فہمِ قرآن— ایک مطالعہ
قرآن، خدا کی محفوظ کتاب ہے- قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا- قرآن میںاس کے نزول کا مقصد اِن الفاظ میں بتایا گیاہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا( 25:1 ) یعنی بہت بابرکت ہے وہ ذات جس نےاپنے بندے پر قرآن اتارا، تاکہ وہ جہان والوںکے لیے آگاہ کرنے والا ہو-
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے قدیم عرب میں اترا- اُس وقت وہ صرف امکانی طورپر نذیر ِ عالم تھا- کیوں کہ بطو ر واقعہ نذیر عالم بننے کے لیے عالمی کمیونکیشن (global communication) کے ذرائع درکار ہیں، جو اُس وقت موجود ہی نہ تھے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں یہ بات مستقبل کے اعتبار سے کہی گئی تھی، نہ کہ حال کے اعتبار سے-جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کے بعد انسانی تاریخ میں ایک انقلابی پراسس (revolutionary process) شروع ہوا- یہ عمل مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے تقریباً ایک ہزار سال کے بعد اپنے نقطہ انتہا (culmination) تک پہنچا- یہ عالمی کمیونکیشن کا دور تھا- اب وقت آگیا تھاکہ قرآن کو نذیر ِ عالم کی حیثیت سے ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے- حقیقت یہ ہے کہ جدید مواصلاتی دور، قرآن کو عالمی بنانے کا دور تھا:
The age of communication was the age of universalization of the Quran.
مگر ابھی یہ امکان واقعہ نہ بن سکا- اِس سلسلے میں یہاںیہاں ایک جائزہ پیش کیا جاتاہے-
ایک تاریخی جائزہ
قرآن جس زمانے میں اترا، اُس زمانے میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا- لوگ قر آن کو یاد کرلیتے اور حافظہ کی مدد سے وہ اس کو پڑھتے یا دوسروں کو پڑھ کر سناتے-رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات( 632 عیسوی( تک یہ حال تھا کہ ہرجگہ صرف قرآن کا چرچا ہوتا تھا- آپ کی وفات کے بعد حدیث کا چرچا بڑھ گیا- عباسی دور میں فقہ کا چرچا شروع ہوا- اس کے بعد اِسی دور میں مسلم تاریخیں لکھی گئیں اور تاریخ کا چرچا ہونے لگا- اِس پورے زمانے میں باتیں یا تو حافظہ میں ہوتی تھیں یا ہاتھ سے لکھے ہوئے اوراق میں- چناں چہ فطرتی طورپر قرآن کا دائرہ اشاعت عملاً محدود رہا-
پندرھویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس وجود میں آیا- اِسی کے ساتھ کاغذ بھی وسیع پیمانے پر بننے لگا- سولھویں صدی عیسوی میں یہ حال ہوا کہ یورپ میں کتابوں کی چھپائی عام ہوگئی- کتابوں کے مطبوعہ نسخے عمومی طورپر دستیاب ہونے لگے-مگر مسلم دنیا ابھی تک پرنٹنگ پریس سے ناآشناتھی- اورنگ زیب عالم گیر سترھویں صدی کا مسلم بادشاہ ہے- مگر اپنے زمانے میں وہ صرف یہ جانتا تھا کہ لمبی مدت کے دوران قرآن کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس کا ایک نسخہ تیار کیا جائے- وہ پرنٹنگ ٹکنالوجی کی بابت کچھ نہیں جانتا تھا-
مسلم دنیا میں پرنٹنگ پریس اٹھارھویں صدی کے آخر میں پہنچا- نپولین 1798میں مصر میں داخل ہوا- وہ اپنے ساتھ فرانس سے پرنٹنگ پریس لایا تھا- انیسویں صدی کے آغازمیں کرسچن مشنری کے لوگ انڈیا میں پرنٹنگ پریس لے آئے- اِس طرح دھیرے ھیرے پرنٹنگ پریس پوری مسلم دنیا میں پھیل گیا- بیسویں صدی میں یہ حال ہوا کہ قرآن کے چھپے ہوئے نسخے ہر جگہ پائے جانے لگے- گھر، مسجد، مدرسہ، لائبریری، کوئی جگہ قرآن کے مطبوعہ نسخوں سے خالی نہ رہی-
مگر اب بھی جو حال ہوا، وہ صرف یہ کہ قرآن مسلمانوں کے لیے کتابِ تلاوت بنا رہا، وہ عمومی طور پر ساری انسانیت کے لیے عملاً نذیر ِ عالم نہ بن سکا-ایسا کیوں ہوا، کیوں ایسا ہوا کہ عالمی اِبلاغ کے مواقع پیداہونے کے باوجود قرآن کی عالمی اشاعت نہ ہوسکی-اس کا سبب یہ ہے کہ یہ کام مسلمانوں کو انجام دینا تھا، جو کہ قرآن کے حامل ہیں، مگر اس زمانے کے مسلمان دعوت کے شعور سے مکمل طورپر خالی تھے- بیسویں صدی کے مسلمان ساری دنیا میں منفی سوچ کا شکار ہوگئے، وہ مدعو قوموں کو اپنا حریف سمجھنے لگے- اِس قسم کی منفی سوچ کے ساتھ دعوت وتبلیغ جیسا مثبت کام نہیں کیا جاسکتا-
اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں جدید کمیونکیشن کا دور آیا، اُسی زمانے میں ایک اور چیز مسلم دنیا میں داخل ہوگئی، یعنی وہ چیز جس کو مغربی نو آبادیات (western colonialism) کہاجاتا ہے- جدید کمیونکیشن اور نوآبادیات دونوں ایک ساتھ مسلم دنیا میں داخل ہوئے:
The age of communication coincided with the age of colonialism.
