Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
لوگ باشعور ہوں۔ وہ مسائل کی حقیقی نوعیت کو سمجھیں۔ وہ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرسکیں۔ وہ اس بات کو جانیں کہ دنیا میںکیا چیز قابلِ حصول ہے، اور وہ کیا چیز ہے جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔
تعلیم آدمی کو بے شعوری سے نکالتی ہے اور اس کے اندر شعور کی صفت پیدا کرتی ہے۔ اس دنیا کی تمام کامیابیاں بلا شبہ تعلیم یافتہ انسان کے لیے مقدر ہیں۔ تعلیم کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
¯¯¯¯¯
ميں جو كهنا چاهتا هوں، اس كو مثال سے سمجھئے۔ آپ كا ايك لڑكا هے۔ آپ اس كو كامياب ڈاكٹر ديكھنا چاهتے هيں۔ آپ كيا كريں گے۔ آپ اس كو اسكول ميں داخل كريں گے۔ بيالوجي كے ساتھ هائي اسكول كرائيں گے۔ پھر بي ،ايس ،سي كرائيں گے۔ پھر اس كو ايم بي بي ايس كے كورس ميں داخل كريں گے۔ پھر آپ كي كوشش يه هوگي كه اس كو ايف آر سي ايس كرنے كے ليے لندن بھيجيں۔ ان تمام مراحل سے گزرنے كے بعد هي آپ يه اميد كرسكتے هيں كه وه ايك ڈاكٹر كي حيثيت سے دنيا ميں اپني جگه بنائے۔ آپ ميں سے كوئي شخص ايسا نهيں كرے گا كه وه اپنے لڑكے كو يوں هي چھوڑ دے كه وه كھيلتا كودتا رهے۔ اس كے بعد جب وه 25 برس كا هوجائے تو اس كا باپ اس كو ڈاكٹر بنانے كے حق ميں پرجوش تقريريں شروع كردے، وه حكومت كو تار بھيجے كه ميرے لڑكے كو اسپتال ميں سرجن مقرر كرو۔ يا يه كه اس كو ’’پس مانده‘‘ قرار دے كر ڈگري كے بغير ڈاكٹر تسليم كرلو۔ آپ ميں سے هر شخص خوب جانتا هے كه ڈاكٹر بننے كے ليے ضروري هے كه اس كا لڑكا تعليمي اور تربيتي كورس كو پورا كرے۔ محض مطالبه كرنے سے كوئي شخص كبھي ڈاكٹر نهيں بن سكتا۔ يه دنيا استحقاق كي دنيا هے، مطالبات كي دنيا نهيں۔
کام دہلی کے ہفت روزہ الجمعیۃ کے ذریعہ جاری رہا۔ اس کے بعد 1976 میں میںنے دہلی سے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا،پھر زیادہ منظم انداز میں اس کام کو کرنے لگا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف اخبارات اور جرائد میں مسلسل اس کی تائید میں مضامین شائع کیے۔ پورے ملک میں سفر کرکے جلسوں اور اجتماعات کی صورت میںاس مثبت پیغام کو مسلمانانِ ہند تک پہنچایا۔
یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کے لیے اجنبی تھا۔ ایک عربی مثل ہے الناس اعداء ما جھلوا (لوگ اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں، جس سے وہ بے خبر ہیں) ۔چنانچہ ابتدائی طور پر مسلمانوں میںاس کی مخالفت شروع ہوگئی ۔وہ صبر اور اعراض کے نظریہ کو دشمن کی چال سمجھنے لگے۔ مگر مسلسل تجربے کے بعد اب ان کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اب نہ صرف گجرات بلکہ سارے ملک میں مسلمانوں کا ذہن بدل چکا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ دوسروں کو الزام دینا سراسر بے فائدہ کام ہے۔ صحیح یہ ہے کہ ساری طاقت خود اپنے تعمیر و استحکام پر لگائی جائے۔
یہ بلاشبہ ایک صحت مند رجحان ہے۔ سائنسی انقلاب کے بعد دنیا میں مکمل طورپر ایک نیا دور آگیاہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تلوار میں طاقت ہے (ہر کہ شمشیر زند سکہ بہ نامش خوانند) ۔مگر اب ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ طاقت کا راز علم ہے۔ پہلے اگر دنیا میں صاحب شمشیر لوگوں کا غلبہ ہوتا تھا، تو اب دنیا میں غلبہ ان لوگوں کے لیے مقدر ہو چکا ہے، جو صاحب علم ہوں۔
یہ دنیا مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاں ہمیشہ ایسا ہوگا کہ دوسروں کی طرف سے آپ کو تلخ تجربات پیش آئیں گے ،اپنوں کی طرف سے بھی اور غیروں کی طرف سے بھی۔ وہ شخص نادان ہے جو تلخیوں کی یاد میں جئے۔ دانشمند وہ ہے جو تلخ یادوں کو بھلائے اور صبر و تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مستقبل کی تعمیر میں وقت لگا دے۔
تعلیم کا مقصد صرف سروس حاصل کرنا نہیں ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو باشعور بنایا جائے۔ اس دنیا میں سارے مسائل کی جڑ بے شعوری ہے، اور سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ
زندگي كا سب سے مضبوط زينه هيں۔ تاريخ كي اكثر اعلي ترين كاميابياں معمولي حالات كے اندر هي سے برآمد هوئي هيں۔
بی بی سی لندن کے اردو شعبہ کی ایک ٹیم نے انڈیا کی ریاست گجرات کا دورہ کیا۔ وہاں اس نے خاص طورپر گجرات کے مسلمانوں سے ملاقات کی اور اس موضوع پر ایک رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کا ایک حصہ میں نے 22 جولائی 2004 کو بی بی سی لندن کے نشریہ میں سنا۔ اس نشریہ میں بتایا گیا تھا کہ ریاست میں پچھلے فرقہ وارانہ فساد فروری ۔مارچ 2002 کے بعد گجرات کے مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اب یہاں کا ہر مسلمان تعلیم کے بارے میں سوچتا ہے۔ ہر ایک یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھاؤ۔
یہ ایک نیا رجحان ہے۔ 1947کے بعد ہندستانی مسلمانوں میں مسلسل طورپر ایک ہی ذہن پایا جارہا تھا۔ وہ تھا شکایت اور احتجاج کی نفسیات کا شکار ہونا،نیز تشدد کا جواب تشددسے دینا۔ نصف صدی سے زیادہ مدت کے تجربہ کے بعد یہ نظریہ ناکام ثابت ہوا۔ اب پہلی بار مسلمانوں میں یہ طرزِ فکر پیدا ہوا ہے کہ جوابی ذہن کے تحت سوچنا اور ماضی کے تلخ تجربوں میں جینا ایک بے فائدہ کام ہے۔ اب وہ پہلی بار پیچھے کو بھلا کر آگے کی طرف سوچ رہے ہیں۔ وہ انتقام کے بجائے تعمیر کا نظریہ اپنا رہے ہیں۔ اس جدید رجحان کو ایک جملہ میںاس طرح بیان کیا جاسکتا ہے---ماضی کو بھلاؤ، بچوں کو پڑھاؤ۔
1947 کے بعد پیش آنے والے ناخوش گوار واقعات کے نتیجہ میں تمام ہندستانی مسلمان رد عمل کی نفسیات کے شکار ہوگئے تھے۔ راقم الحروف نے پہلی بار مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کا راز مثبت سوچ میںہے، نہ کہ منفی سوچ میں۔ 1965 میں یہ کوشش میں نے لکھنؤ کے ہفت روزہ ندائے ملت کے ذریعہ شروع کی۔ اس کے بعد 1967 سے یہ
We could take heart that it is not necessary to be a good student to become Einstein.
هم كو جاننا چاهئے كه آئن سٹائن بننے كه لئے يه ضروري نهيں هے كه آدمي طالب علمي كے زمانه ميں ممتاز رها هو۔ آئن سٹائن نے اپني پهلي سائنسي كتاب اس وقت شائع كي جب كه اس كي عمر 26 سال تھي۔ اس كے بعد سے اس كي شهرت بڑھتي هي چلي گئي۔ آئن سٹائن كي زندگي بالكل ساده تھي۔ وه نهايت ساده غذا كھاتا تھا۔ وه اكثر آدھي رات تك اپنے كام ميں مشغول رهتا تھا۔ اس كو اسرائيل كي صدرات پيش كي گئي تھي ،مگر اس نے انكار كرديا۔ اس كا كهنا تھا كه سياست انسانيت كا كينسر هے۔ 1933ميں اس نے هٹلر كے جرمني كو چھوڑ ديا تھا۔ هٹلر كي حكومت نے اعلان كيا كه جو شخص آئن سٹائن كا سر كاٹ كر لائے گا اس كو 20 هزار مارك انعام دياجائے گا۔ اس زمانه ميں يه رقم بهت زياده تھي۔ مگر آئن سٹائن كي عظمت لوگوں كے دلوں پر اتني قائم هوچكي تھي كه كوئي اس انعام كو حاصل كرنے كي جرأت نه كرسكا (7 اكتوبر 1979)۔
تاريخ ميں اس طرح كي بهت مثاليں هيں جو بتاتي هيں كه بڑا انسان بننے كے ليے بڑا بچه پيداهونا ضروري نهيں۔ معمولي حيثيت سے آغاز كركے آدمي بڑي بڑي كاميابياں حاصل كرسكتا هے، بشرطيكه وه جدوجهد كي شرطوں كو پورا كرے۔ بلكه وه لوگ زياده خوش قسمت هيں جن كو مشكل مواقع ميں زندگي كا ثبوت ديناپڑے۔ كيوں كه مشكل حالات عمل كا محرك هوتے هيں۔ وه آدمي كے اندر چھپي هوئي صلاحيتوں كو بيدار كرتے هيں۔ نيز زندگي كے بهترين سبق هميشه مشكل حالات ميں ملتے هيں۔ اعلي انسان راحتوں ميں نهيں بلكه مشكلوں ميں تيار هوتا هے۔ حقيقت يه هے كه خدا كي اس دنيا ميں امكانات كي كوئي حد نهيں۔ يهاں كسي كو اپنے عمل كے لئے معمولي آغاز ملے تو اس كو مايوس نهيں هونا چاهئے۔ معمولي حالات
معلّم نے مجھ كو مارا هے۔ )َجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِدَاءَهُمْ أَنْ يُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْكِتَابَةَ۔ قَالَفَجَاءَ غُلَامٌ يَوْمًا يَبْكِي إِلَى أَبِيهِ، فَقَالَمَا شَأْنُكَ؟ قَالَضَرَبَنِي مُعَلِّمِي)مسند احمد، حدیث نمبر 2216۔
يه قيدي سب كے سب اسلام كے دشمن تھے۔ ان كو چھوڑنے ميں يه انديشه تھا كه وه دوباره اسلام كے خلاف مسئله بنيں گے۔ اس كے باوجود انھيں تعليم كي قيمت پر چھوڑ دياگيا۔ اس سے معلوم هوا كه تعليم كي اهميت اسلام ميں اتني زياده هے كه هر انديشے كو نظر انداز كركے اسے حاصل كرنا چاهيے۔
اس كو اسكول سے خارج كرديا گياتھا
پروفيسر البرٹ آئن سٹائن (1955۔1879) نے 20 ويں صدي كي سائنس ميں عظيم انقلاب برپاكيا۔ مگر اس كي زندگي كا آغاز نهايت معمولي تھا۔ تين سال كي عمر تك وه بولنا شروع نه كرسكا۔ بظاهر وه ايك معمولي باپ كا معمولي بچه تھا۔ نو سال كي عمر تك وه بالكل عام بچه دكھائي ديتا تھا۔ اسكول كي تعليم كے زمانه ميں ايك بار وه اسكول سے خارج كردياگيا۔ كيوں كه اس كے استادوں كا خيال تھا كه اپني تعليمي نا اهلي كي وجه سے وه دوسرے طالب علموں پر برا اثر ڈالتا هے۔ زيورك كے پالي ٹكنيك ميں اس كو پهلي بار داخله نه مل سكا كيوں كه آزمائشي امتحان ميں اس كے نمبر بهت كم تھے۔ چنانچه اس نے مزيد تياري كركے اگلے سال داخله ليا۔ اس كے ايك استاد نے اس كے بارے ميں كها
Al-bert was a lazy dog.
البرٹ ايك سست كتاتھا۔ 20 سال كي عمر تك البرٹ آئن سٹائن ميں كوئي غير معمولي آثار نظر نه آتے تھے۔ مگراس كے بعد اس نے محنت شروع كي تو وه اس بلندي تك پهنچا جو موجوده زمانه ميںبمشكل كسي دوسرے سائنس داں كوحاصل هوئي۔ اسي بنا پر
جاپاني قوم انتهائي محبت وطن قوم هے۔ اگر قوم كا ايك روپيه كا نقصان هورهاهو تو ايك جاپاني اپني قوم كو ايك روپيه كے نقصان سے بچانے كے ليے اپنا سو روپيه كا نقصان كروالينے كو اپنے ليے اعزاز سمجھے گا۔ (نوائے وقت، لاهور، 12 جولائي 1992)--- جاپان نے حريف سے ٹكراؤ كو چھوڑا۔ اس كے بعد هي يه ممكن هوا كه وه اپنے يهاں اعليٰ سائنسي معاشره وجود ميں لاسكے۔ يهي دنيا ميں ترقي اور كاميابي كا واحد راسته هے۔
علم كي اهميت اسلام ميں اتني زياده هے كه هر دوسري مصلحت پر اس كو فوقيت حاصل هے۔ موجوده زمانه ميں مسلمان تعليم كے ميدان ميں دوسري قوموں سے پيچھے هوگئے۔ اور اس كي سب سے بڑي وجه يه تھي كه موجوده زمانه ميں جو تعليمي ادارے قائم هوئے، ان كے اساتذه زياده ترغير مسلم تھے۔ مسلمانوں كے رهنماؤں نے كها كه يه غير مسلم استاد همارے بچوں كو خراب كرديں گے، اس ليے ان اداروںميں مسلمانوں كو داخل كرنا درست نهيں۔ اس كے نتيجه ميں مسلمان تعليم ميں بهت پيچھے هوگئے۔
يه مصلحت درست نه تھي۔ اس كا ثبوت يه هے كه اسلام كي تاريخ ميں جو سب سے پهلا اسكول كھولا گيا، اس كے تمام استاد غير مسلم تھے۔ يه اسكول مدينه ميں مشرك قيديوں كے ذريعه كھولا گيا۔ بعض لوگ صفّه كو پهلا اسلامي مدرسه كهتےهيں۔ مگر صفّه تربيت گاه تھا نه كه تعليم گاه۔ اسلام كي پهلي تعليم گاه يقيناً وه هےجو غزوهٔ بدر كے قيديوں كے ذريعه مدينه ميں قائم كي گئي اور اس كےٹيچر سب كے سب مشرك اور غير مسلم تھے۔
حتي كه اس تعليمي نظام كي بنا پر مدينه ميں مسائل بھي پيداهوئے۔ مثلاً مسند احمد بن حنبل كي ايك روايت ميں بتايا گيا هے كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے بدر كے قيديوں كا فديه يه مقرر كيا كه وه انصار كے لڑكوں كو لكھنا پڑھنا سكھا ديں۔ اس كے بعد ايك روز ايك لڑكا روتا هوا اپني ماں كے پاس آيا۔ ماںنے پوچھا تمھارا حال كيا هے۔ اس نے كها كه ميرے
اگست 1945 ميں جاپان مكمل طور پر تباه هوگيا۔ اس نے سياسي آزادي بھي كھودي اور معاشي استقلال بھي۔ اس كے بعد جاپان نے يه كيا كه سياسي آزادي كے مسئله كو چھيڑے بغير معاشي استقلال كے ليے جدوجهد شروع كردي، اس طريق كار كے ذريعه جاپان نے اتني كاميابي حاصل كي كه آج وه سپر اقتصادي طاقت شمار كيا جاتاهے۔ 1990 تك جاپان دنيا كو 5 كھرب ڈالر قرض كے طورپر دے چكا تھا۔ اندازه هے كه 1995 تك جاپان كے عالمي قرضه كي مقدار 10 كھرب ڈالر هوچكي هوگي۔ جاپان 1945 ميںامريكا كا سياسي محكوم تھا، آج جاپان نے خود امريكا كو اپنا اقتصادي مقروض بنالياهے۔
پاكستان كے ايك كالم نويس مسٹر ابو ذر غفاري مئي 1992 ميں كابل گئے۔ وهاں ان كي ملاقات ايك جاپاني صحافي سےهوئي، انھوںنے جاپاني صحافي سے پوچھا كه جاپان كي اس حيران كن ترقي كا راز كيا هے۔ كس طرح ايسا هوا كه جاپان نے ايك ناممكن كو ممكن بنا ديا۔
جاپاني صحافي نے جواب ديا كه جاپان كي اعليٰ ترقي كا راز جاپاني قوم كےاعليٰ كردار ميں چھپا هوا هے۔ اس نے كها كه همارے پاس قدرتي وسائل نهيں۔ اس ليے هم اپنے بچوں هي كو اپنا سب سے بڑاسرمايه سمجھتے هيں۔ جاپان كا ايك ايك گھر گويا جاپاني بچه كي تربيت گاه هے۔ جاپان كے لوگ اپنے بهترين وسائل اپنے بچه كي تعليم پر صرف كرتےهيں۔ چنانچه جاپاني قوم اس وقت مكمل طورپر ايك تعليم يافته قوم هے۔ همارے يهاں جهالت كا كوئي وجود نهيں۔ جاپان ميں اتنے زياده سائنسي تعليم يافته لوگ هيں كه آپ جاپان كو ايك سائنسي قوم كهه سكتےهيں۔
اس تعليم وتربيت نے جاپان كے لوگوں ميں اعليٰ ترين قومي كيركٹر پيدا كرديا هے، مثلاً
تلاش میں دلی آیا ہوں۔ اُنہوں نے اپنے کچھ حالات بتائے جس سے اندازہ ہوا کہ انہیں صحیح مشورہ دینے والا کوئی شخص نہیں ملا۔ اُن کے ماں باپ نے بھی غالباً لاڈ پیار کے سوا کوئی ایسی بات نہیں بتائی، جوان کی زندگی کی تعمیر کے لیے مفید ہو۔
میں نے کہا کہ میں آپ کو کوئی کام نہیں دے سکتا۔ البتہ میںآپ کو زندگی کی ایک حقیقت بتا سکتا ہوں ،جو دنیا میں کام پانے کے لیے ضروری ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ بے کار ہیں۔ دنیا کو واحد دلچسپی یہ ہے کہ آپ کے اندر کوئی ایسی صلاحیت ہے، جو دنیا کے لیے کارآمد ہو۔ آپ کو اگر کام پانا ہے تو اپنے آپ کو کار آمد بنائیے۔ اس کے بعد کام خود آپ کو ڈھونڈھے گا، نہ کہ آپ کام کو ڈھونڈھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے بنانے والے نے اس کو انٹرسٹ کی بنیاد پر بنایا ہے۔ ہر آدمی کا اپنا ایک انٹرسٹ ہے، اور اپنے اس انٹرسٹ کے لیے وہ دوڑ رہا ہے۔ ایسی دنیا میں کامیابی کی صورت صرف ایک ہے، وہ یہ کہ آپ یہ ثابت کرسکیں کہ آپ دنیا کے انٹرسٹ کو پورا کرسکتے ہیں۔ دنیا کے کام آئیے، اور دنیا آپ کو کام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
کام کی تلاش کا ذہن آدمی کے اندر مایوسی پیدا کرتا ہے، اور اپنے آپ کو کار آمد بنانے کا ذہن آدمی کے اندر یقین اورحوصلہ پیدا کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسروں سے امید نہ رکھے۔ وہ اپنے کام کو خود اپنے اندر تلاش کرے۔ وہ اپنی صلاحیت کو دریافت کرے، اور اپنی اس صلاحیت کو ترقی دے کر اپنے آپ کو سماج کے لیے کارآمد بنائے۔ وہ اتنی تیاری کرے کہ وہ دوسروں کی ضرورت بن جائے۔ دنیا میں کامیابی کا راز یہی ہے۔
دوسروں كے بارے ميں بے جا طور پر شكايت۔
پتھرهر ايك كے ليے سخت هے۔ البته وه اس آدمي كے ليے نرم هوجاتاهے جو اس كو توڑنے كا اوزار ركھتا هو۔ يهي صورت هر معامله ميںپيش آتي هے۔ اگر آپ لياقت اور اهليت كے ساتھ زندگي كے ميدان ميں داخل هوئے هوں تو آپ اپني واقعي حيثيت سے بھي زياده حق اپنے لئے وصول كرسكتے هيں۔ ’’وقت‘‘گزرنے كے بعد بھي ايك اجنبي كالج ميں آپ كا داخله هوسكتاهے۔ ليكن اگر لياقت اور اهليت كے بغير آپ نے زندگي كے ميدان ميں قدم ركھا هے تو آپ كواپنا واقعي حق بھي نهيں مل سكتا۔
گيس نيچے نهيں سماتي تو اوپر اٹھ كر اپنے ليے جگه حاصل كرتي هے۔ پاني كو اونچائي آگے بڑھنے نهيں ديتي تو وه نشيب كي طرف سے اپنا راسته بنا ليتا هے۔ درخت سطح كے اوپر قائم نهيں هوسكتا تو وه زمين پھاڑ كر اس سے اپنے ليے زندگي كا حق وصول كرليتا هے۔ يه طريقه جو غير انساني دنيا ميں خدا نے اپنے براهِ راست انتظام كے تحت قائم كرركھا هے وهي انسان كو بھي اپنے حالات كے اعتبار سے اختيار كرنا هے۔
هر آدمي جو دنيا ميں اپنے آپ كو كامياب ديكھنا چاهتا هو اس كو سب سے پهلے اپنے اندر كاميابي كا استحقاق پيدا كرنا چاهيے۔ اس كو چاهيے كه وه اپنے آپ كو جانے اور پھر اپنے حالات كو سمجھے۔ اپني قوتوں كو صحيح ڈھنگ سے منظم كرے۔ جب وه ماحول كے اندر داخل هو تواس طرح داخل هو كه اس كے مقابله ميں اپني اهليت ثابت كرنے كے ليے وه اپنے آپ كو پوري طرح مسلح كرچكا هو۔ اس نے حالات سے اپني اهميت منوانے كے ليے ضروري سامان كرلياهو۔ اگر يه سب هوجائے تو اس كے بعد آپ كے عمل كا جو دوسرا لازمي نتيجه سامنے آئے گا وه وهي هوگا جس كا نام هماري زبان ميں كاميابي هے۔
14 دسمبر2004 کا واقعہ ہے۔ ایک مسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ اُنہوں نے اپنا نام محمد عیسیٰ بتایا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں1998 سے بے کار ہوں، اور کام کی
يهي طالب علم اگر اس حالت ميں پرنسپل كے پاس جاتا كه وه تھرڈ كلاس پا س هوتا اور پرنسپل اس كا داخله نه ليتا تو طالب علم كا تاثر كيا هوتا۔ وه اس طرح لوٹتا كه اس كے دل ميں نفرت اور شكايت بھري هوتي۔ وه لوگوں سے كهتا كه يه سب تعصب كي وجه سے هوا هے۔ ورنه ميرا داخله ضرور هونا چاهيے تھا۔ داخله نه ملنے كي وجه اس كا خراب نتيجه هوتا مگر اس كا ذمه دار وه هندو كالج كو قرار ديتا۔ ماحول كا رد عمل اكثر خود هماري حالت كا نتيجه هوتاهے۔ مگر هم اس كو ماحول كي طرف منسوب كرديتے هيں تاكه اپنے آپ كو بري الذمه ثابت كرسكيں۔
اگر آدمي نے خود اپني طرف سے كوتاهي نه كي هو، اگر زندگي ميں وه ان تياروں كے ساتھ داخل هوا هو جو زمانه نے مقرر كي هيں تو دنيا اس كو جگه دينے پر مجبور هوگي۔ وه هر ماحول ميںاپنا مقام پيدا كرلے گا، وه هر بازار سے اپني پوري قيمت وصول كرے گا۔ مزيد يه كه ايسي حالت ميں اس كے اندر اعلي اخلاقيات كي پرورش هوگي۔ وه اپنے تجربات سے جرأت، اعتماد، عالي حوصلگي، شرافت، دوسروں كا عتراف، حقيقت پسندي، هر ايك سے صحيح انساني تعلق كا سبق سيكھے گا۔ وه شكايت كي نفسيات سے بلند هو كر سوچے گا۔ ماحول اس كو تسليم كرےگا۔ اس ليے وه خود بھي ماحول كا اعتراف كرنے پر مجبور هوگا۔
اس كے برعكس اگر اس نے اپنے كو اهل ثابت كرنے ميں كوتاهي كي هو۔ اگر وه وقت كے معيار پر پورا نه اترتا هو۔ اگر وه كم تر لياقت كے ساتھ زندگي كے ميدان ميں داخل هوا هو تو لازماً وه دنيا كے اندر اپني جگه بنانے ميں ناكام رهے گا۔ اور اس كے نتيجه ميں اس كے اندر جو اخلاقيات پيداهوں گي، وه بلاشبه پست اخلاقيات هوں گي۔ وه شكايت، جھنجلاهٹ، غصه، حتي كه مجرمانه ذهنيت كا شكار هوكر ره جائے گا۔ جب آدمي ناكام هوتا هے تو اس كےاندر غلط قسم كي نفسيات ابھرتي هيں۔ اگر چه آدمي كي ناكامي كي وجه هميشه اپني كمزوري هوتي هے۔ مگر ايسا بهت كم هوتاهے كه وه اپنے آپ كو قصوروار ٹھهرائے۔ وه هميشه اپني ناكاميوں كے لئے دوسروں كو مجرم ٹھهراتا هے۔ وه صورت حال كا حقيقت پسندانه تجزيه كرنے سے قاصر رهتا هے۔ كمتر تياري آدمي كو بيك وقت دو قسم كے نقصانات كا تحفه ديتي هے — اپنے ليے بے جا طوپر ناكامي اور
ايم اے خان هائر سكنڈري كے امتحان ميںاچھے نمبر سے پاس هوئے تھے۔ مگركسي وجه سے وه بروقت آگے داخله نه لے سكے۔ يهاں تك كه اكتوبر كا مهينه آگيا۔ اب بظاهر كهيں داخله ملنے كي صورت نه تھي۔ تاهم تعليم كا شوق ان كو هندو سائنس كالج كے پرنسپل كے دفتر ميں لے گيا۔
’’جناب، ميں بي ايس سي ميں داخله لينا چاهتا هوں‘‘ انھوں نے هندو پرنسپل سے كها۔
’’يه اكتوبر كامهينه هے، داخلے بند هوچكے هيں۔ اب كيسے تمھارا داخله هوگا‘‘
’’بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ داخلہ لے لیں۔ ورنہ میرا پورا سال بیکار ہوجا ئے گا‘‘
’’همارے يهاں تمام سيٹيں بھر چكي هيں۔ اب مزيد داخله كي كوئي گنجائش نهيں‘‘
پرنسپل اتني بے رخي برت رها تھا كه بظاهر ايسا معلوم هوتا تھا كه وه هر گزداخله نهيں لے گا اور اگلا جمله طالب علم كو شايد يه سننا پڑے گا كه ’’كمره سے نكل جاؤ‘‘ مگر طالب علم كے اصرار پر اس نے بدل دلي سے پوچھا ’’تمھارے ماركس كتنےهيں‘‘۔پرنسپل كا خيال تھا كه اس كے نمبر يقيناً بهت كم هوں گے۔ اسي ليے اس كو كهيں داخله نهيں ملا۔ چنانچه طالب علم جب اپنے خراب نتيجه كو بتائے گا تو اس كي درخواست كو رد كرنے كے ليے معقول وجه هاتھ آجائے گي۔ مگر طالب علم كا جواب اس كي اميد كے خلاف تھا۔ اس نے كها جناب 85 في صد
Sir, eighty five per cent.
