Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
اصل یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میںجب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا ہےتو وہ فوراً یہ کرتا ہے کہ خود اپنے ذہنی معیار کے مطابق، اُس کا حل تلاش کرنے لگتا ہے۔ مگر جب اس کے خود ساختہ فارمولے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو وہ فریقِ ثانی کو الزام دینے لگتا ہے۔ اس کی سوچ یہ بن جاتی ہے کہ میں تو صحیح ہوں، یہ دراصل دوسرا فریق ہے جو مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔
یہ آئڈیل ازم(idealism)کا طریقہ ہے۔ مگر اِس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں آئڈیل ازم کبھی حاصل نہیں ہوتا۔
Idealism can not be achieved in this world.
آپ کے لیے ذہنی تناؤ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ پریکٹکل طریقہ ہے۔ یعنی یہ دیکھنا کہ موجودہ صورِ ت حال میں عملی طور پر کیا ممکن ہے، نہ یہ کہ معیاری اعتبار سے کیا ہونا چاہیے۔ اسی طریقے کا نام حکمت ہے۔ اور ہر مسئلہ صرف حکمت کے ذریعے حل ہوتا ہے۔
پریکٹکل طریقہ اختیار کرنے کا مطلب پسپا ہونا یا شکست قبول کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد اپنے لیے فرصتِ عمل تلاش کرنا ہے۔ ذہنی تناؤ کے ساتھ کوئی شخص، مواقع کو استعمال(avail) نہیں کرسکتا۔ اِس لیے عقل مندی یہ ہے کہ آدمی یک طرفہ طور پر ایڈجسٹ کر لے، تاکہ وہ مواقع کو زیادہ بہتر طور پر استعمال کرنے کے قابل ہو سکے۔
ذہنی تناؤ ایک قسم کی نفسیاتی خود کشی ہے۔ ذہنی تناؤ ہمیشہ کسی خارجی سبب سے پیدا ہوتا ہے۔ اور آدمی اُس سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ کو اس کی سزا دینے لگتا ہے۔ ایسی نادانی آپ کیوں کریں۔اس خود اختیار کردہ سزا سے بچنے کی آسان تدبیر یہ ہے کہ آدمی آئڈیل ازم کو چھوڑ دے، وہ پریکٹکل بن جائے۔ وہ اُس فارمولے کو اختیار کرے جس کو ایک شخص نے مثال کی صورت میں اِس طرح بیان کیا ہے -------------------- اگر تم چوکور ہو، اور تم کسی گول خانے میں پڑ جاؤتو اپنے آپ کو گول بنا لو۔
یہ شکست کا فارمولا نہیں ہے، بلکہ وہ فتح کا فارمولا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔
لَو أفیئر(love affair)یا لَو میریج کی کوئی حقیقت نہیں۔
یہ صرف سطحی جذباتیت کا خوب صورت نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی یا نکاح اپنے لیے ایک لائف پارٹنر حاصل کرنے کا نام ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ نکاح کے معاملے کو اِسی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔اِس معاملے میں وہ جذباتی مغلوبیت کے تحت کوئی کام نہ کریں، بلکہ خالص عقلی فیصلے کے تحت کام کریں۔
لَو أفیئر(love affair)یا لَو میریج صرف وقتی جذباتیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جب کہ نکاح کا تعلق عور ت یا مرد کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں دانش مندانہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے آدمی کی زندگی کو خوش گوار بنا دیتا ہے۔
اِس کے برعکس، جذباتی فیصلہ ہمیشہ کے لیے اُس کی زندگی کو تلخ بنا دیتا ہے۔ اِس دنیا میں عقلی فیصلے کا نتیجہ کامیابی ہےاور جذباتی بہاؤ کا نتیجہ ناکامی۔
سوال
عرض ہے کہ میں ازدواجی زندگی کے مسائل میں گھرا ہوا ہوں۔ مجھ کو اپنی بیوی کی طرف سے مسلسل شکایت رہتی ہے۔ وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں۔
ان کا ذہنی معیار بہت پست ہے۔ اِس لیے گھر میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے میں سخت قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوں۔ براہِ مہربانی، میرے اِس مسئلے کا کوئی حل تجویز فرمائیں۔(ایک قاری الرسالہ، جموں و کشمیر(
جواب
آپ جس ذہنی تناؤ میں مبتلا ہیں، اس کا حل صرف ایک ہےاور وہ ہے اِس کا سبب خود اپنے اندر ڈھونڈنا۔
اب تک آپ اِس کا سبب فریقِ ثانی کے اندر ڈھونڈتے رہے۔ اب آپ یہ کیجیے کہ اس کا سبب اپنے اندر تلاش کیجیےاور خود اپنے آپ کو بدلیے۔ آپ کے مسئلے کا یہی واحد حل ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور ممکن حل موجود نہیں۔
۔ اپنے تجربے کے مطابق، میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیوی سے آپ کی شکایت کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے والدین کی خدمت نہیں کرتی۔ میرے نزدیک، آپ کا یہ مطالبہ بھی غلط ہے۔ کیوں کہ شوہر کے والدین کی خدمت کرنا، بیوی کے شرعی فرائض میں شامل نہیں۔
4۔ آپ نے لکھا ہے کہ میرے گھر والے میری بیوی کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔ یہ بات بلا شبہ غلط ہے۔آپ نے صرف یہ کیا ہے کہ گھر والوں کے بولے ہوئے لفظ کو یک طرفہ طور پر سن کر اس کو اپنے خط میں نقل کر دیا۔آپ نے خود سے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ عملاً آپ کے گھر والوں کا روّیہ آپ کی بیوی کے ساتھ کیا ہے۔میں آپ کے اس بیان کو قطعی طور پر درست نہیں مانتا۔
5۔ آپ کی اصل غلطی یہ ہے کہ آپ مشترک خاندان میں رہتے ہیں۔آپ کو دو میں سے ایک کام کرنا چاہیے، یا تو آپ الگ گھر لے کر بیوی کے ساتھ رہیں، یا آپ کو اگر مشترک خاندان میں رہنا ہےتو آپ یک طرفہ طور پر صبر کا طریقہ اختیار کریں۔
آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ میری دو کتابیں’’خاتونِ اسلام‘‘اور’’عورت معمارِ انسانیت‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شادی یا نکاح کے معاملے میں اسلام کا طریقہ ارینجڈ میریج (arranged marriage)کا طریقہ ہے، مگرموجودہ زمانے میں اِس طریقے کو روایتی (traditional) طریقہ سمجھا جاتا ہے۔آج کل کے نوجوانوں کا خیال ہے کہ شادی یا نکاح زندگی کا ایک بے حد اہم معاملہ ہے۔ اِس لیے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کایہ ماننا ہے کہ اُنھیں اِس معاملے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔اِس دوسرے طریقے کو عام طور پر لَو میریج(love marriage)کہا جاتاہے۔ اِس معاملے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں۔(رابعہ، کرناٹک)
موجودہ دنیا عقل کا امتحان ہے۔ جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اورجو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے، شادی لَو میریج کا نام نہیں۔
میری عمر 29 سال ہے۔شادی ہوئے قریب دو سال ہو گئے۔ایک بچہ بھی ہے۔ میں ایک گاؤں میں رہتا ہوں۔لیکن میری شادی شہر میں رہنے والی لڑکی سے ہوئی ہے۔ میری سمجھ میں میری بیوی کسی بھی طرح عقل مند نہیں ہے۔ہمارے گھر والے اس کو بیٹی کی طرح مانتے ہیں۔لیکن وہ جب سے میرے گھر آئی ہے، گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتی۔ ذرا ذرا سی بات پر غصہ کرنے لگتی ہےاور کسی بات کا فوراً الٹا جواب دے دیتی ہے۔اس کے ذہن میں ذرا سا بھی اس بات کا اثر نہیں رہتا کہ ہم سسرال میں ہیں اور سسرال والوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے۔یہاں تک کہ میرے ساتھ بھی الٹی سیدھی بات بول جاتی ہے۔ لاکھ سمجھاؤ لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتی۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ امیر باپ کی بیٹی ہے۔بلکہ مالی اعتبار سے ہم دونوں گھر والے یکساں ہیں۔
آخر یہ اس کی نادانی ہے یا اس کا غرور کہ گھر میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتی، حالاں کہ کئی بار ہم نے اس کو مارا بھی۔لیکن پھر بھی اس کی عادت میں ذرا سا سدھار پیدا نہیں ہوا۔میں سوچتا ہوں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عقل مند عور ت کا ہاتھ ہوتا ہے۔لیکن میرا کیا ہوگا۔ میری زندگی کیسے گزرے گی؟(ایک قاری الرسالہ، جھاڑکھنڈ)
آپ کا خط مورخہ یکم اگست 2006 ملا۔اس کو میں نے غور سے پڑھا۔میرے نزدیک اس معاملے میں ساری غلطی صرف آپ کی ہے، کسی اور کی نہیں۔
1۔ عقل مند عورت، ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کو تربیت دے کر عقل مند بنانا پڑتا ہے۔میرے اندازے کے مطابق، آپ نے یہ کام نہیں کیا۔
2۔ قرآن میں عورت کو تنبیہ کے لیے علامتی ضرب کی اجازت، استثنائی طور پر، صرف اُس وقت ہے جب کہ اُس کے اندر نُشوز(سورہ النساء، 4:34 ) پایا جائے۔آپ نے جو اپنی بیوی کو مارا تو بلاشبہ اس کا سبب نشوز نہیں تھا۔اس لیے آپ نے بلا شبہ ایک سخت غلط کام کیا ہے۔ آپ اس کی تلافی کے لیے فوراً اپنی بیوی سے معافی مانگیےاور خدا سے اس کے لیے توبہ کیجیے۔
زندگی میں ہمیشہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے۔ مگر آدمی ایسا کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لینا چاہتا ہے، جب کہ تیسرا چوائس اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ شادی کا معاملہ بھی یہی ہے۔اکثر ماں باپ ایسا کرتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے ڈھونڈ کر اچھی شکل و صورت والی بہو لاتے ہیں، اور پھر شادی کے بعد یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی بہو ان کی بات نہیں سنتی۔
والدین کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اچھی شکل و صورت والی بہو کبھی ان کی بات نہیں سنے گی۔ اگر وہ بات سننے والی بہو چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ معمولی صورت والی بہو اپنے گھر میں لائیں۔ اس معاملے میں اور کوئی چیز ان کے لیے قابل عمل نہیں۔
اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آتا ہے کہ دو چیزیں اس کے مزاج کو خراب کر دیتی ہیں۔ ایک، اس کے ماں باپ، اور دوسرے آئینہ۔ ایسی لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اور وہ اپنی سسرال میں آتی ہے تو یہ دونوں چیزیں اس کو بگاڑ چکی ہوتی ہیں۔
ایسی حالت میں لڑکے کے والدین کو چاہیے کہ وہ اگر اچھی شکل و صورت والی لڑکی کو اپنی بہو بناتے ہیں تو وہ اس سے کوئی امید نہ رکھیں۔ اور اگر وہ بہو کو اپنی امید کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ایسی لڑکی کو اپنے گھر لائیں جو صورت کے اعتبار سے پُر کشش نہ ہو۔اس معاملے میں سب سے بُرا کردار لڑکی کے ماں باپ کا ہے۔لڑکی کے ماں باپ عام طور پر یہ کرتے ہیںکہ وہ اچھی شکل و صورت والی لڑکی کے ساتھ بہت زیادہ لاڈ پیار(over-pampering)کا معاملہ کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی جب شادی کے بعد اپنی سسرال میں جاتی ہے تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر وہاں بھی اپنے لیے لاڈ پیار والے سلوک کی امیدوار رہتی ہے۔
مگر فطری طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس لیے اس قسم کی لڑکیاں ہمیشہ پریشان رہتی ہیں۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ بھاگ کر اپنے میکے جاتی ہیں جو کہ صرف ان کی پریشانی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میکے والے اور سسرال والے دونوں حقیقت پسندانہ انداز اختیار کریں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ خوشگوار زندگی گذاریں تو بیوی جیسی ہے ویسی ہی اس کو قبول کرلیںاور پھر اس پر راضی ہو جایئے۔ اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ مشترک خاندانی زندگی کو ختم کردیجیے، اور الگ گھر بنانا شروع کر دیجیے۔یاد رکھیے، زندگی حقیقت پسندی کا نام ہے۔
آپ اپنے جذبات کے مطابق، زندگی کانقشہ نہیں بنا سکتے۔ زندگی کا نقشہ وہی رہے گا جو فطرت کے قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ آپ کی موجودہ شکایت آپ کے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ اپنے غیرحقیقت پسندانہ ذہن کو ختم کر دیجیے اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔
میرا لڑکا افسر ہے۔عرب میں رہتا ہے۔بہت دیندار ہے۔میں نے اپنے لڑکے کی شادی کی ہے۔B.A.پاس بہو ہے۔ وہ لوگ بھی کھاتے پیتے خوش حال ہیں۔ ہم لوگ بہت ارمان سے بہو بیاہ کر لائے لیکن بہو کسی کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ میرے گھر میں بہو کی بہت عزت ہوئی۔کوئی روک ٹوک اور نہ کوئی دباؤ۔ جب میکے جانا چاہتی، میں اسے بھیج دیتی۔
میں بلاتی تو وہ اپنی مرضی سے ہی آتی۔ شادی کو 2 سال گزر گئے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ رہتی ہے۔میرے کسی رشتے دار کا فون آتا ہے تو بات نہیں کرتی۔ گھر کے کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتی۔ کبھی میں کوئی چیز بنانے کو کہتی، تو کہتی ہے مجھے نہیں آتا ہے بنانا۔
بہو اچھی شکل و صورت کی ہے۔ میں نے کچھ نہیں کہا، میں خود ہی ہر کام کر لیتی ۔ پھر بھی وہ میرے گھر خوش نہیں رہی۔ ہم لوگوں نے اور میرے بیٹے نے اسے ہر طرح کا سکھ دیا۔ ہر آدمی اس کے لیے کچھ سامان لاتا، تاکہ وہ میرے گھر خوش رہے لیکن نہیں۔ وہ کسی کو اپنا نہیں سمجھتی۔ نہ صبح میں ناشتہ بنانے کی فکر نہ کھانا بنانے کی۔
میرا بیٹا اسے عرب اپنے ساتھ لے گیا وہاں بھی اس کا وہی حال ہے۔ میرے بیٹے نے لکھا ہے کہ میں نے آرام کی ہر چیز گھر میں رکھ دی ہے کہ وہ خوش رہے لیکن اس کا یہاں دل نہیں لگتا۔ میرے بیٹے نے یہ بتایا کہ یہ میکے رہنا چاہتی ہے۔ مولانا صاحب مجھے اس مسئلے کا حل بتایئے۔(ایک قاری الرسالہ(
کہ میری بیوی اپنے سسرال میں جاکر رہی ہو۔ جہاں میری غیر موجودگی میں میرے گھروالوں نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی ہو۔ وہ جب بھی سسرال گئی میرے ساتھ ہی گئی اور میرے ساتھ ہی واپس آ گئی۔
جہاں تک میری ازدواجی زندگی کا سوال ہے میں نے اپنے جانتے ہوئے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی۔ ایکofficerجنbasic amenitiesکے ساتھ زندگی گزارتا ہے وہ ساری چیزیں دستیاب ہیں۔ میں اپنے بھائیوں کو صرف تین ہزار روپئے ماہانہ دیتا ہوں۔
اس کے علاوہ میں اپنے گھر میں کچھ بھی نہیں دیتا ہوں۔ میری بہت خواہش تھی کہ میں اپنے والدین کو کچھ دنوں کے لیے لاؤں اور U.P.دکھادوں۔لیکن میں یہ خواہش کبھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ کیوں کہ میں جانتا تھا کہ یہ میرے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی بھی میرے گھر والوں کی خیریت دریافت نہیں کرتی ہے۔ جب کہ میرے گھروالے اکثر فون کرکے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ بات کرنے سے گریز کرتی ہے۔(نازش ریحان، پیلی بھیت(
آپ کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ آپ جب ملازمت میں آئے تو آپ نے الرسالہ کا مطالعہ چھوڑ دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی غلطی تھی۔ الرسالہ، زندگی کی سائنس بتاتا ہے۔’’الرسالہ‘‘آرٹ آف لونگ (Art of Living)کا شعور دیتاہے۔ الرسالہ یہ بتاتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو کیسے مینیج (manage)کیا جائے۔
الرسالہ ایسی چیز نہیں ہے جس کو کچھ دن پڑھا جائے اور پھر اس کے بعد چھوڑ دیا جائے۔ الرسالہ پوری زندگی کا کورس ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ اب آپ دوبارہ الرسالہ پڑھنا شروع کر دیں۔ اور پابندی کے ساتھ بلا ناغہ ہر ماہ پڑھیں۔
بیوی کے معاملے میں آپ کا نظریہ غیر فطری ہے۔ اِس حقیقت کو سمجھ لیجیے کہ آپ کو خونی رشتے کی بنا پر اپنے والدین سے جو دلچسپی ہے وہ آپ کی بیوی کو کبھی نہیں ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ آپ کی بیوی کا خونی رشتہ آپ کے والدین سے نہیں ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ بیوی سے وہ امید نہ رکھیں جو فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔
پھر کچھ دن بعد وہ سسرال جانے سے منع کرنے لگی۔ جب کہ وہ میرے ساتھ’پیلی بھیت‘ میں رہتی تھی۔ ہم لوگ لمبے وقفے کے بعد گھر جاتے تھے۔ دو چار دن گھر میں مہمان کی طرح گزار کر پھر واپس ’پیلی بھیت‘ آجانا تھا۔
دوران قیام ہم لوگ مہمان ہی رہتے تھے۔ لیکن فرزانہ نے کبھی بھی میرے بوڑھے والدین کو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلائی۔ جب کہ میں ہمیشہ اسے یہی سمجھاتا تھا کہ ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے آئے ہیں۔ سب سے مل جل کر اورسب کو خوش کرکے واپس چلا جاؤں گا۔ لیکن اس نے میری باتوں کو کبھی نہیں مانا۔
جس کی وجہ سے میںupsetرہتا تھا۔ پھر ہم لوگوں کے درمیان اِنھیں گھریلومعاملات کو لے کر جھگڑے بھی ہوئے۔ حالانکہ وہ میرا خوب خیال رکھتی ہے۔ لیکن میرے گھر والوں سے اس کی نفرت میں اضافہ ہوتا گیا۔
پھر وہ کہنے لگی کہ آپ اپنے بھائیوں کو خرچ نہیں دیں گے۔ میں نے اس کی بات نہیں مانی۔ اب وہ کہہ رہی ہے کہ اب میں اپنے میکے ہی میں رہوں گی جب تک آپ اپنے فرائض سے چھٹکارا نہیں پا لیں گے۔
میں عید کے موقع پر اسے گھر چھوڑ آیا تھا۔ بقرعید کے موقع پر میں پھر اسے لینے گیا لیکن وہ آنے سے انکار کر گئی۔ میں ٹکٹcancelکرکے واپس آ گیا ہوں۔ میں نے صبر سے کام لے کر کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہیں کیا۔ چپ چاپ واپس’پیلی بھیت‘ آچکا ہوں۔ لیکن یہاں آنے کے بعد طرح طرح کے سوالات میرے ذہن کو پریشان کیے ہوئے تھے۔
انھیںtensionsکی وجہ سے فرزانہ بیمار رہنے لگی ہے۔ اس کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ وہ گھنٹوں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ کافی علاج کرایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید میری غلطی سے ہی حالات اتنے بگڑتے چلے گئے۔ یا پھر میرے گھر والوں کی کوئی کمی رہی۔ یا پھر میرے سسرال والوں نے اسکی صحیح رہنمائی نہیں کی۔
حالانکہ میرے گھروالوں نے اس کا بہت خیال رکھنے کی کوشش کی۔ یہ بھی کبھی اتفاق نہیں ہوا
مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ بہو کو اس کے نادان ماں باپ یک طرفہ سمجھوتہ کرنے نہیں دیتے۔ اسی طرح ساس کو اس کا نادان بیٹا یک طرفہ سمجھوتہ پر راضی نہیں کر پاتا ۔ اس بنا پر وہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا آپ نے ذکر کیا ۔
2۔ اس مسئلہ کا پائدار حل صرف یہ ہے کہ آدمی اُس وقت شادی کرے جب کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ مکان میں رہنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ جب تک یہ استطاعت نہ ہو، وہ انتظار کرے ۔
3۔ موجودہ حالات میں میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کو اس کے میکے میں رہنے دیں ۔ آپ خود وہاں کبھی کبھی جائیں مگر بیوی کو اپنے گھر لانے کی کوشش نہ کریں۔
فی الحال آپ یہی کریں اور كشادگيکے لیے مستقبل کا انتظار کریں ۔
میں1999میں، بینک میںAgriculture Officerکے عہدے پر فائزہوا تھا۔ دورانِ تعلیم الرسالہ کا مستقل قاری تھالیکن ملازمت میں آنے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔
لیکن میں جب بھی گھرجاتا ہوں تو وہاں سے سارا الرسالہ اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں۔ کیوں کہ میرے والد محترم اس کے مستقل قاری ہیں۔
میری شادی ہوئے تقریباً چار سال ہونے جا رہے ہیں۔ ایک لڑکا بھی ہے۔ لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ شادی ہونے کے اتنی مدّت کے بعد بھی ہم لوگوں میں خوشگوار ماحول نہیں بن سکا۔ شادی کے اوائل سے ہی جھگڑے ہوتے رہے۔ کئی بار ایسے حالات ہوئے کہ شاید ہم لوگوں کو الگ ہو جانا پڑے گا۔ لیکن میں ہمیشہ صبر اور تحمل سے کام لیتا رہا۔ اور اب بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے بہتر حالات کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔
شادی کے اوائل سے ہی میری بیوی میرے گھروالوں سے نفرت کرنے لگی۔ پھر میرے والدین اور میرے سسرال والوں کے درمیان نا اتفاقی بڑھتی گئی۔ فرزانہ میرے خاندان کی پہلی بہو تھی۔اس لیے میرے والدین کو بھی بہت ساری توقعات تھیںلیکن اس نے کسی بھی طرح adjustکرنے کی کوشش نہیں کی۔
نہیں ملا۔ میں اس خودداری کو غیر اسلامی سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں حمیت جاہلیہ کالفظ آیا ہے(الفتح، 48:26 )۔
اسلام کے نزدیک اصل مطلوب چیز خودداری نہیں ہے بلکہ خود شکنی ہے۔ حمیت نہیں ہے بلکہ تواضع ہے اصرار نہیں ہے بلکہ اعتراف ہے۔ اسلام میں نہ خود ی ہے اور نہ بے خودی۔ اسلام میں جو چیز مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے۔ تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے فکر وعمل کا محور خدا بن جائے، اس کی محبوب چیز تواضع اور انکساری ہو۔
اس مزاج کا تعلق گھر کے اندر کی زندگی سے بھی ہے اور باہرکی زندگی سے بھی ۔ ایک حدیث کے مطابق، مومن کو نرم پودے کی طرح ہوجانا چاہیے جو اکڑ سے خالی ہوتا ہے۔ خود داری دراصل اکڑ کا خوبصورت نام ہے۔ جو آدمی لچک یا اعتراف کو بے عزتی سمجھتا ہے وہ اپنی اس کمزوری کے جواز کے لیے اس کو خودداری کا نام دے دیتا ہے۔
میری ازدواجی زندگی میں، میری اور میری شریک حیات کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ اس سلسلے میں میرے دماغ میں مختلف سوالات گونج رہے ہیں ۔ میری شریک حیات صحت خراب ہونے کی وجہ سے میری اجازت کے بغیر اپنے گھر چلی گئی ۔ ایک دن بعد پتہ چلا کہ خدا نے ہمیں اولاد عطا کیا ہے۔
چار ماہ بعد اس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ میں الگ سکونت اختیار کرلوں گی کیونکہ آپ کے گھر والوں سے میری بنتی نہیں ۔ وہ الگ سکونت اختیار کرنے کی ضد پر قائم ہے جب کہ میری رائے اس سے مختلف ہے۔ اس سلسلہ میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔(ایک قاری الرسالہ، کشمیر)
جو مسئلہ آپ نے تحریر فرمایا ہے وہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض ہیں
1۔ ساس اور بہو کا جھگڑا کبھی دو طرفہ بنیاد پر حل نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ یک طرفہ بنیاد پر حل ہوتا ہے۔ یعنی یا تو ساس یک طرفہ طور پر سمجھوتہ کرے یا بہو یک طرفہ طور پر سمجھوتہ کرے ۔
اس وقت حالات بڑے ہی خراب ہیں ۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لڑائی وفساد رونما ہوتا ہے۔ ان حالات میں دل کو اطمینان نہیں ہوتا اور خیالات فاسد ہ دل ودماغ میں آتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے میں کیا کروں؟ کیا سروس ختم کردوں یا ان تمام حالات کو برداشت کروں؟ میں معاشی اعتبار سے بہت ہی پریشان ہوں ۔ برائے کرم اس کاکوئی حل بتائیں ۔(محمد عتیق الرحمن، ہنگولی)
معاشی مسئلہ ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہر ایک کو اپنے حالات کے اعتبار سے ڈھونڈھنا پڑتا ہے۔ کسی کے لیے معاشی مسئلہ کا حل یہ ہوتا ہے کہ وہ کفایت اور سادگی کا طریقہ اختیار کرے ۔ کسی کے لیے یہ ہوتا ہے کہ کوئی ہنر سیکھے ۔ کسی کے لیے یہ ہوتا کہ وہ صرف تنہا نہ کمائے بلکہ اپنے گھروالوں کو بھی اس کام میں لگائے۔
کسی کا کیس یہ ہوتا ہے کہ وہ بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکا ۔ ایسے شخص کے لیے میرا مشورہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے لیے قناعت کا طریقہ اختیار کریں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں ۔ تاکہ آپ کی اگلی نسل دوبارہ اس مسئلہ کا شکار نہ ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ مسائل ہر ایک کو پیش آتے ہیں، خواہ اُس کی آمدنی کم ہو یا زیادہ ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں صبر کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ گھر والوں کی طرف سے شکایات ہوں تو اُن کا جواب تحمل کے ساتھ دیا جائے۔
ردعمل کا طریقہ ہرگز نہ اختیار کیا جائے۔ کامیاب زندگی گذارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز دانش مندی ہے ، نہ کہ زیادہ آمدنی۔
سوال یہ ہے کہ انسان کی خودداری کی اہمیت کیا ہےاور گھر والوں سے خودداری کس حد تک برتی جاسکتی ہے اور دنیا والوں سے کس حد تک۔(حافظ محمد الیاس، بیجا پور)
آج کل جس چیز کو خودداری کہاجاتا ہے اس کی تائید میں مجھے کوئی لفظ قرآن وحدیث میں
مجھے بچے رکھنے میں زبردست دشواری محسوس ہوتی ہے۔ میں نے اپنے دل میں ٹھان لیا ہے کہ میں شادی کے بعد پوری زندگی بے اولاد رہوں گا۔ اس معاملہ میں آپ اپنے مشورہ سے آگاہ فرمائیں ۔(ڈاکٹر عمر علی، مہاراشٹر)
اولاد مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اولاد سے غیر معتدل محبت کی بنا پر اپنے خرچ کو غیرضروری طور پر بڑھالیا جائے۔
خرچ کو اپنی آمدنی کے دائرہ میں رکھا جائے تو کبھی اس قسم کا مسئلہ پیدا نہ ہوگا۔ اصل ضرورت خرچ پر کنٹرول کرنے کی ہے، نہ کہ اولاد پر کنٹرول کرنے کی۔
میرے دو بچے ہیں، دوسرا بچہ بڑا ضدّی ہے۔ بار بار اس کا حیران وپریشان کرنا میرے لیے ایک مسئلہ ہے۔ میں اس مسئلہ سے کیسے نجات پاؤں ؟ (ابرار احمد رفعت، سورت(
آپ نے لکھا ہے کہ آپ کا دوسرا بچہ بڑا ضدّی ہے ۔ اُس کا حیران وپریشان کرنا آپ کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق اکثر باپ اس مسئلہ سے دوچار رہتے ہیں ۔ مگر میرے نزدیک یہ کوئی مسئلہ نہیں ۔ یہ حقیقتاً لاڈ پیار کی قیمت ہے جس کو والدین عام طور پر ضد کا نام دے دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ نہ اس مسئلہ کی جڑ کو سمجھتے ہیں اور نہ اُس کو حل کر پاتے ہیں۔
میرے نزدیک لاڈپیار(pampering)سب سے بُرا تحفہ ہے جو اکثر ماں باپ اپنے بچوں کو دیا کرتے ہیں ۔ بطور خود وہ اس کو محبت سمجھتے ہیں حالاں کہ نتیجہ کے اعتبار سے وہ ایک دشمنی ہے۔ کیوں کہ ایسی روش بچہ کو ہمیشہ کے لیے غیر حقیقت پسند بنا دیتی ہے۔
میں ذہنی اعتبار سے پریشان ہوں اور اس کا حل آپ کے ذریعے سے حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک دینی ادارے میں سروس کرتا ہوں ۔ میری تنخواہ کم اور گھریلو حالات ناقابلِ بیان ہیں ۔
سال سےزیادہ ہو چکی ہے ۔ میں ایک تعلیم یافتہ لڑ کی ہوں اور میں نے کمپیوٹر کی ٹر یننگ لی ہے ۔ آج کل میں ایک اسلامک ویب سائٹ پر کام کر رہی ہوں ۔ میری گزارش ہے کہ آپ مجھے پڑھنے کے لیےدعا بتائیں اور مشورہ دیں۔میںسمجھتی ہوں کہ ہر ایک کے لیے نکاح کا ایک مقر روقت ہے۔ اللہ کی رحمت سے میں اپنے کام میں کامیاب ہوں ۔(ایک پاکستانی خاتون )
مذکورہ قسم کا مسئلہ بہت سی مسلم لڑکیوں کے ساتھ پیش آرہا ہے ۔ میرے نزدیک اس معاملہ میں اصل غلطی والدین کی ہے ۔ والد ین عام طور پراپنی بیٹی کے لیے ایک آئیڈ یل لڑ کے کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ یہ تلاش اکثر برعکس نتیجہ کا سبب بنتی ہے ۔ والدین اپنے جذ بہ محبت کے تحت یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ دنیا میں نہ کوئی آئیڈ یل لڑ کا ہے اور نہ کوئی آئیڈ یل لڑ کی ۔ایسی حالت میں صحیح بات یہ ہےکہ آئیڈیل کو چھوڑ کر پریکٹکل کے اصول پرمسئلہ حل کیا جائے ۔ تجر بہ بتا تا ہے کہ شادی کی کامیابی کا انحصاراس پرنہیں ہے کہ والدین کو اپنی پسند کا داماد یابہو مل جائے۔
شادی کی کامیابی کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ لڑ کا اورلڑ کی دونوں زندگی کی حقیقتوں سے آشنا ہوں اور حقائق کی بنیاد پر ، نہ کہ جذبات کی بنیاد پر باہمی زندگی کی تعمیر کر میں ۔ایسی حالت میں والدین کے لیے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ اپنی اولا دکوزندگی کے عملی حقائق سے باخبر کر یں ۔ وہ انہیں تیار کریں کہ وہ شادی کے بعد تحمل اور دانش مندی کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں اور ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے زندگی کی جد و جہد کر یں ۔ اگرلڑ کے اورلڑ کی میں اس قسم کا شعور حیات موجود ہوتو یقینی طور پر وہ کامیاب زندگی حاصل کر لیں گے ،خواہ شادی کے وقت بظاہر ان کی معاشی حالت زیادہ بہتر نہ ہو۔ مذکورہ قسم کی صورت میں والد ین کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ لڑکی کی رضامندی لے کر اور اللہ کے بھروسہ پر بلا تاخیر نکاح کا معاملہ کر دیں ۔کامیاب زندگی کے معاملہ میں وہ اللہ پر بھروسہ کر میں ، نہ کہ اپنی سوچ اور تدبیر پر ۔
میں آپ کے الرسالہ کا برابر مطالعہ کرتا ہوں ۔ آپ کی بات ہمیشہ دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ مجھے آپ سے ایک سوال کا جواب چاہیے۔
دوران انسان کی ذہنی اور روحانی ترقی ہوتی ہے ۔
ذہنی اور روحانی ترقی، اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ انسان ناموافق صورتحال پر راضی ہوجائے، وہ فرق اور اختلاف کے باوجود مل جل کر رہنے کا طریقہ سیکھ لے ۔ اپنی پسند کی دنیا تلاش کرنے کا نام عقل مندی نہیں، عقل مندی یہ ہے کہ آدمی پسند کے خلاف جینے کا راز دریافت کرلے۔
کامیاب ازدواجی زندگی میں صرف بہو کو نصيحت كي جاتيہے۔ ایسا کیوں ہے کہ گھر کے سارے جھگڑے کی وجہ بہو کو مانا جاتا ہے ۔ کیا سسرال میں بہو کو داعی کی طرح رہنا چاہیے جو یک طرفہ نا خوش گوار یوں کو برداشت کرے؟(مز صوفیہ حیدر، بہار)
شرعی اعتبار سے ساس اور بہو، دونوں کی ذمہ داری بالکل یکساں ہے ۔ ساس کافرض ہے کہ وہ اپنی بہو کو وہی عزت اورمحبت دے جو وہ اپنی بیٹی کا حق سمجھتی ہے ۔ اسی طرح بہو کا فرض ہے کہ وہ ساس کے ساتھ اسی عزت اور محبت کا معاملہ کرے جو وہ اپنی ماں کے لیےکرتی رہی ہے۔ اس معاملہ میں دونوں میں سے جو بھی کوتاہی کرے گا وہ یقینی طور پر اس کے لیے آخرت میں پکڑاجائے گا ۔ دونوں میں سے کوئی بھی آخرت کی پکڑ سے بچنے والا نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر گھر کو امتحان کا مقام بنادیا ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے امتحان کا پرچہ ہیں ۔ اسی طرح ساس اور بہو دونوں ایک دوسرے کے لیے امتحان کا پرچہ ہیں ۔ یہ امتحان اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس میں کوتاہی کی تلافی نماز روزہ کے ذریعے بھی نہیں ہوسکتی۔
واقعہ یہ ہے کہ میرا مسئلہ وہی ہے جو بہت سی مسلم لڑکیوں کا مسئلہ ہے، اور وہ میری شادی کا مسئلہ ہے ۔ میری ماں آج کل پر یشانی میں ہیں، ورنہ وہ خود آپ سے رابطہ قائم کرتیں ۔ میرے رشتہ کے لیے بہت سے پیغامات آئے ۔ ان میں سے کوئی رشتہ میرے والدین کو پسند نہ آسکا۔ میں اللہ پر بہت یقین رکھتی ہوں مگر جب میں اپنے والدین کو پریشان دیکھتی ہوں تو اپنا اعتمادکھودیتی ہوں ۔ میری عمر20
میں بہت مجبور ہوں ۔ بات یہ ہے کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی اور جہاں میری ممی شادی کروارہی ہیں وہاں تو بالکل ہی نہیں کرنا چاہتی ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی لڑکا صرف دنیا کو دکھا نے کے لیے مجھ سے شادی کرلے ۔
مجھے صرف زندگی گذارنی ہے ۔ زندگی جینے کی ذرہ برابر بھی خواہش نہیں ہے لیکن سماج میں اکیلے ایک لڑکی زندگی نہیں گزار سکتی ۔اور کسی سے یہ بات کہہ نہیں سکتی اور کوئی بھی ایسا انسان نہیں ہے جس سے میں مشورہ لے سکوں ۔پليزآپ میری مدد کریں ۔ میں اپنے جواب کا بے صبری سے انتظار کروں گی۔ (ایک مسلم خاتون(
شادی کے سلسلے میں اکثر لڑکے یا لڑکیاں اپنی فرضی آرزوؤں کے تحت یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا میں ان کے لیے کوئی معیاری جوڑا موجود ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں نہ کوئی بیوی معیاری بیوی ہے اور نہ ہی کوئی شوہر معیاری شوہر ۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر پسند والی شادیاں درمیان ہی میں ٹوٹ جاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی معیاری جوڑے کے حصول کانام نہیں ہے بلکہ وہ غیر معیاری جوڑے کے ساتھ نباہ کرنے کا نام ہے۔
عورت اور مرددونوں کے لیے زندگی فطرت کا ایک قیمتی تحفہ ہے ۔ ہر عورت اور ہر مرد کو چاہیے کہ وہ اس تحفہ کو خوشی کے ساتھ قبول کرے ۔
وہ جینے کی طرح جیے اور جب اس کی موت آئے تو وہ اس احساس کے ساتھ مرے کہ اس نے زندگی کا فریضہ ادا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کوتا ہی نہیں کی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ غیر مطلوب جوڑے کے ساتھ زندگی گزارنا یا غیر مطلوب افراد کے ساتھ کام کرنا کوئی برائی نہیں ۔ اس کے اندر ایک بے حد مثبت پہلوچھپا ہوا ہے، وہ یہ کہ اسی کے
ہر شادی کامیاب شادی ہے، کوئی شادی ناکام شادی نہیں۔ شرط یہ ہے کہ آدمی فطرت کے قانون کو جانے، اور اس کو اپنی شادی شدہ زندگی میں استعمال کرے، خواہ یہ قانون اس کی مرضی کے مطابق ہو یا اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی خالق نے پیدا کیا ہے، اور خالق کا اعلان ہے کہ وہ ہر انسان کو احسن تقویم (التین، 95:4 ) پر پیدا کرتا ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو کسی کی شادی کبھی ناکام شادی نہ بنے۔قرآن میں آیا ہے إِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتَّى ( 94:4 ) یعنی تمھاری کوششیں مختلف ہیں
Indeed your striving is different
اس آیت میں ڈفرنٹ کا لفظ کوششوں کے اختلاف کے لیے آیا ہے۔سعی کا لفظ نتیجہ کو بتاتا ہے، مگر وہ یہاں سبب نتیجہ کے معنٰی میں ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں کی کوششیں مختلف کیوں ہوتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا کیس ہمیشہ مختلف کیس (different case) ہوتا ہے۔ یہ اختلاف اس لیے ہے تاکہ لوگ اپنی کوششوں کو مختلف اعتبار سے استعمال کریں، اور زندگی میں ہر پہلو سے ترقی کا عمل جاری ہو۔
اسی فطری حقیقت کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا راز ہے۔ مرد اور عورت دونوں اگر اس حقیقت کو جانیں تو وہ دریافت کریں گے کہ شتیّٰ (اختلاف) کا یہ معاملہ فطرت کی زبان میں ایک پیغام دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ لوگ فطرت سے ٹکرانے کے بجائے اس سے موافقت کریں۔ وہ اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیارنہ کریں، بلکہ مینجمنٹ کا طریقہ اختیار کریں
