Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
اوپر ہم نے جو جائزہ پیش کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اور اشتراکیت دو الگ الگ نظریے ہیں جو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے باہم ٹکراتے ہیں۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات سے ان دونوں کا اتحاد ثابت کرتے ہیں ان کے کام کی نوعیت در اصل یہ نہیں ہے کہ اسلام کے مطالعہ نے انہیں اس حقیقت تک پہنچایا ہے اور اب وہ اس کو اسلام کی صحیح تشریح کے طور پر پیش کر رہے ہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات سوشلزم سے متاثر ہیں یا باقاعدہ اس پر ایمان لاچکے ہیں۔ مگر کسی وجہ سے وہ یہ نہیں چاہتے کہ سوشلزم کو سوشلزم کے نام پر پیش کریں۔ وہ سوشلزم کو اسلام کے نام پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ ذہن ہے جس نے وہ تمام دلائل ایجاد کئے ہیں جن میں سے بعض کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اس قسم کی ذہنیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ بات بہت پہلے سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ جب دنیا میں شہنشاہی نظام رائج تھا اور بہت سے لوگوں کے مفادات اس سے وابستہ ہو گئے تھے تو انہوں نے بادشاہت کو عین اسلامی ثابت کرنے کے لیے ’’ السلطان ظل اللہ‘‘کی حدیث نبوی میں تحریف کی اور اس سے یہ مطلب نکالا کہ شاہی نظام خدا کا پسندیدہ نظام ہے۔ اس کے بعد جمہوریت کا زمانہ آیا تو ’’ امرھم شوری بینھم‘‘ سے اس کے حق میں دلیل فراہم کی گئی۔ نازیت کا عروج ہوا تو بہت سے لوگوں کو اسلام کا حکومتِ الٰہیہ کا تصور نازی ڈکٹیٹر شپ کے عین مشابہ نظر آنے لگا ۔ اب سوشلزم کا دور ہے تو اس کے حق میں قرآن و سنت سے دلیلیں ڈھونڈھی جارہی ہیں۔ کاش ! یہ لوگ تاریخ سے سبق لیتے اور زمانہ کے مٹنے والے نقوش سے ہم آہنگ کرنے کے شوق میں اسلام کی ابدی تصویر کو بگاڑنے کی کوشش نہ کرتے۔
دیا اور میں سمجھتا ہوںکہ میں نے صحیح کیا۔ اور زمینوں کے متعلق میرا خیال ہے کہ ان کے کافر مالکوں کے ہاتھ میں انہیں رہنے دوں اور اس کے بدلے ان پر خراج عائد کروں اور ان کے اوپر جزیہ بھی ہے جس کو وہ ادا کریں گے اس طرح یہ مسلمانوں کی ایک مستقل آمدنی ہوگی۔ فوجیوں کے لیے اور ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے ۔
حضرت عمرؓ کی تقریر کے بعد سب نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ فقالوا جمیعاً الرای رأیک فنعم ماقلت وما رأیت ( آپ کی رائے صحیح ہے جو کچھ آپ نے کہا ٹھیک کہا)۔
یہ ہے اصل واقعہ۔ اب غور کیجئے کہ کیا اس سے کسی بھی طرح سے اجتماعی کاشت اور سلبِ ملکیت کا سوشلسٹ اصول اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس واقعہ کا تمام تر تعلق اس بات سے ہے کہ مفتوحہ زمین کس کی ملکیت ہوتی ہے نہ یہ کہ افراد کی جائز ملکیتوں کو ان سے چھینا جا سکتا ہے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں خود یہ فرما دیا ہے کہ مجھے کسی کی ملکیت چھیننے کا حق نہیں ہے اگر میں ایسا کروں تو میں غلط کار ہوں گا۔
عراق کی زمینوں کے مسئلے کا اوپر ہم نے جو تجزیہ کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سوشلسٹ حضرات کا اس سے استدلال کرنا محض مغالطے پر مبنی ہے۔ اس سے نہ تو اجتماعی ملکیت کے حق میں دلیل ملتی ہے اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمینوں کی اجتماعی تنظیم کی خاطر افراد کی ملکیتیں چھینی جاسکتی ہیں۔
اسلامی تاریخ سے اس نوعیت کی جتنی بھی مثالیں پیش کی جاتی ہیں، ان میں یہ زمینیں اس لیے نہیں لی گئی تھیں کہ ان کو لے کر سرکاری انتظام کے تحت ان میں اجتماعی کاشت کرائی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ ’’اجتماعی ملکیت ‘‘ کے نام نہاد تصور سے بالکل خالی ہے۔ اگر کوئی زمین کبھی لی گئی تو وہ ایک شخص سے لے کر دوسرے شخص کو دے دی گئی۔ ان زمینوں پر حکومت کا قبضہ خواہ جس نوعیت کا بھی ہو، مگر کاشت کے اعتبار سے وہ بعد کو بھی اسی طرح شخصی قبضے میں رہیں جس طرح وہ پہلے شخصی قبضے میں تھیں۔
ضروریات پوری کی جائیں۔ ۱۶ ھ میں عراق فتح ہوا اور وہ سر سبزوشاداب علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا جو دجلہ و فرات کے درمیان واقع ہے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ان زمینوں کے بارے میں مذکورہ بالا دونوں طریقوں میں سے کس طریقہ پر عمل کیا جائے۔ گویا وہاں کسی کی ملکیت چھیننے کا سوال نہیں تھا بلکہ ملکیت کو متعین کرنے کا سوال تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی کی ملکیت نہیں چھین رہے ہیں بلکہ ملکیت جسے ملنی چاہئے اسے دے رہے ہیں۔ اس تقریر کے چند فقرے یہ ہیں
قد سمعتم کلام ھٰؤلاء القوم الذین زعموا أنی اظلمھم حقوقھم۔ انی اعوذ باللہ ان ارکب ظلما، لئن کنت ظلمتھم شیئا ھو لھم واعطیتہ غیرھم لقد شقیت ولکن رایت انہ لم یبق شی ٔ یفتح بعد ارض کسریٰ، وقد غنمنا اللہ اموالھم وارضھم وعلوجھم۔ فقسمت ما غنموا من اموال بین اھلہ واخرجت الخمس فوجھت علی وجھہ وانا فی توجیہ وقد رأیت ان احبس الارضین بعلوجھا واضع علیھم فیھا الخراج وفی رقابھم الجزیۃ یودونھا فتکون فیئاً للمسلمین المقاتلۃ والذریۃ ولمن یاتی من بعدھم۔۱؎
تم نے ان لوگوں کی باتیں سنی ہوں گی جن کا خیال ہے کہ (میں نے عراق کی زمین کو فوجیوں کے درمیان تقسیم نہ کرکے ) ان کے اوپر ظلم کیا ہے۔ خدا کی پناہ کہ میں کسی کے اوپر ظلم کروں۔ اگر میں نے کوئی ایسی چیز لی ہوتی جو ان کی تھی اور ان سے چھین کر دوسرے کو دے دیتا تو البتہ میں غلط کا رتھا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر میں کسریٰ کی اس زمین کو تقسیم کر دوں تو آئندہ فتوحات کا سلسلہ جاری نہ رہ سکے گا (کیوں کہ فوجی مہموں کے اخراجات پورے کرنے کی دوسری کوئی صورت نہیںہے)۔ اس فتح میں اللہ نے ہم کو مختلف قسم کے اموال بھی دیے ہیں اور زمینیں بھی۔ پس اموال میں سے میں نے پانچواں حصہ نکال کر بقیہ کو اس کے مستحقوں کے درمیان تقسیم کر
حکومت کے انتظام میں لینے کے لیے افراد کی ملکیتوں کو چھینا جا سکتا ہے۔مگر مذکورہ بالا مثال کا ان دونوں باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہاں سوال یہ نہیں تھا کہ کھیتوں کو انفرادی کا شتکاروں کے پاس رہنے دیا جائے یا حکومت کے قبضہ میں لے کر اجتماعی کا شت کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ وہاں جو سوال تھا وہ یہ تھا کہ ان زمینوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے یا مقامی باشندوں کے قبضہ میں حسبِ سابق بر قرار رکھ کر ان پر خراج لگا دیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، ان زمینوں کو ہر حال میں انفرادی کسانوں کے زیر کاشت رہنا تھا۔ وہاں کسی کا بھی یہ دعویٰ نہیں تھا کہ ان کو انفرادی کا شتکاروں سے واپس لے لیا جائے بلکہ اصل سوال یہ تھا کہ انفرادی کاشتکار کون ہو۔ مسلمان فوج کے سپاہی یا وہ مقامی باشندے جو پہلے سے ان زمینوں پر کاشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ دونوں میں سے جو صورت بھی طے پاتی یہ زمینیں بہر حال انفرادی کاشتکاروں کے استعمال ہی میں رہتیں اور حکومت کو یہ حق ہوتا کہ ایک بندوبست کی صورت میں ان زمینوں سے عشر لے اور دوسری صورت میں خراج وصول کرے۔
اگر یہ بھی سوشلزم کی کوئی قسم ہے کہ ذرائع پیداوار افراد کے قبضہ میں ہوں اور وہ اس پر تنہا یا دوسروں کی مدد سے کام کرکے پیداوار حاصل کریں اور ہر سال پیداوار کا ایک حصہ یا مقررہ ٹیکس حکومت کو ادا کر دیا کریں تو ان معنوں میں قدیم شاہی نظام عین سوشلسٹ نظام تھا کیوں کہ اس میں بھی یہی ہوتا تھا کہ زمینوں پر افراد ذاتی حیثیت سے کام کرتے تھے اور اس کے بعد براہِ راست یا جاگیردار اور زمیندار کے واسطہ سے حکومت کو مقررہ ٹیکس ادا کر دیتے تھے۔
دوسرا استدلال اور بھی زیادہ بے معنیٰ ہے کیوں کہ وہاں کسی کی ملکیت چھیننے کا سوال نہیں تھا بلکہ یہ سوال تھا کہ ایک نئی حاصل شدہ چیز کو قانوناً کس کی ملکیت قرار دیا جائے۔
فتوحات کے ذریعہ جو غیر منقولہ جائدادیں اسلامی حکومت کو حاصل ہوتی تھیں ان کے سلسلے میں اب تک دو قسم کے طریقے رائج تھے۔ ایک یہ کہ انہیں سپاہیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ انہیں اسلامی حکومت کی براہِ راست ملکیت میں رکھا جائے اور اس کی آمدنی سے حکومت کی
عبد العزیز کی بھی مثال پیش کی جاتی ہے کہ آپ نے شاہی خاندان کی بہت سی جاگیروں کو ضبط کر لیا تھا۔ حالاں کہ یہ ضبطی اس لیے تھی کہ یہ جاگیریں نا جائز طور پر کچھ لوگوں کے قبضے میں تھیں۔ آپ نے ان کو لے کر اصل حقدار کو واپس کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ سے کوئی ایک نظیر بھی اس بات کی پیش نہیں کی جاسکتی کہ ’’ معاشیات کی اجتماعی تنظیم‘‘ کے لیے کسی کی جائز ملکیت چھین لی گئی ہو۔ اس سلسلے میں جتنی مثالیں دی جاتی ہیں ان کا تعلق اجتماعی معاشیات سے نہیں ہے بلکہ قطعی طور پر دوسری چیزوں سے ہے۔
اس سلسلے کی تمام مثالوں پر تفصیلی گفتگو کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ اس لیے میں صرف ایک مثال کا تجزیہ کروں گا جس کو خاص طور پر اس کی مثال قرار دیا جاتا ہے کہ حکومت کو اختیار ہے کہ اگر وہ معاشی مصالح کے لیے ضرورت سمجھے تو کسی کی ملکیت چھین سکتی ہے۔ اسی سے دوسری تمام مثالوں کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔یہ واقعہ سوادِ عراق کی زمینوں سے متعلق ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پیش آیا۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ ٔ ثانی کے دور میں جب عراق فتح ہوا تو وہاں کی زمینوں کے بارے میں سوال اٹھا کہ اسے کس کی ملکیت قرار دیا جائے۔ فوج کے سپاہیوں کا کہنا تھا کہ اس کو ہمارے درمیان تقسیم کر دیا جائے اور حضرت عمرؓ کا کہنا تھا کہ اس کو حکومت کے قبضہ میں رہنا چاہئے تا کہ اس کے ذریعہ سے وہ غرباء و مساکین کی مدد کر سکے۔ گویا ایک طرف انفرادی ملکیت کا مطالبہ تھا اور دوسری طرف سماجی ملکیت کا۔ اس قضیہ کا جو آخری فیصلہ ہوا وہ یہ کہ زمین حکومت کے قبضہ میں دے دی گئی۔ اس طرح خلیفہ ٔدوم کے عمل نے انفرادی ملکیت کو ردکر دیا اور اجتماعی ملکیت کے طریقہ کو صحیح قرار دیا۔
یہ ہے اس استدلال کا خلاصہ۔ لیکن اگر واقعہ کی تصویر کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ استدلال بالکل اسی قسم کا ہے جیسے نئی دہلی کی کسی سڑک پر ایک انگریز کا مجسمہ دیکھ کر کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ ہندستان پر اب بھی انگریزوں کی حکومت قائم ہے اور یہ فرض کرکے انگریزی حکومت کی تائید میں تقریر کرنا شروع کر دے۔
عراق کی زمینوں کا مسئلہ پیش کرکے سوشلسٹ حضرات دو باتیں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ صدر اول میں سماجی ملکیت کا طریقہ اختیار کرنے کی مثال موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی جائداد کو
نظریے سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ میں ملکیت کو چھیننے کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تاریخ میں معاشی مقاصد کے لیے کسی کی ملکیت کو جبراً اس سے واپس لیاگیا ہیـــاس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ تمام مثالیں اصل مسئلہ سے بالکل غیرمتعلق نظر آتی ہیں۔ ان سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اجتماعی ملکیت کے قیام کے لیے انفرادی ملکیتوں کی تنسیخ کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دلیلوں کی حیثیت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ
’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘
آنحضورﷺاورخلافت راشدہ کے دور سے ملکیتوں کو چھیننے کے جتنے واقعات پیش کیے جاتے ہیں وہ سب اصل مسئلے سے غیر متعلق ہیں۔ مثلاً مدینہ اور اطراف مدینہ کے مختلف قبائل کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے جلاوطن کر دینے کی مثال دی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ ’’اجتماعی کاشت‘‘ کی غرض سے نہیں چھینی گئی تھی، بلکہ اس کی وجہ یہود کی مسلسل غداری اور بدعہدی تھی۔ وہ اسلام کی قلمرو میں رہ کر اسلام کے خلاف مستقل سازشیں کرتے تھے اور اسلامی حکومت سے کیے ہوئے معاہدوں کو درپردہ توڑتے رہتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں خود ان کے اپنے مذہبی قانون کے مطابق، انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ اس طرح یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ خانۂ کعبہ کی عمارت کو وسیع کرنے کے سلسلہ میں حضرت عمر ؓ نے بعض لوگوں کے مکانات کو جبراً ان سے لے لیا تھا۔ اس کی وجہ بھی ملکیت کا سوشلسٹ نظریہ نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود خدا کے رسولؐ نے کعبہ کے گرد حرم کی حدود مقرر کر کے یہ فرما دیا ہے کہ اس کے اندر کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتی۔ بعض لوگوں سے زمینیں اس لیے واپس لے لی گئی تھیں کہ وہ ان کو بیکار ڈالے ہوئے تھے اور ان پر کاشت نہیں کرتے تھے۔ ان مثالوں کو بھی دلیل میں پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اس کا تعلق اس اصول سے نہیں ہے کہ ملکیت انفرادی ہو یا اجتماعیــــاس کا تعلق افتادہ زمینوں کے بارے میں اسلام کے قانون سے ہے۔ ایسی کسی زمین پر جو شخص قبضہ کرے مگر اس کے بعد وہ مسلسل اس کو غیر آباد رکھے، نہ خود کاشت کرے نہ دوسرے کو کاشت کرنے کے لیے دے تو اس سے زمین واپس لے کر ایسے شخص کو دے دی جائے گی جو اس پر کام کر کے اس سے پیداوار حاصل کرے۔ حضرت عمرؒ بن
یہ چند نمایاں مثالیں اس استدلال کی تھیں جن کے ذریعہ سے اجتماعی ملکیت کو اسلام کی شریعت اور فلسفۂ شریعت سے بر آمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب شریعت کے مسلّمہ اصولوں سے اس نظریے کے حق میں کوئی دلیل نہیں ملتی تو یہ حضرات اسلامی تاریخ کے بعض واقعات سے اس کے حق میں دلیل لاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو اس کو اسلام کے مفاخر میں شمار کرتے ہیں کہ اس نے جائداد کو قومی ملکیت میں لینے کا اصول سب سے پہلے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انسائکلو پیڈیا آف برٹانیکا جلد ۱۳ میں زمین کو سماجی ملکیت میں لینے کے عنوان پر جو مقالہ ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ ــــ’’حکومت کی جانب سے آراضی کے خریدلینے کے طریقے کو ایک جرمن گوسن نے پیش کیا۔ اس کے بعد ایک فرانسیسی پروفیسر لیان والرس نے اس کو از سر نو دریافت کیا‘‘۔ چنانچہ ایک صاحب نے اس کو مقالہ نگار کی ناواقفیت قرار دیا ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ حکومت کی طرف سے زمین کو خریدنے کی سب سے پہلی مثال اسلام نے پیش کی ہے۔ ۱؎ انہوں نے دورِ نبوت اور خلافت راشدہ کے بہت سے واقعات کو اکٹھا کر کے دکھایا ہے کہ حکومتِ اسلامی نے زمینوں کی قیمت دے کر ان کے مالکوں سے جبراً انہیں خرید لیا تھا اوریہ اس وقت ہوا تھا جب کہ جرمنی اور فرانس کے سوشلسٹ مفکرین ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ مگر فاضل معترض شاید بھول گئے کہ یہاں اصل سوال محض ’’حکومت کی طرف سے زمین کو خریدنے ‘‘ کا نہیں ہے بلکہ سماجی مفاد کے نام سے افراد کی ملکیتوں کو واپس لینے کا ہے۔ اگر محض ’’خریداری‘‘ کا مسئلہ ہو تو اس کی مثالیں اسلام سے بہت پہلے قدیم ترین سلطنتوں کی تاریخ میں بھی مل سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام کو اولیت کا سہرا پہنانے کی کوئی وجہ نہیں۔
ہم کو اس سے انکار نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض افراد کی ملکیت کو جبراً ان سے حاصل کر لیا گیا تھا۔ مگر ان واقعات کا’’اجتماعی ملکیت‘‘کے
نے متعین کر دی ہیں۔ ان مخصوص و متعین صورتوں کے علاوہ کسی کوحق نہیں ہے کہ انسان کی املاک اور اس کی جائداد میں تصرف کرے۔ شریعت کی اس فہرست میں ’’ اجتماعی تنظیم کے لیے مداخلت ‘‘ کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایک خود ساختہ اصول کو نافذ کرنے کے لیے اسلام کے دیے ہوئے حقوق میں مداخلت کرتا ہے تو یقینی طور پر وہ انسانی وساوس کو شریعت کا درجہ دے رہا ہے اور خدا کے دین میں تصرف کا ذمہ دار ہے۔
اگر اسلام میں اس کی گنجائش ہے کہ حالاتِ زمانہ کا حوالہ دے کر اس کے احکام کو بدلا جاسکے تو پھر ایک شخص یہ بھی مطالبہ کرسکتا ہے کہ موجودہ زمانہ بہت مصروفیت کا زمانہ ہے، خاص طور پر قومی ترقی کی دوڑ میں اس بات کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے کہ ہم اپنی انسانی صلاحیتوںکو پوری طرح قومی ترقی کے حصول میں لگا دیں۔ اس لیے پنج وقتہ نماز کے حکم کو اب صرف بوڑھے اور ریٹائرڈ لوگوں کے ساتھ مخصوص کر دیا جائے اور بقیہ افراد کو آزاد کر دیا جائے کہ وہ پوری طرح فارغ ہو کر ترقیاتی کاموں میں اپنا حصہ ادا کر سکیں۔ ایک نماز ہی کیا، یہ دلیل تو ایسی ہے کہ پوری شریعت کو اس کے ذریعہ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
ٹیکنیکلترقیوں کا حوالہ دے کر اجتماعی ملکیت کی ضرورت ثابت کرنا در اصل اسلام کے اوپر ایک بہت بڑا الزام عائد کرنا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اعلان کرنا ہے کہ موجودہ تمدن کے پیچیدہ مسائل کو اسلام حل نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کم ازکم معاشیات کی دنیا میں اسلام کے بجائے غیر اسلام کو اختیار کر لیا جائے۔ گویا ان حضرات کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دائمی شریعت تو بھیج دی مگر نعوذ باللہ اس کوبیسویں صدی کے حالات معلوم نہ تھے اس لیے وہ اپنی شریعت میں ایسی ہدایات شامل نہ کرسکا جو موجودہ ترقی یافتہ حالات میں ہماری رہنمائی کر سکیں۔
اگر صورتِ حال یہی ہے تو یہ محض قرآن کی بعض آیتوں کی تفسیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کو منسوخ کر کے ’’ اشتراکیت کی انجیل‘‘ کو قرآن کا مقام دینا ہے۔ کیا اسلام کی سوشلسٹ تفسیر کرنے والے لوگ اس اعتراف کی جرأت کریں گے۔
کے لئے دیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کپڑا لے کر اس کو سر پر باندھ لے اور ننگا گھومنا شروع کردے تواس سے کپڑا نہیں لیا جائے گا البتہ اس کو مجبور کیا جائے گا کہ اس کا صحیح استعمال کرے اور اس کے ذریعہ اپنے بدن کو چھپائے۔ ذرائع و وسائل کے غلط استعمال پر پابندی لگانے کے بجائے خود ذرائع و وسائل کو چھین لینا خالص سوشلسٹ فکر کی پیداوار ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول بری ہیں۔