اس جمله نے پرنسپل پرجادو كا كام كيا۔ فوراً اس كا موڈ بدل گيا۔ اس نے كها’’بيٹھو بيٹھو‘‘ اس كے بعد اس نے طالب علم كے كاغذات ديكھے، اور جب كاغذات نے تصديق كردي كه واقعي وه پچاسي في صد نمبروں سے پاس هوا هے، تواسي وقت اس نے پچھلي تاريخ ميں درخواست لكھوائي۔ اس نے ايم اے خان كو نه صرف تاخير كے باوجود اپنے كالج ميں داخل كرليا بلكه كوشش كركے ان كو ايك وظيفه بھي دلوايا۔
سمجھتا هے كه ميرا كوئي سهارانهيں، اس ليے مجھ كو خود هي سارا عمل كرنا هے۔ اس طرح وه دوسروں سے زياده محنت كرنے لگتا هے۔ يتيمي كے حالات آدمي كو هيرو بناديتےهيں۔
اكتوبر 2000میں مَیں نے بھوپال كا سفر کیا ۔ اس دوران میں نے جو چیزیں دیکھیں، ان میں سے ایک رفاهي اداره بھی تھا، جو ڈفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس كا نام شبھم وكلانگ سيوا سميتي هے۔ يه اداره 1980 ميں قائم هواہے۔ ميں نے ان بچوں كو ديكھا جن كي تعداد 63 هے ان ميں هندو اور مسلمان دونوں بچے شامل هيں۔ ميں نے كئي بچوں سے بات كي دوبچوں سے هونے والي بات كو يهاں نقل كيا جاتا هے۔
سنتوش چورسيه (عمر 14 سال) سے ميں نے پوچھا كه آپ يهاں كيا كرتےهيں۔ انھوں نے كها كه پڑھتےهيں۔ ميں نے پوچھا كه آپ كيا سوچتے هيں۔ انھوں نے جواب ديا كه پڑھ لكھ كر ميں اپنے پيروں پر كھڑاهوں گا۔ ايك بچه جس نےاپنا نام شنكر شرما (عمر 12 سال) بتايا۔وه بھي اپنے دونوں پيروں سے معذور تھا۔ ميں نے پوچھا كه آپ پڑھنے كے بعد كيا كريں گے۔ اس نے جواب ديا ميں پڑھ كر اپنے پيروں پر كھڑا هونا چاهتا هوں۔ يه بات وه بچے كهه رهے تھے جو اپنے دونوں پيروں سے معذور تھے اور جسماني طورپر كھڑے نهيں هوسكتےتھے۔ ميں نے سوچا كه علم ميں كيسي عجيب طاقت هے۔ علم آدمي كو اس حد تك با شعور بناتا هے كه وه جسماني طورپر كمزور هوتے هوئے بھي ذهني طورپر اتنا طاقتور هوجائے كه اس كي جسماني كمزوري ترقي كي راه ميں حائل نه هوسكے۔
مزید یہ کہ موجودہ زمانے میں یہ بات ریسرچ سے ثابت ہوگئی ہےکہ کوئی شخص مطلق معنوں میں قوی یا ضعیف نہیں ہوتا۔ چناں چہ پہلے معذور کے لیے ڈس ایبلڈ (disabled) کا لفظ بولا جاتا تھا۔ مگر اب یہ لفظ متروک ہوگیا ہے۔ اب ایسے افراد کو ڈفرینٹلی ایبلڈ (differently abled) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایک اعتبار سے معذور اور دوسرے اعتبار سے طاقت ور۔
مئي 2000 میں میں نے بہار کا سفر کیا۔ اس سفر میں مجھے بتيا (بہار) كا يتيم خانه ديكھنے كا اتفاق هوا۔يه يتيم خانه 1928 سے قائم هے۔ حقیقت یہ ہے کہ كسي بچه يا بچي كا يتيم هونا كوئي برائي نهيں۔ يه ايك نعمت هے جو فطرت كي طرف سے كسي كو دي جاتي هے۔ اگر يتيم هونا نعمت نه هوتا تو الله تعاليٰ پيغمبر ِ اسلام كے ليے يتيمي كا انتخاب نه فرماتے۔يتيم هونا كسي بچه يا بچي كے ليے قدرت كي طرف سے ايك خوشخبري هے۔ اس بات كي خوشخبري كه تم كو زندگي كے سفر كے ليے وه كورس عطا كيا گيا هے جو اس انسان كو عطا هوا جس كے بارےميں نه صرف مسلمان بلكه غير مسلم حضرات بھي اس بات كي گواهي دے رهے هيں كه آپ صلي الله عليه وسلم تاريخ بشري كے سب سے زياده كامياب انسان تھے۔
يتيم بچه يا بچي كو پيداهونے كے بعد دنيا ميں اپنے فطري امكان كو بروئے كار لانے كے ليے اور كيا چيز ملني چاهيے اس كااشاره اس قرآني آيت ميں ملتا هےأَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى ( 93:6 )۔ يعني کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اپنے آغاز حيات ميں اپني زندگي كي تعميركے ليے ايك مأويٰ۔ ميں سمجھتا هوں كه يه يتيم خانه اور اسي طرح تمام يتيم خانے اسي آيت كي عملي تفسير هيں۔وه يتيموں كو مأويٰ فراهم كرتےهيں۔ اس طرح كے كام كو ميں اپني زبان ميں منصوبهٔ خداوندي سمجھتا هوں۔
ايك صاحب نے اپنا قصه بتاتے هوئے كها كه ميں بچپن ميں يتيم هوگيا تھا۔ ميرے رشته داروں نے مجھے يتيم خانه ميں داخل كرديا۔ ميرے ساتھ دو يتيم بچے اور تھے۔ هم تينوں نے يتيم بچوں كي حيثيت سے يتيم خانه ميں پروش پائي۔ اس وقت بظاهر همارا كوئي مستقبل نه تھا۔ مگرآج هم تينوں الله كے فضل سے كامياب زندگي گزار رهے هيں۔ميں نے كها كه يه آپ كے اسي يتيم هونے كا نتيجه هے۔ يتيمي كي حالت بهترين حالت هے۔ يتيمي آدمي كے اندر خودشناسي پيدا كرتي هے۔ وه آدمي كے اندر خود كفيل بننے كا جذبه ابھارتي هے۔ يتيم آدمي
ان كو سگرٹ سے محبت تھي۔ مگر بيٹے سے اس سے زياده محبت تھي۔ اس نے بيٹے كي خاطر سگرٹ كو چھوڑ ديا۔ اسي طرح هر آدمي كو اپنے مفادات اور مصالح سے محبت هوتي هے۔ اسلام يه هے كه خدا كي محبت اتني بڑھ جائے كه اس كي خاطر آدمي دنيا كے مفادات اور مصالح كو قربان كردے۔
امریکا میں مقیم ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اپنے بچوں کے بارے میں ہم کو یہ فکر رہتی ہے کہ ہمارے بعد دینی اعتبار سے اِن بچوں کا کیا حال ہوگا۔ انھوںنے بتایا کہ ہمارے بچے سیکولر اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ البتہ ہم اپنے گھر پر اسی کے ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکا میں اس کو ہوم اسکولنگ (home schooling) کہا جاتا ہے۔میں نے کہا کہ جب آپ نے امریکا میں رہنے کا فیصلہ کیا تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ یہاں کے کلچر سے اپنے بچوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ ہوم اسکولنگ کے ذریعہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کاغذ کی دیوار سے سیلاب کا مقابلہ کرنا۔ تجربہ بتاتا ہے کہ غالباً کو ئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں جس کی مثال کو لے کر یہ کہا جاسکے کہ ہوم اسکولنگ کا طریقہ اپنے مطلوب نشانے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف گھر کے ماحول کو بدلا جائے، اور دوسری طرف بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کیا جائے۔ گھر میں سادگی (simplicity)اور بچوں کے اندر دعوتی ذہن پیدا کئے بغیر اِس کلچرل سیلاب کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
ميں لگا كر پيتا۔ ملك عبد الشكور صاحب اس كو منع كرتے مگر وه نه مانتا۔ ايك روز ايسا هوا كه بچه كي ماں نے سختي سے بچه كو منع كيا تو بچه نے كها ’’ابا بھي تو پيتےهيں‘‘ ملك عبد الشكور صاحب نے بچه كي زبان سے يه سنا تو ان كو سخت جھٹكا لگا۔ اگر چه وه دوستوں كے سامنے اپني سگرٹ نوشي پر قصيده پڑھتے تھے،مگر ان كا دل خوب جانتا تھا كه سگرٹ پينا ايك بري عادت هے جس كا انجام نه صرف صحت اور پيسه كي بربادي هے بلكه وه اخلاق كو بھي بگاڑنے والا هے۔ جب كوئي شخص ان سے سگرٹ چھوڑنے كو كهتا تو وه اس كے خلاف لفظي دلائل كا انبار لگا ديتے۔ مگر ان دلائل كي حقيقت اس كے سوا اوركچھ نه تھي كه وه اپنے ايك ’’نشه‘‘ كو چھوڑنے كے لئے تيار نه تھے، اوراس كے لئے بھي تيار نه تھے كه اپني غلطي كو مان ليں۔ اس لئے وه لفظي تاويلات كے سهارے اپنے كو حق بجانب ثابت كرتے تھے۔ وه اس كي ضرورت هي نهيں سمجھتے تھے كه سگرٹ كے خلاف كسي دليل پر سنجيدگي كے ساتھ غور كريں۔
مگر جب سگرٹ كا سوال بچه كي زندگي كا سوال بن گيا تو اچانك وه سنجيده هوگئے۔ ان كے ذهن سےوه تمام پردے هٹ گئے جنھوں نے ايك ساده سي حقيقت كو سمجھنا ان كے لئے ناممكن بنا ديا تھا۔ جو شخص مضبوط دلائل كے آگے هتھيار ڈالنے پر تيار نه هوتا تھا وه ايك بچه كے كمزور الفاظ كے آگے بالكل ڈھ گيا۔ ’’اگر ميں خود سگرٹ پيتا رهوں تو ميں اپنے بچه كو سگرٹ پينے سے باز نهيں ركھ سكتا‘‘۔ انھوں نے سوچا ، بچه كا يه كهنا كه ’’ابا بھي تو پيتے هيں‘‘ ان كے لئے ايك ايسا هتھوڑا بن گيا جس كي ضرب كو برداشت كرنے كي طاقت ان كے اندر نه تھي۔ بچه كي زبان سے يه الفاظ سن كر ان كو سخت جھٹكا لگا۔ انھوںنے ايك لمحه كے اندر وه فيصله كرليا جس كے ليے ان كے دوستوں كو مهينوں اور سالوں كي كوشش بھي ناكافي ثابت هوئي تھي۔ يه رمضان كا مهينه تھا۔ انھوںنے طے كرلياكه وه سگرٹ پينا بالكل چھوڑ ديں گے۔ انھوں نے نه صرف اگلے دن سگرٹ نهيں پي بلكه مستقل طورپر سگرٹ نوشي ترك كردي۔
آرڈر نہیں کرتی۔مذکورہ خاتون نے اپنے بچوں کے بارے میں جو بات کہی، وہ بلا شبہ آرڈر دینے والی بات تھی۔ اِس کی تصدیق خود اس کی اپنی بیٹی کے ریمارک سے ہوتی ہے۔ اِس کے باوجود، مذکورہ خاتون نے کہا کہ نہیں نہیں۔ یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ وہ ایک بات کہیں گے اور جب اُن سے مزید پوچھا جائے تو وہ فوراً لفظ بدل کر کہہ دیں گے کہ نہیں، میرا یہ مطلب نہیں۔ یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ عام جھوٹ اگر کھلا ہوا جھوٹ ہوتا ہے تو یہ جھوٹ ایک چھپا ہوا جھوٹ (کذبِ خفی) ہے۔اِس قسم کا جھوٹ کسی انسان کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ وہ آدمی کے اندر کم زور شخصیت (weak personality) پیدا کرتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر کم زور شخصیت ہو، اُن کا ذہنی ارتقا نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کے اندر جنّتی شخصیت کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ آخرت کی دنیا میں ایسے کم زور شخصیت والے لوگ، خدا کے پڑوس میں جگہ پانے سے محروم رہیں گے— کھلاہوا جھوٹ اگر حرام ہے، تو چھپا ہوا جھوٹ انسانی شخصیت کے لیے ہلاکت خیز ہے۔
ایک صاحب سگرٹ كے عادي تھے اور روزانه تين پيكٹ پي جاتے تھے۔ ’’سگريٹ پينا صحت كے لئے مضر هے‘‘، ’’سگرٹ پينا اپنے كمائے هوئے پيسه كو آگ لگانا هے‘‘۔ اس قسم كي كوئي بھي دليل ان كو سگرٹ چھوڑنے پر آماده نهيں كرسكتي تھي۔ حتي كه وه اپنے دستوں كو بھي اصرار كركے پلاتے۔ چائے پينے كے بعد وه سگرٹ كاكش لينے كو اتنا ضروري سمجھتے تھے كه وه اپنے دوستوں سے كهتے ’’جو آدمي چائے پي كر سگرٹ نه پئے اس كو چاهئے پينے كا حق نهيں‘‘۔
مگر ايك چھوٹے سے واقعه نے ان كي محبوب سگرٹ ان سے چھڑا دي۔ سگرٹ كے ٹكڑے جو وه پينے كے بعد پھينكتے ان كو ان كا تين ساله بچه فاروق قيصر اٹھا ليتا اور منھ
اعتبار سے ديكھئے تو آج يهي تمام انسانوں كا واقعه هے۔ آج كي دنيا ميں تمام انسان ايسي اخلاقي غذائيں كھارهے هيں جو ان كي انسانيت كے ليے زهر هيں، جو ان كو ابدي هلاكت سے دوچار كرنے والي هيں۔
جھوٹ، بدكاري، رشوت، غرور، حسد، الزام تراشي، ظلم، غصب، بد ديانتي، وعده خلافي، بدخواهي، بے اصولي، بدمعاملگي، انانيت، بے اعترافي، غلطي نه ماننا، احسان فراموشي، خود غرضي، انتقام، اشتعال انگيزي، اپنے ليے ايك چيز پسند كرنا اور دوسرے كے ليے كچھ اور پسند كرنا، يه تمام چيزيں اخلاقي معنوں ميں زهريلي غذائيں هيں۔ آج تمام لوگ ان چيزوں كو ميٹھي شكر سمجھ كر كھارهے هيں۔ مگر وه وقت زياده دور نهيں جب انكا زهريلا پن ظاهرهوگا۔ اور پھر انسان اپنے آپ كو اس حال ميں پائے گا كه وهاں نه كوئي اس كي فرياد سننے والا هوگا اور نه كوئي اس كا علاج كرنے والا۔
ریڈیو میں ایک پروگرام آتا ہے جو صرف عورتوں کے لیے ہوتا ہے۔ اِس میں عورتوں سے متعلق مختلف عنوانات دیے جاتے ہیں۔ اِسی پروگرام کے تحت، ایک دن ماں اور اس کے بچوں کے درمیان تعلقات کا موضوع زیر بحث تھا۔ کئی ماؤں نے اِس پہلو سے اپنے تجربات کو بیان کیا۔ مثلاً ایک ماں نے کہا کہ میرے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ میں ایک ورکنگ وومن (working woman)ہوں۔ مجھے اپنے جاب کے لیے روزانہ گھر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ جب میں باہر جاتی ہوں تو اپنے بچوں سے سختی کے ساتھ یہ کہہ کر جاتی ہوں کہ دیکھو، یہ کرنا اور وہ نہ کرنا۔ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہاکہ میری بیٹی کہتی ہے — ممی، تم تو ہٹلر ممی ہو۔
یہ گفتگو ٹیلی فون پر ہورہی تھی۔ ریڈیو کی خاتون اناؤنسر نے کہا کہ اِس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے بچوں کو آرڈر کرتی ہیں۔ مذکورہ خاتون نے فوراً کہا کہ نہیں نہیں، میں
خلاف تقرير كرنا بے معني هے۔ اگر آپ وعده پورا نه كرتےهوں اور بچه سے كهيں كه بيٹے، هميشه وعده پورا كرو، تو كبھي ايسي نصيحت كو نهيں پكڑے گا۔
بچه اپنے والدين كو ماڈل كے روپ ميں ديكھتا هے۔ اسي طرح بڑا بچه چھوٹے بچوں كے ليے ماڈل هوتاهے۔ اگر والدين اور بڑا بچه ٹھيك هو تو بقيه بچے اپنے آپ سدھرتے چلے جائيں گے۔
6 جنوري 1990 كو دهلي (شكر پور) ميں ايك دردناك واقعه هوا۔ كچھ چھوٹے بچے ايك ميدان ميں كھيل رهے تھے۔ وهاں ايك طرف كوڑے كا ڈھير تھا۔ وه كھيلتے هوئے اس كوڑے تك پهنچ گئے۔ يهاں انھيں ايك پڑي هوئي چيز ملي۔ يه كوئي زهريلي چيز تھي۔ مگر انھوں نے بے خبري ميں اس كو اٹھا كر كھا ليا۔ اس كے نتيجه ميں دو بچے فوراً هي مر گئے، اور آٹھ بچوں كو تشويشناك حالت ميں جے پركاش نرائن اسپتال ميں داخل كرنا پڑا۔ يه بچے دو سال سے پانچ سال تك كے تھے۔
ٹائمس آف انڈيا (7 جنوري 1990) نے صفحه اول پر اس كي خبر ديتے هوئے لكھا هے كه ان بچوں ميں سے ايك نے وهاں ايك چھوٹا پيكٹ پايا۔ اس ميں تقريباً ڈيڑھ سو گرام كوئي سفيد رنگ كا سفوف تھا۔ انھوںنے غلطي سے اس كو شكر سمجھا اور آپس ميں تقسيم كركے كھانے لگے۔ كھانے كے چند منٹ بعد ان كے هونٹ نيلے پڑ گئے
One of them found a small packet containing about 150 gm of white, powdery substance. They mistook it for sugar and distributed it among themselves. Within minutes of consuming it, their lips turned blue.
