تہذیب کے دو دھارے
تہذیب (civilization) کے لفظ سے عام طورپر صرف ایک چیز مراد لی جاتی ہے اور وہ مادی تہذیب ہے- مگر حقیقت یہ ہے کہ تہذیب کے دو دھارے ہیں جو مسلسل طورپر تاریخ میں جاری رہے ہیں-پہلے دھارے کو مادی تہذیب (material civilization) کہاجاتا ہے-دوسرے دھارے کو روحانی تہذیب (spiritual civilization) کہہ سکتے ہیں- روحانی تہذیب سے مراد کوئی مبہم چیز نہیں- اِس سے مراد عین وہی چیز ہے جو پیغمبروں کی ہدایت کے ذریعے تاریخ میں قائم ہوئی- روحانی تہذیب کا لفظ ہم نے صرف اِس لیےاستعمال کیا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے قریب الفہم ہے-
مادی تہذیب کا دھارا ایک دکھائی دینے والا دھارا (visible stream) ہے، اِس لیے ہر آدمی اس سے واقف ہے- اِس کے برعکس، روحانی تہذیب کا دھارا ایک نہ دکھائی دینے والا دھارا (invisible stream) ہے، اِس لیے اُس کو صرف گہرے غوروفکر کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے- دونوں کے درمیان یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک انسان کے وجود میں دو چیزوں کا فرق- انسانی وجود کا ایک پہلو اس کا مادی جسم ہے جو پوری طرح دکھائی دیتا ہے- اس کے وجود کا دوسرا حصہ روح (soul) ہے جو کہ پوری طرح موجود ہوتی ہے، لیکن بظاہر وہ دکھائی نہیں دیتی-
مادی تہذیب، مادی امکانیات کو انفولڈ کرکے وجود میں آتی ہے- سمجھا جاتاہے کہ مادی تہذیب اب سے تقریباً 6 ہزار سال پہلے میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں ابتدائی طورپر شروع ہوئی، پھر وہ ترقی کرتے کرتے موجودہ تکمیلی دور تک پہنچی-
یہی معاملہ روحانی تہذیب یا اسپریچول تہذیب کا ہے- روحانی تہذیب بھی کچھ امکانیات کو انفولڈ کرکے وجود میں آتی ہے، لیکن دونوں کے درمیان ایک فرق ہے- مادی تہذیب کا واقعہ اجتماع یا سوسائٹی کی سطح پر وجود میں آتا-اِس کے برعکس، روحانی تہذیب کا واقعہ ایک انفرادی واقعہ ہے اور وہ فرد کی سطح پر وجود میں آتا ہے- فردکے اندر ذہنی بے داری، فرد کے اندر مقصد ِ اعلی کا شعور، فرد کے اندر خدا کے لیے حب شدید اور خوفِ شدید، فرد کے اندر جنت کا اشتیاق، وغیرہ-
روحانی تہذیب فرد کے اندر مذکورہ قسم کے غیر مرئی (invisible) فکری انقلاب سے شروع ہوتی ہے، پھر وہ ترقی کرکے ربانی شخصیت تک پہنچتی ہے- اِس طرح کے افراد ہر دور اور ہر زمانے میں برابر پیدا ہوتے ہیں- اِن افراد کی سطح پر روحانی تہذیب کا غیر مرئی دھارا نسل درنسل چلتا رہتاہے- مادی تہذیب اگر اجتماعی اداروں (social organisations) کی سطح پر چلتی ہے تو روحانی تہذیب افراد کی داخلی کیفیات اور افکار کی سطح پر جاری رہتی ہے-
قرآن کا حوالہ
قرآن تاریخ تہذیب کی کتاب نہیں، لیکن قرآن میں دونوں قسم کی تہذیبوں کے بارے میں اشاراتی حوالے موجود ہیں- قرآن کی آیتوں میں تدبر کرکے ان کو سمجھا جاسکتا ہے- جہاں تک مادی تہذیب کی بات ہے، اس کا اشاراتی حوالہ قرآن کی سورہ الروم میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۭ کَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَّاَثَارُوا الْاَرْضَ وَعَمَرُوْہَآ اَکْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْہَا وَجَاۗءَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ۭ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ( 30:9 ) یعنی کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ وہ دیکھتے کہ کیا انجام ہوا اُن لوگوں کا جو اُن سے پہلے تھے- وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے- اور انھوں نے زمین کو جوتا اور اس کو اُس سے زیادہ آباد کیا جتنا انھوں نے آباد کیا ہے- اور ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے- پس اللہ اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے-
قرآن کی اِس آیت میں ایک خصوصی واقعے کے حوالے سے ایک عمومی قانون کو بتایا گیا ہے- اِس قانون کا اشاراتی ذکر آیت کے اِن الفاظ میں ہے: وعمروہا أکثر مما عمروہا- عمومی انطباق کے اعتبار سے، اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر دور میں اپنی بڑھی ہوئی سرگرمیوںکے ذریعے اپنی زندگی کی مادی تعمیر کرتا رہا ہے- اِن سرگرمیوں کے ذریعے ارتقائی طورپر جو محسوس واقعہ ظہور میں آیا، اُسی کا نام مادی تہذیب ہے-ا ِس کے مقابلے میں سرگرمیوں کا دوسرا کلچر جو فرد کی سطح پر جاری رہا، وہی وہ واقعہ ہے جس کو ہم نے روحانی تہذیب کا نام دیا ہے- جس طرح مادی تہذیب کا تسلسل تاریخ میں برابر جاری رہا اور جس کا اشارہ قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود ہے، اِسی طرح روحانی تہذیب کا غیر مرئی تسلسل بھی تاریخ میں برابر جاری رہا ہے- روحانی تہذیب کے تسلسل کا اشاراتی حوالہ قرآن کی سورہ المومنون کے اِن الفاظ میں ملتا ہے: ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ( 23:44 ) یعنی پھر ہم نے لگاتار اپنے رسول بھیجے:
We sent Our messengers in succession.
