مذہب اور لامذہبیت کی کش مکش اگرچہ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ پرانی ہے۔ تاہم پچھلی صدی سے پہلے اس نے کبھی علمی الحاد کی صورت اختیار نہیں کی تھی۔ انیسویں صدی کا فکری انقلاب اور با لآخر ایک طرف ڈارون (1809-1882ء) اور دوسری طرف مارکس (1818-1883ء)کا ظہور انسانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جب کہ الحاد نے یہ کامیابی حاصل کی کہ وہ علمی منطق اور منظم فلسفہ کے زور پر ایک پوری نسل کے ذہن پر چھا جائے اور مذہب کو دفاع کے مقام پر پناہ لینے کے لیے مجبور کر دے۔
الحاد کی ان دونوں لہروں کو الگ الگ سمجھنے کے لیے ہم ایک کو سائنسی الحاد اور دوسرے کو سوشلسٹ الحاد کہیں گے۔ اولاً سائنسی الحاد کو ابھرنے کا موقع ملا اور اس نے دنیا کے تقریباً تمام حصہ کو کسی نہ کسی طرح متاثر کر ڈالا۔ انیسویں صدی کے آخر تک سائنسی الحاد تعلیم یافتہ د نیا کے ذہنوں پر اس قدر چھا چکا تھا کہ کچھ لوگوں کو یہاں تک کہنے کی جرأت ہوئی کہ خدا مرچکا ہے (God is dead)۔ اب ، کم از کم علمی طور پر، اس کے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
مگر سائنسی الحاد ’’آزاد دنیا‘‘ کا الحاد تھا اور آزادانہ غور و فکر کی فضا میں جس طرح ایک نقطۂ نظر کو غلط قرار دینے کے مواقع ہوتے ہیں اسی طرح یہ امکان بھی رہتا ہے کہ دوبارہ نئے دلائل کے ساتھ اس کو صحیح ثابت کیا جا سکے۔ مذہب کے ساتھ یہی ہوا۔ بیسیویں صدی کی پہلی چوتھائی گزری تھی کہ خود سائنس کی دنیا میں ایسی تحقیقات سامنے آنا شروع ہو گئیں جنھوں نے ان تمام مفروضات کو بالکل منہدم کر دیا جن کے اوپر علمی الحاد کی بنیاد کھڑی کی گئی تھی۔ جولین ہکسلے (1887-1975ء) کی کتاب انسان تنہا کھڑا ہوتا ہے (Man Stands Alone) کے اگلے ایڈیشن کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ امریکی سائنس داں کریسی ماریسن (1884-1946ء) نے اعلان کیا انسان تنہا نہیں کھڑا ہو سکتا Man does not Stand Alone) )۔
وائٹ ہیڈ (1882-1947ء) اور جیمز جینز (1877-1946ء) نے علمی الحاد کےخلاف جو کروسیڈ شروع کی تھی وہ اب اس نوبت کو پہنچ چکی ہے کہ ساری مغربی دنیا کی نئی نسل میں وہ جوابی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی ہے جس کو غلط طور پر ’’اینٹی سائنس‘‘ کہا جاتا ہے۔ کائنات کی ملحدانہ تعبیر بے دلیل ثابت ہو گئی۔ عقلی ذرائع سے اخلاقیات کا کوئی معیار تلاش کرنا
ممکن نہ ہو سکا۔ سماجی علوم کسی بہتر انسانی سماج کی تشکیل میں ناکام رہے۔ صنعتی تہذیب انسان کو حقیقی خوشی نہ دے سکی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ساری آزاد دنیا میں مذہب کی طرف واپسی کا رحجان پیدا ہو چکا ہے۔ تقریباً 50 سال کے عارضی وقفہ کے بعد دوبارہ وہ مذہبی دور واپس آنا شروع ہو گیا ہے جو اس سے پہلے دنیا میں پایا جاتا تھا۔
مگر سوشلسٹ الحاد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ سائنسی الحاد صرف فکری الحاد ہے ، سوشلسٹ الحاد اسی کے ساتھ جبری الحاد۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اشتراکی ملکوں میں کوئی دینی کام کرنا انتہائی دشوار تھا۔ مگر مختلف اسباب کے تحت پچھلے چند سالوں میں حالات کافی بدل گیے ہیں۔ اب روس اور چین میں بھی مذہب کی آزادی تسلیم کر لی گئی ہے اور کم از کم نجی دائرہ میں مذہبی سرگرمیوں کی کھلی اجازت دے دی گئی ہے۔
اس طرح اشتراکی ملکوں میں بھی اب ازسرنو دینی کام کے مواقع حاصل ہوگئے ہیں جو اس سے پہلے وہاں حاصل نہ تھے۔ تاہم اس نئے موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ مسلمان اشتراکی ملکوں میں وہ نادانی نہ کریں جو انھوں نے مسلم ملکوں میں کی اور اس کے نتیجہ میں وہ وہاں کے مواقع کو استعمال کرنے سے محروم ہو گئے۔ یہ ہے دینی دعوت کو سیاسی جہاد کے ہم معنی بنانا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سیاست اور حکومتی تصادم سے بچتے ہوئے خالص دینی دائرہ میں اپنا کام خاموشی کے ساتھ کریں۔ اس کے بعد، ان شاء اللہ، حالات میں مزید تبدیلی آئے گی۔ جو چیز مستقبل میں ملنے والی ہو اس کو حال میں پانے کی کوشش کرنا ایسا ہی ہے جیسے درخت کے پھل کو درخت کے بیج سے برآمد کرنے کی کوشش کی جائے۔
وحید الدین،
گلیلیو (1564-1642ء) اپنی سادہ دور بین سے چاند کا صرف سامنے کا رخ دیکھ سکتا تھا۔ آج کا انسان خلائی جہاز میں لگے ہوئے دوربینی کیمروں کی مدد سے چاند کا پچھلا رخ بھی پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل اور آج میں علمی اعتبار سے کتنا زیادہ فرق ہو چکا ہے۔
مگر ان جدید معلومات تک پہنچنے کی قیمت بہت مہنگی ہے۔ 10 اکتوبر 1980ء کو نیو میکسیکو میں دنیا کی سب سے بڑی دوربین نصب کی گئی۔ اس کی قیمت
پارٹیکل فزنس (ذراتی طبیعیات) میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ 1927ء میں ہونے والی فزکس کانفرنس میں
ان جدید تحقیقاتی کوششوں کا تعلق فلکیات (اسٹرانومی) اور پارٹیکل فزنس (ذراتی طبیعیات) سے ہے۔ ان علوم میں تحقیقات کے نتائج بہت دیر میں نکلتے ہیں۔ تقریباً 50 سال بعد یا اس سے بھی زیادہ۔ اگر اس کا لحاظ کیا جائے کہ ان تحقیقات میں لگی ہوئی رقم (جس پر کوئی سود نہیں ملتا) کی قیمت ہر سال کم ہوتی رہتی ہے تو پچاس سال بعد ایک سو ڈالر کی قیمت صرف ایک ڈالر کے بقدر رہ جائے گی۔ بظاہر ایک بے فائدہ مد میں اتنی کثیر رقم خرچ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے منصوبوں پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے امریکی پروفیسر راجر پنروز (Roger Penrose) نے کہا ہے
Do economists not share with us the thrill that accompanies each new piece of understanding? Do they not care to know where we have come from, how we are constituted, or why we are here? Do they ‘not have a drive to understand, quite independent of economic gain? Do they not appreciate the beauty in ideas? —A civilisation that stopped inquiring about the universe might stop inquiring about other things as well. A lot else might then die besides particle physics. (Sunday Weekly, Calcutta, Nov 30, 1980)
کیا اقتصادیات کے ماہرین اس وجد انگیز مسرت میں ہمارے ساتھ شریک نہیں ہیں جو علم کے ہر نئے اضافہ سے حاصل
ہوتی ہے۔ کیا ان کو یہ جاننے کا شوق نہیں ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں ، ہماری پیدائش کیسے ہوئی ہے یا یہ کہ اس زمین پر ہم کیوں ہیں۔ کیا اقتصادی فائدہ سے ہٹ کر ان باتوں کو جاننے کا جذبہ ان کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ نظریات میں حسن کی قیمت کو نہیںسمجھتے۔ کوئی تہذیب جو کائنات کے بارے میں تحقیق سے رک جائے وہ دوسری چیزوں کے بارے میں تحقیق کو بھی روک دے گی۔ اس کے بعد پارٹیکل فزکس کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بھی موت کا شکار ہو کر رہ جائیں گی۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی حقیقت جاننے کا مسئلہ کس قدر ضروری ہے۔ وہ انسان جو خدا کی بنیاد پر کائنات کی تشریح نہیں کرنا چاہتا وہ بھی انتہائی بے تاب ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز پا لے جس کی بنیاد پر وہ اپنی اور کائنات کی تشریح کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظر آنے والی کائنات اور اس کے اندر انسان جیسی ایک مخلوق کا موجود ہونا اس قدر حیران کن ہے کہ انسان اس کی ماہیت کے بارے میں سوچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کوئی بھی دوسری چیز اس کو اس سوال سے بے نیاز کرنے والی ثابت نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی مادی ترقیاں بھی۔
انسان دیکھتا ہے کہ وہ ایک لامحدود کائنات میں ہے۔ ا س کائنات میں تقریباً ایک کھرب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں میں لگ بھگ ایک کھرب بہت بڑے بڑے ستارے ہیں۔ اور ہر ستارہ دوسرے ستارے سے اتنا زیادہ فاصلہ پر ہے جیسے بحرالکاہل کے لق و دق سمندر میں چند کشتیاں ایک دوسرے سے بہت دور دور تیر رہی ہوں۔ عظیم کائنات میں پھیلے ہوئے ستاروں کی یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ا گر ہر ستارہ کا کوئی یک لفظی نام رکھا جائے اور کوئی ان ناموں کو بولنا شروع کرے تو صرف تمام ناموں کو دہرانے کے لیے 300 کھرب سال کی مدت درکار ہو گی (پلین ٹرتھ، جنوری 1981ء) ۔
اس ناقابل قیاس حد تک عظیم کائنات میں انسان سب سے زیادہ حقیر مخلوق ہے۔ وہ کائناتی نقشہ میں ان چھوٹےجزیروں سے بھی کم ہے جو بہت چھوٹے ہونے کی وجہ سے عام طور پر دنیا کے نقشوں میں دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انسان اپنے تمام چھوٹے پن کے باوجود کائنات کے فاصلوں کو ناپ رہا ہے۔ وہ طبیعیاتی ذروں سے لے کر کہکشانی نظاموں تک کی تحقیق کر رہا ہے۔ وہ ایک ایسا ذہن رکھتا ہے جو ماضی اور مستقبل کا تصور کر سکے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے اور با لآخر اس عجیب و غریب ڈرامے کا کیا انجام ہونے والا ہے۔ یہ سوالات ہر سوچنے والے انسان کے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ وہ ان کی حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مگر انسان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ان سوالات کا جواب دوربینی مشاہدات اور لیبارٹری کے تجربات میں ڈھونڈ رہا ہے۔ حالاں کہ ان سوالات کا جواب پیغمبر کے الہام کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
جس کائنات میں اتنی زیادہ دنیائیں ہوں کہ صرف ان کا نام لینے کے لیے تین سو کھرب سال سے زیادہ مدت درکار ہو، اس کی حقیقت کو وہ انسان کیوں کر دریافت کر سکتا ہے جو پچاس سال یا سو سال زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق ہی اس راز کو کھول سکتا ہے اور اسی نے پیغمبر کے ذریعہ اس کو کھولا ہے۔
البرٹ آئن سٹائن (1879-1955ء) نے زمان و مکان کے بارے میں جو نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نے اس کو غیر معمولی شہرت دی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کی سائنسی قیمت حقیقتہً اس سے کم تھی جتنی اس کو شہرت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی ایک توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ آئن سٹائن کی تحقیقات کا تعلق کائنات کی ابدی حقیقتوں سے تھا اور جو آدمی کائنات کی ابدی حقیقتوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے وہ لوگوں کی نظر میں خصوصی اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ ایک مبصر نے لکھا ہے
Whoever finds that which enables us to obtain a deeper a glimpse into the eternal secrets of nature has been given great grace. That was the grace of Albert Einstein's unique greatness—to try to find such thoughts.
(The Hindustan Times, March 15, 1981)
جو شخص کوئی ایسی دریافت کرتا ہے جو ہم کو اس قابل بنائے کہ ہم فطرت کے رازوں کی کوئی گہری جھلک دیکھ سکیں ، اس کو بہت زیادہ عزت دی جاتی ہے۔ ا لبرٹ آئن سٹائن کو جو خصوصی عزت ملی وہ اسی لیے تھی کہ اس نے اس قسم کے افکار تک پہنچنے کی کوشش کی۔
کائنات کی ابدی حقیقتوں کو جاننے کی خواہش انسان کی فطرت میں اس طرح سمائی ہوئی ہے کہ وہ کسی طرح اپنے کو اس سے الگ نہیں کر سکتا۔ قدیم ترین زمانہ سے انسان فطرت کے ابدی رازوں کی کھوج میں رہا ہے مگر ابھی تک وہ ان کو پا نہ سکا۔ انسان اگر اپنی ذاتی کوششوں سے اس حقیقت تک نہیں پہنچا تو وہ اس کے لیے معذور تھا۔ اس کی محدودیت اس کی راہ میں فیصلہ کن طور پر حائل تھی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ قدیم ترین زمانہ سے پیغمبر اس راز سے پردہ ہٹاتے رہے ہیں، پھر تلاش کے باوجود انسان نے کیوں پیغمبروں کے جواب کو نہیں مانا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر کا جواب اپنے ساتھ جزا و سزا اور جنت و جہنم کا تصور لاتا ہے۔ وہ انسان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنی آزاد زندگی کو ختم کر دے اورزمین پر ایک قسم کی پابند زندگی گزارے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی تلاش کے پیغمبرانہ جواب کو ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ برابر اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ فطرت کے رازوں کا کوئی ایسا حل دریافت کر لے جو اس کی تلاش کا جواب تو ہو مگر وہ اس کی زندگی پر کوئی پابندی نہ لگائے ، وہ اس کو مستقبل کے اندیشوں میں مبتلا کرنے والا نہ ہو۔ بے شمار لوگ نام نہاد روحانی شخصیتوں کے جواب کو مان لیتے ہیں مگر وہ پیغمبروں کے جواب کو ماننے پر راضی نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ روحانی شخصیتوں کے جواب میں صرف روحانی آنند ہے ، اس میں روحانی کھٹک کا کوئی خانہ نہیں۔ جب کہ پیغمبروں کا جواب آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے ، وہ زندگی بھر کے لیے آدمی کو آخرت کے اندیشے میں مبتلا کر دیتا ہے۔
کامیابی کا راز حقیقت سے مطابقت میں ہے، نہ کہ حقیقت سے فرار میں۔ اگر اصل حقیقت وہی ہو جس کی طرف پیغمبروں نے رہنمائی کی ہے تو اس کے سوا کسی اور حقیقت کی تلاش میں لگنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے۔ جو چیز فی الواقع موجود نہ ہو، اس کو کوئی شخص کہاں سے برآمد کر سکتا ہے۔
انسان آزاد پیدا ہوا ہے ۔ مگر اس کو نہیں معلوم کہ وہ اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرے۔ کائنات کی غیر ذی روح اشیاء قانون فطرت کے تحت اپنا عمل کر رہی ہیں اور ذی روح اشیاء جبلّت کے تحت۔ ساری معلوم دنیا میں یہ صرف انسان ہے جس کو اپنی زندگی کا نقشہ خود بنانا ہوتا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ، اپنی ساری اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود یہ نہیں جانتا کہ اپنی زندگی کا نقشہ کس طرح بنائے۔ ایک انتہائی مکمل کائنات کے اندر انسان ایک نامکمل وجود ہے۔
کائنات میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ایسی نہیں جو بقیہ کائنات سے الگ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کا نظام بنانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان اس عظیم کائنات کا محض ایک جزوی حصہ ہے مگر اس جزو کو سمجھنا بھی اسی وقت ممکن ہے جب کہ کل کے بارے میں ہم کو پورا علم حاصل ہو چکا ہو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کسی بھی زمانہ میں اس قابل نہ ہو سکا کہ وہ حقائق عالم کا احاطہ کر لے اور اب تو سائنس نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اپنی محدود صلاحیتوں کی بنا پر انسان کے لیے اس قسم کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔
پانی کا راستہ زمین کے نشیب و فراز سے بن جاتا ہے۔ جانوروں کو ان کی جبلّت ایک متعین راہ پر چلاتی رہتی ہے۔ بالفرض ایسا نہ ہو ، جب بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔ کیوں کہ پانی یا جانور فطری طور پر صحیح اور غلط کے احساس سے خالی ہیں۔ ان کی دنیا میں وہی ٹھیک ہے جو بالفعل وقوع میں آ جائے۔ اس کے برعکس انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صحیح و غلط ، بالفاظ دیگر اخلاقی احساس اس کی فطرت میں اس طرح پیوست ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو اس سے جدا نہیں کر سکتا۔ مگر آدمی جب اپنے اخلاقی احساس کو خارجی طور پر متعین کرنا چاہتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ انسان اپنے موجودہ حواس کے تحت کسی ایسی ہی چیز کو قطعیت کے ساتھ جان سکتا ہے جو ہماری نسبت سے اپنا کوئی معروضی مقام (objective status) رکھتی ہو۔ جب کہ تجربہ بتاتا ہے کہ انسان ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں معروضی اقدار (objective values) کا کوئی وجود نہیں۔
انسان اپنی زندگی کی تشکیل کے لیے جو بھی قدم اٹھاتا ہے، فوراً دو سوال اس کے سامنے
آ کھڑے ہو جاتے ہیں — اس کے عمل کا نقطۂ آغاز (starting point) کیا ہو اور یہ کہ اس کے عمل کی حدود (limitations ) کیا ہیں۔ ان دونوں سوالات کے جواب پر ہی اس کے عمل کی صحت موقوف ہے۔ مگر انسان کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے وہ ان دونوں سوالات کا ٹھیک ٹھیک جواب معلوم کر سکے۔
مثال کے طور پر عورت مرد کے باہمی تعلق کے مسئلہ کو لیجیے۔ دور جدید کے انسان نے اس معاملہ کا نقطۂ آغاز دونوں جنسوں کے درمیان کلی مساوات کو سمجھا۔ مگر طویل تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں ایسی حیاتیاتی اور نفسیاتی رکاوٹیں ہیں کہ موجودہ نظام تخلیق کے باقی رہتے ہوئے دونوں کے درمیان کلی مساوات ممکن ہی نہیں۔ اس طرح غلط نقطۂ آغاز سے چلنے کی وجہ سے نہ صرف بیشمار انسانی وسائل ضائع ہو گئے بلکہ ایسے نئے نئے سماجی اور خاندانی مسئلے پیدا ہو گئے جن کا کوئی حل اب انسان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
اسی طرح اٹھارویں صدی میں مشینی طاقت کی دریافت کے بعد جب جدید صنعتی نظام وجود میں آیا تو لوگوں نے دیکھا کہ کارخانہ کی ملکیت اب سادہ معنوں میں صرف ملکیت نہیں رہی بلکہ اقتصادی استحصال کے ہم معنی ہو گئی ہے۔ اس سے روایتی افکار کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی جو با لآخر یہاں تک پہنچی کہ خود انفرادی ملکیت ہی کو سرے سے منسوخ کر دیا گیا۔ تاہم آباد دنیا کے تقریباً نصف حصہ پر آدھی صدی تک تجربہ کرنے کے بعد آخری بات جو انسان کو معلوم ہوئی وہ یہ کہ تنسیخ ملکیت محض ردعمل کے جذبات کے تحت ایک انتہا پسندانہ کارروائی تھی جس نے دوسرا شدید تر استحصالی نظام وجود میں لانے کے سوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ اب تمام دنیا کے اہل فکر یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ شاید زیادہ صحیح بات یہ تھی کہ ملکیتوں کی تنسیخ کے بجائے استحصال کی تنسیخ کی جاتی۔
ایک اور مسئلہ ہے جو مذکورہ بالا دونوں مسئلوں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ تمام دوسرے حیوانات کے مقابلہ میں انسان کے اندر ایک حیرت انگیز داعیہ یہ ہے کہ وہ کل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے،وہ صرف آج پر قانع نہیں۔ اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری موجودہ زندگی انتہائی مختصر ہے اور اس کی خوشیاں اور کامیابیاں بے حد معمولی ہیں ۔ جب ہم وہ سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں تو موت کا وقت قریب آ جاتا ہے۔ حالیہ دورمیں تکنیکی انقلاب کے بعد جب انسان نے دیکھا کہ اس عیش و راحت کے ایسے دروازے کھل گئے ہیں جو پچھلے انسان نے خواب میں بھی نہ دیکھے تھے تو سمجھ لیا گیا کہ بس یہی موجودہ زندگی ہی سب کچھ ہے
اور یہاں عزت اور خوشی حاصل کر لینا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔ مگر انسان ایک صدی بھی اس نئے امکان سے محظوظ نہ ہو سکا تھا کہ نئے نئے مسائل مثلاً صنعت کی پیدا کردہ کثافت (industrial pollution) نے اس کی زندگی کو بالکل تلخ کر دیا۔
ایک طرف ’’اینٹی سائنس‘‘ تحریک مختلف شکلوں میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ دوسری طرف نفسیاتی تحقیقات نے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ زندگی ایک ایسا مظہر ہے جو جسمانی موت کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتا ہے حتیٰ کہ علم الموت (thanatalogy) کے نام سے سائنس کی ایک نئی شاخ وجود میں آ گئی ہے جو اس امکان کی تحقیق میں سرگرم ہے کہ کیا موت اور زندگی دونوں ایک دوسرے کے حصے (parts) ہیں۔ ان واقعات نے دوبارہ انسان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیے کسی صحیح تر فلسفہ حیات کی تلاش کرے۔
اوپر جن پہلوئوں کی طرف اشارہ کیا گیا ، اس کی صرف دو توجیہیں (explanations) ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ انسان ایک مکمل کائنات کے اندر ایک نامکمل وجود کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایسے کائناتی تضاد کی علامت ہے جس کا کوئی حل معلوم دنیا کے اندر ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس تضاد کا بھی حل ہے یا کم از کم ہو سکتا ہے۔ تجرباتی علوم کے پاس دونوں توجیہات میں سے کسی کے حق میں کوئی قطعی ثبوت موجود نہیں۔ تاہم عقلی قیاس یہ کہتا ہے کہ دوسری توجیہ کو صحیح ہونا چاہیے کیوں کہ یہ عظیم کائنات جس طرح قانون فطرت اور جبلّت کے تحت انتہائی منظم طور پر چل رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابل قیاس معلوم ہوتی ہے کہ اس سے کمتر درجہ کے ایک سوال کا جواب اس کے پاس نہ ہو۔ جو تخلیقی قوت عالم افلاک کے مہیب نظام کو گردش دے رہی ہے اور ذی روح اشیاء کی انتہائی پیچیدہ زندگی کو پوری کامیابی کے ساتھ بروئے کار لانے میں مصروف ہے ، وہ اس کے مقابلہ میں ایک بہت چھوٹے مسئلہ کا حل اپنے پاس نہ رکھتی ہو، یہ کسی طرح قابلِ فہم نظر نہیں آتا۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بطور خود اپنا فلسفہ حیات دریافت کر سکے۔ مگر خارجی قرائن کہتے ہیں کہ کائنات میں اس انسانی طلب کا انتظام ہونا چاہیے، جس طرح دوسری بے شمار ضرورتوں کا مکمل انتظام اس کے اندر موجود ہے۔
مذہب یہی خارجی ہدایت ہے جو وحی کی صورت میں خدا کی طرف سے آتی ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ مذہب محض ایک سماجی یا نفسیاتی فریب ہے۔ مگر جدید تحقیقات نے ہمیشہ سے زیادہ آج مذہب کی صداقت کو ثابت کر دیا ہے۔
کارل مارکس (1818-1883ء) فطرت سے غیر معمولی صلاحیت لے کر پیدا ہوا۔ جرمنی کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں اس نے ڈاکٹریٹ تک تعلیم حاصل کی۔ وہ آٹھ زبانیں جانتا تھا یونانی ، اطالوی ، اسپینی ، جرمن ، انگریزی ، فرانسیسی ، ڈچ ، فریشین ۔ آخر عمر میں اس نے روسی زبان سیکھنا شروع کیا۔ مگر تکمیل سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا۔ وہ ساری عمر پڑھتا رہا۔ تاریخ، اقتصادیات اور فلسفہ سے لے کر ادب اور مذہب تک کوئی ایسا موضوع نہ تھا جس پر اس نے کافی مطالعہ نہ کیا ہو۔ اس نے لائبریریاں کی لائبریریاں اپنے ذہن میں اتار ڈالیں۔
مارکس کا یقین تھا کہ اس کی غیر معمولی ذہانت اور اس کے بے پناہ مطالعہ نے اس کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ زندگی کے راز کو منکشف کر سکے۔ مارکس کے رفیق خاص فریڈرش انگلز نے جہاں ہیگل پر تنقید کی ہے، وہ لکھتا ہے
’’اگرچہ ہیگل اپنے وقت کا ایک بہت بڑا انسائیکلو پیڈیائی ذہن رکھنے والا آدمی تھا۔ تاہم وہ ایک محدود انسان تھا۔ اس کی محدودیت کی پہلی وجہ اس کی اپنی معلومات کی کمی تھی ، دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کے زمانے کا علم اور اس وقت کے نظریات بھی محدود تھے ، اس کے علاوہ ایک تیسرا سبب بھی تھا ، وہ یہ کہ ہیگل ایک عینیت پسند (idealist) شخص تھا۔ یعنی وہ مادے کے بجائے تصّور کو اصل حقیقت سمجھتا تھا‘‘(مارکس انگلس سلکٹڈ ورکس جلد 2،ماسکو، 1949، صفحہ
انگلز نے لکھا ہے کہ ان اسباب کی بنا پر ہیگل کی تفصیلات سب کی سب غلط ہو کر رہ گئیںاور حقیقت کی دریافت میں وہ ناکام رہا۔
انگلز کی یہ بات جو اس نے ہیگل کے بارے میں لکھی ہے، یہی خود مارکس پر بھی پوری طرح چسپاں ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ زندگی کے قانون کو اگرچہ تاریخ کا فیصلہ قرار دیتا ہے، مگر اس کے باوجود اس کا کہنا ہے کہ اس قانون کو معلوم کر کے اسے استعمال کرنا خود انسان کا اپنا کام ہے۔ اس لیے عملاً اس کے یہاں بھی قانون ساز خود انسان ہی بن جاتا ہے۔ مارکس جب کہتا ہے کہ زندگی کا قانون خود زندگی کے اندر موجود ہے، اس کو خارج میں کہیں سے برآمد کرنے کی ضرورت نہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو ان فلسفیوں
سے الگ کرنا چاہتا ہے جو انسان کو ایک خود فکر مخلوق مان کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان اپنا قانون ساز آپ ہے۔ اس کے برعکس مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح لوہے اور پتھر کے لیے الگ سے کوئی قانون بنانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ وہ اپنا قانون اپنے ساتھ رکھتے ہیں، ٹھیک اسی طرح انسان بھی ایک قانون میں جکڑا ہوا ہے جس کو بنانا نہیں بلکہ دریافت کرنا ہے۔ مگر اس چھپے ہوئے قانون کو دریافت کرنے اور اس کو نافذ کرنے کا کام جب وہ خود انسان کے سپرد کرتا ہے تو ظاہری اختلاف کے باوجود وہ اپنے آپ کو انھیں فلسفیوں کے گروہ میں شامل کر دیتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان خود اپنے لیے قانون بنا سکتا ہے۔ اس لیے وہ تنقید جو قسم اوّل کے فلسفیوں پر چسپاں ہوتی ہے ٹھیک وہی تنقید خود مارکس پر بھی چسپاں ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
انگلز نے اپنے اس تجزیے میں ہیگل کی ناکامی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس کا علم محدود تھا کیوں کہ ایک شخص خواہ کتنا ہی وسیع مطالعہ رکھتا ہو مگر بہرحال وہ محدود ہی رہے گا۔ دوسرے یہ کہ تحصیل علم کے لیے اس کو جو زمانہ ملا وہ بھی ایسا زمانہ تھا جو اسے زیادہ معلومات نہیں دے سکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود چوں کہ ایک خاص طرز فکر رکھتا تھا اس لیے زیادہ وسیع ذہن کے ساتھ نتائج اخذ کرنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اگر انگلز کی اس تشریح کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے نہ صرف ہیگل بلکہ تمام فلسفیوں کے نظریات کی تردید ہو جاتی ہے حتیٰ کہ خود مارکس کے فلسفہ کی بھی جس کو انگلز حقیقت کا صحیح ترین ترجمان مانتا ہے۔
پہلی چیز انسان کا اپنا علم ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون دریافت کرنے کے لیے جس وسیع علم کی ضرورت ہے اس کے مقابلہ میں انسان کا علم ہمیشہ محدود رہے گا۔ زندگی کے قانون کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان تمام انسانوں کے لیے ہے جو روئے زمین پر بستے ہیں۔ کیا کوئی انسان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے تمام انسانوں کے جذبات کو پڑھا ہے اور ان کی ضروریات کو معلوم کر لیا ہے۔ آدمی بسااوقات خود اپنے بارے میں کسی قطعی اور صحیح فیصلہ تک پہنچنے سے قاصر رہتا ہے۔ پھر وہ ان کروڑوں انسانوں کے بارے میں کیا جان سکتا ہے جن کی اس نے شکل تک نہیں دیکھی ، جن کے متعلق وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ زندگی کا مسئلہ ایک نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جس طرح کسی مشین کا ایک پرزہ درست کرنے کے لیے اس کے تمام پرزوں سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کے کسی ایک جزء کے لیے بھی وہی شخص قانون بنا سکتا ہے جو پوری زندگی کے مسائل پر عبور حاصل کر چکا ہو۔ کیا انسان اپنی موجودہ عمر اور موجودہ ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ ایک شخص جو بیک وقت دو خیالات پر غور نہیں
کر سکتا۔ اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کروروں انسانوں کے لیے قانون بنا سکتا ہے ، ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے حق میں کوئی دلیل نہیں۔ ذہنی صلاحیتیں تو درکنار کیا چند سال کی یہ محدود عمر کسی کے لیے کافی ہو سکتی ہے کہ وہ زندگی کے مسائل کا جامعیت اور تفصیل کے ساتھ مطالعہ کر سکے۔
مارکس کی زندگی کے آخری
دوسرے پہلو سے دیکھیے۔ آج جو قانون بنتا ہے وہ کل نافذ ہوتا ہے۔ مگر انسان کو کل کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ آدمی کی معلومات صرف ماضی اور حال کے واقعات تک محدود ہیں۔ جب کہ اسے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پرمارکسزم کا سارا انحصار ماضی کے تجزیے پر ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے اور یہی دیکھ سکتی ہے کہ جو کچھ آج ہے وہ کیوں کر وجود میں آیا اور اس کی نشوونما کس طرح ہوئی اور پھر اس تجزیے کی بنیاد پر اپنا فیصلہ صادر کر دیتی ہے۔
مارکس اور اس کے متبعین کو اس طریقے کے مکمل ہونے پر اس قدر اصرار ہے گویا انھوں نے ’آخری سچائی‘ کو پا لیا ہے۔ حالانکہ مارکس کا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح تمام موجودات عمل ارتقاء کے ذریعے وجود میں آتی ہیں اسی طرح انسانی سماج میں بھی ارتقائی عمل ہو رہا ہے اور پھر ڈارون کے نظریہ کے برعکس اس کا یہ بھی خیال ہے کہ ارتقاء کا یہ سفر لازمی طور پر تدریج اور تسلسل کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس میں اچانک خلاف توقع تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہ نظریہ
خود اس بات کی تردید کررہا ہے کہ کوئی شخص مستقبل کے بارے میں جان سکتا ہے۔ جب انسانی سماج کسی لگے بندھے ارتقائی نظریے کے مطابق سفر نہیں کر رہا ہے بلکہ بعض اوقات بالکل اچانک اس میں غیر متوقع تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں تو آئندہ کے بارے میں کوئی اصول کس طرح طے کیا جا سکتا ہے۔ پھر کس طرح یقین کیا جائے کہ ماضی کے بارے میں کسی شخص کا تجزیہ لازمی طور پر مستقبل کی بھی صحیح تشریح کرتا ہے۔ جو کچھ وجود میں آ چکا ہے ان کے بارے میں کوئی سر پھر ا سب کچھ جاننے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ مگر جو کچھ ابھی سرے سے وجود میں نہیں آیا ان کو کون جان سکتا ہے جب کہ مارکسی فلسفہ کے مطابق ان کے لیے کوئی لگا بندھا اصول بھی نہیں ہے۔ جب کہ اکثر اوقات اندازے کے خلاف بھی اس میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔
اب تیسری حیثیت سے دیکھیے۔ انگلز کے خیال میں ہیگل اس لیے حقیقت تک نہ پہنچ سکا کہ وہ ’’عینیت پسند‘‘ تھا۔ ٹھیک یہی بات خود مارکس کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس لیے حقیقت تک نہیں پہنچ سکا کہ وہ ’’مادیت پسند‘‘ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ کوئی انسان اس پر قادر نہیں ہے کہ وہ بالکل تجریدی انداز میں حقائق کا مطالعہ کر سکے۔ ہر شخص کے کچھ مخصوص رحجانات ہوتے ہیں اور آدمی مجبورہے کہ وہ جب بھی مسائل حیات کا مطالعہ کرے تو ان رجحانات سے مغلوب ہو جائے۔ اس طرح ہر آدمی کا مطالعہ جانبدار مطالعہ بن جاتا ہے اور اس کے فیصلے زندگی کے بے شمار پہلوئوں میں سے کسی ایک پہلو کی طرف جھکے ہوئے ہوتے ہیں ، اس میں ایک فرد کے ذوق کی تسکین ہو سکتی ہے، مگر مجموعی طور پر پورے معاشرے کے لیے وہ بالکل ناقابل قبول ہوتے ہیں۔
انسان کی ذاتی کیفیات کس طرح اس کے طرز فکر پر غالب ہو جاتی ہیں اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مارکس کی کتاب ’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلد شائع ہو کر جب انگلز کے ہاتھ میں گئی تو اس نے اس کے پہلے دو ابواب پر جن میں جنس اور زر کا تجزیہ ہے اور جو تمام کتاب میں سب سے زیادہ صبر آزما اوراق سمجھے جاتے ہیں ، تبصرہ کرتے ہوئے مارکس کو لکھا
’’کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ ابواب اتنے لمبے ہونے کے بجائے چھوٹے چھوٹے کئی حصوں پر منقسم ہوتے اور ان کو زیادہ عام فہم بنا دیا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ جس زمانہ میں یہ ابواب لکھے جا رہے تھے ، تمہیں سرطان کے پھوڑوں نے پریشان کر رکھا تھا۔ تمہارے پھوڑوں کا وہی عذاب ان ابواب میں مقید ہو گیا ہے اور وہی کرب و بو ان میں بھی بس گئی ہے‘‘۔
مارکس نے اس تنقید کی تصدیق کرتے ہوئے جواب دیا
’’مجھے اس کا افسوس نہیں ہے بلکہ خوش ہوں کہ سرطان کے پھوڑوں کاعذاب ان میں محفوظ ہے کیوں کہ میری یہ کتاب سرمایہ داروں کے طبقے میں جب جائے گی تو اس عذاب کا مزہ وہ بھی چکھ سکیں گے‘‘ ۔
یہ صحیح ہے کہ ایک سرطان زدہ مصنف کی تحریر کو جو شخص پڑھے گا وہ اس کے اندر پھوڑوں کا تعفن اور ان کا کرب محسوس کر سکتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ تحریر کی خوبی نہیں بلکہ اس کا نقص ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریر ایک شخص کی ذہنی حالت کی ترجمان ہے نہ کہ حقیقت کی ترجمان۔
حقیقت یہ ہے کہ مادی دنیا اور انسانی دنیا دونوں کا دین ایک ہے اور وہ قانون قدرت کی پیروی ہے۔ ایک ہی خالق نے دونوں کو پیدا کیا ہے اور وہی ہے جس نے دونوں کے لیے قانون عمل مقرر کیا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ مادی دنیا اپنا قانون اپنے ساتھ رکھتی ہے۔ مادی دنیا کا قانون عمل خود اس کے اندر اس طرح پیوست ہوتی ہے کہ وہ لازمی طور پر اسی کے تحت عمل کرتی ہے۔ وہ کسی طرح اس سے باہر نہیں جا سکتی۔ مگر انسان ایک صاحبِ ارادہ مخلوق ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو وہ کرنا چاہے اور وہ نہیں کرتا جو وہ کرنا نہ چاہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انسان ، دوسری چیزوں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا قانون اس کے ساتھ ہو۔ انسان کو اپنا قانونِ عمل علیحدہ سے دریافت کرنا ہے۔
مگر انسان جب بطور خود اپنا قانون عمل دریافت کرنا چاہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو دریافت نہیں کر سکتا۔ انسان کی محدودیتیں (Limitations) فیصلہ کن طور پر اس کی راہ میں حائل ہیں۔
انسان کی یہی وہ کمی ہے جو اس کی زندگی کی تعمیر کے لیے ’’خدائی الہام‘‘ کو ضروری ثابت کرتی ہے۔ انسان جس قانون عمل کا حاجت مند ہے جب وہ اس کو دریافت نہیں کر سکتا تو اس کے بعد دوسری ممکن صورت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اس کو اس کے خالق کی طرف سے دی جائے۔ جو چیز دوسری مخلوقات کو اندرونی طور پر ملی ہوئی ہے وہ انسان کو بیرونی ذریعہ سے فراہم کی جائے۔
یہ بیرونی ذریعہ وہی ہے جس کو پیغمبر کہا جاتا ہے۔ انسان کی علمی محدودیت اس کو بیرونی ہدایت کا محتاج ثابت کرتی ہے۔ اور پیغمبر کی ہدایت کا عین انسانی طلب کے مطاق ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہی وہ بیرونی ہدایت ہے جس کی اسے ناگزیر طور پر ضرورت تھی۔
مشینی صنعت نے موجودہ زمانہ میں انسان کے لیے ایک نیا مسئلہ پیدا کیا ہے جس کو کثافت (pollution) کہا جاتا ہے۔ مشینوں اور کارخانوں کی وجہ سے شور میں اضافہ ہوا ہے جس کو صوتی کثافت (noise pollution) کہتے ہیں۔ اسی طرح پانی اور ہوا میں گندگی شامل ہو رہی ہے جس کو آبی کثافت (water pollution) اور فضائی کثافت (air pollution) کہا جاتا ہے۔
کمیونسٹ ملکوں میں اب ایک نئی اصطلاح وضع ہوئی ہے جس کو روحانی کثافت (spiritual pollution) کا نام دیا گیا ہے۔ اس اصطلاح کا آغاز کمیونسٹ چین سے ہوا ہے ۔ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کے زمانہ میں امریکا اور چین کے درمیان جو معاہدہ ہوا، اس کے تحت چین اور مغربی دنیا کے درمیان آمدورفت بڑھ گئی۔ اب مختلف قسم کے مذہبی اور ثقافتی وفد چین جانے لگے۔ چین کے رسائل میں مغربی دنیا کے مضامین چھپنے لگے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کے افکار چین کے اندر پہنچنے لگے جو کمیونسٹ انقلاب کے بعد بالکل بند تھے — انفرادیت پسندی ، فکری آزادی اور مذہبی خیالات جو چین میں اب تک ممنوع تھے وہ مغرب کے واسطے سے چین میں درآمد ہونے لگے۔ یہ کمیونسٹ نظریہ کے خلاف زبردست چیلنج تھا ۔ یہ اس نظام فکر کو منہدم کرنے کے ہم معنی تھا جس پر کمیونسٹ چین کا سیاسی ڈھانچہ قائم ہے۔ چنانچہ چین میں اس ’’روحانی کثافت‘‘ کے خلاف سرکاری سطح پر زبردست مہم شروع ہو گئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس نئی کثافت سے اپنے ملک کو یکسر پاک کر دے (ٹائمس آف انڈیا، 9نومبر 1983ء) ۔
کمیونسٹ حضرات کا دعویٰ ہے کہ ان کا نظریہ تمام نظریات میں سب سے زیادہ صحیح نظریہ ہے۔ انسان کی فکری تلاش اپنے لمبے تجربہ کے بعد جس آخری سچائی پر پہنچی ہے وہ وہی ہے جس کو کمیونزم کہتے ہیں۔ جب ایسا ہے تو کمیونسٹ نظام غیر کمیونسٹ نظریہ سے خائف کیوں ہے۔ حق کو ناحق سے خطرہ کیوں درپیش ہے۔ اعلیٰ نظریہ کمتر نظریہ کے مقابلہ میں اپنے کو دفاعی پوزیشن میں کیوں محسوس کرتا ہے۔
کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس چیز کو کمیونسٹ مفکرین نے آخری سچائی سمجھا تھا وہ محض ایک احمقانہ فریب تھا۔ ان کا اجالا درحقیقت اندھیرا تھا جس کو انھوں نے غلطی سے اجالا سمجھ لیا۔
قرآن میں ہے کہ اللہ نے شہد کی مکھی کو وحی کیوَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ (
وحی کے عقیدہ کا مطلب خارجی ذریعہ علم سے رہنمائی کا آنا ہے۔ جانوروں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کے درمیان اس قسم کا ذریعہ علم واضح طور پر موجود ہے۔ جانوروں میں ایسی صفات پائی جاتی ہیں جن کی توجیہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کی جا سکتی کہ یہ مانا جائے کہ ان کو اپنے باہر سے ہدایات مل رہی ہیں۔ انہیں صفات میں سے ایک صفت جانوروں کی مہاجرت (migration) کا معاملہ ہے۔ خاص طور پر مچھلیوں اور چڑیوں کی مہاجرت اپنے اندر ایسی نشانیاں رکھتی ہے جس کے بعد وحی و الہام کے معاملہ کو سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔
یہاں ہم مہاجر چڑیوں (migratory birds) کا حوالہ دیں گے۔ بہت سی چڑیاں ہیں جو خوراک کی تلاش میں یا موسم کی تبدیلی کی بنا پر ایسا کرتی ہیں کہ خاص خاص وقتوں میں اپنے اصل مقام سے ہجرت کر کے دوسرے موزوں تر مقامات پر جاتی ہیں اور پھر ایک خاص مدت کے بعد دوبارہ اپنے سابق مقام پر واپس آ جاتی ہیں۔
ان پروازوں کے بارے میں موجودہ زمانہ میں نہایت وسیع مشاہدات کیے گیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوا ہے کہ یہ پردازیں بے مقصد اڑان کی حیثیت نہیں رکھتیں بلکہ ایک ماہر طیور کے الفاظ میں ان کی حیثیت نہایت اعلیٰ درجہ کے جغرافی بندوبست (geographical arrangement) کی ہے۔ وہ اتنا ہی بامعنی ہیں جتنا کسی انسان کا سوچا سمجھا ہوا سفر بامعنی ہوتا ہے۔ نیز مشاہدات کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ پروازیں انتہائی صحیح طور پر مقرر راستوں (well-defined flyways) پر انجام پاتی ہیں۔
چڑیوں کا یہ سفر نہایت عجیب ہے۔انسان کے لیے صحیح طور پر ایک مقام سے دوسرے مقام پر جانا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ اس نے راستہ اور منزل کی پوری معلومات خارج
سے حاصل کر لی ہوں۔ یہ’’ خارجی ذریعہ ‘‘انسان کے لیے دوسروں سے سننا یا دوسروں کی تحقیق کو پڑھنا یا خود بیرونی احوال کا تجربہ کرنا ہے۔ اگر انسان کو تاریخی طور پر جمع شدہ معلومات سے ، آپس کے تبادلہ خیال سے ، یا تعلیم گاہوں کی تعلیم سے کاٹ دیا جائے تو انسان کچھ بھی نہ کر سکے۔
مثال کے طور پر الادریسی نے زمین کے گول ہونے کا ابتدائی تصور ہندی نظریہ عرین (Arin) سے لیا۔ پھر الادریسی کی کتاب کالاتینی ترجمہ پڑھ کر یہ فکر کولمبس تک پہنچا۔ پھر کولمبس کے تجربات سے بعد والوں کے علم میں اضافہ ہوا۔ یہ سلسلہ ایک کے بعد ایک اسی طرح بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ جغرافیہ کا علم ترقی کے اس درجہ تک پہنچا جو آج کے انسان کو حاصل ہے۔ آج جب سمندری جہاز کا ایک کپتان وسیع سمندر میں داخل ہو کر اِس ساحل سے اُس ساحل تک اپنا جہاز لے جاتا ہے۔ یا ہوائی جہاز کا پائلٹ ایک براعظم سے اڑ کر دوسرے براعظم میں اترتا ہے تو اس عمل کے پیچھے سینکڑوں سال کے انسانی تجربات کا علم شامل ہوتا ہے۔
چڑیاں اس طرح کا کوئی ذریعہ علم نہیں رکھتیں ۔ وہ اس قسم کے ذریعہ معلومات سے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہیں۔ چڑیوں کے اندر باہم تبادلۂ خیال نہیں ہوتا جس طرح انسانوں کے اندر ہوتا ہے۔ اس بنا پر چڑیوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ ایک چڑیا دوسری چڑیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنی معلومات کو بڑھائے۔ کوئی چڑیا اپنی معلومات کو کتاب کی صورت میں قلم بند نہیں کرتی کہ دوسری چڑیا اس کو پڑھ کر اس سے رہنمائی حاصل کرے۔ اس قسم کی ہر سہولت سے کامل محرومی کے باوجود یہ چڑیاں بالکل انسانوں کی مانند سفر کرتی ہیں۔ وہ اس درجہ صحت کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاتی ہیں جیسے کہ ریڈیائی کنٹرول کے ذریعہ کوئی راکٹ خلا میں چلایا جا رہا ہو۔
مہاجر چڑیوں کا مطالعہ کرنے والے ایک محقق نے لکھا ہے کہ چڑیوں کی ہجرت کی پروازیں متعین راستوں پر ہوتی ہیں۔ بعض اوقات لمبے فاصلوں پر حد درجہ عمدہ تعین کے ساتھ
The migration flights of birds follow specific routes, sometimes quite well defined over long distances (12/181).
افریقہ میں چڑیوں کی مہاجرت کا جو انداز ہے اس میں انوکھا انضباط پایا جاتا ہے۔ مثلاً بعض چڑیاں
جو ایک مخصوص حلقہ میں گھونسلے بناتی ہیں جو خط استواء پر مغرب میں سینیگال اور مشرق میں کینیا تک پھیلا ہوا ہے ، وہ خاص وقتوں میں شمال کی طرف ہجرت کر جاتی ہیں تاکہ وہ بارش کے موسم سے بچ سکیں
The migratory behaviour of birds has a unique regularity in Africa. The standard-wing night jar, which nests in a belt extending from Senegal in the west to Kenya in the east along the equatorial forest, migrates northward to avoid the wet season (12/180).
اگلے صفحہ پر ہم ایک نقشہ دے رہے ہیں۔ یہ نقشہ چڑیوں کے بین براعظمی سفر کو بتا رہا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ روس اور دوسرے یورپی علاقوں کی چڑیاں کس طرح سرد موسم میں اپنے علاقے سے نکل کر افریقہ اور ایشیا کے گرم علاقوں کی طرف جاتی ہیں۔ اس لمبے سفر میں انھیں تین سمندروں سے واسطہ پیش آتا ہے — انھیں کیسپین سمندر (Caspian Sea) اور بحراسود (Black Sea) اور بحر متوسط (Mediterranean Sea) کو پار کرنا پڑتا ہے۔ یہ چڑیاں ایسا نہیں کرتیں کہ بے خبری کے عالم میں بس اپنے مقام سے اڑ کر کسی طرف بھی روانہ ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ نہایت صحت کے ساتھ اس رخ کا تعین کرتی ہیں جو ان کے لیے موزوں ترین ہے۔ وہ نہایت صحت کے ساتھ عین وہ راستے اختیار کرتی ہیں جدھر سے جانے میں انھیں کم سے کم سمندر کے اوپر سے گزرنا پڑے۔ کیوں کہ خشکی پر بوقت ضرورت وہ نیچے اتر سکتی ہیں مگر سمندر میں اترنا ان کے لیے ممکن نہیں۔
اس نقشہ کو دائیں سے بائیں کی طرف دیکھیے۔ اس میں چڑیوں کا پہلا جھنڈ وہ ہے جو یورپ سے آتے ہوئے وہاں پہنچتا ہے جہاں ان کی راہ میں بحر کیسپین حائل ہے۔ یہاں وہ مڑ جاتی ہیں وہ بحرکیسپین کو کنارے چھوڑتے ہوئے ایک طرف قراقرم کی جانب سے اور دوسری طرف کاکیشیا کی جانب سے پرواز کر کے ایشیا میں داخل ہوتی ہیں اور اپنے مطلوبہ مقامات پر اتر جاتی ہیں۔
یہ چڑیاں ٹھیک یہی معاملہ بحرِاسود کے ساتھ بھی کرتی ہیں۔ چنانچہ ان کا جھنڈ یہاں پہنچ کر دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ان کا ایک حصہ بحراسود کے مغربی ساحل سے اور دوسرا حصہ مشرقی ساحل سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایشیائی علاقہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
Map on book
ایک ماہر طیور نے لکھا ہے کہ یہ بخوبی طور پر الگ الگ راستے غالباً چڑیوں نے اس لیے اختیار کیے ہیں کہ وہ سمندر کے اوپر لمبی پرواز سے بچ سکیں
These well-separated routes are probably a result of the stork's aversion to long flights over water (12/180).
اس کے بعد چڑیوں کے تیسرے جھنڈ کا منظر ہے۔ یہ چڑیاں بلغاریہ تک آ کر ترکی کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ پھر شام، لبنان ا ور فلسطین کے سا حلی علاقوں سے ہوتے ہوئے وہ سوئز تک پہنچتی ہیں۔ یہاں سے وہ مصر کی سرزمین میں داخل ہوتی ہیں اور پھر آگے افریقی علاقوں میں چلی جاتی ہیں۔
چڑیوں کا چوتھا جھنڈ یونان کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ جس کی خشکی لمبی نوک کی مانند بہت دور تک سمندر کے اندر چلی گئی ہے۔ یہ چڑیاں یونان اور کریٹ کی خشکی کا سہارا لیتے ہوئے سمندر میں داخل ہوتی ہیں۔ یہ سمندر کا وہ مقام ہے جو سب سے کم چوڑا ہے۔ وہ اپنے طویل سفر میں سمندر کو عین اس نقطہ پر عبور کرتی ہیں جہاں جغرافی طور پر اس کی چوڑائی سب سے کم ہو جاتی ہے۔ چڑیاں اس راستہ کو واضح طور پر اس لیے اختیار کرتی ہیں کہ انھیں کم سے کم سمندر کے اوپر پرواز کرنا پڑے۔ یعنی عین وہی وجہ جس کی بنا پر قدیم زمانہ میں انسانی قافلے بیچ سمندر میں اپنی کشتی ڈالنے کے بجائے ’’آبنائے‘‘ کے مقام پر سمندروں کو عبور کیا کرتے تھے۔
چڑیوں کا پانچواں جھنڈ وہ ہے جو آگے بڑھ کر اٹلی کے راستے پر مڑ جاتا ہے۔ وہ اٹلی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے سسلی میں داخل ہوتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دائیں اور بائیں سمندر کو چھوڑتا ہوا لمبا راستہ خشکی کے اوپر اوپر طے کرتا ہے اور پھر سسلی کے ساحل سے سمندر میں داخل ہو کر افریقہ میں پہنچ جاتا ہے۔ دوبارہ عین اسی مقام پر جہاں سمندر کی چوڑائی سب سے کم تھی۔
چڑیوں کا چھٹا جھنڈ اس نقشہ میں فرانس کی طرف جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور پھر وہ اسپین کی طرف مڑ کر خشکی کے اوپر اڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جبرالٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں وسیع سمندر صرف دس میل چوڑا رہ جاتا ہے۔ یہ چڑیاں سمندر کو عبور کرنے کے لیے اس
موزوں ترین مقام کا انتخاب کرتی ہیں۔ وہ یہاں پہنچ کر سمندر میں داخل ہوتی ہیں اور آبنائے جبرالٹر کو پار کر کے افریقہ کی زمین پر اتر جاتی ہیں۔
چڑیوں کے یہ اسفار انتہائی حد تک حیرت انگیز ہیں۔ آج کا ایک انسان جب اس قسم کا طویل سفر کرتا ہے تو وہ بہت سے علوم سے مدد لیتا ہے۔ مگر چڑیوں کے اندر نہ انسانی ذہن ہے اور نہ علوم سے مدد لینے کا انتظام۔ پھر چڑیاں کیوں کر اس قسم کے پیچیدہ اسفار میں کامیاب ہوتی ہیں ۔ ایک ماہر طیور نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے
Birds have evolved a highly efficient means for travelling swiftly over long distances with great economy of energy (12/179).
چڑیوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کے ارتقا یافتہ موثر ذریعے دریافت کر لیے ہیں تاکہ وہ لمبے فاصلوں پر کم سے کم طاقت خرچ کر کے بخوبی سفر کر سکیں۔ مگر یہ محض الفاظ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چڑیوں کے اندر یا ان کے حالات میں ہرگز ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جو یہ ثابت کریں کہ چڑیوں نے کسی ارتقائی عمل کے ذریعہ یہ صلاحیت اپنے اندر پیدا کی ہے۔
گہرائی کے ساتھ غور کیجیے تو اس معاملہ کی توجیہ کے لیے دو ہی ممکن مفروضے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان چڑیوں کو یورپ اور ایشیا اور افریقہ کے جغرافیہ کا اور اس کی خشکی اور تری کا مکمل علم حاصل ہو۔ مگر کوئی بھی تحقیق ایسا ثابت نہیں کرتی۔ ہماری تمام معلومات کے مطابق چڑیاں بذاتِ خود کسی بھی قسم کے جغرافی علم سے قطعاً نابلد ہیں۔ اس مفروضہ کو ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کہا جاتا ہے وہ محض بے بنیاد قیاس ہے جس کے حق میں کوئی علمی شہادت موجود نہیں۔
اس کے بعد دوسرا ممکن مفروضہ صرف یہ ہے کہ کوئی ’’واقفِ جغرافیہ‘‘ ان کی رہنمائی کر رہا ہو۔ یہاں کوئی مخفی قسم کا ریموٹ کنٹرول ہو جو چڑیوں کو ٹھیک اسی طرح مسلسل رہنمائی دے رہا ہو جیسے ہمارے غیر انسان بردار راکٹ کو ریڈیائی کنٹرول کے ذریعہ دور سے رہنمائی دی جاتی ہے۔ یہی دوسری صورت زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ اس عقیدہ کو پوری طرح قابلِ فہم بنا دیتا ہے جس کو آسمانی مذہب میں وحی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جانوروں کی زندگی میں ایسے واقعات ہیں جن کی توجیہ اس کے بغیر نہیں ہوتی کہ یہ مانا
جائے کہ ان کو ایک خارجی خزانۂ علم سے رہنمائی مل رہی ہے۔ اسی کا نام مذہبی زبان میں وحی ہے۔ جانوروں کی زندگی کا مطالعہ وحی کے معاملہ کو قابلِ فہم بنا دیتا ہے۔ اور قرائن کے ذریعہ کسی چیز کا قابلِ فہم ہونا ہی کافی ہے کہ اس کی واقعیت و صداقت پر یقین کیا جائے۔
وحی کے عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے مخفی ذریعہ سے ایک انسان پر اپنی رہنمائی بھیجتا ہے۔ یہ رہنمائی بتاتی ہے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیے اورکیا نہیں کرنا چاہیے۔ خدا اور بندہ (پیغمبر) کے درمیان وحی کا یہ اتصال بظاہر دکھائی نہیں دیتا ، اس لیے کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیوں کر اسے مانیں۔
مگر دوسری مخلوقات ، مثلاً مہاجر چڑیوں کے سفر کے معاملہ پر غور کر نے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ’’وحی‘‘ کی نوعیت کی رہنمائی موجود ہے۔ ان چڑیوں کا حد درجہ صحت کے ساتھ سفر کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو وحی کے معاملہ کو ہمارے لیے قابلِ فہم بنا دیتا ہے۔ کیوں کہ چڑیوں کے ان اسفار کی کوئی بھی حقیقی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ مانا جائے کہ ان کو خارج سے کوئی مخفی قسم کی رہنمائی مل رہی ہے۔ جب چڑیوں کے اپنے اندر اس کے معلوم اسباب موجود نہیں ہیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس کو خارج سے آنے والی چیز قرار دیا جائے۔
پیغمبر کا یہ دعویٰ کہ اس کو خدا کی طرف سے مخفی رہنمائی آتی ہے ، بلاشبہ عجیب ہے۔ مگر اس قسم کی مخفی رہنمائی موجودہ کائنات میں عجیب نہیں۔ یہاں دوسرے ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس قسم کی رہنمائی کائنات میں بطور واقعہ موجود ہے۔ مہاجر چڑیوں کا معاملہ ان بے شمار مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے جس کو نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کیا گیا ہے۔
موجودہ زمانہ میں علوم فطرت (Natural science) کا بہت چرچا ہے۔ لوگ فطرت کی دنیا میں انسانی دریافتوں سے حیران ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان علوم نے فطرت کے صرف کچھ ظاہری پہلوئوں کو ہمارے اوپر کھولا ہے۔ کائنات کی معنویت اس سے زیادہ ہے کہ وہ انسانی لفظوں میں بیان کی جا سکے۔
وسیع خلا میں پھیلی ہوئی دنیائیں اس سے زیادہ بڑی حقیقت کی ترجمان ہیں جو ہماری دوربینوں کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتی ہے۔ پہاڑوں کے مناظر میں اس سے زیادہ گہری داستان چھپی ہوئی ہے جو کیمرہ کی آنکھ پکڑتی ہے اور ہمیں دکھاتی ہے۔ چڑیوں کے چہچہے اس سے زیادہ بڑی کہانی سنا رہے ہیں جو ہوا کے ذریعہ ہمارے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ درخت اس سے زیادہ بڑا سبق دیتے ہیں جو لکڑی اور پھل کی صورت میں ہمیں حاصل ہوتا ہے۔
کائنات سے واقفیت کی ایک سطح وہ ہے جو انسانی علوم کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ پھر دوسری سطح کا علم حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ یہ ذریعہ وحی یا علم نبوت ہے۔ نبی ہمارے اوپر اس علم کو کھولتا ہے کہ اس کائنات کے پیچھے ایک عظیم خدا ہے۔ اس کائنات کا نظام خدا کی طرف سے غیر مرئی طور پر چلایا جا رہا ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے۔ اس کے بعد ایک اور دنیا آئے گی جو ابدی بھی ہو گی اور کامل بھی۔
اس پیغمبرانہ علم کی روشنی میں جب کائنات کو دیکھا جائے تو اب کائنات بالکل دوسری کائنات نظر آنے لگتی ہے۔ اب یہاں دیکھنے والے کو خالق کی تجلیاں نظر آتی ہیں۔ اب یہاں سننے والے کو خدائی آوازیں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ اب یہاں کی سرگرمیوں میں فرشتے حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب یہاں کے مناظر میں آخرت لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
انسانی علم کی روشنی میں کائنات منزل نظر آتی ہے۔ مگر پیغمبرانہ علم کی روشنی میں وہ گزر گاہ بن جاتی ہے۔ انسانی علم کا استعمال ہمیں صرف کائنات کی چند روزہ خوراک دیتا ہے جب کہ پیغمبرانہ علم اس کو ہمارے لیے ابدی خوراک بنا دیتا ہے۔ انسانی علم ہمیں صرف مخلوقات سے ملاتا ہے اور پیغمبرانہ علم ہم کو مخلوقات کے خالق سے ملا دیتا ہے۔
علم نبوت دراصل علم حقیقت کا دوسرا نام ہے۔
دنیا کی چیزوں کو قرآن میں آیات (نشانیاں) کہا گیا ہے۔ یعنی وہ خدا کی خدائی کا تعارف ہیں۔ یہاں مخلوقات کے آئینہ میں خالق کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں مادی واقعات میں ربانی حقیقتوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خدا کی مخلوقات گویا ایک اعتبار سے خدا کی تمثیلات ہیں۔ یہاں اس قسم کی چند تمثیلات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
آدمی کو روزانہ نیند آتی ہے اور وہ سو جاتا ہے۔ اس کو وقت پر بھوک لگتی ہے اور وہ کھانا کھاتا ہے۔ یہ سب سے زیادہ عام تجربہ ہے جو ہر انسان کو پیش آتا ہے ، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ایک عام تجربہ ہے کہ دماغ کو جب کوئی سخت جھٹکا لگتا ہے تو نیند اور بھوک دونوں اڑ جاتی ہیں۔ اب رات آتی ہے مگر آدمی سو نہیں پاتا۔ کھانے کا وقت آتا ہے مگر اشتہا نہ ہونے کی وجہ سے آدمی کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کھانا کھائے۔
جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس پورے معاملہ کا تعلق دماغ سے ہے۔ انسان کا جسم بظاہر اسباب کا ایک نظام ہے۔ مگر یہ نظام دماغ کے حکم کے تحت عمل کرتا ہے۔ دماغ حکم دیتا ہے کہ نیند آئے اس وقت آدمی کو نیند آتی ہے۔ دماغ حکم دیتا ہے کہ بھوک لگے اس وقت آدمی کو بھوک لگتی ہے اور وہ کھاناکھاتا ہے۔ جب دماغ کسی ناگہانی سبب سے منتشر ہو جائے تو وہ اپنے معمول کے احکام نہیں دے پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی حالت میں جسم کانظام معطل ہو جاتا ہے۔ یہ انسانی واقعہ چھوٹی سطح پر زیادہ بڑے واقعہ کا نمونہ ہے۔ یہ خدا کی خدائی کو سمجھنے میں ہماری مدد کررہا ہے۔
دماغ کا جو تعلق جسم سے ہے، وہی تعلق خدا کا پوری کائنات سے ہے۔ کائنات بظاہر ایک مکمل نظام ہے۔ اس کا ڈھانچہ اسباب و علل کا ایک کارخانہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر ان سب کے اوپر ایک برتر دماغ ہے اور وہ خدا وندِ عالم کی ذات ہے۔ دنیا کا ہر واقعہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ خدا اس کا حکم دے۔ رات اور دن کا آنا ، فصل کا اُگنا ، بارش کا برسنا، زندگی اور موت کے واقعات سب کے سب براہِ راست خدا کی طرف سے کنٹرول ہو رہے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں یہ پورا کا پورا كُنْ فَيَكُونُ کا نظام ہے۔یعنی، خدا جس چیز کو کہتا ہے کہ ہو، وہ ہو جاتی ہے۔ اور خدا جس چیز کے ہونے کا حکم نہیں دیتا
وہ نہیں ہوتی (البقرہ،
موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں کے مادی واقعات معنوی حقیقتوں کی تمثیل بن گیے ہیں۔ دماغ اور جسم کا تعلق خدا اور کائنات کے تعلق کی تمثیل ہے۔ آدمی اگر چاہے تو خود اپنی ذات میں خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ نہ چاہے تو ساری کائنات بھی اس کو معرفت تک پہنچانے کے لیے کافی نہیں۔
نئی دہلی کی بعض سڑکوں پر سواریوں کو کنٹرول کرنے کا نیا نظام قائم کیا گیا ہے۔ یہاں سڑک کے اوپر ٹیلی ویژن کیمرے نصب ہیں جو آنے جانے والی سواریوں کا مسلسل فوٹو لیتے رہتے ہیں۔ یہ فوٹو مشینی انتظام کے ذریعہ ایک علیحدہ کمرہ (کنٹرول روم) میں پہنچتے ہیں جہاں ایک سرکاری انسپکٹر لوگوں کی نظروں سے دور بیٹھا ہوا ان کی تمام حرکات کو اسکرین پر دیکھتا رہتا ہے۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے آپ کسی منظر سے دور رہتے ہوئے اس کو اپنے گھر کے ٹیلی ویژن سیٹ پر دیکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ سڑک پر لائوڈ اسپیکر لگے ہوئے ہیں۔ بند کمرہ میں بیٹھا ہوا آدمی جب کسی مسافر کو غلط چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو فوراً وہ لائوڈ اسپیکر پر اس کو متنبہ کرتا ہے۔ مسافر بولنے والے کی آواز سنتا ہے ، اگرچہ وہ بولنے والے کو نہیں دیکھتا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ ایک ڈرائیور جو تین پہیہ والا اسکوٹر رکشہ چلا رہا تھا، اس نے اپنا اسکوٹر ایک ایسے مقام پر کھڑا کیا جہاں گاڑی کھڑی کرنا منع تھا۔ انسپکٹر نے اپنے کمرے کی اسکرین پر اس کو دیکھا اور فوراً لائوڈ اسپیکر پر بولتے ہوئے چیتائونی دی کہ تم نے اپنا اسکوٹر ممنوع مقام پرکھڑا کر دیا ہے ، فوراً وہاں سے ہٹ جائو۔ اسکوٹر ڈرائیور کے کان تک آواز پہنچی مگر اس نے اس کی پروا نہ کی۔ کیوں کہ آس پاس اس کو پولیس کی وردی پہنے ہوئے کوئی شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ مذکورہ مشینی نظام چوں کہ ابھی حال میں نصب کیا گیا ہے اس لیے ڈرائیور کو اس کی خبر نہ تھی۔ اعلان کے الفاظ فضا میں گونج رہے تھے مگر اس نے سنجیدگی کے ساتھ اس کو سمجھنے کی بھی کوشش نہ کی۔ دوسری طرف انسپکٹر اس کی حرکات کو برابر اپنی اسکرین پر دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ ڈرائیور اس کی ہدایت کو نظراندازکر رہا ہے تو اس نے اپنے پاس سے ایک سپاہی کو بھیجا کہ ڈرائیور کو پکڑو اور اس کا نمبر دیکھ کر اس کا چالان کرو۔ سپاہی جب ڈرائیور کے پاس پہنچا تو اس نے اپنی غلطی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنا اسکوٹر یہاں کھڑا نہیں کیا۔ میں تو سواری اتارنے
He was left speechless
New Delhi, February 19-Caught by the camera!
