مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953) مشہور عالم اور مصنف تھے- ان کے صاحب زادے ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے دارالعلوم ندوة العلما (لکھنؤ) میں اپنے والد کے بارے میں ایک تقریر کی- انھوں نے بتایا کہ مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے نام ایک خط میں اپنے بارے میں لکھا تھاکہ: ’’یورپ کے مذہبی وعلمی حملوں کے مقابلے میں، اسلام کی خدمت کا ولولہ ہے، اور اب تک پچیس برس کا زمانہ اِنھیں مشاغل میں گزرا‘‘- (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، فروری 2010، صفحہ
اِن الفاظ میں جس ذہن کا بیان ہے، وہی ذہن موجودہ زمانے کے تمام مسلم علما کے اندر پایا جاتا ہے، عرب علما کے اندر بھی اور غیر علما کے اندر بھی-وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے مسلم علما نے مغرب کو صرف اِس حیثیت سے جانا کہ وہ اسلام کے خلاف حملوں کا مرتکب ہے- حالاں کہ یہ تمام تر خود مسلم علما کی اپنی منفی سوچ کا نتیجہ تھا، وہ مغرب کی اسلام دشمنی کا نتیجہ نہ تھا-
مغربی قوتوں کی نسبت سے دوسرے دو اہم پہلو تھے جن سے مسلم علما بالکل بے خبر رہے- ایک یہ کہ مغربی لوگ بالفرض اگر اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں مخالفانہ جذبات رکھتے ہوں، تب بھی ان کی حیثیت مدعو کی ہے- ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربی قوموں کے مخالفانہ رویّے کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کو مثبت انداز میں اسلام کی دعوت پہنچائیں، اور انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ان کی اصلاح کے طالب ہوں-
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے علما نے مغربی اقوام کو صرف نوآبادیاتی اقوام کے ہم معنی سمجھ لیا، حالاںکہ اِن اقوام کی ایک اور حیثیت تھی جو اِس سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی، وہ یہ کہ اِن مغربی اقوام نے تاریخ میں پہلی بار اُس علم کو پیدا کیا جس کو جدید سائنس کہاجاتا ہے- جدید طبیعی سائنس اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے عین وہی چیز تھی جس کو قرآن میں آفاق وانفس (
پرنٹنگ پریس کے زمانے میں مسلم سیرت نگاروں نے کثرت سے سیرت پر کتابیں لکھیں ہیں- یہ کتابیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئی ہیں- لیکن ان کا جائزہ لیجئے تو غالباً سیرت کے موضوع پر کوئی ایک قابلِ ذکر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں پیغمبر کی داعیانہ حیثیت کو بنیادی حیثیت سے نمایاں کیاگیا ہو- جس میں رسول اللہ کے اسوۂ دعوت کو اصل حیثیت دے کر بیان کیاگیا ہو- یہ ایک ایسی کمی ہے جو موجودہ زمانے کے تمام مسلم سیرت نگاروں کے یہاں پائی جاتی ہے- اس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ ان سیرت نگاروں نے سیرت رسول کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے نہیں کیا کہ وہ آپ کے اصل داعیانہ منصب کو اجاگر کریں-
اِسی معاملے کو میں نے اپنے ایک تجربے سے سمجھا ہے- میں1964-66 کے دوران لکھنؤمیں تھا- میرا معمول تھا کہ میں روزانہ شام کو آچاریہ نریندر دیو لائبریری جاتا جو وہاں گومتی ندی کے کنارے واقع تھی- اس لائبریری کی اوپری منزل پر ایک ہال تھا- اس میں بہت سی میزیں تھیں- ان میزوں کے اوپر انگلش اور ہندی کے تمام اخبارات رکھے جاتے تھے- میں دیکھتا تھا کہ نوجوان لڑکے بڑی تعداد میں وہاں آتے اور دیر تک اخباروں کو الٹ پلٹ کردیکھتے- میں نے ایک روز اُن میں سے بعض لڑکوں سے گفتگو کی اور ملک کے سیاسی حالات پر اُن کا نقطہ نظر جاننا چاہا، مگر معلوم ہواکہ وہ سیاسی یا نیشنل موضوعات سے بے خبر تھے- ان موضوعات پر وہ اپنی کوئی رائے نہ دے سکے-مزید تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ یہ نوجوان حقیقةً اخبار پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ اخبار میں جاب کے اشتہارات پڑھنے کے لئے آتے ہیں- چناںچہ وہ اخبارات میں امپلائمنٹ کالم (employment column) کو دیکھتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں-
تقریباً یہی حال مسلم سیرت نگاروں کا ہے- وہ جس ذہن(mindset) کو لے کر سیرت کی کتابیں پڑھتے ہیں، وہ اصلاً دعوت کا ذہن نہیں ہوتا- اس لئے انھیں اپنے ذہن کے مطابق زیادہ تر دوسری چیزیں ملتی ہیں اور اس کو وہ نمایاں طورپر بیان کرتے ہیں- مثلاً مصر کے حسین ہیکل کے ذہن پرمستشرقین کی باتوں کا غلبہ تھا چنانچہ سیرت کے موضوع پر ان کی عربی کتاب ’حیات محمد‘ کا تقریباً نصف حصہ مستشرقین کے جوابات پر مشتمل ہے-
تقریباً یہی معاملہ دوسرے مسلم سیرت نگاروں کا ہے- جنھوں نے فخر کی نفسیات کے تحت سیرت کا مطالعہ کیا، انھوں نے سیرت کو فخر کے انداز میں بیان کیا- جو مولفین سیاسی ذہن کے مالک تھے، انھوں نے سیرت کو سیاست وحکومت کے نمونہ (pattern) پر ڈھال دیا- جو لوگ فقہی مسائل کو اہمیت دیتے تھے، انھوں نے رسول اللہ کی سیرت کو ایک قسم کی فقہی سیرت بنا دیا- جو لوگ کرامات اور معجزات کا مزاج رکھتے تھے، انھوں نے سیرت رسول کو اس طرح مرتب کیا کہ سیرت کی کتاب کرامات اور معجزات کا مجموعہ بن گئی- جہاں تک دعوت کا سوال ہے ،وہ جزئی طورپر نسبتاً غیر اہم انداز میں ضرور موجود ہے، لیکن اس طرح نہیں کہ قاری جب سیرت کی کتاب کو پڑھ کر ختم کرے تو اس کے اندر یہ سوچ پیدا ہوجائے کہ میرے لیےپیغمبر اسلام کی پیروی کا سب سے بڑا خارجی میدان یہ ہے کہ میں آپ کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچاؤں- دوسری قوموں کو مدعو سمجھوں اور ان کے خلاف شکایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ پوری خیر خواہی کرتے ہوئے پیغام رسانی کا کام انجام دوں-
ڈاکٹر سید سلمان ندوی کی معلوماتی تقریر میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914) نے اپنے مرض الموت کے آخری دنوں میں اپنے شاگرد مولانا سیدسلیمان ندوی کو بلایا اور اُن سے کہا کہ ’’سیرت میری تمام عمر کی کمائی ہے- سب کام چھوڑ کر سیرت تیار کرو-‘‘ (صفحہ
مولانا سید سلیمان ند وی نے اپنی کتاب ’’حیاتِ شبلی‘‘ میں استاذ کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’انھوں نے اپنی زندگی میں اور اپنی زندگی کے بعد بھی بہ شکلِ وصیت اس کو (مجھ کو) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکارِ اقدس میں، جہاں وہ سب سے آخر میں پہنچے تھے، سب سے اول پہنچایا‘‘(صفحہ
مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی- دونوں نے سیرتِ رسول کے موضوع پر اپنی زندگیاں وقف کردیں، لیکن عجیب بات ہے کہ دونوں میں سے کسی نے بھی اِس حقیقت کو نہیں سمجھا کہ رسول اللہ کی اصل حیثیت یہ تھی کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچانے والے تھے- وہ تمام انسانیت کے لیے بشیر و نذیر تھے- رسول اللہ کے ساتھ محبت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ کی سنتِ دعوت کو زندہ کیا جائے، لیکن مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی دونوں جذبۂـ محبت کے باوجود جذبۂ دعوت سے خالی رہے-
یہی دوسرے مسلم علما اور مسلم رہنماؤں کا حال ہے- وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی حد تک تعلق کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ہر ایک کا یہ حال ہوا کہ وہ اِس بات سے بے خبر رہا کہ رسول اللہ سے تعلق کا اصل تقاضا کیا ہے، وہ بلا شبہہ یہی ہے کہ رسول اللہ کی سنت ِ دعوت کو زندہ کیا جائے اور ہر دور کے انسانوںکو اس کا مخاطب بنایا جائے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے دعوتی مشن کو ہر دور میں زندہ رکھا جائے- یہی دعوتی فریضہ ہے جس کو نہ مسلم سیرت نگاروں نے سمجھا اور نہ اُس کے لیے کوئی کام کیا-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ المائدہ میں یہود کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ ۭقُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ (
قرآن کی اِس آیت میں عذاب کا لفظ آسمانی عذاب کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ یہود کے ساتھ غیر یہودی قوموں کی طرف سے پیش آنے والے ’’مظالم‘‘ کے بارے میں ہے- اِس نوعیت کی دو مثالیں سورہ بنی اسرائیل میں مذکور ہیں- (ملاحظہ ہو:
سورہ المائدہ کی مذکورہ آیت میں یہود کے حوالے سے ایک خدائی قانون کو بتایا گیا ہے- اِس قانون کا تعلق جس طرح امتِ یہود سے تھا، اُسی طرح اس کا تعلق بعد کی امت سے بھی ہوگا- اِس قانون کے معاملے میں کسی امت کا کوئی استثنا نہیں-
اِس قانونِ الہی کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر منطبق کیجئے- موجودہ زمانے کے مسلمان تقریباً دو سو سال سے اُس سیاست کو اختیار کیے ہوئے ہیں جس کو احتجاجی سیاست کہا جاسکتا ہے- اُن کو شکایت ہے کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ظلم کررہی ہیں-
اِن’’ظالموں‘‘ کے خلاف مسلمان مسلسل جہاد کررہے ہیں- مگر نتیجہ (result) کے اعتبار سے دیکھئے تو موجودہ مسلمانوں کا یہ منفی جہاد مکمل طورپر ناکام ہے- اُن کی بد دعائیں قبول نہیں ہوئیں، ان کے ہتھیار موثر ثابت نہیں ہوئے، اُن کی جانی اور مالی قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں- قرآن کی مذکورہ آیت میں جو معیار بتایا گیاہے، اس کی روشنی میں دیکھئے تو یہ کوئی سادہ بات نہیں- وہ اِس بات کی علامت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو اللہ کی نصرت حاصل نہیں ہوئی، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی نصرت کے بغیر اِس دنیا میں کسی شخص یا گروہ کوکامیابی ملنے والی نہیں-
واپس اوپر جائیں
یہود کی ایک روش کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا(
اِس آیت میں ’قرطاس‘ سے مراد کاغذ یعنی ایک مادی چیز ہے اور جس چیز کو انھوں نے ظاہر کیا اور چھپایا، وہ ایک معنوی چیز تھی- اِس آیت میں بظاہر ایک مادی تقطیع کا ذکر ہے، لیکن اس سے مراد مادی تقطیع نہیں، بلکہ معنوی تقطیع ہے-
