اسلام اور مسلمان
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا مشن شروع کیا- ابتدائی مشکلات کے بعد آپ کا مشن نہایت تیزی کے ساتھ پھیلا، یہاں تک کہ تقریباً 50 سال کے عرصے میں آپ کے ماننے والوں نے ایشیا اور افریقہ اور یورپ میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم کرلیں- مسلمانوں کا یہ دبدبہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا- اِس کے بعد وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ( 3:140 ) کے فطری قانون کے تحت حالات بدلے- یورپ میں نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کا دور آیا- یورپی قومیں نئی طاقتوں سے مسلح ہو کر دنیا کے بیش تر حصے میں پھیل گئیں-یہ وہی دور تھا جس کو مسلم ایمپائر کا دور کہا جاتا ہے- فطری طور پر یورپی قوموں کا مقابلہ براہِ راست مسلم سلطنتوں سے ہوا- اٹھارھویں صدی عیسوی کا آخری زمانہ اِس معاملے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے- یہی وہ زمانہ ہے جب کہ ایک طرف، عثمانی سلطنت کو یورپی طاقت کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا- 1770 میں ترکوں کے مضبوط بحری بیڑے کو ایک لڑائی میں میڈی ٹیرینین سمندر میں تباہ کردیا گیا:
The Ottoman naval establishment was wiped out at the Battle of Çeşme (1770) by a Russian fleet. (EB. 13/784)
اِس سلسلے میں دوسرا واقعہ ہندستان میں پیش آیا- اُسی زمانے میں برٹش فوجیں ہندستان میں داخل ہوئیں اور تیزی سے پیش قدمی کرنے لگیں- اٹھارھویں صدی کے آخر میں اُن کا مقابلہ میسور کے سلطان ٹیپو سے پیش آیا- برٹش فوجیں کامیاب ہوئیں اور 1799 میں انھوں نے سری رنگا پٹنم میں سلطان ٹیپو کو ہلاک کرکے میسور کی سلطنت پر قبضہ کرلیا- اُس وقت سلطان ٹیپو کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر جنرل ہیرس (George Harris) نے فاتحانہ انداز میں کہا تھا کہ — آج ہندستان ہمارا ہے:
Today, India is ours!
نئی سوچ کی ضرورت
اِس کے بعد مغربی قوموں کے خلاف مسلمانوں کا ٹکراؤ شروع ہوا- یہ ٹکراؤ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان دو صدیوں تک مسلسل جاری رہا- اِس طویل جنگ میں مسلمانوں کو ساری دنیا میں یک طرفہ طور پر تباہی سے دوچار ہونا پڑا-اب اِس تباہ کن لڑائی کی تاریخ اکیسویں صدی میں پہنچ چکی ہے- اب حالات اُس سنگین حد تک پہنچ چکے ہیں، جب کہ اِس تباہ کن لڑائی کو مزید جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں- اب آخری طور پر وہ قت آگیا ہے کہ مسلمانوں کے علما اور دانش ور یہ فیصلہ کریں کہ اب ہمیں پورے معاملے کا از سرِ نو جائزہ لینا ہے- اب ہمیں ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے احیاءِ ملت کی نئی منصوبہ بندی کرنا ہے- دو سو سال کا ناکام تجربہ یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ ماضی کی پالیسی کو بدستور جاری رکھنا، اب صرف دیوانگی ہے، نہ کہ کوئی دانش مندی-