A three-wheeler scooter-rickshaw driver was left without an excuse when a video tape-recording of his movements was shown to him a few days ago.
The sub-inspector controlling traffic with the newly installed. closed circuit television cameras spotted on his monitor a TSR driver parking his vehicle at the ''No Parking'' place at one of the crossings.
He made announcements over the public-address system, but the driver would not listen. The SI then sent a policeman to challan the driver. The driver, protesting that he had parked his vehicle just for a minute to drop a passenger, came over to the Central Control room to meet the SI.
The SI after listening to his arguments, showed him the video tape-recording of what all he had been doing since the time he parked his vehicle. When the driver saw himself loitering about, talking with his friends, all picturised clearly on the screen, he was left speechless.
The Hindustan Times, February 20,1980
کے لیے صرف ایک منٹ رکا تھا اور اب اپنے راستہ پر آگے جا رہا ہوں۔
اس کے بعد سپاہی اس کو انسپکٹر کے پاس کنٹرول روم میں لے گیا۔ انسپکٹر کے سامنے بھی ڈرائیورنے وہی بات کہی جو اس نے سپاہی سے کہی تھی۔ انسپکٹر نے جب دیکھا کہ ڈرائیور اپنے جرم کا اقرار نہیںکر رہا ہے تو اس نے اپنی مشین کو پیچھے کی طرف گھمایا اور ڈرائیور کی فلم اس کے سامنے چلا دی۔ اچانک اسکرین پر ڈرائیور اور اس کا اسکوٹر دکھائی دینے لگا۔ اب ڈرائیور مشین کے سامنے کھڑا ہوا اپنی تمام سابقہ حرکات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اپنا اسکوٹر چلاتے ہوئے آیا۔ پھر اس کو نظر آیا کہ وہ اپنا اسکوٹر اس مقام پر کھڑا کر رہا ہے جہاں گاڑی کھڑا کرنا منع تھا۔ اس کے بعد وہ اسکوٹر سے باہر آیا اور دیر تک بے فکری کے ساتھ اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔ وہ اطمینان کے ساتھ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا اور سگریٹ پی رہا تھا۔ یہاں تک کہ انسپکٹر کا بھیجا ہوا سپاہی اس کے پاس آ گیا۔ اب اس نے جلدی سے اپنا اسکوٹر اسٹارٹ کر دیا اور ظاہر کیا کہ وہ تو راہ چلتے ہوئے ایک منٹ کے واسطے یہاں رکا تھا اور اب آگے جا رہا ہے۔ یہ ساری کہانی متحرک تصویروں کی صورت میں ڈرائیور نے ا پنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ اس سے پہلے ڈرائیور نے انسپکٹر کی باتوں کا انکار کر دیا تھا۔ اس کے پاس اپنی برأت ظاہر کرنے کے لیے بے شمار الفاظ تھے۔ مگر اسکرین نے جب اس کے ماضی کی پوری داستان اس کے سامنے ہوبہو دہرا دی تو اچانک اس کی زبان بند ہو گئی۔ اس کے الفاظ کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔ اس منظر کو دیکھ کر اس کا ایسا حال ہوا جیسے وہ گونگا ہو گیا ہے اور اب اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کا جرم اتنا زیادہ ثابت ہو چکا تھا کہ اب اس کو یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ میں مجرم ہوں۔ وہ خاموش تھا مگر اس کی خاموشی ہر گفتگو سے زیادہ یقینی صورت میں اس کے جرم کا اقرار بن گئی تھی (ہندستان ٹائمس، 20 فروری 1980ء) ۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے — کہہ دو کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔ وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تب تم اس کو پہچان لوگے جس کی تمہیں خبر دی جا رہی ہےوَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا(
ساتھ دینا اس کو ایسا کام نظر آتا ہے جس کی اسے کوئی ضرورت نہ ہو۔ مگر اس کی پوری زندگی حتیٰ کہ اس کے دل کے ارادے بھی خدا کے چھپے ہوئے انتظام کے تحت ریکارڈ کیے جا رہے ہیں۔ قیامت جب آئے گی تو آدمی کے سامنے اس کی سابقہ زندگی کی یہ فلم اس طرح دُہرا دی جائے گی کہ وہ اپنی سوچ، اپنا قول اوراپنا عمل سب کچھ آنکھوں سے دیکھے گا اور کانوںسے سنے گا۔ اس وقت انسان کا جو حال ہو گا اس کاایک معمولی نقشہ مذکورہ اسکوٹر ڈرائیور کے انجام میں نظر آ رہا ہے۔ آدمی اس وقت اتنا بدحواس ہو گا کہ وہ اپنے الفاظ بھول جائے گا۔ اس کے دلائل اس وقت بالکل بے معنیٰ معلوم ہوں گے۔ اس کا انکار اس وقت ایک ایسی چیز کا انکار بن جائے گا جو ساری کائنات میں اسی طرح معلوم اور ثابت شدہ بن چکا ہو جیسے ہمارے سروں پر چمکنے والے سورج اور چاند۔
امریکا کے خفیہ محکمہ (N.S.A) کے ایک سابق افسر نے ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہےThe Puzzle Palace ۔اس کتاب میں اس کے مصنف نے بڑے دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ ان میں سے ایک کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
اندازہ کیا گیا ہے کہ امریکا سے بھیجے جانے والے ٹیلی فون، ٹیلکس اور تار کے پیغامات کی تعداد ہر روز ایک ملین سے زیادہ ہوتی ہے۔ جدید نظام کے مطابق یہ پیغامات پہلے ورجینیا کے زمینی اسٹیشن (earth station) پر موصول ہوتے ہیں۔ وہاں سے وہ مصنوعی سیارہ کی طرف بھیجے جاتے ہیں جو 2300 میل اوپر زمین کے چاروں طرف گھوم رہے ہیں۔ یہ سارا عمل فی الفور ایک سیکنڈ سے بھی کم وقفہ میں انجام پاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مشینی پیغام جو امریکا سے باہر جاتا ہے یا امریکا کے اندر آتا ہے وہ اصل مخاطب تک پہنچنے سے پہلے امریکی حکومت تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ امریکا کا خفیہ محکمہ جن لوگوں کے پیغامات کو جاننا چاہتا ہے ، ان کا نمبر وہ زمینی اسٹیشن کے دفتر میں دے دیتا ہے۔ یہاں مذکورہ افراد کی گفتگوئیں اور پیغامات خودکار آلات کے ذریعہ ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں۔ گویا آپ اگر واشنگٹن سے دہلی کے لیے ٹیلی فون کریں تو آپ کے منہ سے جو الفاظ نکلیں گے ، قبل اس کے کہ آپ کا مخاطب ان کو سنے، امریکا کی حکومت ان کو سن چکی ہو گی۔
ٹائمس آف انڈیا (19 دسمبر 1982ء) کے امریکی نامہ نگار نے اس کی رپورٹ دیتے ہوئے اس کا عنوان قائم کیا ہے۔ ہوشیار! ممکن ہے کہ امریکا آپ کی بات سن رہا ہو
Careful, Unlce Sam may be listening.
اس قسم کے واقعات خدا کی نشانی ہیں۔ وہ اس لیے ہو رہے ہیں تاکہ آدمی اپنی زبان کو احتیاط کے ساتھ استعمال کرے۔ایک آدمی دوسرے آدمی سے ایک غلط بات کہتا ہے اور وہ سمجھتاہے کہ میں صرف ایک آدمی سے کہہ رہا ہوں مگر آدمی کو جاننا چاہیے کہ اس کی بات اس کے مخاطب سے پہلے خدا تک پہنچ رہی ہے۔ مذکورہ واقعہ زبان حال سے کہہ رہا ہے— اے انسان، ہوشیار رہ، کیوں کہ تیری ہر بات کو خدا سن رہا ہے۔
موجودہ زمانے نے انسانی لغت میں جن نئے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک ریموٹ کنٹرول (remote control) ہے۔ یعنی دور سے کسی ظاہری واسطہ کے بغیر کنٹرول کرنا۔
موجودہ زمانہ میں بہت سی ایسی صورتیں پیدا ہو گئی ہیں جن میں سگنل یا پیغام تاروں پر نہیں بھیجا جا سکتا۔ مثلاً حرکت کرنے والی سواریاں جیسے ہوائی جہاز یا خلائی جہاز وغیرہ۔ ان حالات میں مشین کو حسب منشا چلانے کے لیے ریموٹ کنٹرول یا ریڈیو کنٹرول کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
ایسے حالات میں کوڈ کی صورت میں سگنل بھیجے جاتے ہیں۔ متعلقہ مشین میں ایک رسیور ہوتا ہے جو مطلوبہ فریکوئنسی پر اس کو وصول کرنے کے لیے ہر آن متحرک رہتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں یہ طریقہ بہت سے کاموں میں کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے۔
ریموٹ کنٹرول کا طریقہ اب اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ خلا میں اپنے مدار پر گھومنے والی مشینوں کو زمین سے نہایت صحت کے ساتھ ہدایات بھیجی جاتی ہیں اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اگر ان کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو کسی مادی واسطہ کے بغیر محض ریڈیائی لہروں کے ذریعہ ان کو زمین ہی سے درست کر دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اس ایجاد نے تخریب کاروں کو بھی جدید مواقع فراہم کر دیے ہیں۔ چنانچہ
Tokyo, June 26,1985,1985 (Kyodo)
Want your curtains to open and close at home while you are on vacation? Or to make sure that the front door is locked? Or to turn on the air conditioner just before you get home? You can do it all, by telephone, with Japanese made home automation equipment.
''Telecontrol systems'' can be hooked up too many appliances, including air conditioners, electric locks, rice cookers and lights. The new home automation products also include security systems to guard against fire or theft through electronic sensors, multi-function ''intelligent'' telephones for telecommunications, and intercoms linking rooms. The telecontrol system allows the user to turn appliances on or off, and to check for fire leaks or theft with special censors that send coded signals through a push-button telephone.
The Hindustan Times (New Delhi) June 27,1985, p.
Nineteenth-century clipper-ship captains looked to the stars to steer their course. Many modern skippers rely on Loran, a land-based navigation system using radio waves. Loran, however, has definite limitation: the system's radio Transat sunset. In the future, many high-tech ships will chart their paths using an advanced navigational method called GPS.
The system, developed by the U.S. military, will consist of a global network of 18 satellites. Using a $
Newsweek, September 16,1985, p.5
پاس جو بم پھٹا وہ دور سے کنٹرول کیا جانے والا ایک بم (remote-controlled bomb) تھا۔
ریموٹ کنٹرول کا یہ نظام ایک معنوی حقیقت کا مادی مظاہرہ ہے۔ یہ ایک عملی مثال کی صورت میں بتا رہا ہے کہ خدا کس طرح پھیلی ہوئی کائنات کو بلاواسطہ کنٹرول کرتا ہے اور کس طرح اس کو اپنی منشا کے مطابق چلا رہا ہے۔ ریموٹ کنٹرول ریڈیو اگرچہ ایک انسانی واقعہ ہے مگر اس نے عظیم تر خدائی واقعہ کو ہمارے لیے قابل فہم بنا دیا ہے۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ جب آپ چھٹیوں میں اپنے گھر سے باہر ہوں اس وقت بھی آپ اپنے دروازوں کے پردے کھولیں اور بند کر سکیں۔ یا گھر سے دوررہتے ہوئے بھی آپ اطمینان کر سکیں کہ آپ کے بیرونی دروازہ کا تالہ بند ہے یا نہیں۔ اسی طرح کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ اپنے گھر واپس پہنچنے سے پہلے اپنے گھر کا ائیرکنڈیشنر چلا دیں۔
یہ سب کام آپ کر سکتے ہیں۔ جاپان کے بنائے ہوئے خودکار آلات کو اپنے گھر میں نصب کر کے آپ ٹیلیفون کے ذریعہ یہ سب کر سکتے ہیں جب کہ آپ کا گھر خالی ہو۔
اس مشینی نظام کا نام ٹیلی کنٹرول سسٹم ہے۔ اس نظام کو گھر کی مختلف چیزوں سے وابستہ کیا جا سکتا ہے ، بشمول ایئرکنڈیشنر، الیکٹرک تالے ،پریشر کوکر اور لائٹ۔
گھر کے نئے خودکار سامانوں میں اور بھی کئی چیزیں شامل ہیں ، مثلاً آگ یا چوری کے خلاف برقی آلات کے ذریعہ حفاظت۔ اسی طرح دور سے رابطہ قائم کرنے والا ’’ذہین‘‘ ٹیلیفون اور انٹرکام جو مختلف کمروں کو مربوط کرتا ہے۔
ٹیلی کنٹرول نظام کے ذریعہ آدمی گھرکے برقی سامانوں کو کھول سکتا ہے یا ان کو بند کر سکتا ہے۔ وہ آگ کا پتہ کر سکتا ہے۔ گیس کے نکلنے کو معلوم کر سکتا ہے یا مخصوص آلات کے ذریعہ چوری کا پتہ کر سکتا ہے جو کوڈ کی شکل میں پیغامات بھیجتے ہیں۔
خدا کائنات کو کنٹرول کرتا ہے جب کہ وہ کائنات کے باہر ہے ، وہ ایک محدود انسان کی مانند کائنات کے اندر موجود نہیں۔ یہ بات پہلے صرف ایک عقیدہ تھی مگر آج وہ ایک ایسی حقیقت بن گئی ہے
جس کو ہم اپنے معلوم واقعات کے ذریعہ نہایت آسانی کے ساتھ قیاس کر سکتے ہیں۔ مذکورہ ٹیلی کنٹرول نظام ایک گھر کی سطح پر اسی واقعہ کا گویا ایک ابتدائی مظاہرہ ہے، جس کو خدا نے وسیع تر کائنات کی سطح پر زیادہ کامل انداز میں قائم کر رکھا ہے۔
آجکل جو موٹرکاریں سڑکوں پر دوڑتی ہیں وہ زیادہ تر اسی مشینی اصول پر بنائی گئی ہیں جو نکولاس آٹو (Nikolaus Otto) نے 1876 میں وضع کیا تھا۔ تاہم پچھلے برسوں میں کار کی دنیا میں ایک نیا انقلاب آیا ہے۔ اب ایسی کاریں بن رہی ہیں جن کے انجن کے ساتھ ایک کمپیوٹر لگا ہوتا ہے اور وہ بہت سے کام خودبخود انجام دیتا ہے۔
مثلاً وہ بتاتا ہے کہ — سیٹ بلٹ باندھ لیجیے، ایک دروازہ ٹھیک سے بند نہیں ہے ، آپ کی ٹنکی میں ایندھن کم ہے وغیرہ۔
انھیں نئی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ ڈرائیور اپنی کار کو زبانی ہدایات دے سکتا ہے۔ وہ ہاتھ سے کوئی پرزہ چھوئے بغیر زبان سے الفاظ بول کر اس کو کوئی حکم دے سکتا ہے۔ امریکی جرنل اسپین (Span) کی مئی 1984ء کی اشاعت میں اس سلسلہ میں ایک رپورٹ شائع کرتے ہوئے حسب ذیل الفاظ درج کیے گئے ہیں
...and you can talk to the cars. The Ford Motor Company has developed a system in which voice commands turn on car lights, raise the antenna, start the windshield wipers, or activate other electrical systems.
اور آپ اپنی کار سے بات کر سکتے ہیں۔ فورڈ موٹر کمپنی نے ایک سسٹم تیار کیا ہے جس کے ذریعہ زبانی حکم سے کار کی لائٹ جل جاتی ہے ، انٹینا اٹھ جاتا ہے ، وائپرس چلنے لگتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے برقیاتی نظام متحرک ہو جاتے ہیں۔
یعنی ڈرائیور کو لائٹ جلانی ہے تو وہ اس کا بٹن نہیں دبائے گا بلکہ کہے گا ’’لائٹ جل جا‘‘ اور لائٹ جل جائے گی۔ ڈرائیور کو وائپر چلانا ہے تو وہ اس کے لیے کسی بٹن پر اپنا ہاتھ نہیں لے جائے گا بلکہ کہے گا‘‘ وائپر چل جا‘‘ اور اس کے فوراً بعد وائپر چلنے لگے گا۔
اس مشینی واقعہ سے قرآن کی آیت كُنْ فَيَكُونُ(
Modern communication has reached the sophistication of computerised telephone systems in the developed countries.
In a good many towns in the US, for instance, a system called ''enhanced 911'' has been installed. The number 911 has to be dialled in that country in an emergency for the caller to summon help.
With enhanced 911, a telephone company is now able to trace the originating number of the call and the caller's address instantly even without the caller saying a word! Such instant tracing has already led to timely help in a number of cases in which the callers were not able to say where they were called from.
It has been possible for some time to trace calls quickly. But it has been only in the last year or so that completely integrated systems, in which numbers can be immediately identified and converted to addresses, could be installed in small and medium-sized towns.
This has been possible thanks to a sharp drop in computer prices. Even New York now wants to install one. They system's computer is so efficient that after tracing the call it can itself determine whether the emergency relates to the city's police, fire, or ambulance department.
In Orlando, Florida, a panic-stricken woman caller dialled 911 but could not say a word before hanging up. Gunshots, however, were clearly audible. Within minutes police cars were on their way to the correct address and the culprit- an enraged gun-toting relative to the woman-was apprehended.
In another case, a deaf and dumb person could summon help in similar fashion in an emergency.
The Times of India, (New Delhi) April 16, 1985
ہو گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح منہ سے نکلی ہوئی آواز بھی کسی چیز کو وجود میں لاتی ہے۔ اور ایک پورے نظام کو متحرک کر دیتی ہے۔ خدا کے کن فیکون کی اصل حقیقت کو انسان نہیں جان سکتا۔ تاہم موجودہ زمانہ کے مشینی واقعات نے اس کو نہ سمجھنے والوں کے لیے سمجھنے کے قابل بنا دیا ہے۔
ڈاکٹر آرلین کارنی (Arlene Carney) امریکا کی الیونائز یونیورسٹی میں سمعیات کے ماہر ہیں۔ ان کی تحقیق یہ ہے کہ انسان کے گرد و پیش جو آوازیں بلند ہوتی ہیں وہ انسان کی کھال پر اسی طرح نقش ہوتی رہتی ہیں جس طرح ریکارڈ کے اوپر آواز نقش ہو جاتی ہے۔ پروفیسر موصوف نے تجربات کے بعد بتایا ہے کہ مخصوص آلات کے ذریعہ کھال پر منقوش لہروں کو دہرایا جا سکتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے ریکارڈ کی آواز کو گراموفون میں دہرایا جاتا ہے۔
(الرسالہ انگریزی، دسمبر 1984، صفحہ
پروفیسر موصوف نے اس کو کھال کی آواز (skin speech) کا نام دیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جن لوگوں کے کان کا پردہ خراب ہو گیا ہو اور وہ آوازوں کو صحیح طور پر پکڑ نہ پاتے ہوں وہ مخصوص الیکٹرانک آلات کے ذریعہ اپنی کھال کواپنے کان کا بدل بنا سکتے ہیں اور کھال پر مرتسم آواز کی لہروں کے ذریعہ اسی طرح بات کو سن سکتے ہیں جس طرح کان کے ذریعے کوئی شخص سنتا ہے (ٹائمس آف انڈیا، 30 مئی 1984ء) ۔
اس تحقیق کو سامنے رکھیے اور پھر قرآن کی سورہ حم السجدہ کی ان آیتوں کو پڑھئے جن میں بتایا گیا ہے کہ
’’اور جس دن اللہ کے دشمن آگ کی طرف لائے جائیں گے۔ پھر جب وہ آ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں سب ان کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ وہ لوگ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے کیوں ہمارے خلاف گواہی دی۔ وہ جواب دیں گی کہ اللہ نے ہم کو گویائی دی ہے جس طرح اس نے ہر چیز کو گویائی دی ہے۔ اور اسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ اور تم دنیا میں اپنے آپ کو اس سے چھپا نہ سکتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اورتمہاری کھالیں تمہارے خلاف گواہی نہ دیں مگر تم نے گمان کیا کہ اللہ کو اس کی خبر ہی نہیں جو تم کرتے ہو۔ اور تمہارے اسی گمان نے جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیاتھاتم کو برباد کیا ، پھر تم گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گئے‘‘ (
امریکی پروفیسر کی مذکورہ تحقیق نے آج کے انسان کے لیے اس بات کو قابل فہم بنا دیا ہے کہ کس
طرح انسان کی کھال اس کے اعمال کا ریکارڈ ہے اور وہ قیامت کے دن انسان کے خلاف ایسی گواہ بن جائے گی جس کو جھٹلانا کسی طرح ممکن نہ ہو۔
یہ دریافت ایک طرف قرآن کے کتاب خدا وندی ہونے کا ایک حیرت انگیز ثبوت ہے۔ دوسری طرف یہ ایسی سنگین حقیقت ہے کہ اگر وہ کسی کے دل میں بیٹھ جائے تو اس سے ظلم اور سرکشی کا مزاج چھین لے۔
اس سے پہلے کسی مشین کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہوتا تھاکہ آدمی اپنا ہاتھ اس کی سوئچ تک لے جائے۔ سوئچ کو دبا کر ہی کسی مشین کو متحرک کیا جا سکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں ایک نیا سائنسی شعبہ وجوہ میں آیا ہے جس کو اسپیچ ٹیکنالوجی کہتے ہیں، یعنی بات چیت کی ٹیکنالوجی۔ یہ ایک قسم کا مشینی کلام ہے۔ آپ اپنی زبان سے صرف لفظی حکم دیں اور مشین اپنا کام کرنے لگے گی۔ یہ فن اتنی تیزی سے ترقی کر رہا ہے کہ امریکا میں مستقل میگزین نکل رہا ہے جس کا نام ہے اسپیچ ٹیکنالوجی میگزین۔
گھریلو سامانوں میں ایسے سامان بنائے گئے ہیں کہ آپ اپنی زبان سے کہیں کہ روشنی بجھا دو اور مشینی نظام روشنی بجھا دے گا۔ آپ کو اپنے کمرے کی صفائی کرنا ہے تو آپ مشینی انسان (روبوٹ) سے زبانی طور پر کہیں گے کہ کمرہ کی صفائی کر دو اور وہ مشینی جھاڑو کے ذریعہ کمرہ کی صفائی کرنے لگے گا۔
امریکا کے بازار میں ایسے ٹیلی فون فروخت ہو رہے ہیں کہ آپ زبانی طور پر کہیں کہ فلاں جگہ کا نمبر ملائو اور وہ اپنے آپ وہاں کا نمبر ملا دے گا۔ شکاگو ائیر پورٹ پر مختلف مقامات کے لگج کی تقسیم اس طرح کی جا رہی ہے کہ آدمی زبان سے جگہ کا نام لیتا ہے اور کمپیوٹر فوراً اس کو مذکورہ جگہ کے خانہ میں پہنچا دیتا ہے۔ تاہم اس قسم کی مشینیں ابھی اتنا زیادہ قیمتی ہیں کہ عام آدمی ان کی خریداری کا تحمل نہیں کر سکتا۔ صرف حکومتیں یا بڑے بڑے تجارتی ادارے ہی ان کو خرید کر اپنے یہاں رکھ سکتے ہیں (ٹائمس آف انڈیا، 6 ستمبر 1985ء) ۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ — اللہ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ ہو جاتا ہے (
Speech Technology
You just say it and it will be done. That is a not a sales lines from any enthusiastic service retailer. Thanks to the advancement of ''speech technology'', the time has already come when machines can be expected to operation just verbal command. Among domestic appliances today, some can turn off lights while other robots can use vacuum cleaners on being told to do so. Two kinds of telephones, which are already in the market in the United States, offer to place calls upon spoken commands like'' call the offices''. Such products are reaching beyond the consumer sector. Speech chips are being used by the military, by doctors and by consumer sector. Speech chips are being used by the military, by doctors and by industries. At Chicago's international airport, luggage these days is routed to appropriate destinations by handlers calling out the name of the place to a computer that just sends the bag to the correct container.
Speech technology includes speech synthesis—or the science of teaching computer chips how to talk—and speech recognition —the science of teaching them to listen. Synthesising a voice is an easier task. Getting robots to listen has also progressed substantially, though speech chips today are generally dependent on particular speakers. In other words, they can be used by one person only. Research is going on to create a system that would respond to anyone's voice. If all this sounds like faddish gimmickry, it would be useful to listen to the voice of Speech Technology magazine. It estimates the industry’s current size at $ 450 million, which may grow to $ 1 billion by 1990 in the United States. Meanwhile, the Japanese too are hard at work teaching their machines how to talk and listen. (The Times of India, September 6, 1985)
Since the dawn of the auto age 2,000 companies have produced nearly 5000 makes of cars in the U.S. but the theory of auto operation has changed little over the last century—most cars still run on the four-stroke internal-combustion engine design today's cars do ride more smoothly, use less fuel, last longer, handle and require less maintenance than those of 15 to 20 years ago. The biggest advance in cars comes in a small size—a micro-processor. Hidden in on-board computer in the latest cars, they regulate car operations and warn of malfunctions. Why, cars even talk today—and may be one day they'll even argue. Synthesized commands instructor rebukes the driver: 'please fasten your seat bells,'' ''A door is ajar,'' ''Your fuel is low. ''And you can talk to the cars too. The Ford Motor Company has developed a system by which voice commands turn on lights, raise the antenna, start the windshield wiper, or activate others electrical systems. (Span, May, 1984)
تھی کہ لفظ بولنے سے کس طرح عملی واقعات ظہور میں آئیں گے۔ مگر آج اسپیچ ٹکنالوجی نے اس کو بالکل قابل فہم بنا دیا ہے۔ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو ایک بڑی حقیقت کا چھوٹی سطح پر مظاہرہ کر رہی ہے۔
یہ واقعہ نئی دہلی میں
کناٹ پلیس کے ہوٹل تاج میں ایک تقریب تھی۔ یہ تقریب دہلی کے ایک تاجر مسٹر ایس پی سونی نے اپنے لڑکے کی شادی کے سلسلہ میں نہایت اہتمام کے ساتھ منعقد کی تھی۔ شرکا کی تعداد تقریباً چار سو تھی جو سب کے سب اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
لوگ تقریب کی رونقوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ اچانک ایک خاتون نے محسوس کیا کہ اس کا پرس چوری ہو گیا ہے۔ یہ مسز سنتوش سونی کا پرس تھا۔ اس میں پچاس ہزار روپے نقد رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کے اندر ایک قیمتی ہار بھی تھا جو خالص موتیوں کا بنا ہوا تھا۔
چوری کے واقعہ کونہ پرس کی مالکہ نے دیکھا اور نہ دوسرے شرکا اس کو محسوس کر سکے۔ بظاہر یہ مکمل طور پر ایک راز تھا۔ چوری کرنے والا چوری کر چکا تھا۔ اور جس کی چوری ہوئی تھی اس کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا تھاکہ وہ اپنی خوشیوں کو غم میں تبدیل کر کے اپنے گھر واپس چلی جائے۔ حتیٰ کہ ہوٹل کے ذمہ دار یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ چوری کا واقعہ ہوا ہے۔ انھوں نے کہاکہ یہ بنائوٹی بات ہے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہوٹل والوں کی نظر میں یہ قصہ اتنا بے بنیاد تھا کہ انھوں نے اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی کہ ہال کا دروازہ بند کر کے لوگوں کی تلاشی لیں۔
اتنے میں بعض افراد کو خیال آیا کہ شادی کی تقریب شروع سے آخر تک (video film) پر ریکارڈ کی گئی ہے ، کیوں نہ اس کا معائنہ کیا جائے۔
فوراً تقریب کے شرکا اور ہوٹل کے ذمہ داروں کے سامنے ویڈیو ٹیپ چلایا گیا۔ اس سے پہلے تمام شرکا کی نگاہیں زرق برق اسٹیج پر لگی ہوئی تھیں جہاں دولھا اور دلہن رونق افروز تھے۔ مگر اب ان کی توجہ کا مرکز دوسرا تھا۔ جس منظر کو اس سے پہلے انھوں نے صرف تفریح کی نظر سے دیکھا ،
اب اس کو انھوں نے تفتیش کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔
بہت جلد لوگوں کی نگاہیں ایک عورت پر جم گئیں جو ایک لڑکے کے ساتھ آیا کے روپ میں ہال کے اندر داخل ہوئی تھی۔ ابتداء میں لوگوں نے یہ سمجھ کرنظر انداز کر دیا تھا کہ وہ معزز مہمانوں میں سے کسی مہمان کے ساتھ آئی ہے۔ مگر اب اس کو ایک امکانی مجرم کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔
یہ عورت جو آیا کے روپ میں آئی تھی وہ اس سے بالکل بے خبر تھی کہ یہاں ویڈیو کیمرہ نصب ہے اور اس کی نظریں ہر لمحہ اس کو دیکھ رہی ہیں۔ وہ اس کی ہر حرکت کا نہایت باریکی کے ساتھ ریکارڈ کر رہی ہیں۔ وہ مشتبہ انداز میں اِدھر سے اُدھر جا رہی تھی۔
آخرکار لوگوں نے دیکھا کہ اس ’’آیا‘‘ نے شال میں چھپا ہوا اپنا ہاتھ باہر نکالا اور نہایت تیزی سے مذکورہ پرس کو اٹھا کر عین اس وقت اس کو اپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا جب کہ پرس کی مالکہ فوٹو کھنچوانے کے پروگرام میں کھوئی ہوئی تھی۔
جو واقعہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا اس کو ویڈیو کیمرہ کی نگاہ نے بتا دیا جو مجموعی طور پر سارے منظر کی تصویرکشی کر رہا تھا۔ فوراً پولیس بلا لی گئی اور پولیس کے سامنے دوبارہ پوری فلم چلائی گئی۔ جرم ثابت ہو گیا تھا۔ مذکورہ عورت کو پولیس نے تلاش کر کے گرفتار کر لیا۔ اس کا نام اخبار میں شیلا بتایا گیا ہے جو سلطان پوری کی رہنے والی ہے۔ ہندستان ٹائمس (
You can not only spot the thief
but see her commit the crime
آپ نہ صرف چور کو پکڑ سکتے ہیں بلکہ اس کو جرم کرتے ہوئے دیکھ بھی سکتے ہیں۔
یہ دنیوی واقعہ آخرت کے واقعہ کا آئینہ ہے۔ یہ واقعہ تمثیل کے انداز میں بتا رہا ہے کہ کوئی بالاتر دیکھنے والا ہے جو ہر ایک کو دیکھ رہا ہے۔ وہ ان باتوں کو نہایت باریکی کے ساتھ ریکارڈ کررہا ہے جس کی خبر نہ قریب کے لوگوں کو ہوتی اور نہ دور کے لوگوں کو۔ وہ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جس کو لوگ نہیں جانتے۔ وہ ان چیزوں کو بھی دیکھتا ہے جن کو لوگ نہیں دیکھتے۔
دنیا کے واقعات آخرت کی حقیقتوں کا آئینہ ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ان
واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے جو کل کے دن پیش آنے والے ہیں۔ مگر اس مشاہدہ کے لیے بصیرت کی نگاہ درکار ہے۔ اور یہ وہ چیز ہے جو آنکھ والوں کے پاس بھی اکثر موجود نہیں ہوتی
ترقی یافتہ ملکوں میں اب ایسے ٹیلیفون استعمال ہو رہے ہیں جن کے ساتھ کمپیوٹر کا پیچیدہ نظام وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مواصلات کا نظام بالکل نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کے بہت سے شہروں میں ایک نیا ٹیلیفون سسٹم پچھلے ایک سال کے اندر رائج ہوا ہے۔ یہ ٹیلیفون صرف تین گنتیوں پر انگلی مارنے سے عمل کرتا ہے—
فلوریڈا کاواقعہ ہے کہ ایک گھبرائی ہوئی عورت نے
ان مثالوں میں کمپیوٹر نے مجرد کال کو اس کے ٹیلیفون نمبر میں تبدیل کیا۔ پھر ٹیلیفون نمبر کو گھر کے پتہ میں بدلا۔ اس کے بعد اس نے بلاتاخیر وائرلیس پر پولیس کو اطلاع کر دی۔
قرآن اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بندہ جب خدا کو پکارتا ہے تو فوری طور پر بندہ اور خدا کے درمیان ربط قائم ہو جاتا ہے۔ خدا کو پکارنے اور اس سے مربوط ہونے میں کوئی وقفہ نہیں ہوتا۔
ٹیلی فونی ربط کا مذکورہ واقعہ اسی روحانی حقیقت کی مادی تمثیل ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کس طرح
ایسا ہوتا ہے کہ بندہ جب اپنے رب کی یاد سے بے قرار ہو کر اس کو بیتابانہ پکارتا ہے تو اچانک وہ اپنے آپ کو اس سے انتہائی قریب پاتا ہے۔ وہ ایک لمحہ میں اس سے مربوط ہو جاتا ہے۔
ٹائمس آف انڈیا (2 جولائی 1985ء) میں دہلی کا ایک واقعہ شائع ہواہے جس کا عنوان ہے اس سے زیادہ کہ ہضم ہو سکے۔ واقعہ کو ہم اخبار کے اصل الفاظ میں نقل کرتے ہیں
IT'S TOO MUCH TO STOMACH: Narain Das, 20, an alleged chain snatcher, swallowed his loot when he was given the chase in Greater Kailash yesterday. Narain Das removed a gold chain from around the neck of Ms Renu Saxena, a schoolteacher. According to the police, the incident occurred soon after Ms Saxena got off a bus while returning from Andrews Ganj. The suspect followed her a short distance. Two passer-by, Mr Gian Prakash, and Mr Sanjay Dutt Gupta, responding to Ms Saxena's cries, chased and overpowered the suspect. They were amazed when they were unable to find the chain. The mystery was solved when the police took the suspect to the AIIMS where an X-ray revealed the chain in his stomach.
رینو سکسینہ ایک اسکول میں لیڈی ٹیچر ہیں۔ وہ اینڈریوز گنج سے واپس آتے ہوئے بس سے اتریں۔ ان کے گلے میں سونے کی زنجیر تھی۔ بیس سالہ نرائن داس جو ایک بدنام شخص ہے اس نے رینو سکسینہ کا پیچھا کیا اور ان کی زنجیر کھینچ کر بھاگا۔ رینو سکسینہ نے شور کیا۔ ان کے شور کو سن کردو شخص مسٹرگیان پرکاش اور مسٹر سنجے دت گپتا نے ملزم کودوڑایا اور کچھ دور جا کر اس کو پکڑ لیا۔ مگر انہیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ سونے کی زنجیر اس کے پاس موجود نہیں ہے۔ یہ راز اس وقت کھلا جب پولیس نے ملزم کو اپنے قبضہ میں لیا۔ وہ اس کو آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ لے گئی۔ وہاں اس کواکسرے مشین کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ اکسرے نے بتایا کہ سونے کی زنجیر اس کے پیٹ میں موجود ہے۔ ملزم نے زنجیر کو چرانے کے بعد اس کو نگل لیا تھا۔
یہ صورت حال جو دنیا میں نظر آتی ہے یہی زیادہ بڑے پیمانہ پر آخرت میں پیش آئے گی۔ موجودہ دنیا میں لوگوں کے جرائم پر ظاہری پردے پڑے ہوئے ہیں۔ مگر آخرت ان پردوں کو کھول دے گی۔ اس کے بعد وہ سب کچھ صاف دکھائی دینے لگے گا جو دنیا میں لوگوں نے طرح طرح
"Magnetic Wire that Trips up Thieves
Shoplifting is big business: petty thieves around the world filch billions of dollars of goods each year. But a new disposable antitheft ''tag'' that is virtually impossible to detect may cause some pilferers to think about switching pastimes. The tag, made by Kongo Corp. of Hicksville, N.Y., consists of a hair thin magnetic wire that can be attached to anything from a jar of caviar to a pack of cigarettes.
Unlike the bulky plastic antitheft tags frequently used to protect clothing, Kongo’s minuscule Electro Thread tags are nearly invisible. The metal thread can be attached to a price tag, incorporated into a mock bar-code label, or glued to the seam of a can or the side of a carton during manufacture. When a customer makes a purchase, a clerk deactivates the tag by passing the item over a desensitizing device. (Unlike plastic antitheft tags, the Electro Thread tag does not have to be removed; it is simply deactivated.) Shoplifters making off with an item containing a ''live'' Electro Thread wire will be tripped up at the door, where a detector sounds an alarm.
Supermarkets and pharmacies may find Kongo’s invisible threads attractive because they offer broad antitheft protection at a relatively low price. Electro Thread tags cost less than cent apiece if purchased in volume. Because the tags are hard to see, they don't have to be attached to every item in a store to deter thieves. Retailers can tag only expensive or easily stolen items and leave shoplifters guessing whether the rest are bugged. Kongo encourages clerks to run every purchase through the deactivator to ''give the impression to shoppers that all items are protected,'' says company engineer Michael Cooper.
The system is not flawless. Clerks must bring each tag into physical contact with the deactivator to ensure that the Electro Thread is desensitized; this means shop employees must be trained to recognize which items are tagged and where tags are located. Since about one-third of the thefts in many stores are attributed to what retailers call ''internal shrinkage''—pilfering’s by employees —training the shop clerks to recognize selectively tagged items may only cause added problems. Still, Kongo’s system may convince some light-fingered individuals to keep their hands off the goods. The electro Thread system is being marketed in the United State, Europe, Japan, and Australia. Kongo plans to bring out a similar antitheft system for libraries next year.
JULITH JEDAMUS WITH CYNTHIA CATTERSON
(NEWSWEEK, NOV 4, 1985)
"
کے پردوں میں چھپا رکھا تھا۔
دنیا بھر میں چور کروروں ڈالر کاسامان دکانوں سے اٹھا لیتے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے نیویارک کی ایک فرم نے ایک کامیاب طریقہ دریافت کیا ہے، یہ چوری روک آلہ (divice) ہے۔ یہ ایک قسم کا مقناطیسی تار ہے جو بال کی طرح باریک ہوتا ہے۔ وہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا اور کسی بھی سامان کے ساتھ لگا دیاجاتا ہے۔ جب ایک خریدار سامان کو باقاعدہ خریدتا ہے تو دکان کا ایک کلرک اس کو ایک خاص طرح کی مشین سے گزار کر اس کو غیر موثر بنا دیتا ہے۔
نیو یارک کے میگزین نیوز ویک (4 نومبر 1985ء) میں یہ خبر دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ چوری سے دکان کاسامان اٹھانے والا آدمی جب ایک ایساسامان اٹھاتا ہے جس میں مذکورہ قسم کا زندہ برقی تار لگا ہوا ہو تو وہ دروازہ پر پہنچتے ہی پکڑ لیا جاتا ہے جہاں ایک مشین اس کو محسوس کر لیتی ہے اور فوراً الارم کی شکل میں اس سے آگاہ کر دیتی ہے
Shoplifters making off with an item containing a live Electro Thread wire be tripped up at the door, where a detector sounds an alarm.
مذکورہ خبر پڑھتے ہوئے مجھے وہ خبر یاد آ گئی جو قیامت کے بارے میں دی گئی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ— قیامت کے دن تمام لوگ جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ پھر نیک لوگ بچ جائیں گے اور بُرے لوگ جہنم میں گرا دیے جائیں گے (
آخرت کی دنیا ابھی انسان کے لیے نہ دکھائی دینے والی دنیا ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو آج کی دنیاکے واقعات آئندہ آنے والی دنیا کے واقعات کو قابل فہم بنا رہے ہیں۔ وہ آج تجربہ کی صورت میں کل کے تجربہ کی جھلک دکھا رہے ہیں۔
ماسکو کے جنوب مغرب میں تقریباً 800 کلومیٹر کے فاصلہ پر روس کا ایک فوجی کارخانہ تھا۔ اس کے نام پولوگراڈ پلانٹ (pavlograd plant) تھا۔ اس کارخانہ میں بین براعظمی میزائل (Intercontinental Ballistic Missile) کے لیے انجن (rocket motors) بنائے جاتے تھے۔ نیوکلیئر میزائل سے متعلق یہ کارخانہ روس میں اپنی نوعیت کا واحد کارخانہ تھا۔ وہ ایک خفیہ مقام پر واقع تھا۔
روسی ذرائع نے اس فوجی حادثہ کے بارے میں دنیا کو کوئی اطلاع نہ دی۔ روس کے اخبارات اور روس کا ریڈیو اس معاملہ میں بالکل خاموش رہا۔ مگر اس کے بعد ہی اس واقعہ کی پوری خبر واشنگٹن(امریکا) سے نشر کر دی گئی۔ روسی حادثہ کے بارے میں خود روس تو مکمل طور پر رازداری برتے ہوئے تھا ۔ مگر امریکا کے ذریعہ اس کا علم پوری دنیا کو ہو گیا۔ بعد کو روسی ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔
ایسا کیوں کر ہوا۔ اس کا راز خلائی جاسوسی ہے جو موجودہ زمانہ میں بہت بڑے پیمانہ پر جاری ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (19 مئی 1988ء) نے واشنگٹن کی ڈیٹ لائن کے ساتھ جو خبر شائع کی اس کا ایک جملہ یہ ہے کہ امریکا کے جاسوسی سیاروں نے اس دھماکہ کو
US spy satellites detected the explosion on the night of May 12.
یہ واقعہ گویا چھوٹے پیمانہ پر اس معاملہ کا مظاہرہ ہے جو زیادہ بڑے پیمانہ پر اس دنیا میں قائم ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے مصنوعی سیارہ کا ’’آسمانی معائنہ‘‘ خداوند عالم کے زیادہ وسیع اور زیادہ کامل آسمانی معائنہ کو بتا رہا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ آدمی اپنے اعمال کو خواہ کتنا ہی چھپائے ، مگر خدا کی نگاہیں اس کو بالکل بے حجاب حالت میں دیکھ رہی ہیں۔ دنیا میں آدمی اپنی سرکشی کا اعتراف نہیں کرتا ، مگر آخرت میں جب خدا انسان کے سامنے اس کا ریکارڈ رکھ دے گا تو انسان کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ وہ اُس کا اعتراف کر لے۔
آدمی کو اگر اس آسمانی معائنہ کا احساس ہو تو اس کی پوری زندگی بدل جائے۔
ٹائم میگزین
Hellfire from the heavens
یہ ایک خوفناک ہوائی حادثہ کی رپورٹ ہے جو
نقشہ ذیل کے مطابق ، دس جہازوں نے فضا میں اڑ کر دل کی تصویر بنائی۔ یہ سب جیٹ جہاز تھے جو 350 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک جہاز کو پروازکے دوران الگ ہو کر ’’دل‘‘ کے اندر سے تیر کی مانند پار ہونا تھا۔ جہاز کے باہر پائلٹ نے حسب پروگرام جہاز کواڑایا۔ مگر حساب کی معمولی
اس نقشہ کو دیکھیے۔ دس ہوائی جہاز ایک ساتھ اڑ کر اوپر پہنچتے ہیں۔ پھر ان میں سے پانچ جہاز ایک طرف اور چار جہاز دوسری طرف جا کر اپنے پیچھے سے لال، سفید اور ہرے رنگ کا دھواں نکالتے ہوئے فضا میں دل کی شکل (یان پان کے پتے کی شکل) بناتے ہیں۔ ان میں سے ایک جہاز بیچ سے الگ ہو کر پیچھے کی طرف جاتا ہے اور پھر واپس ہو کر ’’دل‘‘ کے اندر سے پار ہوکر باہر نکل جانا چاہتا ہے، نیچے ’’ستارہ‘‘ کے مقام پر وہ دوسرے جہاز سے ٹکرا جاتا ہے۔ کیوں کہ مقررہ حساب کے خلاف وہ کسی قدر جلد اور کسی قدر نیچے آ گیا تھا۔
غلطی سے یہ جہاز (تیر) دوسرے جہازوں کے مقام اتصال پر چند سیکنڈ پہلے پہنچ گیا۔ نیز یہ کہ اس جہاز (تیر) کو دوسرے جہازوں کی سطح پر واز سے کسی قدر بلندی پر اڑنا تھا۔ مگر اس کی سطح پر واز مقام اتصال پر عین وہی ہو گئی جو مقابل کے دوسرے جہاز کی تھی۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’تیر‘‘ فضا سے پار ہونے کے بجائے مقابل کے جہاز سے ٹکرا گیا۔ تین جہازوں میں فوراً آگ لگ گئی۔ عام حالات میں فوجی جہازوں کی یہ غیر معمولی نمائش لوگوں کے اندر زبردست جوش و مسرت پیدا کرنے کا سبب بنتی۔ مگر مذکورہ حادثہ کے بعد وہ جہنمی لمحات (hellis minutes) میں تبدیل ہو گئی۔
یہ جہاز رانی کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ بھیانک ہوائی حادثہ تھا۔ تین جہازوں کے پائلٹ اپنے جہازوں کے ساتھ فوراً ہلاک ہو گئے۔ نمائش دیکھنے والوں میں تقریباً 400 آدمی جل کر یا تو شدید زخمی ہوئے یا پھر مرکر ختم ہو گئے۔ یہ حادثہ اتنا اچانک تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ بھی کوئی تماشہ ہے۔ ایک شخص نے کہا
I thought it was just some kind of special effect.
اس ہوائی مظاہرے کی تصویریں ٹیلی ویژن پر لی جا رہی تھیں۔ چنانچہ شروع سے آخر تک تمام مناظر رنگین تصویروں کی صورت میں ریکارڈ ہو گئے۔ ٹائم کی مطبوعہ تصویروں میں دکھایا گیا ہے کہ جہازوں کے ٹکراتے ہی زبردست آگ لگ گئی۔ جہازوں کے جلتے ہوئے ٹکڑے کھڑی ہوئی کاروں پر گرتے ہیں اور کاریں جلنے لگتی ہیں۔ تماشائیوں کے مجمع کے اوپر آگ سرخ بادل کی طرح انڈ پڑتی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آسمان سے جہنمی آگ کا بہت بڑا گولہ گر پڑا ہو۔ خوشیاں اچانک غم میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ لوگ بدحواسی کے عالم میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ ایک شخص نے کہا میں چیخ پڑا کہ ہائے خدا، میں نے اوپر دیکھا تو وہاں آگ کے سوا اور کچھ نہ تھا
''I yelled, 'Oh,' and looked over my shoulder and saw nothing but fire.''
یہ ہوائی مظاہرہ انتہائی تربیت یافتہ فوجی پائلٹ انجام دے رہے تھے۔ منتظمین کو ان کی
مہارت پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ وہاں کوئی ایمبولنس کار تک موجود نہ تھی۔ وہ اس قسم کے حادثہ کی بالکل امید نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانے میں سخت مشکل پیش آئی۔
اس انسانی واقعہ میں بہت بڑا خدائی سبق ہے۔ وہ یہ کہ ’’دل کے درمیان سے تیر‘‘ گزارنے کا جو عمل جرمنی کے ہوا بازوں نے بہت چھوٹے پیمانہ پر کرنا چاہا اور وہ اس میں ناکام رہے۔ یہی عمل بہت زیادہ بڑے پیمانہ پر وسیع کائنات میں ہر آن ہو رہا ہے ، مگر یہاں کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آتا۔
آسمان میں ستاروں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذروں کی تعداد ہے۔ یہ تمام ستارے ہر لمحہ نہایت تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ مگر ان میں کبھی ٹکرائو نہیں ہوتا۔ ایک کہکشاں جس کے اندر اربوں کی تعداد میں بڑے بڑے ستارے ہوتے ہیں ، وہ حرکت کرتی ہوئی دوسری کہکشاں کے اندر داخل ہوتی ہے اور پھر اس کے پار ہو جاتی ہے ، مگر دونوں کہکشائوں کے ستارے آپس میں نہیں ٹکراتے۔
یہ واقعہ کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کوئی بہت بڑا انتظام کرنے والا ہے جو اس کائنات کا انتظام کر رہا ہے۔ ایک اتھاہ قوتوں والا انتظام کار اگر اس دنیا کے پیچھے نہ ہو تو سارا کائناتی کارخانہ اسی طرح تباہ و برباد ہو کر رہ جائے جس طرح جرمنی کی ہوائی نمائش تباہ ہو کر رہ گئی۔
اس انسانی واقعہ میں بہت بڑا خدائی سبق ہے۔ وہ یہ کہ ’’دل کے درمیان سے تیر‘‘ گزارنے کا جو عمل جرمنی کے ہوا بازوں نے بہت چھوٹے پیمانہ پر کرنا چاہا اور وہ اس میں ناکام رہے ، یہی عمل بہت زیادہ بڑے پیمانہ پر وسیع کائنات میں ہر آن ہو رہا ہے ، مگر یہاں کسی قسم کا حادثہ پیش نہیں آتا۔
آسمان میں ستاروں کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذرّوں کی تعداد ہے۔ یہ تمام ستارے ہر لمحہ نہایت تیزی سے حرکت کر رہے ہیں ، مگر ان میں کبھی ٹکرائو نہیں ہوتا۔ ایک کہکشاں جس کے اندر اربوں کی تعداد میں بڑے بڑے ستارے ہوتے ہیں ، وہ حرکت کرتی ہوئی دوسری کہکشاں کے اندر داخل ہوتی ہے۔ اور پھر اس کے پار ہو جاتی ہے ، مگر دونوں کہکشائوں کے ستارے آپس میں نہیںٹکراتے۔
صفحہ
ڈرائیور کو معلوم نہ تھا کہ مخفی نظام کے تحت اس کا فوٹو لیا جا رہا ہے۔ چنانچہ عین اس وقت جب کہ اس نے لال بتی کو پار کیا ، کیمرہ نے فوراً اس کی تصویر لے لی۔ یہ واقعہ لال بتی جلنے کے صرف ایک سیکنڈ بعد پیش آیا۔
مذکورہ صفحہ کی دوسری تصویر بھی اسی سڑک سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں بھی ایک گاڑی کے ڈرائیور نے یہ کہا کہ لال بتی جل جانے کے باوجود وہ رکے بغیر آگے بڑھ گیا۔ دوبارہ کیمرہ نے فوراً اس کی تصویر لے لی۔ یہ دوسرا واقعہ لال بتی جلنے کے دو سیکنڈ بعد پیش آیا۔ پہلی تصویر میں کیمرہ نے ایک سیکنڈ کی خلاف ورزی کو پکڑا اور دوسری تصویر میں دو سیکنڈ کی خلاف ورزی کو۔
یہ تصویر لندن کے اخبار ٹائمس (
ان گاڑیوںکو پکڑنے کی یہ کارروائی دور سے کنٹرول کئے جانے والے کیمروں کی شہادت پر عمل میں آئی۔ مذکورہ گاڑیاں سڑک پر تیزی سے گزرتی ہوئی دیکھنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھیں۔ مگر کیمرہ میں ان کی مکمل تصویر پوری طرح محفوظ تھی۔ ان تصویروں کے ذریعہ انھیں بآسانی شناخت کر لیا گیا۔ کیوں کہ ان کیمروں نے عین جرم کے موقع پر ان کی تصویریں لے لی تھیں۔
ان کاروں کے ڈرائیور ناٹنگھم شائر پولیس کی ایک خاص اسکیم کے تحت پکڑے گئے۔ اس اسکیم کے مطابق شہر کے دو مصروف چوراہوں پر مخصوص کیمرے نصب کر دیے گئے تھے۔ یہ کیمرے کمپیوٹر سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے زیر اثر کام کر رہے تھے۔
اس اسکیم کے تحت مذکورہ چوراہہ پر سڑک کی سطح کے نیچے خاص طرح کے حسّاس تار رکھ دیے گئے تھے۔ کوئی گاڑی جب اس تار کے اوپر سے گزرتی تو عین اسی وقت اس سے جڑے ہوئے کیمرے متحرک ہو جاتے۔ وہ سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں فوراً مذکورہ گاڑی کا فوٹو لے لیتے۔
سڑک کے نیچے بچھے ہوئے ان تاروں کو اس طرح بنایا گیا تھاکہ وہ مذکورہ کیمروں کو عین اس وقت متحرک کر دیتے تھے جب کہ سڑک کی بتی لال ہو گئی ہو۔ اب یہ کیمرے خود کار نظام کے تحت گزرنے والی گاڑی کا فوٹو لے لیتے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے زاویہ سے گاڑی کا فوٹو لیتے تھے کہ اس کا رجسٹریشن نمبر بھی پوری طرح فوٹو میں آ جائے۔
ان کیمروں کی شہادت اتنی قطعی اور اتنی مسلّم تھی کہ ماخوذ افراد کے لیے ان کو غلط ثابت کرنا ممکن نہ تھا ۔ چنانچہ سٹی مجسٹریٹ نے انھیں کی شہادت کی بنیاد پر مس الیسن مارٹن پر 100 پونڈ کا جرمانہ کیا۔ اس خاتون نے ایک ہی دن میں دو جگہ اپنی گاڑی لال بتی پر دوڑا دی تھی۔ اسی طرح دوسرے کئی ڈرائیوروں پر مختلف جرمانے لگائے گئے۔ یہ تمام عدالتی سزائیں انھیں کمپیوٹر کیمروں کی لی ہوئی تصویروں کی بنیاد پر دی گئیں جنھوں نے دو سیکنڈ اور ایک سیکنڈ تک کی خلاف ورزی کو نہایت صحت کے ساتھ ریکارڈ کر لیا تھا۔
اس طرح کے واقعات قرآن کے لفظوں میں — آیات اللہ (خدا کی نشانیاں) ہیں (البقرہ،
مذکورہ واقعہ انسان کی خفیہ ریکارڈنگ کی مثال ہے۔ یہی خفیہ ریکارڈنگ زیادہ بڑے پیمانہ پر خدا کی طرف سے ہو رہی ہے۔ انسان کی تمام گزر گاہوں پر خدا کے ’’تار‘‘ لگے ہیں اور اس کے ہر راستہ پر خدا کے ’’کیمرے‘‘ نصب ہیں ۔ آدمی جیسے ہی مقررہ حد کو پار کرتا ہے ، خدا کی تصویرکشی
کا نظام فوراً متحرک ہو کر اس کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ آخرت کی عدالت میں اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ انسان کا بنایا ہوا نظام ہے جو ایک سیکنڈ کے بقدر خلاف ورزی کو بھی فوراً پکڑ لیتا ہے پھر جب انسان کے بنائے ہوئے نظام کا یہ حال ہے تو خدا کے بنائے نظام کی گرفت کتنی زیادہ ہو گی۔ انسانی نظام محدود ہے اور خدائی نظام لامحدود۔ اسی سے دونوں نظاموں کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔
آدمی اگر اس سنگین حقیقت پر غور کرے تو اس کے چلتے ہوئے قدم رک جائیں۔ اس کی بولتی ہوئی زبان بند ہو جائے۔ اس کا قلم اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے۔
دنیا میں آدمی کسی سڑک پر صرف اس وقت تک اپنی گاڑی کو غلط چلاتا ہے جب تک اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس سڑک پر ٹریفک پولیس نے اس کی غلطی کو پکڑنے کا طاقتور انتظام کر رکھا ہے۔ پولیس کے اس انتظام کا علم ہوتے ہی ہر آدمی چوکنا ہو جاتا ہے اور اپنی گاڑی کو غلط دوڑانے سے رک جاتا ہے۔
اسی طرح آدمی کو اگر اس بات کا پورا یقین ہو جائے کہ اس کے چاروں طرف خدا کی ’’پولیس‘‘ لگی ہوئی ہے جو ہر لمحہ اس کی نگرانی کر رہی ہے اور اس کی ہر چھوٹی یا بڑی کارروائی کا ریکارڈ تیار کرنے میں مشغول ہے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہو جائے۔ یہ احساس پیدا ہوتے ہی آدمی ایک محتاط انسان بن جائے گا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر لے گا۔
انسان کا بگاڑ اس کا نام ہے کہ وہ اس سنگین حقیقت سے بے خبر ہو۔ اس کے مقابلہ میں انسان کی اصلاح یہ ہے کہ اس کو اس سنگین حقیقت کا زندہ احساس ہو جائے۔
یہاں ہم دو تصویریں نقل کر رہے ہیں۔ دونوں بظاہر سجدہ کی تصویریں ہیں۔ مگر یہ ’’فطرت‘‘ کا سجدہ ہے، نہ کہ ’’شریعت‘‘ کا سجدہ۔ یہ دونوں امریکا کے دو کھلاڑیوں کی تصویریں ہیں۔ ان کی زندگی میں وہ نازک موقع آیا جب کہ انھوں نے فطرت کی سطح پر اس گہرے احساس کا تجربہ کیا جس کو مذہب کی اصطلاح میں ’’عبودیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس احساس سے مغلوب ہو کر وہ زمین پر گر پڑے اور سجدہ کی حالت میں جا کر اپنے اندرونی جذبہ کی تسکین حاصل کی۔
سجدہ فطرتِ انسانی کی طلب ہے۔ اس طلب کا حقیقی جواب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے آگے جھکا دے۔ مگر انسان اپنی بے خبری کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسری دوسری چیزوں کے آگے جھکاتا ہے ، جو چیز صرف ایک خدا کا حق ہے اس کو وہ غیر خدا کو دے دیتا ہے۔
پہلی تصویر امریکی کھلاڑی کارل لیویس کی ہے۔ لاس اینجلس میں دوڑ کا عالمی مقابلہ ہوا۔ اس میں
اس تصویر میں کارل لیویس بالکل سجدہ کی حالت میں دکھائی دے رہا ہے۔ جس پٹری پر دوڑ کر اس نے یہ مقابلہ جیتا تھا، اس پٹری کے لیے اس کے دل میں عقیدت اور احسان مندی کا اتنا شدید جذبہ پیدا ہوا کہ پٹری پر اپنی پیشانی رکھ کر وہ سجدہ میں گر پڑا۔
یہ ایک تازہ مثال ہے جو بتاتی ہے کہ انسانی فطرت میں کس طرح یہ جذبہ چھپا ہوا ہے کہ وہ کسی کو اپنا محسن سمجھے اور اس کے آگے اپنے بڑے ہوئے جذباتِ عقیدت کو پیش کر سکے۔
یہ مثال وہ تھی جب کہ احساس شکرکے تحت آدمی زمین پر گر پڑتا ہے۔ اب دوسری مثال لیجیے جس میں احساس عجز نے انسان کو مجبور کیا کہ وہ زمین پر اپنا سر رکھ دے۔ یہ مثال
ءکو ان کامقابلہ آسٹریلیا کے
جان میک انرو پراس واقعہ کا زبردست اثر پڑا۔ تاہم انھوں نے اپنی شکست کی ساری ذمہ داری خود قبول کی۔ انھوں نے کہاکہ میں بالکل بنیادی تقاضے بھی پورے نہ کر سکا۔ اس نے مجھے تقریباً بیمار بنا دیا
I couldn't even do the basics. It almost made me sick.