They have to adopt the art of difference management in this regard
اس معاملے میں ٹکراؤ کا طریقہ سر تاسر بے فائدہ ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی شخص فطرت کے قانون سے لڑ کر جیت نہیں سکتا۔ جب ٹکراؤ انسان اور فطرت کے قانون کے درمیان ہو تو ہار ہمیشہ انسان کو ہوگی، فطرت کے قانون کو نہیں۔
(complaint) میں جئیں گے، وہ اپنی زندگی کو کامیاب زندگی بنانے میں ناکام رہیں گے۔ یہ اصول ایک فرد کے لیے بھی درست ہے، اور پوری قوم کے لیے بھی درست۔
ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان فطرت کا ایک اصول ہے۔ نکاح کے ذریعہ زوجین کے درمیان ایک خصوصی تعلق قائم ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے قریبی طور پر شریک حیات بن جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے فکری ساتھی (intellectual partner) بن کر زندگی کا وہ رول ادا کریں، جو خالق کےنقشے کے مطابق ان سے مطلو ب ہے۔
نکاح کا تعلق دو انسانوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ سماج کا ایک مقدس یونٹ بنیں۔ وہ خاندان کی سطح پر پورے سماج کے لیے ایک ماڈل بن جائیں۔ وہ سماج کی تشکیل میں ایک ایسا تعمیری حصہ ادا کریں، جو صرف ایک خاندان کے لیے ممکن ہوتا ہے۔ اگر لوگوں کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے تو ہر سماج ایک درست سماج بن جائے گا — یہی سماجی زندگی کی صالح تعمیر کا واحد طریقہ ہے۔
ہر مسئلے کا یقینی حل ہے، بشرطیکہ مسئلے کو صحیح اصول کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ یہ دریافت کیا جائے کہ جو ہوا اس کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ اکثر حالات میں مسئلے کے حل کا آغاز یہ ہوتا ہے کہ آدمی یہ دریافت کرے کہ اصل غلطی خود اس کی ہے، کسی دوسرے کی نہیں۔
مثلا لَو میرج (love marriage)میں نکاح کے وقت شادی کا معاملہ بظاہر محبت کا معاملہ معلوم ہوتا ہے، لیکن نکاح کے بعد شادی کا معاملہ عملاً ذمہ داری کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے، اور فطرت کے اصول میں کوئی تبدیلی نہیں۔ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو نکاح کا وہی طریقہ درست ہے جس کو ارینجڈ میرج (arranged marriage)کہا جاتا ہے۔ لَومیرج اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک جذباتی میرج ہے، جس کو غلط طور پر لَو میرج کا نام دے دیا گیا ہے۔ لَومیرج کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں طرفَین کے خاندان کی ذمہ داری عملاً ختم ہوجاتی ہے۔ اب ذمہ داری کا سارا معاملہ صرف دو ناتجربہ کار نوجوانوں کا معاملہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لَو میرج بعد کو اکثر ناکام ثابت ہوتی ہے۔
اگر کسی کی لَو میرج پرابلم میرج بن جائے تو اس کے بعد اس کو یہ کرنا چاہیے کہ اپنے مسئلے کا ذمہ دار وہ خود اپنے آپ کو قرار دے، نہ کہ کسی دوسرے کو ۔ ایسا کرنے کے بعد اس کا ذہن صحیح رخ پر کام کرنے لگے گا۔اس کا رویہ حقیقت پسندانہ رویہ بن جائے گا۔ اس کے اندر منفی سوچ باقی نہیں رہے گی۔ اس کا تعلق براہ راست طور پر اللہ سے قائم ہوجائے گا۔ اگر وہ ایسا کرے تو امیدہے کہ دھیرے دھیرے اس کے معاملات درست ہوجائیں گے۔
زندگی کبھی جذبات کی بنیاد پر نہیں چلتی، زندگی ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر چلتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ آئڈیلسٹ (idealist)نہ بنے، بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کو جانے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نہ جانیں، وہ ہمیشہ شکایت
ایک عالم کا واقعہ ہے۔ ان کی زندگی ایک تصنیفی ادارہ میں گزری۔ وہ بہت سادہ طور پر رہتے تھے۔ اپنی مختصر آمدنی میں بھی وہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ بچت کر لیا کرتے تھے۔ ان کی صرف ایک لڑکی تھی۔ اس کی انہوں نے شادی کی تو شادی میں کچھ خرچ نہیں کیا۔ ایک نوجوان سے سادہ طور پرنکاح پڑھایا اور اس کے بعد لڑکی کو رخصت کر دیا۔ البتہ انہوں نے رخصت کرتے ہوئے اپنی لڑکی اور داماد کو ایک چیک دیا۔ یہ چیک دس ہزار روپے کا تھا۔ انہوں نے کہا’’یہی میری زندگی بھر کی بچت ہے جو بینک میں جمع تھی۔ اس رقم کو میں شادی کی رسوم میں بھی خرچ کر سکتا تھا۔ تاہم اس کے مقابلہ میں مجھے یہ زیادہ پسند آیا کہ میں اس کو نقد رقم لوگوں کے حوالے کر دوں۔ تم لوگ اسے سنبھالو اور اس کو اپنی زندگی کی تعمیر میں استعمال کرو‘‘۔
لڑکی اور داماد نے باہم مشورہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اس رقم سے کوئی کاروبار شروع کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ابتداء میں ان کو کافی محنت کرنی پڑی۔ بعض اوقات بڑے سخت مراحل سامنے آئے۔ مگر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے کاروبار پر جمے رہے۔ بالآخر حالات بدلنا شروع ہوئے۔ مذکورہ ’’دس ہزار‘‘ روپیہ میں برکت ہوئی اور وہ لوگ چند سال کے بعد کافی ترقی کر گئے۔ اب وہ اپنے مقام پر ایک باعزت اور خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
شادی آدمی کی زندگی کا ایک بے حد سنجیدہ واقعہ ہے۔ وہ دھوم مچانے کا دن نہیں بلکہ زندگی کی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کا دن ہے۔ اس دن ایک مرد اور ایک عورت اپنے کو پختہ عہد (النساء، 9:21 ) میں باندھتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ نکاح کی تقریب سادہ ہو، وہ فضول نمائشوں سے بابکل پاک ہو۔ اور اگر کسی کو خرچ ہی کرنا ہے تو اس خرچ کی ایک اچھی صورت وہ ہے جس کی مثال اوپر کے واقعہ میں نظر آتی ہے۔اگر ہمارے درمیان اس قسم کا رواج پڑ جائے تو شادی قومی تعمیر کے پروگرام کا ایک اہم جز بن جائے۔ ہر خاندان میں نہایت خاموشی کے ساتھ ترقی کا سلسلہ چل پڑے۔ قوم کے اربوں روپے جو ہر سال چند دن کے تماشوں میں ضائع ہو جاتے ہیں، قوم کی تعمیر کا ایک مستحکم ذریعہ بن جائیں۔ وہ قومی اقتصادیات کے منصوبہ کا جز بن جائیں۔ اور قوم اقتصادی حیثیت سے اوپر اٹھ جائے تو یہ صرف ایک اقتصادی واقعہ نہیں ہوگا بلکہ بے شمار پہلوئوں سے وہ قوم کی ترقی کے لیے مفید ہوگا— یہ ایک مزید فائدہ ہے مگر مزید خرچ کے بغیر۔
واضح ہو کہ حدیث میں جہیز کا لفظ معروف قسم کا جہیز دینے کے معنیٰ میں نہیں ہے بلکہ ضروری چیزوں کا انتظام کرنے کے معنی میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتظام خود حضرت علیؓ کی رقم پر کیا تھا۔ یہ رقم حضرت علی نے اپنی ایک پرانی زرہ فروخت کرکے آپ کے حوالے کی تھی۔
مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حضرت فاطمہ کے علاوہ تین اور صاحبزادیاں تھیں جو بڑی ہوئیں اور پھر بیاہی گئیں۔ مگر مذکورہ’’جہیز‘‘ آپ نے صرف حضرت فاطمہ کو دیا۔ بقیہ صاحبزادیوں کو اس قسم کا کوئی جہیز نہیں دیا۔ اگر جہیز فی الواقع آپ کی مستقل سنت ہوتی تو آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی ضرور جہیز دیا ہوتا۔ مگر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا کہ آپ نے بقیہ صاحبزادیوں کو بھی ’’جہیز‘‘ دیا ہو۔
یہ فرق خود ثابت کرتا ہے کہ مذکورہ جہیز اگر اس کو جہیز کہا جا سکے بربنائے ضرورت تھا نہ کہ بربنائے رسم۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی جب چھوٹے تھے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد(ابو طالب) سے کہہ کر ان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا۔ حضرت علی بچپن سے آپ کی زیرِ کفالت تھے۔ گویا حضرت علی ایک اعتبار سے آپ کے چچا زاد بھائی تھے اور دوسرے اعتبار سے آپ کے بیٹے کے برابر تھے۔ بچپن سے آپ کے تمام اخراجات کی فراہمی آپ کے ذمہ تھی۔ اس لیے بالکل قدرتی بات تھی کہ نکاح کے بعد نیا گھر بسانے کے لیے آ پ انہیں بطور سرپرست کچھ ضروری سامان دے دیں۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اسلام ایک ناقص دین ہی اس میں زندگی کے تمام معاملات کے بارہ میں احکام موجود نہیں۔ تو مسلمان ایسے شخص سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ مگر عملاً مسلمان اسی بات کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ اسلام ایک ناقص دین ہی یاا کم ازکم یہ کہ اس کا ہدایت کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے طریقے زیادہ بہتر اور زیادہ قابل عمل ہیں۔
جہیز کے بارہ میں مسلمانوں نے واضح طور پر ہندو طریقہ اختیار کر لیا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کی دوسری رسوم جو مسلمانوں میں رائج ہیں وہ اسلام سے زیادہ دوسری قوموں کے طور طریقوں سے ماخوذ ہیں۔ اگر مسلمانوں کا یہ خیال ہو کہ اسلام کے کامل دین ہونے پر فخر کرنا ہی خدا کے یہاں ان کی مقبولیت کے لیے کافی ہے تو اس سے بڑی غلط فہمی اور کوئی نہیں۔ کیوں کہ یہود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر فخر کرتے تھے اس کے باوجود وہ خدا کے یہاں ملعون قرار دےدیے گئے۔
شادی میں جہیز دینے کی رسم ہندوستانی مسلمانوں میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ رسم ہندوستان اور پاکستان کے سوا دوسرے مسلم ملکوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ برصغیر ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم یقینی طور پر ہندوئوں سے آئی ہے۔ ہندو لوگ اپنے قدیم قانون کے مطابقٗ بیٹی کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے تھی، اس کی تلافی کے لیے ان کے یہاں یہ رواج پڑ گیا کہ شادی کے موقع پر لڑکی کو زیادہ سے زیادہ دیا جائے۔ چنانچہ وہ جہیز کے نام پر بیٹی کو اپنی دولت کا ایک حصہ دینے کی کوشش کرنے لگے۔
اسی ہندو طریقہ کی تقلید ہندوستان کے مسلمان بھی کر رہے ہیں۔ اسلام میں اگرچہ لڑکی کو وراثت میںباقاعدہ حصہ دار بنایا گیا ہے۔ مگر مسلمانوں نے عملی طور پر لڑکیوں کو اس شرعی حق سے محروم کر رکھا ہے۔ اس کی تلافی کے لیے انہوں نے اس ہندو طریقہ کو اختیار کر لیا ہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی کو کافی سامان دے کر اسے خوش کر دیا جائے۔ جہیز حقیقۃً اسلام کے قانونِ وراثت سے فرار کی تلافی ہے جس کو پڑوسی قوم سے لے کر اختیار کرلیا گیا ہے۔
کچھ مسلمان یہ کہتے ہے کہ جہیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح حضرت علی سے کیا تو ان کو اپنے پاس سے جہیز بھی عطا کیا۔ اس قسم کی بات دراصل غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیا اس کو کسی طرح بھی’’جہیز‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اور اگر اس کو جہیز کہا جائے تو ساری دنیا میں غالباً کوئی ایک مسلمان بھی نہیں جو اپنی لڑکی کو یہ پیغمبرانہ جہیز دینے کے لیے تیار ہو۔
وہ جہیز کیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو دیا۔ یہاں ہم اس کی روایت نقل کرتے ہیںجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ(سنن النسائی، حدیث نمبر 3384)۔ یعنی حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو جہیز میں ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک چمڑے کا تکیہ دیا جس میں اذخرگھاس کا بھرائو تھا۔
انڈین اکسپریس( 24 نومبر1988) میرے سامنے ہے۔ اس کے صفحہ اول پر بتایا گیا ہے کہ دہلی کی ایک 26 سالہ عورت پرویش کو اس کی ساس برسارانی نے مار ڈالا۔ اس نے اپنی بہو کے اوپر مٹی کا تیل انڈیل دیا اور پھر آگ لگا دی۔ صرف اس لیے کہ پرویش نے سسرال والوں کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا تھا کہ وہ اپنے میکے سے دس ہزار روپیہ لا کر انہیں دے۔ اگلے دن دوبارہ انڈین اکسپریس( 25 نومبر1988) کے صفحہ اول پر یہ سرخی ہے
Another dowry victim
خبر کے مطابق دہلی کی 26 سالہ عورت اروین رانا کو اس کے سسرال والوں نے مار ڈالا۔ دوبارہ وجہ یہی تھی کہ سسرال والوں کے جہیز کے مطالبہ کو اس نے پورا نہیں کیا تھا۔ اس قسم کی خبریں ہر روز اخبارات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ پولیس ان اموات کو جہیز کی موت (Dowry death) کہتی ہے۔ جہیز کی خاطر موت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بناء پر راجیہ سبھا میں اس کی بابت سوال اٹھایا گیا۔ وزارت داخلہ کے منسٹر آف اسٹیٹ مسٹر پی چدمبرم نے ہندوستان ٹائمس( 25 نومبر1988) کے مطابق جو اعدادوشمار بتائے، وہ یہ ہیں
1985
میں
999
موتیں
1986
1319
1987
1786
ہندوستان کا موجودہ سماج جس وحشت و بربریت کی سطح کو پہنچ چکا ہے، اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ آج ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں وہ خونخوار بھیڑیوں کا سماج ہے نہ کہ شریف انسانوں کا سماج۔ ایسی حالت میں فرقہ وارانہ فسادات پر چیخ پکار کرنا یا ان کے خلاف مذمت کے بیانات دینا ایک ایسا فعل ہے جو احمقانہ ردعمل کے سوا کسی اور خانہ میں جانے والا نہیں۔ ایسی حالت میں کسی سمجھ دار آدمی کے ليے بچائو کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ انسان نما حیوانوں کے ساتھ اعراض کرے۔ ان کی طرف سے اشتعال انگیزی کا واقعہ پیش آئے تب بھی وہ مشتعل نہ ہو۔ کوئی آدمی حیوان سے نہیں لڑتا۔ حیوان سے اعراض کیا جاتا ہے، نہ کہ جنگ۔
(کنزالعمال، حدیث نمبر 45797)۔یعنی حضرت عمر نےکہا مہر اگر آخرت میں بلندی اور عظمت کی چیز ہوتی تو یقینا ًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں اور آپ کی بیویاں اس کی زیادہ مستحق تھیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ خلیفہ دوم نے فرمایا کہ اے لوگو، تم عورتوں کے مہر زیادہ نہ باندھو، اور مجھے جس شخص کے بارے میں بھی یہ اطلاع ملے گی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر سے زیادہ مہر باندھا ہے یا کسی کو اس سے زیادہ مہر دیا گیا ہے تو میں زیادہ مقدار کو لے کر اس کو بیت المال میں جمع کر دوں گا۔
یہ کہہ کر آپ منبر سے اترے تو قریش کی ایک عورت سامنے آئي۔ اس نے کہا اے امیرالمؤمنین، اللہ کی کتاب زیادہ پیروی کے قابل ہے یا آپ کا قول۔ حضرت عمر نے کہا کہ اللہ کی کتاب۔ عورت نے کہا کہ ابھی آپ نے لوگوں کو منع کیا ہے کہ وہ عورتوں کے مہر میں زیادتی نہ کریں۔ اور اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ— اور اگر تم نے کسی عورت کو زیادہ مال دیا ہے تو(طلاق کے بعد) اس میں سے کچھ نہ لو(النساء، 4:20 )۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا ہر ایک عمر سے زیادہ جانتا ہے(كُلُّ أَحَدٍ أَفْقَهُ مِنْ عُمَرَ) آپ نے یہ فقرہ تین بار کہا۔ اس کے بعد حضرت عمر دوبارہ منبر پر آئے اور لوگوں سے کہا
إِنِّي نَهَيْتُكُمْ أَنْ تُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ أَلَا فَلْيَفْعَلْ رَجُلٌ فِي مَالِهِ مَا بَدَا لَهُ(سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 598 )۔ یعنی میں نے تم کو عورتوں کا مہر زیادہ باندھنے سے روکا تھا۔ اب ہر آدمی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے مال میں جو چاہے کرے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نکاح میں زیادہ مہر باندھنا اگرچہ خالص قانونی اعتبار سے بالکل ممنوع چیز نہیں مگر وہ یقینی طور پر غیر افضل چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے مہر کم تھے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں بھی یہ ثابت نہیں کہ اس نے اپنا یا اپنی بیٹیوں کا مہر زیادہ مقرر کیا ہو۔
فرمایا کہ عورت کی برکت میں سے یہ ہے کہ اس کا معاملہ آسان ہو اور اس کا مہر کم ہو۔
(3) أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ صَدَاقًا(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 2732)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ برکت والی عورت وہ ہے جس کا مہر سب سے آسان ہو۔
(4) عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ قَالَسَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمْ كَانَ صَدَاقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ’’كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَنَشًّا‘‘، قَالَتْ ’’أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ ‘‘ قَالَ قُلْتُ لَا، قَالَتْ ’’نِصْفُ أُوقِيَّةٍ، فَتِلْكَ خَمْسُمِائَةِ دِرْهَمٍ، فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَزْوَاجِهِ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1426)۔ یعنی حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا مہر اپنی بیویوں کے لیے بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا۔ انہوں نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ نش کیا ہے۔ راوی نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نصف اوقیہ۔ یہ تقریباً پانچ سو درہم ہوا۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر اپنی بیویوں کے لیے تھا۔
(5) ام حبیبہ کا مہر سب سے زیادہ تھا۔ روایت کے مطابق، فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْهَرَهَا عَنْهُ أَرْبَعَةَ آلَافٍ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2107)۔یعنی نجاشی نے ام حبیبہ کی شادی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، اور ان کا مہر چار ہزار درہم آپ کی طرف سےنجاشی نے خود مقرر کیا تھا۔
غیر افضل طریقہ
روایات میں آتا ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ مہر میں کس نے چار سو درہم پر اضافہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا مہر آپس میں چار سو درہم یا اس سے کم ہوتا تھا۔ اور اگر مہر میں زیادتی تقوی اور عزت کی بات ہوتی تو تم مہر کے بارے میں ان سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔عن عمر قال لو كان المهر سناء ورفعة في الآخرة كان بنات النبي صلى الله عليه وسلم ونساؤه أحق بذلك
(حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے کہ مہر کا کل یا جز ءموخر کیا جائے اس شرط پر کہ مدت مجہول نہ ہو)۔
الشافعية - قالوا يجوز تأجيل الصداق بشرط أن لا يكون الأجل مجهولاً، سواء كان المؤجل كل الصداق أو بعضه(شافعیہ کا کہنا ہے کہ مہر کا تاخیر جائز ہے اس شرط پر کہ مدت مجہول نہ ہو۔ خواہ مہر کا کل حصہ موجل ہو یا اس کا جزئی حصہ)۔
(الفقه على المذاهب الأربعة ،بيروت2003،جلد 4، صفحہ138-141)
زیادہ مہر نہیں
مہر رقم میں بھی دی جا سکتی ہے اور کسی چیز کی صورت میں بھی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی مقدار حسب استعداد مقرر کی جائے۔ وہ اتنی ہی ہو کہ آدمی سہولت کے ساتھ اس کو اسی وقت ادا کرسکے۔ مہر کی کم سے کم حد کے بارہ میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں۔ تاہم ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مہر کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ وہ اتنی ہو کہ اس کے ذریعے سے ضرورت کی کوئی چیز خریدی جا سکے۔ ہر وہ رقم مہر بن سکتی ہے جو کسی چیز کی قیمت ہو(كل ما صَحّ ثمناً صح صداقاً ) الفقہ علی المذاھب الاربعہ، جلد4، صفحہ100۔
احادیث میں کوئی بھی ایسی حدیث نہیں جس میں زیادہ مہر مقرر کرنے کی ہمت افزائی کی گئی ہو۔ اس کے برعکس، بہت سی روایتیں ہیں جن میں کم مہر مقرر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اسلام کا طریقہ ہمیشہ تلقین کا ہوتا ہے نہ کہ تحریم کا۔ چنانچہ زیادہ مہر کو اگرچہ بالکل ممنوع قرار نہیں دیا گیا ہے مگر تمام روایتیں اسی کے حق میں ہیں کہ مہر زیادہ نہ باندھی جائے۔ چند روایتیں یہ ہیں
(1) عَنِ ابْن عَبَّاسٍ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَيْرُهُنَّ أَيْسَرُهُنَّ صَدَاقًا"(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4034) ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر عورت وہ ہے جس کا مہر سب سے آسان ہو۔
(2) عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْقَالَ لي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"مِنْ يُمْنِ الْمَرْأَةِ تَسْهِيلُ أَمْرِهَا، وَقِلَّةُ صَدَاقِهَا"(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4095)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
کی اجل(مدت) کم سے کم آٹھ سال زیادہ سے زیادہ دس سال تھی۔ اس کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نکاح ہوا اور پھر انہوں نے دس سال تک حضرت شعیبؑ کے گھر پر خدمت کی۔ اس طرح مہر مؤجل کو پورا کرکے وہ دوبارہ مدین سے مصر کے لیے روانہ ہوگئے۔(القصص، 28:27-28 )
مہر مؤجل کسی قسم کے غیر متعین مہر کا نام نہیں ہے۔ شرعی اعتبار سے مہر مؤجل وہ ہے جس کی ادائیگی کی اجل (مدت) بوقت نکاح طے ہو اور وہ اپنے مقررہ وقت پر پوری طرح ادا کر دی جائے۔
فقہاء کی رائے
مہر کا اصل شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس کو نکاح کے وقت فوراً ادا کر دیا جائے۔ اسی پر اکثر صحابہ کا عمل رہا ہے۔ گویا اصل مہر وہی ہے جو مہر معجل ہو۔ مہر کی دوسری قسم(مہر مؤجل) دوسرا برابر درجہ کا طریقہ نہیں۔ یہ صرف رخصت کا طریقہ ہے۔ اصلاً مہر کی ایک ہی قسم ہے، اور وہ فوراً ادا کر دینا ہے، تاہم بطور رخصت یہ دوسرا طریقہ بھی رکھا گیا ہے تاکہ آدمی حسب ضرورت نکاح کے بعد بھی مقرر مدت پر اس کو ادا کرکے بری الذمہ ہو سکے۔
مہر کے بارہ میں تفصیلی ابواب فقہ کی کتابوں میں آئے ہیں۔ عبدالرحمن الجزیری کی کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة میں مہر(مباحث الصداق) پر 85 صفحات ہیں۔ مہر کے مؤجل یا معجل(تأجيل الصداق وتعجيله) کے مسائل چار صفحات میں بیان ہوئے ہیں۔ اس بارے میں اگرچہ فقہاء کے درمیان بعض اختلافات ہیں مگر وہ تمام تر جزئی ہیں۔ ان جزئی اختلافات سے قطع نظر مختلف فقہاء کے اقوال کا خلاصہ صاحب کتاب کے الفاظ میں یہ ہے
الحنفية - قالوايجوز تأجيل الصداق، وتعجيله كله، أو بعضه، ولكن يشترط أن لا يكون الأجل مجهولاً (حنفیہ کا کہنا ہے کہ مہر کی تاخیر جائزہ ہے۔ اس کا کل یا جزء فوری طور پر دیا بھی جا سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ مدت غیر متعین نہ ہو)۔
المالكية - قالوا فإذا كان الصداق غير معين فإنه يجوز كله. أو بعضه بشرط أن لا يكون الأجل مجهولاً ۔ یعنی مالکیہ کا قول ہے کہ مہر جب غیر معین ہو تو اس کا کل یا جزء جائز ہے اس شرط پر کہ مدت مجہول(غیر متعین) نہ ہو۔
الحنابلة - قالوا يجوز أن يؤجل الصداق كله. أو بعضه بشرط أن لا يكون الأجل مجهولاً
سوال و جواب کئی بار ہوا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انصار کے فلاں قبیلہ کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بھیجا ہے اور کہا ہے کہ تم فلاں عورت سے میرا نکاح کر دو۔ چنانچہ میں نے جا کر کہا اور انہوں نے میرا نکاح کر دیا۔ مگر مجھے یہ غم تھا کہ میرے پاس مہر دینے کے لیے کچھ نہیں۔ میں نے واپس آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ’’يَا بُرَيْدَةُ الْأَسْلَمِيُّ، اجْمَعُوا لَهُ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ‘‘، قَالَ فَجَمَعُوا لِي وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَأَخَذْتُ مَا جَمَعُوا لِي فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ’’اذْهَبْ بِهَذَا إِلَيْهِمْ فَقُلْهَذَا صَدَاقُهَا‘‘، فَأَتَيْتُهُمْ فَقُلْتُ هَذَا صَدَاقُهَا فَرَضُوهُ وَقَبِلُوهُ، وَقَالُواكَثِيرٌ طَيِّبٌ (مسند احمد، حدیث نمبر 16577)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ اسلم کے سردار بریدہ اسلمی سے کہا کہ اے بریدہ، تم لوگ اس کے لیے ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا جمع کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے میرے لیے ایک گٹھلی کے ہم وزن سونا جمع کیا پھر میں نے جو کچھ انہوں نے جمع کیا تھا لیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو لے کر ان کے پاس جائواور کہو کہ یہ اس کا مہر ہے۔ پھر میں ان کے پاس گیاا اور کہا کہ یہ اس کا مہر ہے انہوں نے قبول کیا اور راضی ہوگئے انہوں نے کہا کہ بہت ہے، اچھا ہے۔
مہر مؤجل
مہر کی دوسری صورت یہ ہے کہ مرد یہ وعدہ کرے کہ وہ اتنی مدت میں اس کو ادا کر دے گا اس دوسری قسم کی مہر کا شرعی نام مہر مؤجل ہے۔ موجل کا لفظ اجل(مدت) سے بنا ہے۔ مہر مؤجل کا مطلب یہ ہے کہ وہ مہر جس کی ادائیگی کے لیے ایک وقت اور ایک مدت مقرر کر دی جائے۔ اگر بوقت نکاح فوراً مہر ادا نہ کیا جا رہا ہو تو اسی وقت اس کی ادائیگی کی مدت کی تعین ضروری ہے۔
مہر موجل کی ایک مثال حضرت موسیٰؑ کے نکاح میں ملتی ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے نکل کر مدین پہونچے تو وہاں انہوں نے حضرت شعیبؑ کی صاحبزادی(صفورا) سے نکاح کیا۔ یہ نکاح مہر مؤجل پر ہوا تھا۔ نکاح کی مہر طرفین کی رضا مندی سے یہ قرار پائی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بوڑھے خسر حضرت شعیبؑ کی بکریاں چرائیں۔ اس گلہ بانی
کی مالیاتی کفالت کی ذمہ داری لے رہا ہے۔ مہر کی اصل حیثیت یہی ہے۔
مہر معجل
مہر اصطلاحی طور پر اس رقم(یا کسی متعین چیز) کا نام ہے جو ایک مرد نکاح کے وقت اپنی بیوی کو ادا کرتا ہے۔ اس مہر کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس کو نکاح کے وقت فوراً ادا کر دیا جائے۔ مہر کی اس قسم کو مہر معجل کہتے ہیں۔ معجل کا لفظ عجلت سے بنا ہے۔ یعنی جلد یا بلاتاخیر ادا کی جانے والی مہر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں عام رواج مہر معجل ہی کا تھا۔ وہ لوگ مختصر مہر باندھتے اور نکاح کے وقت ہی اس کو ادا کر دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمہ کا نکاح حضرت علی ابن ابی طالب سے کیا۔ اس سلسلہ میں مختلف تفصیلات حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اس کا ایک جزء مہر کے بارہ میں ہے۔ نکاح کی بات طے ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ایک حصہ یہ ہے
فَقَالَ وَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تَسْتَحِلُّهَا بِهِ؟ فَقُلْتُلَا، واللَّه يَا رَسُولَ اللَّه.فَقَالَ مَا فَعَلَتْ دِرْعٌ سلّحتكها- فو الذي نَفْسُ عَلِيٍّ بِيَدِهِ إِنَّهَا لَحُطَمِيَّةٌ مَا ثَمَنُهَا أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ- فَقُلْتُ عِنْدِي فَقَالَ قَدْ زَوَّجْتُكَهَا فَابْعَثْ إِلَيْهَا بِهَا فَاسْتَحِلَّهَا بِهَا. فَإِنْ كَانَتْ لَصَدَاقُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّه عليه وسلم(دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد3، صفحہ 160)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، کیا تمہارے پاس کوئی چیز(بطور مہر) ہے جس کے ذریعہ تم فاطمہ کو اپنے لیے جائز کرو۔ میں نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم اے خدا کے رسول۔ آپ نے کہا کہ وہ زرہ کیا ہوئی جو میں نے تم کو دی تھی۔(حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں علی کی جان ہے، وہ زرہ ٹوٹ چکی تھی، اس کی قیمت چار درہم بھی نہ تھی۔ پس میں نے کہا کہ وہ میرے پاس ہے۔ آپ نے کہا کہ میں نے تمہارا نکاح فاطمہ سے کر دیا تو اس زرہ کو فاطمہ کے پاس بھیج دو اور اس کے ذریعہ فاطمہ کو اپنے لیے جائز کرو۔ تو یہ تھا فاطمہ بنت رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر۔
حضرت ربیعہ اسلمی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ربیعہ تم نکاح کیوں نہیں کر لیتے۔ میں نے کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں۔ یہ
معاشرتی زندگی میں اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان ایک متوازن تقسیم قائم کی ہے۔ یہ تقسیمِ عمل کے اعتبار سے ہے۔ اسلام نے دونوں صنفوں کے درمیان ایک واضح تقسیم عمل کو ملحوظ رکھا ہے۔ اسلام کے مطابق، گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر عورت کے اوپر ہے اور مالیات کی فراہمی کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد کے اوپر۔ تقسیم کار کا یہ اصول جن نصوص سے نکلتا ہے ان میں سے ایک قرآن کی یہ آیت ہے
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ( 4:34 )۔ یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں۔ اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال سے خرچ کیا۔ پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرماں برداری کرنے والی، پیٹھ پیچھے نگہبانی کرنے والی ہیں اللہ کی حفاظت سے۔
ہر گھر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ اس ریاست کا ایک مسئلہ اس کا اندرونی انتظام ہے۔ اور اس کا دوسرا مسئلہ اس کا مالیات(بالفاظ دیگر، خارجی اسبابِ حیات کی فراہمی) ہے۔ عورت اپنی پیدائشی بناوٹ کے اعتبار سے پہلے کام کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اور مرد اپنی پیدائشی بنائوٹ کے اعتبار سے دوسرے کام کی زیادہ بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے اسلام کی معاشرتی اور انتظامی تقسیم میں یہ کیا گیا ہے کہ گھر کے داخلی امور کی ذمہ داری بنیادی طور پر عورت پر ڈالی گئی ہے۔ اور گھر کے خارجی امور اور مالیات کی فراہمی کی ذمہ داری بنیادی طور پر مرد کے اوپر ہے۔
نکاح کے وقت ایک مرد مہر کے نام سے جو رقم اپنی بیوی کے حوالے کرتا ہے اس کا تعلق اسی خاص پہلو سے ہے۔ اسلام کے مطابق چوں کہ مرد اصولی طور پر عورت کے اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ اس لیے جب وہ ایک عورت سے نکاح کرتا ہے تو وہ نکاح کے ساتھ اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہے کہ وہ عورت کے تمام ضروری اخراجات کی کفالت کرے گا۔ مہر اسی کی ایک علامت ہے۔ مرد اپنی بیوی کو مہر کے طور پر ایک علامتی رقم ادا کرکے عمل کی زبان میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی
مذکورہ مقصد کے تحت مہر زیادہ باندھنا اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ نکاح کے موقع پر مہر تو مقرر کرنا ہے مگر اس کو ادا نہیں کرنا ہے۔ اگر نکاح کے ساتھ فوراً مہر ادا کر دیا جائے تو مانع طلاق یا اور کسی مانع کی حیثیت سے اس کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ جب مہر خود باقی نہیں رہا تو اس کے مانع ہونے کی حیثیت کیسے باقی رہے گی۔
مگر یہ مفروضہ سراسر اسلام کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اسلام میں مہر کی جائز صورتیں صرف دو ہیں۔ ایک مہر معجل، یعنی وہ مہر جو نکاح ہونے کے بعد اسی وقت ادا کر دیا جائے دوسرے مہر مؤجل، یعنی وہ مہر جس کو فوراً ادا نہ کیا جائے بلکہ اس کی ادائیگی بعد کو ہو۔ مگر یہ ’’بعد‘‘ لازمی طور پر متعین ہونا چاہیے۔ یعنی مرد اس کی ادائیگی کی ایک اجل (مدت) مقرر کرے اور اس مدت پر لازماً اس کو ادا کر دے۔ تیسری مروجہ شکل(نکاح کے وقت ادائیگی مہر کی مدت مقرر نہ کرنا) ایک غیر شرعی طریقہ ہے۔ اس کی بنیاد پر جو کچھ کیا جائے وہ بھی یقینا غیر شرعی ہوگا۔
اب غور کیجیے کہ جب مہر کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ یا تو اس کو فوراً بوقت نکاح ادا کر دیا جائے یا نکاح کے وقت ایک متعین مدت مقرر کی جائے اور اس متعین مدت پر اس کو ضرور ادا کر دیا جائے تو ایسی صورت میں طلاق کو روکنے کے لیے زیادہ مہر مقرر کرنا بالکل بے معنی ہے۔ صرف وہی مہر مانع کا کام کر سکتی ہے جو بلاتعین مدت مقرر کی جائے۔ مگر یہ خود اسلامی طریقہ کے مطابق نہیں۔ مہر کے لیے ادائیگی كي مدتِ تعیین اپنے آپ اس کو اس اعتبار سے بے اثر کر دیتی ہے کہ وہ مرد کے لیے مانع طلاق کا کام دے۔
کر لیا ۔اس سلسلہ میں امام احمدنے روایت نقل کی ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے
فَجَاءَ وَعَلَيْهِ رَدْعُ زَعْفَرَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْيَمْ،فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَقَالَ مَا أَصْدَقْتَهَا؟قَالَ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ(مسند احمد، حدیث نمبر 13863)۔ یعنی حضرت عبدالرحمن بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کے اوپر زعفران کی خوشبو کا اثر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اس کو کتنا مہر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کھجور کی گھٹلی کے وزن کے برابر سونا۔
غلط رواج
موجودہ زمانہ میں نکاح کی اصل اسلامی روح تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ مسلمانوں میں آج نکاح کا جو طریقہ عام طور پر نظر آتا ہے وہ اسلامی نکاح سے زیادہ رواجی نکاح ہے۔ اس کا ایک نمونہ مہر ہے لڑکی والے عام طور پر مہر زیادہ باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد مرد کے مقابلہ میں عورت کے مفاد کی حفاظت ہے۔
ڈکشنری آف اسلام میں اس سلسلہ میں حسب ذیل الفاظ درج ہیں
The custom of fixing heavy dowers, generally beyond the husbands` means, especially in India, seems to be based upon the intention of checking the husband from ill-treating his wife, and above all, from his marrying another woman, as also from wrongfully or causelessly divorcing the former. For in the case of divorce the woman can demand the full payment of the dower.
