قومی فخر نہیں
دورِ اوّل میںجو لوگ اسلام میں داخل ہوئے، اُن کے لیے اسلام ایک ذاتی دریافت (discovery) تھا۔ وہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت میں جینے والے لوگ تھے۔ تقریباً سو سال کے بعد مسلمانوں کی یہ پہلی نسل ختم ہوگئی۔ اِس کے بعد نسلی مسلمانوں کا دَور آیا۔
اِس دور کے لوگوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، اُس میںاہلِ اسلام کو سیاسی دبدبہ حاصل ہوچکا تھا۔پہلے دور میں اگر اسلام دریافتِ خداوندی کے ہم معنیٰ تھا تو دوسرے دور میں اسلام ایک پولٹکل ایمپائر کے ہم معنیٰ بن چکا تھا۔یہ دوسرا دور قریب ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس ہزار سال کے اندر مسلم فکر کا جو ارتقا ہوا، وہ خلافت کے نام پر سیاسی عظمت (political glory)پر مبنی تھا۔ اب مسلمانوں کے تمام ادارے، مسلم نسلوں کو فخر اور عظمت کا سبق دینے لگے۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بر تر سمجھنے لگے۔ بعد کی مسلم نسلوں میں، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ ذہن بن گیا کہ ہم ہر اعتبار سے دوسری قوموں سے افضل ہیں، دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔
مگر اٹھارھویں صدی عیسوی میں ایک نیا انقلاب آیا۔ قانونِ فطرت کے تحت، اب مسلم ایمپائر ٹوٹنے لگا۔ مسلمان زندگی کے ہر میدان میں دوسروں سے پیچھے جانے لگے۔ اب مغربی قوموں نے سیاسی اور تہذیبی برتری کا درجہ حاصل کرلیا۔ اچانک مسلمانوں کے ساتھ یہ فکری حادثہ پیش آیا کہ جس دنیا میں وہ دوسروں کے مقابلے میں برتری کے احساس میں جی رہے تھے، وہاں وہ مجبور ہوگیے کہ دوسروں کے مقابلے میں کم تری کے احساس میں زندگی گزاریں۔بیسویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں یہ صورتِ حال پوری طرح واضح ہوگئی۔ اُس وقت مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مصلحین (reformers) پیدا ہوئے، مگر اِس نیے مرحلے میںہمارے رہنماؤں سے یہ بھیانک غلطی ہوئی کہ وہ ردّعمل کی نفسیا ت کے ساتھ اُبھرے۔ میرے علم کے مطابق، اِس دَور کاکوئی ایک بھی مسلم رہنما ایسا نہیںہے جو ردّ عمل کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملے کو سمجھے اور خالص مثبت انداز میں مسلمانوں کو فکری رہنمائی دے۔
حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی ٔاقتدار کا یہ معاملہ، فطرت کے ایک قانون ( 3:140 )کے تحت ہوا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیامیں غلبہ واقتدار بھی، دوسری دُنیوی چیزوں کی طرح، امتحان کا ایک پرچہ (test paper)ہے۔ اقتدار کے اوپر کسی ایک قوم کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتی، وہ کبھی ایک قوم کے پاس رہے گا اورکبھی دوسری قوم کے پاس۔ فطرت کا یہی قانون تھا جس کا نفاذ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اوپر ہوا۔
ایسے وقت میں مسلم رہنماؤں کو صرف ایک کام کرنا تھا، وہ یہ کہ وہ مسلمانوں کے اندر خود احتسابی (introspection)کا مزاج پیدا کریں۔ وہ مسلمانوں کو اصلاح اور تعمیر اور استحکام کے داخلی کاموںمیں لگائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید تعلیم میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھائیں۔ وہ مسلمانوں کو جدید سائنس اور جدید صنعت اور تجارت کے میدان میں ترقی کرنے کا سبق دیں۔ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ سیاسی اقتدار کے باہر سیکڑوں قیمتی مواقع (opportunities)ہیں جو اُن کے لیے پوری طرح کھُلے ہوئے ہیں، اِس لیے انھیں چاہیے کہ وہ سیاسی ٹکراؤ کا راستہ چھوڑ کر پُرامن تعمیر کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ ماضی کو بھُلا کر مستقبل کی نئی تعمیر کو اپنا نشانہ بنائیں۔