مغرب کی نوآبادیاتی قومیں جدید طاقتوں سے مسلح تھیں- چناںچہ فطری طور پر یہ ہوا کہ وہ عمومی طورپر اُس زمانے کے مسلم ممالک پر غالب آگئیں- انھوںنے مسلم اداروں اور مسلم حکومتوں کو زیر کرلیا- اِس کے رد عمل کے طور پر یہ ہوا کہ تمام دنیا کے مسلمان مغربی قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے- اُس زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں کا ذہن یہ بن گیا کہ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مغربی طاقتوں سے لڑکر اُن کو مسلم دنیا سے نکالو- اِس سیاسی جہاد میں تقریباً تمام لوگ شریک ہوگئے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ اُس میں فکری اعتبار سے شریک تھے اور کچھ لوگ مسلح ٹکراؤ میں مشغول تھے-
یہ پورا دورمسلمانوں کے لیے منفی رد عمل کا دور تھا- نفرت اور تشدد کے ماحول میں وہ یہ بھول گئے کہ مغربی قومیں اُن کے لیے دشمن نہیں، بلکہ مدعو ہیں- تاریخ میں پہلی بار یہ امکان پیداہوا ہے کہ قرآن اور ترجمہ قرآن کے مطبوعہ نسخوں کو نہ صرف مغربی قوموں، بلکہ تمام دنیا کی قوموں تک پہنچا دیا جائے، تاکہ قرآن اپنے مقصد نزول کے اعتبار سے نذیر ِ عالم بن جائے، یعنی وہ پیشین گوئی پوری ہوجس کو حدیث میں عالمی ادخالِ کلمہ کہاگیاہے- مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے لیےمنفی رد عمل کایہ مزاج انیسویں صدی کے نصف ثانی میں شروع ہوا اور اکیسویں صدی کے نصف اول تک منفی رد عمل کی یہ نفسیات بدستور جاری ہے-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے دوسری قوموں کو اپنا دشمن قرار دے کر جو لڑائی جاری کی، وہ ہر قسم کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود مکمل طورپر بے نتیجہ رہی- کوششوں کا یہ منفی انجام کافی تھا کہ مسلمان اِس معاملے میں اپنے موقف پر نظر ثانی کریں- مگر عجیب بات ہے کہ کھلےہوئے ناکام تجربے کے باوجود آج بھی مسلمانوں کے اندر اِس معاملے میں نظر ثانی کا عمل جاری نہ ہوسکا-
قرآن سے ہدایت لینے میں ناکامی
موجودہ زمانے میں جب قرآن کے مطبوعہ نسخے عام ہوئے تو بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں میں قرآن کو پڑھنے کا رواج پیداہوگیا- مسجدوں او راداروں میں درسِ قرآن کا سلسلہ شروع ہوگیا- کتابوں اور جرائد کے ذریعے قرآنی تعلیمات کی اشاعت کی جانے لگی- قرآن کی تفہیم کے لیے جماعتیں بنیں اور ادارے قائم ہوئے- اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسلمانوں میں عمومی طورپر قرآنی ذہن بنے اور قرآنی طرز فکر پیدا ہو، مگر عجیب بات ہے کہ دروسِ قرآن کی کثرت اور قرآنی کتابوں کی عمومی اشاعت کے باوجود یہ مقصد حاصل نہیں ہوا-
اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ قرآن کو صرف پڑھنا کافی نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ اُس کو صحیح ذہن کے تحت پڑھا جائے- اِسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا ۙ وَّیَہْدِىْ بِہٖ کَثِیْرًا ( 2:26 ) یعنی جو لوگ صحیح ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں گے، اُن کو قرآن سے ہدایت ملے گی، اور جو لوگ بگڑےہوئے ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں، وہ قرآن کو پڑھنے کے باوجود قرآن سے ہدایت پانے سے محروم رہیں گے-
قرآن فہمی کا اصول
علماءِ تفسیر نے عام طورپر قرآن فہمی کے لیے 15 علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے— علمِ لغت، علمِ نحو، علمِ صرف، علمِ اشتقاق، علمِ معانی، علمِ بیان، علمِ بدیع، علمِ قرأت، علمِ عقائد، علمِ اصولِ فقہ، علمِ اسبابِ نزول، علمِ ناسخ ومنسوخ، علمِ فقہ، علمِ حدیث، علم وہبی- مگر تجربہ بتاتا ہے کہ صرف یہ علوم قرآن فہمی کے لیےکافی نہیں- بیسویں صدی عیسوی میں کثیر تعداد میں ایسے علما اٹھے جن کا مقصد قرآنی علم کو عام کرنا تھا- یہ علما مذکورہ تمام علوم کے ماہر تھے، مگر عین اِسی دور کے مسلمان ایک بہت بڑے قرآنی علم سے بے خبر رہ گئے- یہ واقعہ ثابت کرتاہے کہ قرآن فہمی کے لیے صرف مذکورہ علوم سے واقف ہونا کافی نہیں-
مطلوب قرآنی علم وہ ہے جس کو کتاب اللہ میں ’’فرقان‘‘ ( 8:29 )کہاگیاہے- فرقان فرق کا مبالغہ ہے-اِس کا مطلب ہے: دو چیزوں کے درمیان فرق کرنے والا- قرآن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ قاریِ قرآن کے اندر فرقان کی صفت پیدا کرتاہے- وہ قاری کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ کسی چیز کے دو پہلوؤں کے درمیان فرق کرسکے- مثلاً وہ ایسا کرسکے کہ وہ کسی چیز کے پلس پوائنٹ کو اس کے مائنس پوائنٹ سے الگ کرکے دیکھ سکے-
موجودہ زمانے میں نوآبادیاتی طاقتیں مغربی تہذیب کو لے کر مسلم دنیا میں داخل ہوئیں- اِس مغربی تہذیب کے دو پہلو تھے- ایک یہ کہ وہ مغربی قوموں کو مسلم دنیا میں غالب کررہی تھیں- اور اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہیہ لوگ پہلی بار دنیا میں جدید مواقع لائے تھے، جن میں کمیونکیشن سر فہرست ہے- اب علماءِ قرآن کو چاہیے تھا کہ وہ اِن دونوں پہلوؤں کو الگ کرکے دیکھیں- وہ خُذ ما صفاودَع ما کدر کے اصول پر مغربی تہذیب کے غیر مطلوب پہلو کو نظر انداز کردیتے اور دعوتی مواقع کو بھر پور طورپر استعمال کرتے، مگر وہ ایسا نہ کرسکے-
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ دورِ جدید کے علما اور رہنما اِس معاملے میں فرقان کی صفت سے محروم تھے، یعنی مغربی تہذیب کے مذکورہ دو پہلوؤں کے درمیان فرق کرنا - اُن کے مطالعہ قرآن نے اُن کے اندر یہ صلاحیت پیدا نہیں کی تھی کہ وہ مغربی تہذیب کے اندر چھپے ہوئے مثبت دعوتی پہلو کو اس کے دوسرے پہلو سے الگ کرکے دیکھیں اور دعوتی مواقع کے پہلو کو استعمال کرکے دورِ جدید میں اسلام کی عالمی دعوتی اشاعت کا کام انجام دے سکیں-
ربانی شاکلہ
حقیقت یہ ہے کہ قرآن فہمی کے لیے مذکورہ 15 علوم کے علاوہ ایک اور ضروری چیزدرکار ہے، اور یہی چیز دور جدید کے علما اور رہنماؤں کو حاصل نہ تھی، اوروہ ہے ربانی شاکلہ- اِس علم کا ذکر قرآن کی اِس آیت میں ملتا ہے:قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰى سَبِیْلًا ( 17:84 )یعنی کہو کہ ہر ایک اپنے شاکلہ پر عمل کررہا ہے- اب صرف تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر قا ئم ہے-
اِس آیت میں شاکلہ کا مطلب ذہنی سانچہ (mindset) ہے- قریبی حالات کے اعتبار سے، ہر آدمی کا ایک ذہنی سانچہ بن جاتا ہے- وہ اِسی ذہنی سانچہ کی نظر سے چیزوں کو دیکھنے لگتاہے- مگر یہاں ایک برتر ذہنی سانچہ ہے- یہ ذہنی سانچہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ حالات سے اوپر اٹھ سکے- وہ چیزوں کو اللہ کی روشنی سے دیکھنے لگے، جیساکہ حدیث میں آیا ہے: اتقوا فراسةَ المومن فإنہ ینظر بنور اللہ (الترمذی، رقم الحدیث: 3392)- یعنی مومن کی فراست سے بچو، کیوں کہ مومن، اللہ کے نور سے دیکھتاہے- اللہ کے نور سے دیکھنے کا مطلب ہے— چیزوں کو ربانی نقطۂ نظر سے دیکھنا-
قرآن کو صحیح طورپرسمجھنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اِسی ربانی شاکلہ کی ہے- کہاجاتا ہے کہ کسی کتاب کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قاری، مصنف کے ذہن سے کتاب کو پڑھ سکے- کسی بھی کتاب کو جب آدمی پڑھتا ہے تو وہ اس کو خود اپنے شاکلہ کے مطابق، پڑھتا ہے-
ہوورڈفاسٹ(Howard Fast) ایک کمیونسٹ تھا- خروسچف کے مشہور انکشاف (1956) کے بعد اس نے کمیونسٹ پارٹی کو چھوڑ دیا- وہ اصلاً ایک مارلسٹ(moralist) تھا- اس نے کمیونسٹ لیڈروں کی تحریریں پڑھیں تو اس کو محسوس ہوا کہ کمیونزم سماجی اخلاقیات کی ایک تحریک ہے، جب کہ حقیقت ایسی نہ تھی- بعد کو اس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ میں خود اپنے ذہنی سانچےمیں کمیونسٹ بنا:
I accepted communism according to my own mindset.