مادي خوراك كے اعتبار سے يه چند بچوں كا واقعه هے۔ ليكن اخلاقي خوراك كے
هے كه بچه كو دين دار بنانے كا عمل آغازِ عمر هي سے شروع كردينا هے۔ يه كام ماں اور باپ دونوں كوكرنا هے۔
والدين كي يه كوشش هوني چاهيے كه بچه كے اندر توحيداور اسلامي عقائد خوب پخته هوجائيں۔ ذكر اور عبادت اس كي زندگي كے لازمي اجزاء بن كر اس كي شخصيت ميں شامل هوجائيں۔ وه نماز، روزه كا پابند هو۔ صدقه اورخيرات كا شوق اس كے اندر پيدا هوجائے۔ قرآن اور حديث سے اس كو اس قدر شغف هوجائےكه وه روزانه اس كا كچھ نه كچھ حصه مطالعه كرنے لگے۔ اس كو ديكھ كر هر آدمي يه كهه دے كه يه بچه ايك دين دار بچه هے۔
اخلاق كي تربيت كي صورت يه هے كه هر موقع پر بچه كو سكھايا جائے۔ اگر وه غلطي كرے تو اس كوٹوكا جائے۔ حتي كه اگر ضرورت هو تو اس كي تنبيه كي جائے۔ بھائي بهنوں ميںلڑائي هو تو فوراً سمجھايا جائے۔ اگر كبھي بچه جھوٹ بولے يا كسي كو گالي دے۔ يا كسي كي چيز چرا لے تو نهايت سختي كے ساتھ اس كا نوٹس لياجائے۔ اور يه سب بالكل بچپن سے كيا جائے تاكه بچه كو زندگي ميں يه چيزيں مستقل كردار كے طورپر شامل هوجائيں۔
يهي طريقه ڈسپلن كے بارے ميں اختيار كرنا هے۔ بچه كو اوقات كي پابندي سكھائي جائے۔ چيزوں كو صحيح جگه ركھنے كي عادت ڈالي جائے۔ كھانا پينا باقاعده وقت كے ساتھ هو۔ اگر وه كوئي كاغذ يا تھيلي سڑك پر پھينك دے تو فوراً اسي سے اس كو اٹھوايا جائے۔ شور كرنے سے روكا جائے، هر ايسي چيز سے بچنے كي تلقين كي جائے جس سے دوسروں كو تكليف پهنچتي هو۔
بچه كي حقيقي تربيت كے ليے خود ماں باپ كو اپنا طرزِ زندگي اس كے مطابق بنانا هوگا۔ اگر آپ اپنے بچه سے كهيں كه جھوٹ نه بولو، اسي كے ساتھ آپ يه كريں كه جب كوئي شخص دروازه پر دستك دے تو كهلوا ديں كه وه اس وقت گھر پر نهيں هيں تو ايسي حالت ميں بچه كو جھوٹ سےروكنا بے معني هوگا۔ اگر آپ سگريٹ پيتے هوںتو بچه كے سامنے اسموكنگ كے
عطيه نهيں كه وه اس كو اچھے آداب سكھائے ( مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ،سنن الترمذی، حدیث نمبر 1952)۔ اس حديث ميںبظاهر صرف والد كا ذكر هے مگر تبعاً اس سے مراد والد اور والده دونوں هيں۔ نيز ادب كا لفظ يهاں تعليم وتربيت كے تمام پهلوؤں كے ليے جامع هے، خواه وه مذهبي نوعيت كي چيزيں هوں يا دنياوي نوعيت كي چيزيں۔
عورت اور مرد كو فطري طور پر اپني اولاد سے غير معمولي محبت هوتي هے۔ اس حديث ميں بتايا گيا هےكه اس محبت كا بهترين استعمال كيا هے ياكيا هونا چاهيے۔ وه استعمال يه هے كه والدين اپنے بچوں كو آداب زندگي سكھائيں۔ وه اپنے بچوں كو بهتر انسان بناكر دنيا كے كارزار ميں داخل كريں۔يه ديكھاگيا هے كه والدين اپني محبت كا استعمال زياه تر اس طرح كرتے هيں كه وه اپنے بچوں كي هر خواهش پوري كرنے ميں لگے رهتے هيں، وه سمجھتے هيں كه بچه جو چاهے وه اس كے ليے حاضر كرديا جائے، يهي بچه كے ليے محبت كا سب سے زياده بڑا استعمال هے، مگر يه بچوں كے حق ميں خير خواهي نهيں۔
چھوٹا بچه اپني خواهشوں كے سوا كچھ اور نهيں جانتا۔ اس كي سوچ بس يه هوتي هے كه اس كے دل ميں جو خواهش آئے وه فوراً پوري هوجائے۔ مگر يه طفلانه سوچ هے۔ كيونكه زياده اهم بات يه هے كه بچه ايك دن بڑا هوگا۔ وه بڑا هو كر دنيا كے ميدان ميں داخل هوگا۔ زندگي كے اس اگلے مرحله ميں كامياب هونے كے ليے بچه كو جس چيز كي ضرورت هے وه يه كه وه آدابِ حيات سے مسلّح هو كر وهاں پهنچا هو۔بچه جب بالكل چھوٹا هو اسي وقت سے اس كي تعليم وتربيت كا سلسله شروع كردينا چاهيے تاكه يه چيزيں عادت بن كر اس كي زندگي ميں داخل هوجائيں۔ زندگي كے ان آداب كے تين خاص پہلو هيں دين، اخلاق اور ڈسپلن۔
دين كے اعتبار سے بچه كي تربيت كا آغاز پيدائش كے فوراً بعد هوجاتا هے جب كه اس كے كان ميں اذان كي آواز داخل كي جاتي هے۔ يه علامتي انداز ميں اس بات كا اظهار
ہوتے تھے۔ وہ میرے والد سے کہتے تھے کہ — تم اپنے بیٹے کو خراب کرڈالوگے۔
لیکن بچپن میں میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ میری والدہ زیب النساء (وفات 1985) بتاتی تھیں کہ والد کی زندگی میں میں بہت بولتا تھا، لیکن جب والد کا انتقال ہوگیا تو اچانک میں بالکل بدل گیا۔ میری شوخیاں ختم ہوگئیں۔ اب میں خاموش رہنے لگا۔ یہ میری زندگی کا بہت بڑا واقعہ تھا۔ اگر میرے باپ زیادہ دن تک زندہ رہتے تو یقینی طورپر میں اُسی قسم کا ایک نوجوان بن جاتا جس کو لاڈ پیار سے بگڑا ہوا بچہ (spoilt and pampered child) کہاجاتا ہے۔ بعد کو میری زندگی میں جو حقیقت پسندی اور سنجیدگی آئی، وہ براہِ راست طورپر میری یتیمی کا نتیجہ تھی۔
ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی طورپر وہ اپنے والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن یہ مدت عارضی ہوتی ہے۔ اس کو اپنی بقیہ زندگی والدین کے ماحول سے باہر، دوسروں کے درمیان گزارنی پڑتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کا معاملہ کرتے ہیں۔
اِس لاڈ پیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ شعوری یا غیر شعوری طورپر سمجھ لیتا ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والا وہی ہے جو میرے ساتھ لاڈ پیار(pampering) کا معاملہ کرے۔ لیکن یہ بچہ جب اپنے گھر سے باہر آتا ہے تو دوسرے لوگوں سے اس کو والدین والا لاڈ پیار نہیں ملتا۔ اب وہ ساری دنیا سے بے زار ہوجاتا ہے۔ اِس صورتِ حال نے تمام عورتوں اور مردوں کو شکایت کی نفسیات میں مبتلا کردیا ہے، جب کہ صحیح یہ تھا کہ لوگوں کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کی نفسیات پیداہو۔
حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں رسول الله صلي الله عليه وسلم نےکہاباپ كي طرف سے اپنے بيٹے كے ليے اس سے بهتر كوئي
دیکھ کر خریدتے ہیں، خواہ وہ ان کے استعمال میں آنے والی ہوں یا نہ ہوں۔
خریداری کی دو قسمیں ہیں— نظر کی خریداری اور ضرورت کی خریداری۔ نظر کی خریداری وہ ہے جو دیکھ کر کی جائے۔اس کے برعکس، ضرورت کی خریداری یہ ہے کہ آپ کو ایک چیز کی ضرورت ہو ، اس کو حاصل کرنے کے ارادے سے آپ گھر سے نکلیں اور جہاں وہ چیز ملتی ہو، وہاں جاکر اس کو خرید لیں۔
نظر کی خریداری دوسرے الفاظ میں بے مقصد خریداری ہے۔ وہ اپنے وقت اور اپنے مال کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مال کی تبذیر (الاسراء، 17:26 ) بتایا گیا ہے۔ یعنی مال کو بلاضرورت بکھیرنا۔ ضرورت کی خریداری ایک ذمہ دارانہ فعل ہے، اور نظر کی خریداری ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ۔
کسی مرد یا عورت کے پاس جو مال ہے، وہ اللہ کا دیا ہوا ہے، وہ اللہ کی ایک امانت ہے۔ جو عورت یا مرد مال کومسرفانہ طور پر خرچ کریں، وہ خدا کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کام کرتے ہیں، جس کے لیے آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی۔ مال کو جائز ضرورت پر خرچ کرنا ثواب کا کام ہے۔ اس کے برعکس، اگر مال کو غیر ضروری مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ خرچ کرنے والے کے لیے ایک گناہ بن جاتا ہے۔ مال کو خرچ کرنے کے معاملے میں انسان کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہيے۔
میرے والد فرید الدین خاں کا انتقال دسمبر 1929میں ہوا۔ اُس وقت میری عمر تقریباً 6 سال تھی۔ میرے والد اپنے تمام بچوں میں مجھ کو سب سے زیادہ مانتے تھے۔ وہ میرے ساتھ لاڈپیار(pampering) کا معاملہ کرتے تھے۔ اِس بنا پر میں بہت شوخ ہوگیا تھا اور اکثر طفلانہ شرارتیں کیاکرتا تھا۔ شیخ محمد کامل میرے پھوپھا تھے۔ وہ اِس کو دیکھ کر غصہ
ہیں۔ ہر آدمی اپنا پیسہ، اپنا وقت، اپنی انرجی، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اس کو اپنے بچوں کے لیے وقف کيے ہوئے ہے۔ دوسروں کے لیے اس کے پاس صرف زبانی ہمدردی (lip service) ہوتی ہے، اور اپنی اولاد کے لیے حقیقی عمل، حتی کہ خدا کے لیے یا خدائی کام کے لیے بھی اس کے پاس صرف الفاظ ہوتے ہیں، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
آج جس شخص سے ملاقات کیجيے، وہ اپنے بچوںکے لیے فکر مند ہوگا، لیکن وہ خود اپنے مستقبل کے لیے فکر مند دکھائی نہ دے گا۔ یہ عین وہی صورتِ حال ہے جس کو حدیث میں اس طرح بیان کیاگیا ہےکہ دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھو دینا(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966)۔ اِس معاملے کا سب سے زیادہ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ لوگ محبتِ اولاد میں اتنا زیادہ غرق ہیں کہ وہ اِس حدیثِ رسول کا مصداق بن گئے ہیں حُبُّكَ الشَّيْءَ يُعْمِي وَيُصِمُّ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 5130) ۔ یعنی کسی چیز سے تمہاری محبت تم کو اندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ اولاد کی محبت ان پر اتنا زیادہ غالب ہے کہ وہ یہ بھی سوچ نہیں پاتے کہ ہم اولاد کے مستقبل کو بنانے کی فکر میں خود اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ اِس بنا پر لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ اہم کاموں کے لیے وقت نہیں۔ مثلاً دینی مطالعہ، دعوہ ورک، آخرت کو سامنے رکھ کر اپنے معاملات کی منصوبہ بندی، وغیرہ۔
ایک صاحب مجھ کو اپنے گھر لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ ان کا گھر مختلف قسم کے سامانوں سے بھرا ہوا ہے۔ پورا گھر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور (departmental store) معلوم ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں اتنا زیادہ سامان کیوں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب میں بازار جاتا ہوں اور وہاں میں کسی چیز کو دیکھتا ہوں، وہ مجھ کو پسند آجاتی ہے تو میں اس کو خرید لیتا ہوں۔ یہ نظر کی خریداری ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ وہ چیزوں کو
اپنوں کے بارے میں روادار (tolerant) ہیں اور دوسروں کے بارے میںوہ غیر روادار(intolerant)بنے ہوئے ہیں، جن کے اندر اپنوں کو دینے کا ذہن ہے اور دوسروں سے صرف لینے کا ذہن، جو اپنوں کو برتر سمجھتے ہیںاور دوسروں کو کم تر، جو اپنوں کی ترقی پر خوش ہوتے ہیںاور دوسروں کی ترقی دیکھ کر اُنھیں کوئی خوشی نہیں ہوتی، جو اپنوں کی تکلیف سے فکر مند ہوتے ہیں اور دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر انھیں کوئی فکر مندی لاحق نہیں ہوتی، وغیرہ۔
اِس صورتِ حال کا یہ نتیجہ ہے کہ اب سماجی اقدار (social values) کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ اب ایک ہی چیز ہے جو ہر ایک کا واحد کنسرن (sole concern) بنی ہوئی ہے، اور وہ ہے ذاتی مفاد(self-interest)۔ اِس صورتِ حال نے ہر ایک کو خود غرض اور استحصال پسند بنا دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ اِس کی اصلاح جلسوں اور تقریروں کے ذریعے نہیں ہوسکتی، اس کی اصلاح کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گھر والے اپنے گھر کے ماحول کو درست کریں۔گھر کے ماحول کو درست كيے بغیر اِس سنگین صورتِ حال کی اصلاح ممکن نہیں۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہمارے مشن سے جڑے ہوئے تھے۔ اُس وقت ان کے یہاں اولاد نہیں تھی، پھر ان کے یہاں بچے پیدا ہوئے۔ اِس کے بعد وہ دھیرے دھیرے مشن سے دور ہوگئے۔ ایک عرصے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے دعوتی کام کو کیوں چھوڑ دیا۔ انھوں نے کہا— بچوںکی ذمے داریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب وقت نہیں ملتا۔
موجودہ زمانے میں یہی کم و بیش ہر آدمی کا حال ہے۔ لوگوں کے لیے ان کے بچے ان کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کے لیے اس کے بچے اس کا واحد کنسرن (sole concern)
اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر مادّہ پرستانہ ذہن بنانے کے امام بنے ہوئے ہیں۔ اِسی کے ساتھ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے آخرت کی جنت سے بھی محروم نہ رہیں۔ اِسی مزاج کے بارے میں ایک اردو شاعر نے کہا تھا— رِند کے رِند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
مگر یہ صرف ایک خوش خیالی ہے جو کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ ’’ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا‘‘ ہے۔ موجودہ زمانے کے والدین ایک طرف، اپنے بچوں کو ’’مادّی ہاتھی‘‘ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، وہ چاہتے ہیں کہ اِس ہاتھی کی دم میں دین کی پتنگ باندھ دی جائے۔ مگر ایسی پتنگ کا حال صرف یہ ہونے والا ہے کہ ہاتھی ایک بار اپنی دم کو جھٹکا دے اور یہ پتنگ اُڑ کر بہت دور چلی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو دین دار، یعنی آخرت پسند بنانا چاہتے ہیں تو وہ اُس کی قیمت ادا کریں، ورنہ وہ فرضی طورپر اِس قسم کی منافقانہ بات کرنا بھی چھوڑ دیں۔
آج کل عام طورپر یہ حال ہے کہ ہر گھر میںایک طرف اپنے بچوں اور اپنے خاندان والوں کی تعریف کی جاتی ہے، اُن کا ذکر ہمیشہ مثبت انداز میں کیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس، جب بھی دوسروں کا چرچا کیا جاتا ہے تو وہ تنقیص کے انداز میں ہوتا ہے۔
اپنوں کے بارے میں مثبت باتوں کا چرچا اور دوسروں کے بارے میں منفی باتوں کا چرچا، یہ کلچر اـتنا زیادہ عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اِس سے خالی ہو۔
گھر کے اندر سماج کے شہری بنتے ہیں، لیکن مذکورہ کلچر نے گھر کو اِس قابل نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنے سماج کے لیے اچھے شہری سپلائی کرے۔ ہر گھر میںایسے عورت اور ایسے مرد بن کر تیار ہورہے ہیں جو اپنوں کے بارے میں مثبت رائے اور دوسروں کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں، جن کو اپنوں سے محبت ہے اور دوسروں سے نفرت ، جو
شعوري يا غير شعوري طورپر وه موت اور موت كے بعد كي حقيقتوں كے معاملے سے بے خبر هوجاتا هے۔
اولاد كي اصل اهميت يه هے كه اُس كے ذريعے نسلِ انساني كا بقا وتسلسل جاري رهتا هے۔ جهاں تك دولت كي بات هے، وه باپ كے ليے بھي امتحان كا ايك پرچه هے، اور بيٹےكے ليے بھي امتحان كا ايك پرچه۔ دولت كو اگر اِس ذهن كے تحت ديكھا جائے تو دولت كبھي مسئله نه بنے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث رسول میں اس طرح بیان کیا گیا ہےکہ كسي والدین كي طرف سے اپني اولاد كے ليے بهترين تحفه يه هے كه وه تعليم وتربيت كے ذريعے اس كو اچھا انسان بنائے۔(سنن الترمذي، حدیث نمبر 1952)
اکثر والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں بچوں کی دینی تربیت کے لیے کیا کیا جائے۔ میرا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے— بچوں کی تربیت سے پہلے خود اپنی تربیت کیجيے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب خارجی ماحول نہیں ہے، بلکہ گھر کا داخلی ماحول ہے۔ گھر کا داخلی ماحول کون بناتا ہے، یہ والدین ہیں جو گھر کا داخلی ماحول بناتے ہیں۔ جب تک گھر کے داخلی ماحول کو حقیقی معنوں میں دینی، یعنی آخرت پسندانہ ماحول نہ بنایا جائے، بچوں کے اندر کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے کا اصل فتنہ مال ہے۔ آج کل ہر آدمی زیادہ سے زیادہ مال کما رہا ہے۔ اِس مال کا مصرف والدین کے نزدیک صرف ایک ہے، اور وہ ہے گھرکے اندر ہر قسم کی راحت کے سامان اکھٹا کرنا، اور بچوں کی تمام مادّی خواہشوں کو پورا کرنا۔ موجودہ زمانے میں یہ کلچر اتنا زیادہ عام ہے کہ اِس معاملے میں شاید کسی گھر کا کوئی استثنا نہیں، خواہ وہ بے ریش والوںکا گھر ہو، یا باریش والوں کا گھر۔والدین کے اِس مزاج نے ہر گھر کو مادّہ پرستی کا کارخانہ بنادیا ہے۔ تمام والدین اپنے بچوں کے
مال و اسباب کو اپنے اہل وعیال کے لیے وقف کیے رہتے ہیں۔ موت ایسے لوگوں کے لیے ایک جبری انقطاع(compulsive detachment) کے طورپر آتی ہے۔ ایسے لوگ جب موت کے بعد خدا کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔یہ بلاشبہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ حدیث کے مطابق،یہ دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو تباہ کرنا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966) ۔مزید یہ کہ یہ اہل وعیال جن کو آدمی اپنا سب کچھ دے دیتا ہے، وہ موت کے بعد اُس سے اِس طرح جدا ہوجاتے ہیں کہ دوبارہ وہ اُس کو کبھی نہیں ملتے۔
يوپي كے ايك مسلمان دهلي ميں آكر آباد هوئے۔ انھوںنے پراپرٹي كا بزنس كيا۔ انھوں نے اِس بزنس ميں كافي دولت كمائي۔ مگر اُن كے يهاں كوئي اولاد نهيں هوئي تھي۔ ايك بار ان كي ماں دهلي آئيں۔ انھوں نے ديكھا كه ان كا بيٹا دهلي ميں ايك بڑے گھر ميں رهتا هے۔ دنيا كي هر چيز اس كے پاس هے، مگر شادي كو كافي عرصه گزرنے كے باوجود اُن كے يهاں اولاد نهيں هوئي۔اُن كي ماں اِس بات پر كافي پريشان هوئيں۔ وه اكثر كهتي تھيں — هائے ميرے بيٹے كي دولت كون لے گا۔
اِس واقعے سے اندازه هوتا هے كه قرآن ميں اولاد كو فتنه (التغابن، 64:15 ) كيوں كهاگيا هے۔ اس كا سبب يه هے كه لوگ اپنے بيٹے كو اپني ذات كي توسيع (extension) سمجھتے هيں۔ اُن كو يقين هوتا هے كه اُن كي كمائي ان كے بعد ضائع نهيں هوگي، بلكه اپنے بيٹے كي صورت ميں بالواسطه طورپر وه اُن كو حاصل رهے گي۔
اولاد كے بارے ميں اِسي تصور كي بنا پر لوگوں كے ليے اولاد ايك فتنه بن جاتي هے۔ اِس تصور كے تحت جو ذهن بنتا هے، اس كا سب سے بڑا نقصان يه هے كه آدمي موت كي سنگيني سے غافل هوجاتا هے۔ موت كے بعد كے احوال پر وه زياده سنجيدگي كے ساتھ نهيں سوچتا۔
طرح صادق آتی ہے۔ آج ساری دنیا میں عمومی طورپر ایسا ہی ہورہا ہے۔ اِس واقعے کا سب سے زیادہ بُرا حصہ اُن لوگوں کو مل رہا ہے جو ساری زندگی بچوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور آخر میں ان کے حصے میں غم کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ مزید یہ کہ ایسے ماں باپ اُس حدیث کا مصداق ہیں جس میںکہاگیا ہے کہ سب سے زیادہ گھاٹے میں وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کھودے (أَذْهَبَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3966۔
حدیث کی کتابوں میںاہل وعیال کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ اُن میں سے دو روایتیں یہاں نقل کی جاتی ہیں
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا الْوَيْلُ كُلُّ الْوَيْلِ لِمَنْ تَرَكَ عِيَالَهُ بِخَيْرٍ وَقَدِمَ عَلَى رَبِّهِ بِشَرٍّ(مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 314 )۔ یعنی کامل تباہی وبربادی ہے اُس شخص کے لیے جس نے اپنے عیال کو اچھی حالت میں چھوڑا، اور خود برے حال میں اپنے رب کے پاس پہنچا۔دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیںيُؤْتَى بِرَجُل يَوْم الْقِيَامَة فَيُقَال أكل عِيَاله حَسَنَاته(تخريج الأحاديث في تفسير الكشاف للزيلعي، حدیث نمبر 1357)۔یعنی قیامت کے دن ایک شخص لایا جائے گا اورکہا جائے گا کہ اس کے اہل وعیال اس کی نیکیاں کھا گئے۔