اِس دَور کے مسلم رہنماؤں کے لیے ضروری تھا کہ وہ مسلمانوں کو تعمیری رہنمائی دیں، یعنی پُرامن طورپر داخلی تعمیر واستحکام کا راستہ بتانا۔ مگر ہر ایک نے مسئلے کو صرف ایک خارجی مسئلہسمجھا۔ ہر ایک نے مسلمانوں سے کہا کہ دوسرے لوگ ظالم اور غاصب ہیں تم اُن سے لڑ کر اپنے لیے زندگی کا حق حاصل کرو، یعنی انھوں نے تعمیری رہنمائی کے بجائے، عسکری رہنمائی دی۔ اِس معاملے میں عرب لوگوں کو اپنے موجودہ مزاج کے تحت صرف ایک ماڈل نظر آیا، اور وہ صلاح الدین ایوبی (وفات: 1193 ) کا ماڈل تھا۔ چناں چہ عرب ذہن کی نمائندگی کرتے ہوئے عرب شاعرالزرکلی نے کہا:
ہاتِ صلاح الدین، ثانیۃً فینا جدّدی حطّین، أوشبہ حطّینا
صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے پاس لاؤ، اور حطین کا معرکہ یا حطین جیسا معرکہ دوبارہ گرم کرو۔
امیر شکیب ارسلان (وفات: 1946 ) نے اپنی مشہور کتاب : لماذا تأخّر المسلمون وتقدّم غیرھم (1938) میں مسلمانوں کو دوبارہ عسکری معرکہ آرائی پر ابھارا ہے اور عسکری اقدام کو کامیابی کا راز بتایا ہے۔ اِس سلسلے میں انھوں نے حسب ذیل شعر نقل کیا ہے:
تأخّرتُ أستبقی الحیاۃَ، فلم أجد لنفسی حیاۃً، مثل أن أتقدّما
میں زندہ رہنے کے لیے (میدانِ جنگ) سے پیچھے رہا، لیکن میں نے اپنے لیے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لیے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض غیر مسلم مصنفین نے دورِ جدید کے مسلم ذہن کی جو تصویر پیش کی ہے، وہ عسکریت (militancy)کی تصویر ہے۔ اِس سلسلے میں رام موہن گاندھی نے اقبال کا یہ مصرعہ نقل کیا ہے:
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
اِس مصرعے کا انگریزی ترجمہ انھوںنے حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے:
For every vein of falsehood, every Muslim was a knife.
اِس دور کے تمام مسلم رہنما ردّ ِ عمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے تھے، اِس لیے وہ صرف منفی رُخ پر سوچتے رہے۔ انھوں نے انتہائی غیر دانش مندانہ طورپر یہ کیا کہ غیر مسلم قوموں کو اسلام دشمن قرار دے کر، مسلمانوں کو اُن سے متنفّر کردیا۔ مسلمان اِس قابل نہ رہے کہ وہ نئی ابھرتی ہوئی قوموں کے بارے میں مثبت رائے قائم کریں، وہ اُن سے نئی حقیقتوں کو سیکھیں۔
اِس نئی صورت حال کے پیش آنے کے بعد، اصل ضرورت یہ تھی کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ غیرمسلم اقوام کا کیس اُن کے خلاف دشمنی کا کیس نہیں، بلکہ وہ اُ ن کے لیے چیلنج کا کیس ہے۔ فطرت کے عمومی قانون کے تحت، اِن قوموں نے مسلمانوں کو چیلنج دیا ہے، اور اب مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ وہ مثبت ذہن کے ساتھ اِس کا سامنا کریں۔ وہ پورے معاملے پر نظر ثانی کرکے نئی منصوبہ بندی کے تحت دنیا میں دوبارہ اپنا مقام بنائیں۔ یہی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی تھی، مگر منفی نفسیات میں مبتلا رہنما مسلمانوں کو یہ صحت مند رہنمائی دے سکے اور پوری مسلم دنیا منفی سوچ اور غصہ اور نفرت میں مبتلا ہو کر رہ گئی۔
بیسویں صدی کے نصف اوّل میں پوری مسلم دنیا میں بڑی تعداد میں مسلم رہنما پیدا ہوئے، مگر اِن تمام مسلم رہنماؤں کا کیس مشترک طورپر وہی تھا جو اوپر بیان ہوا۔ عرب دنیا میں اِس زمانے میں سیدجمال الدین افغانی، سید قطب، امیر شکیب ارسلان، وغیرہ نے یہی کام کیا۔
