسلام ملا، وہ دراصل ایک شدید قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔وہ قومی اسلام کو ربّانی اسلام کا درجہ دے رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوںنے اِن حضرات کے ذریعے اپنے قومی فخر کو دوبارہ حاصل کرلیا، مگر غلط فہمی کی بنا پر انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ اُن کو حقیقی اسلام حاصل ہوگیا ہے۔
اِسی قسم کے ایک مسلمان سے2007 میں میری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ اُن کے والدین شام سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر وہ شام کو چھوڑ کر ترکی گئے۔ پھر ترکی سے وہ آسٹریلیا منتقل ہوگیے۔ اِس وقت یہ فیملی آسٹریلیا میںرہ رہی ہے۔ مسٹر مرادکی تعلیم آسٹریلیا کے اسکول اور کالج میں ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ یہ اسکول ایک کرسچن اسکول تھا۔ وہاں انھیں بتایا جاتا تھا کہ عیسائیت (Christianity)زیادہ اچھا مذہب ہے، اور اسلام اُس کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔
وہ اسلام کی اِس منفی تصویر سے سخت پریشان تھے۔ پھر انھیں احمد دیدات جیسے لوگوں کو سننے کا موقع ملا۔ اِس سے اُن کے ذہن میں اسلام کی عظمت (glory)دوربارہ لوٹ آئی۔ وہ اسلام کو اپنے لیے فخر کی ایک چیز سمجھنے لگے۔ پھر اسی مجلس میںانھوں نے بتایاکہ میں تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ گیا تھا۔ مجھے تاج محل دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں نے سوچا کہ تاج محل کو بنانے والے مسلمان تھے، مگر آج ہندو لوگ اُس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کی اِس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو احمد دیدات جیسے لوگوں کے ذریعے جو اسلام ملا ہے، وہ اسلام نہیں ہے، بلکہ صرف قومی فخر ہے۔ اگر آپ کو حقیقی اسلام ملا ہوتا تو آپ تاج محل کے بارے میں اِس قسم کی منفی بات نہ کہتے۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کو انڈیا میں صرف تاج محل دکھائی دیا۔ انڈیا میںاس کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ بڑی چیز موجو ہے، اور وہ دعوتی عمل کی آزادی ہے۔ تاج محل کو لے کر آپ کا ذہن منفی سوچ کا شکار ہوگیا، حالاں کہ اگر آپ انڈیا میں موجود دعوتی مواقع کو لے کر سوچتے تو آپ کا دل شکر کے جذبات سے بھر جاتا۔
میرے تجربے کے مطابق، یہی اُن تمام لوگوں کا معاملہ ہے جو شاعروں اور مُناظروں کی باتوں کو سُن کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوںنے اسلام کو پالیا ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو انھوںنے دریافت کیاہے، وہ اسلام کے نام پر محض فخر (pride)ہے۔ اور فخر صرف ایک مذموم چیز ہے، نہ کہ کوئی پسندیدہ چیز۔کسی آدمی نے حقیقی اسلام کو پایا ہے یا نہیں، اُس کا معیار صرف ایک ہے، اور وہ فکرِآخرت ہے۔ جس آدمی کا اسلام اُس کے اندر گہرے طورپر آخرت کی فکر پیدا کردے، اُسی نے فی الحقیقت اسلام کو پایا۔ جس آدمی کا اسلام اُس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نہ دکھائے، اُس نے اسلام کو پایا ہی نہیں۔اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلام کو پالیا ہے۔
اسلام کا آغاز، خدا کی معرفت سے ہوتا ہے۔ خداکی معرفت ایک ایسی بالا تر ہستی کی معرفت ہے جو انسان کا خالق ہے، جو انسان کا مالک ہے، جس نے انسان کو زندگی کے تمام سامان دیے ہیں۔ جب انسان خدا کو دریافت کرتاہے تو اُسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ انسان کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ خدا کا یہ تخلیقی نقشہ اُس کو بتاتا ہے کہ دنیا میں جو سامانِ حیات اُس کو ملے ہوئے ہیں، وہ سب کے سب امتحان کے پرچے ہیں۔ یہ چیزیں اُس کو حق کے طورپر نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ اِس لیے ملی ہیں کہ اُن کے ذریعے انسان کو جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ جہنم کی سزا کے قابل ہے، یا جنت کے انعام کے قابل۔
یہ دریافت اُس کو آخری حد تک تڑپا دیتی ہے۔ دنیا کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ہروقت اُس کو قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے : ثمّ لتسئلن یومئذ عن النّعیم(
یہ احساس اُس کو آخری حد تک فرض شناس (duty conscious) بنا دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ذہن بنتا ہے جس میں دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی ذمّے داریوں کو سوچتا ہے، نہ کہ دوسروں کی کوتاہیوں کو۔ اُس کی نظر ہمیشہ اپنی غلطیوں پر ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کی زیادتیوں پر۔ اُس کا دل دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ آل عمران میں ایک اصول اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إن تصبروا وتتّقوا لایضرّکم کیدہم شیئاً (
قرآن کی یہ آیت فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں سازش کا ہونا، اصل مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کا نہ ہوناہے۔ جن لوگوں کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہو، اُن کے لیے دوسروں کی سازش اور دشمنی غیر موثر ہو کر رہ جائے گی، وہ اُن کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچاسکے گی۔
صبر کوئی انفعالی صفت نہیں۔ صبر کا مطلب وہ اعلیٰ انسانی صفت ہے جس کو سیلف کنٹرول (self control) کہاجاتا ہے، یعنی دوسروں کے پیدا کردہ مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور خود اپنی مثبت سوچ کے تحت اپنی زندگی کا منصوبہ بنانا۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی سوچ خود رُخی سوچ (self-oriented thinking) نہ ہو، بلکہ وہ خدا رُخی سوچ(God-oriented thinking) ہو۔ سماج کے اندر اُس کا سلوک خدا کی تعلیمات کے مطابق ہو، نہ کہ اپنی خواہشات اور جذبات کے مطابق۔ جو لوگ صبر اور تقویٰ کی اِس روش کو اختیار کریں، اُن کے خلاف دوسروں کی منفی کارروائیاں اپنے آپ بے اثر ہوجائیں گی۔ کیوں کہ اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی غیر مطلوب واقعہ ہمیشہ دو طرفہ کارروائی کے نتیجے میں پیش آتا ہے، نہ کہ صرف یک طرفہ کارروائی کے نتیجے میں۔
یہ فطرت کا ایک قانون ہے کہ کوئی شخص یا گروہ معتدل ذہن کے تحت کسی کے خلاف کوئی مخالفانہ کارروائی نہیں کرتا۔ ایک شخص یا گروہ کسی دوسرے کے خلاف کوئی منفی کارروائی صرف اُس وقت کرتاہے، جب کہ اُس کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ ہر منفی کارروائی کسی اشتعال انگیز کارروائی کے نتیجے میں جوابی طورپر پیش آتی ہے۔ صبر اور تقوی آدمی کو اِس سے روکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف اشتعال انگیز کارروائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صبر اور تقویٰ کسی شخص یا گروہ کے لیے حفاظت کا یقینی ذریعہ ہے۔ ایسا شخص یا گروہ کسی بھی حال میں دوسرے کو مشتعل کرنے والا کام نہیں کرے گا، اِس لیے فطری طور پر وہ دوسرے کی طرف سے پیش آنے والی جوابی کارروائی سے بھی محفوظ رہے گا۔