یہی معاملہ ہر انسان کا ہے- اگر آدمی کا ذہن بنا ہوا نہ ہو تو وہ قرآن کو خود اپنے ذہنی سانچے میں پڑھے گا- وہ قرآن کو پڑھ کر بھی قرآن کو نہیں پائے گا- یہی وہ بات ہے جو ایک صحابی نےاِن الفاظ میں کہی ہے : تعلمنا الإیمان ثم تعلمنا القرآن (یعنی ہم نے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن کو سیکھا)- صحابی کے اِس قو ل میں ایمان سیکھنے سے مراد یہ ہےکہ ہم نے پہلے اپنے ذہنی شاکلہ کی تشکیل ربانی اصول پر کی، پھر ہم اِس قابل ہوئے کہ ہم قرآن کو پڑھ کر اس کو درست طور پرسمجھ سکیں- ربانی شاکلہ کودوسرے الفاظ میں، مثبت شاکلہ (positive mindset)کہا جاسکتا ہے-
غیر قرآنی ذہن
ربانی شاکلہ کیا ہے- ربانی شاکلہ دراصل غیر متعصبانہ طرزِفکر (unbiased thinking) کا دوسرا نام ہے- ایک آدمی جب ہر قسم کے تعصبات سے باہر آکر کھلے ذہن کے تحت سوچے تو اس کی سوچ فطری سوچ بن جاتی ہے- وہ، حدیث کے الفاظ میں، اللہ کے نور سے دیکھنے لگتا ہے- اِسی کا نام ربانی شاکلہ یا ربانی مائنڈ سیٹ (mindset) ہے- ربانی مائنڈ سیٹ کیا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا سے معلوم ہوتاہے- یہ دعا اِن الفاظ میں آئی ہے: اللہم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ، وأرنا الأشیاء کما ہی -
اِس دعا کا خلاصہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ — خدایا، تومجھے توفیق دے کہ میں چیزوں کو ایز اِٹ اِز (as it is) دیکھنے لگوں، یعنی کسی آمیزش کے بغیر خالص فطری انداز میں- اِس سے مراد چیزوں کو اُس نظر سے دیکھنا ہے جس نظر سے خدا اُن کو دیکھتا ہے- اِسی طرزِ فکر کا نام ربانی طرزِ فکر ہے، اور یہ ربانی طرزِ فکر کسی آدمی کے اندر کامل ذہنی تطہیر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے-
انسانی شاکلہ اور ربانی شاکلہ کے فرق کی ایک مثال صلح حدیبیہ ہے، جس کی بابت قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: علم ما لم تعلموا ( 48:27 ) یعنی اللہ نے وہ جانا جو انسان نے نہیں جانا- حدیبیہ کا معاہدہ یک طرفہ شرطوں پر طے کیا گیا تھا- اِس بنا پر انسانی ذہن نے اس کو ذلت آمیز معاہدہ سمجھا- لیکن اللہ اس کو مستقبل میںدعوتی مواقع کھلنے کے اعتبا رسے دیکھ رہا تھا، یعنی انسان اِس معاہدہ کو حال کی نسبت سے دیکھ رہا تھا، جب کہ خدااس کو مستقبل کی نظر سے دیکھ رہا تھا، اِس بناپر ایسا ہوا کہ جس چیز کو انسان شکست کا درجہ دے رہا تھا، اُس کو خدا نے فتحِ مبین کا درجہ دے دیا-
ذہنی پردہ
قرآن کی سورہ الاسراء میں ایک آیت اِن الفاظ میںآئی ہے: وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا( 17:45 ) یعنی جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان ایک چھپا ہوا پردہ حائل کردیتے ہیں، جو آخرت کو نہیں مانتے:
When you recite the Quran, we place an invisible barrier between you and those who do not believe in the Hereafter.
