تاریخِ مذہب
مذہب (religion) انسان کے لیے ویسا ہی ہے، جیسے بقیہ کائنات کے لیے قانونِ فطرت (law of nature)۔ بقیہ کائنات فطرت کے لازمی قوانین کے تحت کنٹرول ہورہی ہے۔ اِس کے برعکس، انسان ایک آزاد مخلوق ہے- انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ مذہب کے خداداد اصولوں کے تحت اپنی زندگی کو خود منظم کرے۔ آزادی کے اِسی صحیح یا غلط استعمال پر انسان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ اِس اعتبار سے مذہب کی تعریف یہ ہوگی کہ — مذہب نام ہے خدائی قوانین کی بنیاد پر انسانی زندگی کی تنظیم کا۔
موجودہ زمانے میں علمِ انسانیات (anthropology) کے نام سے ایک مستقل شعبۂ علم وجود میں آیا ہے۔اِس علم کے تحت، ہر دور کے انسانی سماجوں کا مطالعہ کیاگیا ہے۔ اِس مطالعے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ہر زمانے کے سماج میں انسان کے اندر خدا کا عقیدہ پایا جاتا تھا، یعنی ایک ایسی فوق الطبیعی ہستی(supernatural being) کا عقیدہ، جو قائم بالذات (self-existent) ہے، جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا، جو تمام عالمِ موجودات کو کنٹرول کررہی ہے، جس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ قرآن کی سورہ اخلاص ( 112 )میں خدا کی صفات کا ذکر اِس طرح کیاگیا ہے:
’’کہو، وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ۔ اور کوئی اس کے برابر کا نہیں‘‘۔
آدم کی تخلیق
انسان ارتقائی طور پر نہیںپیدا ہوا، بلکہ وہ پہلے ہی دن کامل انسان کے طورپر وجود میں آیا۔ یہ خدا کی تخلیق تھی۔خدا اس پر قادر ہے کہ وہ لاشَے سے شَے کو پیدا کرے۔ اس نے انسان کو وجود عطاکیا، جب کہ اِس سے پہلے وہ مکمل طورپر معدوم تھا( 19:9 )۔ اس پہلے کامل انسان کا نام آدم ہے۔ خدا نے انسان کو پیدا کرکے اُس کو باغوں والی ایک دنیا میں بسایا، جس کو قرآن میں ’’جنت‘‘ کہاگیا ہے۔ اِس جنت میںآدم کو پوری آزادی حاصل تھی، البتہ اس میں ایک درخت کو خدا نے شجرۂ ممنوعہ (forbidden tree) کی حیثیت دے دی۔ خدا نے آدم سے کہا کہ تم کو اور تمھاری بیوی کو یہاں ہرقسم کی آزادی حاصل ہے، لیکن تم لوگ اس ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانا۔
آدم جس دنیا میں تھے، وہاںاُن کے ساتھ شیطان بھی کسی پہلو سے موجود تھا۔ شیطان نے آدم اور ان کی بیوی دونوں کو بہکایا۔ اس نے کہا کہ یہ شجرۂ ممنوعہ دراصل شجرۂ خُلد، یا ہمیشگی کا درخت (tree of eternity) ہے۔ ابھی تم لوگوں کو صرف زندگی ملی ہے، ابھی تم کو ابدیت حاصل نہیں ہوئی۔ اگر تم اِس درخت کا پھل کھا لو تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ تم کو زندگی کے ساتھ ابدیت بھی مل جائے گی۔ اس کے بعد تم باغوں کی اِس دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہ سکتے ہو۔
آدم اور حوا دونوں اِس بہکاوے میںآگئے۔ انھوںنے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا۔ قرآن کے مطابق، اُن کا یہ عمل خدا کے حکم کی خلاف ورزی ( 20:121 )تھا۔ چناں چہ پھل کھاتے ہی اچانک ایسا ہوا کہ دونوں خدا کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ خدا کی رحمت کا لباس اُن سے اُتر گیا۔ وہ اپنے آپ کو بے بسی کی حالت میںپانے لگے۔انسان کی تاریخ میں یہ گم راہی کا سب سے پہلا واقعہ تھا۔ گم راہی کیا ہے۔ گم راہی دارصل حق کے راستے سے انحراف (deviation) کا نام ہے۔ خدانے انسان کو پیدا کرکے اس کے لیے ایک درست راستہ (صراطِ مستقیم) مقرر کردیا۔ اِس راستے پر چلنے کا نام حق کا اتباع ہے، اور اس راستے سے ہٹنے کا نام حق سے انحراف ہے۔ انسان کی پوری تاریخ دراصل اِسی اتّباع اور انحراف کی مختلف شکلوں کا دوسرا نام ہے۔
غلط تسمیہ
شجرۂ ممنوعہ (forbidden tree) کا مذکورہ واقعہ بتاتا ہے کہ حق کے راستے سے ہٹنے کا سبب کیا ہوتا ہے۔ اس کا سبب ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے غلط تسمیہ(wrong nomenclature)۔ آدمی، شیطان کے وسوسے کا شکار ہو کر ہمیشہ یہ کرتا رہتا ہے کہ جو چیز خدا کی مقرر صراطِ مستقیم کے خلاف ہے، اس کو وہ ایک دل فریب نام دے کر اپنے لیے جائز کرلیتا ہے۔
اِسی حقیقت کو پیغمبر یوسف نے اپنے جیل کے مشرک ساتھیوں سے ایک دعوتی گفتگو کے دوران اِس طرح بیان کیا تھا: ’’تم خدا کے سوا جن کو پوجتے ہو، وہ صرف نام ہیں، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے اُس کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری‘‘ ( 12:40 ) ۔ گم راہی کا سارا معاملہ اِسی غلط تسمیہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں شراب کے حوالے سے اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لیستحلّنّ طائفۃٌ من أمّتی الخمر بإسم یسمونھا إیّاہ (مسند احمد، جلد 5 ، صفحہ 318 ) یعنی میری امت کا ایک گروہ ضرور شراب کو اپنے لیے حلال کرلے گا۔وہ شراب کا ایک اور نام رکھیں گے اور اِس طرح وہ اس کو جائز کرلیں گے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو جب اس کے پیدا کرنے والے نے پیدا کیا تو اُسی وقت اس کی فطرت میںنہایت گہرائی کے ساتھ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھ دی۔ ہر پیدا ہونے والا انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر یہ گہرا شعور لیے ہوئے ہوتا ہے کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاں چیز بُری، فلاں چیز صحیح ہے اور فلاں چیز غلط۔ آدمی اپنے اندر چھپے ہوئے اِس احساسِ فطرت کاانکار نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان بُرائی کے نام پر بُرائی نہیںکرپاتا۔ جب بھی کوئی انسان برائی کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ کرتا ہے کہ پہلے وہ اُس برائی کا نام بدلتا ہے، وہ اُس برائی کو بطور خود ایک اچھا نام دیتا ہے۔ اِس طرح وہ اپنے آپ کو اِس فرضی اطمینان میں مبتلا کرلیتا ہے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں، وہ کوئی بُرا کام نہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، غلط تسمیہ کے اس طریقے کا آغاز انسانی تاریخ میں سب سے پہلے شیطان نے اِس طرح کیا کہ اس نے شجرۂ ممنوعہ کا نام شجرۂ خلد رکھ دیا اور پھر آدم اور حوا کو راضی کیا کہ وہ اِس درخت کا پھل کھالیں۔ تاریخ میںتقریباً تمام بُرائیاں اِسی غلط تسمیہ کے تحت اختیار کی گئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں جس چیز کو لَو اَفئر (love affair) کہاجاتا ہے، وہ کیا ہے۔ وہ دراصل سیکس افئر (sex affair) کا خوب صورت نام ہے۔
غلط تسمیہ کی مثالیں موجودہ زمانے میںبہت زیادہ عام ہوچکی ہیں۔ جدید میڈیا میں ہر روز اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً نئی دہلی کے انگریزی روز نامہ ٹائمس آف انڈیا (یکم نومبر 2007) کے ضمیمہ ’دہلی ٹائمس‘ کے صفحۂ اول پر ایک رنگین تصویر ہے۔ اِس تصویر میں ایک لڑکی برائے نام کپڑا پہنے ہوئے کھڑی ہے۔ اِس باتصویر خبر کے اوپر اخبار نے یہ عنوان قائم کیا ہے— سارہ ایک پُراعتماد لڑکی ہے:
Sarah is a Confident Girl.
ساری تاریخ میںانسان اِسی غلط تسمیہ کا سہارا لے کر بُرائیوں کا ارتکاب کرتا رہا ہے۔ تاریخ میں جو برائیاں نظر آتی ہیں، وہ تقریباً سب کی سب براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی غلط تسمیہ کی مثالیں ہیں۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں ہم کچھ مثالوں کا ذکر کریں گے۔
غلط تسمیہ کی مثالیں
خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو اُس نے یہ کیا کہ ایک طرف، انسان کی فطرت میں حق اور ناحق کا احساس پیدائشی طور پر رکھ دیا۔ یہ احساس انسان کے لا شعور میں پیوست تھا۔ اب ضرورت یہ تھی کہ اِس لا شعور کو شعور کے خانے میں لایا جائے ۔ اِس مقصد کے لیے بطور رہنما یا مددگار، خدا نے پیغمبر بھیجنے شروع کیے۔ یہ پیغمبر ہر زمانے میں اور ہر گروہ میں آئے۔ ان کو خدا نے وحی کے ذریعے ہدایت پہنچائی، اور ان کے ذمّے یہ کام سپرد ہوا کہ وہ تعلیم اور تلقین کے ذریعے انسان کے ذہن کو بیدار کریں۔ وہ انسان کو اِس قابل بنائیں کہ جو کچھ اس کے لاشعور میںہے، اس کو وہ شعور کے درجے میں دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیرکرے۔
دنیا کی زندگی چوں کہ امتحان کی زندگی ہے، اس لیے یہاں دو قسم کی طاقتیں مسلسل طور پرکام کرتی رہتی ہیں۔ ایک طرف، پیغمبر جو انسان کو سچائی کا راستہ دکھاتے ہیں، اور دوسری طرف شیطان ہے جو انسان کو بہکا کر اس کو گم راہی کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے۔ شیطان کا طریقہ اب بھی وہی ہے جو اُس نے اِس سے پہلے آدم اور حوا کے ساتھ اختیا رکیا تھا، یعنی غلط تسمیہ کے ذریعے یہ کوشش کرنا کہ انسان بُرائی کو بھلائی کے روپ میں دیکھنے لگے۔شیطان کے اِس عمل کو قرآن میں تزئین (fair-seeming) کہاگیا ہے ( 15:39 ) -پیغمبروں نے ہمیشہ انسان کو یہ بتایا کہ خدا ایک ہے۔ وہی اکیلا خالق اور مالک ہے۔ تم لوگ اُس کو مانو اور اُسی کی عبادت کرو۔ خدا کے رسولوں کا یہ پیغام، انسان کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ انسان کی اپنی فطرت بھی رسولوں کے اِس پیغام کی مکمل تائید کررہی تھی۔ اِس بنا پر انسان کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خدا کے وجود کا انکار کردے۔ یہاں شیطان کی ترغیب کے تحت، انسان نے انحراف (deviation) کا طریقہ اختیار کیا۔
یہ انحراف زیادہ تر غلط تسمیہ کے اصول پر مبنی تھا۔ چناں چہ انسان نے کہا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے مختلف شرکا (partners) مقرر کردیےہیں۔ اب ہمارا تعلق براہِ راست خدا سے نہیں، بلکہ اِنھیں شرکا سے ہے۔ ہم شرکا کے ذریعے خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ جن کووہ شرکا کہہ رہے تھے، وہ دراصل ان کے اپنے مفروضہ نام تھے، لیکن اِن مفروضہ ناموں کو حقیقی قرار دینے کے لیے انھوںنے یہ کیا کہ ان کو شریکِ خدا (partners of God) کا نام دے دیا۔قدیم زمانے سے لے کر اب تک تمام مشرکین نے یہی کیا ہے کہ انھوں نے بطور خود کچھ مفروضہ نام گھڑے۔ مثلاً روشنی کا خدا، بارش کا خدا، زندگی کا خدا، موت کا خدا، طاقت کا خدا، دولت کا خدا، وغیرہ۔ اِس طرح کے مفروضہ خداؤں کاکوئی وجود نہیں، لیکن اس کو موجود بتانے کے لیے بطور خود اس کا ایک نام وضع کیا اور اِس نام کے تحت یہ عقیدہ بنا لیا کہ خدا کا ایک پارٹنر وہ ہے جو بارش، وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔
