تاریخ کا ربانی سفر
قرآن کی ایک آیت، معمولی لفظی فرق کے ساتھ، دو سورتوںمیں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ۭ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ( 61:8 ) یعنی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کی روشنی کواپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا،خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو-
قرآن کی اِس آیت کا خطاب محدود طورپر صرف قدیم مکہ یا قدیم مدینہ کے مخالفین سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق پوری انسانی تاریخ کے ربانی سفرسے ہے- آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے پچھلے ہزاروں سا ل کے دوران مختلف مقامات پر اپنے پیغمبر بھیجے، لیکن مخالفین نے اُن کے مشن کو آگے بڑھنے نہیں دیا- اب اللہ نے تاریخ میں مداخلت کرتے ہوئے اِس مشن کا چارج خود لے لیا ہے- یہی مداخلت اِس بات کی ضمانت ہے کہ خدا کا یہ مشن اپنی آخری تکمیل تک پہنچے، کوئی بھی طاقت اس کے سفر کو روکنے میں کامیاب نہ ہو-
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلاب آیا، وہ اِسی فیصلۂ الہی کا نتیجہ تھا- اِس انقلاب کا سب سے زیادہ انوکھا پہلو یہ تھا کہ وہ تقریباً 35 سال (610-644) کے اندر مکمل ہوگیا- انقلاب کا یہ پہلو بے حد اہم ہے- تاریخ میں دوسرے جو انقلابات پیش آئے، وہ سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے، سیاسی انقلابات (political revolutions) تھے، مگر اسلامی انقلاب اِس کے برعکس، ایک نظریاتی انقلاب (ideological revolution) تھا- اِس بنا پر ضروری تھا کہ وہ پہلی نسل (first generation) کے اندر مکمل ہوجائے- سیاسی انقلاب کو کئی نسلوں میں مکمل کیا جاسکتا ہے،لیکن نظریاتی انقلاب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یا تو پہلی نسل میں مکمل ہوگا، یا وہ سرے سے مکمل ہی نہ ہوگا-
بنیادی طورپر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے دو دور تھے — ایک تھا، فاؤنڈیشن پیریڈ (foundation period) اور دوسرا تھا، توسیعی پیریڈ (expansion period)- توسیعی پیریڈ کی تکمیل بعد کے دور میں بھی ممکن ہے، لیکن فاؤنڈیشن پیریڈ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلی نسل میں اپنی تکمیل تک پہنچ جائے-
انسان کی آزادی کو باقی رکھتے ہوئے پہلی نسل میں فاؤنڈیشن پیریڈ کی تکمیل اِس عالمِ اسباب میں کسی انسان کے لیے ممکن نہیں- یہ صرف اللہ کے لیے ممکن تھا اور اللہ نے خصوصی مداخلت کرکے ایسے حالات پیدا کیے کہ رسول ا ور اصحابِ رسول کے ذریعے یہ ممکن ہوجائے کہ وہ پہلی نسل میں اِس انقلاب کو مکمل کرسکیں- یہ ایک ایسا استثنائی واقعہ تھا کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں- مورخین، اسلامی انقلاب کے اِس استثنائی پہلو کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن وہ اِس کی توجیہہ کرنے سے قاصر ہیں- اِس کا سبب یہ ہے کہ مورخین مادی اسباب کی روشنی میں واقعات کی توجیہ کرتے ہیں، جب کہ یہ واقعہ خدا کی برتر مداخلت کا نتیجہ تھا اور خدا کی برتر مداخلت ایک ایسا عامل (factor) ہے جس سے مورخین شعوری طور پر واقف نہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ کو جو انقلاب لانا مطلوب تھا، اس کو قرآن میں اتمامِ نور ( 61:8 ) کہاگیاہے- ضروری تھاکہ یہ واقعہ پہلی نسل (first generation) کے اندر مکمل ہوجائے- کیوں کہ فطرت کے قانون کے تحت ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بعد کی نسلوںمیں زوال شروع ہوجاتاہے اور زوال یافتہ افراد اتمامِ نور کا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے- اِس لیے اللہ تعالی نے خصوصی منصوبے کے تحت ایک محدود مدت میں بہت سے انتظامات کیے، تاکہ پہلی نسل میں انقلاب کی تکمیل کو یقینی بنایا جاسکے-