یہ فطرت کا قانون ہے جس کو خود خالقِ فطرت نے مقرر کیا ہے۔ ایسی حالت میں سازش کے خلاف چیخ و پکار کرنا ایک بے فائدہ کام ہے۔ کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ خود اپنے آپ کو داخلی طورپر مستحکم بنایا جائے، خود اپنے اندر زیادہ سے زیادہ صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ پیدا کی جائے۔ اِس کے بعد شکایت کے اسباب اِس طرح ختم ہوجائیں گے، جیسے کہ وہ تھے ہی نہیں۔
خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کے مطابق، زندگی میں ہمیشہ دو مختلف قسم کی چیزیں موجود رہتی ہیں— مسائل (problems) اور مواقع(opportunities) ۔ جس طرح زندگی میں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں، اسی طرح زندگی میں ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دانش مندی کا طریقہ، اسلام کے مطابق، یہ ہے کہ — مسائل کو نظر انداز کیا جائے اور مواقع کو استعمال کیا جائے۔ مسائل سے الجھنا، صرف اُس وقت کو ضائع کرنا ہے جو اِس دنیا میں ہم کو زندگی کی مثبت تعمیر کے لیے ملا ہوا ہے۔ یہی دانش مندی ہے اور یہی اسلام کا طریقہ بھی۔
واپس اوپر جائیں
رسول اور اصحابِ رسول کو حکم دیتے ہوئے قرآن میں کہاگیا تھا: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (
قرآن کی اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے، جو کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں قائم تھا- یہ نظامِ جبر خداکے تخلیقی نقشے کے خلاف تھا، اِس لیے حکم دیاگیا کہ اس کو ختم کردو، خواہ اِس کے لیے تم کو جنگ کرنی پڑے، تاکہ دنیا میں مذہبی آزادی کا دور پیدا ہو اور انسان اللہ کے حکم پر چلنے کے لیے پوری طرح آزاد ہوجائے-
یہ ایک دور کو بدلنے کا حکم تھا، اور کسی دور کی تبدیلی اچانک نہیں ہوتی، بلکہ وہ لمبے تاریخی عمل (historical process) کے ذریعے ہوتی ہے- رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے انسانی تاریخ میں یہ عمل جاری ہوا- مختلف حالات کے دوران وہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ یورپ کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد وہ اپنی تکمیل تک پہنچا- سیاسی نظام میں سیکولرزم کااصول اِسی انقلاب کا نتیجہ ہے-
سیکولرزم کوئی اینٹی مذہب (anti-religion) نظریہ نہیں ہے- سیکولرازم کا مطلب صرف یہ ہے کہ سیاسی اقتدار، مذہب کے معاملے میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی اختیار کرے- مصلحین کی مسلسل کوشش کے نتیجے میں آج سیکولرازم کا یہ سیاسی نظریہ انٹرنیشنل سطح پر ایک مسلّمہ اصول (accepted norm) بن چکا ہے- اس کو اقوامِ متحدہ (United Nations) کا سینکشن (sanction) حاصل ہے- اصولی طور پر دنیا کی تمام حکومتیں اِس پالیسی کو اختیار کرچکی ہیں-
سیکولرزم کے اِس جدید نظریے نے تاریخ میں پہلی بار مذہبی جبر کا خاتمہ کردیا ہے- آج ہرانسان کا یہ ایک مسلمہ حق ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے، اختیار کرے اور جس مذہب پر چاہے، عمل کرے اور جس مذہب کی چاہے، تبلیغ کرے- اِس حق (right) کو استعمال کرنے کی صرف ایک شرط ہے، وہ یہ کہ انسان جو کچھ کرے، اس کو وہ پرامن طور پر کرے، کسی بھی حال میں وہ تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے-
موجودہ زمانے میں بار بار میڈیا میں اِس قسم کی خبریں آتی ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں ملک میں اسلام پسند جماعتوں پر تشدد کیا گیا- مثلاً الاخوان المسلمون کے لیڈر سید قطب کو 1965 میں پھانسی دی گئی- جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلی مودودی کو 1948 میں جیل کی سزا دی گئی، مگر اس قسم کے تمام واقعات سیاسی بنیاد پر ہوئے، نہ کہ حقیقةً مذہبی بنیاد پر- اِس قسم کے تمام لوگوں کو جو سزائیں دی جارہی ہیں، وہ دراصل سیاسی سزائیں ہیں، نہ کہ مذہبی سزائیں-
اصل حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کچھ اسلام پسند لیڈر اٹھے- انھوں نے خود ساختہ طورپر یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے جو اپنے قیام کے لیے لازماً حکومت چاہتا ہے- ہمارا یہ مذہبی فرض ہے کہ ہم اقتدار پر قابض حکمرانوں سے لڑ کر ان سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں اور اسلام پسند افراد کو حکومت کرنے کا موقع دیں- اِس سیاسی نظریے کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام پسند جماعتوں اور ارباب ِ اقتدار کے درمیان ٹکراؤ ہوگیا- اربابِ اقتدار نے اسلام پسند جماعتوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں- اربابِ اقتدار کی طرف سے یہ کارروائیاں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے تھیں، نہ کہ اسلام یا مذہب اسلام کو مٹانے کے لیے-
موجودہ زمانے کے نام نہاد اسلام پسندوں پر صحابی رسول عبد اللہ بن عمر کے وہ الفاظ صادق آتے ہیں جو انھوں نے اپنے زمانے میں اس قسم کے لوگوں کے بارے میں کہے تھے، یعنی اللہ نے تاریخ میں انقلاب برپا کرکے ایسے حالات پیداکردئے تھے کہ اہلِ اسلام کو اربابِ اقتدار کی مداخلت کا اندیشہ باقی نہ رہے- اہلِ اسلام مذہب کی حقیقی تعلیمات پر کسی روک ٹوک کے بغیر آزادی کے ساتھ عمل کرسکیں- مگر اہلِ اسلام نے خود ساختہ طورپر اسلام کی سیاسی تعبیر کی- وہ اربابِ اقتدار کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مذہبی تشدد دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا-
واپس اوپر جائیں
اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے، مسلمان داعی ہیں اور دوسری تمام اقوام اُن کی مدعو، یعنی مسلمان خدا کے امین ہیں اور اُن کی یہ ذمّے داری ہے کہ وہ اِس امانت کو تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اِسی فرض کی ادائیگی میںاُن کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی نازک خدائی ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ مسلمان اپنی اِس ذمے داری کو صرف اُس وقت ادا کرسکتے ہیں، جب کہ وہ اِس ذمے داری کے تقاضوں کو سمجھیں اور اُس کو اپنی زندگی میں بھر پور طور پر استعمال کریں۔ داعی کی ذمّے داری صرف داعیانہ کردار کے ساتھ ادا کی جاسکتی ہے، داعیانہ کردا ر کے بغیر دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا اُسی طرح ناممکن ہے جس طرح کسی عورت کے لیے مادرانہ شفقت کے بغیر ماں کی ذمّے داری کو ادا کرنا۔
قرآن کے الفاظ میں، دعوت کا آغازنُصح (
موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے، اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے ناخوش گوار تجربات ہوتے رہتے ہیں، ایک کی کوئی بات دوسرے کے لیے اشتعال انگیزی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، اور فطرت کے نظام کو بدلنا ہرگز کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں، داعی کے اندر اپنے مدعو کے لیے یک طرفہ خیر خواہی کا جذبہ صرف اُس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب کہ وہ یک طرفہ اخلاقیات کے اصول پر قائم ہو۔ لوگوں کے ساتھ اُس کی روش دوسروں کے عمل کے زیر اثر نہ بنے، بلکہ وہ اُس کے اپنے سوچے سمجھے اصول کے تحت بنی ہو۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