قرآن کی اِس آیت میں حجابِ مستور سے مراد غیر ربانی مائنڈ سیٹ ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اپنے غیر ربانی مائنڈ سیٹ کو توڑنا پڑتا ہے- دوسرے لفظوں میں، یہ کہ اپنے آپ کو کامل طورپر آبجکٹیو مائنڈ(objective mind) بنانا پڑتاہے- اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی شرط سلبی ہے، نہ کہ ایجابی-
ایجابی ذہن کا مطلب ہے، قرآن کو قرآن کے ذہن سے پڑھنا- سلبی ذہن کا مطلب ہے، اپنے غیر قرآنی ذہن کی تطہیر کرنا- قرآن کے صحیح مطالعے کے لیے جو ترتیب ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی پہلے اپنے غیر قرآنی ذہن کے خول سے باہر آئے، اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ وہ ایجابی ذہن کے تحت قرآن کو پڑھے اور اس کو سمجھ سکے- گویا کہ کلمہ توحید (لا إلہ إلا اللہ) کی طرح یہاں بھی یہ اصول ہے کہ پہلے نفی کا مرحلہ ہے اور اس کے بعد اثبات کا مرحلہ، یعنی پہلے اپنے ذہن کے حجاب کو ہٹانا پڑتاہے، اس کے بعد ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ قرآن کو پڑھے اور اس کے صحیح مفہوم تک پہنچ سکے-
جس زمانے میں کمیونزم کا زور تھا، ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے قرآن کو پڑھا- وہ اشتراکی فکر سے متاثر تھے- وہ قرآن کو پڑھتے ہوئے اِس آیت تک پہنچے: إن الأرض للہ ( 7:128 ) - اِس آیت کو پڑھ کر انھوں نے اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، یہ سمجھ لیا کہ قرآن بھی اشتراکیت کی تعلیم دیتاہے- انھوںنے کہاکہ اِس آیت میں کہاگیا ہے کہ زمین اللہ کی ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اسٹیٹ کی ہے- اسٹیٹ کو یہ حق ہے کہ وہ لوگوں کی زمین پر قبضہ کرکے اشتراکی اصول پر زراعت کا نظام بنائے- اِسی طرح ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان جو جمہوری فکر سے متاثر تھے، انھوں نے جب قرآن میں یہ آیت پڑھی: وَأَمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ (( 42:38 تو انھوں نے خوش ہو کر کہا کہ دیکھو، قرآن میں بھی جمہوریت (ڈیماکریسی) کی تعلیم موجود ہے-
ایک اور تعلیم یافتہ مسلمان نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا ( 28:38 )- اِن الفاظ کو پڑھ کر مذکورہ مسلمان نے کہا کہ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن سیریمک انڈسٹری (ceramic industries) کی تعلیم دے رہا ہے- اِس کا تقاضا ہے کہ مسلمان سیریمک انڈسٹریز اور دوسری صنعتیں قائم کریں- وہ صنعت اور تجارت کے میدان میں آگے بڑھیں-
اِس قسم کی بہت سی مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اگر قاری کا ذہن تیار ذہن نہ ہو تو وہ خود اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، قرآن کو پڑھے گا- وہ قرآن کی آیتوں میں ایسی بات پالے گا جو خود قرآن میں موجود نہیں، بلکہ وہ خود اس کے اپنے ذہن میں پائی جاتی ہے-
چند وضاحتی مثالیں
1- مصر کے مشہور انقلابی رہنما سید قطب کا نظریہ تھا کہ پیغمبروں کی دعوت کا نشانہ یہ تھا کہ وہ دنیا میں حکومتِ الہیہ قائم کریں- اِس ذہنی تاثر(obsession) کے تحت، انھوں نے قرآن کو پڑھا تو عجیب وغریب طورپر ان کو نظر آیا کہ قرآن اُن کے سیاسی ذہن کی تصدیق کررہا ہے- مثلاً قرآن کی سورہ الاعراف میں بتایا گیاہے کہ حضرت موسی نے جب اُس وقت کے مصری حکمراں فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو فرعون نے اپنی جوابی تقریر میں اپنے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: یُرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ( 7:110 ) یعنی موسی چاہتے ہیں کہ وہ تم کو تمھارے ملک مصر سے نکال دیں-
سید قطب نے جب اِن الفاظ کو پڑھا تو اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق، انھوں نے یہ سمجھا کہ حضرت موسی کی دعوت ملک میں سیاسی اقتدار قائم کرنے کی دعوت تھی- چناں چہ وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: إنہا الخروج من الأرض، إنہا ذَہاب السلطان، إنہا إبطال شرعیة الحکم، أومحاولة قلب نظام الحکم، بالتعبیر العصری الحدیث (3/1348) یعنی یہ سرزمینِ مصر سے نکلنے کا معاملہ ہے، یہ اقتدار کا خاتمہ ہے، یہ ہماری حکمرانی کو ناجائز ٹھہرانا ہے، یا یہ، دورِ جدید کی تعبیر کے مطابق، نظامِ حکومت کو بدلنے کی کوشش ہے-
مذکورہ مصنفکے یہ الفاظ خود ان کے اپنے ذہن کی ترجمانی ہیں، وہ حضرت موسی کی ترجمانی نہیں- واضح بات ہے کہ حضرت موسی کا پیغام کلامِ موسی سے نکلے گا، نہ کہ کلامِ فرعون سے- مگر اپنے متاثر ذہن کی بنا پر مصنف اِس فرق کو نہ سمجھ سکے- انھوںنے قرآن کی آیت کی ایسی تشریح کردی جس کا تعلق خود قرآن سے نہ تھا، بلکہ خود اُن کے اپنے مائنڈ سیٹ سے تھا-
2- امام ابن تیمیہ کی ایک مشہور کتاب ہے- اس کا ٹائٹل یہ ہے: الصارم المسلول على شاتم الرسول- اِس کتاب میں انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام میں شاتمِ رسول کی سزا قتل ہے- اُن کا دعوی ہے کہ یہ حکم قرآن کی متعدد آیتوں میں بیان کیا گیاہے- مثلاً اِس سلسلے میں انھوں نے قرآن کی یہ آیت پیش کی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ( 33:57 ) یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا اور آخرت میںلعنت کی-
ابن تیمیہ آیت کی شرح میں لکھتے ہیں: وہذہ الآیة تو جب قتلَ مَن آذى اللہ ورسولہ(صفحہ 26 ) یعنی یہ آیت واجب قرار دیتی ہے کہ اُس شخص کو قتل کردیا جائے جو اللہ کو اور اس کے رسول کو ایذا پہنچائے-مذکورہ آیت کی اِس شرح کا تعلق خود قرآن کی آیت سے نہیں ہے- اِس آیت میں شتمِ رسول پر قتل کا مسئلہ سرے سے بیان ہی نہیں ہوا ہے، مگر مصنف کے خود اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر ایساہوا کہ انھوں نے ’’اذیت‘‘ کو شتم کے معنی میں لے لیا، اور ’’لعنت‘‘ کو قتل کے معنی میں- یہ دونوں باتیں خود مصنف کے دماغ میں تھیں، وہ ہرگز قرآن کی مذکورہ آیت میں موجود نہ تھیں-
ربانی مائنڈ سیٹ کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں، وہ نہایت سنگین معاملہ ہے- اگر ربانی مائنڈ سیٹ نہ ہو تو آدمی قرآن کی رہنمائی سے محروم ہوجائے گا- وہ کسی مسئلے کو دیکھ کر اپنے مائنڈ سیٹ کی بنا پر اس کے بارے میں منفی رائے دے گا، حالاں کہ اُس مسئلے کے بارے میں قرآن میں مثبت نقطۂ نظر موجودہوگا - مگر وہ اپنی منفی سوچ کی بنا پر قرآن کی اِس رہنمائی کو اخذ کرنے سے محروم رہے گا-