یہ وہ واقعہ ہے جو یہود کے دورِ زوال میں پیش آیا، وہ تقطیع (separation)یہ تھی کہ انھوں نے دینِ خداوندی کی اسپرٹ کو اس کے فارم سے جدا کردیا- ان کے علما اور مشائخ (احبار ورہبان) دینِ خداوندی کے فارم کا خوب چرچا کرتے تھے، لیکن دین ِ خداوندی کی اسپرٹ کا کوئی چرچا ان کے یہاں نہیں تھا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دین ِ خداوندی جو اصلاً مبنی بر اسپرٹ دین تھا، وہ عملاً مبنی بر فارم (form-based) دین بن گیا-
یہ جو کچھ ہوا، وہ اصلاً ’’یہودیت‘‘ کا ظاہرہ نہیں تھا، بلکہ وہ دورِ زوال کا ظاہرہ تھا- ہر امت کے ساتھ اس کے دورِ زوال میں یہی واقعہ پیش آتا ہے، حتی کہ خود امتِ مسلمہ کے ساتھ بھی-
قرآن کی اِس آیت کا شانِ نزول جاننا ہو تو آپ بائبل کا مطالعہ کیجئے- بائبل کے مطالعے سے یہ بات تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ یہود نے تعلیماتِ الہیہ میں اِس قسم کی تقطیع کردی تھی- وہ دین ِخداوندی کے معنوی پہلو کو چھوڑے ہوئے تھے اور دین کے ظاہری پہلو کو اِس طرح بیان کرتے تھے جیسے کہ وہی اصل دین ہے-
یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت مسیح نے تمثیل کی زبان میں اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: اے اندھے راہ بتانے والو، تم مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو(Matthew 22: 1 ) -
واپس اوپر جائیں
عرب میں اسلام سے پہلے جو دور تھا، اُس کو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے- اِس دور میں عرب قبائل میں شعر وشاعری کا رواج تھا- عام طورپر لوگ شعر کی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے- یہ اشعار ابتداء ً مخطوطات کی شکل میں تھے- چھپائی کازمانہ آیا، تو اِن اشعار کے مجموعے کتابی شکل میں چھپ کر عام ہوگئے- مثال کے طورپر دیوان الحماسہ، جمہرةُ اشعار العرب، سبعہ معلّقہ کے شعرا کے دواوین، وغیرہ- اسلام کے ظہور کے بعد عرب میں شعر وشاعری کا زور ختم ہوگیا-
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کا اصل ذریعہ یہی کلام ِ عرب ہے- قرآن اِسی عربی زبان میں اترا تھا، اِس لیے قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ دورِ جاہلیت کے شعرا کے کلام کو گہرائی کے ساتھ پڑھا جائے اور اِس سے عربی اسالیب کو سمجھا جائے، اِس کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں- یہ لوگ اِس حد تک جاتے ہیں کہ پوری تاریخ میں کسی نے قرآن کو نہیں سمجھا، کیوں کہ انھوں نے عرب جاہلیت کے کلام کو بنیاد بنا کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی- یہ بلاشبہ ایک بے اصل بات ہے-
اِس نظریے کو درست ماننے کے لیے یہ فرض کرنا پڑے گا کہ نزولِ قرآن کے وقت وہ عربی زبان ختم ہوگئی تھی جس میں قرآن اتارا گیا تھا- اِس بنا پر دورِ اوّل کے جن لوگوں نے قرآن کی تفسیر کی، وہ اصل عربی زبان سے ناواقف ہوچکے تھے- یہ بات بداہةً غلط ہے- جیسا کہ معلوم ہے، دورِ اول میں جوتفسیریں لکھی گئیں، وہ احادیثِ رسول اور صحابہ وتابعین کے اقوال پر مبنی ہوتی تھیں- یہ سب لوگ وہ تھے جن کی مادری زبان وہی عربی تھی جس میں قرآن اتارا گیا- جس زبان کو آج کا کوئی عالم ، قدیم اشعارِ عرب کو پڑھ کر جانتا ہے، اس کو براہِ راست طورپر دورِ اول کے لوگ خود اُس ماحول سے جان لیتے تھے جس میں وہ پیدا ہوئے تھے- یہی عربی زبان ان کی مادری زبان تھی-
قرآن فہمی کے لیے کلامِ عرب کا مطالعہ جزئی طورپر درست ہے، مگر اس کو اساسی اہمیت کا درجہ دینا درست نہیں- اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ قرآن فہمی کے اصول کو خود قرآن سے اخذ کیا جائے، نہ کہ ذاتی مفروضات کے ذریعے- قرآن جس طرح اسلام کی تعلیمات کو جاننے کا ذریعہ ہے، اُسی طرح وہ اِس بات کو جاننے کا ذریعہ بھی ہے کہ قرآن کے لیے بنیادی طورپر کن چیزوں کی اہمیت ہے-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ وہ عربی مبین (
اِس سلسلے میں دوسری چیز انسان کی وہ فطرت ہے جس پر اللہ نے اُس کو پیدا کیا ہے (
قرآن کو اس کے گہرے معانی کے ساتھ سمجھنے کے لیے نہ تنہا عربی زبان کافی ہوسکتی ہے اور نہ تنہا فطرتِ انسانی سے واقفیت- عربی زبان سے واقفیت آدمی کے اندر متن شناسی کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور فطرتِ انسانی سے واقفیت آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ قرآن کے معانی تک رسائی حاصل کرسکے- فطرتِ انسانی سے واقفیت کے بغیر لسانی مہارت صرف ایک فنی مہارت ہے اور محض فنی مہارت قرآن فہمی کے لیے ہرگز کافی نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک مفکر (thinker) کا ایک با معنی قول اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہےکہ— انسان کی زندگی ’کاما‘ سے بھری ہوئی ہے، زندگی میں کبھی ’فل اسٹاپ‘ نہیں آتا:
Life is full of ‘commas’, there is no ‘fullstop’ in life.
یہ قول زیادہ بہتر طور پر ذہنی ارتقا کے معاملے میں صادق آتا ہے- انسان کا ذہن اپنے اندر لامحدود صلاحیت رکھتا ہے- یہ صلاحیتیں مسلسل طور پر انفولڈ (unfold) ہوتی رہتی ہیں- یہ ایک لامتناہی عمل (unending process) ہے- آدمی کا ذہن اگر کہیں اٹکا ہوا نہ ہو تو یہ عمل اس کے اندر اپنے آپ جاری رہے گا- انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی پوری عمر کے لیے متعلم اور متلاشی (seeker) بنا رہے، وہ کھلے ذہن کے ساتھ چیزوں کو دیکھے، وہ بلا تفریق ہر چیز کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کرے، وہ اپنے آپ کو ہمیشہ طالب سمجھے، اس کی تلاش ایک ایسی تلاش ہو جو ہمیشہ جاری رہے، اُس کے لیے کبھی فل اسٹاپ نہ آئے-ابدی طلب کا یہ مزاج مومن کے اندر کامل معنوں میں پایا جاتا ہے- مومن کے لیے صرف اللہ کے کلام کی حیثیت فائنل ورڈ (final word) کی ہوتی ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو یہ درجہ حاصل نہیں- اِس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کا ذہن اُس طرزِ فکر سے بالکل خالی ہوتا ہے جس کو دورِ جاہلیت کے ایک شاعر عنترہ العبسی (وفات: 600ء) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — شعرا نے پیوند لگانے کے بقدر بھی کوئی جگہ باقی نہیں چھوڑی:
ہل غَادَرَ الشعراءُ من مُتَرَدَّمِ
یعنی جو کچھ کہنے کی بات تھی، وہ سب کہی جا چکی ہے، اب اُس پر نقد یا اضافے کی کوئی گنجائش باقی نہیں- یہ ذہن آدمی کے اندر سے تخلیقیت (creativity) کو ختم کردیتا ہے- اِس کے فطری نتیجے کے طورپر ایسی سوچ رکھنے والے لوگ ذہنی جمود کا شکار ہوجاتے ہیں- مومن اِس قسم کی متعصبانہ سوچ سے مکمل طورپر خالی ہوتا ہے، اِس لیے اُس کے ذہن میں فکری ارتقا کا عمل کبھی نہیں رکتا، وہ زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے-
واپس اوپر جائیں
عبد اللہ بن وہب مصری (وفات:
یہ کہنا کہ ’’میں نہیں جانتا‘‘ (لاأدری) کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک گہری حکمت (deep wisdom) کی بات ہے- ’’میں نہیں جانتا‘‘ کہنا ایک عظیم نفسیاتی حقیقت کی علامت ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک سوچنے والا انسان ہے، وہ مسلسل طورپر غور وفکر میں مشغول ہے- جو آدمی نہ بولے، وہ سوچ رہا ہے- جو آدمی جواب نہ دے، وہ سوال پر غور کررہا ہے-
کسی آدمی کے لیے فطرت کا سب سے بڑا تحفہ اس کا ذہن ہے- کسی آدمی کے لیے سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ اس کے ذہن میں مسلسل طور پر تفکیری عمل (thinking process) جاری رہے- تفکیری عمل سے آدمی کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) آتی ہے، اُس کے اندر مسلسل طورپر ذہنی ارتقا (intellectual development)کا عمل جاری رہتا ہے-
یہی ذہنی ارتقا وہ چیز ہے جو انسان کی تمام اعلی ترقیوں کی ضامن ہے- ذہنی ارتقا انسان کو انسان بناتا ہے- جس شخص کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہ ہو، وہ بظاہر انسان ہوگا، لیکن بہ اعتبار حقیقت وہ حیوان کی مانند بن کر رہ جائے گا-
کم بولنے کا مطلب ہے زیادہ سوچنا- میں نہیں جانتا کا مطلب ہے زیادہ غور کرنا- اِسی طرح چپ رہنا زیادہ سنجیدگی (sincerity)کی علامت ہے — یہی وہ صفات ہیں جو ایک عام انسان کو اعلی انسان بناتی ہیں-
واپس اوپر جائیں
احیاءِ ملت کے سلسلے میں عام طورپر یہ بات کہی جاتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو دوبارہ زندہ ملت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کو ان کا ماضی یاد دلایا جائے- کہاجاتا ہے کہ — اقوام وملل کی تاریخ اِس بات پر گواہ ہے کہ جو قوم اپنے ماضی سے کٹ جائے، وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر پاتی- اِس نقطہ نظر کےمطابق، موجودہ مسلمانوں کا احیاءِ نو اِس لیے نہیں ہوا کہ اس کے رہنماؤں نے اُن کارشتہ ماضی سے نہیں جوڑا-
یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے- حقیقت اِس کے برعکس یہ ہے کہ پچھلے دو سوسال میں پوری مسلم دنیا میں جو رہنما اٹھے، اُن سب نے بلا استثنا یہی ایک کام کیا کہ انھوں نے مسلمانوں کو ان کے ماضی کی تاریخ مبالغہ آمیز اندازمیں یاد دلائی، تاکہ حال میں انھیں اِس گزری ہوئی تاریخ کے اعادے پر ابھارا جائے- مگر عملاً یہ تدبیر سر تاسر ناکام رہی- اِس سلسلے میں مسلم رہنماؤں کی تمام کوششیں بے نتیجہ ہو کر رہ گئیں-
ایسی حالت میں اصل سوال ماضی کی تدبیر پر نظر ثانی کرنے کا ہے، نہ کہ مذکورہ قسم کی پر جوش تحریر وتقریر کرنے کا- مگر عجیب بات ہے کہ اکیسویں صدی کے تمام مسلم رہنما تقریباً وہی بات کہہ رہے ہیں جس کی ایک مثال مذکورہ نقطہ نظر میں پائی جاتی ہے-
ایسا کیوں ہے- اِس کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے — فقدانِ نتیجہ کو فقدانِ عمل کے ہم معنی سمجھ لینا، کیوں کہ پچھلی دو سو سالہ کوششوں کا کوئی مطلوب نتیجہ نہیں نکلا، اِس لیے ہمارے رہنما مزید بے شعوری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے لیے مطلوب عمل نہیں کیاگیا-