اس سلسلہ میں اخبارات میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے ، اس میں جان میک انرو کی ایک تصویر بھی شامل ہے۔ اس تصویر میں سابق چیمپئن بالکل سجدہ کی حالت میں زمین پر گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل انسانی عجز کا اعتراف ہے۔
یہ دونوں جذبات (احساسِ شکر اور احساسِ عجز) انسانی فطرت کے نہایت گہرے جذبات ہیں۔ اس دنیا میں انسان کبھی پاتا ہے اور کبھی کھوتا ہے۔ کبھی کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکام۔ انسان جب کامیاب ہوتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کامیابی کو کسی کا عطیہ قرار دے کر اس کا شکر ادا کرے۔ اسی طرح جب وہ ناکام ہوتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سب کے اوپر ہے۔ یہ جذبہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس قادر مطلق کے آگے جھک جائے۔
یہ جذبات انسانی فطرت کے نہایت گہرے جذبات ہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں۔ خواہ وہ بڑا ہو یا جھوٹا ، امیر ہو یا غریب۔ انسانی فطرت کا علمی مطالعہ کرنے والے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ یہ جذبات انسانی فطرت میں اس طرح پیوست (interwoven) ہیں کہ ان کو کسی بھی طرح انسان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ جذبہ دراصل خدا کی پرستش کا جذبہ ہے۔ اس جذبہ کا مرجع حقیقتاً وہ ہستی ہے جو انسان کی خالق ہے۔ یہ جذبہ اس لیے ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کو پہچانے ۔ وہ اس کی عظمت کا اعتراف کرے، وہ اس کے آگے اپنے آ پ کو ڈال دے۔
مگر انسان فطرت کے راستہ سے انحراف کرتا ہے۔ جو چیز خدا کو دینا چاہیے وہ اسے دوسروں کو دیتا
ہے۔ اسی کا دوسرا نام شرک ہے۔ آدمی اگر اپنے فطری جذبات کا مرجع ایک خدا کو بنائے تو یہ توحید ہے اور اگر وہ ان کا مرجع کسی دوسری زندہ یا مردہ چیز کو بنائے تو یہ شرک ہے۔ توحید انسانی فطرت کا صحیح استعمال ہے اور شرک انسانی فطرت کا غلط استعمال۔
انسان عین اپنی فطرت کے زور پر مجبور ہے کہ وہ کسی کو اپنا ’’خدا‘‘ بنائے۔ حقیقی خدا چوں کہ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا اس لیے وہ دکھائی دینے والی چیزوں کو خدا سمجھ لیتا ہے۔ جو کچھ خدا کو دینا چاہیے وہ اسے غیر خدا کو دے دیتا ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ سمجھ لیا گیا تھاکہ انسانی فطرت کوئی چیز نہیں۔ یہ صرف خارجی حالات ہیں جو انسان کی صورت گری کرتے ہیں۔ مگر جدید تحقیقات اس نظریہ کو غلط ثابت کر رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک امریکی تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں جس کا خلاصہ حسب ذیل الفاظ میں شائع ہوا ہے
Nature Beats Nurture
Karl Marx and Sigmund Freud were wrong about human nature. Contrary to their view, inherited qualities are far more important than upbringing in determining personality, a team of psychologists has concluded. In an eight-year study at the University of Minnesota involving 350 pairs of twins,
The Hindustan Times, Sunday Magazine, January 4, 1987.
کارل مارکس اور سگمنڈ فرائڈ انسانی فطرت کے بارے میں غلطی پر تھے۔ ان کے نقطۂ نظر کے برعکس، انسانی شخصیت کی تشکیل میں تربیت کے مقابلہ میں اندرونی پیدائشی صفات کہیں زیادہ اہم ہیں۔ نفسیاتی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس نتیجہ کا اعلان کیا ہے۔ منی سوٹا یونیورسٹی کے تحت کیے جانے والے 8 سالہ مطالعہ میں ، جس میں 350 توأم جوڑے شامل تھے ، اس میں
ہے کہ انسان کو دوبارہ بنایا جا سکتاہے۔ ریسرچ ٹیم کے ایک شخص ڈاکٹر ڈیوڈ لکن نے کہاکہ ہم نے یہ پایا ہے کہ روایتی قدروں میں عقیدہ اور قانون کے سختی سے نفاذ کارحجان زیادہ تر پیدائشی صفات کا نتیجہ ہے۔
مذکورہ واقعہ، اور اس طرح کے دوسرے واقعات سے ، یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک برتر ہستی (خالق) کے آگے سپردگی کا جذبہ ایک فطری اور حقیقی جذبہ ہے۔ اگر وہ غیر فطری اورغیر حقیقی ہوتا تو اس کو اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ جدید نسل ایسے حالات میں پرورش پا کر نکلی ہے جب کہ اس کے ہر طرف لامذہبیت اور بے خدا تہذیب کا چرچا تھا۔ اس کے باوجود نئی نسل میں یہ مذہبی نفسیات مسلسل طور پر باقی رہی ، وہ کسی طرح ختم نہ کی جا سکی۔
سیول (کوریا) میں ستمبر 1988ء میں کھیلوں کے اولمپک مقابلے ہوئے۔ اس سلسلہ میں اخبارات میں روزانہ با تصویر رپورٹیں آ رہی تھیں۔ انھیں میں سے ایک تصویر وہ تھی جو 30 ستمبر کے اخبارات میں شائع ہوئی۔مثلاً ٹائمس آف انڈیا،30 ستمبر 1988ء صفحہ 10 ۔ تصویر کے مطابق، ایک عورت عین نماز کی حالت میں بیٹھی ہوئی تھی۔ یعنی وہ حالت جو نماز کے خاتمہ پر تشہد کی حالت میں کسی نمازی کی ہوتی ہے۔ اس تصویرمیں مذکورہ عورت بالکل نماز کی ہیئت میں دونوں پائوں توڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اور اپنے ہاتھوں کو اٹھاکر منھ کے پاس اس طرح کیے ہوئے ہے جیسے وہ نماز سے فارغ ہو کر دعامیں مشغول ہو۔
یہ کوئی نمازی عورت نہیں ہے۔ یہ کیلی فورنیا کی ایک
یہ واقعہ اس بات کا ایک اظہار ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک محسن اور منعم کا تصور نہایت گہرائی کے ساتھ چھپا ہوا ہے۔ آدمی کو جب کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا اندرونی جذبہ بے اختیارانہ طور پر چاہنے لگتا ہے کہ وہ اس کے آگے جھک جائے ، وہ اس احسان کو حقیقی
محسن کے خانہ میں ڈال دے۔
بلیر فاولر (پیدائش 1921ء) امریکا کے ایک راکٹ انجینئر ہیں۔ وہ اعلیٰ قابلیت کے ان انجینئروں میں شامل تھے جن کی کوششوں نے آخر کار سیٹرن راکٹ کی شکل اختیار کی۔ جنوری 1986ء میں بلیر فاولر چند دن کے لیے نئی دہلی آئے۔ یہاں انھوں نے تاج پیلس (ہوٹل) میں ہندستان ٹائمس کے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی اب ایک مکمل تبدیلی سے دوچار ہو چکی ہے۔ ان کی بیوی ایک کامیاب میڈیکل ڈاکٹر تھیں۔ اور وہ خود اپنے کیریر کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے کہ دس سال پہلے دونوں نے اپنا اپنا کام یک لخت چھوڑ دیا۔
اس کے بعد وہ دونوں شہر سے باہر کیلی فورنیا کے ایک معمولی فارم میں چلے گئے۔ یہاں وہ دونوں بالکل سادہ قدیم دیہاتی اندازمیں زندگی گزارتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے لکڑی کاٹتے ہیں۔ لکڑی کی آگ پر خود اپنے ہاتھ سے کھانا پکاتے ہیں۔ وہ مشینی دنیا سے بھاگ کر فطرت کی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں اور اپنی اس سادہ زندگی پر بالکل خوش ہیں۔ انھوں نے کیوں ایسا کیا۔ مسٹر بلیر فاولر کے الفاظ میں ، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہمارا علم جتنا ترقی کرتا ہے اتنا ہی ہم کو اپنی جہالت کا احساس ہوتا ہے
As our knowledge grows the more one
gets convinced that he is ignorant.
انھوں نے علم کی دنیا میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔ مگر آخر کار انھیں معلوم ہوا کہ ان کا ہر اگلا قدم صرف جہالت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انسانی علم آدمی کو حقیقی علم تک نہیں پہنچاتا۔
مزید یہ کہ مذکورہ سائنسی ماحول میں ان کو روحانی سکون حاصل نہ تھا۔ بلیر فاولر کو ایک ایسے احاطہ میں کام کرنا پڑتا تھا جس کے چاروں طرف چار فٹ کی مضبوط دیواریں کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کاکام یہ تھاکہ ہائیڈروجن گیس کو رقیق ہائیڈروجن میں تبدیلی کریں۔ اس کے لیے بڑے سخت حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ نیز ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ گیس کا ذخیرہ پھٹ نہ جائے۔ یہ صورت حال ایک مستقل ذہنی تنائو کا باعث بنی رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا سے کمتر کوئی چیز انسان کو سکون عطا نہیں کر سکتی۔ خواہ وہ سائنسی علوم ہوں یا مادی اور مشینی ترقیاں۔
NEW DELHI, Jan 27, ''As our knowledge grows the more one gets convinced that he is ignorant'' says Blair Fowler, an aero-jet engineer who worked on the first liquid propulsion rocket in the United States that ultimately became the Saturn rocket with several million pounds thrust.
On a brief holiday in India, Mr. Fowler told this correspondent at the Taj Palace, New Delhi that his life had now undergone a total change. At the peak of his career ten years ago he and his wife, who too had a prosperous medical practice, simply gave up their jobs and money and retired to a Californian ranch ''to work with our bare hands.''
Mr Fowler holds out his hands, now toughened and rough by physical work like wood cutting, carpentry, black smithy, etc. ‘When I was in the rocket propulsion group my hands had become soft through constant paperwork designing and redesigning.''
At 65, Mr Fowler looks quite young and strong. ‘We do a lot of wood cutting for firewood in our home which is heated by log fire''. There is a furnace and forge also in his ranch where he hammers iron into shape like the blacksmiths used to do in the olden days.
Looking back at the development in rocketry which now has put man on the moon and done several extraordinary things, this aero-engineer recalls the way they worked to develop the liquid hydrogen and oxygen burning rocket motor under Theodore Von Carman, a well-known rocket expert.
There were no electronic instruments at that time even though they had to work with pumps with speeds of 40,000 rpm. Cryogenics, the science of supercooling, was still its infancy. How liquid hydrogen and oxygen would behave was also not known.
They worked behind three feet concrete walls and lived in constant fear of explosion. In fact, there was one such explosion. ''but we escaped''. To obtain even a few litres of liquid hydrogen, repeated cooling using liquid nitrogen and dripping techniques under high vacuums had to be utilised.
''We learnt later that the Soviet scientist Kapitsa was also developing these engines parallelly.'' Subsequently, Mr Fowler worked on nuclear rocket, development but the project was given up as unpracticable.
Why did he and his wife give up their practice and money to go back to ranch life? He says: ‘Though we were quite well off, we were not living, each one busy in his own work. We did not have time to talk to each other. Today we are a happy couple as we share our work. My wife kneads the dough and bakes the bread, and we have much time for mutual communication.''
Mr Fowler is very much influenced by Gandhian thinking like hard physical work and its elevating nature, the need for man to be self-sufficient and simple living. He thinks that there is lot of sense in that philosophy.
The Hindustan Times, January.
امریکا کے ایک کرورپتی کے بارے میں ایک خبر پڑھی۔ خبر کا عنوان تھا اکتا کر جان دے دی (Bored To Death) اس عنوان کے نیچے خبر کے الفاظ یہ تھے
The millionaire was tired, weary, and bored. He called for his limousine, got in, and said to the chauffeur:'' James, drive full speed over the cliff. I've decided to commit suicide.''
کرور پتی تھکا ہوا تھا۔ وہ افسردہ اورا کتایا ہوا تھا۔ اس نے اپنی قیمتی کار منگوائی۔ اس کے اندر بیٹھا۔ اور شوفر سے کہا ’’جیمز، ڈھلوان کے اوپر پوری رفتار سے گاڑی دوڑائو۔ میں نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘‘ (ٹائمس آف انڈیا،
جن لوگوں کے پاس پیسہ کم ہو وہ بہت سے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مسائل وہی ہیں جو پیسہ کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان کے پاس پیسہ زیادہ آ جائے تو ان کے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح پیسہ کی کمی کے مسائل ہیں اسی طرح پیسہ کی زیادتی کے بھی مسائل ہیں۔ جس شخص کے پاس پیسہ کی افراط ہو جائے اس کے پاس مسائل کی بھی افراط ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اس کو سکون کے ساتھ رات کے وقت سونا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اس دنیا میں پرسکون زندگی کاراز صرف ایک ہے۔ اور وہ وہی ہے جس کو مذہب کی زبان میں قناعت کہا جاتا ہے۔ یعنی جو کچھ خدا نے دیا ہے اس پر صابر و شاکر رہنا۔ عدم اطمینان دراصل عدم قناعت کی نفسیاتی قیمت ہے جو ہر اُس آدمی کو بھگتنی پڑتی ہے جو خدا کی تقسیم پر راضی نہ ہو۔
عام انسان صرف یہ جانتا ہے کہ اس کامصرف یہ ہے کہ وہ دولت کمائے۔ حالانکہ اگر دولت کمانا سب کچھ ہو تودولت مند آدمی کبھی کسی مسئلہ سے دوچار نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ زندگی کا علم حاصل کیا جائے۔ آدمی کو جینا آ جائے تو وہ ہر حال میں سکون کے ساتھ جی سکتا ہے خواہ اس کے پاس کم پیسہ ہو یا زیادہ پیسہ۔
قدیم ترین زمانہ سے انسانی فکر پرمذہب کا غلبہ تھا۔ اسی کے زیر اثر فلسفہ بنا۔ فلسفہ کا رحجان ہمیشہ یہ رہا کہ عالم کی توجیہ کسی نہ کسی طرح روح یا نفس کی اصطلاحات میں کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفہ کی بنیاد ہمیشہ تصوریت (idealism) پر رہی ہے۔ تاہم سائنس کے جدید دور میں ایک خاص عرصہ تک انسانی فکر پر مادیت کا غلبہ ہو گیا۔ قدیم زمانہ میں انسانی فکرکے دو دھارے نہیں تھے۔ مگر موجودہ زمانہ میں انسانی فکر تصوریت اور مادیت کے دو دھاروں میں تقسیم ہو گیا۔ اب موجودہ صدی میں یہ فاصلہ بڑی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ وائٹ ہڈ کے الفاظ میں ’’فلسفہ سائنس سے دور ہو گیا تھا۔ مگر اب ذہن اور مادہ کا فرق جیسے جیسے مٹ رہا ہے ، فلسفہ دوبارہ اپنی پرانی اہمیت کی طرف واپس آتا جا رہا ہے‘‘۔
(Science and the Modern world)
پروفیسر ہیزن برگ (1901-1976ء) کا شمار جدید طبیعیات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے نزدیک یہ ممکن تھا کہ نفسیاتی مظاہر کی کوئی توجیہ دماغ کی طبیعیات اور کیمیا کے کے ذریعہ کی جا سکے۔ مگر اب کوانٹم نظریہ کے آنے کے بعد اس کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ بلکہ کوانٹم نظریہ کے متعلق یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ فطرت (nature) کی کامل خارجی تشریح کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ اس کے بعد ناممکن ہو گیا ہے کہ فلسفہ اور سائنس اپنی متشدد غیر جانب داری (armed neutrality) کو برقرار رکھ سکیں۔ ان کو اب یا تو دوست بن جانا چاہیے یا دشمن۔ اور ان کے درمیان دوستی اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ سائنس وہ امتحان پاس کرے جو فلسفہ اس سے اس کے مقدمات کی بابت لے گا
They cannot be friends unless science can pass the examination which philosophy must set to its premises.
(Physics & philosophy, pp.95-96.)
نیوٹن (1642-1727ء) کا ظہور تاریخ میں ایک نئے فکری دورکا آغاز تھا۔ اس کی تحقیق یہ تھی کہ کائنات اپنے متعین قوانین کے تحت عمل کرتی ہے ، کچھ طبیعی اسباب ہیں جو واقعات عالم کے پیچھے کارفرما ہیں۔ حتٰی کہ کائنات کا ماضی ، حال اور مستقبل سب علت و معلول کی مسلسل کڑیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ نیوٹن اگرچہ ذاتی طور پر خدا کو مانتا تھا ، مگر بعد کے مفکرین نے کہاکہ جب کائنات کے متعلق معلوم ہو گیاکہ وہ معلوم طبیعی قوانین کے تحت حرکت کرتی ہے تو پھر ایک نامعلوم خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ اس طرح افکار کی دنیا میں اصولِ تعلیل (principle of causation) کا رواج ہوا جو بعد کو پوری طرح خدا اور مذہب کا بدل سمجھ لیا گیا۔ نیوٹن پہلا شخص ہے جس نے اصولِ تعلیل کا علمی انطباق طبیعی دنیا پر کیا۔
ڈارون (1809-1882ء) پر منکشف ہوا کہ یہی اصولِ تعلیل حیاتیات کی دنیا میں بھی کام کر رہا ہے۔
یعنی انسان کی پیدائش اچانک ایک روز کسی خالق کے حکم سے نہیں ہوئی ، بلکہ وہ قوانین ارتقاء کے تحت لمبے عمل کا آخری نتیجہ تھی۔ ڈارون بذات خود اس عملِ ارتقاء کو ایک خالق (Creator) کا منصوبہ سمجھتا تھا۔ مگر بعد کے مفکرین نے خالق کے تصور کو ڈارون کا ذاتی عقیدہ قرار دیا اور نظریہ ارتقاء کو الحاد کی سب سے بڑی دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ان کے نزدیک اس دنیا کا خالق ’’ارتقا‘‘ تھا نہ کہ کوئی ’’خدا‘‘۔
مارکس (1818-1883ء) وہ شخص ہے جس نے اس اصولِ تعلیل کو انسان کی سماجی زندگی پر منطبق کیا اور کہاکہ انسانی سماج اور انسانی تاریخ بھی ایک ناگزیر مادی قانون کے تحت سفر کر رہے ہیں۔ سماجی سفر میں جدلیاتی عمل (dialectical process) کی کارفرمائی کا تصور اگرچہ اس نے ہیگل (1770-1831ء) سے لیا تھا جو اس عمل کے پیچھے ایک روح عالم (ورلڈ اسپرٹ) کو مانتا تھا۔ مگر مارکس نے روح عالم کے بجائے معاشی قوانین کو جدلیاتی عمل کا ہیرو قرار دیا اور اس طرح ہیگل کی تصوریت (آئیڈیلزم) کو خالص مادیت (میٹریلزم) میں بدل ڈالا۔
اس طرح تقریباً ڈیڑھ سو سال کے مسلسل عمل سے وہ فکر بنا جس کو جدید الحاد کہا جاتا ہے۔ اس الحاد کا کہنا تھاکہ اب علمی طور پر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس کائنات کا خالق اور مالک کوئی خدا نہیں ہے بلکہ اسباب و علل (Cause and Effect) کا ایک طبیعی قانون ہے۔ اسی طبیعی قانون نے لمبے عمل کے بعد عالم کو بنایا۔ اسی قانون کے ذریعہ ارتقائی مراحل سے گزر کر انسان تیار ہوا۔ اور پھر یہی وہ قانون ہے جو سماجی عمل کے اندر کارفرما ہے اور انسانی سماج کو غیر ترقی یافتہ حالت سے ترقی یافتہ حالت کی طرف لے جا رہا ہے۔
مگر بیسویں صدی کے آتے ہی ان خیالات کی علمی بنیاد بالکل ڈھ گئی۔ اس صدی کے آغاز میں پلانک اور آئن سٹائن اور ہیزن برگ اور ڈیراک اور در فورڈ نے جو تحقیقات کیں اس کے بعد علم کا وہ پورا ڈھانچہ بدل گیا جس کے تحت مذکورہ ملحدانہ مفروضات قائم کر لیے گئے تھے۔ اب اصول تعلیل کا وہ نظریہ بے بنیاد ثابت ہو گیا جس کو انیسویں صدی میں خدا کا علمی بدل سمجھ لیا گیا تھا۔ برکلے کی تصوریت (idealism) سو برس کی معزولی کے بعد ، فلسفہ میں دوبارہ واپس آ گئی۔
انیسویں صدی علمی دنیا میں الحاد کی صدی تھی۔ یہی صدی ہے جس میں عالم فطرت کے بارے میں کثرت سے نئے حقائق دریافت ہوئے۔ یہ حقائق اگرچہ بذات خود مذہب سے متصادم نہیں تھے۔ مگر ملحد فلاسفہ نے اپنے تعبیری اضافہ سے ان کے اندر الحادی عناصر ڈھونڈ لیے۔ اب ایک پورا نظام فکر ترتیب دیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھاکہ سائنسی دریافتوں نے مذہبی صداقت کی تردید کر دی ہے۔ اب انسان کو فکری یا عملی اعتبار سے مذہب کی کوئی ضرورت نہیں ، وہ سب کچھ جو مذہب دیتا تھا یا جس کے لیے مذہب کو ضروری سمجھ لیا گیا تھا، اب انسان اس کو زیادہ بہتر طور پر سائنس کے ذریعہ حاصل کر سکتا ہے۔ مگر بیسویں صدی میں علمی طور پر اس دعوے کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ بعد کی تحقیقات اور بعد کے تجربات نے ایک ایک کر کے ان تمام باتوں کی تردید کر دی جن کی امید سائنس سے قائم کر لی گئی تھی۔
کہا گیا تھاکہ دنیاکے وجود اور اس کی کارکردگی کی توجیہ کے لیے اب خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سائنس کی دریافتیں اس کی توجیہ و تشریح کے لیے بالکل کافی ہیں۔ مگر جدید معلومات اور تجربات نے انسان کو یہ اقرار کرنے پر مجبور کیا ہے کہ خدا کو مانے بغیر اس دنیا کی توجیہ ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ خدا اگر موجود نہ ہو تب بھی ہمیں اپنے مسئلہ کے حل کے لیے خدا کو ایجاد کرنا ہو گا
If God did not exist, it would be necessary to invent Him
کہا گیا تھاکہ حقیقت اعلیٰ کا ادراک کرنے کے لیے انسانی علم سے اوپر کسی علم (الہام) کی ضرورت نہیں، سائنس تمام حقیقتوں کو جاننے کے لیے بالکل کافی ہے ۔ مگر آج سائنس داں متفقہ طور پر یہ اعلان کر رہے ہیں کہ سائنس ہم کو حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے
Science gives us but a partial knowledge of reality
کہا گیا تھا کہ انسان کے اندر ذمہ داری کا احساس اور حق شناسی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے خدا کا خوف دلانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ علمی اور تعلیمی ترقی خود بخود اس قسم کا احساس آدمی کے اندر پیدا کر دے گی۔ مگر تقریباً سو سالہ تجربہ کے بعد آج کا انسان یہ اقرار کر رہا ہے کہ علم اور اخلاقی احساس لازمی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں
Knowledge and moral responsibility are not necessarily interlinked
کہا گیا تھا کہ زندگی کے عیش کے لیے کل کی جنت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمدنی تعمیر کے جدید امکانات جو انسان کی دسترس میں آئے ہیں وہ ہماری اسی زمین کو ہمارے لیے جنت بنا دیں گے۔ مگر تمدنی ترقیوں کے بعد اس سے پیدا شدہ بے شمار مسائل نے انسان کو اس قدر پریشان کر دیا ہے کہ آج کا خوش نصیب انسان جس کو جدید معنوں میں تمام اسباب عیش حاصل ہیں ، وہ حیران ہو کر کہتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو جدید معیار کے مطابق خوشگوار بنا لیا مگر اس کے باوجود میں اب بھی خوش نہیں
My life is pleasant, yet, I am unhappy
کائنات کی مادی تشریح کی ہر کوشش ناکام ہو گئی۔ زندگی کو مادّی ذرائع سے بامعنی بنانا ممکن نہ ہو سکا۔ انسان نے خدا کے بغیر جینا چاہا مگر تجربات نے بتایا کہ خدا کے بغیر جینا اس کے لیے مقدر نہیں۔ ان واقعات نے موجودہ صدی میں ایک نیا فکری انقلاب برپا کیا ہے۔ علم کا مسافر، تھوڑی مدت تک مادیت کی راہوں میں بھٹکنے کے بعد دوبارہ مذہبی حقیقت کی طرف واپس آ رہا ہے۔ اب یہ ناممکن ہو گیا ہے کہ خالص علمی اور عقلی اعتبار سے ، انسان خدا پرستانہ زندگی کے سوا کسی اور زندگی پر مطمئن ہو سکے۔ آج کا انسان، کم از کم امکانی طور پر، خدا کے اتنا قریب آ گیا ہے کہ اس کے اور خدا کے درمیان منصوعی بے خبری کے سوا اور کوئی پردہ حائل نہیں۔
نیوکلیئر انرجی کو اگر آپ امریکا کا سماجی مظہر (social phenomenon) سمجھیں تو آپ کو نیوکلیئر انرجی سے نفرت پیدا ہو جائے گی۔ کیوں کہ ایسی صورت میں نیوکلیئر انرجی کے معنی آپ کے نزدیک یہ ہو جائیں گے کہ خطرناک بم بنائو اور شہروں اور آبادیوں کو تباہ کرو۔ اس کے برعکس، جب آپ نیوکلیئر انرجی کو قدرتی مظہر (natural phenomenon) سمجھتے ہیں تو آپ نیوکلیئر انرجی کو الگ دیکھتے ہیں اور امریکا یا کسی اور جنگی قوم کی طرف سے اس کے استعمال کو الگ۔ اب آپ ایٹم بم کو پسند نہیں کرتے مگر جہاں تک ’’ایٹمی‘‘ انرجی کا تعلق ہے اس سے آپ کی دلچسپی بدستور باقی رہتی ہے۔
نیوکلیئر انرجی کے معاملہ میں کوئی شخص یہ غلطی نہیں کرتا کہ اس کو کسی جنگی قوم کاسماجی مظہر (social phenomenon) سمجھے۔ مگر مذہب کا مطالعہ کرتے وقت کچھ لوگ یہی غلطی کرتے ہیں۔ مذہب اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی صداقت (divine truth) ہے۔ مگرعلم الانسان (anthropology) میں مذہب کا مطالعہ اکثر ایک سماجی مظہر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مذہب کا تصور لوگوں کی نظرمیں غلط ہو کر رہ گیا ہے۔ اس طرز مطالعہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والے کے ذہن میں نظریہ اور عمل کا فرق باقی نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر مسلمان قومیں جو کچھ عملاً کر رہی ہیں اسی کو آج کل کے بہت سے لوگوں نے اسلام سمجھ لیا ہے۔ یہی وہ طرز مطالعہ ہے جس نے موجودہ زمانہ میں اسلام کاخنجر (Dagger of Islam) اور محمد کی تلوار (Sword of Muhammad) جیسی کتابوں کو جنم دیا ہے۔ ان مصنفین نے یہ دیکھا کہ مسلمان خنجر اور تلوار کا استعمال کر رہے ہیں تو انھوں نے اپنے مخصوص تصور مذہب کی وجہ سے یہ سمجھ لیا کہ اسلام نام ہے تلوار اور خنجر کا۔
اس کے برعکس، اسلام کو جب آپ ایک صداقت سمجھیں جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور قرآن و سنت کے متن میں محفوظ ہے تو اسلام آپ کی نظر میں سماجی مظہر کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک نظریہ کا نام بن جاتا ہے۔ اب آپ اسلام کو قرآن اور سنت کے متن کی روشنی میں دیکھتے ہیں ،نہ کہ مسلمانوں کے عمل کی روشنی میں۔
اسلام کو حقیقی طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو مسلمانوں سے الگ کر کے دیکھا جائے۔ اس کو سماجی مظہر سمجھنے کے بجائے ایک خدائی نظریہ سمجھا جائے۔ ایسی ہی صورت میں اسلام کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ہے۔
There wasn't much to agree on when two of Britain's most eminent scientists began researching into the origin of life. But on one point they were both quite clear-that the notion of 'Creator' is inconsistent with science. Today, Professor Sir-Fred Hoyle, an agnostic of Christian background and Professor Chandra Wickramasinghe, an atheist Buddhist are changed men. They believe. What convinced both men were calculations they each did independently into odds mathematical jargon'10 to the power of 40,000.'If you write down the figure. ‘That number is such an imponderable in the universe that I am 100 per cent certain that life could not have started spontaneously on Earth, ‘says Wickramasinghe, Sri Lankan born Professor of Applied Mathematics and Astronomy at University College, Cardiff. ‘From my earliest training as a scientist. I was very strongly brainwashed to believe that science cannot be consistent with any kind of deliberate creation. That notion has had to be very painfully shed. I am quite uncomfortable in the situation, the state of mind I now find myself in. But there is no logical way out of it. ''They did calculation based on the size and age of the universe (
The Hindustan Times, September 6, 1981
پروفیسر چندر وکرما سنگھی (پیدائش 1939ء)سری لنکا کے ایک سائنس داں ہیں اور اس وقت یونیورسٹی کالج ، کارڈیف (برطانیہ) میں ریاضیات اور فلکیات کے استاد ہیں۔ اپنے فن میں انھوں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ وہ پروفیسر سرفریڈہائل کے ساتھ 1962 سے ایک تحقیق میں لگے ہوئے تھے۔ تحقیق کا موضوع یہ تھا کہ زمین پر زندگی کا آغاز کس طرح ہوا۔ دونوں پروفیسروں نے اپنی تحقیق کے نتائج ایک کتاب کی صورت میں شائع کئے ہیں جس کا نام ہے ’’ارتقاء خلا سے‘‘ ۔
پروفیسر وکرما سنگھی نے تحقیق کا آغاز اس ذہن کے ساتھ کیا تھاکہ خالق کا تصور سائنس سے غیر مطابق ہے۔ وہ لکھتے ہیں اپنی تحقیق کے آخری نتائج سے مجھے بڑا دھکا لگا۔ سائنسی تعلیم کے دوران شروع سے مجھے یقین دلایا گیا تھا کہ سائنس کسی بھی قسم کی ارادی تخلیق کے نظریہ سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ اس نظریہ کو بے حد دکھ کے ساتھ چھوڑنا پڑے گا۔ میرا ذہن مجھ کو جس طرف لے جا رہا ہے وہ میرے لیے سخت غیر اطمینان بخش ہے۔ مگر اس سے نکلنے کا کوئی منطقی راستہ موجود نہیں۔
دونوں سائنس دانوں نے الگ الگ اس کا حساب لگایا کہ اتفاقی طور پر زندگی شروع ہونے کا ریاضیاتی امکان کتنا ہے۔ دونوں کی آزادانہ تحقیق اس مشترکہ نتیجہ پر پہنچی کہ اتفاقی پیدائش کا ریاضیاتی طور پر کوئی امکان نہیں۔ انھوں نے حساب لگا کر بتایا ہے کہ اتفاقی پیدائش کا امکان اگر ’’ایک‘‘ مانا جائے تو اس کے مخالف امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو شمار کرنے کے لیے ایک کے دائیں طرف چالیس ہزار صفر لگانے ہوں گے۔ ’’یہ تعداد موجودہ حجم اور عمر (
کیمیائی اتفاق سے اچانک زندگی کا شروع ہونا اس قدر زیادہ بعید بات ہے کہ وہ بالکل لغو معلوم ہوتا ہے۔ یہ سوچنا بالکل معقول ہے کہ طبیعیات کے وہ اوصاف جن پر زندگی کا انحصار ہے وہ ہراعتبار سے ارادی ہیں۔ وکرما سنگھی لکھتے ہیں ’’سرفریڈ ہائل مجھ سے زیادہ برتر خالق کی طرف مائل تھے۔ میں اکثر اس کے خلاف ان سے بحث کرتا تھا۔ مگر میں نے پایا کہ میں استدلال کی تمام بنیادیں کھو رہا ہوں۔ اس وقت میں کوئی بھی عقلی دلیل نہیں پاتا جس سے میں خدا کے نظریہ کو باطل ثابت کر سکوں۔ اگر میں کوئی دلیل پاتا، خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو تو میں اس کتاب کے لکھنے میں فریڈ کا شریک کار نہ بنتا۔ اب ہم محسوس کرتے ہیں کہ زندگی کے بارے میں واحد منطقی جواب یہی ہے کہ وہ تخلیق ہے، نہ کہ کوئی الل ٹپ قسم کا الٹ پھیر۔ میں اب بھی اس امید پر ہوں کہ کسی دن میں دوبارہ خالص مشینی توجیہ
پیش کر سکوں۔ ہم بحیثیت سائنس داں اس امید میں تھے کہ ہم کوئی راستہ پا لیں گے، مگر موجودہ تحقیقی نتائج کے مطابق اس کی کوئی صورت نہیں۔ منطق اب بھی مایوسانہ طور پر اس کے خلاف ہے۔
میں ایک بدھسٹ ہوں۔ اگرچہ کوئی پرجوش نہیں۔ اس اعتبار سے یہ میرے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ کیوں کہ بدھزم ایک بے خدا مذہب ہے جو اس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ تخلیق کے بارے میں کچھ جانتا ہے۔ بدھزم کے نظام میں خالق کا کوئی وجود نہیں۔ مگر اب میں پاتا ہوں کہ میں منطق کے ذریعہ اسی مقام پر پہنچا دیا گیا ہوں۔ اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں جس سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ مخصوص کیمیائی مادوں میں وہ حد درجہ درست نظام کیوں کر پایا جاتا ہے جس سے کائناتی سطح پر تخلیقات کا ظہور ہو (ہندستان ٹائمس، 6 ستمبر 1981ء) ۔
پچھلی صدیوں میں یہ سمجھ لیا گیاتھا کہ خدا کا وجود محض ایک ذاتی عقیدہ کی چیز ہے۔ اس کا علمی طرز فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلسل ایسے شواہد مل رہے ہیں کہ انسان یہ ماننے پر مجبور ہو رہا ہے کہ خدا کا وجود ایک علمی و عقلی نظریہ ہے نہ کہ محض ایک بے دلیل عقیدہ۔
مگر سائنسی مطالعہ آدمی کو صرف اس مجرد حقیقت تک پہنچا رہا ہے کہ خدا کا وجود ہے۔ اس کے آگے یہ سوال ہے کہ خدا جب ہے تو اس کا انسان سے کیا تعلق ہے۔ مگر سائنس اس کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں دیتی اور نہ دے سکتی ہے۔ یہ دراصل وہ مقام ہے جہاں سے مذہب کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔
اصولی طور پر تمام مذاہب اس سوال کا جواب ہیں۔ مگر مذاہب کی موجودہ صورت بتاتی ہے کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں۔ کوئی مذہب اس لیے باطل قرار پاتا ہے کہ اس میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کسی کا حال یہ ہے کہ وہ کئی خدائوں کا مدعی ہے۔ حالاں کہ تمام علوم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ خدا اگر ہو سکتا ہے تو ایک ہو سکتا ہے۔ کئی خدا کا ہونا ممکن نہیں۔ کسی مذہب کے نظام میں ایسے نظریات جگہ پا گئے ہیں جن کو انسانی ضمیر کبھی قبول نہیں کر سکتا۔ مثلاً انسانوں کے درمیان رنگ اور نسل کی بنا پر فرق۔ اسی طرح دوسری باتیں۔
علمی حقائق انسان کو خدا تک پہنچا رہے ہیں اور خدا کو ماننے کے بعد اسلام کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جب علمی مطالعہ یہ بتا رہا ہو کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے تو بے خدا مذاہب اپنے آپ باطل ثابت ہو جاتے ہیں۔ جب کائناتی تحقیق یہ بتائے کہ اس کا پورا نظام ایک وحدت کے تحت چل رہا ہے تو ایسے مذاہب بے معنی ہو جاتے ہیں جو کائنات کے کئی خدا مانتے ہوں۔ ایسی حالت میں آدمی مجبور ہے کہ وہ اسلام کو اپنا مذہب بنائے جو نہ صرف خدا کے صحیح تصور پر مبنی ہے بلکہ واضح طور پر یہ بھی بتاتا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر جے وی نارلیکر (پیدائش 1939ء) سے ایک انٹرویو میں کہا گیا کہ ’’مذہبی توہمات‘‘ کی پرستش میں سائنس داں دوسرے لوگوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ کتنے سائنس داں دیوتائوں تک میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں عالمی شہرت کے سائنس داں ڈاکٹر نارلیکر نے جواب دیا ’’مجھے یہ بات بے حد ناپسند ہے۔ عملاً میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے سائنس داں ، جب اپنی تجربہ گاہ میں کام کر رہے ہوتے ہیں تو وہ سائنٹفک نقطۂ نظر کو اپناتے ہیں، مگر جب وہ اپنے گھر جاتے ہیں تو وہ سائنٹفک طریقہ کا بالکل استعمال نہیں کرتے۔ مثلاً، مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں جیوتش پر عقیدہ پھیل رہا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ انسان کی اس خواہش نے اس کو جنم دیا ہے کہ وہ آسان اور فوری تسکین کو پا لے۔ یہ حقیقتاً ایک ذہنی سہارا ہے‘‘ (ٹائمس آف انڈیا، 30 اپریل 1979ء)۔
کوئی شخص خواہ جاہل ہو یا عالم، کامیاب ہو یا ناکام، زندگی میں اس کو بار بار ایسے مرحلے پیش آتے ہیں جہاں وہ اپنے عجز کا تجربہ کرتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بے بس وجود ہے۔ یہ چیز اس کو اپنے سے برتر ہستی کی تلاش کی طرف لے جاتی ہے جو اس کی کمیوں کا بدل بن سکے۔ مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ، جن کے لیے مادی مواقع کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں ، وہ جب اپنی ’’ذہنی تسکین‘‘ کے لیے مابعدالطبعیاتی عقائد کا سہارا لیتے ہیں تو باعتبار حقیقت یہ فرضی نہیں ہوتا۔ یہ دراصل اپنی فطرت کی خاموش پکار کا جواب ہوتا ہے۔ اگرچہ اپنی تلاش کا صحیح جواب نہ پانے کی وجہ سے وہ ’’جیوتش‘‘ جیسی توہماتی چیزوں میں اٹک جاتے ہیں— خدا کا وجود نہ صرف یقینی ہے بلکہ وہ انسان کے لیے اتنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا۔
قدیم زمانہ میں پانی کو صرف پانی سمجھا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں خوردبین ایجاد ہوئی۔ خوردبین سے جب پانی کو دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ پانی صرف پانی نہیں ہے۔ اس میں بے شمار زندہ بیکٹیریا بھی موجود ہیں۔ اسی طرح آسمان پر جو ستارے نظر آتے ہیں، آدمی نے سمجھا کہ وہ تعداد میں اتنے ہی ہیں جتناکہ بظاہر ننگی آنکھ سے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں جب آسمان کا مشاہدہ دور بین سے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ستارے اس سے بہت زیادہ تعداد میں ہیں جو بظاہر خالی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔
یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے قدیم زمانہ اور جدید زمانہ کے فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جدید زمانہ کے یہ مشاہدات یقینی طور پر بتا رہے تھے کہ حقائق اس سے بہت زیادہ ہیں جو انسان نے اپنے سادہ مشاہدہ کے دائرے میں اس سے پہلے سمجھ رکھا تھا ۔ مگر جو لوگ ان نئے مشاہدات کو سامنے لا رہے تھے وہ اپنی دریافتوں کی بنا پر اتنے زیادہ جوش میں تھے کہ انھوں نے ایک اور دعویٰ کر دیا۔ انھوں نے کہاکہ حقیقت وہی ہے جو براہ راست ہمارے مشاہدے میں آئے ۔ جو چیز ہمارے براہ راست مشاہدے اور تجربے میں نہ آئے وہ محض مفروضہ ہے ، اس کا کوئی وجود نہیں۔
انیسویں صدی میں یہ دعویٰ بہت زور و شور کے ساتھ کیا گیا۔ اس دعویٰ کی زد سب سے زیادہ مذہب پر پڑتی تھی۔ مذہب جن اعتقادات کا مبلغ ہے وہ سب غیبی اعتقادات ہیں ، یعنی وہ براہ راست ہمارے تجربہ اورمشاہدہ میں نہیں آتے۔ اس بنا پر بہت سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ مذہب ایک فرضی چیز ہے ، اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
مگر بیسویں صدی کی تحقیقات نے اس صورت حال کو بالکل بدل دیا ہے۔ مزید مطالعہ کے بعد انسان کو یہ معلوم ہوا کہ حقائق صرف اتنے ہی نہیں ہیں جو براہ راست ہمارے مشاہدہ میں آتے ہیں بلکہ ان مشاہدات کے ماورا بھی بہت سی حقیقتیں ہیں بلکہ تمام بڑی بڑی حقیقتیں مشاہدات کے ماورا ہی پائی جاتی ہیں۔
برٹرینڈرسل کے الفاظ میں علم کی دو قسمیں ہیں چیزوں کا علم (Knowledge of things) اور صداقتوں کا علم (Knowledge of truths) ۔ہم براہ راست طور پر صرف ’’چیزوں‘‘ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد جو ’’صداقتیں‘‘ ہیں ، وہ صرف بالواسطہ مشاہدہ ، بالفاظ دیگر صرف استنباط (inference) کے ذریعہ جانی جا سکتی ہیں ۔ مثلاً (light) کشش (gravity) مقناطیسیت
(magnetism) جوہری طاقت (nuclear energy) وغیرہ۔ یہ سب بلاشبہ کائنات کا مسلمہ حقیقتیں ہیں ، مگر انسان ان کو براہ راست طور پر نہیں دیکھتا۔ وہ صرف ان کے اثرات (effects) کے ذریعہ ان کوجانتا ہے۔ انسان کے تجربہ میں کچھ ’’چیزیں‘‘ آتی ہیں جن سے وہ استنباط کرتا ہے کہ فلاں فلاں ’’صداقتیں‘‘ یہاں پائی جا رہی ہیں۔
بیسویں صدی میں علم کی اس تبدیلی نے بنیادی طور پر سارے معاملہ کو بدل دیا۔ انسان مجبور ہو گیا کہ وہ ایسی چیزوں کے وجود کا اعتراف کرے جن کو وہ براہ راست نہیں دیکھتا۔ البتہ بالواسطہ تجربات بتاتے ہیںکہ فلاں قسم کی حقیقت یہاں موجود ہونی چاہیے۔ علم کی اس تبدیلی نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ مشاہداتی حقیقت اور غیبی حقیقت کے فرق کو ختم کر دیا۔ اب نہ دیکھی جانے والی چیز بھی اتنی ہی اہم بن گئی جتنی کہ دیکھی جانے والی چیز۔ انسان یہ ماننے پر مجبور ہو گیا کہ بالواسطہ استدلال یا استنباطی استدلال (inferential argument) بھی علمی طور پر اتنا ہی معقول (valid) ہے جتنا کہ براہ راست استدلال (direct argument) ۔
علم میں اس تبدیلی نے موجودہ زمانہ میں الٰہیاتی استدلال کو عین سائنٹفک استدلال بنا دیا ہے۔ مثلاً خدا کے وجود پر علمائے الٰہیات کا سب سے بڑا استدلال وہ ہے جس کو فلاسفہ نظم سے استدلال (argument from design) کہتے ہیں۔ یہ استدلال انیسویں صدی کے پرجوش علماء نے نہیں مانا۔ انھوں نے کہاکہ یہ استنباطی استدلال ہے اور استنباطی استدلال علمی طور پر معقول نہیں۔ مگر موجودہ زمانہ میں اس اعتراض کی بنیاد ختم ہو چکی ہے۔ آج کا انسان مجبور ہے کہ وہ نظم کائنات سے ناظم کائنات پر استدلال کو اتنا ہی علمی اور معقول مانے جتنا کہ وہ مشین کے پہیہ کی حرکت سے (flow of electron) کے نظریہ کو معقول سمجھتا ہے۔
قدیم یونان کے فلسفیوں نے دنیا کے بارے میں بہت سے مفروضات قائم کیے تھے جو بعد کی تحقیق سے غلط ثابت ہو گئے۔ مثال کے طور پر یہ نظر یہ کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ مگر مذہب کا معاملہ سراسر اس سے مختلف ہے۔ مذہب کے جو حقیقی عقائد ہیں وہ بعد کی تحقیق سے مزید ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو مذہب کی صداقت کو تجرباتی سطح پر مدلل کر رہا ہے۔ مذہبی عقائد اگر بے بنیاد ہوتے تو بعد کی علمی تحقیقات ان کی تردید کرتیں نہ کہ تصدیق۔ اس واضح شہادت کے بعد جو لوگ مذہب کی صداقت کونہ مانیں ان کا کیس ہٹ دھرمی کا کیس ہے نہ کہ علم اور معقولیت کا کیس۔
مذہب کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے موجودہ زمانہ میں جو کوششیں کی گئی ہیں ، ان میں سے ایک کوشش وہ ہے جس کا تعلق علم الانسان (anthropology) سے ہے۔ علم الانسان ، انسانی معاشرہ کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس فن کے ماہرین نے یہ د عویٰ کیا کہ قدیم انسانی معاشروں کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب سماجی حالات کی پیداوار ہے۔ قدیم انسانی معاشروں میں جو مختلف حالات تھے ، انھیں کے تحت مختلف مذہبی معتقدات وجود میں آتے رہے، بالفاظ دیگر مذہب آسمان سے نازل شدہ کوئی ابدی صداقت نہیں ، وہ انسان کے خود اپنے حالات کی پیداوار ہے جو کہ زمانہ کے ساتھ بنتے اور بدلتے رہتے ہیں۔ مگر بعد کو خود علم الانسان کی تحقیقات نے اس مفروضہ کو باطل ثابت کر دیا۔ یہاں اس سلسلے میں جدید تحقیقات کا ایک خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
یونانی مصنف ایومیرس (Euhemerus) نے کہا تھاکہ دیوتا ابتدا میں زمین کے بڑے بڑے بادشاہ تھے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ خدا بن گئے اور ان کی پرستش کی جانے لگی۔ بعد کو اس عقیدہ کو بتانے کے لیے ایک اصطلاح وضع ہوئی جس کو اسی نام پر ایومیرزم (euhemerism) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیوتا کسی زمانہ میں انسانی ہیرو تھے۔ یونانی مصنف کا یہ نظریہ محض قیاس پر مبنی تھا۔ اس نے اس واقعہ پر زیادہ دھیان نہیں دیاکہ چین اورافریقہ اور دوسرے بعض مقامات پر جہاں آباءو اجداد کی پرستش کی مثالیں ملتی ہیں وہاں ان کی پرستش خدا کی پرستش سے الگ دوسرے طریقے سے کی جاتی ہے۔
قدیم زمانہ میں اس قسم کی باتیں محض تفنن پسند لوگ کیا کرتے تھے۔ تاہم ایک سو سال پہلے بہت بڑے پیمانہ پر اس سوال کے جواب کی تلاش شروع ہوئی کہ مذہب کی ابتدائی شکل کیا تھی۔ مگر تحقیق و تلاش کے لمبے سفر کے بعد آدمی دوبارہ وہیں پہنچ گیا جہاں وہ پہلے تھا۔ اب یہ ثابت ہوا کہ مذہبی معتقدات اتنے ہی پرانے ہیں جتنی کہ انسانی تاریخ پرانی ہے۔ ایک لاکھ برس پہلے نیندر تھل انسان (Neanderthal Man) کو جب مرنے کے بعد دفن کیا گیا تو اس کے ساتھ قبر میں کھانا بھی رکھ دیا گیا تاکہ دوسری دنیا کے سفر میں اس کے لیے زادراہ کا کام دے سکے۔ اس سے ثابت ہوا کہ انتہائی ’’ابتدائی انسان‘‘ بھی مرنے کے بعد زندگی کے تسلسل کا عقیدہ
رکھتا تھا۔
’’مذہب کیسے شروع ہوا‘‘ یہ سوال باقاعدہ طور پر صرف ایک سو سال پہلے وجود میں آیا۔ اس سے پہلے بائبل کی کتاب پیدائش اور قرآن کے زیر اثر عام طور پر یہ سمجھا جاتاتھا کہ پہلا انسان (آدم) جب پیدا کیا گیا تو اسی وقت خدا کا الہام بھی اس کو مل گیا جس میں اس کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ سچا مذہب خدا کے نزدیک کیا ہے۔
مذاہب کے علماء عام طور پر یقین کرتے تھے کہ اس ابتدائی مذہب میں بعد کی نسلوںنے پہلی بار بگاڑ پیدا کیا اور اس طرح مذہب کی مختلف شکلیں بنتی چلی گئیں۔ 19 ویں صدی میں خاص طور پر نظریۂ ارتقاء نے ، تعلیم یافتہ طبقہ کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ مذہب کا ارتقائی مطالعہ کرے اور اس کی ابتدائی شکلیں دریافت کرے۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ ارتقا کا اصول ہر معاملہ میں اسی طرح جاری ہے جیسا کہ ڈارون نے حیاتیات میں دکھایا ہے۔
ابتدائی مذہب (primitive religion) اور ترقی یافتہ مذہب (higher religion) کی اصطلاحیں پیدا ہوئیں۔ اس تلاش نے بہت جلد انسان کو اس دریافت تک پہنچا دیا کہ مذہب کی ابتداء محض کچھ وہمی خیالات (illusions) سے شروع ہوئی۔ دھیرے دھیرے اصلاح ہوتے ہوتے وہ مذہب کی موجودہ ترقی یافتہ شکلوں تک پہنچی۔ اس طرح گویا علمی تجزیہ نے ثابت کر دیا کہ مذہب اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک نفسیاتی یا سماجی وہم کے سوا اور کچھ نہیں۔ مگر مذہب کے محققین کا یہ یقین دیر تک باقی نہ رہ سکا۔ تحقیق کے بعد نتائج نے اس کے ابتدائی نتائج کی تردید کر دی۔
ایڈورڈ بی ٹیلر نے 1871ء میں مذہب کے بارے میں اپنے نظریہ کی وضاحت کے لیے روحیت مظاہر (animism) کی اصطلاح وضع کی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ابتدائی انسان نے خواب ، ہذیان اور موت کے واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کے اندر کوئی غیر فانی روح ہے۔ جب کوئی مرا ہوا شخص خواب میں نظر آیا تو سمجھ لیا گیا کہ انسان کی روح مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے ، انھیں میں سے کچھ روحیں دھیرے دھیرے دیوتا بھی بن گئیں۔ اسی زمانہ میں ہربرٹ اسپنسر نے یہ خیال بھی پیش کیا کہ مرے ہوئے لوگ جو بھوتوں کی شکل میں دکھائی دیتے تھے ، ان کو دیوتا سمجھ
لیا گیا اور ان کی پوجا ہونے لگی۔ مگر ٹیلر اور اسپنسر وغیرہ کے نظریات کا جب بعد کے محققین نے تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ لوگ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ دور تاریخ سے قبل کا انسان اسی ڈ ھنگ پر سوچتا تھا اور روحوں اور بھوتوں سے خدا تک پہنچنا محض قیاس پر مبنی تھا۔ اس نظریہ کے حامی اس سوال کا جواب بھی نہ دے سکے کہ اگر مردہ انسانوں کی روح سے خدا کا تصور نکلا تو یہ عالمی کیسے بن گیا جب کہ قدیم زمانہ میں کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے مختلف قبائل کے درمیان قطعاً کوئی مواصلاتی سلسلہ موجود نہ تھا۔ چنانچہ روحیت مظاہر (animism) کا یہ نظریہ مذہب کی علمی توجیہ کی حیثیت سے آج عملاً رد کر دیا گیا ہے۔
روحیت مظاہر کا ایک اور نظریہ آر آر میرٹ نے 1899 ءمیں پیش کیا۔ اس نے کہا کہ انسان اولاً شخصی روح (Personal soul)کو نہیں مانتا تھا بلکہ غیر شخصی طاقت (impersonal force) کاعقیدہ رکھتاتھاجسنےدنیاکوزندگی عطاکی ہے۔اس نے اپنے اس نظریہ کو اینٹیمزم (antimatism) کا نام دیا۔ مگر بعد کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ محض ایک لفظی مغالطہ سے اس نے یہ نظریہ قائم کر لیا تھا۔ بحرالکاہل کے کنارے رہنے والے بعض قبائل جن کو میلالیسین (Melanesian) کہا جاتا ہے۔ ان کی زبان میں ایک لفظ منا (mana) ہے۔ میرٹ نے سمجھا کہ قبیلہ کے لوگ اس کو روحانی طاقت کے معنی میں بولتے ہیں اور غیر شخصی طاقت کا یہی عقیدہ مذہب کی بنیاد ہے۔ اس نے مزید کہا کہ قدیم انسان ’’تھنکر‘‘ نہ تھا بلکہ ایکٹر تھا۔ اس طرح اس کا مذہب جادو سے بہت کم مختلف تھا۔ مگر بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ یہ قبائل ’’منا‘‘ کا لفظ غیر شخصی طاقت کے معنی میں نہیں بولتے تھے جس نے کائنات کو زندگی عطا کی ہو۔ جیسا کہ میرٹ اور دوسرے لوگوں نے سمجھ لیا تھا ، بلکہ امتیازی روحانی صفت کے معنی میں بولتے تھے۔
1890ء میں جیمز فریزر نے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کرنا شروع کیا جن میں سب سے زیادہ خاص سنہری شاخ (The Golden Bough) تھی۔ اس نے اپنی کتاب کا آغاز ایک ’’مقدس درخت‘‘ کی کہانی سے کیا جو قدیم اٹلی کے ایک مقام اربسیا پر ایک شخص نے لگا رکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس درخت میں کوئی روحانی طاقت ہے اور اس کی مدد سے جادو کے کرشمے دکھائے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کو لے کر فریزر نے ایک نظر یہ وضع کیا ،جو یہ تھا— جادو پھر مذہب
Magic to Religion to Science
اس نے کہا کہ جادو کے طریقے میں جب پہلی بار ناکامی ہوئی تو انسان نے سمجھا کہ کوئی مافوق فطرت ہستی ہے جو اس کی مدد کر کے کامیابی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ اس طرح جادو نے مذہب کی صورت اختیار کر لی۔ پھر انسان منطقی اور تجرباتی طریقہ تک پہنچا جس کو سائنس کہا جاتا ہے۔ اپنی ارتقائی کشش کی وجہ سے یہ نظریہ شروع میں بہت مقبول ہوا۔ مگر بہت جلد معلوم ہوا کہ اس مفروضہ کے لیے کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ جادو پہلے تھا اور مذہب اس کے بعد وجود میں آیا۔ کلچر کے ہر مرحلہ میں تاریخی دستاویزوں کے مطابق ، مذہب اور جادو دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ نظریہ کہ ’’جادو پھر مذہب پھر سائنس‘‘ غیر تاریخی (unhistorical) ہے۔
1922 ءمیں لوسین لیوی بروہل نے ابتدائی ذہن (primitive mentality) کا نظریہ پیش کیا۔ اس نے کہا کہ دور قدیم کے وحشی انسان ایک ابتدائی منطقی فکر (pre-logical thinking) استعمال کرتے تھے جو کہ ہماری موجودہ فکر سے مختلف تھا۔ اس نے اس نظریہ پر تنقید کی کہ تمام انسان یکساں صلاحیت کے تھے جو کہ ہماری موجودہ فکر سے مختلف تھا۔ اس نے اس نظریہ پرتنقید کی کہ تمام انسان یکساں صلاحیت کے تھے۔ اس نے مثال دی کہ تمام ’’غیر ترقی یافتہ‘‘ قومیں موت کی توجیہ فطری اسباب کے سوا دوسرے اسباب سے کرتی ہیں۔ ان کے نزدیک آدمی سادہ طور پر محض بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے نہیں مرتا بلکہ کوئی پراسرار طاقت ہے جو اس کو مارتی ہے۔ مگر پچھلے سو برس کے دوسرے شارحین مذہب کی طرح لیوی بروہل بھی محض کرسی نشین مفکر تھا جس کو موجودہ زمانہ کے ’’ابتدائی انسان‘‘ کی خبر نہ تھی۔ حتیٰ کہ وہ اس بات سے بھی بے خبر تھا کہ قدیم انسان کس طرح سوچتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی دور کا انسان بخوبی جانتا تھا کہ موت کس طرح طبیعی اسباب کے تحت ہوتی ہے ، اگرچہ اس کے ساتھ وہ ایک روحانی توجیہ کو بھی اس میں شامل کرتا تھا۔
ایک اور فرانسیسی مصنف امائیل ڈرخیم(David Emile Durkheim) نے 1912ء میں مذہب پر اپنی کتاب شائع کی۔ اس نے زور دیا کہ مذہب ایک سماجی واقعہ (social fact) ہے، نہ کہ انسان کی نفسیات کی پیداوار۔ مذہب وہم نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ ہر دور میں ہر جگہ پایا گیا ہے۔ اس نے اخلاق اور قانون کے بڑے بڑے نظام قائم کیے ہیں۔ تاہم ڈرخیم کے نزدیک مذہب خود سماج کی پرستش کا نام تھا ، اگرچہ وہ
پراسرار علامتوں کے بھیس میں ظاہر ہوتا ہے۔ ڈرخیم نے اپنا تصور آسٹریلیا کے بعض قدیم قبائل سے لیا۔ مگر اس انتخاب میں ڈرخیم کی غلطی چھپی ہوئی تھی ، کیوں کہ وہ کبھی آسٹریلیا نہیں گیا۔ اس نے دوسروں کی فراہم کردہ ناقص معلومات پر اپنی نظریہ کی بنیاد رکھ دی اور پھر اس سے مستنبط کر لیا کہ تمام دنیا کے لوگ آسٹریلیا کے انھیں قدیم قبائل کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یہ قدیم قبائل بعض پودوں اور جانوروں کو مقدس مانتے تھے اور ان کو کھانا حرام سمجھتے تھے۔ بعض مشابہتوں کی وجہ سے ڈرخیم نے اس کو شمالی امریکا کے انڈین قبائل کے ٹوٹم (Totem) کے مماثل سمجھا اور کہا کہ یہ پودے اور جانور قبیلہ کے سماجی آدرشوں کا نشان تھے جو با لآخر مذہب کی صورت اختیار کر گئے۔ مگر نہ صرف ٹوٹم کا یہ تصور بطور واقعہ باطل ہوا، بلکہ یہ بھی تاریخی طور پر ثابت نہ ہو سکا کہ ٹوٹم کا عقیدہ مذہب کے عقیدے سے پہلے پایا جاتا تھا۔
اس سے بھی زیادہ کمزور توجیہ وہ تھی جو آسٹریا کے نفسیات داں سگمنڈ فرائڈ نے 1913ء میں پیش کی۔ اس نے اپنی کتاب Totem and Taboo میں بحرالکاہل کے علاقہ کے بعض قبائل کی کہانی لکھی کہ قدیم زمانہ میں ایک طاقتور باپ خاندان کی تمام عورتوں کو اپنی ذات کے لیے مخصوص کئے ہوئے تھا۔ بعد کو جب لڑکے جوان اور طاقتور ہوئے اور باپ بوڑھا ہو گیا تو ’’ایک دن‘‘ انھوں نے باپ کو قتل کر ڈالا اور عورتوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔ مزید یہ کہ یہ قاتلین اپنے مقتول (باپ) کو کھا گئے۔ اس کا مطلب یہ تھاکہ باپ کی روح ان کے اندر آ گئی ، جس سے وہ ڈرتے تھے ، جس کو وہ برتر سمجھتے تھے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے کچھ جانور مقرر کئے جو باپ کی طاقت کا نشان تھے۔ اس کے بعد انھوں نے جشن منانے شروع کئے جس میں وہ طرح طرح سے اپنے ان عقائد کا اظہار کرتے۔ یہی چیز دھیرے دھیرے مذہب بن گئی۔
مگر اس عجیب و غریب نظریہ کے لیے بعد کے محققین کو کوئی تاریخی ثبوت نہ مل سکا۔ ’’باپ‘‘ کو مذکورہ بالا شکل میں کھا جانے کی مثال امکانی طور پر ساری تاریخ میں صرف آسٹریلیا میں اور وہ بھی ایک بار ملتی ہے اور وہاں بھی شہادتیں بہت غیر واضح ہیں۔ اس کی کوئی تاریخی ، اثریاتی یا کوئی اور شہادت نہیں ہے کہ مذہب اس طرح بیٹوں کی طرف سے باپ کو قتل کرنے کے واقعات سے شروع ہوا۔ یا یہ کہ مذہب ساری دنیا میں ایک ہی جگہ سے پھیلا ہے یا ہر ملک میں اسی خاص ڈھنگ سے شروع ہوا۔
مذہب کے آغاز کے نفسیاتی یا سماجی نظریات کے بالکل برعکس کچھ مصنفین نے د عویٰ کیا ہے کہ قدیم
ترین مذہبی عقیدہ ایک برتر ہستی کا عقیدہ تھا۔ اینڈریو لینگ (Andrew Lang) نے 1898 ءمیں مذہب کی تشکیل (The Making of Religon) اور ولہلم اسمٹ (Wilhelm Schmidt) نے خدا کے تصور کی ابتدا (The origin of the Idea of God) شائع کی جس میں شدت سے یہ نظریہ پیش کیا گیا۔ لینگ نے طویل سفر کیے اور برس ہا برس تک تمام دنیا سے شہادتیں جمع کرتارہا۔ اور بتایا کہ ایک خدا کا عقیدہ انتہائی ابتدائی انسانوں میں پایا جاتا رہا ہے اور اس کو پہلی مذہبی صورت کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے مصنفین نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ بہت سے ابتدائی قبائل میں ایک خدا کا تصور پایا جاتا ہے ، یہ کہا کہ تاہم اسی کے ساتھ دوسرے دیوتائوں کا تصور بھی ہے۔ اس طرح ’’ایک خدا‘‘ کا تصور گویا کئی خدائوں کو ماننے ہی کاایک جزء ہے۔
مذہب کے آغاز کے بارے میں پچھلے مفروضوں کے غلط ثابت ہونے کی وجہ سے اب اس میدان میں کام کرنے والے علماء بہت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ اب اگر مذہب اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسانی غور و فکرکی تاریخ پرانی ہے تو وہ اتنے بعید ماضی سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ بظاہر ناممکن ہے کہ اس کے آغاز کی بابت کوئی مسلمہ شہادت مل سکے۔ رومانی محقق (Mircea Eliada) کے الفاظ میں ’’موجودہ زمانہ کے مورخینِ مذہب جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ مذہب کی ابتدائی شکل کو معلوم کیا جا سکے۔‘‘
ماضی میںمذہب کے محققین کا یہ گمان تھا کہ اگر یہ ثابت کیا جا سکے کہ مذہب کا آغاز کچھ وہمی تصورات سے ہوا تو بعد کی ترقی یافتہ مذہبی شکلوں کو بھی بے بنیاد ثابت کیا جا سکتا ہے۔ مگر اب علمی طور پر اس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ مذہب کو نفسیاتی فریب (Psychological Illusion) یا سماجی فریب (Sociological Illusion) ثابت کرنے کا خواب بے تعبیر ہو چکا ہے۔ اب یہ ذہن پیدا ہو رہا ہے کہ مذہب ، جیسا کچھ آج ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے، نہ کہ اس کی ابتدائی صورتوںکو دریافت کرنے کی لاحاصل کوشش میں وقت ضائع کیا جائے۔
مذہبی ارتقاء کی ابتدائی شکل دریافت کرنے کا ذہن ڈارونزم کے بعد پیدا ہوا تھا۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ وحشی قبائل جو آج بھی جنگلوں میں پائے جاتے ہیں وہ ’’ابتدائی دور‘‘ کے انسان کی باقیات ہیں اور مہذب سماج میں رہنے والے لوگ ترقی یافتہ دور کے انسان۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وحشی قبائل میں مذہب کا جو تصور پایا جائے وہ ابتدائی مذہب کو بتا رہا ہے اورمہذب سماج میں جو مذہب
ہے وہ مذہب کی ترقی یافتہ شکل کو بتاتا ہے۔ مگر یہ مفروضہ بہت جلدی میں قائم کر لیا گیا جب کہ حقائق اس کی تردید کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر ایسے ابتدائی قبائل ہیں جن میں ایک برتر خدا کا عقیدہ موجود ہے جبکہ بدھزم کو ماننے والے بہت سے ترقی یافتہ لوگ خدا کو نہیں مانتے۔
Geoffrey Parrinder, Essay in 'Man and his Gods.