خدا کے پیغمبرہر دور میں مسلسل آتے رہے اور ان کی تعلیم وتلقین کے ذریعے تاریخ میں روحانی تہذیب کا غیر مرئی تسلسل قائم رہا- مادی تہذیب کا تسلسل اگر اجتماعی سطح پر دکھائی دینے والے مظاہر کی صورت میں قائم رہا تو روحانی تہذیب کا تسلسل افراد کے اندر غیر مرئی احوال کی صورت میں جاری رہا-
برطانی مورخ آرنلڈ ٹائن بی (وفات: 1975 ) نے 21 بڑی تہذیبوں کا مطالعہ کیا جن کی مدت تقریباً 5 ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے- اِس مطالعے کے نتائج کو اس نے ایک ضخیم کتاب کی صورت میں مرتب کیا ہے جو 12 جلدوں میں شائع ہوچکی ہے- اس کا نام یہ ہے:
Arnold Toynbee, The Study of History
مادی تہذیب کے بارے میں اِس طرح کی کتابیں اور اِس طرح کے مقالات بڑی تعداد میں شائع ہوئے ہیں، مادی تہذیب کے تاریخی آثار (monuments) زمین کے مختلف حصوں میں موجود ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا اہم مرکز ہیں- مادی تہذیب کو پروجیکٹ کرنے کے لیے بڑے بڑے میوزیم بنائے گئے ہیں- بڑے بڑے ادارے، بڑی بڑی تنظیمیں اور بڑے بڑے شہر گویا اُن کے تعارفی مراکز ہیں- اِن مراکز کو دیکھ کر لوگ کہہ پڑتے ہیں— ونڈرفل، ونڈرفل (wonderful, wonderful)-
اِسی طرح روحانی تہذیب کے واقعات بھی متوازی طورپر موجود ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مادی تہذیب سے بہت زیادہ بڑے ہیں- یہ واقعات پوری تار یخ میں مسلسل طورپر پیش آتے رہے ہیں، لیکن اِن واقعات کے محسوس مظاہر کہیں موجود نہیں، اِس لیے لوگ اُن سے واقف نہیں- روحانی تہذیب کے واقعات ہمیشہ افراد کی سطح پر ان کی داخلی دنیا میں غیر مرئی طورپر پیش آتے ہیں- یہ افراد اگرچہ انسانی تاریخ کے اعلی ترین افراد ہوتے ہیں، لیکن وہ اپنی طبیعی عمر پوری کرکے اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں- ان کی پیداکردہ روحانی تہذیب کو نہ ان کی زندگی میں لوگ دیکھ پاتے اور نہ ان کی وفات کے بعد-
اسپریچول تہذیب کے اجزا
مصر کے بادشاہوں نے 2700-2300 قبل مسیح کے درمیان مصر میں بڑی بڑی سنگی عمارتیں بنائیں جو اہرام (pyramids) کے نام سے مشہور ہیں- ہندستان کے بادشاہ شاہ جہاں نے 1630-48عیسوی کے درمیان آگرہ (یوپی) میں تاج محل بنوایا- اِس طرح کی ہزاروں عمارتیں ہیں جو مادی تہذیب کے تاریخی مظاہر کے طور پر دنیا کے مختلف ملکوں میں دکھائی دیتی ہے-اب سوال یہ ہے کہ اسپریچول تہذیب کے تحت جو واقعات ظہور میں آئے، اُن کا ریکارڈ کہاں ہے- کیا وہ اِسی لیے تھے کہ وقتی ظہور کے بعد وہ معدوم ہوجائیں اور ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں-یہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا سوال ہے-
مثال کے طورپر آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک معاملے پر نزاع ہوئی- قابیل سخت غصہ ہوگیا- اس نے کہا کہ میں تم کو مارڈالوں گا- اِس کے جواب میں ہابیل نے کہا: لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ( 5:28 ) یعنی اگر تم مجھے قتل کرنے کےلیے اپنا ہاتھ اٹھاؤگے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا- میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو سارے جہان کا رب ہے-
چناں چہ ہابیل قتل ہوگیا، مگر اس نے اپنے بڑے بھائی قابیل پر ہاتھ نہیں اٹھایا-اُس وقت ہابیل کے سینے میں خوفِ خدا کا جو طوفان آیا ہوگا،وہ بلاشبہہ اہرامِ مصر اور تاج محل جیسی عمارتوں سے بے شمار گنا زیادہ بڑا واقعہ تھا- فرشتوں نے یقیناً اس کو ریکارڈ کیا، لیکن انسان کی آنکھوں نے کبھی اِس واقعے کو نہیں دیکھا- کیا یہ عظیم ربانی واقعہ صرف اس لیے تھا کہ وہ ایک شخص کے دل میں پیدا ہو اور ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے-
اِسی طرح چار ہزار سال پہلے جب پیغمبر ابراہیم نے ایک خدائی منصوبے کے تحت اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب کے صحرا میں بسادیا- اُس وقت ہاجرہ نے پیغمبر ابرہیم سے پوچھا کہ کیا خدا نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے- انھوں نے جواب دیا کہ ہاں- اس کے بعد ہاجرہ کی زبان سے نکلا: إذن لا یضیّعنا (پھر اللہ ہم کو ضائع نہیں کرے گا)- صحرا کے اِس بے آب وگیاہ ماحول میں جب ہاجرہ نے یہ الفاظ کہے ہوں گے، اُس وقت ان کے دل میں اعتماد علی اللہ کا ایک عظیم کیفیاتی طوفان برپا ہوا ہوگا- یہ طوفان بلاشبہ مصر کے اہرام اور آگرہ کے تاج محل سے بے شمار گنا زیادہ بڑا واقعہ تھا- یہ واقعہ بلا شبہہ فرشتوں کے ریکارڈ میں آیا، لیکن انسان کے لیے وہ ایک ناقابلِ ذکر واقعہ بنا رہا- کیا یہ عظیم ربانی واقعہ اِسی لیےپیش آیا کہ وہ ایک فرد کے دل میں برپا ہو، اِس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے-
اِسی طرح ایک واقعہ وہ ہے جو تقریباً تین ہزار سال پہلے حضرت موسی کے زمانے میں پیش آیا- قرآن میں اِس واقعے کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے- اُس وقت کے بادشاہ فرعون نے مصر کے ماہر جادوگروں کو بلایا، تاکہ وہ حضرت موسی کے معجزے کا مقابلہ کریں- طے شدہ منصوبے کے مطابق، ایک میدان میں اہلِ مصر بڑی تعداد میں اکھٹا ہوئے- وہاں جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں- لوگوں کو نظر آیا کہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر میدان میں چل رہی ہیں- اُس وقت حضرت موسی نے اپنا عصا میدان میں ڈالا- حضرت موسی کا عصا اژدہا بن کر جادوگروں کے سحر کو نگل گیا-