اِس معاملے میں رہنماؤں کی اصل غلطی یہ ہے کہ اُن کی تشخیص درست نہ تھی، کسی قوم کی تعمیر کا راز یہ ہے کہ اس کو حال سے باخبر کیا جائے- ماضی کی کہانیاں سنانے کا کوئی فائدہ نہیں- ماضی کی کہانیوں سے صرف فرضی فخر (false pride) کا مزاج بنتا ہے، جب کہ حال کے بارے میں باشعور ہونے سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، یعنی وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اس کے مطابق، منصوبہ بند جدوجہد کرنا-
واپس اوپر جائیں
ہارون رشید عباسی دور کا پانچواں خلیفہ ہے- وہ
’’وذُکر أن یہودیاً کانت لہ حاجة عندہارون الرشید، فاختلف إلى بابہ سنةً ، فلم یقض حاجتہ، فوقف یوماً على الباب- فلما خرج ہارون سعى حتى وقف بین یدیہ وقال: اتق اللہ یا أمیر المؤمنین، فنزل ہارون عن دابتہ وخرّ ساجداً- فلما رفع راسہ أمر بحاجتہ فقضیت- فلما رجع قیل لہ: یا أمیر المؤمنین، نزلت عن دابتک لقول یہودیّ- قال: لا، ولکن تذکرتُ قولَ اللہ تعالى: وإذا قیل لہ اتق اللہ أخذتہ العزة بالإثم، فحسبہ جہنم، ولبئس المہاد‘‘- (تفسیر القرطبی،
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ ایک یہودی تھا جس کو ہارون رشید سے ایک کام تھا- وہ شخص اِس کام کے لیے خلیفہ کے دروازے پر ایک سال تک جاتا رہا، مگر خلیفہ نے اس کی ضرورت پوری نہ کی، پھر ایک دن وہ یہودی، خلیفہ کے دروازے پر کھڑا ہوگیا- جب ہارون رشید باہر نکلا تو وہ شخص تیزی سے آکر خلیفہ کے سامنے کھڑا ہوگیا، اور کہاکہ اے امیر المومنین، اللہ سے ڈرئیے-
یہ سن کر ہارون رشید اپنی سواری سے اترا اور سجدے میں گر پڑا- پھر ہارون رشید نے سجدے سے سراٹھایا اور اس نے حکم دیا اور یہودی کی ضرورت پوری کردی گئی- پھر جب ہارون رشید لوٹا تو اس سے کہا گیا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ ایک یہودی کے قول پر اپنی سواری سے اتر گئے- ہارون رشید نے کہا کہ نہیں، بلکہ مجھے اللہ تعالی کا یہ قول یاد آیا: وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ۭ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ (
واپس اوپر جائیں
اللہ کا ایک خصوصی منصوبہ قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (
قرآن کی اِس آیت میں ’ہدی‘ سے مراد آئڈیالوجی (divine ideology)ہے اور ’دین‘ سے مراد اِس آئڈیالوجی پر مبنی طریقِ زندگی(way of life)ہے- اللہ نے ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعے ہدایت اور دین بھیجا، لیکن اس کے بعد انسان اُس میں تبدیلی کرتا رہا، یہاں تک کہ دینِ خداوندی کا اصل ورزن (original version) باقی نہیں رہا، بلکہ دینِ خداوندی کے نام پر ایک خود ساختہ انسانی ورزن وجود میں آگیا- اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ابدی طورپر دینِ خداوندی کا صحیح ورزن وجود میں آئےاور اس کو تاریخ میں پوری طرح محفوظ کردیاجائے-
تمام ادیان پر اظہار ِ دین کا مطلب کسی قسم کا سیاسی غلبہ نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دینِ خداوندی کی تصویر بے آمیز صورت میں انسان کے سامنے آجائے- اِسی طرح اتمامِ نور کا مطلب بھی کسی سیاسی نظام کا نفاذ نہیں، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدائی دین کی تصویر کو بگاڑنا چاہتا ہے، مگر اللہ کا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ وہ خدائی دین کو اس کی اصل صورت میں محفوظ کردے- اللہ نے انسان کو مکمل آزادی عطا کی ہے- اللہ نے اپنی سنت کے مطابق، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے حفاظتِ دین کے اِس منصوبے کو انجام دیا-
فکری بنیاد کی اہمیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں ہوا- آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ صحابہ کی صورت میں ایک طاقت ور ٹیم بنائیں- اِس طرح آپ نے اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی محنت کے ذریعے وہ کام انجام دیا جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اظہارِ دین کہاگیا ہے، یعنی خدا کے دین کو اس کی اصل صورت میں مبرہن کردینا- مگر یہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا- لوگوں کے درمیان اِس کی قبولیت کے لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے موافق فکری بنیاد (intellectual base) موجود ہو- ہزاروں سال کے مذہبی بگاڑ کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان یہ موافق فکری بنیاد موجود نہ تھی، اِس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں کامیابی کے ساتھ دینِ خداوندی کو اس کی اصل صورت میں قائم کیا،مگر ایک محدود مدت کے بعد خود امتِ مسلمہ کے درمیان مذہب کا قدیم تصور واپس آگیا- یہ محدود مدت امت کی ابتدائی تین نسلوں تک باقی رہی-
یہی وہ واقعہ ہے جس کو ایک حدیث رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:إن الناس دخلوا فی دین اللہ أفواجاً وسیخرجون منہ أفواجاً (مسند أحمد، رقم الحدیث : 14696) یعنی لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہوئے اور عن قریب وہ فوج در فوج خدا کے دین سے نکل جائیں گے- اِس حدیث رسول میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، وہ محدود طورپر صرف مکہ یا عرب کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ پوری تاریخ کے بارے میں ہے-
اصل یہ ہے کہ اسلام نے دینِ خداوندی کی جو تصویر پیش کی تھی، وہ ایک انقلابی تصویر تھی- اُس زمانے میں مذہب کے بارے میں جو عمومی شاکلہ پایا جاتا تھا، وہ اس کے مطابق نہ تھا- اس لیے ابتدائی تین نسلوں کے بعد قدیم مذہبی شاکلہ عملاً دوبارہ لوگوں کے درمیان واپس آگیا- دوبارہ ایسا ہو ا کہ خدا کا دین اپنی اصل صورت کے بجائے ایک بدلی ہوئی صورت پر قائم ہوگیا- اسلام کا نام اور اسلام کی اصطلاحیں ضرور باقی رہیں، لیکن اسلام کی حقیقت تقریباً غیرموجود ہوگئی- یہی مطلب ہے اُس حدیث رسول کا جس میں بتایا گیا ہے کہ بعد کے زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط: ’’لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ‘‘- (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1763)-
چند مثالیں
اسلام سے پہلے خدا کا عقیدہ ایک رسمی قسم کا مبنی بر قلب (heart-based)عقیدہ تھا، اسلام نے خدا کے عقیدہ کو ایک زندہ شعور کے طورپر مبنی بر ذہن (mind-based) عقیدے کی حیثیت سے زندہ کیا، لیکن وقت کا عمومی شاکلہ اِس کے موافق نہ تھا، اِس لیے بہت جلد ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان خدا کا عقیدہ زندہ عقلی شعور کے طورپر باقی نہ رہا- وہ دوبارہ مبنی بر قلب قسم کا رسمی عقیدہ بن کر رہ گیا-
اسلام سے پہلے ہر مذہب میں عبادت کا تصور موجود تھا، لیکن ان کی عبادت محض ایک مبنی بر فارم عمل بنی ہوئی تھی- اسلام نے دوبارہ عبادت کو مبنی بر اسپرٹ (spirit-based)عبادت کی حیثیت سے زندہ کیا، لیکن چند نسلوں کے بعد دوبارہ قدیم مزاج واپس آگیا اور خدا کی عبادت محض کچھ رسمی اعمال کا مجموعہ بن کر رہ گئی- یہی معاملہ پیغمبر کے عقیدہ (رسالت) کا بھی تھا- پچھلی امتوں نے بعدکے زمانے میں اپنے پیغمبروں کو اتنا زیادہ بڑھایا کہ خدا اور پیغمبر میں صرف نام کا فرق باقی رہا- یہی وہ برائی ہے جس کو پیغمبر اسلام نے پیشگی طورپر اِن الفاظ میں بیان فرمایا تھا: لا تطرونی کما أطرت النصارى عیسى بن مریم (صحیح البخاری، رقم الحدیث:3445 (
بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے درمیان فضیلت کے نام پر ایسے عقیدے رائج ہوئے جس کے بعد عملاً پیغمبر اسلام کی تصویر بھی وہی بن گئی جو پچھلی امتوں کے یہاں رائج تھی، یعنی خدا اور پیغمبر کے درمیان صرف نام کا فرق باقی رہا-
اِسی طرح پچھلے مذاہب میں مقدس جنگ (holy war) کا تصور تھا- اسلام نے اِس تصور کو ختم کیا- اسلام میں قتال اور جہاد کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا- قتال صرف دفاعی جنگ کے لیے مخصوص ہوگیا اور جہاد کو پرامن دعوتی جدوجہد (
اِسی طرح اسلام میں اجتماعی نظام کو شوری (
اِسی طرح اسلام میںقدیم تصور کے برعکس، مذہبی آزادی کو اختیار کیا گیا، لیکن چند نسلوں کے بعد عملاً اس کا بھی خاتمہ ہوگیا- اِس کے مظاہر آج بھی مسلمانوں کے اندر مختلف صورتوں میں دیکھے جاسکتے ہیں- مثلاً فرقہ وارانہ تشدد، تکفیر کے فتوے، مرتد اور شاتمِ رسول کے لیے سزائے قتل، وغیرہ- اِس قسم کے تمام مظاہر بلا شبہہ قدیم زمانے کے مذہبی جبر کی نئی صورتیں ہیں-
متوازی عمل
امتِ مسلمہ کے بعد کے دور میں یہ تمام خرابیاں اِس لیے پیدا ہوئیں کہ اسلام کی انقلابی اصلاحات کے حق میں فکری بنیاد موجود نہ تھی- اسلام نے مذہب کو دوبارہ اس کی اصل خدائی صورت میں زندہ کیا، لیکن زمانی عامل (age factor) اِن اصلاحات کے موافق نہ تھا- قانونِ فطرت کے مطابق، فکری بنیاد اچانک وجود میں نہیں آتی، بلکہ وہ لمبے تدریجی عمل کے بعد وجود میں آتی ہے- یہ نہایت مشکل منصوبہ ہے، کیوں کہ انسانی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے اس کو وجود میں لانا پڑتا ہے- اِس لیے اللہ نے اِس منصوبے کو ظہور میں لانے کے لیے تاریخ میں ایک متوازی عمل (parallel process) جاری کیا- فکری بنیاد کو ظہور میں لانے کا یہ متوازی عمل تقریباً ہزار سال تک جاری رہا، یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی عیسوی میں اپنی تکمیل تک پہنچا- اِس عمل کا آغاز پیغمبر اور اُن کے اَتباع (followers)نے کیا اورآخرکار اس کی تکمیل ہزار سال بعد اہلِ مغرب کے ذریعے انجام پائی-
استبدالِ قوم
قرآن میں فطرت کے جو قوانین بتائے گئے ہیں، اُن میں سے ایک قانون وہ ہے جس کو استبدال (replacement) کہاگیا ہے- اِس سلسلے میں قرآن کی آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (
If you turn back, He will bring in your place another people, who will not be like you.
