خلافت کا تصور
قرآن کی سورہ البقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جب انسان کو پیدا کیا تو اللہ اور فرشتوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا- اِس مکالمے کے دوران اللہ نے انسان کی پیدائش کا مقصد اِس طرح بیان کیا: وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰۗىِٕکَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ( 2:30 ) یعنی یاد کرو اُس وقت کو جب کہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں-
’خلافت‘ کے لغوی معنی ہیں: بعد کو آنا- ’خلیفہ‘ کا مطلب ہے: کسی کے بعد اس کی جگہ پر آنے والا، یعنی جانشین (successor)- خلیفہ کا اصل لفظی مطلب یہی ہے، لیکن اِس طرح کسی کے بعد جو شخص جانشین بنتا ہے، وہ عام طورپر صاحبِ اقتدار ہوتا ہے، اس لیے استعمال میں خلیفہ کا لفظ مجرد طورپر صاحبِ اقتدار کے لیے بولا جانے لگا، خواہ ایسا شخص جانشین کے طورپر صاحبِ اقتدار بنا ہو یا جانشینی کے بغیر اس کو یہ پوزیشن حاصل ہوگئی ہو-
قرآن کی اِس آیت میں خلیفہ کا لفظ اِسی دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر ایک بااختیار مخلوق کی حیثیت سے آباد کیا- ایک عارضی مدت کے لیے زمین انسان کے چارج میں دے دی گئی- نظامِ فطرت کے مطابق، اگرچہ زمین کا انتظام انسان چلا رہے ہیں جس طرح کائنات کے دوسرے حصوں کا انتظام فرشتے چلارہے ہیں- لیکن محدود معنی میں زمین انسان کے چارج میں ہے- قیامت تک کے لیے انسان کو کامل اختیار ہے کہ وہ اپنے دائرے میں زمین پر آزاد مخلوق کی حیثیت سے زندگی گزارے، خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا غلط استعمال-
قرآن فہمی کا ایک اصول یہ ہے : القرآن یفسر بعضُہ بعضا (قرآن کا ایک حصہ اُس کے دوسرے حصے کی تفسیر کرتاہے)- اِس اصول کے مطابق، غور کیا جائے تو قرآن کی متعدد آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کو خلیفہ بنانے کا مطلب کیا ہے- اُن میں سے ایک آیت یہ ہے: ثُمَّ جَعَلْنٰکُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِی الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِہِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ( 10:14 )-
اصل یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالی نے ایک کامل مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا- اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے، پہلا انسان اتنا ہی کامل تھا، جتنا کہ اکیسویں صدی کا انسان- لیکن جس سیارہ ارض (planet earth) پر انسان کو بسایا گیا، وہاں تمام چیزیں موجود تھیں، لیکن یہ چیزیں زیادہ تر بالقوہ (potential) طور پر موجود تھیں- اب یہ انسان کا کام تھاکہ وہ اِس بالقوہ کو بالفعل (actual) بنائے- پوری انسانی تاریخ اِس معاملے کی تصویر ہے- وہ بالقوہ سے بالفعل کی طرف سفر کررہی ہے-
اِس سفر کے لیے انسانی زبان میں سب سے زیادہ موزوں لفظ تہذیب ہے- پوری انسانی تاریخ، آدم سے لے کر قیامت تک، اِسی تہذیبی سفر کا دوسرا نام ہے- خالق نے کرہ ارض کو تہذیب کے مقام یا مقر (abode of civilization) کے طورپر بنایا- انسان کا کام یہ تھا کہ وہ اِس پوٹنشیل تہذیب (potential civilization) کو ایکچول تہذیب (actual civilization)کی صورت میں ڈیولپ کرے — اِسی رول کو انجام دینے والے کا نام خلیفہ ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان-