قدیم زمانے میں صرف کچھ افراد اِس قسم کے ہوتے تھے، لیکن موجودہ زمانے میں اِس پہلو سے بگاڑ کا یہ حال ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے جیسے تمام لوگ اِس تباہ کن کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں۔ اِس کم زوری کا سبب حبّ ِعیال ہے۔ بظاہر لوگ خدا کا اور اسلام کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کی محبتیں صرف اپنے اہل وعیال سے ہوتی ہیں۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کاسب سے بڑا کنسرن اُن کے اہل وعیال ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنے
کے تحت، وہ اپنے بیٹے کے بارے میں خوش فکر (wishful) بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے ایسی امیدیں قائم کرلیتے ہیں جو قانونِ فطرت کے خلاف ہوتی ہے۔
اِس خوش فکری (wishful thinking) میں تقریباً ہر باپ مبتلا رہتا ہے۔ اِس قسم کی خوش فکری اِس دنیا میں کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسند بنیں، تاکہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں مایوسی کا شکار نہ ہوں۔
ایک سینئر مسلم تاجر سے ایک صاحب نے پوچھا کہ آپ کو خدا نے 95 سال کی عمر دی، یعنی تقریباً ایک صدی۔ اِس لمبی زندگی میں آپ نے کیا سیکھا اورکیا تجربہ کیا۔ اِس سوال کے بعد وہ دومنٹ چپ رہے۔ اس کے بعد انھوںنے نہایت سنجیدہ انداز میں کہا— کوئی تجربہ نہیں۔ بس پیداہوئے۔ بڑے ہوئے تو بزنس میں لگ گئے۔ شادی کی اور بچے پیدا کیے۔ بچوں کو سیٹل (settle)کیا۔ اب آخر عمر میں بچوں کا دکھ جھیل رہے ہیں، اور موت کا انتظار کررہے ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہی ہر گھر کی کہانی ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی تمام محبتوں کا مرکز بناتے ہیں۔ بچوں کی زندگی سنوارنے کے لیے وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں، مگر آخر میںہر ایک کا یہ حال ہوتا ہے کہ بچے غیر وفادار نکلتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی آزاد زندگی بنا لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ماں باپ کی خدمت ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ بچوں کی ترقی کو ماں باپ اِس حسرت کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں کہ جس پیڑ کو ہم نے محنت کرکے اگایا تھا، اُس پیڑ کا سایہ اُنھیں حاصل نہیں ہوا۔
حدیث میںآیا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ بچے اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کریں گے، اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بد سلوکی کریں گے (بَرَّ صَدِيقَهُ، وَجَفَا أَبَاهُ)۔سنن الترمذی، حدیث نمبر 2210۔ یہ حدیثِ رسول، موجودہ زمانے پر پوری
نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کررکھا ہے۔ یہ خدا پرستی نہیں ہے بلکہ وہ اولاد پرستی ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈٹ نہیں دے سکتا۔ خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ (appendix) نہیں، حقیقی خدا پرستی وہ ہے جو انسان کی پوری زندگی کا اِحاطہ کیے ہوئے ہو۔
ایک باپ کو اپنے بیٹے سے بہت تعلق تھا۔ باپ کے ذہن میںکام کا ایک آئڈیل تصور تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اُس آئڈیل کام کے لیے تیار کرے۔ اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی۔ اُس کی امیدیں تمام تر اپنے بیٹے سے وابستہ ہوگئیں۔ جب بیٹا بڑا ہوگیا اور اس کی تعلیم مکمل ہوگئی تو باپ نے چاہا کہ اس کا بیٹا اس کے پسندیدہ کام میں لگے۔ لیکن بیٹے نے انکار کردیا۔ باپ نے بہت کچھ کہا، لیکن بیٹے کی سمجھ میں نہ آیا۔ بیٹے نے آخری طورپر اپنے باپ سے کہہ دیا— بیٹا جب بڑا ہوجاتا ہے تو وہ خود اپنی عقل سے کام کرتا ہے۔
بیٹے کا یہ جواب سُن کر باپ کو اتنی مایوسی ہوئی کہ وہ نفسیاتی مریض بن گیا۔ اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں باپ کی غلطی تھی، نہ کہ بیٹے کی غلطی۔ یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ ہر بچہ عقل وشعور لے کر پیدا ہوتا ہے۔ چھوٹی عمر میں جب وہ ناپختہ (immature) ہوتا ہے، اُس وقت وہ باپ اور ماں کی بات کو سنتا ہے۔ لیکن جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اس کا شعور پختہ ہوچکا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر خود فکری (self-thinking) کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عقل سے آزادانہ فیصلہ کرنے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے والدین کی سوچ غیر فطری ہے، وہ کبھی واقعہ بننے والی نہیں۔
والدین کو چوں کہ اپنے بیٹے سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ محبت کے جذبے
اقدام کے منفی نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ جلد یا بدیر آدمی کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے، لیکن بعد کو اُس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ طلاق کے واقعے سے لے کر قومی جنگ تک، ہر معاملے میںاس کی مثالیں موجود ہیں۔
ایک حدیثِ رسول میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ شرمندہ وہ شخص ہوگا جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنی آخرت کو بیچ دے (إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ بَاعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ)۔التاریخ الکبیر للبخاری، حدیث نمبر 1927۔ یہ حدیث موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اُن لوگوں پر چسپاں(apply)ہوتی ہے جو صاحبِ اولاد ہیں۔ موجودہ زمانے میں صاحبِ اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اُس کا سپریم کنسرن بنی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں۔
موجودہ زمانے میں ہر آدمی اِس حقیقت کو بھول گیا ہے کہ اس کی اولاد اُس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الانفال، 8:28 ) ہے۔ اولاد اس کو اِس لیے نہیں ملی ہے کہ وہ بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وہ اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائي لگادے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاۃ کی پابندی بھی کرتے ہیں، لیکن عملاً وہ اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اِس لیے کہ جب وہ مریں تو اپنی اولاد کے لیے وہ زیادہ سے زیادہ سامانِ دنیا چھوڑ کر جائیں۔
مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ خدا کو دینے کے لیے اُن کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انھوں
کامیاب زندگی کا ایک راز یہ ہے کہ چھوٹی بات پر انتہائی فیصلہ نہ لیا جائے۔ اجتماعی زندگی میں چھوٹی شکایتیں ہمیشہ پیش آتی ہیں۔ دانش مند وہ ہے جو چھوٹی شکایتوں کو نظر انداز کرے، اور نادان آدمی وہ ہے جو چھوٹی شکایت پر مشتعل ہوجائے اور اس کی بنیاد پر انتہائی فیصلہ لینے لگے۔ اِسی نوعیت کا ایک مشہور واقعہ وہ ہے جو سنڈے ٹائمس، لندن کے حوالے سے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا ( 17 اگست 2009) میں شائع ہوا ہے۔
لیبیا کے حکمراں معمّرالقذافی کے 33 سالہ بیٹے ہنی بال (Hannibal)جنیوا (سوئزر لینڈ) گئے۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں ٹھیرے۔ اُن کے ساتھ ان کی بیوی العین (Alaine)بھی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہوٹل کی ایک تونیسی ملازمہ مونا (Mona) کی کسی بات پر العین کو غصہ آگیا۔ العین نے اُس کو مارا اور دھمکی دی کہ میں تم کو ہوٹل کی کھڑکی سے باہر پھینک دوں گی۔
اِس واقعے کی خبر مقامی پولس کو ہوئی۔ پولس نے ہنی بال اور العین کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ جلد ہی ان کو رہا کردیا گیا، لیکن اِس واقعے کی خبر جب ہنی بال کے والد معمر القذافی کو پہنچی تو اس کو انھوں نے اپنی بے عزتی (humiliation) سمجھا، وہ سخت غضب ناک ہوگئے۔ انھوںنے سوئزر لینڈ کے خلاف کئی سخت اقدامات كيے— سوئزر لینڈ سے ہوائی سروس منقطع کرنا، سوئزر لینڈ کی کئی کمپنیوں کے لیبیا میں موجود دفتروں کو بند کردینا، وغیرہ۔ حتی کہ انھوں نے کہا
If I had an atomic bomb, I would wipe Switzerland off the map!
یہ واقعہ چھوٹی شکایت پر انتہائی اقدام کی ایک مثال ہے۔ اِس قسم کا اقدام ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ خواہ کوئی معمولی آدمی ہو یا کوئی بڑا آدمی، کوئی بھی اِس قسم کے انتہائی
بعد کو معلوم ہوا کہ اس نوجوان کی معاشی حالت بہت کمزور ہے۔ اس کے پاس جو گھر ہے، وہ بھی ٹوٹا پھوٹا ہے۔ سماج میںاس کو کوئی ممتاز حیثیت حاصل نہیں۔ لوگوں کو جب اس شادی کا حال معلوم ہوا تو وہ باپ کو بر ا بھلا کہنے لگے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں یہ کہا کہ وہ دماغی خلل کا شکار ہے۔
مگر باپ نے اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ اُس نے صرف یہ کیا کہ وہ برابر اپنی لڑکی کے لیے دعا کرتا رہا۔ وہ یہ دعا کرتا رہا کہ خدایا، میری غلطی کی تلافی فرمائیے، میری لڑکی کی مددفرمائیے، اس کو اپنی رحمتوں کے سایے میں لے لیجئے۔
اس کے بعد اس لڑکی کے یہاں چند بچے پیدا ہوئے۔ یہ بچے تندرست اور محنتی تھے۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے تعلیم حاصل کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہوئے۔ ان کو اپنی لیاقت کی بنیاد پر اچھی سروس مل گئی۔ اب حالات بدل گئے۔ لڑکوں نے بڑے ہوکر نیا گھر بنایا۔ اُن کے پاس گاڑی اور دوسری چیزیں بھی ہوگئیں۔ اپنے حسن عمل سے انہوں نے سماج میں اچھا مقام حاصل کرلیا۔
اس طرح کی مثالیں ہر سماج میں ہیں۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ انسان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ صرف حال کو دیکھ کر رائے قائم کرے۔ بلکہ اس کو مستقبل پر نظر رکھنا چاہیے۔ اس دنیا میں کوئی بھی محرومی ابدی محرومی نہیں۔ اس دنیا میں ہر انسان کے لیے یہ مواقع موجود ہیں کہ وہ محنت اور لیاقت کا ثبوت دے کر ترقی کی منزلیں طے کرے۔ وہ حال کی کمی کو مزید اضافہ کے ساتھ مستقبل میں پورا کرلے۔
کامیاب شادی کا راز یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی لڑکی کی شادی کسی امیر آدمی سے کریں۔ اسی طرح ناکام شادی یہ نہیں ہے کہ آپ کی لڑکی کی شادی کسی غریب شخص سے ہوجائے۔ اس دنیا میں آج کا امیر کل کا غریب بن جاتا ہے، اور آج کا غریب کل کے دن امیر بن جاتا ہے۔ زندگی میں اصل اہمیت محنت اور منصوبہ بندی کی ہے، نہ کہ امیری اور غریبی کی۔
ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ اس نے بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کہا کہ اب تم جہاں جارہی ہو، وہ تمھارے ليے ایک مختلف دنیا ہوگی۔ میکہ میں تم کو جو آرام ملا، سسرال میں تم اس کی امید نہ رکھنا۔
باپ نے اپنی سمجھ کے مطابق، یہ مشورہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت دیا۔ لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ بدخواہی کامشورہ تھا۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میںہمیشہ منفی ذہن کے تحت رہے۔ وہ ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہے۔ وہ ہمیشہ یہ سمجھتی رہے کہ میرے میکہ کے لوگ بہت اچھے تھے اور میري سسرال کے لوگ بہت برے ہیں۔ میکہ والوں کے ليے اس کے دل میں جھوٹی محبت اور سسرال والوں کے لیے اس کے دل میں جھوٹی شکایت بھر جائے۔ ساری زندگی وہ اس احساس میں جيے کہ میری شادی غلط ہوگئی۔ وہ ہمیشہ میکہ والوں کو اچھا سمجھے اور سسرال والوں کو ہمیشہ برا سمجھتی رہے۔
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے حق میںاسی قسم کی فرضی خیر خواہی کرتے ہیں جو عملاً بیٹی کے ليے صرف ایک مستقل بد خواہی بن جاتی ہے۔ بیٹی اپنے میکہ کی کنڈیشننگ کی بنا پر خود سے کبھی اس معاملہ کو سمجھ نہیں پاتی، اور ماں باپ کا حال یہ ہوتاہے کہ وہ اس کی کنڈیشننگ کو مزید پختہ کردیتے ہیں، وہ اس کی کنڈیشننگ کا خاتمہ نہیںکرتے۔
صحیح یہ ہے کہ باپ یا تو اپنی بیٹی کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا سلوک نہ کرے، یا کم ازکم یہ کرے کہ وہ اپنی بیٹی سے بوقتِ رخصت کہہ دے کہ ہم نے جو کچھ کیا، وہ غیر فطری طریقہ تھا، فطری طریقہ وہی ہے جس سے تم کو سسرال میں سابقہ پیش آئے گا۔
ایک صاحب نے اپنی لڑکی کی شادی دور افتادہ مقام پر ایک نوجوان سے کردی۔
پاس واپس آگئی۔ اُس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ میرا شوہر نہایت سخت مزاج ہے، اس کے ساتھ میرا نباہ نہیں ہوسکتا۔
لڑکی کے والدین نے اس سے زیادہ پوچھ گچھ(scrutiny)نہیں کی، جو کچھ لڑکی نے کہا، اس کو انھوں نے درست مان لیا۔ انھوں نے کہا کہ بیٹی، تم فکر نہ کرو۔ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ تم یہاں آرام کے ساتھ رہو، تم کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو میںنے لڑکی سے پوچھ گچھ کی، تاکہ اصل حقیقت معلوم ہوسکے۔ لڑکی نے بتایا کہ میرا شوہر ہر معاملے میں سختی کرتاہے۔ میںنے مثال پوچھی تو اس نے بتایا کہ میرا شوہر مجھ کو شاپنگ کے لیے نہیں لے جاتا، وہ آؤٹنگ(outing)کا پروگرام نہیں بناتا۔ میںنے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ شاپنگ کا مطلب پیسے کا ضیاع (waste of money) ہے، اور آؤٹنگ کا مطلب وقت کا ضیاع(waste of time) ہے۔ آپ کا شوہر بہت اچھا کرتاہے کہ وہ آپ کو ایسی بے فائدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔
ماں باپ نے لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ محبت کا واقعہ تھا اور شوہر نے جو کچھ کیا، وہ خیرخواہی کا واقعہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محبت کے مقابلے میں، خیر خواہی زیادہ بڑی چیز ہے۔ مگر اکثر لوگ اِس فرق کو نہیں جانتے۔ اِس لیے وہ محبت کرنے والے کو اپنا ہمدرد سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ اصل ہمدرد وہ ہے جو آپ کے ساتھ سچی خیر خواہی کرے۔
محبت صرف ایک جذباتی چیز ہے، جب کہ خیر خواہی ایک خالص عقلی رویہ ہے۔ وہ شخص بہت خوش قسمت ہے جس کو اپنی زندگی میںایک سچا خیر خواہ مل جائے۔
ایک باپ نے اپنی بیٹی کی شادی دور کے مقام پر کی۔ یہ بیٹی اپنے میکہ میں اس طرح رکھی گئی تھی کہ اس نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے والدین کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ بیٹی خوش رہے۔ اس کو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔ مگر باپ جانتا تھا کہ سسرال میں
لیکن والدین گھر کے اندر اپنی اولاد کے اندر جو مزاج پیدا کرتے ہیں، وہ اِس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ گھر کا ماحول كيے بغیر پانے کا ماحول ہوتا ہے، اور گھر کے باہر کا ماحول کرکے پانے کا ماحول۔اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج کا ہر نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں دونوں، منفی ذہن کا شکار ہورہے ہیں۔ اُنھیں دنیا کے ہر شخص سے شکایت ہوتی ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر ان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ میرے ماں اور باپ بہت اچھے تھے، بقیہ تمام لوگ نہایت برے ہیں۔
اِس صورتِ حال نے آج کی دنیا میں دو چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے— محنت کے ساتھ اپنا کام کرنا، اور لوگوں کا خیر خواہ (well-wisher) بن کر اُن کے درمیان رہنا۔
جولائی 1995 میں مراد آباد کا میرا ایک سفر ہوا۔ وہاں ايك صاحب نے بتايا كه جو پيسه والے مسلمان هيں۔ ان سے اگر پوچھا جائے كه تم اتنا زياده پيسه كس ليے اكھٹا كررهےهو تو ان كا جواب يه هوتا هے اس ليے كه بچے آرام سے رهيں۔ميں نے كها كه بچوں كے آرام كے ليے جو لوگ دولت اور جائداد اكٹھا كريں وه خود اپني اولاد كے ليے كوئي عقل مندي نهيں كررهے هيں۔ تجربه يه هے كه بے محنت كے ملي هوئي دولت آدمي كے اخلاق كو بگاڑتي هے۔ وه اس كے اندر سطحيت، حتي كه آوارگي پيدا كرديتي هے۔ بچوں كے ساتھ سب سے پهلي خير خواهي يه هے كه ان كواعليٰ تعليم دلائي جائے، اور اس كے بعد دوسري ضرورت يه هے كه ان كو محنت كے راستے پر ڈالا جائے۔
ایک مسلم لڑکی اپنے ماں باپ کی اکیلی اولاد تھی۔اس کے والدین نے دھوم کے ساتھ اس کی شادی کی۔ اس کے بعد وہ رخصت ہو کر اپنی سسرال گئی۔ اس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوگیا۔ مگر دو سال کے بعد وہ اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے ماں باپ کے
اُن کی دلچسپیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اب وہ دوستی ، آؤٹنگ، کلب اور لو افیئر (love affair)جیسی چیزوں کی طرف دوڑنے لگتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو والدین روک ٹوک کرتے ہیں، مگر بچے ان کی روک ٹوک کو قبول نہیں کرتے۔ یہ بلاشبہ خود والدین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔
چھوٹی عمر میں والدین نے اپنے بچوں کے اندر یہ ذہن بنایا کہ میری ہر خواہش پوری ہونی چاہیے۔ بالغ ہونے کے بعد اِس مزاج نے مزید ترقی کی۔ اب وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اُن چیزوں کی طرف جانے لگے جو والدین کو پسند نہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ ’’میری خواہش سب کچھ ہے‘‘کا مزاج بچوں کے اندر کس نے پیدا کیا، یہ خود والدین نے اپنے لاڈ پیار سے پیدا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ محبت کے نام پر دشمنی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ایک مسلم تاجر کا واقعہ ہے۔ ان کی بیٹی نے اُن سے اپنی کسی ضرورت کے لیے پیسہ مانگا۔ مذکورہ مسلم تاجر نے اپنی بیٹی سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ انھوں نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اُس وقت ان کی جیب میں جتنے نوٹ تھے، وہ سب نکال کر انھوں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ میں رکھ دیا اور کہا کہ یہ لو، تم ہی لوگوں کے لیے تو کماتے ہیں۔
یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں۔ یہی سارے والدین کا حال ہے۔ والدین خود تو محنت کرتے ہیں، وہ مشقت کی کمائی کرتے ہیں، لیکن اپنی اولاد کے بارے میں ان کا ذہن یہ رہتاہے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ خود تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنی اولاد کو ہر قسم کی راحت اور سہولت فراہم کرتے ہیں، وہ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے ليے تیار رہتے ہیں، خواہ اُنھیں اس کی جو بھی قیمت دینی پڑے۔
والدین کا یہ مزاج ان کی اولاد کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین کا یہ مزاج اولاد کی معکوس تربیت کے ہم معنیٰ ہے۔ ان کی اولاد کو آخر کار جس دنیا میں داخل ہونا ہے، وہ حقائق کی دنیا ہے۔ وہاں کا اصول یہ ہے کہ— جتنا کرو، اتنا پاؤ۔