شرک در اصل خدا کو مانتے ہوئے، اس کے لیے شرکا (partner) بنانے کا نام ہے۔ اِسی کو اصطلاح میں تعدّدِ اٰلہہ کا نظریہ (polytheism) کہاجاتا ہے۔ تاریخ کے پہلے دور میں شرک کی یہی قسم ساری دنیا میں رائج ہوگئی۔ اس کے بعد اس کا دوسرا دور آیا۔ اِس دوسرے دور کو فلسفیوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ یہ دور ابتداء ً یونانی فلسفیوں کے درمیان شروع ہوا، اور اس کے بعد شرک کے ایک فلسفے کے طور پر وہ مختلف مذاہب کے درمیان پھیل گیا۔ اِس کو ایک لفظ میں فلسفیانہ شرک کہاجاسکتا ہے۔
یہ فلسفیانہ شرک کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو اصطلاحی طورپر وحدتِ وجود (monism) کہاجاتا ہے۔ وحدتِ وجود، خدا کو مانتے ہوئے عملاً اس کے انکار کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ ذہن بھی شیطان نے غلط تسمیہ کی تزئین کے ذریعے انسان کے اندر پیدا کیا۔ وحدتِ وجود کے مشرکانہ فلسفے کی اگر وضاحت کی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ — ہم خدا کے وجود کو مانتے ہیں، ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ اِس سے پہلے، خدا کو ایک محدود وجود کی شکل دے دی گئی تھی، ہم نے خدا کے وجود کو ایک توسیعی مفہوم دے دیاہے:
According to the monotheistic concept, God was believed to be a localized person. The monistic theory has made God an all pervading spirit.
وحدتِ وجود کا تصور اپنی حقیقت کے اعتبار سے خدا کے انکار کے ہم معنیٰ ہے، لیکن اس کے اوپر خوب صورت الفاظ کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ خدا کو ماننا، محض ایک فلسفیانہ تصور کو ماننا نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ اور قادر مطلق خدا کو ماننا ہے، یعنی ایک ایسا خدا جس کا ایک حقیقی وجود ہے، جو دیکھتا ہی اور سنتا ہے، جو تخلق کرتاہے۔ اِسی کے ساتھ وہ محاسِب اور مُجازی ہے۔ وہ روزِ حساب (day of judgement) کا مالک ہے، وغیرہ۔
اِس حقیقت کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ نظریۂ توحید کے مطابق، خدا نہ صرف ایک وجود ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ ہر قسم کی صفاتِ کمال کا مالک بھی ہے۔ لیکن وحدتُ وجود کے فلسفے میں یہ ہوتا ہے کہ خدا صرف ایک مجرد تصور (abstract concept) بن جاتا ہے۔ ایک ایسا مجرد تصور جو تمام صفاتِ خداوندی سے خالی ہے۔ وحدتِ وجود کے تصور میں خدا ایسا ہی ہوجاتا ہے، جیسے کہ کاسمِک ریز(cosmic rays)، یا زمین کی قوتِ کشش۔ ایسے خداکی عملی طورپر کوئی معنویت نہیں۔ اُس کا ہونا بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کا نہ ہونا۔
عقیدۂ خدا کے معاملے میںتیسری خوش نما گمراہی وہ ہے جس کو حیاتیاتی ارتقا (organic evolution) کہاجاتا ہے۔ ارتقا کا نظریہ اگر چہ بہت پہلے سے فلسفیوں کے یہاں موجود تھا، لیکن اِس نظریے کو پہلی بار جس نے ایک باقاعدہ ڈسپلن کی صورت میں پیش کیا، وہ چارلس ڈارون (وفات: 1802ء) ہے۔ اِس سلسلے میں چارلس ڈارون نے دو کتابیں لکھیں، جن کے نام یہ ہیں:
On the Origin of Species (1859)
The Descent of Man (1871)
ڈارون نے اپنا نظریۂ ارتقا صرف حیاتیاتی معنوں میں پیش کیا تھا، یعنی حیوانات اور انسان کس طرح اُس کے خیال کے مطابق، ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔ لیکن بعد کو دوسرے علما نے اِس نظریے کو توسیع دی اور ارتقائی طریقِ مطالعہ، دوسرے تمام شعبوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا۔ حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ، خالص سائنسی اعتبار سے، اب تک ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے۔ اعلیٰ سائنسی ذہن ا س کو صرف ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) مانتے ہیں۔ تاہم اِس وقت ہمیں نظریۂ ارتقا کے اِس خالص علمی پہلو کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرنا ہے۔ اِس وقت ہم نظریۂ ارتقا کے صرف اُس پہلو کو لینا چاہتے ہیں، جس کا تعلق الٰہیات کے موضوع سے ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نظریۂ ارتقا، شر ک کی تیسری قسم ہے جس کو سائنسی شرک کہاجاسکتا ہے۔ اِس نظریے میںخدا کا انکار کیے بغیر، خدا کو عملی اعتبار سے غیر موثر بنا دیاگیا ہے۔ بظاہر ڈارون نے اپنی کتاب (The Origin of Species) میں خدا کے وجود کا اقرار کیا ہے، لیکن یہ اقرار صرف علامتی معنیٰ میں ہے، ورنہ ڈارون کے بتائے ہوئے حیاتیاتی ڈرامے میں خدا کا کوئی رول نہیں۔
چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصلُ الانواع(The Origin of Species) میں زندگی کو طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ بتایا ہے۔ اس نے اپنی کتاب میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ میں خدا کے وجود کونہیں مانتا۔ اِس کے برعکس، اس کی اِس کتاب میں ایک سے زیادہ مرتبہ خدا(God) کا حوالہ آیا ہے۔ اپنی اِس کتاب کا خاتمہ اُس نے اِن سطروں پر کیا ہے— خالق نے ابتدا میں زندگی کی ایک، یا کئی شکلیں پیدا کیں اور پھر اُس سے بہت سی انواعِ حیات وجود میں آگئیں۔ تخلیق کا یہ تصور کتنا عظیم ہے:
There is grandeur in this view of life, with its several powers, having been originally breathed by the Creator into a few forms or into one.