میرے علم کے مطابق، رہنماؤں کی لمبی فہرست میں کوئی بھی اِس معاملے میں استثنا (exception)کی مثال نہیں۔ یہ منفی رہنمائی مسلمانوں کو جہاد کے نام پر تشدد تک لے گئی، اور جب مسلمان دوسروں کو ہلاک کرنے پر قادر نہ ہوسکے تو انھوں نے خود کُش بم باری (suicide bombing) کے ذریعے خود اپنے آپ کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔
اِس صورت حال کا ایک انوکھا ظاہرہ وہ ہے جس کو میں نظر یاتی خود فریبی سے تعبیر کروں گا۔ موجودہ زمانے میں آپ کو بہت سے مسلمان ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم کو سید قطب کی تحریروں اور ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں اور احمد دیدات کے کیسیٹس کے ذریعے نیا ایمان حاصل ہوا ہے۔ اِن حضرات کے افکار سے ہم کو دوبارہ اسلام ملا ہے، ورنہ ہم اسلام سے دور چلے گیے تھے۔
میںنے اِن حضرات کے کیس پر بہت غور کیا۔ میرے نزدیک یہ مسلم رہنما منفی خوراک دیتے ہیں، نہ کہ مثبت خوراک۔ پھر کیسے ایسا ہوا کہ اُن کی باتوں سے کچھ لوگوں کو مثبت اسلام مل گیا۔ اِس قسم کے بہت سے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوئیں۔ گہرے جائزے کے بعد آخری طورپر جوبات میری سمجھ میں آئی، وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو چیز ملی ہے، وہ قومی اسلام ہے نہ کہ حقیقی اسلام۔ بیسویں صدی میں بہت سے مسلمان، خاص طورپر مسلم نوجوان، اِس احساس میں جی رہے تھے کہ دوسری قوموں نے اُن کا قومی فخر اُن سے چھین لیا ہے۔ مسلّح جہاد کے باوجود وہ اپنے اِس قومی فخر کو دوبارہ حاصل نہ کرسکے۔
اِس دوران میں یہ ہوا کہ کچھ ایسے لوگ نکلے جوالفاظ کی دنیا میں ان کے جذباتِ فخر کی تسکین فراہم کررہے تھے۔ کسی نے بتایا کہ مغرب کی سائنسی ترقی مسلم دماغوں کی خوشہ چینی کے ذریعے ہوئی ہے۔ کسی نے مسلمانوں کی سیاسی فتوحات پر کتابیں لکھ کر اُن کو ماضی کی عظمت دوبارہ یاد دلائی۔ کسی نے بتایا کہ اسلام کا نظام دنیا کے تمام نظاموں سے زیادہ اعلیٰ اور برتر(superior) ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب ایک ایسا درخت ہے جو صرف زہریلے پھل دے سکتا ہے۔ کسی نے بتایا کہ مغربی تہذیب اپنی موت آپ مررہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو دوبارہ ان کا بلند مقام حاصل ہوجائے۔ کسی نے بتایا کہ دنیا کا اسٹیج مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance)کا انتظار کررہا ہے:
اُٹھ، کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
موجودہ زمانے میں شاعروں اور خطیبوں اور انشا پردازوں کے علاوہ، ایک اور طبقہ پیداہوا جس کو مسلم ڈبیٹر (مُناظر) کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے شان دار اسٹیج بنائے اور وہاں پُرجوش تقریریں کیں۔ انھوںنے ٹی وی کے اسکرین پر مناظرانہ مظاہرے کیے۔ انھوں نے مسلم نفسیات کو یہ کہہ کر فرضی فتوحات کی خوراک دی کہ — اِن سب کو بُل ڈوز کردو:
Bulldoze them all.
یہ مسلم ڈبیٹر اِس آخری حد تک گیے کہ جب مسلمانوں کو ٹررسٹ (terrorist)کہاگیا تو انھوںنے کہا کہ ہاں، ہم ٹررسٹ ہیں۔ مگر ہم پولس کی طرح مجرمین کے لیے ٹررسٹ ہیں:
Every Muslim should be a terrorist. A terrorist is a person who causes terror. The moment a robber sees a policeman, he is terrified. A policeman is a terrorist for the robber. Similarly, every Muslim should be a terrorist for the anti-social elements of society, such as thieves, dacoits and rapists.