جادوگروں نے جب اِس واقعے کو دیکھا تو اُن پر ظاہر ہوگیا کہ اُن کا کیس جادو کا کیس تھا، لیکن موسی کا کیس اِس سے مختلف کیس ہے- وہ رب العالمین کے پیغمبر کا کیس ہے- اِس صداقت کے ظاہر ہوتے ہی جادوگروں نے اپنی غلطی کو مان لیا- وہ پکار اٹھے: آمَنَّا بِرَبِّ ہَارُوْنَ وَمُوْسَی ( 20:70 )- فرعون جادوگروں پر سخت غضبناک ہوا- اس نے ان کے قتل کا حکم دے دیا، لیکن جادوگراپنے فیصلے پر قائم رہے- اِس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَاۗءَنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ ۭ اِنَّمَا تَقْضِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا( 20:72 ) یعنی جادوگروں نے کہا کہ ہم تجھ کو ہر گز اُن دلائل پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آئے ہیں اور اُس ذات پر جس نے ہم کو پیدا کیا ہے- پس تم کو جو کچھ کرنا ہے، اُسے کرڈالو- تم جو کچھ کرسکتے ہو، اِسی دنیا کی زندگی کا کرسکتے ہو-
مصر کے جادوگروں نے یہ جملہ موت کی قیمت پر کہا تھا- اُس وقت اُن کے دل میں سچائی کا جو طوفان برپا ہوا ہوگا، وہ بلاشبہہ اہرامِ مصر اور تاج محل جیسی سنگی عمارتوں سے بے شمار گنا زیادہ عظیم ہے- کیا سچائی کا یہ طوفان صرف اِس لیے تھا کہ وہ کچھ انسانوں کے سینے میں وقتی طورپر برپا ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے اس کا وجود مٹ جائے-
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جو صحیح البخاری کی ایک روایت میں بتایا گیا ہے- قدیم زمانے میں بنی اسرائیل کے تین صالح افراد ایک سفر پر روانہ ہوئے- درمیان میں بارش آگئی- چناںچہ انھوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی- اُس وقت وہاں لینڈ سلائڈ (landslide) کا ایک واقعہ ہوا- اس کی وجہ سے غار کا منہ بند ہوگیا- یہ پتھر اتنا بڑا تھا کہ تینوں آدمی مل کر بھی اس کو ہٹا نہیں سکتے تھے- اُس وقت انھوں نے طے کیا کہ ہر ایک اپنے کسی خاص عمل کے واسطے سے دعا کرے- چناں چہ انھوں نے دعا کی اور پتھر ہٹ گیا، پھر وہ لوگ غار سے باہر نکل آئے-
اِن تینوں میں سے ایک شخص وہ تھا جس نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ، میں مزدوروں سے کام لیا کرتا تھا- ایک دن ایسا ہوا کہ ایک مزدور کسی بات پر غصہ ہوگیا- وہ اپنی مزدوری لیے بغیر چلا گیا- اِس کے بعد میں نے اس کی مزدوری کی رقم سے ایک گائے خریدی- اِس گائے میں اتنی برکت ہوئی کہ دھیرے دھیرے گائے اور بکری اور اونٹ کا ایک بہت بڑا گلّہ اکھٹا ہوگیا- ایک عرصے کے بعدوہ مزوردوبارہ آیا اور اپنی مزدوری کا تقاضا کیا- اُس وقت میرے گھر کے سامنے کا میدان جانوروں کے گلے سے بھرا ہوا تھا- میں نے کہا کہ یہ سب تمھارا ہے، اِس کو لے جاؤ- مزدور نے کہا کہ مجھ سے استہزا نہ کرو- میں نے کہاکہ یہ استہزا کی بات نہیں، یہ سب تمھاری مزدوری کی رقم کا نتیجہ ہے- اس کے بعد وہ مزدور اُن تمام جانوروں کو ہنکا کرلے گیا اور ایک بھی نہ چھوڑا- میں نے مزدور کو نہیں روکا اور اُس پر راضی رہا- (صحیح البخاری، أحادیث الأنبیاء، حدیث الغار، رقم: 3465)
اُس آدمی نے جب یہ فیصلہ کیا تو اُس وقت اس کے سینے میں دیانت داری (honesty) کا ایک عظیم طوفان برپا ہوا ہوگا- یہ واقعہ بلا شبہہ اہرامِ مصر اور تاج محل جیسی سنگی عمارتوں سے بے حساب گنا زیادہ بڑا تھا- کیا یہ واقعہ محض اِس لیے ہوا کہ وہ صرف ایک شخص کے سینے میں برپا ہو اور پھر ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائے- اِس طرح کے واقعات جو افراد کی زندگی میں داخلی طورپر پیش آئے، ایسے کسی واقعے کو اُس فرد نے تو یقیناً جانا جس کو اس کا تجربہ پیش آیا تھا، لیکن اس کی اپنی ہستی کے باہر اُس کا کوئی وجود دکھائی نہیں دیا، وہ صرف غیر مرئی قسم کا ایک ذاتی احساس بن کر رہ گیا- ہر عورت اور مرد شعوری یا غیر شعوری طورپر چاہتے ہیں کہ اُن کے داخلی احساسات خارجی واقعہ بن کر نمایاں ہوں- جو کچھ انھوں نے وقتی طورپر محسوس کیا تھا ، وہ اُسی طرح تاریخ کا مستقل حصہ بن جائے جس طر ح دوسری بہت سی چیزیں تاریخ کا مستقل حصہ بنی ہوئی ہیں-
یہ ایک سوال ہے اور قرآن کے مطالعے سے اِس کا واضح جواب معلوم ہوتا ہے- اِس سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ دراصل مادی تہذیب ہے جو قیامت کے دن معدوم ہو جائے گی اور جہاں تک روحانی تہذیب کا سوال ہے، وہ اپنی پوری صورت میں ظاہر ہو کر ابدی طورپر اپنا جلوہ دکھاتی رہے گی-
دو مختلف انجام
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی تہذیب کی ترقیاں صرف وقتی ترقیاں ہیں- قیامت کا بھونچال مادی تہذیب اور اس کے تمام آثار کو یکسر مٹا دے گا- قیامت کے بعد بننے والی دنیا میں اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا- اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ اَمَلًا ( 18:46 ) یعنی مال اور اولاد دنیوی زندگی کی رونق ہیں - اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ تمھارے رب کے نزدیک اجر اور امید کے اعتبار سے بہتر ہیں-
قرآن کی اِس آیت میں ’زینة الحیاة الدنیا‘ سے مراد وہی چیز ہے جس کو مادی تہذیب کہا جاتا ہے- یہ مادی تہذیب خواہ بظاہر کتنا ہی زیادہ پُررونق ہو، بہر حال وہ وقتی طورپر صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے- قیامت کا بھونچال اس کو پوری طرح مٹا دے گا- اِس کے بعد زمین کا وہ حال ہوگا جس کو قرآن میں قاعاً صفصفاً ( 20:106 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے، یعنی چٹیل میدان-
