قرآن کی سورہ الفرقان میں ایک آیت ہجرانِ قرآن کے بارے میں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: وَقَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا (
قرآن ایک ابدی کتاب ہے- قرآن کی تعلیمات ہر دور کے انسانوں پر بلا تفریق منطبق ہوتی ہیں- قرآن اُسی طرح مسلمانوں کی حالت پر بھی اپلائی (apply) ہوتا ہے جس طرح غیر مسلموں کی حالت پر- مسلمان اگر قر آن کو کتابِ مہجور (abandoned book) بنا دیں تو وہ بھی یقیناً اِس آیت کا مصداق بن جائیں گے-قرآن میں یہود کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے بعد کے زمانے میں اللہ کی کتاب کو پسِ پشت ڈال دیا: نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ڎ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِھِمْ کَاَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (
کتاب کو چھوڑنا کیوں کر ہوتا ہے- اِس کا جواب یہود کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے- یہود کے پاس اللہ کی کتاب آئی تھی، لیکن بعد کے زمانے میں ایسا ہوا کہ یہود کے علما نے بطور خود کتاب الہی کی جو تشریح وتعبیر کی، وہی یہود کے لیے اُن کے دین کا اصل ماخذ بن گئی- کتاب الہی کو وہ بدستور ایک مقدس کتاب کے طورپر مانتے تھے، لیکن عملاً وہ اپنے علما کے وضع کردہ دین پر قائم تھے-
یہی بعد کے زمانے میں مسلمانوں کا بھی حال ہوا ہے، بعد کے زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن ایک مقدس کتاب (Holy Book) کی حیثیت اختیار کرچکا ہے- ان کے علما نے فقہ اور کلام اور فلسفہ اور تصوف کی صورت میں دین کا جو ورژن (version)تیار کیا ہے، وہی کتابی صورت میں مدوّن ہو کر عملی طورپر ان کے لیے دین کا ماخذ بن گیا ہے-
کتاب مہجور کا ظاہرہ کوئی انوکھا ظاہرہ نہیں ہے، یہ ہر مذہبی گروہ میں بعد کے زمانے میں پیش آتا ہے- قدیم زمانے میں یہی واقعہ یہود ونصاری کے ساتھ پیش آیا تھا- یہود ونصاری نے کلی معنی میں اپنے مذہب کوکبھی نہیں چھوڑا، لیکن مذکورہ معنوں میں ہر ایک نے اپنے مذہب کو چھوڑ رکھا ہے- یہود ونصاری کا دین اصلاً اللہ کی طرف سے آیا ہوا دین تھا، جو اُن کو اپنے پیغمبروں کے ذریعے ملا تھا- لیکن بعد کو اُن کے علما اپنی تشریح وتعبیر کے ذریعے اس میں تبدیلی اور اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ اُن کے یہاں ایک متوازی مذہب (parallel religion) تیار ہوگیا- اب یہود ونصاری اِسی متوازی مذہب پر ہیں، نہ کہ اپنے پیغمبروں کے ذریعے ملے ہوئے اصل خدائی مذہب پر-
حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے: لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتى ولو دخلوا جحر ضب تبعتموہم (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 7320) یعنی تم ضرور پچھلی امتوں کے طریقوں کا اتباع کروگے- قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوں گے تو تم بھی وہاں داخل ہوجاؤگے-
حدیثِ رسول کی یہ پیشین گوئی آج پوری طرح واقعہ بن چکی ہے- آج مسلمان عملاً جس دین پر ہیں، وہ اصلاً قرآن اور سنت والا دین نہیں ہے- وہ ایک متوازی دین ہے جو اُن کے علمااور مشائخ نے بعد کے زمانے میں اسلام کے نام پر تیار کیا- یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اگرچہ بظاہر دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے، وہ دین کہیں نظر نہیں آتا جو رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں پایا جاتا تھا-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن ایک مقدس کتاب ہے، لیکن وہ اُن کے لیے رہنماکتاب نہیں ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قومی فخر کا ذریعہ ہیں، لیکن وہ ان کے لیے اسوۂ حیات نہیں- یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے قرآن کو ایک کتاب مہجور بنادیا ہے، لیکن یہ ہجران بہ اعتبار عمل (in terms of practice) ہے، نہ کہ بہ اعتبار عقیدہ (in terms of belief)- قرآن کو وہ بدستور ایک مقدس کتاب مانتے ہیں، لیکن ان کی عملی زندگی سے قرآن کا کوئی تعلق نہیں-
واپس اوپر جائیں
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- صحیح البخاری میں فضائل القرآن کے باب کے تحت یہ روایت اِن الفاظ میںآئی ہے: تعاہدوا القرآن، فو الذی نفسی بیدہ لہو أشد تفصّیاً من الإبل فی عُقُلہا (رقم الحدیث: 5033) یعنی تم قرآن کی حفاظت کرو- اُس ذات کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے، جس طرح اونٹ اپنی رسی سے آزاد ہو کر نکل جاتا ہے، قرآن اس سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جانے والا ہے-
اِس حدیث میں ’’تعاہُد‘‘ کے لفظ سے وہی گہرا تعلق مرادہے جس کو کمٹمینٹ (commitment) کہاجاتا ہے- اِس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ معروف معنی میں صرف ’’حافظِ قرآن‘‘ کی نسبت سے نہیں ہے، بلکہ وہ ہر مومن کی نسبت سے ہے-
اِس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ قرآن پر مسلسل غور وفکر کرتے رہیں، وہ قرآن میں تدبر کو اپنے تفکیری عمل (thinking process)میں شامل کردیں- جو شخص ایسا نہ کرے، وہ بہت جلد ذہنی طورپر قرآن سے دور ہوجائے گا-
موجودہ دنیا میں آدمی اِس طرح زندگی گزارتا ہے کہ اس کے ذہن میں ہر لمحہ مختلف قسم کی باتیں داخل ہوتی رہتی ہیں- ایسی حالت میں قرآن کے معانی کو مستحضر رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آدمی مسلسل طور پر قرآن کو اپنی سوچ کا موضوع بنائے ہوئے ہو-
قرآن کے ساتھ فکری تعلق کو مسلسل طور پر قائم کرنے کی ضرورت صرف اِس لیے نہیں ہے کہ قرآن کے احکام یا اس کے مضامین آدمی کے ذہن میں مستحضر رہیں- اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قرآن کے ساتھ تعاہد آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ قرآن کے گہرے معانی تک پہنچ سکے- وہ قرآن کے نئے نئے معانی کی دریافت کرتا رہے اور اس طرح وہ اپنے ایمان میں مسلسل اضافہ کا سامان کرسکے-
واپس اوپر جائیں
ابو ذر غفاری ایک صحابی ہیں- ان کے یہاں ایک غلام تھا جو سیاہ فام نسل سے تعلق رکھتا تھا- ابو ذر غفاری کو کسی وجہ سے اپنے غلام پر غصہ آگیا- انھو ں نے اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یا ابنَ السوداء (اے سیاہ فام عورت کی اولاد)- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہواتو آپ نے ابو ذر غفاری سے فرمایا: إنک امرؤ فیک جاہلیة (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 30) یعنی تم ایسے شخص ہو جس کے اندر ابھی تک جاہلیت موجود ہے-
اِس قولِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ تمھارے اندر ابھی تک پچھلے دور کے اثرات موجود ہیں- اصل یہ ہے کہ ہر آدمی ایک کلچرل ماحول میں پیدا ہوتا ہے- اِسی کلچر میں پرورش پاکر وہ بڑا ہوتا ہے- وہ روزانہ اِس کلچر کے اثرات قبول کرتا رہتا ہے، کبھی شعوری طور پر اور زیادہ تر غیر شعوری طورپر، یہاں تک کہ اس کی سوچ اور اس کا شعور سب اُسی کلچر میں ڈھل جاتے ہیں- اِسی کا نام کنڈیشننگ (conditioning) ہے- اِس کلچرل کنڈیشننگ سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں-
جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ، نظری طورپر اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کے باوجود، کلچر کے اعتبار سے اس کی سوچ اور اس کی عادات پہلے کی طرح باقی رہتی ہیں- ایسی حالت میں ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کی سوچ کو بدلا جائے، تاکہ وہ کلچر کے اعتبار سے اپنی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning)کرسکے-
یہ کلچرل ڈی کنڈیشننگ (cultural de-conditioning)ایک بے حد مشکل کام ہے- یہ مشکل کام صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کا شعور اتنا زیادہ بے دار ہو کہ وہ سختی کے ساتھ اپنا محاسبہ کرے- وہ نہایت بے رحمی کے ساتھ اپنے اندر سے پچھلے دور کے کلچرل اثرات کو دھو ڈالے — کلچرل ڈی کنڈیشننگ کی ضرورت صرف نو مسلموں کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ پیدائشی مسلمانوں کے لیے بھی یکساں طورپر ضروری ہے-
واپس اوپر جائیں
الفاتحہ قرآن کی پہلی سورہ ہے- اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: ’’حمد صرف اللہ کےلیے ہے جو سارے عالَم کا رب ہے- وہ رحمان اور رحیم ہے- روزِ جزا کا مالک ہے- ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں- ہم کو صراطِ مستقیم پر چلا- اُن کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا- اُن کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ اُن لوگوں کاراستہ جو صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے‘‘-
قرآنمیںاِس سورہ کا نام الفاتحہ ہے- فاتحہ کا لفظی مطلب ہے:ابتدا (The Opening)- یہ لفظ ترتیب کو بتاتا ہے، یعنی
سورہ الفاتحہ کے مضامین کو 5 عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتاہے— (1) خدا کی معرفت یعنی خدا کے وجود کو شعورکی سطح پر دریافت کرنا- (2) انسان کے بارے میں خدا کے تخلیقی منصوبہ کی دریافت- (3) اللہ کا عبادت گزار بننا جو اللہ کی معرفت کا لازمی نتیجہ- (4) ربانی ماڈل کی نظری دریافت (5) ربانی ماڈل کی عملی ردیافت اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تعمیر وتشکیل-
1- ’’حمدصرف اللہ کے لیے ہے جو سارے عالم کا رب ہے- وہ رحمان اور رحیم ہے‘‘- یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ خدا کی دریافت کا مطلب کیاہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرے جب کہ وہ خدا کو ایک ایسی ہستی کے طورپر پالے جس کا ایک مستقل وجود ہے، جو سارے عالم کو پیدا کرنے والا اور اس کو کنٹرول کرنے والا ہے- خدا کی سب سے بڑی صفت رحمت اور رافت کی صفت ہے- اِس دریافت کو ایک لفظ میں ربانی دریافت کہاجاسکتا ہے- اِس دریافت کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسان کے اندر یقین کا چشمہ ابل پڑتا ہے- وہ ایک تھرل (thrill) کے ساتھ کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا، ساری تعریف تیرے لیے ہے اور ساری عظمت (glory) تیرے لیے-
2- ’’وہ روزِ جزا کا مالک ہے‘‘ — روزِ جزا (Day of Judgement) کا مالک ہونا، خداکے پورے تخلیقی منصوبے کو بتاتا ہے- یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ انسان کی تخلیق اتفاقی طور پر یا بے مقصد نہیں ہوئی ہے- وہ ایک اعلی منصوبہ بند (well-planned) تخلیق ہے- اِس منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا ایک امتحان گاہ(testing ground) ہے- یہاں افرادِ کو ان کے ریکارڈ کے مطابق، منتخب کیا جارہا ہے- اِس کے بعد ایک وقت آئے گا، جب کہ موجودہ امتحانی دورِ حیات ختم ہواور دوسرا دورِ حیات آئے، جہاں ہر انسان کے لیے اس کے ریکارڈ کے مطابق، اس کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے-
3- ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘ — عبادت اور استعانت دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں- جب ایک انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طورپر وہ اللہ کے آگے سرینڈر کردیتاہے- اِس سرینڈر کا ایک پہلو عبادت ہے اور دوسرا پہلو استعانت- اپنے وجود کی سطح پر اِس کا جو اظہار ہوتاہے، اسی کا نام عبادت ہے- اِسی کے ساتھ وہ اللہ سے اِس کا طالب بن جاتاہے کہ وہ اس کو حقیقی فلاح عطا کرے- اِسی کا نام استعانت باللہ ہے-
4- ’’ہم کو سیدھے راستے پر چلا‘‘ — جب انسان کو حقیقت کی دریافت ہوتی ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ افکار کے جنگل میں اپنے لیے ذاتی طورپر زندگی کا صحیح راستہ دریافت کرنا اس کے لیے ممکن نہیں- یہ واقعہ اس کو متلاشی (seeker) بنا دیتا ہے- وہ اپنے دل کی گہرائیوں کے ساتھ اِس بات کا طالب بن جاتاہے کہ خدا کی مدد سے وہ اپنے لیے صحیح نظریۂ حیات (ideology of life) سے واقف ہوسکے- صحیح نظریہ حیات کی یہ طلب اس کو اپنے پورے دل اور اپنے پورے دماغ کے ساتھ دعا گو بنادیتی ہے- اِس طرح کی حقیقی دعا جب کسی کے اندر پیدا ہوجائے تو وہ اپنے آپ میں اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ خدا اس کو صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی عطا کرے-
5- ’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام کیا، اُن لوگوں کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ اُن لوگوں کا راستہ جو صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے‘‘ — مراد صراطِ مستقیم کا عملی ماڈل ہے، یعنی وہ ہدایت یاب انسان جو اپنی زندگی میں ہدایت الہی کو عملاً اختیار کرلے اور اِس طرح وہ دوسروں کے لیے ماڈل بن جائے-انعام کے اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی سورہ النساء کی اِس آیت سے معلوم ہوتی ہے: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِیْقًا (
قرآن کی اِس آیت میں چار ایسے گروہوں کا ذکر ہے جو اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائے- وہ چار گروہ یہ ہیں — انبیا، صدیقین ، شہدا، اور صالحین- یہ چار گروہ صراطِ مستقیم کے لیے عملی ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں- تاہم اِن چاروں گروہ کی حیثیت یکساں نہیں- انبیا کو خدا کی طرف سے براہِ راست رہنمائی حاصل ہوتی ہے- اِس لیے ابنیا کی حیثیت اِس معاملے میں اصلاً ہے، اور دوسرے گروہوں کی حیثیت تبعاً- دوسرے لفظوں میں یہ کہ انبیاکی حیثیت اِس معاملے میں مطلق طورپر ہے، اور دوسرے کی حیثیت اضافی طور پر- انبیا کو اُن کی وحی کی نسبت سے پہچاننا ہے، جب کہ دوسرے گروہوں کو اِس اعتبار سے کہ انھوں نے انبیا کا کامل اتباع کیا- گویا انبیاکو جانچنے کا معیار وحی الہی ہے، اور بقیہ دوسرے لوگوں کو جانچنے کا معیار اتباعِ رسول-
مغضوب اور ضال دونوں ایک ہی کردار کے دو درجے ہیں- ضال سے مراد وہ انسان ہے جو سچائی کے راستے سے بھٹک گیاہو- اور مغضوب سے مراد وہ انسان ہے جس کا بھٹکاؤ صرف بھٹکاؤ نہ ہو، بلکہ لمبی مدت کی کنڈیشننگ کے بعد وہ اپنے مسلک پر اتنا پختہ ہوجائے کہ اس کی واپسی کی امید باقی نہ رہے- (2012)
واپس اوپر جائیں
نجات کا دارومدار
قرآن کی سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالنَّصٰرٰى وَالصّٰبِـــِٕیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ګ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(
قرآن کی اِس آیت میں دراصل گروہی نجات (group-wise salvation) کی نفی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں ہر پیغمبر کے نام پر نسلی گروہ بن جاتے ہیں- ہر نسلی گروہ اپنی فضیلت کا مدعی ہوتاہے- وہ یہ عقیدہ بنا لیتاہے کہ نجات صرف ہمارے گروہ کے لیے ہے، گروہ سے باہر کے افراد کے لیے نہیں- مبنی برگروہ نجات کا یہ تصور تمام تر اللہ کے تخلیقی منصوبے کے خلاف ہے- قرآن کی مذکورہ آیت میں اِسی خود ساختہ عقیدے کی تردید کی گئی ہے اور یہ بتایا گیاہےکہ نجاتِ اُخروی کا تعلق ہر فرد کے اپنے ذاتی عمل سے ہے، نہ کہ کسی مخصوص نسلی گروہ کے ساتھ نسلی تعلق سے-
مثلاً یہود نے بعد کے دور میں یہ عقیدہ بنا لیا کہ وہ اللہ کا منتخب گروہ (chosen people) ہیں- نجات صرف اُس شخص کے لیے ہے جو اِس یہودی گروہ سے تعلق رکھتا ہو- مسیحی لوگوں نے یہ عقیدہ بنایا کہ فرزند ِ خدا (son of God) ان کے گناہوں کے لیے مصلوب ہوگئے، اِس لیے نجات صرف اُن کے گروہ کا حق ہے- یہی معاملہ بعد کے دور میں خود مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا- مسلمانوں نے خودساختہ طورپر یہ عقیدہ بنا لیا کہ ہم خیر الامم ہیں، ہم اللہ کا خصوصی گروہ ہیں، نجات صرف اُس شخص کے لیے ہے جو اِس گروہ میں شامل ہو- قرآن کی مذکورہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ اِن نسلی گروہ بندیوں کا نجات سے کوئی تعلق نہیں، نجات کا تعلق ہر فرد کے ذاتی عمل سے ہے، نہ کہ کسی گروہ کے ساتھ نسلی تعلق سے-
قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیاہے کہ کسی انسان کی نجات کا مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے- اِس میں ایمان بالرسول اپنے آپ شامل ہے-جو شخص بھی آخرت کی نجات کا حریص ہو، وہ لازماً رسول کا مومن بن جائے گا، کیوں کہ رسول کے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں کہ ایمان کیا ہے اور عملِ صالح کیا- ختمِ نبوت کے بعد مستند رسول کی حیثیت صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے- اِس اعتبار سے، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اب نجات صرف اُس شخص کے لیے ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق، ایمان اور عملِ صالح کی زندگی اختیار کرے-
خاتم النبیین کے مستند ماڈل ہونے کی بات صرف عقیدے کی بات نہیں ہے، بلکہ وہ علمی اور عقلی اعتبار سے، پوری طرح قابل فہم بات ہے- بجائے خود یہ بات درست ہے کہ پچھلے زمانوں میں خدا کی طرف سے بہت سے پیغمبر آئے اور انھوںنے انسان کو ایمان اور عملِ صالح کی تلقین کی- اب آج کے لوگوں کے لیے اِن پیغمبروں سے ہدایت لینے کا طریقہ کیا ہوگا، وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے تاریخی استناد - اِس معاملے میں آج کے انسان کے لیے صرف ایک راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ تمام پیغمبروں کے ورثہ کو تاریخ کے معیار پر جانچے اور پھر جس پیغمبر کو وہ تاریخی طورپر مستند پائے، اس کو وہ اپنے رہنما کے طورپر اختیار کرلے- یہی اِس معاملے میں صحیح علمی اور عقلی طریقہ ہے-اِس معاملے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمام پیغمبروں میں ایک ہی پیغمبر ہیں جو تاریخی استناد کے معیار پر پورے اترتے ہیں اور وہ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں-
وحدتِ ادیان
وحدتِ ادیان ایک مشہور مذہبی نظریہ ہے- دنیا میں بڑی تعداد میںایسے لوگ ہیں جو اِس نظریے پر عقیدہ رکھتے ہیں- مثال کے طورپر مغربی دنیا کے مشہور اسکالر ڈبلوسی اسمتھ (Wilfred Cantwell Smith, d. 2000) اور انڈیا کے مشہور ہندو عالم آچاریہ ونوبا بھاوے (وفات: 1982)، وغیرہ- اِس موضوع پر مختلف زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں- اُن میں سے ایک کتاب وہ ہے جس کو ڈاکٹر بھگوان داس (وفات: 1958) نے طویل مدت کے مطالعے کے بعد تیار کیا ہے- اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Essential Unity of All Religions by Dr. Bhagwan Das, Bombay (1990)
وحدتِ ادیان ایک مستقل مذہبی نظریہ ہے- اِس نظریے کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ — تمام موجود مذاہب اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ایک ہیں- اُن میں جو فرق ہے، وہ اس کے ظاہری فارم (form) کے اعتبار سے ہے اور فارم کا یہ فرق اضافی (relative) ہے، نہ کہ حقیقی (real) - اِس نظریے کے مطابق، تمام موجود مذاہب سچے ہیں- اُن میں سے جس مذہب کو بھی آدمی اختیار کرے، وہ اس کے لیے نجات (salvation) کا ذریعہ بن جائے گا، نجات کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں-
جو لوگ وحدتِ ادیان کے اِس نظریے کو مانتے ہیں، وہ عام طورپر اِس کے حق میں دو دلیلیں دیتے ہیں- اُن کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہی واحد نظریہ ہے جس کے ذریعے دنیا میں سماجی ہم آہنگی (social harmony) قائم کی جاسکتی ہے- اُن کے نزدیک مختلف گروہوں کے درمیان ٹکراؤ اور تشدد کا سبب مذہبی اختلاف ہے- اگر یہ مان لیا جائے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، تمام مذاہب ایک ہیں تو مختلف گروہوںکے درمیان جاری رہنے والے ٹکراؤ اور تشدد کا خاتمہ ہوجائے گا- اُن کی دوسری دلیل یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلاف محض ظاہری ہے- گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام مذاہب حقیقتاً ایک ہیں- یہ دراصل ایک ہی ابدی سچائی ہے جو مختلف صورتوں میں ظاہر ہوئی ہے-
وحدتِ ادیان اور سماجی ہم آہنگی
اِس معاملے کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وحدتِ ادیان کے نظریے کا سماجی ہم آہنگی سے کوئی تعلق نہیں- بالفرض اگر یہ مان لیاجائے کہ تمام مذاہب ایک ہیں، تب بھی لوگوں کے درمیان بہت سے اختلاف (differences) باقی رہیں گے اور دوبارہ یہ مسئلہ موجود رہے گا کہ لوگوں کو اختلاف کی بنیاد پر ٹکراؤ سے کس طرح بچایا جائے- مثلاً تیرھویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگ مذہب کے نام پر ہوئی تھی- اس کے بعد پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ ، دونوں ایسے اختلاف کی بنیاد پر ہوئیں جن کا مذہب سے کو ئی تعلق نہ تھا-اصل یہ ہے کہ فرق واختلاف فطرت کا حصہ ہے- انسانی زندگی میں فرق واختلاف خود انسان کا پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر خود فطرت کے نظام کا حصہ ہے- ایک اسکالر نے درست طورپر کہا ہے کہ— فطرت یکسانیت سے نفرت کرتی ہے(Nature abhors uniformity)
حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے کا حل اختلاف کو مٹانا نہیں ہے، بلکہ اختلاف کو باقی رکھتے ہوئے اس کو مینج (manage) کرنا ہے- اِس معاملے میں ہم کو جس فارمولے کی ضرور ت ہے، وہ یہی ہے- جب فطری طورپر انسانوں کے درمیان اختلاف کو مٹانا ممکن نہ ہو تو ایسی کوئی تجویز صرف ایک رومانوی تخیل (romantic idea) ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں مسئلے کا حل-
اِس معاملے کا واحد عملی حل یہ ہے کہ زندگی کے دوسرے معاملات میں جو فارمولا اختیار کیا جاتا ہے، اُسی کو مذہبی اختلاف کے معاملے میں بھی اختیار کرلیا جائے- مثلاً ریاستوں کے درمیان سیاسی اختلاف کے معاملے میں بھی یہی فارمولا قابلِ عمل ہے- قرآن میں اِسی فارمولے کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: لکم دینکم ولی دین(
Follow one and respect all.