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم کو قطب اور اقبال اور مودودی اور احمد دیدات کے ذریعے اسلام ملا، وہ دراصل ایک شدید قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔وہ قومی اسلام کو ربّانی اسلام کا درجہ دے رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوںنے اِن حضرات کے ذریعے اپنے قومی فخر کو دوبارہ حاصل کرلیا، مگر غلط فہمی کی بنا پر انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ اُن کو حقیقی اسلام حاصل ہوگیا ہے۔
اِسی قسم کے ایک مسلمان سے2007 میں میری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ اُن کے والدین شام سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر وہ شام کو چھوڑ کر ترکی گئے۔ پھر ترکی سے وہ آسٹریلیا منتقل ہوگیے۔ اِس وقت یہ فیملی آسٹریلیا میںرہ رہی ہے۔ مسٹر مرادکی تعلیم آسٹریلیا کے اسکول اور کالج میں ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ یہ اسکول ایک کرسچن اسکول تھا۔ وہاں انھیں بتایا جاتا تھا کہ عیسائیت (Christianity)زیادہ اچھا مذہب ہے، اور اسلام اُس کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔
وہ اسلام کی اِس منفی تصویر سے سخت پریشان تھے۔ پھر انھیں احمد دیدات جیسے لوگوں کو سننے کا موقع ملا۔ اِس سے اُن کے ذہن میں اسلام کی عظمت (glory)دوربارہ لوٹ آئی۔ وہ اسلام کو اپنے لیے فخر کی ایک چیز سمجھنے لگے۔ پھر اسی مجلس میںانھوں نے بتایاکہ میں تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ گیا تھا۔ مجھے تاج محل دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ میں نے سوچا کہ تاج محل کو بنانے والے مسلمان تھے، مگر آج ہندو لوگ اُس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کی اِس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو احمد دیدات جیسے لوگوں کے ذریعے جو اسلام ملا ہے، وہ اسلام نہیں ہے، بلکہ صرف قومی فخر ہے۔ اگر آپ کو حقیقی اسلام ملا ہوتا تو آپ تاج محل کے بارے میں اِس قسم کی منفی بات نہ کہتے۔ پھر میں نے کہا کہ آپ کو انڈیا میں صرف تاج محل دکھائی دیا۔ انڈیا میںاس کے مقابلے میں ہزاروں گنا زیادہ بڑی چیز موجو ہے، اور وہ دعوتی عمل کی آزادی ہے۔ تاج محل کو لے کر آپ کا ذہن منفی سوچ کا شکار ہوگیا، حالاں کہ اگر آپ انڈیا میں موجود دعوتی مواقع کو لے کر سوچتے تو آپ کا دل شکر کے جذبات سے بھر جاتا۔
میرے تجربے کے مطابق، یہی اُن تمام لوگوں کا معاملہ ہے جو شاعروں اور مُناظروں کی باتوں کو سُن کر یہ سمجھتے ہیں کہ انھوںنے اسلام کو پالیا ہے، حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو انھوںنے دریافت کیاہے، وہ اسلام کے نام پر محض فخر (pride)ہے۔ اور فخر صرف ایک مذموم چیز ہے، نہ کہ کوئی پسندیدہ چیز۔کسی آدمی نے حقیقی اسلام کو پایا ہے یا نہیں، اُس کا معیار صرف ایک ہے، اور وہ فکرِآخرت ہے۔ جس آدمی کا اسلام اُس کے اندر گہرے طورپر آخرت کی فکر پیدا کردے، اُسی نے فی الحقیقت اسلام کو پایا۔ جس آدمی کا اسلام اُس کو جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نہ دکھائے، اُس نے اسلام کو پایا ہی نہیں۔اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے اسلام کو پالیا ہے۔
اسلام کا آغاز، خدا کی معرفت سے ہوتا ہے۔ خداکی معرفت ایک ایسی بالا تر ہستی کی معرفت ہے جو انسان کا خالق ہے، جو انسان کا مالک ہے، جس نے انسان کو زندگی کے تمام سامان دیے ہیں۔ جب انسان خدا کو دریافت کرتاہے تو اُسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ انسان کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ خدا کا یہ تخلیقی نقشہ اُس کو بتاتا ہے کہ دنیا میں جو سامانِ حیات اُس کو ملے ہوئے ہیں، وہ سب کے سب امتحان کے پرچے ہیں۔ یہ چیزیں اُس کو حق کے طورپر نہیں ملی ہیں، بلکہ وہ اِس لیے ملی ہیں کہ اُن کے ذریعے انسان کو جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ جہنم کی سزا کے قابل ہے، یا جنت کے انعام کے قابل۔
یہ دریافت اُس کو آخری حد تک تڑپا دیتی ہے۔ دنیا کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے ہروقت اُس کو قرآن کی یہ آیت یاد آتی ہے : ثمّ لتسئلن یومئذ عن النّعیم( 102:8 )یعنی پھر یقیناً تم سے اُس دن نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ پھر خدا کی معرفت اور جنت اور جہنم کا یقین اور مواخذۂ آخرت (accountability)کا شدید احساس، اُس کو ایسا بنا دیتا ہے کہ اِس دنیا میںمیرا کوئی حق (right)نہیں، یہاں میری صرف ذمّے داریاں ہی ذمّے داریاں ہیں۔
یہ احساس اُس کو آخری حد تک فرض شناس (duty conscious) بنا دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک ایسا ذہن بنتا ہے جس میں دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی ذمّے داریوں کو سوچتا ہے، نہ کہ دوسروں کی کوتاہیوں کو۔ اُس کی نظر ہمیشہ اپنی غلطیوں پر ہوتی ہے، نہ کہ دوسروں کی زیادتیوں پر۔ اُس کا دل دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھر جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں