قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (
غیب کا لفظ عربی زبان میں صرف غیر مشہود (unseen)کے معنی میں نہیں ہے- غیب کا لفظ ایسی چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو اگرچہ غیر مشہود ہو، مگر وہ غیر موجود نہ ہو، یعنی جب ایک چیز موجود ہوتے ہوئے دکھائی نہ دے تو اس کے لیے غیب کا لفظ بولا جائے گا- اللہ کا معاملہ یہی ہے- اللہ اگر چہ بہ ظاہر غیب میں ہے، مگر بہ اعتبار حقیقت ، وہ تمام موجود چیزوں سے زیادہ موجود ہے- اِس آیت میں ایمان بالغیب سے اصلاً ایمان باللہ مراد ہے، مگر تبعاً اِس میں وہ تمام متعلقاتِ ایمان شامل ہیں جن پر ایک مومن کے لیے ایمان لانا ضروری ہے- مثلاً وحی، ملائکہ، جنت اور جہنم، وغیرہ-
اصل یہ ہے کہ ہم چیزوں کو دو طریقوں سے جانتے ہیں — ایک، مشاہدہ (observation)، اور دوسرا استنباط (inference)- سائنسی اعتبار سے، یہ دونوں طریقے یکساں طورپر معتبر ہیں- اعتباریت (validity) کے لحاظ سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں-
موجودہ زمانے میں سائنس کو علمی مطالعے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھا جاتا ہے- سائنس کے دو حصے ہیں — ایک ہے، نظری سائنس (theoretical science) ، اور دوسرا ہے، فنی سائنس (technical science)- سائنسی مطالعے کے مطابق، فنی سائنس کا دائرہ بہت محدود ہے- فنی سائنس کے ذریعے چیزوں کے صرف ظواہر (appearance)کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن تمام چیزیں جو بہ ظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ اپنے آخری تجزیے میں غیر مرئی (unseen) ہوجاتی ہیں- مثلاً آپ پھول کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن پھول کی خوشبو کو آپ نہیں دیکھ سکتے- پھول کی خوشبو کو کسی بھی خورد بین (microscope) یا دور بین (telescope) کے ذریعے دیکھنا ممکن نہیں- حالاں کہ جس طرح پھول کا وجود ہے، اِسی طرح پھول کی خوشبو کا بھی وجود ہے-
سائنسی مطالعے کے مطابق، تمام چیزیں آخر کار ایٹم کا مجموعہ ہیں، اور ایٹم اپنے آخری تجزیے میں الیکٹران (electron) کا مجموعہ ہے- ایک سائنس داں نےاِس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کائنات ناقابلِ مشاہدہ الیکٹران کا مجنونانہ رقص (mad dance of electrons) ہے- ایک اور سائنس داں نے کائنات کی ا ِسی غیر مرئی حیثیت کی بنا پر کائنات کو امکان کی لہروں (waves of probability) سے تعبیر کیا ہے-
اِس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگاکہ صرف بہ ظاہر غیر مشہود خالق (Creator) ہی غیب میں نہیں ہے، بلکہ بہ ظاہر مشہود تخلیق (creature) بھی حالتِ غیب میں ہے- برٹش سائنس داں سر آرتھر ایڈنگٹن (وفات: 1944) نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا نام یہ ہے:
Science and The Unseen World, by A. S. Eddington, Macmillan, 1929, pages 91
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں، ہم اُن کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، چیزوں کی اصل حقیقت ہمارے لیے پھر بھی غیر مشہود رہتی ہے- یہی معاملہ خدا کا ہے- خدا اپنی ذات کے اعتبار سے، بہ ظاہر غیر مشہود ہے، لیکن اپنی تخلیق کے اعتبار سے، خدا ہمارے لیے مشہود بن جاتا ہے- تخلیق کا موجود ہونااپنے آپ میں خالق کے موجود ہونے کا ثبوت ہے- کائنات اتنی زیادہ با معنی (meaningful) ہے کہ خالق کو مانے بغیر اس کی توجیہہ سرے سے ممکن ہی نہیں-
اللہ رب العالمین کا حالتِ غیب میں ہونا ایک اعتبار سے امتحان (test) کی مصلحت کی بنا پر ہے- اللہ اگر عیاناً دکھائی دے تو امتحان کی مصلحت ختم ہوجائے گی- اللہ غیب میں ہے، اِسی لیے اُس پر ایمان ہمارے لیے ایک امتحانی پرچہ (test paper) ہے- اللہ اگر شہود میںہوتا تو اس پر ایمان لانا انسان کے لیے اس کے امتحان کا پرچہ نہ بنتا- اللہ کا اور اس سے متعلق ایمانیات کا غیب میں ہونا انسان کے لیے ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اسی کی وجہ سے انسان کے ذہن میں غور وفکر کا عمل (process of thinking)جاری ہوتا ہے- اِسی کی بنا پر ایسا ہے کہ ہمارے لیے تدبر کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا میدان موجود ہے- اِسی بنا پر ایسا ممکن ہوتا ہے کہ ہم اللہ کو دریافت (discovery) کے درجے میں پائیں- اِسی بنا پر یہ ممکن ہے کہ خدا کی معرفت ہمارے لیے ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality) ہو، اور بلاشبہہ یہ ایک واقعہ ہے کہ خود دریافت کردہ حقیقت سے زیادہ بڑی کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں- اللہ کا اور اُس سے متعلق ایمانیات کا انسان کے لیے غیب میں ہونا، انسان کے لیے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ایک لامتناہی ذریعہ (endless source) کی حیثیت رکھتا ہے-
ہدایت کے لیے ایمان بالغیب کی شرط کوئی تحکُّمی (arbitrary) شرط نہیں ہے، بلکہ وہ انسان جیسی مخلوق کے لیے ایک نہایت معقول شرط ہے- کسی بھی بڑی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ بیدار شعور (awekened mind) درکار ہوتا ہے- جس انسان کا شعور بیدار ہو، وہی اِس قابل ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی حقیقت کو سمجھ سکے- خدا بلا شبہہ سب سے بڑی حقیقت ہے، اِس لیے خدا پر ایمان یا خدا کی معرفت حقیقی طورپر صرف اُس انسان کو حاصل ہوگی جو مطالعہ اور غوروفکر کے ذریعے اپنے شعور کو بیدار کرچکا ہو- جس انسان کا شعور بیدار نہ ہو، وہ گویا ذہنی اندھے پن (intellectual blindness)میں مبتلا ہے، اور بلا شبہہ ذہنی اندھے پن کے ساتھ خداوند عالم کی معرفت کسی انسان کو نہیں مل سکتی-
واپس اوپر جائیں
تقریر یا تحریر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اندر وضوح (clarity) ہو، یعنی اُس کو سننے یا پڑھنے کے بعد مقرر یا محرر کا مدعا بلا اشتباہ سمجھ میں آجائے- کلام کا وضوح یہ ہے کہ اُس کے اندر کنفیوژن (confusion) نہ ہو، جو بہ آسانی قابلِ فہم (easily understandable) ہو-
دنیا میں جو چیزیں ہیں، وہ سب ملی ہوئی حالت میں ہیں،مادی چیزیں بھی اور تصورات (ideas)بھی- مگر دونوں میں ایک فرق ہے- مادی چیزوں کو فطرت نے خود اپنی طرف سے الگ الگ کر رکھا ہے، مگر تصورات کے معاملے میں الگ الگ کرنے کا کام انسان کو خود کرنا ہوتا ہے- سائنس میں چیزیں اپنے آپ ممیَّز ہوجاتی ہیں ، جب کہ انسانیات (humanities)میں چیزوں کو غوروفکر کے ذریعے ممیز کرنا ہوتا ہے- سائنس سے مراد علومِ طبیعی (physical sciences)ہیں- اور انسانیات سے مراد وہ علوم ہیں جن کا تعلق انسان سے ہے، مثلاً مذہب، روحانیت، سماجی علوم، وغیرہ-
یہ ایک عام تجربہ ہے کہ جب ایک شخص سائنس کا کوئی مسئلہ بیان کرتا ہے تو اُس میں وضوح (clarity) موجود ہوتا ہے- لیکن جب ایک شخص کوئی ایسا مسئلہ بیان کرتا ہے جس کا تعلق انسانیات سے ہو، تو اس میں وضوح موجود نہیں ہوتا- یہاں ہر شخص کی تحریر میں کنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے، خواہ وہ مذہبی موضوعات پر کلام کرنے والے لوگ ہوں یا سیکولر موضوعات پر کلام کرنے والے لوگ- اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ سائنسی موضوعات میں چیزیں خود فطرت کے نظام کے تحت الگ الگ ہوتی ہیں، اِس لیے آدمی تعین کے ساتھ اُن چیزوں کو ممیز کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے-
مثلاً دودھ میں کثرت سے بیکٹیریا شامل رہتے ہیں- بظاہر خالی آنکھ سے وہ دکھائی نہیں دیتے، لیکن جب دودھ کے ایک قطرہ کو خوردبین (microscope) کے شیشے کے نیچے رکھا جائے تو صاف طورپر نظر آتا ہے کہ دودھ کے اندر بے شمار تعداد میں بیکٹیریا موجود ہیں- اِسی طرح ہماری قریبی کہکشاں (milky way) بظاہر خالی آنکھ سے دیکھنے میں سفید دھاری کے مانند نظر آتی ہے، لیکن جب اُس کو دور بین (telescope) کے شیشے کے ذریعے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ بے شمار الگ الگ ستارے ہیں جو دوری کی بنا پر باہم ملے ہوئے نظر آتے ہیں-
تصورات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے- تصورات انسان کے ذہن میں ہمیشہ مخلوط (mixture) صورت میں موجود ہوتے ہیں- انسانی ذہن ہمیشہ مختلف موضوعات سے متعلق تصورات کا ایک جنگل بنا ہوا ہوتا ہے- جب کوئی انسان کسی موضوع پر کلام کرتا ہے تو اس کے اندر یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ مختلف تصورات کو سارٹ آؤٹ کرکے اپنے نقطہ نظر کو ممیز صورت میں پیش کرسکے- اِس عمل میں فطرت مدد نہیں کرتی- یہ کام آدمی کو خود اپنے قوتِ تجزیہ (power of analysis) کے ذریعے کرناہوتا ہے- آدمی کے اندر اگر تجزیہ کی اعلی صلاحیت موجود نہ ہو تو یقینی طورپر اس کے کلام میں کنفیوژن پیدا ہو جائے گا، اُس کا کلام وضوح (clarity) کی صفت سے خالی ہوگا-
مثال کے طورپراسلام کا موضوع مدرسے میں بھی پڑھایا جاتا ہے اور یونی ورسٹی میں بھی، مگر دونوں کے درمیان ایک واضح فرق ہے- مدرسے کے نصاب میں اسلام کی تعلیم بطور عقیدہ(belief) شامل ہوتی ہے- اِس کے برعکس، یونی ورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز (Islamic studiese) کا نصاب ایک تاریخی ظاہرہ (historical phenomenon) کے طور پر پڑھایا جاتا ہے- جو شخص مدرسہ ایجوکیشن اور یونی ورسٹی ایجوکیشن کے اِس فرق کو نہ سمجھے، وہ جب اِس موضوع پر کلام کرے گا تو اس کے کلام میں کنفیوژن پیدا ہوجائے گا-یہی معاملہ آزادی اظہارِ خیال (freedom of expression) کا ہے- اِس معاملے میں مشرقی اور مغربی تصور کے درمیان فرق ہے- اب اگر مشرقی تصور کو لے کر کوئی شخص اِس موضوع پر کلام کرے تو اپنے تصور کی بنا پر وہ یہ کرے گا کہ وہ آزادی اظہارِ خیال کے ایک واقعے کو اسلام دشمنی پر محمول کرے گا اور اِس طرح اس کے کلام میں کنفیوژن پیدا ہوجائے گا-
انسانی تصورات کے موضوع پر جو شخص اظہارِ خیال کرے، اس کا کلام کنفیوژن سے کس طرح پاک ہو- اِس کا جواب یہ ہے کہ انسانی تصورات کے معاملے میں خود انسان کو وہ کام کرنا پڑتا ہے جو مادّی موضوعات میں فطرت کی طرف سے انجام دیاجاتا ہے، یعنی تصورات کے موضوع پر کلام کرنے والا اپنے اندر خود اپنی کوشش سے اتنی زیادہ تجزیاتی طاقت پیدا کرے کہ وہ خود اپنے ذہن میں چیزوں کو سارٹ آؤٹ (sortout) کرسکے- اِس معاملے میں اس کا ذہن اتنا زیادہ بیدار ہو کہ وہ چیزوں کے فرق کو فوراً محسوس کر لے، وہ مختلف قسم کے تصورات کو اُسی طرح ایک دوسرے سے ممیز کرسکے جس طرح ایک جوہری پتھر کے مختلف ٹکڑوں کو بظاہر ہم شکل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ممیز کرلیتا ہے-
اِس مقصد کے لیے آدمی کو اپنے اندر کامل معنوں میں وہ صلاحیت پیدا کرنی ہوتی ہے جس کو موضوعی طرزِ فکر (objective thinking) کہاجاتا ہے- یہ صفت صرف اُس شخص کے اندر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو ہر قسم کی جانب داری سے خالی کرلے، جو اپنے آپ کو ہر قسم کے تعصبات (prejudices) سے پاک کرلے، جو اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے، جس کا کیس پورے معنوں میں ڈی کنڈیشنڈ (de-conditioned) انسان کا کیس بن چکا ہو، جو اپنے آپ کو ہر قسم کی مصلحتوں سے اوپر اٹھا سکے، جو اپنے اندر آخری حد تک حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کرلے- شعوری ارتقا کی بنا پر جس کا حال یہ ہو کہ اس کے لیے ساری اہمیت صرف اُس چیز کی ہوجائےجو امر ِ واقعہ کے طورپر درست ہو، جس کے نزدیک ساری اہمیت صرف سچائی کی ہو، نہ کہ کسی اور چیز کی-
یہ صفت سیکولر لوگوں میں بھی ہوسکتی ہے، لیکن کامل معنوں میں نہیں- اِس صفت کا کامل ظہور صرف اُس شخص کے اندر ہوسکتا ہے جو ایک متقی انسان ہو- اللہ کے خوف نے جس کو آخری حد تک کٹ ٹو سائز (cut to size)انسان بنادیا ہو- اِس بنا پر راقم الحروف کا احساس یہ ہے کہ کلام میں وضوح پیدا کرنے کے لیے صرف علم کافی نہیں، اُس کے لیے تقوی کی صفت لازمی طورپر ضروری ہے- تقوی کے بغیر صرف علم کی بنیاد پر کسی شخص کے کلام میں جزئی طورپر وضوح کی صفت پیدا ہوسکتی ہے، کامل طورپر نہیں- علم اور تقوی، دونوں صفتیں جب ایک شخص کے اندر جمع ہوں تو اس کے بعد وہ چیز وجود میں آتی ہے جس کو کلام میں وضوح (clarity)کہا جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں
امتِ مسلمہ کے دورِ زوال کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں آئی ہیں- یہ روایتیں گویا پیشگی تنبیہ (advance warning) کی حیثیت رکھتی ہیں- اِن روایتوں کا مقصد یہ ہے کہ امت کے رہنما پیشگی طورپر زوال کی علامتوں کو جان لیں اور اُن کی اصلاح کے لیے سرگرم ہوجائیں- اگر چہ اِس معاملے میں امتِ مسلمہ کا حال بھی عملاً وہی ہوا جو پچھلی امتوں کا ہوا تھا، یعنی پیشگی تنبیہات کے باوجود اصلاحِ حال میں ناکامی-
اِس سلسلے میں حدیث کی کتابوں میں جو روایتیں آئی ہیں، اُن میں سے ایک روایت یہ ہے: لینقضنّ عرى الإسلام عروة عروة- فکلما انتقضت عروة، تشبّث الناس بالتی تلیہا- وأولہن نقضا الحکم، وآخرہن الصلاة (مسند أحمد: 251/5 ) یعنی اسلام کے حلقے (زنجیر) ٹوٹتے رہیں گے، ایک کے بعد دوسری کڑی- جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ باقی ماندہ کڑی سے جڑ جائیں گے- پہلی کڑی جو ٹوٹے گی، وہ ’الحکم‘ ہے اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی ، وہ ’الصلاة‘ ہے-
موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کے درمیان جو انقلابی رہنما پیدا ہوئے، انھوں نے دورِ زوال میں پیش آنے والی خرابی کی وہ تشخیص کی جس کو ’’دین اور سیاست کے درمیان جدائی‘‘ کہاجاتا ہے- اِس غلط تشخیص کی بناپر ساری امت بے نتیجہ طورپر سیاسی ہنگامہ آرائی میں مشغول ہوگئی- صحیح بات یہ ہے کہ دورِ زوال میں امت کے اندر جو خرابی پیدا ہوتی ہے، وہ دین اور سیاست کے درمیان جدائی نہیں ہے، بلکہ وہ دین اور مظاہرِ دین کے مابین جدائی ہے، یعنی دین کی اصل روح کا مفقود ہوجانا اور دین کی ظاہری شکلوں کا باقی رہنا- اِس تفریق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امت کے درمیان بظاہر دین کے نام پر طرح طرح کی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں، لیکن دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے، عملاً موجود نہیں ہوتا- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بظاہر دین داری کے باوجود مسلمان دین کی اُن رحمتوں اور برکتوں سے محروم ہوجاتے ہیں جو سچے اہلِ دین کے لیے مقدر کی گئی ہیں-
کسی امت کے اوپر زوال کا دور اچانک نہیں آتا، بلکہ تدریجی (gradual)طور پر آتا ہے- تدریجی زوال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے اُس سے مانوس ہو جاتے ہیں، وہ زوال کی حالت ہی کو درست حالت سمجھنے لگتے ہیں- اِس زوال کو دوسرے الفاظ میں، تدریجی تحویل (gradual shift) کہا جاسکتا ہے، یعنی ایک حالت سے دوسری حالت تک پہنچ جانا- مذکورہ حدیث میں ’’عُروةً، عُروةً‘‘ تبدیلی کا لفظ آیا ہے- اِس حدیث میں دراصل تمثیل کی زبان میں اِسی تدریجی تحویل کو بتایا گیا ہے- اِس تحویل کی کچھ صورتیں یہاں درج کی جاتی ہیں:
آئڈیالاجکل اسلام سے کلچرل اسلام کی طرف اسپرٹ سے فارم کی طرف
تدبر قرآن سے تلاوتِ قرآن کی طرف تخلیقیت سے تقلید کی طرف
مخلصانہ دین داری سے ظاہر داری کی طرف امت سے سیاست کی طرف
امن سے تشدد کی طرف جہاد سے قتال کی طرف
آخرت پسندی سے دنیا پرستی کی طرف خاموش عمل سے شور وغل کی طرف
حقیقت پسندی سے تصنع کی طرف سادگی سے تکلفات کی طرف
دورِ زوال میں اِن تبدیلیوں کی بنا پر دینِ خداوندی کا وہ حال ہوجاتا ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لا یبقى من الإسلام إلا إسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ (البیہقی فی شعب الإیمان، رقم الحدیث: 1908) یعنی دورِ زوال میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے گا-
اِس حالتِ زوال کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہاجاسکتا ہے کہ قِشر (shell) کا باقی رہنا اور مغز (kernel) کا عملاً باقی نہ رہنا- دورِ زوال میں امت کی اصلاح کا صحیح طریقہ صرف ایک ہے اور وہ ہے— حکیمانہ دعوت وتبلیغ کے ذریعے امت کو دوبارہ قشر کی حالت سے مغز کی حالت کی طرف لے جانا-
واپس اوپر جائیں
اسکالر (scholar)اور مفکر (thinker)کا فرق ایک لفظ میں یہ ہے کہ اسکالر کتابی علم کی بنیاد پر بنتا ہے اور مفکر تخلیقی علم کی بنیاد پر- اسکالر کی تشکیل کتب خانے میں ہوتی ہے اور مفکر کی تشکیل کا دائرہ پوری کائنات تک وسیع ہوتا ہے- اسکالر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ پروفیشنل معیار (professional criterion) پر پورا اترے- اِس کے برعکس، مفکر اپنا معیار خود بناتا ہے، وہ کسی پروفیشنل معیار کا پابند نہیں ہوتا —— روایتی عالم کا نام اسکالر ہے اور تخلیقی اسکالر کا نام مفکر-
اسکالر کو بہت جلد مروَّجہ اداروں میں کوئی سیٹ (seat) حاصل ہوجاتی ہے، لیکن مفکر کا معاملہ اِس کے برعکس ہوتا ہے- مفکر کسی خارجی مولڈ(mould)کا پابند نہیں ہوتا، اِس لیے وہ کسی مروجہ ادارے کے لیے قابلِ قبول بھی نہیں ہوتا- اسکالر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ مروجہ اداروں کی شرائط پر پورا اترے- مثلاً اس کو ایک سے زیادہ زبانوں پر قدرت حاصل ہو، وہ روایتی علم میں مہارت رکھتا ہو، اس کے اندر کامل موضوعیت (objectivity) پائی جاتی ہو، وہ انتہا پسندانہ سوچ سے مکمل طورپر خالی ہو-
مفکر کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ تخلیقی تفکیر(creative thinking) کا حامل ہو- غیر مذہبی دائرے میں مفکر کی ایک مثال کارل مارکس (وفات: 1883ء) ہے- بہ اعتبارِ حقیقت، کارل مارکس کا فکر درست نہ تھا، لیکن کارل مارکس کو سیکولر حلقے میں مسلّم طورپر مفکر کادرجہ دیا جاتا ہے-مسلم تاریخ میں، میرے علم کے مطابق، صرف ایک شخص ہے جس کو پورے معنوں میں، مفکر کہاجاسکتا ہے اور وہ عبدالرحمن بن خلدون (وفات: 1406ء) ہے، تاہم عبد الرحمن بن خلدون کو اسلامی مفکرکا ٹائٹل نہیں دیا جاسکتا- زیادہ درست بات یہ ہے کہ وہ ایک سوشل مفکر (social thinker) تھا-
موجودہ زمانے میں بہت سے مسلمان ہیں جن کو اسلامی مفکر کہا جاتا ہے، لیکن میرے اندازے کے مطابق، اُن میں سے کوئی بھی شخص حقیقی معنوں میں اسلامی مفکر نہیں- اِن میں سے ہرشخص کا کیس یہ ہے کہ وہ روایتی علم سے باخبر تھا، لیکن اس کو جدید دور کی بصیرت حاصل نہ تھی- ایسی حالت میں یہ لوگ اس کے اہل ہی نہ تھے کہ وہ دورِ جدید میں مفکر کا رول ادا کرسکیں-
مفکر کی تعریف (definition) یہ کی جاتی ہے کہ —مفکر وہ ہے جو حقائق ِمتفرقہ کو حقیقت ِواحدہ میں تبدیل کرسکے، وہ بکھری ہوئی حقیقتوں کو داخلی طورپر ایک ہم آہنگ کُل (inter-related whole)بناسکے-اپنی اِسی خصوصیت کی بناپر مفکر کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی زمانے کے حالات کی ایسی تعبیر کرسکے جس میں لوگ غیر مشتبہ طورپر اپنا واحد نشانہ پالیں- مختلف قسم کے منفی پہلوؤں کے درمیان وہ یہ دریافت کرسکیں کہ مثبت طرزِ فکر(positive way of thinking) کی تشکیل وہ کس طرح کرسکتے ہیں-
قانونِ فطرت کے مطابق ایسا ہے کہ دنیا ہمیشہ افکار کا جنگل بنی رہتی ہے- یہ افکار ہمیشہ متضاد پہلوؤں کے حامل ہوتے ہیں- مختلف رنگ کے پتھروں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن ہے، لیکن مختلف نوعیت کے افکار کو ایک دوسرے سے الگ کرنا بلاشبہہ مشکل ترین کام ہے- مفکر کی اہم ترین صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیزوں کو سارٹ آؤٹ (sort out) کرسکے، وہ مختلف اور متفرق اجزا کے ڈھیر میں پائے جانے والے مطلوب جُز اور غیر مطلوب جز کو ایک دوسرے سے الگ کرسکے-
یہی وہ صلاحیت ہے جو ایک مفکر کے اندر مبنی بر فوکس سوچ (focused-thinking) پیدا کرتی ہے- مثال کے طورپر امتِ مسلمہ کی حالت کو دیکھئے - موجو دہ زمانے میں امت مختلف قسم کے خارجی مسائل میں گھری ہوئی ہے— اسرائیل کا مسئلہ، مسلم ممالک میں امریکا کی دراندازی، قرآن اور پیغمبر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا، مسلمانوں کے بارے میں میڈیا کی منفی روش، ہندو ریوائلزم (Hindu revivalism) ، مغربی تہذیب کا چیلنج، اسلامی شریعت میں دوسروں کی مداخلت، مسلم دشمنوں کی سازش، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مستشرقین کے اعتراضات، وغیرہ-
اِن تمام مسائل کو لے کر اگر ایک ہمہ گیر جدوجہد شروع کی جائے تو ایسی ہمہ گیر جدوجہد صرف ایک نتیجہ پیدا کرے گی اور وہ ہے — احتجاجی صحافت یا احتجاجی قیادت- اِس طرح کی نام نہاد ہمہ گیر جدوجہد اگر ہزار سال تک جاری رہے، تب بھی اُس سے کوئی مثبت نتیجہ پیدا ہونے والا نہیں- اِس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ فریقِ ثانی کا تو کچھ نقصان نہیں ہوگا، البتہ مسلمان نفرت اور تشدد کے دلدل میں پھنس کر خود اپنی ہلاکت میں اضافہ کرلیں گے، اس کے سوا کچھ اور نہیں-
ایسی حالت میں مفکر کا کام یہ ہے کہ وہ چیزوں کو سارٹ آؤٹ کرے- وہ متفرقات کے جنگل میں وحدت کا نکتہ دریافت کرے- اِس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہوگاکہ امت اپنے عمل کے لیے صحیح نقطۂ آغاز (right starting point) پالے- صحیح نقطہ آغاز کی دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ امت درست سمت میں اپنا سفر شروع کرے اور پھر مطلوب منزل تک پہنچ جائے-
اِس معاملے میں قرآن وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ حالات میں امت کے لیے صحیح نقطۂ آغاز صرف ایک ہے اور وہ دعوت الی اللہ ہے- دعوت الی اللہ کا صحیح نقطہ آغاز ہونا قرآن وسنت سے واضح طورپر ثابت ہے(
اِس طرح کے معاملے میں مثبت نشانہ دریافت کرنے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہوتا ہے کہ نشانۂ عمل کے منفی پہلوؤں کو دریافت کیا جائے، یعنی ’’کیا کرنا ہے‘‘ کے ساتھ یہ جاننا کہ ’’کیا نہیں کرنا ہے‘‘- جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ صرف ’’کیا کرنا ہے‘‘ کو جانیں، مگر وہ ’’کیا نہیں کرنا ہے‘‘ سے بے خبر رہیں، ایسے لوگوں کے لیے صرف یہ انجام مقدر ہے کہ وہ کسی انجام تک نہ پہنچیں، خواہ انھوں نے بطور خود عمل اور قربانی کا پہاڑ کھڑا کردیا ہو-
واپس اوپر جائیں
ہندستان کے شمالی حصہ میں سردی کے موسم میں کہر (fog) کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، اِس مسئلے کی بنا پر اِس ایریا کی ٹرینیں یا تو اسٹیشنوں پر رک جاتی ہیں یا وہ نہایت دھیمی رفتار سے چلتی ہیں- انڈین ریلوے نے اِس مسئلے کے حل کے لیے ایک آلہ (device) تیار کیا ہے- اِس آلے کا نام ہے — فاگ سیف ڈیوائس (fog-safe device)- اِس آلے کی تیاری کے بعد ٹرین کے ڈرائیور کے لیے یہ ممکن ہوگیاہے کہ وہ گہرے کہر کے اندر بھی ٹرین کو 60 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلا سکے-
یہ مادّی کہر (material fog) کا معاملہ ہے- اِسی طرح ذہنی کہر (intellectual fog)بھی ہوتا ہے- دنیا میں ہر بولنے اور لکھنے والا آدمی ماحول میں اپنی باتوں کو بکھیر رہا ہے- موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی بناپر یہ مسئلہ بے شمار گُنا زیادہ بڑھ گیا ہے- غالباً اِسی ذہنی کہر کو ایک حدیثِ رسول میں ’’فتنةُ الدُّہَیماء‘‘ (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4242)کہاگیا ہے، یعنی سخت قسم کا تاریک فتنہ-
ہر آدمی عملاً اِسی ذہنی کہر کے اندر جی رہا ہے، وہ اُسی کے مطابق سوچتا ہے اور اسی کے مطابق اپنے عمل کا منصوبہ بناتا ہے- اب سوال یہ ہے کہ ایک شخص کس طرح اپنے آپ کو اِس مسئلے سے بچائے- افکار کے اندھیرے میں کس طرح وہ اپنے آپ کو صحتِ فکر (right thinking)پر قائم رکھے-
’فاگ سیف ڈیوائس‘ گویا مادّی مثال کی صورت میں اِس حل کی ایک نشان دہی ہے- ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو داخلی طورپر اِس طرح تیار کریں کہ ہم خارجی فاگ سے غیر متاثر رہ کر سوچنے کے قابل ہوجائیں- ریلوے کی مادی تدبیر کی طرح ہم میں سے ہر شخص کو ایک نظریاتی تدبیر کرنا ہے- قانونِ فطرت کے مطابق، خارجی فاگ کبھی ختم ہونے والا نہیں- جو کچھ ممکن ہے، وہ صرف یہ کہ ذاتی تدبیر کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اُس کے بُرے اثرات سے محفوظ کرلے-
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں جو نئی چیزیں پیدا ہوئیں، اُن میں سے ایک وہ ہے جس کو پروفیشنل ازم (professionalism)کہاجاتاہے، یعنی بطور پیشہ (profession)کسی کام کو کرنا- نئے حالات کے نتیجے میںجو چیزیں و جود میں آئی ہیں، اُن میں سے دو چیزیں یہ ہیں — پروفیشنل جنرل ازم اور پروفیشنل لیڈرشپ- یہ وہ لوگ ہیں جو جنرل ازم یا لیڈر شپ کو بطورپروفیشن اختیار کرتے ہیں، نہ کہ بطور مشن- یہی وہ پروفیشنل لوگ ہیں جو موجودہ زمانے کے مسائل کے اصل ذمے دار ہیں-
اپنے ذہنی افتاد کے اعتبار سے، اُن کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ مسئلے کا حقیقی حل کیا ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلے کے حوالے سے وہ کون سی بات کہہ سکتے ہیں جو عوام کو زیادہ پسند آئے- پروفیشنل صحافیوں اور پروفیشنل لیڈروں کا ذہن عام طورپر یہی ہوتا ہے، خواہ وہ شعوری طور پر ہو یا غیر شعوری طورپر-
اپنے پروفیشنل مزاج کی بناپر یہ لوگ ہمیشہ آئڈیل (ideal)کی بات کرتے ہیں- اُن کو اِس سے بحث نہیں ہوتی کہ عملی طورپر کیا چیز ممکن ہے اور کیا چیز ممکن نہیں-
ان کے پاس ہمیشہ ایک تصوراتی قسم کا معیاری پیمانہ (ideal yardstick) ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ ہر چیز کو ناپتے رہتے ہیں-مثلاً وہ کہتے ہیں کہ — یہ حقوقِ انسانی (human rights) کی خلاف ورزی ہے، یہاں انتظامیہ (administration) نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی، یہاں اتھارٹیز نے امتیازی سلوک (discrimination) کا معاملہ کیا، یہاں قانون کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، یہاں انصاف (justice) کا طریقہ نہیں اپنایاگیا، یہاں پولس نے اپنی ذمے داری ادا نہیں کی، یہاں سِوک سوسائٹی (civic society) کے نمائندوں کو کام کرنے کا موقع نہیں دیاگیا، یہاں لوگوں کے ساتھ دہرے معیار (double standard) کا طریقہ اختیار کیاگیا، وغیرہ- یہ وہ لوگ ہیں جو قوّال ہیں، مگر فعال نہیں اور اِسی قسم کے غیر فعّال قوالوں نے آج کی دنیا میں تمام مسائل پیدا کررکھے ہیں-
واپس اوپر جائیں
قدیم ترین زمانے سے انسان کا یہ ذہن رہا ہے کہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کا سب سے زیادہ طاقت ور ذریعہ جنگ ہے- عربی زبان کی ایک قدیم مثل ہے: الحرب أنفى للحرب- انگریزی زبان میں کہا جاتا ہے — وار فار پیس (war for peace)، یعنی پُرامن مقصد حاصل کرنا ہے تو جنگ کرو- فارسی کے ایک قدیم شاعر نے کہا تھا کہ جو شخص تلوار چلاتا ہے، اُسی کے نام کا سکہ چلتا ہے:
ہر کہ شمشیر زند، سکّہ بہ نامش خوانند
مگر تاریخ کا تجربہ برعکس طور پر یہ بتاتا ہے کہ جنگ سے کبھی کسی نے کوئی مثبت فائدہ حاصل نہیں کیا- ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ جنگ میں جو فریق ہارتا ہے، وہ اپنی ہار کو تسلیم نہیں کرتا- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہارنے والے فریق کے اندر انتقام (revenge) کی نفسیات جاگ اٹھتی ہے- وہ دوبارہ اپنی قوتوں کو مجتمع کرتا ہے اور فاتح فریق کے خلاف انتقامی جنگ چھیڑ دیتاہے- یہی واقعہ بار بار ہوتا رہتا ہے- اِس طرح عملاً یہ ہوتا ہے کہ جنگ سے ہمیشہ ایک دورِ برائی (vicious circle) قائم ہوجاتا ہے:
war-defeat-revenge, war-defeat-revenge
مسلم تاریخ بھی اِس معاملے میں استثنا (exception) کی مثال نہیں- اسلام کی ابتدائی تاریخ بتاتی ہے کہ 2 ہجری میں بدر کی لڑائی پیش آئی- اِس جنگ میں اہلِ ایمان کو مکمل فتح حاصل ہوئی- انھوں نے فریقِ ثانی کے 70 افراد کو قتل کردیا، لیکن مسئلہ ختم نہیں ہوا- عملاً یہ ہوا کہ شکست خوردہ فریق انتقامی نفسیات میں مبتلا ہوگیا- مکہ لوٹ کر اس نے نئی جنگ کی تیاری شروع کردی اور پھر 3 ہجری میں اس نے انتقامی جذبے کے تحت مدینہ پر حملہ کردیا- اس کے نتیجے میں وہ جنگ پیش آئی جس کو جنگ احد کہاجاتا ہے- جنگ احدمیں اہلِ ایمان کو شکست ہوئی اور فریق ِ مخالف نے اِس جنگ میں اہلِ ایمان کے 70 افراد کو قتل کردیا- جنگ کے خاتمے پر فریقِ مخالف کے سردار ابو سفیان نے ایک پہاڑی کے اوپر کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا: یوم بیوم بدر (آج ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا)-
تجربہ بتاتا ہے کہ پوری تاریخ میں اربابِ کار اِس حقیقت سے بے خبر رہے کہ انسان کی انتقامی نفسیات اِس میں رکاوٹ ہے کہ جنگ کے ذریعے کوئی مثبت مقصد حاصل کیا جاسکے- ایسی حالت میں قابلِ عمل طریقہ صرف یہ ہے کہ جنگ کے بجائے صلح کا طریقہ اختیار کیا جائے- صلح کا فائدہ یہ ہے کہ فریقین کے درمیان پر امن ماحول قائم ہوجاتا ہے- اِس طرح یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ حالات کے اندر چھپے ہوئے مواقع کو دریافت کرکے انھیں استعمال کیا جائے- اِس مصالحانہ پالیسی کے تحت کامیابی کا حصول پوری طرح ممکن ہوجاتا ہے، کیوں کہ مواقع کے استعمال ہی کا دوسرا نام کامیابی ہے-
خدائی منصوبہ بندی
اِس معاملے میں انسان کو صحیح رہنمائی دینے کے لیے اللہ نے تاریخ میں مداخلت کا فیصلہ کیا- یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں پیش آیا- اللہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا ذریعہ بنایا- اِس کا آغاز ایک خواب سے ہوا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مدینہ میں تھے- یہاں آپ نے ایک خواب دیکھا- اِس خواب کے مطابق، آپ ذوالقعدہ 6 ہجری میں اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے- اِس کے بعد مختلف واقعات پیش آئے- آخر کار طویل گفت وشنید (negotiation)کے بعد فریقین کے درمیان وہ معاہدہ طے پایا جس کو تاریخ میں معاہدہ حدیبیہ (Hudaibia Agreement)کہاجاتا ہے-یہ معاہدہ اپنی تفصیلات کے اعتبار سے، کئی شرطوں پر مشتمل تھا، لیکن اس کی بنیادی شرط صرف ایک تھی، وہ یہ کہ دس سال تک دونوں فریقوں کے درمیان کوئی جنگ نہ ہوگی- اِس شرط کے الفاظ یہ تھے: ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ سہیل بن عمرو اصطلحا على وضع الحرب عن الناس عشر سنین، یأمن فیہن الناس ویکف بعضہم عن بعض (سیرة ابن کثیر: 3/321) یعنی یہ وہ معاہدہ ہےجو محمد بن عبد اللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان طے ہوا- دونوں اِس پر رضامند ہوئے کہ دونوں کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہوگی-
معاہدہ حدیبیہ دراصل دس سال کے لیے ایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا- مگر دونوں فریقوں کے درمیان اُس وقت دشمنی کا جو ماحول تھا، اُس کے اعتبار سے اِس قسم کا معاہدہ ایک ایسا معاہدہ تھا جو عملاً ناممکن نظر آتا تھا- چناں چہ بظاہر یہ ناممکن چیز صرف اُس وقت ممکن ہوئی، جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقِ ثانی کی کڑی شرطوں کو یک طرفہ طورپر منظور کرلیا-مثلاً ایک شرط یہ تھی کہ مکہ کا کوئی شخص اگر اسلام قبول کرکے مدینہ آئے تو اس کو دوبارہ مکہ والوں کی طرف لوٹانا ہوگا- اِس کے برعکس، مدینے کا کوئی شخص اگر مکہ چلا جائے تو اہلِ مکہ کو حق ہوگا کہ وہ اس کو مکہ میں روک لیں اور دوبارہ اس کو مدینہ واپس نہ کریں- اِسی طرح اِس معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ تمام اہلِ ایمان اِس سال حدیبیہ سے مدینہ واپس چلے جائیں، وہ عمرہ کے لیے مکہ میں داخل نہ ہوں-
معاہدہ حدیبیہ ایک کاغذ پر لکھا گیا تھا-حضرت علی بن ابی طالب اس کی کتابت کررہے تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق، انھوں نے پہلا جملہ یہ لکھا: ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ- فریقِ ثانی کے نمائندہ سہیل بن عمرو نے اِس پر اعتراض کیا- انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، اِس لیے آپ صرف ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ لکھیے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے کہا کہ تم کاغذ پر ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹا دو اور صرف ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ لکھو- حضرت علی کاغذ سے ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹانے پر راضی نہ ہوئے- اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے کاغذ سے مٹا دیا-اِس معاہدے کی تکمیل کے بعد رسول اور اصحاب رسول مدینہ واپس آگئے-اِس معاہدے سے پہلے دونوں فریقوں کے درمیان مسلسل طور پر ایک حالت ِ جنگ (state of war) قائم تھی- اِس بنا پر اسلام کا دعوتی مشن عملاً تقریباً متروک ہوکر رہ گیا تھا- معاہدہ حدیبیہ کے بعد یہ ہوا کہ دونوں فریقوں کے درمیان مکمل امن قائم ہوگیا- اب پیغمبراور آپ کے اصحاب نے دعوت کا نیا منصوبہ بنایا- انھوں نے منظم انداز میں مدینہ کے اطراف میں مسلسل طورپر دعوتی کام شروع کردیا- عرب کے مختلف علاقوں میں آباد قبائل کے درمیان وفود بھیج کر دعوتی کام کیا جانے لگا، حتی کہ عرب کے باہر جو حکومتیں قائم تھیں، اُن کے یہاں دعوتی وفود بھیجے جانے لگے- خود مکہ میں رشتے داروں کے ذریعے آمد ورفت جاری ہوگئی- اِس طرح خود مکہ میں توحید کی آواز پہنچنے لگی-
پرامن ماحول میں اِس طرح دعوتی سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ کثرت سے اسلام کے حلقے میں داخل ہونے لگے، یہاں تک کہ صرف دو سال کے اندر اہلِ ایمان کی تعداد اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ یہ ممکن ہوگیا کہ جنگ کے بغیر خوداہلِ ایمان کی تعداد اسلام کی فتح کے لیے کافی ہوجائے- چناں چہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش منصوبہ بندی کے تحت دس ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ کی طرف مارچ کیا - اِس طرح کسی جنگ کے بغیر مکہ پر اہلِ ایمان کا غلبہ قائم ہوگیا- توحید کی آواز انسانی فطرت کی آواز ہے- اگر معتدل ماحول میں دعوتی کام ہو تو پرامن دعوت ہی لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے کے لیے کافی ہوجائے-روایات میں آیا ہے کہ جب اچانک ایک صبح کو اہلِ مکہ نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دس ہزار اصحاب کے ساتھ مکہ میں داخل ہوگئے ہیں تو مکہ کے سردار ابو سفیان نے یہ اعلان کردیا: یا معشر قریش، ہذا محمد قد جاءکم فیما لا قِبل لکم بہ، فمن دخل دار أبی سفیان فہو آمن (سیرة ابن ہشام:
معاہدۂ حدیبیہ کے نتیجے میں جو تاریخی واقعہ پیش آیا، اس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا (
حکمتِ حدیبیہ
نزاع (conflict) کے معاملے میں انسان قدیم زمانے سے صرف یہ جانتا تھا کہ ایسے معاملے میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب (choice) ہوتا ہے — جنگ یا پسپائی- مگر انسان کی یہ سوچ ثنائی طرزِ فکر (dichotomous thinking) پر مبنی تھی- قانونِ فطرت کے مطابق، یہاں ایک اور انتخاب ممکن تھا جس سے پوری تاریخ میں انسان بے خبر رہا-وہ انتخاب یہ تھا کہ یک طرفہ صلح کے ذریعے امن قائم کیا جائے اور پھر حکیمانہ منصوبہ بندی کے ذریعے موجود مواقع (opportunities) کو بھر پور طورپر استعمال (avail) کیا جائے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ نہ فریقِ ثانی سے ٹکراؤ کیا جائے اور نہ پسپائی کا طریقہ اختیار کیا جائے، بلکہ خاموش منصوبہ بندی کے ذریعے امن کی طاقت (power of peace) کو استعمال کیا جائے- حدیبیہ کے تاریخی واقعے کے تحت اللہ تعالی نے رسول اور اصحاب رسول کے ذریعے اِس حکمت کا عملی مظاہرہ (practical demonstration) کروایا-