The Dictionary of IsIam by Thomas Patrick Hughes. (1979) p. 91
بہت زیادہ مہر باندھنے کا رواج جو شوہر کے ذرائع سے زیادہ ہو، خاص طورپر ہندوستان میں، بظاہر اس مقصد سے ہے کہ شوہر کو اس سے روکا جائے کہ وہ بیوی کے ساتھ برا سلوک کرے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ دوسری شادی نہ کر سکے۔ اور مزید یہ کہ وہ غلط طور پر یابلا سبب اپنی بیوی کو طلاق نہ دے کیوں کہ طلاق کی صورت میں عورت پوری مہرکی ادائیگی کا دعویٰ کر سکتی ہے۔
دور اول میں شادی کوئی دھوم کی چیز نہ تھی۔ وہ ایک ایسی چیز تھی جس کو بس سادہ طور پر انجام دے لیا جائے۔ اس کے رسوم اور اس کے اخراجات اتنے مختصر ہوتے کہ وہ طرفین کے لیے کسی بھی اعتبار سے بوجھ نہ بنتے۔ صحابہ کے یہاں شادی کی تقریب ہر قسم کے تکلف اور نمائش سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم بوجھ ہو(إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً) مسند احمد، حدیث نمبر 24529۔ اور کم بوجھ والا نکاح یقیناً وہ ہے جو اپنے موجودہ وسائل کے ذریعے آسانی کے ساتھ ہو جائے، نہ کہ وہ جس کا تحمل اس کے وسائل نہ کر سکتے ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا معاملہ آیا جس کا نکاح ایک خاتون سے طے ہوا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر دینے کے لیے کیا ہے۔ اس نے کہا کہ کچھ نہیں۔ آپ نے دوبارہ پوچھا۔ اس نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس کے بعد آپ نے اس سے یہ نہیں کہا کہ تم جا کر کسی سے قرض لائو اور پھر اس کے ذریعہ سے نکاح کرو۔ بلکہ اگلا سوال آپ نے یہ کیا کہ کیا تمہارے پاس کچھ قرآن ہے(قرآن کا کچھ حصہ تم کو یاد ہے) اس نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا جائو، میں نے قرآن کے اسی محفوظ حصہ کو مہر قرار دے کر اس خاتون کے ساتھ تمہارا نکاح کر دیا(اذْهَبْ فَقَدْ أَنْكَحْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5149۔دوسری روایت میں ہے کہ اپنی بیوی کو قرآن کا وہ حصہ اسے سکھاؤ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1425)۔
مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے مدینہ میں شادی کی۔ اس وقت مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے۔ مگر انہو نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے بڑے صحابہ کو اس موقع پر بلائیں۔ انہوں نے بس خاموشی سے ایک خاتون کے ساتھ نکاح
ٹائمس آف انڈیا(30 مئی1985) میں ہندوستانی شادیوں کے بارہ میں ایک سبق آموز رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا عنوان ہے ہیلی کاپٹر بارات(Copter Barat)
اس میں بتایا گیا ہے کہ سوائی مادھوپور کی مینا برادری میں خوش حالی کی علامت اب یہ بن گئی ہے کہ بارات دلہن کے گھر آئے تو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ آئے، خواہ دولہا کے گھر سے دولہن کے گھر تک کا فاصلہ10 کلو میٹر ہی کیوں نہ ہو۔ اس سے پہلے شادیوں میں جہیز اور تلک کی دھوم تھی۔ اب اس سے آگے بڑھ کر ممبئی کی ایک فرم سے ہیلی کاپٹر کرایہ پر حاصل کیے جا رہے ہیں۔شادیوں میں ہیلی کاپٹر کا استعمال کیوں کیا جا رہا ہے، اس کا جواب اخباری رپورٹر نے ان الفاظ میں دیا ہے
"The parents of the bride expect the 'barat' to reach their village with adequate pomp and show"
دلہن کے والدین امید کرتے ہیں کہ بارات ان کے گائوں میں دھوم دھام کے ساتھ آئے۔
انسان سمجھتا ہے کہ اس کی سواری دولہا یا کسی دولہن کے گھر اترنے والی ہے۔ اس لیے وہ شان و شوکت کے ساتھ اپنی سواری لے جانے کا اہتمام کر رہا ہے۔ اگر انسان کو یہ معلوم ہو کہ اس کی سواری بالآخر جہاں پہنچنے والی ہے وہ مالکِ کائنات کی عدالت ہے تو انسان کی سوچ یکسر بدل جائے۔ اس کو معلوم ہو کہ شان والی شادی اور بے شان والی شادی میں کوئی فرق نہیں۔
کوئی شخص اپنی قتل گاہ کی طرف دھوم مچاتا ہوا نہیں جاتا۔ کوئی شخص ایک ایسی عدالت میں جشن کے ساتھ داخل نہیں ہوتا جہاں ایک بااختیار جج اس کے خلاف فیصلہ سنانے کے لیے بیٹھا ہوا ہو مگر اپنی آخری منزل کے بارہ میں ہر آدمی اسی نادانی میں مبتلا ہے۔
کامیاب انسان وہ ہے جس کی سواری خدا کے یہاں باعزت طور پر اتاری جائے۔ اور ناکام انسان وہ ہے جو خدا کے یہاں اس حال میں پہنچے کہ وہاں اس کی حیثیت ایک غیر مطلوب انسان کی ہو۔ وہاں نہ کوئی اس کا استقبال کرنے والا ہو اور نہ کوئی اس کی خبر گیری کرنے والا۔
جندلة نكح أمامة فصنع لها حثيات من طعام، فرحم اللَّه أبا جندلة وصلى على أمامة، ولعن اللَّه عروسكم البارحة، أوقدوا النيران وتشبّهوا بالكفرة، واللَّه مطفئ نورهم؛ قال وعبد اللَّه بن قرط من أصحاب النبي صلى اللَّه عليه وسلّم(الاصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلان،جلد7، صفحہ 65 )۔
عروہ بن رویم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط شمالی حمص میں ایک رات خبر گیری کے لیے پھر رہے تھے۔ وہ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کی طرف سے وہاں کے حاکم تھے۔ انہوں نے دولہا دولہن کی ایک بارات گزرتے ہوئے دیکھی۔ لوگ اس کے آگے آگ جلا کر چل رہے تھے۔ حضرت عبداللہ نے ان کو اپنے درہ سے مارا، یہاں تک کہ لوگ بھاگ گئے۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے منبر پر بیٹھے۔ انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو جندل نے امامہ سے نکاح کیا۔ اور ان کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا۔ تو اللہ ابو جندلہ پر رحم کرے اور امامہ پر بھی رحمت فرمائے۔ اور اللہ گزشتہ رات کے تمہارے دولہا دولہن پر لعنت کرے۔ انہوں نے آگ روشن کی اور کافروں کے ساتھ مشابہت اختیار کی۔ مگر اللہ ان کی روشنی کو بجھا دینے والا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے۔
ایک وقت تھا کہ شادی میں نسبتاً کم تر درجہ کی غلط رسوم پر اسلام کے حاکم لوگوں کو کوڑے مارتے تھے، اور علماء ان کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے تھے۔ آج ان سے بہت زیادہ غلط رسوم مسلم شادیوں میں عام طور پررائج ہوگئی ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی اٹھنے والا نہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ بظاہر اس کے خلاف بولتے ہیں، وہ بھی اس وقت اسی جاہلانہ دھوم میں شریک ہو جاتے ہیں، جب کہ یہ دھوم ان کی اولاد یا ان کے اپنے لوگوں کی طرف سے کی گئی ہو۔
کچھ لے وہ بھی رشوت ہے، خواہ مطالبہ کرکے لے، یا شوہر اس وجہ سے دے کہ اس کے بغیر عورت کا سرپرست نکاح پر راضی نہ تھا۔
موجودہ زمانہ میں لوگ شادی کے موقع پر نہایت اطمینان کے ساتھ بڑے بڑے سامان اور رقمیں لیتے ہیں۔ انہیں خیال نہیں آتا کہ اس میں کوئی ہرج ہے۔ حالاں کہ یہ عین اس حدیث کا مصداق ہے جو صحیح بخاری میں آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب کہ آدمی جو کچھ لے گا اس کے بارہ میں اس کو یہ پرواہ نہ ہوگی کہ وہ حلال ہے یا حرام(يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ، أَمِنَ الحَلاَلِ أَمْ مِنَ الحَرَامِ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 2059۔
شادی کے معاملہ میں نمائشی اور مسرفانہ رسمیں جو آج کل مسلمانوں میں رائج ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ تمام تر ملک کی غیر مسلم قوموں کے زیر اثر اختیار کی گئی ہیں۔ یہ سب اسلام کی اطاعت نہیں ہے، بلکہ غیر مسلم قوموں کی مشابہت ہے۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4031۔
کوئی عالم اگر دھوتی پہن کر بازار میں نکلے تو تمام مسلمان چیخ اٹھیں گے۔ مگر اس سے زیادہ بڑے بڑے معاملات میں تمام عالم غیر قوموں کی نقل کر رہے ہیں اوراس پر کوئی چیخ بلند نہیں ہوتی۔
مولانا محمد یوسف کاندھلوی نے حیاۃ الصحابہ(جلد دوم) میں ایک باب اس عنوان کے تحت قائم کیا ہے نکاح میں کافروں کی مشابہت پر انکار۔ اس کے ذیل میں انہوں نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں
(الإنكار على من تشبه بالكفرة في النكاح)
عن عروة بن رويم- أن عبد اللَّه بن قرط الثّمالي كان يعس بحمص ذات ليلة وكان عاملا لعمر، فمرت به عروس وهم يوقدون النيران بين يديها، فضربهم بدرّته حتى تفرقوا عن عروسهم، فلما أصبح قعد على منبره فحمد اللَّه وأثنى عليه فقال إن أبا
ادا کرتا ہے۔ تاہم یہ رسم برعکس صورت میں جزئی طور پر پائی جاتی تھی۔ یعنی لڑکی والوں کے مطالبہ پر لڑکے والے کچھ سامان یا نقد لڑکی کو ادا کرتے تھے۔
اس کی وجہ یہ کہ قدیم زمانہ زراعتی زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں مال اور کمائی کے اعتبار سے وہ غیرمعمولی فرق نہ تھا جو آج پیدا ہوگیا ہے۔ قدیم زمانہ کی عورت زراعت کے چھوٹے اور ہلکے کام کرتی تھی۔ اس کے مقابلہ میں مرد زیادہ بڑے اور بھاری کام کرتا تھا۔ اس طرح دونوں صنفوں میں جو فرق تھا وہ صرف کچھ ڈگری کا تھا۔
اب موجودہ زمانہ میں کمائی کے نئے اور اتھاہ مواقع پیدا ہوگئے ہیں۔ مگر عورت(خاص طور پر مشرقی معاشرہ کی عورت) بڑی حد تک اپنے سابقہ مقام پر ہے۔ جب کہ مرد کمائی کے اعتبار سے کم ازکم امکانی طور پر، ناقابل بیان حد تک آگے بڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال نے شادی کے بازار میں عورت کی اہمیت گھٹا دی ہے۔ اور مرد کی اہمیت اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب لڑکی والے مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اب یہ حیثیت تمام تر لڑکے کی طرف چلی گئی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا۔قدیم زمانہ میں زیادہ تر خاطب(لڑکے) سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت علماء سے اس کی بابت فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو رشوت قرار دیا۔ بوقت نکاح اس قسم کی رقم لینے اور دینے کو انہوں نے حرام بتایا اور اس کو اس حدیث کے تابع ٹھہرایا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2313)۔یعنی رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔
مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحئی( 2/74 ) میں اس نوعیت کے ایک استفتاء کے جواب میں یہ مسئلہ نقل کیا گیا ہے
لعن رسول الله صلی الله علیه وسلم الراشی و المرتشی ومن الرشو مااخذہ ولی المرأۃ قبل النکاح ،اذا کان بالسوال اوکان اعطاء الزوج بناء علی عدم رضائه علی تقدیر عدمه(الوسیلۃ الاحمدیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت کی ہے۔ اور عورت کا سرپرست نکاح سے پہلے جو
کرتے ہیں۔ لیکن غیر قومیں اگر خود کسی چیز کو ان کے درمیان رائج کرنا چاہیں تو فوراً ان کے تمام اصاغرو اکابر پکار اٹھتے ہیں کہ ان کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
جہیز کی رسم
مسلمانوں میں آج کل جہیز کی جو رسم ہے وہ عین اسی ہندوانہ رسم کی نقل ہے جو برادران وطن کے درمیان تلک کے نام سے رائج ہے۔ پہلے جہیز کا مطلب یہ تھا کہ لڑکی کا سرپرست لڑکی کو نیا گھر بسانے کے لیے ضروری سامان دیدے۔ مگر اس نے باقاعدہ مطالبہ اور خرید و فروخت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ لڑکا جتنا زیادہ بڑی تعلیمی ڈگری رکھتا ہویا جتنا زیادہ بڑی کمائی والا ہو اتنا ہی زیادہ شادی کے بازار میں اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
پہلے لڑکی کے والدین لڑکی کو ضروری استعمالی اشیاء بطور جہیز دیتے تھے۔ اب اس میں ناقابل بیان حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ مثلاً صوفہ سیٹ، ڈنر سیٹ، کوکنگ رینج، ٹیلی وژن،موٹر سائیکل، ریفریجریٹر، کار، وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اسی پر بس نہیں۔ اسی کے ساتھ خاطب(لڑکا) مخطوبہ(لڑکی) سے بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ کرتا ہے یا متوقع رہتاہے جس کی تکمیل کے بغیر شادی لڑکی کے لیے بربادی کے ہم معنی بن جاتی ہے۔
اب بھاری رسموں کا نتیجہ یہ ہے کہ شادی ایک ایسا تعیش بن گئی ہے جو صرف چند خوش نصیب افراد کے بس میں ہو، بے شمار والدین ہیں جو اپنے آپ کو اپنی لڑکیوں کا نکاح کرنے کے لیے بے بس پا رہے ہیں۔ ان کے سامنے ان کی جوان لڑکیاں حسرت ویاس کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان کے امکان میں نہیں کہ شادی کے بازار میں بھاری رقم ادا کرکے ان کے لیے شوہر پا سکیں۔ چنانچہ ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں کہ لڑکیاں خودکشی کر لیتی ہیں۔ مرتد ہو جاتی ہیں اور دوسری برائیوں میں پڑ جاتی ہیں جن کو بیان کرنے کی قلم میں طاقت نہیں۔
جہیز کی یہ صورتیں سادہ طور پر صرف سماجی برائی نہیں ہیں۔ وہ یقینی طور پر ناجائز اور حرام ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کے ساتھ آدمی کا نماز روزہ بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں کیا جاتا۔
قدیم زمانہ میں موجودہ قسم کے جہیز کا رواج نہ تھا جس میں لڑکی کا والد لڑکے کو سامان اور نقد رقم
اصحاب رسول کا طریقہ بھی ہمیشہ یہی رہا۔ حتیٰ کہ صحابہ میں جو لوگ صاحب مال تھے، انہوں نے بھی ہمیشہ سادہ اور بے خرچ انداز میں نکاح کیا۔ مثال کے طور پر حضرت عبدالرحمن بن عوف ایک تاجر تھے۔ وہ ان چند صحابہ میں تھے جو مالدار شمار کیے جاتے تھے۔ انہوں نے مدینہ میں ایک خاتون سے نکاح کیا۔
امام احمد نے حضرت انس کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی مواخاۃ مدینہ میں ایک ایسے مسلمان کے ساتھ کی گئی جو بہت مالدار تھے۔ انہوں نے اپنے نصف مال کی پیش کش کی۔ مگر عبدالرحمن بن عوف نے ان کے مال میں سے کچھ نہیں لیا۔ انہوں نے مدینہ میں تجارت شروع کر دی۔ یہاں تک کہ وہ خود ایک مال دار شخص ہوگئے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آئے تو ان کے کپڑے پر خوشبو کا اثر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمانی زبان میں فرمایا مَهْيَمْ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ ( کیا بات ہے، عبد الرحمن)۔ انہوں نے کہا تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ(اے خدا کے رسولٗ میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کر لیا ہے)مسند احمد، حدیث نمبر 12685۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اگرچہ مدینہ میں تھے مگر انہوں نے اپنے نکاح میں دھوم والی کوئی تقریب نہیں کی۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے قریبی اصحاب کو بھی شادی کی تقریب میں مدعو نہیں کیا۔ سادہ طور پر محض ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کر لیا۔ اور مقررہ مہر ادا کرکے ازدواجی زندگی گزارنے لگے۔
تلک کی رسم
مسلمانوں میں آج کل جہیز کی جو رسم ہے، وہ عین اسی ہندوانہ رسم کی نقل ہے جو برادران وطن کے درمیان تلک(dowry) کے نام سے رائج ہے۔ ہندوئوں میں یہ رسم غالباً زرعی دور میں اس طرح پڑی کہ ان کے مذہبی قانون کے مطابق، جائیداد میں لڑکیوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ اس کی جزئی تلافی کے لیے شادی کے موقع پر کچھ نقد یا سامان لڑکی کو دینے کا رواج شروع ہوا۔
غیر قوموں کی جن چیزوں کو مسلمانوں نے باقاعدہ اپنا لیا ہے، ان پر تو وہ دین کی طرح عمل
جاتا ہے، بشرطیکہ اس کا اعلان بھی کیا گیا ہو، اور ناکح نے منکوحہ کو اس کی ضروری مہر ادا کر دی ہو۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں نکاح اور شادی کا معاملہ کتنا زیادہ سادہ اور سہل ہے۔
مگر موجودہ زمانہ میں مسلم شادیوں میں ایسے برے رواج شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے ایک جائز فعل کو ناجائز فعل میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک یہ کہ شادی کو خاندانی وقار کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں نکاح کی سادہ اسلامی تقریب مصنوعی دھوم اور بے جا نمائش کی تقریب بن گئی ہے۔ اس دھوم اور نمائش کو قائم رکھنے کے لیے لوگ مالی اعتبار سے لٹ جاتے ہیں۔ جائیداد بیچ دیتے ہیں اور سودی قرض کی لعنت میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک دن کی ظاہری دھوم کی خاطر وہ اپنی پوری زندگی کو بے دھوم بنا لیتے ہیں۔
یہ تمام چیزیں سراسر غیر اسلامی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کی تقریب کو انتہائی حد تک سادہ اور بے خرچ ہونا چاہیے۔ وہ ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے نماز کا وقت آیا اور آدمی نے مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیا۔ نکاح اور شادی کو ایک سنجیدہ فریضہ کی ادائیگی کا دن ہونا چاہیے۔ نہ کہ شخصی حیثیت یا خاندانی عزت کے اظہار کا دن۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً(مسند احمد، حدیث نمبر 24529)۔ یعنی بے شک سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو سب سے زیادہ ہلکا اور کم خرچ ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخصوص مصالح کی بنا پر کئی نکاح کی اجازت تھی۔ چنانچہ آپ نے مختلف اوقات میں گیارہ خواتین سے نکاح کیا۔ نو خواتین بوقت وفات آپ کے یہاں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی بھی نکاح کے موقع پر کسی بھی قسم کی کوئی نمائشی تقریب نہیں کی گئی۔
مثلاً آپ کی ایک اہلیہ سودہ بنت زمعہ تھیں۔ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ان کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ سو وہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ آپ کی طرف سے خولہ بنت حکیم نکاح کا پیغام لے کر گئیں۔ انہوں نے پہلے سودہ سے اس کا ذکر کیا۔ سودہ نے کہا کہ اگر میرا باپ راضی ہو تو مجھے کوئی عذر نہیں۔ چنانچہ خولہ نے سودہ کے باپ سے گفتگو کی۔ انہوں نے اس رشتہ سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد آپ سودہ بنت زمعہ کے مکان پر گئے اور وہاں سادہ طور پر نکاح پڑھا دیا گیا۔
نکاح عورت اور مرد کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ مقدس بھی ہے اور مستقل بھی۔ اس موقع پر مرد کی طرف سے عورت کو جو مہر ا داکی جاتی ہے، وہ دراصل ایک علامتی رقم(token money) ہے۔ مہر کی صورت میں مرد ایک علامتی رقم ادا کرکے اس بات کا سنجیدہ عہد کرتا ہے کہ وہ نکاح کی تمام شرعی اور انسانی ذمہ داریوں کو نبھائے گا۔ شریعت کے مطابق، مہر کی مقدار ایسی ہونی چاہیے جس کا ادا کرنا آسان ہو(خَيْرُ الصَّدَاقِ أَيْسَرُهُ) مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 2742۔
مہر کی ذمہ داری مرد پر ڈالنے کی وجہ یہ ہے کہ مرد صنف قوی ہے۔ عورت کا صنف ضعیف ہونا بذات خود اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ معاہدہ کی پابند رہے گی، اس لیے مہر کی ذمہ داری مرد(صنف قوی) پر ڈالی گئی، تاکہ اس کو اس کی خصوصی ذمہ داری یاد دلائی جائے۔
حضرت انس بن مالک مشہور صحابی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ نے جب نکاح کیا تو اس نے آدھے دین پر عمل کر لیا۔ پس اس کو چاہیے کہ وہ بقیہ آدھے دین میں اللہ سے ڈرے(مَنْ تَزَوَّجَ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ نِصْفَ الْإِيمَانِ، فَلْيَتَّقِ اللَّهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي)المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 7647۔
اس حدیث کی روشنی میں جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان نکاح اور ازدواجی زندگی کے معاملہ میں صرف آدھے دین کی حد تک دین دار ہیں۔ بقیہ آدھے دین کے معاملہ میں وہ خدا سے بے خوفی کی حد تک بے دین بنے ہوئے ہیں۔ ان غیر دینی طریقوں میں سے ایک، قابل نفرت حد تک قبیح چیز وہ مسرفانہ رسوم ہیں جو شادی کے موقع پر رواجاً ضروری بن گئی ہیں۔ ان جھوٹی رسموں نے موجودہ زمانہ میں بے شمار خاندانوں کو ایک قسم کے سماجی عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔
مسرفانہ تقریبات
نکاح کے ارکان و شروط کے بارے میں فقہاء کے درمیان کچھ لفظی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر، اصل یہ ہے کہ اسلامی نکاح صرف طرفین کے ایجاب و قبول سے واقع ہو
کوئی آدمی اسی وقت تک مسلمان نظر آتا ہے جب تک وہ کسی آزمائش میں نہ پڑا ہو۔ آزمائش میں پڑتے ہی ہرآدمی نامسلمان بن جاتا ہے۔ آپ جس شخص کا چاہیں جائزہ لے کر دیکھ لیں۔ آپ اس میں کوئی استثناء نہ پائیں گے۔
ایک شخص اپنے گھر میں سیدھی سادی زندگی گزارتا ہے۔ بظاہر وہ ایک سادہ مسلمان ہے۔ مگر جب اس کی لڑکی کی شادی آتی ہے تو اچانک وہ دوسرا انسان بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے گھر میں وہی سب ہوتا ہے جو ایک عام دنیا دار کے گھر میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی لڑکی کو تمام رسوم اور تمام جاہلی آداب کے ساتھ رخصت کرکے خوش ہوتا ہے۔ مگر خدا کے فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ایک گھر ہے جس سے اسلام کا جنازہ نکالا گیا۔
ایک شخص لوگوں کو دیکھنے میں معقول نظر آتا ہے۔ وہ دین اور اخلاق کی باتیں کرتا ہے۔ لیکن کسی واقعہ سے اگر اس کے دل میں پر چوٹ پڑ جائے تو اس کے بعد اس کے معقول خول سے ایک اور انسان برآمد ہوتا ہے جو ویسا ہی نامعقول ہوتا ہے جیسا کوئی ایسا شخص جو اپنی نامعقولیت کے لیے بدنام ہو۔ دنیا کے رجسٹر میں اب بھی اس کا نام مسلمانوں کے خانہ میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک وہ ایسا شخص ہوتا ہے جس کا اسلام بغض اور حسد اور بے انصافی کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
ایک شخص دینی خدمت کے لیے اٹھتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلامی اصلاح کا کام کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر اس کا ایک شاندار ادارہ بن جائے، اس کو کچھ پیسے ہاتھ آ جائیں، اس کے گرد عوام کی بھیڑ اکٹھا ہو جائے، اس کو کوئی بڑا رتبہ مل جائے تو اس کے بعد وہ ایک اور ہی انسان کی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔ اب اس کا اسلام نمائشی اسلام بن جاتا ہے۔ اس کی تواضع گھمنڈ کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ دینی خدمت کا جذبہ اپنا مقام بنانے کے شوق میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر حقیقت کی نگاہ میں وہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو اسلام کے راستہ پر چلا مگر کچھ دور آگے بڑھا تھا کہ شیطان اس کو اچک لے گیا۔
عام طو رپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام گھر سنبھالنا ہے۔ مرد کا درجہ قوّامیت کا درجہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد کمانے والا فرد ہے۔ اس اصول کا ماخذ قرآن کی یہ آیت ہے الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعْضَہُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ ( 34 4)۔ یعنی مرد، عورتوں کے اوپر قوّام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ عورت کے بارے میں یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے۔ خود آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کے اصل الفاظ یہ ہیں وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِم (اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے)۔ اگراس آیت کا حتمی مفہوم ہوتا ہے تو الفاظ مختلف ہوناچاہیے تھا۔ مثلاً یہ کہ وَبِمَا یُنْفِقُونَ مِنْ أَمْوَالِهِم (اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیںیا کریں گے)۔ اس اسلوب کی بنا پر اس آیت میں تاویل کی گنجائش موجود ہے۔
آیت کے الفاظ پر غور کرنے کے بعد راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ جملہ(sentence) عورت کے بارے میں کسی حکم شرعی کو نہیں بتاتا ، بلکہ وہ صرف یہ بتاتا ہے کہ معاشرتی حالات کے لحاظ سے عورت کا سماج میں ایک کردار یہ بھی ہے۔ موجودہ زمانے میں معاشرتی اقدار بہت زیادہ بدل گئے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ایک عملی ضرورت بن گئی ہے کہ شوہر کے ساتھ بیوی بھی کمانے والی فرد بن کر اپنا کردارادا کرے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں مہنگائی کی بنا پر یہ عام طور پر صورتِ حال ہے کہ مرد کی اکیلی کمائی گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اس لیے ضرورت ہوتی ہے کہ عورت بھی کمائی میں حصہ دار بنے۔ بِمَا اَنفَقُو مِن اَموَالِھِم کے معاملے میں بقدر استطاعت عورت بھی مرد کی شریکِ حال بنے۔ سیکولر سوسائٹی میں یہ طریقہ عام طور پر رائج ہوچکا ہے۔ مسلم سماج میں اس طریقہ کو اگر اختیار کیا جائے تو اس میں بہ ظاہر کوئی قباحت نہیں ہے۔
اسلام میں عورت کادرجہ کیا ہے، اس کا اندازہ ایک حدیث سے ہوتا ہے۔ حضرت بریرہ ایک لونڈی تھی ، اور اس کے شوہر ایک غلام تھے جس کا نام مغیث تھا۔بریرہ آزاد ہوگئی تو اسلامی اصول کے مطابق، اس نے اپنے شوہر مغیث سے تفریق کرالی تھی۔ اس کے بعد جو ہوا،حضرت عبد اللہ ابن عباس نے اس کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مغیث اپنی بیوی کے پیچھے چل رہے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس، کیا تم کو اس پر تعجب نہیں کہ مغیث کو کتنی زیادہ محبت ہے بریرہ سے اور بریرہ کو کتنا زیادہ بغض ہے مغیث سے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ تم مغیث کی طرف رجوع کرلو۔ بریرہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا آپ مجھے اس کا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ میں صرف سفارش کررہاہوں۔ بریرہ نے جواب دیا تو مجھے اس کی ضرورت نہیں (لاَ حَاجَةَ لِي فِيهِ) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5283۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو مشورہ دیا کہ تم رجوع کرلو اور مغیث کے ساتھ زندگی گزارو مگر بریرہ نے آپ کے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا۔ اور مغیث سے رجوع پر راضی نہیں ہوئیں۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت کو کتنی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کے مطابق، عورت نہ صرف مرد کے برابر ہے بلکہ اس کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ خود پیغمبر اگر وحی کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرے تو وہ اس کو ماننے پر مجبور ہے، لیکن پیغمبر کے ذاتی مشورہ کو ماننا اس کے لیے ضروری نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اس اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق و فرائض مرد کے ہیں وہی حقوق و فرائض عورت کے بھی ہیں۔ اگر کوئی فرق ہے تووہ فطری سبب کی بنا پر ہے، نہ کہ دونوں جنسوں میں تفریق کی بناپر۔ اس قسم کا فطری فرق جس طرح عورت اور مرد کے درمیان ہے اسی طرح وہ خود مرداور مرد کے درمیان بھی ہمیشہ موجود رہتاہے۔ یہ فطرت کامعاملہ ہے، نہ کہ فرق کا معاملہ۔
انگریزی کا ایک مقولہ ہے ------ ہر بڑے کام کے آغاز میں ایک عورت موجود ہوتی ہے
There is a woman at the beginning of all great things.