اِس مقصد کے لیے مختلف تدبیریں کی گئیں- مثلاً کعبہ کو تمام عرب قبائل کے بتوں کا مرکز بنا دیاگیا، تاکہ تمام قبائل کے افراد مکہ میں حاصل ہوجائیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے سال (570ء) میں یمن کے حاکم ابرہہ نے ہاتھیوں کی فوج کے ذریعے مکہ پر حملہ کیا تھا، تاکہ کعبہ کوڈھا دیا جائے- اگر ابرہہ کا منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو کعبہ کا وجود مٹ جاتا اور پیغمبر اسلام کو یہ موقع حاصل نہ ہوتا کہ وہ مکہ میں تمام عرب قبائل کے افراد کو یکجا طور پر پاسکیں- اُس زمانے میں قبیلہ قریش کو پورے عرب کی ذہنی قیادت (intellectual leadership) کا مقام حاصل تھا- مکہ میں ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ وہاں کے تمام اعلی ذہن پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گئے- پھر مدینہ کے دونوںقبائل (اوس وخزرج) کے درمیان خوں ریز جنگ ہوئی- اِس کے نتیجے میں دونوں قبائل بے حد کمزور ہوگئے- اس طرح پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ وہ دس سال کے اندر پورے مدینے کو اسلام کے فولڈ میں لاسکیں- تمام قبائل کے بتوں کا مرکز بن جانے کی بنا پر عرب کے قبائل کعبہ کو پورے عرب کا مذہبی اور سیاسی مرکز سمجھتے تھے- چناں چہ جب مکہ فتح ہوا تو نہایت تیزی سے تمام عرب قبائل نے پیغمبر اسلام کی قیادت کو قبول کرلیا-
اسی طرح اُس زمانے میں عرب کی سرحدوں پر ایک بڑا واقعہ پیش آیا- اِس واقعے کا ذکر قرآن کی سورہ الروم (30) کے آغاز میں موجود ہے- وہ یہ کہ اُس زمانے میں عرب کی سرحدوں پر دو بڑے ایمپائر قائم تھے- ایک، ساسانی ایمپائر اور دوسرے، بازنتینی ایمپائر- عین اُس زمانے میں دونوں کے درمیان فوجی ٹکراؤ ہوا- پہلے ساسانی ایمپائر نے رومی ایمپائر کو تباہ کیا- اس کے بعد رومی بادشاہ نے اپنی طاقت کو دوبارہ مجتمع کرکے ساسانی ایمپائر پر حملہ کیا اوراس کو تباہ کردیا- چناںچہ دونوں ایمپائر بہت زیادہ کمزور ہوگئے- اس طرح اصحابِ رسول کو یہ موقع مل گیا کہ وہ نہایت آسانی سے ایشیا اور افریقہ کے درمیان پھیلے ہوئے اِس پورے علاقے کو اسلامی علاقے میں شامل کرسکیں-
تاریخِ اسلام: ایک مطالعہ
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا-آپ کی مسلسل جدوجہد سے وہاں ایک ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے-رسول اور اصحابِ رسول کی کوششوں سے ساتویں صدی کے نصف اول میں ایک انقلاب آیا- مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ یہ تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا انقلاب تھا- مثلاً امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ نے 1978 میں شائع شدہ اپنی کتاب (The 100) میں لکھا ہے کہ — محمد تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے، مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی:
Muhammad was the only man in history who was supremely successful on both, the religious and secular levels.
اِسی طرح انڈیا کے ایک سیاسی لیڈر ایم این رائے (M. N. Roy) کی کتاب ’دی ہسٹاریکل رول آف اسلام (The Historical Role of Islam) ہے جو 1939 میں دہلی سے چھپی تھی- اِس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ — اسلام کی توسیع تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
حال میں برطانیہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے موضوع پر ایک انگریزی کتاب چھپی ہے- اُس کا نام یہ ہے:
The Prophet Muhammad: A Biography by Barnaby Rogerson, Little , Brown, UK 2003, p. 240
برطانی مصنف راجرسن نے اپنی اِس کتاب میں لکھا ہے کہ — پیغمبر اسلام کو جو عظیم کامیابی حاصل ہوئی، اس کے لحاظ سے وہ بلاشبہہ تاریخ کے سپر ہیرو (superhero) تھے- تاہم پیغمبر اسلام کی غیر معمولی کامیابی کا اعتراف کرتےہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ ان کی یہ کامیابی محض اتفاقی (mere accidental) تھی(صفحہ 4)-
سیکولر مبصرین عام طورپر اِس طرح کے الفاظ بولتے ہیں- جس واقعہ کی توجیہ وہ معلوم اسباب کے تحت نہ کرسکیں، اُس کو وہ ’’اتفاق‘‘ کا نتیجہ قرار دے دیتے ہیں- مگر اتنا بڑا واقعہ جو پوری تاریخ میں واحد استثنا کی حیثیت رکھتا ہو، وہ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتا-حقیقت یہ ہےکہ یہ ایک خدائی منصوبہ (divine plan) تھا، جو رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے انجام پایا- اِس کا ظہور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم کے زمانے میں ہوا اور خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اس کی تکمیل ہوئی-
اللہ کا یہ منصوبہ تھاکہ توحید کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کیا جائے- اِس مقصد کے لیے قدیم دور میں اللہ نے بہت سے پیغمبر بھیجے- مگر اِن پیغمبروں کے ذریعے کوئی ٹیم نہیں بنی- اِس لیے قدیم زمانے میں مطلوب انقلاب برپا نہ ہوسکا- اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک نیا منصوبہ بنایا- اِس منصوبے کے تحت حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسا دیا- اِس واقعے کی طرف قرآن میں اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیاہے: رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّم ( 14:37 )-