پھر میںنے کہا کہ آپ خواہ لاڈ پیا رکتنا ہی زیادہ کریں، بچوںکے تقاضے کبھی ختم نہیںہوتے۔ بچے برابر اور زیادہ اور زیادہ کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ اِس بنا پر والدین یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے ابھی کچھ نہیںکیا۔ ہم نے ابھی بچوں کے تقاضے پورے نہیں كيے۔ اس بنا پر تمام والدین لاڈ پیار کے اس احساس میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم تو لاڈ پیار نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ذہن میں لاڈ پیا رکا غلط معیار رہتاہے، یعنی بچے جب مزید تقاضا نہ کریں تو وہ سمجھیں گے کہ ہم نے لاڈ پیار کیا۔ مگر خواہشات کے معاملے میں بچہ اور بڑا دونوں کا یہ حال ہوتاہے کہ ان کو کچھ بھی مل جائے، وہ ان کی خواہشوں سے کم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ نئے تقاضے جاری رہتے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ آج کل والدین عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اُن کے بچے بگڑ گئے ہیں۔ اِس کا ذمے دار وہ سب سے زیادہ ٹی وی کو بتاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹی وی نے ان کے بچوں کو بگاڑ دیا ہے۔ انھوںنے پوچھا کہ اِس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔میںنے کہا کہ یہ سارا معاملہ اگر ٹی وی کا معاملہ ہے تو والدین کیوں اپنے گھر میں ٹی وی رکھتے ہیں۔ بچے خود خرید کر ٹی وی نہیں لاتے۔ یہ والدین ہیں جو بچوں کو خوش کرنے کے لیے ٹی وی لاکر اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔ اِس لیے اِس معاملے میں اصل ذمے دار خود والدین ہیں، نہ کہ بچے۔
حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب لاڈ پیار (pampering) ہے۔ والدین کا نظریہ اپنے بچوں کے بارے میں یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے۔ بچے جب تک چھوٹے ہیں، ان کی خواہش کھانے اور کپڑے جیسی چیزوں تک محدود رہتی ہے۔ اِس لیے چھوٹی عمر میں والدین اپنے نظریے کی غلطی سمجھ نہیں پاتے ، لیکن جب بچے بڑے ہوتے ہیں تو
میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
ایک خاتون نے کہا کہ آپ بچوں کی تربیت پر مضمون لکھئے۔ موجودہ زمانے میں بچوں کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ میںنے کہا کہ بچوں کی اصلاح پر بے شمار مضمون لکھے گئے ہیں۔ہر روز بچوں کی اصلاح پر تقریریں ہورہی ہیں ، لیکن اِس کا کوئی بھی نتیجہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی اصلاح کے معاملے میں اصل ضرورت مضمون یا تقریر کی نہیں ہے۔ اِس معاملے میں اصل ضرورت یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کے معاملے میں اپنے رویے کو بدلیں۔ تمام والدین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار (pampering) کا معاملہ کرتے ہیں۔ یہی لاڈ پیار بچوں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ جب تک والدین اپنے لاڈ پیار کو ختم نہ کریں، بچوں کی کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
میری بات سن کر مذکورہ خاتون نے کہا کہ بچوں کے ساتھ سختی بھی تو نہیں کی جاسکتی۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ سے یہ نہیں کہاتھا کہ بچوں کے ساتھ سختی کیجيے۔ میں نے صرف آپ سے یہ کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیار کو چھوڑ دیجيے۔ والدین کا یہی مزاج بچوں کی خرابی کی اصل جڑ ہے۔ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ لاڈ پیا رنہ کرنا اُن کے ساتھ سختی کرنا ہے۔ والدین اپنے بچوںکے لیے اتنے حساس ہوتے ہیں کہ وہ لاڈ پیار نہ کرنے کو سختی کرنا سمجھ لیتے ہیں، اِس ليے وہ لاڈ پیار کو چھوڑ نہیں پاتے۔
تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک
كا ربط ان كے قريبي ماحول سے هوجاتا هے،جو كچھ ملے اس پر الله كا شكر كرنا هے يا اس كو كسي اور كا عطيه سمجھنا هے، اس كا ابتدائي سبق انھيں اپنے ماں باپ سے ملتاهے۔ كسي كوچھوٹا ديكھ كر اس كو حقير سمجھنا يا كسي كو بڑا ديكھ كر جل اٹھنا، يه بھي پهلي بار ان كو اپنے والدين هي كے ذريعه معلوم هوتا هے۔ اس طرح والدين يا تو اپنے بچوں كو نيك عمل بناتےهيں يا ان كو بد عمل بنا ديتےهيں۔ بچه كا گھر اس كا سب پهلا مدرسه هے اور بچه كے والدين اس كے سب سے پهلے معلم۔
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاخَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي(ابن ماجہ،حدیث نمبر1977)۔ یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔ اس كا مطلب یہ ہے کہ گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغيرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی
باپ نے کچھ چاہا تھا، اور عملاً کچھ اور ہوا۔
اس عام تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ رازق بننے کی کوشش کرے۔ باپ کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو زندگی کا شعور دے۔وہ اپنی اولاد کو رازِ حیات بتائے۔ وہ اپنی اولاد کو خالق کا تخلیقی نقشہ بتائے، نہ یہ کہ وہ خود خالق کی سیٹ پر بیٹھ جائے۔ اس کے علاوہ باپ کچھ بھی کرے، لیکن عملاً وہی ہوگا، جو خالق نے مقدر کیا ہے۔
حدیث کی کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے ابو هريره سے روايت هے كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا۔ هر پيداهونے والا فطرت (صحيح) پر پيدا هوتا هے۔ پھر اس كے ماں باپ اس كو يهودي بنا ديتے هيں يا اس كو نصراني بنا ديتے هيں يا اس كو مجوسي بنا ديتے هيں۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر1358)اس كا مطلب صرف مذهبي معنوں ميں يهودي اورعيسائي اور مجوسي بنانا نهيں هے۔ يه تو بنانے كي آخري صورت هے۔ حقيقت يه هے كه اس ميں هر وه بگاڑ شامل هے، جو والدين كے ذريعه ان كي اولاد ميں پيداهوتاهے۔ چنانچه دوسري روايتوں ميں عمومي الفاظ بھي آئے هيں۔ مثلاً ایک روایت یہ ہے
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَكُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، حَتَّى يُعْرِبَ عَنْهُ لِسَانُهُ، فَإِذَا أَعْرَبَ عَنْهُ لِسَانُهُ، إِمَّا شَاكِرًا، وَإِمَّا كَفُورًا(مسند احمد، حدیث نمبر 14805)۔ یعنی جابر بن عبدالله سے روايت هے كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا۔ هر پيدا هونے والا فطرت (صحيح) پر پيدا هوتا هے۔ يهاں تك كه وه بولنے لگے۔ پھر جب وه بولنے لگتا هے تو وه شكر گزار يا ناشكرا بن جاتا هے۔
بچے پيدا هوتے هي بولنے نهيں لگتے۔ وه كچھ عرصه كے بعد بولتے هيں۔ بولنا شروع کرنے سے پهلے ان كا ربط ان كي پيدائشي فطرت سے هوتا هے، بولنے كے بعد ان
آمدنی اگر فطری طورپر بڑھ جائے تو وہ اُس کو اللہ کا انعام سمجھ کر ادا کرے۔ لیکن وہ اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے زیادہ ہاتھ پاؤں نہ مارے۔ اُس کو چاہئے کہ وہ زیادہ آمدنی کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے۔ بچوں کو تعلیم دینا، بچوں کو ہُنر سکھانا، بچوں کے اندر شعورِ حیات پیدا کرنا، یہ سب مستقبل کے لیے اُس کا نشانہ ہونا چاہئے۔ اس کا دونکاتی فارمولا یہ ہونا چاہئے— اپنے لیے قناعت، اوربچوں کے لیے ترقی۔
قرآن میں ایک حقیقت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہےوَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ( 31:34 )۔ یعنی اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ اسی بات کو ایک حدیث رسول میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے جبریل نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم میں سے کوئی اس دنیا سے ہرگز نہیں جاسکتا، یہاں تک کہ وہ اپنے رزق کو مکمل کردے (حَتَّى يَسْتَكْمِلَ رِزْقَهُ)،تو اے لوگو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، اور طلب میں خوبصورتی پیدا کرو۔(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر2136) ۔
قرآن کی اس آیت اور اس حدیثِ رسول کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی معاش کا معاملہ خالق کی طرف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کے باپ کی طرف سے۔ موجودہ زمانہ اس معاملے کا ایک مظاہرہ (demonstration) ہے۔ موجودہ زمانے میں تقریباً ہر جگہ یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ باپ اندھا دھند کماتا ہے۔ اس کا یہ کمانا، اور گھر بنانا ، اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے بچے اس کے اندر آرام کی زندگی گزاریں۔ لیکن ہر ایک کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ باپ کی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا، ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ وہ عملاً اس دنیا میں جیتا اور مرتا ہے، جو اس نے خود بنائی تھی۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو صرف ایک نسل میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔
معاملے كو خود بچوں پر چھوڑ ديں۔ وه ايسا هر گز نه كريں كه بچوں كي خاطر اپنے آپ كو تباه كرليں اور آخر كار خود بچوں كو بھي۔
بچوں كي ترقي كي سب سے بڑي ضمانت يه هے كه خود اُن كے اندر عمل كا جذبه پيدا هو، اُن كے اندر داخلي اسپرٹ جاگے، وه خود حالات كو سمجھيں اور حالات كے مطابق، اپني زندگي كي تعمير كريں۔ ترقي وه هے جو آدمي كو خود اپني محنت سے ملے۔ دوسروں كي طرف سے دي هوئي ترقي كوئي ترقي نهيں۔
اِس قسم كي خواهش ركھنے والے لوگ اكثر ناكام هوجاتے هيں۔ اِس كا سبب كيا هے۔ اِس كا سبب يه هے كه وه اپنے بچوں سے جذباتي تعلق كي بنا پر ايسي چيز كے خواهش مند بن جاتے هيں جو منصوبهٔ الهي كے مطابق، اُن كو ملنے والي نهيں۔ آدمي كو چاهيے كه اِس معاملے ميں وه اپنے جذبات كے تحت كوئي فيصله نه كرے، بلكه وه ايك حقيقت پسند انسان كي طرح حالات پر غور كرے اور فطرت كے قانون كي روشني ميں اپنے عمل كا نقشه بنائے۔ يهي مطلب هے اس اصول كا كه — اِس دنيا ميں كسي آدمي كو وهي ملتاهے جو الله نے اُس كے ليے مقدر كرديا هو، نه اُس سے زياده اور نه اُس سےكم۔
کم آمدنی والے لوگوں میں میں نے اکثر ایک مشترک مزاج پایا ہے۔ وہ یہ کہ یہ لوگ اکثر اس فکر میں رہتے ہیں کہ اپنی آمدنی کو کسی نہ کسی طرح بڑھائیں تاکہ اُن کے بچوں کو زیادہ آرام وراحت مل سکے۔ اس قسم کے ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ ایک غلط مزاج ہے۔ یہ مزاج آدمی کو طرح طرح سے نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کا ملا ہوا سکون بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس صحیح مزاج یہ ہے کہ آدمی آئندہ ترقی کے معاملہ کو بچوں پر چھوڑ دے۔ اُس کو جو کچھ مل رہا ہے اُس پر وہ راضی رہ کر گزارہ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی
امریکا کے سفر میں ایک شادی شدہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اُن کے ساتھ دو چھوٹے بچے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ خاتون اپنے شوہر سے اختلاف کرکے اپنے بچوں کے ساتھ الگ ایک چھوٹے مکان میںرہتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آج کل کے زمانے میں ایک عجیب چیز یہ ہو رہی ہے کہ شوہر کو اپنے بچوں سے محبت ہے، لیکن اس کو اپنی بیوی سے نفرت ہے۔ اِسی طرح بیوی کو اپنے بچوں سے محبت ہے، اور اپنے شوہر سے نفرت۔ یہ تضاد کی بات ہے۔ اور فطرت کے قانون کے مطابق، اِس قسم کی متضاد سوچ (contradictory thinking) اور ذہنی ارتقا دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔میںنے کہا کہ آج کل یہ حال ہے کہ شوہر اور بیوی کے لیے اُن کا بچہ عملاً لٹل گاڈ (little god) ہوتا ہے۔ مگر جس شوہر یا جس بیوی کے ذریعے یہ بچہ پیدا ہوا، اُس سے دونوں کو دوری ہوتی ہے۔
ايك صاحب سروس كرتےتھے۔ ايك عرصے تك سروس كرنے كے بعد اُن كو احساس هوا كه سروس كي آمدني بچوں كي ترقي كے ليے كافي نهيں۔اِس ليے انھوںنے سروس چھوڑ دي اور ايك بزنس شروع كرديا، تاكه وه زياده كمائيں اور بچوں كو زياده ترقي دلاسكيں، مگر عملاً يه هوا كه بزنس ميں اُن كو مطلوب كاميابي حاصل نهيں هوئي۔ چناں چه وه ٹينشن ميں مبتلا هو گئے۔ آخر كار، اُن كو كينسر هوگيا اور بچوں كے ليے زياده پيسه كمانے سے پهلے وه اس دنيا سے چلے گئے۔
اِس طرح كا واقعه مختلف صورتوں ميں اكثر لوگوں كے ساتھ پيش آتاهے، مگر وه هر ايك كے ليے تباه كن هے۔ ايسے لوگوں كے ليے صحيح طريقه يه هے كه وه حقيقت پسند (realist)بنيں۔ وه اپني زندگي كا منصوبه خود اپني استطاعت كي بنياد پر بنائيں، نه كه اپني اولاد كے بارے ميں اپني امنگوں (ambitions) كي بنياد پر۔ وه بچوں كے مستقبل كي تعمير كے
اُن کے موبائل پر بار بار ان کے بچوں کے ٹیلی فون آتے رہے۔ اپنے بچوں سے ٹیلی فون پر وہ اِس طرح گفتگو کرتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان کو اپنے بچوں سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہے۔
میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا کیس اُسی طرح ایک نادان باپ کا کیس ہے جیسا کہ دوسروں کا کیس ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کو جو چیز عملاً ملی ہوئی ہے، اُس کو آپ بھر پور طور پر استعمال نہیں کرتے اور جو چیز آپ کو ملنے والی نہیں، اُس کو آپ اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کے پاس دو چیزیں ایسی ہیں جو عملاً آپ کو حاصل ہوچکی ہیں— ایک، آپ کا اپنا وجود۔ اور دوسري، آپ کی بیوی۔ آپ نے اپنے معاملے میں یہ کیا کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، اور بیوی کے معاملے میں آپ کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن کو نظر اندازكيے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ مایوسی کا شکار ہیں، وہ اپنی زندگی کا کوئی تخلیقی کردار (creative role) دریافت نہ کرسکیں۔دوسری طرف، آپ کا یہ حال ہے کہ آپ کی تمام دلچسپیاں اپنے بچوں کے ساتھ وابستہ ہوگئی ہیں، حالاں کہ یہ بچے آپ کو ملنے والے نہیں۔ آپ کا بیٹا اور آپ کی بیٹی دونوں آپ کو چھوڑ کر خود اپنی الگ زندگی بنائیں گے، وہ ہر گز آپ کے کام آنے والے نہیں۔ آپ ملی ہوئی چیز کو ضائع کررہے ہیں اور نہ ملنے والی چیز کے لیے آپ بے فائدہ طورپر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔
یہ معاملہ موجودہ زمانے میں تقریباً تمام لوگوں کا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر آدمی ’’کھونے‘‘ کا کیس بن رہا ہے۔ کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’’پانے‘‘ کا کیس نہیں۔ آدمی اپنی اِس غفلت کو اپنی عمر کے آخر میں اُس وقت دریافت کرتاہے، جب کہ اِس تباہ کن غفلت کی تلافی کا وقت اُس کے پاس نہیں ہوتا۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ حاصل شدہ کو اپنا مرکز ِ عمل بنائے، نہ کہ غیر حاصل شدہ کو۔
حقیقۃً خدا کی طرف سے ملی ہے، اس کو خداکی طرف منسوب نہ کرنا، بلکہ اس کو خود اپنے کمالات کے خانے میں ڈال دینا، یہ خدا کے ساتھ بے اعترافی کا معاملہ کرناہے، اور خدا کے ساتھ بے اعترافی بلا شبہ خدا کی اِس دنیا میں سب سے بڑے جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
قرآن کی سورہ النمل میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر سلیمان بن داؤد کو ایک مادّی نعمت ملی تو انھوں نے فوراً کہاهَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي ( 27:40 ) ۔یعنی یہ میرے رب کے فضل میں سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پیغمبر نے اس کو خدا کا عطیہ (God’s gift) قرار دیا۔ یہی صحیح ایمانی طریقہ ہے۔ صاحبِ ایمان وہ ہے جو ہر چیز کو خدا کی چیز سمجھے، جوہر ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہوئے خدا کا اعتراف کرے۔
دنیا میںانسان کو جوچیزیں ملتی ہیں، وہ بہ ظاہر خود اپنی کوشش کے ذریعے ملتی ہیں، لیکن یہ صرف اس کا ظاہری پہلوہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہوتی ہے۔ انسان کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری پردے کو پھاڑ ے، وہ اصل حقیقت کو دریافت کرتے ہوئے ہر ملی ہوئی چیز پر یہ کہہ دے کہ یہ میرے رب کا عطیہ ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے مجھ کو دیا گیا۔
اِسی اعتراف (acknowledgment) کا مذہبی نام شکر ہے۔ یہاں اُسی شخص کو جائز طورپر رہنے کا حق حاصل ہے جو شکر و اعتراف کی نفسیات کے ساتھ اِس دنیا میں رہے۔ شکر کی یہی نفسیات موجودہ دنیا میں کسی کو جائز طورپر جینے کا حق دیتی ہے۔ اِس کے برعکس، جن لوگوں کے اندر ناشکری اور بے اعترافی کی نفسیات ہو، وہ خدا کی اِس دنیا میں مجرم اور درانداز (intruders) کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایک مسلمان اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے۔ ایک گھنٹے کی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اُن کو کوئی قلبی تعلق نہیں۔ البتہ اِس دوران
اِس فيملي كلچر كا سب سے بڑا نقصان يه هے كه وه عملاً تحميق خاندان (befooling of family) كے هم معني بن گيا هے۔اِس كا نتيجه يه هے كه لوگوں كي سوچ كا دائره بهت محدود هوگياهے۔ اُن كا ذهن صرف اپني مادي ضرورتوں كے محدود دائرے ميں كام كرتاهے۔ وه اِس كي ضرورت نهيں سمجھتے كه وه اِس محدود دائرے كے باهر سوچيں۔ ان كے يهاں كتابوں كے مطالعے كا ماحول نهيں هوتا۔ اُن كے يهاں سنجيده تبادلهٔ خيال (serious discussion)كا رواج نهيں هوتا۔ ان كے يهاں يه كلچر نهيں هوتا كه وه رشتےداروں كے علاوه لوگوں سے مليں اور اُن سے سيكھنے اور استفاده كرنے كي كوشش كريں۔ وه اپنے گھر سے باهر نكلتے هيں تو جاب كے ليے يا تفريح كے ليے يا شاپنگ كے ليے۔ اِس قسم كي چيزوں كے علاوه، ان كے يهاں ذهني ارتقا كا كوئي تصور نهيں۔
اِس فيملي كلچر كا نقصان يه هے كه لوگ بظاهر مادي اعتبار سے آسوده زندگي گزار رهے هيں، ليكن عملاً وه فكري پس ماندگي (intellectual backwardness) كا شكار هيں۔ اُن سے كسي سنجيده موضوع پر بات كيجيے تو فوراً معلوم هوجائے گا كه ان كے اندر كوئي علمي سوچ نهيں، اُن كو حقائقِ عالم كي معرفت نهيں، زندگي كے زياده بڑے مسائل كے بارے ميں ان كي كوئي رائے نهيں۔ بظاهر وه انسان نظر آئيںگے، ليكن عملاً وه صرف ايك خوش پوش حيوان (well-dressed animal)كي مانند هوں گے— خانداني زندگي كي تشكيل اِس طرح هوني چاهيے كه وه لوگوں كے ليے اُن كے ذهني ارتقا (intellectual development) ميں مددگار هو، نه كه لوگوںكے ذهني ارتقا كے ليے وه ايك مستقل ركاوٹ بن جائے۔
آج کل یہ رواج ہے کہ ایک شخص پیسہ کمائے گا اوراس کے بعد وہ ایک کار خرید کر اپنے بیٹے کو دے گا۔ کار کے شیشہ پر لکھا ہوا ہوگا— باپ کی طرف سے تحفہ (Dad's Gift)۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ناشکری کا کلمہ ہے۔ ایک نعمت جو
لڑکیوں کی تربیت کے تعلق سے ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَمَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ، فَأَدَّبَهُنَّ، وَزَوَّجَهُنَّ، وَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، فَلَهُ الْجَنَّةُ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 5147)۔ یعنی ابو سعید الخدری روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی۔ پھر ان کو ادب سکھایا اور اُن کی شادی کی اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