تہذیب کا لفظ عام طورپر مادی ترقی کے معنی میں بولا جاتا ہے- معروف تصور کے مطابق، تہذیب کا مطلب ہے — سوشل ، کلچرل اور سائنٹفک ترقی کا اعلی مرحلہ- مگر تہذیب کی یہ تعریف ایک محدود تعریف ہے- تہذیب کے تصور کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے پس منظر میں دیکھا جائے- چوں کہ تہذیب کے معمار خود سے کوئی چیز تخلیق نہیں کرتے، وہ خالق کے پیدا کردہ ذرائع (natural resources) یا انفراسٹرکچر کو استعمال کرتے ہوئے تہذیب کا سفر جاری کرتے ہیں- گویا کہ تہذیب کے تمام انسانی معمار، خالق کے کارندے ہیں- وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو واقعے کی صورت دے رہے ہیں-
تہذیب کا یہ سفر اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ربانی تہذیب کا سفر ہے- وہ انسان کو اُس منزل کی طرف لے جانے والا ہے جہاں وہ حمدِ الہی اور شکر ِ خداوندی کا اعلی تجربہ کرے، جہاں وہ ربانی معرفت کے اعلی مراتب کو حاصل کرسکے- مگر یہ کام چوں کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے انجام دیا جارہا ہے، اِس لیے لوگ اس کی معنویت کو سمجھنے سے قاصر رہے- تہذیب کے اِس سفر کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی انسانی آزادی سے پیدا ہونے والی خرابیوں (evils) کو الگ کرکے یہ دیکھ سکے کہ خدا کس طرح انسانی تاریخ کو مینیج کررہا ہے- انسانی تاریخ کو بامعنی طورپر سمجھنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مبصر، انسانی عنصر کو الگ کرکے تاریخ میں عمل کرنے والے خدائی عنصر کو دیکھ سکے-
ایک جائزہ
اللہ نے انسان کو کامل آزادی عطا فرمائی ہے- یہ آزادی اِس لیے ہے تاکہ انسان خود سے چیزوں کو دریافت کرے، وہ اپنے اندر ایک خود تعمیر کردہ شخصیت (self-developed personality) بنائے- انسان کبھی اپنی آزادی کو صحیح استعمال کرتا ہے اور کبھی غلط استعمال- لیکن اللہ اپنی قوتِ قاہرہ کے ذریعے تاریخ کو مینیج کرتے ہوئے اُس کو اُس منزل کی طرف لے جارہا ہے جو اس کی اصل منزل ہے، یعنی معرفتِ خداوندی (realization of God) کی تکمیل-
اللہ نے انسانیت کے آغاز سے پیغمبروں کو بھیجنے کا جو سلسلہ جاری کیا، وہ اِس لیے تھا کہ پیغمبر، انسان کو خدا کے تخلیقی منصوبے سے باخبر کریں اور یہ کوشش کریں کہ انسانی تہذیب کا سفر صحیح رخ (right direction) میں جاری رہے-مگر تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کو استعمال کرنے میں زیادہ ذمے دار ثابت نہیں ہوا- بہت جلد ایسا ہوا کہ تاریخ عمومی طورپر توحید کے راستے سے ہٹ کر شرک کے راستے پر چل پڑی- اس کا سبب یہ تھا کہ انسان نے پایا کہ پیغمبر جس اللہ کی خبر دے رہے ہیں، وہ اللہ اس کو دکھائی نہیں دیتا، البتہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات ہر طرف دکھائی دے رہی ہیں- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے نہ دکھائی دینے والے خدا کو چھوڑ کر، دکھائی دینے والی چیزوں کو اپنا خدا سمجھ لیا-
یہ واقعہ کس طرح ہوا، اس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں ملتا ہے: ہَذا رَبِّی ہَذا أَکْبَرُ ( 6:78 ) یعنی ہر وہ چیز جو بظاہر بڑی (great) دکھائی دے، اس کو خدا یا شریکِ خدا سمجھ لینا- اِسی سے قدیم تاریخ میں شرک کی وہ صورت پیدا ہوئی جس کو مظاہر فطرت کی پرستش (nature worship) کہا جاتا ہے- فطرت پرستی کا یہ نظریہ لوگوں میں بہت مقبول ہوا- اِس کا سبب یہ تھا کہ پچھلے زمانے کے تمام بادشاہ فطرت پرستی کو اپنے لیےموزوں (convenient)سمجھ کر اِس مذہب کی سرپرستی کرنے لگے- انھوں نے اِسی مشرکانہ مذہب سے اپنے لیے حق حکم رانی (mandate) لینا شروع کردیا- اِس طرح ایسا ہوا کہ قدیم زمانے میں ساری دنیا میں شرک کو سرکاری مذہب (official religion) کی حیثیت حاصل ہوگئی-شرک اور سیاسی اقتدار کے اِسی تعلق (nexus) کے نتیجے میں قدیم زمانے میں شرک کو ساری دنیا میں دبدبہ حاصل ہوگیا- شرک کا یہ دبدبہ مذہبِ توحید کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھا- شرک کے اِسی دبدبے کو قرآن میں فتنہ ( 8:29 ) کہاگیا ہے-