اِس صحرائی ماحول میںلمبی مدت تک توالد وتناسل کے ذریعے ایک جان دار قوم تیارہو ئی- اِسی قوم کے اندر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی- پھر اِسی قوم کے اندر کام کرکے وہ ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے-
یہ پورا معاملہ ایک خدائی منصوبے کے تحت وجود میں آیا- مکہ میں مقدس کعبہ کی تعمیر اِسی منصوبے کا ایک حصہ تھی- بعد کو سارے عرب میں شرک پھیل گیا- یہ قبائلی دور تھا- ہر قبیلے کا ایک الگ بت تھا- چناں چہ یہاں ایسے اسباب پیش آئے کہ کعبہ 360 بتوں کا مرکز بن گیا-
یہ قدیم تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا- اِس سبب سے یہ ممکن ہوگیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کی اشاعت کے لیے سارے عرب میں سفر نہ کرنا پڑے، بلکہ مکہ ہی میںآپ کو تمام قبائل کے نمائندے حاصل ہوجائیں- کیوں کہ کعبہ میں تمام قبائل کے بتوں کی موجودگی کی بنا پر ایسا ہوتا تھا کہ مکہ میں مسلسل طور پر وہ چیز ہوتی رہتی تھی جس کو آج کل کی زبان میں کُل عرب اجتماع (all Arab assembly) کہا جاسکتا ہے-
اِس کے بعد بار بار ایسے واقعات پیش آئے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ تیزرفتاری کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کرسکیں- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت پر غور کیجئے- غزوۂ بدر کی نسبت سے، قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْ یَکْبِتَھُمْ ( 3:127 ) یعنی تاکہ اللہ اہلِ کفر کے ایک حصے کو کاٹ لے یا وہ اُن کو ذلیل کردے-
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’’طَرَف‘‘ کا لفظ حصۂ بہتر (better part)کے معنی میں ہے، یعنی اہلِ کفر کے بہتر حصے کو کاٹ کر جدا کردینا اور ’یکبتہم‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بقیہ حصہ کو ہلاک کرکے ختم کردینا- ٹھیک یہی واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا- پہلے مکی دور کی تیرہ سالہ دعوتی جدوجہد کے دوران مکہ کے صالح افراد کو ایمان کی توفیق ملی اور وہ اسلام قبول کرکے پیغمبر اسلام کے ساتھی بن گئے- ’قطعِ طرف‘ کا یہی واقعہ ہے جس کا ذکر حضرت خالد بن الولید نے اِن الفاظ میں کیا تھا: دخل الناس فی الإسلام ، فلم یبق أحد بہ طَعْم (البیہقی: 4/345 ) یعنی مکہ کے بہترین افراد اسلام میں داخل ہوگئے- اب مکہ میں کوئی باذوق آدمی (man of taste) باقی نہیں رہا- ’یکبتہم‘ کا لفظی مطلب ہے ذلیل کرنا- یہاں مراد یہ ہے کہ مکہ کے مخالفین جوچڑھائی کرکے ایک ہزار کی تعداد میں مدینہ آئے تھے، اُن کے 70 طاقت ور افراد قتل ہوگئے اور اُن کو ذلیل وخوار ہو کر مکہ واپس جانا پڑا-
عرب کا اسلامائزیشن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جوکامیابی حاصل ہوئی، اس میں ایک بڑا دخل اُس واقعے کا ہے جس کو اسلامی تاریخ میں صلح حدیبیہ کہا جاتاہے- یہ ایک انوکھی تدبیر تھی جس کو پوری تاریخ میں کسی نے استعمال نہیں کیا تھا- یہ مکمل طورپر ایک اجتہادی تدبیر تھی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 عیسوی میں شروع کیا- یہ زمانہ جارحانہ شرک اور مذہبی عدم رواداری (religious intolerance) کا زمانہ تھا- اِس بنا پر وہاں فریقِ ثانی کی طرف سے مسلسل طورپر ٹکراؤ اور جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا- اِس طرح کے ماحول میں دعوتِ توحید کا کام پوری طرح نہیں ہوسکتا تھا- توحید کی آئڈیالوجی پیغمبر اسلام کے مشن کی سب سے بڑی طاقت تھی، مگر طرفین کے درمیان تشدد کے ماحول کی بنا پر یہ موقع نہ تھا کہ یہ طاقت پوری طرح ظاہر ہو اور لوگوں کو مسخر کرے-
اُس وقت اللہ کی خصوصی توفیق سے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی تدبیر کی جس کی کوئی نظیر تاریخ میں موجود نہ تھی- وہ تدبیر یہ تھی کہ فریقِ ثانی کے تمام مطالبات کو یک طرفہ طورپر مان لیا جائے، تاکہ فریقین کے درمیان معتدل ماحول قائم ہوجائے اور کسی رکاوٹ کے بغیر دعوتِ توحید کا کام انجام پاسکے- یہ تدبیر بلاشبہہ ایک عظیم تدبیر تھی، اِسی لیے اُس کو قرآن میں فتحِ مبین ( 48:1 ) کہاگیاہے-