اس معاملے کی ایک مثال مشہور سائنس داں ٹامس الوایڈیسن (1847-1931)کی ماں ہے۔ اس کا نام نینسی ایلیٹ ایڈیسن(Nancy Elliott Edison) تھا، اس کی وفات1871ء میں ہوئی۔ وہ ایک اسکول ٹیچر تھی۔ یہی خاتون ٹیچر ہے جس نے سائنس دانوں کی فہرست میں ٹامس الوایڈیسن کے نام کا اضافہ کیا، جس کی دریافتوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
ایڈیسن کے اندر ایک پیدائشی کمزوری تھی۔ وہ بہت کم سنتا تھا۔ اس کی رسمی تعلیم مکمل نہ ہو سکی۔ مگر ایڈیسن کی ماں اس کے لیے تیار نہ تھی کہ اس کا بچہ جاہل رہ جائے۔ اس نے ایڈیسن کی تعلیم کی ذمہ داری خود لے لے۔ اس نے اپنے گھر کو ایک اسکول بنا دیا۔ اس نے اپنے گھر میں تمام تعلیمی انتظامات کیے، یہاں تک کہ ایڈیسن اسکولی تعلیم کے بغیر ایک تعلیم یافتہ انسان بن گیا۔
ایڈیسن نے اپنی زندگی میں اپنی ماں کے رول کااعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ ------ اس نے میرے اندر علم سے پیار اور حصول علم کی اہمیت کا احساس پیدا کیا
She instilled in me the love and thhe purpose of learning.
اس قسم کا اعلیٰ کردار ہر عورت کے لیے مقدر ہے۔ ہر عورت اپنے خالق کی طرف سے اس قسم کے رول کی مکمل استعداد لے کر پیدا ہوتی ہے۔ ہر عورت انسانیت کی تعمیر کے لیے ایک اعلیٰ رول ادا کر سکتی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اپنی خدا داد صلاحیت کو سمجھے اور پھر پورے عزم کے ساتھ اس کو استعمال کرے۔ البتہ اس قسم کے رول کے لیے صبر لازمی طور پر ضروری ہے۔ استعداد، خالق کی طرف سے ملتی ہے، لیکن صبر کی قیمت ہر ایک کو اپنی طرف سے دینی پڑتی ہے۔ جو عورت بھی یہ قیمت ادا کرے، وہ اسی طرح ایک اعلیٰ تعمیری رول ادا کر سکتی ہے جس طرح ایڈیسن کی ماں نے کیا۔
تعلیم کی اہمیت جتنی زیادہ مَردوں کے لیے ہے، اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت عورتوں کے لیے بھی ہے۔ تعلیم کے بغیر دونوں ہی ادھورے ہیں۔ تعلیم ہر عورت اور مرد کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو دونوں میں سے کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ تعلیم کو نظر انداز کرنا اپنے لیے یہ خطرہ مول لینا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مطلوب اعلیٰ تک نہ پہنچیں، وہ مطلوب اعلیٰ تک پہنچے بغیر ناکامی کے احساس کے ساتھ مرجائیں۔
عورت اور مرد دونوں کے لیے تعلیم اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں۔ مشہور مقولہ اس معاملے میں پوری طرح صادق آتا ہے ------ اگر تمہارے پاس ایک اچھا عذر ہے، تب بھی تم اس کو استعمال نہ کرو
If you have a good excuse, don`t use it.
تعلیم کی اہمیت صرف جاب کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کی اہمیت بہتر زندگی کی تعمیر کے لیے ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام چیزوں کا تعلق علم اور تعلیم سے ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میں کوئی عورت یا مرد اس کا تحمل نہی کر سکتے کہ وہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جائیں۔ کیوں کہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا شخص ایک حقیقی انسانی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہو سکے۔
ہر آدمی ایک حیوان ہے۔ حیوانیت کے مقام سے اوپر اٹھا کر جو چیز اس کو انسان کے مقام تک پہنچاتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ حیوان اور انسان کے درمیان جو چیز فرق کرتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے اندر چھپے ہوئے اعلیٰ امکانات کو بروئے کار لائے، وہ اپنے امکان(potential) کو واقعہ(actual) بنا سکے۔ یہ کام کبھی تعلیم کے بغیر انجام نہیں پا سکتا۔
تعلیم سے مراد پروفیشنل ایجوکیشن نہیں ہے، بلکہ حقیقی ایجوکیشن ہے۔ تعلیم سے مراد اپنے آپ کو علم و حکمت کی دنیا تک پہنچانا ہے۔ پرفیشنل ایجوکیشن کسی آدمی کو صرف جاب دیتی ہے، لیکن علم و حکمت کا حصول آدمی کو اعلیٰ مرتبہ انسانیت تک پہنچا دیتا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر چار میں ارشاد ہوا ہے کہ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ( 4:34 )یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوام ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم ہیں۔ حاکم کا لفظ اپنے ساتھ مخصوص روایات رکھتا ہے۔ اس لفظ سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم، مگر قوام کا یہ مطلب نہیں۔ قوام کا مطلب صرف انتظام کار ہے، نہ کہ حاکم یا دوسرے سے برتر۔
موجودہ زمانہ میں بااس اور باس ازم(bossism) کا تصور ایک معروف تصور ہے۔ اس کی مثال سے قوام کے معاملے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قوام کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد گھر کے اندر باس(boss) کی حیثیت رکھتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح کسی ادارے یا کمپنی کا ایک باس ہوتا ہے۔ یہ باس کمپنی کے لیے ایک تنظیمی ضرورت ہوتا ہے، وہ کمپنی کا حاکم نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے — باس ہمیشہ درست ہوتا ہے(boss is always right)۔ اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ باس دوسرے سے برتر ہے۔ یہ اصول صرف اس لیے ہے کہ کسی تنظیم میں جب تک ایک شخص کو اتھارٹی نہ مانا جائے تنظیم کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
اسی طرح گھر بھی ایک ادارہ۔ اس ادارے کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی (management authority) ضروری ہے۔ قرآن میں اسی اعتبار سے مرد کو قوام کہا گیا ہے۔ کسی گھر کا قوام اس کے مساوی ممبران کے درمیان ایک ناظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس اصول کو نہ ماننا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ ہر گھر انارکی کا شکار ہو کر رہ جائے۔
باس ازم ایک ذمہ داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کا ٹائٹل نہیں۔ اسی طرح قوامیت بھی ایک ذمہ داری ہے، وہ ایک کے اوپردوسرے کی برتری کے ہم معنی نہیں۔ یہ ایک انتظامی ضرورت کا معاملہ ہے، نہ کہ کسی قسم کی فضیلت کا معاملہ۔ عملی ضرورت اور نظریاتی شرف کے فرق کو اگر پوری طرح سمجھ لیا جائے تو قوام اور قوامیت کے معاملے کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔
جدید دور میں ایک نظریہ بہت زیادہ عام ہے، وہ ہے صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ۔ اس نظریہ کو دور جدید کی بہت بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ نظریہ ایک غیرفطری نظریہ ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، عورت اور مرد کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ پیدائشی طورپر ہر عورت مس ڈِفرنٹ (Ms. Different) ہے، اور ہر مرد مسٹرڈِفرنٹ (Mr. Different) ۔
عورت اور مرد کے درمیان یہ فرق ایک گہری حکمت پر مبنی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشیر (adviser) بنیں۔حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے نظام کے مطابق صنفی حصے داری (gender partnership) کا نظریہ زیادہ درست نظریہ ہے، نہ کہ صنفی برابری کا نظریہ۔انسان کی زندگی مسائل (problems)کا مجموعہ ہے۔ یہ مسائل ہمیشہ مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس لیے بار بار یہ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے دو ساتھیوں میں دو مختلف صفات ہوں تاکہ ہر مسئلہ کو منیج (manage)کیا جاسکے۔ ہر ایک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق مسائل حیات کے حل میں اپنا اپنا حصہ اداکرسکے۔ ایک شریک حیات ایک اعتبار سے اپنا حصہ اداکرے، اور دوسرا شریک حیات دوسرے اعتبار سے
There must be a partner who can deal with the problem differently.
فطرت کے نظام میں یکسانیت (uniformity)موجود نہیں، اس لیے اگر عورت اور مرد کےتعلق کو یکسانیت کے اصول پر قائم کیا جائے تو ہمیشہ جھگڑا ہوتا رہے گا۔ ہر ایک ذمے داری کو دوسرے فریق کے اوپر ڈالے گا، اور پھر نزاع کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس کے برعکس، صنفی حصے داری کے اصول کو اختیار کرنے کی وجہ سے بلا اعلان تقسیم کار (division of labour) کا طریقہ رائج ہوجائے گا۔ دونوں خود اپنے فطری تقاضے (natural urge) کے تحت اپنے اپنے دائرے میں مصروف کار رہیں گے۔ ایک دوسرے سے الجھنے کا طریقہ ختم ہوجائے گا، اور ایک دوسرےسے معاونت کا طریقہ رائج ہوجائے گا۔
دہلی کی ایک سیمینار میں میری ملاقات ایک ریٹائرڈ جج سے ہوئی۔ انہوں نے کہا ------ مولانا صاحب، آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زیادہ کمزور پوائنٹ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام صنفی مساوات(gender equality) کو نہیں مانتا۔ آج کے انسان کے لیے اس قسم کا تصور کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ آج کا زمانہ صنفی مساوات کا زمانہ ہے، جب کہ اسلام صنفی نامساوات(gender inequality) کی بات کرتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، لیکن اس کے پیچھے کوئی گہری سوچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو صنفی نامساوات کہا جاتا ہے، وہ صنفی فرق کا معاملہ ہے، نہ کہ صنفی نامساوات کا معاملہ۔ ہماری دنیا پوری کی پوری اسی فرق کے اصول پر قائم ہے۔ اور عورت اور مرد کا معاملہ بلاشبہ اس عام اصول سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔
فرق کوئی منفی (negative) چیز نہیں، فرق مکمل طور پر ایک مثبت(positive) چیز ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک گاڑی کے دو پہیے۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی نہیں۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے لیے تکمیلی حصہ(complementary part) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی معاملہ عورت اور مرد کا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے حیاتیاتی اور نفسیاتی فرق رکھا ہے۔ یہ فرق اسی لیے ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہتر رفیق حیات بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصے کا رول ادا کریں۔
صنفی مساوات کا تصور ایک غیر فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان غیر ضروری نزاع پیدا کرنے والا ہے۔ اس کے مقابلے میں صنفی فرق کا تصور ایک فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان تعاون کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ وہ زوجین کو اس قابل بناتا ہے کہ دونوں دو پہیوں کی طرح باہم مل کر زندگی کی گاڑی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہیں۔
اصل یہ ہے کہ جب کچھ لوگ مل جل کر رہتے ہیں تو لازمی طورپر ان کے درمیان کچھ خلافِ مزاج واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ان باتوں کو لے کر دوسروں سے لڑنا یا جھگڑنا مسئلہ کا حل نہیں۔ کیوں کہ اس قسم کا اختلاف ایک فطری امر ہے اور جو چیز فطری امر کی حیثیت رکھتی ہو اس کو مٹانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ اس طرح کے مسائل کا حل صبر و اعراض ہے، نہ کہ ان کو لے کر لڑنا جھگڑنا۔
مزید یہ کہ اس طرح کی باتوں پر آدمی کے اندر جو غصہ بھڑکتا ہے وہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے، وہ آخرکار ختم ہوجانے والا ہے۔ ایسی حالت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایسی بات پیش آنے کے موقع پر دو منٹ کے لیے چپ رہے، وہ ردّ عمل کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کرلے۔ اگر وہ ایسا کرے تو چند منٹ کے بعد اس کا غصہ ختم ہوجائے گا اور وہ اسی طرح ایک معتدل انسان بن جائے گا جس طرح وہ واقعہ سے پہلے ایک معتدل انسان نظر آتا تھا۔
اس معاملہ کا سب سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر کچھ مائنس پائنٹ ہوتے ہیں اور کچھ پلس پائنٹ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی مرد یا عورت اس سے خالی نہیں۔ جب کسی آدمی کو غصہ آجائے تو یہ ہوتا ہے کہ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو بھول جاتا ہے۔ اس کو اس وقت فریق ثانی کا صرف مائنس پائنٹ یاد رہتا ہے۔ یہی ذہنی حالت آدمی کو غیر معتدل بنا دیتی ہے۔ وہ ایسی روش اختیار کرلیتا ہے جس کو وہ معتدل حالت میں اختیار کرنے والا نہ تھا۔
ایسی حالت میں اس مسئلہ کا فطری حل یہ ہے کہ جب بھی کسی کے اندر دوسرے کے خلاف اشتعال پیدا ہو تو وہ اپنے آپ کو کنٹرول کرکے غیر جانب دارانہ انداز میں سوچے۔ وہ فریق ثانی کے پلس پائنٹ کو سوچے یا اس کی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو یادکرے۔ ایسا کرتے ہی یہ ہوگا کہ اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنے آپ کو ملامت کرے گا کہ میں نے ایک شخص کے 99 پہلوؤں کو بھلا دیا اور اس کی شخصیت کے ایک پہلو کو لے کر اس کے خلاف بھڑک اٹھا۔
خاندان میں بگاڑ ہمیشہ کسی چھوٹی بات پر شروع ہوتا ہے۔ اگر شروع ہی میں اُس پر قابو پالیا جائے تو کبھی کوئی مسئلہ بڑا مسئلہ نہ بنے۔
اکثر گھروں میں اہل خاندان کے درمیان جھگڑے جاری رہتے ہیں۔ یہ جھگڑے زیادہ تر نفسیاتی ہوتے ہیں۔ حقیقی معنوں میں ان کا کوئی مادی سبب نہیں ہوتا۔ لوگ اگر صبر و اعراض کی حکمت جان لیں تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں۔ ہر گھر امن کا گھر بن جائے۔
ایک مشترک خاندان کی مثال ہے۔ وہاں دو بہوئیں ایک ساتھ رہتی تھیں۔ دونوں کے کام کے لیے دو الگ الگ خادمائیں تھیں۔ دونوں خادماؤں کے درمیان فطری طور پرکبھی کبھی تکرار ہوجاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ تکرار کے دوران ایک خادمہ نے دوسری خادمہ کو کہہ دیا کہ تمہاری بی بی جی تم کو کچھ نہیں بولتیں اس لیے تم شیطان ہوگئی ہو۔ خادمہ نے اپنی مالکہ سے اس کو نقل کیا تو بات کچھ بدل گئی۔ اس نے اس بات کو ان لفظوں میں نقل کیا وہ کہہ رہی تھی کہ تمہاری بی بی جی نے تم کو شیطان بنا دیا ہے۔ اس کے بعد اس خاتون نے اس بات کو جب اپنے شوہر سے نقل کیا تو بات کچھ اور بدل کر اس طرح ہوگئی تم بھی شیطان، تمہاری بی بی جی بھی شیطان۔ یہ سن کر ان کا شوہر غصہ ہوگیا اور گھر میں ایک طوفان برپا ہوگیا۔ دونوں بہوئیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ گھر کا سکون درہم برہم ہوگیا۔
اس طرح کے معاملات میں پہلا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آدمی ان کو نظر انداز کردے۔ وہ سنی ہوئی بات کا کوئی اثر نہ لے اور نہ اس کو دوسرے سے نقل کرے۔ یہ رویہ اگر اختیار کیا جائے تو مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوگا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ سننے والا صرف ایک پارٹی کی بات سن کر کوئی رائے نہ بنائے۔ وہ غیر جانبداری کے ساتھ پہلے دونوں پارٹی کی بات سنے اور اس کے بعد ٹھنڈے طریقہ سے ایسی رائے قائم کرے جو انصاف کے مطابق ہو۔ وہ اصل بات کو گھٹانے یا بڑھانے کی غلطی نہ کرے بلکہ بات کو ویسا ہی لے جیسا کہ وہ ہے۔ ان دو طریقوں کے سوا ہر دوسرا طریقہ فساد پیدا کرنے والا ہے ، وہ آخر کار پورے خاندان میں بگاڑ پیدا کردیتا ہے۔
ساس بہو کا روایتی مسئلہ تقریباً ہر گھر میں پایا جاتا ہے، مگر یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ تمام تر ایک غیر فطری نفسیات کے تحت پیدا ہوا۔ نفسیاتی مسئلہ ہمیشہ سوچ کی سطح پر پیدا ہوتا ہے، اور سوچ کی سطح پر نہایت آسانی سے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً ایک گھر ہے، وہاں ایک چار پائی بچھی ہوئی ہے۔ ماں اس چار پائی کے اوپر بیٹھی ہوئی ہے۔ اس وقت اگر بیٹی وہاں آئے اور وہ بے تکلفی کے ساتھ لیٹ جائے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اگرایسا ہو کہ ماں چارپائی پر بیٹھی ہے اور بہو وہاں آ کر لیٹ جائے تو ایسا واقعہ فوراً ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اب کہا جائے کہ بہو بہت بدتمیز ہے۔ اس کے ماں باپ نے اس کو ادب نہیں سکھایا، وغیرہ۔
اس صورتِ حال کی ذمہ داری ماں اور بہو دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماں اگر اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھے، اور بہو اگر اپنی ساس کو اپنی ماں جیسا درجہ دے تو یہ سارا مسئلہ ختم ہو جائے گا اورساس اور بہو اسی طرح خوش گوار ماحول میں رہنے لگیں گی جس طرح ماں اور بیٹی خوش گوار ماحول میں رہتی ہیں۔
یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ ہر بیٹی کو آخر کار بہو بن کر رہنا پڑتا ہے اور ہر ماں کے ساتھ ایسا پیش آتا ہے کہ وہ ساس بن کر اپنے گھر میں رہے۔ یہ خالق کا بنایا ہوا فطری نظام ہے۔ ہر عورت اور ہر لڑکی کو اس نظام کے ساتھ موافقت کرنا چاہیے۔ جو عورت اور جو لڑکی اس نظام کے ساتھ موافقت نہ کرے، وہ گویا کہ اپنے خالق کے ساتھ سرکشی کر رہی ہے۔
اس قسم کا معاملہ سادہ طور پر انسان اور انسان کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ انسان اور خالق کے درمیان کا معاملہ ہے۔ معاملے کا یہ پہلو تقاضا کرتا ہے کہ لوگ اس معاملے میں انتہائی حد تک سنجیدہ بنیں۔ وہ ایسا کام نہ کریں جو خالق کو ناراض کرنے کا سبب بن جائے۔ انسان کو ناراض کرنا صرف اپنے جیسے ایک انسان کو ناراض کرنا ہے، لیکن خالق کو ناراض کرنا گویا کہ پوری کائنات کے خلا ف جنگ کا اعلان کرنا ہے۔ پھر کون ہے جو پوری کائنات کے ساتھ جنگ کرے اور پھر بھی وہ کامیاب ہو۔
شادی شدہ زندگی اختیار کرنے کے بعد زوجین کے سامنے ایک مسئلہ اکثر یہ آتا ہے کہ وہ مشترک خاندان میں رہیں، یا غیر مشترک طور پر اپنا گھر بنائیں۔ یہ مسئلہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں ہی یکساں طور پر جائز ہیں۔ لیکن میرے تجربے کے مطابق، زوجین اگر باشعور ہوں وہ دانش مندی سے کام لیں تو مشترک خاندان کا طریقہ ہر اعتبار سے زیادہ مفید ہے۔
ہر گھر کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں۔ کامیاب زندگی کی تعمیر کے لیے ہمیشہ مختلف تقاضوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جو غیر مشترک خاندان کے مقابلے میں مشترک خاندان کو زیادہ مفید بنا دیتا ہے۔ غیر مشترک خاندان میں ابتداء ً صرف دو ممبر ہوتے ہیں، عورت اور مرد۔ اس کے بعد اس میں بچوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشترک خاندان میں بہت سے عورت اور مرد ہوتے ہیں یہ عورت اور مرد فطری طور پر مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ مشترک خاندان کے لیے بہت بڑا موافق پہلو ہے۔ کیوں کہ اس بنا پر یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ خاندان کے ہر فرد کو ہر کام نہ کرنا پڑے، بلکہ مجموعی تعاون سے سارے کام ہوتے رہیں۔
مشترک خاندان کا طریقہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے بہت زیادہ مفید ہے، لیکن اس کی ایک قیمت ہے۔ اور وہ قیمت ہے پیچھے ہٹنے کی اسپرٹ(receding spirit)، یعنی جب بھی کوئی نزاعی بات پیش آئے تو فوراً آپ پیچھے ہٹ جائیں، کسی بھی حال میں آپ ٹکرائو کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ مشترکہ خاندان کی کامیابی کی یہی واحد شرط ہے۔ جن لوگوں کے اندر اس شرط کو پورا کرنے کا حوصلہ نہ ہو، ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ شادی کے بعد غیر مشترک خاندان کا طریقہ اختیار کریں۔
زندگی میں ہر آدمی کو دو میں سے ایک کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یا تو وہ ملنے والے فائدے کی خاطر اپنی انا کو قربان کر دے، یا اپنی انا کو بچانے کے لیے اپنے آپ کو فائدے سے محروم کر لے۔ کسی بھی شخص کو بیک وقت دونوں چیزیں ملنے والی نہیں۔
ایک بار مجھے ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے گھر پر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسلمان دعوہ مشن میں سرگرمی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان کی ایک بیٹی ہیں۔ ان کی شادی ہوئی مگر وہ سسرال میں نباہ نہ کر سکیں۔ وہ شوہر کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس آگئیں۔ میں نے لڑکی سے کہا کہ آپ کو ایک فیصلہ لینا پڑے گا۔ اس طرح آپ زندگی نہیں گزار سکتیں۔ انسان کو جینے کے لیے ہمیشہ ایک مشن درکار ہوتا ہے۔ آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ موجودہ صورت میں آپ تیسرا آپشن لیے ہوئے ہیں، اور تیسرا آپشن یقینی طور پر ممکن آپشن نہیں۔
انسان مشن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک عورت جب شادی شدہ زندگی اختیار کرتی ہے تو دھیرے دھیرے وہ اس کے لیے ایک مشن بن جاتا ہے۔ گھر سنبھالنا اور بچوں کی تعلیم و تربیت وغیرہ۔ اس دنیا میں وہ اپنی ایک مستقل پوزیشن کی مالک ہوتی ہے۔ یہاں اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک ’’اسٹیٹ‘‘ ہوتی ہے۔ اور اس اسٹیٹ کو چلانا اس کا تا عمر مشن بن جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ یا تو اپنے شوہر کے پاس واپس جائیں اور وہاں اپنے لیے اس طرح کی دنیا بنائیں۔ آپ کے لیے دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنے والد کے ساتھ دعوہ مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں۔ یہ بھی آپ کے لیے ایک قابل عمل آپشن ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو ازسرنو تیار کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے مطالعہ کو بڑھائیں، اپنے لائف اسٹائل کو بدلیں، اپنی زندگی کی ازسرنو منصوبہ بندی کریں۔ آپ اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں اور ان کو دوبارہ نئے ڈھنگ سے قائم کریں۔
اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو ایک مکمل زندگی حاصل ہو جائے گی۔ شوہر کے ساتھ اگر آپ کی ایک فیملی اسٹیٹ ہوتی تو اپنے والد کے ساتھ آپ کی ایک دعوہ اسٹیٹ بن جائے گی۔ میں نے کہا کہ اس وقت آپ جو کچھ کر رہی ہیں وہ محض جذبات کی بنیاد پر کر رہی ہیں۔ آپ جذبات کے ساتھ بہت دیر تک نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح آپ بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جائیں گی اور کسی انسان کے لیے مایوسی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں۔
امریکا کے ایک سفر میں مجھے ایک امریکی مسلمان کے گھر میں چند دن قیام کا موقع ملا۔ مذکورہ مسلمان کا نکاح ایک ایسی خاتون سے ہوا جو پاکستان میں پیدا ہوئیں، ان کی پوری پرورش پاکستان میں ہوئی۔ شادی کے بعد وہ امریکا چلی آئیں اور وہاں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگیں۔
ایک دن ایسا ہوا کہ مرد اپنے جاب پر باہر چلے گئے۔ اس وقت خاتون مجھ سے ملنے کے لیے آئیں۔ بظاہر وہ مجھ سے نصیحت لینا چاہتی تھیں، لیکن میرے کمرے میں آتے ہی وہ رونے لگیں۔ وہ کچھ بول نہ سکیں اور اسی حال میں واپس چلی گئیں۔ اگلے دن انہوں نے بتایا کہ میرے شوہر مجھ سے خوش نہیںرہتے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں یہاں سے واپس ہو کر اپنے ماں باپ کے پاس چلی جائوں۔
میں نے اس مسئلے پر کافی غور کیا اور پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر کار میں نے دریافت کیا کہ اس معاملے کا اصل سبب عورت کے ماں باپ کی نادانی ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ خاتون کے ماں باپ نے پاکستان میں ان کو لاڈ پیار کے ساتھ رکھا، انہیں کبھی گھر کا کام کرنے نہیں دیا۔ گھر کا کام کرنا یا گھر سنبھالنا، اس کی کوئی تربیت ان کو اپنے میکے میں نہیں ملی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کے والدین نے ان کا نکاح امریکا میں مقیم ایک مسلمان کے ساتھ کر دیا۔ اس مسلمان میں اخلاقی اعتبار سے کوئی برائی نہ تھی، لیکن ایک عملی پہلوان کی زندگی میں ناخوش گواری کا سبب بن گیا۔
انڈیا اور پاکستان میں گھر کے کام کے لیے آسانی کے ساتھ ملازم مل جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں کے والدین ایسا کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام ملازم سے کروائیں اور اپنی بیٹی کو کوئی کام نہ کرنے دیں، لیکن امریکا کی زندگی اس سے بالکل مختلف ہے۔ امریکہ میں گھریلو ملازم نہیں ملتے، چنانچہ یہاں کی خواتین کو گھر کا تمام کام خود کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ملک کا یہی فرق مذکورہ خاتون کے لیے مسئلہ بن گیا۔ ان کے ماں باپ نے ان کو گھر کا کام کرنے کا عادی نہیں بنایا تھا، جب کہ امریکہ میں وہ مجبور تھیں کہ گھر کا سارا کام خود کریں۔ والدین کی اسی نادانی نے مذکورہ خاتون کی زندگی کو ان کے لیے ایک مصیبت بنا دیا۔
ایک لڑکی جب اپنے میکے میں ہوتی ہے تو وہ ان لوگوں کے درمیان ہوتی ہے جن سے اس کا خونی تعلق ہے۔ اس خونی تعلق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ میکے میں اس کو یک طرفہ محبت کے ماحول میں جینا ہوتا ہے۔ میکے میں لڑکی کے لیے یہ ماحول ہوتا ہے کہ ------ تم کچھ نہ کرو تب بھی تم کو ہر چیز ملتی رہے گی۔
سسرال کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ سسرال میں لڑکی کو غیر خونی رشتے داروں کے درمیان رہنا پڑتا ہے۔ میکے کا کلچر اگر دیے بغیر پانے کے اصول پر قائم تھا تو سسرال کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دو گے تو پائو گے، اگر نہیں دیا تو تم کو بھی کچھ ملنے والا نہیں۔
لڑکیاں عام طور پر میکے اور سسرال کے اس فرق کو نہیں سمجھتیں۔ چنانچہ وہ ہمیشہ ایک غیرحقیقی احساس میں جیتی رہتی ہیں ----------- میکے کو اچھا سمجھنا اور سسرال کو اس کے مقابلے میں برا سمجھنا۔ یہ مزاج خواتین میں عام ہے۔ اس کا نقصان سب سے زیادہ خود خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنے اس غیرحقیقی مزاج کی بنا پر وہ اپنے شوہر اور اپنے سسرال والوں سے گہرا تعلق قائم نہیں کر پاتیں۔
خالق نے ہر عورت اور مرد کو مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس دنیا میں ہر عورت اور مرد کے لیے کوئی بڑا رول مقدر ہے۔ اس رول کے لیے ضروری ہے کہ عورت اپنے نئے رشتےداروں کے ساتھ بھرپور تعلق قائم کرکے رہے۔ مگر اکثر عورتیں اپنے سسرال والوں کے ساتھ یہ تعلق قائم نہیں کر پاتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ رول ادا نہیں کر پاتیں جو ان کے خالق نے ان کے لیے مقدر کیا تھا۔
اس دنیا میں کسی بڑے رول کے لیے اجتماعی کوشش ضروری ہے۔ گھر اسی قسم کااجتماعی ادارہ ہے۔ ہر گھر اپنی اجتماعی کوشش سے ایک بڑاکام کر سکتا ہے، لیکن یہ بڑا کام اسی گھر کے لوگ انجام دیں گے جو اپنے گھر کو حقیقی معنوں میں ایک اجتماعی ادارہ بنا دیں۔حقیقت یہ ہے کہ کسی عورت کے لیے اس کی سسرال بھی اسی طرح اس کا اپنا گھر ہے جس طرح اس کا میکہ اس کے لیے اس کا اپنا گھر تھا۔
مشرقی خواتین میں ایک مزاج بہت عام ہے۔ نکاح کے بعد وہ اپنے سسرال آ جاتی ہیں۔ لیکن نفسیاتی اعتبار سے بدستور وہ اپنے میکے میں جیتی رہتی ہیں۔ جسمانی اعتبار سے وہ سسرال میں ہوتی ہیں، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بدستور اپنے میکے کی یادوں میں گم رہتی ہیں۔ خواتین کا یہ مزاج ایک غیر حقیقی مزاج ہے۔ اس غیر حقیقی مزاج کی بھاری قیمت ان کو یہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنی سسرال میں غیر ضروری طورپر پریشان رہیں، ان کو کبھی سکون کی زندگی حاصل نہ ہو۔
خواتین کے اندراس غیر حقیقی مزاج کی اصل ذمہ داری ان کے والدین پر ہے۔ والدین اپنی نام نہاد محبت کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کو نئی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ والدین اپنی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ محبت کے نام پر کرتے ہیں، لیکن انجام کے اعتبار سے وہ دشمنی ہوتا ہے۔ والدین تو کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن اپنی بیٹی کو وہ ہمیشہ کے لیے ایک غیر حقیقی مسئلے میں مبتلا کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔
مجھے ایک باپ کا حال معلوم ہے۔ نکاح کے بعد جب انہوں نے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو انہوں نے اپنی بیٹی سے کہہ دیا کہ ------ جہاں تم جا رہی ہو، وہی اب تمہارا گھر ہے۔ وہیں کے ماں باپ، تمہارے ماں باپ ہیں۔ ہم تمہارے لیے دعا کرتے رہیں گے، لیکن اس حقیقت کو سمجھ لو کہ اب تمہارا گھر بھی بدل چکا ہے اور تمہارے ماں باپ بھی۔ بیٹی کے لیے اپنے والد کی یہ نصیحت بہت مفید ثابت ہوئی۔ سسرال پہنچتے ہی انہوں نے سسرال کو اپنا گھر بنا لیا۔ اس کے بعد ان کو زندگی کی وہ تمام خوشیاں اپنی سسرال میں مل گئیں جو انہیں اس سے پہلے اپنے میکے میں حاصل تھیں۔
زندگی میں کامیابی کا راز حقیقت پسندی ہے۔ اسی طرح زندگی کے تمام مسائل کا سبب غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ جو عورت یا مرد اس راز کو سمجھ لیں، وہ یقینی طور پر اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مشہور ہندوستانی سنگر محمد رفیع(وفات1980) کا ایک گانا اتنا مقبول ہوا کہ وہ ہر ماں باپ کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع نے جب اس کو گایا تو وہ شدت ثاتر سے رو پڑے۔ اس گانے میں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہتا ہے۔ اس کا حصہ یہ ہے
بابل کی دعائیں لیتی جا
جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے
سسرال میں اتنا پیار ملے
یہ بات فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اس طرح ’دسکھ اور پیار‘ نہیں مل سکتا۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے سکھ اور پیار کو زوجین کے لیے کامیاب زندگی کا معیار بتانا، زوجین کے ساتھ ناانصافی ہے۔ کیوں کہ اس کے نتیجے میں دونوں کے اندر غیرحقیقت پسندانہ ذہن بنتا ہے۔ اور غیر حقیقت پسندانہ ذہن کے ساتھ اس دنیا میں کامیاب ازدواجی زندگی گزارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اسی غیر فطری معیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اور ان کی بیٹی دونوں ہمیشہ اس احساس میں جیتے ہیں کہ ان کی لڑکی کی شادی غلط ہوگئی۔ دونوں اسی منفی احساس میں جیتے ہیں اور اسی منفی احساس میں مر جاتے ہیں۔ اگر لوگ زندگی کی حقیقت کو جانیں تو والدین اپنی بیٹی کے بارے میں غیر فطری تمنا کرنے کے بجائے، اس کو نئے دور حیات کے لیے تیار کریں اور خود لڑکی جب نئے حالات میں پہنچے تو وہ اس کو مثبت ذہن کے ساتھ لے۔ وہ نئے حالات کو اپنے لیے فطرت کا ایک چیلنج سمجھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرکے نئے حالات میں اپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر کر لے۔
زندگی ایک چیلنج ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔ جو لوگ اس حقیقت کو جانیں، وہ چیلنج کو ترقی کا ایک زینہ سمجھیں گے اور اس پر چڑھتے ہوئے اعلیٰ مراتب حیات تک پہنچ جائیں گے۔ سکھ مادی راحت کا نام نہیں۔ سکھ یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے مطابقت کا راز جان لے۔
لڑکی کے والدین کی سوچ عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ ان کی لڑکی جب سسرال جائے گی تو وہاں اس کو گھر کے سب کام کرنے پڑیں گے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے یہاں وہ اپنی لڑکی سے کوئی کام نہ کرائیں۔ حالاں کہ جو لڑکی اپنے میکے میں کام نہ سیکھے یا کام کی عادی نہ بنے، وہ سسرال پہنچتے ہی اچانک ایسی نہیں ہو جائے گی کہ وہ زور دار طور پر سارے کام کرنے لگے۔ والدین کا یہ طریقہ ایک جھوٹا لاڈ پیار ہے، وہ سچی محبت کا طریقہ نہیں۔
میں نے ایسے والدین دیکھے ہیں جو بچی کے پیدا ہوتے ہی اس کے لیے جہیز کا سامان تیار کرنے لگتے ہیں، مگر یہ صرف ایک نادانی ہوتی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کبھی کوئی جہیز لڑکی کی زندگی میں اس کے کام نہیں آتا۔ ہر جہیز صرف ایک وقتی نمائش ہے، وہ کسی بھی درجے میں لڑکی کی زندگی کی تعمیر کا کوئی ذریعہ نہیں۔ تعمیر کا تعلق تیاری سے ہے، نہ کہ نمائش سے۔
والدین کا اصل کام جہیز کی تیاری نہیں، بلکہ ان کا اصل کام یہ ہے کہ و ہ اپنی لڑکی کو تیار کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ وہ اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو عملی زندگی کے آداب سکھائیں۔ وہ اپنی لڑکی کے اندر وہ دانش مندانہ مزاج پیدا کریں جو اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے۔
لاڈ پیار(pampering) ایک پورے کلچر کا نام ہے۔ اس کا اظہار ہر معاملے میں ہوتا ہے۔ مثلاً بچے کی ہر خواہش پوری کرنا، بچے کی ہر غلطی کو یہ کہہ کر ٹال دینا کہ ابھی بچہ ہے، بڑاا ہونے پر ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنی اولاد کو معصوم سمجھنا اور ہر معاملے میں دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا۔ کھانے پینے کے معاملے میں بچے کی ہر مانگ پوری کرنا، خواہ اس کی صحت خراب ہو جائے۔ بچے کو کوئی کام نہ کرنے دینا۔ اپنے بچے کو ہمیشہ اچھا سمجھنا اور دوسروں کو غلط بتانا۔ اپنے بچے کو آرام کا عادی بنانا۔ اپنی اولاد کو زندگی کی جدوجہد سے دور رکھنا۔ جھوٹی محبت کی بنا پر بچوں کے لیے ہر فیشن کی چیز فراہم کرنا۔ ان کو بچپن ہی سے فیشن کا عادی بنانا، وغیرہ۔
ماں کو اپنی اولاد سے گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اولاد کے معاملے میں ماں کے جذبات اس کی عقل پر چھا جاتے ہیں۔ اولاد کے معاملے میں وہ اپنی عقل پر نہیں چلتی، بلکہ جذبات کے تحت چلتی رہتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش پورا کرتی رہے۔ حالاں کہ ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کے لیے اس کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کامیاب انسان بنانے کی کوشش کرے۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے ہر بچہ مسٹر نیچر ہوتا ہے، لیکن بعد کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں ہر بچہ اپنی حقیقی فطرت سے دور چلا جاتا ہے۔ یہی مقام ہے جہاں ماں کو اپنا تعمیری رول ادا کرنا ہے۔ اس کو بچے کی خواہش پورا کرنے کا ذریعہ نہیں بننا ہے، بلکہ اپنے بچے کو ہر قسم کے انحراف سے بچا کر اس کی حقیقی فطرت پر اس کو قائم رکھنا ہے۔