مسلمان داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس اعتبار سے، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں۔ داعیانہ شریعت میں، شکایت اور احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیوں کہ مسلمان جس قوم کے خلاف شکایت اور احتجاج کی تحریک چلائیں گے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک مدعو قوم ہوگی۔
مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مدعو قوم کے ساتھ حریف قوم جیسا معاملہ کریں۔ مسلمانوں کوہر حال میں اور ہر قوم کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق کو برقرار رکھنا ہے۔ کیوں کہ معتدل تعلقات کے ماحول ہی میں دعوت الی اللہ کا کام ہوسکتا ہے۔ جہاں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا کام انجام دینا ممکن ہی نہیں۔
قرآن کی سورہ الاحزاب میںایک حکم اِن الفاظ میںآیا ہے: دَعْ أذاہم وتوکّل علی اللہ (
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ مگر جوچیز ختم ہوئی، وہ نبوت ہے، نہ کہ کارِ نوبت۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اب کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبرکے دعوتی مشن کی بات ہے، وہ ہمیشہ اور ہر قوم کے درمیان جاری رہے گا۔ پیغمبر کے دعوتی مشن میں، بقدر استطاعت، اپنا حصہ ادا کرے۔ یہ دعوتی عمل ہر فردِ مسلم کے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو لوگ اِس فرض کو ادا نہ کریں، اُن کے لیے سخت اندیشہ ہے کہ خدا کے نزدیک، وہ پیغمبر کے امتی ہونے کا حق اپنے لیے کھو دیں۔
واپس اوپر جائیں
دنیا کا نظام اِس طرح بناہے کہ یہاں ہمیشہ ایک کو دوسرے سے اختلاف پیش آتا ہے۔ یہ اختلاف مبنی بر فطرت ہے۔ اِس لیے اُس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں، کامیاب زندگی کا اصول صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگوں کے ساتھ ایڈجسٹ (adjust) کرکے زندگی گزاری جائے۔ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہمی مفاد(mutual interest) کی بنیاد پر زندگی کا نظام قائم کیا جائے۔ اِس دنیا میں اِس کے سوا، کوئی انتخاب (option) کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس معاملے میں، مسلمانوں کا معاملہ دوسروں سے الگ نہیں ہے، البتہ مسلمان کو اِس معاملے میں ایک امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ دوسروں کے لیے یہ ایڈجسٹ مینٹ (adjustment) صرف مفاد (interest) کا ایک معاملہ ہے، مگر مسلمان کے لیے یہ معاملہ ایک اعلیٰ عبادت کا معاملہ بن جاتا ہے۔اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک اصول کے تحت ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف دنیوی مفاد کے تحت پیش آتا ہے۔
مسلمان اپنی حیثیت کے اعتبار سے، ایک خدائی مشن کے حامل ہیں، یعنی خدا کے ابدی پیغام کو دوسرے تمام انسانوں تک پہنچانا۔پیغام رسانی کا یہ کام صرف اُس وقت درست طورپر انجام پاسکتا ہے، جب کہ مسلمانوں اور غیر مسلم قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں۔ مسلمان جب دوسری قوموں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے تو اُس کا محرّک (incentive) اُس کا یہی دعوتی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفاد کے لیے ایڈجسٹ مینٹ نہیں کرتا، بلکہ وہ صرف اِس لیے ایڈجسٹ مینٹ کرتا ہے، تاکہ اُس کا دعوتی مشن کسی رکاوٹ کے بغیر (peaceful) پُر امن انداز میں جاری رہے۔
محرک کا یہ فرق بہت اہم ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ مسلمان کا ایڈجسٹ مینٹ ایک ایسا عبادتی عمل بن جاتا ہے جو اُس کو آخرت میںاجر عظیم کا مستحق بنادے۔ اِس کے برعکس، دوسروں کا ایڈجسٹ مینٹ صرف ذاتی مفاد کی بنیاد پر ہوتا ہے، اِس سے زیادہ اُس کی کوئی اور حیثیت نہیں۔
مذکورہ قسم کا ایڈجسٹ مینٹ موجودہ دنیا کا ایک لازمی قانون ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص یا گروہ کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر اصولی بنیاد پر ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُن کو مفاد کی بنیاد پر لازماًایڈ جسٹ مینٹ کا معاملہ کرنا ہوگا۔ مگر ایسی صورت میں ان کا ایڈجسٹ مینٹ عبادت کا عمل نہ ہوگا، بلکہ وہ صرف موقع پرستی (expediency) کا ایک معاملہ ہوگا، یعنی وہی چیز جس کو شریعت کی زبان میں منافقت (hypocrisy) کہاجاتا ہے۔ اصول پسندی، ایک اعلیٰ اخلاقی صفت ہے، اِس کے مقابلے میں، موقع پرستی ایک انتہائی بُری صفت ۔
اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (option) ہے— اخلاص، یا منافقت۔ مخلصانہ زندگی میں منافقت کا کوئی مقام نہیں۔ اِسی طرح منافقانہ زندگی میںاخلاص کا کوئی درجہ نہیں۔ دعوتی مشن واحد مشن ہے جو آدمی کو اِس معاملے میں منافقانہ روش سے بچاتا ہے۔ دعوتی مشن آدمی کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ربانی مشن کی خاطر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ داعی بھی ایڈجسٹ مینٹ کا معاملہ کرتا ہے، مگر اُس کا ایڈجسٹ مینٹ اصول کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر ۔
یہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ اِس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان اگر دعوتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ نہ کریں تو اُنھیں ذاتی مصلحت کی بنا پر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ مینٹ کرنا پڑے گا۔ گویا کہ اگروہ دوسروں کے درمیان مخلص بن کر نہ رہیں تو اُنھیں دوسروں کے درمیان منافق بن کر رہنا ہوگا، اور بلاشبہہ منافقانہ زندگی سے زیادہ بُری کوئی چیز اِس دنیا میں نہیں۔
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا عام مزاج یہ ہے کہ مسلمان عالمی سطح پر زیر محاصرہ (under siege) ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ تمام قومیں مسلمانوں کی مخالف ہیں۔ تمام قوموں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کر رکھی ہے۔ تمام قومیں متفقہ طور پر یہ چاہتی ہیں کہ مسلمان دوبارہ ابھرنے نہ پائیں، چناں چہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر سطح پر مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
یہ سوچ سرتاسر ایک بے بنیاد سوچ ہے۔ خالص علمی اعتبار سے اِس کی کوئی حقیقت نہیں۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خود خالق کے نقشے کے مطابق، مسابقت (competition) اور چیلنج پر قائم ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس نظام کے بناپر کوئی آگے بڑھتا ہے اورکوئی پیچھے ہوجاتاہے، کوئی پانے والا بنتا ہے اور کوئی کھونے والا۔یہ نظام اِس لیے ہے تاکہ زندگی کی سرگرمیاں جاری رہیں، تاکہ ہر فرد اور ہر گروہ کو عمل کا محرک (incentive) ملتا رہے۔