شخصی حکومت
قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے ساری دنیا میں حکومت کا وہ نظام قائم تھا جس کو شخصی بادشاہت (Monarchy)کہا جاتا ہے- شخصی بادشاہت بہت جلد شخصیت پرستی (personality cult)میں تبدیل ہوجاتی تھی- اور پھر شخصیت پرستی رفتہ رفتہ بت پرستی (idol worship) کی صورت اختیار کرلیتی تھی-یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایسا ہوا کہ شخصی حکومتیں آخر کار مشرکانہ حکومتیں بن گئیں- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت موسی کے معاصر بادشاہ فرعون نے کہا کہ :أنا ربکم الأعلى ( 79:24 ) -
قدیم زمانے میں شخصی حکومت کا نظام سب سے بڑی برائی (greatest evil) بن کر ابھرا- یہ انسانی آزادی کا سب سے زیادہ سنگین استعمال تھا- دنیا میں اِس نظام کو جمہوری انقلاب کے ذریعے سیاسی طور پر ختم کیا گیا- آخرت میں باعتبار حقیقت اُس کی مجرمانہ حیثیت کا اعلان کیا جائے گا- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یقبض اللہ تبارک وتعالى الأرض یوم القیامة ویطوی السماء بیمینہ ثم یقول أنا الملک، أین ملوک الأرض(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: 4994) -
خلافت کے تین دور
قرآن میں خلافت کے معنی ’’اسلامی خلافت‘‘ کے نہیں ہیں- قرآن کے مطابق، وہ تمام لوگ خلائف فی الأرض ( 10:14 ) ہیں جن کو مختلف زمانوں میں بااختیار رول ملا، خواہ وہ اپنے عقیدے کے اعتبار سے، مذہبی ہوں یا غیر مذہبی- تاریخ میں جن لوگوں کو باری باری خلافتِ ارضی کا رول ادا کرنے کا موقع ملا، اُن کو تین گر وہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے-
1- مشرکین کی خلافت— یہ دور قدیم زمانے سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک جاری رہا-
2- موحدین کی خلافت— یہ مسلم سلاطین کا دور ہے- یہ دور تقریباً آٹھویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی تک قائم رہا-
3- سیکولر لوگوں کی خلافت — یہ دور انیسویں صدی عیسوی میں شروع ہوا اور اب تک قائم ہے-
قدیم زمانے میں جن مشرک گروہوں کو خلافتِ ارضی کا رول ادا کرنے کا موقع ملا، انھوںنے اپنی آزادی کا نہایت غلط استعمال کیا- ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے ناحق طورپر ساری دنیا میں جبر کی حکومت (despotic rule) کا نظام قائم کردیا- اِس دور میں انسان کو مذہبی آزادی حاصل نہ تھی- اِس دور میں ہر جگہ وہ کلچر قائم تھا جس کو مذہبی تشدد کا دور کہا جاتا ہے-
اِس مشرکانہ دور میں آزادانہ سوچ (free thinking) کا خاتمہ ہوگیا تھا- اِس بنا پر فکری ارتقا کا عمل پوری طرح ختم ہوگیا تھا- علم کی ترقی عملاً ناممکن ہوگئی تھی- اِس کا ایک شدید نقصان یہ تھا کہ فطرت (nature) میں تحقیق کا کام پوری طرح رک گیاتھا- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ انسان فطرت میں چھپے ہوئے قوانین کو دریافت کرے، تاکہ انسان پر اعلی معرفت کے دروازے کھلیں، دعوتی عمل کو زیادہ موثر طورپر انجام دینا ممکن ہوجائے- مگر مشرکانہ اقتدار کے زمانے میں اِس قسم کا عمل پوری طرح بند ہوگیا تھا- اللہ نے کثیر تعداد میں پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ انسان کو بتائیں کہ وہ اپنی آزادی کو غلط استعمال کرکے اللہ کے منصوبے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے- لیکن پیغمبروں کی پُرامن دعوتی کوشش عملاً غیر موثر ہوگئی-