مائیں اپنی بڑھی ہوئی محبت کی بنا پر یہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اس مزاج کے ساتھ جوان ہوتا ہے کہ اس کی ہر خواہش کو پورا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد جب یہ نوجوان باہر کی دنیا میں آتا ہے تو وہ یہاں برعکس تجربہ کرتا ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ نہایت بری شکل میں نکلتا ہے۔ اس قسم کے نوجوان، شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے گھر کے لوگ بہت اچھے تھے اور باہر کے تمام لوگ نہایت برے ہیں۔ گھر کی زندگی اور باہر کی زندگی کا یہی فرق وہ سب سے بڑا سبب ہے جس نے آج تمام انسانوں کو منفی سوچ والا انسان بنا دیا ہے۔ آج ہر انسان دوسرے سے کھلی یا چھپی نفرت کرتا ہے۔ اس صورت حال کی سب سے زیادہ ذمہ داری ان عورتوں کے اوپر ہے جو ماں کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ خالق نے ہر ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت رکھ دی ہے۔ یہ محبت اس لیے تھی تاکہ مائیں ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنی اولاد کی صالح تربیت کریں، لیکن مائوں نے اپنی اس فطری محبت کو صرف لاڈپیار تک محدود کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت بگڑے ہوئے انسانوں کا جنگل بن گئی۔
ایک روز انڈیا کے ایک شہر سے میرے پاس ٹیلی فون آیا۔ ایک مسلم خاتون ٹیلی فون پر بول رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میری بہن اور ان کے شوہر کے درمیان شادی کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے جو حل نہ ہو سکے۔ اب آخری طور پر یہ طے کیاگیا ہے کہ دونوں کے درمیان طلاق کرا دی جائے۔ آج شام کو طلاق نامے پر دستخط ہونے والے ہیں۔ آپ دعا کیجیے کہ طلاق کے بعد میری بہن کی زندگی خوش گوار رہے۔
میں نے کہا کہ آپ اپنی بہن سے کہیے کہ وہ مجھ سے بات کریں۔ اس کے بعد ان کی بہن سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے شوہر کے درمیان کیا اختلافات ہیں۔ انہوں نے کچھ باتیں بتائیں۔ میں نے کہا کہ آپ جو کچھ بتا رہی ہیں، وہ کوئی اہم بات نہیں۔ وہ اختلافات کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کی بڑھی ہوئی حساسیت کا مسئلہ ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ غیر ضروری طور پر حساس ہوگئی ہیں۔ آپ اپنی اس حساسیت پر کنٹرول کیجیے۔ آپ یہ ذہن ختم کر دیجیے کہ…’’میں ہی کیوں ان کی بات مانوں، ان کو بھی میری بات ماننا چاہیے‘‘۔
میں نے کچھ واقعات بتاتے ہوئے ان سے کہا کہ زندگی دو طرفہ(bilateral) بنیاد پر نہیں چلتی، بلکہ زندگی ہمیشہ یک طرفہ(unilateral) بنیاد پر چلتی ہے۔ آپ اس معاملے میں کوئی استثناء نہیں ہیں۔ اسی اصول کو قرآن میں قوامیت(النساء، 4:34 ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی جس طرح ہر کمپنی میں اور اجتماعی ادارے میں ایک ناظم یا باس(boss) ہوتا ہے اسی طرح گھر کے اندر بھی ایک فرد کو ناظم، یا باس(boss)کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک فطری اصول ہے۔ اس کا تعلق صنفی برابری یا صنفی نابرابری سے نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گھر کے اندر نظم قائم نہ ہو سکے گا۔ اور نظم کے بغیر کسی ادارے میں ترقی ممکن نہیں۔
مذکورہ خاتون نے میری بات مان لی اور باہم مل کررہنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے طلاق کے مطالبے کو واپس لیتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ ------- میں آپ کو اپنا باس مانتی ہوں اور کسی شرط کے بغیر آپ کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوں۔ اس کا نتیجہ مثبت شکل میں نکلا۔ اب وہ دونوں اپنے گھر میں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
مہاراشٹرا کے ایک خاندان کا واقعہ میرے علم میں آیا۔ ایک لڑکی کی شادی اس کی اپنی پسند کے مطابق، ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ رہنے لگے۔ ان کے یہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہوا، لیکن جلد ہی دونوں میں اختلافات شروع ہوگئے۔ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی اپنے شوہر سے خفا ہو کر اپنے میکے میں اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔ اور ماں سے اپنے شوہر کے خلاف شکایتی باتیں بتانے لگی۔ ماں نے سننے کے بعد کہا کہ ---- شادی دوبار نہیں کی جاتی۔ یا تو تم اپنے شوہر سے نباہ کرو یا زہر کھا کر مر جائو۔
لڑکی کے لیے اپنی ماں کا یہ جواب اس کی امیدوں کے سراسر خلاف تھا۔ اس جواب کو سن کر وہ رونے لگی اور چند دن تک وہاں اسی حال میں رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ ----- تم چاہے روئویا چلائو، میں نے اپنا جواب تم کو بتا دیا۔ میرا جواب بدلنے والا نہیں۔
ماں کا جواب لڑکی کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا، لیکن اس دھماکہ خیز جواب نے لڑکی کے اندر نئی سوچ پیدا کر دی۔ اسی دوران لڑکی کو راقم الحروف کی کتاب ’’راز حیات‘‘ (صفحات 292 ) مل گئی۔ اس کو اس نے پڑھا۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، وہی اس معاملے میں صحیح بات ہے۔ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ مل جل کر رہنا ہے۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی اور انتخاب(option) نہیں ہے۔
اس طرح وہ لڑکی چند دن سوچتی رہی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے پاس واپس چلا جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ کسی شرط کے بغیر اپنے شوہر کے پاس چلی گئی اور وہاں رہنے لگی۔ میں نے خود اپنے ایک سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دونوں میاں اور بیوی خوشی سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے کامیاب رفیق حیات بنے ہوئے ہیں۔ اختلاف کا معاملہ ربر کی مانند ہے۔ آپ چاہیں تو اس کو کھینچ کر بڑھا دیں اور چاہیں تو اس کو نہ بڑھائیں اور اس کو اپنی فطری حالت پر رہنے دیں۔
میرے تجربے کے مطابق، تقریباً تمام والدین کا یہ حال ہے کہ وہ سادگی کو ایک اصول حیات کے طور پر نہیں جانتے۔ کسی معاملے میں بطور مجبوری وہ سادگی کا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں، لیکن اپنے آزادانہ اختیار کے تحت وہ سادگی کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ والدین کا یہ مزاج ان کے بچوں تک پہنچتا ہے۔ ان کے بچے بھی سادگی کو اصول حیات کے طور پر دریافت نہیں کر پاتے۔ اور پھر اپنی پوری زندگی میں وہ اس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہتے ہیں۔
سادگی کیا ہے۔ سادگی یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس مقصد کو وہ اپنی زندگی میں اولین اہمیت دے۔ اس کے سوا ہر چیز کو وہ ثانوی (secondary) درجے میں رکھے۔
زندگی میں ہر ایک کے لیے سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کرے۔ خالق کی طرف سے ہر عورت اور مرد کو اعلیٰ امکانات(potentials) عطا کیے جاتے ہیں، لیکن اس امکان کو واقعہ بنانا ہر عورت اور مرد کا اپنا کام ہے۔ امکانات دینا خالق کا کام ہے، لیکن امکانات کو واقعہ بنانا ہمیشہ آدمی کا اپنا کام ہوتا ہے۔
اس معاملے میں پہلی چیز یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنی امکانی صلاحیتوں کو دریافت کرے۔ اس کے بعد ہر ایک کو یہ کرنا ہے کہ وہ مقصدی بنیادوں پر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ مطالعے اور تجربے کے ذریعے اپنے ذہن کی تشکیل کرے۔ وہ اس ہنر کو جانے جس کو ٹائم مینج منٹ(time management) کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع کو اپنے مقصد کے حصول میں لگا دے۔
بامقصد زندگی ایک طریق حیات ہے۔ اس طریق حیات کو کامیابی کے ساتھ اختیار کرنے کے لیے سادگی لازمی طور پر ضروری ہے۔ سادگی آدمی کو اس نقصان سے بچاتی ہے کہ وہ اپنے پیسے یا اپنے ذرائع کو غیر ضروری چیزوں میں لگا دے اور پھر وہ مقصد کے حصول میں زیادہ کارگر جدوجہد نہ کر سکے۔ اس معاملے میں غفلت ہر ایک کے لیے تباہ کن ہے۔
حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَخَطَبَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ ابْنَتَهُ الدَّرْدَاءَ فَرَدَّهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ يَزِيدَ أَصْلَحَكَ اللهُ، تَأْذَنُ لِي أَنْ أَتَزَوَّجَهَا؟ قَالَ أَغْرِبْ وَيْلَكَ قَالَ فَائْذَنْ لِي أَصْلَحَكَ اللهُ، قَالَ نَعَمْ، قَالَ فَخَطَبَهَا فَأَنْكَحَهَا أَبُو الدَّرْدَاءِ الرَّجُلَ، قَالَ فَسَارَ ذَلِكَ فِي النَّاسِ أَنَّ يَزِيدَ خَطَبَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ فَرَدَّهُ، وَخَطَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُسْلِمِينَ فَأَنْكَحَهُ، قَالَ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنِّي نَظَرْتُ لِلدَّرْدَاءِ، مَا ظَنُّكُمْ بِالدَّرْدَاءِ إِذَا قَامَتْ عَلَى رَأْسِهَا الْخِصْيَانُ؟ وَنَظَرْتُ فِي بُيُوتٍ يُلْتَمَعُ فِيهَا بَصَرُهَا، أَيْنَ دِينُهَا مِنْهَا يَوْمَئِذٍ؟ (حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ 215 )۔
ثابت بنانی نے بیان کیا ہے کہ یزید بن معاویہ نے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے یہاں ان کی لڑکی درداء کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضرت ابو درداء نے اس کو رد کر دیا اس وقت یزید کے یہاں بیٹھنے والوں میں ایک شخص نے کہا کہ اللہ تمہارا بھلا کرے، تم مجھے اجازت دو کہ میں اس سے نکاح کر لوں، یزید نے کہا، دور ہو، تمہارا ناس ہو جائے۔ اس آدمی نے دوبارہ کہا کہ مجھے اجازت دو، اللہ تمہارا بھلا کرے۔ یزید نے کہا بہت اچھا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس آدمی نے پیغام دیا تو حضرت ابودرداء نے اس سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں اس بات کا چرچا ہوا کہ یزید نے ابو درداء کو پیغام دیا تو انہوں نے رد کر دیا اور کمزور مسلمانوں میں سے ایک شخص نے پیغام دیا تو انہوں نے اس سے نکاح کر دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابو الدرداء نے یہ سن کر کہا میں نے اس معاملہ میں درداء کا لحاظ کیا۔ درداء کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے، جب اس کے سرہانے خصی غلام کھڑے ہوتے اور وہ ایسے گھروں کو دیکھتی جس میں اس کی آنکھیں چکا چوند ہو جائیں۔ اس میں اس وقت اس کا دین کہاں رہ جاتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ مومن کو اپنی اولاد کے معاملہ میں کیسا ہونا چاہیے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ اپنی اولاد کے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔ وہ ان کے دنیا کے مستقبل سے زیادہ ان کے آخرت کے مستقبل کے لیے فکر مند ہو۔
میرے تجربے کے مطابق، شادی کے ناکام ہونے کا سب سے بڑا سبب لڑکی کے ماں باپ کا غلط رول ہے۔ میں نے پایا ہے کہ ماں باپ شادی کے وقت تو خوب دھوم مچاتے ہیں۔ وہ اپنی استطاعت سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ فضول خرچی کا وہ کام کرتے ہیں جس کو قرآن میں شیطانی کام بتایا گیا ہے(الاسراء، 17:27 )۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ کے لیے اس سے زیادہ ضروری ایک اور کام ہے، اس کو وہ بالکل انجام نہیں دیتے۔ اور وہ ہے لڑکی کو اس اعتبار سے تیار کرنا کہ وہ شادی کے بعد خوش گوار زندگی گزار سکے۔ تقریباً تمام ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کے ساتھ لاڈ پیار تو خوب کرتے ہیں، لیکن وہ حقیقی محبت کے معاملے میں ناکام رہتے ہیں۔
ماں باپ کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ اپنی لڑکی کو ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کے ایک مرد سے اس کا نکاح کریں گے، اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے لڑکی کو بھیج دیں گے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جس ماحول میں لڑکی رہتی ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو بعد کو شوہر کے ساتھ رہنے کی صورت میں اسے پیش آتا ہے۔ یہ بھی ایک واضح بات ہے کہ لڑکی کا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا عارضی ہوتا ہے اور شوہر کے ساتھ مستقل۔ ایسی حالت میں ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی لڑکی کو وہ آداب سکھائیں جو اس کے لیے بعد کی زندگی میں کام آنے والے ہیں۔ وہ اس کو تربیت دے کر شوہر کی رفیق حیات بنائیں، نہ کہ محض والدین کی نور نظر۔
میرا تجربہ ہے کہ ننانوے فیصد سے زیادہ ماں باپ اس معاملے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ان کی اس کوتاہی کی سزا ان کی لڑکی کو ساری عمر بعد کی زندگی میں بھگتنی پڑتی ہے۔ مثلاً عورت اپنی غیر حقیقی تربیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے، حالانکہ یہ صحیح ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنی سسرال کو اپنا گھر سمجھے۔ اسی طرح والدین شادی کے بعد بھی اپنی لڑکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور غیر ضروری مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ والدین کا یہ رویہ محبت کے نام پر دشمنی ہے۔ وہ صرف نادان دوستی ہے اور نادان دوستی ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔
عبداللہ بن جعفر نے نکاح کے وقت اپنی لڑکی کو نصیحت کیيَا بُنَيَّةِ إِيَّاكِ وَالْغَيْرَةَ فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ الطَّلاقِ، وَإِيَّاكَ وَكَثْرَةَ الْمُعَاتَبَةِ فَإِنَّهَا تُورِثُ الضَّغِينَةَ (انساب الاشراف للبلاذری، جلد2، صفحہ 50)۔ یعنی اے میری بیٹی، تم غیرت سے بچو، کیونکہ وہ طلاق کا دروازہ کھولنے والی چیز ہے۔ اور تم غصہ اور ناراضگی سے بچو، کیونکہ اس سے کینہ پیدا ہوتا ہے۔ یہاں غیرت کا مطلب ہے گھمنڈ، تکبر، خود ستائی، بد دماغی، اہنکار، تند خوئی، ضدی پن ، وغیرہ۔
یہ بہترین نصیحت ہے جو ایک باپ اپنی بیٹی کو شادی کے وقت کر سکتا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی ایک غیر شخص کے گھر جاتی ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنے خونی رشتہ دار(ماںباپ، بھائی بہن، وغیرہ) کے درمیان رہ رہی تھی۔ اب وہ ایسے لوگوں کے درمیان جاتی ہے جن سے اس کا خون کا کوئی رشتہ نہیں۔ خونی رشتہ دار لڑکی کی ہر بات کو برداشت کرتے ہیں۔ وہ اپنے میکے میں اکڑ دکھا کر بھی بے قدر نہیں ہوتی۔ وہ غصہ دکھائے تب بھی لوگ اس سے بیزار نہیں ہوتے۔ مگر سسرال کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ سسرال میں لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے وہ پیدائشی نرمی نہیں ہوتی جو میکے کے لوگوں میں ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سسرال میں اس کا ہر عمل ایک ردعمل پیدا کرتا ہے۔ میکہ میں لوگ اس کی اکڑ کو نظر انداز کر دیتے تھے، مگر سسرال میں اس کی اکڑ کو لوگ اپنی یادوں میں رکھ لیتے ہیں۔ میکہ میں لوگ اس کے غصہ کو بھلا دیتے تھے، مگر سسرال میں کوئی شخص اس کے غصہ کو بھلانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
ایسی حالت میں سسرال میں نباہ کی واحد شرط یہ ہے کہ لڑکی اپنے مزاج کو نئے ماحول کے مطابق بنا ئے۔ وہ ایسے عمل سے بچے جو ناموافق ردعمل پیدا کرنے والا ہو۔ کوئی بات اپنی پسند کے خلاف ہو تو اس کو گوارہ کرے۔ کسی بات سے اس کے دل کو رنج پہنچے تو اس کو دل ہی دل میں ختم کر دے۔ کسی سے امید کے خلاف سلوک کا تجربہ ہو تو اس کی اچھی توجیہ کرکے اس کو دماغ سے نکال دے۔ ایک لڑکی کے لیے سسرال میں کامیاب زندگی گزارنے کی یہی واحد تدبیر ہے۔ اس کے سوا سسرال کے مسئلہ کا کوئی دوسرا حل نہیں۔ آج کا باپ اپنی بیٹی کو یہ سبق دیتا ہے کہ سسرال میں اکڑ کر رہنا ورنہ لوگ تم کو دبا لیں گے۔ اس کے برعکس، پہلے زمانہ کے باپ اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ سسرال میں نرمی کے ساتھ رہنا ورنہ لوگ تم کو ناپسند کریںگے۔ انہیں دو فقروں میں ماضی اور حال کے فرق کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے۔
ایڈیسن کی تعلیم کو اپنا مشن بنا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیسن کا نام تاریخ میں ایک بڑے سائنس داں کی حیثیت سے درج کیا گیا۔
اسی طرح ایک سوچ یہ ہے کہ جو آدمی دولت مند گھرانے میں پیدا ہوا، اس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ اور جو آدمی غریب گھر میں پیدا ہوا، اس کو بدقسمت انسان کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا رول یہ ہے کہ اگر اس کا بچہ غریب گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ اس کو بتائے کہ غریب ہونا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ ایسی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کا یہ فلسفہ بتائے کہ دولت مند بچے کے پاس اگر دولت ہوتی ہے تو غریب بچے کے پاس بڑھا ہوا محرک(incentive) موجود ہوتا ہے۔ یہ محرک اس کی زندگی کی طاقت بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے
If a rich person is born with a silver spoon in his mouth, the poor person is born with an incentive spoon in his mouth.
ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو بتائے کہ ہر امیر بچے کے باپ اور دادا غریب ہی تھے، پھر وہ محنت کرکے امیر بنے۔ اسی طرح تم بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کر سکتے ہو۔
اسی طرح ایک اور فکری گمراہی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ اس گمراہی سے وہ اپنے بچے کو باہر نکالے۔ وہ یہ کہ عام طور پر انسانی طبقات کو محروم اور غیر محروم(haves and have nots) میں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر یہ ایک غلط ڈائکاٹمی(wrong dichotomy) ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ایک شخص محروم طبقے کا فرد ہوتا ہے، لیکن بعد میں وہ ایک غیر محروم طبقے کا فرد بن جاتا ہے۔ مثلاً سی وی رمن، جی ڈی برلا، آبرائے، دھیروامبانی، ڈاکٹر عبدالکلام وغیرہ۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں بظاہر محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن بعد کو وہ غیر محروم طبقے کے اعلیٰ فرد بن گئے۔ اس لیے اس دنیا میں صحیح ڈائکاٹمی محروم اور غیر محروم کی نہیں ہے، بلکہ امکانی غیر محروم اور واقعی غیر محروم(potential haves and actual haves) کی ہے۔
کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز حوصلہ اور مثبت شعور ہے۔ ہر ایک پچھلی نسل کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو باحوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔
ماں کی حیثیت سے عورت کا رول اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے جس میں ہر وقت پرانا پانی بہہ کر چلا جاتا ہے اور نیا پانی اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی قافلے کا ہے۔ یہاں بھی مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔
بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو۔ جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو۔ جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ وہ تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے۔ جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے۔ جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر(giver member) ہو نہ کہ صرف لینے والا ممبر(taker members)۔
اس معاملے میں ماں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو ہم چند مثالوں کے ذریعے واضح کریں گے۔ ان مثالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو پختگی (maturity) کہا جاتا ہے، وہ ناپختگی(immaturity) کا ذہن لے کر اپنی اولاد کو سماج میں نہ بھیجے۔
امریکا کی ایک خاتون نینسی الوا ایڈیسن کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام ٹامس الوا ایڈیسن (وفات1931) تھا۔ وہ پیدائشی طور پر کم سنتا تھا۔ اس کے سکول ٹیچر نے دیکھا کہ وہ کلاس میں ٹیچر کی باتوں کو سن نہیں پاتا اورا سکول کے کام کو ٹھیک سے نہیں کرتا۔ اسکول ٹیچر اس پر غصہ ہوگیا۔ اس نے ایڈیسن کو معذور بچہ(retarded boy) قرار دے کر اس کو اسکول سے خارج کر دیا۔
لیکن ایڈیسن کی ماں نے یہاں ایک تعمیری رول ادا کیا۔ اس نے ایڈیسن کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ تم ایک معذور بچے نہیں ہو بلکہ یہ معذوری تمہارے لیے ایک چیلنج ہے۔ تم اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرو اور اس چیلنج کا مقابلہ کرکے تم ایک کامیاب انسان بن سکتے ہو۔ ماں نے
ایک سفر میں میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کا مکان کافی بڑا تھا۔ لیکن اس میں دو کے سوا کوئی اور فرد موجود نہ تھا۔ بظاہر سجے ہوئے مکان کے اندر دو بالکل سادہ انسان رہ رہے تھے۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ دونوں کو انہوں نے اچھی تعلیم دلائی، مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد دونوں باہر چلے گئے۔ اب دونوں باہر کے ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور غالباً وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو بچوں کی یاد آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بچے جہاں ہیں، وہاں وہ خوش ہیں۔
اس طرح کے بہت سے جوڑے ہیں۔ انہوں نے بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن جب بچے تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ باہر چلے گئے۔ اب یہ لوگ اپنے شاندار گھروں میں بے شان زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی اگر ان لوگوں کے ساتھ پیش آ رہی ہے جو پیسے کے اعتبار سے خوش حال سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ کما کر بظاہر اپنے لیے ایک کامیاب دنیا بنائی، لیکن جلد ہی ان کی امیدوں کی دنیا اجڑ گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا کوئی مستقل مقصد نہیں بنایا تھا۔ ان کا واحد مقصد بچوں کو خوش کرنا تھا۔ بعد کو بچوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ان کے سامنے زندگی کا کوئی نشانہ باقی نہ رہا۔
مقصد وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو، کسی کے رہنے یا نہ رہنے سے اس میں فرق نہ آتا ہو۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتے میں بندھ کر اس قابل بنتے ہیں کہ وہ خود اپنی ایک دنیا تعمیر کریں، مگر غیر حقیقی محبت کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے، نہ کہ ان کی زندگی کا مقصد۔ والدین اس فرق کو سمجھ لیں تو وہ اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں گے اور پھر وہ کبھی افسردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں گے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نکاح ہمیشہ کُفو میں ہونا چاہیے، غیر کفو میں نہیں۔ یعنی برابری کے رشتوں میں نکاح ہو تو دونوں کے درمیان آسانی کے ساتھ نباہ ہوگا، اور اگر دونوں میں معاشی اور خاندانی اعتبار سے نابرابری ہو تو شوہر اور بیوی دونوں ہمیشہ پریشان رہیں گے۔ مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھا گیا ہے کہ نام نہاد کفو کے درمیان شادی بھی اتنا ہی مسائل کا شکار رہتی ہے جتنا کہ نام نہاد غیر کفو کے درمیان شادی۔ اصل یہ ہے کہ کامیاب شادی کا تعلق کفو یا غیر کفو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ طرفین شادی شدہ زندگی کو گزارنے کا آرٹ جانتے ہوں۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زوجین میں سے ایک نے اگر مشرقی تعلیم پائی ہے اور دوسرے کو اگر مغربی تعلیم ملی ہو، یا ایک امیر فیملی کا ہو اور دوسرا غریب فیملی کا، یاا ایک گائوں کا ہو اور دوسرا شہر کا، ایک اسمارٹ ہو اور دوسرا غیر اسمارٹ، ایک سفید فام ہو اور دوسرا سیاہ فام، ایک کی عمر زیادہ ہو اور دوسرے کی عمر کم، وغیرہ۔ زوجین کے درمیان اگر اس قسم کا فرق پایا جائے تو یہ نابرابری کی شادی ہے اور ایسی شادی کا ناکام ہونا مقدر ہے۔
مگر یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ گھر کی حیثیت ایک مکمل ادارہ(instituteکی ہے۔ عام ادارے کی طرح، گھر کے ادارے کی بھی مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ مذکورہ نابرابری کو مینج(manage) کرنے کا نہایت آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تقسیم کار کے اصول کو اپنا لیں۔ ہر ایک اپنی صلاحیت کے اعتبارسے ایک شعبے کو لے لے اور اس کو اپنی صلاحیت کے مطابق آزادانہ طور پر چلائے۔
تقسیم کار کے اس اصول کی کامیابی کی شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دونوں فریق یہ بات طے کر لیں کہ انہیں اپنے آپ کو صرف اپنے شعبے تک محدود رکھنا ہے، کسی ایک کو دوسرے کے شعبے میں مداخلت نہیں کرنا ہے۔ نابرابری کے نکاح کا حل تقسیم کار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور فارمولا اس مسئلے کا حل نہیں۔
ایک صاحب نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی۔ شادی کے کچھ دنوں بعد ان سے میری ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ شادی سے پہلے مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرا ہوائی جہاز فضا میں اڑ رہا ہے۔ مگر شادی کے بعد ایسا معلوم ہواجیسےکہ میرا جہاز کریش (crash) ہوگیا، اور میں جہاز کے ساتھ زمین پر گرپڑا ۔
یہ ایک شخص کی بات نہیں۔ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے معاملے میں اکثر لوگوں کا احساس کم و بیش یہی ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ شادی سے پہلے عورت اور مرد دونوں کی دلچسپیاں اپنے خونی رشتوں سے ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد ان کو غیر خونی رشتہ داروں سے تعلق بنانا پڑتا ہے۔ بچپن سے شادی کی عمر تک دونوںاپنے خونی رشتوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اس بنا پر دونوںکو اپنے خونی رشتوں سے خصوصی لگاؤ ہوجاتا ہے۔ جب کہ شادی کے بعد دونوں کو اپنے غیر خونی رشتہ داروں کے ساتھ نباہ کرنا پڑتا ہے۔دونوں، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اپنے آپ کو اس فرق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کرپاتے۔ اس بنا پرطرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اور شادی عملاً پرابلم میرج (problem marriage) بن جاتی ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ خونی رشتوں اور غیر خونی رشتوں کا فرق ختم ہو۔ یہ ایک فطری فرق ہے جو ہمیشہ باقی رہے گا۔ اس مسئلے کا عملی حل صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ دونوںشعوری طور پر یہ جان لیں کہ وہ ایک فطری مسئلہ سے دوچار ہیں۔ جس کووہ ختم نہیں کرسکتے۔ دونوںاگر شعوری طور پر اس بات کو جان لیں تو ان کے اندر ایڈجسمنٹ (adjustment)کا مزاج پیدا ہوگا۔ ان کے اندر یہ سوچ بیدا رہوجائے گی — جس مسئلے کو ہم بدل نہیں سکتے اس کو ہمیںنبھانا چاہیے، اس کے ساتھ ہمیںایڈجسٹ کرکے رہنا چاہیے۔اس فرق کا ایک مثبت پہلو ہے۔ یہ فرق آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچاتا ہے۔ اس بنا پر آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رکے بغیر جاری رہتا ہے۔
شادی بظاہر ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے وہ دو مختلف کلچر کے درمیان ہوتی ہے۔ اِس حقیقت کو والدین نہیں سمجھتے۔ وہ شادی کے صرف دوسرے پہلوؤں کو جانتے ہیں، اور اِن دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے اپنے لڑکی کی شادی کردیتے ہیں۔ بعد کو جب کلچرل فرق کی بنا پر زوجین کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں، تب بھی وہ اصل راز کو دریافت نہیں کرپاتے۔ دونوں فریق صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو برا بتاتے رہتے ہیں۔ نتیجۃً بیش تر شادیوں کا انجام یہ ہوتا ہے ------ وقتی طور پر دھوم کے ساتھ شادی، اور پھر ہمیشہ کے لیے تلخ زندگی۔
لندن سے میرے پاس ایک مسلم خاتون کا ٹیلی فون آیا۔ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی۔ اِس کے بعد ان کی شادی ایک ایسے مسلم نوجوان سے ہوئی جس کی پیدائش لندن میں ہوئی تھی۔ خاتون نے ٹیلی فون پر بتایا کہ اُن کی شادی کو کئی سال ہوچکے ہیں، لیکن اُنھیں پُر مسرت ازدواجی زندگی حاصل نہ ہوسکی۔ گفتگو کے دوران میں نے اُن سے صرف دو سوال کیے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے شوہر کردار (character)کے اعتبار سے کیسے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کردار کے اعتبار سے وہ ایک اچھے انسان ہیں۔ دوسرا سوال میں نے یہ کیا کہ آپ کے شوہر نے کبھی ایسا کہا کہ تم زیادہ بولتی ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، ایسا تو وہ اکثر کہتے رہتے ہیں۔
اِس کے بعد میں نے کہا کہ آپ کے مسئلے کی جڑ صرف ایک ہے۔ آپ پاکستانی کلچر کے مطابق، زیادہ بولنے والی شخصیت (outspoken person) ہیں، اور آپ کا شوہر برٹش کلچر کے مطابق، کم بولنے والا شخص (underspoken person) ہے۔ یہی فرق آپ کے شوہر کے اندر باربار جھلاّہٹ (irritation)پیدا کرتا ہوگا۔ اِسی چیز نے آپ کی ازدواجی زندگی کو تلخ بنا دیا ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ اپنے آپ کو بدلیے اور بہت کم بولنے کی عادت ڈالیے۔ اِس کے بعد مذکورہ خاتون نے ایسا ہی کیا اور ان کی زندگی ایک خوش گوار زندگی بن گئی۔
زوجین کے درمیان جو جھگڑے ہوتے ہیں، وہ اکثر چھوٹی باتوں پر ہوتے ہیں۔ کسی چھوٹی بات کو لے کر اختلاف شروع ہوتا ہے اور وہ اختلاف بڑھتے بڑھتے بڑا بن جاتا ہے۔ زوجین وہ عورت اور مرد ہیں جو رات اور دن ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہی چیز نزاع کا اصل سبب ہے۔ یہی دونوں عورت اور مرد اگر اتفاقاً کچھ دیر کے لیے ملیں، مثلاً کسی سفر میں یا کسی سیمینار میں تو ان کے درمیان کبھی مذکورہ قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوگا۔ جھگڑا ہمیشہ ایک معتدل چیز پر غیر معتدل ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
زوجین اگر اس حقیقت کو جان لیں تو اس کے بعد ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف شدید نوعیت اختیار نہ کرے۔ اس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر ایساا ہوتا ہے کہ دونوں پیش آئے ہوئے اختلاف کو حقیقی اختلاف سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ایک اضافی نوعیت کا اختلاف ہوتا ہے۔
ہر عورت اور مرد کا مزاج فطری طورپر ایک دوسرے کے مختلف ہوتا ہے۔ یہ مزاجی اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وقتی ملاقاتوں میں وہ کبھی مسئلہ نہیں بنتا، لیکن جب ایک عورت اور ایک مرد مستقل طور پر ایک ساتھ رہنے لگیں تو یہ اختلافات بار بار ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ شدید نوعیت اختیار کر لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اس بات کو جانیں کہ یہ ایک نفسیاتی نوعیت کا مسئلہ ہے، نہ کہ حقیقی نوعیت کا مسئلہ تو وہ فوراً اس کو نظر انداز کر دیں، جس طرح وہ وقتی ملاقاتوں میں ایسی چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اسی بے خبری کی بنا پر ہر عورت اور مرد کی زندگی ایک متضاد رویے کا شکار رہتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے اندر لڑتے جھگڑتے ہیں، لیکن یہی لوگ جب گھر کے باہر کی دنیا میں آتے ہیں تو ان کا رویہ لوگوں کے ساتھ بالکل معتدل ہو جاتا ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس متضاد رویے سے بچائیں۔ اس کے بعد ان کی گھر کی زندگی بھی اسی طرح معتدل بن جائے گی، جس طرح ان کی باہر کی زندگی معتدل بنی ہوئی ہے۔ زندگی کے اکثر مسائل صرف بے شعوری کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو باشعور بنایئے، اور پھر آپ خود بخود غیر ضروری مسائل سے بچ جائیں گے۔
ایک مغربی سفر میں میری ملاقات ایک مسیحی خاتون سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ میرا شوہر سخت (stubborn) ہے۔ مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں، یہ صرف سوچ کا مسئلہ ہے۔ آپ اپنی سوچ درست کر لیجیے اور پھر یہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ آپ یہ نہ سوچیے کہ آپ کا شوہر سخت ہے۔ سخت ایک منفی لفظ ہے۔ منفی الفاظ میں آپ کسی بات کو سوچیں تو اس کے بارے میں متعدل انداز میں سوچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے آپ کو اس بارے میں مثبت الفاظ استعمال کرنا چاہیے تاکہ آپ جو کچھ سوچیں، وہ مثبت ذہن کے تحت سوچیں، نہ کہ منفی ذہن کے تحت۔
میں نے کہا کہ آپ یہ کہیے کہ آپ کے شوہر کے اندر عزم(determination) کا مادہ ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو اٹل انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ ایک مردانہ صفت ہے اور وہ بلا شبہ ایک اچھی صفت ہے۔ اگر یہ صفت نہ ہو تو آدمی ہمت کے ساتھ زندگی کے چیلنج کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اور جو آدمی چیلنج کا سامنا نہ کر سکے، وہ کبھی زندگی میں کامیاب بھی نہیں ہو سکتا۔
مذکورہ خاتون کئی زبان جانتی تھیں اور وہ پروفیشن کے اعتبار سے ترجمان(interpreter) تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا پروفیشن چیلنجنگ پروفیشن نہیں ہے۔ اس پروفیشن میں نرم ہونا ایک اچھی بات ہے۔ آپ کا نرمی کا مزاج آپ کے پروفیشن کے عین مطابق ہے، مگر آپ کے شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر ہیں۔ اس کام میں ان کو ہر وقت چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ خدا نے آپ کو نرم بنایا، تاکہ آپ اپنے پروفیشن کو کامیابی کے ساتھ کر سکیں۔ اس کے برعکس، خدا نے آپ کے شوہر کو سختی کا مزاج دیا جو کہ ان کے پروفیشن کے اعتبار سے ضروری تھا۔ آپ کو چاہیے کہ اس تقسیم پر آپ شکر کریں، نہ کہ شکایت۔