’باقیات الصالحات‘ کا لفظی ترجمہ ہے: باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ- صالح عمل حقیقةً وہ ہے جو صالح نیت سے کیا گیا ہو- ’باقیات الصالحات‘ دوسرے لفظوں میں کسی عمل کے کیفیاتی حصہ (qualitative content) کا نام ہے- عمل کا یہ کیفیاتی حصہ کہاں واقع ہوتا ہے، وہ ایک مرد یا عورت کے داخلی وجود میں واقع ہوتاہے- یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے قابلِ فہم بنانے کے لیے روحانی تہذیب کے الفاظ میں بیان کیا ہے- قیامت کا بھونچال یہ کرے گا کہ انسانی عمل کے کمیاتی حصہ (quantitative content) کو ڈھا دے گا- اِس کے بعد انسانی عمل کا صرف کیفیاتی حصہ (qualitative content) باقی رہے گا-
قرآن میں اہلِ جنت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِیَادَة ( 10:26 )- اِس آیت میں ’’زیادہ‘‘ کا لفظ غالباً اِس معنی میں ہے کہ آخرت میں اہلِ جنت کے ساتھ جو معاملہ ہو گا، وہ صرف یہ نہیں ہوگا کہ ان کے نیک عمل کو قبولیت کا درجہ ملے گا، بلکہ مزید یہ ہوگاکہ عمل کے دوران اُن کے اندر جو اعلی ربانی کیفیات پیدا ہوئی تھیں، وہ خارجی طورپر متشکل ہوجائیں گی- یہی خارجی اظہار وہ چیز ہے جس کو ہم نے اسپریچول تہذیب کا نام دیا ہے-
مادی تہذیب مادی واقعات کے متشکل ہونے سے وجود میں آتی ہے- اِس کے برعکس، اسپریچول تہذیب وہ تہذیب ہے جہاں اعلی ربانی کیفیات متشکل ہوں- موجودہ دنیا جن قوانین کے تحت بنی ہے، وہاں کمیاتی عمل (quantitative deeds) تو بخوبی طورپر متشکل ہوسکتے ہیں، لیکن کیفیاتی عمل (qualitative deeds) یہاں متشکل نہیں ہوسکتے- آخرت کی دنیا کے قوانین بالکل مختلف ہوں گے- اِس طرح وہاں یہ ممکن ہوجائے گا کہ ایک کیفیاتی واقعہ بھی اُسی طرح عملی صورت میں متشکل ہوجائے جس طرح موجودہ دنیا میںکمیاتی واقعہ عملی صورت میں متشکل ہوتا ہے-
اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتوں کا مزید مطالعہ کیجئے- اِن آیتوں کے الفاظ اور ان کا ترجمہ یہ ہے: مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ اُولٰۗىِٕکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ڮ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( 11:15-16 ) یعنی جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتے ہیں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں دے دیتے ہیں- اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی- یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے- انھوں نے دنیا میں جو کچھ بنایا تھا، وہ نابود ہوگیا اور باطل ہوگیا جو کچھ انھوں نے کمایا تھا-
قرآن کی اِس آیت میں زینتِ دنیا سے مراد تاریخِ انسانی کا وہی ظاہرہ ہے جس کو ہم نے مادی تہذیب کے معروف نام سے بیان کیا ہے- اِس مادی تہذیب کی عمر صرف قیامت تک کے لیے ہے- اِس کے بعد وہ مٹا دی جائے گی- اس کا انجام وہی ہوگا جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں ’حبط ما صنعوا‘ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، یعنی انھوں نے دنیا میں جو کچھ بنایا تھا، وہ نابود ہوگیا (vain are all their deeds) -
وہ چیز جس کو مادی تہذیب کہاجاتاہے، وہ گویا کہ اِسی موجودہ دنیا میں اپنے لیے ایک دنیا بنانا ہے- یہ بلاشبہہ خداکے تخلیقی منصوبے کے خلاف ہے- خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، موجودہ دنیا عمل کے لیے بنائی گئی ہے، نہ کہ تعمیر ِ جنت کے لیے-
ایسا کرنے والے لوگ خدا کے منصوبےکے خلاف چل رہے ہیں- اُن کی ساری سرگرمیاں خداکے نزدیک غیر مقبول ہیں، اِس لیے اُن کا وجود صرف اُس وقت تک ہے جب تک اُن کی امتحان کی مدت ختم نہیں ہوتی- امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی اُن کی بنائی ہوئی یہ مادی دنیا اُسی طرح ختم کردی جائے گی جس طرح غیر منظور شدہ تعمیر (unauthorised construction) کو سرکاری طورپر ڈھا دیا جاتا ہے-
اسپریچول تہذیب کا دور
قیامت دو دنیاؤں کے درمیان حد فاصل ہے- قیامت کا مطلب یہ ہے کہ مادی تہذیب کا دور ختم ہوا اور روحانی تہذیب کا دور شروع ہوگیا- اِسی دوسرے دور کو قرآن میں آخرت کا دور کہاگیا ہے- اِس دوسرے دور میں یہ ہوگا کہ پوری تاریخ میں بکھرے ہوئے روحانی اجزا (spiritual contents) کو جنت میں یکجا کردیا جائے، یعنی اسپریچول اجزا کے حامل انسانوں کو بقیہ انسانوں سے الگ کرکے جنت کی معیاری دنیا میں بسا دینا- اِسی حقیقت کو قرآن کی ایک آیت میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ( 21:105 )-
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں— پَر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی- صادق زمینوں کے وارث ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے:
But the descendants of the wicked shall be cut off. The righteous shall inherit the land and dwell in it forever. (Psalm 37:28-29)
اسپریچول تہذیب یا ربانی تہذیب قیامت سے پہلے کی دنیا میں صالح افراد کی سطح پر ظہور میں آئے گی- قیامت کے بعد یہ تمام صالح افراد پوری تاریخِ بشری سے منتخب کرکے جنت میں بسادئے جائیں گے- اِس دوسرے دور حیات میں ان کی داخلی اسپریچولٹی یا داخلی رباینت خارجی واقعہ بن کر چمک اٹھے گی- جو چیز دنیا کی زندگی میں داخلی کیفیت (inner spirit) ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دکھائی نہیں دیتی تھی، وہ آخرت کے بدلے ہوئے ماحول میں خارجی طورپر دکھائی دینے والا واقعہ بن جائے گا- اِسی حقیقت کو قرآن میں نور کے لفظ میں بیان کیاگیاہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ صالح افراد کی ربانیت جو موجودہ دنیا میں ایک چھپی ہوئی حقیقت بنی ہوئی تھی، وہ آخرت کی دنیا میں ایک دکھائی دینے والی حقیقت بن جائے گی- اِس سلسلے میں قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجیے-