Encyclopedia of the World's Religions, London, 1974
اک طرف علم الانسان نے اس مفروضہ کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا ہے کہ مذہب انسانی نفسیات یا انسانی سماج کی پیداوار ہے۔ دوسری طرف سائنس، بالفاظ دیگر، علوم قطعیہ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ایسی معلومات سامنے آتی جا رہی ہیں۔ اگرچہ براہ راست نہیں تاہم بالواسطہ طور پر، یہ ثابت کر رہی ہیں کہ انسان اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں وہی نقطۂ نظر صحیح ہے جو مذہب ہمیں دیتا ہے۔
ڈاکٹر سبرامنیم چندر شیکھر(1910-1995) ایک مشہور سائنس داں ہیں۔ ایک انٹرویو کے درمیان انھوں نے کہا کہ میں خدا میں عقیدہ نہیں رکھتا۔ میں ایک ملحد انسان (atheist) ہوں۔ تاہم اسی کے ساتھ انھوں نے ایک ایسی بات کہی جو بالواسطہ انداز میں خدا کے وجود کے اقرار کے ہم معنی ہے(ہندستان ٹائمس ،
کائنات میں کچھ ایسے پہلو ہیں جو انتہائی حد تک سمجھ سے باہر ہیں۔ آئن سٹائن، شروڈنگر اور دوسرے کئی لوگوں نے کہا ہے کہ فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ وہ قابل فہم ہے۔ کیوں کر ایسا ہے کہ انسانی دماغ جو کائنات کے لحاظ سے بہت ہی چھوٹا ہے اور فلکیاتی وقت کے مقابلہ میں جس کی زندگی کاوقفہ بے حد کم ہے ، وہ خیالات میں حقیقت کو سمجھ پاتا ہے جو کہ انسانی دماغ سے نکلتے ہیں۔ اس سوال نے کپلر سے لے کر آج تک بہت سے لوگوں کو پریشان رکھا ہے۔ ریاضیاتی بیان میں صحت کیوں پائی جاتی ہے۔ ریاضیات ایک ایسی چیز ہے جس کو انسانی دماغ نے بنایا ہے۔ پھر وہ خارجی فطرت پر چسپاں کیوں ہو جاتی ہے۔ ان سوالوں کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کائنات منظم ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ وہ منظم کی گئی ہو۔ مگر کیوں ا یسا ہے کہ ہم کائنات کو ایسی اصطلاحوں میں سمجھ پاتے ہیں جن کو
ہم نے خود بنایا ہے
There are aspects (in the world) which are extremely difficult to understand. A famous remark of Einstein —and other people have said similar things, Schrodinger in particular — that the most incomprehensible thing about nature is that it is comprehensible. How is it that the human mind, extremely small compared to the universe and living over a time span microscopic in terms of astronomical time, comprehend reality in ideas which spring from the human mind? This question has puzzled many people from Kepler on. Why should mathematical description be accurate? Mathematical description is something the human mind has evolved. Why should it fit external nature? We do not have answers to these questions. One is not saying the world is orderly and therefore must be concepts we have developed?
The Hindustan Times (New Delhi) May 31, 1987.
سائنس دانوں کا یہ تبصرہ بہت عجیب اور اسی کے ساتھ بے حد سبق آموز ہے کہ فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ وہ قابل فہم ہے
The most incomprehensible thing about nature is that it is comprehensible.
سائنس داں جب کائنات کامطالعہ کرتاہے تو اس کو کائنات کے اندر انتہائی کامل درجہ کانظم دکھائی دیتاہے۔ اب اپنے پیشگی مفروضہ کی بنا پر چوں کہ وہ اس نظم کا کوئی زندہ ناظم نہیں مانتا، اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ناظم کے بغیر نظم کی توجیہ کس طرح کرے مگر یہ غلط مفروضہ کے تحت کائنات کا مطالعہ کرنا ہے۔ مفروضہ کو درست کر لیا جائے تو اس کے بعد حیرانی اپنے آپ ختم ہو جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ کائنات کے بارے میں سب سے زیادہ قابل فہم بات یہ ہے کہ وہ ناقابل فہم نہیں۔ کائنات ایک خالق کی تخلیق اور ایک ناظم کا نظام ہے۔ جب ایسا ہے تو اس کے لیے سب سے زیادہ سزا وار بات یہی ہے کہ وہ قابل فہم ہو۔ وہ ایک باشعور حکیم کا حکیمانہ کارنامہ نظر آئے۔
ڈاکٹر فرڈہائل مشہور سائنس داں ہے۔ اس کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’ذہین کائنات‘‘ ڈھائی سو صفحہ کی اس کتاب میں مصنف نے دکھایا ہے کہ کائنات کا جدید سائنسی مطالعہ حیرت انگیز طور پر اس ذہن کی تردید کرتا ہے جو انیسویں صدی میں قائم کیا گیا تھا۔ پہلے یہ سمجھ لیا گیا تھاکہ کائنات محض بے شعور مادہ کی اندھی کارفرمائی ہے۔ مگر بیسویں صدی کے آخر میں سائنس کے مختلف شعبوں میں جو تحقیقات ہوئی ہیں وہ واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ کائنات محض ایک مادی کائنات نہیں ، وہ ایک ’’ذہین کائنات‘‘ ہے۔ یہاں اندھے مادی عمل کے بجائے ہر طرف ذہن کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
ان تفصیلات کو قلم بند کرتے ہوئے مصنف نے ایک بڑی عبرت انگیز بات لکھی ہے۔ مصنف کا یہ پورا پیراگراف ہم انھیں کے لفظوں میں نقل کرتے ہیں
This indeed is just what orthodox scientists are unwilling to admit. Because there might turn out to be—for want of a better word religious connotation, and because orthodox scientists are more concerned with preventing a return to the religious excesses of the past than in looking forward to the earth, the nihilistic outlook described than in looking forward to the earth, the nihilistic outlook described above has dominated scientific thought throughout the past century.
Fred Holye, The Intelligent Universe. Michael Joseph Limited, London, 1983
(زمین سے باہر کی طاقت کی کارفرمائی کے حق میں پہاڑ جیسی شہادتیں ملنے کے باوجود) یہ وہ چیز ہے جس کو راسخ العقیدہ سائنس داں تسلیم کرنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ انھیں یہ اندیشہ ہے کہ اس کا مذہبی مطلب نکل آئے گا۔ راسخ العقیدہ سائنس داں سچائی کو پانے سے زیادہ اس کے لیے فکر مند ہیں کہ وہ ماضی میں ہونے والے مذہبی مظالم کے اعادہ کو روکیں۔ مذکورہ منکرانہ نقطۂ نظر پوری گزشتہ صدی میں سائنسی خیالات پر چھایا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دور جدید میں علوم فطرت کے مطالعہ نے انسان کو مذہب کے دروازہ پر پہنچا دیا ہے۔ مگر جدید انسان جس کی پرورش عیسائی روایات میں ہوئی ہے وہ اپنی مخصوص تاریخ کی وجہ سے مذہب کے دروازے میں داخل ہونے سے ہچکچا رہا ہے۔ ’’مذہب‘‘ کا تصور آتے ہی اس کو سولہویں
اور سترہویں صدی کے وہ مظالم یاد آنے لگتے ہیں جب کہ یورپ میں سائنس کا آغاز ہوا اور عیسائی مذہب اس کو کچلنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ یہ جدید انسان مذہب کے نام سے صرف عیسائیت کو جانتا ہے اور عیسائیت اس کے نزدیک ایسے بے معنی عقائد کا مجموعہ ہے جس کے اندر یہ طاقت نہیں کہ وہ علم کا سامنا کر سکے۔
سرفرڈہائل نے اپنی مذکورہ کتاب ذہین کائنات (The Intelligent Universe) میں لکھا ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں پختہ مذہبی فکر نے یہ کیا کہ زمین کی پوری تاریخ کو بائبل کی روشنی میں چند ہزار سال کے اندر محدود کر دیا۔ اس نقطۂ نظر کی واضح غلطی پہلی بار جیمس ہیوٹن (1726-1797ء) کی تحقیقات سے ظاہر ہوئی جو پختہ مذہبی لوگوں کے سخت خلاف تھی اور اب بھی وہ ان کے سخت خلاف ہے۔ جیمس ہیوٹن نے اپنی ساری عمر زمین اور چٹانوں کے مطالعہ میں گزاری۔ اس کی تحقیقات نے بتایا کہ پہاڑوں اور وادیوں کے بننے میں کروڑوں سال لگے ہیں۔ عظیم ارضیات داں چارلس لائل (1797-1875ء) کی تحقیقات نے ہیوٹن کے نتائج کو مزید موکد کیا۔ لائل کی کتاب ارضیات کے اصول (Principles of Geology) 1830 ءمیں چھپی۔ یہ کتاب سب سے بڑی وجہ تھی جس نے لوگوں کو مطمئن کر دیا کہ زمین کی عمر کے بارے میں بائبل کا بیان غلط ہے۔ وہ اس قابل نہیںکہ سنجیدہ غور و فکر میں اس کا حوالہ دیا جا سکے (صفحہ
زمین کی عمر (اور اس طرح دوسری چیزوں کے بارے میں) بائبل غیر معتبر ثابت ہوئی تو لوگوں نے یقین کر لیا کہ وہ مذہبی امور کے بارے میں بھی غیر معتبر ہے۔ یہ تاثر یہاں تک پہنچا کہ لوگوں نے خود مذہب ہی کو غیر معتبر چیز سمجھ لیا۔ مذہب کی غلط نمائندگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خود مذہب کو غلط اور ناقابل اعتبار سمجھنے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب آخری طور پر وہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا کو اسلام سے متعارف کیا جائے۔ عیسائیت کی خرابیاں تحریف کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ اسلام چوں کہ تحریف سے پاک ہے اس لیے وہ ان خرابیوں سے بھی پاک ہے۔ اسلام کو اگر اس کی حقیقی شکل میں جدید انسان کے سامنے لایا جائے تو بے شمار لوگ اس پر لبیک کہیں گے ، کیوں کہ ان کے لیے یہ عین وہی چیز ثابت ہو گی جس کا وہ اپنی فطرت اور اپنے علم کے تقاضے کے تحت پہلے سے انتظار کر رہے ہیں۔ بائبل نے انھیں مذہب سے دور کیا تھا ، اسلام دوبارہ انھیں مذہب سے قریب کرنے کا سبب بن جائے گا۔
امریکا کے ٹائم میگزین (18 اپریل 1966ء) کی کور اسٹوری (خصوصی مضمون) کا عنوان تھا ’’کیا خدا مر چکا ہے‘‘۔ یہ 20 سال پہلے کی بات تھی۔ اب خود مغربی دنیا میں ایسی کتابیں اور مضامین مسلسل شائع ہو رہے ہیں جن کا عنوان اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ماہنامہ اسپان (دسمبر 1984ء) میں ایک مفصل رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کی سرخی کے الفاظ یہ ہیں ’’مذہب کی طرف واپسی‘‘ ۔
یہ رپورٹ الرسالہ کے انگریزی ایڈیشن میں نقل کی جا رہی ہے۔ اس کا خلاصہ یہاں مقابل کے صفحہ پر درج ہے۔ اس کے مطابق امریکا اوردوسرے مغربی ملکوں میں مختصر وقفہ کے بعد مذہب ازسرنو زندہ ہو رہاہے۔ کالجوں میں دینیات کی کلاس جو پہلے خالی رہتی تھی اب بھری رہتی ہے۔ چرچ اور سینیگاگ (یہودی عبادت خانہ) میں جانے والوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ مذہبی لٹریچر پڑھنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مذہب کے نام پر کانفرنسیں کثرت سے منعقد کی جا رہی ہیں۔ ایک پروفیسر کے الفاظ میں، یہاں مذہب میں دلچسپی کا حیرت ناک احیاء ہوا ہے۔
ایک مغربی دانشور جس نے 1965 ءمیں ’’سیکولر شہر‘‘ نامی کتاب میں بتایا تھاکہ لوگوں نے مقدس چیزوں میں اپنی دلچسپی کھو دی ہے ، اب وہ اپنی دوسری کتاب ’’سیکولر دنیا میں مذہب ‘‘ میں دکھا رہا ہے کہ مذہب میں لوگوں کی دلچسپی ازسرنو بحال ہو گئی ہے۔ دانشور طبقہ جو عرصہ سے شک کی بنا پرمذہب کو نظرانداز کئے ہوئے تھا وہ مذہب کی طرف دوبارہ دیکھنے لگا ہے۔
ڈینیل بل نے لکھا ہے کہ 18 ویں صدی کے آخر سے لے کر 19 ویں صدی کے نصف تک تقریباً ہر ترقی پسند مفکر یہ خیال کرتا تھا کہ مذہب 20 ویں صدی میں ختم ہو جائے گا۔ یہ عقیدہ عقل کی طاقت کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ نظریہ یہ تھا کہ انسان اپنے دماغ سے اپنے مسائل کو حل کر لے گا اور اس کے بعد مذہب اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ہم نے ٹیکنالوجی کے ذریعہ فطرت کے اوپر غیر معمولی طاقت حاصل کر لی۔ اس کے باوجود 20 ویں صدی غالباً انسانی تاریخ کی سب سے بھیانک صدی ہے۔
چونکہ انسان کے سیکولر خدا ناکام ہو گئے ہیں ، وہ روایتی خدا کی طرف زیادہ سے زیادہ دیکھنے
'There's no doubt about it'' 'says Harvey R. Cox, Professor of Divinity at the Harvard Divinity School. ''There's is a tremendous resurgence of religious interest here.'' It is not uncommon to see students wearing crosses or yarmulkes on campuses across the United States, and few hide the fact that they go to church or synagogue. Not just student, but the academic community in general, long a haven for sceptics, is now giving religion a second look. Cox's bestselling 1965 book. The Secular City. suggested that people had lost interest in the sacred. His new book, Religion in The Secular City. describes the current revival in religious concern. A century that has seen the Gulag, the Holocaust. Hiroshima and the spread of nuclear arms has caused some who used to champion rationalism and science to humble themselves. Since their secular gods have failed, they are beginning to view more traditional gods with a new curiosity. ''There is a reaction against extreme individualism and self, a preoccupation with and a search for roots with a new curiosity. ''There is a reaction against extreme individualism and self, a preoccupation with and a search for roots with a capital R. which takes people back to religion. says Robert N. Bellah, Ford Professor of Sociology and Comparative Studies at the University of California at Berkeley. ''Tradition is back on the agenda with a positive force.'' It would have been hard to imagine a similar revival 20 years ago. In April 1966. Time Magazine asked on its cover: ''Is God Dead?'' Among intellectuals today, God is not pronounced dead easily. Science and religion are not viewed as necessarily incompatible, and logical attempts to disprove God's existence are viewed as somewhat arcane. All of this would have surprised our intellectual predecessors. ''At the end of the 18th and to the middle of the 19th century, almost every enlightened thinker expected religion to disappear in the 20th century. ''Daniel Bell said in a seminal lecture. ''The Return of the Sacred.'' at the London School of Economics in 1977. ''The belief was based on the power of reason. ''The theory was that man could use his mind to overcome his problems, and religion would wither away. But that has hardly been the case. ''We've gained enormous power over nature via technology,'' Bell said in an interview. ''And yet, the 20th century is probably the most dreadful period in human history. ''For intellectuals, according to Bell, there have always been secular alternatives to religious faith: rationalism and the belief in science; aestheticism and he belief in art; existentialism as expressed in the works of Kierkegaard and the early Sartre, and politics—the cults of Stalin. Lenin and Mao. Yet, one by one, those alternatives, according to Bell, have exhausted their power to move individuals. ''It’s ironic that my generation should be the one coming back to religion. ''says Alan Dershowitz,
لگا ہے۔ ایک پروفیسر کے الفاظ میں روایت دوبارہ مثبت قوت کے ساتھ ایجنڈا پر آ گئی ہے۔
مذہب کی طرف یہ واپسی حقیقتاً فطرت کی طرف واپسی ہے۔ یعنی اس خدا کی طرف واپسی جس کا احساس اس کی فطرت میں پیوست ہے نہ کہ اس خدا کی طرف جس کی نمائندگی وہ اپنے موروثی مذہب میں پا رہا ہے۔
ہارورڈ لا اسکول کے پروفیسر آلن ڈرشووٹزنے کہاکہ یہ بڑی عجیب چیز ہے کہ میری نسل مذہب کی طرف واپس آئے۔ ہم وہ نسل ہیں جس کو ہر قسم کی آزادی اور ہر طرح کی چھوٹ حاصل تھی مگر ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ اس آزادی کا کوئی جڑ نہیں ۔ یہی بے جڑ ہونے کا احساس ہے جس نے اکثر دانشوروں کو دوبارہ مذہب کی طرف لایا ہے۔ ایک دوسرے پروفیسر مسٹر کولس نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں خدا میں عقیدہ رکھتا ہوں۔ میں روحانیت کی تلاش میں ہوں نہ کہ کسی خاص مذہب کو ماننے والا۔ میری زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جبکہ میں ٹھہر جاتا ہوں اور خدا کو پکارنے لگتا ہوں۔ لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ وہ خدا کون ہے اور اس کی صورت کیا ہے تو میں تردد میں پڑ جائوں گا۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں انتشار ذہنی کا شکار ہوں۔ اگرچہ میں نہیں چاہتا کہ ذہنی انتشار میری زندگی پر پوری طرح چھا جائے۔
یہ صورت حال جو غیر مسلم اقوام میں پیدا ہوئی ہے یہی خود مسلمانوںمیں بھی پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر بھی دین کی طرف ازسرنو رجوع پیدا ہوا ہے، مگر اس رجوع کا تعلق کسی عہد ساز مفکر یا کسی خدا رسیدہ بزرگ سے نہیں ہے،یہ تمام تر ایک زمانی مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قوم میں یکساں طور پر پیدا ہوا ہے۔ مسلمان ، ہند و ، سکھ، عیسائی ، یہودی ، بدھسٹ وغیرہ سب کے یہاں اس کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک مذہب اور دوسرے مذہب کا کوئی فرق نہیں۔
اس نئی صورت حال کی وجہ مغربی انسان کی وہ مایوسی ہے جو اس کو موجودہ صدی میں پیش آ رہی ہے۔ بیسویں صدی عقلیت اور سائنس کی صدی تھی۔ جدید انسان کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اپنی عقل اور اپنی سائنس سے وہ سب کچھ حاصل کر لے گا جس کی امید پہلے صرف مذہب سے کی جاتی تھی۔ مگر اس کی امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ انسان کی عقلیت نے اس کو صرف بے یقینی تک پہنچایا اور اس کی سائنس ایٹمی جنگ کا سیاہ بادل بن کر اس کے سر پر منڈلانے لگی۔ چوں کہ لوگوں کے سیکولر خدا ناکام ہو گئے، اس
لیے لوگوں نے روایتی خدا کی طرف زیادہ توجہ کے ساتھ دیکھنا شروع کر دیا۔
اس طرح موجودہ صورتحال نے ہمارے لیے ایک نیا امکان کھولا ہے۔ اس نے خدا کے محفوظ دین (اسلام) کی تبلیغ و اشاعت کاایک نیا موافق میدان پیدا کر دیا ہے۔ آج کا انسان خدا اور مذہب کی تلاش میں نکلا ہے۔ مگر یہ تمام تر فطرت کے زور پر ہے۔ موجودہ مذاہب تحریف ہو جانے کی بنا پر اس کی تلاش کا حقیقی جواب نہیں ہیں۔ یہاں ضرورت ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ جس مذہب کی تمہیں تلاش ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں موجود ہے۔ اسلام اسی مذہب کا غیر محرف ایڈیشن ہے جس کو تم محرف مذاہب میں ناکام طور پرتلاش کر رہے ہو۔
دنیا کے موجودہ حالات دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے لوگوں کو لا کر اپنی رحمت کے دروازہ پرکھڑا کر دیا ہے۔ وہ لوگوں کو مجبور کر کے انھیں دین حق میں داخل کرنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آسمان سے لوگوں کی ہدایت اتر چکی ہے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم حق کو طالبانِ حق تک پہنچا دیں۔
علم طبیعیات میں، نیوٹن کے بعد سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چار قسم کے قوانین یا طاقتیں ہیں جو فطرت کے مختلف مظاہر کو کنٹرول کرتی ہیں
—1قوت کشش(gravitational force)
—2 برقی مقناطیسی قوت(electromagnetic force)
—3طاقتور نیو کلیر قوت(strong nuclear force)
—4کمزور نیو کلیر قوت(weak nuclear force)
کشش کا قانون، ایک کہانی کے مطابق، نیوٹن نے اس وقت معلوم کیا جبکہ اس نے سیب کے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا۔’’سیب اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا، نیچے زمین پر کیوں آیا‘۔ اس سوال نے اس کو اس جواب تک پہنچایا کہ زمین میں اور اسی طرح تمام دوسرے کُرّوں میں، جذب و کشش کی قوت کار فرما ہے۔ بعد کو آئن سٹائن نے اس نظریہ میں بعض فنی اصلاحات کیں۔ تاہم اصل نظریہ اب بھی سائنس میں ایک مسلمہ اصول فطرت کے طور پر مانا جاتا ہے۔ برقی مقناطیسی قانون کا تجربہ پہلی بار فریڈے نے 1821ء میں کیا۔ اس نے دکھایا کہ بجلی کی قوت اور مقناطیس کی قوت ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ مقناطیس اور حرکت کو یکجا کیا جائے تو بجلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور مقناطیس اور بجلی کی لہر کو یکجا کریں تو حرکت وجود میں آ جاتی ہے(6 جنوری1980ء)۔
ابتدائی50 سال تک تمام طبیعی واقعات کی توجیہ کے لیے مذکورہ دو قوانین کافی سمجھے جاتے تھے مگر موجودہ صدی کے آغاز میں جب ایٹم کے اندرونی ڈھانچہ کی بابت معلومات میں اضافہ ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہیں جو ایٹم کے اندر کام کر رہے ہیں تو طبیعی نظریات میں تبدیلی شروع ہوگئی۔ یہیں سے طاقتور نیو کلیر فورس اور کمزور نیو کلیر فورس کے نظریات پیدا ہوئے۔ ایٹم کا اندرونی مرکز(نیوکلیس) الیکٹران سے گھرا ہوا ہے جو کہ پروٹان نامی ذرات سے بہت زیادہ چھوٹے اور ہلکے ہیں۔ مگر مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر الیکٹران وہی چارج رکھتا ہے جو بھاری پروٹان رکھتے ہیں۔ البتہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ الیکٹران میں منفی برقی چارج ہوتا ہے اور پروٹان میں مثبت برقی چارج۔ الیکٹران ایٹم کے بیرونی سمت میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ ان کے اور ایٹم کے مرکز (نیوکلیس) کے درمیان بہت زیادہ خلا ہوتا ہے۔ مگر منفی چارج اور مثبت چارج دونوں میں برابر برابر ہوتے ہیں اور اس بنا پر ایٹم بحیثیت مجموعی برقی اعتبار سے نیوٹرل اور قائم (stable)رہتا ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایٹم کا مرکز بطور خود قائم (stable) کیوں کر رہتا ہے۔ الیکٹران اور پروٹان الگ الگ ہو کر بکھر کیوں نہیں جاتے۔ قائم رہنے (stability) کی توجیہ طبیعیاتی طور پر یہ کی گئی ہے کہ پروٹان اور نیوٹران کے قریب ایک نئی قسم کی طاقتور قوت کشش موجود ہوتی ہے۔ یہ قوت ایک قسم کے ذرات سے نکلی ہے جن کو میسن (masons) کہا جاتا ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان اور نیوٹران کے ذرات بنیادی طورپر یکساںidentical)) سمجھے جاتے ہیں۔ مقناطیس کے دو ٹکڑوں کو لیں اور دونوں کے یکساں رخ(سائوتھ پول کو سائوتھ پول سے یا نارتھ پول کو نارتھ پول سے) ملائیں تو وہ ایک دوسرے کو دور پھینکیں گے۔ اس معروف طبیعی اصول کے مطابق پروٹان اور نیوٹران کو ایک دوسرے سے بھاگنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ پروٹان اور نیوٹران ہر لمحہ بدلتے رہتے ہیں اور اس بدلنے کے دوران میسن کی صورت میں قوت خارج کرتے ہیں جو ان کو جوڑتی ہے، اسی کا نام طاقتور نیوکلیر فورس ہے۔ اسی طرح سائنس دانوں نے دیکھا کہ بعض ایٹم کے کچھ ذرات(نیوٹران، میسن) اچانک ٹوٹ جاتے
ہیں۔ یہ صورتحال مثلاً ریڈیم میں پیش آتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کا اس طرح اچانک ٹوٹنا طبیعیات کے مسلمہ اصول تعلیل(casuality) کے خلاف ہے۔ کیوں کہ پیشگی طور پر یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ ایٹم کے متعدد ذرات میں سے کون سا ذرہ پہلے ٹوٹے گا۔ اس کا مدار تمام تر اتفاق پر ہے۔ اس مظہر کی توجیہ کے لیے ایٹم میں جو پراسرار طاقت فرض کی گئی ہے اسی کا نام کمزور نیوکلیر فورس ہے۔ سائنس داں یہ یقین کرتے ہے ہیں کہ انہیں چار طاقتوں کے تعامل(interactions) سے کائنات کے تمام واقعات ظہور میں آتے ہی۔ مگر سائنس عین اپنی فطرت کے لحاظ سے ہمیشہ وحدت کی کھوج میں رہتی ہے۔ کائنات کا سائنسی مشاہدہ بتاتا ہے کہ پوری کائنات انتہائی ہم آہنگ ہو کر چل رہی ہے۔ یہ حیرت ناک ہم آہنگی اشارہ کرتی ہے کہ کوئی ایک قانون ہے جو فطرت کے پورے نظام میں کار فرما ہے۔ چنانچہ طبیعیات مستقل طور پر ایک متحدہ اصول(unified theory) کی تلاش میں ہے۔ سائنس کا ’’ضمیر‘‘ متواتر اس جدوجہد میں رہتا ہے کہ وہ قوانین فطرت کی تعداد کو کم کے اور کوئی ایک ایسا اصول فطرت(principle) دریافت کرے جو تمام واقعات کی توجیہ کرنے والا ہو۔
آئن سٹائن نے مذکورہ قوانین میں سے پہلے دو قوانین کشش اور برقی مقناطیسیت کے اتحاد (unification) کی کوشش کی اوراس میں
سائنس اگرچہ اپنے آپ کو’’کیا ہے‘‘ کے سوال تک محدود رکھتی ہے، وہ’’کیوں ہے‘‘ کے سوال تک جانے کی کوشش نہیں کرتی۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ سائنس نے جو دنیا دریافت کی ہے وہ اتنی پیچیدہ اور حیرت ناک ہے کہ اس کو جاننے کے بعد کوئی آدمی’’کیوں ہے‘‘ کے سوال سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میکسویل (1831-1879ء) وہ شخص ہے جس نے برقی مقناطیسی تعامل (electromagnetic interaction) کے قوانین کو ریاضی کی مساواتوں (equations) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بیان کیا۔ انسان سے باہر فطرت کا جو مستقل نظام ہے اس میں کام کرنے والے ایک قانون کا انسانی ذہن کی بنائی ہوئی ریاضیاتی مساوات میں اتنی خوبی کے ساتھ ڈھل جانا اتنا عجیب تھا کہ اس کو دیکھ کر بولٹزمن بے اختیار کہہ اٹھا— وہ کون خدا تھا جس نے یہ نشانیاں لکھ دیں
Who was the God who wrote these singns?
In The Encyclopaedia of Ignorance, to be published next Thursday, some 60 well-known scientists survey different fields of research, trying to point out significant gaps in our knowledge of the world. They write at very different levels, at very different lengths. However, last week we contacted some of the authors dealing with major branches of science and asked them to name a single unsolved problem which they personally found especially important or interesting. They give their choices below, together with those of two - Professor John Maynard Smith and Dr. Francis Crick - who could not be contacted, and which have been taken directly from the book.
1: Why is the universe so uniform? Ian Roxburg, Professor of Applied Mathematics, Queen Mary College, London: "the universe is astonishingly uniform. No matter which way we look, the universe has the same constituents in the same proportions. The laws of physics discovered on earth contain arbitrary numbers, like the ratio of the mass of an electron to the 'mass of a proton, which is roughly 1840 to one. But these turn out to be the same in all places at all times. Why? Did a creator arbitrarily choose these numbers? Or must these numbers have the particular uniform value we observe for the Universe to exist?"
2: Is there a Z-particle? Abdul Salam, Professor of Theoretical Physics, Imperial College, London. '' In the fleet decade we need to confirm or disprove the existence of the so-called Z-particle. If it does turn out to exist as predicted by current theory, it will clinch the unification of two of the four forces we know in nature. [The four forces are gravity, electro-magnetism, the strong nuclear force that binds the atomic nucleus together, and the weak nuclear force involved in radioactivity. Recently, Professor Salam and others have made some progress towards unifying the weak nuclear force and electromagnetism. The discovery of the Z-particle would lend strong experimental support.]
3: What preceded DNA? Dr Graham Cairns-Smith, lecturer in chemistry, University of Glasgow. "We need to discover a new genetic material as different as you like from DNA. [The double helix structure of DNA was discovered by Francis Crick and James Watson in Cambridge in 1953.] I do not believe that DNA could have been made on the primitive earth. Life must have started with something else and DNA evolved later.’’
4: How are genes switched on and off? Sir John Kendrew, Chairman of the European Allender Biology Organisation, Heidelberg. ‘‘We know something about how genes are switched on and off in bacteria, but next to nothing about how it is done in higher animals? [It is by switching genes on and off that the cells of a single organism, which all contain the same set of genes, are able to do such different jobs, and become constituents of nerves, skin, etc.]
5: Why do we have an immune system? The body’s immune system defends us against infection, is responsible for allergies, and makes organ transplant so difficult. But according to Dr. H. S. Micklem of the University of Edinburgh, ‘‘The most interesting question is not how the immune system works, but why it is there at all: Invertebrates seem to get along quite well without one, but it is incredibly complicated in vertebrates. The idea that it was needed to detect small changes in the cell surface which might lead to cancer has been popular in the last ten years but there is a lot of data to suggest it is not good enough.’’
6: How can we measure evolution? John Maynard Smith, Professor of Biology, University of Sussex, thinks that the theory of evolution has a built-in problem. ‘‘The essential components of the theory of evolution are mutation (a change in a gene), selection (differential survival or fertility of different types) and migration. The theory tells us that each of these processes, at a level far too low to be measurable in most situations, can profoundly affect evolution. Thus, we have three processes which we believe to determine the course of evolution, and we have a mathematical theory which, tells us that these processes can produce their effects at levels we cannot usually hope to measure directly. It is as if we had a theory of electromagnetism but no means of measuring electric current or magnetic force.’’
7: How is the nervous system built? Francis Crick, Salk Institute, California. ‘‘Perhaps the most challenging problem in the whole of developmental biology is the construction of the nervous system of an animal. Many years ago, it was shown by Roger Sperry that if a newt’s eye was removed, so that the optic nerve from its eye to its brain was broken, then even if, the eye was replaced upside down, the optic nerve would regenerate from the retina, grow towards the brain, and connect up again. After a period, the animal could see again with this eye, but it always saw upside down. In other words, the new connection had been made ‘correctly’ except that the eye did not know it had been inverted. The results show that fairly precise processes are at work to make the correct, rather intricate, connections needed between one set of nerves and another but exactly what these mechanisms are we do not yet know.’’ [In other words, the very fact that it was upside down shows how specific the links are.]
8: Does the quantum theory apply to gravity? Sir Herman Bondi, Chief Scientist, Department of Energy. ‘‘If we follow Einstein's widely accepted theory of gravity then any rapid change in the source of a gravitational field —two stars orbiting round each other, for example-. should radiate gravitational waves at the spend of tight. All other forms of recitation are ‘quantised,’ that is to say they are not continuous but come in discrete but minute packets. It is hardly conceivable that gravitational waves are quantised too, but nobody has yet succeeded in establishing the equations, though Many have tried.’’
9: How do different parts of the brain link up? Professor Horace Barlow, Cambridge. ‘‘We are almost totally ignorant about how different parts of the brain communicate with one another. For example, what goes on between the parts of the brain concerned with hearing and the rest when we recognise a familiar voice? You can draw an analogy with speech. It is carried by sound waves, but it is far more meaningful than the babbling of a baby which is carried by sound waves, too. In the brain nervous' impulses are the equivalent of soundwaves, but we have no idea of how they become meaningful.’’
10: How old is man? Dr Donald C. Johnson, Museum of Natural History, Cleveland, Ohio. "Fossil discoveries in Europe Africa and Asia are pushing human origins further back in time. However, it is becoming increasingly clear that the scenario of human evolution is much more complex. The probable time is three to ten million years ago. There appears to have been a great diversity of possible human ancestors and we don’t know how were related. [This is due partly to Johanson's discoveries to Ethiopia and others, of even older fossils, made in Pakistan]
(Sunday Times , London, December 4, 1977, p.
لندن سے ایک انسائیکلوپیڈیا چھپی ہے جس کا نام ہے’’قاموس جہالت‘‘۔ اس میں ساٹھ مشہور سائنسداں مختلف علمی شعبوں کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسان کن چیزوں کے بارے میں ابھی تک لاعلم ہے۔ یہاں ان میں سے دس مختلف سائنس دانوں کا بیان نقل کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے تحقیقی شعبوں کے بارے میں بتایا ہے کہ ان کے شعبہ کی واحد سب سے بڑی نامعلوم حقیقت کیا ہے۔
آئن رکسبرگ، پروفیسرتطبیقی ریاضیات، کوئن میری کالج، لندن کائنات تعجب خیز حد تک یکساں ہے۔ ہم خواہ کسی طور پر بھی اس کو دیکھیں، کائنات کے اجزاء میں وہی ترکیب اسی تناسب سے پائی جاتی ہے۔ زمین پر جو طبیعیاتی قوانین دریافت کیے گئے ہیں، وہ تحکمی اعداد پر مشتمل ہیں جیسے کسی الیکٹران کی مقدار مادہ کا تناسب ایک پروٹان کے مقدار مادہ سے جو کہ تقریباً1840 کے مقابلہ میں ایک ہوتا ہے۔ یہی تناسب ہر جگہ اور ہر وقت پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا ایک خالق نے تحکمی طور پر انھیں اعداد کا انتخاب کر رکھا ہے۔ کیا کائنات کے وجود کے لیے ان اعداد میں وہی متناسب قدر ضروری ہے جو ہم دیکھتے ہیں۔
عبدالسلام، پروفیسر نظری طبیعیات، امپیریل کالج، لندن اگلے دس برسوں میں ہمیں یا تو زڈ ذرہ کا وجود تسلیم کرنا ہے یا یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔ اگر اس کا وجود ثابت ہوگیا جیسا کہ موجودہ نظریہ کی پیشین گوئی ہے تو اس کے بعد عالم فطرت کی چار طاقتیں جن کا ہمیں علم ہے ان میں سے دو طاقتوں کا ایک ہونا ثابت ہو جائے گا(یہ چار طاقتیں یہ ہیں کشش، برقی مقناطیسیت، طاقتور نیوکلیر فورس جو کہ ایٹم کے نیوکلیس کو آپس میں باندھے رہتی ہے، اور کمزور نیوکلیر فورس جو ریڈیائی لہروں سے متعلق ہے)۔ پروفیسر عبدالسلام اور دوسرے سائنس دانوں نے حال میں کمزور نیو کلیر فورس اور برقی مقناطیسیت کو ایک ثابت کرنے میں کچھ کامیابی حاصل کی ہے۔ زڈ ذرہ کی دریافت سے قوی تجرباتی تائید حاصل ہوگی۔
ڈاکٹر گراہم کیرنس اسمتھ، لکچرر کیمسٹری، گلاسگو یونیورسٹی ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک نیا
جنیٹک مادہ دریافت کریں جو ڈی این اے سے بالکل مختلف ہو۔(ڈی این اے کا دہرا مرغولہ نما ڈھانچہ کیمبرج میں1953 میں فرانسس کریک اور جیمس واٹسن نے دریافت کیا تھا)۔ مجھے یقین نہیں کہ ڈی این اے ابتدائی زمین پر بن سکتا تھا۔ ضروری ہے کہ زندگی کسی اور چیز سے شروع ہوئی ہو اور ڈی این اے کا ارتقا بعد کو ہوا ہو۔
سرجان کینڈ ریو، چیئرمین یوروپین مالے کیولر بیالوجی آرگنائزیشن، ہائڈلبرگ جین کس طرح بیکٹیریا میں متحرک اور غیر متحرک ہوتے ہیں، ان کی بابت ہم کسی قدر جانتے ہیں۔ مگر اعلیٰ حیوانات میں یہ واقعہ کیونکر ہوتا ہے، اس کی بابت ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔(جین کے متحرک اور غیر متحرک ہونے ہی کی وجہ سے ایسا ہے کہ ایک جسم کے سل، جو سب کے سب ایک قسم کے جین پر مشتمل ہوتے ہیں، وہ مختلف قسم کے عمل کر پاتے ہیں اور نسوں، جلد، وغیرہ کے اجزائے ترکیبی بن جاتے ہیں)۔
جسم کا مانعی نظام ہم کو چھوت سے بچاتا ہے۔ یہی ہمارے اندر الرجی کا سبب ہے، اور اعضاء کی پیوند کاری کو اس قدر مشکل بنا دیتا ہے۔ مگر اڈنبرا یونیورسٹی کے ڈاکٹر میکلم کے نزدیک’’سب سے زیادہ دلچسپ سوال یہ نہیں ہے کہ یہ مانعی نظام کیسے کام کرتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ خود اس کا وجود ہی کیوں ہے۔ بے ریڑھ کے جانور اس کے بغیر بھی اچھی طرح گزر کر لیتے ہیں۔ مگر ریڑھ دار حیوانات میں یہ نظام ناقابل یقین حد تک پیچیدگی کے ساتھ شامل ہے۔ پچھلے دس سالوں سے اس خیال کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے کہ اس نظام کی ضرورت اس لیے تھی کہ خلیہ کی سطح میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جو سرطان کا سبب بن سکتی ہیں، ان کا پتہ لگایا جا سکے، مگر بہت سی حالیہ دریافتیں اس کی تائید کرتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔
جان میزڈاسمتھ، پروفیسر حیاتیات، سیسکس یونیورسٹی کا خیال ہے کہ ارتقاء کا نظریہ ایک ناقابل حل اندرونی مسئلہ سے دو چار ہے۔ نظریہ ارتقاء کے تین حقیقی اجزاء ہیں
تغیر(جین میں تبدیلی کا واقع ہونا)۔
انتخاب(فرق کا باقی رہنا یا مختلف اقسام کی زرخیزی)۔
نقل مکانی
یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک، اکثر حالات میں ناقابل پیمائش حد تک نچلی سطح پر، ارتقاء کے عمل پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ اس طرح ہم تین طریقوں سے واقف ہیں جن کے متعلق ہمارا یقین ہے کہ وہ ارتقاء کے عمل کا تعین کرتے ہیں۔ پھر ہمارے پاس ایک ریاضیاتی نظریہ ہے جو ہم کو بتاتا ہے کہ یہ تینوں طریقے ایسی سطحوں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں جن کی بالواسطہ پیمائش کی ہم امید نہیں رکھتے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارے پاس برقی مقناطیسیت کا ایک نظریہ تو ہو مگر ہمارے پاس نہ تو برقی لہروں کو ناپنے کا کوئی ذریعہ ہو اور نہ مقناطیسی زور کو ناپنے کا۔
فرانسس کریک، سالک انسٹی ٹیوٹ، کیلی فورنیا حیاتیاتی ترقیات میں شاید سب سے بڑا علمی چیلنج یہ سوال ہے کہ ایک جاندار میں عصبی نظام کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے۔ بہت سال پہلے راجر اسپری نے تجربہ کرکے دکھایا تھا کہ اگر ایک دریائی چھپکلی کی آنکھ اس طرح نکالی جائے کہ اس کی نظر کی نس آنکھ سے دماغ تک ٹوٹ جائے۔ اس کے بعد اگر اس کی آنکھ کو دوبارہ الٹ کر بھی لگا دیا جائے تو نظر کی نس آنکھ کے پردے سے دوبارہ شروع ہو کر دماغ کی طرف بڑھے گی اور دوبارہ اس سے جڑ جائے گی۔ کچھ عرصہ کے بعد جانور اس آنکھ سے دوبارہ دیکھ سکتا تھا۔ مگر ہمیشہ الٹی شکل میں (کیوں کہ آنکھ الٹی لگی ہوئی تھی)۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ نیا تعلق بالکل درست تھا۔ بجز اس کے کہ آنکھ کو یہ پتہ نہ تھا کہ وہ الٹی لگی ہوئی ہے۔ یہ نتائج بتا رہے ہیں کہ اعصاب کے ایک نظام کو اعصاب کے دوسرے نظام سے ٹھیک ٹھیک مربوط کرنے کے لیے بہت ہی درست اور پیچیدہ طریقے کار فرما ہوتے ہیں۔ مگر یہ طریق عمل کیا ہے، اس کو ہم متعین طور پر نہیں جانتے۔(دوسرے لفظوں میں خود یہ واقعہ کی آنکھ الٹی لگی تھی، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ رابطے کس قدر متعین ہوتے ہیں)۔
سرہرمن بوندی، چیف سائنٹسٹ، شعبۂ انرجی اگر ہم آئن سٹائن کے مقبول عام نظریۂ کشش کو مانیں تو کسی مقناطیسی میدان کے مرکز میں یکایک تبدیلی(مثلاً دوستاروں میں جو ایک دوسرے کے گرد گھوم رہے ہوں) سے ایسا ہونا چاہیے کہ کشش کی لہریں روشنی کی سی رفتار سے پیدا ہوں۔ ریڈی ایشن کی دوسری تمام صورتیں’’کوانٹم‘‘ کے مطابق ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلسل نہیں ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی مقداروں کی شکل میں غیر مسلسل طور پر آتی ہیں۔ یہ بات بمشکل قابل فہم ہے کہ کشش کی لہریں مقداروں کی شکل میں نہیں ہوتیں۔ مگر ابھی تک کوئی اس بات کو ثابت نہیں کر سکا ہے، حالاں کہ بہت سے لوگ اس کی کوشش کر چکے ہیں۔
پروفیسر ہوریس بارلو، کیمبرج ہم تقریباً مکمل طور پر اس بات سے بے خبر ہیں کہ دماغ کے مختلف حصے کیونکر ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت دماغ کے سننے والے حصہ میں اور بقیہ حصوں میں کس قسم کا ارتباط قائم ہوتا ہے جب کہ ہم کسی مانوس آواز کو پہچانتے ہیں۔ تم بول کو مثال میں پیش کر سکتے ہو۔ وہ صوتی لہروں پر چلتی ہے۔ مگر وہ ایک بچہ کی توتلاہٹ سے کہیں زیادہ بامعنی ہوتی ہے جو خود بھی صوتی لہروں پر چلتی ہے۔ دماغ کے اندر عصبی حرکات صوتی لہروں کے مساوی ہوتی ہیں۔ مگر ہم کچھ نہیں جانتے کہ وہ کس طرح بامعنی ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ڈونالڈ جانسن، میوزیم آف نیچرل ہسٹری، کلیولینڈ، اوہائو یورپ افریقہ اور ایشیا میں جو متحجرات(فاسل) برآمد ہوئے ہیں، وہ انسان کی ابتدا کو اور زیادہ پیچھے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ بہرحال یہ بات دن بدن نمایاں ہوتی جا رہی ہے کہ ارتقاء کا معاملہ (سابقہ تصور کے خلاف) کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، وہ مدت جس کا تعین ایک مسئلہ ہے، وہ تین ملین سے لے کر دس ملین سال پیچھے تک ہے۔ انسان کے امکانی آباءو اجداد میں بظاہر بہت زیادہ فرق رہا ہے۔ اور ہم کو نہیں معلوم کہ ان کے درمیان باہمی رشتہ کیا تھا(اس کی وجہ جزئی طور پر ڈاکٹر جانسن کی حبش میں دریافتیں ہیں۔ نیز اس سے بھی زیادہ قدیم متحجرات پاکستان میں ملے ہیں)۔
کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی توجیہ خالق کو مانے بغیر نہیں ہو سکتی۔ سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات میں عددی تناسب ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کی تخلیق میں ایک ریاضیاتی ذہن کام کر رہا ہے۔ انسان کی بناوٹ میں اتنی حکمتیں کار فرما ہیں کہ کوئی بھی طبیعیاتی توجیہ اس کی تشریح کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔ ایک جاندار کی آنکھ نکال کر اس کو دوبارہ الٹ کر لگا دیا جائے تو وہ جاندار اب بھی دیکھے گا مگر اس کو ہر چیز الٹی دکھائی دے گی۔ جسم کے مختلف اجزاء جو انتہائی صحت کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ ایک بے حد نازک ترکیب کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آواز سائنسی اعتبار سے کچھ لہروں کا نام ہے مگر یہ لہریں انسان کے دماغ میں داخل ہو کر بامعنی کلام کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اس قسم کے بے شمار عجائب ہماری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دنیا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ظہور میں آنے والا واقعہ ہے۔ اس کے پیچھے ایک اعلیٰ ذہن ہے جو زبردست طاقت کے ساتھ اس کو کنٹرول کر رہا ہے۔ کائنات کی نظم اور معنویت کی اس کے سوا کوئی اور توجیہ نہیں کی جا سکتی — دنیا کے بارے میں انسان کی لاعلمی ایک بہت بڑے علم کا پتہ دے رہی ہے۔ یہ علم کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جو اس کو حددرجہ حکم کے ساتھ چلا رہا ہے۔
1984ءکے آخر میں ایک خبر مختلفاخبارات میں آئی تھی۔ کناڈاکے اخبار سٹیزن (
قدیم مقدس کتاب اپنے وقت سے
نئی دہلی کے اخبار ٹائمس آف انڈیا(10 دسمبر1984ء) میں یہ خبر حسب ذیل سرخی کے ساتھ چھپی
قرآن جدید سائنس پر بازی لے جاتا ہے
جنینیات کے ایک عالم جن کا تعلق کناڈاکی ٹورانٹو یونیورسٹی سے ہے، انھوں نے سعودی عرب کے کئی سفر کیے ہیں تاکہ قرآن کی کچھ آیتوں کی تشریح کرنے میں مدد کریں۔ یہ آیتیں وہ ہیں جن میں انسانی جنین کے ارتقاء کا ذکر ہے۔
یہ ڈاکٹر کیتھ مور ہیں۔ ان کی تحقیقات جو ٹسٹ ٹیوب بے بی کی موجد ڈاکٹر رابرٹ ایڈورڈس سے مطابقت رکھتی ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کی متعلقہ آیتیں انسانی جنین کے درجہ بدرجہ ارتقاء کا نہایت صحیح بیان ہیں۔ یہ چیز وہ ہے جس کا ذکر مغربی ماہرین نے پہلی بار1940ء میں کیا تھا۔ اور اس سلسلہ کی اکثر تفصیلات صرف پچھلے پندرہ برسوں میں علمی طور پر ثابت کی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر مورنے لکھا ہے کہ
یہ دو برس پہلے کی بات ہے، ٹورانٹو یونیورسٹی کے ایک ماہر جنینیات ایک غیر معمولی سائنسی مشن پر سعودی عرب گئے۔ ان سے قرآن کا چند آیات کی تشریح میں مدد چاہی گئی تھی۔ یہ ڈاکٹر کیتھ مور تھے— اولین ٹسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش کے محقق ڈاکٹر ایڈورڈ نے بھی ان کی توضیحات کی تصدیق کر دی تھی۔ ان دونوں سائنس دانوں نے مسلم علماء کو آیات قرآنی کے بارے میں اپنی دریافت سے حیران کر دیا تھا۔ وہی قرآن جس کو مسلمان تیرہ سو برس سے حفظ اور تلاوت کرتے چلے آ رہے ہیں۔
جو انھوں نے دریافت کیا تھا وہ یہ تھا کہ قرآن میں انسانی جنین کا جو نظریہ بیان کیا گیا ہے وہ اب ایک ناقابل تردید صداقت بن کر سامنے آیا ہے اور یہ کہ مغربی محققین پر اس حقیقت کا انکشاف 1940 ءمیں ہوا
Toronto (cp) The 1,300-year-old Koran contains passages so accurate about embryonic development that Moslems can reasonably believe them to be revelations from God, a Canadian embryologist says.
The Statement by Dr. Keith Moore of University of Toronto, corroborated by test-tube baby pioneer. Dr. Robert Edwards comes after the pair spent two years studying the phenomenon at the request of Islamic scholars at king Abdul Aziz University in Jeddah, near Mecca.
I am amazed at scientific accuracy of these statements which were made in the seventh century, Moore said.
Moslems believe the Koran was revealed to the Prophet Mohammed by God, after which he propounded Islam, a religion that has the second largest following in the world after Christianity.
Moore said the Koran verses describe semen "gushing" from the male upon ejaculation but fertilizing sperm being derived from only a small portion of the semen.
Moore writes: "It was not until the 18th century that Spallanzani showed experimentally that both male and female sex products were necessary for the initiation of development....
Another verse read: "God makes you in the wombs of your mother in stages, one after another, within three veils of darkness."
Moore said the three veils could reasonably be interpreted to .... the mother`s abdominal wall, the wall of the uterus and the amnio chorionic membrane.
Another verse read: "Thereafter, we created of the drop a thing which clings, a leech-like structure."
Moore and the others found the Arab leech bears a striking resemblance to the embryo at 42 days, and the embryo does cling to the wall of the uterus at this stage.
A mong Mohammed`s collected sayings. Moore found one that says 42 days after conception. God sends an angel to give the embryo human features such as eyes and ears.
Embryonic research shows that at 42-day eyes and ears are clearly visible.
(The Citizen, Ottawa, Canada, November 22, 1984)
A University of Toronto embryologist has made several trips to Saudi Arabia to help explain some of the verses from the Koran relating to human embryo development. Dr Keith Moore`s findings, corroborated by test- tube baby pioneer, Dr Robert Edwards, reveal the verses contain an accurate description of the stage-by-stage development of the human embryo, something which was proposed by western experts only in1940 and most of which has been proved only in the past decade and a half.