ارتقا کے نظریے میںدوبارہ یہ کیا گیا ہے کہ خدا کو مان کر خدا کو ایسی حیثیت دے دی گئی ہے، جس میں خدا عملی اعتبار سے کامل طورپر غیر موثر ہوجاتا ہے۔ اِس نظریے کے مطابق، حیاتِ انسانی اور تاریخِ تہذیب میں خدا کا حصہ صرف اتنا ہے کہ اُس نے آغاز میں کسی نہ کسی طورپر ایک ناقابلِ مشاہدہ جُرثومۂ حیات(amoeba) کو پیدا کیا۔ اس کے بعد انسان کے سفرِ حیات یا اس کی تاریخ پر خداکا کوئی کنٹرول نہیں۔ اِس تاریخ کے خاتمے پر بھی خدا کا کوئی رول نہیں ہے۔کیوں کہ اِس تصور میں خدا نہ روزِ جزا کا مالک ہے، اور نہ وہ انسانوں کو جزا اور سزا دینے والا ہے۔ واضح بات ہے کہ ایسے خدا کو ماننا بھی ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کو نہ ماننا۔ عملی اعتبار سے دونوں تصورات میں کوئی فرق نہیں۔
بعض حضرات مثلاً ایک الجزائری عالم نے اپنی عربی کتاب’’قصّۃ الإیمان بین الفلسفۃ والعلم والقرآن‘‘ میںنظریۂ ارتقا کو بطور واقعہ تسلیم کیا ہے۔ اِسی طرح، پاکستان کے ایک اسکالر نے اپنی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا اور زندگی کے بارے میں قرآن کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ میںاِس نقطۂ نظر کو علمی اعتبار سے درست نہیں سمجھتا۔ جہاں تک الٰہیاتی پہلو کا تعلق ہے، یہ نظریہ بلا شبہہ خدا کے انکار کے ہم معنٰی ہے، اور ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے بعد مغربی دنیامیں عملاً یہی پیش آیا۔
عقیدۂ توحید کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ خدا کے تصور کو کسی نہ کسی طورپر ایک بعید مفروضے کی حیثیت سے مان لیا جائے۔ اِس قسم کے تمام تصورات میں خدا کی حیثیت صرف ایک علامتی وجود کی بن کر رہ جاتی ہے، نہ کہ حقیقی وجود کی۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا وہی قابلِ اعتبار ہے جس میں خدا کو تصورِتوحید کے مطابق مانا گیا ہو۔ اس کے سوا کسی اور حیثیت سے خدا کو ماننا عملاً خدا کے انکار کے ہم معنٰی ہے۔ کیوں کہ قدرتِ کاملہ کے بغیر خدا کے وجود کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔
سائنس کے ظہور کے بعد تاریخ میںایک نیا دور آیا، جس کو مٹیریل ازم یا مادّی تہذیب کا دَور کہا جاتا ہے۔ اِس دور میں بھی کچھ انتہا پسند ملحدوں کو چھوڑ کر، خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا گیا۔ اِس دور میںبھی یہی ہوا کہ خدا کو علامتی حیثیت دیتے ہوئے الٰہیات سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات کی ایسی خوب صورت توجیہیں کی گئیں، جس کے بعد خدا کا وجود محض ایک مفروضہ بن کر رہ جائے، حقیقی اعتبار سے انسانی زندگی میں خدا کی کوئی حیثیت باقی نہ رہے۔
مثال کے طورپر موجود زمانے میں جو تحقیقات کی گئیں، ان کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ سیارۂ زمین کے اوپر استثنائی طور پر ایسے موافقِ زندگی حالات موجود ہیں جو پوری کائنات میںکسی بھی کُرہ پر موجود نہیں۔ اِس کو آج کل کی زبان میں لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم کا لفظ بظاہر ایک سادہ لفظ معلوم ہوتا ہے، لیکن جدید تصورِ حیات کی روشنی میں دیکھیے تو یہ بھی غلط تسمیہ کی ایک مثال ہے۔ لائف سپورٹ سسٹم میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طورپر زندگی کی بقا اور ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہیں۔ اِنھیں چیزوں کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں:وَاٰتٰىکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا( 14:34 )
یہ حقیقت پہلے بھی انسان کو مجمل طورپر معلوم تھی، لیکن موجودہ زمانے میں سائنس نے اِس حقیقت کو نہایت تفصیل کے ساتھ دریافت کیا ہے۔ اِن چیزوں کی تفصیل اتنی زیادہ ہے کہ ان کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً سورج سے آنے والی روشنی اور حرارت، زمین کی متناسب قوتِ کشش، آکسیجن کی سپلائی کا حیرت انگیز نظام، پانی کا عظیم ذخیرہ اور بارش کا کائناتی نظام، زمین پر سبزہ اور حیوانات اور غذائی اشیاجیسے بے شمار اسباب ۔ اِس قسم کی اَن گنت چیزیں زمین پر موجود ہیں، جن کے بغیر زمین پر نہ زندگی کی بقا ممکن ہے اور نہ تہذیب کی ترقی۔
مگر خدائی مذہب کے مطابق، یہ تمام چیزیں اصلاً صرف لائف سپورٹ سسٹم کے طورپر نہیں ہیں، بلکہ وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم (test support system) کے طورپر ہیں۔ خالق کے منصوبے کے مطابق، اِن چیزوں کی جو حیثیت ہے، وہ ٹسٹ سپورٹ سسٹم کی ہے، نہ کہ صرف لائف سپورٹ سسٹم کی۔ خالق کے منصوبے کے مطابق ، یہ دنیا مقامِ امتحان (testing ground) کے طورپر بنائی گئی ہے۔ یہاں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے، وہ اُس کو نہ حق (right)کے طورپر ملی ہے اور نہ انعام کے طورپر، بلکہ وہ صرف امتحان کے طورپر ملی ہے۔ انسان اِس دنیا میں امتحان کی حالت میں ہے۔ یہ امتحان موت کے لمحے تک باقی رہتا ہے۔ انسان کو آج جو زندگی بخش چیزیں حاصل ہیں، وہ صرف اِس لیے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی اور اپنی سرگرمیوں کو باقی رکھتے ہوئے اپنا امتحان دے سکے۔ موت وہ لمحہ ہے، جب کہ امتحان کی یہ مدت ختم ہوجاتی ہے۔ اِس لیے یہ تمام اشیائِ حیات بھی صرف موت کے وقت تک اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ اِس کے بعد انسان مکمل طورپر اِن چیزوں سے جُدا ہوجاتا ہے۔