اسلام کے عملی اصول میں سے ایک اصول وہ ہے جس کو نظر ثانی (reassessment) کا اصول کہا جاسکتا ہے- فطرت کے نظام کے مطابق، یہ ممکن ہے کہ آدمی نظریہ (ideology) کی سطح پر ہمیشہ ایک ہی آئڈیل اصول پر قائم رہے، لیکن عمل کی دنیا میں آنے کے بعد ہمیشہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی عملی تقاضے کی نسبت سے اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرنا، بدلے ہوئے حالات کے مطابق، ازسرِ نو اپنے عمل کا نقشہ بنانا- یہ اسلام کا تقاضا بھی ہے اور عقل کا تقاضا بھی- موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر اب آخری طور پر وہ وقت آگیا ہے کہ وہ اِس عملی اصول کے تحت اپنی سرگرمیوں کا از سرِ نو جائزہ لیں اور حقائق (realities) کی بنیاد پر اپنے عمل کا نیا نقشہ بنائیں، جو حالات کے مطابق، قابلِ عمل بھی ہو اور نتیجہ خیز بھی-
اسلامی لٹریچر کا معاملہ
اسلام استثنائی طورپر ایک ایسا مذہب ہے جس کا اصل متن (original text) آج بھی محفوظ طور پر موجود ہے- یہی متن (قرآن اور سنت) اسلام کی تعلیمات کو جاننے کا واحد ماخذ ہے- اسلام کا یہ تاریخی پہلو اسلام کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں- مگر اسلام کی بعد کی صدیوں میں یہ ہوا کہ اسلام کے متن کی تشریح وتفصیل کے طور پر ہزاروں کتابیں عربی زبان میں لکھی گئیں- اس کے بعد دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ بعد کو لکھی جانے والی یہ کتابیں شعوری یا غیر شعوری طورپر اسلام کا اصل ماخذ قرارپاگئیں- اب یہی کتابیں مدرسوں اور اداروں اور لائبریریوں میں استعمال ہوتی ہیں، ہر جگہ اُنھیں کا چرچا ہوتا ہے، حتی کہ عملاً اب قرآن اور سنت کی حیثیت ثانوی ہوگئی ہے اور بعد کو پیدا ہونے والے لٹریچر کو بلا اعلان اسلام کے اولین لٹریچر کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے-
اب موجودہ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ فکری حیثیت سے وہ دین ِ منزَّل پر کھڑے ہوئے نہیں ہیں، اب عملاً وہ اُس دین پر کھڑے ہوئے ہیں جو بعد کی صدیوں میں مسلم علما نے اصل دین کی تشریح وتفصیل کی حیثیت سے بطور خود مدوّن کیا- مسلمانوں کی یہ صورتِ حال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس پیشین گوئی کی تصدیق ہے جو حدیث کی کتابوں میں اِن الفاظ میں آئی ہے: من اقتراب الساعة أن یرفع الأشرار، ویوضع الأخیار، ویوضع فی القوم الِمثْناة، لیس أحد یغیرہا، قیل: وما المثناة- قال: کتاب کتب سوى کتاب اللہ عزوجل (المستدرک على الصحیحین، رقم الحدیث: 8782 )یعنی قرب قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ برے لوگوں کو بلندی حاصل ہوجائے گی، اور اچھے لوگوں کو ذلیل کیا جائے گا، اور لوگوں کے درمیان ’مِثناة‘ کا رواج عام ہوجائے گا، کوئی نہ ہوگا جو اس کی تغییر کرے- پوچھا گیا کہ مثناة کیا ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ کی کتاب کے سوا لکھی جانے والی کتابیں-
اِس حدیث میں دراصل امتِ مسلمہ کے زوال کی حالت کو بتایا گیا ہے- جب ملت پر زوال کا دور آتا ہے تواس کی حالت بھی وہی ہو جاتی ہے جو دوسری ملتوں کی ہوئی، یعنی لوگ ظاہر پسند بن جاتے ہیں- اُن کو معنوی حقائق دکھائی نہیں دیتے، البتہ ظاہری چیزیں خوب نظر آتی ہیں- لوگوں کے اِس بگڑے ہوئے ذوق کی بنا پر اُن کے درمیان دنیا پرست قسم کے لوگ ابھرتے ہیں اور آخرت پسند قسم کے لوگ غیر نمایاں بن جاتے ہیں- جو لوگ بگڑے ہوئے عوامی ذوق کو غذا فراہم کریں، وہ مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں اور جو لوگ اپنی سنجیدگی کی بنا پر عوامی ذوق کی رعایت نہ کرسکیں، وہ اُن کے درمیان غیر مقبول بن جاتے ہیں-اُس وقت ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو اگر چہ روحانی اعتبار سے خالی ہوتے ہیں، لیکن اپنے شان دار مذہبی لباس کے ذریعے وہ لوگوں کے درمیان اپنے کو نمایاں بنا لیتے ہیں- ان کے خوش نما الفاظ ، ان کا بناوٹی انداز، ان کی بڑی بڑی باتیں عوام کو اپیل کرتی ہیں- ایسے لوگ حقیقت کے اعتبار سے، اگر چہ ’’اشرار‘‘ ہوتے ہیں، لیکن عوام کے بگڑے ہوئے ذوق کی بنا پر وہ اُن کے درمیان ’’اَخیار‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں- یہی وہ لوگ ہیں جن کی تقریر اور تحریر کو حدیث میں ’مثناة‘ کہاگیا ہے-