معاملات میں مثبت رخ پر سوچنا آدمی کو مثبت نتیجے تک پہنچاتا ہے، اور منفی رخ پر سوچنا اس کو منفی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ اس اصول کا تعلق جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات سے ہے، اسی طرح اس کا تعلق ازدواجی زندگی سے بھی ہے۔ اس اصول کو جاننا بلاشبہ اس دنیا میں کامیاب زندگی کی کلید ہے۔
عورت اور مرد کے درمیان بگاڑ کا سب سے بڑا سبب غصہ ہوتا ہے۔ کسی معاملے میں ایک کو دوسرے کے اوپر غصہ آ جاتا ہے۔ اس کے بعد دونوں میں تکرار ہوتی ہے۔ یہ تکرار آخر کار نفرت میں بدل جاتی ہے، اور پھر یہ نفرت مختلف قسم کی برائیوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ باہم زندگی میں ننانوئے فیصد بگاڑ غصے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ غصہ ایک فطری جذبہ ہے، غصے کا حل غصے کو کنٹرول کرنا ہے۔ غصہ خود کوئی بری چیز نہیں، بری چیز صرف یہ ہے کہ غصے کو کنٹرول نہ کرکے اس کو مزید برائی تک پہنچنے دیا جائے۔
نفسیاتی اعتبار سے غصہ صرف ایک وقتی اشتعال کا معاملہ ہے۔ اشتعال ایک غیر معتدل حالت کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو وقتی طور پر بھڑکتی ہے اور اس کے بعد بہت جلد وہ بجھ جاتی ہے، بشرطیکہ اس کو مزید بھڑکایا نہ جائے۔ آدمی اگر اس حقیقت کو جانے تو اس کا غصہ کبھی کسی مستقل فساد کا سبب نہ بنے۔
غصہ گویا ایک نفسیاتی آگ ہے۔ غصہ اچانک کسی بات پر بھڑک اٹھتا ہے، لیکن نفسیاتی اعتبار سے غصے کی زندگی صرف تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ غصہ آنے کے وقت اگر آپ چپ رہیں اور اس کا جواب دینے کے بجائے غصے کے مقام سے ہٹ جائیں تو بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ آپ کا غصہ اندر ہی اندر ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ اب آپ اسی طرح ایک نارمل انسان بن گئے ہیں، جیسا کہ آپ غصے سے پہلے ایک نارمل انسان تھے۔
غصے (anger) کا فطری اصول یہ ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے بھڑکتا ہے اور پھر اپنے آپ بجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر غصہ کرنے والا فوری طور پر خاموشی اختیار کر لے اور اپنے ذہن کو دوسری طرف موڑ دے تو اس کے بعد انتہائی محرک ختم ہو جائے گا اور رفتہ رفتہ اپنے آپ معمول کی حالت قائم ہو جائے گی۔
جدید دور میں جب لومیرج(love marriage) کا طریقہ رائج ہوا تو اکثر عورت اور مرد نے یہ یقین کر لیا کہ اب انہوں نے نکاح کے معاملے میں آخری فارمولا دریافت کر لیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہر عورت اور مرد لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادی کرے اور پھر اپنی پسند کے مطابق ، اپنے لیے بہترین زندگی کی تعمیر کرے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ لو میریج کا طریقہ پوری طرح ناکام ثابت ہوا۔ آج کل ساری دنیا میں یہ حال ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں لومیریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادیاں کرتے ہیں، لیکن سروے کے مطابق، پچاس فیصد سے زیادہ شادیاں ناکام ہوتی ہیں۔ لو میریج نے لوگوں کو خوش گوار ازدواجی زندگی کا تحفہ نہیں دیا۔
لومیریج کی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لو میریج صرف ایک غیر فطری میریج کا خوبصورت نام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک نوجوان عورت اور ایک نوجوان مرد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور ظاہری خوش نمائی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں۔ مگر پھر جب دونوں کے درمیان عملی تعلق قائم ہوتا ہے تو ان پر کھلتا ہے کہ انہوں نے جس چمک دار چیز کو سونا سمجھا تھا، وہ سونا ہی نہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ نکاح سے پہلے جو لوافیر(love affair) ہوتا ہے، وہ صرف نظر فریبی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد جب دونوں کے درمیان عملی تعلق ہوتا ہے تو نظر فریبی کا سراب ختم ہو جاتا ہے اور حقیقی صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبل از نکاح جو چیز غیر معمولی نظر آئی تھی، وہ بعد از نکاح صرف ایک معمولی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اب مایوسی کا دور شروع ہوتا ہے جو آخر کار طلاق یا کم ازکم دوری تک پہنچ جاتا ہے۔
درست طریقہ صرف یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں نکاح کے معاملے کو اپنے والدین پر چھوڑ دیں۔ تاہم والدین کو اس معاملے میں ایسا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد سے اس بارے میں رائے لیں، اس کے بعد ہی وہ کوئی آخری فیصلہ کریں۔
لوگ اکثر شادی کے معاملے میں معیار پسند ہوجاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو ایک ایسی خاتون ملے جو ان کے مزاج کے مطابق ہو،جو ان کا میچ (match) ہو۔ مگر یہ درست رویہ نہیں ۔ صحابیٔ رسول ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہالَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1469)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کو اس کی ایک بات ناپسند ہو تو اس کے اندر دوسری بات ہوگی جو اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ رہنمائی صرف شوہر کو نہیں ہے، بلکہ اس کی مخاطب بیوی بھی ہے۔
خالق نے دنیا کو اس ڈھنگ پر پیدا کیا ہے کہ اس میں ہر اعتبار سے خیر ہے۔ حتی کہ جو بظاہر برے پہلو ہیں، غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی خیر کا پہلو ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ نے نکاح کیا، اور ایک بظاہر غیر مطلوب عورت مل گئی، تب بھی اس میں خیر ہے۔ مثلاً اس غیر مطلوب خاتون کو آپ مطلوب خاتون بنالیں تو آپ کا یہ عمل آپ کے لیے اسم اعظم کے ساتھ دعا کا پوائنٹ آف ریفرنس بن جاتا ہے ۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ خدا یا، میں نے اس غیر مطلوب خاتون کو دل سے قبول کیا۔میں اس مس میچڈ لائف پارٹنر (mismatched life-partner)کے ساتھ نارمل طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں۔خدایا،اس کی بنا پر آپ میرے لیے خیر کثیر کا فیصلہ کردے۔ اس خاتون کے غیر مطلوب پہلو کے بدلے مجھے ایک بہتر بدل دے دے۔ مثلاً اچھی اولاد، وغیرہ۔تو ایسی دعا اس کے لیے اسمِ اعظم کے ساتھ کی گئی دعا بن جائے گی۔
اس کے برعکس، تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر آپ کو آپ کا میچ مل جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اس کے ساتھ تفریحی موضوعات پر باتیں کریں گے، گہرے موضوعات پر ڈسکشن اس کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ گویا وہ خاتون آپ کے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ نہیں بنے گی، ذہنی جمود کا ذریعہ بن جائے گی۔
قرآن میںزوجین کے تعلق سے ایک نصیحت کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَى أَنْ تَکْرَہُوا شَیْئًا وَیَجْعَلَ اللَّہُ فِیہِ خَیْرًا کَثِیرًا ( 4:19 )۔ یعنی تم ان کے ساتھ اچھی طرح رہو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ رہنمائی صرف زوجین کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ زندگی کا اصول ہے۔کیسے ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ جو انسان کے لیے ناپسندیدہ واقعہ ہو، وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن جائے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا جانتے ہوں۔ آیت میں یہ بات ازدواجی پارٹنر کے بارے میں کہی گئی ہے۔یعنی لائف پارٹنر کےناپسندیدہ پہلو کو اگنور کرکے اس کے پسندیدہ پہلو کو اویل کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آدمی کی شادی ہو، اور اس کو ناپسندیدہ یا مس میچ لائف پارٹنر مل جائے تو وہ اس کے لیے خیر کثیر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
وہ اس طرح کہ خواہ میچنگ پارٹنر ہوں یا مس میچ پارٹنر دونوں اللہ کی تخلیق ہیں۔ اگر آدمی کو مس میچ لائف پارٹنر مل جائے، اور وہ اس کو رضائے الٰہی سمجھ کر دل سے قبول کرلے تواللہ اس کے لیے ایک ایسے خیر کثیر کا فیصلہ کردیتا ہے، جو کسی میچنگ پارٹنر سے بھی زیادہ اہم ہو۔ خدا کے پاس میچنگ پارٹنر سے بہت زیادہ عظیم خیر کی صورتیں ہیں۔ مفسر القرطبی نے ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ابو محمد بن ابی زید دین، علم اور معرفت میں بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔ لیکن ان کی بیوی بڑی بدسلوک تھی، اور بدزبان بھی۔ شیخ صاحب سے اس بارے میںپوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی، اپنی معرفت دی ،اور میرے اوپردوسری دنیوی نعمتیں مکمل کی ہیں۔ہوسکتا شاید میرے کسی گناہ کی سزا اس صورت میں دی گئی ہو ،مجھے اندیشہ ہے کہ میں اس کو جدا کروں تو مجھ پر اس سے سخت سزا اور عقوبت نازل ہو (تفسیر القرطبی، جلد5، صفحہ 98 )۔
اکثر نوجوان یہ خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ ان کو خوبصورت بیوی مل جائے۔ مگر یہ صرف ایک نادانی کی خواہش ہے۔ نام نہاد خوب صورت عورت اکثر پر مسائل بیوی(problem wife) ثابت ہوتی ہے۔ ایسی عورت کی دل کشی صرف چند دن کی ہوتی ہے اور اس کے بعد سارا جنون ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کے معاملے میں آدمی کو اصل اہمیت سیرت کو دینا چاہیے۔ جو عورت سیرت میں اچھی ہو، وہی سب سے اچھی بیوی ہے۔
فرینک فرٹ یونیو ورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر جان(Dr. John Ockhert) نے ایک جائزے میں بتایا کہ ------ زیادہ خوب صورت لڑکیاں عام طور پر زندگی میں ناکام رہتی ہیں
Gorgeous women feel beauty is the only asset, and they cannot bear the ageing. Marilyn Monroe, one of the prettiest woman to emerge from Hollywood, is stated to have wept bitterly when she saw first traces of wrinkles in the mirror.
دل کش عورتیں سمجھتی ہیں کہ خوب صورتی ان کا واحد سرمایہ ہے اور بڑھاپے کو وہ برداشت نہیں کر سکتیں۔ میری لین مانرو (Marilyn Monroe, 1926-1962)ہالی وڈ کی ایک انتہائی خوب صورت عورت تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت بری طرح رونے لگی، جب کہ اس نے آئینے میں پہلی بار اپنے چہرے پر جھریوں کے نشانات دیکھے۔
جس آدمی کو پرکشش عورت نہ ملے، وہ زیادہ خوش قسمت ہے۔ کیوں کہ غیر پرکشش عورت عملی زندگی میں زیادہ بہتر رفیق ثابت ہوتی ہے۔ نکاح کا مقصد ایک نسوانی کھلونا حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ نکاح کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو ایک کار آمد رفیقۂ حیات مل جائے۔ اور بہتر رفیقۂ حیات وہی ہے جو سیرت کے اعتبار سے بہتر ہو ،نہ کہ صرف صورت کے اعتبار سے بہتر۔ یہ تجربہ اتنا عام ہے کہ ہر آدمی اپنے قریب کے لوگوں میں اس کی مثالیں دیکھ سکتا ہے ۔بشرطیکہ اس کے اندر چیزوں کو حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔
میں نے ایک تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ آپ کی ازدواجی زندگی کیسی ہے، خوش گوار یا ناخوش گوار۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری ازدواجی زندگی پوری طرح ایک خوش گوار زندگی ہے۔ میرے گھر میں معتدل ماحول رہتا ہے۔ ہم دونوں کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اس خوش گوار زندگی کے لیے آپ کا فارمولا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا فارمولا، ایک لفظ میں، عدم مداخلت(non-inerference) ہے۔ یعنی ہم نے اپنے یہاں تقسیم کار کے اصول کو اپنا لیا ہے۔ نہ میں بیوی کے معاملے میں دخل دیتا ہوں اور نہ بیوی میرے معاملے میں دخل دیتی ہے۔
میں نے کہا کہ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے یہ بلاشبہ ایک بہترین اصول ہے۔ کیوں کہ خالق نے ہر عورت اور مرد کو الگ الگ مزاج کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ ہے اور ہر عورت مس ڈفرنٹ۔ ایسی حالت میں ازدواجی تعلق گویا دوڈفرنٹ افراد کے درمیان کا تعلق کا نام ہے۔ یہ فرق چوں کہ خالق کا پیدا کیا ہوا ہے، اس لیے ہم اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ ہم کو چاہیے ہم اس فرق کو بدلنے کی ناکام کوشش نہ کریں، بلکہ فرق کے ساتھ نباہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس اصول کو ایک لفظ میں آرٹ آف ڈفرنس مینج منٹ(art of difference management) کہا جا سکتا ہے۔
پھر یہ فرق کوئی برائی نہیں۔ اس فرق کے اندر ایک عظیم فائدہ چھپا ہوا ہے۔ فرق کا مطلب صرف فرق نہیں، بلکہ اس کا مطلب دو مختلف صلاحیتیں ہیں۔ اگر عورت اور مرد دونوں میں ہر اعتبار سے یکسانیت پائی جائے تو وہ کوئی اچھی بات نہ ہوگی۔ یکسانیت نہ ہونا، ذہنی ترقی کا راز ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ----- جب تمام لوگ یکساں طور پر سوچیں تو کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا
When everyone thinks alike, no one thinks very much.
مشترک زندگی کے لیے عدم مداخلت کی پالیس بہترین پالیسی ہے۔ یہ پالیس گھر کے باہر کی زندگی کے لیے بھی بہترین ہے اور گھر کے اندر کی زندگی کے لیے بھی بہترین۔
انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ایک قدیم مقولہ ہے۔ یہ صرف ایک مقولہ نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ انتظاری کی پالیسی بہتر انجام کے استقبال کے ہم معنی ہے۔ ایک چیز جو آج آپ کو نہیں ملی، اس کو پانے کے لیے آپ کل کا انتظار کریں تو یہ بلاشبہ ایک اعلیٰ دانش مندی کی بات ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ جو کچھ آپ کو آج نہیں ملا، وہ کل اپنی پوری مطلوب صورت میں آپ کو مل جائے۔
شادی شدہ زندگی میں شوہر اور بیوی دونوں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کو آج ہی ویسا دیکھنا چاہتے ہیں ٗ جیسا کہ وہ ان کے دماغ میں بسا ہوا ہے۔ اس معاملے میں وہ وقت کے عامل (factor) کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ کوئی چیز وقت سے پہلے کسی کو نہیں ملتی۔ عورت اور مرد دونوں کو جاننا چاہیے کہ اس دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو چیز کل ملنے والی ہے ٗ وہ آج ہی آپ کو مل جائے۔
نکاح کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد ایک گھر میں اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ دونوں فطری طور پر ایک دوسرے سیے سیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں فطری طور پر اپنے آپ کو ایک دوسرے کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔ یہ فطری عمل نکاح کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ زوجین کا کام یہ ہے کہ وہ اس فطری عمل (process) کو جاری رکھنے میں مدد گار بنیں۔ ہ ایسا کوئی کام نہ کریں جو اس فطری عمل کو دربرہم کر دینے والا ہو۔
انتظار کا مقصد اسی فطری عمل میں مدد دینا ہے۔ انتظار کا مقصد یہ ہے کہ فطری عمل بلا روک ٹوک جاری رہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے۔ انتظار ایک عمومی اصول ہے۔ اس کا تعلق ہر بڑی کامیابی سے ہے۔ یہی اصول شوہر اور بیوی کے معاملے میں بھی درست ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ انتظار کیجیے ،اور اس کے بعد آپ کو یقینی طور پر اپنی مطلوب چیز مل جائے گی۔ یہ فطرت کا قانون ہے اور اس دنیا میں فطرت کے قانون سے بڑا کوئی قانون نہیں۔
اس دنیامیں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف لائف مینج منٹ(art of life management) کہا جاتا ہے۔ آرٹ آف لائف مینج منٹ یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنے آپ کو جانے اور دوسری طرف اپنے سے باہر کے حالات کو سمجھے،اور پھر خالص حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ پھر وہ اس نقشے پر اس طرح عمل کرے کہ نتیجے کو دیکھتے ہوئے بار بار وہ اپنے نقشے پر نظرثانی کرتا رہے۔
زندگی کے کسی نقشے یا منصوبے کے درست یا نادرست ہونے کا صرف ایک معیار ہے اور وہ اس کا نتیجہ ہے۔ جس نقشۂ عمل کا نتیجہ منفی صورت میں نکلے، وہ نقشۂ عمل نادرست ہے۔ اور جس نقشۂ عمل کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلے، وہ درست ہے۔ کسی نقشۂ عمل کو نظری معیار پر جانچنا دانش مندی نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے نقشے کو اس کے نتیجے کی روشنی میں جانچا جائے۔
شادی شدہ زندگی کے بارے میں بھی یہی اصول ایک صحیح اصول ہے۔ شادی شدہ زندگی کی نزاکت یہ ہے کہ وہ غیر خونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ جہاں دو فرد کے درمیان خونی رشتہ موجود ہو،وہاں کسی شعوری منصوبہ بندی کے بغیر بھی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ لیکن شوہر اور بیوی کا تعلق غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ایسے تعلق کو درست طور پر چلانے کی تدبیر صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس کو پوری طرح عقل کے تابع رکھا جائے،نہ کہ جذبات کے تابع۔
خونی رشتے میں فطری طور پر جذباتی تعلق موجود ہوتا ہے۔ یہ جذباتی تعلق ہر چیز کا بدل بن جاتا ہے، لیکن غیر خونی رشتے کی کامیابی کا انحصار تمام تر اس پر ہے کہ اس کو سوچ سمجھ کر چلایا جائے۔ خونی رشتہ فطرت کے زور پر اپنے آپ جاری رہتا ہے، لیکن غیر خونی رشتے میں اس قسم کا فطری زور موجود نہیں ہوتا۔ غیر خونی رشتے کو عقلی مینج منٹ(rational management)کے بغیر کامیابی کے ساتھ چلانا ممکن نہیں ----- خونی رشتہ فطرت کے تحت قائم ہوتا ہے اور غیر خونی رشتہ شعور کے تحت۔
ایک صنعت کار اپنی بیٹی کو لے کر میرے پاس آئے۔ انہوں نے کہا کہ میری بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے۔ جلد ہی ان کی شادی ہونے والی ہے۔ آپ دعا کیجیے کہ ان کی شادی شدہ زندگی (married life) کامیاب ہو۔ میں نے ان کی بات سنی اور پھر میری زبان سے نکلا
Every marriage is doomed to failure, except for the one who knows the art of failure managemen.
یعنی ہر شادی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ناکام ہو، سوا اس کے جو ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا آرٹ جانتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پھر ہم کو وہی آرٹ بتایئے۔ میں نے کہاکہ وہ آرٹ یہ ہے کہ آدمی شادی کو آئڈیل کی نظر نہ دیکھے، بلکہ پریکٹکل کی نظر سے دیکھے اور پھر جو شادی اس کے حصہ میں آئی ہے اسی کو ممکن سمجھ کر اس پر راضی ہو جائے۔ شادی کے بعد عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھی کو آئڈیل سے ناپتے ہیں۔ چوں کہ آئڈیل کا حصول ممکن نہیں ، اس لیے ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ انہیں رائٹ جیون ساتھی نہیں ملا۔ شادی کے دونوں فریق اسی احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں، لیکن انہیں شادی یا خوشی کا کبھی تجربہ نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت وہی ہے جو دوسری عورت ہے۔ اسی طرح ہر مرد وہی ہے جو دوسرا مرد ہے۔ ظاہری صورت کے لحاظ سے خواہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوں، لیکن داخلی شخصیت کے اعتبار سے ہر ایک یکساں حیثیت کا مالک ہے۔ لوگ اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ہر مرد کو یہ محسوس ہوگا کہ اس کو جو بیوی ملی ہے، وہ دنیا کی سب سے اچھی بیوی ہے۔ اسی طرح ہر عورت کو یہ محسوس ہوگا کہ اس کو جو شوہر ملا ہے، وہ دنیا کا سب سے اچھا شوہر ہے۔ جب دونوں اس حقیقت کو دریافت کریںگے تو اس کے بعد ان کی زندگی سے مایوسی اور رنج کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور پھر وہ اس خوش گوار زندگی کو پا لیں گے جس کی انہیں تلاش تھی۔
مرد اپنی فطرت کے اعتبار سے انانیت پسند ہے، اور عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے جذباتی ہے۔ اسی فرق کی بنا پر اکثر دونوں میں جھگڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں کے درمیان اس فرق کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ -----جب مرد کی انا بھڑکے تو عورت خاموش ہو جائے، اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو مرد خاموشی اختیار کر لے۔ دونوں میں سے کوئی بھی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ اس کے سوا اس مسئلے کا کوئی اور حل سرے سے ممکن ہی نہیں۔
ہر منفی جذبہ، مثلاً غصہ وغیرہ کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ بھڑکتا ہے تو وہ اپنے آپ بھڑکتا ہے، لیکن ابتدائی طور پر وہ ایک حد کے اندر ہی رہتا ہے۔ حد سے آگے جانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو کوئی بڑھاوا(boost) دینے والا بڑھاوا دے۔ یہ بڑھاوا دینے والا خود کوئی انسان ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے بوسٹ فراہم نہ کرے تو ہر منفی جذبہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ منفی جذبے کے بارے میں فطرت کا قانون یہ ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد تھرٹی سکینڈ تک اوپر کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر اس کو مزید بوسٹ نہ ملے تو تھرٹی سکینڈ کے بعد وہ فطری طور پر نیچے کی طرف جانے لگتا ہے۔
شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کے اس قانون کو سمجھیں، جس کو ہم نے تیس سکینڈ کا فارمولا(formula of 30-seconds) کہا ہے۔ فطرت کے اس قانون کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شوہر اور بیوی اس قانون کو جان لیں، ان کی زندگی میں کبھی ایسا بحران(crisis) نہیں آئے گا جو بڑھ کر بریک ڈائون(break down) تک پہنچ جائے۔ خالق نے فطرت کے اندر تمام ضروری تحفظات(safeguard) رکھ دیئے ہیں۔ کسی عورت یا مرد کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ فطرت کے اندر پہلے سے موجود ان تحفظات کو جانے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں استعمال کرے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خاموش زبان میں بولتی ہے۔ جو لوگ خاموش زبان کو سننے کی استعداد رکھتے ہوں، وہی لوگ فطرت کی اس آواز کو سنیں گے اور اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ دونوں متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے۔ عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی(emotional) ہوتی ہے، اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند(egoist) ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں فطری ہیں۔ وہ لازمی طور پر ہر عورت اور مرد کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں کسی کا بھی کوئی استثنا نہیں۔
لیکن ان دونوں صفتوں کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا ان کا منفی پہلو۔ اگر ان صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانیت کے لیے خیر ثابت ہوں گے، اور اگر ان کو منفی انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانیت کے لیے شر بن جائیں گے۔
انانیت(ego) کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لیے جمنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وہ موم کی مانند ہو جائے گا اور عزم و جزم کے ساتھ وہ کوئی کام نہ کر سکے گا۔ انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہو جائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی انانیت کو اس منفی حد تک نہ جانے دے، ورنہ وہ تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا۔
اسی طرح عورت پیدائشی طور پر جذباتی(emotional) ہوتی ہے۔ اس صفت کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ اس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیادہ ہوتا ہے۔ جو بلاشبہ ایک خوبی کی بات ہے۔ اس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہو جائے۔ وہ معاملات میں ضدی پن دکھانے لگے۔ یہ دوسرا پہلو اس صفت کا منفی پہلو ہے۔ اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیدا ہو جائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائدہ کھو دے گی۔
عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس فطری مزاج کو سمجھیں۔ وہ شعوری طور پر اس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے،وہ منفی رخ اختیار نہ کرے۔ اسی طریقے میں عورت اور مرد دونوں کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ دعوت کا کام کافی سرگرمی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک لڑکی کی شادی ایک نوجوان سے کی، جو کہ ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں۔ شادی کے بعد لڑکی اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ وہاں وہ چند سال رہی۔ اس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوا، مگر شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ آخر کا لڑکی غصہ ہو کر اپنے باپ کے پاس انڈیا آگئی۔ لڑکی کی زبان سے شکایتوں کو سن کر اس کے باپ نے یقین کر لیا کہ ان کی لڑکی بے خطا ہے اور سارا قصور اس کے شوہر کا ہے۔
مذکورہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ حالات سننے کے بعد میں نے کہا کہ اس معاملے میں آپ باپ کے دل سے بول رہے ہیں، آپ داعی کے دل سے نہیں بول رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ٹیلی فون پر اپنے داماد کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ بہت سخت(adamant) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ------ میں نہیں بدلوں گا، آپ کی بیٹی کو میرے ساتھ ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔
میں نے کہا کہ اس قسم کے اختلاف ہر شادی شدہ زندگی میں پیش آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ شوہر کے اندر بری عادتیں ہوں۔ مثلاً شراب پینا، وغیرہ۔ دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو مزاجی(temperamental) نوعیت کا ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق، آپ کے داماد میں پہلی قسم کی خرابی نہیں ہے۔ اس لیے آپ کو اسے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ موجودہ صورت میں آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھایئے کہ تم اپنے شوہر سے ایڈجسٹ کرو۔ تم گھر کی زندگی میں اپنے شوہر کو اپنا باس (boss) بنا لو۔ یہی واحد قابل عمل صورت ہے۔ اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ داعی ہیں۔ داعی ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ اور بامقصد انسان اس کا تحمل نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے مقصد کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مسئلہ بنائے۔ آپ اپنی بیٹی کو سمجھا بجھا کر اس کے شوہر کے پاس بھیج دیجئے، ورنہ یہ بیٹی آپ کی مقصدی زندگی کا خاتمہ کر دے گی۔ اس کے بعد آپ صرف باپ کی حیثیت سے زندہ رہیں گے، نہ کہ داعی کی حیثیت سے۔
دو آدمی جب مل کر کام کریں تو کامیاب کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کامل اعتماد ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے اوپر ہر اعتبار سے بھروسہ رکھتے ہوں۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی کوئی دیوار باقی نہ رہے۔ باہمی اعتماد کا یہ اصول شوہر اور بیوی کے درمیان انتہائی حد تک ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی گھر اچھا گھر نہیں بن سکتا۔
شوہر اور بیوی کے درمیان کیوں ایسا ہوتا ہے کہ مطلوب قسم کا باہم اعتماد پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی ایک غیر محسوس دیوار مسلسل طور پر باقی رہتی ہے۔ اس نامطلوب صورت حال کی ذمہ داری عورت اور مرد دونوں پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ عورت کی غلطی یہ ہے کہ وہ نکاح کے بعد اپنے ذہن کو نئے حالات کے مطابق نہیں بنا پاتی۔ وہ بدستور اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے۔ اس کا اظہار بار بار اس کے رویے سے ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً جب وہ اپنے میکے کا ذکر کرے گی تو اس طرح کہے گی کہ میرے گھر میں ایسا تھا، یا میرے گھر میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ چیز فطری طور پر مرد کو ناگوار ہوتی ہے۔ وہ شعوی یا غیر شعوری طور پر محسوس کرتا ہے کہ اس کے اور اس کے بیوی کے درمیان ایک قسم کی غیریت موجود ہے، جو کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔
دوسری طرف مرد کے اندر عام طور پر ایک کمزوری ہوتی ہے، جو مطلوب نوعیت کے باہمی اعتماد میں مسلسل طور پر رکاوٹ بنی رہتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مرد کے ذہن میں ایک مفروضہ عورت کا تصور بسا ہوا ہوتا ہے، یہ مفروضہ مرد کے ذہن پر مسلسل طور پر چھایارہتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنی موجودہ بیوی کے ساتھ مطلوب قسم کا باہمی اعتماد قائم نہیں کر پاتا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی اعتماد قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اپنی اصلاح کریں۔ دونوں اپنے آپ کو مذکورہ قسم کے واہمہ (obsession) سے باہر نکالیں۔ دونوں یہ کریں کہ وہ خیالی دنیا میں جینے کے بجائے عملی حالات کے مطابق اپنا ذہن بنائیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو دونوں کے درمیان اپنے آپ باہمی اعتماد قائم ہو جائے گا۔
شادی کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکٹھا ہوتے ہیں تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی، یہ دو مختلف شخصیتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک لفظ میں، عورت مزکنڈیشنڈ ہوتی ہے اور مرد مسٹر کنڈیشنڈ۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عورت یا مرد جب پیدا ہوتے ہیں تو اپنے اپنے ماحول کے لحاظ سے دونوں کی کنڈیشننگ شروع ہو جاتی ہے۔ گھر کا ماحول اور گھر کے باہر کا ماحول دونوں کے اثر سے ہر ایک دھیرے دھیرے ایک متاثر ذہن(conditioned mind) بن جاتا ہے۔ ہر ایک کے اوپر اس کا یہ متاثر ذہن زیادہ چھا جاتا ہے کہ ہر ایک اپنے خول میں جینے لگتا ہے۔ ہر ایک اپنے کو درست سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے کو نادرست۔ اسی تاثر پذیری کو کنڈیشننگ کہا جاتا ہے۔ کینڈیشننگ کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ بلااستثناء پیش آتا ہے۔
ایسی حالت میں جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکٹھا ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ عورت اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک چیز کو ہرے رنگ میں دیکھ رہی ہوتی ہے، اور مرد کو وہی چیز اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے نیلے رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ اس فرق کی بنا پر دونوں میں بار بار اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو بڑھ کر شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
اس مسئلے کا واحد حل ڈی کنڈیشننگ ہے اور ڈی کنڈیشننگ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلے ذہن سے ڈسکشن کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ برابر انٹلکچول ایکسچینج کریں۔ اسی کے ساتھ دونوں کے اندر اعتراف کا مزاج لازمی طور پر ضروری ہے۔ یعنی حقیقت کھل جانے کے بعد فوراً اس کو مان لینا اور فوراً یہ کہہ دینا کہ ------ اس معاملے میں غلطی پر تھا
I was wrong
اپنی غلطی کو کھلے طور پر مان لینا، یہی اپنی ڈی کنڈیشننگ کا واحد کامیاب طریقہ ہے۔
شوہر اور بیوی کے درمیان بہتر تعلق کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ( 4:19 ) ۔ یعنی عورتوں کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے شوہر اور بیوی دونوں ہی کے لیے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن معاشرت یا بہتر ازدواجی زندگی کا انحصار اس پر نہیں ہے کہ شوہر کو بالکل اپنی پسند کی بیوی مل جائے، یا بیوی کو بالکل اپنی پسند کے مطابق شوہر مل جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ قانون فطرت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز پسند کے خلاف زوج(spouse) کے ساتھ موافقت(adjustment) کرناہے ناپسندیدگی میں پسند کا پہلو تلاش کر لینا ہے۔
عورت اور مرد عام طور پر ایک مشترک مسئلے سے دو چار رہتے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اس کو جو ساتھی ملا ہے، یا اس کو جو زندگی ملی ہے وہ اس کے مطلوب سے کم ہے۔ اپنی حاصل شدہ زندگی سے غیر مطمئن ہو کر ہر آدمی ایک اور مفروضہ زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ تصور انتہائی حد تک غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ کوئی عورت یا مرد جس مفروضہ زندگی کو اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہے وہ مفروضہ زندگی اگر بالفرض اس کو مل جائے تب بھی وہ بدستور غیر مطمئن ہی رہے گا۔
یاد رکھیے خوش گوار زندگی خود آپ کے ذہن میں ہے۔ آپ کے ذہن سے باہر کسی خوش گوار زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ سوچنے کا ہنر(art of thinking) سیکھیے اور پھر ہر زندگی آپ کے لیے آپ کی پسند کی زندگی بن جائے گی۔ خوش گوار زندگی کی تعمیر آدمی اپنے آپ کرتا ہے۔ کوئی دوسرا نہیں جو آپ کو خوش گوار زندگی کا تحفہ اپنی طرف سے پیش کرے۔
ایک شادی شدہ نوجوان نے سوال کیا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان خوشگوار تعلق کا فارمولا کیا ہے۔ میں نے کہاکہ اس کا سادہ فارمولا صرف ایک ہے--- مرد عورت کے جذباتی مزاج (emotional nature) کو برداشت کرے، اور عورت مردکے بے لچک مزاج (stubborn nature) کو برداشت کرے۔ اس کے بعد، ان شاءاللہ ،ساری عمر دونوں کے درمیان خوشگوار تعلق قائم رہے گا
A woman should learn to adjust with the stubborn nature of a man, and a man should learn to adjust with the emotional nature of a woman.