The Times of India (New Delhi), December 10,1984
۔اس ضمن میں زیادہ تر معلومات تو محض گزشتہ پندرہ برس میں سامنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور ٹورانٹو یونیورسٹی کے شعبہ تشریح ا لاعضاء کے چیئرمین ہیں۔ تخلیق انسانی سے بحث کرنے والی آیات قرآن پر اپنا خصوصی مقالہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا
’’مجھے اس بات نے حیرت میں ڈال دیا۔ جب مجھے یہ پتہ چلا کہ قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں جو حقائق پیش کیے وہ کس قدر درست اور سائنسی صداقتوں کے حامل ہیں۔‘‘
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ساتویں صدی عیسوی میں خدا کی طرف سے اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے اسلام دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج اسلام عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر موریونائیڈ چرچ کے ممبر اور ایک بڑے پادری کے بیٹے ہیں۔ وہ اپنے عقیدے پر مطمئن ہیں اور ایک ملاقات میں بتا چکے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔ ڈاکٹر مور کہتے ہیں کہ میں نے بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ لیکن قرآنی آیات سے ان کی کوئی مماثلت نظر نہیں آئی۔ جنینیات پر ان کی دو تصنیفات معیاری درسی کتب کا درجہ رکھتی ہیں۔ اور دنیا کی زبانوں میں ان کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر مور کہتے ہیں کہ جنین کے ابتدائی
’’قرآن کی آیات اور پیغمبر اسلام کے کچھ فرامین مذہی اور سائنس کے درمیان مدتوں سے حائل خلیج کو پاٹنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ خام چیر پھاڑ کے نتیجے میں یہ معلومات سامنے آگئی ہوں تو انھوں نے کہا کہ اس مرحلے پر جنین کی جسامت ایک ملی لیٹر کے دسویں حصے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ انسانی آنکھ کو ایک چھوٹے سے نقطے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس کی شناخت ایک طاقتور خوردبین کے بغیر ممکن نہیں اور یہ بات اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ سترھویں صدی عیسوی سے پہلے خوردبین ایجاد نہیں ہوئی تھی۔
دو برس پہلے ڈاکٹر کیتھ مور کو جدّہ کی شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی نے مدعو کیا تھا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر لیارٹ ایڈور ڈراز کو بھی بلایا تھا۔ یہ وہی ڈاکٹر رابرٹ ہیں جن کے کیمبرج یونیورسٹی میں کیے گیے تجربات کی بدولت پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچے کی پیدائش عمل میں آئی۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر ٹی وی این پرشاد اور ڈاکٹر مارشل جانسن بھی مدعوئین میں شامل تھے۔ ڈاکٹر مور کہتے ہیں کہ اس موقع پر منعقدہ کانفرنس کے علماء نے ان
چاروں ماہرین کو قرآن کی متعدد آیات کے انگریزی میں تراجم پیش کیے اور ان سے رائے مانگی کہ آیا ان کی کوئی سائنسی تعبیر ہو سکتی ہے؟ ایک آیت جو پیش کی گئی وہ یہ تھی
’’وہ تمہاری مائوں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے‘‘(
ڈاکٹر مور کہتے ہیں ان تین تاریکیوں کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان سے مراد پیٹ کی دیوار، رحم مادہ کا پردہ اور بچے دانی کی اندرونی جھلی ہے۔ ایک دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو علق(واحد علقہ) سے پیدا کیا(العلق،
آگے کی ایک آیت کہتی ہے کہ یہ جونک نما مادہ بعد میں چبائی ہوئی چیز کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس مرحلے پر جنین کی شکل کی وضاحت کرنے کے لیے ڈاکٹر مور نے پلاسٹک کی ایک چھوٹی سی چیز تیار کی اور پھر اسے اپنے دانتوں سے چبایا اور پھر اسے بتایا کہ
ڈاکٹر مور نے کہاکہ آیات قرآنی کہتی ہیں کہ تیزی سے نکلنے والے مادہ منویہ کے ایک انتہائی مختصر حصے میں بار آور کرنے کی صلاحیت رکھنے والا عنصر پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مور نے اپنے مقالہ میں بتایا کہ جس حقیقت کی نشاندہی سپیلن زینی نے اٹھارھویں صدی عیسوی میں کی جب اس نے تجرباتی طریقے سے ثابت کیا کہ جب تک کہ نر اور مادہ کے جنسی تولیدی عناصر کی باہم آمیزش نہ ہو حیاتیانی نمو نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے اس سے گیارہ صدیاں پہلے مخلوط قطرہ(نطفہ امشاج) کی نشاندہی کر دی اور بتایا کہ مرد اور عورت کے نطفوں کے باہمی ملاپ سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ اسی طرح ماء مہین کے ذیل میں یہ اشارہ موجود ہے کہ کس طرح ابتدائی حقیر بوند میں آدمی کا جامع نقشہ موجود ہوتا ہے۔ یہ بوند مستقبل کے تمام کردار اور خصوصیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے۔
یُوری گگارن(1934-1968ء) ایک روسی خلا باز تھا۔ وہ پہلا انسان ہے جس نے خلا میں سفر کیا۔ اس کا یہ سفر روس کے بنائے ہوئے پہلے خلائی جہاز(Vostok 1) کے ذریعہ ہوا تھا۔
His spacefight brought him immediate worldwide fame (IV/376).
یوری گگارن(Yuri Gagarin) کا کم عمری میں انتقال ہوگیا۔ تاہم اس کی بہت سی یادداشتیں اب بھی چھپی ہوئی موجود ہیں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ گگارن نے اپنے تاریخی سفر سے واپس آ کر جو باتیں بتائی تھیں، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں نے خلا سے جب زمین کو دیکھا تو میں نے پایا کہ زمین کے اوپر اندھیرے اور اُجالے کا ایک تیز تسلسل (Rapid Succession) جاری ہے۔ یعنی زمین کی سطح پر اندھیرا اور اجالا اس طرح آگے پیچھے چل رہے ہیں جیسے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہوں۔
عجیب بات ہے کہ زمین پررات اور دن کے بارے میں عین یہی تعبیر خود قرآن میں موجود ہے جو انسان کے خلائی سفر سے چودہ سو برس پہلے نازل ہوا تھا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیںيُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا(
زمین ایک گول کرہ ہے۔ وہ خلا میں ہے۔ وہ اپنے محوز(axis) پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے سامنے گھوم رہی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کی بنا پر زمین کی سطح پر وہ منظر پیدا ہوتاہے جس کو گگارن نے اپنے خلائی مشاہدہ میں ان الفاظ میں بیان کیا کہ— زمین کے اوپر میں نے روشنی اور تاریکی کو تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا۔
بطور واقعہ گگارن کا بیان صد فی درست ہے۔ مگر زمین پر رہ کر کوئی شخص ایسا بیان نہیں دے سکتا۔ زمینی مشاہدہ کسی آدمی کو یہ منظر نہیں دکھاتا، اس لیے زمین پر رہتے ہوئے کوئی شخص یہ الفاظ بھی نہیں بول سکتا۔ یہ منظر کسی آدمی کو صرف اس وقت دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ زمین کی سطح سے 20 ہزار میل اوپر اٹھے اور خلا میں پہنچ کر دوربین کے ذریعہ زمین کا مشاہدہ کرے یہ زمین کو خلا سے دیکھنے والے شخص کے الفاظ ہیں نہ کہ زمین کو زمین سے دیکھنے والے شخص کے الفاظ۔
گگارن سے پہلے کوئی انسان خلا میں نہیں گیا۔ اور نہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں خلائی سواریاں وجود میں آئی تھیں کہ آپ ان کے ذریعہ خلا میں پہنچ کر زمین کے بارے میں ایسا بیان دے سکیں۔ پھر قرآن میں اس سلسلہ میں اتنا واضح اور مکمل بیان کیسے موجود ہے۔ اس کی کوئی بھی توجیہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ یہ مانا جائے کہ قرآن کو اتارنے والا ایک ایسا برتر وجود ہے جو اس وقت بھی زمین کے اوپر سے دیکھ رہا تھا جب ابھی کوئی گگارن وجود میں نہیں آیا تھا۔
یہ اور اس طرح کی دوسری آیتیں اس بات کا واضح اور یقینی ثبوت ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے جو دانائے کل ہے، وہ کسی انسان کی تیار کی ہوئی کتاب نہیں۔
موجودہ دنیا مادی دنیا ہے۔ مگر یہاں مادی واقعات کی صورت میں معنوی حقیقتوں کی تمثیلات قائم کر دی گئی ہیں۔ آدمی اگر سنجیدہ ہو اور وہ چیزوں کو غور و فکر کے ساتھ دیکھے تو وہ یہاں ہر قسم کے اطمینان بخش دلائل پا لے گا۔ وہ معتقدات کے حق میں یقینیات کی زمین حاصل کر لے گا۔
خدا کی تمثیل خود انسان کا اپنا وجود ہے۔ انسان کا وجود خدا کے وجود کی دلیل ہے۔ ’’خدا‘‘ کیا ہے۔ ایک زندہ ہستی جو خود اپنی ذات میں قائم ہو۔ جو سوچے۔ جودیکھے اور سنے۔ جو اپنے ارادہ کے تحت عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔ جو خود اپنے آپ کو جانتا ہو اور وسروں سے بخوبی طور پر واقف ہو۔ جو تمام موجودات سے الگ اپنی ایک ’’انا‘‘ رکھتا ہو۔
یہ سب کچھ عین وہی ہے جس کو’’انسان‘‘ کی صورت میں ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے۔ ہر آدمی’’میں‘‘ سے بخوبی طور پر واقف ہے۔ خدا پر ایمان اسی’’میں‘‘ کی ایک برتر صورت پر یقین رکھنا ہے۔ انسان جب صفات اور خصوصیات کے ساتھ اپنی ذات کا تجربہ کر رہاہے، انھیں صفات اور خصوصیات والی ایک برتر ذات ہے جس کو ہم خدا یا اللہ کہتے ہیں۔
اگر میرا وجود یقینی ہے تو خدا کا وجود کیوں یقینی نہیں۔ اگر میں ایک مقام پر بیٹھ کر کائنات کو دیکھ رہا ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے کہ اسی طرح ایک عظیم تر ہستی کہیں متمکن ہو کر کائنات کا مشاہدہ کر رہی ہو۔ اگر میں ریموٹ کنٹرول سسٹم کے ذریعہ خلا میں ایک مشین کو چلاتا ہوں تو اس میں کیا تعجب ہے کہ اسی طرح ایک خدا اپنے نظام کے تحت کائنات کو چلا رہا ہو۔ اگر میں اپنے تصور عدل کے مطابق کسی کو سزا یا انعام دیتا ہوں تو اس میں استبعاد کیا ہے کہ اسی طرح ایک طاقتور خدا تمام انسانوں پر اپنے تصور عدل کے مطابق سزا اور جزا کا نفاذ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ خدا کے وجود کو تسلیم کرنا ایساہی ہے جیسے انسان کے وجود کو تسلیم کرنا۔ خدا کو ماننا بلاشبہ عجیب ہے۔ مگر انسان کو ماننا بھی اتناہی عجیب ہے۔ پھر ایک عجیب کو مان لینے کے بعد دوسرے عجیب کو ماننے میں کیا رکاوٹ۔
’’ہم لندن سے بول رہے ہیں، اب آپ آج کی تازہ خبریں سنیے۔‘‘ یہ الفاظ ایک شخص ہم سے دور لندن میں بیٹھ کر بولتا ہے۔ ہم اس کو براہ راست نہیں سن پاتے۔ لیکن جب ہم اپنا ریڈیوسٹ چلاتے ہیں تو ہم فوراً اس آواز کو سننے لگتے ہیں۔
دور کا ایک ریڈیو اسٹیشن ہماری قابل فہم زبان میں ہمارے لیے پروگرام نشر کرتا ہے، ہم اس کو براہ راست اپنے کان سے نہیں سن پاتے۔ لیکن جب ہم ریڈیوسٹ کا سہارا لیتے ہیں تو ہزاروں میل دور سے نشر ہونے والا پروگرام ہم کو اس طرح سنائی دینے لگتا ہے جیسے کہ ہمارے اور نشر گاہ کے درمیان کا فاصلہ ختم ہوگیا ہو اور ہم براہ راست اس کو سننے لگے ہوں۔
ایسا ہی کچھ معاملہ بلاتشبیہ پیغمبر کا بھی ہے۔ پیغمبر گویا ہمارے لیے ایک قسم کا ریڈیوسٹ ہے۔ وہ ہمارے اور خدائی نشرگاہ کے درمیان یقینی واسطہ کا کام کرتاہے۔ جس طرح عام ریڈیو یا ٹرانسسٹر یہ کرتا ہے کہ نشر گاہ کی خبریں اور پروگرام وصول کرکے دوبارہ ہمیں سناتا ہے۔ اسی طرح خدا پیغمبر کو یہ طاقت دے دیتا ہے کہ وہ خداکی طرف سے آنے والی آوازوں کو اخذ کر سکے۔ پیغمبر خدا کی خصوصی توفیق سے ان کونہایت صحت کے ساتھ اخذ کرتا ہے اور پھر کسی حذف و اضافہ کے بغیر ان کو ہمیں سنا دیتا ہے۔
پیغمبر انسان اور خدا کے درمیان ایک زندہ ریڈیوسٹ ہے۔ اگر پیغمبر نہ ہو تو ہم خدا کی آوازوں کو نہ سن سکیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے مشینی ریڈیوسٹ کے بغیر کوئی شخص دور کی نشرگاہوں سے نشر ہونے والے پروگرام کو نہیں سن پاتا۔ لوگ دنیوی نشر گاہوں کی نشریات کو سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ ریڈیو اور ٹرانسسٹر کو بے حد عزیز رکھتے ہیں۔ آج ساری دنیا میں کوئی بھی گھر اس سے خالی نہیں۔ اسی طرح اگر آدمی کو خدائی نشریات کی اہمیت معلوم ہو جائے تو وہ پیغمبر کو دل و جان سے چاہنے لگے۔ وہ ان باتوں کو انتہائی توجہ اور اہتمام کے ساتھ سنے جو پیغمبر نے بتائی ہیں۔
پیغمبر کے معاملہ کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا ریڈیو کے معاملہ کو سمجھنا۔ پیغمبر اسی قسم کے ایک کام کو الہامی طور پر کر رہا ہے جس کو عام ریڈیوسٹ مشینی طور پر انجام دیتا ہے۔
ایک کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بول رہے ہیں اور سن رہے ہیں۔ وہ اپنے سامنے
ایک پوری دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ مگر یہ وہی دنیا ہے جو محسوس طور پر نظر آتی ہے۔ بظاہر محسوس دنیاکے سوا کوئی اور دنیا نہیں جو وہاں اپنا وجود رکھتی ہو۔
اتنے میں ایک شخص سامنے رکھے ہوئے ٹیلی وژن سٹ کو چلا دیتا ہے۔ اچانک اس کے شیشہ پر ایک اور دنیا دکھائی دینے لگتی ہے جو ابھی تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ چلتے پھرتے انسان ان کی آوازیں، ان کے مکانات، ان کی کارگزاری سب آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
آخرت کا نظریہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ دنیاکے پرے ایک اور دنیا ہے۔ یہ دوسری دنیا اسی طرح ایک مکمل دنیا ہے جس طرح ہماری موجودہ نظر آنے والی دنیا۔ ٹیلی وژن گویا اس نظریہ کی عملی تصدیق ہے۔ ٹیلی وژن کا تجربہ بتاتا ہے کہ کس طرح موجودہ محسوس دنیا کے اندر ایک اور دنیا موجود ہو سکتی ہے۔ ٹیلی وژن کی دنیا ہمارے گردوپیش پوری طرح موجود ہوتی ہے مگر وہ صرف اس وقت ہمارے مشاہدہ میں آتی ہے جبکہ ٹیلی وژن سٹ کو چلا یا جائے۔ اسی طرح آخرت کی دنیا پوری طرح یہاں موجودہے۔ البتہ وہ ہمارے مشاہدہ میں اس وقت آئے گی جبکہ خدا اس کے ظہور کا حکم دے دے۔
سائنس میں اکثر کسی چیز کو’’ماڈل‘‘ سے سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ دنیا گویا ایک قسم کا مادی ماڈل ہے جس کے ذریعہ ہم غیر مادی حقیقتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری دنیا ایک اعتبار سے بالاتر حقیقتوں کا آئینہ ہے، آدمی اگر سنجیدہ طور پر سوچے تو وہ اس کے اندر اپنے تمام سوالات کا جواب پا لے گا۔
خدا ،وحی اور آخرت غیب کی چیزیں ہیں۔ انسان اپنی موجودہ نگاہ سے ان کو نہیں دیکھ سکتا۔ مگر دنیا میں بہت سی چیزیں، بلکہ تمام اعلیٰ حقیقتیں وہ ہیں جو آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں۔ آدمی قرائن کی بنیاد پر ان کو مانتا ہے۔ یہی معاملہ خدا ، وحی اور آخرت کا بھی ہے۔ یہ چیزیں بلاشبہ موجودہ آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں۔ مگر ایسے واضح قرائن موجود ہیں جو ہم کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ چیزیں حقیقی ہیں اور یقینی طور پر وہ اپنا وجود رکھتی ہیں۔
آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ سوچے تو وہ ان کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کائنات ایک آئینہ ہے جس میں اس کے خالق کا چہرہ نظر آتا ہے۔ اس اعتبار سے کائنات کی ہر چیز ایک نشانی ہے۔ ہر چیز ایک حقیقت کا جلوہ دکھا رہی ہے۔ اگر آدمی کے اندر دیکھنے کی صلاحیت ہو تو وہ ہر چیز میں ایک معنویت دیکھے گا۔ موجودہ دنیا اپنی پوری وسعتوں کے ساتھ اس کے لیے معرفت الٰہی کا عظیم خزانہ بن جائے گی۔
کائنات بظاہر ایک ریاضیاتی کائنات ہے۔ کائنات ریاضی کے اصولوں کی حد تک منظم ہے۔ یہ موجودہ کائنات کا ایک ایسا پہلو ہے جو اس کے ہر حصہ میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
شہد کی مکھی حد درجہ صحت کے ساتھ مسدس اشکال کے چھتے بناتی ہے۔ ایٹم کے ذرات کی کمیت انتہائی یکساں طور پر متعین ہوتی ہے۔ زمین کی دو طرفہ گردش اتنی صحت کے ساتھ ہوتی ہے کہ ہزاروں سال پہلے اور ہزاروں سال آگے تک کے کلنڈر بنائے جا سکتے ہیں۔ یہی کائنات کے تمام اجزاء کا حال ہے۔ کائنات کا ہر جزء اتنے محکم اصولوں کے مطابق عمل کرتاہے کہ نہایت صحت کے ساتھ اس کے مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
کائنات کا یہ پہلو سائنس دانوں کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ حتی کہ انھیں یقین ہوگیا ہے کہ پوری کائنات ایک ریاضیاتی ماڈل ہے، کسی چیز کو جب تک وہ ریاضیاتی طورپر نہ سمجھ لیں وہ گمان کرتے ہیں کہ ابھی انھوں نے اس کو سمجھا نہیں۔
سائنس داں عالم فطرت کی تحقیق کرتے ہیں۔ اگرچہ سائنس کے درجنوں شعبے ہیں، اور مختلف سائنس داں اپنے شعبوں میں الگ الگ تحقیق اور مطالعہ کا کام کرتے ہیں۔ تاہم ان کے کام کا اگر ایک مشترک عنوان دینا ہو تو وہ یہ ہوگا کہ — کائنات میں ریاضیاتی نظم کی تلاش
Searching for mathematical order in the universe.
تمام سائنس دانوں کا یہ مشترک عقیدہ ہے کہ کائنات میں ریاضیاتی قطعیت کی حد تک نظم اور تربیت ہے۔ ایک سائنس داں اپنی تحقیق پر اس وقت بالکل مطمئن ہو جاتا ہے جب کہ وہ
اپنی تحقیق کو ریاضیاتی سانچہ میں ڈھال لے۔ ریاضیاتی تصدیق سائنس داں کے نزدیک اس کے نظریہ کی صداقت کا آخری ثبوت ہے۔
سائنس دانوں کی جماعت کائنات کے مطالعہ میں ریاضی کو اسی طرح استعمال کرتی ہے جس طرح سناروں کی جماعت سونے کے کاروبار میں کسوٹی کو۔ سنار کسوٹی کی تصدیق کے بعد سونے کا سونا ہونا مان لیتاہے۔ اسی طرح سائنس داں ریاضی کی تصدیق کے بعد نظریہ کا صحیح نظریہ ہونا تسلیم کر لیتاہے۔
ریاضیات اور کائناتی نظام کے درمیان یہ مطابقت کیوں ہے۔ بعض سائنس دانوں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ ان کے ایک طبقہ نے اس کا براہ راست جواب دیے بغیر اس کو مزید ایک سوال پر ختم کر دیاہے— کیا کائنات ایک ریاضیاتی ذہن کی تخلیق ہے
Was the universe created by a mathematical mind?
کچھ سائنس دانوں نے اس کا مثبت جواب دیا ہے۔ سر جیمز جینز فلکی طبیعیات کاایک مشہور عالم ہے۔ اس نے 1932 میں کہا کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کائنات کا نقشہ ایک خالص ریاضی داں نے تیار کیاتھا
In 1932, Sir James jeans, an astrophysicist said: "the universe appears to have been designed by a pure mathematician.
Encyclopaedia Britannica (1984) vol.
موجودہ اندازہ کے مطابق کائنات میں کم ازکم دس ارب کہکشائیں ہیں۔ ہرکہکشاں میں تقریباً ایک کھرب ستارے ہیں۔ ان میں سے اکثرستارے ہمارے سورج سے بہت زیادہ گرم اور بہت زیادہ بڑے ہیں جبکہ ہمارا سورج اتنا بڑا ہے کہ اس سے زمین جیسے بارہ لاکھ کرے بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ان گنت متحرک ستارے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ دوری پر ہیں جیسے بحرالکاہل میں بکھرے ہوئے چند سمندری جہاز۔ اس ناقابل قیاس حد تک بڑی دنیا میں زمین کا چھوٹا ساکرہ ایک انتہائی نادر استثناء ہے جہاں پانی اور ہوا اور وہ دوسری چیزیں ہیں جو انسان جیسی مخلوق کے لیے زندگی کا سامان
بن سکیں— یہ دنیا اپنی ساری عظمتوں اور حکمتوں کے باوجود انسان کے بغیر بالکل بے معنی ہے۔ مگر خود انسان کی زندگی اتنی زیادہ بے معنی معلوم ہوتی ہے کہ ساری کائنات میں بظاہر اس سے زیادہ بے معنی کوئی چیز نہیں۔
انسان اگر نہ ہوتو یہاں کوئی آنکھ نہ ہوگی جو دنیا کی رنگینیوں کو دیکھے اور کوئی کان نہ ہوگا جو اس کے نغموں کو سنے اور کوئی دماغ نہ ہوگا جو اس کی حکمت اور معنویت کوپائے۔ یہ دنیا ایک عظیم ترین آرٹ ہے مگر انسان کے بغیر وہ ایک ایسا آرٹ ہے جس کا کوئی جاننے والا نہیں۔ جس کی کوئی داد دینے والا نہیں۔
مگر خود انسان کی حقیقت کیاہے۔ زمین پر جتنے انسان پائے جاتے ہیں، اگر ان میں کا ہرشخص چھ فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہو تو انسان کی پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جا سکتا ہے جو لمبائی، چوڑائی اور بلندی میں ایک میل ہو۔ کائنات کی وسعتوں کے مقابلہ میں صندوق کس قدر چھوٹا ہے۔ پھر اگر اس کو کسی سمندر کے کنارے لے جا کر ایک ہلکا سا دھکا دیں تو یہ صندوق پانی کی گہرائی میں اس طرح گم ہو جائے گا جیسے بھری ہوئی بالٹی میں سرسوں کا ایک دانہ۔ صدیاں گزر جائیں گی، نسل انسانی اپنے مادی کفن میں لپٹی ہوئی ہمیشہ کے لیے پڑی رہے گی۔ دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہو جائے گا کہ یہاں کبھی انسان جیسی کوئی مخلوق آباد تھی۔ سمندر کی سطح پر اسی طرح طوفان آتے رہیں گے۔ سورج اسی طرح چمکتا رہے گا۔ زمین کا کرہ بدستور اپنے محور پرگھومتا رہے گا۔ کائنات کی لامحدود پنہائیوں میں پھیلی ہوئی ان گنت دنیائیں اس حادثہ کو بس اتنی ہی اہمیت دیں گی جیسے زمین کے اوپر ایک چیونٹی کا کچل کر مر جانا۔ صدیوں کے بعد سمندر کے کنارے مٹی کا ایک ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک صندوق میں دفن کی گئی تھی۔ انسان باعتبار حقیقت انتہائی با معنی ہے، مگر انسان کائنات کے موجودہ نظام میں اپنی معنویت کو نہیں پاتا۔ یہاں انسان کی تمنائیں پوری نہیں ہوتیں۔ موجودہ دنیا اپنی تکمیل کے لیے ایک اور دنیا کی طالب ہے۔ موجودہ دنیا اپنی ساری معنویت کے باوجود بے معنی ہے اگر اس کے ساتھ آخرت کو نہ مانا جائے۔
قطب جنوبی(انٹارکٹکا) کے بارے میں روسی جغرافیہ سوسائٹی نے تحقیقات کی ہیں۔ انھوں
نے اندازہ لگایا ہے کہ قطب جنوبی کے اوپر جو برف جمی ہوئی ہے وہ دنیا بھر کے تازہ پانی کا
اگر اس برف کو دنیا کے تمام خشک حصہ پر پھیلا دیا جائے تو موجودہ خشک زمین پر 50 میٹر برف جم جائے گی۔ اور اگر یہ برف اچانک پگھل جائے تو دنیا کے سمندروں کی سطح60 سے70 میٹر تک بلند ہو جائے گی۔ اور زمین کا دس فیصد حصہ زیر آب ہو جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھر کے تمام ساحلی شہر پانی کے نیچے ڈوب جائیں گے۔ حتیٰ کہ بہت سے ملک پورے کے پورے پانی کے نیچے چلے جائیں گے۔ قطب جنوبی کی تمام برف پگھلنے کی صورت میں سمندر کی اوسط حرارت دو ڈگری کم ہو جائے گی۔ اس کی وجہ سے زمین پر موسمی تباہی آ جائے گی۔ کیوں کہ سمندر میں ایک ڈگری کم ہو جائے گی۔ اس کی وجہ سے زمین پر موسمی تباہی آ جائے گی۔ کیوں کہ سمندر میں ایک ڈگری کے ہزارویں حصہ کی کمی بیشی فضا میں پوری ایک ڈگری کی حرارت کافرق پیدا کرتی ہے۔
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمین پر جو نظام ہے وہ کس قدر متوازن نظام ہے۔ یہاں بیک وقت مختلف تقاضوں کے درمیان اس طرح توازن قائم رکھا گیا ہے کہ ہر چیز صرف اپنافائدہ دے، وہ اپنے نقصان سے انسان کو بچائے رکھے۔
یہ توازن فطرت زمین کے ہر معاملے میں نمایاں ہے۔ یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس دنیا کے پیچھے ایک ذہن کار فرما ہے۔ اگر یہاں ذہن کی کارفرمائی نہ ہو تو موجودہ توازن کسی حال میں برقرار نہیں رہ سکتا۔
زمین کا مطالعہ کرتے ہوئے واضح طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا جس ہستی نے زمین کے موجودہ حالات کو ایک خاص ڈھنگ پر بنایا ہے۔ اس کو معلوم تھا کہ یہاں جاندار چیزیں(انسان، حیوان، نباتات) ہیں۔ چنانچہ یہاں کی ہر چیز جاندار اشیاء کی ضرورت کے عین مطابق بنائی گئی ہے۔ اگر یہ واقعہ آدمی کو خدا کا یقین نہ دلائے تو آخر وہ کیا چیز ہوگی جو آدمی کو اس کا یقین دلائے گی۔
دوسری انٹرنیشنل نیم کانفرنس دسمبر1983 میں مغربی جرمنی میں ہوئی۔ آج کل نیم کا درخت نباتاتی علماء کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیم مضر کیڑوں کو بھگانے والا ایک
قیمتی قدرتی ذریعہ(natural repellent) ہے۔ انسان نے کیمیائی طور پر جتنی کیڑا مار دوائیں بنائی ہیں وہ سب کیڑے پر اثر انداز ہونے کے ساتھ فضا کو بھی خراب کرتی ہیں اور اس طرح انسان کے لیے مضر بنتی ہیں۔ مگر نیم کے اندریہ انوکھی صفت ہے کہ وہ کسی فضائی نقصان (environmental damage) کے بغیر انسان کو اور نباتات کو مضر کیڑوں سے بچاتی ہے۔
مذکورہ کانفرنس میں
ہندستان کے نمائندہ نے اپنے مقالہ میں بتایا کہ نیشنل کیمیکل لیبارٹری(پونا) نے نیم کا ایک کمپائونڈ تیار کیا ہے جس کا نام نیمرچ(Neemrich) ہے۔ مکاّ، آلو اور بعض دوسری فصلوں میں نیمرچ کے تجربے کیے گئے جس کے نتیجہ میں ان کی پیداوار میں قابل لحاظ اضافہ ہوا۔
موجودہ زمانہ میں دنیا کے تمام ملکوں میں کیڑا مار دوائوں(pesticides) کا استعمال عام ہے۔ ان دوائوں کے استعمال سے یقیناً زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، مگر ابھی تک انسان یہ دریافت نہ کر سکا کہ ان دوائوں کے استعمال سے فضا میں جو مضر اثرات ہوتے ہیں ان سے کس طرح بچا جائے۔ یہ کیڑا مار دوائیں اگر ایک طرف کیڑے کو مارتی ہیں تو اسی کے ساتھ وہ انسان کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔
اگر آپ لکڑی اور پتی کو آگ میں ڈالیں تو دونوں جل جائیں گی۔ کیوں کہ اصل کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ اسی طرح انسان اور کیڑے دونوں زندہ انواع ہیں۔ جو چیز ایک کے لیے نقصان دہ ہے وہی دوسرے کے نقصان کا باعث بھی ہوتی ہے۔
انسان کو مضر بیکٹیریا سے بچانے کے لیے اینٹی بایوٹک دوائیں کھلائی جاتی ہیں۔ یہ دوائیں
بیکٹیریاں کی طرح انسان کے جسم کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ مکھی، مچھر، دیمک اور دوسرے کیڑوں کو ختم کرنے کے لیے ڈی ڈی ٹی چھڑکا جاتا ہے۔ اس سے مذکورہ کیڑے بھاگتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ فضا میں ڈی ڈی ٹی کے اجزاء شامل ہو جاتے ہیں۔ انسان سانس کے ذریعہ ان کو اپنے اندر داخل کر لیتا ہے۔ اور پھر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوتا ہے۔ پھل اور زرعی پیداوار میں مضر کیڑے لگتے ہیں جن سے پیداوار بہت کم ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے کیڑا مار دوائیں بنائی گئی ہیں۔ ان دوائوں کے استعمال سے باغوں اور کھیتوں کی پیداوار میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے مگر یہاں بھی وہی صورت ہے کہ ایک طرف ان کیڑا مار دوائوں سے فضا خراب ہوتی ہے، دوسری طرف خود پیداوار میں مضر کیمیائی مادے شامل ہو جاتے ہیں اور کھانے کے ساتھ انسان کے اندر داخل ہو کر نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
ہندستان میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار پونڈ کیمیکل دوائیں زرعی کھیتوں میں چھڑکی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں عوام کی صحت کا معیار برابر گر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ(1983ء) میں بتایا گیا ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں میں زرعی کیڑوں کو مارنے کے لیے جو کیمیائی دوائیں استعمال ہوتی ہیں ان کے زہریلے اثرات سے ہر سال تقریباً پچاس ہزار آدمی بیمار پڑتے ہیں اور ان میں سے تقریباً پانچ ہزار آدمی مر جاتے ہیں۔
انسانی سائنس ابھی اس سائنس تک بھی نہیں پہنچی جس کا مظاہرہ قدرت کے اس معجزہ کی سطح پر ہو رہا ہے جس کو نیم کا درخت کہتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ یہ فرض کیے ہوئے ہیں کہ اس دنیا کا کوئی خالق و مالک نہیں۔ اس دنیا کو چلانے والا کوئی ذہن نہیں۔
’’ڈی ڈی ٹی‘‘ کا ایک پیکٹ ہو تو اس کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ یہ پیکٹ اپنے آپ بن گیا ہے۔ ہر آدمی اس کو ذہن کی تخلیق قرار دے گا۔ مگر ڈی ڈی ٹی کی نوعیت کی اس سے زیادہ اعلیٰ پیداوار کو دیکھ کر آدمی یہ کہہ دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ وجود میں آگئی ہے۔ نیم کا درخت بلاشبہ ڈی ڈی ٹی سے بہت زیادہ اعلیٰ پیداوار ہے۔ اس کی بناوٹ میں یقینی طور پر غیر معمولی ذہانت پائی جاتی ہے۔ پھر کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو ڈی ڈی ٹی کے بارے میں یہ مانتے ہیں کہ وہ ذہانت کی پیداوار ہے۔ مگر یہی بات وہ نیم جیسی چیزوں کے بارے میں نہیں مانتے۔
شہد کی مکھی پھولوں کا رس چوس کر شہد تیار کرتی ہے۔ مگر شہد کی مکھی کا صرف اتنا ہی کام نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ اور بھی کئی اہم کام انجام دیتی ہے۔ انھیں میں سے ایک کام زرخیزی ہے۔ یعنی نر اور مادہ کے زیرہ کو ایک دوسرے پر پہنچانا تاکہ وہ زرخیز ہو سکیں۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ شہد کی مکھی کے ایک ماہر نے لکھا ہےکہ پھولوں کا رس وہ معاوضہ ہے جو پودا شہد کی مکھیوں کو زرخیز بنانے کے عمل کے لیے ادا کرتا ہے
Nectar is the fee paid by the plant for the fertilizing service of the insect (bees).
امریکا کے مشرقی حصہ میں پھولوں کے رس(nectar) کا نوے فیصد حصہ بے کار چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ اس علاقہ میں شہد کی مکھیاں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اور اسی نسبت سے زرخیزی کا عمل بھی نسبتاً کم انجام پاتا ہے۔
معلوم کیا گیا ہے کہ شہد کی مکھی جب کسی باغ یا کیاری میں پھولوں کا رس چوس رہی ہو تو وہ بیک وقت ہر قسم کے درختوں کے پھولوں کا رس نہیں چوستی۔ بلکہ وہ یہ کرتی ہے کہ جس پھول کا رس ایک بار لیا ہے، اسی کا رس بار بار لیتی ہے۔ وہ ایک وقت میں ایک ہی نسل کے پھولوں کے درمیان اڑ کر ایک کے بعد ایک کا رس لیتی رہتی ہے۔
شہد کی مکھی کا یہ طریقہ زراعت اور باغبانی کے لیے بے حد اہم ہے۔ اس کی وجہ سے وہ ایک مخصوص پھول کے زیرہ کو اسی مخصوص درخت کے پھولوں تک پہنچاتی رہتی ہے۔ پھول چوسنے کے دوران پھول کا زیرہ اس کے جسم سے چپک جاتا ہے۔ جب وہ دوسرے پھول پر جا کر بیٹھتی ہے تو اس کا زیرہ اس پھول پر گر جاتا ہے، اس طرح نر اور مادہ کے درمیان زرخیزی کا عمل انجام پاتا ہے۔ اور ان میں تزویج کا عمل جاری رہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو تقریباً ایک لاکھ قسم کے پودے زمین سے بالکل ختم ہو جائیں۔
یہ واضح طور پر تخلیق کے نظام میں ذہانت ہونے کا ثبوت ہے۔ اس قسم کا بامعنی واقعہ لازمی طور پر ثابت کرتا ہے کہ اس دنیا کا ایک خالق ہے۔ اگر خالق نہ ہو تو تخلیق کے نظام میں اس قسم کی معنویت ممکن نہیں۔
ہوا بازی کے قانون کے مطابق بارہ ہزار پائونڈ سے زیادہ وزنی ہوائی جہازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ بلیک باکس رکھیں۔ بلیک باکس دو چھوٹے چھوٹے خاص قسم کے ٹیپ ریکاڈر ہیں، جس میں سے ایک کو فلائٹ ریکارڈر اور دوسرے کو وائس ریکارڈر کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اوسطاً20 انچ لمبا اور 6 انچ چوڑا ہوتا ہے۔ اس کا وزن کم و بیش
اب حادثہ کی بابت معلوم کرنے کا ذریعہ صرف وہ بلیک باکس تھا جو اٹلانٹک سمندر میں تہہ نشین ہو کر رہ گیا تھا۔ اٹلانٹک سمندر دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سمندر ہے۔ اس کا رقبہ چھوٹے چھوٹے ذیلی سمندروں کو ملا کر چار کرورگیارہ لاکھ مربع میل ہے۔ اس ناپیدا کنار سمندر میں بلیک باکس کی حیثیت صرف ایک چھوٹے سے ذرہ کی تھی جو سمندر کے نیچے دو میل کی گہرائی میں پڑا ہوا تھا۔ بظاہر اس ذرہ کو سمندر سے نکالنا ناممکن تھا۔ مگر یہ ناممکن ممکن ہوگیا اور 10 جولائی 1985ء کو وائس ریکارڈر اور
یہ معجزہ کیسے پیش آیا۔ وہ ریڈیائی لہروں کے ذریعہ کنٹرول کیے جانے والے مشینی انسان
(remote-controlled robot) کے ذریعہ پیش آیا۔ بلیک باکس میں ایسی مشینیں ہوتی ہیں جن کے ذریعہ وہ ریڈیائی سگنل بھیجتا رہتا ہے۔ یہ سگنل اس سے ہر سکنڈ میں نکلتے ہیں اور تیس دن تک جاری رہتے ہیں۔ فرانس اور امریکا اور برطانیہ کی جدید سامان سے مسلح کشتیوں نے سگنل کے ذریعہ ان کے جائے وقوع کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگا لیا۔ اس کے بعد مخصوص کیمرہ کے ذریعہ اس کی تصویریں لی گئیں۔ پھر مشینی انسان(robot) سمندر کی تہہ میں بھیجے گئے۔ جو انسان کی مانند بازو اور ہاتھ اور انگلیاں رکھتے ہیں۔ یہ روبوٹ ریڈیائی لہروں سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ انسان سمندر کے اوپر مشینی اسکرین پر سارا منظر دیکھتا ہے اور ریڈیائی لہروں کے ذریعہ روبوٹ کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ وہ متعین مقام پر پہنچ کر بلیک باکس کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ لیں اور پھر اوپر لا کر انسان کے حوالے کر دیں۔
یہ طریقہ تھا جس کو استعمال کرکے اتھاہ سمندر سے ایک چھوٹے سے ذرہ کو نکال لیا گیا اور اس نے جہاز کے حادثہ کی ساری کہانی انسان کو بتا دی۔
جب میں نے اخبارات میں ان تفصیلات کو پڑھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اس واقعہ کی صورت میں اس عظیم تر واقعہ کا اظہار(demonstration) دیا جا رہا ہے جو قرآن میں ان لفظوں میں بیان ہوا ہے
وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ(
اگرچہ ہر زمانہ میں خدا اور مذہب کو ماننے والوں کی اکثریت رہی ہے، خاص طور پر قدیم زمانہ میں تو اسی نقطۂ نظر کو عمومی غلبہ حاصل تھا۔ تاہم تقریباً ہر زمانہ میں یہ بحث جاری رہی ہے کہ اس عالم کا کوئی خدا ہے یا یہ یونہی اپنے آپ بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ فلسفہ میں اس بحث کو جو عنوان ملا وہ ایک کے لیے عینیت(idealism) اور دوسرے کے لیے مادیت(materialism) تھا۔
عینیت یا آئیڈیلزم، خالص فنی تفصیلات کو چھوڑ کر، اس نقطہ نظر کی حامی رہی ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت روحانی(spiritual) ہے۔ یعنی جو حسی مناظر ہم دنیا میں دیکھتے ہیں، ان کا کوئی حقیقی وجود ہمارے دماغ کے باہر نہیں ہے۔ آئیڈیلزم، ایک معنی میں، اگرچہ افلاطون(427-347ق م) کے زمانہ سے موجود رہی ہے۔ مگر موجودہ مفہوم میں وہ اٹھارویں صدی میں جارج برکلے (1685-1753ء) سے شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں یہ سوال تھا کہ اگر اشیاء کا وجود صرف ذہنی ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ مادی چیزیں اس وقت بھی موجود رہتی ہیں جب کہ کوئی شخص ان کو دیکھ نہ رہا ہو۔ برکلے نے جواب دیا کہ ان اشیاء کا وجود خدا کے ذہن میں ہے۔ اس طرح اس نے آئیڈیلزم کو خدا کے وجود پر ایک نئی دلیل کی حیثیت دے دی۔
کانٹ(1724-1804ء) کے زمانہ میں اس فکر نے نئی وسعت اختیار کی اور ایک مستقل اسکول کی حیثیت سے قائم ہوگیا۔ جرمنی، انگلینڈ، فرانس، امریکا، ہر جگہ اس کے بڑے بڑے وکیل پیدا ہوئے۔ تاہم پہلی جنگ عظیم(1914-18ء) کے بعد اس فکر کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے برعکس مادیت یا مٹیریلزم، اپنے مختلف مدارس فکر کے ساتھ، اس نقطہ نظر کی حامی رہی ہے کہ اس عالم میں جو کچھ ہے، وہ سب کا سب مادی ہے اور مادہ کے باہر اس کا کوئی وجود نہیں۔ اس نظریہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں صرف ایک حقیقت ہے اور وہ مادہ ہے۔ حتیٰ کہ خود انسان بھی، معروف عقیدہ کے مطابق دو چیزوں— جسم اور روح — کا مجموعہ نہیں، بلکہ بنیادی طور پر وہ صرف ایک ہی حقیقت رکھتا ہے اور وہ اس کا مادی جسم ہے۔
اس نقطہ نظر کا پہلا سراغ ایپی کیورس(342-270 ق م) کے یہاں ملتا ہے جس کا خیال تھا کہ تمام چیزیں، اپنے آخری تجزیہ میں، چھوٹے چھوٹے ناقابل مشاہدہ اجزاء سے مل کر بنی ہیں۔ اس مادی نظریہ نے سترھویں صدی میں نئی قوت پکڑی جب ہو لباخ کی کتاب سسٹم آف نیچر(1770ء) شائع ہوئی۔ اس کے وکیلوں کی فہرست، باہمی اختلاف کے باوجود، بہت لمبی ہے۔ بیسویں صدی میں مٹیریلزم کی دو بڑی شاخیں بن گئیں۔ ایک جدلیاتی مادیت(dialectical materialism) جوکہ کمیونسٹ دنیا کا سرکاری فلسفہ ہے۔ دوسرے وہ جس
کو طبیعیت(physicalism) کہا جاتا ہے۔ مٹیریلسٹ، ذہن کو بھی مانتے ہیں، مگر ان کے نزدیک ذہن محض مادی جسم کا ایک عمل (function) ہے۔ مادی جسم سے الگ اس کا کوئی مستقل وجود نہیں۔
آئیڈیلزم اور مٹیریلزم کی یہ کش مکش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی افکار کی تاریخ پرانی ہے۔ آئیڈیلزم، حقیقتاً مذہب کی وکیل نہ ہونے کے باوجود اس اعتبار سے مذہب کا فلسفیانہ سہارا رہی ہے کہ وہ آخری حقیقت کو غیر مادی ثابت کرتی ہے، جیسا کہ خود مذہب کا دعویٰ ہے۔ اس کے برعکس مٹیریلزم نے انکار خدا کے لیے فکری زمین مہیا کرنے کا کام انجام دیا ہے۔ کیوں کہ اس کے نزدیک حسی دنیا سے باہر کسی چیز کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔
پچھلی صدی میں جدید طبیعی سائنسوں کے وجود میں آنے کے بعد اس نقطہ نظر نے مزید وسعت اختیار کی۔ اب سائنس کے تشریحی علم کے طور پر سائنٹفک مٹیریلزم پیدا ہوا۔ علم طبقات الارض اور حیاتیاتی ارتقاء کے نظریہ میں لوگوں نے اس کی زبردست تصدیق پائی— عام طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ زندگی اور دماغ بے جان مادہ ہی کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔ فزیالوجی کی ترقیاتی نے اس کو مزید مستحکم کیا کیوں کہ اس کے مطالعہ سے ثابت ہوا کہ ذہنی زندگی اور اس کی وسعت کا انحصار دماغ(brain) کی جسامت پر ہے۔ اگرچہ اس کے بڑے بڑے وکیل مثلاًکارل واٹ (1895ء) اور لڈوگ بشنر (1824-1899ء) واضح طور پر ثابت نہ کر سکے کہ دماغ کی واقعی حقیقت کیا ہے، تاہم جدید طبیعی دریافتوں کے بعد عام طور پر سمجھ لیا گیا کہ سائنس نے مٹیریلزم کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ سترھویں صدی سے شروع ہو کر انیسویں صدی کے آخر تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ مٹیریلزم جدید علمی دنیا کی فاتح ہے اور اب علمی اور منطقی طور پر مذہب کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
فکری طور پر اس مٹیریلزم کے دو رُخ تھے۔ ایک،یہ کائنات سرتاسر ایک مادی وجود ہے، اس لیے یہاں کسی غیر مادی ہستی(مثلاً خدا) کو ماننے کا کوئی سوال نہیں۔ دوسرے یہ کہ یہاں جو واقعات ہو رہے ہیں، ان کے پیچھے معلوم مادی اسباب ہیں، اس لیے کسی رب اور قیوم کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مٹیریلزم کا پہلا پہلو خدا کے وجود کا انکار کر رہاہے۔ دوسرا پہلو خدا کے وجود کو ناممکن تو نہیں بتاتا، البتہ اس کے مطابق ابتدائی پیدائش کے بعد اس نظام کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نہیں۔ والٹیر (1694-1778ء) کے الفاظ میں، اگر خدا ہے تو ہماری دنیا سے اس کو وہی تعلق ہے جو ایک گھڑی سے اس کے ابتدائی بنانے والے کو۔ تاہم ہیوم (1711-1776ء) نے اس ’’بے جان اور بے کار‘‘ خدا کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ اس نے ’’گھڑیاں بنتے ہوئے دیکھی تھی مگر دنیائیں بنتی ہوئی نہیں دیکھی۔‘‘
مگر انیسویں صدی کا خاتمہ درحقیقت ان تمام نظریات کا بھی خاتمہ تھا۔ موجودہ صدی میں خود سائنس نے جو حقائق دریافت کئے ہیں، انھوں نے ان سارے خیالات کی آخری طور پر تردید کر دی ہے۔
نیوٹن کی میکانکس کا ایک مسئلہ یہ تھا کہ اگر کسی شے کی موجودہ حالت معلوم ہو تو اس کی سابق یا آئندہ حالت
قطعی طور پر متعین ہو جائے گی اور محض قوانین حرکت کی بنا پر علم ریاضی کی مدد سے ازل سے ابدتک اس کی تمام حالتوں کی پیش بندی کی جا سکے گی۔ میکانکس کا یہی مسئلہ تھا جو مادہ پرستوں کے لیے حکم فیصل کا کام دیتا تھا اور جس کی بنا پر وہ کسی خالق کے تصور کو غیر ضروری قرار دیتے تھے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک کائنات کی ہر حالت، ہر لمحہ متعین ہے اور وہ اس کے مطابق خود بخود تشکیل پاتی چلی جا رہی ہے۔
فطرت کے باقاعدہ قانون کی حیثیت سے یہ اصول تعلیل(law of causation) مسلّمہ طور پر سترھویں صدی میں مان لیا گیا، وہ عظیم صدی جو گلیلیو(1564-1642ء) اور آئزک نیوٹن (1642-1727ء) کی صدی کہی جاتی ہے اس سے پہلے دمدار ستارے (comets) کے ظہور کو بادشاہت کا خاتمہ یا کسی بڑے آدمی کی موت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس صدی میں تجاذب کے آفاقی قانون کے تحت اس کی توجیہ معلوم کرلی گئی۔’’اور‘‘ نیوٹن نے لکھا’’اسی طرح قدرت کے دوسرے واقعات بھی میکانکی اصولوں(mechanical principles) کے تحت معلوم کر لیے جائیں گے۔‘‘
اس طرح ایک زبردست تحریک اٹھ کھڑی ہوئی جس کا مقصد عالم مادی کو ایک مشین ثابت کرنا تھا۔ یہ تحریک انیسویں صدی کے نصف آخر میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ یہی وقت تھا جب ہیلم ہولٹز(1821-1894ء) نے کہا’’تمام فطری علوم کا آخری مقصد بالآخر اپنے آپ کو میکانکس میں منتقل کر لینا ہے۔‘‘ لارڈ کلوین(1824-1907ء) نے اعتراف کیا کہ’’جب تک میں کسی چیز کا میکانیکل ماڈل نہیں بنا لیتا، میں اس کو سمجھ نہیں سکتا۔‘‘ واٹرسٹن میکسویل(1879-1931ء) اور دوسروں نے نہایت کامیابی کے ساتھ گیس کی مشینی تشریح پیش کی۔ ان کے نزدیک گیس نہایت چھوٹے چھوٹے سخت ترین ذرات کا مجموعہ تھی جو اِدھر اُدھر تتلیوں کی طرح اڑتے پھرتے تھے۔ اسی طرح رقیق اشیاء، روشنی اور تجاذب وغیرہ کی تشریحات کی گئیں۔ اگرچہ انھیں اس کوشش میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ مگر ان کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ساری کائنات مشینی توجیہ (mechanical interpretation) کو قبول کر لے گی۔
’’جب ساری کائنات اصول تعلیل میں بندھی ہوئی ہے تو انسان اس سے مستثنیٰ کیوں کر ہو سکتا ہے۔‘‘ اس سوال نے انسان کو یہاں تک پہنچایا کہ خود انسان بھی ایک مشین بن گیا۔ اس سے سترھویں اور اٹھارویں صدی کے مشینی فلسفے(mechanistic philosophies) پیدا ہوئے۔ جب معلوم ہوا کہ زندہ اشیاء بھی ٹھیک اسی کیمیکل ایٹم سے بنی ہیں جس سے غیر جاندار اشیاء، تو اس یقین میں کوئی شبہ نہ رہا کہ دونوں کی نوعیت بالکل ایک ہے۔ زور شور کے ساتھ دعویٰ کر دیا گیا کہ زندگی خود بھی اپنے آخری تجزیہ میں محض ایک مشینی چیز ہے۔ نیوٹن یا باخ یا مائیکل انجلو کے دماغ کسی چھاپہ خانہ سے صرف پیچیدگی میں مختلف تھے، ورنہ دونوں میں کوئی حقیقی فرق نہ تھا۔
مگر انیسویں صدی کے آخر میں جب کہ فلاسفہ اس بحث میں مشغول تھے کہ کیا ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے
جو نیوٹن یا باخ(1685-1750ء) کے خیالات کا اعادہ کر سکے، مظاہر فطرت خصوصاً روشنی (radiation) اور تجاذب(gravitation) کی خالص میکانکی توجیہ کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی تھیں۔ سائنسداں تیزی سے اس یقین تک پہنچ رہے تھے کہ کوئی مشین بلب کی روشنی یا سیب کے گرنے کا اعادہ نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ انیسویں صدی کے آخر میں پروفیسر میکس پلانک (1858-1947ء) نے روشنی کے متعلق ایسے نظریات پیش کیے جو کسی بھی طرح میکانیکی تشریح کو قبول کرنے والے نہ تھے۔ چنانچہ ابتداء میں اس بنا پر اس پر تنقید کی گئی بلکہ اس کا مذاق اڑایا گیا۔ مگر بالآخر اس کے نظریات کو انٹم نظریہquantum theory کی شکل میں جدید طبیعیات کے مسلمات میں شامل ہوگئے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے میکانیکل دور کا خاتمہ اور نئے عہد کا آغاز کیا۔
میکس پلانک کا نظریہ ابتداء میں صرف یہ معنی رکھتا تھا کہ قدرت جھٹکوں اور چھلانگوں (jumps and jerks) کی صورت میں سفر کرتی ہے، جیسے کہ گھڑی کی سوئی۔ مگر آئن سٹائن نے 1917ء میں دکھایا کہ پلانک کا نظریہ محض عدم تعین(discontinuity) سے زیادہ انقلابی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اصول تعلیل کا خاتمہ کر رہا ہے جس کو نظام قدرت کا طبیعی رہنما سمجھ لیا گیا تھا۔ قدیم سائنس نے دعویٰ کیا تھا کہ قدرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کر سکتی تھی جو علت و معلول کے تحت اول روز سے مقدر ہوگیا تھا۔ مگر اب اس پر یقین کرنا ناممکن ہوگیا۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔ جیسا کہ معلوم ہے، ریڈیم اور دوسرے ریڈیائی عناصر (radio-active elements) کے ایٹم ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اور اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ یہ عناصر سیسہ اور ہیلیم میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایٹم کیوں ٹوٹتے ہیں، اس کے متعلق تعلیل کے سارے ممکن قیاسات غلط ثابت ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ قیاس کہ ممکن ہے یہ ایٹم الیکٹران کی حرکت سے پیدا ہونے والی گرمی سے ٹوٹتے ہوں، صحیح نہیں۔ کسی مخصوص ایٹم پرخارج سے گرمی پہنچا کر اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ تجربہ کیا گیا اور ناکام رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ردرفورڈ(1871-1937ء) اور ساڈی (1877-1956ء) نے 1903ء میں خود بخود انتشار(spontaneous disintegration) کا مفروضہ قائم کیا جو خالص طبیعی نقطہ نظر سے، توجیہ نہیں بلکہ توجیہ کی نفی ہے۔ موجودہ صدی کے آغاز میں جب میک لینان اور ردر فورڈ اور دوسروں نے کائناتی شعاعوں کی دریافت کی تو سمجھا گیا کہ یہی شعاعیں ہیں جو کہ ریڈیائی عناصر میں انتشار کا سبب ہیں۔ مگر تجربہ سے یہ بھی غلط ثابت ہوا۔
عام روشنی کسی مادہ میں ایک انچ سے بھی کم داخل ہوتی ہے۔ ایکسرے کی شعاعیں اس سے کہیں زیادہ نفوذ کی طاقت رکھتی ہیں۔ وہ ہمارے پورے جسم کو پار کر جاتی ہیں۔تاہم ایک سکہ کے برابر دھات کا ٹکڑا ان کے نفوذ کو روک دیتا ہے۔ مگر کائناتی شعاعیں سیسہ اور دیگر سخت دھاتوں میں کئی گز تک اتر جاتی ہیں۔ اس لیے یہ قیاس بہت آسان تھا کہ ریڈیائی انتشار کا سبب یہی شعاعیں ہیں۔ مگر یہ قیاس نہایت سادہ تجربے سے غلط ثابت ہوگیا۔ ریڈیائی عنصر کے ایک ٹکڑے کو کوئلہ کی کان کے نیچے لے جایا گیا۔ اب وہ کائناتی شعاعوں
کے حملہ سے بالکل محفوظ تھا۔ مگر اس کے اندر جوہری انتشار اب بھی اسی طرح جاری تھا۔
کائنات کے ان ناقابل توجیہہ مظاہر کا ذکر کرتے ہوئے ایک سائنس داں لکھتا ہے
The future may not be as unalterably determined by the past as we used to think, in part at least it may rest on the knees of whatever gods there be.
(Sir James jeans, The Mysterious Universe, the University press, Cambridge,1948, p.
کائنات کا مستقبل اس طرح غیر متغیر طور پر ماضی سے بندھا ہوا نہیں ہے جیسا کہ ہم نے سمجھ لیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہرحال خدائوں سے متعلق ہے، خواہ وہ خدا جو بھی ہوں۔
دوسری تحقیقات بھی اسی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ مثلاً پروفیسروارنر ہیزن برگ (وفات1976ء) نے 1927ء میں بتایا کہ کوانٹم نظریہ ایک اور نتیجہ تک پہنچا رہا ہے جس کو انھوں نے نظریہ عدم تعین (principle of Indeterminacy) سے تعبیر کیا۔ روایتی طور پر یہ سمجھا جا رہا تھا کہ قدرت ایک ہی متعین رخ پر نہایت صحت کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ مگر ہیزن برگ نے دکھایا کہ قدرت سب سے زیادہ اسی مفروضہ کی تردید کر رہی ہے۔ چنانچہ آج طبیعی سائنس کا مسلمہ قانون ہے کہ نہ صرف کائنات بلکہ اس کے کسی حصہ یہاں تک کہ کسی ایک ذرہ کا مستقبل بھی قطعی طور پر متعین نہیں ہے۔ وہ کئی ممکن حالتوں میں سے کسی ایک حالت کو اختیار کر سکتا ہے۔ اس طرح قوانین قدرت تعینی (deterministic) نہیں بلکہ اوسطی (statistical)ہو جاتے ہیں۔
انیسویں صدی کی طبیعیات میں مادہ اور توانائی ایک دوسرے کے متضاد تصورات تھے۔ مادہ کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ ایک جسمانی شے ہے جو ایک محدود فضا کو بلاشرکت غیر گھیرتی ہے اور جس کا ایک مستقل وزن ہوتا ہے، جس کو کم و بیش یا معدوم نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی مادی شے حرکت کرتی ہے تو وہ ایک ہی خط میں ایک ذرہ کی طرح حرکت کرتی ہے۔ آواز یا روشنی کی موجوں کی طرح پوری فضا میں نہیں پھیل جاتی۔ اس کے برخلاف روشنی اور توانائی کے متعلق یہ خیال تھا کہ نہ تو وہ کوئی جسمانی شے ہے اور نہ کسی محدود فضا کو بلاشرکت غیر گھیرتی ہے۔ اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ اور وہ ذرہ کی طرح حرکت نہیں کرتی بلکہ موجوں کی شکل میں آگے بڑھتی ہے۔ اس’’دوئی‘‘ نے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ یہ دعویٰ کر سکیں کہ کائنات کی اصل مادہ ہے۔ توانائی اس مادہ کا ایک اضافی مظہر ہے۔ اس کا علیحدہ کوئی وجود نہیں۔
جدید طبیعیات میں مادہ اور توانائی کا یہ اختلاف ختم ہوگیا ہے اور تجربوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مختلف شکلیں ہیں۔ کبھی مادہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کبھی توانائی مادہ میں۔ کسی مادی شے کی کمیت مستقل نہیں بلکہ وہ اس کی حرکت پر منحصر ہوتی ہے اور رفتار کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک مادی شے کبھی ذرے کی طرح ایک خط میں حرکت کرتی ہے اور کبھی موجودہ کی طرح پھیلتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ مادہ کے توانائی میں منتقل ہونے کا یہی اصل اصول ہے جس کی بنا پر ایٹم بم بنایا گیا ہے۔
1900ء میں پلانک نے کوانٹم کا انکشاف کیا اور بتایا کہ توانائی اور مادی نظام کی حالتوں میں تبدیلی مسلسل نہیں بلکہ ایک خاص قلیل ترین مقدار یعنی کوانٹم کے اضعاف (multiples) کے متناسب ہوتی ہے۔ اس انکشاف کے بعد قائم ترین زمانہ سے طبیعی کائنات میں تغیر و تبدل کے مسلسل اور تدریجی ہونے کا جو تصور چلا آ رہا تھا، وہ ختم ہوگیا اور اس کی وجہ سے نیوٹن کی میکانکس میں ایک غیر معمولی انقلاب رونما ہوا۔
ایٹم کے متعلق 1895ء تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ مادہ کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے جس کی مزید تقسیم نہیں کی جا سکتی۔ مگر اس کے بعد پتہ چلا کہ ہر ایٹم کے اندر بہت سے اور چھوٹے ذرے ہوتے ہیں جن کو الیکٹرون، پروٹون نیوٹرون وغیرہ کہتے ہیں۔ کسی ایٹم کا مادہ مسلسل پھیلا ہوا نہیں ہوتا بلکہ یہ ذرے اس کے اندر نظام شمسی کی طرح ترتیب دیے ہوتے ہیں اور چند معینہ مداروں پر حرکت کرتے رہتے ہیں۔ ایٹم کے مختلف ذروں کے درمیان اسی طرح وسیع خلا ہوتا ہے جیسے سورج اور اس کے تابع سیاروں کے درمیان۔ ایٹم کے مرکزی حصہ میں، جس کو نیوکلیس کہا جاتا ہے، اس کا تقریباً تمام مادہ مرتکز ہوتا ہے اور اس کی شکست وریخت سے ایٹم کی ماہیت بھی بدل جاتی ہے اور ایٹمی توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اب تو ایسے ذروں کی کثیر تعداد دریافت ہوئی ہے جو دو مادی ذروں یا ایک مادہ ذرہ اور اشعاع(radiation) کے باہمی تعامل کے دوران ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
اس طرح جدید طبیعیات نے قدیم مادہ کی بنیاد ہی سرے سے منہدم کر دی۔ علمی دنیا کا یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب نیوٹن کے نظریوں پر مبنی طبیعیات انیسویں صدی میں اپنے عروج پر پہنچ رہی تھی،عین اسی زمانہ میں پے درپے ایسے تجربات اور مشاہدے ہوئے کہ خود اس علم کی بنیادیں ہل گئیں اور علم طبیعیات میں ایک ہمہ گیر انقلاب رونما ہوا۔ مادہ اور توانائی، ذرہ اور موج، جوہر اور عنصر، زمان و مکان اور علت و معلول جیسے بنیادی تصورات ہی سرے سے بدل گئے اور خود قوانین قدرت کا بھی نیا مفہوم لیا جانے لگا۔ یہی وہ تغیرات ہیں جنہوں نے نیوٹن اور میکسویل کی طبیعیات کے بجائے اس جدید طبیعیات کی تشکیل کی جس کی بنیاد کو انٹم اور اضافیت کے نظریوں پر قائم ہے۔
برٹرینڈرسل(1872-1970ء) کے الفاظ میں آج’’ماہرین طبیعیات ہم کو یقین دلا رہے ہیں کہ مادہ جیسی کوئی شے سرے سے کوئی وجود نہیں رکھتی۔ دوسری طرف ماہرین نفسیات باور کرا رہے ہیں کہ ذہن جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔‘‘ وہ مزید لکھتا ہے’’آج کا جدید مادہ پرست بننے کی کوشش کرنے والا اپنے آپ کو عجیب کش مکش میں مبتلا پاتا ہے۔ کیوں کہ جہاں ایک طرف ایک خاص حد تک ذہن کے افعال کو وہ کامیابی کے ساتھ جسم کے افعال کے ماتحت ثابت کر سکتا ہے، وہیں دوسری طرف اس واقعہ سے بھی مفر نہیں پاتا کہ جسم بجائے خود محض ذہن کا ایجاد کیا ہوا ایک سہولت پیدا کرنے والا تصور ہے۔‘‘
’’سیدھا سادا عام آدمی مادی چیزوں کے وجود کو یقینی ہی پاتا ہے کیوں کہ وہ حواس کے لیے بالکل بین اور بدیہی ہوتی ہیں۔ اور جو کچھ بھی مشکوک ہو، اتنا یقینی ہے کہ جس چیز کو تم ٹھوکر مارتے ہو، دھکیلتے ہو، دھکا دیتے
ہو یا جس سے ٹکراتے ہو، اس کو حقیقی اور واقعی ہی ہونا چاہیے۔‘‘ مگر حقیقت کیا ہے؟۔
’’عالم طبیعیات(physicist) ثابت کرتا ہے کہ تم کبھی کسی چیز سے ہر گز نہیں ٹکراتے۔ حتیٰ کہ جب تمہارا سر کسی پتھر کی دیوار سے ٹکراتا ہے تو حقیقت نفس الامری کے اعتبار سے تم اس کو مس(touch) تک نہیں کرتے۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ کچھ الیکٹران اور پروٹان جو تمہارے جسم کا حصہ ہوتے ہیں، ان میں اور اس چیز کے الیکٹران اور پروٹان کے مابین جس کو تم سمجھتے ہو کہ چھو رہے ہو، صرف جذب و دفع کا عمل ہوتا ہے۔ لیکن اس عمل میں فی نفسہ دو جسموں میں کوئی لمس و اتصال نہیں پایا جاتا۔ محض اتنا ہوتا ہے کہ تمہارے جسم کے الیکٹران اور پروٹان سے جب دوسرے جسم کے الیکٹران اور پروٹان قریب ہوتے ہیں تو ان میں ایک ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ یہی ہیجان و اختلال تمہارے اعصاب کے واسطہ سے دماغ تک پہنچتا ہے۔ بس یہی دماغی تاثر لمس یا اتصال کا احساس پیدا کر دینے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‘‘
Bertrand Russell, The will to Doubt.