فطرت کے اِس نظام کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ایک گروہ اپنی کوشش کے ذریعے آگے بڑھ جاتا ہے اور وہ دوسرے گروہ کو پیچھے چھوڑ دیتاہے۔ ایسی حالت میں پچھڑے ہوئے گروہ کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کرے، وہ کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے کے لیے اپنی ساری توانائی خرچ کردے۔ زندگی کو چیلنج سمجھنا آدمی کو نیا جذبۂ عمل دیتا ہے۔ اِس کے برعکس، سازش اور دشمنی کا نظریہ آدمی کو منفی نفسیات میں مبتلا کرکے اس کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے ڈال دیتا ہے۔
موجودہ زمانے کی مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں چیلنج کو محاصرہ سمجھ لیا۔ اِس طرح انھوںنے ایک مثبت واقعے کو خالص منفی رخ دے دیا۔ مسلمانوں کی یہی غلط سوچ ہے جس کی اصلاح میں ان کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ زمانے کے مسلمان زوال کا شکار ہوئے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ عروج تک پہنچ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
1789میں یورپ میں وہ سیاسی انقلاب آیا جس کو فرانسیسی انقلاب (French Revolution) کہاجاتا ہے- اِس انقلاب کے بعد دنیا ایک نیے سیاسی دور میں داخل ہوگئی، یعنی جمہوریت (democracy) کا دور- جمہوریت سے پہلے دنیا میں بادشاہت کا دور تھا، یعنی شخصی حکمرانی کا دور- اُس زمانے کی سیاسی مساوات (political equation) حاکم اور محکوم (ruler and ruled) کے اصول پر قائم تھی، لیکن جمہوریت کے دور میں یہ سیاسی مساوات ختم ہوگئی-جمہوریت کے نظام میں نہ کوئی حاکم ہوتا ہے اور نہ کوئی محکوم- اب حکومت کو عملاً حکومت نہیں کہاجاتا، بلکہ اس کو صرف انتظامیہ (administration)کہا جاتا ہے- کوئی انتظامیہ مستقل نہیں ہوتی، ہر چند سال کے بعد الیکشن کی بنیادپر انتظامیہ بدلتی رہتی ہے-
موجودہ زمانے کی جمہوریت سیکولرزم کے اصول پر قائم ہے- اس اصول کے تحت موجودہ زمانے میں مذہبی امور کو مذہبی افراد یا مذہبی تنظیموں کے دائرے کا معاملہ قرار دے دیا گیا ہے- اُن کو آزادی ہےکہ وہ اپنے مذہبی معاملات کا انتظام جس طرح چاہیں کریں، صرف اِس شرط پر کہ وہ دوسروں کے ساتھ مداخلت یا تشدد کا معاملہ نہیں کریں گے-
جمہوری نظام میں حکومت کا تعلق صرف مشترک قومی امور سے ہوتا ہے- مثلاً اقتصادیات، شہری پلاننگ، انفراسٹرکچر، وغیرہ- جمہوریت کا یہ نظام مذہبی گروہوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہے- مذہبی گروہ اگر مذہب کے دائرے میں رہے، وہ نزاعی سیاست کو اُس میں شامل نہ کرے، تو وہ ہر حال میں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرسکتا ہے- خواہ الیکشن میں کوئی ایک پارٹی جیتے یا دوسری پارٹی، انتظامی اعتبار سے وقتی طورپر کوئی ایک پارٹی اقتدار میں آئے یا دوسری پارٹی- جمہوریت کے زمانے میں اگر کوئی مذہبی گروہ کسی پرابلم سے دوچار ہوتا ہے تو وہ یقینی طورپر صرف ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی ناعاقبت اندیشانہ سیاست کا نتیجہ ہوگا، نہ کہ خود جمہوری نظام کا نتیجہ-(
واپس اوپر جائیں
آج کل مسلمان مختلف مقامات پر متشددانہ کارروائی میں مبتلا ہیں۔ جب اُن کو اِس سے روکا جائے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا حکم ہم کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ اُس حدیثِ رسول کو پیش کرتے ہیں جس میںاہلِ ایمان کو تغییر ِ منکَرکا حکم دیاگیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: مَن رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان (صحیح مسلم، کتاب الإیمان) یعنی تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، اور اگر وہ اِس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنی زبان سے، اور اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو پھر اپنے دل سے، اور یہ سب سے زیادہ کم زور ایمان ہے۔دوسری روایت میں اِس حدیث کا پہلا ٹکڑا اِن الفاظ میں آیا ہے: مَن رأی منکراً فاستطاع أن یغیّرہ بیدہ فلیغیّرہ بیدہ (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم) یعنی جو شخص کسی منکر کو دیکھے، تو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ روایت کے بقیہ الفاظ مشترک ہیں۔
اِس حدیث کو عام طورپر تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتاہے، حالاں کہ حدیث میں اِس کا ذکر نہیں ہے۔ اِس حدیث میں منکر کو عملاً بدل دینے، یا عملاً بدل دینے کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں اس کے خلاف بولنے کا ذکر کیاگیا ہے، نہ کہ منکر کو دیکھ کر لوگوں کے اوپر تشدد کرنے کا، یا خود کُش بم باری (suicide bombing) کا۔ اِس حدیث سے متشددانہ کارروائیوں کا جواز ہر گز نہیں نکلتا۔
اِس روایت میں منکر کی تغییر کا لفظ آیا ہے۔ تغییر کے معنی عربی زبان میں بدل دینے (replacement) کے ہیں، یعنی منکَر کی حالت کو بدل کر غیر منکر کی حالت قائم کرنا۔ اِس حدیث میںاصلاحِ حال کا حکم ہے، نہ کہ تخریب اور فساد کا۔
عربی زبان کے مشہور لغت ’لسان العرب‘ میں تغییر کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے— غیّرہ: حوّلہ وبدّلہ کأنہ جعلہ غیر ما کان (
موجودہ زمانے میں جگہ جگہ جہاد کے نام پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔یہ ’’مقدس تشدد‘‘ مسلم رہنماؤں کی قیادت میں انجام پارہا ہے۔ اِس فعل میںتقریباً تمام امت شریک ہے۔ اِس لیے کہ جو لوگ براہِ راست اس میں شریک نہیں ہیں، وہ اس کے بارے میں خاموش ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، اُن کی یہ خاموشی بالواسطہ شرکت کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس لیے اسلامی اصول کے مطابق، پوری امت کو اِس عمل میں شریک مانا جائے گا، کچھ لوگوں کو براہِ راست طورپر، اور بقیہ لوگوں کو بالواسطہ طورپر۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اِس متشددانہ عمل کا کوئی بھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے۔ اِس عمل کا ہر جگہ صرف ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہے، اور وہ تخریب ہے، نہ کہ تعمیر۔ ایسی حالت میں بلا شبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشددانہ کارروائیاں اور جو کچھ ہوں، لیکن وہ تغییر ِ منکر کا عمل ہر گز نہیں۔ تغییر ِ منکر یہ ہے کہ آدمی ناپسندیدہ صورت ِ حال کو بدل کر اس کی جگہ پسندیدہ صورتِ حال قائم کرے۔ اِس کے برعکس، ایک ایسی کوشش جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہو، وہ یقینی طورپر تخریب اور فساد ہے، نہ کہ کوئی مطلوب اسلامی عمل۔
کسی غیر مطلوب صورتِ حال کو دیکھ کر اس کے خلاف منفی رد عمل ظاہر کرنا، صرف فساد کا ایک عمل ہے، وہ تغییر ِمنکر نہیں۔ تغییر ِمنکر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے۔ وہ حالات کی اصلاح کے لیے کیا جاتا ہے، نہ کہ حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے۔ اصلاحِ حال کا طریقہ یہ ہے کہ غیر متاثر ذہن کے ساتھ حالات کا مطالعہ کیا جائے اور پھر تعمیری منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کو درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ اِس کے خلاف کریں، وہ بلاشبہہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔
واپس اوپر جائیں