صلح حدیبیہ کی اِس تدبیر سے دو بڑے فائدے حاصل ہوئے- ایک، یہ کہ صلح حدیبیہ سے پہلے فریقین کا مقابلہ میدانِ جنگ میں ہوتا تھا، اور جنگ کا طریقہ صرف مسئلے کو بڑھاتا ہے، وہ مسئلے کو کم نہیں کرتا- صلح حدیبیہ کا یہ فائدہ ہوا کہ طرفین کا مقابلہ عقل ا ور فطرت کے میدان میں ہونے لگا، اور جب عقل اور فطرت کے میدان میں مقابلہ ہو تو توحید کی آئڈیالوجی ہمیشہ غالب رہے گی- وہ عقل کو ایڈریس کرے گی اور انسان کی فطرت مسخر ہوتی چلی جائے گی- اِسی کا یہ نتیجہ تاریخ نے دیکھا کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد صرف دو سال کے اندر پیغمبر اسلام کے پیروؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ صرف تعداد ہی مکہ کی پرامن فتح کے لیے کافی ہوگئی-
صلح حدیبیہ کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قریشِ مکہ کی طرف سے جنگ کا خطرہ باقی نہیں رہا- اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ موقع مل گیاکہ وہ اپنے مشن کو پورے عرب میں پھیلا سکیں- اِس سے پہلے یہ واقعہ پیش آیا کہ پیغمبر اسلام کا دعوتی پیغام تمام عرب قبائل میں پھیل گیاتھا- عمومی طور پر لوگوں کے دلوں میں توحید کے لیے نرم گوشہ (soft corner) پیدا ہوچکا تھا، لیکن قریش سے حالتِ جنگ قائم ہونے کی بنا پر پیغمبر اسلام کو یہ موقع نہیں مل رہا تھاکہ آپ کھلے طورپر اِس دعوتی امکان کو استعمال کریں- اب آپ نے یہ کیا کہ مدینہ سے تمام عرب قبائل کی طرف وفود بھیجنے شروع کیے- وفود کا یہ طریقہ بھی قدیم زمانے میں ایک نیا طریقہ تھا- یہ طریقہ کامیاب ہوا اور بہت کم مدت میں پورا عرب اسلامائز ہوگیا-
پیغمبر اسلام کا مشن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسان کی لمبی تاریخ کی ایک درمیانی کڑی کی حیثیت رکھتے ہیں- آپ سے پہلے کثیر تعداد میں خدا کے پیغمبر آئے - اِن پیغمبروں کے زمانے میں بلا شبہہ توحید کا فکری اظہار ہوا، لیکن توحید کی بنیاد پر عملاً کوئی فکری انقلاب برپا نہ ہوسکا- اِسی بنا پر پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا دین محفوظ بھی نہ رہا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے اللہ نے ایک نئی منصوبہ بندی کی- وہ منصوبہ بندی یہ تھی کہ صحرائی ماحول میں ایک نئی نسل پیدا کی جائے جس کے افراد اپنی اصل فطرت پر قائم ہوں- اِسی نسل میں پیغمبر اسلام کا ظہور ہوااور آپ کی دعوتی جدوجہد کے ذریعے اِسی نسل کے اندر سے وہ افراد پیدا ہوئے جن کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے-
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے تاریخ میں جو انقلاب آیا، اُس کے دو پہلو تھے — ایک، یہ کہ اس کے ذریعے خدا کی کتاب محفوظ ہوگئی- پیغمبر کے ذریعے انسانی زندگی کا ایک مستند ماڈل (authentic model) تیار ہوگیا- خداکے دین کی ایک مستند تاریخ بن گئی، جب کہ اِس سے پہلے خدا کے دین کی کوئی مستند تاریخ نہیں بنی تھی، وغیرہ-
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے جو عظیم انقلاب آیا ، اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اس کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا طاقت ور عمل (strong porcess) جاری ہوا جو آخر کار اُن تمام ترقیوں تک پہنچا جن کو عام طور پر اہلِ مغرب کی طرف منسوب کیاجاتا ہے- یہ تمام ترقیاںخدا کے دین کے موافق ترقیاں تھیں- اِن ترقیوں کے ذریعے انسان کو شکر کا اعلی فریم ورک ملا- اِن ترقیوں کے ذریعے معرفت کے آفاقی دروازے کھلے- اِن ترقیوں کے ذریعے حق کی عالمی اشاعت کے ذرائع حاصل ہوئے، وغیرہ-
غیر خدا پرست انسان کی تائید
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اظہارِ دین اور اتمامِ نور کا جو خدائی منصوبہ تھا، وہ ایک عظیم عالمی منصوبہ تھا- وہ اتنا بڑا منصوبہ تھاکہ صرف اہلِ ایمان کی مدد سے وہ انجام نہیں پاسکتا تھا- اللہ تعالی نے اِس انقلاب کو یقینی بنانے کے لیے یہ کیا کہ اہلِ ایمان کے علاوہ، دوسرے گروہوں سے تائید (support) کا کام لیا- اسلام کی تاریخ میں اِس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں- یہاں وضاحت کے لیے صرف دو مثالیں درج کی جاتی ہیں-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 610 عیسوی میں مکہ میں ہوئی - جیسا کہ عرض کیاگیا، یہاں تائید کا ایک انوکھا معاملہ پیش آیا- مکہ میں قریش کے نام سے ایک قبیلہ تھا جو کعبہ کا متولی تھا- اُس نے اپنی سیادت کی توسیع کے لیے یہ کیا کہ عرب کی سرزمین میں موجود تمام قبائل کے بت لاکر کعبہ کی عمارت میں رکھ دیے- اِس طرح دھیرے دھیرے کعبہ تمام عرب قبائل کا ایک عبادتی مرکز بن گیا- ہر قبیلے کے لوگ اپنے بت کی زیارت اور پرستش کے لیے مکہ آنے لگے- اِس طرح مکہ نے تمام عرب قبائل کے لیے مقامِ اجتماع کی حیثیت اختیار کرلی- تمام عرب قبائل کے لوگ مسلسل طورپر مکہ آنے لگے- اِس طرح پیغمبر اسلام کو یہ موقع مل گیا کہ وہ مکہ میں رہتے ہوئے تمام عرب قبائل میں اپنا مشن پھیلا سکیں— قریش اُس وقت ایک مشرک قبیلے کی حیثیت رکھتے تھے- اِس کے باوجود اللہ تعالی نے اُن سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے موحدانہ مشن کی تائید کا کام لیا-