دوسری بات یہ کہ مذاہب کے درمیان فرق واختلاف کوئی برائی (evil) نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقت ایک رحمت (blessing) کی ہے- اِسی فرق واختلاف کی بنا پر یہ ممکن ہوتاہے کہ لوگوں کے درمیان ڈسکشن اور ڈائلاگ ہو اور اِس طرح نئے نئے پہلو واضح ہوتے رہیں- حقیقت یہ ہے کہ فرق واختلاف ایک فکری چیلنج (intellectual challenge) ہے اور فکری چیلنج ہمیشہ مفیدہوتاہے- آرنلڈ ٹائن بی کے الفاظ میں، چیلنج اور جوابِ چیلنج کا عمل (challenge-response-mechanism) ہی وہ واحد عمل ہے جس سے تمام ترقیاں ظہور میں آتی ہیں- اگر یہ عمل باقی نہ رہے تو ترقیوں کا بھی خاتمہ ہوجائے-
امر واقعہ اور وحدتِ ادیان
وحدتِ ادیان کانظریہ سچائی (truth) کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتاہے- انسان پیدائشی طورپر متلاشی حق (truth-seeker) ہے- ہر عورت اور مرد کے اندر یہ جذبہ چھپا ہوا ہے کہ وہ سچائی کو جانے، سچائی ہر ایک کا سب سے بڑا مطلوب ہے- یہ دراصل سچائی کی دریافت ہے جو کسی انسان کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اِس دنیا میں یقین (conviction) پر کھڑا ہو- یہ احساس کہ میں نے آخری سچائی کو دریافت کرلیا ہے، یہی اِس دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے- جو عورت یا مرد اِس احساس سے خالی ہوں کہ میں نے سچائی (truth) کو دریافت کرلیا ہے، ان کی حیثیت بلاشبہہ صرف ایک حیوان کی ہے، ایسا آدمی حقیقی معنوں میں، انسان کےدرجے تک نہیں پہنچا-
زندگی ایک مشکل امتحان ہے- اِس دنیا میں آدمی کو مختلف قسم کے ناموافق حالات میں جینا پڑتا ہے- ایسی حالت میں اس کو ایک یقین درکار ہے جس کے اوپر وہ کھڑا ہوسکے- یہ یقین کسی مادّی یافت (material gain)کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اِس محدود دنیا میں مادّی یافت ہمیشہ ناتمام ہوتی ہے اور ناتمام یافت کسی انسان کو لازوال یقین نہیں دے سکتی-
اِس محدود دنیا میں صرف ایک چیز ہے جو لامحدود ہے اور وہ سچائی (truth) ہے- سچائی کا تصور ایک ناقابلِ تقسیم تصور ہے- سچائی اپنے آپ میں کمال کو چاہتی ہے- جس سچائی کے ساتھ کمال کا تصور موجود نہ ہو، وہ بلاشبہہ سچائی نہیں- انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، اِس احساس میں جینا چاہتا ہے کہ میں نے اعلی سچائی کو پالیا ہے- ایسی حالت میں وحدتِ ادیان کا تصور ایک ایسا تصور ہے جو انسان کی فطرت سے ٹکراتا ہے، اور یہی ٹکراؤ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تصور درست نہیں-
تمام مذاہب حقیقتاً ایک ہیں — ایک غیر سائنٹفک نظریہ ہے- کوئی شخص یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اِس قسم کا بیان دے- جو شخص ایسا کہے، اُس سے فطری طورپر یہ سوال کیا جائے گا کہ تم کس حق کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہو- حقیقت یہ ہے کہ مذاہب کے بارے میں کوئی بیان آدمی صرف اپنی ذات کی نسبت سے دے سکتا ہے، دوسرے کی نسبت سے نہیں-
وحدتِ ادیان کے تصور کے تجزیہ کے دو خاص پہلو ہیں — ایک، یہ کہ اصولی یا نظری طورپر یہ تصور مبنی بر حقیقت ہے یا نہیں- اِس معاملےکا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا اِس طرح دنیا میں سماجی امن (social peace) آسکتا ہے کہ تمام ادیان کو ایک مان لیا جائے -
جہاں تک اِس معاملے کے اولین پہلو کا تعلق ہے، عملی طورپر یہ بات غیر ثابت شدہ ہے کہ تمام مذاہب ایک ہیں- اِس لیے کہ مختلف مذاہب کے درمیان اتنا زیادہ فرق ہے کہ ان کو ایک کہنا کسی بھی طرح ممکن نہیں- مثلاً کسی مذہب میں توحید (monotheism) کا عقیدہ ہے اور کسی مذہب میں وحدتِ وجود (monism) کا عقیدہ- اِسی طرح کسی مذہب میں ایک خدا کا تصور ہے اور کسی مذہب میں تین خدا کا تصور- اِسی طرح کسی مذہب میں نجات کا مدار عمل پر ہے اور کسی مذہب میں نجات کا مدار نسل پر- اِسی طرح کسی مذہب میں یہ تصور ہے کہ موت کے بعد فوراً دار الجزا شروع ہوجاتا ہے اور کسی مذہب میں اِس کے برعکس، پُنر جنم (rebirth) کا تصور ہے، وغیرہ- مختلف مذاہب کے درمیان اِس طرح کے بے شمار تضادات پائے جاتے ہیں- ایسی حالت میں یہ کہنا کہ ’’تمام مذاہب ایک ہیں‘‘، سرتاسر ایک غیر علمی بات ہے-
جو لوگ وحدتِ ادیان کی بات کرتے ہیں، اُن کا طریقہ یہ ہے کہ انھوں نے بطور خود مذہب کا ایک خود ساختہ معیار بنایا ہے اور اِسی خود ساختہ معیار کے تحت انھوں نے اعلان کردیا کہ تمام مذاہب ایک ہیں- مثلاً یہ قول کہ ’’تمام مذاہب کی منزل ایک ہے، راستے جداجدا ہیں‘‘، یہ صرف ایک تمثیل ہے اور اِس طرح کی تمثیل سے کوئی علمی بات ثابت نہیں ہوتی- دوسری بات یہ کہ تمام ادیان کو ایک ماننے سے سماجی امن قائم ہوجائے گا- یہ حل صورت ِحال کے غیر واقعی تصور پر مبنی ہے- واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اختلاف زندگی کا ایک حصہ ہے، نہ کہ صرف مذہب کا ایک حصہ- اگر وحدتِ ادیان کے نظریے کو مان لیا جائے، تب بھی لوگوں کے درمیان بے شمار اختلاف موجود رہتےہیں- ایسی حالت میں وحدتِ ادیان کا نظریہ اصل مسئلے کی نسبت سے، ایک غیر متعلق نظریہ ہے، وہ ہرگز اصل مسئلےکو حل کرنے والا نہیں-
اِس معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے، ایک ایسی مخلوق ہے جو صرف ایک چیز پر کامل یقین رکھ سکتا ہے- اِس دنیا میں جینے کے لیے آدمی کی یہ ضرورت ہے کہ وہ یقین کرے کہ اس نے واحد سچائی کو پالیا ہے- وہ ٹرتھ ود دی کیپٹل ٹی (Truth with the capital T) تک پہنچ گیا ہے- اِس دریافت کے بغیر انسان اِس دنیا میں کامل یقین پر کھڑا نہیں ہوسکتا-
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ تعددِ حقیقت (manyness of reality) کی بات کرتے ہیں، جو بظاہر یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام مذاہب سچے ہیں، وہ خود بھی اندر سے صرف ایک سچائی پر عقیدہ رکھتے ہیں- اِس کی ایک مثال مہاتما گاندھی کی ہے- وہ اِس مذہبی اصول کے زبردست داعی تھے کہ رام اور رحیم ایک ہیں- ان کے آشرم میں ہر صبح کو یہی گیت گایا جاتا تھا- لیکن 30 جنوری 1948 کو جب ایک تشدد پسند آدمی نے ان کو گولی مار کر ہلاک کردیا تو آخر وقت میں ان کی زبان سے جو کلمہ نکلا، وہ ’’ہِے رام‘‘ تھا، نہ کہ ہے رام، ہے رحیم- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگر چہ کہنے کے لیے یہ کہتے تھے کہ رام اور رحیم ایک ہیں، لیکن وہ جس یقین پر کھڑے ہوئے تھے، وہ وہی تھا جو آخر وقت میں ان کی زبان سے نکلا-
حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ ادیان کا تصور دین کی نفی ہے- انسان کو دین کی ضرورت کس لیے ہے- وہ اس لیے ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے، ایک متلاشی حق حیوان ہے- انسان کی یہ فطرت صرف اُس وقت ایڈریس ہوسکتی ہے، جب کہ وہ ایک دین کو واحد سچائی کے طور پر دریافت کرسکے- اِس سے کم تر درجے کا کوئی عقیدہ انسان کی فطرت کو مطمئن نہیں کرسکتا-
اِس ضمن میں یہ بحث غیر متعلق ہے کہ کسی کا یہ سمجھنا کہ اس نے جس سچائی کو دریافت کیا ہے، وہی سچائی ہے اور دوسری کوئی سچائی نہیں، اِس سے دوسرے کے بارے میں نفرت پیدا ہوتی ہے- یہ اعتراض بلا شبہہ سچائی کی تصغیر ہے- حقیقت یہ ہے کہ سچائی جب کسی شخص کو حاصل ہوتی ہے تو وہ اُس کو ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر کردیتی ہے- اگر کوئی شخص سچائی کو پانے کا دعوی کرے اور اِسی کے ساتھ وہ دوسروں کے بارے میں منفی ذہن میں مبتلا ہو تو ایسا شخص گویا یہ اعلان کررہا ہے کہ میں نے سچائی کو نہیں پایا، میں کسی اور چیز پر کھڑا ہوا ہوں، نہ کہ سچائی پر-
اِسی طرح، وحدتِ ادیان کے وکیل یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ وحدتِ ادیان کو نہیں مانتے، وہ یہ عقیدہ بنا لیتے ہیں کہ نجات (salvation) صرف اُن کے لیے ہے، دوسرے کے لیے نجات نہیں- یہ بات سرتا سر بے بنیاد ہے- حقیقت یہ ہے کہ نجات تمام تر خدا کے دائرہ (domain)کی چیز ہے- نجات کا فیصلہ کرنے والا صرف خدا ہے، کوئی بھی انسان اِس معاملے میں سرے سے فیصلہ کرنے کا مطلق کوئی حق نہیں رکھتا- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جو شخص یا گروہ یہ سمجھ لے کہ ہم نجات یافتہ ہیں اور دوسرے لوگ نجات یافتہ نہیں، ایسے لوگ خود اپنے بارے میں یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ خود باطل پر ہیں- کیوں کہ کسی بھی شخص یا گروہ کو یہ حق نہیں کہ جو فیصلہ آخرت میں خدا کی عدالت میں ہونے والا ہے، اس کا فیصلہ وہ اِسی دنیا میں خدا کی طرف سے کردے-
وحدتِ ادیان کو ماننے والے اپنے نظریے کی تائیدمیں ایک بات یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی اصل اطاعت ہے، نہ کہ کسی مذہبی گروہ سے وابستگی- یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اطاعت کا ماڈل کیاہے- کوئی شخص یہ نہیں کرسکتا کہ مذہبی کتاب سے لفظ اطاعت لے اور اس کا مفہوم خود اپنے ذہن سے متعین کرے- اِس قسم کا استدلال ایک غیر سنجیدہ فعل ہے، وہ کوئی علمی استدلال نہیں-
اِس سلسلے میں جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، قرآن میں بلا شبہہ اصل اہمیت اطاعت کو دی گئی ہے، لیکن اسی کے ساتھ قرآن میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ اطاعت کا ماڈل کیاہے- یہ ماڈل اللہ کا رسول ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ سنت کی شکل میں رسول کی زندگی کا جو نمونہ (model) مستند طورپر موجود ہے، وہی نمونہ ہمیشہ کے لیے اطاعت کا واحد ماڈل رہے گا- کسی کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ قرآن سے لفظ اطاعت لے اور اس کا عملی نمونہ بطور خود وضع کرے-
قرآن میں دوسرے رسولوں کو بھی نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت، معمولی لفظی فرق کے ساتھ، دو سورتوںمیں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ۭ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (
قرآن کی اِس آیت کا خطاب محدود طورپر صرف قدیم مکہ یا قدیم مدینہ کے مخالفین سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پوری انسانی تاریخ کے ربانی سفرسے ہے- آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے پچھلے ہزاروں سا ل کے دوران مختلف مقامات پر اپنے پیغمبر بھیجے، لیکن مخالفین نے اُن کے مشن کو آگے بڑھنے نہیں دیا- اب اللہ نے تاریخ میں مداخلت کرتے ہوئے اِس مشن کا چارج خود لے لیا ہے- یہی مداخلت اِس بات کی ضمانت ہے کہ خدا کا یہ مشن اپنی آخری تکمیل تک پہنچے، کوئی بھی طاقت اس کے سفر کو روکنے میں کامیاب نہ ہو-
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلاب آیا، وہ اِسی فیصلۂ الہی کا نتیجہ تھا- اِس انقلاب کا سب سے زیادہ انوکھا پہلو یہ تھا کہ وہ تقریباً
بنیادی طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے دو دور تھے — ایک تھا، فاؤنڈیشن پیریڈ (foundation period) اور دوسرا تھا، توسیعی پیریڈ (expansion period)- توسیعی پیریڈ کی تکمیل بعد کے دور میں بھی ممکن ہے، لیکن فاؤنڈیشن پیریڈ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلی نسل میں اپنی تکمیل تک پہنچ جائے-