مثلاً ایک عربی مجلہ میں مسلم اقلیتوں کے بارے میں ایک مضمون چھپا ہے- مضمون نگار نے اپنے اِس مضمون میں مسلم اقلیتوں (Muslim minorities) کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں: الأقلیات المسلمة تواجہ خطر الذوبان (مسلم اقلیتوں کے لیے غیر مسلم اکثریت میں جذب ہونے کے خطرے کا سامنا)-مسلم اقلیتوں کے بارے میں یہ تصور تمام تر خود ساختہ مائنڈسیٹ کی بنا پر پیدا ہوا- اگر اِس مسئلے کو ربانی شاکلہ کی نسبت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کسی اقلیت کے بارے میں برعکس طورپر پُرامید تصور دیتاہے- قرآن کی وہ آیت یہ ہے: کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰہِ ( 2:249 ) یعنی کتنے ہی اقلیتی گروہ ہیں جو اکثریتی گروہ پر غالب آجاتے ہیں، اللہ کے اِذن سے-
قرآن کی اِس آیت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جب دو گروہ کسی علاقے میں مشترک طورپر رہتے ہوں، ایک گروہ اقلیت میں ہو اور دوسرا گروہ اکثریت میں- ایسے ماحول میں یہ ہوتا ہے کہ اکثریتی گروہ، اقلیتی گروہ کے لیے ایک مسلسل چیلنج بن جاتا ہے- یہ چیلنج اقلیتی گروہ کے اندر فطری طورپر زیادہ سوچ اور زیادہ عمل کا مزاج بناتاہے- اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ جو پہلے صرف ایک اقلیتی گروہ تھا، اب وہ ایک تخلیقی اقلیت (creative minority) بن جاتا ہے- اور یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ جس فرد یا جس گروہ میں تخلیقی صلاحیت پیدا ہوجائے، وہ زیادہ بڑے کارنامے انجام دینے کے قابل ہوجاتاہے-
اجتہادی تفسیر
اجتہادی تفسیر اور تفسیر بالرائے دونوں ایک تفسیر نہیں ہیں- تفسیر بالرائے ایک غیر مطلوب تفسیر ہے- اس کے مقابلے میں، اجتہادی تفسیر عین مطلوب تفسیر ہے- تفسیر بالرائے قرآن سے انحراف ہے، جب کہ اجتہادی تفسیر کامل معنوں میں قرآن کا اتباع ہے-
اجتہادی تفسیر کیا ہے- اجتہادی تفسیر کا مطلب قرآن کی کسی آیت کی معنویت کو ازسرِ نو دریافت کرنا ہے- اجتہادی تفسیر دراصل یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن کا انطباقِ نو (re-application) معلوم کیا جائے- اجتہادی تفسیر، قرآن کے تسلسل کا اظہار ہے- صرف اجتہادی تفسیر کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ قرآن ہر دور کے ذہن کو ایڈریس کرتا رہے-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ انبیا اپنے وقت کے ملاء کو خطاب کرتے تھے-ملاء کا لفظ قرآن میں تقریباً 30 بار آیا ہے- ملاء کا مطلب ہے— سردارِ قوم (head of nation)- پیغمبر کا اسلوبِ دعوت یہ ہے کہ قبیلہ یا قوم کے سردار کو خصوصی طورپر خطاب کیا جائے- اِس حکمت کا سبب یہ ہے کہ ملاء کی حیثیت ذہن ساز (opinion-maker) کی ہوتی ہے-اِس لیے ملاء تک پیغام پہنچانا، بالواسطہ انداز میں، پورے گروہ تک پیغام پہنچانا ہوتا ہے-
ملاءِ قوم کے اِس تصور کو اجتہادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تواِس سے ایک عظیم حقیقت کا انکشاف ہوتاہے- موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے علم برداروں کو یہی درجہ مل گیا تھا، وہ توسیعی معنوں میں گویا ملاءِ عالم بن گئے تھے- پھر انھوں نے جدید ذرائع اور جدید کمیونکیشن کو استعمال کرکے قائد ِ عالم (world leader) کادرجہ حاصل کرلیا تھا-
دعوہ ورک کے لیے یہ واقعہ ایک عظیم امکان (great opportunity) کی حیثیت رکھتاتھا- تہذیب کے علم برداروں تک قرآنی پیغام پہنچانا، بالواسطہ طورپر سارے عالم تک قرآنی پیغام پہنچانے کے ہم معنی بن گیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے رومی بادشاہ ہرقل کو ایک دعوتی خط بھیجا تھا- اس میں یہ الفاظ درج تھے: فإن تولیتَ فإن علیک إثم الأریسیین (اگر تم میری بات کو نہ مانو تو تمھارے اوپر تمھاری پوری قوم کی ذمے داری عائد ہوجائے گی)- اس کا مطلب یہ ہے کہ رومی بادشاہ تک پیغام پہنچانا، اس کی پوری قوم تک پیغام _پہنچانے کے ہم معنی تھا-
اِسی طرح موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب کے علم برداروں تک قرآن کا پیغام پہنچانا، بالواسطہ طور پر پورے عالم تک قرآن کا پیغام پہنچانے کے ہم معنی تھا- مگر عین اُس وقت یہ ہوا کہ بعض سیاسی وجوہ کی بنا پر مسلم رہنما، مغربی تہذیب سے نفرت میں مبتلا ہوگئے- عرب سے عجم تک، تقریباً تمام مسلمانوں کا یہ حال ہوا کہ وہ مغربی قوموں سے نفرت کرنے لگے- انھوںنے مغرب کو مدعو کے بجائے عدو (دشمن) کا درجہ دے دیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دورِ جدید کا ایک عظیم دعوتی امکان استعمال ہونے سے رہ گیا-موجودہ زمانے میں یہ حادثہ اِس لیے پیش آیا کہ مسلم علما قرآن کی تفسیر مجتہدانہ انداز میں نہ کرسکے- وہ قرآن کے دعوتی اسلوب کا جدید انطباق کرنے سے عاجزرہے- مجتہدانہ بصیرت، قرآن کے ابدی مفہوم کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے-
خدا کا تخلیقی منصوبہ
قرآن، خدا کی کتاب ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی خداکے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو جانتا ہو- خدا کی کتاب اور خدا کا تخلیقی منصوبہ دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہوسکتا- ضروری ہےکہ قرآن کا قاری قرآن کے اس پہلو کو شعوری طورپر جانے، ورنہ وہ قرآن کی ایسی تفسیر کرے گا جو خدا کے تخلیقی منصوبے سے مطابقت کرنے والی نہ ہوگی، اور اِس بنا پر وہ بداہةً ہی قابلِ رد ہوگی:
Prima facie it stands rejected
اِس کی ایک مثال وہ تفسیر ہے جس کے مطابق، رسول پر شتم کرنا ایک ایسا فعل ہے جس پر شاتم مستوجب ِقتل ہوجاتاہے- یہ نظریہ سرتاسر ایک غیر قرآنی نظریہ ہے- وہ خدا کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت نہیں رکھتا- قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے- اُس کو اختیار ہے، وہ چاہے تو اِس آزادی کا صحیح استعمال کرے اور چاہے تو وہ اِس آزادی کا غلط استعمال کرے( 76:3 )- آزادی کے غلط استعمال پر ضرور انسان کی پکڑ ہوگی، لیکن یہ پکڑ صرف آخرت میں ہوگی، دنیا میں ہرگز نہیں- ایسی حالت میں شاتم کے لیے قتل کی سزا مقرر کرنا، خدا کے منصوبۂ تخلیق میں ایک متناقض (inconsistent) حکم ہوگا، جب کہ قرآن خود اپنے بارےمیں یہ اعلان کرتاہے کہ اس میں کوئی تناقض نہیں ( 4:82 )- قرآن کی صحیح تفسیر کے لیے یہ ایک لازمی شرط ہے- جو لوگ اِس معاملے میں باشعور نہ ہوں، وہ یقینی طورپر قرآن کی صحیح تفسیر کرنے میں ناکام رہیں گے-
قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سماجی جرائم (social crimes) پر سزا ہے- مثلاًچوری اور قذف، وغیرہ- مگر جہاںتک فکری جرائم (intellectual crimes) کا تعلق ہے، اُن پر اسلام میں کوئی جسمانی سزا (physical punishment) نہیں- فکری جرائم پر صرف دعوت وتبلیغ ہے، نہ کہ سزا- اِس معاملے میں قرآن کے یہ الفاظ انتہائی حد تک واضح ہیں: فَذَکِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَکَفَرَ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ اِنَّ اِلَیْنَآ اِیَابَہُمْ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ ( 88:21-26 )-
غیر قرآنی ذہن کی تطہیر
اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کسی ماحول میں پیدا ہوتا ہے- اپنے تجربے اور مطالعے کے مطابق، اس کا اپنا ایک ذہنی سانچہ (mindset)بن جاتا ہے- وہ اپنے اِسی بنے ہوئے ذہن (conditioned mind) کے تحت چیزوں کودیکھتا ہے اور رائے قائم کرتا ہے- اِسی مائنڈ سیٹ کو قرآن میں شاکلہ ( 17:84 ) کہاگیا ہے- قرآن کو سمجھنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی اپنے اِس ذاتی شاکلہ کو توڑے اور ربانی شاکلہ کی روشنی میں وہ قرآن کا مطالعہ کرے-
مثال کے طورپر ہر آدمی کو اپنی زندگی میں کچھ منفی تجربات پیش آتے ہیں- اس کو لوگوں کی طرف سے ناخوش گوار تجربہ ہوتا ہے- اِن تجربات کی بناپر تقریباً ہر آدمی کا یہ حال ہوتاہے کہ وہ خارجی دنیا کے بارے میں منفی سوچ کا شکار ہوجاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ ایسی تحریکیں لوگوں کے درمیان بہت جلد مقبول ہوجاتی ہیں جو کسی خارجی ظالم کے خلاف اٹھائی گئی ہوں-اِس ذہن کو لے کر جو آدمی قرآن کو پڑھے گا، وہ پوری طرح قرآن کو سمجھ نہیں سکتا- مثلاً وہ قرآن میں صبر کی تعلیم پڑھے گا- وہ پڑھے گا کہ اللہ کے یہاں صبر کرنے والے کو سب سے زیادہ ثواب (reward) ملے گا- وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر یہ سمجھے گا کہ قرآن ظالم کے مقابلے میں جھکنے کی تعلیم دیتاہے- چناں چہ اس کو قرآن کی تعلیمات زیادہ اپیل نہیں کریںگی-
اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آدمی پہلے یہ دریافت کرے کہ اِس دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے- وہ منصوبہ یہ ہےکہ اِس دنیا کو خدا نے دار الامتحان (testing ground) کے طورپر بنایا ہے- اِس بنا پر یہاں ہر انسان کو عمل کی پوری آزادی دی گئی ہے- ہر آدمی آزاد ہے، خواہ وہ اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرے یا غلط استعمال کرے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ پرابلم آف اِول (problem of evil) کہتے ہیں، وہ دراصل پرابلم آف فریڈم (problem of freedom) ہے- چوں کہ اِس دنیا میں انسان کی آزادی کو منسوخ کرنا ممکن نہیں، اِس لیے دنیا سے برائی کا کلی خاتمہ بھی ممکن نہیں-
ایسی حالت میں اگر ایک شخص چیزوں کا آئڈیل معیار (ideal yardstick)اپنے ذہن میں رکھ کر قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ قرآن کی تعلیمات کو سمجھ نہ سکے گا- قرآن کے مطابق، اِس دنیا میں جو چیز ممکن ہے، وہ فرد کی کامل اصلاح ہے، سماج کی کامل اصلاح اِس دنیا میں ممکن نہیں- آدمی کوچاہئے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے، آئڈیل معنوں میں انصاف پسند بنے، لیکن سماج کے معاملے میں وہ ورکنگ انصاف (working justice) پر راضی ہوجائے-
فلسفیانہ ذہن کے تحت قرآن کا مطالعہ
اِس طرح اِس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ فلسفیانہ ذہن کولے کر اگر کوئی شخص قرآن کا مطالعہ کرے تو وہ قرآن کو سمجھنے میں ناکام رہے گا- فلسفیانہ ذہن یہ ہے کہ چیزوں کا کلّی علم حاصل کیاجائے- فلسفیانہ ذہن محدود علم پر راضی نہیں ہوتا- اِس کے برعکس، قرآن کا یہ کہنا ہے کہ: وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا ( 17:85 )-اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے مضامین دو قسم کے ہیں — ایک وہ جو ہماری معلوم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں- اور دوسرے مضامین وہ ہیں جو امورِ غیب سے متعلق ہیں- پہلے قسم کی باتوں کو محکم زبان میں بیان کیاگیا ہے، یعنی الفاظ میں جو بات ہے، وہی حقیقت میں بھی مطلوب ہے- محکم آیتوں پر غور کرکے اُن کی کلّی معنویت تک پہنچنا ممکن ہے-
دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جن کو قرآن میں متشابہات ( 3:7 ) کہا گیا ہے- یہ آیتیں وہی ہیں جو امورِ غیب سے تعلق رکھتی ہیں- اِن آیتوں میں مشابہت کا اسلوب اختیار کیاگیا ہے، یعنی کسی بات کو تمثیلی زبان (allegorical language) میں بیان کرنا- اِن د وسری قسم کی آیتوں میں بیان کردہ باتوں کو صرف اِجمالی طورپر سمجھا جاسکتا ہے- آدمی کو چاہئے کہ اِس معاملے میں وہ اجمالی علم پر قناعت کرے، وہ اُس کی آخری کُنہ تک پہنچنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ وہ کنفیو ژن کاشکار ہوجائے گا-
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا( 3:7 )- اِ س آیت کا مطلب یہ ہے کہ سچا علم رکھنے والے لوگ متشابہ آیتوں کی کُنہ تک پہنچے کی سعی لاحاصل نہیں کرـتے، بلکہ وہ اس کے اجمالی مفہوم کو مانتے ہوئے اس کی صداقت پر یقین کرلیتے ہیں-قرآن کے مطالعے میں اِس اصول کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے- اِس کے بغیر قرآن کو درست طورپر سمجھنا ہرگزممکن نہیں-
قرآن کی تفسیر اپنی رائےسے
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من قال فی القرآن برأیہ، فأصاب، فقد أخطأ (الترمذی، رقم الحدیث: 3183) یعنی جس نے قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کہا، اور اس نے صحیح کہا، تب بھی اس نے غلطی کی-