مگر یہ تاریخ کا عجیب سانحہ ہے کہ حکمتِ حدیبیہ کے کامیاب مظاہرے کے باوجود مسلم اور غیر مسلم دونوں اِس عظیم حقیقت سے بے خبر رہے- تاریخ میں حکمت حدیبیہ کو صرف ایک بار استعمال کیا گیا، نہ اُس سے پہلے اور نہ اس کے بعد- انسان ہمیشہ امن کے بارے میں سوچتا رہا ہے، حتی کہ امن باقاعدہ مطالعے کاایک مستقل موضوع بن گیا ہے جس کو پیسفزم (pacifism)کہا جاتا ہے- اِس موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں- اِس موضوع پر ایک انسائکلوپیڈیا بھی تیار کی گئی ہے جس کا نام انسائکلو پیڈیا آف پیسفزم (Encyclopaedia of Pacifism) ہے، مگر اب تک کوئی قابلِ عمل نظریۂ امن (ideology of peace) دریافت نہ ہوسکا-
روسی مصنف لیوٹالسٹائے(وفات: 1910) کی امن کے موضوع پر ایک مشہور کتاب ہے- ورلڈ لٹریچر میں وہ ٹاپ کی کتاب سمجھی جاتی ہے- اس نے بتایا ہے کہ امن کا قیام صرف عالمی محبت (universal love) کے تصور پر قائم ہوسکتا ہے- اُس کی اِس روسی کتاب کا ترجمہ مختلف عالمی زبانوں میں ہوا ہے- انگریزی ترجمے کا ٹائٹل یہ ہے —:
War and Peace, by LeoTolstoy—1865
مگر جیساکہ معلوم ہے، ٹالسٹائے کی کتاب صرف ایک ناول ہے، یعنی وہ فکشن کے پیرایے میں لکھی گئی ہے، اور کوئی فکشن حقیقی زندگی (real life) کے لیے گائڈ بک نہیں بن سکتا-
قرآن کا بیان
معاہدہ حدیبیہ ذوالقعدہ 6 ہجری میں طے پایا- اس کے فوراً بعد قرآن کی سورہ الفتح نازل ہوئی- اِس سورہ کی ابتدائی تین آیتیں یہ تھیں: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِیْمًا وَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَــصْرًا عَزِیْزًا (
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ الفتح دورانِ سفر اُس وقت اتری جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ حدیبیہ کی تکمیل کے بعد حدیبیہ سے مدینہ جارے تھے- اُس وقت جو واقعہ ہوا تھا، وہ صرف معاہدۂ امن تھا- جہاں تک فتح کی بات ہے، وہ ابھی مستقبل کی چیز بنی ہوئی تھی- پھر کیوں ایسا ہوا کہ ماضی کے صیغے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے تم کو فتح دے دی، کھلی ہوئی فتح- یہ اسلوب دراصل امن کی اہمیت بتانے کے لیے تھا- اس کا مطلب یہ تھا کہ جب حقیقی معنوں میں پرامن طریقہ (peaceful method) اختیار کیاجائے، تو اُس کے بعد موافق نتیجے کا نکلنا یقینی ہوجاتا ہے-اس کے بعد فرمایا کہ ’لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ ‘ اِس آیت میں ’ذنب‘ کا لفظ ہے- ’ذنب‘ کے لفظی معنی گناہ (sin) کے ہوتے ہیں- مگر یہاں ’دنب‘ کا لفظ اپنے معروف معنی کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ شدتِ اظہار کے لیے استعمال ہوا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ کر یک طرفہ امن کی طرف رہنمائی کی تو تمھارے اندر اِس کے درست ہونے پر شک کیوں پیدا ہوا-
جیسا کہ روایات میں آیا ہے، صحابہ نے اِس معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا تھا- حضرت عمر فاروق نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ: لم نعطی الدنیة فی دیننا (ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا طریقہ کیوں اختیار کریں)- اِسی طرح یہاں’ مغفرت‘ سے مراد معروف معنی میں بخشش (salvation)نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ تحریک توحید کے دوران اہلِ ایمان سے تدبیر کے اعتبار سے جو خطائیں ہوئیں، اُن کو موثر نہ ہونے دینا، اِن تدبیری خطاؤں کے باوجود آخری کامیابی کو یقینی بنانا-
آیت میں واحد کا صیغہ (لیغفر لک) استعمال کیا گیا ہے- اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، مگر یہ خطاب نمائندہ ہونے کے اعتبار سے ہے، یعنی اُس وقت رسول کی حیثیت جماعتِ مسلمین کے نمائندہ کی تھی- گویا اِس آیت میں رسول کو خطاب کرتے ہوئے پوری جماعتِ مسلمین کو مخاطب بنایا گیا ہے- بہ اعتبار حقیقت، اس سے مراد اُس وقت کے اہلِ ایمان کی پوری جماعت ہے- اِس تفسیر کا ایک قرینہ یہ ہے کہ قرآن میں اِس معاملے کو ’إنا فتحنا لک‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، حالاں کہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ یہ فتح پیغمبر اسلام کی شخصی فتح نہ تھی، وہ اس وقت کی تمام جماعتِ مومنین کی اجتماعی فتح تھی- اِس کا دوسرا قرینہ یہ ہے کہ آگے اِسی سورہ کی آیت نمبر 5 میں جمع کے الفاظ آئے ہیں- (
اِس آیت میں اتمامِ نعمت سے مراد وہ چیز نہیں ہے جس کو دوسرے مقام پر اکمالِ دین (
حدیبیہ کلچر
معاہدہ حدیبیہ سادہ طور پر صرف ایک معاہدہ نہ تھا- معاہدہ حدیبیہ کے ذریعے انسان کے اوپر ایک عظیم حکمت (wisdom) کو کھولا گیا، یعنی یہ حکمت کہ اجتماعی زندگی میں کامیابی کا طریقہ کیا ہے-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں 2 ہجری میں بدر کی لڑائی پیش آئی- اِس لڑائی میں اہلِ ایمان کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی، لیکن اِس کے صرف ایک سال بعد احد کی لڑائی پیش آئی- اِس لڑائی میں فریقِ ثانی نے زبردست کامیابی حاصل کی- انھوں نے لڑائی کے میدان میں اہلِ ایمان کے 70 آدمیوں کو ہلاک کردیا- ایسا انتقامی نفسیات کی بنا پر ہوا- بدر کی لڑائی اہلِ ایمان کے لیے فتح تھی، لیکن فریقِ ثانی کے لیے وہ انتقام کے ہم معنی بن گئی:
Battle of Badr was victory for Muslims and revenge for the other party.
اِس تجربے سے معلوم ہوا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں-جنگ میں کامیابی صرف اُس وقت مسئلے کا حل بن سکتی ہے جب کہ فریقِ ثانی اپنی شکست (defeat) کو تسلیم کرے- مگر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ہارا ہوا فریق اپنی ہار کو نہیں مانتا، بلکہ اس کے اندر انتقام کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں- اِس بنا پر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جنگ کبھی مسئلے کو ختم کرنے والی ثابت نہیں ہوتی-اِس بنا پر اللہ کی رہنمائی کے تحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسئلے کے حل کا ایک نیا طریقہ اختیار کیا- اِس طریقے کو حکمتِ حدیبیہ کہہ سکتے ہیں- حدیبیہ کا معاہدہ ایک ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا، جو فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان کر انجام پایا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم معاہدے کو مکمل کرنے کے بعد حدیبیہ سے مدینہ کی طرف واپس لوٹے- سفرکے دوران آپ پر سورہ الفتح نازل ہوئی- آپ کے اصحاب معاہدہ حدیبیہ پر خوش نہ تھے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورہ الفتح اپنے اصحاب کو سنائی تو صحابہ کو اِس کے بارے میں تردد ہوا- حضرت عمر فاروق نے تعجب کے ساتھ کہا: أوفتح ہو یا رسول اللہ؟ قال: نعم، والذی نفسی بیدہ إنہ لفتح- (اے خدا کے رسول، کیا یہ فتح ہے- آپ نے فرمایا کہ ہاں، اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بے شک وہ فتح ہے)- ایک اور شخص نے کہا کہ: ما ہذا بفتح (یہ تو کوئی فتح نہیں)- اِس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بل ہوأعظم الفتوح (وہ فتح ہے، بلکہ وہ تمام فتحوں سے زیادہ بڑی فتح ہے) تفسیر القرطبی: 16/260
معاہدہ حدیبیہ جیسے ایک معاہدے کو قرآن میں فتح مبین کیوں کہاگیا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں فرمایا کہ یہ ایک عظیم فتح ہے، حالاں کہ آیت کے نزول کے وقت عملی طورپر ’فتح‘ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا- حقیقت یہ ہے کہ یہ تبصرہ سیاسی فتح کے معنی میں نہ تھا، بلکہ وہ اِس معنی میں تھا کہ اِس معاہدے کے نتیجے میں اہلِ ایمان کو اپنے حریف کے اوپر بالادستی حاصل ہوگئی، یعنی اہلِ ایمان اپنے حریف کے مقابلے میں ایڈوانٹج کی پوزیشن میں آگئے-
معاہدہ حدیبیہ کے وقت فریقِ ثانی کے پاس صرف تلوار کی طاقت تھی- اِس معاہدے نے فریقِ ثانی کو پابند کردیا کہ وہ اپنی تلوار کو اہلِ ایمان کے خلاف استعمال نہ کرے- اِس طرح گویا اہلِ ایمان کے مقابلے میں، فریقِ ثانی خود تو بے طاقت ہو کر رہ گیا- لیکن اہلِ ایمان کے پاس تلوار کے سوا ایک اور چیز تھی جو فریقِ ثانی کے پاس نہ تھی اور وہ ہے نظریہ توحید(ideology of Tawhid)- یہ نظریاتی طاقت پوری طرح قابلِ استعمال تھی - معاہدہ حدیبیہ کے بعد یہ ہوا کہ فریقِ ثانی عملی طورپر کچھ کرنے کے قابل نہ رہا- اِس کے برعکس، امن کے قیام کی بنا پر اہلِ ایمان کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی پوری طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آئڈیالوجی کی بھر پور تبلیغ کریں-
چناں چہ ایسا ہی ہوا- ایک طرف فریقِ ثانی اِس پر مجبور ہوگیا کہ وہ اہلِ ایمان کے خلاف اپنی تلوار نہ استعمال کرے اور دوسری طرف اہلِ ایمان کامل آزادی کے ماحول میں نظریہ توحید کی تبلیغ واشاعت میں ہمہ تن مشغول ہوگئے- انھوں نے عرب کے تمام شہروں اور قبیلوں میں توحید کا پیغام پہنچانا شروع کردیا، حتی کہ عرب کے باہر جو ممالک تھے، اُن کے باشندوں تک بھی وہ اسلام کا پیغام پہنچانے لگے- اِسی حکمتِ حدیبیہ کا یہ نتیجہ ـتھا کہ صرف دو سال میں پورا عرب اسلام میں داخل ہوگیا-
حدیبیہ پالیسی کا فائدہ صرف یہ نہ تھا کہ ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے ملک میں اسلام کو یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ مختصر مدت میں وہاں ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) آگیا- اس کا دوسرا عظیم فائدہ یہ ہوا کہ حدیبیہ پالیسی کے ذریعے عرب میں جو انقلاب آیا، اُس نے انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک نیا عمل (process) جاری کردیا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتا ہوا موجودہ دور تک پہنچا- اِس اعتبار سے، موجودہ دور کو حدیبیہ پر اسس کا نقطہ انتہا کہاجاسکتا ہے-
حدیبیہ حکمت کیا تھی- حدیبیہ حکمت مختصر طورپر یہ تھی کہ جنگی ٹکراؤ کو بند کرکے امن کا ماحول قائم کرنا اور پھر پُرامن کوشش کے ذریعے اسلام کے فطری پیغام (natural message) کو لوگوں تک پہنچانا- موجودہ زمانے میں انسانی تعلقات کے درمیان جو تبدیلیاں ہوئی ہیں، اس کے بعد یہی حدیبیہ کلچر تمام قوموں کے اتفاق کے ساتھ ساری دنیا میں رائج ہوگیا ہے- اِس اعتبار سے، موجودہ دور کو دورِ حدیبیہ (age of Hudaibia) کہا جاسکتا ہے- پچھلے دور میں حدیبیہ کلچر صرف مقامی طورپر آیا تھا- موجودہ زمانے میں حدیبیہ کلچر کسی قربانی کے بغیر عالمی سطح پر قائم ہوگیا ہے-
اقوامِ متحدہ کا قیام
اقوامِ متحدہ (UNO) 1945 میں قائم ہوئی- اِس ادارے کا خاص مقصد عالمی امن کا قیام تھا- دنیا کے تمام ممالک باقاعدہ طورپر اس کے ممبر بنے- اِس بین اقوامی ادارے کا ہیڈ کوارٹر نیویارک (امریکا) میں قائم ہے-اِس عالمی ادارے کے تحت تمام ملکوں کے اتفاق سے ایک چارٹر (charter) تیار کیا گیا، جس کو اقوامِ متحدہ کا منشور (Charter of the United Nations) کہا جاتا ہے- اِس چارٹر کے تحت تمام قوموں کے اتفاق سے ایک قرار داد طے پائی جو دفعہ 2 (4)کے طورپر اِس چارٹر میں شامل ہے-اقوامِ متحدہ کے اِس چارٹر کی دفعہ کے تحت تمام قوموں کے اتفاق سے یہ طے پایا کہ — تمام ممبر ممالک بین اقوامی تعلقاتی میں اِس کے پابند ہیں کہ وہ کسی ریاست کو اس کے استحکام یا اس کی سیاسی آزادی کے معاملے میںدھمکی نہیں دیں گے اور نہ اس کے خلاف طاقت کا استعمال کریں گے:
All Members shall refrain in their international relations from the threat or use of force against the territorial integrity or political independence of any state.