عام مزاج یہ ہے کہ اگر کسی باپ کے یہاں کئی لڑکیاں ہوں، اور کوئی لڑکا نہ ہو تو وہ لڑکیوں کو بے قدر کردیتا ہے۔ اس حدیث میں اسی ذہن کی تردید کی گئی ہے۔ کسی باپ کے یہاں لڑکا پیدا ہو یا لڑکی، دونوں حالتوں میں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دے۔ وہ اُن کو ایسی تربیت دے جو اُن کے لیے زندگی گذارنے میں مدد گار بنے۔
باپ کا رجحان اکثر اپنی اولاد کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے لیے زندگی کی راحتیں فر اہم کرے۔ وہ کما کر اُنہیں زیادہ سے زیادہ مال دے سکے۔ مگر یہ نظریہ درست نہیں۔ اولاد کے لیے باپ کا سب سے بہتر عطیہ مال نہیں ہے بلکہ تعلیم ہے۔ باپ کا کمایا ہوا مال اولاد کے لیے بلا محنت کی کمائی (easy money) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا مال اکثر آدمی کو خراب کردیتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو تعلیم دے، اور اس طرح اُنہیں اس قابل بنائے کہ وہ خود محنت کرکے زیادہ بہتر طورپر اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
موجوده زمانے ميں خاص طورپر اورمشرقي دنيا ميں عام طورپر لوگوں كے درميان ايك هي كلچر كا رواج هے اور وه فيملي كلچر هے، يعني پيسه كمانا اور گھر والوں كے تقاضے پورا كرنا۔ لوگوں كو صرف يهي ايك ماڈل معلوم هے، اِس كے سوا كسي اور ماڈل كا اُنھيں علم نهيں۔
بگڑي نهيں هے۔ بهترين بات يه هے كه چاروں بھائي ايك ايك كاروبار كو لے اور هر ايك ذاتي طورپر اپنا كاروبار چلائے۔ اس طرح همارے والد كي روح كو سكون پهنچے گا، اور مجھے يقين هے كه اس ميں هر ايك كے ليے زياده بركت هوگي۔ تينوں بھائيوں نے كها كه هم تو سراپا آپ كے احسان مند هيں۔ اس ليے آپ جو بھي فيصله كرديں وه هم كو منظور هے۔ مختصرگفتگو كے بعد يه طے هوا كه قرعه اندازي كا طريقه اختياركيا جائے۔ چنانچه اسي وقت قرعه كے ذريعه هر بھائي كو ايك ايك كاروبار دے ديا گيا۔
اب چاروں بھائي اپنے اپنے كاروبار ميں لگے هوئے هيں۔ هر ايك اپنے بچوں كو لے كر اپنے اپنے كام ميں صبح سے شام تك محنت كرتاهے۔ چاروں كے درميان پهلے سے بھي زياده اچھے تعلقات هيں۔ هر ايك دوسرے كي مدد كرنے كے ليے هر وقت تيار رهتا هے۔ چاروں نے الگ الگ اپنے مكانات بنا ليے هيں۔ مگررحيم بخش اب بھي اسي طرح سب كے’’بڑے بھائي‘‘ هيں جيسے وه پهلے بڑے بھائي تھے۔ ايك بھائي جو بات كهه دے اس كو دوسرا بھائي كبھي نهيں ٹالتا۔ ايك گھر ميں كوئي ضرورت پيش آجائے تو چاروں گھروں كي عورتيں اور بچے مل كر اس كو اس طرح كرتے هيں جيسے وه هر ايك كا اپنا كام هو۔
اكثر باپ يه سمجھتے هيں كه اپني اولاد كے لئے سب سے بڑي وراثت يه هے كه وه ان كے لئے مال اور جائداد چھوڑ كر اس دنياسے جائيں۔ مگر حقيقت يه هے كه سب سے زياده خوش نصيب اولاد وه هے جس كے باپ نے اس كے ليے بااصول زندگي كي وراثت چھوڑي هو۔ وه اپني اولاد كو يه سبق دے كر دنيا سے گيا هو كه اپني محنت پر بھروسه كرو، لوگوں سے الجھے بغير اپنا كام كرو۔ اپنے واجبي حق پر قناعت كرو۔ حال كے فائدوں سے زياده مستقبل كے امكانات پر نظر ركھو۔ خوش خياليوں ميں گم هونے كے بجائے حقيقت پسندي كا طريقه اختيار كرو۔ مادي وراثت سے زياده بڑي چيز اخلاقي وراثت هے۔ مگر بهت كم باپ هيں جو اس حقيقت كو جانتےهوں۔
شرير آدمي كے خلاف كوئي جوابي كارروائي نه كرتے بلكه خاموشي سے اپنے كاروبار ميں لگ جاتےاور اس كے حق ميں دعا كرتے رہتے۔ جب ان كے دل ميں شيطان كوئي بد معاملگي كا جذبه ڈالتا تو ان كے والد كا معصوم چهره ان كے سامنے آجاتا۔ ان كو ايسا محسوس هوتا كه اگر ميں نے كوئي غلط معامله كيا يا كسي سے جھگڑا فساد كيا تو ميرے باپ كي روح قبر ميں تڑپ اٹھے گي۔ يه خيال فوراً ان كے جذبات كو دبا ديتا۔ وه دوباره اسي تعميري راسته پر چل پڑتے جس ميں انھيں ان كے باپ نے چھوڑا تھا۔
ان كا كاروبار بڑھا تو ان كو مزيد معاون كي ضرورت هوئي۔ اب انھوںنے اپنے بھائيوں كوبلانا شروع كيا۔ يهاں تك كه چاروں بھائي شهر ميں منتقل هوگئے۔ دھيرے دھيرے ان كے كاروبار كے چار مستقل شعبے هوگئے۔ هر شعبه ايك ايك بھائي كے سپرد تھا۔ چاروں بھائي ايك ساتھ مل كررهتے، اور ساتھ كھاتے پيتے۔ مگر كاروباري اعتبار سے هر بھائي اپنے اپنے شعبه كو آزادانه طورپر انجام ديتا تھا۔
كچھ دنوں كے بعد رحيم بخش كو محسوس هوا كه بڑے بھائي هونے كي حيثيت سے چونكه وهي كاروبار كے مالك هيں اس لئے بقيه بھائي اپنے كام كو اس دل چسپي سے نهيں كرتے جيسا كه كوئي آدمي اس وقت كرتاهے جب وہ كه كام كو اپنا ذاتي كام سمجھتا هو۔ اب رحيم بخش كے ليے دو صورتوں ميں سے كسي ايك كو انتخاب كرنے كا سوال تھا يا تو كاروبار كو اپنے قبضه ميںلے كر بقيه تينوں بھائيوں كو اس سے الگ كرديں اور اس كے نتيجه ميں هميشه كے ليے بھائيوں كي دشمني خريديں۔ دوسرے يه كه معاملات كو اسي طرح چلنے ديں۔ يهاں تك كه بالآخر وهي هو جو عام طورپر مشترك كاروبار ميں هوتا هے۔ يعني باهمي شكايت اور اس كے بعد تلخ يادوں كے ساتھ كاروبار كي تقسيم۔
رحيم بخش نے چند دن سوچا اوراس كے بعد سب بھائيوں كو جمع كركے ساري بات صاف صاف ان كے سامنے ركھ دي۔ انھوںنے كها كه خدا كے فضل سے ابھي كوئي بات
حوالے کردے۔ گویا کہ اپنے آپ کو نہ دے کر خود اللہ رب العالمین کا ہاتھ بچوں کے سر پر دے دیا۔ وہ اپنی اولاد کو چھوٹی چیز دینا چاہتا تھا، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دے، یعنی اللہ رب العالمین کو۔
كريم بخش سيدھے سادے دين دار آدمي تھے۔ گاؤں كي معمولي آمدني پر گزر كرليتے۔ 65 سال كي عمر ميں وه چار بچے چھوڑ كر مرے ،تو ان كے ليے انھوں نے كوئي قابل ذكر جائداد نهيں چھوڑي تھي۔ ان كے انتقال كے بعد ان كے بڑے صاحب زادے رحيم بخش شهر چلے آئے تاكه اپنے ليے كمائي كي كوئي صورت كرسكيں۔ شهرميںانھوںنے مختصر سرمايه كےساتھ ايك كاروبار شروع كرديا۔
رحيم بخش كے والد نے ان كے ليے كوئي مادي وراثت نهيں چھوڑ ي تھي۔ مگر قناعت اور سادگي اوركسي سے لڑے بھڑے بغير اپنا كام كرنے كي وراثت چھوڑي تھي۔ يه وراثت رحيم بخش كے ليے بے حد مفيد ثابت هوئي۔ ان كي سادگي اور قناعت كا نتيجه يه هوا كه معمولي آمدني كے باوجود وه مسلسل ترقي كرنے لگے۔ ان كا لڑائي بھڑائي سے بچنے كا مزاج ان كے ليے مزيد معاون ثابت هوا۔ هر ايك ان سے خوش تھا۔ هر ايك سے ان كو تعاون مل رها تھا۔ ان كي ترقي كي رفتار اگر چه سست تھي، مگر وه ايك دن ركے بغير جاري رهي۔
رحيم بخش كا كاروبار اگرچه معمولي تھا ،مگر ان كي شرافت، ان كي بے غرضي اور اور ان كي ايمان داري نے ان كو اپنے ماحول ميں اتني عزت دے ركھي تھي ،جيسے كه وهكوئي بڑي حيثيت كے آدمي هوں۔ ان كے پاس سرمايه بهت كم تھا، مگر لين دين ميں صفائي اور وعده كا پكا هونے كا نتيجه يه هوا كه بازار ميں بڑےبڑے تھوك بيوپاري ان سے كهتے كه ’’مياں جي، جتنا چاهے مال لے جاؤ۔ پيسه كي پروا نه كرو۔ پيسے بعد كو آجائيں گے‘‘۔ بعض اوقات ايسا بھي هوا كه كسي سے جھگڑے كي نوبت آگئي۔ مگر انھوں نے خود هي اپنے كو چپ كر ليا۔وه
جس کو قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کہا جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی انسان کے لیے اپنے سرپرستوں کی طرف سے یہ سب سے زیادہ قابل قدر عطیہ ہے۔
اگرکوئی باپ اپنے بچوں کو مادی چیزیں نہ دے سکے۔ مثلاً گھر اور مال جیسی چیزیں اس کے پاس دینے کے لیے نہ ہوں تو ایساباپ ہمیشہ اس احساس میں جیتا ہے کہ میں ایک نالائق باپ ثابت ہوا۔ میں اپنے بچوں کا باپ ہوتے ہوئے بھی ان کی دنیا تعمیر نہ کرسکا۔
اپنے بچوں کے لیے کسی باپ کا یہ احساس کوئی مثبت احساس نہیں۔ اس کے برعکس، صحیح احساس یہ ہے کہ جو باپ اپنے بچوں کے لیے دنیا کی چیزیں دے سکے، وہ اس بات کا شکر ادا کرے کہ اللہ نے اس کو دینے کے قابل بنایا۔ اللہ نے اس کو ہاتھ پاؤں دیا، کمانے کی صلاحیت دی۔ اس طرح وہ اس قابل بنا کہ اپنے بچوں کو دینے کی چیزیں دے سکے۔
لیکن جو باپ اپنے بچوں کو دنیا کی چیزیں نہ دے سکے، اس کے پاس بھی اپنے بچوں کو دینے کے لیے بہت بڑی چیز موجود ہوتی ہے، اور وہ دعا ہے۔ وہ اپنی دعاؤں میں یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ، میں اپنے بچوں کا باپ تھا، لیکن میں اپنے بچوں کو دینے کی چیز نه دے سكا، تو میرا اور میرے بچوں کا رب ہے۔ تو میرے بچوں کو وہ چیز دے دے ، جو میں ان کو نہ دے سکا، تو میرے بچوں کے لیے میری طرف سے وہ دعا قبول فرما، جس میں تونے انسان کو یہ تلقین کی ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( 2:201 )۔
اگر کوئی باپ اپنے بچوں کے لیے یہ دعا کرسکے، تو اس نے اپنے بچوں کو زیادہ بڑی چیز دے دی۔ وہ چاہتا تھا کہ خود اپنے آپ کو اپنے بچوں کے لیے دے سکے، لیکن اس کے حالات نے اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے بچوں کو اپنے رب کے
كے ساتھ رهے۔ وه بڑوں كو عزت دے اور چھوٹوں كے ساتھ مهرباني كا سلوك كرے۔ يه اصول گھر كے اندر بھي كامياب هے اور گھر كے باهر بھي۔ يه آدمي كي اپني ضرورت هے كه وه گھر كے اندر اعتدال كے ساتھ رهے، اور گھر کے باہر بھی۔
ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے مَا وَرَّثَ وَالِدٌ ولدًا خَيْرًا مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر3658)۔ یعنی کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سےعمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے۔
ادب کا مطلب عربی زبان میں حسن اخلاق (good conduct) ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے اندر پہلے اچھی سوچ آتی ہے، اس کے بعد اس کے اندر اچھا اخلاق آتا ہے۔ اچھی سوچ حسن اخلاق کی بنیاد ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کے اندر درست طرز فکر (right thinking)پیدا کرے۔ جس آدمی کے اندر درست طرزِ فکر ہو، اس کا ہر رویہ درست ہوجائے گا۔
ایسے آدمی کی سوچ درست سوچ ہوگی۔ ایسے آدمی کا سلوک، درست سلوک ہوگا۔ ایسے آدمی کا معاملہ (dealing)، درست معاملہ ہوگا۔ ایسےآدمی کی منصوبہ بندی، درست منصوبہ بندی ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر مثبت سوچ (positive thinking)کا حامل ہوگا، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے مکمل طور پر خالی ہوگا۔
جس آدمی کے اندر یہ حسنِ ادب موجود ہو، وہ اپنے ہر معاملہ میں ایک بہتر انسان ہوگا۔ ایساآدمی خواہ اپنے گھر کے اندر ہو یا وہ گھر کے باہر ہو، وہ اپنوں سے معاملہ کرے یا غیروں سے معاملہ ۔ ہر حال میں وہ درست رویہ پر قائم رہے گا۔ اس کی درست سوچ ایک ایسا عامل (factor) بن جائے گی، جو اس کو ہر موقع پر بے راہ روی سے بچائے گی۔ ایسا آدمی ایک سنجیدہ انسان ہوگا۔ایسا آدمی ذمہ دارانہ اخلاق کا حامل ہوگا۔ ایسے آدمی کے اندر وہ کردار ہوگا،
ایک حدیث رسول کا ترجمہ یہ ہے تم ميں سے بهتر وه هے جو اپنے گھر والوں كے ليے بهتر هو (ابن ماجہ، حدیث نمبر 1977)۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمي اپنے گھر كے لوگوں سے معامله كرنے ميں بهتر هوگا ،وه باهر والوں سے معامله كرنے ميں بھي بهتر ثابت هوگا۔ گھر هر آدمي كي فطري تربيت گاه هے۔ گھر كے اندر محدود سطح پر وه سارے معاملات پيش آتےهيں جو باهر سماج كے اندر زياده وسيع طور پر پيش آتے هيں۔ اس ليےجو آدمي محدود دائره ميں بهتر انسانيت كا ثبوت دے گا، وه باهر كے وسيع تر دائره ميں بھي بهتر انسانيت كا ثبوت دے گا، وه باهر كے وسيع تر دائره ميں بھي بهتر انسانيت والا بن كر ره سكے گا۔ايك صاحب گورنمنٹ سروس ميں تھے۔ ان كا نظريه تھا كه بيوي كو دبا كر ركھنا چاهيے۔ گھر كے اندر وه روزانه اپنے اسي نظريه پر عمل كرتے۔ وه هميشه گھر كي خاتون كے ساتھ سخت انداز ميں بولتے۔ وه ان كے ساتھ شدت والا سلوك كرتے تاكه وه ان كے مقابله ميں دب كر رهيں۔
گھر كي تربيت گاه ميں ان كاجو مزاج بنا، اسي كو لے كر وه دفتر ميں پهنچے۔ يهاں ان كي افسر (باس) اتفاق سے ايك خاتون تھيں۔ شعوري يا غير شعوري طورپر يهاں بھي ان كا وهي گھر والا مزاج قائم رها۔ وه اپني افسر خاتون كے ساتھ بھي اسي قسم كا ’’مرادنه‘‘ معامله كرنے لگے ،جس كے عادي وه اپنے گھر كي خاتون كے ساتھ هوچكے تھے۔ليڈي افسر ابتداء ً ان كے ساتھ ٹھيك تھي۔ مگر ان كے غير معتدل انداز نے ليڈي افسر كو بھي ان سے برهم كرديا۔ اس نے بگڑ كر ان كا ريكارڈ خراب كرديا۔ ان كا پروموشن رك گيا۔ وه طرح طرح كي دفتري مشكلات ميں پھنس گئے۔صحيح اصول وه هےجو گھر كے اندر اور گھر كے باهر دونوں جگه يكساں طورپر مفيد هو۔ يه اصول شرافت كا اصول هے۔ آدمي كو چاهيے كه وه گھر كے اندر شرافت
خاندان سے باهر كے افراد كے بارے ميں غير همدردانه انداز ميں سوچتے هيں اور اپنے خاندان كے افراد كے بارے ميں همدردانه انداز ميں۔ وه خاندان سے باهر كے افراد كو ايك نظر سے ديكھتے هيں اور اپنے خاندان كے افراد كو دوسري نظر سے۔اِس طرح اُن كا حال يه هوجاتا هے كه وه نه اپنوں كي زندگي سے سبق حاصل كرتے هيں اور نه دوسروں كي زندگي سے كوئي نصيحت حاصل كرتے هيں۔
اگست 1996 میں میرا امریکا کا سفر ہوا۔ وہاںماؤنٹ هالي ( نيو جرسي)كي مسجد ميں ايك اجتماع هوا۔ اس ميں زياده تر عورتيں شريك تھيں۔ اس ميں خطاب كا موضوع تھا كه امريكي معاشره ميں بچوں كا اسلامي تحفظ۔ اس پر بولتے هوئے ميں نے جو كچھ كها اس كا خلاصه يه تھاميں نے كها كه اگلي نسل كا اسلامي تحفظ اس طرح نهيںهوسكتا كه آپ ايك مولوي صاحب كو مقرر كرديں جو روزانه شام كو آكر ’’دينيات‘‘ پڑھا ديں۔ يا كوئي ديني رساله آپ اپنے بچوں كے نام جاري كرديں۔ يا انھيں كلچرل نوعيت كي كچھ چيزوں كا عادي بنانے كي كوشش كريں۔ اس كا واحد حل يه هے كه اگر آپ كو اپنے بچوں كو اسلامائز كرنا هے تو سب سے پهلے اپنے گھر كو اسلامائز كيجئے۔ آپ كے گھر ميں دنيا كا چرچا نه هو بلكه دين كا چرچا هو۔ گھر كا ماحول مادي رنگ ميں رنگا هوا نه هوبلكه آخر\ت كے رنگ ميں رنگا هوا هو۔دوسري بات يه كه آپ اپنے بچوں كے اندر داعيانه اسپرٹ پيدا كريں۔ يه ايك اصول هے كه جو داعي نهيں بنتا اس كو مدعو بننا پڑتا هے۔ اس ليے اگر آپ نے اپنے بچوں كے اندر داعيانه اسپرٹ نهيں پيدا كي تو وه دوسروں سے متاثر هو كر رهيں گے۔ يه فطرت كا قانون هے، اور فطرت كا قانون كبھي نهيں بدلتا۔
اہل کے درمیان ڈرتے رہتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سچا مذہبی انسان وہ ہے جو ہر وقت خدا کی پکڑ سے ڈرتا ہو، خواہ وہ اپنے گھر کے باہر ہو یا اپنے گھر کے اندر۔ وہ مواخذہ (accountability) کی نفسیات کے تحت زندگی گزارتا ہے، نہ کہ بے خوفی کی نفسیات کے تحت۔
خاندان (family) وسيع تر انسانيت كا ايك يونٹ هے۔ خاندان كے اندر محدود دائرے ميں وه تمام حالات پيش آتے هيں جو وسيع تر انسانيت كے اندر زياده بڑے پيمانے پر پيش آتے هيں۔ اِس اعتبار سے، خاندان هر ايك كے ليے گويا ايك تربيتي اسكول هے۔ هر آدمي اپنے خاندان كے اندر اُن تمام باتوں كو سيكھ سكتا هے جو دنيا ميں كامياب زندگي گزارنے كے ليے ضروري هيں۔ مگر اِس كي ايك شرط هے، وه يه كه آدمي خاندان پرستي كا شكار نه هو۔ وه اپنے خاندان كو بھي اُس نظر سے ديكھے جس طرح كوئي شخص دوسرے انسانوں كو ديكھتا هے۔
حقيقت يه هے كه دنيا ميں جتنے مختلف قسم كے كيريكٹر هيں، وه سب كيريكٹر هر آدمي كے اپنے خاندان كے افراد ميں موجود هوتے هيں۔خاندان هر آدمي كے ليے روايتي ’’جامِ جمشيد‘‘ كي مانند هے۔ خاندان كے آئينے ميں آدمي هر قسم كے اخلاق كا نمونه ديكھ سكتا هے۔ اِس طرح هر آدمي كے ليے يه ممكن هے كه وه اپنے خاندان اور رشتے داروں كو ديكھ كر زندگي كا تجربه حاصل كرے اور اپني زندگي كي حقيقت پسندانه انداز ميں منصوبه بندي (planning) كرے۔
مگر بهت كم ايسے افراد هيں جو اِس قريبي امكان سے فائدے اٹھاتے هيں۔ اِس محرومي كا سبب كيا هے۔ اس كا سبب صرف ايك هے، اور وه هے لوگوں كے اندر موضوعي طرزِ فكر كا نه هونا۔ لوگوں كا حال يه هے كه وه اپنے خاندان كے افراد كے بارے ميں بهت جلد متعصبانه طرز فكر كا شكار هوجاتے هيں۔ اُن كو اپنے گھر والوں كي غلطي دكھائي نهيں ديتي۔ وه
سعادت مند بادشاه نے اس پر صبر كرليا۔ (مأثر الامراء، جلد دوم، صفحه 560)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی ذہن سازی میں عورت کا کردار بے حد اہم ہے۔
آج کل یہ حال ہے کہ سیکولر آدمی اور مذہبی آدمی کا فرق باہر کی زندگی میں تو نظر آتا ہے، لیکن گھر کی زندگی میں یہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔ بہ ظاہر دونوں کا لباس الگ ہوتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر گڈ مارننگ (good-morning) کہتا ہے تو مذہبی آدمی السلام علیکم کہتا ہے۔ سیکولر آدمی اگر کلب (club) جاتا ہے تو مذہبی آدمی مسجد جاتا ہے، وغیرہ۔ لیکن یہ فرق باہر کی زندگی کی حد تک ہے۔ گھر کے اندر کے ماحول کو دیکھيے تو سیکولر آدمی کے گھر اور مذہبی آدمی کے گھر کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دے گا۔ اور اگر کوئی فرق ہوگا تو وہ صرف ظاہری رسم کے اعتبار سے ہوگا، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قرآن میں دونوں قسم کے گھروں کی پہچان بتائی گئی ہے۔ غیر مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کو جاننے کے لیے قرآن کی اِس آیت کا مطالعہ کیجيے إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا( 84:13 )۔ یعنی وہ اپنے اہل کے درمیان خوش رہتا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مذہبی انسان کی زندگی خاندان رُخی (family-oriented) زندگی ہوتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں آکر محسوس کرتا ہے کہ میں اپنے لوگوں کے درمیان آگیا۔ وہ اپنا سارا وقت اور اپنا پیسہ اپنے اہلِ خاندان میں خرچ کرتا ہے اور مطمئن رہتا ہے کہ میں نے اپنے وقت اور اپنے پیسے کا صحیح استعمال کیا۔ وہ اپنے اہلِ خانہ کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کی دل چسپیوں اور اس کی سرگرمیوں کا مرکز اس کے اہلِ خاندان ہوتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح زندگی گزاریں، وہ کبھی خدا کے مطلوب بندے نہیں بن سکتے، خدا کی ابدی رحمتوں میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔
مذہبی انسان کے گھر کی پہچان کتابِ الٰہی کی اِس آیت میں ملتی ہےقَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ( 52:26 )۔ یعنی اہلِ جنت کہیں گے کہ اِس سے پہلے ہم اپنے
موجود هے،جو مسجد عبد النبي كے نام سے مشهور هے۔ ملّا عبد النبي شهنشاه اكبر كے استاذ تھے۔ اس بنا پر وه اكبر كے دربار ميں بلا روك ٹوك آتے جاتے تھے۔
اكبر نے ملّا عبد النبي كو حكومت ميں صدر الصدور كے عهده پر فائز كيا تھا۔ اكبر سے خصوصي تعلق كي بنا پر ملا عبد النبي كو اس زمانه ميں نهايت عزت كا مقام حاصل هوا۔ ملّا عبد القادر بدايوني كا بيان هے كه منصب صدارت كو كسي سلطنت ميں وه اهميت حاصل نهيں هوئي، جو مُلّا عبد النبي كے زمانه ميں اُسے حاصل تھي
در زمان هيچ بادشاهي ايں چنيں صدرے باستقلال نگشته...