پہلی آیت قرآن کی سورہ الحدید میں ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُہُمْ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ بُشْرٰىکُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۭذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ( 57:12 ) یعنی جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کی روشنی اُن کے آگے اور ان کے دائیں چل رہی ہوگی — آج کے دن تم کو خوش خبری ہے اُن باغوں کی جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، تم اُن میں ہمیشہ رہوگے، یہ بڑی کامیابی ہے-
اِسی طرح سورہ الحدید کی ایک اور آیت میںارشاد ہوا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰۗىِٕکَ ہُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ڰ وَالشُّہَدَاۗءُ عِنْدَ رَبِّہِمْ ۭ لَہُمْ اَجْرُہُمْ وَنُوْرُہُمْ ۭ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗىِٕکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ ( 57:19 ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر، وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں- ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہے- اور جن لوگوں نے انکار کیا اور ہماری نشانیوں کو جھٹلایا، وہی دوزخ والے ہیں-
اِسی قسم کی ایک آیت قرآن کی سورہ التحریم میں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰہِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا ۭ عَسٰى رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ۙ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ۚ نُوْرُہُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ( 66:8 ) یعنی اے ایمان والو، اللہ کے آگے سچی توبہ کرو- امید ہے کہ تمھارا رب تمھارے گناہ معاف کردے اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی- جس دن اللہ، نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان والوںکو رسوا نہیں کرے گا- اُن کی روشنی ان کےآگے اور ان کے دائیں طرف دوڑ رہی ہوگی، وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب، تو ہمارے لیے ہمارے نور کو کامل کردے اور ہماری مغفرت فرما- بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-
قرآن کی اِن آیتوں میں نور (روشنی) کے دوڑنے کا ذکر لفظی طورپر دوڑنے کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ پھیلنے کے معنی میں ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں اُن کا نور دور دور تک پھیلا ہوا ہوگا- مزید یہ کہ نور کا لفظ سادہ طورپر روشنی کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اِس معنی میں ہے کہ ان کے عمل کا روحانی حصہ (spiritual content) جو دنیا میں اعلی داخلی تجربے کی حیثیت رکھتا تھا، وہ آخرت میں متشکل (materialised) ہو کر خارجی طور پر دکھائی دینے لگے- بہ الفاظ دیگر، جو چیز دنیا کی زندگی میں صرف غیرمرئی نور کی حیثیت رکھتی تھی،وہ آخرت میں قابلِ مشاہدہ اسپریچول تہذیب کی صورت اختیار کرلے گی- مادی تہذیب جس طرح دنیا میں قابلِ مشاہدہ ہے، اسی طرح اسپریچول تہذیب آخرت میں قابلِ مشاہدہ ہوجائے گی-
مذکورہ آیت میں ’أجرہم ونورہم‘ کا لفظ نہایت اہم حقیقت کو بتارہا ہے- اِس آیت میں اجر سے مراد جنت کی مادی نعمتیں ہیں اورنور سے مراد وہ تہذیب ہے جو جنت میں ایک روشن واقعہ بن جائے- اہلِ جنت ایک طرف'لکم فیہا ما تشتہى أنفسکم'کے بمصداق، جنت کی اعلی نعمتوں سے محظوظ ہوں گے اور دوسری طرف یہ ہوگا کہ ان کے اندر داخلی سطح پر پیدا ہونے والی ربانی کیفیات جو دنیا میں غیر مرئی حقیقت بنی ہوئی تھیں، آخرت میں وہ قابلِ مشاہدہ نور کی صورت میں نمایاں ہوجائیں گے- آخرت میں ظاہر ہونے والے اِس واقعے کو نورانی تہذیب یا اسپریچول تہذیب کے الفاظ میں بیان کیا جاسکتاہے-
اِسی طرح مذکورہ آیت میں اہلِ جنت کی زبان سے یہ لفظ ادا ہوا ہے: ’أتمم لنا نورنا‘- اِس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تونے ہمیں جس اعلی ربانی تجربے کی توفیق دی، وہ دنیا میں غیر مرئی بنا رہا- اب آخرت میں تو ہمارے ساتھ یہ مزید احسان فرماکہ اِن داخلی ربانی تجربات کو خارجی واقعے کی صورت میں ظاہر کردے- جس طرح مادہ پرست انسان کی داخلی دریافت خارجی طورپر دنیا میں مادی تہذیب کی صورت میں متشکل ہوئی تھی، اُسی طرح اب تو آخرت میں ہماری داخلی ربانی دریافتوں کو خارجی طورپر نورانی تہذیب یا اسپریچول تہذیب کی صورت میں متشکل کردے- یہی مطلب ہے مذکورہ آیت میں اتمامِ نور کا-
آئڈیا کا متشکَّل ہونا
خواہ مادی تہذیب کا معاملہ ہو یا اسپریچول تہذیب کا معاملہ، دونوں کی نوعیت اس اعتبار سے یکساں ہے- دونوں کا وقوع ابتداء ً ایک غیر مرئی آئڈیا (invisible idea) کی صورت میں ہوتا ہے، بعد کو وہ خارجی صورت میں متشکل ہوجاتا ہے- یہی معاملہ مادی تہذیب کا بھی ہے اور یہی معاملہ اسپریچول تہذیب کا بھی-
اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ مائکل فریڈے (Michael Faraday, d. 1867) ایک برٹش سائنس داں تھا- کچھ تجربات کے دوران اُس کے دماغ میں ایک آئڈیا آیا، جو اب اصطلاحی طورپر الیکٹرومیگنٹزم (electromagnetism)کے طورپر معروف ہے- یہ آئڈیا فطرت کے اُس قانون کے بارے میں تھا جس کو الیکٹری سٹی (electricity) کہا جاتا ہے- اِس آئڈیا کے تحت یہ فارمولا بنایا گیا کہ بجلی کا مطلب ہے— الیکٹران کا بہاؤ:
Electricity means flow of electrons.