انسان کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے پہلی نسل میں فاؤنڈیشن پیریڈ کی تکمیل اِس عالمِ اسباب میں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں- یہ صرف اللہ کے لیے ممکن تھا اور اللہ نے خصوصی مداخلت کرکے ایسے حالات پیدا کیے کہ رسول ا ور اصحابِ رسول کے ذریعے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ پہلی نسل میں اِس انقلاب کو مکمل کرسکیں- یہ ایک ایسا استثنائی واقعہ تھا کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں- مورخین، اسلامی انقلاب کے اِس استثنائی پہلو کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن وہ اِس کی توجیہہ کرنے سے قاصر ہیں- اِس کا سبب یہ ہے کہ مورخین مادی اسباب کی روشنی میں واقعات کی توجیہ کرتے ہیں، جب کہ یہ واقعہ خدا کی برتر مداخلت کا نتیجہ تھا اور خدا کی برتر مداخلت ایک ایسا عامل (factor) ہے جس سے مورخین شعوری طور پر واقف نہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ کو جو انقلاب لانا مطلوب تھا، اس کو قرآن میں اتمامِ نور (
اِس مقصد کے لیے مختلف تدبیریں کی گئیں- مثلاً کعبہ کو تمام عرب قبائل کے بتوں کا مرکز بنا دیاگیا، تاکہ تمام قبائل کے افراد مکہ میں حاصل ہوجائیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال (570ء) میں یمن کے حاکم ابرہہ نے ہاتھیوں کی فوج کے ذریعے مکہ پر حملہ کیا تھا، تاکہ کعبہ کوڈھا دیا جائے- اگر ابرہہ کا منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو کعبہ کا وجود مٹ جاتا اور پیغمبر اسلام کو یہ موقع حاصل نہ ہوتا کہ وہ مکہ میں تمام عرب قبائل کے افراد کو یکجا طور پر پاسکیں- اُس زمانے میں قبیلہ قریش کو پورے عرب کی ذہنی قیادت (intellectual leadership) کا مقام حاصل تھا- مکہ میں ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ وہاں کے تمام اعلی ذہن پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گئے- پھر مدینہ کے دونوںقبائل (اوس وخزرج) کے درمیان خوں ریز جنگ ہوئی- اِس کے نتیجے میں دونوں قبائل بے حد کمزور ہوگئے- اس طرح پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ وہ دس سال کے اندر پورے مدینے کو اسلام کے فولڈ میں لاسکیں- تمام قبائل کے بتوں کا مرکز بن جانے کی بنا پر عرب کے قبائل کعبہ کو پورے عرب کا مذہبی اور سیاسی مرکز سمجھتے تھے- چناں چہ جب مکہ فتح ہوا تو نہایت تیزی سے تمام عرب قبائل نے پیغمبر اسلام کی قیادت کو قبول کرلیا-
اسی طرح اُس زمانے میں عرب کی سرحدوں پر ایک بڑا واقعہ پیش آیا- اِس واقعے کا ذکر قرآن کی سورہ الروم (30) کے آغاز میں موجود ہے- وہ یہ کہ اُس زمانے میں عرب کی سرحدوں پر دو بڑے ایمپائر قائم تھے- ایک، ساسانی ایمپائر اور دوسرے، بازنتینی ایمپائر- عین اُس زمانے میں دونوں کے درمیان فوجی ٹکراؤ ہوا- پہلے ساسانی ایمپائر نے رومی ایمپائر کو تباہ کیا- اس کے بعد رومی بادشاہ نے اپنی طاقت کو دوبارہ مجتمع کرکے ساسانی ایمپائر پر حملہ کیا اوراس کو تباہ کردیا- چناںچہ دونوں ایمپائر بہت زیادہ کمزور ہوگئے- اس طرح اصحابِ رسول کو یہ موقع مل گیا کہ وہ نہایت آسانی سے ایشیا اور افریقہ کے درمیان پھیلے ہوئے اِس پورے علاقے کو اسلامی علاقے میں شامل کرسکیں-
تاریخِ اسلام: ایک مطالعہ
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا-آپ کی مسلسل جدوجہد سے وہاں ایک ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے-رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے ساتویں صدی کے نصف اول میں ایک انقلاب آیا- مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ یہ تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا انقلاب تھا- مثلاً امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے 1978 میں شائع شدہ اپنی کتاب (The 100) میں لکھا ہے کہ — محمد تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
Muhammad was the only man in history who was supremely successful on both, the religious and secular levels.
اِسی طرح انڈیا کے ایک سیاسی لیڈر ایم این رائے (M. N. Roy) کی کتاب ’دی ہسٹاریکل رول آف اسلام (The Historical Role of Islam) ہے جو 1939 میں دہلی سے چھپی تھی- اِس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ — اسلام کی توسیع تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
حال میں برطانیہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے موضوع پر ایک انگریزی کتاب چھپی ہے- اُس کا نام یہ ہے:
The Prophet Muhammad: A Biography by Barnaby Rogerson, Little , Brown, UK 2003, p. 240
برطانی مصنف راجرسن نے اپنی اِس کتاب میں لکھا ہے کہ — پیغمبر اسلام کو جو عظیم کامیابی حاصل ہوئی، اس کے لحاظ سے وہ بلاشبہہ تاریخ کے سپر ہیرو (superhero) تھے- تاہم پیغمبر اسلام کی غیر معمولی کامیابی کا اعتراف کرتےہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی یہ کامیابی محض اتفاقی (mere accidental) تھی(صفحہ 4)-
سیکولر مبصرین عام طورپر اِس طرح کے الفاظ بولتے ہیں- جس واقعہ کی توجیہ وہ معلوم اسباب کے تحت نہ کرسکیں، اُس کو وہ ’’اتفاق‘‘ کا نتیجہ قرار دے دیتے ہیں- مگر اتنا بڑا واقعہ جو پوری تاریخ میں واحد استثنا کی حیثیت رکھتا ہو، وہ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتا-حقیقت یہ ہےکہ یہ ایک خدائی منصوبہ (divine plan) تھا، جو رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے انجام پایا- اِس کا ظہور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کے زمانے میں ہوا اور خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اس کی تکمیل ہوئی-
اللہ کا یہ منصوبہ تھاکہ توحید کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کیا جائے- اِس مقصد کے لیے قدیم دور میں اللہ نے بہت سے پیغمبر بھیجے- مگر اِن پیغمبروں کے ذریعے کوئی ٹیم نہیں بنی- اِس لیے قدیم زمانے میں مطلوب انقلاب برپا نہ ہوسکا- اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ بنایا- اِس منصوبے کے تحت حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسا دیا- اِس واقعے کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے: رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم (
اِس صحرائی ماحول میںلمبی مدت تک توالد وتناسل کے ذریعے ایک جان دار قوم تیارہو ئی- اِسی قوم کے اندر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی- پھر اِسی قوم کے اندر کام کرکے وہ ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے-
یہ پورا معاملہ ایک خدائی منصوبے کے تحت وجود میں آیا- مکہ میں مقدس کعبہ کی تعمیر اِسی منصوبے کا ایک حصہ تھی- بعد کو سارے عرب میں شرک پھیل گیا- یہ قبائلی دور تھا- ہر قبیلے کا ایک الگ بت تھا- چناں چہ یہاں ایسے اسباب پیش آئے کہ کعبہ 360 بتوں کا مرکز بن گیا-
یہ قدیم تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا- اِس سبب سے یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کی اشاعت کے لیے سارے عرب میں سفر نہ کرنا پڑے، بلکہ مکہ ہی میںآپ کو تمام قبائل کے نمائندے حاصل ہوجائیں- کیوں کہ کعبہ میں تمام قبائل کے بتوں کی موجودگی کی بنا پر ایسا ہوتا تھا کہ مکہ میں مسلسل طور پر وہ چیز ہوتی رہتی تھی جس کو آج کل کی زبان میں کُل عرب اجتماع (all Arab assembly) کہا جاسکتا ہے-
اِس کے بعد بار بار ایسے واقعات پیش آئے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ تیزرفتاری کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کرسکیں- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت پر غور کیجئے- غزوۂ بدر کی نسبت سے، قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْ یَکْبِتَھُمْ (
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’طَرَف‘‘ کا لفظ حصۂ بہتر (better part)کے معنی میں ہے، یعنی اہلِ کفر کے بہتر حصے کو کاٹ کر جدا کردینا اور ’یکبتہم‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بقیہ حصہ کو ہلاک کرکے ختم کردینا- ٹھیک یہی واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا- پہلے مکی دور کی تیرہ سالہ دعوتی جدوجہد کے دوران مکہ کے صالح افراد کو ایمان کی توفیق ملی اور وہ اسلام قبول کرکے پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گئے- ’قطعِ طرف‘ کا یہی واقعہ ہے جس کا ذکر حضرت خالد بن الولید نے اِن الفاظ میں کیا تھا: دخل الناس فی الإسلام ، فلم یبق أحد بہ طَعْم (البیہقی: 4/345 ) یعنی مکہ کے بہترین افراد اسلام میں داخل ہوگئے- اب مکہ میں کوئی باذوق آدمی (man of taste) باقی نہیں رہا- ’یکبتہم‘ کا لفظی مطلب ہے ذلیل کرنا- یہاں مراد یہ ہے کہ مکہ کے مخالفین جوچڑھائی کرکے ایک ہزار کی تعداد میں مدینہ آئے تھے، اُن کے 70 طاقت ور افراد قتل ہوگئے اور اُن کو ذلیل وخوار ہو کر مکہ واپس جانا پڑا-
عرب کا اسلامائزیشن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جوکامیابی حاصل ہوئی، اس میں ایک بڑا دخل اُس واقعے کا ہے جس کو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کہا جاتاہے- یہ ایک انوکھی تدبیر تھی جس کو پوری تاریخ میں کسی نے استعمال نہیں کیا تھا- یہ مکمل طورپر ایک اجتہادی تدبیر تھی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 عیسوی میں شروع کیا- یہ زمانہ جارحانہ شرک اور مذہبی عدم رواداری (religious intolerance) کا زمانہ تھا- اِس بنا پر وہاں فریقِ ثانی کی طرف سے مسلسل طورپر ٹکراؤ اور جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا- اِس طرح کے ماحول میں دعوتِ توحید کا کام پوری طرح نہیں ہوسکتا تھا- توحید کی آئڈیالوجی پیغمبر اسلام کے مشن کی سب سے بڑی طاقت تھی، مگر طرفین کے درمیان تشدد کے ماحول کی بنا پر یہ موقع نہ تھا کہ یہ طاقت پوری طرح ظاہر ہو اور لوگوں کو مسخر کرے-
اُس وقت اللہ کی خصوصی توفیق سے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی کوئی نظیر تاریخ میں موجود نہ تھی- وہ تدبیر یہ تھی کہ فریقِ ثانی کے تمام مطالبات کو یک طرفہ طورپر مان لیا جائے، تاکہ فریقین کے درمیان معتدل ماحول قائم ہوجائے اور کسی رکاوٹ کے بغیر دعوتِ توحید کا کام انجام پاسکے- یہ تدبیر بلاشبہہ ایک عظیم تدبیر تھی، اِسی لیے اُس کو قرآن میں فتحِ مبین (
صلح حدیبیہ کی اِس تدبیر سے دو بڑے فائدے حاصل ہوئے- ایک، یہ کہ صلح حدیبیہ سے پہلے فریقین کا مقابلہ میدانِ جنگ میں ہوتا تھا، اور جنگ کا طریقہ صرف مسئلے کو بڑھاتا ہے، وہ مسئلے کو کم نہیں کرتا- صلح حدیبیہ کا یہ فائدہ ہوا کہ طرفین کا مقابلہ عقل ا ور فطرت کے میدان میں ہونے لگا، اور جب عقل اور فطرت کے میدان میں مقابلہ ہو تو توحید کی آئڈیالوجی ہمیشہ غالب رہے گی- وہ عقل کو ایڈریس کرے گی اور انسان کی فطرت مسخر ہوتی چلی جائے گی- اِسی کا یہ نتیجہ تاریخ نے دیکھا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے پیروؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ صرف تعداد ہی مکہ کی پرامن فتح کے لیے کافی ہوگئی-