استبدالِ قوم کا یہ قانون فطرت کا ایک عمومی قانون ہے- اس کا تعلق مذہبی قوم سے بھی ہے اور غیر مذہبی قوم سے بھی- اسلام کی انقلابی اصلاحات کے لیے جس فکری بنیاد کی ضرورت تھی، اس کو مسلمان پورے طورپر وجود میں نہ لاسکے- مسلمان بعد کے زمانے میں قدیم مذہبی تصورات کے زیر اثر آچکے تھے- اِس بنا پر وہ اس مقصد کے لیے اہل نہ تھے- چناں چہ اللہ کا یہ فیصلہ ہوا کہ اِس متوازی رول کاذریعہ وہ ایک ایسی قوم کو بنائے جو اِس عمل کو اس کی تکمیل تک پہنچا سکے-
اہلِ مغرب کا تائیدی رول
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کے طورپر یہ بات بتادی تھی کہ اللہ تعالی ایک سیکولر قوم سے دین کی تائید کا کام لے گا (إن اللہ لیؤیدہذا الدین بالرجل الفاجر)- اہل مغرب کی تاریخ کا غیر جانب دارانہ مطالعہ بتاتا ہے کہ اہلِ مغرب نے جو تہذیب برپا کی اور جس کو مغربی تہذیب کہاجاتا ہے، وہ سیکولر مغرب کے ذریعے اِسی تائید دین کی مثال ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کے ذریعے جو نئے علوم اور نئے حالات پیدا ہوئے، وہ اپنے عملی نتیجے کے اعتبار سے، اسلام کے حق میں فکری بنیاد فراہم کرنے والے تھے، تاکہ رسول اور اصحابِ رسول کا جاری کردہ عمل اپنے تکمیلی مرحلے تک پہنچ سکے- اس تکمیلی عمل کے چند پہلو یہاں بیان کیے جاتے ہیں:
1- جدید تہذیب کے تحت جو میڈیکل سائنس وجود میں آئی، اس نے تاریخ میں پہلی بار اُس نظریے کو ختم کردیا جس کو سوچنے والا دل (thinking heart) کہاجاتا تھا- اب یہ پوری طرح ثابت ہوگیا ہے کہ دل انسانی جسم میں صرف گردشِ خون (circulation of blood) کا ذریعہ ہے- اِس معاملے میں جدید میڈیکل سائنس یہاں تک پہنچی ہے کہ اُس نے مصنوعی دل (artificial heart) تیار کیا- ایسے مریض جن کے دل عملاً نان فنکشنل (non-functional)ہونے والے تھے، اُن کے جسم میں ڈاکٹروں نے مصنوعی دل نصب کردیا- یہ مصنوعی دل عملاً فطری دل کا بدل بن گیا- ایسے مریضوں کا دل عملاً معطل تھا، اُن کے جسم میں دل کی جگہ ایک مادی ڈیوائس (material device) نصب کیا گیا، اس کے باوجود اُن کا دماغ پہلے کی طرح کام کررہا تھا- اُن کا حافظہ، اُن کے سوچنے کی صلاحیت، کسی کمی کے بغیر، پہلے کی طرح برقرار تھی- اِس طرح تجرباتی طورپر ثابت ہوگیا کہ تفکیر کے عمل (thinking process) کا تعلق انسان کے دل سے نہیں ہے، بلکہ اس کے دماغ سے ہے-
یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس سے قدیم زمانے کا انسان مکمل طورپر بے خبر تھا-اسلام میں معرفت کو قدیم تصور کے برعکس، دل کے بجائےدماغ پر مبنی قرار دیاگیا- قرآن میں دماغ (mind)کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں- مثلاً قلب، فواد، عقل، لُب،حِجر، نُہى- واضح ہو کہ قلب کا لفظ عربی زبان میں عقل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے (لسان العرب: 687/1)- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں اِس سلسلے میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ سب تفکیری عضو (thinking organ) کے معنی میں ہیں، قرآن میں گردشِ خون کے ذریعے کے طورپر کسی عضو کا ذکر نہیں-پچھلے ہزار سال کے دوران مسلمانوں میں فکری ارتقا نہ ہوسکا- اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان فکری عمل کا سرچشمہ غلط طور پر دل کو قرار دیےہوئے تھے- جدیددریافت نے یہ راستہ کھول دیا ہے کہ مسلمانوں میں فکری ارتقا کا عمل حقیقی سطح پر جاری ہوسکے-
قدیم زمانے میں تمام مذاہب میں معرفت حق (realization of truth) کا منبع (source) دل کو سمجھاجاتا تھا- اِس لیے قدیم زمانے میں مراقبہ (meditation) کے طریقے رائج ہوئے، مگر اِن طریقوں کے ذریعے قدیم زمانے کے لوگوں کو کبھی حقیقی معنوں میں معرفتِ حق کا تجربہ نہیں ہوا، کیوں کہ دل صرف گردشِ خون کا ذریعہ تھا- معرفت صرف تفکیر اور تدبر کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے، جس کا مرکز انسان کا دماغ ہے- دل سے اِس کا کوئی تعلق نہیں-
رسول اور اصحابِ رسول کے مختصر زمانے کے بعد خود امتِ مسلمہ میں یہی دل پر مبنی تصورِ معرفت دوبارہ لوٹ آیا-یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہزار سال کے دوران امتِ مسلمہ حقیقی معرفت سے تقریباً محروم رہی- موجودہ زمانے میں جدید میڈیکل سائنس کے ذریعے جو نیا دور آیا، اُس نے پہلی بار یہ کیا کہ دل پر مبنی معرفت کے افسانہ (myth) کو ختم کردیا- اب تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوگیا کہ مبنی بر ذہن (mind-based)معرفت کو ڈیولپ کیا جائے اور معرفت الہی کے اعلی درجات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے-اِس اعتبار سے، جدید میڈیکل سائنس قدیم نظریے کی تصحیح کی حیثیت رکھتی ہے-
2- قدیم زمانے میں ساری دنیا میں مطلق العنان بادشاہت (despotism) کا طریقہ رائج تھا- اِس سیاسی کلچر کے تحت ساری دنیا میں مذہبی جبر کا کلچر عام تھا- جدید مغربی تہذیب کے تحت پہلی بار ایسا ہوا کہ دنیا میں جمہوریت کا زمانہ آیا- جمہوریت ایک اعتبار سے، سیاسی طاقت کی عدم مرکزیت (decentralization) کا کلچر ہے- اِس کلچر کے تحت مذہب کے معاملے کو سیاسی اقتدار سے الگ کردیا گیا- اِس طرح تاریخ میں پہلی بار مذہبی آزادی کو ایک مسلّمہ بین اقوامی اصول (international norm) کے طورپر مان لیاگیا اور اقوامِ متحدہ (UNO) کے تحت تمام قوموں نے اس کی متفقہ تصدیق کردی- اسلام ایک دعوتی مشن ہے اور اسلام کے دعوتی مشن کی عالمی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ دنیا میں مذہبی آزادی کو ایک مسلّمہ بین اقوامی اصول کے طور پر مان لیا گیا ہو- یہ واقعہ پہلی بار مغربی تہذیب کے دور میں کامل طورپر انجام پایا ہے-
3- قدیم زمانے میں مذہب کی بنیاد صرف عقیدہ (belief) ہوا کرتا تھا- انسان ایک عقلی وجود (rational being) ہے- ضرورت تھی کہ انسان کو ایسا مذہب دیا جائے جو اس کے عقلی ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو- لیکن اِس مقصد کے لیے عقلی ڈیٹا (rational data) درکار تھا جو کہ قدیم زمانے میں دستیاب نہ تھا- مغربی تہذیب کے تحت پیدا ہونے والی سائنس نے فطرت (nature) میں تحقیق کے ذریعے یہ عقلی ڈیٹا فراہم کیا- اِس طرح تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دینِ خداوندی کے عقائد کو عقلی بنیاد (rational ground) پر قابلِ فہم (understandable) بنایا جاسکے-اِس حقیقت کا اعلان قرآن مجید میں پیشگی طورپر اِن الفاظ میں کیا گیا تھا: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(
قرآن کی اِس آیت میں ’آفاق اور انفس‘ سے مراد تمام وہ مادی اور غیر مادی تخلیقات ہیں جو وسیع کائنات میں پائی جاتی ہیں- اِس پورے مجموعے کو فطرت (nature) کہاجاتا ہے- فطرت کی اِس دنیا میں بے شمار ربانی نشانیاں (signs of God)موجود تھیں- ضرورت تھی کہ اِن نشانیوں کو دریافت کیا جائے، تاکہ امرِ حق خود انسانی مسلّمات کی بنیاد پر مدلل ہوسکے- خدائی نشانیوں کی انفولڈنگ کا یہ کام ہزاروں سال سے نہیں ہوا تھا- موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے پہلی بار سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِن نشانیوں کو کھولا اور اُن کو انسان کے لیے ایک معلوم واقعہ بنایا- یہ موافق دلائل فطرت (nature) میں آیاتِ الہی کے طورپر موجود تھے، وہ مخفی حالت میں تھے- مغربی سائنس نے قوانینِ فطرت کے نام سے جن حقائق کو دریافت کیا ہے، وہ دراصل یہی دلائل ہیں- اِس کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کے علمِ کلام (theology) کو قیاسات کے بجائے برہانیات کی بنیاد پر قائم کی جائے-
4- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- اُس وقت قرآن میں یہ کہاگیا تھا کہ: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً (
عالمی دعوت کو ممکن بنانے کے لیے یہ تمام چیزیں لازمی طورپر ضروری ہیں- قدیم زمانے میں یہ اسباب موجود نہ تھے، اِس لیے قدیم زمانے میں اسلام کی عالمی اشاعت کا یہ نشانہ عملاً پورا نہیں ہوسکتا تھا- انیسویں صدی کے بعد کے زمانے میں پہلی بار یہ اسباب حاصل ہوئے ہیں اور اِن اسباب کا حصول براہِ راست مغربی تہذیب کے ذریعے ممکن ہوا ہے-
5- قرآن اصلاً ایک کتابِ دعوت ہے، لیکن دعوت کی نکات کو مدلل کرنے کے لیے قرآن میں بہت سے حوالے دئے گئے ہیں جن کا تعلق تاریخ یا عالمِ فطرت سے ہے- مگر ساتویں صدی کے ربع اول میں اِن حوالوں کی ضروری تفصیلات معلوم نہ تھیں- اِس بنا پر قرآن کے یہ حوالے عملاً صرف عقیدہ کا مسئلہ (matter of belief) بنے ہوئے تھے- اِس قسم کی مثالیں قرآن میں بڑی تعداد میں موجود ہیں- مثلاً قرآن میں کائنات کے آغاز کے لیے ایک حوالہ یہ ہے: اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا (
6- قدیم زمانے میں مذہبی جبر عام تھا- اِس بنا پر دعوتِ حق کا کام معتدل انداز میں نہیں ہوسکتا تھا- یہ صورتِ حال ایک سیاسی سبب کی بنا پر تھی- قدیم زمانے کے حکمراں اپنا حقِ حکمرانی (mandate) مذہب کی بنیاد پر حاصل کرتے تھے، اِس لیے وہ اِس کو برداشت نہیں کرتے تھے کہ اُن کے علاقے میں سلطنت کے مذہب کے سوا کوئی اور مذہب پایا جائے- مذکورہ آیت میں اظہارِ دین کا ایک پہلو یہ تھا کہ حقِ حکمرانی کے معاملے کو مذہب سے جدا کردیا جائے- دورِ اول میں جو اسلامی انقلاب آیا، اُس نے تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری کیا- یورپ کی جمہوریت اِسی عمل کی تکمیل ہے- مغربی جمہوریت نے یہ کیا کہ حقِ حکمرانی کے معاملے کو مذہب سے الگ کرکے اس کو عوامی رائے سے وابستہ کردیا- اِس کے نتیجے کے طور پر دنیا میں پہلی بار مذہبی امن کا دور آگیا- اِس دور کی باقاعدہ تکمیل اقوامِ متحدہ کی صورت میں ہوئی- جس کے تحت مذہب کے معاملے میں تشدد کو بطور اصول ممنوع قرار دے دیا گیا- یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے گویا دورِ جدید میں حکمتِ حدیبیہ کی عالمی توسیع ہے جو اسلامی دعوت کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتی ہے-
7- مغربی دنیا کے سیکولر اہلِ علم نے اسلام کا مطالعہ اپنے اصول کے مطابق، خالص موضوعی انداز میں کیا- اِس بنا پر وہ اسلام کے کئی ایسے پہلو کو دریافت کرسکے جو مسلم اہلِ علم سے اعتقادی مطالعے کی بنا پر مخفی تھے- مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے سلسلے میں غیر معمولی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا- اِس مقابلے میں پیغمبر اسلام کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی- اِس کامیابی کو مسلم اہلِ علم عام طورپر ’’فضیلت رسول‘‘ کے خانے میں ڈالے ہوئے ہیں- اِس کامیابی کو فضیلتِ رسول کے خانے میں ڈالنے کا نقصان یہ ہے کہ عام مسلمانوں کو اس سے کوئی سبق نہیں ملا- اِس طریقِ مطالعہ سے عام مسلمانوں کو صرف فخر کی غذا ملی- وہ اپنے پیغمبر کو ’’فخر ِ موجودات‘‘ کہنے لگے-