خالق کے نقشے کے مطابق، انسان کی زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے۔ قبل ازموت مرحلۂ حیات(pre-death period) اور بعد از موت مرحلۂ حیات(post-death period) آج زمین کے اوپر انسان کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ چوں کہ صرف دورانِ امتحان تک کے لیے ہیں، اِس لیے امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی یہ تمام چیزیں اُس سے مکمل طورپر چھن جائیں گی۔ اِس کے بعد انسان اپنے آپ کو روزِ حساب میں پائے گا۔ وہاں خدا اس کو اس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق، یا تو جنت میں داخل کرے گا، یا جہنم میں ڈال دے گا۔ جنت والے لوگ مزید اضافے کے ساتھ اِن چیزوں کو دوبارہ پالیں گے، اور جہنم والے لوگ ہمیشہ کے لیے اِن چیزوں سے محروم ہو کر رہ جائیں گے۔
انسانی زندگی کی اِس نوعیت کو دیکھیے تو لائف سپورٹ سسٹم کا لفظ، ایک اعتبار سے، غلط تسمیہ کی ایک مثال نظرآتا ہے۔ خالق کے منصوبے کی روشنی میں اِن چیزوں کو زیادہ صحیح طورپر ٹسٹ سپورٹ سسٹم کہاجانا چاہیے، یعنی وہ چیزیں جو انسان کو وقتی طورپر اس لیے دی گئی ہیں، تاکہ وہ اِس مرحلۂ امتحان میں اپنی زندگی کو باقی رکھتے ہوئے مطلوب خدائی امتحان دے سکے۔
لائف سپورٹ سسٹم اپنے آپ میںایک درست لفظ ہے۔ اِس سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی بدولت انسان کو اِس زمین پر بقا اور ارتقا کا موقع ملتا ہے۔ لیکن یہ چیزیں انسان کی اپنی پیدا کی ہوئی نہیں ہیں۔ وہ انسان کو کسی حق کی بنا پر بھی نہیں ملی ہیں۔ یہ تمام چیزیں سر تا سر خدا کا انعام ہیں۔ ہر انعام کا ایک مُنعم ہوتا ہے اور اِن چیزوں کا بھی ایک منعم ہے، یعنی اُن کو دینے والا (giver) ۔
لائف سپورٹ سسٹم کا تصور موجودہ کلچر کے پس منظر میں یہ ہوا کہ انعام کو منعم سے الگ کردیا گیا:
It detached the blessing from the Giver of blessing.
یہ واقعہ جو پیش آیا، وہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ بھیانک گمراہی پیش آئی کہ محاسبہ اور مواخذہ (accountability) کا تصور لوگوں کے ذہن سے نکل گیا۔ لوگوں نے زندگی کا مقصد بس یہ سمجھ لیا کہ پیسہ کماؤ اور چیزوں کو بازار سے خرید کر کے عیش و آرام کی زندگی گزارو۔ چیزوں کو صرف لائف سپورٹ سسٹم کے طورپر لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے چیزوں سے استفادہ تو کیا، لیکن انھوںنے اِس معاملے میں اپنی کوئی ذمے داری نہیں سمجھی، جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان ایک ایسے کلچر کو فروغ حاصل ہوا جو اِس مشہور مقولے پر مبنی تھا— کھاؤ، پیو اور خوش رہو:
Eat, drink and be merry.
اِس کے برعکس، اگر چیزوں کے معاملے میں یہ تصور ہوتا کہ یہ سب چیزیں ٹسٹ سپورٹ سسٹم (Test Support System) کی حیثیت رکھتی ہیں، یعنی ان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ یہ چیزیں انجوائے(enjoy) کرنے کے لیے نہیں دی گئی ہیں، بلکہ وہ صرف اِس لیے دی گئی ہیں کہ انسان زندہ رہ کر اپنا امتحان دے سکے۔ ان چیزوں کی نوعیت وہی ہے جیسے امتحان ہال کی نوعیت ہوتی ہے۔ کوئی اسٹوڈنٹ جب تک امتحان ہال میں اپنا ٹسٹ کررہا ہے، اُس وقت تک وہ امتحان ہال کی چیزوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی اسٹوڈنٹ کے لیے امتحان ہال کی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ختم ہوجاتی ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ موجودہ دنیا میں انسان کا ہے۔ موجودہ دنیا کی حیثیت ایک بڑے امتحان ہال کی ہے۔ اس کے اندر وہ تمام چیزیں رکھی گئی ہیں جس کی ضرورت ایک اسٹوڈنٹ کو امتحان دینے کے سلسلے میں پیش آتی ہے۔ یہ چیزیں امتحان ختم تو سامان سے فائدہ اٹھانے کا وقت بھی ختم۔
ٹسٹ سپورٹ سسٹم کا یہ تصور آدمی کو پوری طرح ہلادیتا ہے۔ وہ آخری حد تک اس کو سنجیدہ بنا دیتا ہے۔ چیزوں کو اِس حیثیت سے لینے کے بعد، آدمی ان چیزوں کو ذمے داری کا معاملہ سمجھنے لگتا ہے، نہ کہ صرف انجوائے کرنے کی چیز- منعم کے تصور کے بغیر انعام کو لینا، آدمی کو سرکش اور غیر ذمے دار بناتا ہے۔ اس کے برعکس، منعم کے تصور کے ساتھ انعام کو لینا، آدمی کو ماڈسٹ اور ذمے دار بنا دیتا ہے۔
دین ِ اسلام
علماء ِ مذاہب کے نزدیک دنیا میںایک درجن بڑے مذاہب (major religions) پائے جاتے ہیں۔ اُنھیں میں سے ایک مذہب اسلام ہے۔ مسلم ذہن عام طورپر یہ سمجھتا ہے کہ اسلام تمام مذاہب میںسب سے زیادہ افضل مذہب (superior religion) ہے۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، یہ نظریہ سرتا سر بے بنیاد ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلام اور دوسرے مذاہب کے درمیان صرف ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اور وہ تاریخی معنوں میں ہے، یعنی اسلام مکمل طورپر ایک محفوظ مذہب (preserved relgion) ہے، جب کہ دوسرے تمام مذاہب تاریخی اعتبار سے غیر محفوظ مذہب (unpreserved religion) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی دوسرے مذہب کا نہ اوریجنل متن پوری طرح محفوظ ہے اور نہ اس کی تعلیمات اپنی اصل صورت میں پائی جاتی ہیں۔ دوسرے تمام مذاہب بعد کو وجود میں آنے والی کلرجی (clergy) کی پیداوار ہیں، نہ کہ اس کے اصل بانی کی وراثت۔