مذکورہ حدیث میں اللہ کی کتاب کے سوا جن کتابوں کا ذکر ہے، اُن سے مراد عام کتابیں نہیں ہیں، بلکہ ان سے مراد وہ کتابیں ہیں جو امت کے بعد کے زمانے میں دینِ خداوندی کی تفسیر اور تشریح کے طورپر لکھی جائیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اِن قابلِ ترک کتابوں سے مراد وہ کتابیں ہیں جو اُس زمانے میں لکھی جائیں جو ’قُرون مشہود لہا بالخیر‘ کے بعد کا زمانہ ہے- اِس قسم کی کتابیں پچھلی امتوں کے زمانۂ ما بعد میں لکھی گئی تھیں، اِسی طرح وہ یقینی طورپر خود امتِ مسلمہ کے زمانۂ مابعد میں بھی لکھی جائیں گی- اِس معاملے میں کسی حاملِ کتاب امت کا کوئی استثنا (exception) نہیں-
بعد کے زمانے میں لکھی جانے والی کتابیں دو قسم کی ہوسکتی ہیں— ایک وہ جو کتاب اللہ کے گہرے مطالعے کے بعد اس کی حقیقی وضاحت کے طورپر لکھی جائیں- اور دوسری کتابیں وہ ہیں جو دورِ زوال میں لوگوں کے بگڑے ہوئے ذوق کی رعایت کے طورپر لکھی جائیں- مذکورہ حدیث میں ’مثناة‘ کے نام سے جن کتابوں کا ذکر ہے، وہ یہی دوسرے قسم کی کتابیں ہیں-امتِ مسلمہ کے بعد کے دور میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ اُس وقت لکھی گئیں، جب کہ مسلمان ایک نظریاتی گروہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہے تھے، بلکہ وہ عام قوموں کی طرح ایک قوم بن چکے تھے، چناں چہ اِن کتابوں میں ایک مشترک خامی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قومی ذہن کی عکاسی کرتی ہیں، نہ کہ اسلام کے اصولی موقف کی-
بعد کے دور میں مسلمان دوسری قوموں کو مدعو کے بجائے محکوم کی نظر سے دیکھنے لگے، اِس لیے ایسا ہوا کہ بعد کے دور میں پیدا ہونے والے لٹریچر میں دعوت الی اللہ کا باب حذف ہوگیا- بعد کے دور میں جب کہ مسلمانوں کا پولٹکل ایمپائر قائم ہوا، اُس وقت مسلمانوں میں عام طورپر سیاسی طرز فکر پیدا ہوگیا- اِس سیاسی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد کے مسلمانوں میں جہاد کے نام پر قتال (جنگ) کا تصور غالب آگیا، حتی کہ قتال اُن کے لیے مذہبی عقیدے کا جز بن گیا، جب کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتال کو صرف ضرورتِ شدیدہ (law of necessity) کے طورپر اختیار کیا گیا تھا-
بعد کے دور میں مسلمانوں کو جو دبدبہ حاصل ہوا، اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عام طورپر فخر (pride) کا ذہن پیدا ہوگیا- وہ دوسروں کے مقابلے میں، اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگے- اِسی ذہن کا یہ نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنے زیر ِ قبضہ علاقوں کو ’دار الاسلام‘ اور دوسروں کے زیر قبضہ علاقوں کو ’دار الکفر‘ کہنا شروع کردیا، حالاں کہ قرآن کے مطابق، تمام دنیا یکساں طورپر دار الانسان کی حیثیت رکھتی تھی- دار الکفر اور دار الاسلام کی اصطلاحیں سرتا سر مبتدعانہ اصطلاحیں ہیںجو بعد کے دور میں وضع کی