صلح حدیبیہ کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قریشِ مکہ کی طرف سے جنگ کا خطرہ باقی نہیں رہا- اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ موقع مل گیاکہ وہ اپنے مشن کو پورے عرب میں پھیلا سکیں- اِس سے پہلے یہ واقعہ پیش آیا کہ پیغمبر اسلام کا دعوتی پیغام تمام عرب قبائل میں پھیل گیاتھا- عمومی طور پر لوگوں کے دلوں میں توحید کے لیے نرم گوشہ (soft corner) پیدا ہوچکا تھا، لیکن قریش سے حالتِ جنگ قائم ہونے کی بنا پر پیغمبر اسلام کو یہ موقع نہیں مل رہا تھاکہ آپ کھلے طورپر اِس دعوتی امکان کو استعمال کریں- اب آپ نے یہ کیا کہ مدینہ سے تمام عرب قبائل کی طرف وفود بھیجنے شروع کیے- وفود کا یہ طریقہ بھی قدیم زمانے میں ایک نیا طریقہ تھا- یہ طریقہ کامیاب ہوا اور بہت کم مدت میں پورا عرب اسلامائز ہوگیا-
پیغمبر اسلام کا مشن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسان کی لمبی تاریخ کی ایک درمیانی کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں- آپ سے پہلے کثیر تعداد میں خدا کے پیغمبر آئے - اِن پیغمبروں کے زمانے میں بلا شبہہ توحید کا فکری اظہار ہوا، لیکن توحید کی بنیاد پر عملاً کوئی فکری انقلاب برپا نہ ہوسکا- اِسی بنا پر پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا دین محفوظ بھی نہ رہا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے اللہ نے ایک نئی منصوبہ بندی کی- وہ منصوبہ بندی یہ تھی کہ صحرائی ماحول میں ایک نئی نسل پیدا کی جائے جس کے افراد اپنی اصل فطرت پر قائم ہوں- اِسی نسل میں پیغمبر اسلام کا ظہور ہوااور آپ کی دعوتی جدوجہد کے ذریعے اِسی نسل کے اندر سے وہ افراد پیدا ہوئے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے-
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے تاریخ میں جو انقلاب آیا، اُس کے دو پہلو تھے — ایک، یہ کہ اس کے ذریعے خدا کی کتاب محفوظ ہوگئی- پیغمبر کے ذریعے انسانی زندگی کا ایک مستند ماڈل (authentic model) تیار ہوگیا- خداکے دین کی ایک مستند تاریخ بن گئی، جب کہ اِس سے پہلے خدا کے دین کی کوئی مستند تاریخ نہیں بنی تھی، وغیرہ-
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے جو عظیم انقلاب آیا ، اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا طاقت ور عمل (strong porcess) جاری ہوا جو آخر کار اُن تمام ترقیوں تک پہنچا جن کو عام طور پر اہلِ مغرب کی طرف منسوب کیاجاتا ہے- یہ تمام ترقیاںخدا کے دین کے موافق ترقیاں تھیں- اِن ترقیوں کے ذریعے انسان کو شکر کا اعلی فریم ورک ملا- اِن ترقیوں کے ذریعے معرفت کے آفاقی دروازے کھلے- اِن ترقیوں کے ذریعے حق کی عالمی اشاعت کے ذرائع حاصل ہوئے، وغیرہ-
غیر خدا پرست انسان کی تائید
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اظہارِ دین اور اتمامِ نور کا جو خدائی منصوبہ تھا، وہ ایک عظیم عالمی منصوبہ تھا- وہ اتنا بڑا منصوبہ تھاکہ صرف اہلِ ایمان کی مدد سے وہ انجام نہیں پاسکتا تھا- اللہ تعالی نے اِس انقلاب کو یقینی بنانے کے لیے یہ کیا کہ اہلِ ایمان کے علاوہ، دوسرے گروہوں سے تائید (support) کا کام لیا- اسلام کی تاریخ میں اِس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں- یہاں وضاحت کے لیے صرف دو مثالیں درج کی جاتی ہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 610 عیسوی میں مکہ میں ہوئی - جیسا کہ عرض کیاگیا، یہاں تائید کا ایک انوکھا معاملہ پیش آیا- مکہ میں قریش کے نام سے ایک قبیلہ تھا جو کعبہ کا متولی تھا- اُس نے اپنی سیادت کی توسیع کے لیے یہ کیا کہ عرب کی سرزمین میں موجود تمام قبائل کے بت لاکر کعبہ کی عمارت میں رکھ دیے- اِس طرح دھیرے دھیرے کعبہ تمام عرب قبائل کا ایک عبادتی مرکز بن گیا- ہر قبیلے کے لوگ اپنے بت کی زیارت اور پرستش کے لیے مکہ آنے لگے- اِس طرح مکہ نے تمام عرب قبائل کے لیے مقامِ اجتماع کی حیثیت اختیار کرلی- تمام عرب قبائل کے لوگ مسلسل طورپر مکہ آنے لگے- اِس طرح پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل گیا کہ وہ مکہ میں رہتے ہوئے تمام عرب قبائل میں اپنا مشن پھیلا سکیں— قریش اُس وقت ایک مشرک قبیلے کی حیثیت رکھتے تھے- اِس کے باوجود اللہ تعالی نے اُن سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے موحدانہ مشن کی تائید کا کام لیا-
اہلِ مغرب کے ذریعے تائید
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں غیر اہلِ ایمان کی تائید کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہے جو بعد کے زمانے میں پیش آیا- یہ اہلِ مغرب کے ذریعے تائید فراہم کرنے کا واقعہ تھا- یہ واقعہ مغرب کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance)کے بعد پیش آیا-
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلٍّ مَّا سَأَلْتُمُوہُ (
یہ ٹکنالوجی صرف مغربی تہذیب کے ذریعے دریافت ہوئی اور پھر ضرورت کی بے شمار نئی چیزیں انسان کے لیے قابلِ حصول ہوگئیں- یہ اشیاءِ ضرورت صرف اشیاءِ ضرورت نہ تھیں، بلکہ وہ شکر خداوندی کے نئے اور عظیم تر آئٹم کی حیثیت رکھتی تھیں-
اِسی طرح قرآن میں بتایا گیاہےکہ پیغمبر کا مشن سارےاہلِ عالم کے لیے ہے(
اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آفاق اور انفس میں اللہ کی آیات (signs) چھپی ہوئی ہیں- یہ آیات ظاہر ہو کر انسان کے لیےتبیینِ حق کا ذریعہ بنیں گی- یہ گویا کائناتی سطح پر اعلی معرفت کے ظہور کی پیشگی خبر تھی، مگر قدیم زمانے میں اس کا ظہور نہ ہوسکا- اِس کا ظہور پہلی بار موجودہ زمانے میں اہلِ مغرب کی سائنسی دریافتوں کے ذریعے ہوا- یہ بھی غیر اہلِ ایمان کی طرف سے پیغمبر اسلام کے مشن کی تائید کا ایک اہم معاملہ تھا-
یہ خارجی تائید اپنے طریقے کے اعتبار سے، عین وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے- پیغمبرانہ مشن کے لیے یہ خارجی تائید کوئی اتفاقی معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک ایسا معاملہ تھا جو اللہ کی طرف سے پیشگی طور پر مقدر کردیاگیا تھا- اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث:3062)- اِس حدیث میں موید کے لیے ’فاجر‘کا لفظ استعمال ہوا ہے- فاجر کا مطلب ہے — بدکردار(sinner)- اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے پیغمبر کے مشن کی خارجی تائید کا جو کام ہے، وہ صرف مخلصین اور مومنین کے ذریعے نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایسے افراد کے ذریعے بھی ہوگا جو اخلاقی اعتبار سے بد کردار اور گناہ گار ہوں گے-
مذکورہ دونوں واقعات پیغمبرانہ مشن کے لیے عظیم تائیدی واقعات تھے، مگر یہ دونوں واقعات اہلِ ایمان کی تائید سے پیش نہیں آئے، بلکہ وہ ایسے لوگوں کے ذریعے پیش آئے جو فقہ اسلامی کی اصطلاح میں ’’مشرک اور فاجر‘‘تھے- فاجر شخص کے ذریعے تائید ِ دین کے یہ واقعات صرف تائید کے واقعات نہیں ہیں، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ دلیلِ نبوت بھی ہیں-
اہلِ مغرب اور مغربی تہذیب
موجودہ زمانے میں مسلم مصنفین نے ہزاروں کی تعداد میںایسی کتابیں اور مقالات شائع کیے ہیں جن کا موضوع اہلِ مغرب یا مغربی تہذیب ہوتا ہے- اِس قسم کی تحریریں عربی، اردو، انگریزی اور دوسری زبانوں میں چھپی ہیں اور اُن کو کسی بھی مسلم کتب خانے میں دیکھا جاسکتا ہے- مثال کے طورپر چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
جاہلیة القرن العشرین، محمد قطب ،
دار الشروق، القاہرة 1993، عدد الصفحات:
عالمِ اسلام دجالی تہذیب کی زدمیں ، محمد موسی بھٹو، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ،صفحات:
Islam at the Crossroads, Leopold Muhammad Asad
اِس قسم کی کتابوں میں مغرب اور مغربی تہذیب کی جو تصویر پیش کی گئی ہے، وہ تمام تر منفی تصویر ہے- اِس قسم کی کتابوں کا مشترک خلاصہ یہ ہے کہ مغرب اخلاقی پستی کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے- اِن تحریروں کے مطابق، مغرب نام ہے— مادیت اور اباحیت اور ہوس پرستی اور لادینیت کا-گویا اہلِ مغرب کا کیس وہی ہے جس کو حدیث میں ’الرجل الفاجر‘ کہاگیاہے، یعنی بدکردار اور گناہ گار-
اب بالفرض اگر یہ درست ہو کہ اہلِ مغرب کا کیس ’’فاجر‘‘ انسان کا کیس ہے، تب بھی مسلم مقررین اور محررین اِس معاملے میں کامل طورپر غلط قرار پائیںگے- کیوں کہ اِس معاملے کا دوسرا معلوم پہلو یہ ہے کہ یہی اہلِ مغرب ہیں جنھوںنے بے پناہ محنت کے بعد اُن تمام تائیدی چیزوں کو دریافت (discover) کیا جن کا ذکر بطور پیشین گوئی قرآن میں کیا گیا تھا- گویا کہ یہی وہ مویّد لوگ ہیں جو حدیث کی مذکورہ پیشین گوئی کا مصداق ہیں- ایسی حالت میں ، مسلم مقررین اور محررین کا فرض تھاکہ وہ کہتے کہ اہلِ مغرب کے ’’فاجر‘‘ ہونے کے باوجود ہمیں اُن کے اِس کنٹری بیوشن کا اعتراف کرنا ہے، کیوں کہ یہی لوگ ہیں جنھوں نے تائید دین کے وہ تمام اسباب مہیا کیے ہیں جو آج ہمارے لیے دینِ خداوندی کی نسبت سے بے حد ضروری ہیں- یہ اسباب ہمارے لیے شکر اور معرفت کا اعلی آئٹم ہیں اور اِسی کے توسط سے پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دعوت الی اللہ کے کام کو عالمی سطح پر انجام دیاجاسکے-
تاریخ کا مثبت تصور
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے عام طورپر تاریخ کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- ان کو پوری تاریخ فساد اور خوں ریزی کا ایک جنگل معلوم ہوتی ہے- آدم کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے بھی یہ شبہہ ظاہر کیا تھا (
اللہ تعالی نے ایک مظاہرے کے ذریعے فرشتوں کو بتایا کہ تم پورے انسانی مجموعے کے اعتبار سے تاریخ کو دیکھ رہے ہو، اِس لیے تاریخ تم کو فساد اور خوں ریزی کا جنگل معلوم ہوتی ہے- لیکن تم تاریخ کو افراد کے اعتبار سے دیکھو، پھر تم کو نظر آئے گا کہ تاریخ کے ہر دور میں بہترین افراد پیدا ہورہے ہیں- یہی استثنائی افراد تاریخ کا حاصل ہیں-
تاریخ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والا یہ کرے کہ وہ انسان کی طرف سے آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کو الگ کرکے تاریخ کا مشاہدہ کرے- خالق نے چوں کہ انسان کو آزادی دی ہے، اِس لیے آزادی کو غلط استعمال کرنے کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں-
یہی وہ چیز ہے جس کو فلاسفہ عمومی حیثیت دے کر، پرابلم آف اول (problem of evil) کہتے ہیں- مگر انسان کی آزادی مصلحتِ امتحان کی بنا پر ہے، اِس لیے تاریخ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آزادی کے غلط استعمال کے پہلو کو الگ کرکے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے- یہ حکمت تاریخ کے ہر دور کے لیے ضروری ہے، سیکولر تاریخ کے دور کے لیے بھی اور اسلامی تاریخ کے دور کے لیے بھی-
تاریخ میں خدائی مداخلت
1- ہاجرہ اور اسماعیل کے ذریعے عرب کے صحرا میں ایک نئی نسل بنانا بعد کو اِسی نسل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پیدا ہوئے -
2- کعبہ کا تمام قبائل کے بتوں کا مرکز بن جانا- اِس طرح مکہ میں آل عرب اجتماعات (All Arab Assembly) کا وقوع ممکن ہوجانا-
3- یمن کے حاکم ابرہہ کا کعبہ پر حملہ، مگر اس کی ناکامی کی بنا پر کعبہ کی اجتماعی حیثیت کا محفوظ رہنا-