اكبر كو مُلّا عبد النبي سے اتني عقيدت تھي كه وه اُن كے جوتے سيدھا كرتا تھا۔ ان كے مكان پر جاكر اُن سے حديث سنتا تھا۔ ملا عبد النبي كي صحبت سے اس كي مذهبيت يهاں تك پهنچ گئي تھي كه وه مسجد ميں خود اذان ديتا تھا اور ثواب كي خاطر بعض اوقات مسجد ميں جھاڑو بھي ديتا تھا۔
ايك بار ايسا هوا كه اس كي سالگره كي تقريب تھي۔ اكبر نے اپني مشهور پاليسي كے مطابق، اس دن جو كپڑا پهنا تھا، وه زعفراني رنگ (گيروے رنگ) كا كپڑا تھا۔ ملّا عبد النبي نے اس كو ديكھا تو وه اُس كو هندوانه رنگ سمجھ كر غصه هوگئے، اور بھرے دربار ميں اكبر كو اپنے عصا سے مار ديا۔ اكبر كو اس پرناگواري هوئي، مگر وه خاموشي سے اٹھ كر محل كے اندر چلا گيا۔ محل كے اندر اُس كي ماں مريم مكاني موجود تھيں۔ اُس نے اپني ماں سے كهاكه ملا عبد النبي نے آج بھرے دربار ميں مجھ كو مارا۔ اگر وه تنهائي ميں مجھ كو نصيحت كرتےتو اس ميں كوئي حرج نه تھا۔
اكبر كي ماں مريم مكاني ايك ذهين اور صاحب علم خاتون تھيں۔ اُنھوں نے اكبر كي بات سُن كر كها۔ بيٹے، دل پر ميل نه لانا، يه تمھارے لئے نجاتِ آخرت كا ذريعه هے۔ قيامت تك چرچا رهے گا كه ايك بے اختيار مُلّا نے بادشاه كے ساتھ يه حركت كي اور
ديا۔بچه روتا هوا اپني ماں كے پاس گيا اور پورا قصه بتايا۔ ماں نے كها كه اے ميرے بيٹے تم پرم پتا كي گود ميں بيٹھ جاؤ۔ اس كے بعد تمهيں ان باتوں كي شكايت نه هوگي۔
يه ايك تمثيلي كهاني هے۔ تاهم اس ميں بهت بڑا سبق هے۔ انسان عام طورپر مختلف قسم كي شكايتيں ليے رهتاهے۔ اس كو اپنے گھر والوں كي طرف سے اور سماج كے لوگوں كي طرف سے مختلف قسم كے ناپسنديده تجربات پيش آتے رهتے هيں جو شكايت بن كر اس كے سينه ميں بس جاتے هيں۔ مگر يه سب بهت چھوٹي باتيں هيں۔ زياده بڑي بات يه هے كه آدمي خدا كي يادوں ميں جينے والا بنے۔ وه اپنا سارا بھروسه خدا پر قائم كرے۔ وه خدا كي دي هوئي چيزوں كي عظمت ميں اس طرح گم هو كه اس كو ياد هي نه رهے كه كسي اور نے اس كو كيا ديا اور كيا نهيں ديا۔
انسانوں سے شكايت دراصل خدا سے غفلت كا نتيجه هے۔ خدا كي طرف سے انسان كو جو بے شمار نعمتيں ملي هوئي هيں وه ايك اتھاه سمندر كي مانند هيں اور انسانوں كي طرف سے جو كچھ پيش آتا هے وه اس كے مقابله ميں ايك قطره سے بھي كم هے۔ عطياتِ الهٰي كے اس سمندر ميں اگر كوئي شخص اپني طرف سے ايك قطره اور ڈال دے تو سمندر ميں كوئي اضافه نهيں هوگا۔ اسي طرح اگر كوئي شخص اس سمندر سے ايك قطره نكال لے تب بھي اس ميں كوئي كمي واقع هونے والي نهيں۔
هر آدمي ’’پرم پتا‘‘ كي گود ميں بيٹھا هوا هے۔ اس واقعه كا شعوري ادراك اگر پوري طرح حاصل هو جائے تو آدمي بڑي سے بڑي شكايت كو اس طرح نظر انداز كردے گا جيسے كه اس كي كوئي حقيقت هي نهيں۔
ملّا عبد النبي (وفات 991 ھ) شهنشاه اكبر كے زمانه كے بڑے علماء ميں سے ايك تھے۔ ان كي بنوائي هوئي ايك مسجد اب بھي نئي دهلی ميں بهادر شاه ظفر مارگ كے كنارے
متوقع تبصرہ کو سن کر وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیسے۔ میںنے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے صاحبزادے کو گود میں نہیں رکھ سکتے۔ آخر کار اس کو ایک ایسی دنیا میں جانا ہے جہاں کوئی اس کو گود میں لینے والا نہ ہوگا۔ بچہ کے لیے سچی محبت یہ ہے کہ آپ اس کو مستقبل کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں، نہ یہ کہ اس کو اس سے بے خبر رکھ کر ایک ایسی دنیا میں جینے والا بنائیں، جو آپ کی گود کے باہر کہیں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ابھی چھوٹا بچہ ہے۔ میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ فطرت کے خلاف ہے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے بچے کو گود سے اتار دیا۔ اتارتے ہی وہ بچہ زمین پر دوڑنے لگا۔ اس کا حال اس چڑیا جیسا ہوگیا ،جو پنجرے میں بند ہو، اور پنجرہ سے آزاد ہوتے ہی فضا میں اڑنے لگے۔
فطرت کے نظام کے مطابق، بچہ ماں باپ کی گود میں رہنے کے لیے پیدا نہیں ہوتا۔ بچہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے کھلے میدان میںدوڑے۔ وہ زندگی کی جد وجہد میں داخل ہو۔ وہ ہر قسم کے تجربات سے گزرتے ہوئے اپنے مستقبل کی تعمیر کرے۔ وہ موافق او رمخالف حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر طے کرے۔ ایسی حالت میں بچے کو ماں باپ کی شفقتوں کا عادی بنانا فطرت کی اسکیم کے خلاف ہے۔ وہ فطرت کے نظام سے لڑنا ہے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اس فطری حقیقت کو سمجھیں، اور اس کے مطابق اپنی اولاد کو بنائیں۔
هندستاني روايات ميں ايك كهاني اس طرح هے كه ايك راجه كے يهاں دو رانياں تھي۔ دونوں راني كے يهاں ايك ايك بچه تھا۔ دونوں كے درميان رقابت رهتي تھي۔ ايك دن ايك راني كا بچه راجه كي گود ميں آكر بيٹھ گيا۔ دوسري راني نے اس منظر كو ديكھا تو اسے غصه آگيا۔ وه اپنے بيٹے كو لے كر آئي اور دوسري راني كے بيٹے كو هٹا كر اپنے بيٹے كو راجه كي گود ميں بٹھا
كه جنت میں داخله كے ليے ايمان ضروري هے۔ جو شخص مومن اور موحد هو وهي موت كے بعد جنت ميں جائے گا۔اور جو لوگ مشرك هيں، جو غير الله كي پرستش كرتے هيں وه جنت ميں نهيں جائيں گے۔ بچي كے دماغ ميں يه بات بيٹھ گئي۔ وه سوچنے لگي كه ميں تو مومن اور موحد هوں اس ليے ميں جنت ميں جاؤں گي۔ مگر هريجن عورت تو شرك ميں مبتلا هے، وه كس طرح جنت ميں جائے گي۔
اس كے بعد يه هوا كه اگلے دن جب مذكوره هريجن عورت صفائي كے كام كے ليے آئي تو اس نے ديكھا كه اس كي دوست بچي گھر ميں ايك كنارے كھڑي هوئي بري طرح رو رهي هے۔ عورت اس كو ديكھ كر گھبرا گئي۔ اس نے پوچھا كه تم كو كيا تكليف هے۔ تم كيوں اس طرح رو رهي هو۔ بهت پوچھنے كے بعد بچي نے كها كه ميں مومن هوں اس ليے ميں جنت ميں جاؤں گي، اورتم مشرك هو اس ليے تم جنت ميں نهيں جاؤ گي۔ اس طرح موت كے بعد كي زندگي ميں ميرا اور تمهارا ساتھ چھوٹ جائے گا۔ يه سن كر هريجن عورت نے كها كه تم مت روؤ۔ ميں آج سے اسلام قبول كرتي هوں تاكه هم دونوں ايك ساتھ جنت ميں رهيں۔
يه واقعه بتاتا هے كه اگر گھر کا ماحول جیساہوگا، بچے اسی طرح کی راہ کا انتخاب کریں گے،اور یہی ماحول بچوں کی ذہن سازی میں رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔
۱۵ اکتوبر ۲۰۰۳ کو میں سورت (گجرات) میںتھا۔ وہاں میں ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک مقامی مسلمان مجھ سے ملنے کے لیے ہوٹل میںآئے۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ وہ اس بچہ کو اپنی گود میں لئے ہوئے تھے۔ وہ بچہ کو کبھی کندھے پر بٹھاتے، اور کبھی گود میں لیتے۔ وہ میرے کمرے میں آکر بیٹھے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کا بیٹا ہے۔ انہوں نے خوشی کے لہجہ میں کہا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کے دشمن ہیں۔ اس کے ساتھ آپ کا پیار اس کے لیے دشمنی کے ہم معنٰی ہے۔ اس غیر
كركے انھيں بٹھايا جائے اور تحرير يا تقرير كي صورت ميں انھيں اصلاحي باتيں سنائي جائيں۔ اصل تربيت يه هے كه گھر كے اندر جب عملي طورپر وه مواقع پيدا هوں جهاں ايك راسته صحيح سمت ميں جاتاهو اور دوسرا راسته غلط سمت ميں۔ ايسے مواقع پر جذبات كو برداشت كركے اور ذاتي نقصان اٹھا كر گھر والوں كو رهنمائي دي جائے۔ ان كے ذهن كو ايك رخ سے دوسرے رخ كي طرف پھير ديا جائے-تربيت پيدا شده حالات كے درميان رهنمائي كي جاتي هے نه كه مجرّد قسم كي وعظ خواني كے ذريعه۔
بچوں كي تربيت كے سلسلے ميںعام طور سے یہ کیا جاتا ہے کہ ايك مقرر وقت پر جمع كركے بچوں كو دين كے مسائل بتایا جائے۔ بچوں كي تربيت اس قسم كے وقتي وعظ سے نهيں هوتي بلكه تربيت كا اصل ذريعه گھر كا ماحول هے۔ اگر آپ كے گھر ميں اخلاق اور انسانيت كا ماحول هو۔ آپ كے گھر ميں كسي كي غيبت اور شكايت نه كي جاتي هو، اور آپ كے گھر ميں دوسروں كو عزت دينے كا ماحول هو، خواه وه اپنا هو يا غير تو يه ماحول آپ كے گھر كو ايك زنده تربيت گاه بنا دے گا۔ اس كے بعد كسي رسمي وعظ كي ضرورت نه هوگي۔
یہاں ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے، جو بتاتا هے كه بچوں کی تربیت کیا ہوتی ہے۔ مظفر نگر (يوپي) كے ايك قصبه كا واقعه هے۔ وهاں ايك مسلم خاندان كے يهاں ايك هريجن عورت صفائي كے كام كے ليے روزانه آتي تھي۔ گھر كي ايك بچي سے اس هريجن عورت كي دوستي هوگئي۔ يه هريجن عورت جب وهاں صفائي كے كام كے ليے آتي تو وه سب سے پهلے مذكوره بچي سے ملتي۔ اس طرح دونوں ايك دوسرے سے بهت زياده مانوس هوگئے۔
ايك دن ايسا هوا كه گھر كے اندر جنت اور جهنم كا تذكره هوا۔ لڑكي كے باپ نے كها
نهيں ملے گا، اور جو كوئي وقفهٔ تعمير سے محروم هوجائے، وه كبھي مرحلهٔ تعمير تك بھي نهيں پهنچے گا۔ ايسا شخص هميشه كمزور درخت بنا رهے گا۔
ايك صاحب كو ان كے پڑوسي نے نهايت سخت بات كهه دي۔ وه صاحب اس كو سن كر چپ چاپ اپنے گھر ميں چلے آئے۔ انھوںنے كهنے والے كو كوئي جواب نهيں ديا۔ ان كے لڑكے كو جب اس كي خبر هوئي تو وه بهت بگڑا۔ اس نے كها كه اس شخص كي همت كيسے هوئي كه وه ميرے باپ كو اس طرح ذليل كرے۔ ميں اس كو سبق دوں گا تاكه آئنده وه كبھي ايسی همت نه كرے۔
باپ نے بيٹے كو ٹھنڈا كيا۔ باپ نے كها كه آخر اس نے ايك لفظ هي تو كها هے۔ اس نے مجھے كوئي پتھر تو نهيں مارا۔ پھر اس ميں همارا كيا نقصان هے۔ اس نے اگر اپني زبان خراب كي هے تو هم اپني زبان كيوں خراب كريں۔ باپ نے اپنے بيٹے سے كها كه تم اس كو بھلادو اور اپنے كام ميں لگ جاؤ۔بيٹا اس واقعه كو ’’ياد‘‘ كے خانه ميں ركھنا چاهتا تھا، باپ نے اس كو ’’بھول‘‘ كے خانه ميں ڈال ديا۔ جو واقعه عام حالات ميں غصه اور انتقام كا موضوع بنتا، وه صبر اور برداشت كا موضوع بن گيا۔ كچھ دنوں بعد خود پڑوسي كو شرمندگي هوئي۔ اس نے آكر اپني گستاخي كي معافي مانگي اورآئنده كے ليے پهلے سے زياده بهتر هوگيا۔
باپ اگر اپنے بيٹے كے اندر انتقام كي نفسيات ابھارتا تو وه برائي كا ايجنٹ بن جاتا۔ مگر باپ نے جب اپنے بيٹے كو بھلانے اور برداشت كے راسته پر ڈالا تو وه ان كے ليے نيكي اور سچائي كا رهنما هوگيا۔ قرآن كے لفظوں ميں وه متقيوں كا امام بن گيا(الفرقان، 25:74 )۔
اسي كا نام بچوں كي تربيت هے۔ بچوں كي تربيت يه نهيں هے كه ايك وقت مقرر
کے دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل سے گھر کے سرپرستوں کی ذمے داری ادا نہیں ہوسکتی۔
كائنات خدا كي خاموش كتاب هے۔وه ربّاني حقيقتوں كو تمثيل كے روپ ميں بيان كرتي هے۔ آدمي اگر كائنات كي خاموش زبان كو سن سكے تو وه اس كے ليےمعرفت كا عظيم ترين كتب خانه بن جائے۔
درخت كو ديكھئے۔ درخت زمين سے نكلتا هے تو وه كمزور پودے كي مانند هوتا هے۔ اس كے تنه ميں ابھي طوفان كا مقابله كرنے كي طاقت نهيں هوتي۔ اس وقت درخت كيا كرتاهے ۔ وه سراپا نرمي بن جاتاهے۔ هواؤں كے جھونكے آتے هيں تو وه ان كے مقابله ميں اكڑتا نهيں۔ بلكه هوا كا جھونكا اس كو جس طرف لے جانا چاهتا هے، وه اسي طرح چلا جاتا هے۔ وه، حالي كي زبان ميں، ’’چلو تم ادھر كو هوا هو جدھر كي‘‘ كي تصوير بن جاتاهے۔مگر اسي پودے كو 25 سال بعد ديكھئے تو وه بالكل دوسري تصوير پيش كررهاهوگا۔ اب وه اپنے موٹے تنه پر مضبوطي كے ساتھ قائم هوتاهے۔ اب جھكنے كا لفظ اس كي ڈكشنري سے خارج هوچكا هوتا هے۔ وه هواؤں كے جھونكے سے غير متاثر ره كر سيدھا اپني جڑوں پر كھڑا رهتا هے۔ اب وه زمين پر ’’درخت‘‘ بن كر رهتا هے، جب كه اس سے پهلے وه ’’پودا‘‘ بن كر ره رها تھا۔
درخت اس طرح تمثيل كي زبان ميں بتا رها هے كه هر آدمي پر ابتداءً وه وقت آتا هے جب كه اس كو ايك وقفهٔ تعمير دركار هوتا هے۔ جب ضرورت هوتي هے كه وه اپني جڑيں زمين ميں داخل كرے۔ وه اپنے تنه كو مضبوط كرے۔ وه اپنے آپ كو ايك طاقت ور وجود كي حيثيت سے نشو ونما دے۔ اس وقفه كے دوران اس كو اس طرح نهيں رهنا چاهئے جس طرح كوئي شخص مضبوط اور مستحكم هونے كے بعد رهتاهے۔اس ابتدائي مرحله ميں اس كو نرمي اور موافقت (adjustment) كا مجسمه بن جانا چاهيے۔ اگر اس نے ايسا نهيں كيا تو اس كو تعمير كا وقفه
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ بتایا کہ ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ صبح کو اپنے گھر والوں کو ایک جگہ بٹھاتے ہیں، اور کسی دینی کتاب کا ایک حصہ پڑھ کر ان کوسناتے ہیں۔مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ اپنا دینی فریضہ ادا کررہے ہیں۔یہ طریقہ بلاشبہ انسان کے بارے میں کمتر اندازہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان اس طرح کی رسمی باتوں سے اپنا ذہن نہیں بدلتا۔
لیکن اس طرح گھر والوں کو دینی کتاب پڑھ کر سنانا اصل ذمہ داری کا صرف نصف ثانی ہے۔ اصل ذمے داری کی نسبت سے نصف اول یہ ہے کہ گھر کے اندر موافقِ دين ماحول بنایا جائے۔اگر گھر کے اندر موافق ماحول نہ ہوتو اس طرح کتاب پڑھ کر سنانے سے مطلوب نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کے گھر میں پوری طرح دنیادارانہ ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر دوسروں کے خلاف شکایت کی باتیں ہوتی ہیں۔ گھر کے اندر منفی خبروں کا چرچا رہتا ہے۔ گھر کے اندر انسانی خیرخواہی کی باتیں نہیں ہوتیں۔بلکہ اپنے لوگوں کو اپنا ، اور دوسرے لوگوں کو غیر سمجھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ گھر کے اندر جن باتوں کا چرچا ہوتا ہے، وہ ہیں —کھانا کپڑا، روپیہ پیسہ،بزنس اور جاب، وغیرہ۔
گھر میں دینی کتاب پڑھ کر سنانا بلاشبہ ایک اچھا کام ہے۔ لیکن اس کو موثر بنانے کے ليے ضروری ہے کہ گھر کے اندر اس کے موافق ماحول موجود ہو۔ کتاب پڑھنے سے پہلے، اور کتاب پڑھنے کے بعد گھر کے اندر وہی ماحول ہو جو کتاب میں بتایا گیا ہے۔ کسی گھر کو دین دار گھر بنانا اسی وقت ممکن ہے، جب کہ اس کو پوری سنجیدگی کے ساتھ انجام دیا جائے۔گھر کا ماحول موافقِ دین بنائے بغیر گھر کے اندر دینی کتاب پڑھ کر سنانا گویا ہاتھی
زندگي كي تعمير ميں بلا شبه سب سے بڑي ركاوٹ هے۔
2۔ اِس سلسلے ميں يه بات بهت زياده قابلِ لحاظ هے كه بچے كي عمر كا ابتدائي تشكيلي دور ماں باپ كے ساتھ گزرتا هے۔ اِس دور ميں بچے كے اندر جو شخصيت بنتي هے، وه هميشه بدستور اس كے اندر باقي رهتي هے۔ والدين كو جاننا چاهيے كه اِس ابتدائي تشكيلي د ور ميں اگر انھوں نے بچے كي تربيت ميں غلطي كي تو بعد كے زمانے ميں اس كي تلافي كبھي نه هوسكے گي۔ بعد كے زمانے ميں ايسے كسي شخص كي اصلاح كي صرف ايك ممكن صورت هوتي هے، اور وه يه كه اس كو شديد نوعيت كا كوئي هلادينے والا تجربه (shocking experience) پيش آئے جو اس كے ليے ايك نقطه انقلاب (turning point) بن جائے، مگر بهت كم لوگوں كو اِس قسم كا هلادينے والا تجربه پيش آتا هے، مزیدیہ کہ ايسا هلادينے والا تجربه اور بھی نادر (rare) هے، جب كه وه آدمي كے ليے مثبت انقلاب كا سبب بن جائے۔
3۔ اپنے تجربے كي روشني ميں ايسے والدين كو ميرا مشوره يه هے كه وه اپني اولاد كو همارے يهاں كا مطبوعه لٹريچر اهتمام كے ساتھ پڑھوائيں، صرف ايك بار نهيں، بلكه بار بار۔ اِسي كے ساتھ وه كوشش كريں كه اُن كے بچے همارے يهاں كے تيار شده آڈيو اور ويڈيو ديكھيں اور سنيں۔ یہ تمام آڈیو اور ویڈیو ہماری ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دستیاب ہیں۔ مزيد يه كه دهلي ميں هونے والا همارا هفتے وار لكچر كا پروگرام پابندي كے ساتھ سنيں ،جو كه هرسنیچر کو شام پانچ بجے(IST)اور ہر اتوار كي صبح كو ساڑھے دس بجے (IST) شروع هوتا هے۔ان دونوں پروگراموں کو فیس بک (www.facebook.com/maulanawkhan/)پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔
4- يه لازمي نوعيت كا ابتدائي پروگرام هے۔ جو والدين اپنے بچوں كي اصلاح وتربيت كے خواهش مند هوں، اُن كو اِسے اختيار كرنا چاهيے۔ اگر وه اِس كو اختيار نه كريں تو كوئي بھي جادوئي تدبير بچوں كي اصلاح كے ليے كار آمد نهيں هوسكتي۔
كه اِس تشكيلي دور ميں كسي كے اندر جو شخصيت بنتي هے، وه بے حد اهم هے۔ يهي شخصيت بعد كي پوري عمر ميں باقي رهتي هے۔ اِسي حقيقت كو ايك عربي مقولے ميں اِس طرح بيان كياگيا هےمن شب على شيء شاب عليه (آدمي جس چيز پر جوان هوتاهے، اُسي پر وه بوڑھا هوتا هے)۔