عورت اور مرد ،دو متضاد (opposite) صنف نہیں ہیں،بلکہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ (counterpart) ہیں۔ اس بنا پر دونوں کے اندر بعض اضافی خصوصیات رکھی گئی ہیں۔ عورت کے اندر اگر جذبات زیادہ ہیں تو وہ اس کی اضافی خصوصیت ہے، وہ کسی کمی کی بات نہیں ۔ اسی طرح مرد کے اندر اگربے لچک مزاج ہے تو وہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ وہ اس کی اضافی خصوصیت ہے۔ زندگی میں دونوں چیزیں یکساں طور پر ضروری ہیں۔ عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اس فرق کو تخلیقی نظام (creation plan) کا حصہ سمجھیں۔ اگر دونوں اس حقیقت کو جان لیں تو دونوں کے اندر ایک دوسرے کے اعتراف کا مزاج پیدا ہوگا، نہ کہ شکایت اور ٹکراؤ کا مزاج۔
اپنے جذباتی مزاج کی بنا پر، عورت کے اندر نرمی ہوتی ہے۔ اس کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ معاملے کو نرمی کے ساتھ سلجھائے۔ اسی طرح مرد کے بے لچک مزاج کا یہ فائدہ ہے کہ جہاں ضرورت ہو کہ معاملے کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ ڈیل (deal)کیا جائے ، وہاں مرد اپنا رول ادا کرے۔ اس طرح عورت اور مرد دونوںکو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہوئے، زندگی کا نظام کامیابی کے ساتھ چلائیں۔
معاملے کا عملی حل صرف ایک ہے، اور وہ ایڈجسٹمنٹ ہے۔مرد کو چاہیے کہ وہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اس معاملے میں یک طرفہ طور پر ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
جذباتی مزاج کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی بات کو عقلی طور پر سوچنے سے پہلے بھڑک اٹھنا۔ کوئی بات مزاج کے خلاف ہو تو ٹھنڈے طریقے سے سوچے بغیر رائے قائم کرلینا۔ کسی بات پر اتنا شدید ہوجانا کہ سمجھنے سمجھانے کا دروازہ بند ہوجائے۔کسی معاملے کو نتیجے کے اعتبار سے نہ دیکھنا، بلکہ صرف جذباتی پہلو سے سوچنا۔ اپنے کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھ لینا۔ اس قسم کی تمام باتیں جذباتیت (emotionalism) سے تعلق رکھتی ہیں۔
جو آدمی اس طرح کی جذباتیت کا شکار ہوجائے، اس کو صرف اپنے موافق بات سمجھ میں آتی ہے۔اس کے خلاف کوئی بات اس کو سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ جو بات اپنے مزاج کےخلاف نظر آئے، اس پر وہ سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ایسے آدمی کو نرمی سے سمجھایا جاسکتاہے۔ لیکن اس کو سختی سے سمجھانا، ممکن نہیں ہوتا۔
عورت کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح ابن حبان کے الفاظ یہ ہیںإِنَّمَا مَثَلُ الْمَرْأَةِ کَالضِّلَعِ، إِنْ أَرَدْتَ إِقَامَتَهَا کُسِرَتْ، وَإِنَّ تَسْتَمْتِعْ بِهَا تَسْتَمْتِعْ بِهَا وَفِیهَا عِوَجٌ، فَاسْتَمْتِعْ بِهَا عَلَى مَا کَانَ مِنْهَا مِنْ عِوَجٍ(صحیح ابن حبان، حدیث نمبر 4180)۔یعنی بے شک عورت کی مثال پسلی جیسی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو وہ ٹوٹ جائے گی، اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھاؤ گے، اور اس کے اندر ایک ٹیڑھ ہے۔ پس تم اس سےفائدہ اٹھاؤ، اس کے باوجود کے اس کے اندر ٹیڑھ ہے۔
اس روایت میں استمتاع کا لفظ آیا ہے۔ استمتاع کا لفظی مطلب ہے فائدہ اٹھانا۔ یہاں استمتاع سے مرادوہی ہے، جس کو دوسرے الفاظ میں بذریعہ ایڈجسٹمنٹ فائدہ اٹھانا کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر تم عورت کے ساتھ ری ایکشن (reaction) کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرتے ہوئے زندگی گزارو تو تم کامیاب رہو گے۔
اس حدیث میں عوج (ٹیڑھ) سے مراد یہ نہیں ہے کہ عورت کے اندر کوئی تخلیقی کجی ہے۔ یہ در اصل تمثیل کی زبان ہے۔اس حدیث میں ضلع (ٹیڑھ) کا لفظ تمثیل کے معنی میں آیا ہے۔ اس سے مرادوہ مخصوص مزاج ہے، جو عورتوں کے اندر پایا جاتا ہے --- عورت کا فطری طور پر جذباتی (emotional) ہونا۔ یعنی عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اسی جذباتی مزاج کو پسلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حدیث میں شادی شدہ زندگی کا ایک کامیاب اصول بتایا گیا ہے۔ خالق نے عورت کو مرد کے ساتھی (partner) کے طور پر پیدا کیا ہے۔ لیکن مصلحت کا تقاضا تھا کہ عورت کے اندر sentimental مزاج رکھا جائے، اس مزاج کی بنا پر عورت کے اندر برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے۔ وہ خلاف مزاج بات پر جلد جذباتی ہوجاتی ہے۔ مر د کو چاہیے کہ جب وہ دیکھے کہ عورت کسی معاملے میں جذباتی ہوگئی ہے۔ تو مرد اس کو عورت کی فطرت کے خانے میں ڈال دے، مرد ایسا نہ کرے کہ وہ اس کے جواب میں خود بھی جذباتی انداز اختیار کرے۔ اسی کو ایڈجسٹمنٹ کہا جاتا ہے۔ اور اس
ایک صاحب نے کہا کہ جب میںاپنے گھر جاتا ہوں، تو میری بیوی میرے خلاف کوئی نہ کوئی سخت لفظ بول دیتی ہیں۔ اِس پر مجھے غصہ آجاتا ہے اور میںبھی کچھ بول دیتاہوں، اور پھر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوجاتا ہے۔ اِس طرح کے جھگڑے میرے گھر میں اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل کیا ہے۔
میںنے کہا کہ اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے اور وہ یک طرفہ صبر ہے، یعنی آپ کی بیوی آپ کے خلاف بولیں، تب بھی آپ اُن کے خلاف نہ بولیں۔ آپ ہر حال میں یک طرفہ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کیوں۔ آخر میں ہی یک طرفہ طورپر کیوں چپ رہوں، اُنھیں بھی تو چپ رہنا چاہیے۔ یہ تو انصاف کی بات نہیں ہوئی۔
میںنے کہا کہ یہ انصاف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ عملی حل کا ایک معاملہ ہے۔ عورت پیدائشی طورپر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات سے زیادہ اثر لے لیتی ہے۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ہو جس کے اوپر وہ اپنے جذبات کو نکالے۔ یہ عورت کی ایک فطری ضرورت ہے۔ ایسی حالت میں عورت کا شوہر ہی وہ قریبی شخص ہوتا ہے جس کے اوپر وہ اپنے جذبات کو نکالے اور اپنے آپ کو دوبارہ معتدل بنائے۔
ایسے موقع پر مرد کو چاہیے کہ وہ اس کو انا (ego) کا مسئلہ نہ بنائے،بلکہ وہ تعاون (co-operation) کے جذبے سے کام لے۔ ایسی صورتِ حال میں مرد اگر اعراض کا طریقہ اختیار کرے تو گویا کہ اُس نے تعاون کا طریقہ اختیار کیا۔ مزید یہ کہ اس کا یہ تعاون صرف عورت کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ وہ فطرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت، عورت مجبور ہے کہ وہ اِس قسم کا جذباتی اظہار کرے۔ اِس لیے مرد جب ایسے موقع پر تعاون کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے لیے عبادت کا ایک معاملہ ہوتا ہے، یعنی اس نے فطرت کے قائم کردہ نظام کو رضا مندی کے ساتھ قبول کیا۔ یہ بلاشبہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر خدا کے یہاںاس کو انعام دیا جائے گا۔
ایک نوجوان شوہر اور بیوی میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو نصیحت کیجیے۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو صرف ایک نصیحت کروں گا۔ وہ یہ کہ آپ شکایت (complaint) کو اپنے لیے حرام سمجھیے۔ انھوں نے کہا کہ شکایت کو آپ اتنا زیادہ برا کیوں بتاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ شکایت کلچر (complaint culture) ایک شیطانی کلچر ہے۔
سب سے پہلا شخص جس نے شکایت کا طریقہ ایجاد کیا، وہ شیطان کا سردار ابلیس تھا۔ اس نے خالق سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میں انسان سے زیادہ افضل تھا، لیکن تو نے مجھ کو چھوڑ کر انسان کو خلیفہ بنا دیا۔ شیطان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دشمنی کا یہ کام وہ کس طرح کرتا ہے۔ اُس کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی انسان کے اندر شکایت پیدا ہوئی، تو وہ اس کے اندر شکایت کو اکٹیویٹ(activate) کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ شکایت کی نفسیات کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ انسان شکایت سے مغلوب ہوجاتا ہے، شکایت اس کی شخصیت کا سب سے بڑا حصہ بن جاتی ہے۔
اگر آپ پتھر کا ایک ٹکڑا اپنی جیب میں رکھ لیں تو وہ جیسا آج ہے، ویسا ہی سوسال تک رہے گا۔ لیکن شکایت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ شکایت ہمیشہ گرو (grow) کرتی ہے۔ وہ برابر بڑھتی رہتی ہے۔ شکایت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شکایت جب ایک بار آگئی تو وہ بڑھ کر نفرت بنے گی، وہ انتقام کی صورت اختیار کرلے گی۔ پھر بڑھتے بڑھتے وہ تشدد کا مزاج پیدا کرے گی۔ یہاں تک کہ آدمی جنگ کے لیے تیار ہوجائے گا۔ یہاں تک کہ اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف وہ خود کش بمباری (suicide bombing) کی آخری حد تک پہنچ جائے گا۔شکایت بظاہر صرف ایک برائی ہے، لیکن شکایت بڑھتے بڑھتے ہزار برائی بن جاتی ہے۔ شکایت انسان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے ایک قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔
18 نومبر 2015 کو انڈیا کے باہر کے ایک ملک سے ایک مسلم نوجوان کا فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ آج میری شادی ہونے والی ہے۔ آپ میرے لیے اور میری ہونے والی بیوی کے لیے دعا کریں۔ میںنے کہا کہ اس معاملے میں سب سے بہتر بات وہ ہے جو ایک حدیث رسول سے معلوم ہوتی ہے ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1846 ) ۔ یعنی نکاح میری سنت ہے۔
اس حدیث کے مطابق، نکاح ایک سنت ِرسول ہے۔ لیکن گہرے معنی کے اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح اللہ کی ایک سنت ہے۔ یعنی نکاح کا طریقہ خدا کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) کے مطابق ہے۔ اس لیے نکاح کو اس کے وسیع تر معنی میں لینا چاہیے۔ نکاح کرنے والے کو یہ سمجھنا کہ وہ وسیع تر معنی میں خدا کے نقشۂ تخلیق کا ایک حصہ بن رہاہے۔ موجودہ حالت یہ ہے کہ نکاح کے دونوں پارٹنر نکاح کو اپنے اپنے مائنڈ سٹ (mindset) کے مطابق لیتےہیں۔ اگر وہ حقیقت پسند ہوں تو وہ نکاح کو خدا کے مائنڈ سٹ کے مطابق لیں گے اور پھر ان کی شادی شدہ زندگی درست لائن پر چلنے لگے گی۔ اور پھر ان کی زندگی کے تمام معاملات فطرت کے نقشے پر قائم ہوجائیں گے۔ اور زندگی کو فطرت کے نقشے پر چلانا یہی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔
موجودہ زمانے میں عورت اور مرد کے معاملے میں سب سے بڑا نظریہ عورت اور مرد کے مساوات (gender equality)کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس معاملے کا کلیدی اصول صنفی مساوات نہیں ہے بلکہ صنفی رفاقت ہے۔ نکاح کے ذریعےایسا نہیں ہوتا کہ دو مساوی صنفیں یکجا ہوجائیں۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں رکھنے والی صنفیں یکجا ہوجاتی ہیں۔ یہ فطری تقسیم کا معاملہ ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ دو مختلف صلاحیتیں باہمی رفاقت سے زندگی کا نظام زیادہ بہتر طور پر چلا سکیں۔ یہ معاملہ گاڑی جیسا ہے۔ گاڑی ہمیشہ دو پہیوں پر چلتی ہے۔ اسی طرح فطرت کے قانون کے مطابق، زندگی کا نظام بھی دو افراد کی شرکت پر چلتا ہے۔
زوجین کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہےلَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ (صحیح مسلم ، حدیث نمبر1469)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ کرے، اگر اس کو اس کی ایک بات ناپسند ہو تو اس کے اندر دوسری بات ہوگی جو اس کی مرضی کے مطابق ہو۔ یہ شوہر اور بیوی کے تعلقات کے بارے میں ایک دانش مندانہ نصیحت ہے۔
تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں میں مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مرد یا عورت یہ محسوس کرے کہ اس کا ساتھی اس کی پسند کے مطابق نہیں تو اس کی یہ رائے غلط مطالعے کی بنا پر ہوگی۔ کیوں کہ عورت اور مرد دونوں میں مختلف قسم کی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ فورا فیصلہ نہ کرے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو دونوں دریافت کریں گے کہ اپنے ساتھی کے اندر اگر ایک بات ایسی تھی جو اس کی پسند کے مطابق نہ تھی، تو ٹھیک اسی وقت اس کے ساتھی کے اندر ایک اور صفت موجود تھی، جو اس کی پسند کے عین مطابق تھی۔
عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہیں۔ اگر دونوں کاگ فوری طور پر ایک دوسرے میں فٹ نہ ہورہے ہوں تو دونوں کو چاہیے کہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو جلد ہی وہ دریافت کریں گے کہ دونوں کی طرف سے یہ بے خبری کی بات تھی۔ باخبر ہوتے ہی دونوں کو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ ان کی اپنی غلطی تھی۔ ورنہ فطرت کے نظام کے مطابق دونوں ایک دوسرے کے لیے درست کاگ وھیل کی مانند بنائے گئے تھے۔ خالق نے کسی کو بے کار نہیں بنایا۔ ہر عورت اور مرد اس لیے پیدا کیے گئے ہیں کہ وہ دونوں مل کر زندگی میں ایک مفید رول ادا کریں۔ فطرت کے اس نقشے کو جاننے کی کوشش کیجیے اور پھر آپ کو کوئی شکایت نہ ہوگی۔
ازدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیثِ رسول میں آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ" أَوْ قَالَ"غَيْرَهُ"(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1469)۔ یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر عورت کی ایک خصلت اس کو ناپسند ہو تو اس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسند آئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندر ایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طور پردیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے۔ اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کی کمی پائی جائیں گی۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اس کے مثبت پہلو اکثر اس کی نگاہ سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کن مزاج ہے۔ اسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیا جائے اور منفی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہو جائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اس کی بیوی بہترین رفیقِ حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اس کا شوہر بہترین رفیقِ زندگی نظر آئے گا۔
خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنے آپ میں باعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طور پر زندگی تعمیر کے قابل ہو جائیں۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہےخَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا ( 30:21 )۔ یعنی خدا نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اس آیت میں سکون سے مراد صرف معروف ازدواجی سکون نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد زیادہ برتر سکون ہے۔ اس کا مطلب ہے— زندگی کا رول ادا کرنے کے لیے ایک پرسکون پارٹنر حاصل کرنا
To find a peaceful partner for playing a greater role in life.
اس دنیا میں کوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش کے ذریعہ ممکن ہے۔ اکیلا ایک آدمی کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ اس اجتماع کی پہلی اور فطری صورت نکاح کے ذریعہ ایک عورت اور ایک مرد کا باہم اکٹھا ہونا ہے۔ دو روحوں کا یہ اجتماع سب سے زیادہ کامیاب اجتماع ہے۔ یہ واحد اجتماع ہے جس میں طرفین قلبی سکون اور کامل اعتماد کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ بنتے ہیں۔
نکاح کے ذریعہ ایک عورت اور ایک مرد کی یک جائی اس دنیا میں بننے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ طرفین کو اگر اس کا احساس ہو تو وہ اس کو ایک عظیم نعمت سمجھیں اور دونوں مل کر اتنا بڑا کام کریں جو انسانوں کی کوئی دوسری کمپنی نہیں کر سکتی۔
اس معاملے کی ایک مثال فرانس کے ایک جوڑے کی ہے۔ ان کا نام پیرے کیوری (وفات1906) اور میری کیوری(وفات1934) تھا۔ ان دونوں نے مل کر بہت اہم کام کیا۔ ماڈرن سائنس میں ان کا کام اتنا بڑا تھا کہ ان کو 1903 اور 1911 میں نوبل پرائز دیے گئے۔ یہی امکان ہر عورت اور ہر مرد کے لیے موجود ہے۔ اپنے اپنے میدان کے اعتبار سے ہر جوڑا یہی کام انجام دے سکتا ہے۔
فطرت نے ہر عورت اور ہر مرد کو اعلیٰ صلاحیت دی ہے۔ جو لوگ بھی جدوجہد کی مطلوب شرط کو پورا کریں، وہ اپنے اپنے دائرے میں اس قسم کی اعلیٰ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے عورت کا برتر رول، شعوری طور پر، نہ مشرقی دنیا دریافت کر سکی اور نہ مغربی دنیا۔
انٹلکچو ل ایکسچینج ( intellectual exchange) ہے۔ جس طرح دوپتھروں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز نکلتی ہے جس کو چنگاری کہا جاتا ہے ، اسی طرح جب دو انسانی ذہن کھلے طور پر انٹلکچول ایکسچینج کرتے ہیں تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ا س کے دوران زیر بحث موضوع کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں اور اس طرح ذہنی ارتقا کا سفر مسلسل جاری رہتا ہے۔
انٹلکچول ایکسچینج کایہ عمل مرد کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور عورت کے ساتھ بھی ۔ عورت چوں کہ مرد کے لیے بحیثیت بیوی ہر وقت کی ساتھی ہوتی ہے اس لیے دیگر افادی پہلوئوں کے علاوہ انٹلکچول ایکسچینج کے معاملے میں وہ بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ کیوں کہ بیوی ایک ایسی انٹلکچول پارٹنر ہے جو مرد کے لیے ہر وقت قابل حصول رہتی ہے۔
صنفی تعلق اگر مطلقاً مطلوب ہوتا تو حضرت مسیح کو بھی ضرور اس کے مواقع دیے جاتے ۔ اسی طرح بقاء نسل اگر مطلقاً مطلوب ہوتو حضرت محمد کے یہاں بھی اسے پایا جانا چاہیے۔ حالاں کہ دونوں مثالوں میں یہ چیز مفقود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے جو چیز مطلقاً مطلوب ہے، وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنا تزکیہ کرکے اپنے آپ کو جنتی انسان بنائے۔ اس عمل تزکیہ میں دوسری چیزوں کے ساتھ انٹلکچول ایکسچینج لازمی طور پر ضروری ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کوقرآن میں عمل زراعت سے تعبیر کیا گیا ہے(البقرۃ، 2:223 )۔
انٹلکچول ایکسچینج کا ذریعہ مرد بھی ہو سکتے ہیں اور عورت بھی ، مگر تعمیر شخصیت کے لیے یہ انتہائی ضروری عمل ایک قربانی چاہتا ہے ا ور وہ قربانی یک طرفہ صبر ہے۔ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ انٹلکچول ایکسچینج کے عمل میں مشغول ہوتا ہے تو لازما ایساہوتا ہے کہ بار بار اختلافی پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ اختلافی پہلو نارمل تبادلہ خیال میں رخنہ ڈالنے کاباعث بن جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کی رائے دوسرے کی رائے سے ٹکرانے لگتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مرد کے ساتھ ایگو کلیشن(ego clash) اور عورت کے ساتھ ایمو شنل کلیش(emotional clash) کی نوبت آجاتی ہے۔ ایسے موقع پر اگر ٹکرائو کو باقی رکھا جائے تو گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔
ایسی حالت میں گفتگو کو معتدل انداز میں باقی رکھنے کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ یہ کہ گفتگو کاایک فریق یک طرفہ طور پر صابرانہ روش اختیار کرکے ڈیڈلاک کوختم کر دے اور بدستور معتدل انداز میں تبادلہ خیال کوجاری رکھے۔
خاموشی کی صفت کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ کسی عورت اور مرد کے لیے ایک دریافت کا ذریعہ ہے۔ جب آپ نہ بولیں،تو فطری طور پر آپ اپنا انٹلکچول پارٹنر تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت آپ دریافت کرتے ہیں کہ آپ کے قریب آپ کا ایک انٹلکچول پارٹنر ہر وقت موجود ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا ساتھی (آپ کی رفیقۂ حیات) ہے۔ اس طرح خاموشی آپ کو ایک نئی دریافت تک پہنچا دیتی ہے۔ حالات کے تقاضے کے تحت مرد اپنی رفیقۂ حیات کو، اور عورت اپنے رفیقِ حیات کو از سرِ نو دریافت (rediscover) کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں اپنا ایک نیا ساتھی دریافت کرتے ہیں، جو اگر چہ ان کے پاس موجود تھا، لیکن وہ اس کو دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ یہ دریافت بلاشبہ تمام دریافتوں سے بڑی دریافت ہے۔
تبادلۂ خیال (discussion) ایک نہایت قیمتی چیز ہے۔ اس سے آدمی اپنے علم اور تجربے میں اضافہ کرتا ہے۔ اس سے آدمی اپنی شخصیت کو زیادہ بامعنی بناتا ہے۔ اس ڈسکشن کے لیے آپ کے پاس ہر وقت ایک معاون موجود ہے۔ خاموشی کے لمحات آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ قیمتی ساتھی آپ کے پاس ہر وقت موجود ہے ۔ آپ اس موقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کیجیے۔
ہر عورت اور مرد کے پاس اس کے رفیقِ حیات کی صورت میں زندگی کا ایک سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اسی سرمائے سے تمام لوگ بے خبر رہتے ہیں۔ نکاح کا نظام ایک فطری نظام ہے۔ جو ہر آدمی کو ایک فطری نظام کے تحت یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ساتھی پالے۔ ایک ایسا ساتھی جو اس کا سب سے زیادہ قریبی ساتھی ہو، اور زندگی کے آخری لمحہ تک اس کا ساتھی بنا رہے۔ انسان کو فطری نظام کے تحت ایک ایسا ساتھی درکار ہے، جو اس کے لیے سب سے بڑا راز دارِ حیات ہو، جو اس کے لیے خوشی او ر غم میں شریک ہو، جو ہر صور تِ حال میں اس کا قریبی مدد گار ہو۔ نکاح کا نظام ہر عورت اور مرد کو یہی ساتھی عطا کرتا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ذہنی ارتقاء (intellectual development) ہے۔ اس ذہنی ارتقاء کے عمل میں سب سے زیادہ کارآمد چیز
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا(ore) کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فطرت کی طرف سے پیدا شدہ انسان ہے۔ اس کے بعد سارا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ فطرت، خام لوہا پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد اس کو اسٹیل کی صورت میں کنورٹ کرنا یا اس کو مشین بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔
خود سازی کے اس فطری عمل میں سب سے زیادہ اہمیت ذہنی ترقی (intellectual develoment) کی ہوتی ہے۔ اپنی شخصیت بنانے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنائے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے ذہن کی تکمیل کرے۔
اس عمل میں بنیادی طور پر تین چیزوں کی ضرورت ہے---- مطالعہ، مشاہدہ، اور دوسرے انسانوں سے فکری تبادلہ(intellectual exchange)۔ مطالعے کا سب سے بڑا ذریعہ کتابیں ہیں۔ اسی طرح مشاہدے کا سب سے بڑا ذریعہ عالم فطرت ہے۔ افکار و خیال کے تبادلے کے سلسلے میں ضروری ہے کہ آدمی کے اندر دوسروں سے سیکھنے کا مزاج ہو۔ وہ ہر ایک کے ساتھ سیکھنے کے عمل (learning process) کو مسلسل جاری رکھے۔
سیکھنے کے عمل کے سلسلے میں ہر مرد کے لیے اس کی بیوی اور ہر بیوی کے لیے اس کا شوہر قریبی انٹلکچول پارٹنر(intellectual partner) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ازدواجی زندگی اس اعتبار سے ایک عظیم موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔شادی کی صورت میں ہر عورت اور مرد اپنے لیے ایک انٹلکچول پارٹنر کو پا لیتے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنے ذہنی ارتقا کے عمل کو بلا انقطا ع جاری رکھیں۔
ذہنی ارتقا(intellectual development) ہر عورت اور مرد کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں دونوں ایسے انٹلکچول پارٹنر کو پا لیتے ہیں جو ہر وقت قابل حصول ہو۔ ذہنی ترقی کے اس عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ دونوں ذہنی ترقی کی اہمیت کو سمجھیں اور وہ اس کو اولین ترجیح کی حیثیت دے کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کر لیں۔
طرح وہ انسانی دنیا کے لیے ہے۔ عورت اور مرد کو نکاح کی صورت میں یکجا کرنےسے یہی مقصود ہے۔ خالق کی منشا یہ ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد دونوں مسلسل طور پر ساتھ رہیں۔ دونوں زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال (exchange) کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہ عمل کرتے رہیں جس کو میوچول لرننگ (mutual learning) کہا جاتا ہے۔ اس طرح نکاح کی زندگی دونوں کےلیے ایک سنہری موقع ہے کہ دونوں اپنے لیے ایک انٹلکچول پارٹنر پالیں۔ اور دونوں باہمی تعاون سے اپنے آپ کو فکری اعتبار سے زیادہ ارتقا یافتہ انسان بنائیں۔
یہ بلاشبہ زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔ لیکن اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا دونوں کے لیے اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں اس امکان سے باخبر ہوں، اور دونوں اپنے آپ کو اس باہمی استفادے کے لیے تیار رکھیں۔ اس معاملہ کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ دونوں کے درمیان کھلا تبادلہ خیال (open exchange)ہو، اور تبادلۂ خیال کے لیےہمیشہ اعلی موضوعات کو اختیار کیا جائے۔ قرآن میں زوجین کے باہمی تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ ( 3:195 )۔یعنی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو
Man or woman, you are members one of another.