لیکن مغرب کے سیکولر اہلِ علم نے اِن واقعات کا تجزیہ غیر جانب دارانہ ذہن کے ساتھ کیا تو انھوں نے ایک ایسی حقیقت دریافت کی جس میں تمام مسلمانوں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کامیابی کا اعلی اصول موجود تھا- مثلاً ایک برٹش رائٹر (E.E. Kellet)نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے تحت لکھا ہے کہ — انھوں نے مشکلات کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ وہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
یہ صرف ایک تاریخی تجزیہ نہیں، اِس سے زندگی کا ایک اہم اصول دریافت ہوتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو اُن کے خالق نے ایک انوکھی صلاحیت کے ساتھ پیدا ;کیاہے، اور وہ ہے اپنے مائنس کو اپنے پلس میں تبدیل کرلینا-
انسانی شخصیت کا یہ امکان (potential)فطرت کا ایک عظیم عطیہ ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے اِس انسانی فطرت کا ایک کامیاب مظاہرہ کیا، مگر مسلمان اپنے عقیدت مندانہ مطالعے کی بنا پر اِس پہلو کو بطور سنتِ رسول اپنی زندگیوں میں شامل نہ کرسکے- مغربی سیرت نگاروں نے سیرت نبوی کے اِس پہلو کو دریافت کرکے مسلمانوں کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کو اختیار کریں اور اس کے ذریعے اپنے منصوبوں کو حقائق کی بنیاد پر قائم کرکے اس کو کامیاب بنائیں-
شہادتِ اعظم
مغربی تہذیب کا دینِ خداوندی کے حق میں سب سے بڑا تائیدی رول یہ ہے کہ اس نے اہلِ اسلام کے لیے وہ ضروری اسباب فراہم کیے جن کو استعمال کرکے وہ دورِ آخر کے اُس اہم ترین رول کو کامیابی کے ساتھ ادا کرسکیں، جس کو حدیث میں شہادتِ اعظم کہا گیا ہے- شہادتِ اعظم سے مراد دعوتِ اعظم ہے- اِس دعوتِ اعظم کے دو پہلو ہیں — نظری اعتبار سے، اس کا اعلی حجت (superior reason) پر قائم ہونا، اور وسعت کے اعتبار سے، اس کے دائرے کا عالمی (global)ہونا-
صحیح مسلم میں ایک لمبی روایت آئی ہے- اِس روایت میں دورِ آخر کے ایک اہم رول کا ذکر بطور پیشین گوئی کیاگیا ہے- اِس کی بابت حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 5230) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے بڑی شہادت ہوگی-
اِس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں ’شہادت‘ سے مراد جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد نظریاتی معنوں میں ایک عظیم دعوتی رول ہے جو دورِ آخر میں انجام پائے گا- غالباً اِس سے مراد انسانی تاریخ کے آخری زمانے کا ایک فائنل دعوتی رول ہے- اِس دعوتی رول کی صراحت اگر چہ حدیث میں موجود نہیں ہے، لیکن قرآن وحدیث میں ایسے اشارات موجود ہیں جن پر غور کرکے اِس رول کو متعین کیا جاسکتا ہے-
1- شہادتِ اعظم کے نظری پہلو کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت سے رہنمائی ملتی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَق (
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ قدیم زمانے میں کائنات ایک پر اسرار ظاہرہ بنی ہوئی تھی-قدیم زمانے میں نہ عالمِ اکبر (macro world) کو دیکھنے کے لیے دور بین موجود تھی اور نہ عالمِ اصغر (micro world) کو دیکھنے کے لیے خورد بین دستیاب تھی- موجودہ زمانے میں اعلی سائنسی نوعیت کے مشاہدے اور تجربے کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ کائنات میں نہایت اعلی درجے کی ذہین ڈیزائن موجود ہے- یہ دریافت اِس مذہبی تصورکو یقینی بنادیتی ہے کہ یہ کائنات ایک باشعور خالق کی ایک باشعور تخلیق ہے- ( ملاحظہ ہو:(The Intelligent Universe by Fred Hoyle
2- شہادت کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق عالمی دعوت (global dawah) سے ہے- اسلام اول دن سے سارے انسانوں کے لیے ایک دین ِ رحمت کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن اسلام کے پیغام کو سارے انسانوں تک پہنچانا قدیم زمانے میں ذ رائع کے اعتبارسے عملاً ممکن نہ تھا- موجودہ زمانے میں مغربی سائنس نے پہلی بار اُن تمام ذرائع کو انسان کی دسترس میں دے دیا جن کو استعمال کرکے اسلام کی عالمی دعوت کو ایک واقعہ بنایا جاسکتا ہے-
اِس کی ایک مثال موجودہ زمانے میں اُس ذریعے کی ایجاد ہے جس کو الیکٹرانک کمیونکیشن کہاجاتا ہے- یہ دریافت اب نہایت ترقی یافتہ سائنس بن چکی ہے- اِس دریافت کا ایک جز موبائل فون ہے- اِس دریافت کے تحت موجودہ زمانے میں وہ آلہ تیار ہوگیا ہے جس کو اسمارٹ فون (smartphone) کہاجاتاہے- یہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ہر آدمی اس کو اپنی جیب میں رکھ سکتا ہے- اسمارٹ فون میں بظاہر لامحدود گنجائش (capacity) ہوتی ہے-
موجودہ زمانے میں تمام بڑے بڑے ادارے اپنے کتابوں کو اپ لوڈ کرکے انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون پر ڈال رہے ہیں- اِس دریافت نے ایک نئے دعوتی امکان کو واقعہ بنا دیا ہے- اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں میں تیار کیے جائے- یہ ترجمے ایسی زبان میں ہوں جو قاری کے لیے بہ آسانی قابلِ فہم ہوں- پھر قرآن کے اِن ترجموں کو انٹرنیٹ پر ڈال دیا جائے اِس کے بعد زمین پر بسنے والے ہر انسان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ اپنی جیب سے اسمارٹ فون نکالے اور اس کے ایک سوئچ کو ٹچ کرے اور پورے قرآن کا ترجمہ اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں اس کے سامنے آجائے-دعوت کا یہ عالمی ذریعہ آج مغربی سائنس کی بناپر عملاً ایک واقعہ بن چکا ہے-
غالباً دورِ آخر کایہی وہ دعوتی امکان ہے جس کا ذکر بطور پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول (لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام بعز عزیز وذل ذلیل)میں کیا گیا ہے-اِس حدیث میں ’کلمۂ اسلام‘ سے مراد قرآن ہے- یہ ایک قابلِ غور بات ہے کہ حدیث میں ’إدخال الکلمة فی کل القلوب‘ کا لفظ نہیں آیا ہے، بلکہ حدیث میں ’إدخال الکلمة فی کل البیوت‘ کا لفظ آیا ہے- اِس کا مطلب واضح طورپر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کرۂ ارض پر بسنے والے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں، بلکہ جو واقعہ ہوگا، وہ یہ کہ ہرچھوٹے بڑے گھر میں جہاں کوئی انسان رہتا ہے، وہاں قرآن داخل ہوجائے گا، خواہ انسان چاہے یا نہ چاہے- مذکورہ حدیث کے آخر میں عزت اور 'ذلت کے الفاظ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہیں، بلکہ وہ اِسی معنی میں ہیں کہ آدمی چاہے یا نہ چاہے، ہر حال میں ایسا ہوگا کہ خدا کا کلام اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا —انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی ایجاد کے بعد یہی واقعہ اپنی کامل صورت میں عملاً ظہور میں آگیا ہے- (2014)
واپس اوپر جائیں
ایک صاحب نے کہا کہ میں الرسالہ کا قاری ہوں- مجھے الرسالہ کے دعوتی نقطہ نظر سے مکمل اتفاق ہے- میری عمر
یہاںاصحابِ صفہ کا حوالہ درست نہیں- اصحابِ صفہ نے ایسا نہیں کیا تھا کہ پہلے وہ اپنی اولاد کی ذمے داریوں سے فارغ ہوئے- اُس کے بعد وہ دین کی خدمت میں لگ گئے- اِس کے برعکس، اصحابِ صفہ کا معاملہ یہ تھا کہ جب انھیں سچائی کی دریافت ہوئی تو فوراً ہی انھوں نے اپنی زندگی سچائی کے لیے وقف کردی- انھوںنے اپنی دنیوی ذمے داریوں کو اللہ پرڈال دیا اور اپنے آپ کو دین کی ذمے داری اداکرنے کے لیے وقف کردیا-
دریافت حق میں کوئی انتظار نہیں ہوتا- جس آدمی کو حق کی دریافت ہوجائے، وہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کسی عذر (excuse) کو لے کر انتظار کی پالیسی اختیار کرے- حق کی دریافت کے بعد وہ فی الفور اپنے آپ کو حق کے راستے پر ڈال دے گا-
اِس معاملے میں جو شخص کسی عذر کا حوالہ دے یا وہ انتظار کی پالیس اختیار کیے ہوئے ہو، اس کے بارے میں کہاجائے گا کہ اُس نے ابھی حق کو پایا ہی نہیں- اُس نے کسی اور چیز کو پایا ہے اور غلطی سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اُس نے حق کو پالیا ہے-
حق بلا شبہہ تمام چیزوں میں سب سے بڑی چیز ہے- حق کو پانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے اُس چیز کو دریافت کرلیا جو اُس کے لیے سب سے بڑی چیز کی حیثیت رکھتی ہے- ایسا انسان عذر کو بھول جائے گا- انتظار کی پالیسی اختیار کرنا اُس کو ایسا لگے گا جیسے اُس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہو-
واپس اوپر جائیں
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (
‘I see fire! I see fire!’ “Behind us, passengers were praying: ‘God, save our flight! Give us your protection!” (The Times of India, New Delhi, May 17, 2011)
تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی جب کسی بحرانی صورتِ حال سے دوچار ہوتاہے، جب وہ محسوس کرتاہے کہ وہ پیش آمدہ صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے بالکل عاجز (helpless)ہے۔ اُس وقت وہ بے تابانہ طورپر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اِس کی ایک مثال مذکورہ واقعے میں ملتی ہے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے واقعات آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتے ہیں۔ اِس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ خدا کا تصور انسان کی فطرت میں پیوست (interroven)ہے۔ ہر انسان کو امکانی طورپر (potentially) خدا کی معرفت حاصل ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد اِسی امکان کو واقعہ بنانا ہے۔ دعوت انسانی شخصیت کے الگ کوئی چیز نہیں، وہ اس کی اپنی شخصیت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اِسی لیے آدمی جب اپنی اِس فطرت کو دریافت کرلیتاہے تو وہ توحید کی دعوت کو اِس طرح قبول کرلیتا جیسے کہ وہ اس کی اپنی چیز تھی۔
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ یاسین میں اہلِ جنت کے ذکر کے تحت یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰکِــہُوْنَ (
Surely the dwellers of Paradise shall on that day be in an occupation quite happy.