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی یہ دفعہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے، عین وہی ہے جو معاہدہ حدیبیہ کے وقت طے پائی تھی- مزید یہ کہ ساتویں صدی میں معاہدہ حدیبیہ کے وقت فریقِ ثانی کی جن شرطوں کو یک طرفہ طورپر ماننا پڑا تھا، بیسویں صدی میں تمام قوموں نے اِن شرطوں کو بطور خود حذف کردیا- موجودہ زمانے میں اہلِ ایمان کو اِس چارٹر کے مطابق، خود حالات کے تحت، عالمی امن حاصل ہوگیا ہے- اِسی کے ساتھ موجودہ زمانے میں مزید اضافے کے ساتھ وہ تمام امکانات اور مواقع پوری طرح کھل گئے ہیں جو دعوت الی اللہ کے عالمی مشن کے لیے ضروری ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، کھلا پن (openness) ، عالمی کمیونیکیشن، آزادانہ آمد ورفت، پرنٹنگ پریس، وغیرہ-
سورہ الفتح جو معاہدہ حدیبیہ کے بعد اتری تھی، اُس کا خاتمہ اِس آیت پر ہوا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا ۡ سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ٻ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۾ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (
قرآن کی سورہ الفتح کے خاتمے کے یہ الفاظ تمثیل کی زبان میں ایک اہم تاریخی حقیقت کو بتارہے ہیں، وہ یہ کہ معاہدۂ حدیبیہ جو ذوالقعدہ 6 ہجری میں پیش آیا، وہ کوئی وقتی اور محلّی چیز نہ تھا، بلکہ وہ ایک عظیم عمل (process) کا آغاز تھا، جس کے تکمیلی مرحلے پر ایک عالمی انقلاب آنے والا تھا- یہ انقلاب تدریجی طورپر آیا اور بیسویں صدی عیسوی میں اس کی تکمیل ہوئی-
اِس عالمی انقلاب سے مرادوہی چیز ہے جس کو ہم نے دور حدیبیہ (age of Hudaibia) کہا ہے- معاہدہ حدیبیہ کا خلاصہ یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان کر امن قائم کرنا اور پھر تمام موجود مواقع کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کرنا- یہ موافق حالات جو قدیم زمانے میں رسول اور اصحابِ رسول کی قربانیوں کے ذریعے ظہور میں آئے تھے، وہ اب عالمی تبدیلیوں کے نتیجے میں خود زمانی تقاضے کے تحت مزید اضافے کے ساتھ حاصل ہوگئے ہیں- یہ جدید موافق حالات جن اسباب کے ذریعے ظہور میں آئے، وہ وہی ہیں جن کو مغربی تہذیب ، جمہوری افکار، اقوامِ متحدہ، وغیرہ کہاجاتا ہے- یہ بظاہر سیکولر انقلابات تھے، لیکن اللہ نے اِن بظاہر سیکولر انقلابات کو دین کی تائید کا ذریعہ بنادیا-
خلاصہ کلام
ساتویں صدی عیسوی میں حدیبیہ معاہدے کا جو موافق نتیجہ ظاہر ہوا تھا، اس کو قرآن میں ’فتحِ مبین‘ کہاگیا ہے- حدیبیہ معاہدہ کوئی پراسرار چیز نہ تھی، وہ ایک معلوم حکیمانہ تدبیر تھی- ساتویں صدی عیسوی میں اِس تدبیر کو صرف محدود طورپر استعمال کیا جاسکتا تھا- وہ بھی اِس طرح کہ رسول اور اصحابِ رسول کو یہ قربانی دینی پڑی تھی کہ وہ فریق ثانی کی شرطوں کو یک طرفہ طورپرمان لیں، حتی کہ لفظ ’’رسول اللہ‘‘ کو وہ معاہدے کی دستاویز سے مٹا دیں- مگر بعد کو اللہ کی مدد سے جو حالات پیدا ہوئے، اُس کے بعد ایسا ہوا کہ حدیبیہ انقلاب وسیع تر معنی میں ایک عالمی انقلاب بن گیا-
حدیبیہ معاہدے کے ذریعے جو امکانات صرف دس سال کے لیے حاصل کیے گئے تھے، موجودہ زمانے میں انھوں نے مستقل طورپر عالمی اصول (universal norm) کی حیثیت حاصل کرلی ہے- اب نہ دوسروں کی شرطوں کو ماننے کی ضرورت ہے اور نہ کسی دستاویز سے ’’رسول اللہ‘‘ کے لفظ کو مٹانے کی ضرورت- حدیبیہ معاہدے کے بعد اہلِ ایمان کو کام کے جو مواقع ملے تھے، وہ اب مزید اضافے کے ساتھ اُن کو حاصل ہوچکے ہیں- ضرورت صرف یہ ہے کہ اِن مواقع کو دریافت کیا جائے اور دانش مندی کے ساتھ اس کو استعمال کیا جائے - (
واپس اوپر جائیں
تاریخِ مذہب
مذہب (religion) انسان کے لیے ویسا ہی ہے، جیسے بقیہ کائنات کے لیے قانونِ فطرت (law of nature)۔ بقیہ کائنات فطرت کے لازمی قوانین کے تحت کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان ایک آزاد مخلوق ہے- انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ مذہب کے خداداد اصولوں کے تحت اپنی زندگی کو خود منظم کرے۔ آزادی کے اِسی صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اِس اعتبار سے مذہب کی تعریف یہ ہوگی کہ — مذہب نام ہے خدائی قوانین کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تنظیم کا۔
موجودہ زمانے میں علمِ انسانیات (anthropology) کے نام سے ایک مستقل شعبۂ علم وجود میں آیا ہے۔اِس علم کے تحت، ہر دور کے انسانی سماجوں کا مطالعہ کیاگیا ہے۔ اِس مطالعے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ہر زمانے کے سماج میں انسان کے اندر خدا کا عقیدہ پایا جاتا تھا، یعنی ایک ایسی فوق الطبیعی ہستی(supernatural being) کا عقیدہ، جو قائم بالذات (self-existent) ہے، جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا، جو تمام عالمِ موجودات کو کنٹرول کررہی ہے، جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ قرآن کی سورہ اخلاص (
’’کہو، وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۔ اور کوئی اس کے برابر کا نہیں‘‘۔
آدم کی تخلیق
انسان ارتقائی طور پر نہیںپیدا ہوا، بلکہ وہ پہلے ہی دن کامل انسان کے طورپر وجود میں آیا۔ یہ خدا کی تخلیق تھی۔خدا اس پر قادر ہے کہ وہ لاشَے سے شَے کو پیدا کرے۔ اس نے انسان کو وجود عطاکیا، جب کہ اِس سے پہلے وہ مکمل طورپر معدوم تھا(
آدم جس دنیا میں تھے، وہاںاُن کے ساتھ شیطان بھی کسی پہلو سے موجود تھا۔ شیطان نے آدم اور ان کی بیوی دونوں کو بہکایا۔ اس نے کہا کہ یہ شجرۂ ممنوعہ دراصل شجرۂ خُلد، یا ہمیشگی کا درخت (tree of eternity) ہے۔ ابھی تم لوگوں کو صرف زندگی ملی ہے، ابھی تم کو ابدیت حاصل نہیں ہوئی۔ اگر تم اِس درخت کا پھل کھا لو تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ تم کو زندگی کے ساتھ ابدیت بھی مل جائے گی۔ اس کے بعد تم باغوں کی اِس دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہ سکتے ہو۔
آدم اور حوا دونوں اِس بہکاوے میںآگئے۔ انھوںنے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ قرآن کے مطابق، اُن کا یہ عمل خدا کے حکم کی خلاف ورزی (
غلط تسمیہ
شجرۂ ممنوعہ (forbidden tree) کا مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ حق کے راستے سے ہٹنے کا سبب کیا ہوتا ہے۔ اس کا سبب ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے غلط تسمیہ(wrong nomenclature)۔ آدمی، شیطان کے وسوسے کا شکار ہو کر ہمیشہ یہ کرتا رہتا ہے کہ جو چیز خدا کی مقرر صراطِ مستقیم کے خلاف ہے، اس کو وہ ایک دل فریب نام دے کر اپنے لیے جائز کرلیتا ہے۔
اِسی حقیقت کو پیغمبر یوسف نے اپنے جیل کے مشرک ساتھیوں سے ایک دعوتی گفتگو کے دوران اِس طرح بیان کیا تھا: ’’تم خدا کے سوا جن کو پوجتے ہو، وہ صرف نام ہیں، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے اُس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری‘‘ (
اصل یہ ہے کہ انسان کو جب اس کے پیدا کرنے والے نے پیدا کیا تو اُسی وقت اس کی فطرت میںنہایت گہرائی کے ساتھ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھ دی۔ ہر پیدا ہونے والا انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر یہ گہرا شعور لیے ہوئے ہوتا ہے کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاں چیز بُری، فلاں چیز صحیح ہے اور فلاں چیز غلط۔ آدمی اپنے اندر چھپے ہوئے اِس احساسِ فطرت کاانکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان بُرائی کے نام پر بُرائی نہیںکرپاتا۔ جب بھی کوئی انسان برائی کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ کرتا ہے کہ پہلے وہ اُس برائی کا نام بدلتا ہے، وہ اُس برائی کو بطور خود ایک اچھا نام دیتا ہے۔ اِس طرح وہ اپنے آپ کو اِس فرضی اطمینان میں مبتلا کرلیتا ہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں، وہ کوئی بُرا کام نہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، غلط تسمیہ کے اس طریقے کا آغاز انسانی تاریخ میں سب سے پہلے شیطان نے اِس طرح کیا کہ اس نے شجرۂ ممنوعہ کا نام شجرۂ خلد رکھ دیا اور پھر آدم اور حوا کو راضی کیا کہ وہ اِس درخت کا پھل کھالیں۔ تاریخ میںتقریباً تمام بُرائیاں اِسی غلط تسمیہ کے تحت اختیار کی گئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جس چیز کو لَو اَفئر (love affair) کہاجاتا ہے، وہ کیا ہے۔ وہ دراصل سیکس افئر (sex affair) کا خوب صورت نام ہے۔
غلط تسمیہ کی مثالیں موجودہ زمانے میںبہت زیادہ عام ہوچکی ہیں۔ جدید میڈیا میں ہر روز اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً نئی دہلی کے انگریزی روز نامہ ٹائمس آف انڈیا (یکم نومبر 2007) کے ضمیمہ ’دہلی ٹائمس‘ کے صفحۂ اول پر ایک رنگین تصویر ہے۔ اِس تصویر میں ایک لڑکی برائے نام کپڑا پہنے ہوئے کھڑی ہے۔ اِس باتصویر خبر کے اوپر اخبار نے یہ عنوان قائم کیا ہے— سارہ ایک پُراعتماد لڑکی ہے:
Sarah is a Confident Girl.