اِس کے بعد اللہ تعالی نے اپنے تخلیقی منصوبے کی بنا پر انسان کی آزادی کو تو ختم نہیں کیا، البتہ یہ فیصلہ کیا کہ خلافتِ ارضی کا رول مشرکین سے چھین لیا جائے اور اس کو موحدین کے حوالے کردیا جائے- یہی خدائی فیصلہ تھا جس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَةٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ( 8:29 )-قرآن کی اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، اُس کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ دورِ شرک اپنے وجود کا جواز ختم کرچکا ہے، اس کو توڑ کر دورِ توحید کا آغاز کرو، تاکہ انسان کے اوپر اللہ کی ابدی رحمتوں کے دروازے کھلیں-
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اور آپ کے پیروؤں نے واقعتاً ایسا ہی کیا- پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں نے دورِ قدیم کی تقریباً پوری آباد دنیا میں وہ کام کیا جس کو ایک مبصر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ — پیغمبر اور اُن کے پیروؤں نے قدیم زمانے کے پورے سیاسی نقشے کو بدل دیا-
اِس طرح خلافتِ ارضی کا رول مسلمانوں یا موحدین کے ہاتھ میں آگیا- مسلمانوں نے اِس عہد میں جو رول ادا کیا، وہ کوئی نظام قائم کرنا نہ تھا- حقیقت یہ ہے کہ نظام قائم کرنا امتِ مسلمہ کا نشانہ ہی نہیں-مسلم عہد میں جو کام انجام پایا، اس کے دو بڑے پہلو تھے — ایک تھا دنیا میں آزادی کا دور لانا اور دوسرے، علومِ فطرت کے انکشاف کا دروازہ کھولنا-
قرآن میں کہا گیا تھا کہ: أمرہم شوری بینہم ( 42:38 ) - یہ آیت کسی محدود معنی میں نہیں ہے- اِس آیت میں دراصل ایک مطلوب عالمی انقلاب کی خبر دی گئی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ دنیا سے شخصی حکومت کا دور ختم ہو اور اس کے بجائے جمہوری حکومتوں کا دور آئے، تاکہ انسان کو یہ موقع ملے کہ وہ آزادی کے ساتھ سوچ سکے، تاکہ انسان کے پوٹنشیل کی انفولڈنگ ہو، تاکہ انسان کو فطرت کے رموز کی دریافت کا موقع ملے، تاکہ ربانی تہذیب کو قلم بند کرنے کا وہ دور شروع ہو جس کا ذکر قرآن میں اِن شاہانہ الفاظ میں کیا گیاہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ( 31:27 )
جمہوریت کا دور
دورِ جمہوریت دراصل دورِ آزادی کا دوسرا نام ہے-اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، زمین پر آزادانہ ماحول کا باقی رہنا بے حد ضرو ری ہے- انسان سے جو رول مطلوب ہے، وہ صرف آزادی کے ماحول میں ممکن ہے- جمہوریت کا یہ دور مسلم عہد میں شروع ہوا- وہ پراسس کے روپ میں آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1789میں انقلابِ فرانس کی صورت میں اس کی تکمیل ہوئی-
جمہوریت (democracy) انسانی تاریخ کا ایک عظیم مرحلہ ہے- اِس دور میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ آزادی اور امن انسان کا اپنا چوائس (choice) بن گیاہے- اِس سے پہلے ایسا تھا کہ کسی انسان کو آزادی اور امن صرف اُس وقت ملتا تھا، جب کہ حاکمِ وقت اس کو بطور عطیہ اُسے دے دے- اب یہ معاملہ کسی دینے والے کا عطیہ نہیں رہا، بلکہ وہ ہر انسان کا مطلوب حق (absolute right) بن چکا ہے- کسی بھی شخص یا گروہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اِس حق کو آپ سے چھین لے-