آخرت میں سچے اہلِ ایمان کو جنت میں داخلہ ملے گا- وہاں وہ ابدی طورپر خوشیوں کی زندگی گزاریں گے- جنت ہر اعتبار سے، پرفکٹ (perfect) ہوگی-وہاں ہر اعتبار سے، اہلِ جنت کے لیے فل فل مینٹ (fulfilment) کا سامان ہوگا- وہاں اہلِ جنت نہ کبھی حزن کا شکار ہوں گے اور نہ وہ کبھی اکتاہٹ (boredom) میں مبتلا ہوں گے-
تاہم جنت صرف آرام وعیش کی جگہ نہ ہوگی، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ اہلِ جنت کے لیے ایک اعلی ترین سرگرمی کا مقام ہوگا- مذکورہ آیت میں اِس حقیقت کو بتانے کے لیے ’شغل‘ کا لفظ آیا ہے- شغل کے لفظی معنی مشغلہ (activity) کے ہیں- شغل کا لفظ اِس آیت میں نکرہ استعمال ہوا ہے- نحوی قاعدے کے مطابق، تنکیر برائے تفخیم ہوتی ہے- اِس لیے یہاں شغل سے مراد ہے ایک عظیم مشغلہ-
اِس عظیم مشغلہ سے کس قسم کا مشغلہ مراد ہے- غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اِس سے مراد وہی مشغلہ ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے عظیم مشغلہ تھا- یہی مشغلہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ آخرت میں بھی ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس مشغلہ کو دنیا میں قوانینِ فطرت کی دریافت (discovery of natural laws) کہاجاتاہے، اِسی کو قرآن میں کلمات اللہ (
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ کے کلمات ناقابلِ قیاس حد تک زیادہ ہیں، اتنے زیادہ کہ اگر اُن کو لکھا جائے تو وہ ضبطِ تحریر میں نہ آسکیں- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (
’کلمات اللہ‘ کا لفظی مطلب ہے اللہ کی باتیں (words of God)- اللہ کا کلمہ سادہ طورپر صرف کلمہ نہیں ہوتا، وہ ایک محکم فیصلہ یا اٹل قانون ہوتا ہے- کلمات اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مختلف مقامات پر ’امرِ رب‘ یا ’امر اللہ‘ کہاگیا ہے- دوسرے الفاظ میں، اس کو قوانینِ الہیہ (divine laws) کہاجاسکتا ہے- موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس اِس واقعے کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہتے ہیں-
یہی قوانینِ الہیہ یا قوانینِ فطرت ہیں جن کی بنیاد پر کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہی قوانین ہیں جن کے تحت نہایت محکم انداز میں کائنات کا پورا نظام مسلسل طورپر چل رہاہے- یہی قوانین انسان کے لیے اس کی تمام فکری اور عملی ترقیوں کا ماخذ ہیں- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان معرفت حاصل کرتا ہے- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان تخلیق کی معنویت کو دریافت کرتاہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان اللہ کی عظمت (glory) سے آشنا ہوتا ہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان کےاندر وہ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو اللہ کے لیے حبّ شدید اور خوفِ شدید کہاجاتا ہے- انھیں قوانین پر تدبرکرکے آدمی اپنے اندر وہ ربانی شخصیت پیدا کرتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے- یہ قوانین الہیہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ انسان ابد تک اُن میں تدبر کرتا رہے اور وہ کبھی ختم نہ ہوں-
یہی قوانین یا قوانینِ فطرت ہی تمام علوم کا خزانہ ہیں- موجودہ زمانے میں جس ظاہرے کو تہذیب (civilization)کہا جاتا ہے، وہ اِنھیں قوانین الہیہ یا قوانین فطرت کی جزئی دریافت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے- سائنس کے علوم تمام تر اِنھیں قوانین میں غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں- یہی قوانین، حکمت (wisdom) کا خزانہ ہیں- حقیقت ہے کہ اِن قوانین کے ساتھ انسان انسان ہے- اگر اِن قوانین کو انسان سے جدا کردیا جائے تو انسان صرف ایک حیوان بن کر رہ جائے گا- جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے، وہ اس کی صرف یہ خصوصیت ہے کہ وہ فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اُن کو اپنے لیے استعمال کرتاہے-
امریکی مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) کی ایک کتاب ’فیوچر شاک‘ (Future Shock) ہے، جوپہلی بار 1970میں امریکا سے شائع ہوئی- اس نے اِس کتاب میں کہا تھا کہ ہمارا انڈسٹریل ایج (industrial age) مزید ترقی کرکے اب سپر انڈسٹریل ایج (super industrial age) میں داخل ہونے والا ہے- مغربی مصنف نے اپنی یہ پیشین گوئی بیسویں صدی میں کی تھی، لیکن صدی کے آخر میں اس کا یہ خواب منتشر ہوگیا-ماحولیاتی مسائل (ecological problems) نے بتایا کہ زمین پر انسانی تہذیب کی آخر حد آچکی ہے- اِس زمین پر انسانی تہذیب کا سفر مزید آگے جاری رہنے والا نہیں-
تہذیب کیا ہے- تہذیب تمام تر قوانین فطرت پر مبنی ایک ظاہرہ ہے- قوانینِ فطرت سے الگ تہذیب کا کوئی وجود نہیں- جب یہ واقعہ ہے کہ قوانینِ الہیہ یا قوانین فطرت کی کوئی حد نہیں تو لازمی طورپر یہ بھی ہونا چاہئے کہ تہذیب کی ترقی کی کوئی حد نہ ہو، تہذیب کی ترقی کا سفر ابدی طورپر جاری رہے-یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن ہم کو رہنمائی دیتا ہے- قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبِ انسانی کا سفر موجودہ دنیا کے دورِ حیات میں ختم نہ ہوگا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ زیادہ اعلی صورت میں آخرت کے ابدی دورِ حیات میں جاری رہے گا-
قرآن میں یہ بات، نعوذ باللہ، بطور بوسٹنگ (boasting) نہیں ہے، بلکہ وہ بطور پیشین گوئی ہے، یعنی اِس قرآنی بیان میں دراصل یہ اعلان کیاگیا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ تہذیب کا نامکمل سفر اپنی تکمیل کو پہنچے- موجودہ دنیا میں ’کلمات اللہ‘ کا جو اظہار جزئی صورت میں ہواہے، آخرت کی دنیا میں اس کا اظہار کامل صورت میں ہوگا-
قرآن یہ خوش خبری دیتاہے کہ انسانی تہذیب کا سفر ادھورا نہیں رہے گا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ آئندہ بھی جاری رہے گا- ارتقا کا جو موقع انسان کو حیاتِ دنیا میں نہیں ملا تھا، وہ آخرت کی زندگی میں مزید اضافے کے ساتھ اس کو حاصل ہوجائے گا-
تہذیب کے دو دور
تہذیب کے دو دور جن کا ذکر اوپر کیاگیا، اُن کا حوالہ قرآن میں صراحتاً موجود ہے- تہذیب کا پہلا دور جو قوانینِ فطرت کی جزئی دریافت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ظہور میں آئے گا، اس کا ذکر قرآن کی سورہ حم السجدہ میں اِن الفاظ میں آیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (
قرآن کی اِس آیت میں قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کے اُس دور کا ذکر ہے جو موجودہ دنیا میں پیش آنے والا تھا- قرآن کی یہ پیشین گوئی انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سائنس کے ظہور کی صورت میں واقعہ بن چکی ہے- سائنس کی دریافتوں نے یہ کیا ہے کہ آفاق وانفس میں جو خدائی نشانیاں (signs of God) موجود تھیں، اُن کو جزئی طورپر دریافت کیا اور اِس طرح انسان کے لیے تبیینِ حق کے نئے مواقع کھول دئے - اِن دریافتوں کے ذریعے انسان کو ایک نیا فریم ورک (framework) ملا- اِس کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ انسان خالص علمی اور عقلی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کرے-
قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کا دوسرا عظیم تر ظہور آخرت کے دورِ حیات میں پیش آئے گا- تہذیب کے اِس دوسرے دور کو ربانی تہذیب کہاجاسکتا ہے- یہ دور اپنے تمام کمالات کے ساتھ ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس دوسرے دورِ تہذیب کا ذکر قرآن کی سورہ الکہف میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَالِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا (
قرآن کی اِن آیات پر غور کیجئے- سب سے پہلے فرمایا کہ ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا‘‘، یعنی جن لوگوں نے دریافت کی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کی اور پھر اس معرفت کے مطابق، اپنی عملی زندگی کو ربانی زندگی بنا دیا- اس کے بعد فرمایا کہ ’’اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے‘‘، یعنی آخرت میں اُن کو اللہ کے آفاقی گیسٹ ہاؤس (universal guesthouse) میں ابدی طورپر رہنے کا موقع دیا جائے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘-
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر اس کو یکساں قسم کی مادی نعمتیں دی جائیں تو یہ نعمتیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں، کچھ دنوں کے بعد وہ ان کی یکسانیت کی بناپر بورڈم (boredom) کا شکار ہوجائے گا، وہ اُن سے محظوظ نہ ہوسکے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’وہ جنت سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘- اِس طرح کی کیفت پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ جنت کو مادی نعمتوں کے سوا ایک اور چیز حاصل ہو اور وہ ہے — بار بار نئی چیزوں کا ملنا، بار بار نئی دریافتوں کا تجربہ پیش آنا ، مسلسل طورپر فکر ی ارتقاکا جاری رہنا جن کی بنا پر اہلِ جنت کی تخلیقیت (creativity)کبھی ختم نہ ہوگی- اہلِ جنت کی شخصیت میں یہ ارتقا معرفت ِ خداوندی میں ارتقا کے ذریعے پیش آئے گا-
جنت میں تخلیقی سرگرمیوں (creative activities) کے جو اتھاہ مواقع ہوں گے،اُن کو آیت کے اگلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کی ابدی انفولڈنگ (eternal unfolding)- قرآن کے مطابق، ’کلمات اللہ‘ کی تعداد لا محدود ہے- سائنس کے ذریعے اِن ’کلمات اللہ‘ کا جزئی ظہور (partial unfolding) ہوا، جس کے نتیجے میں دنیا کی تہذیب وجود میں آئی- آخرت میں اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کا کامل ظہور ہوگا- اِس کے نتیجے میں وہ دورِ کمال وجود میں آئے گا جس کو جنتی تہذیب کہا جاتا ہے-
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان جو یہاں پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو تیاری میں لگا دیتا ہے- ہر آدمی اپنے اندر کسی نہ کسی شعبے کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے- ہر آدمی آخری حد تک یہ کوشش کرتاہے کہ اس کے اندر کوئی خاص ہنر مندی (skill)، کوئی خاص لیاقت(qualification) ، کوئی خاص مہارت (expertise) پائی جائے، تاکہ وہ موجودہ دنیا میں قائم شدہ تہذیب کے نقشے میں کوئی اعلی مقام حاصل کرسکے- ہر عورت اور مرد زندگی کی اِس حقیقت کو جانتے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح سرگرم رہتے ہیں-
یہی معاملہ آخرت میں بننے والی بلند تر تہذیب کا ہے- وہاں بھی سرگرمیاں ہوں گی، وہاں بھی مناصب ہوں گے ، وہاں بھی ہر قسم کے اعلی شعبے ہوں گے- جنتی دنیا کے ان اعلی مواقع کو حاصل کرنے کے لیے بھی تیار ذہن اور تربیت یافتہ افراد درکار ہیں-موجودہ دنیا ایک اعتبار سے، اِسی اعلی تیاری کی تربیت گاہ ہے-
موجودہ دنیا کے حالات میں لوگوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر وہ ربانی صلاحیت پیدا کریں جو اُن کو اِس قابل بنائے کہ وہ آخرت میں بننے والی برتر تہذیب کے مناصب کے لیے منتخب کیے جاسکیں اور پھر ابدی طورپر نہ صرف آرام وعیش کی زندگی گزاریں، بلکہ ایک ایسے تہذیبی سفر کا حصہ بن جائیں جس کی ترقیاں کبھی ختم نہ ہوں- یہ لا محدودخوشی (endless pleasure) کی زندگی ہوگی، جو اللہ کی خصوصی رحمت سے اہلِ جنت کو حاصل ہوگی-
موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو عزت کا مقام ملتا ہے، وہ اِس بنیاد پر ملتا ہے کہ اس نے تہذیب کے تقاضوں کے مطابق، اپنے آپ کو کتنا تیار کیا ہے- یہی معاملہ آخرت کی جنتی تہذیب میں بھی ہوگا- موجودہ دنیا کی تہذیب میں ہر آدمی کو ڈاکٹر، انجینئر، اسکالر اور ٹکنکل اکسپرٹ، وغیرہ کی نسبت سے مقام ملتاہے- آخرت میں عارف ، متقی اور خاشع، وغیرہ کی نسبت سے اس کو مقام حاصل ہوگا- دنیا میں آدمی کو دنیوی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملتا ہے- آخرت میں ہر آدمی کو ربانی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملے گا-
خلاصۂ کلام