گئیں- اِسی صورت حال کا یہ نتیجہ تھا کہ بعد کے زمانے میں اسلام کو صرف احکام اور قوانین کا ایک مجموعہ سمجھ لیا گیا، اِسی ذہن کا نتیجہ تھا کہ علما کے درمیان علم فقہ کو غلبہ حاصل ہوگیا اور قرآن اور حدیث عملاً فقہ کے تابع قرار پاگئے- دورِ زوال کا یہ بھی ایک ظاہرہ ہے کہ دین میں اسپرٹ (spirit) کی اہمیت گم ہوجاتی ہے اور ساری اہمیت فارم (form) کو حاصل ہوجاتی ہے- اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دین میں ساری بحثیں فنی اور قانونی پہلوؤں پر مرتکز ہوجاتی ہیں- اِس کے نتیجے میں ایک شدید تر خرابی پیدا ہوجاتی ہے، یعنی بہت سے فرقوں کا وجود میں آنا- یہاں پہنچ کر ملتِ واحدہ، ملتِ متفرقہ میں تبدیل ہوجاتی ہے-
واقعات بتاتے ہیں کہ بعد کے دور میں ملتِ مسلمہ کے درمیان یہ تمام خرابیاں کامل طورپر پیش آئیں- اِن تمام خرابیوں کا سبب وہی چیز ہے جس کو مذکورہ حدیث میں ’مثناة‘ کہاگیا ہے، یعنی ملت کے دورِ زوال میں پیدا ہونے والا لٹریچر- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام فکری مسائل براہِ راست طورپر اِسی صورتِ حال کا نتیجہ ہیں- اب اِس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہے، وہ یہ کہ قرون مشہود لہا بالخیر کے بعد مسلمانوں نے عربی زبان میں بطور خود جو لٹریچر تیار کیا، اُن کتابوں کو اب مسلمانوں کے کلاسکل لٹریچر (classical literature)کا درجہ دے دیا جائے- اب دوبارہ کھلے ذہن کے تحت قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا جائے اور پھر ایسا لٹریچر تیا رکیا جائے جو جدید ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو- بعد کے پیدا شدہ لٹریچر کی تاریخی حیثیت ہمیشہ باقی رہے گی، لیکن جہاں تک ماخذ کی بات ہے، اسلام میں مستند ماخذ کی حیثیت ہمیشہ قرآن اور سنت کو حاصل رہے گی-
ایک ’’روشن خیال‘‘ مسلمان نے ایک بار لکھا تھا کہ — آج قرآن کو دوبارہ نازل ہونا چاہئے:
Quran has to be re-revealed today.
یہ ایک صحیح بات ہے جس کو غلط الفاظ میں بیان کیاگیا ہے- آج ہم کو نئے قرآن کی ضرورت نہیں،ضرورت صرف یہ ہے کہ اسلوبِ عصر میں قرآن کی تبیین کی جائے- چناں چہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
Quran has to be re-defined today.
قرآن کی تمام تعلیمات ابدی ہیںتاہم اسلوب کلام کا تعلق مخاطب گروہ سے ہے، اِس لیے اسلوب کلام ہر دور میں بدلتا رہتا ہے- اب ضرورت ہے کہ قرآن کی ابدی تعلیمات کو اسلوبِ عصر میں اِس طرح بیان کیا جائے کہ وہ آج کے لوگوں کے لیے قابل فہم بن سکیں-
ملتِ مسلمہ کا کیس
ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے آج محرم 1434 کی پہلی تاریخ ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی تھی، اُس پر اب 1433 سال گزر چکے ہیں- آپ کے زمانے میں جس ملتِ مسلمہ کی تشکیل ہوئی تھی، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، وہ اب ختم ہوچکی ہے- آج جس کو ہم ملتِ مسلمہ کہتے ہیں، وہ ملت کی بعد کی نسلیں ہیں جو مختلف حالات سے گزرتے ہوئے اکیسویں صدی عیسوی میں داخل ہوئی ہیں- یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر امت اپنے بعد کے دور میں زوال کا شکار ہوتی ہے-موجودہ زمانے میں مسلمان دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں پائے جاتے ہیں- یہ مسلمان، قرآن کی زبان میں، خیرِ امت( 3:110 ) نہیں ہیں، وہ بعد کے دور میں وجود میں آنے والے ایک زوال یافتہ گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں- اُن کا کیس وہی ہے جس کو قرآن میں ’طولِ امد‘ کے ذریعے پیدا ہونے والی قساوت ( 57:16 ) کا کیس کہاگیا ہے-