عورت اور مرد دونوں بلاشبہ ایک دوسرے کےلیے بہترین پارٹنر ہیں۔ لیکن یہ بات امکان کے اعتبار سے ہے۔ دونوں کے لیے پھر بھی یہ کام باقی رہتا ہے کہ وہ حسن تدبیر سے اس امکان کو واقعہ بنائیں۔ وہ عملاً اپنے آپ کو اس پارٹنر شپ کا اہل ثابت کریں۔
انسان کے خالق نے انسان کو زوجین (pair) کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا نصف ثانی (counterpart) ہیں۔ دونوں شادی شدہ زندگی کی صورت میں مل کر تخلیقی منصوبہ کو پورا کریں۔ خالق کا منصوبہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا کاگ (cog) بن کر زندگی کاسفر کامیابی کے ساتھ طے کریں۔ دونوں ایک دوسرے کا تکمیلی حصہ (complement) بنیں۔
اس حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےوَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ( 30:21 )۔ یعنی اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بیشک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے سکون (peace of mind) کا ذریعہ ہیں۔ خالق نے دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے محبت رکھی ہے، تاکہ یہ مشترک سفر حسن رفاقت کے ساتھ انجام پائے۔ عورت اور مرد کو یہ سکون ابتدائی طور پر ایک دوسرے کا رفیق حیات (life partner) بننے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن زیادہ اعلی صورت میں یہ سکون دونوں کو ذہنی سطح پر حاصل ہوتا ہے۔ یہ سکون دونوں کو اس وقت ملتا ہے جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر (intellectual partner) بن جائیں۔دونوں مسلسل طور پر ایک دوسرے سے فکری تبادلۂ خیال کرتے رہیں۔ اگر آپ پتھر کے دو ٹکروں کو ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو اس کے بعد وہاں ایک چنگاری نکلے گی۔ یہ اسپارکنگ (sparking)فطرت کے ایک قانون کو بتاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں تو دونوں کے ٹکرانے سے ایک تیسری چیز ایمرج (emerge) کرتی ہے۔یہ اصول جس طرح مادی دنیا کے لیےہے،اسی
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے بعد ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو یہ اجتماع ساری کائنات کا سب سے زیادہ انوکھا واقعہ ہوتا ہے۔ وسیع کائنات میں اَن گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی اکثر چیزیں جوڑے(pair) کی صورت میں ہیں، مگر کسی بھی دو چیز کے درمیان وہ کامل مطابقت (complete compatibility) نہیں جو عورت اور مرد کے درمیان پائی جاتی ہے۔ جب ایک عورت اور ایک مرد جیون ساتھی بن کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں شعوری منصوبے کے تحت ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
زوجین کے درمیان یہ شعور اگر زندہ ہو تو دونوں ایک دوسرے کو پا کر شکر کے جذبات میں سرشار ہو جائیں۔ دونوں اہتزاز(thrill) کے درجے میں ایک دوسرے کو اپنے لیے نعمت سمجھیں۔ یہ اہتزاز اتنا زیادہ طاقت ور ہو جو کبھی ان سے جدا نہ ہو۔ دونوں ایک ساتھ اس طرح رہیں جیسے کہ دونوں کو ان کی سب سے زیادہ محبوب چیز مل گئی ہو۔ دونوں آخری حد تک مثبت احساس میں جینے لگیں۔
دنیا میں اگر صرف عورتیں ہو اور کوئی مرد وہاں موجود نہ ہو۔ اسی طرح اگر ایسا ہو کہ صرف مرد ہوں اور کوئی عورت موجود نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا میں بظاہر زندگی ہوگی، مگر وہ خوشیوں سے خالی ہوگی۔ ایسی دنیا میں ہر طرف ایک ایسی کمی کا احساس چھایا رہے گا جو کبھی اور کسی حال میں ختم نہ ہوگا۔ صرف مردوں کی دنیا بھی ایک بے معنی دنیا ہے، اور صرف عورتوں کی دنیا بھی ایک بے معنی دنیا۔ موجودہ دنیا اسی لیے ایک با معنی دنیا ہے کہ یہاں عورت اور مرد دونوں موجود ہیں۔
عورت اور مرد اگر اس حقیقت پر غور کریں تو انہیں اس سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہوگی جو کسی سائنس داں کو ایک نئی چیز کی دریافت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کی بات ان کو آخری حد تک بے معنی دکھائی دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تخلیق کا شاہ کار ہیں۔ نکاح کا مطلب دو تخلیقی شاہ کاروں کی یک جائی ہے۔ اس سے بڑا واقعہ پوری معلوم کائنات میں کوئی دوسرا نہیں۔
قرآن کی سورہ البقرۃ میں عورت اور مرد کے تعلق کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جائو، اور اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تمہیں ضرور اس سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوش خبری دے دو
And do good beforehand for your selves ( 2:223 )
اس آیت میں اپنے لیے آگے بھیجو(وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ) کا لفظ بنیادی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مرکزی لفظ سے پوری آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آیت کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ تمہارا اصل نشانہ یہ ہونا چاہیے کہ تم وہ کام کرو جو مستقبل میں تمہارے لیے مفید بننے والا ہو (قَدِّمُوا مَا يَنْفَعُكُمْ غَدًا)۔ یعنی آدمی موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے آپ کو اس طرح تیار کرے کہ وہ آگے آنے والی آخرت کی دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کر سکے۔ یہ کسی انسان کا اصل مقصد حیات ہے۔ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اسی مقصد حیات کی نسبت سے عورت کے معاملے کو سمجھو۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک معاون حیات کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، جس طرح کھیت کسی کسان کے لیے اس کے مقصد کی نسبت سے معاون حیات کا درجہ رکھتا ہے۔
جس زمانے میں یہ قرآنی آیت اتری، اس زمانے میں مدینہ(اور بقیہ دنیا) میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورت کا درجہ انسانی زندگی میں کیا ہے۔ اس معاملے میں لوگ اپنے سابق ذہنی نقشے کی بنا پر صرف دو باتیں جانتے تھے— صنفی تسکین اور بقاء نسل۔ قرآن میں بتایا گیا کہ اس قسم کے پہلوئوں سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ عورت تمہارے لیے اپنی زندگی کی تعمیر میں ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے تم کو چاہیے کہ تم اپنی اس فطری معاون کا بھرپور استعمال کرو اور اس کو اپنی تکمیل حیات کا ذریعہ بنائو۔ عورت کا اس سے کم کوئی تصور عورت کا کم تر تصور ہے۔ نکاح کی صورت میں عورت اور مرد کی یک جائی اس لیے ہوتی ہے، تاکہ دونوں وسیع تر انسانیت کی تعمیر میں اپنا مشترک رول ادا کریں۔
ہے، لیکن جلد ہی بعد دلچسپی کا یہ دور ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کا سبب عورت کی کوئی کمی نہیں ہے، بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ مرد نے عورت کو اِس حیثیت سے تیار نہیں کیا کہ وہ اُس کے لیے طویل تر زندگی میں اس کی فکری رفیق بن سکے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’حَرْث‘ (field) کا لفظ استعمالِ اول کے لحاظ سے عورت کی فطری حیثیت کوبتاتاہے۔اِس کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ— ’تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو، جاؤ‘۔ اس کا مطلب اصلاً بیوی اور خاوند کے تعلق کی نوعیت کو بتانا نہیں، بلکہ اِس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ معاملہ تمھارے فطری ذوق سے تعلق رکھتا ہے، اس معاملے میں خود تمھارا فطری ذوق رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ زیربحث معاملے میں، اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ— تم اپنے لیے آگے بھیجو۔ یعنی تم عورت کو اس کے استعمالِ ثانی (فکری رفاقت) کے لحاظ سے تیارکرو۔ اِس تعلق کو تم اپنے مستقبل کی تعمیر کا ذریعہ بناؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ مرد اگر صحیح معنوں میں اپنی بیوی کو فکری رفیق کی حیثیت سے تیار کرے تو بیوی کی صورت میں وہ اپنے لیے ایک ایسا دانش مند ساتھی پالے گا جو ہر لمحہ اُس کے پاس تبادلہ خیال کے لیے موجود ہو۔ اِس قسم کا ایک ساتھی بلاشبہ کسی شخص کے لیے نہایت قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔بیوی کے بارےمیں عام تصور یہ ہے کہ وہ اپنے خاوندکی ہوم پارٹنر (home partner) ہے، مگر یہ عورت کا ایک کم تر تصور ہے۔ عورت اُسی طرح اللہ کی ایک تخلیق ہے جس طرح مرد اللہ کی تخلیق ہے۔ تخلیق ِ خداوندی کے شایانِ شان تصور یہ ہے کہ عورت کو مرد کا لائف پارٹنر (life partner) سمجھا جائے۔ گھر کے محدود تصورسے بلند ہو کر زندگی کے وسیع تر تصور کے مطابق، عورت کو اپنا شریکِ حیات بنایا جائے۔ عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس وسیع تر تصور کے مطابق تیار کریں۔
خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، انسان کی زندگی دنیا سے لے کر آخرت تک پھیلی ہوئی ہے۔ قبل از موت مرحلہ ٔحیات میں انسان کو اِس طرح رہناہےکہ وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں ایک ایسی مطلوب زندگی گزارے جو موت کے بعد آنے والے ابدی مرحلۂ حیات (eternal life span)میں اس کو فلاح سے ہم کنار کرنے والی ثابت ہو۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں ازدواجی زندگی کے بارے میں ایک تعلیم اِن الفاظ میں آئی ہے نِسَاۗؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ ۡ وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ۭ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ۭوَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ( 2:223 ) یعنی تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو، جاؤ۔ اور تم اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو اور جان لوکہ تمھیں ضرور اللہ سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دو
Your wives are your fields. Go, then, into your fields as you will. Do good deeds, and fear God, and know that you shall meet Him. Give good tidings to the believers.
عورتیں تمھارے لیے بمنزلہ کھیت ہیں — یہ نہایت بامعنی تمثیل ہے۔ کھیت مستقبل کی فصل کے لیے ہوتا ہے۔ جب ایک انسان اپنے لیے ایک عورت کا انتخاب کرتا ہے تو وہ گویا اپنے لیے ایک کھیت کا انتخاب کرتاہے، یعنی ایک ایسا کھیت جہاں وہ اپنے مستقبل کے لیے ایسی فصل اگائے جو اُس کے لیے باعتبارِ دنیا بھی مفید ہو اور باعتبار آخرت بھی مفید۔
ایک شخص جب نکاح کرکے اپنے گھر میں ایک خاتون کو لاتا ہے تو وہ اپنے لیے زندگی کے ایک رفیق کا انتخاب کرتاہے۔ یہ خاتون ابتدائی طورپر مرد کے لیے گھر کی رفیق (home partner) ہوتی ہے، لیکن طویل تر زندگی کے اعتبار سے، وہ اُس کےلیے ایک فکری رفیق (intellectual partner) کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلے مقصد کے اعتبار سے، عورت پیدائشی طورپر تیار شدہ ہوتی ہے، لیکن جہاں تک فکری رفیق کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے کا معاملہ ہے، عورت پیدائشی طورپر اس کے لیے تیار شدہ نہیں ہوتی۔ یہ مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ نکاح کے بعد عورت کو اِس مقصد کے لیے تیار کرے، تاکہ عورت اور مرد دونوں اُس مطلوب مقام کو پاسکیں جو خالق نے اپنے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، اُن کے لیے مقدر کیا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
یہ ایک عام تجربہ ہےکہ نکاح کے بعد ابتدائی طورپر مرد کے لیے عورت دلچسپی کا موضوع ہوتی
ایک روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم،سنن ابوداود، سنن الترمذی، اور مسند احمد وغیرہ کتب حدیث میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 304 ) ۔یعنی میں نے نہیں دیکھا کہ عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود ایک عورت عقل والے مرد کی عقل پر غالب آجائے۔عورت کے بارے میں ناقص کا لفظ قرآن میں کہیں نہیں آیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کا لفظی معنی نہیں لیا جائے گا بلکہ اس کی تاویل کی جائے گی۔ اصل یہ ہے کہ اس حدیث میں ناقص ، کم ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ فرق (different) کے معنی میں ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، عورت اور مرد دونوں کے درمیان تخلیقی فرق رکھا گیا ہے۔ مگر یہ فرق رتبہ کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ رول کے اعتبار سے ہے۔ کیوں کہ سماج میں عورت اور مرد کا رول تخلیقی نقشے کے مطابق ایک درجے میں الگ الگ ہے۔ اس لیے دونوں کے درمیان ان کے رول کے مطابق فرق رکھا گیا ہے۔
اسلام کی تعلیم کےمطابق، عورت اور مرد کے درمیان رتبہ (status) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں، دونوں یکساں طور پر آدم کی اولاد ہیں۔ لیکن سماج میں ہمیشہ مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سماج کا ہر کام نہ ہر مرد کرسکتا ہے، اور نہ ہر عورت۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت یا ہر مرد کو اس کی صلاحیت یا استعداد کے اعتبار سے کام دیا جائے۔ اس طرح ہر کام معیاری درجے میں انجام پائے گا۔ اس کے برعکس، اگر ہر عورت اور ہر مرد کو ایک ہی کام میں لگا دیا جائے تو کوئی بھی کام اعلیٰ صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس بنا پر اسلام میں عورت اور مرد کے درمیان تقسیم کار کے اصول کو اختیار کیا گیا ہے، نہ کہ یکسانیت کار کے اصول کو۔تاریخ کے ہر دور میں عملاً عورت اور مرد کے درمیان یہ اصول اختیار کیا گیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ(صحیح مسلم،حدیث نمبر 1467، سنن النسائی، حدیث نمبر 3232) یعنی دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان(potential) کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاع حیات ہے۔ لیکن اس امکان کو واقعہ(actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا(ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنانا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔
مرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسنِ باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اس واقعے کو امکان بنائے، یاا وہ اس کو ضائع کر دے۔
اس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طور پر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہو جائے گا اور یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہو سکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتا ہے، اسی طرح یہاں بھی درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہو جائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہر ممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوں میں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاع حیات بن جائے۔
ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔ لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفت کا ہونا ضروری ہے— سچی ہمدردی اور صبر و تحمل۔
قرآن کی سورہ الا حزاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی نسبت سے یہ آیت آئی ہےإِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ( 33:33 )۔ یعنی اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دور کرے اورتم کو پوری طرح پاک کر دے۔ اس آیت میں بظاہر اہل بیت رسول سے خطاب کیا گیا ہے۔ اہل بیت رسول تمام اہل ایمان کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے اس آیت کا تعلق تمام اہل ایمان سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں بالواسطہ طور پر مسلم معاشرے کے ہر گھر سے خطاب کیا گیا ہے۔ ہر مسلم خاندان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسی تعمیری کورس کو اختیار کرے جس کا حکم اہل بیت رسول کے لیے دیا گیا تھا۔
ہر گھر سماج کا ایک یونٹ ہوتا ہے۔ بہت سے گھروں سے مل کر ایک سماج بنتا ہے۔ اگر سماج کا ہر یونٹ درست ہو جائے تو پورا سماج درست ہو جائے گا، اور اگر سماج کے یونٹ بگڑے رہیں تو سماج بھی ایک بگڑا ہوا سماج بن جائے گا۔ اس اعتبار سے ہر مسلم خاندان کی وہی حیثیت ہے جو قرآن کے الفاظ میں’’اہل بیت‘‘ کی تھی۔ ہر مسلم خاندان کو اپنے افراد کی تطہیر اور تزکیہ کا کام کرنا ہے۔ وہ اپنے افراد کے اندر سے برائی کو نکالے اور ان کے اندر بھلائی کو فروغ دے۔ ہر گھر کے مردوں اور عورتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کو صالح خاندان بنائیں، تاکہ ان کے مجموعے سے صالح معاشرہ وجود میں آ سکے۔
اس معاملے میں عورت اور مرد دونوں کی ذمہ داری یکساں ہے۔ تعمیر کے اس کام میں مرد کی حیثیت اگر ناظم کی ہے تو عورت کی حیثیت معاون کی۔ دونوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے اپنے دائرے میں خاندان کی صحت مند تعمیر کا کام انجام دیں۔ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمہ داری ہے۔ عورت اور مرد اگر اس ذمہ داری کو درست طور پر انجام دیں تو ان کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا انعام ہے۔ اور اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہ ثابت ہوں تو وہ خدا کے یہاں پکڑے جائیں گے، اور خدا کی پکڑ بلاشبہ نہایت سخت ہے۔
قرآن کی سورہ النساء میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ایک آدمی چار خواتین سے نکاح کر سکتا ہے( 4:3 )۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چار نکاح کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک استثنائی حکم ہے، نہ کہ عمومی حکم۔ عام حکم تو یہی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک نکاح کرے، لیکن جب کوئی حقیقی ضرورت پیش آ جائے، اس وقت ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح کر سکتا ہے، یعنی دو یا تین یا چار۔
یہ ضرورت اصلاً صرف ایک وجہ سے پیش آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی حادثے کی بنا پر معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ (surplus) ہو جائے اور مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہو جائے۔ ایسی حالت میں ایک نکاح کے اصول کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میں بہت سی عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں۔
کسی سماج میں عورتیں جب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہو جائیں تو یہ ایک نازک موقع ہوتا ہے۔ اس وقت انتخاب(choice) ایک نکاح اور کئی نکاح کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ انتخاب ایک نکاح اور صنفی انارکی کے درمیان ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں معاشرے کو صنفی انارکی سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں ہوتی کہ تعداد ازواج کے اصول کو اختیار کر لیا جائے اور ایک مرد کو کئی نکاح کی اجازت دے دی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نکاح کا فطری طریقہ یہی ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد۔ عورت کے اندر فطری طور پر سوکن کے خلاف منفی جذبات ہوتے ہیں۔ یہی واقعہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یک زوجیت(monogomy) کا طریقہ ہی فطری طریقہ ہے۔ اور تعدد زوجیت (polygamy) کا طریقہ ایک استثنائی اجازت ہے، جو قانون ضرورت(law of necessity) کے تحت رکھا گیا ہے۔ اس قسم کا استثنائی قانون زندگی کے ہر معاملے میں ہوتا ہے، مگر استثنائی قانون صرف ایک استثنائی قانون ہے اس کو عمومی قانون کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب تعدد ازواج)۔
اور لازمی طور پر نکاح کرنا۔ کوئی گروہ اگر اجتماعی طور پر نکاح کا طریقہ چھوڑ دے تو یہ یقینا درست نہ ہوگا۔ کیوں کہ ایسی صورت میں بقاء نسل خطرہ میں پڑ جائے گی۔ لیکن اگر انفرادی طور پر کوئی شخص اپنے حالات کے اعتبار سے نکاح نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو ایسا کرنا اس کے لیے عین جائز ہوگا، بشرطیکہ وہ اپنی عفت کو محفوظ رکھے۔
تاریخ میں بہت سی ایسی دینی شخصیتیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے نکاح نہیں کیا اور پوری زندگی غیر ازدواجی حالت میں گزار دی۔ پیغمبروں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کی ایک مثال ہیں۔ امت محمدی میں بھی کئی ایسے ممتاز بزرگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے ساری عمر نکاح نہیں کیا۔ مثال کے طور پر امام نووی(وفات 676 ) اور امام ابن تیمیہ(وفات 728 )۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں سیدجمال الدین افغانی وغیرہ۔ اگر نکاح مطلق طور پر مطلوب ہوتا اور نکاح سے اعراض دین سے اعراض کے ہم معنی ہوتا تو ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ مذکورہ قسم کی شخصیتیں نکاح کے بغیر زندگی گزاریں اور اسی حال میں دنیا سے چلی جائیں۔
فقہ کی زبان میں، نکاح حسن لذاتہ نہیں ہے، بلکہ حسن لغیرہ ہے۔ یعنی وہ بذات خود مطلوب نہیں ہے بلکہ ایک اور ضرورت کے تحت مطلوب ہے اور وہ بقائے نسل اور پاکدامنی ہے۔ چونکہ مرد اور عورت کے درمیان ازدواجی تعلق کے بغیر نسل انسانی کا باقی رہنا ممکن نہیں اس لیے نکاح کی حیثیت ایک اجتماعی فریضہ کی ہے۔ لیکن وہ ہر فرد پر لازم نہیں۔ کوئی فرد اگر اپنے ذاتی مصالح کی بنا پر غیر ازدواجی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے تو ایسا کرنا اس کے لیے عین جائز ہوگا۔ ایسی حالت میں شریعت اس سے پاکدامنی کا تقاضا کرے گی نہ کہ جبری ازدواج کا۔
نکاح کی دینی اہمیت اصلاً اس اعتبار سے ہے کہ وہ بقاء نسل کے مقصد کو حاصل کرنے کا جائز طریقہ ہے۔ مرد اور عورت اگر نکاح کے بغیر باہم ملیں تو اس کے ذریعہ سے بھی نسل انسانی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ مگر یہ طریقہ اسلام میں قطعی طور پر حرام ہے۔ اسلام میں بقاء نسل مطلوب ہے مگر یہ بقاء نسل نکاح کی صورت میں ہونا چاہیے، نہ کہ اس کے بغیر۔
بعض افراد ایسا ہو سکتے ہیں جو یہ محسوس کریں کہ اگر وہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے اپنے کو آزاد رکھیں تو وہ عفیف بھی رہیں گے اور اسی کے ساتھ اعلیٰ انسانی مقاصد کے لیے زیادہ خدمات انجام دے سکیں گے۔ ان افراد کے لیے ایسا کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مخصوص حالات میں باعث ثواب بھی ہے۔
عام طور پر مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(نکاح میری سنت سے ہے، پس جو شخص میری سنت سے انحراف کرے تو وہ مجھ سے نہیں) یہ پورا جملہ اس صورت میں حدیث نہیں ہے۔ ابن ماجہ کی روایت کے مطابق، حدیث کے اصل الفاظ صرف یہ ہیں النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 1846)۔
البتہ ایک اور روایت میں بقیہ الفاظ آئے ہیں۔ ایک تفصیلی روایت میں آیا ہے کہ تین صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے بارے میں حضرت عائشہؓ سے پوچھا۔ حضرت عائشہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے بارے میں جو بتایا وہ انہیں کم دکھائی دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہیں اس لیے ہمیں زیادہ عمل کرنا چاہیے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی کو ترک کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں تم لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ اور عورتوں سے ازادوجی تعلق بھی قائم کرتا ہوں۔ پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں( فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي) صحیح البخاری، حدیث نمبر 5063۔
جیسا کہ متن سے واضح ہے، حدیث میں فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي کا تعلق تمام شرعی اعمال سے ہے، نہ کہ مخصوص طور پر نکاح سے۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث کا تعلق سادہ طور پرصرف نکاح نہ کرنے سے نہیں ہے، بلکہ اعتقادی طور پر نکاح کو قابل ترک سمجھنے سے ہے(فتح الباری، جلد 9، صفحہ 105-6)
اصل یہ ہے کہ نکاح کی حیثیت نماز کی طرح کسی لازمی فریضہ کی نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جو شخص نکاح نہ کرے وہ تارکِ صلاۃ کی طرح گنہگار ہو جائے، یا اس کا ایمان ناقص رہے گا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5065)۔ اس معاملہ میں اصل مطلوب چیز باعفت زندگی ہے، نہ کہ ہر حال میں
نکاح سے پہلےحضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب کسی عورت سے نکاح کا پیغام دے تو اگر اس شخص کے لیے ممکن ہو کہ وہ اسے دیکھے تاکہ اس سے نکاح کی طرف رغبت ہو تو وہ ضرور ایسا کرے(إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ)سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2082۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا کہ کیا تم نے اس عورت کودیکھا ہے۔ میں نے کہاکہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لو۔ کیوں کہ اس طرح زیادہ امید ہے کہ تم دونوں کے تعلق میں استواری پیدا ہوگی۔(فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَأَنَظَرْتَ إِلَيْهَا؟ قُلْتُلَا قَالَفَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا)مسند احمد، حدیث نمبر 18154۔
نکاح کے بعدحضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ حلال اللہ کے نزدیک طلاق ہے(أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ الطَّلَاقُ) سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2018۔
معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے معاذ، اللہ نے زمین پر سب سے زیادہ محبوب چیز جو پیدا کی وہ غلام کو آزاد کرنا ہے، اور اللہ نے سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز جو زمین پر پیدا کی وہ طلاق ہے۔(قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَا مُعَاذُ مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَتَاقِ ، وَلَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ )سنن الدار قطنی، حدیث نمبر 3984۔
ان روایات سے نکاح و طلاق کے بارہ میں اسلام کا مزاج معلوم ہوتا ہے۔ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ آدمی نکاح سے پہلے تو خوب سوچے۔ مگرنکاح کے بعد وہ صرف نباہنے کی کوشش کرے۔ اسلام میں غیر عورت کو بالقصد دیکھنا جائز نہیں۔ مگر مخطوبہ کو دیکھنے کی کھلی اجازت دی گئی۔ دوسری طرف طلاق کو ابغض المباحات قرار دیدیا گیا۔ گویا نکاح سے پہلے تحقیق کے لیے ممنوعہ حد تک جانے کی اجازت ہے۔ مگر نکاح کے بعد مباح حد کے اندر داخلہ بھی پسند نہیں۔
کے آئڈیل سے کم ہے۔ یہی احساس مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ عورت اور مرد دونوں شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کا انتخاب درست نہ تھا۔
اس احساس کے آتے ہی دونوں کے درمیان اختلافات شروع ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ دو میں سے ایک کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ تلخ ازدواجی زندگی یا طلاق۔ مگر یہ دونوں ہی یکساں طورپر غلط اور غیر فطری ہیں۔
ایک نوجوان سے گفتگو ہوئی، جس کا ذکر میں نے اپنی ڈائری 3 دسمبر 1985 میں ان الفاظ میں کیا ہے۔ـ" گفتگو کے دوران نوجوان نے اپنی شادی کا ذکر کیا۔ انھوںنے کہا کہ میری شادی میرے ماں باپ نے کردی ،مگر میری جو بیوی ہے، وہ مجھ کو پسند نہیں۔ میںنے کہا کہ سب سے زیادہ پسندیدہ شادی وہ ہے، جو ناپسندیدہ شادی ہو۔ میں نے کہا کہ میرے اس قول کو آپ لکھ لیجیے اور اس کو 20 برس بعد دیکھیے گا۔ کیوں کہ ان الفاظ کی معنویت کو آپ آج سمجھ نہیں سکتے۔ اس کی معنویت آپ کی سمجھ میں اس وقت آئے گی جب کہ میری طرح آپ کے بال سفید ہوچکے ہوںگے۔ـ"
اصل یہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ دونوں کا انتخاب غلط تھا۔ اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ دونوں فطرت کی ایک حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ وہ یہ کہ اختلاف زندگی کا ایک حصہ ہے، وہ کسی خاص عورت یا کسی مرد کا حصہ نہیں۔
یہی اس مسئلہ کا واحدحل ہے۔ عورت اور مرد دونوں اگر یہ سمجھ لیں کہ اُن کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے وہ خدا کے تخلیقی منصوبہ کی بنا پر پیش آرہا ہے، نہ کہ اُن کے غلط انتخاب کی بنا پر۔ اگر دونوں اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ازدواجی زندگی کا مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
خالق نے خود اپنے تخلیقی منصوبہ کے مطابق، ہر دو انسان کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اس مسئلہ کا حل فرق کو مٹانا نہیں ہے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ انسان اس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف ڈیفرنس مینجمنٹ (art of difference management) کہا جاسکتا ہے۔ ڈیفرنس کو مٹانے کی کوشش نہ کیجیے بلکہ ڈیفرنس کے ساتھ جینا سیکھیے اور پھر آپ کی زندگی کامیاب ازدواجی زندگی بن جائے گی۔
خاندانی زندگی ہویا سماجی زندگی، دونوں میں اختلافات پیدا ہونا فطری ہے۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے— اختلاف کے باوجود متحد ہوکر رہنا۔
ایک شادی شدہ جوڑے سے میری ملاقات ہوئی۔ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ شادی شدہ زندگی یہ ہے کہ دو آدمی سنجیدہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ باہم مل کر زندگی کا مشترک سفر طے کریں گے۔ یہ سفر پورا کا پورا تجربات کی صورت میں گزرتا ہے۔ کبھی خوش گوار تجربہ اور کبھی نا خوش گوار تجربہ۔
آپ دونوں کو میری نصیحت صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جب اس مشترک سفر میں آپ دونوں کو کوئی خوش گوار تجربہ گزرے تو اس پر اللہ رب العالمین کا شکر ادا کیجیے، اور اپنے سفر کو مثبت ذہن کے ساتھ جاری رکھیے۔ اس کے برعکس، اگر آپ کو اس سفر میں کوئی نا خوش گوار تجربہ پیش آئے تو اس سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کیوں کہ ہر نا خوش گوار تجربہ ہمیشہ ایک نیا سبق لے کر آتا ہے۔ وہ اس لیے ہوتا ہے کہ آپ سفر کا اگلا مرحلہ زیادہ بہتر طور پر گزاریں۔
شادی شدہ زندگی اجتماعیت کی اکائی ہے۔ آپ انفرادی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزار سکتے ہیں۔ لیکن اجتماعی زندگی میں دوسروں سے نبھانا ضروری ہوجاتا ہے۔ دوسروں سے نبھانے کا آرٹ سیکھے بغیر اجتماعی زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی، خواہ شادی شدہ زندگی ہو یاکوئی اور سماجی زندگی۔
شادی شدہ زندگی صرف شادی کے لیے نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ تجربہ سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی یہ سیکھے کہ دوسروں کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے۔ تجربہ ہمیشہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ تجربے کی زندگی میں خوشگوار واقعات بھی پیش آتے ہیں،اور ناخوشگوار بھی۔ تاہم ہر تجربے میں کوئی نہ کوئی سبق ضرور موجود ہوتا ہے۔ کبھی ایک نئے اصول کی دریافت کی صورت میں ، اور کبھی کسی عملی رہنمائی کی صورت میں ، اور دونوں بلاشبہ یکساں طور پر مفید ہے۔جس آدمی کی زندگی تجربہ سے خالی ہو،اس کی زندگی حکمت (wisdom) سے خالی ہو گی۔
کامیاب ازدواجی زندگی
ہرعورت اور مرد کے ذہن میں شادی سے پہلے آئڈیل شوہر اور آئڈیل بیوی کا تصور بسا ہوا ہوتا ہے۔ مگر شادی کے بعد دونوں محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے جس کو اپنی زندگی کا ساتھی بنایا ہے وہ ان
تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر شادی ، شادی کے بعد پرابلم شادی بن جاتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا کہ میری شادی لو میرج تھی، مگر عملاً یہ ہوا کہ شادی سے پہلے میرا جہاز ہوا میں اڑ رہا تھا، اور شادی کے بعد میرا جہاز کریش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ یہ ظاہرہ اتنا زیادہ عام ہے کہ اس میں مشکل سے کوئی استثنا تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ شادی سے پہلے انسان اپنے گھر میں خونی رشتے دار (blood relationship) کے درمیان ہوتا ہے۔ شادی کے بعد اچانک اس کو غیر خونی رشتے دار (non-blood relationship) کے درمیان زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ لوگ عام طو رپر اس فرق کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپاتے،اس لیے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، جو کبھی کبھی بریک ڈاؤن (breakdown) کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔
خالق نے انسانی زندگی کو جس اصول پر بنایا ہے، اس میں یکسانیت (uniformity) نہیں ہے، بلکہ عدم ِیکسانیت (dis-uniformity) ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ دو مختلف انسان اپنی مختلف صلاحیتوں کو متحدہ طور پر استعمال کرکے زیادہ مفید انداز میں سماجی زندگی کا حصہ بنیں۔ اگر لوگ اس راز کو سمجھیں تو وہ اپنی افادیت کو ڈبل بنا لیں گے۔ وہ اپنی افادیت میں بہت زیادہ اضافہ کرلیں گے۔ وہ زندگی کی گاڑی کو زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چلانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
فطرت کا یہ قانون دو مختلف صلاحیت کے انسانوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی مختلف صلاحیتوں کو مشترک طور پر استعمال کرکے اپنے آپ کو سماج کا زیادہ مفید عنصر بنا سکیں۔ وہ اپنی افادیت کو ملٹی پلائی (multiply) کرلیں۔اس معاملے میں مشہور انگریزی مقولہ صادق آتا ہے
If everyone thinks alike, no one thinks very much.
یعنی ہر آدمی یکساں طور پر سوچے تو کوئی شخص زیادہ نہیں سوچے گا۔
عورت اور مرد کے درمیان دو متضاد(opposite) نسبتیں ہیں۔اور وہ ہے کامل حیاتیاتی مطابقت کے باوجود کامل حیاتیاتی فرق۔یہ تخلیق کا انوکھا توازن (unique balance) ہے۔اور یہ ایک اہم تمدنی مقصد کے لیے ہے۔ مگر بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق کی اس حکمت کو شاید کسی نے نہیں سمجھا۔
قرآن میں اس حکمت کو دولفظوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ ( 3:195 )۔ یعنی تم ایک دوسرے سے ہو۔ قرآن کی یہ آیت اشارہ کی زبان میں تھی۔ تدبر کے ذریعہ اس کی تفصیل کو جاننا تھا۔ لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے اس حقیقت کو نہ قرآنی مطالعہ کے ذریعہ سمجھا اور نہ سیکولر مطالعہ کے ذریعہ۔
قدیم تاریخ میں یہ ہوا کہ انسان نے عورت کو مرد کے مقابلے میں کم سمجھا۔ اس بنا پر وہ فطرت کے مطابق، عورت کا صحیح استعمال دریافت نہ کرسکا۔ جدید تہذیب (modern civilization) کے زمانہ میں صنفی مساوات (gender equality) کا نظریہ اختیار کیا گیا۔ مگر یہ جدید نظریہ صرف قدیم نظریہ کا ردعمل (reaction) تھا۔ اس طرح قدیم ذہن اور جدید ذہن، دونوں افراط و تفریط کا شکار ہوئے اور اصل حقیقت تک پہنچنے میں ناکام رہے۔قدیم ذہن کے مطابق، اگر عورت اور مرد کے درمیان صنفی نامساوات (gender inequality) تھی تو جدید ذہن نے بتایا کہ عورت اور مرد کے درمیان صنفی مساوات ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان تکمیلی نسبت (gender complementarity) کا تعلق ہے۔
تخلیقی نقشہ کے مطابق عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے کاگ وھیل (cogwheel) کی مانند ہیں۔وہ ایک دوسرے کا تکملہ (complement) ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک کے اندر ایک اضافی خصوصیت (additional quality) ہے جس کے ذریعہ دونوں مل کر مقصدِ تخلیق کو پورا کرتے ہیں۔
بنجیمن فرینکلن(Benjamin Franklin) ایک امریکی مفکر تھا۔ وہ1706ء میں پیدا ہوا، اور1790ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کا ایک قول ہے کہ— نکاح سے پہلے اپنی آنکھیں خوب کھلی رکھو، مگر نکاح کے بعد اپنی آدھی بند کر لو
Keep your eyes wide open before marriage, half shut afterwards.
یعنی نکاح کرنے سے پہلے اپنے جوڑے کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرو۔ مگر جب نکاح ہو جائے تو اجمال پر اکتفا کرو۔ اسی بات کو کسی نے سادہ طور پر ان لفظوں میں کہا کہ نکاح سے پہلے جانچو، اور نکاح کے بعد نبھائو۔
کوئی مرد یا عورت پرفکٹ نہیں۔ کوئی بھی کامل یا معیاری نہیں۔ اس لیے رشتہ سے پہلے تحقیق تو ضرور کرنا چاہیے۔ مگر رشتہ کے بعد یہ کرنا چاہیے کہ اپنے رفیق حیات کی خوبیوں کو دیکھا جائے، اور کمیوں سے صرفِ نظر کرلیا جائے۔معیار کا حصول موجودہ دنیا میں ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کو ایک فریق معیاری سمجھے وہ دوسرے فریق کے نزدیک بھی معیاری ہو۔ اس بنا پر خواہ کوئی کتنا ہی زیادہ صحیح ہو وہ دوسرے کو آخری حد تک مطمئن نہیں کر سکے گا، دونوں فریق کو ایک دوسرے کے اندر کچھ نہ کچھ کوتاہیاں نظر آئیں گی۔
اب ایک شکل یہ ہے کہ دوسرے فریق کی کوتاہی سے لڑ کر اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے، مگر مشکل یہ ہے کہ ایک تعلق کی علیحدگی کے بعد دوسرا تعلق جو قائم کیا جائے گا۔ اس میں بھی جلد ہی وہی یا کوئی دوسری خامی ظاہر ہو جائے گی، اور اگر دوسرے رشتہ کو ختم کرکے تیسرا یا چوتھا کیا جائے تو اس میں بھی۔ ایسی حالت میں موافقت کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہر مرد یا عورت میں خوبی بھی ہوتی ہے اور کوتاہی بھی۔ ضرورت ہے کہ خوبی کو دیکھا جائے اور کوتاہی کو برداشت کیا جائے۔ عملی طور پر یہی ایک ممکن طریقہ ہے۔ اس کے سوا اور کوئی طریقہ اس دنیا میں قابل عمل نہیں۔
© 2024 CPS USA.