اہلِ مغرب کے ذریعے تائید
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں غیر اہلِ ایمان کی تائید کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہے جو بعد کے زمانے میں پیش آیا- یہ اہلِ مغرب کے ذریعے تائید فراہم کرنے کا واقعہ تھا- یہ واقعہ مغرب کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance)کے بعد پیش آیا-
قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَآتَاکُمْ مِنْ کُلٍّ مَّا سَأَلْتُمُوہُ ( 14:34 )-اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو اس کی ضرورت کی تمام چیزیں دے دیں ہیں-لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں انسان کو یہ اشیاءِ ضرورت صرف محدود طور پر حاصل ہوئی تھیں-جو چیزیں دنیا میں فطری طورپر آغازِ تخلیق سے پائی جاتی تھیں، صرف اُن چیزوں تک انسان کی رسائی ہوسکی- مثلاً سواری کے لیے گھوڑا، وغیرہ- دوسری چیزیں وہ تھیں جن کے حصول کے لیے ٹکنالوجی کی دریافت ضروری تھی- قدیم زمانے میں انسان اِس ٹکنالوجی کو دریافت نہ کرسکا، اِس لیے وہ اِس دوسری قسم کی اشیاءِ ضرورت کو حاصل کرنے سے محروم رہا-
یہ ٹکنالوجی صرف مغربی تہذیب کے ذریعے دریافت ہوئی اور پھر ضرورت کی بے شمار نئی چیزیں انسان کے لیے قابلِ حصول ہوگئیں- یہ اشیاءِ ضرورت صرف اشیاءِ ضرورت نہ تھیں، بلکہ وہ شکر خداوندی کے نئے اور عظیم تر آئٹم کی حیثیت رکھتی تھیں-
اِسی طرح قرآن میں بتایا گیاہےکہ پیغمبر کا مشن سارےاہلِ عالم کے لیے ہے( 25:1 )- لیکن پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے زمانے میں مشن کا یہ عالمی ابلاغ عملاً ممکن نہ ہوسکا- کیوں کہ اس کے لیے عالمی کمیونکیشن کی ضرورت تھی اور قدیم زمانے میں یہ عالمی کمیونکیشن وجود میں نہیں آیا تھا- عالمی کمیونکیشن کے ذرائع موجودہ زمانے میں پہلی بار اہلِ مغرب نے دریافت کیے- یہ اہلِ مغرب کی طرف سے پیغمبرانہ مشن کی خصوصی تائید کا ایک معاملہ تھا-
اِسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آفاق اور انفس میں اللہ کی آیات (signs) چھپی ہوئی ہیں- یہ آیات ظاہر ہو کر انسان کے لیےتبیینِ حق کا ذریعہ بنیں گی- یہ گویا کائناتی سطح پر اعلی معرفت کے ظہور کی پیشگی خبر تھی، مگر قدیم زمانے میں اس کا ظہور نہ ہوسکا- اِس کا ظہور پہلی بار موجودہ زمانے میں اہلِ مغرب کی سائنسی دریافتوں کے ذریعے ہوا- یہ بھی غیر اہلِ ایمان کی طرف سے پیغمبر اسلام کے مشن کی تائید کا ایک اہم معاملہ تھا-
یہ خارجی تائید اپنے طریقے کے اعتبار سے، عین وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہا جاتا ہے- پیغمبرانہ مشن کے لیے یہ خارجی تائید کوئی اتفاقی معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک ایسا معاملہ تھا جو اللہ کی طرف سے پیشگی طور پر مقدر کردیاگیا تھا- اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث:3062)- اِس حدیث میں موید کے لیے ’فاجر‘کا لفظ استعمال ہوا ہے- فاجر کا مطلب ہے — بدکردار(sinner)- اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے پیغمبر کے مشن کی خارجی تائید کا جو کام ہے، وہ صرف مخلصین اور مومنین کے ذریعے نہیں ہوگا، بلکہ وہ ایسے افراد کے ذریعے بھی ہوگا جو اخلاقی اعتبار سے بد کردار اور گناہ گار ہوں گے-
مذکورہ دونوں واقعات پیغمبرانہ مشن کے لیے عظیم تائیدی واقعات تھے، مگر یہ دونوں واقعات اہلِ ایمان کی تائید سے پیش نہیں آئے، بلکہ وہ ایسے لوگوں کے ذریعے پیش آئے جو فقہ اسلامی کی اصطلاح میں ’’مشرک اور فاجر‘‘تھے- فاجر شخص کے ذریعے تائید ِ دین کے یہ واقعات صرف تائید کے واقعات نہیں ہیں، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ دلیلِ نبوت بھی ہیں-
اہلِ مغرب اور مغربی تہذیب
موجودہ زمانے میں مسلم مصنفین نے ہزاروں کی تعداد میںایسی کتابیں اور مقالات شائع کیے ہیں جن کا موضوع اہلِ مغرب یا مغربی تہذیب ہوتا ہے- اِس قسم کی تحریریں عربی، اردو، انگریزی اور دوسری زبانوں میں چھپی ہیں اور اُن کو کسی بھی مسلم کتب خانے میں دیکھا جاسکتا ہے- مثال کے طورپر چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