ساری تاریخ میںانسان اِسی غلط تسمیہ کا سہارا لے کر بُرائیوں کا ارتکاب کرتا رہا ہے۔ تاریخ میں جو برائیاں نظر آتی ہیں، وہ تقریباً سب کی سب براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی غلط تسمیہ کی مثالیں ہیں۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں ہم کچھ مثالوں کا ذکر کریں گے۔
غلط تسمیہ کی مثالیں
خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو اُس نے یہ کیا کہ ایک طرف، انسان کی فطرت میں حق اور ناحق کا احساس پیدائشی طور پر رکھ دیا۔ یہ احساس انسان کے لا شعور میں پیوست تھا۔ اب ضرورت یہ تھی کہ اِس لا شعور کو شعور کے خانے میں لایا جائے ۔ اِس مقصد کے لیے بطور رہنما یا مددگار، خدا نے پیغمبر بھیجنے شروع کیے۔ یہ پیغمبر ہر زمانے میں اور ہر گروہ میں آئے۔ ان کو خدا نے وحی کے ذریعے ہدایت پہنچائی، اور ان کے ذمّے یہ کام سپرد ہوا کہ وہ تعلیم اور تلقین کے ذریعے انسان کے ذہن کو بیدار کریں۔ وہ انسان کو اِس قابل بنائیں کہ جو کچھ اس کے لاشعور میںہے، اس کو وہ شعور کے درجے میں دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیرکرے۔
دنیا کی زندگی چوں کہ امتحان کی زندگی ہے، اس لیے یہاں دو قسم کی طاقتیں مسلسل طور پرکام کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف، پیغمبر جو انسان کو سچائی کا راستہ دکھاتے ہیں، اور دوسری طرف شیطان ہے جو انسان کو بہکا کر اس کو گم راہی کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے۔ شیطان کا طریقہ اب بھی وہی ہے جو اُس نے اِس سے پہلے آدم اور حوا کے ساتھ اختیا رکیا تھا، یعنی غلط تسمیہ کے ذریعے یہ کوشش کرنا کہ انسان بُرائی کو بھلائی کے روپ میں دیکھنے لگے۔شیطان کے اِس عمل کو قرآن میں تزئین (fair-seeming) کہاگیا ہے (
یہ انحراف زیادہ تر غلط تسمیہ کے اصول پر مبنی تھا۔ چناں چہ انسان نے کہا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے مختلف شرکا (partners) مقرر کردیےہیں۔ اب ہمارا تعلق براہِ راست خدا سے نہیں، بلکہ اِنھیں شرکا سے ہے۔ ہم شرکا کے ذریعے خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ جن کووہ شرکا کہہ رہے تھے، وہ دراصل ان کے اپنے مفروضہ نام تھے، لیکن اِن مفروضہ ناموں کو حقیقی قرار دینے کے لیے انھوںنے یہ کیا کہ ان کو شریکِ خدا (partners of God) کا نام دے دیا۔قدیم زمانے سے لے کر اب تک تمام مشرکین نے یہی کیا ہے کہ انھوں نے بطور خود کچھ مفروضہ نام گھڑے۔ مثلاً روشنی کا خدا، بارش کا خدا، زندگی کا خدا، موت کا خدا، طاقت کا خدا، دولت کا خدا، وغیرہ۔ اِس طرح کے مفروضہ خداؤں کاکوئی وجود نہیں، لیکن اس کو موجود بتانے کے لیے بطور خود اس کا ایک نام وضع کیا اور اِس نام کے تحت یہ عقیدہ بنا لیا کہ خدا کا ایک پارٹنر وہ ہے جو بارش، وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔
شرک در اصل خدا کو مانتے ہوئے، اس کے لیے شرکا (partner) بنانے کا نام ہے۔ اِسی کو اصطلاح میں تعدّدِ اٰلہہ کا نظریہ (polytheism) کہاجاتا ہے۔ تاریخ کے پہلے دور میں شرک کی یہی قسم ساری دنیا میں رائج ہوگئی۔ اس کے بعد اس کا دوسرا دور آیا۔ اِس دوسرے دور کو فلسفیوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور ابتداء ً یونانی فلسفیوں کے درمیان شروع ہوا، اور اس کے بعد شرک کے ایک فلسفے کے طور پر وہ مختلف مذاہب کے درمیان پھیل گیا۔ اِس کو ایک لفظ میں فلسفیانہ شرک کہاجاسکتا ہے۔
یہ فلسفیانہ شرک کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو اصطلاحی طورپر وحدتِ وجود (monism) کہاجاتا ہے۔ وحدتِ وجود، خدا کو مانتے ہوئے عملاً اس کے انکار کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ ذہن بھی شیطان نے غلط تسمیہ کی تزئین کے ذریعے انسان کے اندر پیدا کیا۔ وحدتِ وجود کے مشرکانہ فلسفے کی اگر وضاحت کی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ — ہم خدا کے وجود کو مانتے ہیں، ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ اِس سے پہلے، خدا کو ایک محدود وجود کی شکل دے دی گئی تھی، ہم نے خدا کے وجود کو ایک توسیعی مفہوم دے دیاہے:
According to the monotheistic concept, God was believed to be a localized person. The monistic theory has made God an all pervading spirit.
وحدتِ وجود کا تصور اپنی حقیقت کے اعتبار سے خدا کے انکار کے ہم معنیٰ ہے، لیکن اس کے اوپر خوب صورت الفاظ کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ خدا کو ماننا، محض ایک فلسفیانہ تصور کو ماننا نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ اور قادر مطلق خدا کو ماننا ہے، یعنی ایک ایسا خدا جس کا ایک حقیقی وجود ہے، جو دیکھتا ہی اور سنتا ہے، جو تخلق کرتاہے۔ اِسی کے ساتھ وہ محاسِب اور مُجازی ہے۔ وہ روزِ حساب (day of judgement) کا مالک ہے، وغیرہ۔
اِس حقیقت کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نظریۂ توحید کے مطابق، خدا نہ صرف ایک وجود ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ ہر قسم کی صفاتِ کمال کا مالک بھی ہے۔ لیکن وحدتُ وجود کے فلسفے میں یہ ہوتا ہے کہ خدا صرف ایک مجرد تصور (abstract concept) بن جاتا ہے۔ ایک ایسا مجرد تصور جو تمام صفاتِ خداوندی سے خالی ہے۔ وحدتِ وجود کے تصور میں خدا ایسا ہی ہوجاتا ہے، جیسے کہ کاسمِک ریز(cosmic rays)، یا زمین کی قوتِ کشش۔ ایسے خداکی عملی طورپر کوئی معنویت نہیں۔ اُس کا ہونا بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کا نہ ہونا۔
عقیدۂ خدا کے معاملے میںتیسری خوش نما گمراہی وہ ہے جس کو حیاتیاتی ارتقا (organic evolution) کہاجاتا ہے۔ ارتقا کا نظریہ اگر چہ بہت پہلے سے فلسفیوں کے یہاں موجود تھا، لیکن اِس نظریے کو پہلی بار جس نے ایک باقاعدہ ڈسپلن کی صورت میں پیش کیا، وہ چارلس ڈارون (وفات: 1802ء) ہے۔ اِس سلسلے میں چارلس ڈارون نے دو کتابیں لکھیں، جن کے نام یہ ہیں:
On the Origin of Species (1859)
The Descent of Man (1871)
ڈارون نے اپنا نظریۂ ارتقا صرف حیاتیاتی معنوں میں پیش کیا تھا، یعنی حیوانات اور انسان کس طرح اُس کے خیال کے مطابق، ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔ لیکن بعد کو دوسرے علما نے اِس نظریے کو توسیع دی اور ارتقائی طریقِ مطالعہ، دوسرے تمام شعبوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ، خالص سائنسی اعتبار سے، اب تک ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ اعلیٰ سائنسی ذہن ا س کو صرف ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) مانتے ہیں۔ تاہم اِس وقت ہمیں نظریۂ ارتقا کے اِس خالص علمی پہلو کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرنا ہے۔ اِس وقت ہم نظریۂ ارتقا کے صرف اُس پہلو کو لینا چاہتے ہیں، جس کا تعلق الٰہیات کے موضوع سے ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نظریۂ ارتقا، شر ک کی تیسری قسم ہے جس کو سائنسی شرک کہاجاسکتا ہے۔ اِس نظریے میںخدا کا انکار کیے بغیر، خدا کو عملی اعتبار سے غیر موثر بنا دیاگیا ہے۔ بظاہر ڈارون نے اپنی کتاب (The Origin of Species) میں خدا کے وجود کا اقرار کیا ہے، لیکن یہ اقرار صرف علامتی معنیٰ میں ہے، ورنہ ڈارون کے بتائے ہوئے حیاتیاتی ڈرامے میں خدا کا کوئی رول نہیں۔
چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصلُ الانواع(The Origin of Species) میں زندگی کو طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ بتایا ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ میں خدا کے وجود کونہیں مانتا۔ اِس کے برعکس، اس کی اِس کتاب میں ایک سے زیادہ مرتبہ خدا(God) کا حوالہ آیا ہے۔ اپنی اِس کتاب کا خاتمہ اُس نے اِن سطروں پر کیا ہے— خالق نے ابتدا میں زندگی کی ایک، یا کئی شکلیں پیدا کیں اور پھر اُس سے بہت سی انواعِ حیات وجود میں آگئیں۔ تخلیق کا یہ تصور کتنا عظیم ہے:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one.
ارتقا کے نظریے میںدوبارہ یہ کیا گیا ہے کہ خدا کو مان کر خدا کو ایسی حیثیت دے دی گئی ہے، جس میں خدا عملی اعتبار سے کامل طورپر غیر موثر ہوجاتا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق، حیاتِ انسانی اور تاریخِ تہذیب میں خدا کا حصہ صرف اتنا ہے کہ اُس نے آغاز میں کسی نہ کسی طورپر ایک ناقابلِ مشاہدہ جُرثومۂ حیات(amoeba) کو پیدا کیا۔ اس کے بعد انسان کے سفرِ حیات یا اس کی تاریخ پر خداکا کوئی کنٹرول نہیں۔ اِس تاریخ کے خاتمے پر بھی خدا کا کوئی رول نہیں ہے۔کیوں کہ اِس تصور میں خدا نہ روزِ جزا کا مالک ہے، اور نہ وہ انسانوں کو جزا اور سزا دینے والا ہے۔ واضح بات ہے کہ ایسے خدا کو ماننا بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کو نہ ماننا۔ عملی اعتبار سے دونوں تصورات میں کوئی فرق نہیں۔
بعض حضرات مثلاً ایک الجزائری عالم نے اپنی عربی کتاب’’قصّۃ الإیمان بین الفلسفۃ والعلم والقرآن‘‘ میںنظریۂ ارتقا کو بطور واقعہ تسلیم کیا ہے۔ اِسی طرح، پاکستان کے ایک اسکالر نے اپنی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا اور زندگی کے بارے میں قرآن کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ میںاِس نقطۂ نظر کو علمی اعتبار سے درست نہیں سمجھتا۔ جہاں تک الٰہیاتی پہلو کا تعلق ہے، یہ نظریہ بلا شبہہ خدا کے انکار کے ہم معنٰی ہے، اور ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے بعد مغربی دنیامیں عملاً یہی پیش آیا۔
عقیدۂ توحید کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا کے تصور کو کسی نہ کسی طورپر ایک بعید مفروضے کی حیثیت سے مان لیا جائے۔ اِس قسم کے تمام تصورات میں خدا کی حیثیت صرف ایک علامتی وجود کی بن کر رہ جاتی ہے، نہ کہ حقیقی وجود کی۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا وہی قابلِ اعتبار ہے جس میں خدا کو تصورِتوحید کے مطابق مانا گیا ہو۔ اس کے سوا کسی اور حیثیت سے خدا کو ماننا عملاً خدا کے انکار کے ہم معنٰی ہے۔ کیوں کہ قدرتِ کاملہ کے بغیر خدا کے وجود کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
سائنس کے ظہور کے بعد تاریخ میںایک نیا دور آیا، جس کو مٹیریل ازم یا مادّی تہذیب کا دَور کہا جاتا ہے۔ اِس دور میں بھی کچھ انتہا پسند ملحدوں کو چھوڑ کر، خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا گیا۔ اِس دور میںبھی یہی ہوا کہ خدا کو علامتی حیثیت دیتے ہوئے الٰہیات سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کی ایسی خوب صورت توجیہیں کی گئیں، جس کے بعد خدا کا وجود محض ایک مفروضہ بن کر رہ جائے، حقیقی اعتبار سے انسانی زندگی میں خدا کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔
مثال کے طورپر موجود زمانے میں جو تحقیقات کی گئیں، ان کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ سیارۂ زمین کے اوپر استثنائی طور پر ایسے موافقِ زندگی حالات موجود ہیں جو پوری کائنات میںکسی بھی کُرہ پر موجود نہیں۔ اِس کو آج کل کی زبان میں لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کا لفظ بظاہر ایک سادہ لفظ معلوم ہوتا ہے، لیکن جدید تصورِ حیات کی روشنی میں دیکھیے تو یہ بھی غلط تسمیہ کی ایک مثال ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر زندگی کی بقا اور ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ اِنھیں چیزوں کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں:وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا(
یہ حقیقت پہلے بھی انسان کو مجمل طورپر معلوم تھی، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس نے اِس حقیقت کو نہایت تفصیل کے ساتھ دریافت کیا ہے۔ اِن چیزوں کی تفصیل اتنی زیادہ ہے کہ ان کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً سورج سے آنے والی روشنی اور حرارت، زمین کی متناسب قوتِ کشش، آکسیجن کی سپلائی کا حیرت انگیز نظام، پانی کا عظیم ذخیرہ اور بارش کا کائناتی نظام، زمین پر سبزہ اور حیوانات اور غذائی اشیاجیسے بے شمار اسباب ۔ اِس قسم کی اَن گنت چیزیں زمین پر موجود ہیں، جن کے بغیر زمین پر نہ زندگی کی بقا ممکن ہے اور نہ تہذیب کی ترقی۔
مگر خدائی مذہب کے مطابق، یہ تمام چیزیں اصلاً صرف لائف سپورٹ سسٹم کے طورپر نہیں ہیں، بلکہ وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم (test support system) کے طورپر ہیں۔ خالق کے منصوبے کے مطابق، اِن چیزوں کی جو حیثیت ہے، وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم کی ہے، نہ کہ صرف لائف سپورٹ سسٹم کی۔ خالق کے منصوبے کے مطابق ، یہ دنیا مقامِ امتحان (testing ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right)کے طورپر ملی ہے اور نہ انعام کے طورپر، بلکہ وہ صرف امتحان کے طورپر ملی ہے۔ انسان اِس دنیا میں امتحان کی حالت میں ہے۔ یہ امتحان موت کے لمحے تک باقی رہتا ہے۔ انسان کو آج جو زندگی بخش چیزیں حاصل ہیں، وہ صرف اِس لیے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی اور اپنی سرگرمیوں کو باقی رکھتے ہوئے اپنا امتحان دے سکے۔ موت وہ لمحہ ہے، جب کہ امتحان کی یہ مدت ختم ہوجاتی ہے۔ اِس لیے یہ تمام اشیائِ حیات بھی صرف موت کے وقت تک اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ اِس کے بعد انسان مکمل طورپر اِن چیزوں سے جُدا ہوجاتا ہے۔
خالق کے نقشے کے مطابق، انسان کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے۔ قبل ازموت مرحلۂ حیات(pre-death period) اور بعد از موت مرحلۂ حیات(post-death period) آج زمین کے اوپر انسان کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ چوں کہ صرف دورانِ امتحان تک کے لیے ہیں، اِس لیے امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی یہ تمام چیزیں اُس سے مکمل طورپر چھن جائیں گی۔ اِس کے بعد انسان اپنے آپ کو روزِ حساب میں پائے گا۔ وہاں خدا اس کو اس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق، یا تو جنت میں داخل کرے گا، یا جہنم میں ڈال دے گا۔ جنت والے لوگ مزید اضافے کے ساتھ اِن چیزوں کو دوبارہ پالیں گے، اور جہنم والے لوگ ہمیشہ کے لیے اِن چیزوں سے محروم ہو کر رہ جائیں گے۔
انسانی زندگی کی اِس نوعیت کو دیکھیے تو لائف سپورٹ سسٹم کا لفظ، ایک اعتبار سے، غلط تسمیہ کی ایک مثال نظرآتا ہے۔ خالق کے منصوبے کی روشنی میں اِن چیزوں کو زیادہ صحیح طورپر ٹسٹ سپورٹ سسٹم کہاجانا چاہیے، یعنی وہ چیزیں جو انسان کو وقتی طورپر اس لیے دی گئی ہیں، تاکہ وہ اِس مرحلۂ امتحان میں اپنی زندگی کو باقی رکھتے ہوئے مطلوب خدائی امتحان دے سکے۔
لائف سپورٹ سسٹم اپنے آپ میںایک درست لفظ ہے۔ اِس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی بدولت انسان کو اِس زمین پر بقا اور ارتقا کا موقع ملتا ہے۔ لیکن یہ چیزیں انسان کی اپنی پیدا کی ہوئی نہیں ہیں۔ وہ انسان کو کسی حق کی بنا پر بھی نہیں ملی ہیں۔ یہ تمام چیزیں سر تا سر خدا کا انعام ہیں۔ ہر انعام کا ایک مُنعم ہوتا ہے اور اِن چیزوں کا بھی ایک منعم ہے، یعنی اُن کو دینے والا (giver) ۔
لائف سپورٹ سسٹم کا تصور موجودہ کلچر کے پس منظر میں یہ ہوا کہ انعام کو منعم سے الگ کردیا گیا:
It detached the blessing from the Giver of blessing.