اسلام کے نظریۂ اجتماع سے مسئلۂ ملکیت پر یہاں جو استدلال کیا گیا ہے وہ کس قدر لغو ہے۔ اس کو ہم ایک مثال کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اموال و املاک کو زندگی کے قیام کا ذریعہ بتایا ہے (النساء ۔۵)۔ٹھیک اسی طرح بیوی بھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے جو انسان کو فرائض زندگی ادا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ کسی معاشرہ میں لوگ بیویوں کے حقوق ادا نہ کریںیا کسی وجہ سے اس کا خطرہ پیدا ہو جائے کہ لوگ اپنی بیویوں کو غلط مقاصد میں استعمال کریں گے تو اس نظریہ کا تقاضہ ہے کہ لوگوں سے ان کی بیویاں چھین لی جائیں اور تمام بیویوں کو سماجی ملکیت قرار دے دیا جائے تاکہ عورتیں مفید ہی اغراض کے لیے استعمال کی جائیں اور فی الجملہ ان سے وہی کام لیا جائے جو مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہو۔ کیا اسلامی ریاست ایسا کوئی اقدام کر سکتی ہے؟ کیا کسی حال میں بھی اجتماعی تحفظ کے یہ معنیٰٰ ہو سکتے ہیں کہ عورتوں کو سماجی ملکیت قرار دے دیا جائے۔
اس سلسلہ میں آخری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جدید حالات میں جب کہ ٹیکنیکل ترقی نے معیشت کی ایک خاص طرح کی تنظیم ضروری قرار دے دی ہے۔ بہت سی ملکیتوں کو اجتماعی قبضہ میں لینا ضروری ہو گیا ہے تاکہ سماج کی فلاح و ترقی کے بارے میں اسلام کے مقاصد کا یقینی حصول ممکن ہو سکے۔میرا جواب یہ ہے کہ شریعت نے صرف مقاصد کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ان مقاصد کے حصول کے لیے بنیادی طریقے بھی متعین کر دیے ہیں۔ اور یقینا مقاصد کے حصول کا طریقہ وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتایا ہے۔ دوسرے طریقے یقینی حصول کے طریقے نہیں ہیں بلکہ یقینی طور پر صرف بگاڑ کے طریقے ہیں۔ انسان کے جائز طورپر کمائے ہوئے مال و جائداد کو اللہ تعالیٰ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ ریاست صرف ان مخصوص استثنائی صورتوں میں ان کے اندر مداخلت کر سکتی ہے جو خود شریعت
اجتماعی مفاد کا بھی تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ اجتماعی مفاد کی خاطر غلط افراد کو ایسی حرکتوں سے باز رکھا جائے ، خواہ اس کے لیے سیاسی قوت اور جبر ہی سے کیوں نہ کام لینا پڑے۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اسلام نے اگر انفرادی ملکیت کی اجازت دی ہے تو وہ اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ اگر وہ دیکھے گا کہ افراد اپنی ملکیتوں کو سماج دشمن سر گرمیوں میں استعمال کر رہے ہیں تو یقیناملکیتیں ان سے چھین لی جائیں گی اور حکومت اپنے اہتمام میں ان کا انتظام کرے گی۔
یہ صحیح ہے کہ کسی فرد کو ملکیت کے باب میں اتنی آزادی نہیں دی جاسکتی کہ وہ اس کے غلط استعمال سے سماج میں فساد کرے اور اسے زوال و ہلاکت تک پہنچانے کا ذریعہ بنالے۔ افراد اگر اپنی ملکیتوں کے استعمال میں شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرنے لگیں اور سماج دشمن سرگرمیوںمیں مبتلا ہو جائیں تو اسلامی ریاست کو پورا حق ہے کہ انہیں اس سے روکے اور ان کو اپنی حد کے اندر واپس جانے پر مجبور کرے۔ مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ افراد کی جائز طور پر حاصل کی ہوئی نجی ملکیتوں پر حکومت قبضہ کر سکتی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک شاید کسی چیز پر انفرادی ملکیت بھی ’’سماج دشمن سرگرمیوں‘‘ کی تعریف میں آتی ہوگی۔اشتراکی ملکوں کی منطق تو یہی بتاتی ہے۔
اس استدلال میں در اصل خلط مبحث سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں ذرائع اور اس کے استعمال کے فرق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور اس طرح ذرائع کے غلط استعمال کی آزادی چھین لینے کے اصول سے خود ذرائع کے چھین لینے پر استدلال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اسباب و وسائل انسان کو عطا کیے ہیں ان کو صحیح سمت میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور غلط سمت میں بھی۔ اسلامی ریاست قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی قوت فراہم کی جائے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح سمت میں استعمال کرنے پر مجبور کرے، نہ کہ خود ان نعمتوں کوانفرادی قبضہ سے چھین کر بیت المال میں جمع کر دے۔ یقینا ایسے مواقع آتے ہیں کہ اسلامی ریاست کو لوگوں کے اوپر جبر کرنا پڑتا ہے مگر اس کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے ان کا جائز اثاثہ چھینتی پھرے۔ البتہ وہ آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح سمت میں استعمال کرے۔ مثال کے طور پر کپڑا خدا کی ایک نعمت ہے جو انسان کی ستر پوشی
ملکیتیںچھین لے اور خود ہی سارا انتظام شروع کردے۔ کیا یہ بھی کوئی سوشلسٹ منطق ہے کہ مقدمات خواہ کچھ ہوں ان سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ بر آمد ہوگا۔
یہاں بھی میں اس سوشلسٹ تفسیر کی مضحکہ خیز نوعیت کو مثال کے ذریعہ واضح کروں گا۔ اسلامی فقہ کی اصطلاح میں جو اعمال فرضِ کفایہ ہیں ان کی فہرست بہت بڑی ہے۔ ان میں صرف معاشی قسم کے احکام ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے بہت سے احکام بھی ہیں مثلاً دفاع، جہاد فی سبیل اللہ، دعوتِ حق، تعلیم و تربیت، شریعت کا علم حاصل کرنا، نمازِ جنازہ، میت کی تجہیز و تکفین، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، وغیرہ۔ اب اگر کسی معاشرہ میں یہ تمام فرائضِ کفایہ یا ان میں سے کوئی ادا نہ ہو رہا ہو تو عدم ادائیگی ٔ فرض کی صورت میں ’’سماجی ملکیت‘‘ بنا دینے کی سوشلسٹ منطق یہاں بھی لاگو ہونی چاہئے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو معاشرہ ان فرائض سے غافل ہو جائے وہاں حکومت کا کام یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں کو ان کے کرنے پر آمادہ کرے یا بذریعہ قوت انہیں مجبور کرے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرنے لگیں۔ اس کے برعکس حکومت یہ کرے گی کہ لوگوں سے ذاتی طور پر ادائیگی ٔ فرض کا حق چھین لے گی اور سماجی پیمانہ پر خود ان کی ادائیگی کا اہتمام شروع کر دے گی۔ کیا اسلام کے یہ سوشلسٹ مفسرین اپنی منطق کے اس نتیجہ کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک فرض کفایہ ہے۔ اب اگر کسی زمانہ میں لوگ اس کو ادا کرنا چھوڑ دیںتو کیا اسلامی حکومت کا کام یہ ہوگا کہ تمام افرادِ معاشرہ سے تبلیغِ حق اور تردیدِ باطل کا حق سلب کر لے اور اس کی تنہا اجارہ دار بن جائے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا علاج صرف یہ ہے کہ ریاست لوگوں کو اکسائے، انہیں مجبور کرے کہ وہ اپنا فریضہ پہچانیں، نہ یہ کہ لوگوں سے حقِ تواصی ضبط کر لے اور اس کو اجتماعی ملکیت قرار دے کر خود اس کی متولی بن جائے۔
جب قرآن سے براہِ راست کوئی دلیل نہیں ملتی تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اسلام یقینا انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ وہ اس بات کی بھی اجازت دیتاہے کہ افراد، سماج دشمن سرگرمیوں میں مبتلا ہوں۔ اسلام اس سادہ لوحی سے بری ہے۔ وہ فردکو حقوق دینے کے ساتھ
قدامات کرتی ہے۔اس فرض کفایہ کی فہرست میں بہت سے دینی امور کے ساتھ وہ دنیوی امور بھی شامل ہیں جو سوسائٹی کی معاشی زندگی کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔ اس لیے اگر ریاست یہ دیکھے کہ معاشی زندگی سے متعلق فرض کفایہ کے مقاصد پورے نہیں ہورہے ہیں تو اس کو حق ہے کہ افراد کی ملکیتوں پر قبضہ کر لے اور اجتماعی مفاد کے مطابق اس کا مناسب انتظام کرے۔
اس دلیل کا جواب بھی وہی ہے جو اوپر ہم قانون اور اخلاق کی بحث کے سلسلے میں لکھ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرہ کا یہ حال ہو جائے کہ اس میں بار بار ایسے مواقع آئیں جن میں چند افراد کے حصہ لینے سے بھی پورے معاشرہ کا کام بن جاتا ہے اور ان افراد کواپنے ایک ذاتی عمل کے نتیجہ میں سارے معاشرہ کا ثواب ملتا ہے۔ مگر وہاں چند افراد بھی ایسے نہ ہوں جو نیکی کے اتنے بڑے کام کا موقع اپنے سامنے دیکھیں تو اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ایسے بگڑے ہوئے معاشرہ کی نمائندہ حکومت اور ایسے معاشرہ سے لیے ہوئے پبلک حکام سے کب یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی چارج دے دیا جائے گا تو وہ بہت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا فرض انجام دیں گے۔ پھر وہ دوسرا سوال یہاں بھی پیدا ہوتاہے جو اوپر ہم نے نقل کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ’’ناگزیر اجتماعی مقاصد اگر اخلاق کے ذریعہ حاصل نہ ہو سکیں تو انہیں قانون کے ذریعہ حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے‘‘۔ مگر اس سے آخر اجتماعی ملکیت کے حق میں کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی فرض کفایہ ادا نہ ہورہا ہواور حکومت کو اس کی ادائیگی کے لیے حرکت کرنا پڑے تو اس کی حرکت کس سمت میں ہوگی اور وہ کیا اقدامات کرے گی۔ وہ یہی تو کرے گی کہ جس معاشرہ پر کوئی فرض کفایہ عائد ہوتا ہے اس کے صاحبِ استعداد افراد سے مطالبہ کرے گی کہ وہ اس کو ادا کریں اور بالجبر ان سے وہ کام کرائے گی جس کو بالرضا انہوں نے انجام نہیں دیا تھا۔ ایسے حالات میں اس کا کام صرف یہ ہوسکتا ہے کہ کسی ہنگامی وقفہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ایسے حکم کی جو مخصوص طورپر کسی فرد کے حق میں متعین نہیں ہے، اس کو مخصوص فردیا افراد کے لیے متعین قرار دے دے اور بذریعہ قانون اس کی تعمیل کے لیے انہیں مجبور کرے۔ اس کے ماسوا یہ بالکل نیا اور غیر متعلق حق کسی ریاست کو کیسے مل سکتا ہے کہ وہ لوگوں سے ان کی
جیل بھیجا جا سکتا ہو، یا اس پر جرمانہ لگایا جا سکتا ہو۔ آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں مگر اس سے آخریہ بات کیسے نکلتی ہے کہ لوگوں سے پیدائشی دولت کے ذرائع چھین لو اور اس کا یکجائی انتظام کرو۔ اگر کسی کے ذمہ آپ کا روپیہ باقی ہو اور آپ مانگنے جائیں تو وہ نہ دے، ایسی صورت میں آپ کو یہ حق تو ہے کہ پولیس اورعدالت کی مدد سے اپنا روپیہ بر آمد کرنے کی کوشش کریں۔ مگر کیا آپ کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ اس آدمی ہی کو قتل کر ڈالیں۔
ایک مثال سے استدلال کی مضحکہ خیز نوعیت اور واضح ہو جائے گی۔ اسلام کے جو ترغیبی احکام ہیں ان کا تعلق صرف معاشی زندگی سے نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔مثلاً نمازیں اور نفل روزے بھی ترغیبی احکام میں شامل ہیں۔ پھر اگر کسی معاشرہ میںاس کے تمام افراد نفل عبادات کو ترک کر دیں اور اس کی ضرورت محسوس ہو کہ نفل عبادات پر عمل کرنا چاہئے ورنہ تقویٰ اوراخلاق کا معیار بہت گر جائے گا۔ ایسی حالت میں اسلامی ریاست کیا فرض انجام دے گی۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اکسائے اورایسے محتسب مقرر کرے جو اس کی نگرانی کرتے پھریں کہ افراد اس پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں، اور دوسری شکل یہ ہے کہ افراد کے اس حق کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے کہ وہ نفل عبادات بھی کر سکتے ہیں۔مذکورہ بالا سوشلسٹ منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہی دوسرا عمل کیا جائے، یعنی نفل عبادات کو سماجی ملکیت قرار دے کر اس پر ریاست کی اجارہ داری قائم کر دی جائے۔ افراد کو بذاتِ خود نفل عبادات کی ادائیگی کی اجازت نہ ہو، حکومت ’’سماجی اہتمام‘‘ کے ذریعہ ان کی ادائیگی کرائے اور پھر اس کے ثواب کو راشننگ اسکیم کے تحت لوگوں کے درمیان تقسیم کرے۔
اس سلسلہ میں فرض کفایہ سے بھی دلیل دی جاتی ہے۔ فرض کفایہ وہ اعمال ہیں جو افراد کے لیے اخلاقی نوعیت رکھتے ہیں۔ مگر پوری جماعت کے لیے وہ فرض ہیں۔ اگر کچھ لوگ اسے انجام دیں تو سب لوگوں کے سر سے ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔ لیکن اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو صاحبِ استطاعت افراد کے لیے یہ اخلاقی ذمہ داری ایک فرض عین کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے اور اگر اس کے باوجود کوئی شخص اس کو پورا نہ کرے تو ریاست کی مشین حرکت میں آتی ہے اور اس کی بجا آوری کے لیے مناسب
جاتی ہے نہ کہ سدھار اور اصلاح کی طرف۔
یہی وہ دانش مندانہ تدبیر ہے جس کو یہ حضرات خدا کی شریعت میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جن ہدایات کو شارع حق جل سبحانہ نے ترغیبی ہدایات کا درجہ دیا ہے، آپ کو کیا حق ہے کہ انہیں قانون کا درجہ دے دیں اور بالفرض کسی جزئیہ سے آپ اس کی نظیر ڈھونڈ نکالیں کہ ’’ مخصوص ہنگامی حالات میں کسی اخلاقی فضیلت کو قانونی لزوم کا درجہ دیا جاسکتا ہے‘‘ تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ افراد کی ملکیتیں بھی چھینی جا سکتی ہیں۔ اسلام نے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے پر بہت زور دیا ہے، غریبوں اور محتاجوں کی دستگیری کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے، یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کو بہت بڑے ثواب کا کام بتایا ہے۔ اس طرح کی اور بہت سی چیزیں ہیں جن کو اسلام نے لازم نہیں قرار دیا ہے۔ البتہ مختلف طریقوں سے ان کی طرف ترغیب دلائی ہے اور ان پر عمل کرنے والے کے لیے بہت بڑا انعام پانے کی خوشخبری دی ہے۔ یہ جو ہدایات دی گئی ہیں یقینا یہ محض اس لیے نہیں ہیں کہ ان پر عمل کرنے والے افراد کچھ ثواب کا استحقاق حاصل کرلیں۔بلکہ ان کے اندر دوسری نہایت اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے معاشرہ کے مسائل حل ہوتے ہیں اور مجموعی حیثیت سے پورے معاشرہ کا فائدہ ہوتا ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی مخصوص ہنگامی حالت کے پیش آنے کی بنا پر آپ یہ طے کریں کہ ان اخلاقی ہدایات کو قانون کا درجہ دیا جانا چاہیے ، تو سوال یہ ہے کہ آپ کس چیز کو قانون کا درجہ دیں گے، انہی اخلاقی ہدایات کو یا کسی اور چیز کوــــــآپ کے استدلال کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ مخصوص حالات میں خوش حال افراد کو اس کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ محتاج بھائیوں کی مدد کریں، یا ریاست ان کے اوپر ٹیکس لگا کر ایسی رقمیں حاصل کر سکتی ہے جس کو دوسرے ضرورت مند افراد تک پہنچایا جاسکے۔ ہر حالت میں صرف اسی چیز کو قانون کا درجہ دیا جاسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عام حالات میں اختیاری اخلاق کا درجہ دیا ہے ۔ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اخلاقی ہدایات کی خلاف ورزی کو ایسا جرم قرار دیں جو قابل دست اندازی ٔ پولیس ہو، جس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جاسکتی ہو، جس پرعمل نہ کرنے والے کو
جائے۔ لیکن اگر سارے ہی افراد ان ہدایات کو ترک کر دیں تو شریعت کے بعض ایسے مقاصد متاثر ہوتے ہیں جو کسی حال میں نظر انداز نہیں کئے جاسکتے ۔اسی لیے عام غفلت کی صورت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ان ہدایات کو قانوناً نافذ کیا جائے۔
اجتماعی تنظیم کے لیے سلبِ ملکیت کے حق میںیہ استدلال بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق نہ عقل سے ہے اورنہ اسلام سے۔ آخر جس معاشرہ کے سارے ہی افراد کا یہ حال ہو جائے کہ وہ اپنے فرائض بھول جائیں اور مفاد پرستی ان پر اس قدر غالب آجائے کہ اپنے فائدے کے لیے دوسروں کے حقوق پامال کرنا شروع کردیں۔ ایسے معاشرہ میں وہ لوگ کہاں سے آئیں گے، جن کو سارے ذرائع یا ان کا بیشتر حصہ اس امید میں سونپا جاسکے کہ وہ نہایت ایمانداری کے ساتھ دوسروں کا حق پہنچاتے رہیں گے۔ معیشت کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے لیے وزراء اور افسران سے لے کر ہزاروں ، لاکھوں اہل کاروں کی ضرورت ہوتی ہے جو پیداوار اور تقسیم کے مختلف مراحل کا چارج لے سکیں اور عام پبلک تک ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک پہنچاتے رہیں۔ پھر جس معاشرہ میں عام غفلت طاری ہو جائے وہاں صالحین کی یہ فوج کیا مریخ سے بلائی جائے گی؟ جب معاشرہ کا ایک ایک فرد بگڑ چکا ہو اور نجی مالک کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام نہ دے رہا ہو تو اس معاشرہ کے افراد سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ وزیر صنعت اور راشننگ انسپکٹر بن کر اس کام کوٹھیک طریقہ سے انجام دینے لگیں گے جس کو وہ تاجر اور زمیندار کی حیثیت سے انجام نہ دے سکے۔ پہلی شکل میں تو آدمی کے پاس صرف ملکیت ہوتی ہے اور دوسری شکل میں ملکیت اور اختیار دونوںاکٹھا ہو جاتا ہے۔ پھر جس معاشرہ کے لوگ ایک حیثیت کی ذمہ داری سنبھال نہ سکیں، اسی معاشرہ سے لیے ہوئے افراد سے یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ دو حیثیتوںکا مالک بننے کے بعد وہ بالکل بدل جائیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے لگیںگے۔ جس معاشرہ کی ’’عام اخلاقی حالت‘‘ بگڑ چکی ہو ایسے معاشرہ کے افراد کو عام حالات سے زیادہ اختیار دینا ان کو ظلم اور لوٹ کھسوٹ کے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ تدبیر حالات کو زیادہ بگاڑ کی طرف لے
گے اسی کے بقدر آپ کے نظریہ میں تضاد واقع ہوگا۔ البتہ اگر وحدت بنی آدم کا مطلب اموال کا اشتراک نہ لیا جائے بلکہ نظریاتی اورانسانی اشتراک لیا جائے، جیسا کہ فی الواقع ہے، تو کسی مقام پر بھی کوئی تضاد واقع نہیں ہوتا۔ ہر دائرہ کے اندر ہم کہہ سکتے ہیںکہ مختلف انسانوں کو اپنے مفاد کے ساتھ دوسروں کے مفاد کا خیال رکھنا چاہئے اور ٹکراؤ کی نوبت نہ آنے دینی چاہئے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ افراد اس قسم کی کوئی حرکت نہ کرنے پائیں۔ جو شخص یا گروہ ایسا کوئی اقدام کرتا ہوا ملے اس کو فوراً روک کر اپنی حد کے اندر واپس جانے پر مجبور کیا جائے۔