وہ چیز جس کو مادی تہذیب کہا جاتاہے، وہ براہِ ارست یا بالواسطہ طورپر فطرت کے دو قوانین کا نام ہے — روشنی (light) اور حرکت(motion) - فطرت کے اِن دو غیر مرئی قوانین نے جب عملی صورت اختیار کی تو اس کے نتیجے میں وہ مرئی ظاہرہ وجود میں آیا جس کو مادّی تہذیب کہاجاتا ہے-
یہی معاملہ اسپریچول تہذیب کا بھی ہے- اسپریچول تہذیب ابتداء ً ایک مخفی واقعے کی صورت میں ایک بندہ مومن کے سینے میں غیر مرئی طورپر وجود میں آتی ہے- اسپریچول تجربہ کیا ہے، اس کو قرآن کی اِن آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاسکتاہے: والذین آمنوا أشد حباً للہ ( 2:165 )، ولم یخش إلا اللہ ( 9:18 )، مما عرفوا من الحق ( 5:38 )،وقلوبہم وجلة ( 23:60 )، فی أہلنا مشفقین ( 52:26 )، لاتحزن إن اللہ معنا ( 9:40 )، وغیرہ-
مذکورہ حوالے ایک مومن کے سینے میں پیدا ہونے والے اسپریچول تموجات کو بتاتے ہیں- یہ اسپریچول تموجات(spiritual waves) اپنی حقیقت کے اعتبار سے بلا شبہہ ہمالیائی تموجات تھے، لیکن دنیا کی زندگی میں وہ غیر مرئی واقعہ بن کر رہ گئے- یہ خدا کی شانِ رحمت کے خلاف ہے کہ ایک سائنس داں کی مادی معرفت تو مادی تہذیب کی صورت میں متشکل ہو ، لیکن ایک مومن کی ربانی معرفت محسوس اسپریچول تہذیب کی صورت میں متشکل نہ ہو-
قرآن کے مذکورہ بیانات اِسی سوال کا جواب ہیں- اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سائنس دانوں کی مادی معرفت خارجی طورپر متشکل ہو کر دنیا میں مادی تہذیب کی صورت میں ظاہر ہوئی، اِسی طرح آخرت میں مزید اضافے کے ساتھ یہ ہوگا کہ مومن بندوں کی ربانی معرفت، جو دنیا میں غیر مرئی تھی، وہ آخرت میں خارجی طورپر متشکل ہوگی- اِسی واقعے کو قرآن میں نورانی ظہور سے تعبیر کیا گیا ہے اور اِسی واقعے کا دوسرا نام آخرت کی ابدی دنیا میں بننے والی اسپریچول تہذیب ہے-
دو قسم کے چہرے
قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے کہ قیامت میں انسانوں کو چھانٹ کر الگ کیا جائے گا، اہلِ جنت الگ اور اہلِ جہنم الگ- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ( 3:103 ) یعنی جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے، اُن سے کہا جائے گا کہ کیا تم اپنے ایمان کے بعد منکر ہوگئے، تو اب چکھو عذاب اپنے کفر کے سبب سے-
’’روشن چہرہ‘‘ سے مراد کیا ہے- اِس سے مراد وہی روشن شخصیت ہے جس کی وضاحت اِس سے پہلے ہوچکی ہے- ’’سیاہ چہرہ‘‘ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے چہروں پر سیاہ رنگ لگا دیا جائے گا- اِس کا مطلب یہ ہےکہ ان کی داخلی برائی ظلمت بن کر اُن کے چہرے پر نمایاں ہوجائے گی- جس غیر ربانی شخصیت کو وہ اپنی جھوٹی تدبیروں سے اپنے اندر چھپائے ہوئے تھے، وہ ظاہر ہو کر لوگوں کو محسوس طور پردکھائی دینے لگے گی- یہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے، یہ وہی بات ہے جو دنیا کی زندگی میں بھی جزئی طورپر مشاہدات میں آتی ہے، چناں چہ کہا جاتا ہے کہ:
Face is the reflection of one's inner personality.