اِس حدیث کی بنیاد پر کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تفسیر بالرائے کا طریقہ مطلقاً غلط ہے، مگر اِس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے - اِس حدیث میں تفسیر بالرائے کا مقابل، تفسیر بالروایت نہیں، بلکہ اس کا مقابل تفسیر بالتدبر ہے- اِس حدیث میں دراصل ذمے دارانہ تفسیر اور غیرے ذمے دارانہ تفسیر میں فرق کو بتایا گیا ہے- حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معاملے میں کسی شخص کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ کسی آیت کے بارے میں جو کچھ اُس کے ذہن میں آئے، بلا تحقیق وہ اُس کو بیان کرنے لگے- قرآن کی تفسیر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس آیت کی وضاحت کرنا ہے، پہلے اس کی تحقیق کی جائے- تدبر کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد اُس پر لکھا یا بولا جائے گا-
تفسیر بالرائے یہ ہے کہ آدمی کے ذہن میں پہلے سے ایک تصور (idea)موجود ہے- اِس کے بعد وہ قرآن کو پڑھتا ہے- اُس کو قرآن میں اپنی بات کے مشابہ ایک لفظ مل جاتا ہے اور پھر وہ کہتا ہے کہ دیکھو، میری بات خود قرآن میں موجود ہے- مثال کے طورپر ایک شخص کے اندر سیاسی طرزِ فکر ہے- وہ سیاسی اقتدار کو سب سے بڑی چیز سمجھتاہے- اِس ذہن کو لے کر وہ قرآن پڑھتاہے، پھر وہ اِس آیت تک پہنچتاہے: إنِ الحکمُ إلا للہ ( 12:40 )- وہ فوراً کہہ اٹھتاہے کہ سیاسی اقتدار کا تصور خود قرآن میں موجود ہے، قرآن کی اِس آیت میں بتایا گیاہے کہ حکم صرف اللہ کا ہے- اِس آیت کی سیاسی تفسیر کرکے وہ اس کو حکومتِ الہیہ کے معنی میں لے لیتاہے اور پھر یہ دعوی کرتاہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں سے لڑکر دنیا میں خدا کی سیاسی حکومت قائم کریں- یہ بلاشبہہ تفسیر بالرائے ہے، کیوں کہ قرآن کی اِس آیت میں حکم سے مراد فوق الطبیعی (supernatural) حکم ہے، نہ کہ سیاسی حکم-
قرآن کی مذکورہ آیت کی تفسیر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں پیشگی طورپر جو تصور ہو، اُس کو لے کر آپ قرآن کو پڑھیں، اور پھر ایک مشابہ لفظ (حکم) پاکر یہ کہنے لگیں کہ دیکھو، قرآن بھی اِسی تصورِ سیاست کی تعلیم دے رہا ہے- یہ طریقہ بلا شبہہ تفسیر بالرائے کا طریقہ ہے-
تفسیر کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کی اِس آیت پر کھلے ذہن کے ساتھ تدبر کریں- آپ آیت کے سیاق(context) کی روشنی میں اس کا مطالعہ کریں- جب آپ ایسا کریں گےتو آپ پر یہ واضح ہوجائے گا کہ اِس آیت میں اصنام پرستی کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِس آیت میں حکم (اقتدار) سے مراد وہ اقتدار ہے جو زمین اور آسمان میں براہِ راست طورپر خدا نے قائم کررکھا ہے، یہاں اُس سیاسی اقتدار کا کوئی ذکر نہیں جس کو انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں سماج کی سطح پر قائم کرتاہے، یعنی خدا کا قائم کردہ فوق الطبیعی اقتدار، نہ کہ انسان کا قائم کردہ سیاسی اقتدار-
قرآن کی تفسیر خواہ کسی بھی انداز میں کی جائے، ہمیشہ ایسا ہوگا کہ آدمی اپنی رائے کو استعمال کرے گا- رائے سے مراد عقلی غور وفکر ہے اور عقلی غور وفکر کے بغیر کوئی بھی تفسیر ممکن نہیں، حتی کہ تقلیدی تفسیر بھی نہیں- قرآن کی سورہ ص میں ارشادہوا ہے: کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ( 38:29 ) یعنی یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں-
تدبر کا مطلب غور وفکر (contemplation) ہے- قرآن میں تدبر یہ ہے کہ آپ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ قرآن کو پڑھیں، اس کے تمام پہلوؤں پر کسی تحفظِ ذہنی (reservation) کے بغیر غور کریں- آپ کا مقصد سچائی کی تلاش ہو، نہ کہ اپنی بات کو قرآن سے نکالنا- اِسی کے ساتھ آپ کو یہ اندیشہ لگاہوا ہو کہ اگر آپ نے قرآن کی کسی آیت کی غلط تفسیر کی تو وہ خداکے یہاں مقبول نہ ہوگی اور آپ اس کے لیے پکڑے جائیں گے- اِس طرح کی سنجیدہ فکر کے ساتھ جو تفسیر کی جائے، اسی کا نام تدبر ہے- اور تدبر کے ساتھ قرآن کی تفسیر کرنےکا طریقہ ہی تفسیر کا صحیح طریقہ ہے- دوسرے لفظوں میں، غیر ذمے دارانہ تفسیر کا نام تفسیر بالرائے ہے، اور ذمے دارانہ تفسیر کا نام تفسیر بالتدبر-
فہم قرآن
قرآن میں 114 سورتیں ہیں- اس کی سورہ نمبر 103 کا نام العصر ہے- سورہ العصر کے بارے میں امام شافعی (وفات: 820ء) کا مشہور قول ہےکہ: لو تدبر الناسُ ہذہ السورة، لوسعتہم (اگر لوگ سورہ العصر میں تدبر کریں تو یہی ایک سورہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہوجائے)- یہ بات بذاتِ خود بالکل درست ہے- تدبر قرآن، نہ صرف سورہ العصر کو سمجھنے کے لیے، بلکہ پورے قرآن کے فہم کی کلید ہے- لیکن قرآن میں تدبر کی دو سورتیں ہیں — ایک ہے، فنی تدبر، اور دوسرا ہے، عارفانہ تدبر- قرآن کے مطالعے کے لیے فنی تدبر صرف ابتدائی فہم قرآن کے لیے کار آمد ہے- جہاں تک گہرے فہم قرآن کا تعلق ہے، اس کاحصول صرف عارفانہ تدبر کے ذریعے ممکن ہوتاہے-
فنی تدبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی لغت اور نحو اور صرف اور شانِ نزول، وغیرہ جیسی باتوں سے واقفیت رکھتاہو- ایسا آدمی اِس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ وہ قرآن کے سادہ مفہوم کو بظاہر صحت کے ساتھ سمجھ لے، مگر جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: لکل آیة منہا ظَہْر وبَطْن)الطبرانی 10/105 (- اِس قسم کا فہم قرآن کسی آدمی کو صرف ظہرِ قرآن سے واقف کراتا ہے، لیکن جہاں تک بطنِ قرآن کا معاملہ ہے، اُس سے آگاہ ہونے کے لیے صرف فنی واقفیت کافی نہیں- بطنِ قرآن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے دین کی گہری معرفت ضروری ہے- یہ معرفت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ قرآن اور سنت کا مطالعہ کرے، جو لمبی مدت تک دعا اور ذکر الہی میں زندگی گزارے، وہ صبح وشام کے لمحات میں قرآن کا طالب بنا ہوا ہو، جس کا مسلسل غور وفکر اس کو معرفت (realization)کی اُس سطح تک پہنچا دے، جب کہ وہ فنی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہوجاتاہے- اُس وقت وہ اُس درجہ معرفت کو حاصل کرلیتاہے جس کو حدیث میں "مُحَدَّث"(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3689) کہاگیا ہے-