تحریکوں کی ناکامی کا سبب
پچھلے دو سوسال کے اندر مسلم علما اور مسلم رہنماؤں نے ملت کے احیا کے لیے بہت سی بڑی بڑی تحریکیں اٹھائیں اور بہت سی بڑی بڑی جماعتیں بنائیں- اِن تحریکوں اور جماعتوں کے تحت جو پُرجوش سرگرمیاں جاری ہیں، ایک فارسی شاعر کے الفاظ میں، اُن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
زمیں شش شد و آسماں ہشت شد
مگر یہ تحریکیں اپنے اعلان کردہ مقصد کے اعتبار سے مکمل طورپر ناکام رہیں- اِس کا سبب صرف ایک تھا، وہ یہ کہ اِن رہنماؤں نے موجودہ مسلمانوں کو ’’خیر امت‘‘ فرض کرکے اپنا کام شروع کیا، جب کہ اصل واقعہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا یہ انبوہ ایک زوال یافتہ گروہ کے درجے میں پہنچ چکا تھا-
اصلاح کا آغاز افراد سے
دورِ زوال کی نفسیات یہ ہے کہ زوال اگرچہ عمومی سطح پر ہوتا ہے، لیکن اصلاح کا آغاز افراد کی سطح سے کیا جاتا ہے- دورِ زوال میں مجموعی اصلاح کا طریقہ سراسر بے معنی ہے- قرآن کےمطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں کام کا آغاز اصلاحِ افراد سے کیا جائے، یعنی بھیڑ کو ایڈریس کرنے کے بجائے افراد کو ایڈریس کرنا- اصلاح کی اِس حکمت کو قر آن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے :
1- ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ۙ وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ( 8:53 ) یعنی یہ اِس وجہ سے ہواکہ اللہ اُس انعام کو جو وہ کسی قوم پر کرتاہے، اُس وقت تک نہیںبدلتا، جب تک وہ اس کو نہ بدل دیں جو اُن کے نفسوں میں ہے- اور بے شک، اللہ سننے والا، جاننے والا ہے-
2- اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ ( 13:11 ) یعنی بے شک، اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا، جب تک وہ اُس کو نہ بدل ڈالیں جو اُن کے نفسوں میں ہے-
قرآن کی اِن دونوں آیتوں کا مطلب ایک ہے، وہ یہ کہ جب کوئی قوم عروج کے بعد زوال کا شکار ہوجائے اور اس کو دوبارہ عروج کی طرف لوٹانا ہو تو اصلاح کے کام کا آغاز مجموعی قوم کی سطح سے شروع نہیں کیا جائے گا، بلکہ افراد کی سطح سے شروع کیا جائے گا- ایسا نہیں کیا جائے گاکہ یہ فرض کرلیا جائے کہ قوم تو موجود ہے، اب اُس کو صرف اجتماعی اقدام کی طرف متحرک کرنا ہے، بلکہ یہ تسلیم کیاجائے گا کہ قوم موجود نہیں ہے اور افراد کی اصلاح کرکے دوبارہ قوم کو وجود میں لانا ہے- یہی اللہ کا قانون ہے، اور اللہ کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی ( 33:62 )-
اِس معاملے کی ایک واضح عملی مثال موجودہ زمانے میںپائی جاتى ہے، اور یہ فلسطین اور پاکستان کی مثال ہے- دونوں کا کیس بالکل ایک ہے- فلسطین کا تعلق عرب دنیا سے ہے، اور پاکستان کا تعلق بقیہ مسلم دنیا سے- فلسطین اور پاکستان کا معاملہ گویا موجودہ زمانے میں اِس قانون الہی کو سمجھنے کے لیے عملی مثال کی حیثیت رکھتا ہے- فلسطین اور پاکستان دونوںکے کیس میں ایسا ہوا کہ قوم کی سطح پر ایک مسلم ملک وجود میں لانے کی کوشش کی گئی، مگر دونوں جگہ مکمل طور پر ناکامی ہوئی- فلسطین کا مسئلہ 1948میں شروع ہوا- فلسطینی جدوجہد پر اب 60 سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے- اِس جدوجہد میں جان ومال کی جو قربانی دی گئی ہے، وہ شاید پوری مسلم تاریخ کی تمام قربانیوں سے بھی زیادہ ہے، مگر انجام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ پوری جدوجہد معکوس نتیجہ (counter productive) کی بدترین مثال ثابت ہوئی ہے-