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ملیں گے جو یہ شکایت کریں گے کہ اُن کو آزادی اور امن کے ماحول میں کام کرنے کے مواقع حاصل نہیں- ایسے لوگ بلا شبہہ زندگی کے راز سے بے خبر ہیں- موجودہ زمانے میں آزادی اور امن کی جو نعمت ملی ہے، اس کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اِس حکمت کو جانے کہ اس کو اپنے عمل کے لیے ایسا نشانہ مقرر کرنا ہے جو دوسرے سے ٹکراؤ کیے بغیر جاری کیا جاسکے- اگر آپ اپنے لیے ایسا نشانہ مقرر کریں جو دوسروں کی زندگی میں خلل ڈالنے والا ہو تو آپ کے حصے میں صرف شکایت اور پروٹسٹ آئے گا، لیکن اگر آپ اپنے عمل کے لیے ایسا نشانہ مقرر کریں جو کسی حال میں دوسروں کے لیے مسئلہ (problem) نہ بنے، تو آپ ساری عمر کام کرتے رہیں گے اور کبھی آپ کو د وسروں کے خلاف شکایت نہ ہوگی-
یہی وہ راز ہے جو قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیا ہے: الصلح خیر ( 4:128 )- اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایسا نشانہ مقرر کرو جس میں دوسروں سے ٹکراؤ نہ پیش آتا ہو- اگر تم ایسا کروگے تو تمھارے لیے اِس دنیا میں خیر ہی خیر ہوگا- تمھارے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ تم دوسروں کے خلاف شکایت سے محفوظ رہتے ہوئے اپنے کام کو مکمل کرو- جو آدمی شکایت کی زبان بولے، وہ صرف یہ اعلان کررہا ہے کہ اس نے اپنے لیے غلط نشانے کا انتخاب کیا تھا- یہ معاملہ خود اپنے نشانے کی غلطی کا معاملہ ہے، نہ کہ دوسروں کے ظلم یا دشمنی کا معاملہ-
مسلم دورِ سلطنت میں دوسرا جو بڑا کام ہوا، وہ یہ کہ فطرت کو پرستش کے موضوع سے ہٹا کر تحقیق کا موضوع بنا دیا گیا- یہ عمل بھی تدریجی طورپر جاری ہوا اور آخر کار اُس علمی انقلاب تک پہنچا جس کو سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے- اِس سائنسی انقلاب نے اُس پیشین گوئی کو واقعہ بنادیا جس کی خبر قرآن میں اِن الفاظ میں دی گئی تھی: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ( 41:53 )- موجودہ زمانے میں جمہوری انقلاب اور سائنسی انقلاب کی صورت میں جو انقلابات ظہور میں آئے، وہ پوری طرح اسلام کے حق میں تھے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید دور (modern age)پورے معنوں میں ایک موافقِ اسلام دور ہے- اِس دور کا آغاز مسلمانوں کے سیاسی عروج کے زمانے میں ہوا، لیکن اِس دور کی تکمیل تاریخ کے اُس تیسرے دور میں ہوئی جس کو اوپر کی تقسیم میں ’’سیکولر لوگوں کی خلافت‘‘ کہاگیا ہے-
امتِ مسلمہ کا نیا رول
قرآن کی سورہ آل عمران میں فطرت کے ایک اصول کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ( 3:26 ) یعنی تم کہو، اے اللہ، سلطنت کے مالک، تو جس کو چاہے، سلطنت دے اور جس سے چاہے، سلطنت چھین لے- اور تو جس کو چاہے، عزت دے اور جس کو چاہے، ذلیل کرے- تیرے ہاتھ میں ہے سب خوبی- بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-
اِس کا مطلب یہ ہے کہ خلافتِ ارضی کسی گروہ کی اجارہ داری (monopoly) نہیں- یہ ایک رول ہے جس کو اللہ اپنے منصوبے کے تحت کبھی ایک گروہ کو دیتاہے، کبھی دوسرے گروہ کو- جب کسی گروہ کو خلافتِ ارضی ملے تو اس کو یہ دریافت کرنا چاہیے کہ اس کو یہ رول کس مقصد کے لیے دیاگیا ہے- اور جب اُس سے خلافتِ ارضی چھین لی جائے تو اُس وقت بھی اس کو جاننا چاہئے کہ یہ منصب کیوں اُس سے چھینا گیا- اِس حقیقت سے بے خبری کا یقینی نقصان یہ ہے کہ متعلقہ گروہ کو اللہ کی نصرت نہ ملے اور نتیجةً وہ ہر اعتبار سے ناکام ہو کر رہ جائے-
آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم ایمپائر قائم ہوا- یہ اِس بات کی علامت تھی کہ اب خلافتِ ارضی کا رول مسلمانوں کو دیا گیا ہے- وہ رول یہ تھا کہ دنیا سے قدیم طرز کی بادشاہت (kingship) کا خاتمہ کردیا جائے- یہ کام مسلمانوں کے ذریعے عالمی پیمانے پر انجام پایا- صدیوں تک مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ وہ جس ملک میں داخل ہوئے، وہاں انھوں نے قدیم طرز کی سیاسی آمریت کا خاتمہ کردیا-لیکن پھر وہ وقت آیا کہ مسلم سلطنتوں کا زوال شروع ہوا- انیسویں صدی کا آغاز مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے خاتمے کا اعلان تھا- پوری دنیا میں ایک کے بعد ایک، مسلم سلطنتیں مغربی اقوام سے مغلوب ہو کر رہ گئیں- اِس کے بعد مسلمانوں نے بڑے پیمانے پریہ کوشش کی کہ وہ اپنی سیاسی عظمت کو دوبارہ حاصل کرسکیں، لیکن دو سو سالہ جدوجہد کے باوجود وہ اپنی ان کوششوں میں مکمل طور پر ناکام رہے-
یہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا- یہ عملاً مسلمانوں کے رول میں تبدیلی کا اعلان تھا-اٹھارھویں صدی میں مسلمانوں کا سیاسی رول ختم ہو چکا تھا- اب اُن سے جو رول مطلوب تھا، وہ دوسرا رول تھا، اور وہ تھا — جدید امکانات کو استعمال کرکے عالمی سطح پر دینِ خداوندی کی اشاعت- دورِ جدید میں اللہ نے اپنی مصلحت کے تحت اہل مغرب کو یہ موقع دیا کہ وہ نئے وسائل کی دریافت کرکے اُن کو عام کریں- اہلِ مغرب کے ذریعے دنیا میں پہلی بار وہ چیزیں آئیں جو عالمی دعوت کے لیے ضروری ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، کھلا پن، عالمی آمد ورفت، پرنٹنگ پریس، عالمی کمیونکیشن، وغیرہ-
یہ نئے حالات اِس بات کا اشارہ تھے کہ اب امتِ مسلمہ کا رول بدل گیا ہے- اب اُن کا رول یہ ہے کہ نئے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسلام کے فطری پیغام کو تمام قوموں اور تمام انسانوں تک پہنچا دیں- مگر عجیب بات ہے کہ تقریباً پوری امت اِس عظیم حقیقت سے بے خبر رہی- انھوں نے رول کی اِس تبدیلی کو نہیں سمجھا- وہ اپنی گزری ہوئی سیاسی عظمت کی واپسی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے مفروضہ دشمنوں سے لڑائی کرتے رہے- یہ عمل خدائی منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے اس کو خدا کی مدد حاصل نہیں ہوئی اور وہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا-امتِ مسلمہ کے اِس نئے رول کو حدیث میں بطور پیشین گوئی اِن الفاظ میں بیان کردیا گیا تھا: لا یبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام -
رول کی تبدیلی
انیسویں اور بیسویں صدی نے امت مسلمہ کو ایک نئے دور میں پہنچا دیا- نئے دور کے حالات بتارہے تھے کہ امتِ مسلمہ کا رول اب بدل گیا ہے اور وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے — عالمی دعوت - مگر نئے دور کے مسلم رہنما ناقابلِ فہم طورپر جدید دور سے بے خبر رہے- چناں چہ وہ امتِ مسلمہ کو اس کا نیا رول بھی نہ بتا سکے- نئے دور میں امتِ مسلمہ کی بہت بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ امت دور جدید میںاپنے اِس نئے رول سے بے خبر ہوگئی- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری امت کا کیس اُس قوم کا کیس بن گیا جو اپنی سمتِ سفر (direction) سے بے خبر ہوگئی ہو-