جاہلیة القرن العشرین، محمد قطب ،
دار الشروق، القاہرة 1993، عدد الصفحات: 292
عالمِ اسلام دجالی تہذیب کی زدمیں ، محمد موسی بھٹو، سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ،صفحات: 188
Islam at the Crossroads, Leopold Muhammad Asad
اِس قسم کی کتابوں میں مغرب اور مغربی تہذیب کی جو تصویر پیش کی گئی ہے، وہ تمام تر منفی تصویر ہے- اِس قسم کی کتابوں کا مشترک خلاصہ یہ ہے کہ مغرب اخلاقی پستی کی آخری حد تک پہنچ چکا ہے- اِن تحریروں کے مطابق، مغرب نام ہے— مادیت اور اباحیت اور ہوس پرستی اور لادینیت کا-گویا اہلِ مغرب کا کیس وہی ہے جس کو حدیث میں ’الرجل الفاجر‘ کہاگیاہے، یعنی بدکردار اور گناہ گار-
اب بالفرض اگر یہ درست ہو کہ اہلِ مغرب کا کیس ’’فاجر‘‘ انسان کا کیس ہے، تب بھی مسلم مقررین اور محررین اِس معاملے میں کامل طورپر غلط قرار پائیںگے- کیوں کہ اِس معاملے کا دوسرا معلوم پہلو یہ ہے کہ یہی اہلِ مغرب ہیں جنھوںنے بے پناہ محنت کے بعد اُن تمام تائیدی چیزوں کو دریافت (discover) کیا جن کا ذکر بطور پیشین گوئی قرآن میں کیا گیا تھا- گویا کہ یہی وہ مویّد لوگ ہیں جو حدیث کی مذکورہ پیشین گوئی کا مصداق ہیں- ایسی حالت میں ، مسلم مقررین اور محررین کا فرض تھاکہ وہ کہتے کہ اہلِ مغرب کے ’’فاجر‘‘ ہونے کے باوجود ہمیں اُن کے اِس کنٹری بیوشن کا اعتراف کرنا ہے، کیوں کہ یہی لوگ ہیں جنھوں نے تائید دین کے وہ تمام اسباب مہیا کیے ہیں جو آج ہمارے لیے دینِ خداوندی کی نسبت سے بے حد ضروری ہیں- یہ اسباب ہمارے لیے شکر اور معرفت کا اعلی آئٹم ہیں اور اِسی کے توسط سے پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ دعوت الی اللہ کے کام کو عالمی سطح پر انجام دیاجاسکے-
تاریخ کا مثبت تصور
تاریخ کا مطالعہ کرنے والے عام طورپر تاریخ کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- ان کو پوری تاریخ فساد اور خوں ریزی کا ایک جنگل معلوم ہوتی ہے- آدم کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے بھی یہ شبہہ ظاہر کیا تھا ( 2:30 )-
اللہ تعالی نے ایک مظاہرے کے ذریعے فرشتوں کو بتایا کہ تم پورے انسانی مجموعے کے اعتبار سے تاریخ کو دیکھ رہے ہو، اِس لیے تاریخ تم کو فساد اور خوں ریزی کا جنگل معلوم ہوتی ہے- لیکن تم تاریخ کو افراد کے اعتبار سے دیکھو، پھر تم کو نظر آئے گا کہ تاریخ کے ہر دور میں بہترین افراد پیدا ہورہے ہیں- یہی استثنائی افراد تاریخ کا حاصل ہیں-
تاریخ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والا یہ کرے کہ وہ انسان کی طرف سے آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom) کو الگ کرکے تاریخ کا مشاہدہ کرے- خالق نے چوں کہ انسان کو آزادی دی ہے، اِس لیے آزادی کو غلط استعمال کرنے کے نتیجے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں-
یہی وہ چیز ہے جس کو فلاسفہ عمومی حیثیت دے کر، پرابلم آف اول (problem of evil) کہتے ہیں- مگر انسان کی آزادی مصلحتِ امتحان کی بنا پر ہے، اِس لیے تاریخ کے مطالعے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آزادی کے غلط استعمال کے پہلو کو الگ کرکے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے- یہ حکمت تاریخ کے ہر دور کے لیے ضروری ہے، سیکولر تاریخ کے دور کے لیے بھی اور اسلامی تاریخ کے دور کے لیے بھی-
تاریخ میں خدائی مداخلت
1- ہاجرہ اور اسماعیل کے ذریعے عرب کے صحرا میں ایک نئی نسل بنانا بعد کو اِسی نسل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پیدا ہوئے -
2- کعبہ کا تمام قبائل کے بتوں کا مرکز بن جانا- اِس طرح مکہ میں آل عرب اجتماعات (All Arab Assembly) کا وقوع ممکن ہوجانا-
3- یمن کے حاکم ابرہہ کا کعبہ پر حملہ، مگر اس کی ناکامی کی بنا پر کعبہ کی اجتماعی حیثیت کا محفوظ رہنا-
4- مکہ میں تیرہ سالہ دعوتی جدوجہد کے ذریعے تمام صالح افراد کا اسلام میں داخل ہوجانا- اِنھیں منتخب افراد کو قرآن میں خیر امت ( 3:110 )کہا گیا ہے-
5- ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ بدر کا پیش آنا اور اِس غزوہ میں فرشتوں کی مدد کے ذریعہ تمام سرکش افراد کا قتل کیا جانا-
6- ہجرت سے پانچ سال پہلے جنگِ بُعاث میں دو قبیلوں کے درمیان جنگ ہونا، اِس جنگ میں قبائلی سرداروں کا زور ٹوٹ جانا-
7- حدیبیہ (6 ہجری) کی یک طرفہ صلح کے بعدسارے عرب میں امن قائم ہونا اور سارے عرب میں اسلام کی اشاعت-