4- مکہ میں تیرہ سالہ دعوتی جدوجہد کے ذریعے تمام صالح افراد کا اسلام میں داخل ہوجانا- اِنھیں منتخب افراد کو قرآن میں خیر امت (
5- ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ بدر کا پیش آنا اور اِس غزوہ میں فرشتوں کی مدد کے ذریعہ تمام سرکش افراد کا قتل کیا جانا-
6- ہجرت سے پانچ سال پہلے جنگِ بُعاث میں دو قبیلوں کے درمیان جنگ ہونا، اِس جنگ میں قبائلی سرداروں کا زور ٹوٹ جانا-
7- حدیبیہ (6 ہجری) کی یک طرفہ صلح کے بعدسارے عرب میں امن قائم ہونا اور سارے عرب میں اسلام کی اشاعت-
8- فتح مکہ کے بعد عرب قبائل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیداہونا، اس کے بعد عام الوفود کے ذریعے تمام قبائل کو تیزی سے اسلام میں داخل کرلینا-
9- بازنتینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کے درمیان جنگی ٹکراؤ ہونا اور اِس دو طرفہ جنگ میں دونوں کا آخری حد تک کمزور ہوجانا-
10- صلیبی جنگوں کے بعد مخصوص اسباب کے تحت، اہلِ مغرب کا سائنسی مطالعے کی طرف راغب ہونا اور اسلام کے موافق، فطرت کے حقائق کا انکشاف-
اوپر دس ایسے عوامل (factors) کو دکھایا گیا ہے جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں سپورٹنگ فیکٹرس (supporting factors)کا رول انجام دیا- یہ تمام اسباب غیر عادی (unusual) قسم کے تھے جو بلاشبہہ پیغمبر کے اپنے اختیار سے باہر تھے، حتی کہ بظاہر پیغمبر اسلام نے ان کی بابت سوچا بھی نہ تھا- اِن عوامل کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے مشن میں ایسی غیر معمولی کامیابی حاصل کرسکیں- یہ ناقابلِ توجیہہ واقعہ اِس بات کا ثبوت ہےکہ پیغمبر اسلام کو اپنے مشن میں اللہ کی خصوصی مدد حاصل تھی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تین مرحلے تھے— پہلا مرحلہ مردانِ کار یا ٹیم کی تیاری کا مرحلہ تھا- یہ پہلا مرحلہ آپ کی پیدائش سے پہلے لمبی مدت میں بنو اسماعیل کی صورت میں تشکیل پایا- دوسرا مرحلہ مختصر مرحلہ ہے جو پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کی زندگی میں پورا ہوا- تیسرا مرحلہ دوبارہ لمبی مدت کا مرحلہ تھا جو کہ مغربی تہذیب کی صورت میں اپنی تکمیل تک پہنچا-
نورِ ہدایت کا اتمام
پیغمبرانہ مشن کے سلسلے میں ایک منصوبۂ الہی کو اظہارِ دین کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- اظہارِ دین اور اتمامِ نور کی آیت قرآن کی تین سورتوں میں آئی ہے- سورہ الصف کے الفاظ یہ ہیں: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ۭ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (
قرآن کی اِس آیت میں اظہارِ دین سے کچھ لوگ سیاسی غلبہ مراد لیتے ہیں، مگر آیت کے الفاظ سے اِس مفہوم کاکوئی تعلق نہیں- قرآ ن کی آیت میں جو لفظ استعمال کیاگیا ہے، وہ لیظہرہ علی الدین کلّہ ہے، نہ کہ لیظہرہ علی الأرض کلّہا ، یعنی اِس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے، وہ زمین پر ہونے والا غلبہ نہیں ہے، بلکہ وہ دین یا اَدیان پر ہونے والا غلبہ ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس سے مراد فکری اور نظریاتی غلبہ ہے، نہ کہ سیاسی اور حکومتی غلبہ- دوسرے لفظوں میں، اِس سے مراد غلبہ بہ مقابلہ آئڈیالوجی ہے، نہ کہ غلبہ بہ مقابلہ سیاسی اقتدار- اِسی طرح قرآن کی مذکورہ آیت میں ’متمّ نورہ‘ کا لفظ آیا ہے- قرآن میں ’متم حُکمہ‘ کا لفظ نہیں آیا ہے، یعنی اِس سے مراد نور کا اتمام ہے، نہ کہ حکومت کا اتمام- اِس اتمام کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی مسلمانوں کی حکومت مکہ مدینہ میں قائم ہوئی ہے، آئندہ ان کی حکومت سارے عالم میں قائم ہوجائے گی-
پیغمبر کا مشن اصلاً ایک غیر سیاسی مشن (non-political mission)ہوتا ہے- پیغمبر کے مشن کو بتانے کے لیے قرآن میں جو الفاظ آئے ہیں، اُن میں سے کوئی بھی لفظ سیاسی لفظ نہیں- مثلاً انذار، تبشیر، ابلاغ، دعوت، شہادت، وغیرہ- ایسی حالت میں پیغمبر کے مشن کے اظہار یا اتمام کو بتانے کے لیے وہی تعبیر درست ہوسکتی ہے جو پیغمبرانہ مشن کی روح کے مطابق ہو، اور وہ بلاشبہہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے عالمی سطح پر خدا کے پیغام کی توسیع واشاعت-
پیغمبر کے مشن کی سیاسی تعبیر کرنا یا اس کو حکومت کی اصطلاحات میں بیان کرنا کوئی سادہ بات نہیں- یہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کی تردید کے ہم معنی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو مساوات (equation) ہے، وہ حاکم اور محکوم کی مساوات ہے، جب کہ صحیح تصور کے مطابق، اہلِ ایمان اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو مساوات ہے، وہ داعی اور مدعو کی مساوات ہے، نہ کہ حاکم اور محکوم کی مساوات-اِس تصور کے مطابق، پیغمبر کے مشن کا اظہار اور اتمام بہ اعتبارِ ’’نور‘‘ متعین کیا جائے گا، نہ کہ بہ اعتبارِ حکومت، اوروہ یہ ہے کہ پیغمبر کے مشن کے ساتھ ایسے اسباب ووسائل جمع ہوں جو پیغمبر کے مشن کی عمومی اشاعت میں تائید کا کام دیں- ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبرانہ مشن کی اشاعت کے لیے صرف روایتی وسائل موجود تھے- اِس لیے ایساہوا کہ اگرچہ پیغمبر کا مشن ایک عالمی مشن تھا، لیکن وہ وسائل کی محدودیت کی بناپر اپنے ابتدائی دور میں پورے عالم تک پہنچ نہ سکا-
قرآن کی مذکورہ آیت (
موجودہ زمانے کو ایج آف کمیونکیشن (age of communication) کہاجاتا ہے- یہ ایج آف کمیونکیشن کیا ہے- یہ دراصل دعوت بذریعہ روایتی ذرائع کو دعوت بذریعہ ٹکنالوجی کے دور میں پہنچانا ہے- موجودہ زمانے میں کمیونکیشن کے جو ذرائع پیدا ہوئے ہیں، انھوں نے دعوت بذریعہ روایتی ذرائع کو دعوت بذریعہ کمیونکیشن کے دور میں پہنچادیا ہے- اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ پیغمبرانہ دعوت کی اشاعت عالمی سطح پر انجام دی جائے- جدید ٹکنالوجی اور دوسرے معاون حالات کے نتیجے میں آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی سیاسی اقتدار یا کسی پولٹکل ایمپائر کے بغیر غیر سیاسی دائرے میں اسلامی دعوت کا ایک عالمی ایمپائر قائم کیا جاسکے- اِس ایمپائر کو غیر سیاسی دعوہ ایمپائر (non-political dawah empire) کہاجاسکتا ہے- جدید کمیونکیشن اور پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کو استعمال کرکے عالمی دعوت کی اُس پیشین گوئی کو واقعہ بنایا جاسکے جس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً (
ربانی تہذیب کا ظہور
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے تاریخ میں جو انقلاب آیا، وہ محدود طورپر صرف ایک سیاسی واقعہ نہ تھا- اُس کا تعلق پوری تاریخ بشری سے تھا- جس چیز کو قرآن میں ’’اتمامِ نور‘‘ کہا گیا ہے، وہ دوسرے لفظوں میں تہذیبِ ربانی (divine civilization) کو قائم کرنے کا معاملہ تھا- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ اس کی کتاب (قرآن) محفوظ ہوجائے- تاریخ میں ایسے انقلابات ظہور میں آئیں جن کے نتیجے میں دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آئے- فطرت میں چھپے ہوئے راز منکشف ہوں، تاکہ انسان کو علمی سطح پر خالق کی معرفت حاصل ہو- کمیونکیشن کے ذرائع دریافت ہو کر انسان کے استعمال میں آسکیں- اِسی طرح یہ ہو کہ دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آئے- دینِ حق کی عالمی اشاعت ممکن ہوجائے- معرفت کے تمام چھپے ہوئے خزانوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو جائے، وغیرہ-
اِس پورے معاملے کو تہذیب ربانی کے ظہور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے- رسول اوراصحابِ رسول کے ذریعے یہی انقلابی واقعہ پیش آیا اور فطرت کے قانون کے مطابق، مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اکیسویں صدی تک پہنچا جو اس کی تکمیل کا مرحلہ ہے- تاہم تکمیل کا یہ مرحلہ بہ اعتبار امکان ہے، نہ کہ بہ اعتبار واقعہ- ربانی تہذیب کیا ہے، وہ خدا کا قائم کردہ ایک با معنی تسلسل ہے جو کسی انقطاع کے بغیر تاریخِ انسانی میں مسلسل طورپر جاری ہے-
اب اہلِ اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ تاریخ کے اشارے کو سمجھیں، وہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے دینِ توحید کو پر امن انداز میں تمام عالم تک پہنچا دیں- یہی پیغمبرانہ مشن کی وہ تکمیل ہے جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں کی گئی تھی- اِس عالمی رول کو ادا کرنے کی صرف ایک ہی شرط ہے، وہ یہ کہ اہلِ اسلام قوموں کے خلاف، نفرت اور تشدد کے کلچر کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں اور کسی شرط کے بغیر پر امن دعوتی کلچر کو اختیار کرلیں- ( 2013)
واپس اوپر جائیں
آئن اسٹائن کے بارے میں لوگوں کے درمیان کنفیوژن (confusion)پایا جاتا ہے- کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آئن اسٹائن کا کیس منکرِخدا (atheist) کا کیس تھا- کچھ دوسرے لوگ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں- مگر آئن اسٹائن کے مختلف بیانات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آئن اسٹائن منکرِ خدا نہیں تھا، بلکہ وہ خدا کے وجود کے بارے میں شک کی کیفیت میں مبتلا تھا-
1945 میں امریکی بحریہ کے ایک جونیر افسر گائے رینر(Guy Raner) نے خط کے ذریعہ آئن اسٹائن سے سوال کیا تھا کہ— کیا آپ ڈکشنری کے مفہوم کے اعتبار سے، منکرِ خدا ہیں، یعنی وہ آدمی جو خدا کے وجود میں عقیدہ نہیں رکھتا- اِس کے جواب میں آئن اسٹائن نے لکھا کہ آپ مجھ کو لاادریہ کہہ سکتے ہیں، مگر میں پروفیشنل قسم کے منکر خدا سے اتفاق نہیں رکھتا:
In 1997, Skeptic, a hard unbelief science magazine, published for the first time a series of letters Einstein exchanged in 1945 with a junior officer in the US navy named Guy Raner on the same topic. Raner wanted to know if it was true that Einstein converted from atheism to theism when he was confronted by a Jesuit priest with the argument that a design demands a designer and since the universe is a design there must be a designer. Einstein wrote back that he had never talked to a Jesuit priest in his life but that from the viewpoint of such a person, he was and would always be an atheist. He added it was misleading to use anthropomorphical concepts in dealing with things outside the human sphere and that we had to admire in humility the beautiful harmony of the structure of this world as far as we could grasp it. But Raner persisted. “Are you from the viewpoint of the dictionary,” he wrote back, “an atheist, one who disbelieves in the existence of a God, or a Supreme Being.” To this Einstein replied: “You may call me an agnostic, but I do not share the crusading spirit of the professional atheist whose fervour is mostly due to a painful act of liberation from the fetters of religious indoctrination received in youth. (The Times of India, New Delhi, May 18, 2012)