اِس تبدیلی، یا غیر محفوظیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دیگر مذاہب سے مذہب کی اصل تعلیم ہی حذف ہوگئی۔ مذہب کی اصل تعلیم یہ ہے کہ انسان، خدا کے سامنے جواب دہ (accountable) ہے۔ قرآن میںیہ بات انتہائی واضح طورپر موجود ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ابتدائی وحی اُتری، اس میں پہلے ہی دن یہ حقیقت موجود تھی۔ چناں چہ شروع میںاترنے والی سورہ المدثر میںکہاگیا : یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ ( 74:1-2 )یعنی اے پیغمبر، اٹھو اور تمام انسانوں کو یہ وارننگ دے دو کہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہیں اور بہت جلد حساب کا ایک دن آنے والا ہے، جب کہ تمام لوگوں سے اُن کے قول اور عمل کا حساب لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق، یا تو جنت میںجگہ ملے گی، یا جہنم میں۔
یہودی مذہب
لیکن یہی اہم ترین تعلیم بقیہ تمام مذاہب میںبعد کے زمانے میں حذف ہوگئی۔ مثلاً یہودی مذہب میں بعد کے زمانے میں، یہودی علما کی خود ساختہ تشریحات کے تحت، یہ عقیدہ یہودی مذہب میں شامل ہوگیاکہ جنت اور جہنم کا معاملہ نسلی معاملہ ہے، یعنی غیر یہودی نسل سب کی سب جہنم میں جائے گی اور یہودی نسل سب کی سب جنت میں۔ اِس عقیدے نے یہودیوں کو روزِ حساب (day of judgement) کے معاملے میں کامل طورپر بے خوف بنا دیا۔ حالاں کہ اِس قسم کی بے خوفی، خدا کے اصل دین کی منسوخی کے ہم معنی تھی۔
یہودی مذہب میںاِس بگاڑ کا حوالہ قرآن میںواضح طورپر موجود ہے۔ مثلاً سورہ البقرہ میں یہود کی بابت ارشاد ہوا ہے: ’’یہود کہتے ہیں کہ جہنم کی آگ ہم کو ہر گز نہیں چھوئے گی، بجز چند دنوں کے‘‘ ( 2:80 ) اِسی طرح قرآن کی سورہ المائدہ میں یہود کی بابت ارشاد ہوا ہے: ’’اور یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں‘‘ ( 5:18 )۔
قرآن کی اِن دونوں آیتوں کی تشریح میں مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ) نے جو کچھ لکھا ہے، اس کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ’’یہودی ماخذ سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بنی اسرائیل اپنے کو آتش دوزخ کی زد سے بالکل ہی باہر اور محفوظ سمجھ رہے تھے۔ چناں چہ جیوش انسایکلوپیڈیا میں یہ عقیدہ یوں نقل ہوا ہے: ’’آتشِ دوزخ، گنہ گارانِ قومِ یہود کو چھوئے گی بھی نہیں۔ اِس لیے کہ وہ درِ جہنم پر پہنچتے ہی اپنے گناہوں کا اقرار کرلیں گے اور خدا کے پاس واپس آجائیں گے‘‘ (جلد 5، صفحہ 583 )۔ اور یہود کے بڑے مقدس نوشتہ ’تالمود‘ کے انتخابات کا جو مجموعہ انگریزی میں ڈاکٹر کوہن(Kohen) کا مرتب کیا ہوا “Every Man’s Library Series” میں شائع ہوا ہے، اس میں یوں آیا ہے: قیامت کے دن ابراہیم ؑ درِ دوزخ پر تشریف رکھتے ہوں گے اور کسی مختون اسرائیلی کو اُس میں نہ گرنے دیں گے (صفحہ 404 )۔ جہنم کی آگ اسرائیلی گنہ گاروں پر کوئی قدرت نہیں رکھتی (( 405 ۔ حاصل یہ کہ بنی اسرائیل اپنی قوم کو خدا کی لاڈلی اور دُلاری سمجھے ہوئے تھے اور اس پر حد سے زیادہ نازاں تھے‘‘ -(تفسیر ماجدی، مطبوعہ لاہور2001،صفحہ 32 )۔
موجودہ محرّف اور مسخ شدہ بائبل میںاِس قسم کے حوالے موجود ہیں: خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا بیٹا، بلکہ میرا پلوٹھا ہے (خروج 4: 22 ) تم خداوند، اپنے خدا کے فرزند ہو (استثنا 1:14) جب اسرائیل لڑکا تھا، میںنے اِس کو عزیز رکھا اور اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا (ہوسیع 1: 11)۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا (جلد 6، صفحہ 15 ) میں بھی اِنھیں عقائد کی تکرار موجود ہے: جتنوں نے اُسے قبول کیا، اُس نے اُنھیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا (یوحنا 12:1 ) جتنے خدا کی روح کی ہدایت سے ملتے ہیں، وہی خدا کے بیٹے ہیں (رومیوں 14: 8 ) -مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مولانا عبد الماجد دریابادی کی انگریزی تفسیر(صفحہ 245 )۔
مسیحی مذہب
حضرت مسیح کی اصل تعلیمات عین وہی تھیں جو دوسرے تمام پیغمبروں کی تعلیمات تھیں، لیکن حضرت مسیح کے بعد مسیحی چرچ نے خود ساختہ تشریحات کے تحت، حضرت مسیح کی تعلیمات کو بدل دیا۔ آج جس چیز کو مسیحیت کہا جاتا ہے، وہ حضرت مسیح کا مذہب نہیں، بلکہ وہ مسیحی چرچ کا اپنا بنایا ہوا مذہب ہے۔ مسیحی مذہب کے اِس مسیحی ایڈیشن کا آغاز سینٹ پال (St. Paul) سے ہوا۔
سینٹ پال مشہور مسیحی مبلغ ہیں۔ اُن کو مسیحیت کے مذہبی نظام میںاتنی زیادہ اہمیت ملی کہ ’’عہد نامہ جدید‘‘ میں اناجیلِ اربعہ کے ساتھ، سینٹ پال کے خطوط (Epistles) بھی شامل کیے گئے۔ سینٹ پال کی وفات، حضرت مسیح کے بعد 67 عیسوی میں ہوئی۔ مسیحیت کا موجودہ مذہبی نظام زیادہ تر سینٹ پال کے نظریات پر قائم ہے:
Epistles, attributed to St. Paul, contain fundamental statements of Christian doctrine.