جدید سائنس کی رو سے یہ ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے کہ ہمارے ذہن کے باہر کسی مادی شے کا کوئی وجود ہے۔ رسل کے الفاظ میں یہاں صرف’’الیکٹرانوں کا مجنونانہ رقص (mad dance) پایا جاتا ہے اور اس میں اور ہمارے لمس وغیرہ کے براہ راست محسوسات یا اشیاء میں کوئی مماثلت یا مشابہت بس برائے نام ہے۔‘‘ بقول سر آرتھر اڈنگٹن موجودہ علمائے طبیعیات کا’’یہ اعلان و اعتراف کہ طبیعیات خارجی صداقت یا اس کے کسی جزوی حصہ کا کوئی علم عطا نہیں کر سکتی، اس نظریہ کی توثیق ہے کہ طبیعیاتی طریقوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ تمام تر ذہنی(subjective) ہوتا ہے۔‘‘
Arthur Eddington. Philosophy of physical Science.
’’جس طرح الفاظ، اشیاء کے نمائندہ نہیں ہوتے، محض ان کی علامات ہوتے ہیں، جیسے روٹی کا لفظ روٹی کی واقعی کسی شکل و صورت، رنگ و بو وغیرہ کی تصویر یا عکس و نقشہ نہیں ہوتا، اسی طرح ہم اشیائے خارجی کے متعلق جو تصورات رکھتے ہیں، وہ ان کی واقعی حقیقت و نوعیت کو نمایاں کرنے والی کوئی تصویر یا مثنیٰ مطلق نہیں ہوتے، بلکہ محض علامات (symbols) ہوتے ہیں، جیسے ریاضی و ہندسہ میں اے۔ بی۔ سی۔ وغیرہ حروف محض علامات ہوتے ہیں، ویسے ہی الیکٹران، پروٹان وغیرہ علم طبعیات کی اے۔ بی۔ سی۔ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طبیعیات کا حاصل اب کچھ ریاضیاتی علامات(symbols) اور ان کی مساواتیں (equations) ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ علامات کس شے یا حقیقت کی ہیں، اس کا پراسرار جواب یہ ہے کہ طبیعیات کو اس سے مطلب نہیں اور نہ اس کے پاس ان علامات کی تہ میں جانے کا کوئی ذریعہ ہے‘‘۔’’ ان علامات کے پس پردہ جو چیز کام کر رہی ہے، اس اس کی حقیقت کے متعلق کوئی قطعی حکم لگانا تو درکنار، طبیعیات کو تو اس کے برعکس انتہائی قطعیت کے ساتھ اصرار ہے کہ اس کے طریقے (methods) علامیت(symbolism) کے پس پردہ کسی طرح جا ہی نہیں سکتے
Eddington. Science and the Unseen World.
اس طرح اڈنگٹن کے الفاظ میں طبیعیات کی خارجی دنیا(external world) محض سایوں کی دنیا(world of shadows) بن کر رہ گئی ہے۔
پچھلی صدی تک مادہ سب سے بڑی حقیقت تھا۔ پروفیسر ٹائٹ(Tiet) نے ’’طبیعیاتی سائنس کی بعض ترقیوں پر لکچر دیتے ہوئے1876ء میں کہا تھا’’مادہ کے حقیقی ہونے یا اس کے خارجی(objective) وجود کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انسان کے پاس کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کو پیدا یا فنا کر سکے۔‘‘
Quoted by James B. Conant.
The Modern Science and Modern Man.1952. p.
مگر اب یہ مادہ ٹوٹ چکا ہے’’ہیرو شیما کی بربادی مادہ ہی کے فنا کا نتیجہ تھی‘‘ جدید ایٹمی سائنس کی بنیاد تمام تر اسی عقیدہ پر قائم ہے کہ مادہ کی آخری اکائی(ایٹم) کو توڑا جا سکتا ہے۔
سائنس کی دنیا میں اس انقلاب کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بقول برٹرینڈرسل’’حقیقت یہ ہے کہ آج مشکل ہی سے تم کوئی ایسا رسالہ یا کتاب کھولو گے جس میں ہمارے عام سائنسی خیالات سے بحث ہو اور اس کو اس طرح کے بیانات سے دو چار نہ ہونا پڑے—’’گلیلیو کے عہد کا خاتمہ،’’ سائنس کی روح سے دشمنی کا خاتمہ‘‘ ’’میکانکی طبیعیات کی ناکامی‘‘’’ مذہب و سائنس میں مصالحت‘‘ وغیرہ۔
Bertrand Russell, Modern Science and Philosophy.
حتیٰ کہ برنہارڈ باونک(Bernhard Bawink) نے جدید طبیعیات پر اپنی کتاب کا نام ہی رکھ دیا ہے’’سائنس مذہب کے راستہ پر‘‘:
Modern Science on the Path of Religion
اڈنگٹن کے الفاظ میں’’کائنات کا وہ نظریہ جو کشش جیسے ان دیکھے قانون کی کار فرمائی کو مانتا ہے، کیا اس سے کچھ بھی زیادہ سائنسی ہو سکتا ہے جو وحشی انسان ہر اس چیز کو جس کو وہ کچھ پراسرار پاتے ہیں، ان دیکھے دیوی دیوتائوں(demons) کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔
The Nature of Physical World. p.
سائنس کی ترقی کے بعد جب مشاہدہ کے جدید ذرائع انسان کے ہاتھ میں آئے تو انسان اس غلط فہمی میں پڑ گیا کہ وہ ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ اس نے دعویٰ کر دیا کہ وہ چیز جو ہمارے’’خوردبینی‘‘ یا ’’دوربینی‘‘ مشاہدات میں نہ آئے، وہ سرے سے کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔
نیوٹن(1642-1727ء) اور آئن سٹائن(1879-1954ء) کے درمیان ایک پورا دور گزرا ہے جبکہ یہ تصور یقین کی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔ مگر آئن اسٹائن کے بعد جو دور شروع ہوا ہے، اس کے بعد سائنس نے اپنا یہ یقین کھو دیا ہے۔ اب یہ امر بجائے خود مشتبہ ہوگیا ہے کہ یہ عالم معروضی (objective) ہے یا داخلی(subjective)۔ یعنی کائنات کا کوئی خارجی وجود ہے جس کو دیکھا جا سکتا ہے یا وہ صرف ہمارے اندرونی احساسات کا کرشمہ ہے۔ جبکہ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ ذہن و احساس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ اصل موجود چیز مادہ ہے اور ذہن و احساس صرف اس مادہ کی اضافی پیداوار ہیں۔
19ویں صدی کے آخر تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر چیز کی آخری حقیقت ایٹم ہے اور ایٹم چھوٹے چھوٹے’’ذرات‘‘ ہیں جن کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر ایٹم کے ٹوٹنے کے بعد ایٹم ناقابل مشاہدہ دنیا میں تحلیل ہوگیا ہے۔ اب سائنس میں عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آخری حقیقت ایک ایسی لطیف شے ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی۔ چنانچہ اب کائنات کی تشریح، کوئی ان الفاظ میں کرتا ہے کہ یہ امکانی لہریں (waves of probabilities) ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ معروف معنوں میں کوئی شئے نہیں بلکہ وقوعات(events) کا ایک سلسلہ ہے۔ کوئی اس کو عالم خیال(universe of thought) کہتا ہے۔ کوئی اس کو بھوت(ghost) سے تشبیہ دیتا ہے کوئی اس کو محض ایک تشکیل (construction) بتاتا ہے۔ کوئی اس کو سایوں کی دنیا (world of shadows) کہتا ہے۔
برٹرینڈرسل نے ان سارے افکار کو ایک طنزیہ جملہ میں اس طرح سمیٹا ہے
Thus matter has become altogether too ghostly to be used as an adequate stick with which to beat the mind.
مادہ اس طرح ایسا بھوت بن گیا ہے جو ذہن کو ہانکنے کے لیے ایک ڈنڈا نہیں بن سکتا۔ وہ مزید لکھتا ہے
’’وہ چیز جس کو اب تک ہم اپنا جسم کہتے رہے ہیں، وہ درحقیقت بڑی دیدہ ریزی سے بنائی ہوئی ایک سائنسی تشکیل(construction) ہے جس کی کوئی طبیعیاتی حقیقت نہیں پائی جاتی۔
برنہار باونک کا یہ کہنا کہ’’سائنس مذہب کے راستہ پر‘‘ جا رہی ہے، اوپر کی تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کا دریا دوبارہ وہیں پہنچ گیا جہاں سے اس نے مذہب کو چھوڑا تھا۔ یعنی یہ کہ کائنات اپنی آخری حقیقت کے اعتبار سے ایک غیر مادی واقعہ ہے، نہ کہ صرف بے جان اور بے شعور مادہ کا بے معنی رقص۔
مزید یہ کہ ہماری دنیا میں جو اسباب کام کر رہے ہیں وہ امکانی طور پر بہت سے مختلف اور متضاد نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ مگر کائناتی نظام حیرت انگیز طور پر یہ کرتا ہے کہ واقعات کے رخ کو غیر موزوں نتائج کی طرف جانے سے روکتا ہے اور اس کو صرف موزوں نتائج کی طرف لے جاتا ہے۔ کائنات کی یہ غایاتی طبیعت (teleological nature) صریح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ عالم واقعات کے پیچھے ایک باشعور ارادہ کام کر رہا ہے۔ اس صورت حال کی کوئی دوسری توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔
کائناتی نظام میں عدم تعین، بالفاظ دیگر انتخابیت کا ہونا اور اس کا مسلسل برقرار رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو ہر آن خارج سے’’رہنمائی‘‘ دی جا رہی ہے۔ سر آرتھر اڈنگٹن نے بجا طور پر نشان دہی کی ہے کہ جدید کوانٹم نظریہ کا یہ پہلو بے حد حیرت انگیز ہے۔ کیوں کہ یہ الہام کے مذہبی عقیدہ کی سائنسی تصدیق کر رہا ہےوَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا (
ستارے اور سیارے کبھی اپنے مقررہ راستے سے نہیں بھٹکتے۔ درختوں اور پہاڑوں کے سامنے کبھی یہ مسئلہ نہیں آتا کہ وہ اپنی زندگی کے نظام کو کس طرح بہتر بنائیں۔ کسی جانور کو کبھی یہ سوال پریشان نہیں کرتا کہ وہ اپنی غیر حاصل شدہ تمنائوں کو کیسے پورا کرے۔ انسان کے سوا جتنی چیزیں اس کائنات میں ہیں، سب ویسی ہی ہیں جیسا کہ انھیں ہونا چاہیے۔ معلوم دنیا میں صرف انسان ہے جو اس احساس سے دو چار ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اس کو حاصل نہیں کر سکتا اور نہ موجودہ دنیا میں کبھی اس کا حصول ممکن ہے۔
ہمارے موجودہ دنیا کے درمیان اس تضاد کو ہمیشہ لوگوں نے محسوس کیا ہے۔ عام انسان صرف یہ سوچتا ہے کہ وہ بیماری، حادثہ، بڑھاپا، موت سے آزاد زندگی پائے مگر وہ اسے پا نہیں سکتا۔ علماء اور مفکرین زیادہ گہرائی تک جاتے ہیں اور زیادہ دور رس قسم کے ناموافق پہلوئوں کا انکشاف کرتے ہیں جو انسان اور موجودہ دنیا کے درمیان فیصلہ کن طور پر حائل ہیں۔
انسان خلائوں کو ناپتا ہے اور اقتدار کے خواب دیکھتا ہے۔ مگر وہ کس قدر عاجز اور حقیر ہے، اس کو ایک مثال میں دیکھئے۔ زمین پر آج جتنے انسان پائے جاتے ہیں، اگر ان میں کا ہر آدمی چھ فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ایک فٹ موٹا ہو تو پوری آبادی کو بہ آسانی ایک ایسے صندوق میں بند کیا جا سکتا ہے جو طول و عرض اور بلندی میں ایک میل ہو۔ پھر اگر اس صندوق کو کسی سمندر کے کنارے لے جا کر ایک ہلکا سا دھکا دے دیں تو وہ پانی کی گہرائی میں پہنچ کر گم ہو جائے گا۔ صدیاں گزر جائیں گی مگر نسل انسانی دوبارہ زمین پر چلتی پھرتی دکھائی نہ دے گی۔ دنیا کے ذہن سے یہ بھی محو ہو جائے گا کہ یہاں انسان کی قسم کی کوئی مخلوق آباد تھی۔ سمندر کی سطح پر اسی طرح بدستور طوفان آتے رہیں گے، سورج اسی طرح چمکتا رہے گا۔ کرۂ ارض اپنے محور پر بدستور گھومتا رہے گا۔ کائنات کی لامحدود وسعتوں میں پھیلی ہوئی بے شمار دنیائیں اتنے بڑےحادثہ کو ایک معمولی واقعہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں گی۔ مدتوں کے بعد ایک اونچا سا مٹی کا ڈھیر زبان حال سے بتائے گا کہ یہ نسل انسانی کی قبر ہے جہاں وہ صدیوں پہلے ایک چھوٹے سے صندوق میں دفن کی گئی تھی۔
سر جیمز جینز(1877-1946) کائنات کی بے پناہ وسعت کے مقابلے میں انسان اور اس کے وطن(زمین) کی معمولی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ریت کے ذرہ کے ایک خوردبینی ٹکڑے پر کھڑے ہو کر ہم کائنات کی فطرت اور اس کے مقصد کو معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ زمان و مکان کے اندر ہمارے وطن(زمین) کو گھیرے ہوئے ہے۔ ہمارا پہلا تاثر کچھ دہشت ناک قسم کا ہوتا ہے۔ ہم کائنات کو دہشت ناک پاتے ہیں اس کے وسیع ناقابل فہم فاصلوں کی وجہ سے، دہشت ناک اس کے لامعلوم حد تک لمبے پھیلے ہوئے وقت کی وجہ سے جس کے مقابلے میں انسانی تاریخ محض پلک جھپکانے
کے بقدر معلوم ہوتی ہے، دہشت ناک ہماری انتہا درجہ کی تنہائی کی وجہ سے، اور خلا میں ہمارے وطن کے مادی طور پر بالکل بے حقیقت ہونے کی وجہ سے— ساری دنیا کے سمندروں میں پائے جانے والے ریت کے ذروں میں سے ایک ذرہ کا دس لاکھواں حصہ۔ مگر ان سب سے بڑھ کر کائنات کو ہم اس لیے دہشت ناک پاتے ہیں کہ وہ ہماری جیسی ایک زندگی کے معاملہ میں غیر جانب دار ہے خدمات، حوصلے، کامیابیاں، آرٹ اور مذہب، سب اس کے منصوبے میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ شاید ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہماری جیسی زندگی کی دشمن ہے۔ کیوں کہ خالی خلا کا بیشتر حصہ اس قدر سرد ہے کہ تمام زندگی اس کے اندر منجمد ہو جائے گی۔ خلا کے اندر مادہ کا بیشتر حصہ اس قدر گرم ہے کہ اس کے اوپر زندگی کا وجود ناممکن ہے۔ خلا خم دار ہے اور فلکیاتی اجسام پر مسلسل مختلف قسم کی ریڈیائی بمباری ہوتی رہتی ہے، جن میں سے اکثر اغلباً زندگی کے لیے مخالف یا تباہ کن ہیں۔ اس قسم کی ایک دنیا میں ہم ٹپک پڑے ہیں، اگر غلطی سے نہیں تو کم ازکم اس چیز کے نتیجہ میں جس کو اتفاق کہا جا سکتا ہے‘‘(3)۔
سیاراتی نظام(جس میں ہماری زمین ہے) انتہائی نادر خلائی واقعہ ہے۔ سیاراتی نظام کا اس قدر نادر ہونا بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ زندگی کی جس قسم سے ہم زمین پر واقف ہیں، وہ زمین ہی جیسے کسی سیارہ پر وجود میں آ سکتی ہے۔ اس کو اپنے ظہور کے لیے موافق طبیعی حالات درکار ہیں جن میں سب سے اہم وہ ٹمپریچر ہے جس میں اشیاء رقیق شکل میں باقی رہ سکیں(4)۔
ان وجوہ سے یہ ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ابتدائی طور پر ہماری جیسی زندگی کے لیے بنائی گئی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینی طور پر ہم میکانزم کے حجم اور پیداوار کی مقدار میں زیادہ بہتر تناسب کی توقع کر سکتے تھے۔ کم ازکم پہلی نظر میں زندگی غیر اہم ضمنی پیداوار دکھائی دیتی ہے۔ ہم زندہ لوگ شارع عام سے کچھ ہٹے ہوئے ہیں۔
We living things are some how off the main line. (p.5)
سائنس نے اب تک جو معلومات دی ہیں، ان کے مطابق ہم نہایت تعجب انگیز طور پر وجود میں آئے ہیں۔ اور ہماری حیرانی میں صرف اضافہ ہوتا ہے جب ہم اپنی ابتدا کے مسئلہ سے آگے بڑھ کر اپنے وجود کی معنویت کو سمجھنا چاہتے ہیں یا یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ قسمت نے مستقبل میں ہماری نسل کے لیے کیا چیز ذخیرہ کر رکھی ہے(صفحہ10)۔
فزکس اور فلکیات دونوں ایک ہی کہانی بتاتے ہیں۔ وہ یہ کہ کائنات کا صرف ایک ہی انجام ہو سکتا ہے۔ اور وہ ہے حرارتی موت(Heat Death)۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ اس آخری انجام تک پہنچنے کا راستہ کیا ہوگا۔ کائناتی موت کے سوااس سفر کا دوسرا کوئی انجام نہیں ہو سکتا۔
End of the journey cannot be other than universal death (p.
پھر کیا ایسا ہے کہ زندگی محض اتفاق سے ایک ایسی کائنات میں بھٹک آئی ہے جو واضح طور پر زندگی کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔ اور جو تمام مظاہر کے مطابق یا تو مکمل طور پر غیر جانب دار ہے یا قطعی طور پر اس کے مخالف۔ ایک ذرے کے محض ایک ٹکڑے پر ہمیں اس وقت تک چمٹے رہنا ہے جب کہ ہم منجمد ہو جائیں، اپنے مختصر
اسٹیج پر مختصر تر لمحات کے لیے اکڑکر چلنا یہ جانتے ہوئے کہ ہمارے تمام حوصلے بالآخر فنا ہو جانے والے ہیں، اور یہ کہ ہماری کامیابیاں ہماری نسل کے خاتمہ کے ساتھ ختم ہو جائیں گی، کائنات کے باقی رہتے ہوئے جہاں ہم موجود نہ ہوں گے(صفحہ
The Mysterious Universe (pp.
ان احساسات کا اظہار تاریخ کے ہر دور میں مختلف سوچنے والے لوگ مختلف انداز میں کرتے رہے ہیں۔ کریسی ماریسن(1884-1946ء) زندگی کا سائنسی مطالعہ کرتے ہوئے بے اختیار کہہ اٹھتا ہے
Whence it came or where it goes, science answers not. (p.
زندگی کب اس زمین پر آئی، زندگی کہاں جا رہی ہے، سائنس ہمیں اس کا کوئی جواب نہیں دیتی۔
آئن سٹائن (1879-1955ء) اپنے سائنسی علم کی روشنی میں جب انسان پر غور کرتا ہے تو اس کے پاس اس اقرار کے سواکوئی اور بات کہنے کے لیے نہیں ہوتی
Man is out of plan. He has come where he was not wanted.
آدمی اس دنیا میں بے جگہ معلوم ہوتا ہے، وہ ایسے مقام پر آگیا ہے جہاں وہ مطلوب نہ تھا۔
انسان جو کچھ پانا چاہتا ہے۔ وہ موجودہ دنیا کے ڈھانچہ میں ممکن نہیں۔ انسان ابدی زندگی چاہتا ہے مگر اس کو ابدی دنیا نہیں دی گئی۔ وہ اپنے لیے ایک بہتر کل(better tomorrow) پیدا کرنا چاہتا ہے، مگر آنے والا کل اس کے لیے جو چیز لے کر آ رہا ہے، وہ حادثہ، بڑھاپا اور موت ہے۔ وہ ایک آزاد، برایوں سے پاک اور خوشیوں سے بھری دنیا دیکھنا چاہتا ہے، مگر ایسی دنیا اس زمین پر کسی طرح بننے نہیں پاتی۔
اب دو ہی متبادل قیاسات ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ زندگی، برٹرینڈرسل (1872-1970ء) کے الفاظ میں، نظام شمسی کے وسیع قبرستان میں اپنی تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ بالآخر ہمیشہ کے لیے دفن ہو جانے والی ہے۔ اس کے بعد مدفن(مادی دنیا) شاید کسی شکل میں باقی رہے مگر دفن ہونے والے(انسان) کا اس میں کہیں وجود نہ ہوگا۔ دوسرے یہ کہ موجودہ دنیا کے علاوہ یا اس کے بعد کوئی اور زیادہ مکمل دنیاہے جہاں انسان اپنے خوابوں کی زندگی کو پا سکتا ہے۔ موت اگلی وسیع تر زندگی کی طرف سفر ہے نہ کہ اس کا خاتمہ۔ گویا ہمارے اور ہمای آرزوئوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو بچہ اور انسان کے درمیان پائی جاتی ہے۔ بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں یہ آرزو لیے ہوئے بند رہتا ہے کہ وہ ایک وسیع کائنات کے اندر ایک پورے قد کا انسان بن کر ظاہر ہو۔ پیٹ کے اندر کی محدود دنیا میں یہ محض ایک موہوم خواب معلوم ہوتا ہے۔ مگر جب وہ ایک دن ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے تو اچانک وہ پاتا ہے کہ اس کا خواب ایک انتہائی حقیقی خواب تھا جو مکمل تعبیر کی صورت میں اس کے قریب ہی موجود تھا، اگرچہ پیٹ کے اندر رہتے ہوئے وہ اس کو براہ راست نہیں جان سکتا تھا یا کم ازکم نہیں جان سکا تھا۔
پہلے قیاس کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ وہ چیز جس کو ہم انسان کہتے ہیں، وہ صرف ایک جسم کا نام ہے جسم کی موت کے بعد لازمی طور پر’’انسان‘‘ کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ مگر اس مفروضہ کے حق میں کوئی قطعی دلیل اب تک
قائم نہ ہو سکی۔ تمام دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ مگر یہ دلیل اصل دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔ کیوں کہ موت کے دن جو’’انسان‘‘ جسم سے الگ ہوتا ہے، وہ موت سے پہلے بھی ہمارے لیے قابل مشاہدہ نہیں ہوتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے سوچنے اور محسوس کرنے والے انسان کو دیکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم انسان کے صرف اس جسم کو دیکھتے ہیں جو نمکیات و معدنیات سے مل کر بنا ہے۔ ماورائے جسم انسان، جو موت کے دن خاموش ہو جاتا ہے، اس کو ہم مرنے سے پہلے بھی نہیں دیکھتے۔ پھر مرنے کے بعد اگر وہ دکھائی نہ دے تو اس سے اس کا عدم وجود کیسے ثابت ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ جدید سائنس یہ ثابت کر رہی ہے کہ مادہ جب’’فنا‘‘ ہوتا ہے تو وہ فنا نہیں ہوتا۔ بلکہ زیادہ حقیقی اور ترقی یافتہ شکل اختیار کر لیتا ہے، یعنی انرجی کی شکل۔
فلاسفہ و مفکرین موت کے بعد زندگی کے عقلی و منطقی ثبوت دیتے رہے ہیں۔ بعض ثبوت ان میں بجائے خود وزنی بھی ہیں۔ مثلاً فرد جاف شوان(Frithjof Schuan) کا یہ قول کہ روح جو دراصل ذہن یا شعور ہے اس کے غیر فانی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس کا اختتام اپنے سے کم درجہ پر نہیں ہو سکتا، دوسرے لفظوں میں مادہ یا مادہ کا ذہنی انعکاس کی صورت میں۔ کوئی برتر چیز کم تر چیز کا محض فعل نہیں ہو سکتی۔ وہ اس چیز کا صرف ذریعہ نہیں ہو سکتی جس سے وہ بڑھ جاتی ہے
One proof of immortality of the soul—which is essentially ntelligence or consciousness— is that the soul could not have an end beneath itself, in other words matter of the mental reflection of matter. The higher cannot be merely a function of the lower, it cannot be only a means in relation to what it surpasses.
Frithjof Schuon, Understanding Islam
تاہم، اپنی تمام تر معقولیت کے باوجود، اس قسم کے استدلالات قیاسی استدلالات تھے، اس لیے جدید ذہن کے لیے ان میں زیادہ اپیل نہ تھی۔ جدید ذہن حسی استدلال کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ اسی دلیل کو دلیل سمجھتا ہے جس کو وہ چھوئے، دیکھے اور تجربہ کرے۔ قیاسی منطق پر قائم ہونے والی دلیل اس کے نزدیک معتبر نہیں۔
مگر بیسویں صدی کے نصف آخر میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے حیرت انگیز طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ قیاسی دلائل کے علاوہ خالص تجرباتی نوعیت کے شواہد بھی قائم زمانہ سے یہاں موجود تھے۔ مگر علمی اصولوں پر ان کا منظم مطالعہ نہیں کیا گیا اور بلاتحقیق یہ فرض کیا جاتا رہا کہ موت کے بعد زندگی کے حق میں کوئی تجرباتی دلیل موجود نہیں ہے۔
قرآن کی سورۃ الزمرمیں بتایا گیا ہے اللہ موت کے وقت جانوں کو کھینچ لیتاہے۔ اور جن کے مرنے کا وقت نہیں آیا، ان کی نیند میں۔ پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر مرنا ٹھہرا دیا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد تک کے لیے رہا کر دیتا ہے(
جسم سے الگ ہو کر بھی پوری طرح باقی رہتی ہے۔ خواب، موت کے بعد زندگی کو تجرباتی سطح پر ثابت کر رہے ہیں۔
عام تجربہ ہے کہ خواب میں ایک شخص دور کے کسی واقعہ کو یا مستقبل میں پیش آنے والے کسی حادثہ کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ تجربات جو تقریباً ہر شخص کو پیش آتے ہیں، ثابت کرتے ہیں کہ خواب کی حالت میں آدمی کا شعور موجودہ مادی دنیا سے اوپر اٹھ جاتا ہے اور ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں زمان و مکان کی حد بندیاں نہیں پائی جاتیں۔ نیند کے وقت سونے والے آدمی پر جو بے خبری طاری ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روح، جزوی طور پر، اس کے جسم کو چھوڑ دیتی ہے۔ وہ انسان کی محدود دنیا سے نکل کر خدا کی ابدی دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔
راقم الحروف کی لڑکی فریدہ خانم(پیدائش1952ء) نے
اس طرح سویا ہوا آدمی خواب میں بعض اوقات کسی مرے ہوئے شخص کو دیکھتا ہے۔ یہ مردہ شخص اپنے زندہ ساتھی کو خواب میں ایسی باتیں بتاتا ہے جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ شخص اب بھی پورے شعور کے ساتھ موجود ہے، اور خواب دیکھنے والے کی فی الواقع اس سے ’’ملاقات‘‘ ہوئی ہے۔ گویا سوئے ہوئے آدمی کے شعور کی سطح، ایک خاص حد تک، مرے ہوئے آدمیوں کے شعور کی سطح کے برابر ہو جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر، نیند کی حالت میں آدمی، محدود معنوں میں، زندگی بعد موت کا تجربہ کرتا ہے۔ نیند کی حالت، جزوی طور پر موت کی حالت کے مشابہ ہے۔
ڈاکٹر کیسل نے شمالی کیرولینا کے ایک امیر شخص کے واقعہ کی تحقیق کی ہے۔ اس کے چار بیٹے تھے۔ وہ کسی بات پر تین لڑکوں سے ناراض ہوگیا اور ایک وصیت نامہ کے ذریعہ اپنے ان تین لڑکوں کو جائیداد میں حصہ دار بننے کے حق سے محروم کر دیا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے جلد ہی بعد اس کے چوتھے لڑکے نے، جس کو ازروئے وصیت جائیداد مل رہی تھی، اپنے باپ کو خواب میں دیکھا۔ خواب میں اس کے باپ نے اپنی پسندیدہ برساتیوں میں سے ایک برساتی اوڑھ رکھی تھی۔ وہ سراپا احتجاج دکھائی دیتا تھا اور دوران گفتگو بار بار برساتی نما کوٹ کی اندرونی جیب کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ نیند کھلی تو لڑکے نے اپنے باپ کی اس کوٹ کو، جو اس نے خواب کے درمیان پہن
رکھا تھا، نکالا اور اس کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ جیب میں باپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک وصیت نامہ موجود تھا۔ اس کے تحت پچھلی وصیت کو منسوخ کرتے ہوئے بقیہ تینوں لڑکوں کو بھی حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنے حصہ کی جائیداد وصول کر سکتے ہیں۔ باپ نے موت سے تھوڑی دیر پہلے جائیداد کی وراثت کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل لیا تھا۔ اس نے دوبارہ اپنا وصیت نامہ تیار کرایا اور اس کو مکمل کرکے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں ڈال لیا۔ پھر اس سے پہلے کہ اپنے تمام لڑکوں کو اس تبدیلی فیصلہ سے آگاہ کرے، انتقال کر گیا— ظاہر ہے کہ اس واقعہ کو مردہ شخص کے سوا کوئی اور نہیں جانتا تھا۔ اس لیے یقین کرنا پڑے گا کہ وہ مرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ تھا اور اس نے اپنے لڑکے کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
نیند ہی سے ملتا جلتا وہ واقعہ ہے جب کہ حادثہ وغیرہ کے موقع پرایک شخص وقتی طور پر’’مر جاتا ہے‘‘ اور پھر کچھ دیر بعد جی اٹھتا ہے۔ قدیم زمانہ سے اس قسم کے واقعات ہوتے رہے ہیں کہ ایک شخص طبی اعتبار سے مکمل طور پر مر گیا۔ چند منٹ بعد پھر اس کے قلب کی حرکت جاری ہوگئی۔ وہ دوبارہ’’زندہ‘‘ ہوگیا۔ اس قسم کے واقعات بظاہر اس بات کا ثبوت ہیں کہ’’آدمی‘‘ نے کچھ لمحات کے لیے اپنا جسم چھوڑ دیا تھا اور پھر دوبارہ اپنے جسم میں واپس آگیا۔ قدیم زمانہ میں ان واقعات کا ذکر صرف عجوبہ کے طور پر کیا جاتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں ان کو علمی اندازہ سے جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ ان سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ انسان، جسم کے ماورا اپنی ایک مستقل ہستی رکھتا ہے جو اس وقت بھی باقی رہتی ہے جب کہ وہ اپنے دنیوی جسم سے الگ ہوگیا ہو۔
بعض ایسے واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں کہ ایک بیمار شخص آپریشن ٹیبل پر تھا، آپریشن کے دوران اس کے دل کی حرکت بند ہوگئی۔ طبی طور پر وہ مر گیا۔ کچھ دیر بعد اس کو ہوش آیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ’’موت ‘‘کے دوران تم نے کیسا محسوس کیا۔ اس نے بتایا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اپنے جسم سے الگ ہو کر فضا میں تیر رہا ہوں۔ میں فضا سے اپنے جسم کو دیکھ رہا تھا جو آپریشن ٹیبل پر پڑا ہوا تھا اور اس کے گرد ڈاکٹر جھکے ہوئے تھے۔ اس نے اس دوران میں ہونے والی ڈاکٹروں کی بعض باتوں کو اس طرح بتایا جیسے کہ وہ’’موت‘‘ کے وقت بھی ان کو دیکھ اور سن رہا تھا— روح اگر محض ایک جسم کا عمل(function) ہو تو وہ جسم سے الگ ہو کر کیسے اس طرح باقی رہ سکتی ہے۔ جسم سے الگ ہو کر بھی شعور ذات کا ختم نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان ایک مستقل ہستی ہے جو جسم سے علیحدگی کے بعد بھی پوری طرح باقی رہتا ہے۔
ڈاکٹر گرفیلڈ بتاتے ہیں کہ میں ایک بوڑھی عورت کا معائنہ کر رہا تھا۔ یہ عورت ہڈی کے کینسر کی مریض تھی۔ اس کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔ ہم نے مریضہ کے درد کو دور کرنے کی جتنی تدبیریں کیں سب بے سود ثابت ہوئیں۔ اچانک وہ بے ہوش سی ہوگئی۔ اس کے بعد جب ہوش میں آئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کو بہت افاقہ ہوگیا ہو۔ میں نے عورت سے اس کی اچانک تبدیلی کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا کہ ابھی اس کی مردہ ماں اس سے ملنے آئی تھی اور اس کو بتا گئی ہے کہ بہت جلد دونوں اکٹھا ہو جائیں گی۔ اپنی ماں سے اس گفتگو کے بعد وہ بہت پرسکون ہوگئی اورتھوڑی دیر
کے بعد مر گئی__ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ مریضہ کی ماں، اپنی موت کے بعد بھی پورے شعور کے ساتھ موجود تھی۔ ورنہ کس طرح وہ اپنی بیٹی کے پاس آتی۔ نیز ماں کی خبر کے مطابق ٹھیک وقت پر اس کا مر جانا ثابت کرتا ہے کہ مریض کا تجربہ حقیقی تھا نہ کہ محض خیالی۔
قرآن کی سورۃ الواقعہ میں ارشاد ہوا ہے جب مرنے والے کی جان حلق تک آ جاتی ہے اور تم دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے، اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم مرنے والے کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔ مگر تم نہیں دیکھتے(
ان میں سب سے عام اور کثیر الوقوع مشاہدہ اپنے مردہ عزیزوں کو دیکھنا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب کہ آدمی نزع کے عالم میں پہنچ گیا ہو۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ نزع کے وقت آدمی اپنے مرے ہوئے رشتہ داروں کو پکارنے لگتا ہے۔ اپنے مرے ہوئے اعزہ اوردوستوں کو وہ اس طرح آواز دیتا ہے جیسے وہ اس کے قریب کھڑے ہوں۔ راقم الحروف کی بڑی بہن طاہرہ خانم کا انتقال تقریباً60 سال کی عمر میں
ڈاکٹر الزبتھ کیوبلر روز نے بطور مہم یہ کام شروع کیا کہ وہ نزع میں گرفتار لوگوں سے ملیں اور آخر وقت میں ان کی آوازوں کا ٹیپ لیں۔ انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ ایسے لوگوں کا قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کیا جو عالم نزع میں گرفتار تھے۔ اور گویا موجودہ دنیا اور اگلی دنیا کے درمیان پہنچ چکے تھے۔ ان لوگوں نے انھیں بتایا کہ نزع کی حالت میں ان کے کئی ایسے دوست اور رشتہ دار ان کے پاس آئے جو پہلے مر چکے تھے۔’’تاکہ سفر آخرت کے وقت ان کی امداد کر سکیں‘‘۔ یہ لوگ اگر اس دنیا میں اپنے بدن کے کسی عضو سے محروم تھے تو نزع کی حالت میں انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا بدن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ مثلاً جو شخص لنگڑا تھا اس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دونوں پائوں صحیح و سالم موجود ہیں۔ گویا جسم میں کسی حادثہ سے کمی واقع ہو جائے تو اس کی وجہ سے اصل انسانی ہستی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
اس قسم کے خواب اور واقعات اگرچہ ہمیشہ سے پیش آ رہے تھے۔ مگر موجودہ زمانہ میں پہلی بار ان کا منظم مطالعہ کیا گیاہے، ضروری اعدادوشمار کے ساتھ ہزاروں واقعات جمع کیے گئے ہیں خاص طور پر امریکا میں جدید ترین ٹیکنیک
کے بعد مر گئی__ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ مریضہ کی ماں، اپنی موت کے بعد بھی پورے شعور کے ساتھ موجود تھی۔ ورنہ کس طرح وہ اپنی بیٹی کے پاس آتی۔ نیز ماں کی خبر کے مطابق ٹھیک وقت پر اس کا مر جانا ثابت کرتا ہے کہ مریض کا تجربہ حقیقی تھا نہ کہ محض خیالی۔
قرآن کی سورۃ الواقعہ میں ارشاد ہوا ہے جب مرنے والے کی جان حلق تک آ جاتی ہے اور تم دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے، اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم مرنے والے کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں۔ مگر تم نہیں دیکھتے(
ان میں سب سے عام اور کثیر الوقوع مشاہدہ اپنے مردہ عزیزوں کو دیکھنا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب کہ آدمی نزع کے عالم میں پہنچ گیا ہو۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ نزع کے وقت آدمی اپنے مرے ہوئے رشتہ داروں کو پکارنے لگتا ہے۔ اپنے مرے ہوئے اعزہ اوردوستوں کو وہ اس طرح آواز دیتا ہے جیسے وہ اس کے قریب کھڑے ہوں۔ راقم الحروف کی بڑی بہن طاہرہ خانم کا انتقال تقریباً60 سال کی عمر میں
ڈاکٹر الزبتھ کیوبلر روز نے بطور مہم یہ کام شروع کیا کہ وہ نزع میں گرفتار لوگوں سے ملیں اور آخر وقت میں ان کی آوازوں کا ٹیپ لیں۔ انھوں نے ایک ہزار سے زیادہ ایسے لوگوں کا قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کیا جو عالم نزع میں گرفتار تھے۔ اور گویا موجودہ دنیا اور اگلی دنیا کے درمیان پہنچ چکے تھے۔ ان لوگوں نے انھیں بتایا کہ نزع کی حالت میں ان کے کئی ایسے دوست اور رشتہ دار ان کے پاس آئے جو پہلے مر چکے تھے۔’’تاکہ سفر آخرت کے وقت ان کی امداد کر سکیں‘‘۔ یہ لوگ اگر اس دنیا میں اپنے بدن کے کسی عضو سے محروم تھے تو نزع کی حالت میں انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان کا بدن ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ مثلاً جو شخص لنگڑا تھا اس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کے دونوں پائوں صحیح و سالم موجود ہیں۔ گویا جسم میں کسی حادثہ سے کمی واقع ہو جائے تو اس کی وجہ سے اصل انسانی ہستی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
اس قسم کے خواب اور واقعات اگرچہ ہمیشہ سے پیش آ رہے تھے۔ مگر موجودہ زمانہ میں پہلی بار ان کا منظم مطالعہ کیا گیاہے، ضروری اعدادوشمار کے ساتھ ہزاروں واقعات جمع کیے گئے ہیں خاص طور پر امریکا میں جدید ترین ٹیکنیک
اور سائنسی اہتمام کے ساتھ ان کا باقاعدہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان تحقیقی نتائج پر متعدد کتابیں چھپی ہیں۔ حال میں امریکا سے ایک کتاب چھپی ہے جس کانام ہے زندگی کے بعد زندگی
Life After Life, Dr. Raymond A Moody Jr., U.S.A., 1976.
یہ کتاب آج کی انتہائی کثیر الاشاعت کتابوں میں سے ایک ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے اخبارات و رسائل میں، جدید دور میں پہلی بار، زندگی بعد موت سے متعلق سرخیاں نظر آنے لگی ہیں۔ اس سلسلے میں تحقیقی کتابوں کے خلاصے شائع کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً نیوز ویک
آرتھر کوئسلر(Arthur Koestler) پہلے مارکسسٹ تھے، مگر اب وہ اس حد تک بدل چکے ہیں کہ انھوں نے ایک طویل محققانہ مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے’’کیا موت کے بعد بھی زندگی ہے‘‘(Is there life after death?)۔
موجودہ صدی کے ربع ثانی میں آئن سٹائن، ڈی بروگلی، شروڈنگر اور ہیزن برگ نے کامیاب طور پر مادہ کا غیر مادہ ہونا ثابت کیا ہے۔ جو چیز دیکھنے میں ٹھوس جسم نظر آتی ہے، وہ انرجی(قوت) کا صرف ایک شدید اجتماع ہے۔ اس سے ثابت ہوا ہے کہ مادہ کے اجزاء— الیکٹران، پروٹان، نیوٹران وغیرہ — معروف معنوں میں مادی ذرات نہیں ہیں بلکہ وہ لہروں کی مانند ہیں۔ ڈی بروگلی کاکہنا ہے کہ ایک الیکٹران بیک وقت جسمیہ بھی ہے اور لہر بھی۔ ثنویت(dualism) جدید طبعیات کا لازمہ ہے اور (principle of complementarity) یعنی تکمیلی اصول اس کا جدید سائنسی نام ہے(سنڈے،کلکتہ، 3اکتوبر 1976ء)۔
ان دریافتوں کا حوالہ دیتے ہوئے آرتھر کویسلر(Arthur Koestler) نے لکھا ہے کہ — ذرہ/ لہر (particle/wave) کے اصول کو مان لینے کے بعد جسم/ ذہن (body/mind) کے اصول کو ماننا آسان ہو جاتا ہے۔ ایک جگہ تکمیلی اصول کو مان لینے کے بعد دوسری جگہ اس کو نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جب مادہ اپنے آپ کو لہروں میں تبدیل کر سکتا ہے اور اس طرح ایک خاص غیر جسمانی انرجی (disembodied energy)بن جاتا ہے تو کیا اب بھی یہ خالی ازمعنی ہوگا کہ بے جسم ذہن (discarnat mental energy) کی موجودگی کی بات کی جائے۔ کیا ایسی گفتگو اب بھی اسی طرح بے حقیقت ہے جس طرح وہ پچاس سال پہلے معلوم ہوتی تھی جب کہ طبیعیات نے ابھی مادہ کی حیثیت کو ختم نہیں کیا تھا اور ابھی ہم کو بتایا نہیں تھا کہ ایٹم’’چیز‘‘ نہیں ہیں، اور کیا اب بھی یہ معقول بات ہوگی کہ کوئی شخص ذہنی مادہ(mind- stuff) کی اصطلاح کو غیر سائنسی کہہ کر مذاق اڑائے جس کو اڈنگٹن نے وضع کیا تھا۔ ڈاکٹر آئی جے
گڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مادہ اثیری ہے اور ذہن ٹھوس چٹان ہے
Matter is athereal and mind is the solid rock.
موت کے بعد زندگی کا ثبوت ہی یہ بھی ثابت کر دیتا ہے کہ موجودہ نظر آنے والی دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا بھی ہے۔ اگر ایسی کوئی دنیا نہیں ہے تو یہ غیر مرئی انسانی ہستیاں کہاں واقع ہیں۔ لوگ اپنے جسم کو چھوڑ کر کہاں چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اس طرح بندھی ہوئی ہیں کہ ایک کا ثابت ہونا اپنے آپ دوسرے کو ثابت کر دیتاہے۔
قرآن میں کہا گیا ہے اور ہر چیز کو ہم نے بنایا جوڑا جوڑا۔ تاکہ تم دھیان کرو (
آج دنیا کایہ جوڑا انسانی علم میں آ چکا ہے۔ اس جوڑے کا سائنسی نام اینٹی ورلڈ ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں ایک طرف انسان کا مطالعہ موت کے بعد انسانی ہستی کے بقا کا تجربہ کرا رہا تھا، دوسری طرف عین اسی وقت طبیعی سائنس یہ ثابت کررہی تھی کہ ہمارے موجودہ دنیاکے متوازی ایک اور دنیا ہے جو مکمل شکل میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ ہماری موجودہ دنیا ورلڈ ہے اور وہ اینٹی ورلڈ۔
1928ء تک طبیعیات داںیہ سمجھتے تھے کہ تمام ایٹم صرف دو قسم کے ذرات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ مثبت برقی چارج رکھنے والے پروٹان، اور منفی برقی چارج رکھنے والے الیکٹران، مگر اسی سال پال ڈیراک(Paul A.M. Dirac) نے ایک نئے قسم کے ذرہ کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا۔ اس نے کہا’’اس کا مقدار مادہ الیکٹران جیسا ہے۔ مگر وہ اس کے مخالف برقی چارج رکھتا ہے۔ ہم اس ذرہ کواینٹی الیکٹران کہہ سکتے ہیں۔‘‘1932ء میں اینڈرسن(K. Anderson) نے اس اینٹی الیکٹران کو کاسمک شعاعوں میں دریافت کر لیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایٹم کے ہر پارٹیکل کا ایک اینٹی پارٹیکل ہے۔ پروٹان ایک اینٹی پروٹان رکھتا ہے، نیوٹران ایک اینٹی نیوٹران رکھتا ہے۔ گویا کائنات کے تمام ذرات، جوڑوں(pair particles) کی صورت میں ہیں۔
اب سائنسی فکر آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ عالم مادی میں جوڑوں کی یہ تقسیم الیکٹران کے ناقابل مشاہدہ ذرات سے شروع ہو کر خود مجموعہ عالم تک پہنچ جاتی ہے — الیکٹران کا اینٹی الیکٹران ہے، ایٹم کااینٹی ایٹم، میٹر کا اینٹی میٹر، حتیٰ کہ ورلڈ کا اینٹی ورلڈ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہماری دنیا میں تمام اینٹی پارٹیکل غیر قائم(unstable) حالت میں ہیں۔ مگر اینٹی ورلڈ میں وہ سب قائم(stable) حالت میں ہوں گے۔ کیوں کہ تمام ایٹموں کے نیوکلیس منفی برقی چارج رکھتے ہوں گے اور تمام الیکٹران مثبت برقی چارج۔ اس قسم کے ایک اینٹی ورلڈ کا امکان پہلی بار1933ء میں ڈیراک نے اپنے لکچر میں بتایا تھا۔ اب سائنس داں عام طور پر اس کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں۔ سوویت یونین کے ڈاکٹر
گسٹاف نان(Gustav Nasn) نے ریاضیات کے ذریعہ اس ا ینٹی ورلڈ کی ایسی ٹھوس احاطہ بندی کر دی ہے کہ اب اس کے مخالفین تک اس کو انتہائی زبردست قسم کا متوازن تصور ماننے لگے ہیں۔
اپنی دنیا میں دور کی چیزوں کو ہم فوٹان کی مدد سے پہچانتے ہیں جو کہ برقی مقناطیسی شعاعوں کے ذرات ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اینٹی ورلڈ بھی اسی قسم کے فوٹان کا اخراج کرتی ہوگی جو کہ بیک وقت پارٹیکل بھی ہے اور اینٹی پارٹیکل بھی۔ اینٹی ورلڈ، وہ دور ہو یا نزدیک، اس کی روشنی فوٹان کی شکل میں ہو سکتا ہے کہ مسلسل ہم تک پہنچ رہی ہو۔ مگر ہم اس کو اپنے پازیٹو ورلڈ کی چیزوں کی روشنی سے الگ کرکے نہیںدیکھ سکتے۔ ورلڈ اور اینٹی ورلڈ کے درمیان کیا رشتہ ہے۔ کیا دونوں کے درمیان کوئی مواصلاتی سلسلہ ہے جس کے ذریعہ ہماری دنیا اینٹی ورلڈ سے تعلق قائم کرتی ہے۔ سائنس دانوں کا جواب اثبات ہے۔ ڈاکٹر نان کا خیال ہے کہ بلیک ہول اور وائٹ ہول کو ورلڈ اور اینٹی ورلڈ کے درمیان ایک مقامی واسطہ(local channels) سمجھنا چاہیے۔
بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اینٹی ورلڈ ہم سے الگ اور ہماری دنیا کے متوازی اپنا وجود رکھتا ہے تخلیق کے بارے میں عظیم دھماکہ(big bang) کا نظریہ فرض کرتا ہے کہ 10سے20 بلین سال پہلے سارا مادہ منجمد حالت میں ابتدائی ایٹم کی صورت میں تھا اور فوٹان انرجی پر مشتمل تھا۔ قیاس ہے کہ فوٹان، ایک عظیم دھماکہ کے ساتھ میٹر اور اینٹی میٹر کی صورت میں مجتمع ہوگئے اور ورلڈ اور اینٹی ورلڈ کو بنانے کے لیے الگ الگ ہوگئے۔ اسی بنیاد پرہینز الفوین(Hannes Alfven) نے 1963ء میں تفریقی میکانزم (separation mechanism) کا امکان ظاہر کیا جس کے ذریعہ ایک ہی کہکشاں میں میٹر اور اینٹی میٹر دونوں موجود رہتے ہیں۔
سائنس یہاں پہنچ کر خاموش ہو جاتی ہے اور اسے خاموش ہو جانا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا دائرۂ تحقیق صرف وہ واقعات ہیں جو قانون طبیعی کے تحت ظہور میں آتے ہیں۔ ماورائے طبیعات چیزوں کے بارے میں وہ ہمیں کوئی قطعی بات نہیں بتا سکتی۔ تاہم اس نے یہ تسلیم کرکے ہمارے لیے مزید تحقیق کا دروازہ کھول دیا ہے کہ استنباط(inference) بھی ایک جائز ذریعہ علم ہے بشرطیکہ وہ ثابت شدہ واقعات کی بنیاد پر کیا گیا ہو۔ اس اصول کی روشنی میں اگر ہم یہ استنباط کریں کہ دوسری دنیا، جہاں مرنے کے بعد انسان پہنچ رہا ہے، غالباً وہی ہے جس کو سائنس نے اینٹی ورلڈ کا نام دیا ہے تو خالص علمی اعتبار سے اس کو نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔
موجودہ معلوم دنیا میں جو صورت حال ہے، وہ بھی یہی ہے۔ سائنس کی پہنچ دنیا کے کمیاتی پہلوئوں تک ہے۔ کیفیاتی پہلو اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ سائنس ہمیں پھول کی خبر دیتی ہے، مگر وہ خوشبو کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ وہ ہمیں اشیاء کا پتہ دیتی ہے مگر ان کے حسن سے ہمیں مطلع نہیں کرتی۔ وہ انسان سے ہمارا تعارف کراتی ہے مگر انسانی شعور کے بارے میں اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر وہ ہمیں’’اینٹی ورلڈ‘‘ کی خبر دے مگر اس کی’’خوشبو‘‘،اس کے’’حسن‘‘، اس کے’’شعور‘‘ کو بتانے سے عاجز رہے تو اس پر ہمیں تعجب نہ کرنا چاہیے۔ یہ خلا ہم اپنے استنباط کے ذریعے اسی طرح پر کر سکتے ہیں جس طرح ہم موجودہ معلوم دنیاکے بارے میں آج بھی کر رہے ہیں۔
تیرھویں صدی عیسوی میں جب کہ مسلمان سیاسی طاقت، تمدنی ترقی اور علوم و فنون میں دنیا کی تمام قوموں سے بڑھے ہوئے تھے۔ یورپ نے طے کیا کہ اس کو عربی پڑھنی ہے اور مسلمانوں کے علوم سیکھنے ہیں۔ یہی فیصلہ تھا، جو سولہویں صدی کے اس عظیم واقعہ کا سبب بنا جس کو دنیا یورپ کی نشاۃ ثانیہ (renaissance) کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کے علوم سیکھ کر اور ان میں اضافہ کرکے بالآخر یورپ اتنا طاقت ور ہوگیا کہ نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ ساری دنیا پر چھا گیا۔
اس واقعہ کے چار سو برس بعد یہی صورت حال برعکس شکل میں مسلمانوں کے سامنے تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ یورپ سیاست و تمدن اور علوم و فنون میں سب سے آگے بڑھ گیا ہے۔ ان کے اندر یہ رحجان ابھرا کہ وہ یورپی زبانیں سیکھیں اور یورپ کے علوم کو حاصل کریں۔ مگر یہاں نتیجہ برعکس نکلا۔ یورپی طرز کی تعلیم نے ہم کو یورپ کاذہنی غلام بنا دیا۔ ہم اپنے علیحدہ قومی وجود کو بھول کر یورپ کے رنگ میں رنگ گئے۔
ایک ہی نوعیت کے دو واقعات میں انجام کا یہ فرق کیوں ہے۔ اس کا جواب ذہنیت کے اس فرق میں ہے جو دونوں جگہ پایا جاتا ہے۔ یورپ نے ہمارے علوم کو اس جذبہ کے تحت سیکھا تھا کہ وہ ہمارے ہتھیاروں سے ہم کو شکست دے سکے۔ اس کے برعکس، ہم یورپی علوم کی طرف اس لیے بڑھے کہ ہم اس کے نقال بن کر اس کی نظروں میں باعزت ہو جائیں اور جہاں ذہنیت میں اس قسم کا فرق پایا جائے وہاں انجام میں فرق پایا جانا لازمی ہے۔
مسلمانوں کو ایک ہزار سال تک دنیا میں وہی حیثیت حاصل رہی ہے جو آج روس یا امریکا کو حاصل ہے۔ اس وقت جب کہ یورپ پر ابھی قرون مظلمہ(Dark Ages) کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، عرب مسلمان ایک شان دار تہذیب کووجود میں لا چکے تھے۔ اور اپنی تحقیقات اور یونانی اور دوسرے علوم کے ترجموں کی مدد سے سائنس اور فلسفہ میں دنیا کی امامت کر رہے تھے، اس وقت مسلمان ساری دنیا میں علم اور تہذیب کے تنہا مالک تھے۔ عربی زبان دنیا کی واحد علمی زبان تھی اور ساری دنیا کے لوگ علوم و فنون کے اکتساب کے لیے مسلم مرکزوں(دمشق، بغداد، قرطبہ، غرناطہ) کا اسی طرح سفر کرتے تھے جیسے آج لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ اور امریکا کے شہروں میں جاتے ہیں۔
بارہویں اور تیرہویں صدی میں جب کہ مسلمانوں کی طاقت عروج پر تھی اور وہ عرب سے بڑھتے بڑھتے فرانس تک پہنچ گئے تھے، اس وقت یورپ نے مسلمانوں کے خلاف اپنی شدید ترین جنگ چھیڑ دی اور گیارہویں صدی کے آخر(
جو صلیبی لڑائیوں(Crusades) کے نام سے مشہور ہے، بالآخر یورپ کی مکمل ناکامی پر ختم ہوئی۔
مگر یورپ نے ہمت نہیں ہاری۔ اب اس کے اندر ایک نیا رحجان ابھر۔ا صلیبی جنگوں کے درمیان اہل یورپ کو تجربہ ہوگیا تھا کہ مسلمان علم اور سائنس میںان سے بہت آگے ہیں۔ اس وقت کا تصورکیجیے جب مصری فوج نےمنجنیقوںکے ذریعہ فرانسیسی لشکر پر آگ کے بان پھینکنا شروع کیے۔ یہ بان جب منجنیقوں سے نکل کر دشمن کی طرف بڑھتے تو ایسا نظر آتا جیسے بڑے بڑے آتشیں اژدہے ہوا میں اُڑ رہے ہوں۔ فرانسیسی، جن کے پاس اس وقت پرانے دستی ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہ تھا، ان کے لیے یہ بان ایسے ہی بھیانک تھے جیسے آج کسی پس ماندہ اور بے سروسامان ملک پر جدید ترین راکٹوں کے ذریعہ حملہ کر دیا جائے۔ اسی طرح مسلمان تہذیب و تمدن کے تمام پہلوئوں میں نمایاں طور پر اہل یورپ سے بڑھے ہوئے تھے۔ چنانچہ صلیبی جنگوں کے ناکام تجربہ کے بعد یورپ نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے اب اس کو دوسرے قسم کی جنگ چھیڑنی ہے، اور وہ یہ کہ مسلمان کے ہنر اور ان کے علوم کو سیکھ کر انہیں کے ہتھیاروں سے انہیں شکست دی جائے۔
اب ایک طرف یورپ کے مذہبی طبقہ نے روحانی صلیبی جنگ(Spiritual Crusades) کا نعرہ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے مذہبی علوم کو سیکھا جائے، اور مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے عقائد کو اس طرح بگاڑ کر پیش کیا جائے کہ مسلمان اپنے دین سے متنفر ہو جائیں اور عیسائیت قبول کر لیں تاکہ وہ قوم جس کو فوجی میدان میں شکست نہیں دی جا سکی ہے، اس کو عددی حیثیت سے کمزور کرکے مغلوب کیا جا سکے۔ عیسائی مشنری تحریک پہلی بار صلیبی جنگوں کے زمانے میں شروع ہوئی۔ پہلا شخص جس نے 1154ء میں مائونٹ کارمل پر مشنری نظام قائم کیا وہ ایک صلیبی ہی تھا۔ بعد کو فرانسس بیکن(1219ء) نے اس کی پیروی کی۔ یہ مشنری تحریک آج ساری دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور تبلیغی ادارہ کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ اس کی کوششیں اس حد تک کامیاب ہوئی ہیں کہ ساری دنیا کا لٹریچر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط قسم کی باتوں سے بھر گیا ہے۔
دوسری طرف یہ ہوا کہ اہلِ یورپ کے درمیان مسلمانوں کا فلسفہ و سائنس اور ان کے علوم و فنون سیکھنے کی تحریک زور شور سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ یورپ کی درسگاہوں میں عربی زبان پڑھانے کا انتظام کیا گیا۔ مسلمانوں کی تصنیفات کے ترجمے یورپ کی زبانوں میں کیے جانے لگے۔ یورپ کے طلبہ مسلم شہروں میں تحصیل علم کے لیے جانا شروع ہوئے۔
جنگ کی یہ نئی تکنیک اختیار کرنے کی وجہ سے یورپ کو اندرونی طور پر مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت یورپ کے قدامت پسند حلقوں میں عربی زبان کی توسیع کی حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں ناراضگی پائی جاتی تھی جس کی وجہ خاص طور پر یہ اندیشہ تھا کہ عربی سیکھنے سے عیسائیوں کے درمیان اسلامی خیالات پھیلنا شروع ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر فرانسس کن راہب راجر بیکن (1214-1294ء) جو اپنے وقت کا مشہور انگلستانی عالم تھا، اس نے جب عربی زبان کی اہمیت پر زور دیا تو آکسفورڈ کے علماء چلا اٹھے’’بیکن مسلمان(Saracen) ہوگیا۔‘‘
مگر اس طرح کی مخالفتوں کے باوجود مسلمان کی زبان اور ان کے علوم سیکھنے کا رحجان بڑھتا رہا۔ مسلم محققین کے حاصل
کو لے کر یورپ نے اپنی کوشش سے اس میں اضافے کیے اور اتنی ترقی کی کہ تاریخ میں پہلی بارقوت کا معیار بدل دیا اور بالآخر مسلمانوں کو ہر میدان میں شکست دے کر علم و عمل کی پوری دنیا کا مالک بن گیا۔ جدید مورخین نے تقریباً متفقہ طو پر تسلیم کیا ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا اہم ترین محرک وہ علوم تھے جو مسلمانوں کی معرفت یورپ تک پہنچے(ویسٹرن سویلائزیشن، اڈورڈ میکنال برن)۔
اس کے پانچ سو برس بعد تاریخ دوسرا منظر دیکھتی ہے۔ یورپ کی ترقی اور عروج سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے اندر یہ رحجان ابھرا کہ وہ یورپ کے علوم و فنون کو سیکھیں۔ مگر یہاں اس رحجان کا محرک اس سے بالکل مختلف تھا جو یورپ کی تاریخ میں ہمیں نظر آتا ہے۔ سر سید احمد خان (1817-1898ء) جو پروفیسر گب کے الفاظ میں اسلام میں پہلی جدت پسند تنظیم(modernist organisation) کے بانی تھے۔ انہوں نے 1875ء میں علیگڑھ کالج قائم کیا اور اس پر اپنی ساری زندگی وقف کر دی۔ یہاں تک کہ1930ء میں وہ یونیورسٹی بن گیا، وہ یورپی طرز کی تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ ان کا مقصد اس تعلیم سے کیا تھا اس کی ترجمانی ان کے رفیق خاص مولانا حالی نے ان الفاظ میں کی ہے
سرسید نے جب انگلستان سے واپس آ کر دسمبر1870ء میں تہذیب الاخلاق نکالنا شروع کیا تو انہوں نے پہلے پرچہ کے شروع میں لکھا
’’اس پرچہ کے اجراء سے مقصد یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کو کامل درجہ کی سویلائزیشن یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ جس حقارت سے سویلائزڈ یعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہو اور وہ بھی دنیا میں معززو مہذب قوم کہلائیں۔‘‘
سر سید جب ترقی کا تصور کرتے تو ان کے ذہن میں’’زرق برق وردیاں پہنے کرنل اور میجر بنے ہوئے مسلمان نوجوان‘‘ ہوتے تھے۔ ان کا منتہائے مقصود ایسی تعلیم تھی جو مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں تک پہنچا سکے۔ سر سید کی تہذیب کو مہدی افادی نے بجا طور پر’’اینگلو محمڈن کلچر‘‘ کا نام دیا ہے۔
کمال اتاترک(1881-1938ء) جو اس گروہ کا دوسرا نمایاں ترین نام ہے، وہ اس معاملے میں سر سید سے بھی آگے تھے۔ ترکی میں مغربی تعلیم و تہذیب کی اشاعت سے کمال اتاترک کا مقصد کیا تھا، اس کا اندازہ اس عنوان سے ہوتاہے جو اس مہم کووہاں دیا گیا۔ کمال اتاترک اور ان کے ساتھیوں کے نزدیک یہ’’غرب دوغرو‘‘ تھا، جس کے معنی ترکی زبان میں—’’ سمت مغرب میں سفر‘‘ کے ہیں۔ سمت مغرب میں سفر کا یہ کام اس درجہ اہم تھا کہ صرف رومن رسم الخط جاری کرنے اور ترکی باشندوں کو ہیٹ پہنانے کے لیے ہزاروں آدمی اس طرح ہلاک کر دیے گئے گویا وہ ریاست سے بغاوت کے مجرم ہوں۔
اسی تقلیدی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے ان مصلحین کی ساری توجہ بس یورپ کی تہذیب اور یورپ کے زبان و ادب کے حصول پر لگی رہی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی جو مغربی قوموں کی ترقی کا اصل راز ہے، اس کو مسلمانوں کے اندر رائج کرنے کی انہوں نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ سر سید نے تو صراحۃً مسلمانوں کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی مخالفت کی اور’’اعلیٰ درجہ کی دماغی تعلیم‘‘ کو سب سے مقدم قرار دیا۔ یہی اس زمانہ میں تعلیم جدید کے حامیوں کا عام نقطہ نظر تھا۔ ان حضرات نے ساری توجہ صرف اس پر
دی کہ ایک ایسا گروہ پیدا ہو جائے جو مغربی تمدن اور یورپی ادب میں کمال حاصل کیے ہوئے ہو۔ کمال اتاترک کا نام نہاد انقلاب اور روس کے اشتراکی انقلاب میں صرف چند سال کا فرق ہے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ روس آج خلائی دور میں داخل ہو چکا ہے اور ترکی ابھی تک زمین پر بھی مستحکم مقام حاصل نہ کر سکا۔
یورپ جس ذہن کے تحت ہمارے علوم کی طرف بڑھا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں سے ان کے علوم اور ان کے ہنر کو لے کر اس کے ذریعہ سے انہیں شکست دی جائے۔ ان چیزوں کو اس نے وقت کی طاقت سمجھا اور اس کو اپنے دشمن کے مقابلے میں استعمال کیا۔ چنانچہ اپنی اس مہم کو یورپ نے’’تقلید مشرق‘‘ یا’’تقلید مسلم‘‘ کا نام نہیں دیا بلکہ اس کو روحانی صلیبی جنگ(spiritual crusades) کہا، جس کا مطلب یہ تھا کہ صلیبی لڑائیوں کی ہاری ہوئی بازی کو نئی تکنیک سے کامیاب بنایا جائے اور جب اس کوشش سے وہ اپنے کو ایک نئے انقلاب تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کو انہوں نے یہ حیثیت دی گویا انہوں نے خود اپنی کھوئی ہوئی حیثیت دوبارہ حاصل کی ہے۔ چنانچہ یورپ میں اس نئے انقلاب کا تاریخی نام نشاۃ ثانیہ(renaissance) رکھا گیا ہے۔ یہ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے— نیا جنم(rebirth) ۔گویا یہ کوئی غیر سے حاصل کی ہوئی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ یورپ کی اپنی ہی متاع ہے جو اس نے دوبارہ پائی ہے۔ یورپ نے لیتے وقت اگرچہ ان علوم کو مسلمانوں سے لیا تھا۔ مگر اس نے حال کی کڑی کو حذف کرکے اس کا رشتہ ماضی سے ملایا اور اس کو مغرب کے ایک ملک— یونان — کی چیز قرار دے کر اس کو نشاۃ ثانیہ کہا۔ اس کے برعکس، ہم نے ایسا نہیں کیا، حالانکہ یورپ جو چیز ہمیں دے رہا تھا وہ اضافہ شدہ حالت میں وہی سرمایہ تھا جو یورپ کو ہم نے عطا کیا تھا۔ مسلمان مغربی علوم کی طرف خالص تقلید ذہن کے ساتھ بڑھے ان کا یہ عمل سر سید کے یہاں ’’پیروی مغرب‘‘ اور اتاترک کے یہاں’’غرب دوغرو‘‘ کے ہم معنی تھا۔ ذہنیت کے اس فرق کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا کہ یورپ ہمارے علوم کو سیکھ کر ہمیں شکست دے اور اس کے برعکس ہم مغرب کے علوم کو سیکھ کر صرف مغرب کے بھونڈے نقال بن کر رہ جائیں۔
مصطفیٰ کمال کی تحریک کا آخری نشانہ یہ تھا کہ ترک قوم ہیٹ اور پتلون پہننے لگے۔ اور سر سید کا منتہائے نظریہ تھا کہ مسلم نوجوان مغربی ادبیات میں کمال حاصل کرلیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے ذہن کے تحت مغرب کی طرف بڑھنے کا وہی نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا جو عملاً برآمد ہوا۔
یہ تاریخ جہاں ایک طرف ہماری غلطی کو بتاتی ہے وہیں اس کے اندر اس کا بھی نشان ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہمیں وہی کرنا چاہیے جو مغربی قوموں نے ہمارے ساتھ کیا۔ مغربی علوم کو اس لیے سیکھنا تاکہ اس کے ذریعہ مغربی تہذیب کو شکست دے کر اسلام کو غالب کیاجائے۔ اگر ہمارے اندر یہ ذہن پیدا ہو جائے تو وہی نتیجہ برعکس شکل میں ظاہر ہوگا جو مغربی قوموں کے لیے ہمارے مقابلے میں ظاہر ہوا تھا۔
ایک بار میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جنھوں نے سائنس میں ڈگری لی تھی اور اسی کے ساتھ انھوں نے مذہب اور تاریخ کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ وہ خدا اور مذہب کونہیں مانتے تھے۔ بات چیت کے دوران انھوں نے کہا اسلام کو اگر تاریخ سے نکال لیا جائے تو انسانی تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ میں نے کہا وہی کمی جو اسلام سے پہلے انسانی تاریخ میں تھی۔
زمین پر انسان ہزارہا سال سے آباد ہے۔ مگر معلوم تاریخ کے مطابق اسلام سے پہلے کسی بھی دور میں انسان کی رسائی اس شعبہ فن تک نہ ہو سکی جس کو آج سائنس کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ اسلام سے پہلے ہر دور میں انسان کے اوپر شرک کا غلبہ تھا۔ یہی شرک عالم فطرت پر تحقیق کرنے میں مانع تھا۔ کیوں کہ شرک کے عقیدہ کے تحت فطرت کے مظاہر پوجنے کی چیز بنے ہوئے تھے، جب کہ سائنس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کہ ان مظاہر کو تحقیق و تسخیر کی چیز سمجھا جائے۔ مشرک انسان چاند کو دیوتا سمجھتا تھا، اس لیے اس کا ذہن اس رخ پر چل ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ چاند پر اپنے قدم رکھے۔ وہ سیلاب کو خدا کا جزء سمجھتا تھا، اس لیے اس کے لیے یہ سوچنا ممکن نہ تھا کہ سیلاب کو قابو میں لا کر اس سے بجلی پیدا کرے۔ اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار شرک کو مغلوب کرکے توحید کو غالب کیا۔ بالفاظ دیگر، اس ذہن کو فروغ دیا کہ خدا صرف ایک ہے، باقی تمام چیزیں مخلوق ہیں۔ اس طرح اسلام نے عالم فطرت کی تحقیق کا راستہ کھولا۔ اور بالآخر وہ تمام ترقیاں وجود میں آئیں جو قدرت پر فتح کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم سائنسی پسماندگی شرک کا بالواسطہ نتیجہ تھی اور جدید سائنس توحید کا بالواسطہ نتیجہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام اس لیے نہیں آیا کہ وہ دنیا کو سائن دے۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر اسلام نہ آتا تو سائنسی ترقیوں کا دروازہ انسان کے اوپر بند رہتا، جیسا کہ اس سے پہلے وہ انسان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ سائنسی تحقیق اور ترقی کے سلسلے میں توحید کی اس اہمیت کو آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975ء) نے کھلے لفظوں میں تسلیم کیا ہے(ظہور اسلام، صفحہ
توحید کی بنیاد پر جو فکری انقلاب آیا اس کے بہت سے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ انسان عالم فطرت کو اس نظر سے دیکھنے لگا کہ وہ بے بس مخلوق ہے اور انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کو جانے اور اس کو اپنے کام میں لائے۔ اس ذہن کا آغاز اموی دور (661-750ء) میں دمشق میں ہوا۔ قدیم یونانی حکماء کے یہاں کیمیا چاندی سے سونا بنانے کے خبط کا نام تھا۔ خالد بن یزید بن معاویہ غالباً پہلے شخص ہیں جنھوں نے کیمیا کو ایک طبیعی علم کی حیثیت سے ترقی دینے کی کوشش کی۔ عباسی خلافت کے زمانہ میں اس شعبۂ علم نے بغداد میں مزید فروغ پایا اور اسپین اور سسلی تک پھیلتا چلا گیا۔ اس زمانہ میں مسلمان علمی اور تمدنی ترقی میں دنیا کی تمام قوموں سے آگے بڑھے
ہوئے تھے۔ تاریخ کے اس دور کو یورپ کے مورخین تاریک دور(Dark Ages) کہتے ہیں۔ مگر وہ صرف یورپ کے لیے تاریک تھا، نہ کہ مسلم دنیا کے لیے۔ ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار’’ڈارک ایجز‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتا ہے
The term dark 'ages' cannot be applied to the splendid Arab culture which spread over North Africa and into Spain.