ان حضرات کے استدلال کی دوسری بنیاد فلسفۂ شریعت ہے۔ یعنی وہ مقاصد جن کے لئے اسلام نے اپنے احکام وضع کیے ہیں اورزندگی کے مختلف شعبوں کے لیے قانونی ہدایات دی ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک بات یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسلام کے احکام و ہدایات دو قسموں پر مشتمل ہیں ایک قانون اور دوسرے اخلاق ۔قانون کے دائرہ میں وہ احکام آتے ہیں جو شریعت نے فرض قرار دیے ہیں اور اخلاق سے مراد وہ ہدایات ہیں جو لازم نہیں قرار دی گئی ہیں بلکہ ان کے سلسلہ میں ترغیب و تلقین پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یہ دونوں قسم کے احکام اگر چہ بظاہر مختلف معلوم ہوتے ہیں، کیوں کہ سب کو لازم نہیں قرار دیا گیا ہے، مگر اس حیثیت سے دونوں یکساں ہیں کہ وہ سب کے سب مطلوب ہیں اور سب کی پشت پر اللہ تعالی کی پسندیدگی کی سند اور خود انسانی مصالح کا تقاضا موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ لازم اورغیرلازم کی یہ تقسیم اپنی جملہ تفصیلات کے ساتھ دائمی نہیں ہے، بلکہ قانونی اور اختیاری حلقوں کی سرحدیں ، زمانہ، حالات اور سماج کے اخلاقی معیار کے ساتھ ساـتھ تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اسلام کی قانونی ہدایات کی طرح اس کی اخلاقی ہدایات کا تعلق بھی اہم اجتماعی امور سے ہے، جن کو بہر حال انجام پانا چاہئے۔ کیوں کہ ان کی تکمیل سے پورے معاشرہ کے ناگزیر مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کو ہر ہر فرد پرلازم اس لیے نہیں کیا گیا کہ ضروری نہیں کہ ہر فرد میں ان کی بجا آوری کی استعداد و قوت پائی
غلط ہے۔ کیوں کہ اس انتظام میں بھی تصرف کا اختیار عملاً ایک ہی طبقہ کے ہاتھ میں رہتا ہے۔اجتماعی ملکیت کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ سب کو اجازت عام حاصل ہوگئی۔ جو چاہے اپنی مرضی کے مطابق، املاک میں تصرف کرے۔ اجتماعی ملکیت درحقیقت حکومتی ملکیت ہے جس میں حکمراں طبقہ املاک کا متولی بن جاتا ہے۔ جس طرح ملکیتی نظام میںمالکانِ جائداد کو اس کے غیر مالکوں کے مقابلے میں تصرف کا خصوصی اختیار ہو تا ہے ٹھیک اسی طرح اجتماعی نظام میں حکمران طبقہ کو غیر حکمرانوں کے مقابلہ میں تصرف کا خصوصی اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ دیں تو دوسروں کو چیزیں ملیں گی، وہ نہ دیں تو خود سے کوئی شخص نہیں لے سکتا۔ اگر وحدتِ بنی آدم کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں سے تمام لوگ بے روک ٹوک استفادہ کر سکیں تو اس کی صحیح شکل یہ ہے کہ تمام چیزیں بالکل کھلی چھوڑ دی جائیں۔ جس کسی کو بھی جب اور جہاں جس چیز کی ضرورت ہو وہ ہوا اور پانی کی طرح اس کو حاصل کر سکے۔ گویا نجی ملکیت ہو، نہ حکومتی ملکیت، بلکہ انسانی زندگی میںجنگل کا قانون جاری کر دیا جائے جہاں ہر جانور ہر چیز سے استفادہ کر سکتا ہے۔ کسی کو کسی چیز پر ملکیتی یا انتظامی اختیار نہیں ہوتا۔ وحدتِ بنی آدم کی یہ منطق نجی ملکیت کا نظام توڑ کر اس کو حکومتی طبقہ کی ملکیت بنانے کی تائید نہیں کرتی بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا نظام قائم ہونا چاہئے جس میں سب کو اجازتِ عام حاصل ہو۔ نہ مالک اور غیر مالک کا فر ق ہو اور نہ حاکم اور محکوم کی تفریق باقی رہے۔ گویا وہ نظام جس کے علم بردار بعض انارکسٹ ہیں۔ کیا انسانی معاشرہ میں اس طرح کا نظام قائم کرنا ممکن ہے اور کیا اس دلیل سے اسلام میں سوشلزم کی گنجائش ثابت کرنے والے حضرات اس کی تائید کریں گے۔
یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ مشترک ہو، بلکہ ذاتی ضروریات کی چیزیں انفرادی ملکیت میںرکھ کر بقیہ چیزوں کومشترک ملکیت میںدیدیا جائے جیسا کہ موجودہ اشتراکی ملکوں میں بالفعل پایا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ’’کچھ چیزوں‘‘ کا استثناء کہاں سے نکل آیا۔ وحدت بنی آدم کا جو تصور آپ بتا رہے ہیں اس کے مطابق ،مکمل تعاون کی شکل تو یہی ہو سکتی ہے کہ’ کچھ‘ نہیں، بلکہ سب کچھ مشترک ہو۔ اموال و املاک کی جس مقدار پر بھی آپ اس تصوّر اشتراک کو چسپاں کریں
بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص قرآن کی یہ آیت پڑھے
خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا۔ (الروم ۲۱)
اے انسانو! خدا نے تمہارے لیے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے (صنف مقابل ) پیدا کیے ہیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔
اور اس کی تفسیر یہ کرے کہ اس میں ’’مشترک شادی‘‘ کا اصول بیان کیا گیاہے۔ یعنی تمام عورتیں تمام مردوں کے لیے اور تمام مرد تمام عورتوں کے لیے۔ اگر استدلال کا یہی طریقہ اختیار کیا جائے تو اس طرح تو دنیا کی ہر بات ثابت کی جا سکتی ہے۔
وحدتِ بنی آدم کا یہ مطلب تو ضرور ہے کہ انسان کا باہمی تعلق صلہ رحمی، مواساۃ اور ایثار و تعاون پر مبنی ہونا چاہئے، نہ کہ خود غرضی ، کش مکش اور نزاع پر۔ مگر اس سے یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ سامانِ حیات پر لوگوں کا الگ الگ تشخص نہ ہو، بلکہ اموال و املاک سب کی مشترک ملکیت میں دے دئے جائیں۔ اگر بنی آدم کو ایک بڑا خاندان ماننے کامطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان ملکیتوں کا اشتراک ہونا چاہئے تو یہ بات اس بڑے خاندان سے پہلے چھوٹے خاندانوں پرچسپاں ہوتی ہے جن کے مختلف افراد کے لیے شریعت نے الگ الگ حصے مقرر کیے ہیں۔ پھر وحدت بنی آدم کی اس تشریح کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسلام کا قانونِ وراثت اس کے تصور انسان کے خلاف ہے۔ جس طرح ’’ بڑے خاندان‘‘ کے حق میں آپ ملکیتوں کی علیٰحدگی صحیح نہیں سمجھتے اسی طرح چھوٹے خاندان میں بھی یہ اصول صحیح نہیں ہو سکتا کہ ہر ایک کا ـــــالگ الگ حصہ ہو اور خاندان کی تمام املاک اور ان کا منافع ہر ایک کے نام اس کے حصہ کے بقدر تقسیم کرکے دیا جائے۔ گویا نعوذباللہ اسلام کے تصورِ انسان کا تقاضا جتنا یہ حضرات سمجھ رہے ہیں ، اتنا بھی اللہ تعالیٰ اس کو سمجھ نہ سکا۔ اس نے معاشرہ کے لیے جو اجتماعی تصور دیا تھا، معاشرہ کی ابتدائی وحدتـــــخاندانــــــ کے حقوق و فرائض متعین کرتے وقت خود ہی اس کو بھول گیا۔
وحدت بنی آدم کا مطلب اگر یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ چند افراد یا کسی ایک طبقہ کی میراث بن کر نہ رہ جائیںبلکہ ان سے تمام انسانوں کو مستفید ہونے کا موقع ملے۔ دوسرے لفظوں میں، اشیاء پر افراد کا ملکیتی تشخص نہ ہو، بلکہ خدا کی نعمتیں اس کے تمام بندوں کے لیے عام ہوں۔ اگر وحدت بنی آدم کا مطلب یہ ہے تو اس فلسفہ کے مطابق، اجتماعی ملکیت کا مجوزہ نظام بھی
جس طرح مالک اپنے دیے ہوئے حق کو منسوخ کر سکتا ہے اسی طرح اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ضرورت سمجھے تو خدا کے دیے ہوئے ملکیتی حقوق ساقط کر دے۔ ان اختیارات کا منشاء یہ ہے کہ یہ املاک مفید ہی اغراض کے لیے استعمال کی جائیں اور فی الجملہ ان سے وہی کام لیا جائے جو مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہو۔
یہ وہی پرانی دلیل ہے جو اس سے پہلے ڈکٹیٹر شپ کی حمایت میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ کمزور دلیل اور کوئی نہیں ہوسکتی ۔ خدا کے قانون کے تحت زمین پر جو اسلامی ریاست منظم ہوتی ہے اس کا کام یہ نہیں ہے کہ اپنے خود ساختہ نظریات کے تحت ان حقوق کو منسوخ کر دے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیے ہیں۔ اس کے برعکس اس کا کام یہ ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ خدا کے دیے ہوئے حقوق لوگوں کو مل رہے ہیں یا نہیں۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کو نافذ کرنے والی ہوتی ہے، نہ کہ اس کو معطل کرنے والی۔ کسی حکومت کے اسلامی حکومت ہونے کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ وہ زمین پر خدا کی قائم مقام ہو گئی ہے اور اس کو مطلق اختیارات حاصل ہیں کہ جو چاہے کرے، بلکہ وہ تو اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ زمین پر خدا کے قوانین کی پابندی ہوگی اور ان کو توڑا نہیں جائے گا۔ جو اسلامی ریاست خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کرے اور انسانوں سے وہ حقوق سلب کرنے لگے جو خدا نے اپنی شریعت کے ذریعہ انسانوں کو دیے ہیں وہ اپنے مقصد وجود کے خلاف کام کرتی ہے۔ ایسی حکومت خدا کی نائب نہیں، خدا کی باغی ہے۔ اس کی ساری کارروائیاں غیر قانونی ہیں اور اس کے افراد خدا کی عدالت میں سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ایسی حکومت لینن اور سٹالن کی نائب ہو تو ہو، خدا کی نائب ہر گز نہیں ہے۔
اس دلیل کا دوسرا جز ء وحدت بنی آدم کا نظریہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ساری مخلوق ایک بڑے خاندان کی حیثیت رکھتی ہے اور خاندان کے اندر جس طرح سب کچھ مشترک ہوتا ہے اسی طرح پوری انسانیت میں سب کچھ یا ان کا بڑا حصہ ہر ایک کے درمیان مشترک ہونا چاہئے۔
وحدتِ بنی آدم کی بات تو اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہے مگر اس سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اس کی مثال
پورے خاندان کی تحویل میں دیا گیا ہے، ان سے استفادہ کرنے میں سب کو ایک خاندان کے افراد کی طرح طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ جس طرح ایک خاندان کے اندر تمام چیزیں مشترک ہوتی ہیں اسی طرح اسلام کے تصور انسانی کا تقاضا ہے کہ سارے بنی آدم کے لیے چیزوں کا اشتراک تسلیم کیا جائے اور کسی کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ کچھ چیزوں پر وہ مستقل قبضہ کرکے دوسرے لوگوں کو اس سے محروم کر دے۔ اسی لیے قرآن مال و املاک کی کسی ایسی تقسیم کو گوارا نہیں کرتا جو انسانوں کے ایک طبقہ کو مقصدِ زندگی کے ناگزیر ذرائع سے محروم کردے۔
یہ ہے ان دلائل کا خلاصہ جواسلام میں اجتماعی ملکیت ثابت کرنے کے لیے نظریاتی پس منظر کے طور پرمہیّا کیے گئے ہیں۔ اس دلیل کا پہلا جزء یہ ہے کہ انسان کائنات کے اندر کسی چیز کا حقیقی مالک نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کائنات کے اندر انسان کوئی مالکانہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ملکیت کی کوئی ایسی فہرست نہیں بنائی جاسکتی جو ’’مطلق‘‘ اور ’’مقدس ‘‘ ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان کی یہ حیثیت کس کے مقابلہ میں ہے؟ خدا کے مقابلہ میں یا بندوں کے مقابلہ میں؟ خدا کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت یقینا صرف مکلّف اور ذمہ دار ہستی کی ہے، نہ کہ حقدار کی۔ مگر انسان کے مقابلے میں یقینا وہ حقدار ہے اور ملکیت کی مقدس فہرست رکھتاہے۔ اللہ مالک حقیقی نے خود ہی ایک انسان کو دوسرے کے مقابلے میں بہت سے حقوق دیے ہیں اور ان کو محترم ٹھہرایا ہے جن کو اذن الٰہی کے بغیر ساقط نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقوق خدا نے دیے ہیں اور وہی اپنے حق میں انہیں واپس لے سکتا ہے، کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خودساختہ فلسفہ کی بنا پر لوگوں سے ان کی جائز ملکیتیں چھین لے اور پھر یا تو خود ان پر قابض ہو جائے یا کچھ دوسرے لوگوں کے حوالہ کر دے۔
اس سلسلہ میں یہ کہا جا تا ہے کہ اسلامی ریاست خدا کی نائب ہے، وہ خدا کی زمین پر خدا کی خلافت کی تنظیمی شکل ہے۔ اس بناء پر اس کو بندگانِ خدا کی تمام املاک پر کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہیں، دوسرے لفظوں میں نائب ہونے کی وجہ سے اس کو وہی حقوق حاصل ہیں جو مالک کے ہوتے ہیں۔ اس مخصوص حیثیت کی بناء پر اسلامی ریاست کو افراد کے حقوق میں مداخلت کرنے کا پورا حق ہے۔
اس فلسفہ کے دو خاص جزء حسبِ ذیل ہیں
۱۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ نے پیدا کیاہے اور سب کچھ اسی کا ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز اصلاً انسان کی ملک نہیں، انسان کے پاس جو اموال و املاک ہیں وہ دراصل خدا کی طرف سے امانت کے طور پر عارضی تصرّف کے لیے دیے گئے ہیں۔ اس امانت کا مقصد انسان کو اس کامالک بنانا نہیں بلکہ اس بات کا امتحان لینا ہے کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق ان میں تصرفات کرتا ہے یا نہیں۔ہر امانت کی طرح اس امانت پر بھی انسان کا قبضہ عارضی ہے ،نہ کہ دائمی ۔
۲۔ دوسری چیز ’’وحدت بنی آدم‘‘ کا تصور ہے۔ یعنی خدا کے نزدیک مختلف انسان الگ الگ نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب کی فلاح و سعادت کے اصول اور سب کے حقیقی مفادات یکساں ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان فطری رشتہ اخوت و تعاون اور مواساۃ و بہی خواہی کا ہے، نہ کہ کشمکش اور نزاع کا۔ اگرکسی مرحلہ میںملکیت کا قانون، اسلام کے تصورِ انسانی سے ٹکرا جائے تو اس وقت تصوّر انسانی کو باقی رکھنے کے لیے ذاتی ملکیت کو ختم کر دیا جائے گا۔
اسلام کے ان تصورات کا تقاضا ہے کہ افراد انسانی کے لیے املاک کی کسی مطلق اور مقدس فہرست کو تسلیم نہ کیا جائے، کیوں کہ یہ ساری ملکیتیں خدا کی ہیں، نہ کہ کسی انسان کی ملکیتیں۔ یہ انسان کو اصل مالک کی طرف سے بطور امانت دی گئی ہیں۔ اس لیے کسی انسان کا ان پر ذاتی حق نہیں۔ جو حق ہے وہ شرائط کی تکمیل کے ساتھ مشروط ہے جس کے لیے اصل مالک نے یہ ملکیتیں عطا کی ہیں۔ اگرتصرف کا حق ادا نہ ہو سکے تو مالک کو اختیار ہے کہ اس طرح اپنی املاک کو اس سے چھین لے جس طرح اس نے پہلے عطا کیا تھا۔ اس اصول کااطلاق مال و املاک رکھنے اور مالکانہ تصرّفات کرنے اور دوسرے تمام حقوق پر یکساں حیثیت سے عائد ہوتا ہے۔
ملکیت کی یہ نوعیت اور وحدتِ بنی آدم کا اسلامی تصور تقاضا کرتا ہے کہ خدا نے انسانوں کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ چند افراد یا کسی ایک طبقہ کی میراث بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ان سے تمام انسانوں کو مستفید ہونے کا موقع ملے۔ بنی آدم ایک خاندان ہیں اور کائنات کی جن اشیاء اور قوتوں کو اس
انہوں نے اس کا مطلب یہ بتایا کہ ’’ میرے آگے سب لومڑی کی دم ہیں‘‘ اس مصرعہ میں ’’ربا‘‘ ان کے نزدیک لومڑی کا ہم معنیٰ فارسی لفظ ’’ روباہ‘‘کا مخفف تھا اور خوشہ سے مراد لومڑی کی گچھے دار دُم ـتھی۔ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلال کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام کے اندر اجتماعی ملکیت ثابت کرنے کے لیے دوسرے لوگ جو دلیلیں دیتے ہیں ان کاانداز بھی عموماً اسی قسم کا ہے۔ تاہم استدلالات کے اس مجموعہ میںبعض دلیلیں جو کسی قدر وزنی معلوم ہو سکتی ہیں، ہم یہاں ان کے بارے میں مختصر گفتگو کریں گے۔
یہ دلیلیں جو پرویز صاحب اور دوسرے سوشلسٹ ذہن رکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں وہ عموماً تین قسم کی ہیں ایک وہ جس کی عمارت اسلام کے بنیادی افکار و تصورات پر قائم کی گئی ہے۔ دوسری وہ دلیلیں ہیں جواسلام کے فلسفۂ شریعت سے اخذ کی گئی ہیں اور تیسری قسم کی دلیلیں وہ ہیں جو تاریخِ اسلام کے نظائرسے حاصل کی جاتی ہیں۔ ہم ان تینوں قسم کی دلیلوں پر ترتیب وار گفتگو کریں گے۔
اسلام کے اساسی تصورات سے جو استدلال کیا جاتا ہے پہلے اس کو لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ عملی زندگی کے کسی شعبہ میں اسلام جو رویہ اختیار کرتا ہے وہ دراصل زندگی کے بارے میں اس کے بنیادی تصورات ہی کا عکس ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کی ساری تفصیلات اور اس کے تمام فقہی اور قانونی ضابطے دراصل حیات، کائنات اور انسان کے بارے میں اس بنیادی فلسفہ کے قدرتی اور منطقی نتائج کے طور پر ابھرے ہیں جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ اس لیے کسی مخصوص قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے بنیادی فلسفہ سے وہ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ اس اعتبار سے اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا فلسفہ نہ صرف یہ کہ اجتماعی ملکیت کے خلاف نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کا یہ صریح تقاضا نظر آتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔
اجتماعی ملکیت۱؎کے طریقہ کو عین اسلامی طریقہ پر ثابت کرنے کے لیے جو دلیلیں دی گئی ہیں وہ عموماً اس قدر بے معنیٰ ہیں کہ ان پر گفتگو کرنا بھی اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے۔ اس قسم کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے لیے میں نے حال میں جناب چودھری غلام احمد پرویز کی کتاب ’’نظام ربوبیت‘‘ حاصل کی تھی جو موصوف کی شاہ کار تصنیف کہی جاتی ہے۔ پرویز صاحب اگر چہ اشتراکیت کے نام پر اجتماعی نظامِ پیداوار کے حامی نہیں ۔ انہوں نے سرمایہ داری کو ’’جذام‘‘ اور کمیونزم کو ’’سرسام ‘‘ کہا ہے۔ ’’اسلامی اشتراکیت‘‘ کی اصطلاح ان کے نزدیک ایسی ہی ہے ’’جیسی قرآنی دہریت۲ ؎ ‘‘۔ مگر خود اسلام کے معاشی نظام کی جو تشریح وہ کرتے ہیں اس میں اور اشتراکیت میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ ان کا ’’ قرآنی معاشرہ‘‘ بعینہٖ اسی قسم کا ایک معاشرہ ہے جو اشتراکیت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ میں نے اس کتاب کو خاص طور پر دیکھا، کیوں کہ میرا خیال تھا کہ کم از کم اپنے موضوع پر وہ ایک مکمل کتاب ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کے لکھنے میں پرویز صاحب نے اپنا پورا زورِ قلم صرف کردیا ہے۔ مگر دیکھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پرویز صاحب کی یہ کتاب اگر ان کا شاہکار ہے تو اپنے موضوع کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ دراصل ان کے اس مخصوص طرز استدلال کا شاہکار ہے جو دوسرے مسائل کے سلسلہ میں وہ پیش فرماتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں قرآن کی آیتوں کا مطلب بیان کرنے میں بالکل اسی قسم کی مہارت کا ثبوت دیا گیا ہے جیسا کہ ایک صاحب کے سامنے میر انیس کا یہ شعر پڑھا گیا
سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں
پر ہوتا ہے، نہ کہ صرف ذاتی محنت کی کمائی سے پس انداز کی ہوئی رقموں پر۔ غرض، یہ نظریۂ محنت جویہ بتاتا ہے کہ کسی چیز کی آمدنی پر ملکیت کا استحقاق کب پیدا ہوتا ہے،یہ اسلام کے تصورِ ملکیت اوراس کے معاشی قوانین کے پورے ڈھانچہ سے ٹکراتا ہے ۔ اگر اس نظریہ کو تسلیم کرکے اس سے ملکیتوں کے سلب کرنے پر استدلال کیا جائے تو خود اسلام کی تنسیخ ہے۔ یہ ’’اسلام کے معاشی مقاصد‘‘ حاصل کرنے کے نام پر خود اسلام کے معاشی نظریہ کوترک کردینا ہے۔ حال میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے ’’مسئلۂ زمین اور اسلام‘‘ ۔ مصنف نے اس کتاب میں زرعی اصلاح کے لیے کچھ تجویزیں پیش کی ہیں۔ان کی پہلی تجویز یہ ہے کہ زمین کی ملکیت بتدریج کاشتکار میں منتقل کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ
’’یہ ہماری زرعی اصلاح کی پہلی بنیادی اینٹ ہے کہ کوئی زمین کا ٹکڑا کسی ایسے آدمی کو کوئی فائدہ پہنچائے جس پر وہ خود محنت نہیں کرتا۔ گویا زمین کی فصل کلیتاً اس کو ملے جو زمین پر کام کرتا ہے۔ ہماری زرعی اصلاح کا یہ پہلا ’’کم سے کم‘‘ قدم ہے۔ یہ ’’کم سے کم‘‘ جہاں سے سوشلسٹ اصلاح کی ابتداء ہوتی ہے وہ ایک ایسا اصول ہے جو اسلام کے پورے معاشی ڈھانچہ کو گرا دیتا ہے۔
یہ چند نمایاں اسباب ہیں جن کی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ اجتماعی پیداوارکو رائج کرنے کے لیے لوگوں کی ملکیتیں کلاً یا جزء اً ـــــسلب کر لی جائیں۔ اسلام کا فلسفہ، اس کی روح اور اس کا قانونی ڈھانچہ سب کے سب اس طریقہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جہاں ملکیتیں سلب نہ کی جاسکتی ہوں وہاں اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ دونوں بالکل لازم و ملزوم ہیں جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیں گے جو اسلام کو سوشلزم کے عین مطابق ثابت کرنے اوراسلام کی تعلیمات سے نام نہاد سماجی ملکیت کا نظریہ بر آمد کرنے کے لیے پیش کی جارہی ہیں۔
ہے، نہ کہ محنت کے معاوضہ میں۔ اس بنا پر سوشلزم کا خیال ہے کہ جو جائدادیںیعنی وہ چیزیں جن پر دوسروں کی محنت سے کام لے کر دولت پیدا کی جاتی ہے، لوگوں کے قبضہ میں ہیں وہ لوٹ کا مال ہیں۔ یہ ایسے ہتھیار ہیں جن کے ذریعہ کچھ لوگ بے کار بیٹھ کر دوسروں کی محنت کی کمائی ہڑپ کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے جائداد وں کو افراد کے قبضہ سے نکال کر، افراد کے نمائندہ ادارہ’’ اسٹیٹ ‘‘ کے قبضہ میں دے دینا چاہئے تا کہ وہ پیداوارِ دولت کے نظام کو صحیح راستہ پر لگائے تا کہ استحصال کا نظام ختم کیا جاسکے۔ گویا سوشلسٹ فلسفہ کے مطابق، جب کسی سے کوئی جائداد یا ذریعہ ٔپیدائش کو چھینا جاتا ہے تو اس کے معنیٰ یہ نہیں ہوتے کہ کسی سے اس کی ملکیت چھین لی گئی ہے بلکہ اس کے معنیٰ صرف یہ ہوـتے ہیں کہ آدمی سے وہ چیز چھین لی گئی ہے جس کے ذریعہ وہ دوسروں کی کمائی کونا جائز طور پر ہڑپ کر رہا تھا۔
یہی وہ نظریہ ہے جس سے اجتماعی تنظیم کے لیے افراد کی ملکیتوں کو چھیننے کے حق میں دلیل حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس منطق کو اگر قبول کیا جائے تو یہ اسلام کے نظریۂ ملکیت سے براہِ راست ٹکراتا ہے۔
۱۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ پھر کسی ایسی جائداد پر کسی کا شخصی قبضہ جائز نہیںہے جس پر وہ خود کام کرکے پیداوار حاصل نہ کرتا ہو، بلکہ دوسروں کی محنت استعمال کر کے نفع کماتا ہو ۔ اس طرح اسلام کا پورا قانونِ وراثت غلط ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ کسی محنت کے بغیر آدمی کو جائداد کا مالک قرار دیتا ہے۔
۲۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ زمین کو لگان یا بٹائی پر دینا غلط ہے کیوں کہ اس صورت میں کسی ذاتی محنت کے بغیر آدمی ایک کھیت کی پیداوار میں شریک ہو جاتا ہے۔
۳۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مکان، سواری اور دوسری چیزوں کو کرایہ پر اٹھانا غلط ہے کیوں کہ اس عمل سے مکان یا سواری وغیرہ کا مالک اپنے لیے جو معاوضہ حاصل کرتا ہے اس میں اس کی ذاتی محنت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
۴۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ مضاربت کے اصول پر کسی کو روپیہ دے کر اس کی محنت کی کمائی میں شریک ہونا غلط ہے کیوں کہ یہاں بھی محنت صرف ایک کی ہے، نہ کہ دونوں کی۔ اس نظریہ کے مطابق، زکوٰۃ کا قانون ایک غلط بنیاد پر قائم ہے، کیونکہ بہت سی چیزوں میں اس کا انطباق جائدادوں کی آمدنی
اس لیے چھینی جاسکتی ہیں کہ ریاست کی طرف سے ان کا یکجائی انتظام کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں جتنی دلیلیں دی گئیں ہیں وہ سب نہایت کمزور ہیں اور ان سے شریعت کے اصل منشاء کے بجائے زبردستی اپنا منشاء بر آمد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۴۔ اسلام کے معاشی نظام کا پورا ڈھانچہ انفرادی ملکیت کے اصول پر قائم ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اسلام کا معاشی نظام اپنی مخصوص نوعیت کے ساتھ انفرادی ملکیت کا نظام ہے۔ اس مجموعہ میں اجتماعی ملکیت کا اصول کلاً یا جزء اً جس درجہ میں بھی اختیار کیا جائے اس سے زبردست تضاد پیدا ہوتے ہیں۔ غور کیجئے! لوگوں کی ذاتی ملکیتوں کو چھین کر انہیں اجتماعی ملکیت بنا دینے کے تصور کے پیچھے اصل منطق کیا ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص زرعی فارم کا مالک ہے یا اس نے اپنی کوششوں سے کوئی کارخانہ قائم کیا ہے یا کسی کے پاس مشین اور دوسرے آلاتِ پیداوار ہیں تو آخر کس بنا پر یہ چیزیں اس سے چھین لی جائیں گی؟ ذرائع پیداوار کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اس کو اجتماعی ملکیت بنانے کا جو تصور ہے اس کے پیچھے نظریاتی بنیاد کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کا تصور اس نظریۂ محنت کی پیداوار ہے جو مارکس اور دوسرے فلسفیوں نے وضع کیاتھا۔ انگریز ماہراقتصادیات ڈیوڈریکارڈو (David Recardo) کا خیال تھا کہ ’’کسی تجارتی سامان کی قیمت اس مقدار محنت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے جو اس کی تیاری میں صرف کی گئی ہو۔‘‘ ریکارڈو کے اس خیال کو لے کر مارکسؔ نے مشہور نظریہ قائم کیا جس کو ’’قدرِ زائد‘‘ کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ مارکس کے اس نظریہ کے مطابق، محنت ہی کے ذریعہ اشیاء میں قدر وقیمت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کسی چیز سے حاصل شدہ قیمت کو بھی صرف محنت کا حصہ ہونا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں محنت ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے حق میں کسی چیز کی ملکیت کا استحقاق پیدا کرتی ہے۔ جہاں ذاتی محنت کے بغیر آدمی کسی چیز کا مالک بن جائے وہ اس کا مالک نہیں بلکہ غاصب ہے جس کو چھین ہی لینا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم صرف ذاتی محنت کی کمائی کو جائز سمجھتا ہے، اس کے نزدیک دولت اور جائداد کے ذریعہ حاصل کی ہوئی آمدنی جائز آمدنی نہیں ہے کیوں کہ وہ حقوقِ مالکانہ کے طور پر حاصل کی جاتی
ہے یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا سوال مثبت سے زیادہ منفی نوعیت رکھتا ہے۔ ہم کو صرف یہ نہیں دیکھنا ہے کہ اسلامی شریعت میں اس کے موافق کوئی دفعہ پائی جاتی ہے یا نہیں، بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ دیکھنا ہے کہ اس اسکیم کو اگر کسی آبادی میں نافذ کیا جائے تو شریعت کے قائم کیے ہوئے حدود کے اندر رہ کر اسے نافذ کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
اس حیثیت سے جب ہم اسلام کے قانونِ ملکیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے شخصی جائداد کے لیے جو تحفظات تسلیم کیے ہیں ان کو ساقط کیے بغیر کسی آبادی میں اجتماعی ملکیت کی اسکیم کو جاری نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام نے کسبِ معاش کے لیے کچھ حدودوشرائط مقرر کی ہیں، جو شخص ان حدودو شرائط کا پابند رہتے ہوئے دولت اور جائداد حاصل کرتا ہے وہ گویا اسلامی قانون کی رو سے ایک جائز ملکیت کا مالک بنا ہے۔ پھر آپ کس بنا پر اس سے ملکیت کا حق ساقط کریں گے؟ اس عمل کے لیے قانونی بنیاد کیا ہے؟ وہ کون سی منطق ہے جس کے ذریعہ آپ کا فعل حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے؟ چونکہ دنیا میں اب تک سارا کاروبار انفرادی ملکیت کے اصول پر چل رہا ہے اس لیے اجتماعی ملکیت کا نظام لانے کے لیے سابقہ انفرادی ملکیتوں کو سلب کرنا پڑے گا۔ اس عمل کے بغیر اجتماعی ملکیت کا نظام قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ نظام کلا ًیا جزء اً جس درجہ میں بھی اختیار کیا جائے اسی کے بقدر افراد کی ملکیتوں کو غصب کرنا ضروری ہوگا۔پھر کیا اسلام کے قانون میں ایسی کسی دفعہ کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو محض اجتماعی تنظیم کے لیے افراد کی ملکیتوں کوسلب کرنا جائز قرار دیتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ دولت حاصل کرنے کے طریقے کیا ہوں اور حاصل شدہ دولت کو کن راہوں میں صرف کیا جائے؟ اس سلسلہ میں نہایت تفصیلی ہدایات دے کر شریعت ایک طرف جائزطور پر حاصل کی ہوئی انفرادی ملکیتوں کی تصدیق کرتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی متعین کر دیتی ہے کہ افراد کی ملکیتوں میں حکومت کس حد تک اور کن پہلوؤں سے دخل دینے کی مجاز ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سے کوئی تعلیم اور صدرِ اول کے نظائر میں کوئی نظیر اس امر کی تائید میں پیش نہیں کی جاسکتی کہ افراد کو ملکیت بنانے کی ممانعت ہو یا اس پر حد بندی قائم کی گئی ہو۔ اور نہ اس کا ثبوت دیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی ملکیتیں محض
متاثر کیا ہے۔ اس وقت سماج جن دشواریوں میں مبتلا ہے اس کے علاج کے لیے تحدید ملکیت، مشترکہ کھیتی ، اقتصادی منصوبہ بندی اور نیشنلائزیشن کی تدبیریں اسی طرز فکر کا نتیجہ ہیں۔ انسان اب عام طور پر یہ سوچنے لگے ہیں کہ ملکیتی نظام میں تبدیلی اور کچھ معاشی کارروائیوں کے ذریعہ انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسی سے معاشی نا ہمواری ختم ہوگی، اسی سے سماجی اونچ نیچ کا علاج ہوگا، اسی سے بگڑے ہوئے اخلاق درست ہوں گے، اسی سے سیاسی استبدا د کا خاتمہ ہوگا، اسی سے بین الاقوامی امن قائم ہوگا۔ غرض، انسانیت کے سارے دکھوں کا علاج اور اس کی کامیابی کی راہ صرف یہ ہے کہ مادی زندگی یا دوسرے لفظوں میںاس کے معاشی شعبے میں کچھ تبدیلیاں کر دی جائیں۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس سے متاثر ہو کر اسلام میں اجتماعی ملکیت کی گنجائش ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر یہ طرز فکر بنیادی طور پر اسلام سے ٹکراتاہے۔ اسلام نہ تو اس فلسفہ کو تسلیم کرتا ہے اور نہ اس کی تعلیمات میں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ انفرادی ملکیت کے فطری نظام کو الٹ کر نام نہاد سماجی ملکیت کا نظام انسانیت کے اوپر لادنے کی کوشش کی جائے۔ اسلام کے نزدیک انسان کے بننے یا بگڑنے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے یا خدا سے نہیں ڈرتا۔ جب کہ سوشلزم کے نزدیک انسان کا بننا یا بگڑنا اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ کس قسم کے معاشی قوانین کے اندر زندگی گذار رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشیات کی تنظیم کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر سوشلزم کے نقطۂ نظر سے اسی طرح ٹکراتا ہے جس طرح خدا پرستی اور مادہ پرستی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح ’’ جدلی مادیت‘‘ زندگی کی صحیح تشریح نہیں ہے اسی طرح اجتماعی ملکیت کا نظریہ بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ان دونوں کی یکجائی ممکن نہیں۔
۳۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ کوئی ایسی دنیا نہیں ہے جہاں ابھی ملکیتیں قائم نہیں ہوئی ہیں اور ہمیں اس کام کی ابتداء کرنے کے لیے کوئی نقشہ بنانا ہے، بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کا نظام صدیوں سے انفرادی ملکیت پر مبنی چلا آرہا ہے۔ ہم کو نئی دنیا نہیں بنانی ہے بلکہ بنی ہوئی دنیا میں تبدیلی کرنی ہے۔ ایسی حالت میں اجتماعی ملکیت قائم کرنے کا سوال سب سے پہلے یہ سوال سامنے لاتا ہے کہ اس طرح کی کسی اسکیم کے لیے لوگوں کی قائم شدہ ملکیتوں کو ان کی مرضی کے خلاف حاصل کیا جاسکتا
میں ’’ الاّ بحقھا‘‘ کے ٹکڑے سے واضح کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ کسی خود ساختہ نظریہ کی بنا پر انسان کی جان ومال میں تصرف نہیں کیا جا سکتا ۔ جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ ’’ الابحقھا‘‘ کے استثناء میں ’’ذرائع پیداوار کی اجتماعی تنظیم‘‘ بھی شامل ہے اس وقت تک اسلام میں اس کی گنجائش ثابت نہیں ہوتی۔
۲۔ سوشلزم کا بنیادی فلسفہ اسلام سے جس طرح ٹکراتا ہے اسی طرح اس کے معاشی حل کے پیچھے جو منطق ہے اس کے لیے بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی ۔ انسانیت کے مسئلہ کو حل کرنے کا سوال اصلاً یہ سوال ہے کہ انسان کو کس طرح بدلا جائے۔ انسان کے اندر تبدیلی کا احساس پیدا کیے بغیر حالات کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔ اگر انسان نہ بدلیں تو رشوت بند کرنے کا قانون بھی بگڑے ہوئے افسروں اور اہل کاروں کے ہاتھ میں پڑ کر مزید رشوتیں وصول کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لیے خرچ کی ہوئی رقمیںچند ٹھیکیداروں اوراعلیٰ عہدیداروں کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ اسی لیے انسانی مسائل کی اصلاح کے لیے جو تحریکیں اٹھی ہیں وہ ہمیشہ اس سوال کو بنیادی اہمیت دیتی رہی ہیں کہ انسان کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔ سوشلسٹ حل در اصل اسی سوال کا ایک جواب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مادی تبدیلی کا جو قانون ہے وہی انسان کی تبدیلی کا بھی قانون ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سوشلزم ’’ اصلاح بذریعہ جبر‘‘ کا طریقہ ہے اور اسلام ’’ اصلاح بذریعہ تربیت‘‘ کا ۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی تربیت کے ذریعہ اصلاح تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اسلام شعوری تبدیلی کے ذریعہ اصلاح کرنا چاہتا ہے اور مارکسزم کا دعویٰ یہ ہے کہ مادی تبدیلی کے ذریعہ انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔ گویا اسلام اور مارکسزم میں فرق طریق کار کا نہیں ہے بلکہ اصول اور بنیاد کا ہے۔ اس فرق کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کا کہنا ہے کہ ’’انسان کو بدلنا چاہتے ہو تو اس کے ذہن کو بدل دو‘‘۔ اس کے برعکس مارکس ؔ کا کہنا ہے کہ ’’انسان کو بدلنا چاہتے ہو تو اس کے مادی حالات کو بدل دو۔‘‘وہ بنیادی فلسفہ جس کو مارکس نے اس سلسلہ میں مرتب کیا تھا اس کو اپنی اصل شکل میں دنیا نے بہت کم قبول کیا ، مگر مخصوص حالات کی بنا ء پر اس کے اس تجویز کیے ہوئے یا زیادہ صحیح لفظوں میں، دریافت کیے ہوئے حل نے بڑی کثرت سے لوگوں کو
مگر یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے لیے قیاس و گمان کے سوا کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی ۔
اسلام ملکیت کے اسی فطری طریقہ کو اصولاً تسلیم کرتا ہے اور قوانین کے ذریعہ اس کا تحفظ کرتا ہے۔ آدمی جائز طور پر جو کچھ کماتا ہے اسلام کی نگاہ میں وہ اس کی ملک ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کی ملک ہے۔کسی فرد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کا اثاثہ چھین لے اور نہ اسلامی ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ کسی کی ملکیت کو بحق سرکار ضبط کر لے۔ وہ کسی کی ملکیت میں صرف اس وقت مداخلت کرسکتی ہے جب کہ متعلقہ شخص نے احکام الٰہی میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرکے اسے حاصل کیا ہو یا وہ ان راہوں میں اس کو استعمال کررہا ہو جن راہوں میں استعمال کرنے سے خدا نے منع فرمایا ہے۔ خدا کے رسول حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے
کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ (مسلم)
ہر مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت حرام ہے ۔
دوسری جگہ آپؐ نے فرد کے اوپر اسلامی ریاست کے اختیارات کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الااللہ و یؤمنوا بما جئت بہ فاذا فعلوا ذٰلک عصموا منی دمائھم و اموالھم الا بحقھا۔( مسلم)
مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جنگ کروں یہاں تک کہ لوگ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں اور جو کچھ میںلایا ہوں اس پرایمان لائیں۔ جب وہ ایسا کر لیں تو ان کا جان و مال میری طرف سے محفوظ ہوگا اِلاّ یہ کہ ان پر جان ومال کا کوئی حق دار ہوتا ہے۔
نبی ﷺ کے ان ارشادات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلم فرد یا مسلم ریاست کوجس طرح یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی کا قتل کر ڈالے اسی طرح اس کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ کسی کا مال اس کی مرضی کے بغیر غصب کر لے۔ جس طرح آدمی کی جان محترم ہے ٹھیک اسی طرح اس کا مال بھی محترم ہے اور اس کے خلاف کوئی اقدام صرف اس وقت کیا جا سکتا ہے جب کہ ان متعین استثنائی صورتوں میں سے کوئی صورت پیدا ہو جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان فر مادی ہیں اور جس کو اوپر کے ارشاد
کسی نظام کو جب دوسرے کسی نظام کا مخالف قرار دیا جائے تو اس کے معنیٰ یہ نہیں ہوتے کہ دونوں کے درمیان کوئی جزوی مشابہت بھی نہیں ہے۔ ایسی مشابہت تو انتہائی متضاد چیزوں میںبھی ثابت کی جاسکتی ہے۔ دو نظاموں کا مقابلہ ہمیشہ اس لحاظ سے کیا جاتا ہے کہ بنیادی طورپر دونوں کا رخ کیا ہے اور زندگی کے بارے میں اصلاً دونوں کیا نقطۂ نظر رکھـتے ہیں۔ اس لحاظ سے جب ہم سوشلزم کے معاشی حل کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس کا فلسفہ اسلام کے برعکس ایک فلسفہ ہے، ٹھیک اسی طرح اس فلسفہ کے بطن سے نکلا ہوا معاشی حل بھی اسلام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ۔ دونوں کو ایک جگہ جمع نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام اپنے معاشی نظام میں اجتماعی ملکیت کا پیوند لگانے سے قطعی طور پر انکار کرتا ہے۔ یہاں ہم ان اصولی اسباب کو بتائیں گے جن کی بنا پر اسلام کے اندر اشتراکیت کے حل کو اختیار نہیں کیا جاسکتا۔