دنیا کی زندگی میں برے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ اندر سے بالکل غیر سنجیدہ تھے، مگر اوپر سے وہ اپنے آپ کو سنجیدہ ظاہر کرتے تھے- وہ جھوٹ اور بددیانتی پر کھڑے ہوئے تھے، لیکن خوب صورت الفاظ کے ذریعے وہ اپنی حقیقت پر پردہ ڈالے ہوئے تھے- دل اور دماغ کے اعتبار سے، وہ صرف ایک دنیا پرست انسان تھے، لیکن اپنے ظاہر فریب رویّے سے وہ آخرت پسندی کے اسٹیج پر پُررونق جگہ حاصل کیے ہوئے تھے-قیامت کے بعد جو آخرت کی دنیا آئے گی، وہاں تمام حقیقتیں اپنی اصل صورت میں ظاہر ہوجائیں گی- وہاں ہر عورت اور مرد اپنی اصل داخلی صورت میں نمایاں ہوجائے گا- یہی مطلب ہے قیامت میں چہروں کے سیاہ ہونے کا-
برے لوگ وہاں اِس طرح اٹھیں گے کہ ان کے چہروں پر سخت قسم کی حسرت اور ندامت چھائی ہوئی ہوگی- وہ بے بسی کی تصویربنے ہوئے ہوں گے- ان کااحساسِ محرومی ان کے پورے وجود کو بے قیمت بنائے ہوئے ہوگا- اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں ان کی کامل مایوسی کی بنا پر ان کا احساس یہ ہوگا کہ وہ حیوان سے بھی زیادہ بے قیمت ہیں- ان کی بے بسی کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں سے چھپانا چاہیں گے، لیکن وہاں انھیں کوئی جگہ نہیں ملے گی جہاں وہ اپنے آپ کو چھپا لیں-
جنت کا معاشرہ
جنت کے معاشرے میں وہ خوش قسمت افراد جگہ پائیں گے جنھوں نے موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو جنتی شخصیت کی حیثیت سے تیار کیا ہوگا- جنتی شخصیت کا لفظ کوئی پراسرار لفظ نہیں ہے- اِس سے مراد وہ افراد ہیں جو انتہائی معنوں میں بلند فکری (high thinking) کے مالک ہوں- یہی وہ اعلی کردار ہے جس کو قرآن میں خُلقِ عظیم ( 68:4 ) یا مزکی شخصیت ( 20:76 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے-
یہ اعلی شخصیت والا انسان کون ہے، یہ وہ انسان ہے جس نے اپنے آپ کو ہر قسم کے دنیوی محرکات (worldly motivations) سے اوپر اٹھایا، جس نےاپنے آپ کو کامل طورپر متعصبانہ فکر (biased thniking) سے پاک کیا، جس نے اپنے آپ کو نفس اور شیطان کی ترغیبات سے بچایا، جس نے اپنے اندر اُس انسان کی تعمیر کی جس کو کامپلکس فری سول (complex free soul) کہاجاتا ہے، جس نے دنیا کی زندگی میں یہ ثابت کیا کہ وہ انٹیگریٹیڈ پرسنالٹی (integrated personality) کا حامل انسان ہے— یہی وہ صفات ہیں جن سے متصف افراد کو ایک لفظ میں، ربانی انسان کہاجاسکتاہے- انھیں صفات کے حامل افراد کو جنت میں آبادکاری کے لیے منتخب کیا جائے گا-
جنتی شخصیت کی تعمیر
مذکورہ اعلی ربانی صفات پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ صبر ہے- صبر کے ذریعے آدمی اِس قابل بنتاہے کہ وہ مختلف قسم کے غیر موافق احوال کے درمیان رہتے ہوئے بھی اپنے اندر جنتی شخصیت کی تعمیر کرے- وہ منفی اسباب کے اندر اپنی مثبت سوچ کو مستقل طورپر برقرار رکھے- وہ مسائل کو عذر (excuse)نہ بناتے ہوئے اپنا ربانی سفرجاری رکھے- اِسی بنا پر قرآن میں کہا گیاہے کہ صبر کرنے والے جنت کے اعلی مقامات میں جگہ پائیں گے- ( 25:75 )
صبر کی اِسی اہمیت کی بنا پر صبر کو اعلی ترین انعام کا ذریعہ بتایا گیا ہے- حقیقت یہ ہے کہ صبر ہر عملِ خیر کی لازمی بنیاد ہے- اِسی لیے قرآن میں صبر کرنے والوں کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ ( 39:10 ) یعنی بے شک صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب دیا جائے گا-
جسمانی سرگرمیاں، ذہنی سرگرمیاں
انسانی تاریخ کی تصویر اگر یہ ہو کہ اس میں انسان کے جسم (body) کی سرگرمیاں (activities) تو خوب بیان ہوئی ہوں، مثلاً پہلوانی (wrestling) اور باکسنگ (boxing) جیسی سرگرمیاں تفصیل کے ساتھ ریکارڈ کی گئی ہوں، لیکن انسان کے وجود کا دوسرا اہم تر حصہ جس کو ذہن (mind) کہاجاتا ہے، اس کا سرے سے کوئی ذکر نہ ہو، پوری تاریخ میں انسان کی ذہنی سرگرمیاں (intellectual activities) غیر مذکور (unrecorded) ہو کر رہ جائیں تو ایسی انسانی تاریخ کو نہ صرف نامکمل، بلکہ آخری حد تک بے معنی (meaningless) کہاجائے گا-
یہ فرضی بات نہیں، بلکہ یہ انوکھا واقعہ عملاً مزید اضافے کے ساتھ پوری دنیا میں پیش آیا ہے- وہ اِس طرح کہ انسان کی مادی سرگرمیاں مادی تہذیب کی صورت میں متشکل (materialized) ہو کر اپنی پوری صورت میں لوگوں کے سامنے موجود ہیں- مادی تہذیب کو ہر آدمی جانتا ہےاور ہر آدمی اس کو دیکھ رہا ہے- مادی تہذیب ہر آدمی کے لیے ایک معلوم واقعہ ہے- لیکن انسانی سرگرمیوں کی ایک ا ور قسم ہے- اس کو اسپریچول سرگرمیاں (spiritual activities) کہاجاسکتا ہے- یہ وہ سرگرمیاں ہیں جو انفرادی سطح پر سچے انسانوں کی زندگی میں پیدا ہوئیں- وہ پوری طرح غیر مرئی (unobservable) تھیں- افراد کی داخلی زندگی میں مکمل طورپر موجود ہونے کے باوجود وہ ظاہری طورپر کبھی متشکل نہیں ہوئیں- مثلاً تاریخ کے ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہے جنھوں نے خداکو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنایا، جن کی سوچ تمام تر سچائی اور دیانت داری پر مبنی تھی، جنھوں نے دنیا کے بجائے آخرت کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا، جن کی آخری آرزو یہ تھی کہ اُن کو جنت میں داخلہ ملے، جنھوں نے خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کو سمجھا اور ان سے تجاوز نہیں کیا، جن کا ربانی شعور اتنا بڑھا ہوا تھاکہ وہ ہر وقت داخلی طورپر توبہ واستغفار میں مشغول رہتے تھے-