عام لوگ انسان کو دشمن اور دوست میں تقسیم کرتے ہیں، لیکن داعی کے ذہن میں یہ تقسیم نہیں ہوتی۔ داعی کی نظر میں ہر انسان صرف انسان ہوتاہے، خواہ وہ بہ ظاہر اپنا ہو یا غیر۔ داعی کے رویّے کو ایک لفظ میں، انسان دوست (human-friendly) رویہ کہہ سکتے ہیں۔
عام انسان کا مزاج یہ ہوتاہے کہ— دشمن سے بائیکاٹ کرو، دشمن کو بدنام کرو، دشمن سے انتقام لو، دشمن کو ذلیل کرنے کی کوشش کرو، دشمن کے لیے بد دعائیں کرو، دشمن کی کردار کشی کرو، دشمن کو سبق سکھاؤ، وغیرہ۔ یہ طریقہ داعیانہ اسپرٹ کے خلاف ہے۔ جولوگ اس قسم کا مزاج رکھتے ہوں، وہ کبھی خدا کے دین کے داعی نہیں بن سکتے۔اس کے برعکس، داعی کا مزاج مکمل طورپر مثبت مزاج ہوتا ہے۔ داعی کی نظر میں ہر ایک اس کا اپنا ہوتا ہے۔ بہ ظاہر کوئی شخص دشمنی کرے تب بھی داعی کے اندر اس کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ داعی کا ذہن یہ ہوتاہے کہ— دشمن کے ساتھ ناصحانہ روش اختیار کرو، اچھے سلوک کے ذریعے دشمن کو اپنا دوست بناؤ، اپنی تنہائیوں میں دشمن کے لیے دعائیں کرو، دشمن سے محبت کرو، دشمن کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہو، دشمن کو اپنے جیسا ایک انسان سمجھو، ہر حال میں دشمن کے خیر خواہ بنے رہو، دشمن کی ہلاکت کا متمنی ہونے کے بجائے اُس کو خدا کی ابدی رحمتوں میں حصے دار بنانے کی کوشش کرو۔ اِس معاملے میں داعیانہ کردار کیا ہے، اس کو ایک شاعر نے پیغمبر کے حوالے سے بجا طور پر اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
راہ میں جس نے کانٹے بچھائے، گالی دی، پتھر برسائے
اُس پر چھڑکی پیار کی شبنم، صلی اللہ علیہ وسلم
دعوت کے عمل کے لیے داعیانہ کردار ضروری ہے۔ جو شخص داعی کا کریڈٹ لینا چاہتا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اندر داعیانہ کردار پیدا کرے۔ داعیانہ کردار کے بغیر داعی بننے کی کوشش کرنا، قرآن کے الفاظ میں، بِن کئے پر کریڈٹ لینے کے ہم معنیٰ ہے (یحبّون أن یُحمدوا بما لم یفعلوا)، جب کہ خدا کے یہاں کسی شخص کو حقیقی عمل پر کریڈٹ ملتاہے، نہ کہ فرضی دعوے پر۔
واپس اوپر جائیں
کوئی فساد (riot) جب ہوتا ہے تو وہ اچانک نہیں ہوتا ۔ ہر فساد سے پہلے اُس کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں جو دھیرے دھیرے فساد بن جاتے ہیں۔ گویا کہ ہر فساد دراصل اسبابِ فساد کا نقطہ انتہا (culmination) ہوتاہے۔ اِس لیے فساد کے خلاف اصلاحی کوشش کا آغاز، ظہورِ فساد سے پہلے ہونا چاہیے نہ کہ ظہورِ فساد کے بعد۔ اسلام میں نہی عن المنکر کا مطلب یہی ہے۔ نہی عن المنکر کا حکم اِسی لیے دیا گیا ہے کہ فساد سے پہلے اسبابِ فساد کو روکا جائے، تاکہ فساد کی نوبت نہ آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسبابِ فساد کو ختم کرنے کی کوشش کرنا، اصلاح ہے۔ اور فساد ہوجانے کے بعد متحرک ہونا صرف لیڈری ہے۔ جو لوگ اسبابِ فساد کے ظہور کے وقت خاموش رہیں اور جب عملاً فساد ہوجائے تو وہ جوش وخروش کے ساتھ حرکت میں آجائیں، ایسے لوگ خود بھی فساد انگیزی کے مجرم ہیں۔ اِس قسم کے لوگوں ہر گز کو اصلاحِ فساد کا کریڈٹ (credit)نہیں مل سکتا۔ اصلاحِ فساد کا کام، فسادسے پہلے شروع ہوتا ہے، نہ کہ عملی طور پر فساد ہوجانے کے بعد۔
اسبابِ فساد کیا ہیں۔ جب کسی سماج میں نفرت کی بولی بولی جائے، جب ایسا ہو کہ کسی گروہ کو ظالم اور دشمن بتا کر اس کے خلاف بُری خبریں پھیلائی جائیں، جب کسی سماج میں ایسے لوگ اس کے لیڈر بن جائیں جو ذاتی ذمے داریوں (duties) کی بات نہ کرتے ہوں، بلکہ وہ حقوق (rights) کو لے کر اپنی محرومی کی داستان سناتے ہوں، جب اپنے لوگوں کی برائیوں پر اُن کو نہ روکا جائے اور دوسروں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلائی جائے، تو سمجھ لیجیے کہ ایسے سماج میںاسبابِ فساد کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، جو کسی نہ کسی دن بڑھ کر عملی فساد کی صورت اختیار کرلے گی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ قوم کے رہنما خود اپنی قوم کی اصلاح پر ساری توجہ لگائیں، نہ کہ دوسری قوم کے خلاف لوگوں کے اندر منفی جذبات پیدا کریں۔ جو لوگ ایسا نہ کریں، وہ مفسد ہیں، نہ کہ مُصلح۔فساد کا علاج اسبابِ فساد کی روک تھا م ہے، نہ کہ فساد کے خلاف شکایت اور احتجاج۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے پہلے جب مکہ میں تھے تو وہاں کے سرداروں نے آپ کو حکومت کی پیش کش کی۔انھوں نے کہا: إنْ ترید مُلکاً ملّکناک علینا (اگر تم حکومت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنے اوپر حاکم بنانے کے لیے تیار ہیں)۔ آپ نے فرمایا: ما أطلب الملک علیکم (میں تمھارے اوپر حکومت نہیں چاہتا)۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے اسلامی تحریک کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اسلامی تحریک کا نقطۂ آغاز (starting point) حکومت یا سیاسی اقتدار نہیں ہے، بلکہ اسلامی تحریک کا اصل نقطۂ آغاز فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا ہے، ایک ایک فرد کے ذہن کی تشکیل نو (re-engineering of mind) کرنا ہے۔
اسلامی تحریک کا فارمولا دو نکات (points) پر مشتمل ہے— فرد کی شخصیت میں تبدیلی لانا، اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں حالتِ موجودہ کو تسلیم کر لینا:
Change in personality, statusquoism in system
اسلامی تحریک کی یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر اِس ترتیب کو بدل دیا جائے، یعنی اگر پولٹکل سسٹم کو بدلنے سے تحریک کا آغاز کیا جائے تو سوسال کی جدوجہد کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ فرد کی تبدیلی سے آغاز کرکے نظام کی تبدیلی تک پہنچنا ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام کی تبدیلی سے آغاز کیا جائے تو ایسی تحریک کسی انجام تک پہنچنے والی نہیں۔ ایسی تحریک صرف تباہی میںاضافہ کرے گی، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
فرد کے اندر ذہنی تبدیلی سے تحریک کاآغاز کرنے کی صورت میں فی الفور تحریک کو مثبت آغاز مل جاتا ہے۔ لیکن سسٹم سے آغاز کرنے کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آخر کار تحریک ایک بند گلی میں پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی اندھیرا ہوتا ہے اور اس کے آگے بھی اندھیرا۔
واپس اوپر جائیں
اسلامی تحریک کا اصول یہ ہے کہ ٹکراؤ سے کامل پرہیز کرتے ہوئے اپنا مشن چلایا جائے۔ اِس پالیسی کو دو لفظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— پولٹکل اسٹیٹس کوازم، نان پولٹکل ایکٹوزم:
Political statusquoism, non-political activism
اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اقتدار سے ٹکراؤ نہ کرنا اور غیر سیاسی دائرے میں جو مواقع ہیں، اُن کو بھر پور استعمال کرنا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں یہی طریقہ اختیار فرمایا۔ اِسی طریقے کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کو ہر اعتبار سے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس طریقے کو دوسرے لفظوں میں، حکیمانہ طریقِ کار کہاجاسکتا ہے۔