تاریک دور کی اصطلاح شاندار عرب کلچر پر چسپاں نہیں ہوتی جو اس زمانہ میں شمالی افریقہ اور اسپین میں پھیلا ہوا تھا۔
شرک کس طرح سائنسی تحقیق میں رکاوٹ تھا، اس کی وضاحت کے لیے یہاں ہم ایک مثال نقل کریں گے۔
قدیم یونان میں زمین اور سورج کی گردش کے بارے میں دو نظریے پیش کیے گئے تھے۔ ایک تھا ارسٹارکس کا نظریہ جس میں زمین کو سورج کے گرد گھومتاا ہوا فرض کیا گیا تھا۔ دوسرا ٹالمی کا نظریہ جس کے مطابق سورج زمین کے گرد گھوم رہا تھا۔ پہلے نظریہ کے مطابق زمین بظاہر گول تھی اور دوسرے نظریہ میں چپٹی۔قسطنطین(272-337ء) کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد جب مسیحیوں کو یورپ میں غلبہ ہوا تو انھوں نے ٹالمی کے نظریہ کی سرپرستی کی اور دوسرے نظریہ کو بزور دبا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسیحیت نے حضرت مسیح کو خدا فرض کر لیا تھا۔ اس عقیدہ کے مطابق زمین کو یہ تقدس حاصل تھا کہ وہ خداوند کی جنم بھومی ہے اور جو کرہ خدا وند کی جنم بھومی ہو وہ کسی دوسرے کرہ کا تابع (satellite) کس طرح ہو سکتا تھا۔ زمین کو اس طرح مقدس سمجھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بارے میں تحقیقی کام آگے نہ بڑھ سکا۔ مشرکانہ مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکرائو کی مزید تفصیلی مثالیں ڈریپر (1811-1882ء) کی کتاب مذہب اور سائنس کا تصادم(Conflcit Between Science and Religion) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
عباسی خلیفہ المامون(786-833ء) کے زمانہ میں بیت الحکمت قائم ہوا اور حکومت کے خصوصی تعاون کے تحت دونوں قسم کے ترجمے عربی زبان میں کیے گئے۔ مسلمانوں نے جب اعتقادی پیچیدگی سے آزاد ہو کر دونوں نظریات کو جانچا تو ان کو پہلا نظریہ حقیقت سے قریب تر نظر آیا۔ خلیفہ المامون جو خود بھی بہت بڑا عالم تھا، اس نے اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کیا۔ اس نے ہیئت و جغرافیہ کے عالموں کو حکم دیا کہ وہ زمین کو گول فرض کرتے ہوئے اس کا محیط(circumference) معلوم کریں اور اس کے لیے کسی کھلے میدان میں زمینی درجہ (terrestrial degree) کی لمبائی کی پیمائش کریں اور اس کے بعد اس سے زمین کی پوری گولائی کا اندازہ کریں۔ اس زمانہ میں مسلمانوں کے پاس آلات حساب کے نام سے صرف زاویہ ناپنے کا سادہ آلہ(quadrant)اصطرلاب، دھوپ گھڑی اور معمولی گلوب تھے۔ اس قسم کی چند چیزوں کے ذریعہ انھوں نے اپنی جدوجہد شروع کر دی۔
اس مقصد کے لیے سنجار(Palmyra) کا وسیع ہموار میدان منتخب کیا گیا۔ ایک مقام پر قطب شمالی کی بلندی کے ساتھ زاویہ قائم کرکے شمال کی جانب جریب سے ناپنا شروع کیا۔562/3میل شمال کی جانب جانے سے قطب شمالی کی بلندی کے زاویہ میں ایک درجہ کی لمبائی بڑھ گئی۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ جب ایک درجہ کی مسافت سطح زمین پر
562/3میل ہے تو زمین کا کل محیط 20(circumference) ہزار میل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ہر نقطہ پر تمام زاویوں کا مجموعہ 360 درجہ ہوتا ہے۔ اور360 کو562/3میںضرب دینے سے 20401 میل کا فاصلہ برآمد ہوتا ہے۔ دوبارہ یہی تجربہ دریائے فرات کے شمال میں صحرائے کوفہ میں کیا گیا اور دوبارہ وہی نتیجہ نکلا— یہ پیمائش حیرت انگیز طور پر قریب بہ صحت تھی۔ کیوں کہ موجودہ زمانہ میں صحیح ترین پیمائش کے مطابق زمین کا محیط خط استواء پر
علم کے مختلف میدانوں میں یہ ترقیاں جاری تھیں کہ باہمی اختلافات کے نتیجہ میں عرب خلافت کا نظام ٹوٹ گیا۔ اور اسلام کا جھنڈا عثمانی ترکوں(1517-1922ء) نے سنبھالا۔ اس طرح سولھویں صدی عیسوی میں اسلام کی سیاسی نمائندگی کا مرکز عرب سے نکل کر ترکی کی طرف منتقل ہوگیا۔ یہاں سے تاریخ میں ایک نیا انقلاب آیا جس نے واقعات کے رخ کو بالکل دوسری طرف موڑ دیا۔
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ ایک شخص جو کسی پہلو سے مفید خدمت انجام دیتا ہے، وہی کسی دوسرے پہلو سے بڑی مصیبت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی ہے۔ اس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے خلفاء راشدین کی فہرست میں پانچویں خلیفہ راشد(عمر بن عبدالعزیز) کا اضافہ کیا۔ مگر مورخ اسی خلیفہ کے تذکرہ میں اس ہیبت ناک غلطی کو بھی لکھتا ہے کہ اس نے اپنے زمانہ کے انتہائی اہم فوجی سرداروں کو ختم کرا دیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ایشیا اور افریقہ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی اچانک ٹھپ ہو کر رہ گئی۔
یہی صورت عثمانی ترکوں کے ساتھ پیش آئی۔ ترکوں نے عین اس وقت اسلام کا جھنڈا سنبھال لیا جب کہ کمزور ہاتھوں میں پہنچ کر اس کے گرنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ کئی سو سال تک یورپ کی مسیحی طاقتوں کے مقابلہ میں اسلام کی دیوار بنے رہے۔ اس اعتبار سے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ یہی ترک ہیں جو اس حادثہ کا باعث بنے کہ مسلم دنیا میں ہونے والی سائنسی تحقیقات رک جائیں اور ان کا مرکز یورپ کی طرف چلا جائے۔
ترک انتہائی بہادر اور حوصلہ مند تھے۔ مگر ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ جاہل تھے۔ علمی تحقیق کے کام کی اہمیت نہ صرف یہ کہ وہ سمجھ نہیں سکتے تھے بلکہ وہ اس کو اپنے لیے ایک سیاسی خطرہ خیال کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علم کے بڑھنے سے رعایا میں ان کے حق میں وفاداری کم ہو جائے گی اور ان کو قابو میں رکھنا نسبتاً زیادہ مشکل ہو جائے گا۔۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے علمی کام کے ساتھ سخت غیر رواداری کا ثبوت دیا۔ جب مسلم سیاست کا مرکز بدلا تو وہ لوگ جو بغداد اور دوسرے مراکز میں سائنس کی تحقیق کا کام کر رہے تھے، وہ منتقل ہو کر ترک دارالسلطنت آستانہ میں جمع ہوگئے۔ عباسی خلفاء ان لوگوں کے بے حد قدردانی کرتے تھے۔ انھوں نے ان کے اوپر درہم و دینار کی بارش کر رکھی تھی۔ مگر ترک ان کو اپنے لیے خطرہ سمجھ کر ان سے نفرت کرنے لگے۔ انھوں نے ان کی اس قدر حوصلہ شکنی کی کہ ترک حکومت میں ان کو اپنا
مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ چنانچہ یہ لوگ ترک چھوڑ کر اٹلی اور فرانس جانا شروع ہوگئے۔ سائنسی تحقیقی کا کام مسلم دنیا سے نکل کر مغربی دنیا میں منتقل ہوگیا۔ ترکوں نے علم اور اہل علم کی جس طرح حوصلہ شکنی کی اس کی دردناک تفصیل محمد کرد علی شامی کی کتاب الحضارۃ العربیہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
مغربی دنیا(western world)میںان سائنسدانوںکی خوب پذیرائی ہوئی۔ صلیبی جنگوں (1095-1271ء) میں مسلمانوں کے مقابلہ میں یورپی قوموں کو شکست اس لیے ہوئی تھی کہ مسلمان علم و فن میں ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ ان جنگوں میں ابتداء میں رومی فوجوں نے یونانی آگ(Greek Fire) استعمال کی جس سے مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔’’یونانی آگ‘‘ ایک قسم کی پچکاری تھی جس میں آتش گیر کمیائی مرکب بھر کر دشمن کی طرف پھینکا جاتا تھا۔ مسلم سائنس دانوں نے اس کے مقابلہ میں ایک اور چیز ایجاد کی۔ اس میں روغن نفط(معدنی تیل) استعمال ہوتا تھا۔ اس کی مار زیادہ دور تک تھی اور اس کا نقصان بھی یونانی آگ سے بہت بڑھا ہوا تھا۔
یورپ کے مسیحی قدرتی طور پر مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی علمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے بیتاب تھے۔ اب جو مسلم دنیا کے اہل علم ان کے یہاں پہنچے تو انھوں نے ان کے ساتھ زبردست تعاون کیا۔ یورپ میں علمی تحقیق کا وہ کام دگنی شدت کے ساتھ ہونے لگا جو اس سے پہلے مسلم دنیا میں ہو رہا تھا۔ سولھویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک، تقریباً تین سو سالہ عمل کے نتیجہ میں یورپ میں وہ انقلاب آیا جس کو سائنسی اور صنعتی انقلاب کہا جاتا ہے۔ مغرب کی سائنسی ترقی میں مسلمانوں کے حصہ کے بارے میں مزید تفصیل بریفالٹ کی کتاب تعمیر انسانیت (Making of Humanity) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سولھویں صدی تک مسلمان علم کے میدان میں استادی کے مقام پر تھے۔ مگر اس کے بعد کی صدیوں میں یورپ نے جو ترقیاں کیں اس نے مسلمانوں کو شاگردی کے مقام پر پہنچا دیا۔ مسلمان خود اپنی لائی ہوئی انقلابی دنیا میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگئے۔ تاہم اب بھی یہ موقع تھا کہ وہ یورپ کی تحقیقات سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھیں اور وہ واقعہ دوبارہ نئی شکل میں ظہور میں آئے جو مسلمانوں کے مقابلہ میں یورپ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ مسلمانوں کے علوم کو بنیاد بنا کر یورپ ان سے آگے بڑھ گیا تھا۔ اب مسلمان یورپ کے علوم کو لے کر مزید آگے کی ترقیاں حاصل کر سکتے تھے۔ مگر یہاں دو خاص وجہیں راستہ میں حائل ہوگئیں۔ ایک تاریخی امکان واقعہ بننے سے رہ گیا۔
1۔ صدیوں تک سائنسی علوم سے دور رہنے کے بعد یورپ کے ذریعہ جب سائنس مسلمانوں کی طرف آئی تو وہ صرف ایک علم کے طور پر نہیں آئی۔ بلکہ وہ ملک گیری اور استعمار کے جلو میں آئی۔ مسلمانوں کے پاس یہ سائنس لے کر وہ لوگ آر رہے تھے جنہوں نے مسلمانوں سے ان کی عظمت اور ان کے اقتدار کو چھینا تھا۔ ان کی تہذیب اور ان کے مذہبی شعائر پر حملے کیے تھے۔ اس موقع پر مسلمان اس دانش مندی کا ثبوت نہ دے سکے کہ وہ مغربی سائنس کو مغربی سیاست سے الگ کرکے دیکھیں۔ انھوں نے دونوں کو ایک سمجھا۔ وہ جس طرح مغربی قوموں کے دشمن بنے، اسی طرح
وہ مغربی علوم کے بھی دشمن بن گئے۔ جب کہ دوسری قومیں مغرب سے ان کے علوم سیکھ رہی تھیں، مسلمان ان کو دشمن کی چیز سمجھ کر ان سے دور بھاگ رہے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان دوسری قوموں سے کم ازکم سو سال علم میں پیچھے ہوگئے، قوموں کے اوپر علمی امام بننے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔
2۔ مزید نقصان یہ ہوا کہ طویل غفلت کے بعد مسلمانوں میں جو لوگ علم کے مبلغ بن کر اٹھے وہ اس کام کے پوری طرح اہل نہ تھے۔ انھوں نے ایک صحیح کام کو غلط طریقہ سے انجام دینے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ان کو وہ قبولیت حاصل نہ ہو سکی جو باعتبار حقیقت انھیں حاصل ہونی چاہیے تھی۔
مثال کے طور پر علم جدید کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ قرآن و حدیث میں جہاں جہاں’’علم‘‘ کا لفظ آیا ہے اس کو انھوں نے ان سیکولر علوم کا مصداق بتایا جو آج یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک صحیح بات کے لیے غلط دلیل پیش کرنا تھا۔ کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن و حدیث میں جس علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے اس سے مراد علم دین ہے، نہ کہ سیکولر یا سائنسی علوم۔ ان کو حاصل کرنا یقیناً مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ مگر ان علوم کی اہمیت آیتِ قوت (انفال،
موجودہ زمانہ کے تعلیمی مصلحین کی اس غلطی کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کا دینی طبقہ ان کا سخت مخالف ہوگیا۔طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر
اسلام میں سائنس کی اہمیت کے متعدد وجوہ ہیں۔ یہاں چند چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے
1۔ سائنس، سادہ طور پر، عالم حقائق کے مطالعہ کا نام ہے۔ قرآن میں یہی صفت اہل ایمان کی بتائی گئی
ہے کہ وہ زمین و آسمان کی بناوٹ پر غور کرتے ہیںوَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (
ذہن کا یہ فرق دونوں کے طرز مطالعہ میں بہت بڑا فرق پیدا کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سائنسداں اشیاء کی ماہیئت کو چھوڑ کر صرف اشیاء کے خواص کے مطالعہ تک اپنے کو محدود رکھتا ہے۔ وہ اشیاء کی کارکردگی کو ان کی معنویت سے جدا کر دیتا ہے۔ سائنس داں کو ایسا اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ وہ صرف اپنی عقل کی رہنمائی میں کائنات کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اور انسان کو عقل قطعیت کے ساتھ صرف قابل تجربہ چیزوں کو دیکھ پاتی ہے، اس لیے اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ کائنات کے قابل تجربہ پہلوئوں تک اپنے مطالعہ کو محدود رکھے۔ مگر مومن اپنی عقل کے ساتھ نبوت کی رہنمائی کو تسلیم کیے ہوئے ہوتا ہے۔ اس لیے وہ خواص اشیاء سے گزر کر حقائق اشیاء تک اپنے مطالعہ کو لے جاتا ہے۔ وہ ’’مخلوق‘‘ کو اس کے’’خالق‘‘ کے ساتھ شامل کرکے دیکھتا ہے۔ یہ فرق مومن کے مشاہدہ ٔکائنات میں زبردست معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کو ساری کائنات صفات خداوندی کا ظہور نظر آنے لگتی ہے۔ کائنات کو پاتے ہی وہ اس خدا کو بھی پا لیتا ہے جس پر وہ پیغمبر کے واسطہ سے ایمان لایا ہے۔
2۔ قرآن میں کائناتی واقعات کو قرآنی پیغام کے حق میں بطور استد لال پیش کیا گیا ہے۔ گویا قرآن میں جو بات نظری طور پر کہی گئی ہے، کائنات اس کے حق میں واقعاتی دلیل ہے۔ اس اعتبار سے پوری سائنس قرآن کا علم کلام ہے۔ کیوں کہ سائنس کسی سائنس داں کے خود ساختہ علم کا نام نہیں بلکہ وہ خدا کی کائنات میں کام کرنے والے قوانین کی تلاش کا نام ہے۔ ان قوانین کا جو حصہ بھی سائنس دریافت کرتی ہے وہ خدا کی کارفرمائیوں کی ایک جھلک ہوتی ہے، وہ خدا کی آیتوں میں سے ایک آیت(نشانی) کا انسانی علم میں آنا ہوتا ہے۔ سائنس داں کے لیے سائنس علم برائے علم ہے یا زیادہ سے زیادہ علم برائے تعمیر دنیا۔ مگر مومن کے لیے سائنس ایک علمی ہتھیار ہے جس سے وہ دعوت حق کی جدوجہد میں کام لیتا ہے، جس سے وہ اپنی بات کو مدلل کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔
3۔ سائنس کا تیسرا پہلو، اسلامی نقطۂ نظر سے، وہی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا۔ یعنی وہ موجودہ زمانہ میں قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے اسلام اور مسلمانوں کو سربلند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سائنس کی قوت کو پوری طرح فراہم کیا جائے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مسلمان سائنس کی تحقیق و تحصیل میں آگے بڑھیں، حتیٰ کہ وہ اس میں امامت کا درجہ حاصل کر لیں۔
انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے نصف اول میں ساری مسلم دنیا میں سیاسی آزادی کی تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کے مسلم قائدین کا یہ خیال تھا کہ بیرونی سیاسی قبضہ سے آزاد ہونے کا نام غلبہ ہے۔ وہ سیاسی آزادی کو
اسلام کی سربلندی کے ہم معنی سمجھتے ہیں۔ مگر آج جب کہ بے شمار قربانیوں کے بعد تمام مسلم ممالک آزاد ہو چکے ہیں، آج بھی وہ ان غیر مسلم قوموں کے محکوم ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ان سے بڑھی ہوئی ہیں۔ ان کی سیاسی آزادی ان کو آج کی دنیا میں برتری کا مقام نہ دے سکی۔ کیوں کہ وقت بتانے والی گھڑی سے لے کر جنگ لڑنے والے سامان تک ہر چیز کے لیے وہ انھیں قوموں کے محتاج ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ہر چیز کا تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہوگیا ہے۔ اس لیے جو قوم ان چیزوں میں پیچھے ہو وہ مقابلہ کی اس دنیا میں آگے کی صف میں جگہ نہیں پا سکتی۔
نئی دہلی میں جنتر منتر روڈ سے گزرنے والا ایک عجیب و غریب طرز کی عمارت دیکھتا ہے جس کا نام’’جنتر منتر‘‘ ہے۔ اسی کے اوپر سڑک کا نام جنتر منتر روڈ رکھا گیا ہے۔ جنتر منتر دراصل پرانے زمانہ کی رصد گاہ ہے جس کو اٹھارویں صدی کے نصف اول میں جے پور کے راجہ جے سنگھ نے بنوایا تھا۔ جے سنگھ کو علم فلکیات کا بہت شوق تھا۔ ہندستان کے اس راجپوت راجہ نے اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے صرف جے پور میں ہی ایک بڑی رصد گاہ نہیں بنوائی بلکہ دہلی، متھرا، بنارس اور اجین میں بھی رصد گاہیں تعمیر کرائیں۔ دہلی کا جنتر منتر آج بھی راجہ کے اس شوق کی یاد دلاتا ہے۔
ان رصد گاہوں کے ذریعہ اس دور کے علمائے فلکیات چاند اور ستاروں کی رفتار معلوم کرتے تھے۔ ان رصد گاہوں کے ذریعہ موسم کا پتہ چلایا جاتا تھا۔ وہ اس کی مدد سے ستاروں اور زمین کا فاصلہ ناپتے تھے۔ رات کو چاند کی روشنی اور دن کو سورج کی روشنی کی مدد سے وقت کا اندازہ کرتے تھے۔ عمارت کی کھڑکیاں، دریچے اور دیواروں کے سوراخ خود بخود سال کا پورا کیلنڈر ترتیب دے دیتے تھے۔
قرون وسطیٰ میں ساری دنیا کا علمی اور تعمیری کام مسلمانوں کی علمی اور تعمیری ترقیوں کی نقل ہوتا تھا۔ چنانچہ مہاراجہ جے سنگھ کی رصد گاہ بھی عباسی رصد گاہوں کی نقل تھی۔ وہ ٹھیک اس انداز سے بنائی گئی تھی جیسی خلیفہ مامون رشید نے ایک ہزار سال پہلے بغداد میں بنوائی تھی۔
قدیم دور میں علم کی امامت مسلمانوں کو حاصل تھی۔ چنانچہ ساری دنیا میں ان کے طریقوں کی تقلید کی جاتی تھی۔ مگر بعد کے زمانہ میں ان کی غفلت سے امامت کا یہ مقام مغربی قوموں نے حاصل کر لیا۔ تین سو سال پہلے جب ایک شخص فلکیات کے مطالعہ کے لیے ’’رصد گاہ‘‘ بنانا چاہتا تو وہ بغداد کے نمونہ کی نقل کرتا تھا۔ مگر آج جب کسی ملک میں’’رصد گاہ‘‘ تعمیر کی جاتی ہے تو اس کا نقشہ اور سامان مغرب کے ماہرین سے حاصل کیا جاتا ہے— یہی وہ مقام ہے جہاں مسلمانوں کی عزت و سربلندی کا سفر ختم ہوا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے مسلمان دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔
نوٹیہ مضمون علی گڑھ کے آل انڈیا سیمینار بعنوان اسلام اور سائنس (
غالباً 1970 کی بات ہے۔ میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو ایک یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ اسلام کے فلسفیانہ فکر پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ اسلام میں ثانوی عقلیت (secondary rationalism) ہے۔ اسلام میں ابتدائی عقلیت (primary rationalism) نہیں۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی فکر کا آغا زوحی سے ہوتا ہے۔ آدمی پیشگی طور پر وحی کو مسلمہ صداقت مان کر سوچنا شروع کرتا ہے۔ جب کہ عام انسانی فلسفہ میں کوئی چیز پیشگی مسلمہ کے طورپر نہیں مانی جاتی۔ بلکہ تحقیق و جستجو کے بعد جو بات ثابت ہوتی ہے اس کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی بات بطور واقعہ درست ہے۔ مگر اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ اس دنیا میں انسان کے لیے ثانوی عقلیت ہی ممکن ہے۔ ابتدائی عقلیت موجودہ دنیا میں انسان کے لیے قابل عمل اور قابل حصول نہیں۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم کو صرف محدود عقلی صلاحیت حاصل ہے۔ حقائق کی کائنات لامحدود ہے اوراس کے مقابلہ میں انسان کی عقل انتہائی محدود۔ اس لیے ابتدائی عقلیت کا اصول ایک آئڈیل اصول تو ہو سکتا ہے مگر وہ قابل عمل اصول نہیں۔
خالص فنی اعتبار سے اسلام کی عقلیت اگرچہ ثانوی عقلیت ہے مگر وہ عام معنوں میں ادعائیت (dogmatism) کی قسم کی کوئی چیز نہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حقیقت کے بارے میں ایک بیان(statement) دیتا ہے۔ اور اس کے بعد انسان سے یہ کہتا ہے کہ اس بیان کو واقعات معلومہ(Known facts) پر جانچ کر دیکھو۔ اگر تم پائو کہ یہ بیان واقعات معلومہ سے مطابقت رکھتا ہے تو تم کو مان لینا چاہیے کہ یہ عین درست ہے۔
علم کیا ہے، اور انسان اس علم تک کس طرح پہنچتا ہے یا پہنچ سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں جدید سائنس نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ علم تک پہنچنے کے تین مرحلے ہیں
1۔مشاہدہ(observation)
2۔ مفروضہ(hypothesis)
3۔تصدیق(verification)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً آدمی کے سامنے کچھ واقعات آتے ہیں۔ ان واقعات کی توجیہ کے لیے اس کے ذہن میں ایک مفروضہ قائم ہوتا ہے۔ اب وہ مزید مطالعہ شروع کرتا ہے۔ اگر مزید یا وسیع تر مطالعہ اس کے مفروضہ کی تصدیق کرے تو مان لیا جائے گا کہ وہ حقیقت ہے۔ اس آخری مرحلہ میں پہنچ کر ابتدائی مفروضہ ثابت شدہ حقیقت(proved fact) بن جاتا ہے۔
اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ زمین پر قدیم انسان نے دیکھا کہ یہاں خشکی کے حصے بھی ہیں اور سمندر بھی۔ اس نے ابتدائی طور پر یہ مفروضہ قائم کیا کہ زمین پر آدھا خشکی ہے اور آدھا حصہ پانی۔ یہ مفروضہ یونانی فلسفیوں کے زمانہ سے لے کر ابن خلدون تک قائم رہا۔
اس کے بعد خشکی اور سمندر کے سفروں سے آدمی نے یہ جانا کہ خشکی کے مقابلہ میں پانی کا حصہ زمین پر زیادہ ہے۔ اس دوسرے مشاہدہ سے پہلا مفروضہ رد ہوگیا۔ اب دوسرا مفروضہ یہ قائم ہوا کہ زمین پر پانی کا حصہ دو تہائی ہے اور خشکی کا حصہ ایک تہائی۔ اس کے بعد مزید ذرائع انسان کو حاصل ہوئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ خشکی کے حصہ اور پانی کے حصہ کی باقاعدہ پیمائش کی جا سکے۔ چنانچہ باقاعدہ پیمائش سے معلوم ہوا کہ زمین کی سطح پر پانی کا حصہ
قرآن کا فلسفہ بھی تقریباً یہی ہے۔ البتہ مقدمات کی ترتیب کے اعتبار سے دونوں میں معمولی فرق پایا جاتا ہے۔ قرآن کا فلسفہ یا قرآن کا طریق تفکیر معمولی فرق کے ساتھ یہ ہے کہ اس میں سب سے پہلے ’’مفروضہ‘‘قائم ہوتا ہے۔ اس کے بعد’’مشاہدہ‘‘ کی روشنی میں اس پر غور و فکر کیا جاتا ہے۔ اور پھر آخر میں’’تصدیق‘‘ کا درجہ آتا ہے۔ یعنی قرآن کے دعویٰ (مفروضہ) کو لے کر اس پر غور کرنا۔ اور پھر غور و فکر کی سطح پر مفروضہ کی واقعیت ثابت ہونے کے بعد اس کو مسلمہ حقیقت مان لینا۔ اسی آخری درجہ معرفت کا نام قرآن کی اصطلاح میں ایمان ہے۔
گویا سائنس کے طریق علم کی ترتیب یہ ہے مشاہدہ، مفروضہ تصدیق۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کے طریق علم کی ترتیب یہ ہے مفروضہ، مشاہدہ، تصدیق
Science: Observation- Hypothesis-Verification
Qur`an: Hypothesis- Observation-Verification
دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عام انسانی فلسفہ میں فکر کا آغاز تلاش (pursuit) سے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، قرآنی فلسفہ میں فکر کا آغاز دریافت (finding)سےہوتا ہے۔ قرآن ابتداء میں یہ دعویٰ یا علمی زبان میں، مفروضہ پیش کرتا ہے کہ اس کائنات کاایک خالق ہے اور اس کائنات کا ایک انجام ہے۔ اس کے بعد قرآن تخلیقی دنیا کے مختلف شواہد (آیات) انسان کے سامنے لاتا ہے۔ اور انسان سے کہتا ہے کہ ان شواہد پر غور کرو اور دیکھو کہ کیا یہ شواہد قرآن کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔
اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ کائنات کے تمام حقائق معلومہ(known facts) قرآن کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں۔ کوئی بھی معلوم حقیقت ایسی نہیں جو قرآن کے بیان سے ٹکرانے والی ہو یا اس کو مشتبہ ثابت کرتی ہو۔
اس کی ایک مثال لیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں یہ اعلان کیا کہ مجھ پر خدا نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ وحی بھیجی ہے۔ اس پر مکہ کے لوگوں نے کہا کہ ہم تمہاری بات کو صرف اس وقت مانیں گے جبکہ ہم اپنی آنکھ سے دیکھیں کہ فرشتہ خدا کی وحی لے کر آسمان سے تمہارے پاس آ رہا ہے۔ اس کے جواب میں قرآن میں کہا گیا کہ— لوگ تم سے وحی کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ وحی خدا کے حکم سے ہے اور تم کو صرف تھوڑا علم دیا گیا ہے(
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ کے لوگ پیغمبر اسلام کے دعویٰ رسالت پر براہ راست دلیل مانگ رہے تھے۔ مگر قرآن نے یہ جواب دیا کہ تم اس معاملہ کو بالواسطہ دلیل یا استنباطی دلیل کے ذریعہ ہی سمجھ سکتے ہو۔ کیوں کہ تم اپنی محدودیت کی وجہ سے اس معاملہ میں براہ راست دلیل کا تحمل نہیں کر سکتے۔
یہ معاملہ اسی طرح متنازعہ صورت میں تاریخ میں چلتا رہا۔ یہاں تک کہ 19ویں صدی میں سائنسی ذرائع کی دریافت کے بعد جدید مفکرین نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں کسی معاملہ میں بالواسطہ یا استنباطی استد لال پر قانع رہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم جدید ذرائع کی مدد سے تمام امور پر براہ راست دلیل قائم کر سکتے ہیں۔
مگر بیسویں صدی کی تحقیقات نے آخری طور پر یہ ثابت کر دیا کہ انسان کی ذہنی محدودیت فیصلہ کن طورپر اس راہ میں حائل ہے کہ وہ کسی بھی حقیقت پر براہ راست دلیل قائم کر سکے۔ چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں متفقہ طور پر مان لیا گیا کہ بالواسطہ یا استنباطی استدلال عین معقول استدلال(valid argument) ہے، بشرطیکہ وہ ثابت شدہ مشاہدات پر مبنی ہو۔ اور تمام متعلق مشاہدات کی زیادہ بہتر توجیہ کرتا ہو۔
مثال کے طور پر نظریۂ ارتقاء(evolution theory) کو اسی بنا پر سائنس دانوں کے درمیان عمومی قبولیت(general acceptance) کا درجہ حاصل ہوگیا تھا۔ حتیٰ کہ کچھ لوگوں نے اس کو ثابت شدہ حقیقت(proved fact) کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ ارتقاء کا نظریہ اتنے لمبے ماضی سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکے یا اس پر براہ راست دلیل قائم کی جائے۔ ارتقاء کا نظریہ تمام تر ایک استنباطی نظریہ ہے، نہ کہ براہ راست مشاہدہ میں آنے والا نظریہ۔
نظریۂ ارتقاء کیا ہے۔ نظریہ ٔارتقاء کا فارمولا چند لفظوں میں یہ ہے— دوبارہ پیدائش، فرق، اور فرق کا باقی رہنا
Reproduction, variation, and differential survival.
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک حیوان کے یہاں تو الدو تناسل سے بچے پیدا ہوئے۔ ان میں باہم فرق تھا۔ مثلاً کوئی چھوٹا تھا کوئی بڑا۔ بڑے بچے تو الدوتناسل کے عمل کے تحت دوبارہ تھوڑا تھوڑا بڑے ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ بکری کا بچہ لمبی مدت تک فرق جمع ہونے کے نتیجہ میں زرافہ بن گیا۔
اس سے قطع نظر کہ یہ نظریہ صحیح ہے یا غلط، منطقی اعتبار سے یہ استدلال سراسر استنباطی استدلال ہے۔ اسی طرح کے استنباطی استدلالات پر ان تمام نظریات کی بنیاد قائم ہے جن کو موجودہ زمانہ میں سائنٹفک نظریات کہا جاتا ہے۔
سائنس کے حلقہ میں جتنے بھی نظریات قائم کیے گئے ہیں، وہ سب اسی طرح بالواسطہ استدلال پر مبنی ہیں۔ یہ نظریات اس وقت تک قائم رہتے ہیں جب تک کوئی نیا مشاہدہ سابقہ توجیہ یا
استنباط کو مشتبہ ثابت نہ کر ے۔
اسلامی عقائد پر منطقی استد لال کی نوعیت بھی عین یہی ہے۔ اگر کائناتی مشاہدات اسلامی عقائد کی تائید کرتے ہوں اور ان مشاہدات سے جائز طور پر ان کا استنباط ہو رہا ہو تو وہ عین جدید سائنسی منطق کے مطابق درست اور قابل تسلیم قرار پائیں گے۔ صرف اس بنا پر ان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ استنباطی استد لال پر مبنی ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد صرف اسلامی عقائد ہی رد نہیں ہوں گے بلکہ سائنس کا پورا قلعہ بھی مکمل طور پر منہدم ہو جائے گا۔
قرآن میں1400 سال پہلے یہ کہا گیا تھا کہ انسان کو صرف علم قلیل (بنی اسرائیل،
جدید سائنس کا یہ موقف اسلام کی اس عقلیت کو برحق ثابت کرتا ہے جس کو ثانوی عقلیت کہا جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر سائنس کا موقف اور اسلام کا موقف دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ سائنس کا موقف جدید ترین تحقیقات کی روشنی میں یہ ہے کہ ہم ایک مفروضہ قائم کریں اور ممکن تجربات اور مشاہدات پر ان کو جانچیں۔ اگر ہمارے تجربات اور مشاہدات اس مفروضہ کی تصدیق کریں تو ہمیں گمان کرنا چاہیے کہ مفروضہ درست ہے۔
عین یہی موقف اسلامی فلسفہ کا بھی ہے۔ اسلام یہ کرتا ہے کہ وہ وحی کی صورت میں ہمارے سامنے ایک’’مفروضہ‘‘ رکھ دیتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ مشاہدات اور تجربات کی جو بھی معلوم مقدار ہے، اس پر جانچ کر اسے دیکھو۔ اگر معلوم مشاہدات اور تجربات اس سے نہ ٹکرائیں، بلکہ وہ اس کی تصدیق کریں تو یہ اس بات کا قرینہ ہوگا کہ وحی کی صورت میں جو مفروضہ قائم کیا گیا تھا وہ عین درست تھا۔
نیوٹن نے دیکھا کہ سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر گر گیا۔ اس سے اس نے یہ نظریہ یا مفروضہ قائم کیا کہ زمین میں کھینچنے کی طاقت ہے۔ اس واقعہ میں سیب کا گرنا ایک مشہود واقعہ ہے، مگر زمین کی قوت کشش ایک غیبی واقعہ۔ اس واقعہ میں سائنس داں نے ایک غیبی واقعہ کو صرف اس لیے مان لیا
کہ ایک مشہود واقعہ اس کی موجودگی کا قرینہ پیش کر رہا تھا۔ اصولی طور پر، ٹھیک یہی طریقہ استدلال قرآن میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ قرآن بھی یہی کرتا ہے کہ وہ مشہود حقائق(قرائن) سے غیبی حقائق پر دلیل قائم کرتا ہے۔
اس طرز استدلال کی ایک مثال قرآن میں یہ ہے أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ(
سورۃ ق کی اس آیت میں تخلیق اول سے تخلیق ثانی پر استدلال کیا گیا ہے۔ اس استدلال کی منطق یہ ہے کہ پہلے زندگی بعد موت کا ’’دعویٰ‘‘ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد زندگی قبل موت کا مشاہدہ سامنے لایا گیا۔ اور پھر کہا گیا کہ جب پہلی بار بے زندگی سے زندگی کا وجود میں آنا ممکن تھا تو دوسری بار بے زندگی سے زندگی کاوجود میں آنا کیوں ناممکن ہوگا۔
انسان خود اپنے وجود کی صورت میں اور دوسرے بے شمار انسانوں کی موجودگی کی صورت میں پہلی تخلیق کا تجربہ کر رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ انسان ایک مکمل وجود کے طور پر پہلی بار دنیا میں آتا ہے۔ اس کے بعد وہ مر کر دوبارہ اپنی قبل از پیدائش حالت کی طرف واپس چلا جاتا ہے۔گویا کہ انسان حالت موت سے حالت زندگی میں آیا۔ اور اس کے بعد پھر حالت موت میں چلا گیا۔ اب اگر ایک بار حالت موت سے حالت زندگی میں آنا ممکن تھا تو دوسری بار حالت موت سے حالت زندگی میں آنا کیوں ناممکن ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار زندگی کا ثابت ہونا، دوسری بار زندگی کو اپنے آپ ثابت کر دیتا ہے۔
اصولی اعتبار سے، قرآن کے استدلال اور سائنس کے استدلال میں کوئی فرق نہیں۔ تمام سائنسی نظریات میں معلوم سے نامعلوم پر دلیل قائم کی جاتی ہے۔ اسی طرح قرآن میں بھی معلوم سے نامعلوم یا شہود سے غیب پر دلیل قائم کی گئی ہے۔ قرآن کا طریق استدلال بھی اتنا ہی سائنٹفک ہے جتنا علوم مادی کا استد لال۔
اسلامی فلسفہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خالص سائنٹفک فلسفہ ہے۔ جو لوگ سائنٹفک فلسفہ کو مانتے ہوں ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسلامی فلسفہ کی معقولیت(validity) کو پوری طرح تسلیم کر لیں۔ خالص علمی اعتبار سے، اس موقف کے سوا کوئی اور موقف انسان کے لیے درست نہیں۔
ڈاکٹر ماریس بکائی(Dr Maurice Bucaille) فرانس کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قرآن کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔ وہ اولاً فرانسیسی زبان میں1976ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد دس زبانوں میں اس کے ترجمے چھپے۔ انگریزی میں اس کتاب کا نام یہ ہے
The Bible, the Quran and Science
اس کتاب میں ڈاکٹر ماریس بوکائی نے دکھایا ہے کہ علم سائنس کے بارے میں قرآن کے بیانات حیرت انگیز طور پر جدید تحقیقات کے مطابق ہیں۔ قرآن اگرچہ دور سائنس سے بہت پہلے پیش کیا گیا،مگر بعد کے زمانہ میں ظاہر ہونے والی علمی حقیقتوں کا اس میں بالکل صحیح بیان موجود ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن ایک برتر ذہن کی تخلیق ہے۔ وہ انسانی ذہن کی تصنیف نہیں(ملاحظہ ہو عظمت قرآن، اور اسلام اور عصر حاضر)۔
ڈاکٹر ماریس بوکائی کی دوسری کتاب انسان کی پیدائش اور رحم مادر میں اس کے ارتقا کے بارے میں ہے جو کہ ڈاکٹر بکائی کا خاص موضوع ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے دکھایا ہے کہ انسان کی پیدائش کے بارے میں قرآن میں جو بیانات ہیں، وہ جدید تحقیقات کے عین مطابق ہیں، جبکہ ان تحقیقات کے نتائج صرف بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں انسان کو معلوم ہو سکے ہیں۔
ڈاکٹر بوکائی کی اس دوسری کتاب کا فرانسیسی ایڈیشن1984 ءمیں پیرس سے شائع ہوا۔220 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن کانام یہ ہے
What is the Origin of Man?
Published by Seghers, 6 Place Saint-Sulpice, 75006 Paris
ڈاکٹر ماریس بکائی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں کہ مجھے فرانس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن محمد کی کتاب ہے۔ انھوں نے اس کو بائبل سے کچھ گھٹا کر یا بڑھا کر تیار کر لیا ہے۔ اپنے اس ذہن کی بنا پر میںقدرتی طور پر یہ سمجھتا تھا کہ بائبل کے اندر جو علمی غلطیاں (scientific errors) ہیں، وہ لازماً قرآن کے اندر بھی ہونی چاہئیں(صفحہ
مزید یہ کہ محمد کے الہام کا زمانہ610ء سے لے کر
مگر بعض تجربات کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ قرآن کے بیانات اور بائبل کے بیانات میں اگرچہ کئی باتیں مشترک ہیں مگر قرآن حیرت انگیز طور پر اس قسم کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے ان علمی غلطیوں کو حذف کر دیتا ہے جو موجودہ بائبل میں پائی جاتی ہیں۔ اب ان کا تجسس بڑھا۔ یہاں تک کہ قرآن کو براہ راست اس کی اپنی زبان میں سمجھنے کے لیے انھوں نے پچاس سال کی عمر میں عربی زبان سیکھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد جب انھوں نے قرآن کو براہ راست پڑھا تو انھوں نے حیرت انگیز طور پر پایا کہ بائبل ایک طرف علمی غلطیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مگر دوسری طرف قرآن کا حال یہ ہے کہ وہ علمی غلطیوں سے یکسر خالی ہے۔
اگر قرآن محمد کی کتاب ہو اور انھوں نے اس کو بائبل اور وقت کی معلومات کی مدد سے مرتب کیا ہو تو کیا وجہ ہے کہ قرآن میں وہ تمام علمی غلطیاں حذف ہیں جو بائبل میں یا محمدکے زمانہ میں پائی جا رہی تھیں۔ مثلاً بائبل میں انسان کے ظہور کی جو تاریخ دی گئی ہے اس کے لحاظ سے 1981ء کے حساب کے مطابق زمین پر انسان کا ظہور پہلی بار5742 سال پہلے ہوا۔ مگر اس قسم کی بے معنی غلطیاں قرآن میں بالکل نہیں پائی جاتیں(صفحہ
بائبل میں کثرت سے علمی غلطیاں ہیں۔ وہ اتنی واضح ہیں کہ ان کا انکار ممکن نہیں۔ جین گوٹن (Jean Guitton) نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بائبل کی علمی غلطیاں انسانی غلطیاں ہیں۔ کیوں کہ اس وقت انسان ایک بچہ کی مانند تھا، اور اس بنا پر وہ علمی حقائق سے بے خبر تھا
The scientific errors in the Bible are the errors of mankind, for long ago man was like a child, as yet ignorant of science (p.
ایسی حالت میں محمد کے لیے کیسے ممکن ہوا کہ وہ قرآن کو مرتب کرتے ہوے بائبل کی یا اپنے زمانہ کی غلطیوں کو قرآن سے حذف کر دیں۔ وہ ایسی کتاب تیار کریں جس میں استثنائی طور پر کوئی بھی علمی غلطی موجود نہ ہو(160)۔ مصنف یہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن محمد کی کتاب نہیں وہ
ایک ماورائے انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ علم کی تاریخ ہم کو اس نتیجہ تک پہنچاتی ہے کہ قرآن میں اس قسم کی آیتوں کی موجودگی کی کوئی انسانی توجیہ ممکن نہیں
The history of science leads us to conclude that there can be no human explanation for the existence of these verses in Quran (p.
قرآن کا یہ استدلالی پہلو قرآن کی اس آیت کی تصدیق ہے جو چودہ سو سال پہلے قرآن میں شامل کی گئی تھی — ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور خود لوگوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ قرآن حق ہے۔ اور کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے(
جو لوگ قرآن کو خدا کی کتاب ماننے کے لیے اس کی سائنسی دلیل چاہتے ہیں، ان کو ڈاکٹر ماریس بکائی کی مذکورہ دونوں کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
قرآن فنی معنوں میں سائنس کی کتاب نہیں، مگر قرآن جن عقائد کو ماننے کی دعوت دیتا ہے، اس کے لیے وہ فطرت کی نشانیوں کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ یہ فطرت کی نشانیاں کیا ہیں، یہ وہی نیچر ہے جس کا مطالعہ سائنس میں کیا جاتا ہے۔
نیچر قرآن کا موضوع بھی ہے اور سائنس کا موضوع بھی۔ البتہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ قرآن میں فطرت کے بعض پہلوئوں کا ذکر بطور دلیل آیا ہے۔ جب کہ سائنس میں فطرت کا مطالعہ مستقل فن کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ مگر قرآن میں جہاں کہیں بھی نیچر کا کوئی حوالہ ہے، وہ بعد کی سائنسی تحقیقات کے مطابق ہے۔ اس مطابقت کی کوئی بھی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کو اس خدا کی کتاب مانا جائے جو تمام کھلی اور چھپی باتوں کو جانتا ہے، جس کا علم بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
راسکو پائونڈ(1870-1964ء Roscoe Pound) نے قانون کا مقصد سماجی انجینئرنگ (social engineering) بتایا ہے۔ یہ بیان یقیناً صحیح ہوتا بشرطیکہ پائونڈ یہ بھی ثابت کر سکتا کہ انسانی سماج کمپیوٹروں کا ایک مجموعہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے امریکی پروفیسر کے لیے یہ ثابت کرنا ممکن نہیں۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں وضعی قانون کی اس کمزوری کا راز چھپا ہوا ہے جس کی بنا پر وہ ڈھائی ہزار سالہ کوششوں کی تاریخ رکھنے کے باوجود اب تک اپنا کوئی قابل قبول اصول قانون دریافت نہ کر سکا۔
ایک شخص جب اصول قانون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سامنے تقریباً ایک درجن بڑے بڑے اسکولوں کے نام آتے ہیں۔ مگر فنی تفصیلات سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو ان مدارس فکر کو اصولی طور پردو قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک، نظریاتی اصول قانون (ideological jurisprudence) جو اس تلاش میں مصروف ہے کہ’’قانون کو کیسا ہونا چاہیے‘‘(law as it ought to be) دوسرے، تحلیلی اصول قانون (analytical jurisprudence) جو قانون کی تعبیر ویسی ہی کرنا چاہتا ہے’’جیسا کہ وہ ہے‘‘(law as it is) اصول قانون کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دونوں قسم کے اسکول کسی قابل قبول نتیجہ تک پہنچنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ علمائے قانون جب قانون کی تشریح ثانی الذکر اصول کی روشنی میں کرتے ہیں تو انھیں اس تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ قانون کا منطقی جواز ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور جب اول الذکر اصول کی روشنی میں قانون کو سمجھنا چاہتے ہیں تو معلو م ہوتا ہے کہ ایسی کسی چیز کی دریافت ممکن ہی نہیں۔
ایک طرف وہ علمائے قانون ہیں جو قانون کو محض اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ انسانی سماج کا ایک خارجی ڈھانچہ ہے، اس لیے اس کو معلوم قواعد و ضوابط کی روشنی میں ٹھیک اسی طرح بنایا جا سکتا ہے جیسے عجائب خانہ میں جانوروں کے لیے کٹہرا بنایا جاتا ہے۔ اسی نقطہ نظر کی ایک وکالت جان آسٹن(1790-1859ء) کا مشہور نظریہ تھا جس میں اس نے کہا
Law is what is imposed by a superior on an inferior, be that superior the king or the legislature.
یعنی قانون ان احکام کا نام ہے جو سیاسی طور پر اعلیٰ ہستی کی طرف سے سیاسی طور پر ادنیٰ ہستی کے اوپر نافذ کیا گیا ہو، یہ اعلیٰ ہستی خواہ بادشاہ ہو یا مقننہ۔
جان آسٹن(john Austin) کا یہ نظریہ بظاہر ایک قابل عمل نظریہ ہونے کے باوجود منطقی صحت سے مکمل
طور پر محرو م ہے۔ کیوں کہ یہ قانون ساز کو یہ مقام دے دیتا ہے کہ اس کا عمل انصاف کے معیاروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ حالانکہ انسانی عقل کبھی اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ انصاف (justice) کے تصور کو قانون سے الگ کر دیا جائے۔ قانون جب کسی کے اوپر ایک فیصلہ کا نفاذ کرتا ہے تو اس کا یہ فیصلہ اسی وقت جائز فیصلہ ہے جب کہ وہ انصاف پر مبنی ہو۔
تاہم آج تمام دنیا میں، عملی طور پر، جان آسٹن ہی کے نظریہ کی حکمرانی ہے۔ نام نہاد آزاد دنیا میں یہ کام بغیر کسی اصول قانون کے ہو رہا ہے۔ ایک فرانسیسی قانون داں نے جو بات اپنی حکومت کے بارے میں کہی ہے، وہی دوسری تمام حکومتوں پر بھی صادق آتی ہے
Our government has the power but not the right.