8- فتح مکہ کے بعد عرب قبائل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیداہونا، اس کے بعد عام الوفود کے ذریعے تمام قبائل کو تیزی سے اسلام میں داخل کرلینا-
9- بازنتینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کے درمیان جنگی ٹکراؤ ہونا اور اِس دو طرفہ جنگ میں دونوں کا آخری حد تک کمزور ہوجانا-
10- صلیبی جنگوں کے بعد مخصوص اسباب کے تحت، اہلِ مغرب کا سائنسی مطالعے کی طرف راغب ہونا اور اسلام کے موافق، فطرت کے حقائق کا انکشاف-
اوپر دس ایسے عوامل (factors) کو دکھایا گیا ہے جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن میں سپورٹنگ فیکٹرس (supporting factors)کا رول انجام دیا- یہ تمام اسباب غیر عادی (unusual) قسم کے تھے جو بلاشبہہ پیغمبر کے اپنے اختیار سے باہر تھے، حتی کہ بظاہر پیغمبر اسلام نے ان کی بابت سوچا بھی نہ تھا- اِن عوامل کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہ تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے مشن میں ایسی غیر معمولی کامیابی حاصل کرسکیں- یہ ناقابلِ توجیہہ واقعہ اِس بات کا ثبوت ہےکہ پیغمبر اسلام کو اپنے مشن میں اللہ کی خصوصی مدد حاصل تھی-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے تین مرحلے تھے— پہلا مرحلہ مردانِ کار یا ٹیم کی تیاری کا مرحلہ تھا- یہ پہلا مرحلہ آپ کی پیدائش سے پہلے لمبی مدت میں بنو اسماعیل کی صورت میں تشکیل پایا- دوسرا مرحلہ مختصر مرحلہ ہے جو پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کی زندگی میں پورا ہوا- تیسرا مرحلہ دوبارہ لمبی مدت کا مرحلہ تھا جو کہ مغربی تہذیب کی صورت میں اپنی تکمیل تک پہنچا-
نورِ ہدایت کا اتمام
پیغمبرانہ مشن کے سلسلے میں ایک منصوبۂ الہی کو اظہارِ دین کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- اظہارِ دین اور اتمامِ نور کی آیت قرآن کی تین سورتوں میں آئی ہے- سورہ الصف کے الفاظ یہ ہیں: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ۭ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ( 61:8-9 ) یعنی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، حالاں کہ اللہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا،خواہ منکروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو- اللہ ہی ہے جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ وہ اُس کوسب دینوں پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو-
قرآن کی اِس آیت میں اظہارِ دین سے کچھ لوگ سیاسی غلبہ مراد لیتے ہیں، مگر آیت کے الفاظ سے اِس مفہوم کاکوئی تعلق نہیں- قرآ ن کی آیت میں جو لفظ استعمال کیاگیا ہے، وہ لیظہرہ علی الدین کلّہ ہے، نہ کہ لیظہرہ علی الأرض کلّہا ، یعنی اِس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے، وہ زمین پر ہونے والا غلبہ نہیں ہے، بلکہ وہ دین یا اَدیان پر ہونے والا غلبہ ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس سے مراد فکری اور نظریاتی غلبہ ہے، نہ کہ سیاسی اور حکومتی غلبہ- دوسرے لفظوں میں، اِس سے مراد غلبہ بہ مقابلہ آئڈیالوجی ہے، نہ کہ غلبہ بہ مقابلہ سیاسی اقتدار- اِسی طرح قرآن کی مذکورہ آیت میں ’متمّ نورہ‘ کا لفظ آیا ہے- قرآن میں ’متم حُکمہ‘ کا لفظ نہیں آیا ہے، یعنی اِس سے مراد نور کا اتمام ہے، نہ کہ حکومت کا اتمام- اِس اتمام کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی مسلمانوں کی حکومت مکہ مدینہ میں قائم ہوئی ہے، آئندہ ان کی حکومت سارے عالم میں قائم ہوجائے گی-
پیغمبر کا مشن اصلاً ایک غیر سیاسی مشن (non-political mission)ہوتا ہے- پیغمبر کے مشن کو بتانے کے لیے قرآن میں جو الفاظ آئے ہیں، اُن میں سے کوئی بھی لفظ سیاسی لفظ نہیں- مثلاً انذار، تبشیر، ابلاغ، دعوت، شہادت، وغیرہ- ایسی حالت میں پیغمبر کے مشن کے اظہار یا اتمام کو بتانے کے لیے وہی تعبیر درست ہوسکتی ہے جو پیغمبرانہ مشن کی روح کے مطابق ہو، اور وہ بلاشبہہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے عالمی سطح پر خدا کے پیغام کی توسیع واشاعت-