۱۔ زندگی کے تمام معاملات میںاسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ معاملہ کی فطری حالت کو اصلاً برقرار رکھ کر قوانین کے ذریعہ ان راستوں کو بند کر دیتا ہے جہاں سے خرابیاں ظہور کرتی ہیں۔ معیشت کی تنظیم کے لیے انفرادی ملکیت کا اصول ہی فطری اصول ہے، اس کے دو نہایت قرینے ہیں۔ پہلا یہ کہ آدمی کے اندر فطری طور پر یہ خواہش موجود ہے کہ جو کچھ وہ حاصل کرے وہ اس کی ذاتی ملکیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جتنی دلچسپی کے ساتھ اپنے لیے کام کرتا ہے دوسرے کے لیے نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کو عملی طور پر تمام کمیونسٹ ملکوں میں ہمیشہ سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اور اب تو نظری طور پر بھی کمیونسٹ حضرات اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ تاریخ کے تمام معلوم زمانوں میںانفرادی ملکیت کا طریقہ رائج رہا ہے۔ انسانی تاریخ پورے تسلسل کے ساتھ انفرادی ملکیت کے حق میں شہادت دیتی ہے، نہ کہ نام نہاد اجتماعی ملکیت کے حق میں۔ تاریخ کے اسی خلاء کو پر کرنے کے لیے سوشلزم کے علمبرداروں نے ابتدائی انسانی سماج کے بارے میں یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ وہ اشتراکی سماج تھا۔ یعنی اس میں تمام چیزیں ، حتیٰ کہ عورت بھی ، مشترک طور پر سب کے قبضہ میں ہوا کرتی تھی۔
صاف طور پر یہ بھی تحریر کیا تھا کہ ان کی اشتراکیت کوئی الگ قسم کی اشتراکیت نہیں ہے، بلکہ ’’وہی ہے جس کا تعلق تمام دنیا کے اشتراکیوں سے ہے اور اس میںپیدا وارِ دولت کے ذرائع کا مشترک ہونا شامل ہے۔ ہمارا اشتراکیت کا تصور کچھ کم سنجیدہ یا کچھ کم درجہ کا نہیں ہے کیوں کہ اس میں عیسائیت کی روح نے جان ڈال دی ہے‘‘ ۔۱؎
بعینہٖ یہی کیفیت خود مسلمانوں کے درمیان بھی پیش آئی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ سوشلزم عہدِ جدید کا مذہب بن چکا ہے اور زندگی کے مسائل پر ’’سائنٹفک انداز ‘‘ میں سوچنے والے تمام لوگ اس کے حامی ہوتے جارہے ہیںتو ان کو اس احساس سے بہت شرمندگی لاحق ہوئی کہ ان کا محبوب اسلام ترقی کی دوڑ میں دنیا سے پیچھے رہ جائے۔ وہ اسلام کے حق میں رجعت پسندی کو برداشت نہ کر سکے۔ ان کوگوارا نہ ہوا کہ اسلام ایک ایسے ملکیتی نظام کی حمایت کرنے والا ہو جس کا تعلق تاریک دور کے جاگیرداری سماج سے ہے۔انہوں نے فوراً زمانہ کی آواز میں اپنی آواز ملا کر یہ اعلان کر دیا کہ ’’ اسلام انفرادی ملکیت کا سخت مخالف ہے ‘‘۔ حضرت محمد ؐ سب سے بڑے سوشلسٹ تھے‘‘ اور ’’ قرآن سر تا پا اشتراکی تعلیمات سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
زندگی کے معاشی مسائل کو حل کرنے کا یہ طریقہ سو فیصدی غلط نہیں ہے۔ یقینا بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ حکومت کسی معاشی اسکیم کواپنے نظام میں شروع کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ان معنوں میں سوشلزم قدیم ترین ریاستی نظاموں میں بھی موجود تھا۔ مگر جدید سوشلزم جس کو مارکس اور اس کے متبعین پیش کرتے ہیں وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مارکسی سوشلزم معاشیات کی تنظیم کے لیے اجتماعی ملکیت ہی کو اصل قرار دیتی ہے اور انفرادی ملکیتوں کو مجبوراً صرف وہاں تسلیم کرتی ہے جہاں اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ جب کہ پرانے نظام میں اصلاً انفرادی ملکیت ہوتی تھی اور اجتماعی ملکیت کو کسی خاص ضرورت کے وقت جزوی طور پر اختیار کیا جاتا تھا۔
کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’عیسائیت اتحادِ عمل کو واحد جائز اصول مانتی ہے اور اسی لیے وہ بھی اشتراکیت سے قریب ہے۔ چونکہ ہم عیسائی ہیں اس لیے ہم کو اشتراکی ہونا چاہئے ۔‘‘ اسی طرح انگلستان میں لارڈ بشپ وسٹ کاٹ (Lord Bishop Westkott) عیسائی اشتراکیت کا حامی تھا۔ اکتوبر۱۸۹۰ء میںانگریزی سرکاری گرجاکی سالانہ کانفرنس (Church Congress) میں تقریر کرتے ہوئے اس نے سوال کیا ’’کیا ہمارے شہروں اور قصبوں کی حالت عین خدا کی مرضی کے مطابق پائی جاتی ہے؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ ’’موجودہ تقسیم دولت کا معیار امیروں کے لیے بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ وہ غریبوں کے لیے ہے جو بھوکے مر رہے ہیں۔ صرف انجیل کے اصل مقصد کے مطابق، سوسائٹی کا جدید اشتراکی نظام ہی ایسی حالت میں ہماری مدد کر سکتا ہے‘‘ لندن میں سٹی ٹمپل کے پادری کیمبل (Rev. J. Campbeall) نے ایک جلسہ میں جو مارچ ۱۹۰۷ء میں لیور پول کی ’’ آزاد مزدور پارٹی ‘‘ کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا، اپنے خیال کا اظہار اس طرح کیا
’’میں ایک اشتراکی ہوں اس لیے کہ میں عیسائی ہوں۔ خود انجیل کی منطق نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچایا کہ جو کچھ عیسیٰ کا گرجا اپنے ابتدائی زمانہ میں چاہتا تھا۱؎وہی آج اشتراکی پارٹی چاہتی ہے۔ وہ در حقیقت خدا کی سلطنت کو قائم کرنے کی جرأت کررہی ہے۔ انیس سوبرس گذر گئے اورابھی تک یہ نصب العین پورا نہ ہوسکا ۔ لیکن اے اشتراکیو! تم نئے سرے سے اس قدیم حق کو حاصل کرنے کی تبلیغ کرو اور دکھا دو کہ گرجا کی صحیح تعلیم کی عملی شکل تم میں موجود ہے۔‘‘
جنوری ۱۹۰۸ء میں انگلستان کے مختلف گرجاؤں کی انجمنوں کے سو سے زائد پادریوں نے اشتراکیت کی حمایت میں ایک متفقہ اعلان شائع کیا تھا۔ اس میں انہوں نے غلط فہمی سے بچنے کے لیے
بہت سے لوگ اٹھے جنہوں نے کہنا شروع کیا کہ ’’سوشلزم ہی خدا کو پسند ہے‘‘اور ’’سچی عیسائیت مشترک ملکیت کا دوسرا نام ہے۔‘‘ اس زمانہ میں ’’ عیسائی اشتراکیت ‘‘ (christian socialism) کی ایک مخصوص اصطلاح وضع ہوئی جس کا مطلب تھا ’’ سوشلزم کی حامی عیسائیت ‘‘۔ جرمن ادب میں اس ’’عیسائی اشتراکیت ‘‘ کی مخصوص مثال پروٹسٹنٹ پادری ٹاٹ Todt) (کی کتاب ہے جو ۱۸۷۷ء میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کتاب میں مصنف نے انجیل کے سینکڑوں ایسے اقتباسات پیش کیے ہیں جن کا مقصد عیسائیت کے بنیادی خیالات کو اشتراکی اصول کے مطابق ثابت کرنا ہے۔ ٹاٹ اپنی کتاب ان الفاظ سے شروع کرتا ہے
’’جو شخص سماجی مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے ایک ہاتھ کی طرف اقتصادیات و معاشیات کی کتاب ، دوسرے ہاتھ کی جانب اشتراکیت کا علمی ادب اور سامنے عہد نامہ ٔ جدید ۱؎ کھول کر رکھ لے‘‘۔
فرانس اور انگلستان میں خاص طور پر عیسائی اشتراکیت کے بہت سے بڑے بڑے حامی پیدا ہوئے۔فرانس کا مشہور اشتراکی مفکر سین ؔسائمن (Sc. Simon) اپنی تصنیفات میںبار بار عیسائی تعلیم کے حوالے دیتا ہے۔ وہ سوشلزم کو جدید عیسائیت کی تکمیل تصور کرتا تھا۔ انگلستان کے سرکاری گرجا کا پادری موریس (Friedric De Nison Mourice) جوآخری عمر میں کیمبرج میں فلسفۂ اخلاق کا پروفیسر ہو گیا تھا اور ۱۸۷۲ء میںجس کا انتقال ہوا، وہ کہتا ہے کہ ’’ عیسائیت کو بلا خوف وخطر یہ اعلان کر دینا چاہئیے کہ اشتراکیت کے اقتصادی اصول عین انجیل کے اصول ہیں۔ انسانی جماعت ایک جسم کی مانند ہے جو بہت سے اعضاء سے ترتیب دیا گیا ہے، وہ ایک ایسا کل نہیں ہے جس کے اجزاء ایک دوسرے کی بربادی پر تلے ہوئے ہوں۔ اس کے اعضاء ایک دوسرے کے حریف ہونے کے بجائے ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے والے ہونے چاہئیں‘‘۔ چنانچہ موریس اور کنگسلے (Kingslay) مقلّدین اور دوسرے اس خیال کے لوگ اپنے آپ کو’’عیسائی اشتراکی‘‘ (Christian Socialist)
ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ کلیسا کے اوہام و خرافات ، جن کو غلطی سے مذہب کا نام دے دیا گیا تھا اور جن کے تحفظ کے لیے طویل مدت تک جنگیں کی گئی تھیں ، وہ سائنس کے جدید انکشافات کی روشنی میں بے بنیاد ثابت ہوچکے تھے۔ان حالات کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ سوسائٹی کے اوپر سے مذہب کا وہ اقتدار ختم ہوگیا جو مدت دراز سے چلا آرہا تھا۔ دوسرا اس سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اہل مذاہب مستقل طور پر ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے اندر احساس کمتری پیدا ہوگیا۔وہ سمجھنے لگے کہ حق ہماری جانب نہیں بلکہ سائنس کی جانب ہے۔ وہ اپنی ہر بات کو مشتبہ اور نام نہاد سائنس کے علمبرداروں کی طرف سے پیش کی ہوئی ہر بات کو قطعی سمجھنے لگے۔ مگر اس کے باوجود ان میںسے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ممکن نہ ہوسکا کہ مذہب کو بالکل اپنے ذہن سے کھرچ کر نکال دیتے ۔ وہ سائنس کی فتوحات سے مرعوب تھے مگر اسی کے ساتھ مذہب کی تصویر کو بھی سینہ سے لگائے رکھنا چاہتے تھے مگر سوال یہ تھا کہ ان دو متضاد قسم کے رجحانات کے درمیان مطابقت کی شکل کیا ہو۔ سائنس ہر گز اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتی تھی کہ اپنے مزعومات کومذہب کے اصولوں کا پابند رکھنے کی کوشش کرے۔غالب اپنے مغلوب کے حق میں کبھی روادار نہیں ہوتا۔ یہ کام مذہب کو کرنا تھا، نہ کہ سائنس کو ۔ چنانچہ ان اہل مذاہب نے اس وقت مذہب کی بہترین خدمت یہ سمجھی کہ مذہب کو تراش خراش کر جدید نظریات کے عین مطابق ثابت کر دکھائیں۔ اپنی مخصوص ذہنیت کے ساتھ وہ یہی کام کر سکتے تھے اور یہی انہوں نے کرنا شروع کردیا۔
یہ قصہ صرف ان غلط روایات ونظریات کے ساتھ پیش نہیں آیا جن کو مذہب والوں نے خود سے گھڑ کر مذہب کی طرف منسوب کر دیا تھا اور اب نئی دریافتوں نے جن کی غلطی بالکل واضح کر دی ـتھی ، بلکہ مذہب کی اصل تعلیمات بھی اس کی زد میں آگئیں جن کے خلاف سائنس کے پاس کوئی حقیقی دلیل نہیں تھی بلکہ اس نے ضد اور ردّ عمل کے جوش میں ان سے انکار کر دیا ــتھا۔ اسی سلسلہ کی ایک مثال یہ سوشلسٹ نظریہ بھی ہے جو سائنس اور صنعت کی ترقی کے ساتھ یورپ میں پھیلا اور بالآخر ساری دنیا میں چھاگیا۔
اس صورت حال کا سب سے پہلا اور براہ راست اثر مسیحی مذہب پر ہوا۔ چنانچہ عیسائیوں میں
ملکیت کا تصور تھا جس نے ابھی تک کہیں عملی نظام کی شکل اختیار نہیں کی تھی ، جو صرف ایک تمنا کے طور پر لوگوں کے دلوںمیں ابھر رہا تھا۔ اس طرح یہ بحث جو در اصل ایک بگڑے ہوئے معاشی نظام اور اجتماعی ملکیت کے خیالی تصور کے درمیان تھی، نہایت آسانی سے انفرادی ملکیت کے نظام او راجتماعی ملکیت کے نظام کی بحث بن گئی۔ ’’انفرادی ملکیت کا نظام کیسا ہوتا ہے؟‘‘ اس کو سمجھنے کے لئے لوگ وقت کے معاشی نظام کو دیکھتے تھے اور ’’اجتماعی ملکیت کا نظام کیسا ہوگا؟‘‘اس کو سمجھنے کے لیے اس کے علمبردار مفکرین کے وہ دعوے تھے جو وہ اپنے خیالی نظام کی حمایت میںنشر کررہے تھے۔ انفرادی ملکیت کے تصور کی نمائندگی کے لیے ایک بگڑا ہوا معاشی نظام تھا جو اپنی ساری خرابیوں کے ساتھ سامنے موجود تھا اور اجتماعی ملکیت کے تصور کی نمائندگی کے لیے صرف وہ خوبصورت لفظی تصویر یں تھیں جو اس کے حامی پورے زور وشور کے ساتھ پیش کر رہے تھے۔ ان حالات میں قدرتی طور پر ایک ایسی فضا بن گئی کہ اب جو شخص انفرادی ملکیت کا نام لے وہ گویا انیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظام کا حامی ہے او رجو شخص اجتماعی ملکیت کی باتیں کرے وہ گویا اس نظام کو لانا چاہتا ہے جو صحیح ترین معاشی نظام ہوگا، جو وقت کی تمام خرابیوں سے پاک ہوگا۔ انفرادی ملکیت کی حمایت وحشیانہ رجعت پسندی قرار پائی او راجتماعی ملکیت کا نعرہ لگانے والوں کو روشن خیال اور انسانی بہتری کا علمبردار قرار دیا گیا۔
یہ صورت حال اہل مذاہب کے لیے بڑی سخت ثابت ہوئی۔ یہ واقعہ ہے کہ مذہب اپنے چند خاص شرائط کے ساتھ ہمیشہ سے انفرادی ملکیت کاحامی رہا ہے۔ تمام مذاہب کے نزدیک کسی شخص کی ملکیت ـــــاگر وہ جائز ملکیت ہیــــقطعی طور پر محترم ہے اور اس کو سلب نہیں کیا جاسکتا۔ مذاہب کی اسی تعلیم کی بنا پر مارکس کو مذہب کے خلاف سخت محاذ بنانا پڑا ۔ وہ اپنے حامیوں کو جس ملکیتی نظام کا تختہ الٹنے کے لیے تیار کرنا چاہتا تھا اس کی پشت پر سب سے بڑی نظریاتی حمایت یہی مذہب کی تعلیمات تھیں۔ اس لیے اس نے کہا کہ مذہب کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ ملکیتی طبقہ کا ڈھونگ ہے جس کو اس نے اپنی ملکیتوں کے تحفظ کے لیے گھڑ لیا ہے۔
یہ حالات اس وقت پیش آئے جب کہ ابھی جلد ہی یورپ میں سائنس اور مذہب کے تصادم میںمذہب کو شکست ہوئی تھی اور اقتدار کامرکز کلیسا کے ہاتھ سے نکل کر مادیت کے علمبرداروں کے
یہ اجتماعی ملکیت کا حل جس کو مارکس نے ایک فلسفہ کی شکل دے دی ہے، در اصل یورپ میں صنعتی انقلاب سے پیش آنے والے حالات کا لازمی نتیجہ تھا۔ جب ظلم کی ایک حالت سامنے ہو تو اس وقت قدرتی طور پر لوگوں کی نفسیات یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اس مخصوص حالت ہی کو ظلم کا اصل سبب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہو جاتا ہے کہ اگر اس مخصوص حالت کو ختم کرکے اس کے برعکس حالت قائم کر دی جائے تو ظلم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، چنانچہ انیسویں صدی کی ابتدا میں جب بے قید کا روبار اور تجارت میںاندھادھندمقابلے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں رونما ہوئیں تو اس کے ردّ عمل کے طور پر لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ سرمایہ اور دوسرے ذرائع پیداوار پر انفرادی قبضہ ہی ان تمام خرابیوں کا اصل سبب ہے۔ چنانچہ عام طور پر یہ رجحان پیدا ہونے لگا کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کر کے اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنا چاہئے۔ اس عام احساس کو مارکس نے پوری طرح جذب کرکے اس کو زیادہ سے زیادہ مدلّل اور منظم طریقہ پر پیش کر دیا۔مارکس کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر سوشلزم کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور سوشلزم کے سائنٹفک تصور کا دوسرا نام ’’مارکسزم ‘‘ پڑ گیا ہے۔
یورپ میں جس وقت یہ تصور ابھرا تو صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف موجودالوقت صنعتی نظام تھا جو لوٹ کھسوٹ کی انتہائی بھیانک شکل اختیار کر گیا تھا۔ یہ نظام چونکہ انفرادی ملکیت کے تصور پر مبنی تھا اور اس کے وکیل انفرادی ملکیت ہی کے حوالہ سے اپنے بر سر حق ہونے پر استدلال کررہے تھے ،اس لیے قدرتی طور پر اس کی یہ حیثیت ہوگئی۔ گویا یہی وہ نظام ہے جو انفرادی ملکیت کے تصور کے تحت پیدا ہوتا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ مسلمان خواہ وہ اسلامی تصورات کے عین برعکس کیوں نہ ہوں ، مگر اسلام کے نام لیوا ہونے کی وجہ سے یہی اسلام کے حقیقی نمائندے سمجھے جاتے ہیں اورانہی کی زندگیوں کو دیکھ کر دنیا خود اسلام کے بارے میں رائے قائم کرتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح یورپ کا بے قید سرمایہ دارانہ نظام اصولی طور پر انفرادی ملکیت کے نظریہ کا نمائندہ قرار پاگیا۔ دوسری طرف اجتماعی
’’میں مارکسی اپنے شخصی فکری ڈھانچہ ہی میں بنا ، اور میرا خیال ہے کہ یہی حال بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی ہے۔ مجھے (مستعفی ہونے کے بعد) مذہبی شخص کا نام دیا گیا ہے اگر چہ میں وسیع تر مفہوم میں اس سے انکار نہیں کرتا ،لیکن میرے مذہب کا مرکز آدمی تھا، کوئی ماورائی قوت نہیں۔اگر نیکی اورآدمی کی پر شکوہ تقدیر میں گہرا اور ناقابلِ تزلزل ایمان مذہب ہے تو مجھے مذہبی ہونے کا اعتراف کرنا چاہئے۔
میںنے کمیونسٹ پارٹی میں شرکت دو اسباب سے کی۔ مجھے یقین تھا کہ کمیونسٹ پارٹی صحیح انسانی اخوت کی ابتداء ہے اور صدق دل سے سوشلزم امن اور جمہوریت کے لیے کام کر رہی ہے۔ دوم، مجھے یقین تھا کہ کمیونسٹ پارٹی ہی فاشزم کی موثر مزاحمت کر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں لاکھوں نیک دل اشخاص کی طرح مجھے یقین تھا کہ سوویت یونین کے دوست جو تصویر پیش کرتے ہیں ان میں سوویت یونین کے متعلق سچائی ہی بیان کی جاتی ہے‘‘۔۱؎
سوشلزم نے اپنے فلسفہ کے تحت زندگی کا جو حل پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان جدو جہد کر کے اپنے معاشی حالات کو بدل ڈالے۔ جب انسان صرف ایک مادی مخلوق ہے تو اس کی حرکت اور تبدیلی کے قوانین بھی مادی ہونے چاہئیں ۔ لوہے کو پرزے کی شکل دینے کے لیے اس کے اوپر ایک مخصوص مادی عمل کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ڈھلے ڈھلائے پرزہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ایک مادی مخلوق ہے اور اس کو دکھ اور مصیبت سے نکال کر بہتر انجام کی طرف لے جانے اور اس کو مستقل طو رپر تمام آفات و خطرات سے پاک کردینے کا کام بھی کسی مادی عمل ہی کے ذریعہ انجام پاسکتا ہے۔ یہ مادی عمل مارکس کے نزدیک معاشی پیداوار میں تبدیلی کا عمل ہے۔ وہ نظامِ پیداوار جو معلوم مدت سے انفرادی ملکیت پر مبنی چلا آرہا ہے اس کو بدل کر اجتماعی ملکیت کی شکل دے دینا یہی وہ عمل ہے جو انسان کو بدل دے گا۔ اس کوبد تر حالت سے بہتر حالت کی طرف لے جائے گا۔
تقاضے کے طور پر مارکس نے مسائلِ زندگی کے حل کے لیے جس تجویز کا حوالہ دیا تھا وہ بہت تیزی سے ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس حل کے پیچھے استدلال کی قوت اگر چہ وہی مادی فلسفہ تھا جو اوپر بیان کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ اس مادی فلسفہ سے الگ کر دینے کے بعد اس کے حل کے کوئی معنیٰ نہیں رہتے۔ مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ لوگوں نے دلیل کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ وہ غلط تھی مگر اس غلط دلیل سے جو نتیجہ برآمد ہوتا تھا اس نتیجہ کو قبول کر لیا۔
مارکس کا حل بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس حل کے پیچھے جو فلسفہ ہے اس نے لوگوں کو یقین دلادیا ہے کہ اس کا تجویز کیا ہوا حل ہی انسانیت کے مسائل کو درست کر سکتا ہے، صورت حال ا س کے بر عکس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی مثال ایک ایسے مریض کی ہے جو اپنی تکلیف دہ علالت سے اس قدر گھبرا اٹھا ہو کہ جو شخص بھی اسے ایک دوا بتادے وہ اس کا تجربہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ سوشلزم کی مقبولیت کا راز اس کے فلسفہ میںنہیں ہے، بلکہ دکھی انسانیت کی اپنی بے قراری اس کا سبب ہے۔ یہی وہ شگاف ہے جس کے راستہ سے یہ مکمل الحادی فلسفہ انسانی آبادی میں نفوذکر رہا ہے۔بڑے بڑے کمیونسٹ تک اس سے اسی حیثیت سے متاثر ہوئے ہیں، نہ کہ اس کے مادی فلسفہ پر ایمان لاکر اس کی طرف بڑھے ہیں۔ برٹرینڈرسل کے الفاظ میں ’’سوشلزم اور انارکزم کی اشاعت کا راز موجودہ انسانی دکھوں میں اس گہرے تعلق کی پیدائش ہے جس نے بے دست و پا مفکروں کی امیدوں کو سیاسی تحریکوں کا محرک بنایا۔ یہی سوشلزم اور انارکزم کی اہمیت کا راز ہے‘‘۔ ۱؎
امریکہ کا مشہور کمیونسٹ ادیب ہوورڈفاسٹ(Howard Fast) پچھلی چوتھائی صدی سے کمیونسٹ پارٹی کی صفوں میں عالمی شخصیت کا مالک سمجھاجاتاتھا۔ ۱۹۵۶ء کے آخر میں اس نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت سے استعفا دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں اپنے اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے وہ ایک مضمون میں لکھتا ہے
