فہمِ قرآن کی ایک ضرورت یہ ہے کہ آدمی عربی زبان جانتا ہو، وہ شانِ نزول کی روایتوں سے واقف ہو، وغیرہ- اِس طرح کی باتیں بلاشبہہ قرآن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں- لیکن یہ قرآن فہمی کا ابتدائی درجہ ہے- قرآن فہمی کا دوسرا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ قاری کے اندر وہ چیز پیدا ہوچکی ہو جس کو تیار ذہن (prepared mind) کہاجاتا ہے- ابتدائی درجےکا فہمِ قرآن بھی مفید ہے، لیکن فہمِ قرآن کا اعلی درجہ صرف اُس شخص کے حصے میں آتا ہے جو تیار ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے-
اِس ذہنی تیاری کو قرآن فہمی کی پیشگی شرط (pre-condition)کہا جاسکتا ہے-یہ ذہنی تیاری مطالعہ اور غور وفکر اور تبادلہ خیال (discussion)، وغیرہ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے- اِس طرح کی ذہنی سرگرمیوں کے ذریعے آدمی کو مزید معلومات حاصل ہوتی ہیں جو قرآن کی آیتوں کو سمجھنے میں مددگار بنتی ہیں، اِس سے آدمی کے اندر ایک ذوق (taste) ڈیولپ (develop) ہوتا ہے- اِس کے ذریعے آدمی کے اندر ایک پرکھ پیدا ہوتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا ذہن ذوقی طورپر یہ بتاتا رہتا ہے کہ کسی آیت کا کیا مطلب درست ہے اور کیا مطلب درست نہیں-
معروف قرآنی علوم آدمی کو صرف قرآن فہمی کے فنی پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہیں- اِس کے مقابلے میں، ذہنی تیاری آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ معرفت کے پہلو سے قرآن کے گہرے معانی (deep meanings)کا ادراک کرسکے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ تیار ذہن والا آدمی قرآن کے ربانی پہلوؤں کا ادراک کرلیتا ہے- ایسے آدمی کو قرآن میں حب الہی اور خشیت ِ الہی کی غذا ملنے لگتی ہے- اُس کے اندر وہ صفت پیدا ہوتی ہے جس کو ذہنی ارتقا کہاجاتا ہے، اُس کے لیے قرآن کا مطالعہ اللہ سے ملاقات کا لمحہ بن جاتا ہے- ایسے آدمی کے لیے قرآن کا مطالعہ ایک تخلیقی مطالعہ (creative study) ہوتا ہے، جو اُس کے لیے قرآن میں نیے نیے معانی کی دریافت کا ذریعہ بن جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں
حضرت ابو امامہ الباہلی کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لینقضنّ عرى الإسلام عروة عروة- فکلما انتقضت عروة، تثبّت الناس بالتی تلیہا- وأولہن نقضا الحکم، وآخرہن الصلاة (مسند احمد: 251/5 ) یعنی اسلام کے حلقے (زنجیر) ٹوٹتے رہیں گے، ایک کے بعد دوسری کڑی- جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ باقی ماندہ کڑی سے جڑ جائیں گے- پہلی کڑی جو ٹوٹے گی، وہ ’الحکم‘ ہے اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی ، وہ ’الصلاة‘ ہے-
حُکم (اقتدار) اور صلاة (نماز) دونوں کا ایک ڈھانچہ (form) ہے اور ایک اس کی روح (spirit)- اِس حدیث میں جس چیز کے ٹوٹنے کا ذکر ہے، وہ حکم اور صلاة کی اسپرٹ ہے، نہ کہ اس کا ظاہری فارم، کیوں کہ کسی بھی امت میں اِن چیزوں کی صرف داخلی اسپرٹ مفقود ہوتی ہے، نہ کہ اس کا ظاہری ڈھانچہ-حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، جب امت مسلمہ پر زوال آئے گا تو ایسا نہیں ہوگا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے، بلکہ یہ ہوگاکہ بظاہر اس کا ڈھانچہ تو موجود ہوگا، مگرداخلی حقیقت مفقود ہوچکی ہوگی-
گویا اسلام کا قِشر (چھلکا) موجود ہوگا، لیکن اسلام کا مغز موجود نہ ہوگا- مثلاً ظاہری اعتبار سے، مسلم حکومت موجود ہوگی، لیکن اقامتِ عدل موجود نہ ہوگا، جو کہ حکومت کا اصل مقصود ہوتا ہے- اِسی طرح نماز کا ظاہری ڈھانچہ تو موجود ہوگا، لیکن نمازیوں کے اندر خشوع کی کیفیت موجود نہ ہوگی، جو کہ نماز کی اصل حقیقت ہے- اِسی طرح بظاہر دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری ہوں گی، لیکن یہ سرگرمیاں قومی کلچر کی سرگرمیاں ہوں گی، نہ کہ حقیقی معنوں میں دین ِ خداوندی کی سرگرمیاں-کوئی امت کبھی ظاہری معنوں میں نہیں مٹتی- دورِ زوال میں جو واقعہ پیش آتا ہے، وہ صرف یہ ہوتا ہے کہ معنوی اعتبار سے، امت کمزور یا بے روح ہوجائے-
واپس اوپر جائیں
تقدیر (destiny) کیا ہے- عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز پیشگی طور پر مقدر (pre-determined)ہے- کسی آدمی کو وہی ملے گا جو اس کے لیے پیشگی طورپر لکھ دیاگیا ہے، نہ اُس سے زیادہ نہ اُس سے کم- اصولی طورپر یہ بات درست ہے، لیکن اس کو جس معنی میں لیا جاتا ہے، وہ درست نہیں- حقیقت یہ ہے کہ چیزوں کے مقدر ہونے کا مطلب انسان کے مستقبل کا پیشگی طورپر فیصلہ نہیں ہے، بلکہ اِس اصول کا پیشگی فیصلہ کرنا ہے کہ کس نقشۂ عمل کو اختیار کرکے کوئی شخص اپنامستقبل بنا سکتا ہے- گویا خود مستقبل مقدر نہیں ہے، بلکہ مستقبل سازی کے لیے تدبیر ِ کار کو مقدر کردیا گیا ہے- یہ تدبیر کار بلا شبہہ حتمی ہے، لیکن انجام کے معنی میں کسی کا مستقبل پیشگی طورپر حتمی نہیں-
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موجودہ دنیا کو صرف تخلیق نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے اپنے تخلیقی نقشہ) (creation planکے مطابق، یہ بھی مقدر کردیا ہے کہ آدمی کی کامیابی کے لیے صحیح اور فطری طریق کار کیا ہے- اِس معاملے میں آدمی کے لیے کوئی دوسرا چوائس(choice) لینا ممکن ہی نہیں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو تقدیر الٰہی کہاجاتا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال کی یہ حدیث ہے: إن اللہ یعطی على الرفق، ما لا یعطی على العنف (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2593 ) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا- اِس حدیث میں یعطی کا ترجمہ بظاہر عطا کرنا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اس کا مطلب ہے عطا ہونا، یعنی اس دنیا میں اللہ تعالی نے فطرت کا جو نظام بنایا ہے، اس کے تحت یہاں صرف مبنی بر رفق عمل نتیجہ خیز ہوتا ہے- مبنی برعُنف عمل یہاں کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوتا-
اصل یہ ہے کہ انسان اپنا مستقبل خود تعمیر کرتا ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے، لیکن تعمیرِ خویش کا یہ کام ہمیشہ فطرت کے نقشے کے مطابق انجام پاتاہے- فطرت کے نقشے سے انحراف کرکے اس دنیا میں کوئی شخص اپنے لیے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا-
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت، حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- اِس کے مطابق، پیغمبر اسلام نے فرمایا: لقد کان فیما قبلکم من الأمم ناس محدَّثون، فإن یک فی أمتی أحد فإنہ عمر (صحیح البخاری، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، رقم الحدیث: 3689) یعنی تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں، اُن میں محدَّث افراد ہوتے تھے- اگر میری امت میں ایسا کوئی شخص ہوگا تو وہ عمر ہیں-
اِس حدیثِ رسول میں حضرت عمر فاروق کا حوالہ اِس معنی میں نہیں ہے کہ صرف وہی ایک شخص ہیں جو کہ امتِ مسلمہ میں ’مُحدَّث‘ ہوں گے (فتح الباری:
اصل یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ دین کی تعلیمات کا از سرِ نو انطباق معلوم کیا جائے- یہ کام امت کا کوئی عالم انجام دیتا ہے- ایسے ہی شخص کو مجتہد یا محدَّث کہاجاتا ہے- یہ صرف ایک دینی خدمت ہے- کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ یہ دعوی کرے کہ میں مجتہد ہوں یا میں محدّث ہوں-
محدّث کا رول اللہ کی توفیق سے انجام پاتا ہے- یہ توفیق صرف اُس شخص کو ملتی ہے جواپنے علم اور اپنے تقوی کے ذریعے خود کو اس خدمت کا اہل ثابت کرے- محدث سے مراد مُلہَم شخص (inspired person) ہے- کون شخص محدّث ہے، اس کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے- خود کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ میں محدّث ہوں- پیغمبر اپنے کام کا آغاز دعوے سے کرتا ہے، محدَّث کو ہر گزیہ حق نہیں کہ وہ اِس قسم کا کوئی دعوی کرے-
واپس اوپر جائیں
مولانا شاہ حکیم اختر (2013-1924) ایک صوفی عالم تھے- وہ مولانا عبد الغنی پھول پوری کے خلیفہ تھے- وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ: ’’بارہ سال کی عمر تھی- جنگل کی ایک مسجد میں جاکر نماز پڑھتا اور آسمان کی طرف دیکھ کر مولانا روم کا یہ شعر پڑھتا جاتا اور روتا جاتا:
سینہ خواہم شرح شرح از فراق تا بگویم شرح از دردِ اشتیاق
ترجمہ: اے اللہ، میں آپ کی جدائی کے غم میں اپنا سینہ ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں، تاکہ میں آپ کی محبت کے دردِ اشتیاق کی شرح بیان کرسکوں‘‘- (ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، جولائی- اگست 2013، صفحہ: 7) - اللہ سے محبت بلا شبہہ مطلوب ہے، لیکن یہ محبت ذاتی نوعیت کے عشق وعاشقی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اِس معنی میں ہے کہ انسان اللہ کے رحیم وکریم ہونے کو دریافت کرے اور اس کے نتیجے میں وہ حمد اور شکر کی اعلی کیفیات سے سرشار ہوجائے، وہ معرفتِ خداوندی میں جینے لگے، اس کے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کا عمل (process) شروع ہوجائے-
جب ایسا ہوگا تو آدمی کو اس کا ایک فائدہ یہ ملے گا کہ اس کے اندر وہ ربانی شخصیت بنے گی جو جنت میں داخلے کی مستحق قرار پائےاور وہ اللہ کی قربت کا تجربہ کرے- اس کے صبح وشام فرشتوں کی صحبت میں بسر ہونے لگیں گے، اس کے اندر حکمت کا ’اِنبات‘ ہونے لگے گا، جیساکہ حدیث میں آیا ہے (ما زہدعبد فی الدنیا إلا أنبت اللہ فی قلبہ الحکمة)-
اِس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے اندر شدت کے ساتھ دعوت الی اللہ کا جذبہ پیدا ہوجائے گا- وہ اِس مقصد کے لیے سرگرم ہوجائے گا کہ اللہ کے بندوں کو وہ اللہ کا پیغام پہنچا دے- اس کی اپنی معرفت اُس وقت تک مشتبہ نظر آئے گی، جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے بھی اِسی ربانی تجربے کا حریص نہ بن جائے- اس کو اپنی جنت اُس وقت تک مشتبہ دکھائی دے گی، جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے میں اپنی ساری طاقت نہ لگا دے-
واپس اوپر جائیں
ڈاکٹر سنجے رائے سمستی پور، بہار میں پیدا ہوئے- 21 اگست 2013 کو ایک سڑک حادثے میں ان کا انتقال ہوگیا- انتقال کے وقت ان کی عمر 40 سال تھی- انھوں نے 1996 میں اسلام قبول کرلیا- وہ ایک پابند ِ صوم وصلاة نوجوان تھے- انھوں نے ایک بار اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ: ’’اللہ سے بات کرنا چاہو تو قرآن پڑھا کرو، اور اللہ سے ملاقات کرنا چاہو تو تہجد پڑھا کرو‘‘-
(ماہ نامہ الفرقان، لکھنؤ، اکتوبر 2013، صفحہ: 7)
یہ کوئی خوش عقیدگی (wishful thinking)کی بات نہیںہے، بلکہ وہ ایک حقیقت ہے- یہ ایک واقعہ ہے کہ قرآن کو پڑھنا گویا اللہ سے ہم کلام ہونا ہے اور عبادت میں مشغول ہونا وہ لمحہ ہے جب کہ ایک بندہ اپنے رب سے ملاقات کا تجربہ کرتا ہے- لیکن قرآن اور نماز کا یہ فائدہ اس کے ظاہری فارم میں نہیں ہے، بلکہ وہ اس کی اسپرٹ میں ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ آپ قرآن کے الفاظ کو اپنی زبان سے دہرائیں تو خود بخود آپ کو اللہ سے ہم کلامی کا تجربہ ہونے لگے، یا آپ نماز کے فارم کو دہرائیں تو نماز کی صورت کا دہرانا بجائے خود اللہ سے ملاقات کا ذریعہ بن جائے- یہ دونوں فائدے کسی کو بہ اعتبار اسپرٹ ملتے ہیں، نہ کہ بہ اعتبار فارم-
اصل یہ ہے کہ جب ایک انسان حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے، پھر وہ اللہ کی توفیق سے سچائی کو پالیتا ہے، پھر اس کو معرفت کے درجے میں ایمان حاصل ہوجاتا ہے، اللہ کی یاد اس کے شعوری عمل (thought process) میں شامل ہوجاتی ہے، وہ صبح وشام خدائی حقیقتوں کی دریافت کرتا رہتا ہے، اس کا کیس ایک ربانی انسان کا کیس بن جاتا ہے، قرآن کی تلاوت یانماز سے پہلے وہ ایک تیار ذہن (prepared mind) بن چکا ہوتا ہے- ایسا انسان جب تدبر کے ساتھ قرآن کو پڑھتا ہے یا وہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کو بلا شبہہ ان اعلی کیفیات کا تجربہ ہوتا ہے جیسے کہ وہ اللہ سے ہم کلام ہے، جیسے کہ وہ اللہ سے ملاقات کررہا ہے(تعبد اللہ کأنک تراہ)-
واپس اوپر جائیں
2 اپریل 2006 کو ڈاکٹر محمد اقبال کے ’’یومِ وفات‘‘ کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویزن (لاہور) کے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا- اِس میں ملک کے نامور اہلِ علم ودانش شریک ہوئے- اِس پروگرام کا موضوع اقبال کے خطبات:
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
پر اظہار خیال تھا- دوسرے اہلِ علم کے علاوہ، ڈاکٹر جاوید اقبال نےمرکزی مقرر کی حیثیت سے اس پروگرام میں شرکت کی- ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ: ’’سب سے بڑی بات جو ہم نے اچیو (achieve) کی ہے، وہ پاکستان کا کری ایشن (creation) ہے‘‘- انھوں نے مزید کہا کہ ہم جوہری طاقت (neuclearpower) ہیں- یہ بھی بڑی اچیومینٹ (achievement) ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ٹھیک کیا ہے‘‘- (شش ماہی مجلہ ’’اقبال ریویو‘‘، صفحہ:
1947 سے پہلے جب پاکستان کی تحریک چل رہی تھی، ہر طرف مسلمان یہ نعرے لگا رہے تھے کہ — پاکستان کا مطلب کیا، لا إلہ إلا اللہ- اِس نعرے کا مطلب بظاہر یہ تھا کہ پاکستان کی طاقت اسلام کا نظریہ ہے، یعنی اسلام کی پرامن آیڈیالوجی (peaceful ideology)، مگر 60 سال سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد پاکستان کے دانش ور یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی طاقت ایٹم بم ہے-اِس ذہن کی مزید توسیع یہ ہے کہ پاکستانی سماج میں گن کلچر اور بم کلچر کو زبردست فروغ حاصل ہوا جو آخر کار خود کش بم باری تک پہنچا- آج کی دنیا کی نظر میں پاکستان کی تصویر ایک تشدد پسند ملک کی تصویر ہے، نہ کہ پرامن اسلام پسندکی تصویر- ایک عالمی سروے کے مطابق، سنگاپور دنیا کا سب سے زیادہ پر امن ملک ہے اور پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ پر تشدد ملک— نظریۂ پاکستان کا یہ برعکس انجام شاید جدید تاریخ کا سب سے زیادہ عجیب واقعہ ہے-
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ التین میں اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو بتایا گیا ہے- اِ س سورہ کا متن اور ترجمہ یہ ہے: وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ (
We have created man in the best of mould, then We cast him down as the lowest of the low.
اسفل سافلین میں ڈالنے سے کیا مراد ہے-اِس کا جواب قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے- قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم اور اُن کی بیوی حوا کو پیدا کرنے کے بعد پہلے جنت میں رکھا گیا - اس کے بعد اُن کو (اور ان کی نسلوں کو)موجودہ دنیا (planet earth)میں منتقل کردیاگیا - اِس سلسلے میں آیت کے الفاظ یہ ہیں: قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا (
ہیبی ٹیٹ کی اہمیت
ہیبی ٹیٹ کیا ہے- ہیبی ٹیٹ ایک ارضیاتی اصطلاح ہے- اِس سے مراد وہ جغرافی مقام ہے جو کسی حیوان یا کسی پودے کے لیے فطری طورپر موزوں ہو:
Habitat: The natural abode of an animal or plant.
گویا ہیبی ٹیٹ زمین کا وہ مخصوص علاقہ ہے جو کسی جان دار مخلوق کے لیے موزوں جاے قیام کی حیثیت رکھتا ہو، جہاں وہ حالات موجودہوں جس میں کوئی جان دار مخلوق بھر پور طور پر نشوونما پاسکے-
اخروی حقیقتوں کو قابلِ فہم بنانے کے لیے خالق نے دنیا کی زندگی میں حیوانات کے ہیبی ٹیٹ کا ظاہرہ (phenomenon) قائم کیا ہے- حیوانات اپنے ہیبی ٹیٹ میں پرسکون طورپر رہتے ہیں- ہیبی ٹیٹ کے باہر ان کو سکون نہیں ملتا- اس کی ایک مثال مچھلی ہے- مچھلی ایک جان دار مخلوق ہے اور اس کا فطری ہیبی ٹیٹ پانی ہے- مچھلی پانی کے اندر پرسکون طورپر رہتی ہے، لیکن اگر مچھلی کو پانی کے باہر رکھ دیا جائے، مثلاً کسی محل میں، کسی گارڈن میں، کسی صوفہ سیٹ پر، کسی کار یا ہوائی جہاز میں تو ہر جگہ وہ تڑپتی رہے گی- لیکن جیسے ہی آپ اس کو دریا یا سمندر میں ڈالیں، وہ فوراً پرسکون ہو کر اس میں تیرنے لگے گی- اِس کا سبب یہ ہے کہ مچھلی اپنی ساخت کے اعتبار سے ہوا سے آکسیجن نہیں لے سکتی- مچھلی کے لیے آکسیجن حاصل کرنے کا ذریعہ صرف تحلیل شدہ آکسیجن (dissolved oxygen) ہے جو پانی کے اندر فطری طورپر موجود ہوتا ہے-
موجودہ دنیا انسان کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان کے خالق نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے، جب کہ موجودہ دنیا اِس کے مطابق نہیں- انسان اور اس کے رہائشی سیارہ کے درمیان اِسی تبایُن (disparity)کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمین انسان کا فطری ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان کو اِس دنیا میں اُس مچھلی کی طرح رہنا پڑتا ہے جو پانی کے باہر کسی غیر آبی جگہ پر ہو-اگرچہ اِس دنیا میںپھل اور میوے ہیں، اگر چہ اِس دنیا میں سرسبز پہاڑ ہیں، اگر چہ اِس دنیا میں متمدن آبادیاں ہیں، پھر بھی انسان کو اِس دنیا میں ذہنی سکون حاصل نہیں- انسان اپنی زندگی کے اِس تباین پر غور کرے تو وہ ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرے گا، وہ یہ کہ موجودہ دنیا اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں-
اسفل سافلین کیا ہے
اِس نکتے کو ذہن میں رکھ کر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اسفل سافلین سے مراد کوئی پراسرار چیز نہیں ہے- اس سے مراد یہی موجودہ زمین ہے- موجودہ زمین کا اسفل سافلین ہونا خود زمین کی نسبت سے نہیں، بلکہ وہ انسان کی نسبت سے ہے- انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے، معیار پسند ہے- موجودہ زمین چوں کہ ہر اعتبار سے آئڈیل سے کم (less than ideal) ہے، اِس لیے عملاًوہ انسان جیسی مخلوق کے لیے اسفل سافلین بن جاتی ہے-اِس نکتے کی وضاحت کے بعد سورہ التین کا پورا مفہوم واضح ہوجاتاہے- اِس سورہ کے ابتدائی الفاظ علامتی الفاظ ہیں- اِس میں انجیر اور زیتون کے الفاظ سے زمین کی روئیدگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کی بنا پر یہاں پھل اور اناج جیسی چیزیں پیدا ہوتی ہیں- جبلِ طورسے مراد زمین کے لیے پہاڑوں کی وہ اہمیت ہے جس کا ذکر قرآن کے مختلف مقامات پر کیاگیا ہے- بلدِ امین سے مراد موجودہ زمین کی وہ صلاحیت ہے جس کی بنا پر یہاں شہر آباد ہوتے ہیں اور انسانی تہذیب ظہور میں آتی ہے-
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمین ایک استثنائی کرہ ہے- یہاں جو حالات ہیں، وہ کائنات کے کسی اور کرہ پر موجودنہیں- مگر یہاں ایک فرق ہے، وہ یہ کہ انسان اپنی ذات میں ایک معیار پسند مخلوق ہے، جب کہ موجودہ زمین دار الامتحان کے طورپر بنائی گئی ہے، اِس لیے وہ انسانی معیار کے مطابق نہیں- یہی وجہ ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے عملاً دار الکبد بن جاتی ہے، یعنی ایک ایسی دنیا جہاں انسان کو چین اور سکون حاصل نہیں-یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک عدم مطابقت (disparity) پائی جاتی ہے- موجودہ زمین پر انسان کی حیثیت ایک ایسے طالب کی ہے جس کا مطلوب اس کو یہاں حاصل نہیں -یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان ایک عدم مطابقت (disparity) پائی جاتی ہے- موجودہ زمین پر انسان کی حیثیت ایک ایسے طالب کی ہے جس کا مطلوب اس کو یہاں حاصل نہیں- یہی وجہ ہے کہ اِس زمین پر پیدا ہونے والے تمام عورت اور مرد بے سکونی کی زندگی گزارتے ہیں اور اِسی حال میں مر جاتے ہیں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیاہے: اللہم لا عیش إلا عیش الآخرة ( صحیح مسلم، رقم الحدیث:1805 ) یعنی انسان کو اس کی مطلوب زندگی تو صرف آخرت میں مل سکتی ہے-
قرآن کی اِس سورہ میں اسفل سافلین کا لفظ خارجی حالات کی نسبت سے نہیں آیا ہے، بلکہ وہ انسان کی اپنی داخلی نفسیات کی نسبت سے آیا ہے، یعنی ایک ایسی مخلوق جو اپنی تخلیق کے اعتبار سے، احسنِ تقویم ہے، اس کے لیے یہ دنیا عملاً اسفل سافلین کے ہم معنی بن جاتی ہے- انسان کے لیے یہاں رہنا ایسا ہی ہے جیسے مچھلی کا پانی کے باہر رہنا-
انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان یہ عدم مطابقت ایک سراغ (clue)ہے- وہ عدم مطابقت یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے، جس ہیبی ٹیٹ کا طالب ہے، زمین اس کے لیے وہ ہیبی ٹیٹ نہیں- یہ عدم مطابقت انسانی زندگی کا ایک ایسا پہلو ہے جس پر غور کرکے انسان ایک عظیم حقیقت کو دریافت کرسکتا ہے، یعنی یہ حقیقت کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اپنے آپ کو کامیاب بنانے کے لیے اس کو کیا کرنا چاہئے-
سورہ کے اگلے الفاظ اِسی بات کا جواب ہیں- سورہ کے اگلے الفاظ یہ ہیں: اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ -یعنی جو لوگ اللہ کے تخلیقی منصوبے کو دریافت کریں اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کر یں تو موت کے بعد وہ ایک ایسی دنیا (جنت) میں داخل کیے جائیں گے، جو اُن کا مطلوب ہیبی ٹیٹ ہوگا اور اِس بنا پر وہاں عدم مطابقت کا مسئلہ باقی نہ رہے گا- اِس دنیا میں اُن کو اپنی مطلوب زندگی مل جائے گی جس کو قرآن میں غیر ممنون اجر (unending award) کہاگیا ہے-
اجر غیر ممنون
قرآن کی اِس آیت میں ’اجرِ غیر ممنون‘ کا لفظ ایک ذو معنی لفظ ہے، یعنی بلاغت کے اصول کے مطابق، اِس لفظ میں مذکور معنی کے ساتھ ایک غیر مذکور معنی بھی پوشیدہ ہے، یعنی اجر غیر ممنون کے ساتھ اجرِ ممنون کا تصور، یا غیر منقطع اجر کے ساتھ منقطع اجر کا تصور-
اِس آیت میں آخرت کےاجر کو غیر ممنون (غیر منقطع) اجر بتایا گیا ہے- یہ لفظ دنیا کے اجر کے مقابلے میں آیا ہے، کیوں کہ دنیا کااجر ممنون (منقطع) اجر ہے اور آخرت کااجر، غیر ممنون (غیر منقطع) اجر ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کا اجر عارضی اجر ہے اور آخرت کا اجر ابدی اجر-یہ فرق بے حد اہم ہے- حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے اجر کا ممنون (منقطع) اجر ہونا ہی وہ چیز ہے جو دنیا کو اسفل سافلین بنا دیتا ہے، کیوں کہ انسان کا معیار پسند ذہن معیار سے کم پر راضی نہیں ہوتا- انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے صرف معیار پر مطمئن ہوسکتاہے، معیار سے کم پر مطمئن ہونا بہ اعتبار مزاج اس کے لیے ممکن نہیں- انسان کا یہی مزاج ہے جو موجودہ دنیا کو اس کے لیے دار الکبد بنا دیتاہے- موجودہ دنیا مطلق معنوں میں دار الکبد نہیں ہے- انسان کے معیار پسندانہ ذہن کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا اس کو ایک ایسی جگہ محسوس ہونے لگتی ہے جو گویا کہ اس کے لیے دار الکبد ہو- اللہ نے دنیا کو دار الکبد کے طورپر پیدا نہیں کیا ہے، یہ انسان کا اپنا مزاج ہے جس کی بنا پر دنیا اس کو دار الکبد نظر آتی ہے- یہ معاملہ انسان کی نسبت سے ہے، نہ کہ تخلیق کی نسبت سے-
سورہ کے آخر میں فرمایا: اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ -اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں جو عدم مطابقت ہے یا طالب کو اس کا مطلوب حاصل نہیں، یہ خالق کی حکیمانہ شان کے خلاف ہے- لازماً ایسا ہونا چاہیے کہ خالق کی حکیمانہ شان کا ظہور ہو، اِس عدم مطابقت کا خاتمہ ہو اور طالب کو اس کا مطلوب مل جائے- آخرت اِسی شانِ خداوندی کے ظہور کا دن ہے-
خلاصۂ کلام
سورہ التین میں جو بات ’رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ‘ کے الفاظ میں کہی گئی ہے، وہی بات دوسری سورتوں میں دوسرے الفاظ میں کہی گئی ہے- مثلاً لَقَدْ خَلَقْنَا الْانْسَانَ فِیْٓ کَبِد اور إنَّ الإنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ وغیرہ- قرآن کے الفاظ پوری انسانی تاریخ پر منطبق ہوتے ہیں- اول دن سے اب تک جو عورت یا مرد اس کرۂ ارض پر پیداہوئے، اُن سب کے ساتھ یہی واقعہ پیش آ ٓیا کہ آخر کار وہ محدود مدت کے بعد مر گئے اور اُن کی بنائی ہوئی دنیا بالکل اجڑ گئی- اِس معاملے میں کسی بھی انسان کا کوئی استثنا نہیں-
تاریخ کا یہ تجربہ ایک سوالیہ نشان ہے، بلکہ سب سے بڑا سوالیہ نشان، وہ یہ کہ انسان احسنِ تقویم کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے- وہ تمام مخلوقات میں افضل مخلوق اور مکرم مخلوق ہے- انسان واحد مخلوق ہے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے، معیار پسند (idealist)اور کمال پسند (perfectionist) واقع ہوا ہے-یہ انسانی شخصیت کا ایک پہلو ہے- اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان جس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- ایک سائنس داں کے الفاظ میں، بظاہر ایسا محسوس ہوتاہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے نہیں بنائی گئی تھی:
It appears that man has strayed into a world that was not made for him.
انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان یہ عدم مطابقت ہر عورت اور مرد کے لیے دعوتِ فکر کی حیثیت رکھتی ہے- اگر آدمی حقیقی معنوں میں حق کا متلاشی ہو تو انسانی زندگی کا یہ پہلو اس کے لیے ایک ایسا سراغ (clue) بن جائے گا جس پر غور کرتے ہوئے وہ زندگی کی اصل حقیقت کو دریافت کرلے- اِس دریافت کے بعد اس کو معلوم ہوگا کہ موجودہ دنیا اس کے لیے صرف ایک عارضی قیام گاہ ہے، وہ اس کا ہیبی ٹیٹ نہیں- انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس کا مستحق بنائے کہ موت کے بعد اس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے جو کہ انسان کا اصل ہیبی ٹیٹ ہے-(5ستمبر 2013)
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو پیدا کیا تو اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اِس مکالمے کے دوران اللہ نے انسان کی پیدائش کا مقصد اِس طرح بیان کیا: وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۗىِٕکَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِیْفَةً (
’خلافت‘ کے لغوی معنی ہیں: بعد کو آنا- ’خلیفہ‘ کا مطلب ہے: کسی کے بعد اس کی جگہ پر آنے والا، یعنی جانشین (successor)- خلیفہ کا اصل لفظی مطلب یہی ہے، لیکن اِس طرح کسی کے بعد جو شخص جانشین بنتا ہے، وہ عام طورپر صاحبِ اقتدار ہوتا ہے، اس لیے استعمال میں خلیفہ کا لفظ مجرد طورپر صاحبِ اقتدار کے لیے بولا جانے لگا، خواہ ایسا شخص جانشین کے طورپر صاحبِ اقتدار بنا ہو یا جانشینی کے بغیر اس کو یہ پوزیشن حاصل ہوگئی ہو-
قرآن کی اِس آیت میں خلیفہ کا لفظ اِسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر ایک بااختیار مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا- ایک عارضی مدت کے لیے زمین انسان کے چارج میں دے دی گئی- نظامِ فطرت کے مطابق، اگرچہ زمین کا انتظام انسان چلا رہے ہیں جس طرح کائنات کے دوسرے حصوں کا انتظام فرشتے چلارہے ہیں- لیکن محدود معنی میں زمین انسان کے چارج میں ہے- قیامت تک کے لیے انسان کو کامل اختیار ہے کہ وہ اپنے دائرے میں زمین پر آزاد مخلوق کی حیثیت سے زندگی گزارے، خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا غلط استعمال-
قرآن فہمی کا ایک اصول یہ ہے : القرآن یفسر بعضُہ بعضا (قرآن کا ایک حصہ اُس کے دوسرے حصے کی تفسیر کرتاہے)- اِس اصول کے مطابق، غور کیا جائے تو قرآن کی متعدد آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کو خلیفہ بنانے کا مطلب کیا ہے- اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ (
اصل یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے ایک کامل مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا- اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے، پہلا انسان اتنا ہی کامل تھا، جتنا کہ اکیسویں صدی کا انسان- لیکن جس سیارہ ارض (planet earth) پر انسان کو بسایا گیا، وہاں تمام چیزیں موجود تھیں، لیکن یہ چیزیں زیادہ تر بالقوہ (potential) طور پر موجود تھیں- اب یہ انسان کا کام تھاکہ وہ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنائے- پوری انسانی تاریخ اِس معاملے کی تصویر ہے- وہ بالقوہ سے بالفعل کی طرف سفر کررہی ہے-
اِس سفر کے لیے انسانی زبان میں سب سے زیادہ موزوں لفظ تہذیب ہے- پوری انسانی تاریخ، آدم سے لے کر قیامت تک، اِسی تہذیبی سفر کا دوسرا نام ہے- خالق نے کرہ ارض کو تہذیب کے مقام یا مقر (abode of civilization) کے طورپر بنایا- انسان کا کام یہ تھا کہ وہ اِس پوٹنشیل تہذیب (potential civilization) کو ایکچول تہذیب (actual civilization)کی صورت میں ڈیولپ کرے — اِسی رول کو انجام دینے والے کا نام خلیفہ ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان-
تہذیب کا لفظ عام طورپر مادی ترقی کے معنی میں بولا جاتا ہے- معروف تصور کے مطابق، تہذیب کا مطلب ہے — سوشل ، کلچرل اور سائنٹفک ترقی کا اعلی مرحلہ- مگر تہذیب کی یہ تعریف ایک محدود تعریف ہے- تہذیب کے تصور کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے پس منظر میں دیکھا جائے- چوں کہ تہذیب کے معمار خود سے کوئی چیز تخلیق نہیں کرتے، وہ خالق کے پیدا کردہ ذرائع (natural resources) یا انفراسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے تہذیب کا سفر جاری کرتے ہیں- گویا کہ تہذیب کے تمام انسانی معمار، خالق کے کارندے ہیں- وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو واقعے کی صورت دے رہے ہیں-
تہذیب کا یہ سفر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ربانی تہذیب کا سفر ہے- وہ انسان کو اُس منزل کی طرف لے جانے والا ہے جہاں وہ حمدِ الہی اور شکر ِ خداوندی کا اعلی تجربہ کرے، جہاں وہ ربانی معرفت کے اعلی مراتب کو حاصل کرسکے- مگر یہ کام چوں کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انجام دیا جارہا ہے، اِس لیے لوگ اس کی معنویت کو سمجھنے سے قاصر رہے- تہذیب کے اِس سفر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی انسانی آزادی سے پیدا ہونے والی خرابیوں (evils) کو الگ کرکے یہ دیکھ سکے کہ خدا کس طرح انسانی تاریخ کو مینیج کررہا ہے- انسانی تاریخ کو بامعنی طورپر سمجھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مبصر، انسانی عنصر کو الگ کرکے تاریخ میں عمل کرنے والے خدائی عنصر کو دیکھ سکے-
ایک جائزہ