پیغمبر کے مشن کی سیاسی تعبیر کرنا یا اس کو حکومت کی اصطلاحات میں بیان کرنا کوئی سادہ بات نہیں- یہ اللہ کے تخلیقی منصوبے کی تردید کے ہم معنی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو مساوات (equation) ہے، وہ حاکم اور محکوم کی مساوات ہے، جب کہ صحیح تصور کے مطابق، اہلِ ایمان اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو مساوات ہے، وہ داعی اور مدعو کی مساوات ہے، نہ کہ حاکم اور محکوم کی مساوات-اِس تصور کے مطابق، پیغمبر کے مشن کا اظہار اور اتمام بہ اعتبارِ ’’نور‘‘ متعین کیا جائے گا، نہ کہ بہ اعتبارِ حکومت، اوروہ یہ ہے کہ پیغمبر کے مشن کے ساتھ ایسے اسباب ووسائل جمع ہوں جو پیغمبر کے مشن کی عمومی اشاعت میں تائید کا کام دیں- ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبرانہ مشن کی اشاعت کے لیے صرف روایتی وسائل موجود تھے- اِس لیے ایساہوا کہ اگرچہ پیغمبر کا مشن ایک عالمی مشن تھا، لیکن وہ وسائل کی محدودیت کی بناپر اپنے ابتدائی دور میں پورے عالم تک پہنچ نہ سکا-
قرآن کی مذکورہ آیت ( 61:8 ) ایک اعتبار سے پیشین گوئی ہے- اِس آیت میں یہ اعلان کیاگیا ہے کہ اللہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا کرے گا، جب کہ تبلیغِ قرآن کا عالمی نشانہ پورا کیا جاسکے- رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں جو انقلاب آیا، اس کے ذریعے دراصل تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کرنا تھا- یہ پراسس نہایت طاقت ور صورت میں جاری ہوا، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنے نقطۂ انتہا (culmination) تک پہنچ گیا-
موجودہ زمانے کو ایج آف کمیونکیشن (age of communication) کہاجاتا ہے- یہ ایج آف کمیونکیشن کیا ہے- یہ دراصل دعوت بذریعہ روایتی ذرائع کو دعوت بذریعہ ٹکنالوجی کے دور میں پہنچانا ہے- موجودہ زمانے میں کمیونکیشن کے جو ذرائع پیدا ہوئے ہیں، انھوں نے دعوت بذریعہ روایتی ذرائع کو دعوت بذریعہ کمیونکیشن کے دور میں پہنچادیا ہے- اب یہ پوری طرح ممکن ہوگیا ہے کہ پیغمبرانہ دعوت کی اشاعت عالمی سطح پر انجام دی جائے- جدید ٹکنالوجی اور دوسرے معاون حالات کے نتیجے میں آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ کسی سیاسی اقتدار یا کسی پولٹکل ایمپائر کے بغیر غیر سیاسی دائرے میں اسلامی دعوت کا ایک عالمی ایمپائر قائم کیا جاسکے- اِس ایمپائر کو غیر سیاسی دعوہ ایمپائر (non-political dawah empire) کہاجاسکتا ہے- جدید کمیونکیشن اور پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کو استعمال کرکے عالمی دعوت کی اُس پیشین گوئی کو واقعہ بنایا جاسکے جس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً ( 25:1 )-
ربانی تہذیب کا ظہور
رسول اور اصحابِ رسول کے ذریعے تاریخ میں جو انقلاب آیا، وہ محدود طورپر صرف ایک سیاسی واقعہ نہ تھا- اُس کا تعلق پوری تاریخ بشری سے تھا- جس چیز کو قرآن میں ’’اتمامِ نور‘‘ کہا گیا ہے، وہ دوسرے لفظوں میں تہذیبِ ربانی (divine civilization) کو قائم کرنے کا معاملہ تھا- اللہ کو یہ مطلوب تھا کہ اس کی کتاب (قرآن) محفوظ ہوجائے- تاریخ میں ایسے انقلابات ظہور میں آئیں جن کے نتیجے میں دنیا میں پرنٹنگ پریس کا دور آئے- فطرت میں چھپے ہوئے راز منکشف ہوں، تاکہ انسان کو علمی سطح پر خالق کی معرفت حاصل ہو- کمیونکیشن کے ذرائع دریافت ہو کر انسان کے استعمال میں آسکیں- اِسی طرح یہ ہو کہ دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آئے- دینِ حق کی عالمی اشاعت ممکن ہوجائے- معرفت کے تمام چھپے ہوئے خزانوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو جائے، وغیرہ-
اِس پورے معاملے کو تہذیب ربانی کے ظہور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے- رسول اوراصحابِ رسول کے ذریعے یہی انقلابی واقعہ پیش آیا اور فطرت کے قانون کے مطابق، مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اکیسویں صدی تک پہنچا جو اس کی تکمیل کا مرحلہ ہے- تاہم تکمیل کا یہ مرحلہ بہ اعتبار امکان ہے، نہ کہ بہ اعتبار واقعہ- ربانی تہذیب کیا ہے، وہ خدا کا قائم کردہ ایک با معنی تسلسل ہے جو کسی انقطاع کے بغیر تاریخِ انسانی میں مسلسل طورپر جاری ہے-
اب اہلِ اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ تاریخ کے اشارے کو سمجھیں، وہ پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرکے دینِ توحید کو پر امن انداز میں تمام عالم تک پہنچا دیں- یہی پیغمبرانہ مشن کی وہ تکمیل ہے جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں کی گئی تھی- اِس عالمی رول کو ادا کرنے کی صرف ایک ہی شرط ہے، وہ یہ کہ اہلِ اسلام قوموں کے خلاف، نفرت اور تشدد کے کلچر کو یک طرفہ طورپر ختم کردیں اور کسی شرط کے بغیر پر امن دعوتی کلچر کو اختیار کرلیں- ( 2013)
واپس اوپر جائیں