ہماری حکومت کے پاس قانون کے نفاذ کے لیے طاقت ہے مگر اس کا اسے کوئی حق نہیں۔
اشتراکی دنیا میں یہ جبری منطق اس سوویت اصول قانون کے تحت نافذ ہے کہ اشتراکی یا سماجی تعلقات (social relationships) ہی کا دوسرا نام قانون ہے۔ اشتراکی دنیا میں چونکہ علمی تحقیق بھی سیاست ہی کا ایک حصہ ہے، اس لیے باہر کی دنیا کے مفکرین کی اس تنقید کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ قانون کی یہ سوشلسٹ تفسیر قانون کے معیاری کردار (normative character) کا انکار کر رہی ہے اور قانون کو گھٹا کر صرف اقتصادی قانون بنا دیتی ہے
It reduces law to economic law.
اگر چہ عملی طور پر ساری دنیا میں یہی صورت حال ہے کہ سیاسی طاقت کے زور پر قوانین بنتے ہیں اور رائج کیے جاتے ہیں۔ مگر علمائے قانون کا ایک طبقہ اس سے بے نیا ز ہو کر اصول قانون کی علمی تلاش میں مصروف ہے۔ تاہم اس کی اب تک کی تلاش نے اس کو صرف اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ اصول قانون کے معاملہ میں کسی متفقہ معیار تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کیوں کہ اس تلاش کا مقصد قانونی معیارات (legal norms) کا تعین ہے، اور قانونی معیارات کا تعین اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ بنیادی انسانی اقدار کا تعین ہو جائے۔ اور تمام علماء کا فیصلہ ہے کہ اقتدار(values) کی دریافت خالص عقلی طریقوں سے ممکن نہیں۔
اصول قانون کا مقصد قانون کی فلسفیانہ بنیاد(Philosophical Foundation) یا اس کی قانونی قدر (legal value) تلاش کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اصول قانون کا کام یہ ہے کہ وہ قانون کے لیے وجہ جواز(justification) فراہم کرے۔ جب تک کوئی قانون اپنی پشت پر قابل قبول اصول قانون نہ رکھتا ہو، عقلاً جائز نہیں کہ وہ ان انسانوں کے اوپر نافذ کیا جائے جن کے لیے کسی چیز کی قدر و قیمت جاننے کا واحد معیار عقل ہے۔ چنانچہ معلوم تاریخ کے مطابق انسان ڈھائی ہزار سال سے اس تلاش و جستجو میں مصروف ہے، مگر بے شمار دماغوں کی جدوجہد کے باوجود اب تک وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
قانون کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب انسان لکھنا نہیں جانتا تھا، اس وقت بھی قانون کسی نہ کسی شکل میں
موجود تھا۔ تحریر کی دریافت کے بعد اس کو لکھا بھی جانے لگا۔ سب سے قدیم تحریری قانون جو مل سکا ہے، وہ سمیری بادشاہ حمورابی کا قانون ہے جو 1900 ق م میں وضع ہوا تھا۔ سمیری قوم دجلہ و فرات کی وادی میں رہتی تھی۔
اصول قانون پر غور و فکر کا کام، تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یونانی فلاسفہ سے شروع ہوا۔ سولن جو قدیم یونان کا مشہور قانون داں تھا، اس کا زمانہ مسیح سے چھ سو سال قبل کا ہے۔ افلاطون (427-347 ق م) کی کتاب قانون پر قدیم زمانہ کی مشہور ترین کتاب ہے۔ قانونی پیشہ بھی سب سے پہلے روم میں مسیح سے تقریباً پانچ سو سال قبل شروع ہوا۔ پندرھویں صدی تک قانون علم الٰہیات ہی کا ایک جزء سمجھا جاتا تھا۔ سولھویں صدی میں وہ نیا ذہن پیدا ہوا جس نے بالآخر قانون کو مذہب سے الگ کر دیا۔ تاہم اب بھی وہ علم سیاست کا ایک جزء بنا رہا۔ انیسویں صدی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے فلسفہ قانون کو فلسفہ سیاست سے الگ کیا اور اصول قانون کو ایک مستقل علم کی حیثیت سے ترقی دے کر اس کو اختصاصی مطالعہ کا موضوع بنا دیا۔
قدیم زمانہ کے فلاسفہ کچھ مسلمات سے اپنا اصول قانون اخذ کرتے تھے جن کو وہ فطری حقوق کہتے تھے۔ سولھویں صدی کے بعد یورپ میں جو ذہنی انقلاب آیا، اس نے ثابت کیا کہ یہ مسلمات حقیقۃً مفروضات ہیں جن کے لیے کوئی عقلی دلیل موجود نہیں۔ اس کے بعد فرد کی آزادی سب سے بڑا مسلمہ قرار پائی جس کو اصول قانون کی بنیاد بنایا جا سکتا تھا۔ مگر صنعتی انقلاب کے نتائج نے بتایا کہ فرد کی آزادی کو اگر خیر اعلیٰ(summum bonum) مان لیا جائے تو وہ انسانیت کو استحصال اور انارکی کے سوا اور کہیں نہیں پہنچاتی۔ اب اجتماعی بھلائی(social good) کو سب سے بڑا خیر قرار دیا گیا جو قانون سازی کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر جب اس نظریہ کے پہلے ہی استعمال سے ایک ہولناک سیاسی جبروجود میں آیا تو معلوم ہوا کہ فرد کی آزادی اگر سماج کے لیے نقصان دہ تھی تو سماجی بھلائی کا یہ نظریہ فرد کو مجبور و مقہور بنا کر رکھ دیتا ہے۔ بیسویں صدی فرد اور سماج کے درمیان مطابقت تلاش کرنے کی صدی ہے۔ موجودہ صدی کے نصف ثانی میں جن مدارس فکر کو قبولیت حاصل ہوئی، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طور پر قانون کی ایسی بنیاد ڈھونڈ رہے تھے جہاں فرد اور سماج کے مختلف تقاضوں کو ہم آہنگ کیا جا سکے۔ مگر یہ تجربہ بھی ناکامی کے سوا کہیں اور پہنچتا ہوا نظر نہیں آتا۔ آج بھی ایسی کتابیں شائع ہو رہی ہیں جن کا ٹائٹل اس قسم کا ہوتا ہے— قانون خود اپنی تلاش میں
Law in Quest of ltself.
حتیٰ کہ علمائے قانون کے ایک طبقہ نے اپنا یہ آخری فیصلہ دے دیا ہے کہ ایسی کسی کوشش کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں
A purely logical interpretation of legal rules is impossible.
قانونی احکام کی خالص منطقی تعبیر ناممکن ہے۔ گسٹاوریڈبرش(1878-1949ء) کا کہنا ہے کہ مطلوبہ قانون
صرف بذریعہ اقرار(confession) اپنایا جا سکتا ہے، نہ اس لیے کہ وہ علمی طور پر معلوم(scientifically known) ہے۔ ریڈبرش(Gustav Radbruch) کی مثال کوئی انفرادی مثال نہیں، بلکہ اسی بنیاد پر ایک مستقل مدرسۂ فکر وجود میں آیا ہے جس کو اضافی مدرسۂ فکر کہتے ہیں۔ اس فکر کے حاملین(relativists) کا کہنا ہے
Absolute judgements about law are not discoverable.
یعنی، مطلق قانون قابل دریافت نہیں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، اصول قانون کی اصل مشکل یہ ہے کہ وہ جس چیز کی تلاش میں ہے، اس کا براہ راست تعلق مسئلہ اقدار سے ہے اور یہ مسئلہ وہ ہے جہاں انسانی عقل اپنی ساری کوشش کے باوجود کسی متفقہ جواب تک پہنچنے میں قطعاً ناکام رہی ہے۔ ایک طرف یہ صورت ہے کہ انسان، وجدانی طور پر،خیر و شر کا اتنا شدید احساس رکھتا ہے کہ اس کو نہ تو اٹھارویں صدی کے میکانکی فلسفے ختم کر سکے اور نہ سوویت روس کا کلیت پسندانہ نظام، جس کو نصف صدی سے بھی زیادہ طویل عرصہ تک یہ موقع ملا کہ وہ نسل انسانی کو اپنے نظریاتی کارخانہ میں ڈھال سکے۔ دوسری طرف یہ مشکل کہ بہترین دماغوں کی ساری کوشش بھی اقدار کا کوئی متفقہ معیار تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سائنس کی ترقی اس کو زیادہ سے زیادہ واضح کرتی جا رہی ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں اقدار اپنا کوئی معروضی مقام(objective status) نہیں رکھتیں۔
جوزف وڈ کرچ(1893-1970) نے اپنی کثیر الاشاعت کتاب(The Modern Temper) میں اس کا مطالعہ کیا ہے۔’’خواہ انسان کتنی ہی کوشش کرے‘‘ پروفیسر کرچ(joseph Woodkrutch) لکھتے ہیں’’اس کی روح کے دو نصف مشکل ہی سے باہم متحد ہو سکتے ہیں۔ اور وہ نہیں جانتا کہ وہ اس طرح خیال کرے جیسے کہ اس کی عقل بتاتی ہے کہ اسے خیال کرنا چاہیے، یا وہ اس طرح محسوس کرے جیسے اس کے جذبات اس کو محسوس کراتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنی برباد اور تقسیم شدہ روح کے اندر ایک مضحکہ بن کر رہ گیا ہے‘‘۔
کرچ کا یہ جملہ اکثر نقل کیا گیا ہے— انسان ایک اخلاقی جانور ہے ایک ایسی کائنات میں جو اپنے اندر کوئی اخلاقی عنصر نہیں رکھتی۔
Man is an ethical animal in a universe which contains no ethical element. p.
کرچ کی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنے دائرہ سے باہر قدم رکھ دیا ہے۔ میں جس بنیادی نکتہ پر زور دینا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ جو چیز ثابت ہوئی ہے، وہ یہ نہیں کہ اقدار کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ انسان ان کو دریافت نہیں کر سکتا۔ یہاں میں ڈاکٹر الکسس کیرل (1873-1944ء) کا حوالہ دوں گا۔ ڈاکٹر کیرل (Alexis Carrel) نے اپنی کتاب انسان نامعلوم (Man The Unknown) میں دکھایا ہے کہ اقدار کا مسئلہ اتنے مختلف النوع علوم کی کامل واقفیت سے تعلق رکھتا ہے جن کو انسان اپنی محدود عمر میں کسی طرح حاصل
نہیں کر سکتا۔ ان کو حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنا اور نتیجہ نکالنا تو درکنار۔ انھوں نے مزید اس بات کو رد کر دیا ہے کہ ماہرین کی ایک کمیٹی اس مسئلہ کی تحقیق کرکے کسی آخری نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرے، کیوں کہ’’ایک اعلیٰ آرٹ کی تخلیق ایک ذہن کرتا ہے، اعلیٰ آرٹ کسی اکیڈمی کے ذریعہ کبھی وجود میں نہیں آتا۔‘‘
سگمنڈ فرائڈ(1856-1939ء) کے وقت سے اب تک نفسیات کے جو مختلف اسکول وجود میں آئے ہیں، وہ باہمی اختلافات کے باوجود اس مشترکہ کوشش میں مصروف رہے ہیں کہ نفسیات کا کوئی ایسا علم وجود میں لائیں جو اقدار سے آزاد (Value Free Science) ہو۔ مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ ایک صدی کی مسلسل کوششوں کے باوجود وہ اس منزل تک پہنچنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اب ان کے درمیان اس کے خلاف ردعمل شروع ہوگیا ہے۔ مثلاً امریکا کا ممتاز ماہر نفسیات ابرہام میسلو (1908-1970ء)جوخودثبوتی کرداریت (Positivistic-Behavioristic Tradition) کے زیر سایہ تیار ہوا تھا، اپنی عمر کے آخری حصہ میں وہ انسانی فطرت کے دور ترگوشے(Farther reaches of human nature) کی تلاش میں مصروف ہوگیا۔ میسلو(Abraham Maslow )کا کہنا ہے
Psychology had voluntarily restricted itself to only half of its rightful jurisdiction.
نفسیات نے اپنے جائز حدود کار کے نصف حصہ سے بطور خود اپنے آپ کو روک لیا۔
وضعی قانون کی ناکامی کے بارے میں اوپر میں نے جو اشارات کیے، وہ ہر وہ شخص جانتا ہے جس نے اصول قانون کا مطالعہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون دانوں کا یہ مفروضہ قطعی طور پر بے بنیاد ثابت ہو چکا ہے کہ انسان خود اپنے لیے قانونی معیار دریافت کر سکتا ہے۔
اس کے بعد ہمارے سامنے دوسرا مفروضہ آتا ہے اور وہ الٰہی قانون کا مفروضہ ہے۔ الٰہی قانون، جس کا محفوظ اور مستند متن قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ قانون کا ماخذ خدا کا الہام ہے۔ یعنی یہ کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ خدا نے الہام کے ذریعہ اپنا قانون اپنے رسول پر اتارا ہے، یہی قانون انسان کے لیے صحیح ترین دستور العمل ہے۔ اس قانون کی بنیاد پر قیاس اور اجتہاد کرکے مزید قانون سازی ہو سکتی ہے۔ مگر اصولی طور پر اس سے انحراف جائز نہیں۔
میں پیشگی طور پر اعتراف کرتا ہوں کہ خالص علمی اعتبار سے یہ ایک پیچیدہ دعویٰ ہے۔ مگر جو نکتہ خصوصی طور پر قابل لحاظ ہے، وہ یہ کہ اس کی پیچیدگی کے اسباب خود قانون میں ہونا ضروری نہیں۔ وہ اس واقعہ میں بھی ہو سکتے ہیں کہ ہماری عقل کچھ محدودیتوں (limitations) کا شکار ہے اور اس بنا پر وہ سارے حقائق کا براہ راست
احاطہ نہیں کر سکتی۔ خوش قسمتی سے جدید سائنس کا موقف اس معاملہ میں ہماری تائید کرتا ہے۔ جدید سائنس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حقائق کی مقدار صرف اتنی ہی نہیں جو براہ راست ہمارے حسیاتی تجربہ میں آتی ہیں، بلکہ اس سے آگے اور بھی حقائق ہیں۔ مزید یہ کہ نامعلوم حقائق نہ صر ف معلوم حقائق سے مقدار میں زیادہ ہیں بلکہ وہ معلوم حقائق کے مقابلہ میں زیادہ اہم اور معنی خیز ہیں۔ امریکی پروفیسر فرڈبرتھولڈ(Fred Berthold) نے منطقی ثبوتیت(logical positivism) کے فلسفہ کو چند لفظوں میں اس طرح سمیٹا ہے
The important is unknowable, and the knowable is unimportant
جو چیز اہم ہے وہ ناقابل دریافت ہے اور جو چیز قابل دریافت ہے، وہ اہم نہیں۔
19ویں صدی میں یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ انسان کلی حقیقت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ اس وقت بھی کلّی حقیقت عملاً انسان کی دسترس سے اتنی ہی دور تھی جتنی اس سے پہلے یا اس کے بعد رہی ہے۔ تاہم یہ یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن انسان ضرور اسے دریافت کر لے گا۔ مگر بیسویں صدی کے سائنسداں خود ثبوتیت(positivism )یا فعلیت (operationalism) کے جھنڈے کے نیچے ہم کو بتا رہے ہیں کہ یہ فرض کر لینا بالکل غلط تھا کہ سائنس ہم کو آخری حقیقت (ultimate reality) یا خیر(good) کے بارے میں کوئی بات بتا سکتی ہے۔ وقت کا دوسرا فلسفہ جس کو وجودیت (existentialism)کہا جاتا ہے، وہ بھی ہم کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کی کوئی صورت نہیں کہ محددد انسان خیر کا ایسا معیار(norm )دریافت کر سکے جو اس سے ماورا ہو۔
ان دریافتوں کے بعد انسانی علم اب جس مسلمہ پر پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ قطعی دلائل صرف اس میدان تحقیق میں قائم کیے جا سکتے ہیں جن کو برٹش فلاسفر برٹرینڈرسل (1872-1970) نے چیزوں کا علم(knowledge of things)کہا ہے۔ دوسرا میدان تحقیق جو اس کے الفاظ میں صداقتوں کا علم(knowledge of truths) سے تعلق رکھتا ہے، ان میں براہ راست دلیل قائم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ مان لیا گیا ہے کہ ہم کسی معاملہ میں قطعیت(certainty) تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ اغلب رائے (probable judgement )تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ یہ بات صرف غیر مادی حقائق تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت سی وہ چیزیں جن کو مادی حقائق میں شمار کیا جاتا ہے، ان کا معاملہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے، جیسے روشنی، یا مقناطیسی قوت کی تشریح۔
میں یہ کہنے کی جرأت کروں گا کہ فیصلہ کی یہ بنیاد جو جدید علم نے فراہم کی ہے، وہ عین الٰہی قانون کے حق میں ہے۔
الٰہی قانون کا یہ مفروضہ کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے، غالباً جدید انسان کے لیے اتنا زیادہ ناقابل فہم نہیں جتنا اس کا یہ جزء کہ خدا بذریعہ الہام اپنی مرضی انسان کے پاس بھیجتا ہے۔ اکثر بڑے بڑے سائنس داں کسی نہ کسی شکل میں خدا کو مانتے تھے۔ نیوٹن(1642-1727ء) کے نزدیک نظام شمسی کو متحرک کرنے کے لیے ایک خدائی ہاتھ (divine arm)کی ضرورت تھی۔ چارلس ڈارون (1809-1882ء) آغاز حیات کے لیے ایک خالق (creator)
کو ضروری سمجھتا تھا۔البرٹ آئن سٹائن (1879-1954ء) کو ایک برترذہن(superior mind) کی جھلک دکھائی دی جو کائنات کے مظاہر میں اپنے کو ظاہر کر رہا تھا۔ سرجیمس جینز (1877-1946ء) کے مطالعہ نے اسے اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ کائنات’’گریٹ مشین‘‘ سے زیادہ’’گریٹ تھاٹ‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ سر آرتھر ایڈنگٹن (1882-1944ء) کے نزدیک جدید سائنس ہمیں اس حقیقت تک پہنچار ہی ہے کہ— کائنات کا مادہ ایک شے ذہنی ہے
The stuff of the world is mind-stuff.
الفرڈ نارتھ وائٹ ہڈ(1861-1947ء) کے نزدیک جدید سائنسی معلومات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ فطرت ایک زندہ حقیقت ہے، نہ کہ بے روح مادہ(nature is alive)۔
تاہم جہاں تک الہام کا تعلق ہے، مجھے اعتراف ہے کہ خالص علمی اعتبار سے یہ ایک نہایت پیچیدہ عقید ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے نہیں جس کا عمومی مشاہدہ کرایا جا سکتا ہو۔ مگر یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں کہ ہمارے تجربہ میں ایسے بہت سے حقائق آتے ہیں جن سے استنباط کیا جا سکتا ہے کہ یہاں ایسی کوئی حقیقت پائی جاتی ہے جس کو الہام سے تعبیر کیا جا سکے۔ جدید میتھڈ الوجی اس کو تسلیم کرتی ہے کہ مستنبط حقائق(infered facts) بھی اتنے ہی یقینی ہو سکتے ہیں جتنے کہ مشہور حقائق (observed facts)۔ اس لیے ہمارے استدلال کی اہمیت اس سے کم نہیں ہوتی کہ وہ مشاہداتی نہیں ہیں بلکہ استنباطی نوعیت کے ہیں۔
19ویں صدی میں قانون تعلیل(principle of causation) کو خالق کا بدل سمجھ لیا گیا تھا۔ مگر موجودہ صدی میں ایسے بہت سے واقعات سائنس کے علم میں آئے ہیں جن کی توجیہ اسباب مادی کے عام اصول کے تحت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ریڈیم کے الیکٹران کا ٹوٹنا، جن کو معلوم قوانین کے تحت بیان کرنے کی ساری کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ ایک سائنس داں کو کہنا پڑا کہ ریڈیم کے کسی ٹکڑے میں کون سا الیکٹران کس وقت ٹوٹے گا، اس کا فیصلہ کرنا خدائوں کے اختیار میں ہے، خواہ وہ جو بھی ہوں
It may rest on the knees of whatever goods there be
حیوانات کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے۔ حیوانات کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ ان کے اندر جو حیات(instinct) ہوتی ہے، وہ اکتسابی نہیں۔ مثلاً شہد کی مکھی اپنے چھتہ کو ہشت پہل (hexagon) بناتی ہے۔ کسی تربیت نے اس کو نہیں بتایا کہ ہشت پہل خانہ(hexagon shelfe) اس کے مقصد کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے، حتیٰ کہ وہ اس کی معنویت کا بھی کوئی ذاتی شعورنہیں رکھتی۔ اس کے باوجود وہ اس ریاضیاتی طریق تعمیر میں اس طرح مصروف رہتی ہے جیسے اس سے کسی نے کہہ دیا ہو کہ تم ایسا ہی کرو۔ قرآن کے مطابق، معاملہ ایسا ہی ہےوَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ(
اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جو ہمیں اس اغلبیت کی طرف لے جاتے ہیں کہ اشیاء سے باہر کوئی شعور ہے جو اشیاء کو ان کے وظیفۂ حیات کے بارے میں ہدایات دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ سر آرتھر اڈنگٹن نے جدید کوانٹم نظریہ کو الہام کی سائنسی تصدیق قرار دیا ہے۔ قرآن کا یہ بیان بیسویں صدی کے انسان کے لیے شاید اس سے زیادہ
قابل فہم ہے جتنا وہ ساتویں صدی کے انسان کے لیے ہو سکتا تھا
وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا (
اس کے بعد جب ہم انسان کے مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ جس کو حیاتیاتی حصہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرا وہ جس کو نفسیاتی حصہ کہا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کا حیاتیاتی حصہ ٹھیک اسی طرح مکمل طور پر خارجی قوانین کا پابند ہے جس طرح کائنات کی دوسری چیزیں اس کی پیروی کر رہی ہیں۔ وہ چیز جس کو میڈیکل سائنس کہا جاتا ہے، اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان مخفی قوانین فطرت کا پتہ لگائے جس کے تحت انسانی زندگی کا حیاتیاتی حصہ کام کرتا ہے اور اس کو اس حصہ انسانی پر استعمال کرے۔ اب اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ قانون فطرت جو ستاروں اور سیاروں سے لے کر انسان کے حیاتیاتی حصہ تک کار فرما ہے، اس کا ماخذ وہ الہام ہے جو کائناتی شعور کی طرف سے ہر ایک کو پہنچ رہا ہے تو اس کے بعد، اسی پر قیاس کرتے ہوئے، یہ ماننا خود بخود آسان ہو جاتا ہے کہ انسان کے نفسیاتی حصہ کے لیے قانون کا تعین بھی اسی شعور کی طرف سے ہو سکتا ہے اور اسی کی طرف سے ہونا چاہیے۔
خالص عقلی نقطۂ نظر سے کہا جا سکتا ہے کہ اس استدلال کی بنیاد ایک ’’قیاس‘‘ پر قائم ہے۔ مگر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کی ساخت کچھ اس ڈھنگ پر ہوئی ہے کہ قیاسی استدلال سے مفر اس کے لیے ممکن نہیں۔ اگر وہ قیاسی استد لال کو تسلیم کرنے سے انکار کرے تو لازماً اس کو تشکیک کی پناہ گاہ میں جانا پڑے گا۔ جو عملی طور پر ناممکن ہے۔
قرآن نے بھی اس معاملہ میں جواب کا یہی انداز اختیار کیا ہے وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (
یہاں وحی سے متعلق سوال کے جواب میں دو باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ امر رب ہے جس طرح سارا نظام عالم امر رب(قانون فطرت) کے ماتحت ہے۔ یہ کوئی منفرد چیز نہیں بلکہ انسانی دائرہ میں وہی چیز ہے جس کا مشاہدہ تم کائنات کے دائرہ میں کر رہے ہو۔ دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ وحی کو عقلی طور پر سمجھنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ تم اس حقیقت واقعہ کو تسلیم کرو کہ انسان کو علم قلیل دیا گیا ہے۔ اس کو علم کثیر نہیں دیا گیا۔ اس واقعہ کو مان کر چلو گے تو وحی کی حقیقت سمجھ جائو گے اور اگر اس واقعہ کا انکار کرکے سمجھنا چاہو تو تم اس کو نہیں سمجھ سکتے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ تیرہ سو برس کا اعلان آج سائنس کے جدید ترین مرحلہ میں اپنی صداقت کو مزید شدت کے ساتھ ثابت کر رہا ہے ۔ پہلی جنگ عظیم(1914-18ء) کے ساتھ جس نئے دور سائنس کا آغاز ہوا ہے،
اس نے قطعیت کے ساتھ تسلیم کر لیا ہے کہ انسان بعض حیاتیاتی اور نفسیاتی محدودیتوں کا شکار ہے، اس لیے وہ سارے حقائق کو اپنے محسوسات کی گرفت میں نہیں لا سکتا۔ ضروری ہے کہ اپنے قلت علم کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ مروجہ سائنسی طریقوں پر بعض ایسے طریقوں کا اضافہ کرے جو انیسویں صدی تک غیر سائنسی سمجھے جاتے تھے۔
آئن سٹائن نے کائنات کے بارے میں جو انقلاب انگیز سائنسی نظریات وضع کیے، اس کے سلسلے میں اس نے اعتراف کیا کہ یہ کام اس طریقہ کی پابندی کرکے نہیں ہو سکتا جو مثال کے طور پر، حرکیات گیس کا نظریہ (Kinetic Theory of Gases) میں کارآمد ہے۔ یہاں اس نے ترکیبی طریقہ(synthetic method) کے بجائے تحلیلی طریقہ (analytical method) سے کام لیا۔ اس نے سائنسی نظریات کی دو تقسیم کیں۔ ایک عمارتی نظریات(constructive theories) دوسرے اصولی نظریات (principle theories) ۔اس نے کہا کہ نظریہ اضافیت(relativity) کو سمجھنے کے لیے صرف دوسرے قسم کا نظریہ ہی کام دے سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کائنات کے گہرے حقائق کو سمجھنے کے لیے سائنسی مشاہدہ کے بجائے ایک قسم کے سائنسی تصور (scientific contemplation)کی وکالت کی۔ چنانچہ ایک پروفیسر نے آئن سٹائن کے نظریہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان کیا ہے
In dealings with the eternal verities, the area of experiment is reduced and that of contemplation enhanced.
ابدی حقیقتوں کی بحث میں تجربہ کا دائرہ گھٹ جاتا ہے اورتصور کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔
قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک الہامی قانون ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے اتارا گیا ہے۔ یہ بات کہ وہ فی الواقع ایک الہامی قانون ہے، اس کے لیے خود قرآن نے بڑی عجیب دلیل دی ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ انسان کبھی بھی اس کے جیسی کتاب نہ بنا سکے گا، خواہ وہ اس کے لیے کتنی ہی کوشش کر ڈالےوَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (
انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی کے مقالہ نگار کے الفاظ میں، فلسفیانہ اعتبار سے جو بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ وہ کیا معیار ہے جس پر الہام کے دعوے کو جانچا جا سکے
The main philosophical question that arises concerns the criteria by which revelation claims may be judged.
قرآن کے سلسلے میں اگر ہم ایسا کر سکیں کہ اس کے مذکورہ بالا دعوے کو اس جانچ کا معیار مان لیں تو یہ معیار حیرت انگیز طور پر یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ خدائی الہام ہے۔ پچھلی
اب تک کے مطالعہ نے ہمیں جہاں پہنچایا ہے، اس میں اگر ایک اور قرینہ کو ملا لیا جائے تو شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ زیر بحث مسئلہ بڑی حد تک قابل فہم ہو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ الٰہی قانون نے جو قانونی اصول اب سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے متعین کیے تھے، وہ حیرت انگیز طور پر اب بھی اپنی صحت کو باقی رکھے ہوئے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اس درمیان میں وضعی قانون نے اس کو رد کر کے جو متبادل اصول مقرر کیے تھے وہ دو سو سالہ تجربہ میں ناکام ثابت ہوگئے اور اب علم کا دریا دوبارہ اس سمت میں جا رہا ہے جہاں اس نے الٰہی قانون کو چھوڑا تھا۔ وضعی قانون کے مقابلہ میں الٰہی قانون کی یہ ابدیت اسی وقت قابل فہم ہو سکتی ہے جب کہ یہ مانا جائے کہ اس کا سرچشمہ انسانی ذہن کے باہر کسی ابدی ذہن میں پایا جاتا ہے۔
میں یہاں چند مثالیں دوں گا
1۔ الٰہی قانون میں فرد کی آزادی کو خدائی حکم کے پابند کیا گیا ہے
يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ(
یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد عالمی ذہن میں جو انقلاب آیا، اس نے اس اصول کو غلامی سے تعبیر کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ آزادی سب سے بڑی انسانی قدر ہے۔ فرانس کے انقلاب (1789ء) سے لے کر اب تک اس اصول کو دو سو برس تجربہ کرنے کا موقع ملا۔ مگر اس تجربہ کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ اب ایسے محققین پیدا ہو رہے ہیں جو فرد کی آزادی کو بے معنی قرار دے رہے ہیں۔ پروفیسراسکنر(1904-1990ء) کا کہنا ہے کہ— ہم آزادی کا تحمل نہیں کر سکتے
We can`t afford freedom.
اٹھارویں اور انیسویں صدی کے مفکرین کے برعکس اسکنر(B. F. Skinner) کا کہنا ہے کہ آزادی کوئی خیر اعلیٰ(summum bonum) نہیں۔ انسان کو لامحدود آزادی نہیں بلکہ پابند نظام(disciplined culture) چاہیے۔ انسانی فکر کی یہ واپسی الٰہی قانون کی ہدایت کا بالواسطہ اعتراف ہے۔
2۔ الٰہی قانون کی رو سے مرد اور عورت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے اور عملی زندگی میں مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ(
وضعی قوانین نے اس اصول کو مکمل طور پر غلط قرار دیا۔ مگر سو برس کے تجربہ نے بتایا کہ الٰہی قانون ہی اس معاملہ میں حقیقت سے قریب تر ہے۔ آزادی نسواں کی تحریک کی تمام تر کامیابیوں کے باوجود آج بھی’’مہذب‘‘ دنیا میں دہی جنس برتر(dominant sex) کی حیثیت رکھتا ہے۔ آزادی نسواں کے علم بردار یہ کہتے تھے کہ عورت اور مرد کا فرق محض سماجی حالات کی پیداوار ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں، مختلف متعلقہ شعبوں میں، اس مسئلہ کا جو گہرا مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے ثابت ہوا ہے کہ صنفی فرق کے پیچھے حیاتیاتی عوامل (biological factors) کار فرما ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جیروم کاگن(پیدائش1929ء) کے مطالعہ نے اسے بتایا ہے
Some of the psychological differences between men and women may not be the product of experience alone but of subtle biological differences. p.
مرو اور عوروں میں بعض نفسیاتی فرق محض معاشرتی تجربات کی وجہ سے نہیں ہو سکتے، بلکہ وہ لطیف قسم کے حیاتیاتی فرق کی پیداوار ہیں۔
ایک امریکی سرجن Edgar Berman کا فیصلہ ہے کہ ’’ عورتیں اپنی ہارمون کیمسٹری کی وجہ سے اقتدار کے منصب کے لیے جذباتی ثابت ہو سکتی ہیں‘‘
Because of their hormonal chemistry women might be too emotional or positions of power.
(Time Magazine. March 20. 1972, p.
امریکا میں آزادیٔ نسواں کی تحریک کافی طاقتور ہے مگر اب اس کے حامی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی راہ کی اصل رکاوٹ سماج یا قانون نہیں بلکہ خود فطرت ہے۔ فطری طور پر ہی ایسا ہے کہ عورت بعض حیاتیاتی محدودیت(limitations of biology) کا شکار ہے۔ میل ہارمون اور فیمیل ہارمون کا فرق دونوں میں زندگی کے آغاز ہی سے موجود ہوتا ہے۔ چنانچہ تحریک نسواں کے پرجوش حامی کہنے لگے ہیں کہ فطرت ظالم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پیدائشی سائنس (science of eugenics) کے ذریعے جینٹک کوڈ کو بدل دیں اور نئے قسم کے مرد اور نئی قسم کی عورتیں پیدا کریں۔ یہ ہے وہ آخری انجام جو امریکی عورت کے نعرہ ’’پالیسی بنائو کافی نہ بنائو‘‘ (make policy not coffee)کا دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں ہواہے۔
یہ واقعہ اس بات کا ایک تجرباتی قرینہ ہے کہ وضعی قانون کے مقابلہ میں الٰہی قانون میں فطرت کی رعایت زیادہ پائی جاتی ہے۔
3۔ الٰہی قانون میں سزا کا خاص مقصد نَکال(دوسروں کے لیے عبرت) بتایا گیا ہے (البقرہ،
رک جائیں۔ مگر جدید دور میں اس کو رد کر دیا گیا۔ پہلا نمایاں شخص جس نے مجرمین کی سزا میں تخفیف کی وکالت کی وہ اٹلی کا ماہر جُرمیات کیساری بیکریا (1738-1794ء) تھا۔ اس کے بعد سے اب تک جُرمیات(criminalogy) کے موضوع پر بہت کام ہوا ہے۔ ماہرین کا عام طور پر یہ خیال ہوگیا تھا کہ جرم کوئی’’ارادی واقعہ‘‘ نہیں، اس کے اسباب حیاتیاتی ساخت، ذہنی بیماری، معاشی تنگی، سماجی حالات وغیرہ میں ہوتے ہیں۔ اس لیے مجرم کو سزا دینے کے بجائے اس کا ’’علاج‘‘ کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ تین درجن سے زیادہ ایسے ملک ہیں جھنوں نے موت کی سزا کو اپنے یہاں ختم کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ خاتمہ بھی صرف اخلاقی جرائم کی حد تک ہوا ہے۔ سیاسی اور فوجی جرائم کے سلسلے میں اب بھی ہر ملک ضروری سمجھتا ہے کہ مجرم کو سخت ترین سزا دی جائے۔
مگر جنگ عظیم ثانی کے بعد جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کو روکنے کی تمام معالجاتی تدبیریں ناکام ہو چکی ہیں۔ چنانچہ کئی ملکوں مثلا ڈیلاویر(Delaware) اورسری لنکا میں پہلے سزائے موت ختم کی گئی تھی اور اب اس کو دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ ماہرین قانون میں دوبارہ ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایک بیرسٹر نے کہا ہے’’لوگوں میں یہ عام تاثر ہونا کہ کسی بھی شخص کو قتل کرنا، مجرم کو موت کی سزا کا مستحق بناتا ہے، اپنے اندر بہت بڑی مانع قدر(deterrent value) رکھتا ہے‘‘۔یہ تجربہ اس مفروضہ کی تصدیق کرتا ہے کہ جرم کی سزا کا مسئلہ جن پیچیدہ سوالات سے گہری واقفیت چاہتا ہے، الٰہی قانون میں اس کی رعایت وضعی قانون سے زیادہ پائی جاتی ہے۔
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا، اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے
1۔ وضعی قانون کوئی قابل قبول اصول قانون دریافت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ مزید یہ کہ وہ آئندہ بھی ناکام ہی رہے گا۔ کیوں کہ انسان کی محدودیت یہاں راہ میں حائل ہو رہی ہے۔
2۔ وہ واقعہ جس نے انسان کے لیے اصول قانون کی دریافت کو ناممکن بنا دیا ہے، اسی میں الٰہی قانون کی صداقت کا قرینہ چھپا ہوا ہے۔ کیوں کہ ایک طرف ذہن انسانی کی محدودیت اور دوسری طرف حقائق کی وسعت ظاہر کر رہی ہے کہ کوئی ایسا ذہن ہو جو انسانی ذہن سے برتر ہو اور جس کے اندر سارے حقائق موجود ہوں۔
3۔ کائنات میں ایسے واقعات ہیں جو فطرت اور جبلّت کی سطح پر الہام کا امکان ثابت کر رہے ہیں۔ الٰہی قانون اس میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے کہ اس الہام کو انسان تک وسیع کر دیتا ہے۔ یہ واقعہ اس مفروضہ کو مزید موید کرتا ہے کہ موجودہ الٰہی قانون میں کچھ ایسے برتر امتیازی خصوصیات ہیں جو اسی وقت قابل فہم ہو سکتی ہیں جبکہ یہ مانا جائے کہ وہ ایسے ذہن سے نکلا ہے جو انسان کے مقابلہ میں زیادہ وسیع طور پر حقائق کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ الٰہی قانون ہی اصول قانون کی تلاش کا جواب ہے جب بھی چند سوالات باقی رہتے ہیں
1۔ مختلف مذاہب’’الٰہی قانون‘‘ کا حامل ہونے کے دعوے دار ہیں اور ان میں کافی اختلافات بھی ہیں۔ پھر وہ کون سا معیار ہوگا جس کی بنیاد پر کسی ایک مذہب کے قانون کو الٰہی قانون قرار دیا جائے گا۔
2۔ کسی ایک مذہب کو معیار ماننے کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ان کے اندرونی اختلافات کو طے کرنے کی صورت کیا ہوگی۔
3۔ یہ الٰہی قانون ہزار برس سے بھی زیادہ قدیم زمانہ میں آیا۔ اس دوران انسانی سماج میں بےشمار تبدیلیاں واقع ہوئیں، پھر اس کو نئے حالات کے مطابق کس طرح بنایا جائے گا۔
یہ تین بڑے سوالات ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کےبارے میں مختصراً عرض کروں گا
مذاہب کی کثرت سے یہ بات یقیناً ثابت ہوتی ہے کہ ہر زمانہ میں اور ہر قوم میں خدا کی طرف سے اس کا قانون بھیجا گیا۔ مگر ان کا باہمی اختلاف یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ہی ہوگا جس کو الٰہی قانون کا صحیح نمائندہ قرار دیا جا سکے۔ تعدد(pluralism) عقلی طور پر ناقابل فہم عقیدہ ہے۔ اب سوال ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو مستند نمائندہ کی حیثیت سے منتخب کرنے کی صورت کیا ہو۔ اس کا بالکل سیدھا سادا علمی طریقہ یہ ہے کہ ان کو تاریخ کے معیار پر جانچا جائے اور جس مذہب کا تاریخی طور پر محفوظ اور معلوم ہونا ثابت ہو جائے اس کو لے لیا جائے۔
اگر میں یہ کہوں تو یقیناً میں کسی صاحب علم کی معلومات میں اضافہ نہیں کروں گا کہ تاریخی جانچ کی کسوٹی پر صرف ایک ہی مذہب پورا اترتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ آپ کوئی بیاگریفیکل ڈکشنری کھولیں تو تمام پیغمبروں میں محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اکیلے ہوں گے جن کے نام کے آگے عام قاعدہ کے مطابق قوسین میں(570-632ء) لکھا ہوا ہوگا جس طرح دوسری تاریخی شخصیتوں کے نام کے آگے ہوتا ہے۔ حضرت محمد واحد پیغمبر ہیں جن کی زندگی تاریخ کے تحریری ریکارڈ میں شامل ہے۔ آپ کے متعلق ہر بات معلوم ہے اور آپ کے تبرکات اور مکتوبات تک اصلی حالت میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ معاصر مورخین کے یہاں بھی آپ کا نام ثبت ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر عین آپ کے زمانۂ حیات میں ساتویں صدی عیسوی میں آرمینی زبان میں ایک کتاب(Chronicle of Sebeos) لکھی گئی۔ اس کتاب کا آرمینی متن پٹروگریڈ سے 1879ء میں
He was an Ishmaelite who taught his countrymen to return to the religion of Abraham and claim the promises made to the descendent of Ismael.
(وہ ایک اسماعیلی تھے جنھوں نے اپنے اہل ملک کو یہ تعلیم دی کہ وہ ابراہیم کے مذہب کو اپنائیں اور یہ دعویٰ کیا کہ خدا ان
وعدوں کو ان پر پورا کرے گا جو اس نے اسماعیل کی اولاد کے ساتھ کیے ہیں)۔ یہ صرف حضرت محمد کی خصوصیت ہے کہ جب کوئی محقق آپ پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ لکھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کی کامل روشنی میں پیدا ہوئے
....born within the full light of history.
اسی طرح وہ قرآن جس کو حضرت محمد نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے پاس خدا کی طرف سے آیا ہے، وہ مکمل طور پرمحفوظ ہے، تمام محققین نے اس کو بطور واقعہ تسلیم کیا ہے۔ یہ صرف قرآن ہی کی خصوصیت ہے کہ اس کے بارے میں جب آپ کسی محقق کو پڑھتے ہیں تو اس کے یہاں لکھا ہوا ملتا ہے
The Quran appears to be the most part authentic. The very words that he uttered as a revelation and that were collected in his lifetime.
یعنی قرآن بالکل مستند شکل میں محفوظ ہے۔ حضرت محمد نے جو الفاظ بطور الہام اپنی زبان سے نکالے تھے، قرآن عین انھیں الفاظ پر مشتمل ہے جو آپ کی زندگی ہی میں مرتب کر لیا گیا تھا۔ مقدس کتابوں کی تاریخ میں یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ ہرن کی کھال پر لکھا ہوا وہ قرآن آج بھی تاشقند کی لائبریری میں محفوظ ہے جو پیغمبر اسلام کے داماد اور خلیفہ ثالث عثمان غنی(624-656ء) کے زیرِمطالعہ رہتا تھا۔ قرآن کے ابتدائی نسخہ اور موجودہ متداول نسخوں میں ایک لفظ کا بھی فرق نہیں۔
سرولیم میور(1819-1905ء) نے لکھا ہے
’’یہی ایک نکتہ کہ مسلمانوں کے فرقے ہر زمانہ میں قرآن کے ایک ہی نسخے کے پیرو رہے ہیں، قطعی طور پر ثابت کر دیتا ہے کہ جو قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہی قرآن ہے جسے عثمان کے حکم سے جمع کیا گیا۔ میرا گمان ہے کہ قرآن کے سوا تمام دنیا میں کوئی کتاب نہیں جس کا متن بارہ صدیوں تک اتنا محفوظ اور آلائش سے پاک رہا ہو۔‘‘
Except the Qur`an there is no other book under the sun, which for the last twelve centuries has remained with so pure a text.
Life of Mohammed, Introduction by Sir W, Muir, London.1858.
میں شاید کہنے میں حق بجانب ہوں کہ الٰہی قانون کی بنیادی صداقت کو تسلیم کرنے کے بعد ان میں سے کسی کو اختیار کرنے کا سب سے زیادہ غیر مشتبہ علمی معیار تاریخ ہی ہو سکتا ہے اور وہ بلاشبہ قرآن کے حق میں فراہم ہوگیا ہے۔
اب یہ سوال ہے کہ خود اسلام کے اندرونی اختلافات کو کس طرح طے کیا جائے۔
یہ مسئلہ جوبظاہر بھیانک معلوم ہوتا ہے اس وقت بالکل معمولی نظر آنے لگا ہے جب ہم اس حقیقت کو سامنے رکھیں کہ انسانی طبائع میں اختلاف کی وجہ سے تعبیرات و تشریحات میں اختلاف ناگزیر ہے۔ یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے نہ کہ زندگی کا ایک مسئلہ۔ اس کا نہایت سادہ حل قرآن نے یہ تجویز کیا ہے کہ جب کوئی اختلافی سوال کھڑا ہو تو ہر شخص اس پر طبع آزمائی نہ کرے بلکہ اس کو ان لوگوں کے پاس لے جایا جائے جو علم اور تحقیق کے مالک ہیں
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ(
یہ اختلاف پیدا ہونے کی شکل میں پہلا قدم ہے ۔ لیکن اگر اصحاب علم کی مجلس بھی کسی ایک رائے پر نہ پہنچ سکے تو آخری تدبیر یہ بتائی گئی کہ رائے شماری کے ذریعہ کسی ایک فیصلہ پر پہنچ کر اس کے مطابق عمل کرووَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (
اس کا مطلب یہ ہے کہ الٰہی قانون کا اندرونی اختلاف صرف ایک علمی مسئلہ ہے، وہ کوئی عملی مسئلہ نہیں۔ الٰہی قانون میں چونکہ بنیادی اصول طے شدہ ہیں، اس لیے علمی بحثیں اسی کے دائرہ میں ہوں گی۔ ان بحثوں سے نہ صرف یہ کہ کوئی حقیقی خرابی نہیں پیدا ہوتی بلکہ وہ کئی پہلوئوں سے فکری ارتقاء میں مدد گار ہیں۔ جہاں تک عملی ضرورت کے لیے کسی ایک تعبیر کے تعین کا سوال ہے، وہ اجتماعی ادارہ یا پارلیمنٹ کے ذریعہ پوری ہو جاتی ہے۔
نئے پیدا شدہ حالات کے سلسلے میں الٰہی قانون کی رہنمائی کس طرح حاصل ہوگی، اس کا جواب اجتہاد ہے۔ اجتہاد کا مطلب سادہ طور پر یہ ہے کہ خدا نے جو بنیادی قانون (قرآن کی صورت میں) دیا ہے اور خدا کے رسول نے اس کی جو لسانی یا علمی تشریح کی ہے، اس کا گہرا علم حاصل کرنا اور اس کو سامنے رکھ کر پیش آمدہ مسائل میں الٰہی قانون کا انطباق تلاش کرنا۔ اس انطباق کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ قرآن و حدیث سے قانونی دفعات اخذ کرکے اس کو ہر زمانہ میں نافذ کیا جاتا رہے۔ بلکہ اس میں خود خارجی دنیا کے غیر متصادم قوانین کو الٰہی قانون کے ڈھانچہ میں قبول کرنا بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر خلیفہ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں عراق، مصر اور شام فتح ہوئے تو آپ نے ان ملکوں میں سابقہ رومی، یونانی اور ایرانی قانون مال گزاری کو باقی رکھا۔ البتہ جو چیزیں ظلم نظر آئیں، ان میں اصلاح و ترمیم کر دی۔ اسی طرح درآمد و برآمد اور کسٹم کے لیے یہ قانون مقرر کیا کہ بیرونی ممالک میں مسلمان تاجروں کے ساتھ جو معاملہ کیا جاتا ہے وہی معاملہ وہاں کے تاجروں کے ساتھ اسلامی سلطنت میں کیا جائے۔
اجتہاد کا عمل اسلام کی ہزار سالہ تاریخ میں مسلسل جاری رہا ہے۔ مدینہ کی ابتدائی ریاست (622-632ء) ایک سادہ عرب ریاست تھی جس میں پیغمبر اسلام نے الٰہی قانون کو نافذ کیا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے زمانہ میں جب اطراف کے متمدن ممالک اسلامی ریاست میں شامل ہوئے تو بہت سے نئے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔ اس وقت عمر فاروق(636-644ء) نے اجتہاد سے کام لے کر نئے حالات کے مطابق الٰہی نظام کو قائم کیا جس کی تفصیل مولانا شبلی نعمانی (1857-1914ء) کی کتاب الفاروق میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پھر خلافت عباسیہ کے زمانے میں جب اسلامی سلطنت کو مزید وسعت ملی اور نظام زیادہ وسیع اور پیچیدہ ہوگیا تو امام ابو یوسف (782-798ء) سامنے آئے جو نہ صرف وقت کی سب سے بڑی سلطنت کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) تھے بلکہ موجودہ زمانہ کی اصطلاح میں وزارت قانون کا عہدہ بھی انھیں حاصل تھا۔ انھوں نے الٰہی قانون کو نئے وسیع تر حالات سے ہم آہنگ کر دیا جس کا ریکارڈ خود ان کی
لکھی ہوئی ’’کتاب الخراج‘‘ میں موجود ہے۔ اس کے بعد انیسویں صدی میں جب دنیا کے حالات میں دوبارہ انقلابی تبدیلیاں ہوئیں تو ترکی سلطان عبدالعزیز عثمانی(1860-1876ء) کے حکم سے ماہرین قانون، فقہاء اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدہ داروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے وہ مجموعۂ قانون مرتب کیا جو مجلۃ الاحکام الشرعیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مجلہ میں فقہ اسلامی کے اس حصہ کو، جس کو سول لاء یا دیوانی قانون کہا جاتا ہے، دفعہ وار قوانین کی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ قانون1918ء تک خلافت عثمانیہ میں رائج رہا اور مصر، سوڈان، شام، حجاز، عراق اور شرق اردن کی عدالتیں اسی کے مطابق فیصلے کرتی رہیں۔ آج بھی اردن اور سعودی عرب میں یہی قانون کسی قدر ترمیم کے ساتھ رائج ہے۔ مجلۃ الاحکام الشرعیہ ابتداً عربی اور ترکی زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ترجمے انگریزی اور دوسری زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
اجتہاد کا یہی طریقہ اختیار کرکے آج بھی الٰہی قانون کو وقت کی ضرورتوں کے مطابق بنایا جا سکتا ہے اور آئندہ بھی بنایا جاتا رہے گا۔
نوٹ یہ مقالہ مذہب۔ اخلاق۔ قانون پر ہونے والے بین الاقوامی سیمینارInternational Seminar on Religion-Morality-Law. (نئی دہلی،
امریکا میں حالیہ دنوںایک نئی فکری تحریک ابھری ہے جس کو عام طور پر خاتمیت(endism) کہا جاتا ہے۔ اس تحریک کا ایک ابتدائی تعارف ٹائمس آف انڈیا (
The Beginning of Endism: can History stop?
مینی سوٹا کے ایک کالج(Gustarus Adolphus College) میں اکتوبر 1989ء میں ایک سیمینار ہوا۔ اس سیمینار کا موضوع تھا سائنس کا خاتمہ(The End of Science) ۔اس سیمینار کے منتظمین نے اس کے تعارف نامہ میں لکھا تھا کہ جب ہم اپنی آج کی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو یہ ناخوشگوار احساس ہوتا ہے کہ ہم سائنس کے خاتمہ کے دور میں پہنچ چکے ہیں۔ سائنس ایک متحد، عالمی اور موضوعی کوشش کی حیثیت سے اب ختم ہو چکی ہے
As we study our world today, there is an uneasy feeling that we have come to the end of science, that science, as a unified. universal, objective endeavour, is over.
امریکا جدید ترقی یافتہ دنیا کا امام ہے۔ امریکا کے سابق صدر رہنری ٹرومین نے 1947ءمیں پر فخر طور پر کہا تھا کہ بیسویں صدی امریکا کی صدی(American century) ہے۔ اور امریکا آزاد دنیا(free world) کا لیڈر ہے۔ مگر صدی کے خاتمہ سے پہلے ہی امریکا کی عالمی لیڈر شپ کا خواب منتشر ہوگیا۔
مذکورہ نئے فکر کا آغاز امریکا میں1960ء میں ہوا جب کہ ڈینیل بل(Daniel Bell) کی کتاب نظریہ کا خاتمہ(End of Ideology) شائع ہوئی۔ اب1989ء میں فوکویاما(Francis Fukuyama) کی کتاب تاریخ کا خاتمہ(The End of History) کی اشاعت نے اس موضوع کو ازسر نو زندہ کر دیا ہے۔
آج کل امریکا میں کثرت سے ایسی کتابیں اور ایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جن کا نام اور عنوان اس قسم کا ہوتا ہے— سائنس کا خاتمہ، کمیونزم کا خاتمہ، ویسٹرنزم کا خاتمہ، نیشنلزم کا خاتمہ، آئیڈیالوجی کا خاتمہ
The End of Science, The End of Westernism,
The End of Communism, The End of Nationalism.
The End of Liberalism. The End of ideology.
جدید انسان کا کہنا تھا کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایک پرسکون زندگی کے تمام سامان حاصل کر سکتا ہے۔ امریکا میں سازو سامان عملی طور پر تقریباً حاصل ہو چکا ہے۔ مگر ان سامانوں نے بالآخر انسان کو جہاں پہنچایا وہ سکون(peace) نہیں تھا، بلکہ صرف بوریت(boredom) تھی۔
یہی ان تمام فلسفوں اور نظاموں کا حال ہوا ہے جن پر انسان نے موجودہ صدی کے آغاز میں پر جوش طور پر بھروسہ کر لیا تھا۔ کمیونزم کو بہت سے لوگوں نے آخری انسانی دریافت سمجھا تھا، مگر اب خود کمیونزم کے مرکز(سوویت روس) نے کمیونزم کو ناقص نظام قرار دے دیا۔ مغربی تہذیب مختلف قسم کے لاینحل مسائل(مثلاً عورتوں کی آزادی کے نتیجہ میں خاندانی انتشار) میں پھنس کر رہ گئی۔ نیشنلزم نے مختلف قوموں کو الگ الگ متحارب گروہوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح یہ نظریہ عالمی امن کی راہ میں ایک مستقل رکاوٹ بن گیا۔ انسانی نظریہ سازی کا خواب اس صورت واقعہ سے ٹکرا گیا کہ انسان کے ذرائع معلومات لازمی محدودیت کا شکار ہیں۔ اور اس محدودیت کے رہتے ہوئے کوئی کامل نظریہ بنانا ممکن نہیں۔
یہ ایک نہایت عجیب صورت حال ہے جو بیسویں صدی کے خاتمہ پر سامنے آئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں تمام انسانی نظامات ناکام ہوگئے۔ تمام نظریات اور تمام سائنسی علوم ناقص ثابت ہوئے۔ یہاں تک کہ ہر ایک کاخاتمہ(end) آگیا۔ مگر خدا کے دین کاخاتمہ(end) نہیں آیا۔ خدا کے دین کی کوئی بات نہ فکری طور پر بے بنیاد ثابت ہوئی اور نہ اس کا عملی نظام کسی پہلو سے غلط ثابت کیا جا سکا۔ وہ آج بھی اپنی حقانیت کو بدستور زندہ اور قائم رکھے ہوئے ہے۔
اس طرح گویا اللہ تعالیٰ نے ہمارے حصہ کا آدھا کام پیشگی طور پر انجام دے دیا ہے۔ اس نے خود اپنے برتر انتظام کے تحت مدعو کو’’لاالہ‘‘ کے مقام تک پہنچا دیا ہے۔ اب داعیوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اس کے آگے’’الااللہ‘‘ کا اضافہ کرکے اس کی تکمیل کر دیں۔ اب بھی اگر مسلمان دعوت الیٰ اللہ کے کام کے لیے نہ اٹھیں تو یہ اتنی بڑی کوتاہی ہوگی جس کے لیے نہ دنیا میں ان کے پاس کوئی عذر ہوگا اور نہ آخرت میں۔
خاتمیت(endism) کی جس جدید تحریک کا اوپر ذکر کیا گیا، اس کی فہرست میں کچھ لوگ مذہب کو بھی شامل کرتے ہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں ایسے مضامین بھی شائع ہو رہے ہیں جن کا عنوان ہوتا ہے— مذہب کا خاتمہ(The End of Religion)۔ مگر ’’کمیونزم کا خاتمہ‘‘ اور’’مذہب کا خاتمہ‘‘ دونوں عنوانات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ جب کمیونزم کا خاتمہ کے الفاظ بولے جائیں تو اس کا مطلب خود اس نظریہ کا خاتمہ ہوتا ہے جس کو کمیونزم کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کمیونزم عین اپنی مارکسی تشریح کے مطابق، تجربہ میں لایا گیا اور ناکام ہوگیا۔
اس کے برعکس’’مذہب کا خاتمہ‘‘ کے الفاظ میں ایک غلط فہمی شامل ہے۔ ایسا کہنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جس چیز کو وہ اپنے آس پاس دیکھ رہے ہیں، وہی وہ چیز ہے جس کو مذہب کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے آس پاس جو چیز مذہب کے نام سے موجود ہے، وہ مذہب کا بگڑا ہوا (distorted) ایڈیشن ہے نہ کہ اس کا اصل ایڈیشن۔
آج کل مذہب کے نام سے جو چیز ہر جگہ موجود ہے، وہ مذہب کا محرف ایڈیشن ہے۔ اس مذہب کا یقیناً خاتمہ(end) آ چکا ہے۔ مگر جہاں تک غیر محرف مذہب کا تعلق ہے، وہ بدستور زندہ حالت میں موجود ہے۔ یہ غیر محرف مذہب اسلام ہے۔ اسلام سورج کی طرح ایک ابدی حقیقت ہے۔ وہ انسان کی مستقل ضرورت ہے۔ آج کا انسان بھی اسلام کی رہنمائی کا اتنا ہی محتاج ہے جتنا کہ ماضی کا انسان اس کا محتاج تھا۔
بازار میں اگر کچھ لوگ ملاوٹی غذائیں فروخت کرنے لگیں تو ان سے واقف ہونے کے بعد انسان یقیناً ملاوٹی غذائوں سے بیزار ہو جائے گا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خالص غذا سے بھی بیزار ہو جائے۔ خالص غذا تو انسان کی ابدی اور لازمی ضرورت ہے۔ پھر وہ اس سے کیوں کر بیزار ہو سکتا ہے۔ ملاوٹی سامان سے خریداروں کی بیزاری اس دکاندار کے لیے کوئی مسئلہ نہیں جو خالص اور بے آمیز سامان اپنی دکان پر فروخت کر رہا ہو۔
اسلام کوئی نیا مذہب نہیں۔ اسلام کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ ایک غیر محرف مذہب ہے۔ اسلام کے سوا جو دوسرے مذاہب ہیں، وہ اب اپنی ابتدائی حالت پر باقی نہیں ہیں۔ ان مذاہب کی تعلیمات میں بگاڑ اور ملاوٹ آ چکا ہے۔ اس بنا پر یہ مذاہب، اپنی موجودہ صورت میں، فطرت انسانی
کے ساتھ اپنی مطابقت کھو چکے ہیں۔ وہ علمی اور تاریخی حقیقتوں سے ٹکرا رہے ہیں۔
مگر اسلام استثنائی طور پر ایک محفوظ مذہب ہے۔ اسلام آج بھی بدستور اپنی اصل حات پر موجود ہے۔ وہ انسانی فطرت کے مطابق بھی ہے اور علمی اور تاریخی حقائق سے ہم آہنگ بھی۔ اس لیے اسلام کا دور آج بھی پوری طرح باقی ہے۔ اسلام کے لیے نہ زوال کا سوال ہے اور نہ خاتمہ یا بعدازوقت ہونے کا۔
حقیقت یہ ہے کہ دوسرے نظریات کا خاتمہ اسلام کے نظریہ کا آغاز ہے۔ جہاں دوسرے مذاہب کی حد آ جائے وہاں اسلام اپنی ابدیت کو ازسر نو ثابت کر دیتا ہے۔ اسلام کے حاملین اگر اسلام کو لے کر اٹھیں تو وہ دیکھیں گے کہ ان کے لیے اجارہ داری کی حد تک ہر طرف کامیابی کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔
اسلام کے نظریات محض ادّعائی عقائد نہیں ہیں،بلکہ وہ مسلّمہ حقائق ہیں۔ اسلامی نظریات اتنے ہی ثابت شدہ ہیں جتنا کہ سائنسی نظریات۔ سائنس میں کسی بات کو ثابت کرنے کے لیے جو استدلالی اصول استعمال کیا جاتا ہے، عین وہی استدلالی اصول اسلام کی تعلیمات کو ثابت کرنے کے لیے بھی پوری طرح کارآمد ہے— عقلیات اسلام میں اِسی نہج پر اسلام کا مطالعہ کیا گیا ہے۔
اسلام كے نظريات محض اِدّعائي عقائد نهيں، بلكه وه مسلَّمه حقائق هيں- اسلامي نظريات اتنے هي ثابت شده هيں جتنا كه سائنسي نظريات- سائنس ميں كسي بات كو ثابت كرنے كے ليے جو استدلالي اصول استعمال كيا جاتا هے، عين وهي استدلالي اصول اسلام كي تعليمات كو ثابت كرنے كے ليے بھي پوري طرح كار آمد هے — عقلياتِ اسلام ميں اِسي نهج پر اسلام كا مطالعه كيا گيا هے-
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.