یہ زمانہ وہ تھا جب کہ امت اپنے دور زوال میں پہنچ چکی تھی- اِس دور میں امت کے تقریباً تمام رہنماؤں نے ایک ہی کام کیا، وہ ایسی باتیں لکھنے اور بولنے لگے جو امت کی زوال یافتہ نفسیات سے مطابقت رکھتی تھی، لیکن وہ یقینی طورپر خدا کے تخلیقی نقشے کے خلاف تھی- انیسویں صدی اور بیسویں صدی امتِ مسلمہ کے لیے زبردست سرگرمیوں کی صدی ہے، مگر یہ سرگرمیاں خود ساختہ قومی رول کے لیے تھیں، نہ کہ خدا کے مطلوب رول کے لیے- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت اپنی سرگرمیوں میں خدا کی نصرت سے محروم ہوگئی- اِس دور میں اُس نے جو نشانے مقرر کیے، وہ سب قومی نشانے تھے جو زوال یافتہ نفسیات کے تحت بنے تھے- اِس بنا پر اِن نشانوں کے لیے یہی مقدر تھا کہ وہ پورے نہ ہوں-
اِس قومی ناکامی کے بعد دوسری زیادہ بڑی ناکامی سامنے آئی، وہ یہ کہ پوری امت منفی نفسیات میں مبتلا ہوگئی— مایوسی، منفی سوچ، شکایت اور پروٹسٹ کا ذہن، مشتعل مزاجی، تشدد، ساری دنیا کو اپنا دشمن سمجھ لینا، ہر طرف سازش دکھائی دینا، گن کلچر اور بم کلچر اور آخر میں احساس ناکامی کی بدترین صورت، یعنی خود کش بم باری-اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کی یہ ایک عمومی تصویر ہے- اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ پوری قوم تشدد کی نفسیات میں مبتلا ہوگئی، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگوں کا کیس فعال تشدد (active violence) کا کیس ہے اور کچھ لوگوں کا کیس منفعل تشدد (passive violence) کا کیس ہے-
یہ ایک عمومی بربادی کی حالت ہے- امت کو اس بربادی سے نکالنے کی صورت صرف یہ ہے کہ اس کے اندر سے منفی سوچ کو مکمل طورپر ختم کیاجائے اور اس کے اندر مکمل طورپر مثبت سوچ (positive thinking) لائی جائے، اس کو تیار کیا جائے کہ وہ دوبارہ اپنے اصل مشن پر کھڑی ہوجائے، یعنی دعوت الی اللہ کا مشن- اِس معاملے میں کوئی بھی عذر (excuse) قابل قبول نہیں ہوسکتا-
دعوہ ایمپائر
قدیم زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی ایمپائر قائم تھا- آج بھی تمام مسلمان اِسی ماضی کی واپسی کا خواب دیکھ رہے ہیں- مگر یہ ایک قسم کی خلافِ زمانہ بات (anachronism) ہے- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تاریخ کے بارے میں اللہ کے منصوبے کو سمجھیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کا نقشہ بنائیں- حقیقت یہ ہے کہ اب سیاسی ایمپائر بنانے کا زمانہ ختم ہوگیا، لیکن امتِ مسلمہ کے لیے ایک اور زیادہ بڑا موقع پوری طرح کھل چکا ہے اور وہ ہے پُرامن اسلامی دعوت کا عالمی ایمپائر قائم کرنا-اِس قسم کے دعوہ ایمپائر کا امکان ایک حدیثِ رسول میں پیشگی طورپر بتادیاگیا ہے- مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: کلمة واحدة تعطونہا، تملکون بہا العرب، وتدین لکم بہا العجم (البدایة والنہایة: 3/123 ) یعنی میں تم کو ایک ایسے کلمہ کی طرف بلاتا ہوں جس کے ذریعے تم عرب کے مالک بن جاؤگے اور عجم تمھاری اطاعت کریں گے-
قدیم زمانے میں سیاسی ایمپائر بنانے کے لیے بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں، لوگوں کو جانوں کی قربانیاں دینی پڑیں، مگر آج اسلام کا دعوہ ایمپائر یا آئڈیا لاجکل ایمپائر بنانے کے لیے کسی لڑائی کی ضرورت نہیں- نئے حالات میں پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ اسلام کا پرامن دعوہ ایمپائر بنایا جائے اور دنیا اس کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے اس کے ساتھ اپنا بھر پور تعاون پیش کرے-(20 ستمبر 2013)
واپس اوپر جائیں