قرآن کی عارفانہ تفسیر
جیسا کہ عرض کیاگیا ، علماءِ تفسیر نے قرآن کی تفسیر کے لیے 15 علوم کو ضروری قرار دیا ہے- اِن علوم میں سے ایک علم وہ ہے جس کو علمِ وہبی کا نام دیاگیا ہے-علمِ وہبی سےمراد معرفت ہے- بقیہ علوم کی حیثیت فنّی ہے اور معرفت وہ خصوصی صلاحیت ہے جس کو دوسرے الفاظ میں حکمت اور بصیرت (divine wisdom) کہاجاسکتا ہے- اِس حکمت اور بصیرت کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْن( 9:52 ) یعنی تم ہمارے لیےدو میں سے ایک بہتر چیز (one of the two good things) کا انتظار کررہے ہو-
قرآن کی اِس آیت میں ’’دو بہتر میں سے ایک بہتر‘‘ کا مطلب مفسرین نے عام طور پر فتح اور شہادت لیاہے، یعنی تمھارے مقابلے میں ہم کو یا تو فتح حاصل ہوگی جو بلاشبہہ ایک بہتر چیز ہے، اور اگر تم نے ہم کو قتل کردیا تو ہم شہادت کا درجہ پائیں گے، اور وہ بلا شبہہ ہمارے لیے ایک بہتر چیز ہے-
خالص علم وفن کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ تفسیر بالکل درست تفسیر معلوم ہوتی ہے، لیکن معرفت کے اعتبار سے دیکھئے تو یہ تفسیر ایک ناقص تفسیر ہے- فنی تفسیر کے اعتبار سے، اِس آیت کا تعلق جنگی صورتِ حال سے ہے- لیکن معرفت شناس ذہن یہ کہے گا کہ قرآن کا تعلق صرف جنگ سے متعلق احکام سے نہیں ہے، بلکہ قرآن کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے، اِس لیے ضروری ہے کہ ’إحدى الحسنین‘ کی سعادت ایک مومن کے لیے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے بھی قابلِ حصول ہو-اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص سے وقتی طورپر آپ کی ملاقات ہوتی ہے- آپ کے لیے موقع تھا کہ آپ اس کے ساتھ حسنِ معاملت کریں اور ثواب کے مستحق قرار پائیں، لیکن کسی وجہ سے آپ اس کے ساتھ حسنِ معاملت نہ کرسکے- اِس صورت ِ حال میں آپ کے لیے ’إحدى الحسنیین‘ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع باقی ہے- وہ اس طرح کہ آپ یہ دعا کریں کہ — خدایا، میں فلاں انسان کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرسکا، تو میری اِس غلطی کو معاف فرمااور اُس انسان کے لیے میری طرف سے دعاءِ خیر لکھ دےاور اس کے حق میں میرے کوتاہی کی تلافی فرما-
ایک شخص اگر فنی علوم کو حاصل کرلے تو وہ اِس قابل ہوجاتاہے کہ وہ قرآن کی کسی آیت کے ظاہری پہلوؤں کو بخوبی طورپر جان لے- اُس آیت کا لفظی ترجمہ کیاہے، اس کا شانِ نزول کیا ہے، سیاق وسباق کی رعایت سے اس کا کیا مفہوم بنتا ہے اور کیا مفہوم نہیں بنتا، وغیرہ-
ایک شخص جس کو فنی واقفیت حاصل ہو، وہ آیت کےظاہری مفہوم کو سمجھ سکتاہے، لیکن اُس آیت میں الفاظ کے ماورا جو حقیقتیں چھپی ہوئی ہیں، وہ اُن سے بے خبر رہے گا- مثلاً وہ اِس بات کو جان لے گا کہ الحمد للہ رب العالمین کا لفظی ترجمہ کیا ہے- لیکن قرآن کی اِس آیت میں ایک اور گہرا پہلو چھپا ہوا ہے، لیکن اِس گہرے پہلو تک پہنچنے کے لیے صرف فنی واقفیت کافی نہیں-
یہ گہرا پہلو وہ ہے جس کا علم صرف صاحبِ معرفت انسان کو ہوتاہے،صاحب معرفت انسان وہ ہے جس نے اللہ کی عظمتوں کو دریافت کررکھا ہو، جس کے غور وفکر نے اس کو اللہ کی کائناتی ربوبیت کی پہچان کرادی ہو، جو زمین وآسمان میں اس کی رحمتوں کا تجربہ کررہاہو- ایسا شخص جب الحمد للہ کہے گا تو اس کا شعورِمعرفت اِن الفاظ کے اندرمعانی کا سمندر بھردے گا- الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر کرتے ہوئے اس کو محسوس ہوگا کہ انسائکلوپیڈیا کی وسیع جلدیں بھی اس کی تفسیر کے لیے ناکافی ہیں-
قرآن کی فنی تفسیر قرآن کی صرف ٹکنکل تفسیر ہے، اور قرآن کی عارفانہ تفسیر، قرآن کی تخلیقی تفسیر (creative commentary) ہے- فنی صلاحیت کے لیے کتابی مطالعہ کافی ہوسکتاہے، لیکن معرفت ایک خدائی عطیہ ہے- معرفت کسی انسان کو صرف خدا کی توفیق سے ملتی ہے، اور خدا کی توفیق اُس انسان کو حاصل ہوتی ہے جس نے خدا کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنا لیا ہو-
قرآن فہمی کی شرط
قرآن کی سورہ الواقعہ میں، قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لا یمسّہ إلا المطہرون ( 56:79 ) یعنی قرآن کو صرف وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاکیزہ ہیں:
None can touch the Quran except the purified.
اِس آیت کی تفسیر میں پاکیزہ سے کون لوگ مراد ہیں- کچھ لوگ اِس سے مراد فرشتوں کو لیتے ہیں- کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اِس سے مراد پاک اور با وضولوگ ہیں- مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس قسم کے مسائل اِس آیت کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں- اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے معانی تک پہنچ صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہوتی ہے جو پاکیزہ ذہن کے حامل ہوں-
راغب الاصفہانی (وفات: 1108ء) نے اپنی کتاب المفردات میں اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: إنہ لا یبلغ حقائق معرفتہ إلا من طہّر نفسہ (صرف وہ شخص معارف قرآن کے حقائق تک پہنچے گا جو اپنے نفس کی تطہیر کرے)- حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں پاکیزگی سے مراد اصلاً اخلاقی یا جسمانی پاکیزگی نہیں ہے، بلکہ اُس سے مراد ذہنی یا نفسیاتی پاکیزگی ہے-
قرآن ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جو کامل طورپر مثبت ذہن کا حامل ہے، وہ مکمل طورپر منفی سوچ سے پاک ہے- ایسی حالت میں، قرآن کو سمجھنے کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ قرآن کے قاری کا شاکلہ، قرآن کے مصنف کے شاکلہ کے ہم سطح ہوجائے- اِس کے بغیر کسی قاری کی پہنچ قرآن کے مضامین تک نہیں ہوسکتی- جو قاری اِس ذہنی ارتقا کا حامل ہو کہ اس کا ذہن مکمل طورپر مثبت ذہن (positive mind) بن چکا ہو، وہ منفی سوچ (negative thinking) سے پوری طرح خالی ہو- ایسے ہی انسان کی پہنچ قرآن کے گہرے معانی تک ہوگی-ایسے ہی انسان پر اللہ کی توفیق سے قرآن کے گہرے معانی کے دروازے کھلیں گے-(2012)
واپس اوپر جائیں