یہ تمام اعمال انتہائی اعلی اعمال ہیں، لیکن وہ ہمیشہ کیفیات کی سطح پر پیدا ہوتے ہیں- اُن کو کمیاتی اصطلاح (quantitative term) میں بیان نہیں کیا جاسکتا- یہ ربانی اعمال یا اسپریچول سرگرمیاں افراد کی داخلی دنیا میں پیدا ہوئیں اور پھر افراد کی موت کے ساتھ بظاہر ختم ہوگئیں- اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ اعلی اسپریچول تہذیب کی حیثیت رکھتی تھیں، مگر اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود وہ کبھی ظاہری طورپر متشکل نہیں ہوئیں جس طرح مادی تہذیب اپنی ظاہری صورت میں متشکل ہوئی-
آخرت کی دنیا جو قیامت کے بعد آئے گی، وہ اِسی کی تلافی اور تکمیل کے لیے ہے- قیامت ایک طرف مادی تہذیب کو پوری طرح نابود کردے گی، اگلے مرحلہ حیات میں اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا، دوسری طرف یہ ہوگا کہ آخرت کے موافق ماحول میں ماضی کے اسپریچول واقعات پوری طرح متشکل ہو کر ایک اسپریچول تہذیب کی صورت اختیار کرلیں گے-
یہ اسپریچول تہذیب ایک ابدی تہذیب ہوگی- قیامت سے پہلے کے دورِ تاریخ میں دونوں قسم کے افراد باہم ملے ہوئے تھے، لیکن قیامت کے بعد کے دورِ تاریخ میں دونوں کو چھانٹ کر ایک دوسرے سےالگ کردیا جائے گا- ( 27:83 )
خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے مطابق، قیامت سے پہلے کا دورِ حیات انفرادی اعتبار سے تعمیرِ شخصیت کا دور تھا، وہ اجتماعی اعتبار سے تعمیر ِ تہذیب کا دور نہ تھا- آخرت کی دنیا میں یہ ہوگا کہ جن افراد نے اپنی شخصیت کی تعمیر نہ کی، وہ رد کردئے جائیں گے اور جن افراد نے اپنی شخصیت کی تعمیر کی، وہ خدا کے مطلوب بندے ٹھہریں گے- ایک گروہ کا کیس کامیابی کا کیس ہوگا اور دوسرے گروہ کا کیس ناکامی کا کیس-( 42:7 )
قرآن میں دونوں قسم کے افراد کو مختلف لفظوں میں بیان کیا گیاہے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ کامیاب افراد روشن چہروں (bright faces) والے ہوں گے اور ناکام افراد سیاہ چہروں (dark faces) والے- کامیاب افراد ابدی طورپر خوشیوں کی زندگی پائیں گے اور ناکام افراد ابدی طورپر حسرت کی آگ میں جلتے رہیں گے-
خاتمۂ کلام
اللہ کو مطلوب تھا کہ اسپریچول تہذیب کا تسلسل دنیا کے آغاز سے لے کر اس کے خاتمے تک جاری رہے- اللہ نے دیکھا کہ انسان کو دی گئی آزادی کی بنا پر یہ تسلسل مجموعے کی سطح پر جاری نہیں ہوسکتا، اس لئے اللہ نے اس کو افراد کی سطح پر جاری کردیا- چناںچہ انسانی مجموعے کی سطح پر اگرچہ اسپریچول تہذیب کا تسلسل جاری نہیں ہے، لیکن افراد کی سطح پر یہ تسلسل مکمل طورپر جاری ہے- اِس سلسلے کا پہلا فرد غالباً ابتدائی دور کا ہابیل ابن آدم تھا، جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے ( 5:27 )اور اِس سلسلے کا آخری فرد غالباً دورِ آخر کا وہ رجلِ مومن ہوگا جس کا ذکر صحیح مسلم کی ایک روایت میں آیا ہے- (ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2938)
انسان کی آزادی کی بنا پر اس دنیا میں اسپریچول تہذیب کا اجتماعی تسلسل عملاً ناممکن ہے، لیکن اسپریچول تہذیب کا انفرادی تسلسل پوری طرح ممکن ہے اور بلاشبہہ وہ ہر دور میں اور ہر زمانے میں جاری رہاہے-اسپریچول تہذیب کے عملی ظہورکے معاملے کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے- آپ ایک وسیع کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں- وہاں آپ کے سامنے کی میز پر ایک ٹی وی سیٹ رکھا ہوا ہے- بظاہر کمرے میں صرف کچھ مادی چیزیں ہیں- مثلاً دیوار، کرسی، میز، وغیرہ- اِن چیزوں کو آپ دیکھ رہے ہیں، لیکن اِسی کے ساتھ وہاں ایک اور چیز ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ مکمل طورپر موجود ہے- یہ دوسری چیز غیر مرئی لہروں (invisible waves) کی صورت میں ہے-اِس غیر مرئی دنیا میں زندہ انسان ہیں، آوازیں ہیں اور مختلف قسم کی عملی سرگرمیاں ہیں، لیکن بظاہر وہ مکمل طورپر غیر مرئی ہیں- اس کے بعد آپ اپنے ٹی وی سیٹ کو آن کرتے ہیں تو اچانک اسکرین پر ایک پوری دنیا نظر آنے لگتی ہے، جو اُسی طرح کامل اور بامعنی ہے جس طرح ٹی وی سیٹ کے باہر کی دنیا-
اِس مثال سے سمجھا جاسکتاہے کہ اسپریچول تہذیب کیا ہے- وہ کس طرح آج بظاہر غیر موجود ہے اور آخرت کی دنیا میں وہ مکمل طورپر موجود ہوجائے گی- آخرت میں پیش آنے والا یہی وہ واقعہ ہے جس کے ایک پہلو کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُّمْ عَلَیْنَا ۭ قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْــطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَّہُوَ خَلَقَکُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ( 41:21 ) -
آخرت میں اسپریچول تہذیب کے عملی ظہور کا واقعہ قدیم زمانے میں صرف ایک عقیدے کی حیثیت رکھتا تھا، مگر موجودہ زمانے میں ٹیلی ویژن کی ایجاد گویا کہ اِس معاملے کا ایک پیشگی مظاہرہ ہے- ٹیلی ویژن کی ایجاد نے اسپریچول تہذیب کے عملی ظہور کو مشاہداتی سطح پر قابلِ فہم (understandable) بنا دیاہے- ( 20 جون 2013)
واپس اوپر جائیں