چھلانگ نہیں
A young man once came to a venerable master and asked, "How long will it take to reach enlightenment?"
The master said, "Ten years."
The young man blurred, "So long".
The master said ," No. I was mistaken. It will take you 20 years".
The young man asked, "Why do you keep adding to it".
The master answered, " Come to think of it, in your case it will probably be 30 years".
اوپر کا اقتباس فلپ کپلیو (Philip Kapleau) کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔اس کا ترجمہ یہ ہے ایک نوجوان شخص ایک بار ایک بزرگ استاد کے پاس آیا اور کہا صاحب علم بننے میں کتنا وقت لگے گا۔
ــ’’ دس سال ‘‘۔استاد نے جواب دیا۔
’’اتنی لمبی مدت ‘‘۔نوجوان بولا۔
استا د نے کہا ’’ نہیں مجھ سے غلطی ہو گئی۔تمہارے لیے اس میں 20سال کی مدت درکار ہو گی۔
نوجوان شخص نے پوچھا آپ مدت میں اضافہ کیوں کرتے جا رہے ہیں ‘‘۔
استاد نے جواب دیا ’’بات کو سمجھو ، تمہارے معاملہ میں غالباً اس کو 30 سال لگ جائیں گے ‘‘۔ (آر ڈی جنوری 1983 ) جو مقصد عام رفتار سے 10 سال میں حاصل ہوتا ہو اس کو آپ دس دن میں حاصل کرنا چاہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ چھلانگوں کے ذریعہ اپنا سفر طے کرنا چاہتے ہیں۔اور چھلانگوں کے ذریعہ سفر ہمیشہ اصل سفر کو طویل تر بنا دیتا ہے۔
چھلانگ لگانے والے کا انجام ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی چٹان سے ٹکرا جاتا ہے یا کسی کھڈ میں جا گرتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو پیچھے لوٹ کر کسی اسپتال میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں وہ مدت تک علاج کے لیے پڑا رہے۔اگر وہ عام رفتار سے چلتا تو وقت پر اپنی منزل تک پہنچ جاتا۔مگر چھلانگ نے اس کو پیچھے ڈال کر اس کے سفر کو اور لمبا کر دیا۔
کسی کام میں دیر لگانا جتنا غلط ہے اتنا ہی غلط یہ بھی ہے کہ آپ اس کو جلد پورا کرنا چاہیں ہر کام کی تکمیل کا ایک وقت ہے اور صحیح تکمیل وہی ہے جو اپنے وقت پر انجام پائے دیر کرنا اگر سستی ہے تو جلدی کرنا بے صبری، اور خدا کی اس محکم دنیا میں دونوں بالآخر جہاں پہنچتے ہیں وہ بے انجامی کے سوا اور کچھ نہیں۔