تہذیب (civilization) کیا ہے-تہذیب، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، کلماتِ الہیہ کے ظہور کا نام ہے- قیامت سے پہلے کے دورِ حیات میں یہ ظہور جزئی طور پر ہوگا اور قیامت کے بعد کے دورِ حیات میں کامل طور پر- موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی حاصل تھی، اِس لیے موجودہ دنیا میں کلماتِ الہیہ کے جزئی ظہور سے جو تہذیب بنی، اس میں انسانی فساد کی بنا پر منفی اجزا شامل ہوگئے- لیکن آخرت میں کلماتِ الہیہ کے کامل ظہور سے جو تہذیب وجود میں آئے گی، وہ انسانی فساد سے پوری طرح پاک ہوگی- اِس لیے آخرت میں ظہور میں آنے والی تہذیب تمام تر مثبت اجزا پر مبنی ہوگی- اِسی لیے اس کو جنتی تہذیب کہاگیا ہے-
قرآن میں جنت کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے کہ : لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ (
سوال و جواب
سوال
میں الرسالہ کا ایک قاری ہوں- براہِ کرم حسب ذیل تین سوالات کی وضاحت کرکے شکریے کا موقع عنایت فرمائیں:
1- قرآن کا اسلوب شذراتی ہے، یا قرآن ایک منظّم کلام ہے؟
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر کے درمیان کیا فرق ہے؟
3- توحید اور تزکیہ کا مفہوم کیا ہے؟
(ایک قاری الرسالہ، اسلام آباد، پاکستان)
جواب
1- قرآن کو سنتے یا پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ترتیب کا انداز نہیں، بلکہ عام طورپر فریگمنٹری (fragmentary)انداز ہے- قرآن کے اسلوب کے بارے میں بہت سے اہلِ علم کے سامنے یہ سوال رہا ہے- مولانا حمید الدین فراہی (وفات: 1930 ) نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پورا قرآن ایک منظم کلام ہے-
ذاتی طورپر میرا خیال یہ ہے کہ قرآن ایک مجموعۂ شذرات کی صورت میں ہے- قرآن کے مقصد کے اعتبار سے یہی اسلوب زیادہ مفید ہے- قرآن کا مقصد ذہنِ انسان کی تعمیر ہے- یہ فائدہ صرف ترکیزی فکر (focused thinking) سے حاصل ہوسکتا ہے- شذراتی اسلوب سے ترکیزی فکر کا فائدہ بخوبی طور پر حاصل ہوتا ہے- لمبی مسلسل عبارت میں فوکس پھیل جاتا ہے، جب کہ چھوٹے چھوٹے شذرات کی صورت میں ذہن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک پوائنٹ پر فوکس کرکے غور وفکر کرے- میرے ذاتی تجربے کے مطابق، ذہن سازی یا فکری تشکیل کا فائدہ شذراتی انداز سے حاصل ہوتا ہے- چناں چہ جب میں نے 1976 میں ماہ نامہ الرسالہ نکالا تو اس کو بھی اِسی شذراتی اسلوب میں نکالا، یعنی ہرصفحے میں ایک سوچنے والی بات-
مولانا حمید الدین فراہی کا ماننا تھا کہ نظمِ قرآن فہمِ قرآن کی کلید ہے- وہ اِس موضوع پر نظام القرآن کے نام سے ایک تفسیر لکھ رہے تھے، مگر وہ اس کو مکمل نہ کرسکے- لیکن ان کے شاگر دِ رشید مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1997)نے اِسی اسلوب پر ایک مکمل تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھی جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے-
نظم کو فہمِ قرآن کا ایک پہلو کہاجاسکتا ہے، لیکن اُس کو فہمِ قرآن کی کلید کہنا درست نہیں، جب آپ قرآن کا مطالعہ اِس طرح کریں کہ آپ کا ذہن نظم بین الآیات اور نظم بین السُّوَر پر لگاہوا ہو تو فطری طور پر آپ کے ذہن کا فوکس پھیل جائے گا- اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ قرآن کی فوکسڈ اسٹڈی (focused study) نہ کرسکیں گے، اِس طریقِ مطالعہ میں آپ کو قرآن کے کچھ فنی پہلو تو ملیں گے، لیکن تقوی کا پہلو حذف ہوجائے گا جو کہ مطالعہ قرآن کا اصل مقصود ہے-
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں- اکیڈمک کلچر تنوع (diversity) پر قائم ہوتا ہے- اِس کے برعکس، مشن کلچر توحُّد پر قائم ہوتا ہے- علمی اور تحقیقی ادارے میں افکار کا تنوع ایک قابلِ قبول بات ہوتی ہے، لیکن مشن کا مزاج افکار کے تنوع کو برداشت نہیں کرتا- اِس کی مثال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت نے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کو برداشت نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر تبلیغ سے اتفاق رکھتے تھے- اِسی طرح جماعتِ اسلامی ہند نے ڈاکٹر عبد الحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو قبول (accept) نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر جماعت اسلامی سے اتفاق کرتے تھے- یہ کلچر مذہبی مشن کا بھی ہے اور سیکولر مشن کا بھی- مثلاً گاندھی کو برتر از کانگریس (greater than Congress)کہاجاتا تھا- جواہر لال نہرو نے اپنی آٹو بایوگرافی میں لکھا ہے کہ کانگریس کمیٹی میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ گاندھی جی کے نقطہ نظرسے ہم لوگوں کو اتفاق نہیں ہوتا تھا- اُس وقت گاندھی جی ایک جملہ بولتے تھے- اس کے بعدسب لوگ اُن سے متفق ہوجاتے تھے- وہ جملہ یہ ہوتا تھا:
Thus my inner sight speaks.
اِس بنا پر میری یہ رائے ہے کہ مشن میں وہی آدمی شرکت کرے جو مشن کلچر کے اِس مبنی بر توحّد تصور کو مانتا ہو- اگر کسی شخص کے اندر یہ مزاج نہ ہو تو اُس کو ہرگز مشن میں شریک نہیں ہونا چاہیے-
3- اسلامی تعلیمات میں دو چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں — توحید اور تزکیہ- توحید اللہ کی نسبت سے ہے اور تزکیہ بندے کی نسبت سے- اِن دونوں کے دو درجے ہیں- ایک ابتدائی درجہ اور دوسرا اعلی درجہ- میرے اپنے مطالعے کے مطابق، خواصِ صحابہ اِن دونوں کے معاملے میں اعلی درجے تک پہنچے تھے- لیکن امت کی بعد کی تاریخ میں، میرے علم کے مطابق، شاید کوئی بھی شخص اِن دونوں معاملات میں اعلی درجے تک نہ پہنچ سکا- یہ رائے میں نے بعد کے لوگوں کی اُن تحریروں سے قائم کی ہے جو کتابوں میں موجود ہیں-توحید کا اعلی معیار یہ ہے کہ بندے کے اندر اللہ سے حبِ شدید اور خوفِ شدید پیدا ہوجائے- میرے علم کے مطابق، امت کے بعد کے افراد میں خوفِ شدید کی مثالیں تو ملتی ہیں، لیکن حب شدید کی مثالیں نہیں ملتیں-
تزکیہ کی بنیاد معرفت ہے- جتنا زیادہ معرفت اتنا زیادہ تزکیہ- میرے علم کے مطابق، بعد کے زمانےکے لوگوں نے اعلی درجے کی معرفت ِ ربّانی کا تجربہ نہیں کیا- تزکیہ پر جو کتابیں یا مضامین لکھے گئے ہیں، اُن میں فنی بحثیں تو بہت ہیں، لیکن اُن میں عارفانہ تجزیہ نہیں- تزکیہ کا موضوع انسانی نفسیات سے جڑا ہوا ہے- اِس لیے تزکیہ کا اعلی ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو انسانی نفسیات کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہو-
سوال
مجھے 1998سے آپ کی کتب اور الرسالہ سے استفادے کا موقع مل رہا ہے۔ الحمد للہ آپ کی تحریروں سے بے بہا ایمانی و روحانی، علمی و فکری و اخلاقی منفعت حاصل کرتا رہا ہوں۔ آپ کا لٹریچر میرے بہترین فکری و عملی رہنمائوں میں سے ہے۔ بالخصوص اس میں روحانیت و ربانیت کی جو غیرمعمولی غذا ہے، اُس سے میرے اندر بندگی اور مالکِ کائنات کے استحضار کا گہرا ذوق بیدار ہوا ہے جو میری زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ دینِ انسانیت کی وسعت و سمائیت کا جو ادراک آپ کی تشریحات سے ملتا اور زندگی کے روز مرہ واقعات سے دنیا و آخرت کی گہری حقیقتوں کی یاددہانی کا جو داعیہ بیدار ہوتا ہے اور اِس کے علاوہ عمل و کردار و اخلاق سے متعلقہ دیگر فوائد جو میسر آتے ہیں، اُس پر میں بس بارگاہِ ربُ العزت میں یہ دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری امت و ملت و انسانیت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے- آمین۔
دسمبر 2013 کا الرسالہ دیکھا۔ اُس میں صفحہ 7 پر یہ تذکرہ ہے کہ ابو بکر صدیق نے صحابہ کے مشورے سے قرآن کو ایک جلد کی صورت میں تیار کرانے کے لیے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت کو مقرر کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر موریس بکائی کے الفاظ میں ڈبل چیکنگ سسٹم کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے پورا قرآن مرتب کیا۔ کتابتِ قرآن کی تکمیل کے بعد اِن اوراق کی ایک جلد بنائی گئی۔ یہ جلد چوکور صورت میں تھی، اِس لیے اس کا نام رَبعہ رکھا گیا، یعنی چوکور سائز کی کتاب۔ اِس رَبعہ کو ایک مستند نسخے کے طور پر حضرت حفصہ کے گھر رکھوادیا گیا۔ اِس رَبعہ کی تیاری کے لیے قرآن کے جو متفرق اجزا اکھٹا کیے گئے تھے، اُن کا ایک ڈھیر مسجد ِ نبوی میں موجود تھا۔ صحابہ کے مشورے سے اس پورے ڈھیر کو اُس کے مالکان کو واپس نہیں کیا گیا، بلکہ اُن سب کو جلاکر ختم کردیا گیا۔
اِس کے بعد صفحہ 8 پر حضرت عثمان کے زمانے میں اختلافِ قرأت کا حوالہ آیا ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے صحابہ نے بطورِ خود لکھ کر قرآن کے اپنے اپنے مجموعے تیار کررکھے تھے جن میں بہت سے فرق موجود تھے۔ ان نسخوں کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں قرأت قرآن کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ کوئی شخص ایک انداز سے قرآن پڑھتا، اور کوئی شخص دوسرے انداز سے۔ اس لیے حضرت عثمان نے ابو بکر صدیق کے زمانے کا تیار کردہ مستند نسخہ حضرت حفصہ کے گھر سے منگوایا۔ اُس کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں۔ مسلم ممالک کے مرکزی شہروں میں قرآن کی یہ مستند نقلیں اور معیاری نسخے بھجوائے اور پھر صحابہ کے جمع کردہ نسخوں میں قرأت ِ قرآن میں فرق کا جو مسئلہ موجود تھا، اُس کا حل یہ نکالا کہ اِن تمام غیر سرکاری نسخوں کو اکھٹا کروایا اور پھر صحابہ کی موجودگی میں اُن کو جلاکر ختم کردیا۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی رائے میں اختلافِ قرأت کا مسئلہ ہے کیا؟ ہمارے ہاں اس حوالے سے جو روایات پائی جاتی ہیں اور پھر ہمارے مدارس میں سبعہ یا عشرہ قرأت جو پڑھائی جاتی ہیں، کیا اُن کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ اور کیا اِس طرح معنوی پہلو سے قرآن کے مطالب میں جو فرق واقع ہوتا ہو، خواہ وہ بظاہر بالکل معمولی سا ہی ہو، اِس سے قرآن کی حتمیت و حاکمیت اور لاریبَ فیہ کی حیثیت میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا؟ (اسفند یار عظمت، پاکستان)
جواب
حدیث کی مختلف کتابوں میںایک روایت آئی ہے۔ اِس کو قرأتِ سبعہ کی روایت کہاجاتا ہے۔ اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔اِن قبائل کی زبان مشترک طورپر عربی تھی، لیکن ہر ایک کا لہجہ الگ الگ تھا، جیسا کہ ہر زبان میںہوتا ہے۔ جب قرآن لوگوں کے درمیان پھیلا تو ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کی زبان میں اُس کو پڑھنے لگا۔
اِس پر لوگوں کے درمیان اختلافات ہوئے۔ لوگ، رسول اللہ ﷺسے ایک لہجے میں قرآن کو سنتے تھے اور صحابہ اس کو دہراتے تو وہ مختلف لہجات میں اس کو دہراتے۔ یہ اختلاف بعض اوقات شدت اختیار کرلیتے تھے، یہاں تک کہ عمر فاروق نے ایک بار ایک صحابی کو اپنے سے مختلف لہجے میں قرآن کو پڑھتے ہوئے سنا تو انھوں نے کہا: کذبتَ۔
جب یہ اختلاف بڑھا تو لوگ اِس مسئلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔آپ نے ہر ایک کے قرآن کو پڑھوا کر سنا اور پھر ہر ایک کے لہجے کی تصویب فرمائی (فأیّ ذلک قرأتم أصبتم، فلا تماروا فیہ) آپ نے کہا کہ تم جس طرح پڑھتے ہو، اُسی طرح پڑھو، کیوں کہ قرآن سات لہجوں میں اتارا گیا ہے (إنما أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری لابن حجر العسقلانی، جلد 8 ، صفحہ
اِس سلسلے کی مختلف روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سات قرأت کا مطلب، سات مطلوب قرأت نہیں ہے، بلکہ سات رعایتی قرأت ہے۔ قرآن کی مطلوب قرأت صرف وہی ہے جو قبیلۂ قریش کے لہجے کے مطابق ہے۔ کیوں کہ عرب میں قریش کا لہجہ ہی اسٹینڈرڈ لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ زبان کا لہجہ ابتدائی عمر میں بن جاتا ہے۔ کوئی آدمی بعد کی عمر میں اپنے لہجے کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اِس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ جہاں تک قرآن کی کتابت کا معاملہ ہے، اُس کو قریش کے اسٹینڈرڈ لہجے کے مطابق لکھا جائے گا، البتہ رعایتی طورپر لوگوں کو اجازت ہوگی کہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے لہجے کے مطابق، قرآن کو پڑھیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاقرؤا ما تیسرمنہ۔
سوال
عرض ہے کہ میرا ایک پوتا ’سیف احمد سیف‘ امریکا میں ہے- اس کی عمر چھ سال ہے- وہ جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہے- حال ہی میں اس نے اپنے والدین سے ایک سوال کیا- تناظر یہ تھا کہ والدین بچے کے سامنے اللہ تعالی کی قدرت وقوت کے بارے میں گفتگو کررہے تھے- بچےنے دفعتاً یہ سوال پوچھا:
But where does Allah get all these powers from?