اللہ نے انسان کو کامل آزادی عطا فرمائی ہے- یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ انسان خود سے چیزوں کو دریافت کرے، وہ اپنے اندر ایک خود تعمیر کردہ شخصیت (self-developed personality) بنائے- انسان کبھی اپنی آزادی کو صحیح استعمال کرتا ہے اور کبھی غلط استعمال- لیکن اللہ اپنی قوتِ قاہرہ کے ذریعے تاریخ کو مینیج کرتے ہوئے اُس کو اُس منزل کی طرف لے جارہا ہے جو اس کی اصل منزل ہے، یعنی معرفتِ خداوندی (realization of God) کی تکمیل-
اللہ نے انسانیت کے آغاز سے پیغمبروں کو بھیجنے کا جو سلسلہ جاری کیا، وہ اِس لیے تھا کہ پیغمبر، انسان کو خدا کے تخلیقی منصوبے سے باخبر کریں اور یہ کوشش کریں کہ انسانی تہذیب کا سفر صحیح رخ (right direction) میں جاری رہے-مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کو استعمال کرنے میں زیادہ ذمے دار ثابت نہیں ہوا- بہت جلد ایسا ہوا کہ تاریخ عمومی طورپر توحید کے راستے سے ہٹ کر شرک کے راستے پر چل پڑی- اس کا سبب یہ تھا کہ انسان نے پایا کہ پیغمبر جس اللہ کی خبر دے رہے ہیں، وہ اللہ اس کو دکھائی نہیں دیتا، البتہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات ہر طرف دکھائی دے رہی ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے نہ دکھائی دینے والے خدا کو چھوڑ کر، دکھائی دینے والی چیزوں کو اپنا خدا سمجھ لیا-
یہ واقعہ کس طرح ہوا، اس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں ملتا ہے: ہَذا رَبِّی ہَذا أَکْبَرُ (
شخصی حکومت
قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ساری دنیا میں حکومت کا وہ نظام قائم تھا جس کو شخصی بادشاہت (Monarchy)کہا جاتا ہے- شخصی بادشاہت بہت جلد شخصیت پرستی (personality cult)میں تبدیل ہوجاتی تھی- اور پھر شخصیت پرستی رفتہ رفتہ بت پرستی (idol worship) کی صورت اختیار کرلیتی تھی-یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایسا ہوا کہ شخصی حکومتیں آخر کار مشرکانہ حکومتیں بن گئیں- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت موسی کے معاصر بادشاہ فرعون نے کہا کہ :أنا ربکم الأعلى (
قدیم زمانے میں شخصی حکومت کا نظام سب سے بڑی برائی (greatest evil) بن کر ابھرا- یہ انسانی آزادی کا سب سے زیادہ سنگین استعمال تھا- دنیا میں اِس نظام کو جمہوری انقلاب کے ذریعے سیاسی طور پر ختم کیا گیا- آخرت میں باعتبار حقیقت اُس کی مجرمانہ حیثیت کا اعلان کیا جائے گا- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یقبض اللہ تبارک وتعالى الأرض یوم القیامة ویطوی السماء بیمینہ ثم یقول أنا الملک، أین ملوک الأرض(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: 4994) -
خلافت کے تین دور
قرآن میں خلافت کے معنی ’’اسلامی خلافت‘‘ کے نہیں ہیں- قرآن کے مطابق، وہ تمام لوگ خلائف فی الأرض (
1- مشرکین کی خلافت— یہ دور قدیم زمانے سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک جاری رہا-
2- موحدین کی خلافت— یہ مسلم سلاطین کا دور ہے- یہ دور تقریباً آٹھویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی تک قائم رہا-
3- سیکولر لوگوں کی خلافت — یہ دور انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور اب تک قائم ہے-
قدیم زمانے میں جن مشرک گروہوں کو خلافتِ ارضی کا رول ادا کرنے کا موقع ملا، انھوںنے اپنی آزادی کا نہایت غلط استعمال کیا- ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے ناحق طورپر ساری دنیا میں جبر کی حکومت (despotic rule) کا نظام قائم کردیا- اِس دور میں انسان کو مذہبی آزادی حاصل نہ تھی- اِس دور میں ہر جگہ وہ کلچر قائم تھا جس کو مذہبی تشدد کا دور کہا جاتا ہے-
اِس مشرکانہ دور میں آزادانہ سوچ (free thinking) کا خاتمہ ہوگیا تھا- اِس بنا پر فکری ارتقا کا عمل پوری طرح ختم ہوگیا تھا- علم کی ترقی عملاً ناممکن ہوگئی تھی- اِس کا ایک شدید نقصان یہ تھا کہ فطرت (nature) میں تحقیق کا کام پوری طرح رک گیاتھا- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ انسان فطرت میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرے، تاکہ انسان پر اعلی معرفت کے دروازے کھلیں، دعوتی عمل کو زیادہ موثر طورپر انجام دینا ممکن ہوجائے- مگر مشرکانہ اقتدار کے زمانے میں اِس قسم کا عمل پوری طرح بند ہوگیا تھا- اللہ نے کثیر تعداد میں پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ انسان کو بتائیں کہ وہ اپنی آزادی کو غلط استعمال کرکے اللہ کے منصوبے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے- لیکن پیغمبروں کی پُرامن دعوتی کوشش عملاً غیر موثر ہوگئی-
اِس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے تخلیقی منصوبے کی بنا پر انسان کی آزادی کو تو ختم نہیں کیا، البتہ یہ فیصلہ کیا کہ خلافتِ ارضی کا رول مشرکین سے چھین لیا جائے اور اس کو موحدین کے حوالے کردیا جائے- یہی خدائی فیصلہ تھا جس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اور آپ کے پیروؤں نے واقعتاً ایسا ہی کیا- پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں نے دورِ قدیم کی تقریباً پوری آباد دنیا میں وہ کام کیا جس کو ایک مبصر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — پیغمبر اور اُن کے پیروؤں نے قدیم زمانے کے پورے سیاسی نقشے کو بدل دیا-
اِس طرح خلافتِ ارضی کا رول مسلمانوں یا موحدین کے ہاتھ میں آگیا- مسلمانوں نے اِس عہد میں جو رول ادا کیا، وہ کوئی نظام قائم کرنا نہ تھا- حقیقت یہ ہے کہ نظام قائم کرنا امتِ مسلمہ کا نشانہ ہی نہیں-مسلم عہد میں جو کام انجام پایا، اس کے دو بڑے پہلو تھے — ایک تھا دنیا میں آزادی کا دور لانا اور دوسرے، علومِ فطرت کے انکشاف کا دروازہ کھولنا-
قرآن میں کہا گیا تھا کہ: أمرہم شوری بینہم (
جمہوریت کا دور
دورِ جمہوریت دراصل دورِ آزادی کا دوسرا نام ہے-اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، زمین پر آزادانہ ماحول کا باقی رہنا بے حد ضرو ری ہے- انسان سے جو رول مطلوب ہے، وہ صرف آزادی کے ماحول میں ممکن ہے- جمہوریت کا یہ دور مسلم عہد میں شروع ہوا- وہ پراسس کے روپ میں آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1789میں انقلابِ فرانس کی صورت میں اس کی تکمیل ہوئی-
جمہوریت (democracy) انسانی تاریخ کا ایک عظیم مرحلہ ہے- اِس دور میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ آزادی اور امن انسان کا اپنا چوائس (choice) بن گیاہے- اِس سے پہلے ایسا تھا کہ کسی انسان کو آزادی اور امن صرف اُس وقت ملتا تھا، جب کہ حاکمِ وقت اس کو بطور عطیہ اُسے دے دے- اب یہ معاملہ کسی دینے والے کا عطیہ نہیں رہا، بلکہ وہ ہر انسان کا مطلوب حق (absolute right) بن چکا ہے- کسی بھی شخص یا گروہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اِس حق کو آپ سے چھین لے-
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ملیں گے جو یہ شکایت کریں گے کہ اُن کو آزادی اور امن کے ماحول میں کام کرنے کے مواقع حاصل نہیں- ایسے لوگ بلا شبہہ زندگی کے راز سے بے خبر ہیں- موجودہ زمانے میں آزادی اور امن کی جو نعمت ملی ہے، اس کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اِس حکمت کو جانے کہ اس کو اپنے عمل کے لیے ایسا نشانہ مقرر کرنا ہے جو دوسرے سے ٹکراؤ کیے بغیر جاری کیا جاسکے- اگر آپ اپنے لیے ایسا نشانہ مقرر کریں جو دوسروں کی زندگی میں خلل ڈالنے والا ہو تو آپ کے حصے میں صرف شکایت اور پروٹسٹ آئے گا، لیکن اگر آپ اپنے عمل کے لیے ایسا نشانہ مقرر کریں جو کسی حال میں دوسروں کے لیے مسئلہ (problem) نہ بنے، تو آپ ساری عمر کام کرتے رہیں گے اور کبھی آپ کو د وسروں کے خلاف شکایت نہ ہوگی-
یہی وہ راز ہے جو قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے: الصلح خیر (
مسلم دورِ سلطنت میں دوسرا جو بڑا کام ہوا، وہ یہ کہ فطرت کو پرستش کے موضوع سے ہٹا کر تحقیق کا موضوع بنا دیا گیا- یہ عمل بھی تدریجی طورپر جاری ہوا اور آخر کار اُس علمی انقلاب تک پہنچا جس کو سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے- اِس سائنسی انقلاب نے اُس پیشین گوئی کو واقعہ بنادیا جس کی خبر قرآن میں اِن الفاظ میں دی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ(
یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید دور (modern age)پورے معنوں میں ایک موافقِ اسلام دور ہے- اِس دور کا آغاز مسلمانوں کے سیاسی عروج کے زمانے میں ہوا، لیکن اِس دور کی تکمیل تاریخ کے اُس تیسرے دور میں ہوئی جس کو اوپر کی تقسیم میں ’’سیکولر لوگوں کی خلافت‘‘ کہاگیا ہے-
امتِ مسلمہ کا نیا رول
قرآن کی سورہ آل عمران میں فطرت کے ایک اصول کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(
اِس کا مطلب یہ ہے کہ خلافتِ ارضی کسی گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں- یہ ایک رول ہے جس کو اللہ اپنے منصوبے کے تحت کبھی ایک گروہ کو دیتاہے، کبھی دوسرے گروہ کو- جب کسی گروہ کو خلافتِ ارضی ملے تو اس کو یہ دریافت کرنا چاہیے کہ اس کو یہ رول کس مقصد کے لیے دیاگیا ہے- اور جب اُس سے خلافتِ ارضی چھین لی جائے تو اُس وقت بھی اس کو جاننا چاہئے کہ یہ منصب کیوں اُس سے چھینا گیا- اِس حقیقت سے بے خبری کا یقینی نقصان یہ ہے کہ متعلقہ گروہ کو اللہ کی نصرت نہ ملے اور نتیجةً وہ ہر اعتبار سے ناکام ہو کر رہ جائے-
آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم ایمپائر قائم ہوا- یہ اِس بات کی علامت تھی کہ اب خلافتِ ارضی کا رول مسلمانوں کو دیا گیا ہے- وہ رول یہ تھا کہ دنیا سے قدیم طرز کی بادشاہت (kingship) کا خاتمہ کردیا جائے- یہ کام مسلمانوں کے ذریعے عالمی پیمانے پر انجام پایا- صدیوں تک مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ جس ملک میں داخل ہوئے، وہاں انھوں نے قدیم طرز کی سیاسی آمریت کا خاتمہ کردیا-لیکن پھر وہ وقت آیا کہ مسلم سلطنتوں کا زوال شروع ہوا- انیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے خاتمے کا اعلان تھا- پوری دنیا میں ایک کے بعد ایک، مسلم سلطنتیں مغربی اقوام سے مغلوب ہو کر رہ گئیں- اِس کے بعد مسلمانوں نے بڑے پیمانے پریہ کوشش کی کہ وہ اپنی سیاسی عظمت کو دوبارہ حاصل کرسکیں، لیکن دو سو سالہ جدوجہد کے باوجود وہ اپنی ان کوششوں میں مکمل طور پر ناکام رہے-
یہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا- یہ عملاً مسلمانوں کے رول میں تبدیلی کا اعلان تھا-اٹھارھویں صدی میں مسلمانوں کا سیاسی رول ختم ہو چکا تھا- اب اُن سے جو رول مطلوب تھا، وہ دوسرا رول تھا، اور وہ تھا — جدید امکانات کو استعمال کرکے عالمی سطح پر دینِ خداوندی کی اشاعت- دورِ جدید میں اللہ نے اپنی مصلحت کے تحت اہل مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ نئے وسائل کی دریافت کرکے اُن کو عام کریں- اہلِ مغرب کے ذریعے دنیا میں پہلی بار وہ چیزیں آئیں جو عالمی دعوت کے لیے ضروری ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، کھلا پن، عالمی آمد ورفت، پرنٹنگ پریس، عالمی کمیونکیشن، وغیرہ-
یہ نئے حالات اِس بات کا اشارہ تھے کہ اب امتِ مسلمہ کا رول بدل گیا ہے- اب اُن کا رول یہ ہے کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے فطری پیغام کو تمام قوموں اور تمام انسانوں تک پہنچا دیں- مگر عجیب بات ہے کہ تقریباً پوری امت اِس عظیم حقیقت سے بے خبر رہی- انھوں نے رول کی اِس تبدیلی کو نہیں سمجھا- وہ اپنی گزری ہوئی سیاسی عظمت کی واپسی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے مفروضہ دشمنوں سے لڑائی کرتے رہے- یہ عمل خدائی منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے اس کو خدا کی مدد حاصل نہیں ہوئی اور وہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا-امتِ مسلمہ کے اِس نئے رول کو حدیث میں بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کردیا گیا تھا: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام -
رول کی تبدیلی
انیسویں اور بیسویں صدی نے امت مسلمہ کو ایک نئے دور میں پہنچا دیا- نئے دور کے حالات بتارہے تھے کہ امتِ مسلمہ کا رول اب بدل گیا ہے اور وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے — عالمی دعوت - مگر نئے دور کے مسلم رہنما ناقابلِ فہم طورپر جدید دور سے بے خبر رہے- چناں چہ وہ امتِ مسلمہ کو اس کا نیا رول بھی نہ بتا سکے- نئے دور میں امتِ مسلمہ کی بہت بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ امت دور جدید میںاپنے اِس نئے رول سے بے خبر ہوگئی- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری امت کا کیس اُس قوم کا کیس بن گیا جو اپنی سمتِ سفر (direction) سے بے خبر ہوگئی ہو-
یہ زمانہ وہ تھا جب کہ امت اپنے دور زوال میں پہنچ چکی تھی- اِس دور میں امت کے تقریباً تمام رہنماؤں نے ایک ہی کام کیا، وہ ایسی باتیں لکھنے اور بولنے لگے جو امت کی زوال یافتہ نفسیات سے مطابقت رکھتی تھی، لیکن وہ یقینی طورپر خدا کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھی- انیسویں صدی اور بیسویں صدی امتِ مسلمہ کے لیے زبردست سرگرمیوں کی صدی ہے، مگر یہ سرگرمیاں خود ساختہ قومی رول کے لیے تھیں، نہ کہ خدا کے مطلوب رول کے لیے- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت اپنی سرگرمیوں میں خدا کی نصرت سے محروم ہوگئی- اِس دور میں اُس نے جو نشانے مقرر کیے، وہ سب قومی نشانے تھے جو زوال یافتہ نفسیات کے تحت بنے تھے- اِس بنا پر اِن نشانوں کے لیے یہی مقدر تھا کہ وہ پورے نہ ہوں-
اِس قومی ناکامی کے بعد دوسری زیادہ بڑی ناکامی سامنے آئی، وہ یہ کہ پوری امت منفی نفسیات میں مبتلا ہوگئی— مایوسی، منفی سوچ، شکایت اور پروٹسٹ کا ذہن، مشتعل مزاجی، تشدد، ساری دنیا کو اپنا دشمن سمجھ لینا، ہر طرف سازش دکھائی دینا، گن کلچر اور بم کلچر اور آخر میں احساس ناکامی کی بدترین صورت، یعنی خود کش بم باری-اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کی یہ ایک عمومی تصویر ہے- اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ پوری قوم تشدد کی نفسیات میں مبتلا ہوگئی، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگوں کا کیس فعال تشدد (active violence) کا کیس ہے اور کچھ لوگوں کا کیس منفعل تشدد (passive violence) کا کیس ہے-
یہ ایک عمومی بربادی کی حالت ہے- امت کو اس بربادی سے نکالنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس کے اندر سے منفی سوچ کو مکمل طورپر ختم کیاجائے اور اس کے اندر مکمل طورپر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے، اس کو تیار کیا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے اصل مشن پر کھڑی ہوجائے، یعنی دعوت الی اللہ کا مشن- اِس معاملے میں کوئی بھی عذر (excuse) قابل قبول نہیں ہوسکتا-
دعوہ ایمپائر
قدیم زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم تھا- آج بھی تمام مسلمان اِسی ماضی کی واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں- مگر یہ ایک قسم کی خلافِ زمانہ بات (anachronism) ہے- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے بارے میں اللہ کے منصوبے کو سمجھیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کا نقشہ بنائیں- حقیقت یہ ہے کہ اب سیاسی ایمپائر بنانے کا زمانہ ختم ہوگیا، لیکن امتِ مسلمہ کے لیے ایک اور زیادہ بڑا موقع پوری طرح کھل چکا ہے اور وہ ہے پُرامن اسلامی دعوت کا عالمی ایمپائر قائم کرنا-اِس قسم کے دعوہ ایمپائر کا امکان ایک حدیثِ رسول میں پیشگی طورپر بتادیاگیا ہے- مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: کلمة واحدة تعطونہا، تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (البدایة والنہایة:
قدیم زمانے میں سیاسی ایمپائر بنانے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں، لوگوں کو جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں، مگر آج اسلام کا دعوہ ایمپائر یا آئڈیا لاجکل ایمپائر بنانے کے لیے کسی لڑائی کی ضرورت نہیں- نئے حالات میں پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کا پرامن دعوہ ایمپائر بنایا جائے اور دنیا اس کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے اس کے ساتھ اپنا بھر پور تعاون پیش کرے-(20 ستمبر 2013)
واپس اوپر جائیں
قرآن کی سورہ البقرہ کے آخر میں اُس وقت کے اہلِ ایمان کی زبان سے ایک دعا نقل ہوئی ہے- اِس دعا کا ایک حصہ یہ ہے:رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا (
اِس دعا میں ’إصر‘ کا لفظ آیا ہے- اصر کا مطلب بوجھ (burden) ہے-اِس بوجھ سے مراد کوئی محدود بوجھ نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ ناموافق عالمی حالات ہیں جو ہزاروں برس سے چلے آرہے تھے- اِسی اصر کو قرآن میں دوسرے مقام پر ’فتنہ‘ کہاگیا ہے اور حکم ہوا ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں جس کلچر کا عمومی طور پر دبدبہ تھا، وہ شرک ا ور شخصی بادشاہت کے تحت بنا تھا- اِس کلچر نے مذہبی آزادی کا خاتمہ کردیا تھا- اسی بنا پر پچھلے زمانے میں اہلِ ایمان کو ستایا گیا- اِسی بنا پر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کو ستایا گیا اور ان کے خلاف جنگیں چھیڑی گئیں- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ خدائی دین کے خلاف اِن ناموافق اسباب کا خاتمہ ہو اور عالمی سطح پر ایسے حالات پیدا ہوں جب کہ ایک انسان پوری آزادی کے ساتھ اللہ کے دین کی پیر وی کرسکے-
اِس حقیقت کو قرآن کی ایک اور آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۭ وَکَفٰى بِاللّٰہِ شَہِیْدا(
اسلامی حکومت کا تصور
اسلامی حکومت یا خدائی حکومت کا تصور قرآن میں سرتاسر اجنبی (alien) ہے- حقیقت یہ ہے کہ حکومت انسان کی ہوتی ہے، نہ کہ اسلام کی- اِس لیے قرآن میں جہاں حکومت کا ذکر ہے، وہاں اُس کو انسان سے منسوب کیا گیا ہے- مثلاً : اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ ((
اقامتِ نظام، اقامتِ مواقع
اللہ کے تخلیقی پلان کے مطابق، دنیا میں جو چیز مطلوب ہے، وہ اقامتِ نظام نہیں، بلکہ اقامتِ مواقع ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ایک مقرر قسم کا سوشیو پولٹکل (socio-politicial) نظام ہے اور اہلِ ایمان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اِس نظام کو اُس کے تمام اطراف وجوانب کے ساتھ زمین پر قائم کریں- دین کا یہ مبنی بر نظام تصور (system-based concept) سرتاسر ایک مبتدعانہ تصورہے- اِس قسم کا تصورِ دین صرف کچھ لوگوں کے خود اپنے ذہن کی پیدوار ہے، خدا اور رسول کے دین سے اُس کا کوئی تعلق نہیں- اِس قسم کا تصورِ دین وہی چیز ہےجس کو مضاہات (
اللہ کے نقشۂ تخلیق کے مطابق، اصل مطلوب چیز یہ ہے کہ ہر قسم کے مواقع پوری طرح کھلے ہوئے ہوں، ہر انسان کو مکمل آزادی ہو کہ وہ دین کے معاملے میں جس طرح چاہے اپنی قوتوں کو استعمال کرے- قدیم زمانے میں جارحانہ شرک، مذہبی جبر اور استبدادی حکومت (despotism) کا نظام قائم تھا- ہزاروںسال کی روایات کے نتیجے میں یہ ذہن لوگوں کے اوپر اِس طرح چھاگیا کہ وہ اس کے خلاف سوچ نہیں پاتےتھے- پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو جو انقلاب برپا کرنے کا حکم دیاگیا تھا، وہ یہ تھا کہ جدوجہد کرکے اِس دور کو ختم کرو اور وہ حالات برپا کرو جب کہ ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہوجائے اور ہر ایک کے لیے تمام مواقع یکساں طورپر کھل جائیں-
پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ذریعے ساتویں صدی میں جو انقلاب آیا، اُس کی اصل حقیقت یہی تھی- وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، حکومت یا خلافت قائم کرنا نہ تھا، بلکہ یہ تھا کہ ہدایت کے تمام مواقع تمام انسانوں کے لیے کھل جائیں، دینِ خداوندی کے معاملے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے- اسلام کے دورِ اول میں پیش آنے والا یہی وہ انقلابی واقعہ ہے جس کا ذکر فرانسیسی مورخ ہنری پرین نے اِن الفاظ میں کیا ہے — اسلام نے زمین کے نقشے کو بدل دیا - روایتی دورِ تاریخ کا خاتمہ کردیاگیا.