عقیدۂ خدا کے بارے میں آئن اسٹائن کا جو موقف ہے، وہی موقف تقریباً تمام سائنس دانوں کا ہے، خدا سائنسی مطالعہ (scientific study) کا موضوع نہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سائنس داں خدا کا انکار نہیں کرتے، وہ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ لا ادریہ (agnostic) بتاتے ہیں- یعنی ایک ایسا موقف جب کہ انسان نہ انکار کرنے کی پوزیشن میں ہو اور نہ اقرار کرنے کی پوزیشن میں-
یہ صحیح ہے کہ سائنس کے مطالعے کا موضوع مادی دنیا (material world) ہے، مگر مادی دنیا کیا ہے، وہ خالق کی تخلیق (creation) ہے، اِس لیے سائنس کا مطالعہ بالواسطہ طورپر خالق کی تخلیق کا مطالعہ بن جاتا ہے- ایک سائنس داں خالق کے عقیدے کا انکار کرسکتاہے، لیکن تخلیقات میں خالق کی جو نشانیاں (signs) موجود ہیں، اُن کا انکار ممکن نہیں-
اصل یہ ہے کہ سائنس نے جس مادّی دنیا (physical world) کو دریافت کیا ہے، اس میں حیرت انگیز طورپر ایسی حقیقتیں پائی جاتی ہیں جو اپنی نوعیت میں غیر مادی ہیں- مثلاً معنوی، ڈزائن، ذہانت اور بامقصد پلاننگ، وغیرہ- مادی دنیا کی نوعیت کے بارے میں یہ دریافت گویا خالق کے وجود کی بالواسطہ شہادت ہے-
خدا کے وجود کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے ایک سائنسی طریقہ یہاں قابلِ انطباق (applicable) ہے، وہ یہ کہ یہ دیکھا جائے کہ سائنس کی دریافت کردہ دنیا کس نظریے کی تصدیق کررہی ہے، انکارِ خدا کے نظریے کی تصدیق یا اقرار خدا کے نظریے کی تصدیق-اِس اصولِ استدلال کو سائنس میںویری فکیشن ازم (verificationism) کہا جاتا ہے-
سائنس میں استدلال کا ایک اصول ہے، جس کو اصولِ مطابقت(principle of compatibility) کہا جاتا ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نظریہ جو بذاتِ خود قابلِ مشاہدہ نہ ہو، لیکن وہ مشاہدہ کے ذریعے دریافت کردہ معلومات سے مطابقت رکھتا ہو، تو اِس بالواسطہ شہادت کی بنا پر اِس نظریے کو حقیقت کا درجہ دے دیا جائے گا- جس نظریے کے حق میں اِس قسم کی مطابقت موجود ہو، اس کو بالواسطہ تصدیق کی بنا پر بطور حقیقت تسلیم کرلیا جائے گا- سائنس کے اِس اصول استدلال کو اگر عقیدۂ خدا کے معاملے میں منطبق کیا جائے تو اصولی طورپر خدا کا عقیدہ ایک ثابت شدہ عقیدہ بن جاتا ہے-
جو سائنس داں اپنے کیس کو لا ادریہ (agnosticism)کا کیس بتاتے ہیں، وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر فرار کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں- وہ خود اپنے علم کے مطابق، خدا کا انکار نہیں کرسکتے، وہ کہہ دیتے ہیں کہ ان کا کیس لا ادریہ (agnostic) کا کیس ہے-
عقیدہ خدا اور سائنس
خالص سائنسی نقطہ نظر کے مطابق، خدا کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں- سائنس نے اپنے طریقِ مطالعہ کے ذریعے جس چیز کو دریافت کیا ہے، وہ ہے — الیکٹران (electron) اور نیوٹران (neutron) اور پروٹون(proton)- مگر اِسی کے ساتھ یہ واقعہ ہےکہ اب تک کسی سائنس داں نے الیکٹرانس اور نیوٹرانس اور پروٹانس کو نہیں دیکھا ہے، نہ آنکھ سے اور نہ خورد بین سے، پھر سائنس داں اُن کے وجود پر یقین ;کیوں رکھتے ہیں- سائنس داں کے پاس اِس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ہم اُن کو براہِ راست نہیں دیکھتے، لیکن ہم اُن کے اثرات (effects) کو دیکھ رہے ہیں:
Though we cannot see them, we can see their effects.
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف کاز اینڈ افیکٹ (cause and effect) کا مسئلہ نہیں ہے- اِس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خود سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ کائنات میں اعلی درجے کی ذہانت (intelligence)ہے- کائنات میں اعلی درجے کی ہم آہنگی (harmony) ہے- کائنات میں اعلی درجے کی منصوبہ بندی (planning) ہے- اس بات کو ٹاپ کے سائنس دانوں نے تسلیم کیا ہے- مثلاً جیمس جینز، آرتھر ایڈنگٹن، البرٹ آئن اسٹائن، ڈیوڈ فوسچر (David Foster) اور فریڈ ہائل(Fred Hoyle)، وغیرہ- اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ، ایک سائنس داں کے الفاظ میں، کائنات کی جنس ،ذہن (mind-stuff) ہے:
Molecular biology has conclusively proved that the “matter” of organic life, our very flesh, really is mind-stuff.
عقیدہ خدا اور سائنس کے معاملے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ مذہب میں جس خدا کو بطور عقیدہ پیش کیاگیا تھا، وہ اگر چہ سائنس کا براہِ راست موضوع نہیں، لیکن سائنس کی دریافتیں بالواسطہ طورپر عقیدہ خدا کی علمی تصدیق (affirmation) کی حیثیت رکھتی ہیں- سائنس نے خدا کے عقیدے کو ثابت نہیں کیا ہے، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ سائنس نے عقیدہ خدا کے ثبوت کا ڈاٹا فراہم کردیا ہے-
سائنس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں ایک چیز مسنگ لنک (missing link) کی حیثیت رکھتی تھی- یہ ماڈل فعل (action) کو بتاتا تھا، مگر وہ فاعل (actor) کو نہیں بتاتا تھا- اس کے مقابلے میں، قرآن کائنات کا جوماڈل دے رہاہے، اس میں فعل اور فاعل دونوں موجود ہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن میں سبب (cause) کے ساتھ مسبّب (causative factor) کو بھی بتایا گیاہے- سائنس جب فعل (ذہانت) کی تصدیق کررہی ہے تو منطقی طورپر اِس کا جواز نہیں کہ وہ فاعل (ذہن) کی تصدیق نہ کرے-
خدا کا وجود
البرٹ آئن اسٹائن (Albert Einstein) اگرچہ ایک یہودی خاندان میں پیداہوا تھا، لیکن سائنسی مطالعے کے بعد وہ خدا کے وجود کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہوگیا- اپنی وفات سے ایک سال پہلے 3 جنوری 1954 کو اس نے ایک اسرائیلی فلسفی ایرک (Eric B. Gutkind) کو جرمن زبان میں ایک خط لکھا- اِس خط کا ایک جملہ یہ تھا کہ — خدا کا لفظ اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ وہ صرف انسانی کمزوریوں کی ایک پیداوار ہے:
The word God was nothing more than the expression and product of human weaknesses.
آئن اسٹائن نے جس چیز کو ’’انسانی کمزوری‘‘ بتایا ہے، وہ کمزوری نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی ایک اعلی خصوصیت ہے- اِس خصوصی کو درست طورپر اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان ایک توجیہہ طلب حیوان (explanation-seeking animal)ہے- انسان کی یہی خصوصیت تمام علمی ترقیوں کی بنیاد ہے- اِسی خصوصیت کی بنا پر انسان چیزوں کی توجیہہ تلاش کرتاہے اور پھر وہ بڑی بڑی ترقیوں تک پہنچتا ہے- انسان کے اندر اگر یہ خصوصیت نہ ہوتی تو انسانی تہذیب (human civilization) پوری کی پوری غیر دریافت شدہ حالت میں پڑی رہتی-
خود آئن ا سٹائن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اپنی عمر کے آخری 30 سال کے دوران وہ ایک سوال کا سائنسی جواب پانے کی کوشش کرتا رہا، مگر وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا- یہ سوال آئن اسٹائن کے الفاظ میں، یونی فائڈ فیلڈ تھیوری (unified field theory)کی دریافت ہے-سائنسی اعتبار سے یہ سوال اتنا زیادہ اہم ہے کہ آج وہ تمام نظریاتی سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے- اب اِس سوال کو عام طورپر تھیوری آف ایوری تھنگ (Theory of Everything)کہاجاتا ہے-
یہ ’تھیوری آف ایوری تھنگ‘ کیا ہے- یہ دراصل ایک ایسا ریاضیاتی فارمولادریافت کرنا ہے جو تمام کائناتی مظاہر کی سائنسی توجیہہ کرسکے- تھیوری آف ایوری تھنگ کا مطلب ہے:
Theory that explains everything.
ایک سائنسی ادارہ (European Organization for Nuclear Research) کے تحت سوئزر لینڈ میں ایک پروجیکٹ قائم کیاگیا- اسکا نام یہ تھا— لارج ہیڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider)- یہ پروجیکٹ 1998 میں قائم کیا گیا- اِس پروجیکٹ پر ایک سو ملین ڈالر خرچ ہوئے- اِس میں دنیا کے ایک سو ملک اور دس ہزار سائنس دانوں اور انجینئروں کا تعاون شامل تھا- اگر چہ یہ پروجیکٹ کامیاب نہ ہوسکا، تاہم اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ ’تھیوری آف ایوری تھنگ‘ کو دریافت کیاجائے-
’تھیوری آف ایوری تھنگ، یا زیادہ درست طورپر، ایکسپلنیشن آف ایوری تھنگ کی تلاش پر تقریباً 90 سال گزر چکے ہیں، مگر اِس معاملے میں سائنس دانوں کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی- اِس کا سبب یہ ہے کہ مظاہرِ کائنات کی توجیہہ خدا کے وجود کو مان کر حاصل ہوتی ہے- کوئی ریاضیاتی فارمولا کبھی اِس کا جواب نہیںبن سکتا- ریاضیاتی فارمولے میں اِس سوال کا جواب تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے پیاس کو بجھانے کے لیے پانی کے سوا کسی اور چیز کو اس کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرنا-
سائنس اور عقیدۂ خدا
1927 میں بلجیم کے ایک سائنس داں جارجز لیمٹری (Georges Lemaitre) نے بگ بینگ (Big Bang) کا نظریہ پیش کیا-اِس نظریے پر مزید تحقیق ہوتی رہی، یہاں تک کہ اِس کی حیثیت ایک مسلّمہ واقعہ کی ہوگئی- آخر کار 1965 میں بیگ گراؤنڈ ریڈی ایشن (background radiation) کی دریافت ہوئی- اِس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے بالائی خلا میں لہر دار سطح (ripples) پائی جاتی ہیں- یہ بگ بینگ کی شکل میں ہونے والے انفجار کی باقیات ہیں- اِن لہروں کو دیکھ کر ایک امریکی سائنس داں جویل پرائمیک (Joel Primack) نے کہا تھا کہ — یہ لہریں خدا کے ہاتھ کی تحریر ہیں:
The ripples are no less than the handwriting of God.
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب ’عظمتِ اسلام‘، صفحہ
جارج اسموٹ 1945 میں پیداہوا- وہ ایک امریکی سائنس داں ہے- اس نے 2006 میں فزکس کا نوبل پرائز حاصل کیا- یہ انعام اُن کو ’کاسمک بیک گراؤنڈ ایکسپلورر، کے لیے کام کرنے پر دیاگیا- 1992 میں جارج اسموٹ نے یہ اعلان کیا کہ بالائی خلا میں لہردار سطحیںپائی جاتی ہیں- یہ بگ بینگ کی باقیات ہیں- اُس وقت جارج اسموٹ نے اپنا تاثر اِن الفاظ میں بیان کیا تھا — یہ خدا کے چہرے کو دیکھنے کے مانند ہے:
George Fitzgerald Smoot III (born February 20, 1945) is an American astrophysicist, cosmologist. He won the Nobel Prize in Physics in 2006 for his work on the Cosmic Background Explorer. In 1992 when George Smoot announced the discovery of ripples in the heat radiation still arriving from the Big Bang, he said it was “like seeing the face of God”. (God For The 21st Century, Templeton Press, May 2000,
واپس اوپر جائیں
دینا اپل (Deana Uppal) انڈیا کی ایک سکھ فیملی میں پیدا ہوئیں- اب وہ انگلینڈ میں رہتی ہیں- حال میں اُن کو مس انڈیا- یو کے (Miss India-UK) کا ٹائٹل ملا ہے-وہ غیر شادی شدہ ہیں اور تین گھریلو خادموں (housemates) کے ساتھ ایک مکان میں رہتی ہیں- انھوں نے اپنے نظریۂ حیات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ — مجھ کو سب سے زیادہ محبت صرف ایک چیز سے ہے اور وہ مال ہے:
The greatest love of my life is money.