اِس طریقِ کار کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو فوراً ہی اپنے عمل کے لیے ایک نقطۂ آغاز (starting point) مل جاتا ہے۔ اِس کے بعد یہ ممکن ہوجاتاہے کہ آدمی اپنی توانائی کو بے نتیجہ کاموں میں ضائع نہ کرے، وہ اپنی پوری توانائی کو صرف نتیجہ خیز کاموںمیں صرف کرے، وہ تمام موجود امکانات کو اپنے مشن کے حق میں استعمال کرسکے۔
یہ طریقِ کار اِس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی کے اندر مکمل طورپر مثبت ذہن باقی رہے، وہ کسی بھی مرحلے میں منفی سوچ (negative thinking) کاشکار نہ بنے۔ وہ ہر انسان کو اپنا بھائی سمجھے۔ اُس کو ہر دنیا اپنی دنیا نظر آئے۔ ہر صورتِ حال کو وہ اپنے لیے موافق صورتِ حال سمجھے۔ شکایت اور احتجاج (protest) سے اُس کا ذہن مکمل طورپر پاک ہو۔
یہ طریق کار دراصل وہی ہے جس کو تدریجی طریقِ کار (gradual method) کہاجاتاہے، یعنی فطری انداز سے ماحول میں تبدیلی لانا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں تدریجی طریقِ کار ہی نتیجہ خیز طریقِ کار ہے۔ اِس کے سوا جو طریقے ہیں، وہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والے ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
Fine-Tuning in the Universe
“There is plenty of good scientific evidence that our universe began about 14 billion years ago, in a Big Bang of enormously high density and temperature, long before planets, stars and even atoms existed. But what came before? [The physicist Lawrence] Krauss in his book discusses the current thinking of physicists that our entire universe could have emerged from a jitter in the amorphous haze of the subatomic world called the quantum foam, in which energy and matter can materialize out of nothing. Krauss’s punch line is that we do not need God to create the universe. The quantum foam can do it quite nicely all on its own. Aczel asks the obvious question: But where did the quantum foam come from? Where did the quantum laws come from? Hasn’t Krauss simply passed the buck? Legitimate questions. But ones we will probably never be able to answer. [“...The fine-tuning problem] For the past 50 years or so, physicists have become more and more aware that various fundamental parameters of our universe appear to be fine-tuned to allow the emergence of life — not only life as we know it but life of any kind. For example, if the nuclear force were slightly stronger than it is, then all of the hydrogen atoms in the infant universe would have fused with other hydrogen atoms to make helium, and there would be no hydrogen left. No hydrogen means no water. On the other hand, if the nuclear force were substantially weaker than it is, then the complex atoms needed for biology could not hold together. In another, even more striking example, if the cosmic “dark energy” discovered 15 years ago were a little denser than it actually is, our universe would have expanded so rapidly that matter could never have pulled itself together to form stars. And if the dark energy were a little smaller, the universe would have collapsed long before stars had time to form. Atoms are made in stars. Without stars there would be no atoms and no life. So, the question is: Why? Why do these parameters lie in the narrow range that allows life? (Book: ‘Why Science Does Not Disprove God’ by mathematician Amir D. Aczel, who is currently researcher in the history of science at Boston University. The above are excerpts taken from a review on the book by physicist Alan Lightman for The Washington Post, April 11, 2014)
واپس اوپر جائیں
سائنس فطرت (nature) کے مطالعے کا نام ہے- فطرت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو ہم کائنات کہتے ہیں- سائنسی مطالعے کا آغاز کچھ ابتدائی باتوں سے ہوا، لیکن یہ مطالعہ جتنا زیادہ بڑھتا گیا، اتنا ہی یہ ظاہر ہوتا گیا کہ کائنات ایک بے حد بامعنی کائنات ہے- کائنات کی کوئی بھی ایسی تشریح جو کائنات کی معنویت کے اعتراف پر قائم نہ ہو، وہ سائنسی تحقیقات سے مطابقت نہیں رکھتی-
مثلاً سائنسی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا کہ کائنات کے اندر ایک ذہین ڈیزائن (intelligent design) ہے- اب اگر یہ نہ مانا جائے کہ کائنات کا ایک ذہین ڈیزائنر (intelligent designer)ہے تو کائنات کا نادر ظاہرہ ناقابلِ توجیہ بن جاتاہے-
اِسی طرح سائنس کے مطالعے نے بتایا کہ ہماری کائنات ایک کسٹم میڈ (custom-made) کائنات ہے، یعنی وہ انسان جیسی مخلوق کے تقاضوں کے عین مطابق ہے- اب اگر ایک ایسے خالق کو نہ مانا جائے جس نے دو الگ الگ چیزوں کے درمیان اِس مطابقت کو قائم کیا، تو اِس ظاہرے کی کوئی قابلِ فہم توجیہہ ممکن نہیں- اِسی طرح مختلف شعبوں میں سائنس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا آپس میں بے حد مربوط ہیں اور ان کے درمیان ایک انتہائی فائن ٹیوننگ (fine-tuning) پائی جاتی ہے تو اِس مائنڈ باگلنگ (mind-boggling) ظاہرے کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں-
سائنس کوئی مذہبی سبجیکٹ نہیں، سائنس کا موضوع خالق کی دریافت نہیں- سائنس کا موضوع تخلیق (creation)کی دریافت ہے، لیکن خالق (Creator) تخلیق سے جدا نہ تھا، اِس لیے تخلیق کا مطالعہ عملاً خالق کا مطالعہ بن گیا- سائنس نے اپنے مطالعے کے ذریعے جو چیزیں دریافت کیں، وہ سب خدائی نشانیوں کا اظہار بن گئیں جن کو قرآن میں ’آیات اللہ‘ (signs of God) کہاگیا ہے- اِس اعتبار سے، یہ کہنا درست ہوگا کہ تخلیق کی معنویت کی دریافت خالق کی معنویت کی دریافت کے ہم معنی ہے-
واپس اوپر جائیں
تحریکوں کا یہ عام طریقہ ہے کہ لوگ ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور تنظیم کے تحت ایک طریقِ کار مقرر کرکے اس کے مطابق، اپنا کام شروع کردیتے ہیں- اِس طریقے کا یہ فائدہ ہے کہ کام بظاہر تسلسل کے ساتھ ہونے لگتا ہے- ہر فردِ تحریک کو معلوم ہوتا ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے اور اِس معلوم نقشے کے مطابق، وہ اپنا مقرر کام ہر روز انجام دیتا رہتا ہے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جس کو ایک منظم کام کہاجاتا ہے، وہ صرف ایک بے روح نظم (spiritless routine)کا اعادہ ہے- اِس طریقے میں بظاہر کام ہوتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن اس کے تحت افراد کا روحانی ارتقا (spiritual development) نہیں ہوتا- اپنی داخلی شخصیت کے اعتبار سے، وہ جہاں پہلے دن تھے، وہیں وہ آخری دن بھی رہتے ہیں-
صحیح طریقہ یہ ہے کہ افراد کے اندر زندہ شخصیت پیدا کی جائے- افرادِ تحریک محسوس کریں کہ ہر دن اُن کے اندر شخصی ارتقا(personality development) ہورہا ہے-