اوپر ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سوشلزم کا فلسفہ کس طرح اسلام کے فلسفہ سے متصادم ہے۔ خدا کے بغیر انسانی وجود اور اس کی زندگی کی تشریح کرنے کا یہ نظریہ بڑے دعوووں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنا بودا ا ور لغو تھا اور اس کے اندر اتنے تضادات تھے کہ فوراً ہی اس کا تارو پود بکھر گیا۔ جب اس کو عملی زندگی میں لایا گیا تو قدم قدم پر اس کی غلطیاں نمایاں ہونے لگیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے اصولوں کو حقیقی صورتحال پر منطبق کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے متن کی شرحیں لکھی جانے لگیں اور تاویلات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ مارکسزم کی تشریح و توضیح جو انگلس کے وقت سے شروع ہوئی تھی، اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو تشریح و توجیہ کے بجائے پوسٹ مارٹم کہنا زیادہ صحیح ہوگا کیونکہ اس نے اصل سوشلسٹ فلسفہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے، اور اس کو بدلتے بدلتے کچھ کا کچھ بنا ڈالا ہے۔
اب تک دنیا میں مذہب ہی ایک ایسا نظریہ تھا جو زندگی کے بارے میں ایک جامع تصور دیتا تھا، جو تمام واقعات اور موجودات کی تشریح کرتا تھا۔ مارکسزم تاریخ کی پہلی کوشش ہے جب کہ انسان نے مذہب کے تصور کو رد کرکے نئی بنیادوں پر زندگی کی تشریح کی اور اس کے بالمقابل ایک جامع فلسفہ مرتب کیا۔ اس سے پہلے بھی انسان مذہب کے پیش کیے ہوئے تصور سے انحراف کرتا تھا۔مگر یہ انحراف صرف ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہوتا تھا جس کے پیچھے دلیل کی کوئی قوت نہیں تھی۔ مارکسزم تاریخ کی پہلی کوشش ہے جب کہ انسان نے فلسفہ و استدلال کی بنیاد پر اپنے خدا سے انحراف کیا ہے۔ مگر یہ نظریہ خواہ اصل مارکسی شکل میںہو یا مارکس کے بعداس کے متبعین کی تعبیرات کی شکل میں، ہر حالت میں اتنا لغو ہے کہ کبھی بھی وہ انسانی ذہن کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ چنانچہ مسلمانوں نے بھی ( چند سر پھروں کو چھوڑ کر) اس نظریہ کو کبھی اس حیثیت سے تسلیم نہیں کیا کہ وہ انسانی زندگی کی صحیح اور بہتر تشریح کرتا ہے۔ ان کا اسلامی شعور اس اعتبار سے سوشلزم کو قبول کرنے میں ہمیشہ بہت بڑا مانع رہا ہے۔ مگر اس نظریہ کے لازمی
کچھ سخت اقدامات کیے تو اس سے اصل فلسفہ یا اس کے بانیوں کی غلطی کہاں ثابت ہوتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض فریب ہے۔ ایسا کہنے والے لوگ یا تو سوشلسٹ فلسفہ سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر دوسروں کو فریب دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے، مارکسزم ایک مکمل نظریہ ہے جو مذہبی تصورات کے عین بالمقابل کھڑا کیاگیا ہے۔ مذہب زندگی کے بنیادی سوالات کی ایک تشریح ہے۔ وہ زندگی کو حقیقی کامیابی تک پہنچانے کا ایک پروگرام ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے، وہی سارے واقعات کا حقیقی سبب ہے۔ اسی نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے کچھ اصول بھیجے ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو انسانی ارتقاء کی شاہراہ ہیں۔ جو ان اصولوں کو اپنی زندگی میں اختیار کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو انہیں ترک کردے گا وہ ناکام ہوگا۔
مارکسزم اس کے بالمقابل ان سوالات کی بالکل دوسری تشریح پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کی کامیابی کا ایک اور راز بتاتا ہے، وہ یہ کہ کائنات کے تمام واقعات کا آخری سبب مادی قوانین میں ہے۔ وہ صرف مادی حالت ہیں جنہوںنے انسان کو موجودہ شکل و صورت میں کھڑا کیا ہے اور پھر وہ مادی حالات ہی ہیں جو اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچائیں گے۔ یہاں کوئی خدا نہیں ہے جس کی مرضی کو پالینا کامیابی ہو ، نہ کوئی اصول ہیںجن کی پابندی کی جائے،بلکہ انسان کا اپنا مادی ماحول ہی وہ قوت ہے جو انسان کو سب کچھ بتاتاہے اور وہی تمام تصورات کا خالق ہے جو ایک خاص منطق کے مطابق، اس کو کامیابی کی منزل کی طرف لیے چلا جارہا ہے۔ وہ مادہ ہے جس نے انسان کو خلق کیا ہے، وہ مادہ ہے جو انسان کو زندہ رکھے ہوئے ہے، وہ مادہ ہے جو انسان کو زندگی کے صحیح اصول دیتا ہے اور وہ مادہ ہی ہے جو انسان کو اس کی آخری کامیابی تک پہنچادے گا۔ ایسے ایک نظریہ کو ماننے کے بعد خدا اور مذہب کا کیا سوال باقی رہتا ہے؟
کا جواب متعین کرنے کے بعد ہی ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہونا چاہئے وہ کیا ہے۔ اسلام ان سوالات کا ایک جواب دیتا ہے جس کے لازمی نتیجہ کے طور پرزندگی بعد موت کا تصور پیدا ہوتاہے۔ اسی طرح سوشلزم ان سوالات کا جواب دیتا ہے جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اس کا معاشی تصور سامنے آتا ہے۔ ایک اس کا فلسفہ ہے۔ دوسرا اس کا عملی نظام، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
جو لوگ مذہبی نظریات کے ساتھ سوشلزم کے اصل فرق کو نہیں سمجھتے وہ عموماً اس غلط فہمی میںپڑ جاتے ہیں کہ مذہب کے ساتھ سوشلزم کا اختلاف شاید ان اقوال سے ظاہر ہوتا ہے جو مارکس او راس کے متبعین کی طرف منسوب ہیں۔مثلاً ’’ مذہب عوام کی افیون ہے۔ خدا اور بادشاہ دو بھوت ہیں‘‘ یا پھر اس اختلاف کا ثبوت وہ واقعات ہیں جوکمیونسٹ ملکوں میں پیش آئے۔ یعنی مسجدوں اور گرجاؤں کو کلب گھر بنا دینا، مذہبی اوقاف کو ضبط کر لینا، اہل مذاہب کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا، مذہبی تعلیم اور مذہبی شعائر کاخاتمہ کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
اسی لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اقوال اگر چہ بہت سخت ہیں اور مذہب کے خلاف جوکارروائیاں کی گئیںوہ بھی بڑی ظالمانہ ہیں، مگر ان کا تعلق سوشلسٹ فلسفہ سے نہیں ہے۔جہاں تک اقوال کا معاملہ ہے، اس میں شک نہیں کہ ان میں خدا اورتمام مذہبی تصورات پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ مگر یہ تمام اقوال در اصل اس بگڑے ہوئے مذہبی نظام سے متعلق ہیں جو مارکس اوردوسرے اشتراکی مفکروں کے سامنے موجود تھا۔ یہ اقوال در اصل پاپائی نظام پر چسپاں ہوتے ہیں،نہ کہ صحیح مذہب پر۔ ان اقوال سے اگر قطع نظر کیا جائے تواسلامی نقطۂ نظر سے مارکسی فلسفہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اسی طرح اشتراکی ممالک میںمذہب والوں پر جو مظالم کیے گیے ہیں ان کی بھی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے جتنی بظاہرنظر آتی ہے۔ان واقعات کی ذمہ داری کچھ تو اہلِ مذاہب پر ہے جو مذہب کی صحیح تعلیمات سے ہٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے غلط اور دقیانوسی طرزِ عمل سے خود ہی اپنا وقار کھو دیا۔ اس لیے ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا ایک لحاظ سے وہ اسی کے مستحق تھے اور کچھ ذمہ داری ان واقعات کی ان حکمرانوں پر ہے جن کو کمیونسٹ نظام کا سر براہ کار بنایا گیا تھا۔ پھر بعض اشخاص نے اگر مشتعل ہو کر مذہب کے خلاف
’’مارکسزم ، مادیت کا دوسرا نام ہے اوراس لیے یہ مذہب کی ویسی ہی سخت دشمن ہے جیسی اٹھارہویں صدی کی عام مادیت یا فیور باخ کی مادیت تھی۔ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ مگر مارکس اور انگلس کی ’’جدلی مادیت ‘‘فیور باخ اور اٹھارہویں صدی کے دوسرے مادہ پرستوں سے آگے جاتی ہے،یہ مادی فلسفہ کو تاریخ اور عمرانیات پر استعمال کرتی ہے‘‘۔۱؎
یعنی مارکس کا فلسفہ اور اس کی خدا بے زاری دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیںکہ کوئی شخص خدا کے بارے میں ان اقوال کو اس کا ایک نجی معاملہ قرار دے کر اس فلسفے کو قبول کرے، بلکہ انکارِ خدا ہی پر اس کے سارے فلسفہ کی بنیاد ہے۔ یہ ایک وحدت کے دورخ ہیں۔ مارکس نے مادی طرز فکر کو سماجی مسائل کا مطالعہ کرنے اور اس کا حل ڈھونڈھنے میں استعمال کیا ہے جس کے معنٰی یہ ہیں کہ اس دنیا کا نہ تو کوئی خدا ہی ہے او رنہ وہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ مارکس الگ سے خداکا انکار نہیںکرتا بلکہ اس نے جو فلسفہ مرتب کیا ہے، خوداس کے لازمی تقاضے کے طور پر خدا اور مذہب بالکل بے معنیٰ ہو جاتے ہیں۔
سوشلزم اور اسلام کے فرق کو نہ سمجھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سوشلزم کو عام طو رپر صرف ایک معاشی نظریہ سمجھاجاتاہے۔ اس تعبیر میں صداقت کا ایک جزء ہے۔ مگر حقیقتہً یہ ایک ناقص تعبیر ہے۔ سوشلزم زندگی کا ایک جامع تصور ہے، جس طرح اسلام زندگی کا ایک جامع تصور ہے۔ اسلام کے بارے میں جس طرح یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ وہ زندگی بعد موت کا ایک نظریہ ہے اسی طرح سوشلزم کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ صرف ایک معاشی نظریہ ہے۔زندگی کا معاشی یا سیاسی نظریہ بجائے خود کچھ نہیں کرتا ۔ وہ در اصل اس بنیادی تصور کا عکس ہوتا ہے جو زندگی کے بارے میں طے کیا جاتا ہے۔ ہم کیا ہیں اور یہ کائنات کیا ہیـــیہ ہماری زندگی کے بنیادی سوالات ہیں۔ ان سوالات کاجو جواب ہوگا اسی کی مناسبت سے زندگی کے سیاسی اور تمدنی نقشے بنائے جائیں گے۔ جو کچھ ہے وہ کیوں ہے؟ اس سوال
اپنے پورے شعور کے ساتھ اپنی تاریخ آپ بنائیں گے۔ صرف اسی مرحلہ پر پہنچ کر انسان کے حرکت میں لائے ہوئے مجلسی اسباب انسان کی اپنی مرضی کے مطابق، نتائج پیدا کریں گے ۔ انسان احتیاج کی دنیا سے نکل کر اختیار کی دنیا میں داخل ہو جائے گا۔‘‘۱؎
یہ اشتراکی فلسفہ کاتیسرا جزء ہے جو اسلام کی ساری حیثیت کو ختم کر دیتا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام زندگی کی شاہراہ ہے۔ وہ انسان کو حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ مگر یہ نظریہ بتاتا ہے کہ زندگی کے سفر میں اسلام کی کوئی حیثیت نہیں، وہ انسان کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ جو چیز ہمیں اپنی منزل تک پہنچاتی ہے وہ دولت کی پیداوار کا ایک خاص نظام ہے جو تاریخی اسباب کے تحت وجود میں آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کی کامیابی کا راز کسی وحی خداوندی میں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے اسباب خود ہمارے سماجی حالات میں موجود ہیں اور مستقل طور پر اپنا کام کررہے ہیں۔ جو کامیاب زندگی ہم چاہتے ہیں وہ انہی حالات کے اندر سے ایک روز بر آمد ہو گی نہ کہ قانون پر عمل کرنے سے حاصل ہوگی۔
اوپر ہم نے مارکسی فلسفہ کا جو تجزیہ کیا ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مارکسزم اسلام کے بالمقابل اس کا ایک برعکس نظریہ ہے جس پر ایمان لانے کے بعد اسلام کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم ۱؎ ایک مکمل غیر اسلامی نظریہ ہے جس کو اختیار کرنا ایمان و اسلام سے دستبردار ہونے کے ہم معنٰی ہے۔ چنانچہ فریڈرش انگلس نے’’تاریخی مادیت ‘‘ کے نظریہ پر بحث کرتے ہوئے ۱۸۹۲ میں کہا تھا
’’ اس عالم کے ارتقائی وجود میںآج کسی بادشاہ کسی خدا کے لیے مطلق کوئی جگہ باقی نہیں ہے اور کسی ایسی ہستیٔ اعلیٰ (supreme being) کا تصور کرنا جو اس عالم موجودات سے الگ تھلگ ہو، اپنے اندر ایک عظیم اصطلاحی تضاد رکھتا ہے‘‘۔۲؎
لمبے معاشی سفر کے بعد انسانی تاریخ ایک ایسے مقام پر پہنچی ہے کہ ’’ذرائع پیداوار پرپوری سوسائٹی کا قبضہ ہو جائے ، لکھتا ہے
’’…یہ امکان کہ اجتماعی پیداوار کی بدولت سوسائٹی کا ہر فرد ایسی زندگی بسر کرے کہ نہ صرف اس کی مادی ضروریات بخوبی پوری ہونے لگیں بلکہ ان کے لیے اس بات کی بھی ضمانت ہو کہ ہر فرد اپنی ذہنی او رجسمانی صلاحیتوں کو پوری آزادی کے ساتھ ترقی دے سکے، پہلی بار پیداہوا ہے۔ جب ذرائع پیداوار پر سوسائٹی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو پھر اجناسِ تبادلہ کی پیداوار بھی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی پیداوار کا اس کے پیدا کرنے والوں پر غلبہ بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ پیداوار کی انار کی ختم ہو کر اس کی جگہ پیداوار کی ہوش مندانہ تنظیم شروع ہو جاتی ہے، انفرادی بقاء کے لیے کش مکش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس وقت انسان پہلی بار حقیقی معنوں میں بقیہ حیوانی دنیا سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جاتا ہے اورزندگی کے خالص حیوانی دور سے نجات پاکرایک حقیقی انسانی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ زندگی کا وہ پورا ماحول جو اب تک اس کا احاطہ کئے ہوئے تھا اور جو اب تک انسان پر حکومت کرتا تھا، اب انسان کے ماتحت ہوگا۔ انسان پہلی مرتبہ فطرت کا باشعور آقا بنے گا،کیونکہ وہ اپنی مجلسی تنظیم کا آقا بن چکا ہوگا۔ انسان کی اپنی مجلسی سرگرمیوں کے قوانین جو اب تک خارجی فطرت کے قوانین کی طرح اس کے بالمقابل تھے اور اس پر حکومت کرتے تھے، اس وقت پورے شعور کے ساتھ استعمال کیے جائیں گے او رانسان کا ان پر قبضہ ہو چکا ہوگا۔ انسان کی اپنی مجلسی تنظیم جس سے وہ اب تک اس حیثیت سے دوچار تھا گویا یہ ایک جبری حالت ہے جو قدرت او رتاریخ کی طرف سے اس کے اوپر عائد کر دی گئی ہے، اب اس کا اپنا اختیاری معاملہ بن جائے گی۔ وہ خارجی قوتیں جو اب تک تاریخ پر غالب تھیں، انسان کے اپنے تصرف میں آجائیں گی ۔صرف اسی مرحلہ پر پہنچ کر انسان
یہ سوشلسٹ فلسفہ کا دوسرا جزء ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اندر ممکن ہے کچھ صداقت ہو مگر یہ صداقت کوئی ابدی صداقت نہیں ہے۔ اس کی جو کچھ بھی قدرو قیمت قرار دی جائے وہ محض وقتی قدرو قیمت ہوگی جو اپنے زمانہ کے لیے تھی اور اس زمانہ کے ختم ہونے کے ساتھ اس کی یہ قدر وقیمت بھی ختم ہوچکی ہے۔ بعد کے زمانوں میں اسلام کو پیش کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اینٹ اور سیمنٹ کے موجودہ دور میں کوئی شخص بھٹ کے اندر زندگی گزارنے پر اصرار کرے۔
یہ نظریہ صرف انہی حیثیتوں سے دینِ حق کے ساتھ نہیں ٹکراتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ شریعت الٰہی کی ضرور ت ہی کا انکار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک نہ تو اس کائنات کا کوئی خدا ہے اور نہ اس کی ضرورت کہ آدمی اس سے ہدایت حاصل کرے۔ اس نظریہ کو تسلیم کرنے کے بعد انسانیت کی تکمیل اور زندگی کو کامیابی تک لے جانے میں کسی مابعد الطبیعی نظریہ کا کوئی کام باقی نہیں رہتا ۔ ہمارا ایمان ہے کہ انسان حقیقت تک اس کے بغیر نہیں پہنچ سکتا کہ وہ شریعت الٰہی اور رسولِ خدا کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا رہنما بنائے۔ مگر مارکسی تشریح کے مطابق، انسان کو اپنی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لیے اس طرح کے کسی ہدایت نامہ کی سر ے سے ضرورت نہیں، کیوں کہ وہ ایک مادی عمل کے ذریعہ خود ہی کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔ وہ کسی خالق اور رب کے بغیر مادی اسباب کے ذریعہ خود بخود انسانی شکل میںمجسم ہوا تھا اور اب معاشی عمل کے ذریعہ ایک ایسے مستقبل کی طرف سر گرم سفر ہے جہاں اس کی تکمیل ہو جائے گی، جہاں اسے وہ سب کچھ مل جائے گا جو وہ چاہتا ہے ۔ گویا ڈارون کے نظریۂ ارتقاء نے خدا کے وجود سے انکار کیا تھا اور مارکسی فلسفہ وحی ورسالت کی ضرورت سے انکار کر رہا ہے۔ ایک نے خدا کو بے ضرورت ثابت کیا اور دوسرے نے خدا کے رسول کو۔ بلکہ ایک لحاظ سے مارکسزم ان دونوں نظریات کا مجموعہ ہے، کیوں کہ وہ ڈارون کے ذریعہ کو تسلیم کرتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر اس کے اوپر اپنے نظریہ کی اگلی منزل تعمیر کرتا ہے اور اس کو زیادہ مکمل بنا دیتاہے۔ مارکس کا رفیقِ کار فریڈرش انگلس اپنی کتاب ’’ سوشلزم ۔ یوٹوپین اینڈ سائنٹیفک‘‘ میں یہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح
عقیدہ کو دائمی صداقت کے طور پر مسلط کرنا ہوــــ آخری اور ہمیشہ باقی رہنے والا اخلاقی قانون۔ اس حیلہ سے کہ (عالم مادی کی طرح) اخلاقی دنیا بھی اپنے مستقل اصول رکھتی ہے جو تمام قوموں میں اور تاریخ کے ہر دو رمیں یکساں حیثیت سے موجود رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اب تک کے تمام اخلاقی نظریے، اپنے آخری تجزیہ میں وقت کے اقتصادی حالات کی پیداوار رہے ہیں،اور چونکہ سوسائٹی اب تک طبقاتی اختلاف کی طر ف حرکت کرتی رہی ہے اس لیے اب تک کے تمام اخلاق بھی طبقاتی اخلاق رہے ہیں، اس میں وہ اخلاق بھی شامل ہے جو بر سر اقتدار طبقہ کے تسلط اور اس کے مفاد کو جائز قرار دیتا ہے اور وہ اخلاق بھی جو دبے ہوئے طبقہ کے برسر اقتدار آنے تک موجودہ تسلط کے خلاف اس کی برہمی اور مستقبل میں اس کے مفاد کا اظہار کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران میں اخلاقیات کا مجموعی طور پر ارتقاء ہورہا ہے۔ جیسا کہ دوسرے انسانی علوم میں ارتقاء ہو رہا ہے۔ مگر ابھی تک ہم طبقاتی اخلاق کی حدوں سے پار نہیں ہو سکے ہیں۔ ایک حقیقی انسانی اخلاق جو طبقاتی خصومت سے بلند ہو اور اس کے تذکرہ تک سے پاک ہو، اسی وقت ممکن ہوگا جب سوسائٹی ایسے مقام کو پہنچ جائے گی جہاں نہ صرف یہ کہ طبقاتی تضاد ختم ہوچکا ہوگا بلکہ عملی زندگی میں بھی وہ بالکل اسے بھلادے گی۔ جو یہ کہتا ہے کہ ایسا بھی اخلاق ہو سکتا ہے جو وقت اور تبدیلی سے آزاد ہو اور ہر زمانہ میں جس کی تعمیل ضروری ہو، وہ ایک فرضی دعویٰ کرتا ہے کیوں کہ آج کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ مستقبل کا سماجی ڈھانچہ کس قسم کا ہوگا‘‘۔۱؎
ایسے اصول ہوسکتے ہیںجو تاریخ کے کسی مخصوص دور میں انسان کی رہبری کا کام دیں۔ لیکن ان کا کام ایک متعین زمانہ کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہ اصول کسی کام کے نہیں رہتے کیوں کہ بعد کے دور میں جب سماجی حالات بدل جاتے ہیں ،اس وقت ان اصولوں میںبھی صداقت باقی نہیں رہتی جو قدیم سماجی حالات میں پیدا ہوئے تھے۔اس نظریہ کے مطابق، اسلام کا زیادہ سے زیادہ اعتراف یہ ہے کہ اس کو ایک تاریخی چیز مان لیا جائے جو صدیوں پہلے انسانی ترقی کے ایک قدیم دور کی پیداوار تھا، جس کی قدرو قیمت اپنے تاریخی دور کے لیے خواہ کچھ ہو مگر انسانی تہذیب ترقی کرتے کرتے اب جس دور تک پہنچی ہے اس میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسانیت کی تکمیل کے لیے اب اس سے روشنی حاصل کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہ جس دورِ تہذیب کی پیداوار ہے اس وقت تک ابھی انسانیت کی تکمیل ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو سفر ارتقاء کے ابتدائی زمانہ کی یادگار ہے، نہ کہ دورِ تکمیل کی پیداوار ـــــپھر آج کی دنیا میں ایسے کسی نظریہ سے رہنمائی حاصل کرنے کا کیا سوال ہے۔ ماضی کے نظریات ، حال کے لیے بے کار ہیں اور حال کے نظریات مستقبل کے لیے بے کار ہوں گے۔ اسلام بھی اپنی قسم کے دوسرے نظریات کی طرح انسان کی عمرانی تاریخ کا ایک باب تھا جو اپنا وظیفہ ٔ حیات پورا کرنے کے بعد ختم ہوچکا ہے‘‘۔