اِ س معاملے میں اللہ تعالی کو جو انقلاب مطلوب تھا، وہ ایک نسل یا دو نسل میں انجام نہیں پاسکتا تھا، اِس لیے اِس انقلاب کو تاریخ میں ایک پراسس کے روپ میں جاری کیا گیا- مزید یہ کہ اِس عمل میں صرف مسلمان نہیں، بلکہ سیکولر قومیں بھی شریک ہوئیں- اِس طرح یہ تاریخی عمل چلتا رہا- آخر کار انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مغرب میں اس کی تکمیل ہوئی- موجودہ مغربی تہذیب اِسی عمل کا نقطۂ انتہا ہے- حقیقت یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے تاریخ میں پہلی بار ایسا کیا ہے کہ جو دنیا مسائل سے بھری ہوئی تھی، وہ ہر اعتبار سے کھلے ہوئے مواقع میں تبدیل ہوگئی-
دین کا اصل مطلوب یہ نہیں ہے کہ موجودہ دنیا میں معیاری اجتماعی نظام بنایا جائے- معیاری معاشرہ یا معیاری اجتماعی نظام کی جگہ جنت ہے، نہ کہ موجودہ زمین- اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا میں جو چیز مطلوب ہے، وہ انفرادی سطح پر شخصیت کی تعمیر ہے، یعنی ایسے افراد کا وجود میں آنا جو اپنے اعلی اوصاف کے اعتبار سے، جنت میں داخلے کے مستحق قرار پائیں-
جنت کی دنیا
جنت کیا ہے، قرآن کے مطابق، جنت وہ وسیع دنیا ہے جس کا کیمپس پوری کائنات کے برابر ہوگا- جنت وہ معیاری جگہ ہے جہاں تمام محدودیتیں (limitations) اور نامواقف اسباب (disadvantages)ختم ہوجائیں گے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان اِس قابل ہوگاکہ وہ زمان ومکاں سے ماورا چیزوں کا احاطہ کرسکے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان براہِ راست طورپر اللہ رب العالمین کو دیکھے گا اور اس سے کلام کرے گا- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کی نگاہ پوری انسانی تاریخ کا احاطہ کرسکے گی- جنت وہ جگہ ہے جہاں پوری تاریخ کے تمام منتخب بندے یکجا کیے جائیں گے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ اعلی معیاری مناظر کا مشاہدہ کرے، وہ اعلی معیاری نغموں کو سنے، وہ اعلی معیاری ذائقوں کا ٹیسٹ لے سکے- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کا لامحدود دماغ انفولڈ (unfold) ہوگا- جنت وہ جگہ ہے جہاں آلاء اللہ اور کلمات اللہ کو قلم بند کیا جائے گا- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو کامل معنوں میں فل فل مینٹ لے گا- جنت وہ جگہ ہے جہاں انسان کو اللہ کی قربت حاصل ہوگی- جنت وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کی اعلی سرگرمیاں موجود ہوں گی، لیکن یہ تمام سرگرمیاں معیاری معنوں میں پرمسرت سرگرمیاں (joyful activities) ہوں گی، وغیرہ-
جنتی شخصیت
اِس طرح کی معیاری دنیا (perfect world) میں قیام کے لیے اعلی ترین سطح کے تیار افراد درکار ہیں- صرف اعلی سطح کی تیار شدہ شخصیت ہی اِس قابل ہے کہ اس کو جنت جیسی دنیا میں جگہ ملے- موجودہ دنیا اِسی قسم کی اعلی شخصیتوں کے بننے کا مقام ہے- اِس قسم کی اعلی شخصیت کسی کو پیدائشی طور پر نہیں ملتی- یہ ہر انسان کا اپنا کام ہے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے آپ کو باشعور بنائے اور پھر پورے اہتمام کے ساتھ وہ اپنے اندراِس قسم کے انسان کی تشکیل کرے-
مذکورہ قسم کی جنتی شخصیت بلا شبہہ صرف ایک صاحبِ ایمان کے اندر بنتی ہے، مگر صاحبِ ایمان سے مراد وہ شخص ہے جس کو معرفت کےدرجے میں ایمان حاصل ہو، وہ اپنے اندر اتنا زیادہ تخلیقی فکر پیدا کرے کہ وہ خود دریافت کردہ معرفت(self-discovered realization) پر کھڑا ہوسکے- اس کے اندر وہ آفاقی ذہن پایا جائے جو ساری کائنات کو اپنے ربانی رزق کا دستر خوان بنا سکے، جس کی مثبت سوچ(positive thinking) اتنی بڑی ہوئی ہو کہ وہ منفی آئٹم (negative item) کو بھی مثبت آئٹم (positive item) میں تبدیل کرسکے- اس کا عبادتی شعور اتنا ترقی یافتہ ہو کہ وہ اِس طرح اللہ کی عبادت کرے، جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے-
انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (
واپس اوپر جائیں
اکیسویں صدی غالباً تہذیبی ارتقا کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے- انسانی تہذیب مختلف مراحل سے گزرتےہوئے اب غالباً اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے- بظاہر حالات اب تہذیب کے سفر کا کوئی مزید مرحلہ باقی نہیں-
پیغمبرانہ مشن میں ارتقا (evolution) کا کوئی تصور نہیں- پیغمبرانہ مشن اپنی آئڈیالوجی کے اعتبار سے، ہمیشہ ایک ہی تھا اور آخر تک ایک ہی رہے گا، البتہ دعوتی طریقِ کار کے اعتبار سے، وہ ایک ارتقا پذیر واقعہ ہے- نئے حالات ہمیشہ نئے مواقع پیدا کرتے ہیں اور داعی کا کام یہ ہے کہ وہ اِن نئے مواقع کو دریافت کرے اور اُن کو بھر پور طور پر دعوت الی اللہ کے کام میں استعمال کرے-
اسلام کی تکمیل کے دو پہلو
اسلام کی تکمیل کے دو پہلو ہیں — ایک، وہ جس کو قرآن میں دین کی تکمیل (
تکمیل کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق دین کی تکمیل سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دعوت کی اشاعت اور توسیع سے ہے- اِس دوسرے پہلو کا ذکر قرآن میں اشارةً آیا ہے- یہ اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَکْبَرُ شَہَادَةً ۭ قُلِ اللّٰہُ ڐ شَہِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ ۣوَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَ (
اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اِس قرآن کے ذریعے سے اپنے معاصرین کو آگاہ کرے اور بعد کے زمانے میں پیغمبر کے ماننے والے اگلی نسلوں کو ہردور میں اُس سے آگاہ کرتے رہیں- دعوت کایہ عمل مسلسل طور پر قیامت تک جاری رہے گا-دعوت الی اللہ کی اِس عالمی تکمیل کا ذکر ایک حدیثِ رسول (لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام)میں زیادہ واضح طورپر آیا ہے- - دعوت الی اللہ کی عالمی اشاعت کے لیے عالمی ذرائع مواصلات درکار تھے، جو کہ ساتویں صدی عیسوی میںقابلِ حصول نہ تھے- اِس لیے دعوت الی اللہ کی تکمیل کو مستقبل میں پیش آنے والے واقعے کی حیثیت سے بطور پیشین گوئی (prediction) بیان کیا گیا ہے-
دورِ آخر کے دُعاة
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اِن الفاظ میں آئی ہے: عبادلیسوا بأنبیاء ولا شہداء یغبطہم النبیون والشہداء لمقعدہم وقربہم من اللہ یوم القیامة (مسند احمد: 5/341 ) یعنی اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جو نہ پیغمبر ہوں گے اور نہ شہید، مگر قیامت کے دن انبیااور شہدا بھی اُن پررشک کریں گے، اللہ سے اُن کے قرب کی بناپر-
اِس حدیثِ رسول میں غبطة (envy) کا لفظ اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، یعنی اس کا مقصد مذکورہ افراد کی پراسرار فضیلت بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ دراصل تحیر خیز پسندیدگی (wondrous appreciation) کے معنی میں ہے، یعنی وہ لوگ اگر چہ پیغمبرکے امتی ہوں گے، لیکن پیغمبر کی ہدایت کا اتباع کرتےہوئے اُن کے ذریعے کچھ ایسے کام انجام پائیں گے جو پچھلی پوری تاریخِ نبوت میں انجام نہیں پایا تھا-
یہ معاملہ کوئی پراسرار معاملہ نہیں، غور کرکے اس کو سمجھا جاسکتا ہے- اصل یہ ہے کہ دینِ خداوندی میں جو چیز مطلوب ہیں، وہ بہ تمام وکمال وجود میں آچکی ہیں — وحی الہی کے ذریعے آئی ہوئی ہدایت کا پوری طرح محفوظ ہوجانا، پیغمبر کی صورت میں انسان کی زندگی کا ایک رول ماڈل (role model) تیار ہوجانا، دینِ خداوندی کی تاریخ کا ایک مستند ریکارڈ وجود میں آجانا، مذہبی جبر کا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا، دورِ بادشاہت میں ہر چیز پر جو شخصی کنٹرول قائم تھا، اس کا ختم ہو کر دورِ جمہوریت آجانا، جب کہ انسانی سرگرمیوں کے تمام مواقع پوری طرح کھل گیے، وغیرہ-پیغمبرانہ مشن کے تحت یہ تمام چیزیں مطلوب تھیں جو کہ مکمل طورپر حاصل ہوگئیں-
مگر ایک مطلوب ایسا تھا جو پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کی تاریخ کے دوران پوری طرح حاصل نہیں ہواتھا، اور وہ ہے دعوتِ خداوندی کی عالمی اشاعت- قرآن میں کہا گیاہے کہ اللہ نے یہ کتاب اِس لیے بھیجی ہے، تاکہ وہ تمام اہلِ عالم تک پہنچے اور تمام لوگوں کے لیے آگاہی کا ذریعہ بنے (
اِس پہلو سے غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مذکورہ حدیثِ رسول میں جن خوش قسمت لوگوں کا ذکر ہے، وہ سچے اہلِ ایمان کی وہ جماعت ہے جو دورِ مواصلات میں دینِ خداوندی کے اِس دعوتی نشانے کو اس کی آخری تکمیل تک پہنچائے گی کہ اُس سے روئے زمین پر بسنے والے تمام مرد اور عورت باخبر ہوجائیں- قیامت میں کوئی فرد یا گروہ ایسا نہ رہے کہ جو جائز طورپر یہ کہہ سکے کہ: إنا کنا عن ہذا غافلین (
ٹیم اسپرٹ
وہ گروہ جس کو آخرت میں قربِ خداوندی کی نسبت سے اتنا بڑا درجہ ملے گا کہ انبیا اور شہدا بھی اُن پر رشک کریں گے، ان کی وہ صفتِ خاص کیا ہوگی جو اُن کو قربت کے اِس مقام تک پہنچائے گی- اِس صفت کا ذکر مذکورہ حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں آیا ہے: المتحابون فی(اللہ کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے)-اِس حدیث رسول میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کی ذات سے محبت کرنے والے، بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والے- گویا اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالص اللہ کے کاز (cause) کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے- اس معاملے کو مزید واضح کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو — اللہ کے مشن کی خاطر صرف اللہ کے لیے باہم مجتمع ہوجائیں، جن کی ٹیم اسپرٹ اتنی بڑھی ہوئی ہوکہ ٹیم کا ہر فرد اُن کے لیے ایک محبوب ساتھی بن جائے-