یہ مقصد صرف اُس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کہ افرادِ تحریک کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کی جائے- ہر آدمی خود سوچے، وہ خود اپنے عمل کا نقشہ بنائے، ہر انسان پروگرام ساز (programme maker) انسان بن جائے، نہ کہ بنے بنائے پروگرام کو بطور رُٹین (routine) دہرانے والا-
زندہ تحریک وہ ہے جس کے افراد ذاتی داعیہ کے تحت متحرک ہوئے ہوں، جن کے اندر شعوری بیداری اتنی زیادہ آچکی ہو کہ وہ آزادانہ طورپر سوچیں اور آزاد ارادے کے تحت اپنے آپ کو تحریک کے کام کے لیے وقف کردیں-
یہی وہ طریقہ ہے جو حقیقی معنوں میں نتیجہ پیدا کرنے والا ہے- مقررہ پروگرام کے تحت کیا جانے والا عمل بظاہر عمل ہوتا ہے، لیکن وہ مطلوب نتیجے سے خالی ہوتا ہے-
واپس اوپر جائیں
آسٹرین نیرولوجسٹ وکٹر فرینکل (1905-1997) کا ایک با معنی قول ہے- اُس نے انسان کے بارے میں کہا — جب ہم حالات کو بدلنے کے قابل نہیں ہوتے، تو یہ اِس بات کا چیلنج ہوتا ہے کہ ہمیں خود اپنے آپ کو بدلنا چاہیے:
When we are no longer able to change a situation—we are challenged to change ourselves. (Viktor Frankl)
ہر انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جس تبدیلی کا منصوبہ بنایا تھا، اُس کے مطابق، میں حالات کو بدل نہ سکا- اِس قسم کا تجربہ جب کسی انسان کو پیش آئے تو اس کو کیا کرنا چاہیے-
اُس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنی ناکامی کا سبب باہر تلاش کرے- اِس کے برعکس، صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ناکامی کا سبب خود اپنے اندر تلاش کرے، وہ خارج کو بدلنے کی مزید کوشش نہ کرے- وہ یہ کرے کہ حقیقت پسندانہ انداز میں پورے معاملے پر ازسرِ نو غور کرے اور پھر ممکن دائرے میں اپنے عمل کا نیا نقشہ بنائے-
روڈ پر چلتے ہوئے اگر کوئی شخص راستے سے بھٹک جائے تو وہ یوٹرن (U turn)لینے میں کبھی دیر نہیں کرتا- لیکن زندگی کے وسیع تر سفر میں بہت کم لوگ اس اصول کی پیروی کرتے ہیں- زندگی کے سفر میں اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک بار جس راستے پر چل پڑے، اُسی پر چلتے رہتے ہیں، حتی کی اگر ان کی غلطی کی نشان دہی کی جائے، تب بھی وہ ایسا نہیں کرتے کہ غلط سمت کو چھوڑ کر صحیح سمت میں وہ اپنا سفر شروع کردیں- وہ اپنے مانوس راستے ہی پر چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اِسی حال میں مرجاتے ہیں— غلطی کرنا غلطی نہیں ہے، بلکہ اصل غلطی یہ ہے کہ آدمی اپنی غلطی کی اصلاح کرنے پر راضی نہ ہو-
واپس اوپر جائیں
سوال
میں الرسالہ کا ایک مستقل قاری ہوں- اِسی کے ساتھ میں آپ کے لکچر بھی سنتا ہوں- مجھے الرسالہ کی دعوتی سوچ سے اتفاق ہے- اِس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ مل رہا ہے- دو چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے- ایک الرسالہ کے حسب ذیل دو اقتباسات کی وضاحت، جس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ آپ اعتدال کو کس طرح مانتے ہیں- اِسی طرح آپ کے لکچر میں بار بار میں نے سنا ہے کہ دوسرے علمانے کچھ نہیں کیا، وہ سب ٹکراؤ اور تشدد میں لگے رہے، اِس کی وضاحت-(محمد حارث، پاکستان)
1- ’’اکثر لوگ اعتدال اور توسط کی بات کرتے ہیں، مگراعتدال اور توسط اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے معاملات میں صرف دو نقطۂ نظر ہیں— معیاری نقطۂ نظر، اور عملی نقطہ نظر۔ جہاں تک ’’معتدل نقطۂ نظر‘‘ کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ میں کوئی اصول نہیں۔معیاری نقطۂ نظر (idealism) وہ ہے جو خالص اصول پر مبنی ہو، جو ابدی طورپر ایک ہی مستند اصول کے طور پر قائم رہے۔ مثلاً سچ بولنا ایک ابدی اصول ہے، اصول کے اعتبار سے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔ عملی نقطہ نظر (pragmatism) سے مراد وہ طریقہ ہے جس میں نتائج کو ملحوظ رکھا گیا ہو، جو خالص اصول پر مبنی نہ ہو، بلکہ وہ عملی پہلوؤں کی رعایت پر مبنی ہو۔زندگی کے معاملات میں کوئی موقف اختیار کرنے کے لیے اعتدال اور توسط کوئی معیار (yardstick) نہیں ہے۔ یہ معیار صرف دو ہے— ایک، یہ کہ خالص اصولی طورپر جو نقطہ نظر درست ہو، اس کو اختیار کرنا۔ یہ آئڈیل ازم (idealism) ہے۔ خالص ذاتی معاملات میں آئڈیل ازم پوری طرح قابلِ عمل ہوتا ہے۔ اِس لیے جہاں خالص ذاتی معاملہ ہو، وہاں آدمی کو وہی کرنا چاہیے جو آئڈیل ازم کا تقاضا ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں معاملہ ففٹی ففٹی ہوجاتا ہے، یعنی پچاس فی صد آدمی کی اپنی سوچ، اور پچاس فی صد دوسرے متعلق افراد کی سوچ۔ عملی نقطۂ نظر (pragmatism)کا لفظ زندگی کے اِسی دوسرے دائرے کے بارے میں بولا جاتا ہے‘‘۔ (ماہ نامہ الرسالہ، نومبر 2010، صفحہ
2- اسی طرح آپ نے ایک اور جگہ لکھا ہے کہ:’’آدمی کو چاہئے کہ جب بھی وہ اپنے کسی منصوبے کی تکمیل کرنا چاہے تو ہمیشہ وہ حالات پر پوری نظر رکھے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلنے لگے- وہ ایسا نہ کرے کہ وہ کسی ایک پہلو کو نظر انداز کرکے دوسرے پہلو کی طرف بہت زیادہ جھک جائے-وہ ایسا بھی نہ کرے کہ وہ اپنا زیادہ اندازہ (overestimation) کرے اور حالات کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنے لگے- اِس قسم کی کوئی بھی غلطی اس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کافی ہے-آدمی اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انتہا پسند مخلوق ہے- آدمی اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ایک پہلو کی طرف اِس طرح جھک جاتا ہے کہ وہ دوسرے پہلو کی رعایت کرنے سے قاصر ہوجاتاہے- اِس قسم کے عدم توازن کے ساتھ کسی شخص کا اِس دنیا میں کامیاب ہونا ممکن نہیں- توازن بلاشبہہ ایک اہم اصول ہے، لیکن توازن سے مراد عملی معاملات میںتوازن کا طریقہ اختیار کرنا ہے، نہ کہ فکری اور نظریاتی معاملات میں توازن کا طریقہ اختیار کرنا- نظری معاملات میں آدمی کا نشانہ آئڈیل ہونا چاہئے، لیکن عملی معاملات میں اس کو پریکٹکل بن جانا چاہیے‘‘- (ماہ نامہ الرسالہ، اگست 2013، صفحہ 40)
جواب
1- قصدواعتدال بلا شبہہ اسلام میں مطلوب ہے- قصد واعتدال اسلام کا ایک اہم اصول ہے- اُس کا تعلق صرف انفرادی معاملات سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اجتماعی معاملات اور ملی پالیسی سے بھی ہے- قصد واعتدال کی اہمیت رسول اور اصحابِ رسول کی سنت سے ثابت ہے- اِس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں-
قصد واعتدال کا مطلب توسط یا میانہ روی (moderation) ہے، یعنی معاملات میں درمیانی طریقہ (middle course) اختیار کرنا- قصد واعتدال کا تعلق دراصل اجتماعی زندگی سے ہے، خواہ وہ عبادتی معاملہ ہو یا غیر عبادتی معاملہ- دوسرے الفاظ میں اس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کہاجاسکتا ہے- اجتماعیات میں چوں کہ معاملے کے فریق ایک سے زیادہ ہوجاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اجتماعیات میں دوسروں کی رعایت کی جائے- ایسا نہ کرنے کی صورت میں غیر ضروری ٹکراؤ ہوگا اور اُس کے نتیجے میں مختلف قسم کے مسائل پیدا ہوں گے-