انگلس نے اپنی کتاب ’’اینٹی ڈیورنگ‘‘ کے ایک باب میں دائمی صداقت (eternal truths) کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تمام انسانوں کے نزدیک اخلاق کا کبھی ایک معیار نہیں رہاہے۔‘‘ جب ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے موجودہ سماج کے تین طبقے جاگیر دار ، امراء ، بورژوا اور پرولتاریہ سب اپنا ایک ضابطۂ اخلاق رکھتے ہیں تو ہم صرف اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے اخلاقی نظریئے ، اپنے عملی تعلقات سے اخذ کرتے ہیں جن پر ان کا طبقاتی وجود قائم ہے۔یعنی ان اقتصادی تعلقات سے جن کے اندر وہ پیداوار اور تبادلے کا نظام قائم کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے
اس لیے ہم ہر ایسی کوشش کی تردید کرتے ہیں جس کا مقصد ہمارے اوپر کسی بھی اخلاقی
ضرورت ہے۔ خدا اس قسم کا اتحاد پیدا نہیں کر سکتا۔ یہ اتحادصرف کارخانوں اور صنعت گاہوں کے ذریعہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو صرف پرولتاری طبقہ پیدا کر سکتا ہے جو تربیت یافتہ ہے اور جو لمبے خواب سے جاگ اٹھا ہے…صرف یہی طبقہ محنت کش عوام کو منظم کر سکتا ہے، ان کی صف بندی کر سکتا ہے، قطعیت کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے، پوری طرح مستحکم ہو سکتا ہے اور یقینی طور پر کمیونسٹ سماج کی تعمیر کر سکتا ہے۔
یہ سبب ہے جس کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ انسانی سماج سے باہر اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہ ایک فریب ہے، ہمارااخلاق وہ ہے جو پرولتاریہ کی طبقاتی جد وجہد کے تابع ہو‘‘۔۱؎
اسی طرح سوشلسٹ فلسفہ مذہب کی اس حیثیت کو رد کرتا ہے کہ وہ انسان کو حق و صداقت پر قائم کرنے کی صراطِ مستقیم ہے۔ اس کے نزدیک یہ مظلوم طبقات کے خلاف ظالم طبقہ کی ایک سازش ہے۔ یہ ظلم اور استحصال کے نظام کو باقی رکھنے کی ایک مکروہ کوشش ہے جو حق و صداقت کے نام سے شروع کی گئی ہے۔ مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دائمی صداقت ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی ، جو ہر زمانہ کے انسانوں کے لیے یکساں حیثیت سے ضروری ہے۔ مگر مارکسی فلسفہ اس کے برعکس ایسے کسی اصول کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ انسانی تاریخ کو مختلف تاریخی ادوار میں تقسیم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی زندگی میںکسی دائمی صداقت کا کوئی سوال ہی نہیں کیوںکہ تمام اصول اور فلسفے کسی مخصوص اقتصادی دور کے تحت پیدا ہوتے ہیںاور جب کوئی اقتصادی دور ہمیشہ کے لیے نہیںہوتا تو اس کے تحت پیدا شدہ فلسفے کس طرح ہمیشہ کے لیے ہوسکتے ہیں۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مذہب و اخلاق کا درس محض اضافی نوعیت رکھتا ہے جو ہمیشہ وقت کے معاشی حالات کے تابع رہا ہے۔ تمام اصول و تصورات کسی مخصوص معاشی نظام کی حمایت کے لیے وجود میں آتے ہیں اور اس معاشی نظام کے بدلنے کے ساتھ خود بھی بدل جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں دائمی صداقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
’’قانون ، اخلاق، مذہب، سب بورژوا کی فریب کاری ہے جس کی آڑ میں اس کے بہت سے مفادات چھپے ہوئے ہیں۱؎۔‘‘
مذہب سارے انسانوں کو خلق اللہ قرار دیتا ہے، وہ سب کو ایک حیثیت دینا چاہتا ہے۔ مگر مارکسی فلسفہ کے مطابق، جب سماج میں ظالم اور مظلوم دو طبقات موجود ہوں ،جیسا کہ وہ ہمیشہ موجود رہے ہیںـــــایسی حالت میں سب کو ایک حیثیت دینے کی کوشش کرنا مظلوم کے مقابلہ میں ظالم کی مدد کرنا ہے۔ اس لیے ایسی تمام اخلاقیات جانب داری کی اخلاقیات ہیں۔ صحیح انسانی اخلاق وہ ہے جو صرف مظلوم طبقہ کی حمایت کرتا ہے۔اس تصور کے مطابق، مارکسزم تمام مذہبی اور اخلاقی نظریات کا انکار کرتی ہے اور ان کو صرف بورژوا کی مکاری قرار دیتی ہے۔ نوجوان کمیونسٹ لیگ کی تیسری کل روس کانگرس منعقدہ ۲؍اکتوبر ۱۹۲۰ میں لینن نے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’کمیونسٹ اخلاق کو نہیں مانتے‘‘ کہا
’’ہم کن معنوں میں اخلاقیات کے منکر ہیں، ان معنوں میں کہ وہ بورژوا طبقہ کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں، جو اخلاقی اصول کو خدا کے احکام و ہدایات سے اخذ کرتا ہے۔ یقینا ہم خدا کو نہیں مانتے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ اربابِ کلیسا ، زمین دار اور بورژوا طبقہ جو خدا کے حوالہ سے کلام کرتے ہیں وہ محض استحصال کرنے والے کی حیثیت سے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں…ہم ایسے تمام اخلاقی ضابطوں کا انکار کرتے ہیں جو انسانوں سے ماورا کسی مافوق طاقت سے اخذ کیے گئے ہوں یا طبقاتی تصور پر مبنی نہ ہوں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک دھوکا ہے ، ایک فریب ہے، زمین داروں اور سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے مزدوروں اور کسانوں کی فکر پر پردہ ڈالنا (befogging of the minds) ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ضابطۂ اخلاق تمام تر صرف پرولتاریہ کی طبقاتی جد و جہد کے تابع ہے۔ہمارے اخلاقی اصول کا مأخذ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کا مفاد ہے۔
پرانا سماج زمینداروںاور سرمایہ داروں کی طرف سے مزدوروں اور کسانوں کی لوٹ پر قائم تھا۔ ہمیں اس کو تباہ کرنا ہے، ہمیں اس نظام کا تختہ الٹنا ہے، مگر اس کے لیے ہمیںا تحاد پیدا کرنے کی
میں مسئلۂ انسان کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے۔ وہ ان واقعات کو نفسیات کا موضوع نہیں بناتا بلکہ فلسفہ کا موضوع بناتا ہے۔ وہ انہی معمولی چیزوں کو لے کر ان سوالات کا جواب دینا شروع کر دیتا ہے کہ انسان کیا ہے، پوری کائنات کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے، اس کے لیے قانون زندگی کا ماخذ کیا ہونا چاہئے ، انسانیت کی تکمیل اور آخر ی کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم مارکسز م کو غلط سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مارکسی تجزیہ کی بہت سی چیزیں جو بظاہر جزوی صداقتوں کی حامل نظر آتی ہیں، وہ بھی مارکسی فلسفہ کے چوکھٹے میں بے معنیٰ ہو جاتی ہیں اور اپنی اصل حیثیت میں ان کا کوئی وزن باقی نہیں رہتا ۔
اس حیثیت سے دیکھئے تو یہ نظریہ کھلا ہوا اسلامی نظریہ کی ضد ہے۔ اس نظریہ کو ماننے کے معنٰی لازمی طو رپر یہ ہیں کہ
۱۔ انبیاء علیہم السلام کی رہنمائی میں اٹھنے والی تحریکیں صرف معاشی محرکات کا نتیجہ قرار پائیں۔ گویا ان کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ وہ خدا کے بندوں کوخدا کی مرضی کا علم دینا چاہتی تھیں، جس علم کی معرفت اور اس کے عمل پر انسانی مستقبل کا انحصار ہے بلکہ یہ تمام تحریکیں وقت کے معاشی حالات کی پیداوار تھیں۔ ان نفوسِ قدسیہ نے اپنے وقت کے غلط کار لوگوں سے جو مقابلہ کیا اس کی حیثیت حق و باطل کی جنگ کی نہیں تھی بلکہ یہ تاریخ کی ان طبقاتی لڑائیوں کے سلسلہ کی کڑیاں تھیں جو انسانی سماج کی ابتداء سے زمین پرچلی آرہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ خدا کا پیغام پہنچانے کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ محض اپنے معاشی مفاد اور خود غرضانہ مقاصد کے حصول کی کوششیں تھیں ۔چند افراد نے اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے وحی ورسالت کا ڈھونگ کھڑا کر لیا تھا۔ چنانچہ مارکس اور انگلس کے کمیونسٹ مینی فسٹو میں کہا گیا ہے
پچھلی تاریخ میں بھی اس طرح کی طبقاتی جنگیں ہوتی رہی ہیں جو انسان کو حقیقت سے قریب کرتی رہی ہیں۔ اب یہ جنگ آخر ی طور پر انسان کو حقیقت تک پہنچا دے گی۔ پہلے آدمی بالکل الگ الگ اپنی ذاتی محنت سے کام کرتا تھا۔ پھر انقلاب آیا اور ابتدائی تعاون کی شکلیں پیدا ہوئیں ۔ اس کے بعد مزید تبدیلی ہوئی اور کارخانہ داری شروع ہوئی اور اب انسان بڑے پیمانہ کی انڈسٹری کے آخری دور میں پہنچ گیا ہے۔ اس آخری انقلاب نے یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ پیداوار حاصل کرنے کے ذرائع انفرادی قبضہ سے نکل کر سارے سماج کے قبضہ میں چلے جائیں۔ اس طرح وہ چھین جھپٹ خود بخود ختم ہو جائے گی جو مالک او رغیر مالک کے درمیان تھی۔ قانون کے وہ مظالم بھی ختم ہوجائیں گے جو ملکیتی طبقہ کی طرف سے محروم طبقہ پر کیے جارہے تھے۔ غرض اس معاشی نظام کی غلامی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی جو سماج کو دو طبقوں میں تقسیم کیے ہوئے تھا ، جو ساری مصیبتوں کا اصل سبب تھا۔ انسان مستقل کشا کش سے نکل کر ابدی آرام کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔ انفرادی ملکیت کے طریقے نے جو مادی ماحول پیدا کیا تھا اس میں کچھ لوگوں کو اپنی ملکیت کی حفاظت کرنی ہوتی تھی، اس لیے خود غرضی کا تصور پیدا ہوتا تھا۔ کچھ طاقت ور تھے اور کچھ لوگ کمزور ، اس لیے بے بسی اور محرومی کا تصور پیدا ہوتا تھا۔ ایک طرف ظلم تھا اور دوسری طرف مظلومیت ، اس لیے چھین جھپٹ اور کش مکش پیدا ہوتی تھی۔ اجتماعی ملکیت کے نظام میںیہ مادی ماحو ل بالکل بدل جائے گا، اس لیے اس قسم کے تصورات کی پیدائش بھی ختم ہوجائے گی۔ انسان باہمی تعاون اور سکون و اطمینان کی ایک نئی فضا میں سانس لینے لگے گا۔‘‘
مارکس کا یہ نظریہ جو ہم نے اوپر بیان کیا ، صداقت کے بعض اجزاء سے خالی نہیں ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ انسان اپنی معاشی زندگی او روقت کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنے ماحول کے خلاف سوچنا اس کے لیے دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف انسانوں اور مختلف گروہوں کے مفاد میں بعض اوقات تضاد پیدا ہو جاتا ہے اور وہ باہم ٹکرا جاتے ہیں۔ یہ باتیں کوئی نئی اور انوکھی باتیںنہیں ہیں۔ اگر مارکس صرف اسی قدر کہتا تو اس میں کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔ مگر جو چیز محض انسان کی عادت یا اتفاقی حالات سے تعلق رکھتی ہے اسی کو وہ انسان کی اصل حیثیت قرار دیتا ہے اور اسی کی روشنی
تبدیلی ہوئی ۔ ایک شخص سارے کام کرنے کی جگہ صرف ایک ہی مخصوص کام کرنے لگا۔ اب جو جنس مثلاً سوت ، کپڑا، اور دھات کی چیزیں فیکٹر ی سے بن کر نکلتی ہیں وہ مزدوروں کی مشترک محنت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔کیونکہ انہیں تیار کیے جانے میں مختلف مزدوروں کے ہاتھ سے گذرنا پڑتا ہے۔ ان اجناس کے بارے میں اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو تنہا اسی نے بنایا ہے۔ اس طرح انقلاب نے پیداوار کو انفرادی نوعیت سے نکال کر اجتماعی نوعیت دے دی ہے۔
دوسری طرف اس انقلاب نے سماج کو ایک بہت بڑے تضاد میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب تک یہ تھا کہ آلاتِ محنت کا مالک ہی پیداوار کا مالک ہوتا تھا، کیوں کہ وہ اس کی محنت کا حاصل ہوتا ـ تھا۔ لیکن نئے حالات میں بھی آلاتِ محنت کا مالک اس کے حاصل کا مالک بنا ہوا ہے۔ حالانکہ اب وہ اس کی محنت کا حاصل نہیں رہا۔بلکہ دوسروں کی محنت کا حاصل بن گیاہے۔ پیداوار اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتماعی ہو چکی ہے مگر ملکیت کا وہی انفرادی طریقہ اب بھی رائج ہے جو پہلے تھا۔ پیداوار اور اس کی تقسیم کے اسی تضاد میں انسانیت کے تمام مسائل کا حل چھپا ہوا ہے۔ مشینی ترقی سے یہ تضاد بڑھتا جائے گا اور بالآخر یہ ہوگا کہ محنت کش طبقہ جو پیداوار تیار کرتا ہے مگر پیداوار کا مالک نہیں ہے، وہ سرمایہ دار طبقہ کے خلاف بغاوت کر دے گا جو پیداوار کا مالک بن گیاہے حالانکہ پیداوار کو تیار کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ تاریخ میں اس سے پہلے بھی اس طرح کے تضادات ہوتے رہے ہیں مگر اس سے پہلے یہ تضاد کبھی اتنا واضح اور نمایاں نہیں ہوا تھا۔ اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ذرائع پیداوار افراد کے ہاتھ سے نکل کر ان لوگوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے جو ان پر محنت کرتے ہیں، جو ان کے حقیقی مالک ہیں۔ اس طرح ذرائع پیداوار پر سماج کا قبضہ ہو جائے گا ۔ اس تبدیلی سے وہ تمام اصول اور قوانین بھی بدل جائیں گے جو ملکیتی طبقہ کی حفاظت کے لئے پچھلی تاریخ میں گھڑے جاتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پولیس اور فوج بھی ختم ہو جائے گی جو صرف اس لیے وجود میں آئی تھی کہ ملکیتی طبقہ کے مفاد کا تحفظ کرے ۔ جب سب مالک ہوجائیں گے تو سب کی حیثیت یکساں ہوگی، پھر کون کس کے خلاف تحفظ چاہے گا، کون کس پر زیادتی کرے گا۔
نے انفرادی ملکیت کا تصور پیدا کیا۔ کیوں کہ اس وقت واضح طور پر معلوم ہو سکتا تھا کہ کون سی چیز کس کی ہے اور کس نے کس چیز کی تیار ی میں کتنی محنت صرف کی ہے۔ اسی انفرادی قبضہ سے وہ تمام تصورات پیدا ہوئے جن کو مذہب اور اخلاق کہا جاتا ہے۔ یعنی خدا اور تقدیر پر یقین ، تاکہ جو جس کے پاس ہے وہ اسی کا سمجھا جائے۔ ایک دوسرے کے مال و املاک کا احترام تا کہ ایک شخص کی دولت دوسرا چھیننے کی کوشش نہ کرے۔ شادی ، خاندان اور عزیز و اقارب کے حقوق کا تصور تا کہ ایک مرتبہ جس کے پاس جو کچھ آگیا ہے وہ وراثت اور ایتاء حقوق کے ذریعہ اسی خاندان میں باقی رہے۔ گویا یہ تمام اخلاقی تصورات جو پیدا ہوئے وہ بذاتِ خود کوئی چیزنہ تھے اور نہ خارج سے کسی نے ان کو اصول کے طور پر بھیجا تھا۔ یہ انسانی ذہن میں ان معاشی حالات کا عکس تھے جو بالفعل سماج کے اندر موجود تھے اور جن سے صرف مالکوں کے طبقہ کا فائدہ ہو سکتا تھا۔ سماج کے اندر دو طبقات ، مالک اور غیر مالک کی تقسیم اور مالک کا یہ چاہنا کہ جو کچھ اسے مل گیا ہے وہ اسی کے پاس رہے۔ یہی وہ حالات تھے جنہوں نے مذہب و اخلاق کو جنم دیا،جو جان و مال کے احترام کا سبق دیتے ہیں اور اسی نے قانون و ریاست کو وجود دیا، جس کا کام یہ ہے کہ پولیس اور عدالت کے ذریعہ ملکیتی طبقہ کا تحفظ کریں۔ یہی مالک اور غیر مالک کی تقسیم وہ بنیادی خرابی ہے جو انسانیت کو نامعلوم زمانہ سے جنگ ، بد امنی اور افلاس میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ یہی وہ تمام مصیبتوں کی جڑ ہے۔
لیکن مشینی انقلاب نے ان مادی حالات کو بدل دیا ہے جن میں اب تک انسان جکڑا ہوا تھا۔ اس انقلاب نے محدود ذرائع پیداوارکو ترقی دے کر اس کو بڑی پیدا آور قوتوں میں تبدیل کر دیا۔ اب کسی چیز کو تیار کرنے میں صرف ایک شخص کا ہاتھ کا م نہیں کرتا، بلکہ مشینوں کی مدد سے بے شمار آدمی مل کر ایک چیز تیار کرتے ہیں ۔ جولا ہے کے کر گھے اور چرخے کی جگہ سوت کاتنے اور کپڑا بننے کی بڑی بڑی مشینوں نے لے لی ، لوہار کے ہتھوڑے کی جگہ بھاپ سے چلنے والے مشینی ہتھوڑے استعمال ہونے لگے ۔ کاریگروں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے بدلے بڑی بڑی فیکٹریاں قائم ہوگئیں جہاں ہزاروں مزدوروں کا ایک ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہو گیا۔ ذرائع پیداوار کی طرح خود پیداوار میں بھی نمایاں
پیداوار کے تمام تاریخی طریقے یعنی ایشیائی، قدیم جاگیری اور موجودہ بورژوا پیداواری طریقے،یہ سب سماج کے اقتصادی نظام کی ترقی کے دور میں بورژوا پیداواری تعلقات، پیداوار کے سماجی عمل میں آخری متخاصم تعلقات ہیں۔ متخاصم انفرادی معنوں میں نہیں بلکہ ان تعلقات کی ایسی خصوصیتیں جو کہ سماجی زندگی کے حالات کی پیداوار ہیں، لیکن یہ پیداواری طاقتیں جو بورژوا سماج کے بطن میں پرورش پارہی تھیں، بیک وقت ان مادی حالات کو بھی وجود میں لارہی ہیں جن کے ذریعہ سے یہ کشاکش دور ہو جائے گی اور اس طرح اس سماجی نظام کے ساتھ انسانی سماج کا ماقبل تاریخی دور (prehistoric age) بھی ختم ہو جائے گا۱؎۔‘‘
اس مارکسی فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ صنعت و زراعت وغیرہ جن سے انسان اپنے لیے کھانا کپڑا اور دوسری چیز حاصل کرتا ہے، ان کی حیثیت محض ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے ذریعہ کی نہیں ہے بلکہ انہی سے انسانی شعور کی تربیت ہوتی ہے، اور یہی زندگی کے تمام شعبوں کو ایک مخصوص شکل عطا کرتے ہیں۔ پیداوار حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں وہ اپنی پیداوار خود بخود انسان کی طرف منتقل نہیں کر دیتے بلکہ کچھ اوزار ہوتے ہیں جن کو لے کر آدمی ان پر اپنا عمل کرتا ہے۔ یہ اوزار ہمیشہ ایک قسم کے نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ یہی تبدیلی وہ بنیادی چیز ہے جو خود سماج کو بھی بدل دیتی ہے۔
کسی زمانہ میں انسان پتھر کے اوزار سے کام لیتا تھا، اس کے بعد مختلف تبدیلیاں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ اب بڑی بڑی مشینوں سے کام لیا جاتا ہے۔ پیداوار حاصل کرنے کے طریقہ میں یہ تبدیلیاں ہی در اصل وہ چیزیں ہیں جو انسانی زندگی کو بھی تبدیل کرتی رہتی ہیں اور سماج کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لے جاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پیداوار حاصل کرنے کی تاریخ خود انسانی سماج کے ارتقاء کی تاریخ ہے ۔ جدید مشینی انقلاب سے پہلے یہ تھا کہ انسان چھوٹے چھوٹے اوزار سے کام لیتا تھا، تھوڑے سرمایہ سے انفرادی طور پر الگ الگ کاروبار کرتا تھا۔ اس صورت حال