اِس کے بعد 325 عیسوی میں مشہور نیقیا کاؤنسل (Nicaea Council) منعقد ہوئی۔ اِس کا انتظام، قسطنطین اوّل (Constantine I) نے کیا تھا۔ اس کاؤنسل میںمسیحی چرچ کے ذمے داران شریک تھے۔ اِس کاؤنس میں جو باتیں طے ہوئیں، وہی آج مسیحی چرچ کی بنیاد ہیں۔
مسیحی چرچ کے موجودہ اعتقادی نظام میں کَفّارہ (atonement) کے عقیدے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح، انسانوں کی طرف سے کفارہ بن کر مصلوب ہوگیے۔ مسیحی چرچ کے اِس عقیدے کے مطابق، انسانِ اوّل (آدم) نے جب ممنوعہ درخت کا پھل کھایا تو یہ گناہ کا ایک فعل تھا۔ اِس کے نتیجے میں سارے انسان پیدائشی طور پر گنہ گار بن گئے۔ اِس کو مسیحی عقیدے میں گناہِ اوّل (original sin) کہا جاتا ہے:
The innate depravity which, in Christian theology, is held to be inherent in mankind as a direct result of Adam's sin of rebellion and which, in Roman Catholicism, is held to have resulted in the loss of sanctifying grace.
کفّارہ (atonement) کے اِس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح، جو مسیحی عقیدے کے مطابق، سولی پر چڑھا دیے گئے، اِس طرح اپنے آپ کو قربان کرکے انھوں نے تمام انسانوں کو پیدائشی گنہ گاری سے بَری کردیا:
The effect of Jesus's sufferings and death in redeeming mankind, and bringing about the reconciliation of God to man.
کفّارہ (atonement) کے اِس عقیدے کے مطابق، اب کسی انسان کی نجات کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح پر اِس حیثیت سے ایمان لائے کہ وہ اس کی نجات کے لیے مصلوب ہوگئے۔ اب نجات صرف اُس انسان کے لیے ہے جو حضرت مسیح کی اِس مصلوبیت پر ایمان لائے۔ جو لوگ مصلوبیت کے اِس عقیدے کااقرار نہ کریں، اُن کے لیے نجات کی کوئی صورت نہیں۔کفارے کا یہ عقیدہ، عقلی اعتبار سے ایک ناقابلِ فہم عقیدہ ہے، حتیٰ کہ وہ موجودہ بائبل (نیا عہدنامہ) کے اندر بھی واضح طورپر موجود نہیں۔ لیکن مسیحی چرچ کی بنیاد اِس عقیدے پر قائم ہے۔
کفارے کا یہ عقیدہ ہر قسم کے اخلاقی محرّک کا خاتمہ کردیتا ہے۔ اِس عقیدے کے مطابق، نجات کی شرط عملِ صالح نہیںہے، بلکہ کفّارۂ مسیح کے عقیدے کو ماننا ہے۔ ایسی حالت میں اِس عقیدے کو ماننے کے بعد کوئی شخص نیک عمل کیوں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیحی چرچ کے مطابق، جس مذہب کا نام مسیحی مذہب ہے، اس میں اخلاقیات کے لیے کوئی محرک (incentive) سرے سے موجود نہیں۔ اب اگر مسیحی لوگ کچھ اخلاقی عمل کرتے ہیں تو وہ اپنی فطرت کے زور پر کرتے ہیں، نہ کہ اپنے مذہبی عقیدے کے زور پر، اِس عقیدے نے مذہب کی اہم ترین تعلیم، خدا کے سامنے جواب دہی (accountability) کا سرے سے خاتمہ کردیا ہے۔
آرین مذاہب
اِس کے بعد آرِین مذاہب کو لیجیے۔ آرین مذاہب میںمشترک طورپر کرم کا نظریہ (karma theory) پایا جاتا ہے۔ اِس کو آوا گمَن، یا پُنر جنم بھی کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے عمل کے مطابق، دوبارہ جنم لے کر اِسی موجودہ دنیا میں آتا ہے۔ پچھلے جنم میں اگراُس نے اچھا کام کیا تھا تو اگلے جنم میں وہ اچھے انسان کے روپ میں پیدا ہوتا ہے، اور اگر اس نے پچھلے جنم بُرا کیا تھا تو اگلے جنم میں وہ برے انسان، یا حیوان کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش اور دوبارہ پیدائش (rebirth) کایہ سلسلہ 82 لاکھ سال تک جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان کو ’نِروان‘ مل جاتا ہے، یعنی اس کے وجود کا قطرہ حقیقت کے سمندر میں جاکر مل جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ پراسس (process) اسباب وعلل (cause and effect) کے اصول پر قائم ہے۔ اسباب و علل کے مخفی قانون کے تحت، یہ پراسس مسلسل چلتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ نظریہ بھی آدمی کو عمل کے محرک سے محروم کردیتا ہے۔ یہ نظریہ آدمی کو ایک تخیلاتی فلسفہ (imaginative philosophy) کے سوا اور کچھ نہیں دیتا۔ اِس نظریے میںنہ اچھا عمل کرنے کا کوئی محرک ہے اور نہ بُرے عمل سے بچنے کا کوئی خوف۔ انسانی زندگی میں اِس نظریے کا کوئی بھی تعمیری رول نہیں۔