یہ واقعہ جو پیش آیا، وہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ بھیانک گمراہی پیش آئی کہ محاسبہ اور مواخذہ (accountability) کا تصور لوگوں کے ذہن سے نکل گیا۔ لوگوں نے زندگی کا مقصد بس یہ سمجھ لیا کہ پیسہ کماؤ اور چیزوں کو بازار سے خرید کر کے عیش و آرام کی زندگی گزارو۔ چیزوں کو صرف لائف سپورٹ سسٹم کے طورپر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے چیزوں سے استفادہ تو کیا، لیکن انھوںنے اِس معاملے میں اپنی کوئی ذمے داری نہیں سمجھی، جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان ایک ایسے کلچر کو فروغ حاصل ہوا جو اِس مشہور مقولے پر مبنی تھا— کھاؤ، پیو اور خوش رہو:
Eat, drink and be merry.
اِس کے برعکس، اگر چیزوں کے معاملے میں یہ تصور ہوتا کہ یہ سب چیزیں ٹسٹ سپورٹ سسٹم (Test Support System) کی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی ان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ یہ چیزیں انجوائے(enjoy) کرنے کے لیے نہیں دی گئی ہیں، بلکہ وہ صرف اِس لیے دی گئی ہیں کہ انسان زندہ رہ کر اپنا امتحان دے سکے۔ ان چیزوں کی نوعیت وہی ہے جیسے امتحان ہال کی نوعیت ہوتی ہے۔ کوئی اسٹوڈنٹ جب تک امتحان ہال میں اپنا ٹسٹ کررہا ہے، اُس وقت تک وہ امتحان ہال کی چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی اسٹوڈنٹ کے لیے امتحان ہال کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ختم ہوجاتی ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ موجودہ دنیا میں انسان کا ہے۔ موجودہ دنیا کی حیثیت ایک بڑے امتحان ہال کی ہے۔ اس کے اندر وہ تمام چیزیں رکھی گئی ہیں جس کی ضرورت ایک اسٹوڈنٹ کو امتحان دینے کے سلسلے میں پیش آتی ہے۔ یہ چیزیں امتحان ختم تو سامان سے فائدہ اٹھانے کا وقت بھی ختم۔
ٹسٹ سپورٹ سسٹم کا یہ تصور آدمی کو پوری طرح ہلادیتا ہے۔ وہ آخری حد تک اس کو سنجیدہ بنا دیتا ہے۔ چیزوں کو اِس حیثیت سے لینے کے بعد، آدمی ان چیزوں کو ذمے داری کا معاملہ سمجھنے لگتا ہے، نہ کہ صرف انجوائے کرنے کی چیز- منعم کے تصور کے بغیر انعام کو لینا، آدمی کو سرکش اور غیر ذمے دار بناتا ہے۔ اس کے برعکس، منعم کے تصور کے ساتھ انعام کو لینا، آدمی کو ماڈسٹ اور ذمے دار بنا دیتا ہے۔
دین ِ اسلام
علماء ِ مذاہب کے نزدیک دنیا میںایک درجن بڑے مذاہب (major religions) پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میں سے ایک مذہب اسلام ہے۔ مسلم ذہن عام طورپر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام تمام مذاہب میںسب سے زیادہ افضل مذہب (superior religion) ہے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، یہ نظریہ سرتا سر بے بنیاد ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان صرف ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اور وہ تاریخی معنوں میں ہے، یعنی اسلام مکمل طورپر ایک محفوظ مذہب (preserved relgion) ہے، جب کہ دوسرے تمام مذاہب تاریخی اعتبار سے غیر محفوظ مذہب (unpreserved religion) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے مذہب کا نہ اوریجنل متن پوری طرح محفوظ ہے اور نہ اس کی تعلیمات اپنی اصل صورت میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے تمام مذاہب بعد کو وجود میں آنے والی کلرجی (clergy) کی پیداوار ہیں، نہ کہ اس کے اصل بانی کی وراثت۔
اِس تبدیلی، یا غیر محفوظیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دیگر مذاہب سے مذہب کی اصل تعلیم ہی حذف ہوگئی۔ مذہب کی اصل تعلیم یہ ہے کہ انسان، خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) ہے۔ قرآن میںیہ بات انتہائی واضح طورپر موجود ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ابتدائی وحی اُتری، اس میں پہلے ہی دن یہ حقیقت موجود تھی۔ چناں چہ شروع میںاترنے والی سورہ المدثر میںکہاگیا : یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ (
یہودی مذہب
لیکن یہی اہم ترین تعلیم بقیہ تمام مذاہب میںبعد کے زمانے میں حذف ہوگئی۔ مثلاً یہودی مذہب میں بعد کے زمانے میں، یہودی علما کی خود ساختہ تشریحات کے تحت، یہ عقیدہ یہودی مذہب میں شامل ہوگیاکہ جنت اور جہنم کا معاملہ نسلی معاملہ ہے، یعنی غیر یہودی نسل سب کی سب جہنم میں جائے گی اور یہودی نسل سب کی سب جنت میں۔ اِس عقیدے نے یہودیوں کو روزِ حساب (day of judgement) کے معاملے میں کامل طورپر بے خوف بنا دیا۔ حالاں کہ اِس قسم کی بے خوفی، خدا کے اصل دین کی منسوخی کے ہم معنی تھی۔
یہودی مذہب میںاِس بگاڑ کا حوالہ قرآن میںواضح طورپر موجود ہے۔ مثلاً سورہ البقرہ میں یہود کی بابت ارشاد ہوا ہے: ’’یہود کہتے ہیں کہ جہنم کی آگ ہم کو ہر گز نہیں چھوئے گی، بجز چند دنوں کے‘‘ (
قرآن کی اِن دونوں آیتوں کی تشریح میں مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ) نے جو کچھ لکھا ہے، اس کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ’’یہودی ماخذ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بنی اسرائیل اپنے کو آتش دوزخ کی زد سے بالکل ہی باہر اور محفوظ سمجھ رہے تھے۔ چناں چہ جیوش انسایکلوپیڈیا میں یہ عقیدہ یوں نقل ہوا ہے: ’’آتشِ دوزخ، گنہ گارانِ قومِ یہود کو چھوئے گی بھی نہیں۔ اِس لیے کہ وہ درِ جہنم پر پہنچتے ہی اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے اور خدا کے پاس واپس آجائیں گے‘‘ (جلد 5، صفحہ
موجودہ محرّف اور مسخ شدہ بائبل میںاِس قسم کے حوالے موجود ہیں: خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا، بلکہ میرا پلوٹھا ہے (خروج
مسیحی مذہب
حضرت مسیح کی اصل تعلیمات عین وہی تھیں جو دوسرے تمام پیغمبروں کی تعلیمات تھیں، لیکن حضرت مسیح کے بعد مسیحی چرچ نے خود ساختہ تشریحات کے تحت، حضرت مسیح کی تعلیمات کو بدل دیا۔ آج جس چیز کو مسیحیت کہا جاتا ہے، وہ حضرت مسیح کا مذہب نہیں، بلکہ وہ مسیحی چرچ کا اپنا بنایا ہوا مذہب ہے۔ مسیحی مذہب کے اِس مسیحی ایڈیشن کا آغاز سینٹ پال (St. Paul) سے ہوا۔
سینٹ پال مشہور مسیحی مبلغ ہیں۔ اُن کو مسیحیت کے مذہبی نظام میںاتنی زیادہ اہمیت ملی کہ ’’عہد نامہ جدید‘‘ میں اناجیلِ اربعہ کے ساتھ، سینٹ پال کے خطوط (Epistles) بھی شامل کیے گئے۔ سینٹ پال کی وفات، حضرت مسیح کے بعد
Epistles, attributed to St. Paul, contain fundamental statements of Christian doctrine.
اِس کے بعد
مسیحی چرچ کے موجودہ اعتقادی نظام میں کَفّارہ (atonement) کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح، انسانوں کی طرف سے کفارہ بن کر مصلوب ہوگیے۔ مسیحی چرچ کے اِس عقیدے کے مطابق، انسانِ اوّل (آدم) نے جب ممنوعہ درخت کا پھل کھایا تو یہ گناہ کا ایک فعل تھا۔ اِس کے نتیجے میں سارے انسان پیدائشی طور پر گنہ گار بن گئے۔ اِس کو مسیحی عقیدے میں گناہِ اوّل (original sin) کہا جاتا ہے:
The innate depravity which, in Christian theology, is held to be inherent in mankind as a direct result of Adam's sin of rebellion and which, in Roman Catholicism, is held to have resulted in the loss of sanctifying grace.
کفّارہ (atonement) کے اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح، جو مسیحی عقیدے کے مطابق، سولی پر چڑھا دیے گئے، اِس طرح اپنے آپ کو قربان کرکے انھوں نے تمام انسانوں کو پیدائشی گنہ گاری سے بَری کردیا:
The effect of Jesus's sufferings and death in redeeming mankind, and bringing about the reconciliation of God to man.