لوگوں كا حال يه هے كه وه تشكيلي دور (formative period) ميں نام نهاد محبت كے ذريعے بچوں كو بگاڑ ديتے هيں۔ دوسرے لفظوں ميں يه كه آج كل كے تمام والدين اپنے بچوں كو مي ناٹ بچے (me not children) بناديتے هيں۔ اس كے بعدوه چاهتے هيں كه ان كے بچے كسي كرشمه ساز تربيتي طريقے (charismatic method of training) كے ذريعے اصلاح يافته بن جائيں۔
ميرے تجربے كے مطابق، اصل مسئله يه هے كه موجوده زمانے كے والدين اپنے بچوں كي تربيت كے معاملے ميں سنجيده نهيں۔ اِس معاملے ميں اگر كوئي باپ زياده سے زياده سوچ پاتا هے تو وه صرف يه كه وه اپنے بيٹے كو گول ٹوپي اور اپني بيٹي كو اسكارف پهنا دے، اور پھر خوش هو كه اُس نے اپني اولاد كو اسلامي تربيت سے مزيّن كرديا هے۔ تاهم اگر كوئي شخص اپنے بچوں كي تربيت كے معاملے ميں سنجيده هو تو اس كے ليے ميں چند عملي مشورے يهاں درج كروں گا۔
1۔ محبت كے نام پر لاڈ پيار (pampering) كو وه اِس طرح چھوڑ ديں جيسے وه كسي حرام كو چھوڑتے هيں۔ محبت كے نام پر جو لاڈ پيار كيا جاتا هے، اُس كا سب سے بڑا نقصان يه هے كه وه بچے كو زندگي كے حقائق (realities) سے بالكل بے خبر كرديتا هے۔ اِس كا نتيجه يه هوتاهے كه بچے كے اندر حقيقت پسندانه طرز فكر (realistic approach) كانشو ونما نهيں هوتا۔ مزيد يه كه اِس كے نتيجے ميں بچے كے اندر ايك خود پسند شخصيت (self-centered personality) تشكيل پاتي هے، جو كسي آدمي كے ليے كامياب
ايك مغربي ملك ميں مقيم ايك مسلم خاندان نے اِس كا اظهار كيا كه وه يه چاهتے هيں كه اُن كے بچے كچھ دنوں كے ليے آكر همارے يهاں ٹھهريں اور هم سے اسلامي تربيت حاصل كريں۔ ميں نے اِس تجويز كو رد كرديا۔ ميرے نزديك يه تربيت كا ايك مصنوعي طريقه هے۔ اس دنيا ميں كوئي بھي نتيجه خيز كام صرف فطري طريقے كے مطابق انجام پاتا هے،غير فطري طر يقه كسي بھي كام كے ليے هرگز مفيد نهيں۔
اِس سلسلے ميں مجھے ايك واقعه ياد آتا هے۔ اپريل 1981 ميں ايك انٹرنيشنل كانفرنس ميں شركت كے تحت ميں بار بيڈوز (Barbados)گيا تھا۔ اِس سلسلے ميں وهاں كے مقيم مسلمانوں نے ايك مسجد ميں ميرا پروگرام ركھا۔ ايك صاحب اپنے ايك بچے كو اپنے ساتھ لے كر وهاں آئے۔ يه بچه جو تقريباً 12 سال كا تھا، وه اصل اجتماع كے باهر ايك مقام پر اِس طرح بيٹھا كه اس كي پيٹھ ميري طرف تھي اور اس كا چهره دوسري طرف۔ ايك شخص نے اُس سے كها كه تم اِس طرح كيوں بيٹھے هو، اندر چل كر لوگوں كے ساتھ بيٹھو۔ لڑكے نے نهايت بے پروائي كے ساتھ جواب ديا — مي ناٹ (“me not”) يعني مجھے اِس سے كوئي مطلب نهيں هے۔يه واقعه موجوده زمانه كے تمام مسلم خاندانوں كے ليے ايك علامتي واقعے كي حيثيت ركھتا هے۔ آج كل كے لوگوں كا حال يه هے كه وه محنت كركے كماتے هيں اور پھر محبت كے نام پر اپني كمائي كا بڑا حصه بچوں پر خرچ كرتے هيں۔ مگر اپني حقيقت كے اعتبار سے يه محبت نهيں هے، بلكه وه لاڈپيار (pampering) هے، اور يه ايك واقعه هے كه بچوں كو بگاڑنے كا سب سے بڑا سبب يهي لاڈ پيار هے۔
كسي بچے كا ابتدائي تقريباً 10سال وه هے جس كو، نفسياتي اصطلاح ميں، تشكيلي دور (formative period) كهاجاتا هے۔ يه تشكيلي دوربے حد اهم هے، كيوں
تھا، چناں چہ اُس کو پہلا انعام دیاگیا۔
اِس کامیابی کا راز کیا تھا، اِس کا جواب مجھے 26 اگست 2009 کو ملا۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام کے دوران میری ملاقات ڈاکٹر آر کے مرچنٹ سے ہوئی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ اُن سے ملاقات کے دوران رٹائرڈ جنرل چھبّر اور دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔ ڈاکٹر مرچنٹ نے کہا کہ میرے گھر میں ٹی وی نہیں ہے، میں ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتا ہوں۔ ان کی اِس بات میںمجھے اِس سوال کا جواب مل گیا کہ اُن کے بچے کیوںتعلیم میںاتنا زیادہ کامیاب ہیں۔اِس سے پہلے میںایک بار ڈاکٹر مرچنٹ کے گھر گیا ہوں۔ وہاں میں نے دیکھا تھا کہ اُن کا گھر بہت سادہ ہے۔ ان کی دو لڑکیاں ہیں۔ دونوں خاموشی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتی ہیں۔ڈاکٹر مرچنٹ کے پاس ذاتی کار ہے، لیکن ان کی لڑکیاں ہمیشہ بس کے ذریعے اسکول جاتی ہیں۔ ان کے گھر میں ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا کوئی نشان مجھے نظر نہیں آیا— یہی سادہ اور با اصول زندگی ڈاکٹر مرچنٹ کے بچوں کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔
آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طورپر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کرسکیں۔ وہ اپنے بچوں کو ’’ٹی وی کلچر‘‘ کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کااصل سبب ہے۔ اِس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر۔
يه زندگي كي ساده سي حقيقت هے۔ هر آدمي جانتا هے كه زياده اهم چيزوںميں اپنا بھر پور حصه ادا كرنے كے ليے اس كو كم اهم چيزوں ميں ’’صبر‘‘ كا اصول اختيار كرنا پڑتا هے۔ كچھ چيزوں ميں اسے ’’كم‘‘ پر راضي هونا پڑتا هے تاكه بعض دوسري چيزوں ميں وه ’’زياده‘‘ كا مالك بن سكے۔
اس اصول كا تعلق هر ايك سے هے، خواه وه غريب يا امير۔ غريب كو اس اصول پر چلنے كے ليے اگر اپني ضروريات ميں كمي كرني پڑتي هے تو امير سے اس كا يه تقاضا هوتا هے كه وه اپني عيش اور تفريح كي چيزوں ميں كمي كردے۔ اهم كي خاطر غير اهم كي قرباني هر ايك كو ديني هے۔ اس ميں ايك شخص يا دوسرے شخص كے درميان كوئي تفريق نهيں۔
مگر اس اصول كو لوگ صرف اپنے گھر اور اپنے بچوں كے بارے ميں جانتے هيں۔ خدا كے دين كے بارے ميں وه اس اهم اصول كو بالكل بھولے هوئے هيں۔ اس معامله ميں هر آدمي كا وهي حال هورها هے جو بائبل ميں ان لفظوں ميں بيان كياگيا هے — خداكا گھر ويران هے، كيونكه تم ميں سے هر ايك اپنے گھر كو دوڑا چلا جاتا هے(حجي، 1:10)
لوگ اپنے گھر كے امور كو كم اهم اور زياده اهم كي نظر سے ديكھتے هيں۔ جو كم اهم هے اس كو چھوڑكر جو زياده اهم هے اس كو اختيار كرليتے هيں۔ مگر دين وملت كے معامله ميں ان كےيهاں اهم اورغير اهم كي كوئي تقسيم نهيں۔ يهاں وه بس اپنے ذوق پر چلنا چاهتے هيں، خواه اس كا مطلب يهي كيوں نه هو كه آدمي اهم كو چھوڑ كر غير اهم دائره ميں دوڑنا شروع كردے۔
ایک بار دہلی کے ایک کالج کے استاد نے بتایا کہ دہلی میں طلبا کا ایک تقریری مقابلہ ہوا۔ اِس میں مختلف کالجوں کے منتخب طلبا اور طالبات نے شرکت کی۔ ہر طالب علم کو انگریزی زبان میں تقریر کرنا تھا۔ اِن تقریروں میں جج کو جو بنیادی چیز دیکھنا تھا، وہ طرز ادا یا طرزِ تقریر (delivery) تھا۔ ڈاکٹر مرچنٹ کی لڑکی کا طرزِ تقریر سب سے زیادہ کامیاب
كرے، وه تصادم كے بجائے بچ كر نكلنے كي تدبير كرے۔ ’’كون صحيح اور كون غلط‘‘ كي بحث ميں پڑنے كے بجائے وه مسئله كے حل كے پهلو پر دھيان دے۔ اور اگر اس كو نزاكت كا احساس نه هو تو وه اپني عام عادت كے مطابق ’’بچه‘‘ كو پول پر ديكھ كر بگڑ اٹھے گا خواه اس كا يهي انجام كيوں نه هو كه لڑكا 30 فٹ كي بلندي سے سڑك پر جاگرے اور اس كي هڈي پسلي چور هوجائے۔
ساري تاريخ كا يه تجربه هے كه جب آدمي كسي معامله ميں سنجيده هو تو اس كا انداز اور هوتاهے۔ اور جب وه سنجيده نه هو تو اس كا انداز بالكل دوسرا هوتا هے۔ كوئي دليل اس شخص كے ليے دليل هے جو سنجيده هو۔ سنجيده آدمي هي كسي بات كے وزن كو محسوس كرتاهے۔ سنجيده آدمي هي كسي مسئله كي نزاكتوں كو اهميت ديتا هے۔ اس كے برعكس جوشخص سنجيده نه هو وه هر دليل كي كاٹ كے ليے كچھ نه كچھ الفاظ بول دے گا۔ هر قيمتي بات كو سن كر ايك غير متعلق بحث چھيڑ دے گا۔ اوراگر اس كي بات كا جواب دے كر بات كو از سر نو واضح كيا جائے تو وه وضاحت كے خلاف دوباره كوئي بحث نكال لے گا۔ اور اصل بات بدستور اس كي گرفت سے دور ره جائے گي۔ يه ايك حقيقت هے كه كوئي دليل اسي كے لئے دليل هے جو اس كو سمجھنا چاهے ۔جو سمجھنا نه چاهے اس كے ليے كوئي دليل دليل نهيں۔
دهلي ميں ميں اجميري گيٹ كي سڑك سے گزر رها تھا۔ ايك خوانچه فروش عورت كي آواز ميرے كان ميں آئي ’’ايك هزار كي ساڑي پهنوں گي تو بچے نهيں پال سكتي هوں‘‘۔ اس كے ساتھ بيٹھنے والي خوانچه فروش نے اس كي معمولي ساڑي پر اعتراض كيا تھا۔ اس كے جواب ميں عورت نے كها كه خريدنے كے ليے ميں بھي اچھي ساڑي خريد سكتي هوں۔ مگر اس كي قيمت مجھے يه ديني پڑے گي كه اپنے بچوں كي پرورش اور تعليم ميں خرچ كرنے كے ليے اس كے بعد ميرے پاس كچھ نه رهے گا۔
سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ۔بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشش بنائیں، نہ کہ رائٹ(right) کانشش۔
ايك صاحب اپنے بچوں كے ليے بهت سخت تھے۔ هميشه ڈانٹ كر بات كرتے تھے۔ كبھي كسي نےان كو اپنے بچوں كے ساتھ نرمي سے بات كرتےهوئے نهيں ديكھا۔ لڑكے ان سے اس قدر ڈرتے تھے كه ان كے سامنےكوئي بولنے كي همت نهيں كرتا تھا۔ جب وه گھر ميں داخل هوتے تو تمام بچے خاموش هو كر ادھر اُدھر دبك جاتے۔
ايك روز كا واقعه هے كه وه گھر ميں داخل هوئے۔ سيڑھي كو طے كركے جب وه اپنے مكان كي چھت پر پهنچے تو انھوں نے ديكھا كه ان كا ايك بچه بجلي كے پول سے لپٹا هوا هے۔ بجلي كے تار ميں ايك پتنگ پھنس گئي تھي۔ پتنگ كو حاصل كرنے كے شوق ميں لڑكا بارجه كا سهارا لےكر پول پر چڑھ گيا۔ ابھي اس كا كام پورا نهيں هوا تھاكه اس كے باپ آگئے۔ نگاهيں ملتے هي بچه سهم گيا مگر بالكل خلاف معمول باپ نے كوئي سخت بات نهيں كهي بلكه نهايت نرم لهجے ميں بولے’’بيٹے تم وهاں كهاں‘‘ اس كے بعد انھوںنےمحبت كے انداز ميں لڑكے كو ترغيب دي كه وه آهسته آهسته اترے اور بارجه كا سهارا لے كر دوباره گھر ميں آجائے۔ بعد كو ايك شخص سے انھوں نے يه واقعه بيان كرتے هوئے كها ميں نے مسكرا كر اور نرم لهجه ميں اس ليے بات كي كه مجھے انديشه هوا كه اگر ميں اس نازك موقع پر ڈانٹتا هوں تو وه گھبرا اٹھے گا اور پول سے چھوٹ كر ينچے سڑك پر جاگرے گا۔ اس نزاكت نے مجھے مجبور كيا كه ميں اپني عادت كے خلاف بچه سے ميٹھے انداز ميں بات كروں۔
اگر آدمي كو صورت حال كي نزاكت كا احساس هو اور وه اس كے ليے دردمند هو تو اس كي دردمندي خود هي مجبور كرے گي كه وه اشتعال كے بجائے برداشت كا طريقه اختيار
سُلْطَانِيَهْ ( 69:28-29 )۔ حقیقت یہ ہے کہ اولاد ذمے داری (responsibility)کا ایک معاملہ ہے، نہ کہ فخر (pride)اور مباہات کا کوئی معاملہ۔
اولاد کی تربیت کے بارے میں انس بن مالک کے حوالے سے ایک حدیثِ رسول ان الفاظِ میں آئی ہےأَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر3671)یعنی اپنے اولاد کے ساتھ بہتر سلوک کرو، اور ان کو اچھا ادب سکھاؤ۔
اس حدیث میں ادبِ حسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے۔ یعنی یہ سکھانا کہ بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وہ کامیاب ہوں، وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا بوجھ (liability)نہ بنیں، بلکہ وہ اپنے گھر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset)بن جائیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے بُرا تحفہ دیا۔ اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا۔ مثلاً بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وہ دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں۔ وہ ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وہ اپنی غلطی تلاش کرکے اس کو درست کریں ، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں۔ وہ دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کےساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ۔ زندگی میںان کااصول حیات یہ ہو کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو گے تو اس کی قیمت تم کو خود ادا كرني هوگي۔ کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمھاری غلطی کی قیمت ادا کرے۔ کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو۔ دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ ہمیشہ مثبت انداز سے
كا اعتراف كريں گے۔ يهي وه لوگ هيں جو اخلاقي اعتبار سے بهترين لوگ هيں۔ ايسے هي افراد كسي سماج كو بهتر سماج بناتے هيں۔
ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے (الانفال، 8:28 ؛ التغابن، 64:15 )اِس کا مطلب کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلمان عام طورپر اولاد کو خدا کا انعام سمجھتے ہیں، کوئی بھی اپنی اولاد کو فتنہ نہیں بتاتا، پھر قرآن کی اُن آیتوں کا کیا مطلب ہے جن میں اولاد کو فتنہ کہاگیا ہے۔
میں نے کہا کہ اولاد اپنے آپ میں فتنہ نہیں ہے۔ زہر اپنے آپ میں زہر ہوتا ہے، مگر اولاد کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ اصلاً فتنہ کے طورپر پیدا ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فتنہ بنانے کا معاملہ ہے، نہ کہ بذاتِ خود فتنہ ہونے کا معاملہ۔ والدین کا اپنا غلط مزاج اولاد کو فتنہ بنا دیتا ہے۔ والدین کے اندر اگر صالح مزاج ہو تو اُن کی اولاد اُن کے لیے فتنہ نہیں بنے گی۔فتنہ کے لفظی معنی آزمائش (test) کے ہیں۔ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں انسان کو جو چیزیں بھی دی گئی ہیں، وہ سب کی سب امتحان کے پرچے ہیں۔ مال ، اولاد اور دوسری تمام چیزیں بھی امتحان کے پرچے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اِسی اصل حیثیت سے دیکھے، وہ ہمیشہ یہ کوشش کرے کہ وہ اِس پرچۂ امتحان میں پورا اترے۔
اِس معاملے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کو اپنا سب سے بڑا کنسرن بنائے۔ دوسری دنیوی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز، خواہ وہ مال ہو یا اولاد ہو یا اقتدار، وہ اس کا اصل کنسرن (sole concern)نہ بننے پائے۔ جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہ اتریں، وہ اللہ کے سوا دوسری چیزوں کو اپنا کنسرن بنالیں، وہ آخرت میں ایک محروم انسان کی حیثیت سے اٹھیں گے، جب کہ اُن کے تمام سہارے ان سے ٹوٹ چکے ہوں گے۔ اس وقت وہ حسرت کے ساتھ کہیں گےمَا أَغْنَى عَنِّي مَالِيَهْ ۔ هَلَكَ عَنِّي
حضرت عائشه كي ايك روايت كے مطابق، رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرماياخَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي(سنن الترمذي، حدیث نمبر 3895)۔يعني تم ميں سب سے اچھا وه هے جو اپنے گھر والوں كے ليے سب سے اچھا هو اور ميں اپنے گھر والوں كے ليے تم ميں سب سے اچھا هوں۔خاندان كسي سماج كا ايك يونٹ هے۔ خاندانوں كے مجموعے هي كا دوسرا نام سماج هے۔ اگر خاندان بهتر هوگا تو سماج بھي بهتر هوگا۔ اور اگر خاندان بهتر نه هو تو سماج بھي بهتر نهيں هوسكتا۔هر شخص كسي خاندان ميں پيداهوتا هے۔ گويا كه گھر، خاندان يا سماج كي پهلي تربيت گاه هے۔ اِس ليے اگر كسي سماج كو بهتر بنانا هے تو خاندان كو بهتر بنانا هوگا۔
تعليم كي دو قسميں هيں — رسمي تعليم (formal education)، اور غير رسمي تعليم (informal education) ۔ رسمي تعليم كا اداره آدمي كو جاب (job) كے ليے تيار كرتا هے اور غيررسمي تعليم كا اداره سماج كے ليے بهتر افراد بنانے كا ذريعه هے۔ اسكول اور كالج رسمي تعليم كے ادارے هيں اور خاندان غير رسمي تعليم كے ادارے۔سماج كے اندر وسيع تر دائرے ميں مثبت اور منفي نوعيت كے جو تجربات هوتے هيں، وه تمام تجربات گھر كے اندر محدود دائرے ميں هوتے هيں۔ گھر كے اندر كسي عورت يا مرد كو يه سيكھنا هے كه جب گھر كے كسي فرد سے اس كو تكليف پهنچے تو وه اُس كو بھلا دے۔ اِسي طرح جب گھر كے كسي فرد سے اس كو كوئي فائده پهنچے تو وه دل سے اس كا اعتراف كرے۔
جو لوگ اپنے گھر كے اندر اِس طرح كي تربيت حاصل كريں، وه جب گھر سے نكل كر سماج ميں داخل هوں گے تو وهاں بھي وه دوسروں كے ساتھ اِسي طرح كا برتاؤ كريںگے۔ وه ناخوشگوار باتوں كو بھلائيں گے اور خوش گوار باتوں پر دوسرے كے سلوك
© 2024 CPS USA.