دعوت کا عالمی نشانہ صرف ٹیم ورک کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے اور کسی مادی انٹرسٹ کے بغیر ٹیم ورک ایک بے حد مشکل کام ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ ٹیم ورک کا مطلب اجتماعی ورک ہے اور اجتماعی زندگی میں لازماً شکایت اور اختلاف کی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں- ایسی حالت میں صرف اعلی درجے کی محبت الہی یا تعلق باللہ ہی آدمی کو مشن سے وابستہ رکھ سکتا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانے میں ایک جنگ پیش آئی جس کو تاریخ میں جنگ یرموک (
عالمی دعوتی مشن بہت بڑا دعوتی مشن ہے-اِس قسم کا مشن صرف ایسے لوگوں کے ذریعے کامیابی کے ساتھ انجام پاسکتا ہے جو پورے معنی میں ٹیم اسپرٹ کے ساتھ اکھٹا ہوئے ہوں- دعوتی مشن ایک ایسا مشن ہے جس میں کسی بھی قسم کا مادی یا ذاتی انٹرسٹ شامل نہیں- دعوتی ٹیم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے افراد کے اندر مادی انٹرسٹ کا کوئی اعلی بدل موجود ہو- یہ بدل صرف ایک ہے اور وہ ہے اللہ کے ساتھ غیر متزلزل محبت- اللہ سے یہی گہرا تعلق اس بات کا ضامن ہے کہ ٹیم کے افراد بنیانِ مرصوص (
اِس معاملے کی ایک مثبت مثال وہ ہے جو خالد بن الولید کے حوالے سے اوپر بیان کی گئی ہے- اِس کی مزید وضاحت کے لیے ایک متقابل مثال یہاں درج کی جاتی ہے- یہ مثال سعد بن عبادہ الانصاری کی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفہ منتخب کیا گیا- سعد بن عبادہ انصاری کو اِس پر اختلاف ہوا- وہ مدینے کے بڑے سرداروں میں سے تھے- ان کی شکایت ایک سیاسی شکایت تھی- یہ شکایت اتنی بڑھی کہ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر بیعت نہیں کی- انھوں نے کبھی اپنی رائے سے رجوع نہیں کیا، یہاں تک کہ وہ اصحابِ رسول کی جماعت سے الگ ہو کر شام چلے گئے اور وہیں
ٹیم ورک کے اندر لازمی طورپر آپس میں شکایت اور اختلاف پیدا ہوتا ہے- ایسی حالت میں ٹیم ورک کی کامیابی کی شرط صرف یہ ہے کہ ٹیم کے افراد کے اندر یہ ناقابلِ شکست عزم پایا جاتا ہو کہ وہ کسی بھی عذر کو عذر نہیں بنائیں گے، وہ اللہ کی خاطر ہر حال میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کے ساتھ جڑے رہیں گے- اللہ کے کاز کے لیے آپس میں محبت کرنے والے شکایت کا کوئی منفی اثر نہیں لیں گے- اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر یہ صفت نہ ہو، وہ شکایت سے بددل ہو کر ٹیم سے دور ہوجائیں گے-
دین ِ خداوندی کے دو تقاضے
اسلام کا اصل خارجی نشانہ دعوت الی اللہ ہے- اہلِ اسلام کا یہی ابدی مشن ہے کہ وہ پُرامن طورپر اللہ کے دین کا پیغام ہر دور کے انسانوں تک پہنچاتے رہیں- اِس دعوتی مشن کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے — تائیدی انفراسٹرکچر (supporting infrastructure) اور توجیہی لٹریچر (explanatory literature) -
تائیدی انفراسٹرکچر
قدیم زمانہ بادشاہت کا زمانہ تھا- قدیم زمانے میں صرف ایک چیز تھی جس سے تائیدی انفراسٹرکچر کا فائدہ حاصل ہوتا تھا، اور وہ تھا پولٹکل انفراسٹرکچر، یعنی سیاسی اقتدار کی سرپرستی حاصل ہونا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کو سیاسی اقتدار کی سرپرستی حاصل نہ تھی، اس لیے اُن کے زمانے میں دعوتِ خداوندی کو استحکام کا درجہ بھی نہ مل سکا- پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعے اللہ تعالی نے تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں خود اہلِ اسلام کا سیاسی اقتدار قائم ہوگیا اور اِس طرح دعوت الی اللہ کے کام کے لیے سیاسی اقتدار کی سطح پر وہ تائیدی انفراسٹرکچر قائم ہوا جو کہ دعوتی مشن کے لیے مطلوب تھا-
لیکن اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، سیاسی اقتدار کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں ہوسکتا، اِس لیے فطری طورپر ایسا ہونا تھا کہ یہ سیاسی سرپرستی ابدی طور پر قائم نہ رہے- اِس لیے تقریباً ایک ہزار سال کے بعد تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا- اِس انقلاب کو جمہوری انقلاب (democratic revolution) کہاجاتا ہے- قانونِ فطرت کے مطابق، جمہوری انقلاب ایک تاریخی عمل کے تحت وجود میں آیا- اِس عمل کا نقطہ انتہا انقلاب فرانس ہے-
جمہوری انقلاب محدود معنوں میں صرف ایک سیاسی ڈھانچے کی تبدیلی کے ہم معنی نہ تھا، بلکہ اپنے اثرات کے اعتبار سے، وہ ایک مکمل انقلاب (total revolution) تھا- اِس کے نتیجے میں آخر کار تاریخ میں ایک نیا دور وجود میں آیا- اِس دور میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ زندگی کے تمام مواقع ہر انسان کے لیے یکساں طورپر کھل گئے- فرد کی آزادی کو خیر اعلی کا درجہ حاصل ہوگیا، ہر انسان کا یہ غیر مشروط حق تسلیم کرلیا گیا کہ وہ پر امن رہتے ہوئے جو چاہے کرے-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جمہوریت (democracy)ایک مسلمہ عالمی اصول (universal norm) بن گئی- دعوت الی اللہ کے مشن کے لیے دورِ جمہوریت بہت زیادہ با معنی تھا- اِس کا مطلب یہ تھا کہ دعوتی مشن کے لیے جو تائیدی انفراسٹرکچر درکار ہے، اس کے لیے اب مسلم اقتدار کی ضرورت نہیں- اب خود عالمی نظام زیادہ بہتر طورپر وہ تائیدی انفراسٹرکچر فراہم کررہاہے جو دعوت الی اللہ کے عالمی مشن کے لیے مطلوب ہے-
توجیہی لٹریچر
دعوت الی اللہ کے مشن کی اصل نظریاتی بنیاد صرف قرآن اور سنت ہے- قرآن اور سنت کے سوا کوئی چیز نہیں جو اِس مشن کی نظریاتی بنیاد بن سکے- لیکن اِس کے ساتھ ایک اور چیز ہے جو علمی اعتبار سے اس کی لازمی ضرورت ہے- یہ قرآن اور سنت کی بنیاد پر تیار کیا جانے والا توجیہی لٹریچر ہے-
عباسی دور میں مسلم علما نے جو لٹریچر تیار کیا، وہ اِس معاملے کی پہلی مثال ہے- یہ لٹریچر اُس دور کے فقہا اور علما نے تیار کیا تھا- جلدہی اِس لٹریچر کو مستند پیٹرن (authentic pattern) کی حیثیت حاصل ہوگئی- بعد کے زمانے میں جو اسلامی کتابیں لکھی گئیں، وہ اِس پیٹرن پر لکھی گئیں- یہ لٹریچر اُس زمانے میں تیار کیا گیا جب کہ زمین کے بڑے حصے میں مسلمانوں کی سلطنتیں قائم تھیں- اِس ماحول میں ایسا ہوا کہ یہ لٹریچر براہِ راست یا بالواسطہ طورپر سیاسی پیٹرن میں ڈھل گیا-
مثال کے طور پر اِسی دور میں وہ کتابیں لکھی گئیں جن میں یہ کہاگیا تھاکہ شتمِ رسول کی سزا قتل ہے- تمام فقہا نے یہ قانون وضع کردیا کہ شاتم کو بطور حد قتل کیا جائے گا (یُقتل حدا)- اِسی طرح ارتداد (apostasy) کی سزا قتل قرار پائی- اِن قوانین کا ماخذ قرآن وسنت میں موجود نہ تھا، وہ صرف دورِ سلطنت کے سیاسی ماحول کی پیداوار تھے- اِسی طرح اِس دور میں بہت سے مسائل اور قوانین وضع کیے گئے جو صرف وقت کے سیاسی ماحول کی پیداوار تھے- مثلاً دار الاسلام اور دار الکفرکی اصطلاحیں،ذمی اور غیر ذمی کے قوانین، وغیرہ-
اسلامی دعوت کی نظریاتی بنیاد (قرآن وسنت) ہمیشہ ایک ہی رہے گی، لیکن اس کاتوجیہی لٹریچر ہمیشہ ایک نہیں رہ سکتا- کیوں کہ توجیہی لٹریچر کا تعلق ابدی حقائق سے نہیں ہے، بلکہ حالاتِ زمانہ سے ہے- قدیم زمانے میں جو توجیہی لٹریچر تیار ہوا تھا، وہ قدیم سیاسی حالات کے اعتبار سے تھا- اب اس کی حیثیت کلاسکل لٹریچر (classical literature) کی ہوچکی ہے- آج کے حالات کے اعتبار سے اس کا ریلونس (relevance) تقریباً ختم ہوچکا ہے- اب نئے حالات کے اعتبار سے نیا توجیہی لٹریچر درکار ہے جو جدید ذہن کو ایڈریس کرسکے-
آج اسلام کے دعوتی مشن کے لیے ایسا لٹریچر درکار ہے جو روحِ عصر (spirit of the age) کے مطابق ہو- صرف ایسا لٹریچر ہی جدید ذہن کو ایڈریس کرسکتا ہے اور لوگوں کو یہ یقین عطا کرسکتا ہے کہ اسلام میں آج کے انسان کے لیے بھی اُسی طرح قابلِ اعتماد رہنمائی موجود ہے جس طرح قدیم انسان نے اس میں اپنے لیے قابلِ اعتماد رہنمائی پائی تھی-
موجودہ زمانے میںاسلام کے لیے جو نیا توجیہی لٹریچر درکار ہے، اس کی چند خصوصیات ہیں- اول یہ کہ وہ اپنے دلائل کے اعتبار سے مبنی بر عقل (reason based) ہو- قدیم روایتی طریقہ آج کے لیے کار آمد نہیں- دوسرے یہ کہ اس کا اپروچ یونی ورسل اپروچ (universal approach) ہو- قدیم انداز کا گروہی اپروچ (sectarian approach) آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے- تیسری بات یہ کہ اِس لٹریچر کو مکمل طورپر پیس فل (peaceful) لٹریچر ہونا چاہئے- کوئی ایسا لٹریچر جس کے اندر براہِ راست یا بالواسطہ طورپر تشدد (violence) کا فکر موجود ہو، وہ آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا— آخرت میں قابلِ رشک درجہ اُس گروہ کو ملے گا جو اِن تقاضوں کے مطابق، اکیسویں صدی میں دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دے- (
واپس اوپر جائیں
کچھ نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ — زندگی کا نظام آپ کی خواہش پر نہیں چلتا، زندگی کا نظام فطرت کے قانون (law of nature) پر چلتا ہے- زندگی میں ’’میں‘‘ کا حصہ صرف ایک فی صد ہے اور ’’تم‘‘ کا حصہ ننانوے فی صد:
In life, ‘I’ works 1 percent, and ‘You’ works 99 percent.