کفّارہ (atonement) کے اِس عقیدے کے مطابق، اب کسی انسان کی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح پر اِس حیثیت سے ایمان لائے کہ وہ اس کی نجات کے لیے مصلوب ہوگئے۔ اب نجات صرف اُس انسان کے لیے ہے جو حضرت مسیح کی اِس مصلوبیت پر ایمان لائے۔ جو لوگ مصلوبیت کے اِس عقیدے کااقرار نہ کریں، اُن کے لیے نجات کی کوئی صورت نہیں۔کفارے کا یہ عقیدہ، عقلی اعتبار سے ایک ناقابلِ فہم عقیدہ ہے، حتیٰ کہ وہ موجودہ بائبل (نیا عہدنامہ) کے اندر بھی واضح طورپر موجود نہیں۔ لیکن مسیحی چرچ کی بنیاد اِس عقیدے پر قائم ہے۔
کفارے کا یہ عقیدہ ہر قسم کے اخلاقی محرّک کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اِس عقیدے کے مطابق، نجات کی شرط عملِ صالح نہیںہے، بلکہ کفّارۂ مسیح کے عقیدے کو ماننا ہے۔ ایسی حالت میں اِس عقیدے کو ماننے کے بعد کوئی شخص نیک عمل کیوں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیحی چرچ کے مطابق، جس مذہب کا نام مسیحی مذہب ہے، اس میں اخلاقیات کے لیے کوئی محرک (incentive) سرے سے موجود نہیں۔ اب اگر مسیحی لوگ کچھ اخلاقی عمل کرتے ہیں تو وہ اپنی فطرت کے زور پر کرتے ہیں، نہ کہ اپنے مذہبی عقیدے کے زور پر، اِس عقیدے نے مذہب کی اہم ترین تعلیم، خدا کے سامنے جواب دہی (accountability) کا سرے سے خاتمہ کردیا ہے۔
آرین مذاہب
اِس کے بعد آرِین مذاہب کو لیجیے۔ آرین مذاہب میںمشترک طورپر کرم کا نظریہ (karma theory) پایا جاتا ہے۔ اِس کو آوا گمَن، یا پُنر جنم بھی کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے عمل کے مطابق، دوبارہ جنم لے کر اِسی موجودہ دنیا میں آتا ہے۔ پچھلے جنم میں اگراُس نے اچھا کام کیا تھا تو اگلے جنم میں وہ اچھے انسان کے روپ میں پیدا ہوتا ہے، اور اگر اس نے پچھلے جنم بُرا کیا تھا تو اگلے جنم میں وہ برے انسان، یا حیوان کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش اور دوبارہ پیدائش (rebirth) کایہ سلسلہ
کہا جاتا ہے کہ یہ پراسس (process) اسباب وعلل (cause and effect) کے اصول پر قائم ہے۔ اسباب و علل کے مخفی قانون کے تحت، یہ پراسس مسلسل چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ نظریہ بھی آدمی کو عمل کے محرک سے محروم کردیتا ہے۔ یہ نظریہ آدمی کو ایک تخیلاتی فلسفہ (imaginative philosophy) کے سوا اور کچھ نہیں دیتا۔ اِس نظریے میںنہ اچھا عمل کرنے کا کوئی محرک ہے اور نہ بُرے عمل سے بچنے کا کوئی خوف۔ انسانی زندگی میں اِس نظریے کا کوئی بھی تعمیری رول نہیں۔
یہ نظریہ بتاتا ہے کہ آدمی اپنے اچھے، یا بُرے عمل کا انجام پانے کے لیے اِس موجودہ دنیا میں بار بار واپس آتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ زمین کے اوپر زندہ حالت میں موجود ہیں، وہ سب کے سب اس سے پہلے پیدا ہو کر اِس دنیا میں آئے تھے۔ موجودہ انسانی آبادی نئے انسانوں کی آبادی نہیں ہے، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پیدا ہو کر اِس سے پہلے اِس دنیا میں آچکے تھے، اور اب وہ دوبارہ لوٹ کر اِس دنیا میںآئے ہیں۔
یہ تصور ایک خیالی نظریہ (imaginative theory) پر قائم ہے، اس کی پشت پر کوئی بھی علمی، یا عقلی دلیل موجودنہیں۔ اس تصور کے مطابق، اسباب و علل کا جو واقعہ پیش آتا ہے، وہ اُسی انسان کے اوپر پیش آتا ہے جو بار بار پیدا ہورہا ہے اور بار بار مررہا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ مرنے والا کوئی اور شخص ہو اور اس کے بعد پیداہونے والا کوئی دوسرا شخص۔ اگر دونوں شخصیتوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے تو ’کرم‘ کا نظریہ ہی بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گا۔
حیاتیاتی سائنس (biological science) کی تحقیقات کے مطابق، یادداشت، یا حافظہ (memory) انسان کی شخصیت کا لازمی جُز ہے۔ سِگمنڈ فرائڈ اور دوسرے علمائِ نفسیات نے ثابت کیا ہے کہ حافظہ انسانی شخصیت کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔ انسانی جسم کے سیل (cells) مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ پرانا سیل ٹوٹتا ہے اور اس کی جگہ نیا سیل لے لیتا ہے۔ سیل کی تبدیلی (replacement) کا یہ عمل مسلسل ساری عمر جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ کچھ سالوں میں جسم کے تمام سیل بدل جاتے ہیں، اور نئے سیل کے ساتھ نیا جسم وجود میں آجاتاہے۔
جسم کی اِس تبدیلی کے باوجود انسان کا حافظہ بدستور اپنی اصل حالت میں باقی رہتا ہے۔ حافظے کے اندر ادنیٰ درجے میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے کہ جس طرح موت سے پہلے کی جسمانی تبدیلی سے، انسان کا حافظہ اس کی شخصیت سے جُدا نہیںہوتا، اِسی طرح موت کے بعد کی جسمانی تبدیلی سے بھی آدمی کے حافظے کو اس کی شخصیت سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک سائنسی طورپر ثابت شدہ حقیقت ہے، جس کا انکار کسی بھی طرح ممکن نہیں۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ مفروضہ (کرما تھیوری) کے مطابق، جو انسان موت کے بعد بار بار پیدا ہورہے ہیں، وہ سب کے سب اپنے سابقہ حافظے کے بغیر پیدا ہورہے ہیں۔ اِن میںسے کسی بھی عورت یا مرد کو اپنے ماضی کی زندگی یاد نہیں۔ حالاں کہ حیاتیاتی قانون کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس قانون کے مطابق، ہر ایک کے حافظے میںاس کی پچھلی زندگی مکمل طور پر محفوظ ہونا چاہیے، جو کہ بطور واقعہ موجود نہیں۔ موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے نے جس طرح بہت سے دوسرے مفروضات کو بے بنیاد ثابت کیا ہے، اِسی طرح مذکورہ مفروضہ بھی اب ایک بے بنیاد مفروضہ ثابت ہوچکا ہے۔ حیاتیاتی سائنس کا جدید مطالعہ اِس مفروضے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گوتم بُدھ نے جب تَپَسِّیا کے دوران اپنا دھیان لگایا تھا تو اِس میں انھوں نے اپنی باطنی نظر سے اپنے تمام پچھلے جنموں کو دیکھ لیا تھا، مگر یہ صرف ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوںنے اپنے دھیان کے دوران خود اپنے فرضی تصورات کو محسوس کیا تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں اپنی زندگی کی تاریخ کو۔ سائنسی طریقے کے مطابق، اِس قسم کا دعویٰ بلا شبہہ قابلِ رد ہے۔ اِس لیے کہ وہ قابلِ تصدیق (verifiable) یا قابلِ اِعادہ (repeatable) نہیں۔ اور جو نظریہ قابلِ تصدیق یا قابلِ اعادہ نہ ہو، وہ سائنس کے قائم کردہ اصول کی بنا پر قطعیت کے ساتھ قابلِ رد قرار پاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے تمام مذہبی نظریات صرف مفروضہ نظریات ہیں۔ اِن سب کے اندر یہ مشترک کمی پائی جاتی ہے کہ وہ انسانی اخلاقیات کے لیے طاقت ور محرک (strong incentive) نہیں دیتے۔ اور جو مذہب انسانی اخلاقیات کے لیے طاقت ور محرک فراہم نہ کرے، وہ صرف ایک مفروضہ فلسفہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی خدائی مذہب۔(2007)
واپس اوپر جائیں
موجودہ زمانے میں کمپیوٹرکلچر اور انڈسٹری کے حلقوں میں ایک لفظ بہت استعمال ہوتا ہے، اور وہ ہے — تخلیقی حل (creative solution)یعنی جب کوئی نیا مسئلہ پیش آئے تو اس کے بارے میں ازسرِ نو غور کرنا، نئے انداز سے مسئلے کا حل تلاش کرنا- اس طرح جو حل دریافت ہوتا ہے، اس کو تخلیقی حل کہاجاتا ہے- تخلیقی طرزِ فکر ایک نیا ذہن دیتاہے، جس کی روشنی میں مسئلے کا زیادہ موثر حل دریافت کیا جاسکے:
A creative solution gives a fresh perspective to a challenging problem.
تخلیقی حل کا اصول صرف کمپیوٹر کا اصول نہیں ہے، بلکہ یہ فطرت کا ایک عام اصول ہے- کمپیوٹر کی دنیا میں اِس اصول کا سیکولر استعمال کیا گیاہے- یہی اصول خود اسلام میں بھی پوری طرح مطلوب ہے- اسلام میں جس چیز کو اجتہاد کہاگیا ہے، اُس سے مراد یہی اصول ہے- خواہ مذہب کا دائرہ ہو یا سیکولر دائرہ، ہر دائرے میں بار بار اِس کی ضرورت پیش آتی ہے کہ لوگ کھلے ذہن کے ساتھ از سرِ نو غور کریں- وہ تعصب جیسی چیزوں سے بلند ہو کر مسئلے کا نیا اور کارگر حل تلاش کریں-
تخلیقی ذہن (creative mind)کا مالک کون ہے، یہ وہ انسان ہے جو تعصبات (prejudices) سے خالی ہو، جو چیزوں کے بارے میں بے آمیز انداز میں سوچ سکے، جو آخری حد تک کھلا ذہن (open mind) رکھتا ہو، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں رائے قائم کرسکتا ہو- یہی وہ انسان ہے جو کسی معاملے میں تخلیقی حل (creative solution) تک پہنچنے میں کامیاب ہوتاہے-
تعصب کا مزاج تخلیقی ذہن کا پردہ ہے اور بے تعصبی کا مزاج تخلیقی ذہن کو کھول دینے والا ہے- اپنے آپ کو کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے والا بنائیے، اپنی فطرت کو ہر حال میں زندہ رکھیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے ذہن نے مشکل ترین حالات میں بھی مسئلے کا ایک قابلِ عمل حل دریافت کرلیا ہے-
واپس اوپر جائیں
خود اعتمادی (self-confidence) ایک اعلی انسانی صفت ہے، یعنی اپنے آپ پر بھروسہ ہونا- ذاتی عزم کے تحت کوئی اقدام کرنا، اندیشوں کے بجائے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا منصوبہ بنانا، مسائل (problem) کو نظر انداز کرکے مواقع (opportunities) کو دریافت کرکے اُن کی بنیاد پر عملی اقدام کرنا— انھیں چیزوں کا نام خود اعتمادی ہے، اور خود اعتمادی بلاشبہہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی کی لازمی شرط ہے-
خود اعتمادی زندگی کی علامت ہے اور خود اعتمادی کا نہ ہونا موت کی علامت- لیکن خود اعتمادی کا ایک منفی پہلو (minus-point) بھی ہے، اور یہ منفی پہلو بڑی سے بڑی خود اعتمادی کو بے نتیجہ بلکہ ہلاکت خیز بنا سکتی ہے- خود اعتمادی کا یہ منفی پہلو وہ ہے جس کو بے جا اعتماد (over-confidence) کہاجاتاہے-
آپ کے راستے میں اگر ایک چھوٹی نہر ہے اور آپ اس کے ایک کنارے سے چھلانگ لگا کر اس کے دوسری طرف پہنچ جائیں تو یہ خود اعتمادی ہے، لیکن اگر آپ کے راستے میںایک بڑا دریا ہے اور آپ اس کے ایک کنارے سے چھلانگ لگادیں تو آپ اس کے دوسرے کنارے پر نہیں پہنچیں گے، بلکہ آپ دریا میں گر کر ہلاک ہوجائیں گے-
اِس دنیا میں ہر آدمی دو چیزوں کے درمیان ہے- اس کی اپنی ذات اور خارجی حالات- گویا کہ یہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے- کسی کام کی کامیابی میں آپ کا حصہ پچاس فی صد ہوتا ہے اور بقیہ پچاس فی صد حصہ خارجی حالات کا ہوتاہے-
آپ کو چاہئے کہ عملی اقدام سے قبل آپ دونوں پہلوؤں کو دیکھیں- اگر آپ صرف اپنے ذاتی شوق کو دیکھیں اور خارجی حالات کو ملحوظ نہ رکھیں تو یقینی طورپر آپ کا منصوبہ ناکام ہوجائے گا اور پھر آپ دوسروں کی شکایت کریں گے، حالاں کہ ناکامی کا سبب خود آپ ہوں گے، نہ کہ کوئی دوسرا انسان-
واپس اوپر جائیں
ادب کی ایک قسم وہ ہے جس کو انانیتی ادب (egoistic literature)کہا جاتا ہے،یعنی وہ ادب جس میں مصنف نے ’میں‘ (ego) کو مرکزی حیثیت دے کر اپنے ادب کی تخلیق کی ہو- انانیت دراصل انفرادیت کا منفی نام (negative term) ہے- انفرادیت ہر انسان کی ایک فطری صفت ہے- اِس فطری صفت کا غلط استعمال اس کو انانیت بنا دیتا ہے، جو مزید اضافے کے ساتھ کبر (arrogance) کی صورت اختیار کرلیتا ہے-
حدیث میں آیا ہے کہ: خلق اللہ آدم على صورتہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5759)- اِس حدیث میں ’’صورت‘‘ سے مراد حلیہ (appearance) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ اپنی ذات میں ایک منفرد ہستی ہے، اِسی طرح انسان اپنی ذات میں ایک منفرد ہستی ہے- فرق صرف یہ ہے کہ اللہ کی ہستی لامحدود ہے اور انسان کی ہستی محدود- اللہ کا وجود بالذات (self-existent)ہے، جب کہ انسان اللہ کے پیدا کرنے سے پیدا ہوا ہے-
انسان کے ساتھ اللہ کی سب سے بڑی عنایت (blessing) یہ ہے کہ اللہ نے اس کو ایک مستقل ہستی کے طورپر پیدا کیا ہے، ایک ایسی ہستی جو ستاروں اور سیاروں، پہاڑوں اور سمندروں سے الگ اپنا ایک ذاتی وجود رکھتی ہے- کسی انسان کی یہ دریافت اس کی سب سے بڑی دریافت ہے- یہ دریافت اگر عبدیت پر قائم ہو تو وہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے، اور اگر یہ دریافت عبدیت سے جدا ہوجائے تو وہ انسان کے لیے سب سے بڑی نقمت (wrath)بن جائے گی- اسی دریافت کی بنیاد پر آدمی کی پوری شخصیت بنتی ہے- یہ دریافت اگر کامیاب ہو تو اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر مثبت شخصیت بنتی ہے، اور اگر یہ دریافت کامیاب نہ ہو تو اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر منفی شخصیت بنے گی — آخرت کی ابدی دنیا میں مثبت شخصیت (خدا پرست شخصیت) کے لیے جنت ہے اور منفی شخصیت (خدا فراموش شخصیت) کے لیے جہنم-
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.