یہ نظریہ بتاتا ہے کہ آدمی اپنے اچھے، یا بُرے عمل کا انجام پانے کے لیے اِس موجودہ دنیا میں بار بار واپس آتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج جو لوگ زمین کے اوپر زندہ حالت میں موجود ہیں، وہ سب کے سب اس سے پہلے پیدا ہو کر اِس دنیا میں آئے تھے۔ موجودہ انسانی آبادی نئے انسانوں کی آبادی نہیں ہے، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پیدا ہو کر اِس سے پہلے اِس دنیا میں آچکے تھے، اور اب وہ دوبارہ لوٹ کر اِس دنیا میںآئے ہیں۔
یہ تصور ایک خیالی نظریہ (imaginative theory) پر قائم ہے، اس کی پشت پر کوئی بھی علمی، یا عقلی دلیل موجودنہیں۔ اس تصور کے مطابق، اسباب و علل کا جو واقعہ پیش آتا ہے، وہ اُسی انسان کے اوپر پیش آتا ہے جو بار بار پیدا ہورہا ہے اور بار بار مررہا ہے ایسا نہیں ہوتا کہ مرنے والا کوئی اور شخص ہو اور اس کے بعد پیداہونے والا کوئی دوسرا شخص۔ اگر دونوں شخصیتوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے تو ’کرم‘ کا نظریہ ہی بے معنیٰ ہو کر رہ جائے گا۔
حیاتیاتی سائنس (biological science) کی تحقیقات کے مطابق، یادداشت، یا حافظہ (memory) انسان کی شخصیت کا لازمی جُز ہے۔ سِگمنڈ فرائڈ اور دوسرے علمائِ نفسیات نے ثابت کیا ہے کہ حافظہ انسانی شخصیت کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے۔ انسانی جسم کے سیل (cells) مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ پرانا سیل ٹوٹتا ہے اور اس کی جگہ نیا سیل لے لیتا ہے۔ سیل کی تبدیلی (replacement) کا یہ عمل مسلسل ساری عمر جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ کچھ سالوں میں جسم کے تمام سیل بدل جاتے ہیں، اور نئے سیل کے ساتھ نیا جسم وجود میں آجاتاہے۔
جسم کی اِس تبدیلی کے باوجود انسان کا حافظہ بدستور اپنی اصل حالت میں باقی رہتا ہے۔ حافظے کے اندر ادنیٰ درجے میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے کہ جس طرح موت سے پہلے کی جسمانی تبدیلی سے، انسان کا حافظہ اس کی شخصیت سے جُدا نہیںہوتا، اِسی طرح موت کے بعد کی جسمانی تبدیلی سے بھی آدمی کے حافظے کو اس کی شخصیت سے جدا نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک سائنسی طورپر ثابت شدہ حقیقت ہے، جس کا انکار کسی بھی طرح ممکن نہیں۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ مفروضہ (کرما تھیوری) کے مطابق، جو انسان موت کے بعد بار بار پیدا ہورہے ہیں، وہ سب کے سب اپنے سابقہ حافظے کے بغیر پیدا ہورہے ہیں۔ اِن میںسے کسی بھی عورت یا مرد کو اپنے ماضی کی زندگی یاد نہیں۔ حالاں کہ حیاتیاتی قانون کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اِس قانون کے مطابق، ہر ایک کے حافظے میںاس کی پچھلی زندگی مکمل طور پر محفوظ ہونا چاہیے، جو کہ بطور واقعہ موجود نہیں۔ موجودہ زمانے میں سائنسی مطالعے نے جس طرح بہت سے دوسرے مفروضات کو بے بنیاد ثابت کیا ہے، اِسی طرح مذکورہ مفروضہ بھی اب ایک بے بنیاد مفروضہ ثابت ہوچکا ہے۔ حیاتیاتی سائنس کا جدید مطالعہ اِس مفروضے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ گوتم بُدھ نے جب تَپَسِّیا کے دوران اپنا دھیان لگایا تھا تو اِس میں انھوں نے اپنی باطنی نظر سے اپنے تمام پچھلے جنموں کو دیکھ لیا تھا، مگر یہ صرف ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوںنے اپنے دھیان کے دوران خود اپنے فرضی تصورات کو محسوس کیا تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں اپنی زندگی کی تاریخ کو۔ سائنسی طریقے کے مطابق، اِس قسم کا دعویٰ بلا شبہہ قابلِ رد ہے۔ اِس لیے کہ وہ قابلِ تصدیق (verifiable) یا قابلِ اِعادہ (repeatable) نہیں۔ اور جو نظریہ قابلِ تصدیق یا قابلِ اعادہ نہ ہو، وہ سائنس کے قائم کردہ اصول کی بنا پر قطعیت کے ساتھ قابلِ رد قرار پاتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے تمام مذہبی نظریات صرف مفروضہ نظریات ہیں۔ اِن سب کے اندر یہ مشترک کمی پائی جاتی ہے کہ وہ انسانی اخلاقیات کے لیے طاقت ور محرک (strong incentive) نہیں دیتے۔ اور جو مذہب انسانی اخلاقیات کے لیے طاقت ور محرک فراہم نہ کرے، وہ صرف ایک مفروضہ فلسفہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی خدائی مذہب۔(2007)
واپس اوپر جائیں