انھوں نے یہ سوال مجھے بھیجا ہے- میں الرسالہ پڑھتا ہوں- آپ ’’سوال وجواب‘‘ کے کالم میں لوگوں کے سوالات کے جوابات لکھتے ہیں- میں اسی کالم کے حوالے سے یہ سوال آپ کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ایسا جواب مل جائے گا جس سے وہ بچہ مطمئن ہوسکے- جو جواب آپ تحریر فرمائیں گے، میں اسے امریکابھیج دوں گا- اور دوسرے قارئین بھی اس سے استفادہ کرسکیں گے- (عزیز احمد، اسوسییٹ پروفیسر ریٹائرڈ، ایس ایس وی کالج، ہاپوڑ، یوپی)
جواب
یہ سوال ایک غیر منطقی (illogical)سوال ہے- منطقی طورپر اِس معاملے میں اصل مسئلہ ایک موجود واقعے کی توجیہہ (explanation)کا ہے، نہ کہ خود موجود واقعے کا سبب تلاش کرنے کا- اِس معاملے میں بعد موجود واقعہ (post-existing event)پر غور کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے، جب کہ قبل موجود واقعہ (pre-existing event) صرف کنفیوزن کو بڑھاتا ہے- اِس معاملے میں یہی نقطہ نظر علمی نقطہ نظر (scientific outlook)ہے- ہماری اصل ضرورت کنفوزن کو ختم کرنا ہے، اِس معاملے میں موجود کی توجیہہ تلاش کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے اور موجود کا سبب تلاش کرنے سے کنفیوزن میں اضافہ ہوجاتاہے-
یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ سائنٹفک طرز فکر ہی صحیح طرزِ فکر ہے- کوانٹم تھیوری (quantum theory) کے مطابق، سائنس کا جدید ترین موقف یہ ہے کہ انسان کسی معاملے میں صرف احتمال (probability) تک پہنچ سکتا ہے-
مذکورہ سوال اِس اصولِ عام سے الگ نہیں- اگراِس سائنسی اصول کو مان لیا جائے تو بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کی صفات پر ایمان کے معاملے میں یہ سائنسی اصول پوری طرح منطبق ہوتا ہے، کیوں کہ یہاں زیر بحث معاملے کی توجیہہ کے لیے کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہیں- سائنسی اصول کے مطابق، جب کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہ ہو توپہلا احتمال یا قرینہ اپنے آپ ثابت شدہ بن جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں
1- عثمانیہ یونی ورسٹی (حیدرآباد) میں حسب ذیل موضوع کے تحت
Building Peace Through Earning And Understanding
A Buddhist initiative of dialogue with Hinduism and with Islam
Organised jointly by World Buddhist Culture Trust and OUCIP
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے سی پی ایس کے 9ممبران کے ساتھ اس میں شرکت کی- اِس موقع پر عثمانیہ یونی ورسٹی میں قارئین الرسالہ کی طرف سے ایک چار روزہ (
2- ممبئی (باندرا کُرلا کامپلکس) میں
3- مسٹر سراج الدین قریشی کی طرف سے 30 نومبر 2013 کو وجے واڑہ (آندھرا پردیش) میں واقع اُن کے دو ہوٹلوں میں قرآن کے انگریزی ترجمےکے نسخے رکھے گئے — ہوٹل سورن پیلیس کے 50 روم میں، اور ہوٹل گیٹ وے میں
4- مہاراشٹریہ اسٹیٹ اردو اکادمی کی طرف سے دسمبر 2013 میں انڈیا کی 100 مختلف اردو اکیڈمی اور ادبی اداروں کے نام پر ایک سال کے لیے ماہ نامہ الرسالہ جاری کیاگیا -
5- حیدرآباد کے این ٹی آراسٹیڈیم میں
6- سویڈن کی اُمیایونی ورسٹی کے ایک ریسرچ اسکالر مسٹر ماتیاس (Mattias Dahlkvist) نے 7 دسمبر 2013 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا- یہ انٹرویو اسلام اور امن کے موضوع پر تھا-
7- پٹنہ (بہار) کے شری کرشنا میموریل ہال میں
8- منسٹری آف ایجوکیشن افغانستان کی طرف سے کابل میں
9- انڈیا اور انڈیا سے باہر کے مختلف مقامات پر ہمارے ساتھی بڑے پیمانے پر قرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کا کام کررہے ہیں- اِس سلسلے میں سہارن پور (یوپی) میں بھی کافی دعوتی کام ہورہا ہے- یہاں بھی ہمارے ساتھی ڈاکٹر محمد اسلم خاں کی سرپرستی میں مختلف مقامات — اجتماعات اور تقریبات کے موقعوں پر قرآن اور دعوتی لٹریچر کی اشاعت کررہے ہیں- مثلاً
10- نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے آڈی ٹوریم میں 5 جنوری 2014 کو سیرت النبی کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی- یہ پروگرام ادارہ عاشقانِ رسول (نئی دہلی) کی طرف سے کیاگیا تھا- اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ممبران کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی- اِس موقعے پر سی پی ایس کی طرف سے حاضرین کو قرآن کے تراجم اور دعوتی پمفلٹس دئے گئے-
I was part of the team which did dawah work at the Jaipur Literature Festival. I was really happy to see the curiosity of people exhibited in learning about Islam, regardless of their ethnic background. What kept me energetic in the joy of gifting the Quran was the gratitude people showed to the CPS volunteers. People used to smile and thank as if they were in need of the Quran since a very long time. (Sohaib Khan, Lucknow)
On November 22, 2013, I was in a training program with few senior people from Indonesia. In a conversation during break time, a gentleman by the name of Anis mentioned that they had been looking for an English translation of the Quran. It is strange but true that these people had not read the Quran for the last many years. I had a few copies of the Quran and immediately handed it out to them along with a copy of the book, The Prophet of Peace. (Sailesh Malhotra, Singapore)
I went yesterday to pick up the box of the Quran translations provided by you. I am so grateful for this great opportunity. I will forever be grateful to you. You can count me on your list of new Quran distributors. (Gnama Griffin, USA)
I too am a member of the CPS. I too am spreading the message of Islam through the magazine, Spirit of Islam. I feel very glad to let you all know that our magazine has reached Patiala, Ludhiana and Leh. (Zakeena, Amritsar)
On Jan 10, 2013, a German Christian delegation visited the Parliament House mosque. An interactive programme was organized and conducted by CPS member Sadia Khan. Maria Khan gave an introduction to Islam, which was followed by questions and answers. The German Quran translation and the booklet What is Islam were distributed to all. (Maria Khan, Delhi)
I received a package of books, including the Quran, from you today. As a member of the science faculty at Bryn Athyn College, an institution devoted to faith-learning integration in a New Church perspective, I will share these books with my colleagues. (Allen J. Bedford, Dean of Academics and Faculty, USA)
I have again given away my copy of the Quran . I like it so much better than any other translation. I do not like to give people the other translations. So, I keep ending up with no Quran for myself. If I could buy some, I would be so happy to keep them with me when people are interested to know about Islam. (Laura Stanbery, Quinlan, Texas)
I have established two libraries of Maulana's books in restaurants frequented by Indian and Pakistani people. People are actively reading books there, and also taking them home. I will be starting two more libraries in a nearby city of Springfield. (Laeeq Ahmad, Khan, USA)
I have read a few different English versions of the Quran, but this one is the best I have read to date. The English structure is easy to understand. I really loved this translation. There is also an explanation and commentary section in the back of the book which makes up about one half of the book. It is easily referenced during the reading of the verses. Definitely a keeper. Nice work ! (Review on the Quran ranslation on Amazon.com by Mark M from Grand Rapids, USA)
Republic Day was celebrated on 26th January by Bazm-e-Adab at Dr.Shaikh Bunkar Colony Kamptee (M.S.) On the occasion Tringa was unfurled by Mr.Vijay Vasudeo Wasnik. Mr.Radhesham Hatwar, Vice President, Siv Sena, Nagpur Dist. presided over the function. On this occasion Mohammad Irfan Rasheedi distributed Pavitra Quran among the non-muslims. They took it with great interest.
I am a retired government servant from Pakistan. I luckily got a copy of the Quran as a gift from Mr Shamshad Khan, IPIC, Birmingham. Two days back I completed the first study of this Quran, translated by Maulana Wahiduddin Khan. It is a wonderful and a very appropriate translation. The commentary is even more praiseworthy. I have studied many English translations, but I enjoyed reading this one the most. This commentary is different and unique in style. (Col. Muhammad Shahbaz, Pakistan )
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.