مذکورہ خاتون نے جو بات کھلے لفظوں میں کہہ دی، وہ بات تقریباً ہر آدمی کے دل میں موجود ہوتی ہے، اگر چہ وہ زبان سے اس کا اظہار نہ کرے، خاص طورپر موجودہ کنزیومرازم (consumerism) کے عہد میں مال ہی لوگوں کے لیے سب کچھ بن گیا ہے-
میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملا ہوں جنھوں نے مال کے حصول کو اپنا نشانہ بنایا اور بہت زیادہ دولت کمائی، مگر جب میں اِس قسم کے لوگوں سے بات کرتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتاہےکہ اُن کے پاس مادّی موضوعات پر کہنے کے لیے تو بہت کچھ ہے، لیکن فکری موضوعات اور روحانی موضوعات پر وہ نہ کچھ بول سکتے اور نہ کچھ سمجھ سکتے- ایسے تمام لوگ میرے نزدیک صرف اکتسابی حیوان (earning animal) بن کر رہ جاتے ہیں-
خالق نے انسان کو جو دماغ (mind)دیا ہے، وہ غیر معمولی فکری امکانات (intellectual potentials)رکھتا ہے، جن کو انفولڈ(unfold) کرنا بلاشبہہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے، مگر آج کل کی مادی دنیا میں یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جو لوگوں کی زندگیوں سے حذف ہوگئی ہے- ایک لفظ میں، یہ کہ آج کی دنیا میں ہر آدمی کا کیس اپنے کم تر استعمال (underutilization) کا ایک کیس بنا ہوا ہے-
واپس اوپر جائیں
اگر آپ کو کوئی جسمانی بیماری ہوجائے تو اس کے لیے آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے- جسمانی بیماری کا علاج ڈاکٹر کے پاس ہوتا ہے، لیکن بے چینی یا اضطراب (anxiety) اِس قسم کی کوئی بیماری نہیں- اضطراب ایک نفسیاتی مسئلہ ہے- اضطراب کا علاج آدمی کو خود کرنا چاہئے- کوئی دوسرا شخص آپ کے اضطراب کا علاج نہیں کرسکتا-
اضطراب کا سبب ہمیشہ بے بنیاد اندیشہ ہوتاہے- کبھی ماضی میں کسی کھوئی ہوئی چیز کا غم اور کبھی مستقبل میں کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آجانے کا اندیشہ- اضطراب کا سبب اکثر یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ذہنی تناؤ کا شکار رہتےہیں-
یہ دونوںچیزیں ہمیشہ سوچ (thinking)کی سطح پر پیدا ہوتی ہیں اور سوچ کی سطح پر ہی ان کا علاج ممکن ہوتاہے- اضطراب کا علاج کسی خارجی کلینک میں نہیں، اضطراب کا علاج خود اُس شخص کے ذہن میں ہے جو اضطراب کا شکار ہوا ہے-
اضطراب کے مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے حقیقت پسندانہ سوچ (realistic approach) - حقیقت پسندانہ سوچ کے فقدان سے آدمی اضطراب میں مبتلا ہوتا ہے، اور حقیقت پسندانہ سوچ ہر قسم کے اضطراب کا خاتمہ کردینے والی ہے- غیر حقیقت پسند انسان ہمیشہ مفروضات میں جیتا ہے، حقیقت پسند انسان وہ ہے جو حقائق میں جینے والا ہو-
غیر حقیقت پسندانہ سوچ آدمی کو موہوم قسم کی پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے- اِس کے مقابلے میں، حقیقت پسندانہ سوچ آدمی کو موہوم قسم کی پریشانی سے باہر لاتی ہے- غیر حقیقت پسندانہ سوچ والا آدمی صرف اپنے جذبات کو جانتاہے، اور حقیقت پسندانہ سوچ والا آدمی خارجی حقیقتوں کو جان لیتاہے— غیر حقیقت پسندانہ سوچ آدمی کے لیے قاتل ہے اور حقیقت پسندانہ سوچ آدمی کو زندگی عطا کرنے والی ہے-
واپس اوپر جائیں
عام طور پر لوگ دوسروں کی غلطیاں بتانے کے ماہر ہوتے ہیں، مومن وہ ہے جو خود اپنی غلطیوں کو جاننے والا ہو- لوگ دوسروں کے ظلم کا انکشاف کرنے کو کام سمجھتے ہیں، مومن وہ ہے جو خود اپنی زیادتیوں کو جانے اور ان کی اصلاح کی تدبیر کرے-
عام طور پر لوگ دوسروں کے خلاف تقریر اور تحریر کے ہنگامے برپا کرتے ہیں، مومن وہ ہے جو خود اپنے محاسبہ (introspection) میں مشغول ہو- لوگ دوسروں کے خلاف جھنڈا اٹھاتے ہیں، مومن وہ ہے جو خود اپنی ذات کے خلاف جھنڈا اٹھائے-
اِس اصول کا تعلق فرد سے بھی ہے اور قوم سے بھی- اِس دنیا میں ایک فرد کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے کہ وہ اپنی کوتاہیوں کو دریافت کرے اور قوم کی کامیابی کا راز بھی یہی- فرد کسی قوم کی اکائی (unit) ہوتا ہے اور قوم افراد کے مجموعے سے بنتی ہے، اِس بنا پر فرد اور قوم دونوں کے لیے کامیابی اور ناکامی کا اصول بھی ایک ہے-
اِس دنیا کو بنانے والے نے اِس دنیا کو چیلنج کےاصول پر بنایا ہے- یہاں ہر لمحہ چیلنج اور مسابقت (competition) کا عمل جاری رہتاہے- ایسی حالت میں کسی دوسرے کی شکایت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شکایت کرنے والا چیلنج کا جواب دینے میں ناکام رہا، شکایت کرنے والا حالات کو سمجھ کر دانش مندانہ انداز میں اپنی منصوبہ بندی نہ کرسکا- حقیقت یہ ہے کہ شکایت اور احتجاج خود اپنی ناکامی کا اعلان ہے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کی موجودگی کا اعلان-
لوگ دوسروں کے خلاف شکایتوں کا دفتر تیار کرتے ہیں، حالاں کہ اُنھیں خود اپنی کوتاہیوں کا رجسٹر تیار کرنا چاہئے- لوگ دوسروں کی سازشوں کا انکشاف کرنے میں مشغول ہیں، حالاں کہ انھیں خود اپنی بے دانشی کا انکشاف کرنا چاہئے- لوگ خارجی دنیا میں اپنے دشمن کی نشان دہی کررہے ہیں، حالاں کہ اُنھیں خود اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن کی نشان دہی کرنا چاہئے-
واپس اوپر جائیں
1- صدر اسلامی مرکز کی کتاب ــ ـ" مذہب ــاور جدید چیلنج"کا فرانسیسی ایڈیشن پیرس کے الازہر (Librairie Al Azhar)سے اپریل 2013 میں شائع ہو گیا ہے۔یہ کتاب
Translator: Mr Menaoum Saine, Editor: Ms Shahnaz Benbetka
2- سہارن پور(یوپی) کے جین ڈگری کالج میں
3- ایس بی اے (Sales Bar Association) کی طرف سے اس کے ہیڈ آفس (آئی ٹی او، نئی دہلی) کے ہال میں
4- سہارن پور کے ہوٹل کلارک میں
5- سہارن پور کے ارپت ڈائگناسٹک (Arpit Diagnostic) میں
6- سہارن پور کے مہا راجا پیلیس میں
7 - سہارن پور کے پیس ہال میں 30 جون2013 کو ٹیم کے ممبران کی میٹنگ ہوئی۔ اِس موقع پر ممبران کے علاوہ، بعض دوسرے حضرات بھی اس میں موجود تھے۔ انھوں نے اپنے تاثرات بیان کیے-مثلاً سوامی امَرپال سنگھ(ہریانہ)۔ سوامی جی نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ایک بات یہ کہی کہ ’’: مولانا وحیدالدین خاں کی کتابوں کا اَدّھین کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کی آدمی کو شانتی والا جیون حاصل ہوجاتا ہے اوروہ خدا کو پا لیتا ہے۔‘‘
8- سہارن پور کے پیس ہال میں
9- نوئڈا کے فلم سٹی (Time Centre) میں
10- یکم اگست 2013 کو سویڈن کی اُمیا یونی ورسٹی (Umea University, Sweden) میں نفسیات کے پروفیسر تھامس لندگرین (Tomas Lindgren ) نے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی اور اسلام اور امن کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویوریکارڈ کیا ۔ پروفیسر تھامس نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
I’m writing a book right now about religion, nonviolence and peace building, based on interviews with peace activists in South and Southeast Asia. I’m deeply impressed by your publications and the work you have done. I would like to know so much more about your ideas, visions and the work you have done over the years.
’بھارت کا وِبھاجن اور پاکستان کا اَستِتّو‘ (ہندستان کی تقسیم اور پاکستان کا وجود)
اِس کی دعوت پر سی پی ایس انٹر نیشنل کی طرف سے مولانا محمد ذکوان ندوی نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر آدھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ ہر طرح کے فساد کی جڑ نفرت ہے،خواہ وہ کوئی ملکی معاملہ ہو یا بین اقوامی معاملہ۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ایک نظریاتی بات نہیں ہے، بلکہ امن کی آئڈیالوجی پر مبنی سی پی ایس کے لٹریچر کی بنیاد پر، دوسرے ملکوں کے علاوہ، خود کشمیر اور پاکستان کے بے شمار افراد کے اندر مثبت اور تعمیری ذہن پیدا ہوا ہے- انھوں نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملکوں کےلوگ ماضی کی تلخ یادوں کو ُبھلا کر، مثبت ذہن کے تحت، اپنے ملک کو تعمیر وترقی کے میدان میںآگے بڑھائیں۔ اِس سمپوزیم میں دو اسپیکر اور تھے۔ اُن کے نام یہ ہیں:مسٹر روی شنکر پرشاد (سابق یونین منسٹر)، پروفیسرآنند کمار (جواہرلال نہرو یونی ورسٹی،نئی دہلی)۔ سی پی ایس کی طرف سے یہاں تمام حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=458270127596790&set=
a.161532850603854.36854.161530600604079&type=1&theater
رَسل برانڈ نے اِس سلسلے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوے یہ الفاظ لکھے ہیں:
"I've read some of the Quran and nothing in it has compelled me to do violence." (www.russellbrand.tv/2013/05/woolwich)
18- نئی دہلی کے آن لائن میگزین )’نیو ایج اسلام‘
19- ٹائمس آف انڈیا( نئی دہلی) میں اسپیکنگ ٹری (The Speaking Tree) کے تحت صدر اسلامی مرکز کے مضامین مسلسل طورپر شائع ہورہے ہیں- یہ تمام مضامین حسب ذیل ویب سائٹ پر موجو د ہیں:
http://cpsglobal.org/articles/speakingtree
20- الرسالہ مشن اور اس کے دعوتی لٹریچرسے متعلق قارئین کے چند تاثرات درج ذیل ہیں:
After linking with Al-Risala mission, there is a sea change in my overall personality. Previously, I was highly inclined towards worldly name and fame, but linking myself with this mission helped me in getting away from evil temptations. Earlier, I organised various conferences and other public events for material gains but now, I have learnt to use the same platform for dawah work. I run a medical college in Saharanpur (U.P.) In the past, my college was just a source of income for me but now it has also become a centre of dawah for students. ( Dr. M. Aslam Khan, Principal, National Medical IGNOU Community College, Saharanpur (U.P.)
I really like your english translation which is very easy to understand compared to other enlish translations. (Hameeda Abbassi, Canada)
I found your book “ Woman Between Islam and Western Society” very insightful. I'm re-reading it and enjoying learning about women’s status in Islam, their right and duties as Muslimahs in the light of Islamic history. I'm using this book as a guide to teach Ayesha Islamic values plus life skills. (Soghra Aziz Hasan, Bangkok, Thailand)
Goodword Books, an Islamic publishing house, opened its bookstore and dawah center in Chennai on August 18, 2013. The bookstore was inaugurated by the well-known Islamic scholar, Dr. V. Abdur Rahim, director of the King Fahad Quran Printing Complex and former Professor of Arabic at the Islamic University of Madinah, Saudi Arabia. In his address, Dr. V. Abdur Rahim, applauding the efforts of the publishing house, he said that its products were known for “high quality and authenticity.” The director of Goodword Books, Saniyasnain Khan, also present at the inauguration, hoped that the bookstore would help in furthering the mission of the publishing house. He said: “Goodword Books is not just a publishing house but it is a dawah mission.” The launch drew Islamic scholars, publishers and writers from Chennai and other states, such as the director of Darussalam, Maulana Ilyas Vaniyambadi, Zabeehulla Baig , Tamil writers Mr. Ibrahim Mohiddin, Ibrahim Rasool, M. K. Abdul Quddoos and others.
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.