میں نے کہا کہ جب آپ سماج میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آپ اکیلے نہیں ہوتے، بلکہ آپ کو بے شمار دوسرے لوگوں کے درمیان کام کرنا ہوتاہے- ہر جگہ یہی تناسب ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک فی صد ہوتے ہیں اور بقیہ لوگ ننانوے فی صد-اگر آپ اجتماعی زندگی کے اِس راز کوجانیں تو آپ کامیاب ہوں گے، اور اگر آپ اِس راز کو نہ جانیں تو آپ کا انجام صرف یہ ہوگاکہ ساری زندگی ٹنشن میں جئیں گے اور ٹنشن میں مرجائیں گے-
میں نے کہا کہ زندگی کی اِس نوعیت کی بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگاکہ زندگی میں کامیابی کا اہم ترین اصول صرف ایک ہے، اور وہ ایڈجسٹمنٹ (adjustment) ہے، یعنی دوسروں سے موافقت کرکے زندگی گزارنا- ایڈجسٹ مینٹ کوئی مقدس عقیدہ نہیں، وہ صرف ایک عملی اصول ہے جس کو پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کہاجاتا ہے-
میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو میری نصیحت ہے کہ آپ اپنی ذاتی زندگی اپنے اختیار کردہ اصول کی بنیاد پر گزارئیے، لیکن جب آپ لوگوں کے درمیان ہوں تو مکمل طورپر دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرتےہوئے اپنا کام کیجئے، یعنی اپنی ذات کی نسبت سے بااصول (man of principle) اور دوسروں کی نسبت سے پریکٹکل (practical)-کامیابی کا کوئی رومانٹک فارمولا (romantic formula) نہیں ہے- اِس دنیا میں کامیابی کا صرف ایک اصول ہے، اور وہ ہے — حقائق کی رعایت کرنا، اپنے منصوبے کو دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے بنانا-
واپس اوپر جائیں
ماہ نامہ الرسالہ، نومبر 2013کے شمارے میں آپ نے ’’تعاہد کیاہے‘‘ کے عنوان کے تحت ایک بات یہ لکھی ہے کہ: ’’تم قرآن میں نئے نئے معانی تلاش کرتے رہو‘‘- براہِ کرم، اس کی وضاحت فرمائیں- (ڈاکٹر محمد رفیق بہاؔر، سری نگر، کشمیر)
جواب
آپ کے اِس سوال کا جواب خود قرآن میں موجود ہے- مثلاً آپ قرآن کی سورہ ص کی اِس آیت کا مطالعہ فرمائیں: کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُواْ آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُواْ ٱلأَلْبَابِ(
مثلاً قرآن میں پانی کے بارے یہ آیت آئی ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَکًا (
سوال
آپ نے کشمیر کی نسبت سے کافی لکھا ہے- یہ کشمیریوں کے ساتھ آپ کی خیر خواہی کی دلیل ہے- آپ نے ’’کشمیر میں امن‘‘ (Peace in Kashmir)اور ’’صبح کشمیر‘‘ (Dawn Over Kashmir) نام کی کتابوں کو تحریر کرکے کشمیریوں کو صحیح رہنمائی دی ہے- ایک اگر historical document ہے تو دوسری ideological document ہے- دونوں تحریروں میں تاریخ اور مذہب کی حقیقی تصویر پیش کی گئی ہے-میں کشمیر کے gun culture میں جوان ہوا، لہذا میں کشمیر کے صوفی کلچر سے عملاً بے خبر ہوں- البتہ میرے والد بتاتے ہیں کہ’’میں جب اپنے بچپن کو یاد کرتاہوں تو کشمیر کی موجودہ صورت حال مجھے ایک خواب نظر آتی ہے- جب گاؤں میں ہمارا کوئی مہمان آتا تھا تو اس کی تواضع کے لئے ہم مرغ ذبح کرتے تھے، لیکن مرغ ذبح کرنے کے لیے ہمیں مشکل ہی سے کوئی آدمی ملتا تھا- اکثر لوگوں کے پاس چاقو تک نہ ہوتا تھا- لوگ جانور کو مارنے سے کتراتے تھے، کسی انسان کو تکلیف دینے کوتو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘‘-ایک روز میں نے کیڑے مار دواچھڑکی - صبح کو میرے والد نے مجھے بلایا- مرے ہوئے کیڑے مکوڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا — — یہ کیا قتل ہے-‘‘میں اِس رحم دلی کے مزاج کو یاد کرکے آج روتا ہوں- یہ ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ یہی کشمیریوں کی فطرت تھی جس کو عرف عام میں ہم ’’کشمیریت‘‘ سے یاد کرتے ہیں-جہاں تک میں نے آپ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے، کشمیر کی نسبت سے آپ کا مشن کشمیر کو دوبارہ اپنے فطری حالت پر لاناہے‘ تاکہ ہم دنیا کو امن وسلامتی (اسلام) کا پیغام دے سکیں- برائے مہربانی مزید رہنمائی سے نوازیں- (انجینئر سید عابد حسین، بڈگام، کشمیر)
جواب
کشمیر کا مسئلہ ہو یا اِس قسم کے دوسرے مسائل، ہر ایک کا سبب صرف ایک ہے، وہ یہ کہ لوگ محدود طورپر صرف اُس مسئلے کو لے کر سوچتے ہیں جس سے وہ عملاً دوچار ہیں- وہ اِن مسائل سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتے- یہ اوپر اٹھ کر سوچنا وہی چیز ہے جس کو قرآن میں خلقِ عظیم (
مومن کے لیے برتر آئڈیالوجی صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی دوسری چیزوں کو لے کر سوچنے کے بجائے اللہ رب العالمین کو لے کر سوچے-اس کے اندر خدا رخی سوچ (God-oriented thinking) آجائے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کےاندر خدا رخی سوچ نہیں، وہ صرف اپنے معاشی اور سیاسی مسائل کو جانتے ہیں- ان کی موجودہ سوچ اِسی کی بنیاد پر بنی ہے- یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان اللہ کی نصرت سے محروم ہوگئے ہیں- ان کے پاس صرف شکایت کی زبان ہے، ان کے پاس شکر کی زبان نہیں-
موجودہ زمانے میں عالمی سطح پر مسلمانوں کے دو بڑے مسئلے ہیں — کشمیر کا مسئلہ اور فلسطین کا مسئلہ- غیر معمولی قربانیوں کے باوجود یہ دونوں مسئلے عملاً لاینحل مسئلے بنے ہوئے ہیں- اِن دونوں مسائل کا حل اگر موجودہ قسم کی کوششوں سے ممکن ہوتا تو اب تک وہ ہوچکا ہوتا- لیکن 60 سال سے زیادہ مدت کی غیر معمولی کوششوں کے باوجود یہ دونوں مسئلے کسی بھی درجے میں حل نہیں ہوئے- ایسی حالت میں کشمیریوں اور عربوں دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچ کو بدلیں- اِس کے سوا ہر دوسری تدبیر صرف نقصان میں اضافہ کرے گی، وہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی نہیں-
کشمیر کے مسلمان اب تک دو چیزوں کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے تھے — آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر- مگر یہ دونوں نشانے قومی سوچ پر بنے ہیں، نہ کہ خدائی سوچ پر- صحیح یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمان اپنی سوچ پر نظر ثانی کریں اور یہ کہیں کہ ہمارا نشانہ نہ آزاد کشمیر ہے اور نہ پاکستانی کشمیر، ہمارا نشانہ صرف خدائی کشمیر (divine Kashmir) ہے- خدائی کشمیر کو اپنا نشانہ بنانے کا مطلب ہے— خدا والی سوچ کے تحت اپنے عمل کا نقشہ بنانا-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں ہوئی تو آپ نے وہاں یہ اشو نہیں کھڑا کیا کہ مکہ سیاسی طورپر کس کے قبضے میں ہو- اِس کے برعکس، آپ نے یہ کیا کہ صورتِ موجودہ (statusquo) کو تسلیم کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کام شروع کردیا- کشمیریوں کو بھی اِسی نہج پر کام کرنا ہے- کشمیریوں کو یہ کرنا ہے کہ جموں وکشمیر میں جو سیاسی اسٹیٹس کو (political statusquo) بن گیا ہے، وہ اُس سے ٹکراؤ نہ کریں، بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے وہ اپنی ساری کوشش پُرامن دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں-
یہی وہ سنت ہے جو عربوں کو فلسطین میں اختیار کرنا ہے- فلسطین میں عربوں کے کرنے کا واحد کام یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنی متشددانہ تحریک کو مکمل طورپر ختم کردیں- وہ یک طرفہ طورپر ٹکراؤ کی پالیسی کو چھوڑ دیں اور اپنی ساری طاقت پرامن دعوت میں لگا دیں- فلسطین میں دعوت الی اللہ کے عظیم مواقع ہیں، اسرائیل کے درمیان بھی اور سیاحوں (tourists) کے درمیان بھی جو دنیا بھر سے بکثرت روزانہ فلسطین کے علاقے میں آتے ہیں-
دعوت الی اللہ کا کام اہلِ ایمان کا اصل مشن ہے- اِسی مشن کی ادائیگی پر اُن کو اللہ کی نصرتیں حاصل ہوں گی- موجودہ زمانے کے مسلمان جن چیزوں کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں، اُس مسئلے کا حل اللہ کی نصرت کے ذریعے ممکن ہے، نہ کہ محض ذاتی کوشش کے ذریعے، اور اللہ کی نصرت صرف اُن لوگوں کو ملتی ہے جو دعوت الی اللہ کا کام کریں- یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے: وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ (
واپس اوپر جائیں
1- گڈورڈ بکس اور سی پی ایس انٹرنیشنل (نئی دہلی) کے تعاون سے ہندستان اور ہندستان سے باہر کے ملکوں میں خاص طور پرانگریزی ترجمہ قرآن کے ذریعے دعوتی کام جاری ہے- ہمارے ساتھی مختلف مقامات پر ترجمہ قرآن کی توسیع واشاعت کا کام کررہے ہیں- مثلاً اِس سلسلے میں 30 اگست 2013 کو ترکی (استنبول) کی سلطان احمد اور رستم پاشا مسجد کو دہلی سے انگریزی ترجمہ قرآن کی دس ہزار کاپیاں بھیجی گئیں-
2- ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی)کے علاوہ دوسرے انگریزی اخبار وجرائد میں صدر اسلامی مرکز کے مضامین اور انٹرویو مسلسل شائع ہورہے ہیں- اس کی تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے-
What Went Wrong with Muslims? Sep. 2, 2013 (www.tehelka.com)
Islamophobia or Muslim-Phobia, Sep.
Violent Conflicts in the Muslim World, Nov.
(www.pakistanchristianpost.com)
3- فلپائن کے دارالسلطنت منیلا (Manila) میں
http://archive.org/download/RoleOfUmmahISeptember222013
4- کرناٹک اردو اکادمی (بنگلور) میں
5- سہارن پور میں ہمارے ساتھی مختلف انداز سے دعوتی کام کررہے ہیں- مثلاً
6- اشوکا ہوٹل (نئی دہلی)میں
7- اسلامی مرکز میں مختلف مقامات سے دعوتی ٹیم کے ممبران حسب پروگرام دہلی آتے ہیں- اِس سلسلے میں 20 ستمبر 2013 کو سی پی ایس کلکتہ ٹیم کے ممبران دہلی آئے- دہلی میں تین روزہ قیام کے دوران اُن سے دعوتی اور تربیتی موضوعات پر گفتگو ہوئی اور کلکتہ اور بنگال میں زیادہ موثر انداز میں دعوتی کام کی منصوبہ بندی کی گئی-
8- مدھیہ پردیش کے مشہور تاریخی مقام چتر کوٹ میں
9- سنٹر فار پیس (بہار، جھارکھنڈ) کی ٹیم کے چند ممبران نے 6 اکتوبر 2013 کو بہار کے ضلع گیا کا دعوتی دورہ کیا- اِس دورے کا مقصد تھا بہار اور جھارکھنڈ کے قارئین الرسالہ سے ربط قائم کرکے مقامی طور پر دعوتی کام کی منصوبہ بندی کرنا- اِس موقع پر گیا میں مسٹر ابو الحکم محمد دانیال (پٹنہ) نے دعوت الی اللہ کے موضوع پر ایک تقریر کی- تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا اور بہار وجھارکھنڈ میں دعوتی کام کی منصوبہ بندی کی گئی-
10- ساؤتھ انڈیا سے حسب معمول عمری گروپ کی دہلی آمد پر 5 اکتوبر 2013 کو Discover Your Role کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کاایک خصوصی خطاب ہوا-یہ خطاب سی پی ایس کے ویب سائٹ پر موجود ہے-
http://archive.org/download/ThePropheticExampleIOctober202013
18- مسٹر محمد احمد (نئی دہلی) اکتوبر 2013 میں تبلیغی جماعت کے ساتھ پٹیالا (پنجاب) گئے- سفر کے دوران انھوں نے مقامی طورپر مختلف غیر مسلم حضرات سے رابطہ کیا- گفتگو کے دوران انھوں نے محسوس کیا کہ اِن حضرات کا مائنڈ سی پی ایس (نئی دہلی) کے دعوتی لٹریچر کے ذریعے ایڈریس کیا جاسکتا ہے- چناں چہ ان کی درخواست پر سی پی ایس کی طرف سے مسٹر منجیت سنگھ موکھا کو ہندی اور انگریزی کتابوں کا ایک سٹ بذریعہ ڈاک روانہ کیاگیا- مسٹر منجیت سنگھ نے اس کو اپنے مقامی ساتھیوں کے درمیان تقسیم کیا- لوگوں نے اس کو خوشی کے ساتھ لیا-
20- سہارن پور کے سی سی آئی ایم کے پریڈیزنٹ ڈاکٹر وید پرکاش تیاگی کے یہاں
Thanks be to Allah for a very successful trip to Pondicherry and Chennai. In Pondicherry met three students from the University. they took us to their university. It is a very very huge campus with very beautiful gardens and beautiful buildings. One particular department consists of International students. An educational institute and a student are very touching scenes for me. When Maulana said that Paradise is a place of joyful activities, my happiness knew no bounds for learning is what is a joyful activity for me and no one before had described Paradise in this manner. Inshallah these students are going to go ahead with a few ideas I have given them regarding Dawah work in the University. I gave them some Dawah material. Regarding Goodword Bookstore in Chennai it is beautiful, the white shelves, white walls neat and pleasing arrangement of books, the location, everything speaks of the beautiful and pure intentions of everyone who is involved in this. A seed has grown into a tree. While sitting there I was reminded of this quote, The tallest of Oaks have grown from the smallest of seeds. Let us all just do this one simple work of sowing a eed in one heart, or one place and Allah's angels will do the rest.
(Fathima Sarah, Bangalore)
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.