آخری منزل
ماؤنٹ ایورسٹ(Mount Everest) دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ہمالیہ کی یہ مشہور چوٹی سطح سمندر سے 29028فٹ (8848میٹر)بلند ہے۔کہا جاتا ہے کہ پہلا قابل ذکر شخص جس نے اس بلند چوٹی پراپنا قدم رکھنے کی سنجیدہ کو شش کی وہ ایک انگریز موریس ولسن (1898-1934) تھا۔اس نے 1934میں اس کے اوپر چڑھائی کی۔مگرجس چیز کو اس نے اپنی زندگی کا کلائمکس سمجھا تھا وہ اس کے لیے اینٹی کلائمکس (Anti-climax) بن گیا۔
موریس ولسن پہلی جنگ عظیم میں ایک سپاہی تھا۔اس کو دنیا کی’’ آخری بلند ی‘‘پر پہنچنے کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اس نے اپنے خاندان کی کامیاب تجارت کو اس کے اوپر قربان کردیا۔اس نے اپنا تمام سرمایہ خرچ کرکے ذاتی طورپر ایک سکنڈ ہینڈ ہوائی جہاز خریدا۔وہ انگلستان سے ہند ستان تک چھ ہزار میل کا سفر طے کرکے پورنیہ میں اترا۔اس کو اپنا ہوائی جہاز آگے لے جانے کی اجازت نہیں ملی۔چنانچہ اس نے اپنا جہاز فروخت کردیا۔اس کے بعد اس نے دارجیلنگ اورتبّت کے راستے سے ایورسٹ کی طرف سفر شروع کردیا۔
آخر میں اس کے پاس ایک چھوٹا خیمہ، کچھ چاول، ایک خود کارکیمرہ اور چند دوسری چیزیں باقی رہ گئیں۔تاہم وہ اوپر چڑھتا رہا۔وہ کامیابی کے ساتھ19500فٹ کی بلندی تک چڑھ گیا۔ 21 اِپریل 1934کو اس کی 36 ویں برتھ ڈے تھی۔اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اس تاریخی دن کو ایورسٹ کی چوٹی پر کھڑاہو۔اس نے اپنی ڈائری میں چند دن پہلے یہ الفاظ لکھے
Only 1300 feet more go. I have the distinct feeling that I'll reach the summit on April 21
صرف تیرہ ہزار فیٹ جانا اورباقی ہے۔مجھے یہ واضح احساس ہورہا ہے کہ میں 21 اپریل (1934)کو چوٹی پر پہنچ جائوں گا۔
ان پُر فخر سطروں کو لکھنے کے بعد ہمالیہ کا سخت طوفان اورموسم کی شدت اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔وہ مجبور ہوگیا کہ پیچھے لوٹے۔چنانچہ وہ اترکر اپنے نچلے ٹھکانہ پر آگیا۔مگر اس کے بعد اس کو دوبارہ اوپر چڑھنا نصیب نہ ہوا۔اس کے بعد اس کے ساتھ کیا پیش آیا۔اس کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ایک سال بعد تِن زِنگ نارگے(1914-1986) اوپر چڑھ رہاتھا کہ اس کو ایک مقام پر موریس ولسن کی لاش ملی اوراسی کے ساتھ اس کی ڈائری بھی۔جس کا آخری اندراج وہ جملہ تھا جس کو ہم نے اوپر نقل کیاہے۔
موریس ولسن ہمالیہ کی بلند ترین چوٹی پرخود کارکیمرہ کے ذریعہ اپنی تصویر کھینچنا چاہتا تھا۔اس کو امید تھی کہ کیمرہ کی آنکھ اس کو فتح کی چوٹی پر دیکھے گی۔جب یہ تاریخ آئی تو وہاں نہ کوئی ولسن تھا جو اپنی فتح وکامیابی کو دیکھ کر خوش ہو،اورنہ کوئی کیمرہ تھا جو اس کی فتح وکامیابی کے واقعہ کو ریکارڈ کرے۔
یہ کہانی بدلی ہوئی صورت میں ہر آدمی کی کہانی ہے۔ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ وہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچنے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔یہاں ہر آدمی صرف ایک ایسی منزل کی جانب چلا جارہا ہے جہاں موت کے سوا کوی دوسری چیز نہیںجو اس کا استقبال کرنے کے لیے موجودہو۔
موجودہ دنیا میں کچھ لوگ وہ ہیں جو دنیوی کامیابیوں کی صرف تمنا کرتے رہتے ہیں۔اور بالآخر اس طرح مرجاتے ہیںکہ انھوں نے اپنی خوابوں کی دنیا کی طرف سفر بھی شروع نہیں کیا تھا۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اپنی زندگی میں ،کم یازیادہ ،ان خواہشوں کو پالیتے ہیں۔مگر پانے والے بھی ان چیزوں سے اتنا ہی دور ہتے ہیں جتنا کہ نہ پانے والے۔کیونکہ ان کو پالینے کے بعد آدمی پر کھلتا ہے کہ اس کو وہ طاقت اورموقع حاصل نہیں جو ان چیزوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہیں۔اس دنیا میں پانے والا بھی اتنا ہی محروم ہے جتنا نہ پانے والا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو جانتے ہوں۔
انسان کتنا زیادہ محروم ہے۔مگر وہ اپنے آپ کو کتنا زیادہ پانے والا سمجھتا ہے۔زندگی کس قدر غیریقینی ہے مگر آدمی اس کو کس قدر یقینی سمجھ لیتا ہے۔آدمی صرف نامعلوم کل کے راستہ پر جارہا ہے مگر وہ گمان کرلیتا ہے کہ وہ معلوم آج میں اپنی کامیاب دنیا تعمیر کررہا ہے۔
کتنے بے خبر ہیں وہ لوگ جو اپنے کوجاننے والا سمجھتے ہیں۔کیسے ناکام ہیں وہ لوگ جن کا نام کامیاب انسانوں کی فہرست میں سب سے آگے لکھا ہواہے۔