پیداواری طاقتیں اپنے زمانے کے پیداواری تعلقات کی ضد بن جاتی ہیں۔ بالفاظِ دیگر، ملکیت کے ان تعلقات سے ٹکر ا جاتی ہیں جن کے اندر رہ کر وہ پہلے کام کرتی رہی ہیںـــــپیداواری طاقتوں کے مزید ارتقاء کا ذریعہ بنے رہنے کی جگہ یہ تعلقات ان طاقتوں کے لیے پیر کی بیڑیاں بن جاتے ہیں۔تب انقلابی دو ر کا آغاز ہوتا ہے۔ اقتصادی بنیادوں کے بدلتے ہی کم و بیش سماج کا پورا ڈھانچہ نہایت تیزی سے تبدیل ہو جاتا ہے ۔ ان تغیرات پر غور کرتے وقت پیداوار کے اقتصادی حالات میں مادی تبدیلیوں کے درمیان ـــــــجن کا تعین پوری صحت کے ساتھ کیا جاسکتا ہیــــــاور قانونی، سیاسی ، مذہبی ، جمالیاتی ، فلسفیانہــــــمختصر یہ کہ نظریاتی شکلوں کے درمیان جن سے کہ انسان اس جدو جہد کا شعور پاتا ہے اور یہ جنگ لڑتا ہے ہمیشہ امتیاز کرنا ضروری ہے۔ جس طرح کسی شخص کے بارے میں ہماری رائے کی بنیاد یہ نہیں ہوتی کہ وہ خود اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے، اسی طرح ہم کسی عہد کے تغیر کو خود اس زمانے کے شعور سے نہیں سمجھ سکتے۔ ان کا یہ شعور مادی زندگی کے اضداد کا مطالعہ کر کے ہی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس جدوجہد پر غور کرنے سے جو کہ سماج کی پیداواری طاقتوں اور پیداواری تعلقات کے درمیان موجود ہے، تمام پیدا آور قوتوں کی اپنی گنجائش کے مطابق ترقی پاجانے سے پہلے کبھی کوئی سماجی نظام ناپید نہیں ہوا۔ اور اسی طرح پیداوار کے جدید اعلیٰ تعلقات بھی اس وقت تک وجود میں نہیں آتے جب تک کہ وہ تمام مادی حالات جو کہ اس کے وجود کے لیے نہایت ضروری ہیں، خود پچھلے سماج کے بطن میں اچھی طرح پرورش نہ پاچکے ہوں۔ اسی لیے نوع انسانی اسی فرض کو اپنے ذمہ لیتی ہے جسے وہ حل کر سکتی ہے، کیوں کہ اس مسئلہ کو زیادہ غور سے دیکھا جائے تو ہم پائیں گے کہ خود غرض اسی وقت پیدا ہوتاہے جب کہ اس کے حل کے لیے ضروری مادی حالات پہلے سے موجود ہوں یا کم ازکم ترتیب و تشکیل کی حالت میں ہوں ۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ
مارکس نے ۱۸۵۹ میں اپنی مشہور کتاب ’’معاشیات پر ایک تنقیدی تحقیق ‘‘ کے دیباچہ میں اپنے اس نظریہ کا خلاصہ مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش کیا تھا
’’…میں اپنے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قانونی تعلقات نیز ریاست کی مختلف شکلیں نہ تو خود ان کے اپنے مطالعہ سے سمجھ میں آسکتی ہیں اور نہ انسانی دماغ کی مفروضہ عام ترقی کے بل پر ان کو سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ ان کی جڑیں زندگی کے مادی حالات میں مضبوط جمی ہوئی ہوتی ہیں جن کے مجموعہ کو ہیگل نے اٹھارہویں صدی کے برطانوی اور فرانسیسی مفکروں کی تقلید میں ’’مدنی سماج‘‘ (Civil Society) کے نام سے اکٹھا کر دیا ہے۔ اس مدنی سماج کی تشریحی ساخت اقتصادیات میں پائی جاتی ہے۔ اقتصادیا ت کا یہ مطالعہ جو کہ میں نے پیرس میں شروع کیا تھا، بروسلز میں بھی اس کو جاری رکھا…اس مطالعہ سے جو نتیجہ میںنے اخذ کیا اور ایک بار اخذ کر لینے کے بعد جس کو میں نے مزید مطالعہ کے لیے رہنمائی کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھا، اختصار کے ساتھ اس کو اس طرح پیش کیا جاسکتا ہیــــ’’سماجی طور پر ذرائع حیات کی پیداوار کے دوران میں لوگ لازمی طور پر ایک مخصوص قسم کے باہمی تعلقات میں وابستہ ہو جاتے ہیں اور یہ وابستگی ان کے اختیار سے باہر کی چیز ہوتی ہے۔ یہ پیداواری تعلقات ان کی مادی پیداواری طاقتوں کے ارتقاء کی مخصوص منزل سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ان پیداواری تعلقات کا مجموعہ ہی سماج کے اقتصادی ڈھانچہ کی تشکیل کرتا ہے۔ یہی ڈھانچہ در اصل وہ بنیاد ہے جس پر قانونی اور سیاسی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور جس کے مطابق سماجی شعور کی مخصوص شکلیں نمودار ہوتی ہیں۔ زندگی کی مادی ضروریات حاصل کرنے کے طریقے، زندگی کے تمام سماجی ، سیاسی اور ذہنی عمل کی شکل معین کرتے ہیں۔ انسان کا شعور اس کی ہستی کو متعین نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس یہ اس کی ہستی ہے جو اس کے شعور کو معین کرتی ہے۔ اپنی ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر سماج کی مادی
حاصل کرنے کے دوران میں بالکل لازمی قانون کے تحت ایک اقتصادی دور وجودمیں آتا ہے جو کچھ دنوں کام کرنے کے بعد ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے بطن سے دوسرا ایک زیادہ ترقی یافتہ دور پیداہوتا ہے۔ پھر یہ دور بھی ختم ہو کر ایک تیسرے اور زیادہ ترقی یافتہ دو رکی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ اس طرح عہد بہ عہد ترقیوں کا یہ سلسلہ چلا جارہا ہے۔ یہی اقتصادی ادوار گویا وہ سیڑھیاں ہیں جو انسان کو بہتر مستقبل کی طرف لے جارہی ہیں۔ او رانہی کے ذریعہ انسانیت کی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مارکس لکھتا ہے
’’محنت کے اوزار بنانا اور استعمال کرنا اگرچہ کسی حد تک جانوروں کی بعض قسموں میں پایا جاتا ہے، مگر خاص طور پر انسانوں کے پیداواریٔ عمل کی یہ امتیازی خصوصیت ہے ۔ اسی لیے فرینکلن (Benjamin Franclin) نے انسان کی تعریف ’’اوزار بنانے والے ‘‘ کے الفاظ سے کی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے کے اوزار سماج کے ناپید اقتصادی ڈھانچوں کی تحقیق کے سلسلے میں اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی جانوروں کی ناپید قسموں کوجاننے کے لیے متحجر ہڈیاں (Fossil Bones) ۔ سماج کے مختلف اقتصادی ادوا رکا باہمی امتیاز اس زمانہ کی بنی ہوئی اشیاء سے نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کن اوزاروں کی مدد سے اور کس طریقہ سے بنائی گئی ہیں۔ آلاتِ محنت نہ صرف ترقی کے اس درجہ کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں پر انسانی محنت پہنچی ہے بلکہ انہی سے ان سماجی حالات کا بھی پتہ چلتا ہے جن کے تحت وہ محنت کی گئی ہے۱؎۔
’’ارتقاء کا یہ سلسلہ آغازِ انسانیت سے جاری ہے اور اب اس عمل کی تکمیل کے دن بہت قریب آگئے ہیں۔ قدیم غلام سماج اور جاگیر داری سماج کے بعد اب جو سرمایہ دارانہ سماج آیا ہے اس نے انسانی ارتقاء کے سفر کو تکمیل کے بہت قریب پہنچا دیا ہے۔ اب اس کے بعد بہت جلد یہ ہوگا کہ انسان اپنے آخری ارتقائی دور میں پہنچ جائے گا اور یہی اس کی آخری کامیابی ہے۔ ‘‘
پہلے سوال کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ انسان ایک مادی وجود ہے۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بیج اگتا ہے، درخت بنتا ہے، پھل پھول لاتا ہے اور یہ سارے مراحل ، زمین ، ہوا ، پانی اور گرمی کے عمل سے خود بخود انجام پاتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی کسی وقت ایک حقیر کیڑا تھا جو پانی سے پیدا ہوا، اور پھر تاریخ کے لمبے زمانوں میں مختلف جانداروں کی شکل اختیار کرتا ہوا بالآخر بندر بنا اور بندر سے انسان تیار ہو گیا۔ گویا یہ انسان جو دماغی اور جسمانی قوتوں سے بھر پور آج ہم کو نظر آتا ہے، اس کو مکمل صورت میںبنا کر کھڑا کر دینے کا کام کسی خالق نے نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے ابتدائی کیڑے پر ماحول کے مسلسل عمل نے خود ہی اس کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ مارکس نے اس مصرعۂ اول پر اپنا مصرعۂ ثانی لگایا۔ اس نے کہا کہ جس طرح انسان ایک لمبے مادی عمل کے ذریعہ خود انسان بن گیا ہے اور اس میںکسی فوق الفطری قوت کی کارفرمائی کا کوئی دخل نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح زندگی کا قانون بھی کہیں باہر سے نہیں آئے گا۔انسان کو ایک کامیاب زندگی حاصل کرنے کے لیے کسی خارجی رہنمائی کی ضرورت نہیں، کیوں کہ یہ کام بھی مادی عمل کے ذریعہ مسلسل انجام پارہا ہے۔جو لوگ خارج سے کسی دریافت کردہ اصول کو انسانی زندگی میں رائج کرنا چاہتے ہیں مارکس ان کو ’’خیالی فلسفہ‘‘ کا لقب دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کے نزدیک در حقیقت ایسے کسی خارجی اصول کا وجود ہی نہیں ہے ۔ اس کے نزدیک قانون کا ماخذ خود انسان کی اپنی زندگی ہے، نہ کہ کوئی بیرونی حقیقت۔ انسان کو اس کے مادّی ماحول نے ایک حقیر کیڑے سے مکمل انسان تک پہنچایا تھا، اب اس کا معاشی ماحول اس کی زندگی کے صحیح ترین نظام کی طرف لے جارہا ہے۔ ڈارون نے حیاتیاتی ارتقاء کی دنیا میں جو مقام مادّہ کو دیا تھا، مارکس نے سماجی ارتقاء کی دنیا میں وہی مقام معاشی ذرائع و وسائل کو دیا۔ اس نے کہا کہ جس طرح مادہ کے ساتھ ایک لمبے تاریخی عمل نے کیڑے کو انسان بنا دیا ہے، ٹھیک اسی طرح ضروریات زندگی حاصل کرنے کے سلسلے میں انسان کی جد وجہد اور معاشی ذرائع ووسائل کی تبدیلیاں ، یہی وہ عوامل ہیں جو انسانی زندگی کو مسلسل ارتقاء کی طرف لے جارہی ہیں۔ زندہ رہنے کے لیے انسان کو جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کو
ملکیتیں ضبط کرنے کی اجازت دے دی ۔ احتساب کی مذہبی عدالتیں قائم ہوئیں جو پوپ کے حکم کے مطابق ’’ان ملاحدہ اور مرتدین کو سزائیں دیں جو گھروں ، تہہ خانوں ، جنگلوں ، کھیتوں ، غاروں اور شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں‘‘۔ ان عدالتوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ سزائیں دینا شروع کیں۔ اندازہ کیاگیا ہے کہ تقریباً تین لاکھ جانیں اس احتساب کی نذر ہوگئیں، جن میں ۳۲ ہزار آدمیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان مرنے والوں میں ہیئت و طبیعیات کے مشہور عالم برونو (Brunoe) اور گلیلیو (Gallilio)جیسے لوگ بھی شامل ہیں ۱؎۔
کلیسا کے ان وحشیانہ مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کے اہل علم طبقہ کو مذہب سے ایک ضد سی پیدا ہو گئی ۔ انہوں نے کلیسا کا زور توڑنے کے لیے خدا ہی کا انکار کر دیا تا کہ وہ اصل چیز باقی نہ رہے جس پر کلیسا کا پورا وجود قائم ہے۔ سائنس بنام کلیسا کا اختلاف ، سائنس بنام خدا کا اختلاف بن گیا۔ وہ بغاوت جو ابتداء ً ایک بگڑے ہوئے مذہبی طبقے کے غلط اقتدار سے رہائی پانے کے لیے شروع ہوئی تھی وہ خود مالک کائنات کے اقتدار سے بغاوت بلکہ اس کے وجود سے انکار تک جاپہنچی ۔ اس عمل کے بعد قدرتی طور پر انہیں زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت تھی ۔ ایک یہ کہ اگر خدا کا کوئی وجود نہیں ہے تو خود انسان کیسے وجودمیں آگیا؟ دوسرے یہ کہ انسانوں کی یہ بھیڑ جس کا اب کوئی آقا اور مالک نہیںہے، اس کو راہ عمل کون بتائے ،زندگی کے لیے قانون کا ماخذ کیا ہو؟ پہلے سوال کا جواب چارلس ڈارون (۱۸۸۲۔۱۸۰۹) نے دیا اور دوسرے کا جواب کارل مارکس (۱۸۸۳۔۱۸۱۸) نے۔ ڈارون کا جواب یورپ کی ابھرتی ہوئی قوموں کی خواہش کے عین مطابق تھا اس لیے وہ فوراً قبول کر لیا گیا۔ مگر مارکس کے جواب کو ماننے میں بر سر اقتدار طبقے کو اپنی موت نظر آتی تھی اس لیے وہ یورپ میں پھیل نہ سکا۔ اگر چہ ذہنی اعتبار سے اس نے جدید دنیا کے بڑے حصہ کو متاثر کیا ہے۔
بجائے خود انسان کی طرف منتقل ہو جائے تاکہ نفس پرستی کے لیے شریکوں کا واسطہ اختیار کرنے کی بھی ضرورت نہ رہے ، بلکہ وہ خود اپنے نفس کی اجازت سے جوچاہے کر سکے۔ اس زمانہ میں پادریوں کا زبردست اثر تھا اور سارے یورپ میں نہ صر ف یہ کہ وہ مذہب کے ٹھیکہ دار تھے بلکہ اٹلی سے لے کر اسکاٹ لینڈ تک تمام ملکوں کی سیاست پر بھی ان کا زبردست اثر تھا۔ ان کا یہ اثر حقیقی مذہبیت اورخدا پرستی کی بنا پر نہیں تھا بلکہ مذہب سے بے تعلقی کی بناء پر تھا۔ عیسائی عوام سخت جہالت اور بے عملی میں مبتلا تھے۔ مگر یہ پادری ان کی بے عملی اور جہالت کو ختم کر نے کے بجائے اس کو باقی رکھ کر باقاعدہ اس کی تجارت کرتے تھے۔ وہ عیسائیوں کو اصل مذہبی تعلیمات پر عمل کرانا نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ اس کے معنٰی یہ تھے کہ وہ خدا اور مسیح کی طرف متوجہ ہو جائیںگے۔ اس کے بجائے وہ انہیں بے عملی کی حالت میں رکھنا چاہتے تھے تا کہ بے عملی کی تلافی اور آخرت میں خدا کی مغفرت حاصل کرنے کے لیے وہ پادریوں کے پاس آئیں اور انہیں نذرانے ادا کریں۔ چنانچہ اس زمانے میں جنت کے قبالے جائداد کی معمولی دستاویزوں کی طرح بکتے تھے۔ مغفرت کے پروانے ، نقضِ قانون کے اجازت نامے اور نجات کے سرٹیفکٹ بے تکلف فروخت کیے جاتے تھے۔ جنت کو خدا پرستی اور عمل کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے لوگ پاپاؤں کی دکان سے اس کو سونے چاندی کے عوض خرید رہے ـتھے۔ اس کاروبار کے ذریعہ کلیسا کو زبردست آمدنی تھی اور وہ لوگ بادشاہوں کی مانند زندگی گذارتے تھے۔ ایسے حالات میں جب یورپ میں عقلیت کا آغاز ہوا ، نئے نئے نظریات کی وجہ سے تقلید کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں ، پادریوں کے پھیلائے ہوئے اوہام و خرافات پر تنقیدکی گئی اور بے سمجھے بوجھے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا جانے لگا تو مذہبی حلقوں میں قیامت برپا ہوگئی۔ کیوں کہ اس طرح کی عقلیت اور آزادی کے پیدا ہونے کے معنٰی یہ تھے کہ پاپائی نظام کی غیر معمولی اہمیت کا طلسم ٹوٹ جائے اور علم و عمل کی ایک نئی شاہراہ کھل جانے کی وجہ سے ان کا اقتدار باقی نہ رہے ۔
چنانچہ اربابِ کلیسا نے ان مفکروں ا ور سائنس دانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیا جو ان نئے نظریات کو پیش کرنے کے ذمہ دار تھے اور دین ِ مسیحی کی حفاظت کے نام پر ان کا خون بہانے اور ان کی
چلا آرہا ہے کہ زمین و آسمان اور تمام موجودات کا خالق ایک فوق الفطری وجود ہے ۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اورا سی کو حق ہے کہ انسانی زندگی کے لیے احکام و ہدایات دے اور اس کو صحیح راہ عمل بتائے ۔ پچھلی تاریخ میں جتنی تہذیبیں ملتی ہیں ان میں بیشتر تہذیبیں خدا کو تسلیم کرنے والی ہیں، نہ کہ اس کا انکار کرنے والی۔ اس تصور کے مطابق، قانون کا ماخذ بھی اسی ذات کو ہونا چاہئے جس کا حکم ساری کائنات پر چل رہا ہے اورجس نے انسانوں کو وجود بخشا ہے، جو ان کی زندگی کا سر چشمہ ہے۔ مگر ایک خدا اور اس کے قانون ــــایسا قانون جو کسی حال میں بدلا نہیں جاسکتا ـــــکو ماننے میں چونکہ انسان کی خواہشوں پر ضرب پڑتی ہے، اپنی انانیت اور اقتدار کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی ، اس لیے عام طو رپر ایسا ہوا ہے کہ ان قوموں نے اصل عقیدہ کے ساـتھ شرک کو ملایا۔ انھوں نے خدا کو مانتے ہوئے اس کے کچھ ایسے ہمسر اور شریک گھڑے جو خود بھی امر ونہی کے مجاز تھے، اور ان خود ساختہ شریکوں کے نام پر وہ سب کچھ جائز کر لیا جس کو ان کا نفس جائز کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح قدیم زمانہ کا انسان خدا کی ماتحتی کو چھوڑ کر خود مختار بننے اور خدا کے احکام کی پیروی کے بجائے اپنی من مانی کارروائی کرنے کے لیے شرک کا سہارا لیتا رہا ہے۔ ایک طرف اس کی خواہشیں تھیں اور دوسری طرف خدا کا تصوّر ، وہ اپنی خواہشوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور یہ جرأت بھی نہیں کر سکتا تھا کہ خدا کو ماننے سے انکار کر دے ۔ اس لیے اس نے شرک کا طریقہ ایجاد کیا اور جو کچھ وہ خدا کی اجازت سے نہیں کر سکتا تھا، اس کو خدا کے شریکوں کے نام پر اپنے لیے جائز کر لیا۔
یہ صورت حال قدیم ترین زمانہ سے چلی آرہی تھی ، مگر یورپ میں سترہویں صدی عیسوی میں سائنس اور کلیسا کے درمیان جو تصادم ہوا ، اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار الحاد نے ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کی۔ انسان نے یہ سوچا کہ وہ سرے سے خدا کے وجود ہی کا انکار کر دے۔ اب وہ شرک کے بجائے براہِ راست خدا کی نفی سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے چاہا کہ قانون کا ماخذ خدا کے
’’ڈارون نے فطرت میں ارتقاء کا قانون دریافت کیا تھا، مارکس نے یہی قانون انسان کی سماجی تاریخ میں دریافت کیا ہے۔۱؎ ‘‘ یہ فریڈرشؔ انگلس کا ایک فقرہ ہے جو اس نے ۱۷ مارچ ۱۸۸۳ کو لندن میںایک دوست کارل مارکس کی قبر پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ اس مختصر سے فقرہ میںانگلس نے مارکسی نظریہ کا پس منظر اور اس کی حقیقت دونوں بیان کر دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم جس کو مارکس نے زیادہ مکمل اور سائنٹفک انداز میں پیش کیا ، یہ در اصل اس رجحان کی تکمیل ہے جس کی باقاعدہ اور علمی طور پر ڈارون سے ابتداء ہوئی تھی ۔اور وہ پھر اس خلاء کوپر کرتا ہے جو اس سابق فلسفہ میں باقی رہ گیا تھا ۔ اس بات کو اگر دوسرے لفظوں میں کہنا چاہیں تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یورپ میں سائنس اور کلیسا کے تصادم کے بعد انسان نے اپنے خدا سے جو بغاوت کی تھی وہ ابھی تک صرف ایک پاؤں پر کھڑی تھی جو ڈارون نے مہیا کیا تھا۔ سوشلسٹ فلسفہ اس بے خدا تہذیب کا دوسرا پاؤں ہے جو مارکس نے دریافت کیا ہے۔
زندگی کے دو اہم ترین مسئلے ہیں جن کے بارے میں کوئی رائے قائم کیے بغیر ہم ایک قدم بھی نہیں چل سکتے ۔ ایک یہ کہ انسان کس طرح وجود میںآیا، دوسرے یہ کہ انسان کے لیے قانونِ زندگی کیا ہو۔ پہلے سوال کا مطلب اپنے وجود کی تشریح کرنا ہے اور دوسرے سوال کا مطلب اپنے لیے صحیح راہِ عمل کا تعین کرنا۔ ایک کا تعلق حیاتیاتی سائنس سے ہے ا ور دوسرے کاتعلق سماجی فلسفہ سے ۔ یہ دونوںسوالات بالکل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی وجود کی ایک تشریح لازمی طور پر اس کے مطابق ایک طرزِ زندگی کا مطالبہ کرتی ہے، اور جب بھی کوئی طرزِ زندگی متعین کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر اس کے پیچھے اپنے آغاز وانجام کا ایک تصور ہوتا ہے۔ قدیم ترین زمانہ سے انسان یہ مانتا
’’اسلام اور سوشلزم۱؎ کو بیک وقت اختیار کیا جاسکتا ہے، ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں‘‘۔ یہ ایک سر تا پا غلط خیال ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے غلط خیال پر قائم ہے۔ اس طرح کی بات کہنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک مذہبی نظریہ ہے اور سوشلزم ایک معاشی نظریہ۔ دوسرے لفظوں میں، اسلام ایک عقیدہ ہے اور سوشلزم ایک سماجی نظام ہے۔پھر دونوںپر ایک ساتھ ایمان لانے میں کیا حرج ہے ۔ جس طرح کسی بھی مذہب کی پیروی کرتے ہوئے آدمی رزق کے حصول کے لیے کوئی پیشہ اختیار کر سکتا ہے اسی طرح کسی بھی ذریعہ سے رزق حاصل کرتے ہوئے آدمی کسی مذہب کا پیرو بن سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ تو اسلام محض ایک ’’مذہبی نظریہ‘‘ ہے او رنہ سوشلزم محض ایک معاشی نظریہ۔ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اسلام خواہ کچھ بھی ہو، وہ سوشلزم کا مخالف نہیں ہے بلکہ سوشلزم خود اسلام ہی کی صدائے باز گشت ہے جو ایک ہزار سال کے بعد یورپ سے بلند ہوئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور سوشلزم دو الگ الگ نظام ہیں جو فلسفہ اور عمل دونوں کے اعتبار سے باہم متصادم ہیں۔ وہ مکمل طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ دو مختلف سمتوں میں بڑھنے والی لکیریں ہیں جن کے سرے کہیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہاں ہم کوشش کریں گے کہ اس تضاد کو کسی قدر وضاحت کے ساتھ بیان کریں اور ان دلائل کا بھی جائزہ لیں جو اسلام اور سوشلزم کو ایک ثابت کرنے کے لیے بعض حلقوں کی طرف سے پیش کیے جارہے ہیں۔
© 2024 CPS USA.