لیکن جہاں تک عقیدے یا نظریے کا معاملہ ہے، اُس میں یہ مطلوب ہے کہ آدمی معیار پسند ہو- وہ اپنی سوچ کو انتہائی حد تک خالص بنائے، ذاتی سوچ کے معاملے میں وہ کم تر از معیار (less than ideal) کو برداشت نہ کرے، یعنی اپنی ذات کے معاملے میں معیار پسند (idealist) ہونا اور دوسروں کے معاملے میں عملی (practical) بن جانا-
2- کسی شخص کی تردید یا نفی کی بات میں نے کبھی نہیں کہی- کسی شخص کے نقطہ نظر میں جو بات قرآن وسنت کے خلاف ہو، اُس کا تجزیہ قرآن وسنت کے دلائل کی روشنی میں کرنا، یہی میرا طریقہ ہے-
اِس معاملے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ناقد وہ طریقہ اختیار کرے جس کو ایک شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے — عیب ِ مے جملہ بہ گفتی ہنرش نیز بگو-
یہ طریقہ بذاتِ خود درست ہوسکتا ہے، لیکن وہ داعی کا طریقہ نہیں- داعی کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے اندر ذہنی انقلاب لایا جائے- اِس بنا پر داعی ہمیشہ کسی ایک چیز پر فوکس دیتا ہے-
تنقید کے معاملے میں اصل شرط یہ نہیں ہے کہ ناقد قابلِ تنقید اجزا کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ زیر تنقید شخص کی خوبیوں کا ذکر بھی کرے، یہ شرط غیر عملی ہے- صحیح طریقہ یہ ہے کہ ناقد عناد (malice) کی نفسیات سے پاک ہو- اس کی ساری توجہ صرف زیر تنقید شخص کے فکری انحراف پر ہو، نہ کہ اُس چیز پر جس کو ذاتیات کہاجاتا ہے-
میرے نزدیک نقدِ صحیح یقینی طور پر ایک جائز کام ہے، لیکن معاندانہ اظہارِ خیال کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں- نقدِ صحیح پر ایک شخص کو اللہ کے یہاں انعام مل سکتا ہے، لیکن معاندانہ اظہارِ خیال ایک ایسی چیز ہے جس پر آخرت میں سخت مواخذے کا اندیشہ ہے-
سوال
آپ دین کی سیاسی تعبیر پر اکثر تنقید کرتے رہتے ہیں- اِس تعبیر کا اصل نقصان کیاہے، اس کو واضح فرمائیں- (ایک قاری الرسالہ، مہاراشٹر)
جواب
دین کی سیاسی تعبیر بلاشبہہ ایک غلط تعبیر ہے- وہ بلا شبہہ تفسیر بالرائے کی ایک صورت ہے- دین کی سیاسی تعبیر نظری اعتبار سے ایک غلط تعبیر ہے اور عملی اعتبار سے وہ ایک تباہ کن نظریے کی حیثیت رکھتی ہے- دین کی سیاسی تعبیر میں تشدد ایک لازمی جز کی حیثیت رکھتا ہے- دین کی سیاسی تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اسلام کی بنیاد پر سیاسی حکومت قائم کریں- حکومت ایک ایسا ادارہ ہے جس پر کسی کا قبضہ ہوتا ہے، اس لئے قائم شدہ اقتدار کو ختم کیے بغیراسلامی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی-
دین کی سیاسی تعبیر کا یہی وہ منفی پہلو ہے جس کی بنا پر اول دن سے تشدد اس کا ایک لازمی حصہ بن جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک، دین کی سیاسی تعبیر اپنے نتیجے کے اعتبار سے ایک نزاعی تعبیر ہے:
Political interpretation of Islam in terms of result is confrontational interpretation of Islam.
اِس موضوع پر تفصیلی مطالعے کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں: تعبیر کی غلطی، دین کی سیاسی تعبیر، دین وشریعت-
واپس اوپر جائیں
1- گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تعاون سے ہندستان اور ہندستان سے باہر کے ملکوں میں خاص طور پرانگریزی ترجمہ قرآن کے ذریعے دعوتی کام جاری ہے- مثلاًجون 2013 سے فلسطین اور اسرائیل کے شہروں ، یروشلم، بیت لحم، ہیبرون، ناصرہ کے علاوہ دوسری جگہوں پر وہاں کے مقامی اور فلسطینی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر دعوتی کام کررہے ہیں- گڈورڈ بکس کی طرف سے، اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی بک لٹ (What is Islam)کی دس دس ہزار کاپیاں بھیجی گئ ہیں- یہ نوجوان وہاں آنے والے غیر مسلم زائرین (tourists) تک یہ دعوتی لٹریچررضاکارانہ طورپر پہنچارہے ہیں-
2- کیرلا (ملاپورم) میں
3- نئی دہلی کے پرگتی میدان میں
4- مسقط کے عمان ایکزیبیشن سنٹر میں
5- بحرین (انٹرنیشنل ایکزیبیشن سنٹر) میں
6- لندن کے ارل کورٹ (Earl Court) میں
7- لکھنؤ (نہرو واٹکا لین) میں
8- انڈیا ٹی وی (نوئیڈا) کے نمائندہ مسٹر آنند پرکاش پانڈے نے
9- مختلف قسم کے دعوتی تجربات اور تاثرات کا ایک حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
I want to share a recent incident with you that happened because of your literature. This whole lot was brought with the idea of distributing it to the multitude of guests who were supposed to attend the marriage ceremony of my cousin on 23rd of June 2013. I had full authority and permission from the groom to distribute your literature on his wedding day. In course of the distribution, one of my cousin brother badly critisized you as an author and scholar by saying that “this literature belongs to a person who says, separate your parents from you.” I got to know all this from the groom himself. The groom trusted me and told me to continue the distribution on his behalf. The books and leaflets were distributed among both men and women and they accepted it with gratitude. Just the next day I received a call from the very same cousin who criticized your work, demanding some of your English leaflets. Fortunately, he had read some of your leaflets through his brother-in-law , who was also in the marriage ceremony. This “criticizer” is a professor of botany at the Islamia College of Science and Commerce. He was very impressed by your literature and said that “These are golden words which were hidden from me till now. ” Finally, he asked me if I had some more English leaflets so that he can distribute them among the students of his college. (Zahoor Ahmad Mir, Kashmir)
I am very happy and thankful to Fathima Sarah, choosing for the work of Dawah in Pondicherry University. I received 50 copies of the Holy Quran, and almost 100 magazines (Spirit of Islam) I distributed 30 copies so for to the students and research scholars mostly non Muslims and they were all happy. (Mohd Amir Paray, Department of Food Science & Technology, Pondicherry University)
I am a retired government servant from Pakistan. I luckily got a copy of the Quran as a gift from IPIC, Birmingham. Two days back I completed the first study of this Quran. It is a wonderful and a very appropriate translation. The commentary is even more praiseworthy. I have studied many English translations, but I enjoyed reading this one the most. This commentary is different and unique in style. (Col. Muhammad Shahbaz, Pakistan )
Arun Shourie requests Indians to read Maulana Wahiduddin Khan's book Indian Muslims: The Need for a Positive Outlook. It is, he says: “one of the most important books written after independence” (NDTV, May 16, 2014)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.