اِس معاملے میں دوسری مثال پاکستان کی ہے- پاکستان 1947 میں بنا- اِس سے پہلے برصغیرہند کا پورا علاقہ ایک واحد ملک کی حیثیت رکھتا تھا جس میں مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ آباد تھے- اُس وقت مسلمانوں کے کچھ رہنماؤں نے متحد ہندستان میں دو قومی نظریہ (two nation theory) چلایا- اُن کا کہنا تھا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں- اُن کو اپنے مذہب کے مطابق، زندہ رہنے کے لیے ایک الگ ملک چاہیے- یہ تحریک اِس مفروضے پر قائم تھی کہ مسلم قوم کے نام سے ایک امت آل ریڈی موجود ہے، اب صرف اُس کو ایک علاحدہ خطہ ارض کی ضرورت ہے- اُس زمانے میں ایک مسلم شاعر کا یہ شعر بہت مقبول ہوا:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
جان ومال کی بے پناہ قربانی کے بعد 1947 میں جغرافی معنوں میں پاکستان وجود میں آگیا، مگر معنوی اعتبار سے، پاکستان کا اب تک کوئی وجود نہیں- پاکستان میں نہ اسلام آیا اور نہ وہاں کے مسلمانوں کو امن اور تحفظ حاصل ہوا- حقیقت یہ ہے کہ آج انڈیا کے مسلمان، اسلام اور امن وتحفظ دونوں اعتبار سے، پاکستان کے مسلمانوں سے بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں- یہی وجہ ہے کہ 1971 سے پہلے انڈیا کے مسلمان، پاکستان جانے کے لیے بے تاب رہتے تھے، مگر آج انڈیا کا کوئی مسلمان، پاکستان جانے کےلیے تیار نہیں، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ انڈیا میں وہ پاکستانی مسلمانوں کے مقابلے میں ہر اعتبار سے زیادہ بہتر حالت میں ہے-
پاکستان بننے کے اول دن ہی سے وہاں باہمی ٹکراؤ کا سلسلہ شروع ہوگیا- پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں کو گولی مار دی گئی- پاکستان کے مسلمانوں میں جو باہمی لڑائی شروع ہوئی، اس میں اب تک تقریباً 40 ہزار آدمی ہلاک ہوچکے ہیں- امریکا میں ایک آزاد تنظیم ہے- اس کا نام — فنڈ فار پیس (Fund for Peace) ہے- اِس تنظیم کا ایک کام یہ ہے کہ وہ ملکوں کے حالات کا سالانہ انڈیکس تیار کرتی ہے- اِس تنظیم نے 2011 میں ملکوں کا جو انڈیکس شائع کیا ہے، اس کے مطابق، پاکستان ایک ناکام ریاست (failed state) کی حیثیت اختیار کرچکا ہے-
اِس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ پاکستان کے مسلم رہنماؤں نے یہ فرض کرلیا کہ امتِ مسلمہ عملاً موجود ہے، اب صرف یہ ضرورت ہے کہ اس کو اقتدار حاصل ہوجائے، جب کہ اصل صورتِ حال یہ تھی کہ اپنی حقیقت کے اعتبا ر سے، امتِ مسلمہ کا وجود ہی نہ تھا- جو چیز موجود تھی، وہ امت کے نام پر صرف ایک انبوہ تھا- ایسی حالت میں کام کا آغاز افراد کی اصلاح کرکے دوبارہ امت کو وجود میں لانا تھا- پاکستان کے مسلم رہنماؤں نے جو کچھ کیا، وہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا (putting the cart before the horse) تھا- اِس قسم کا غیر فطری منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، اور پاکستان کے معاملے میں ایسا ہی ہوا-
فلسطین کی تحریک میں تمام عرب دنیا براہِ راست طورپر اور بقیہ مسلم دنیا بالواسطہ طورپر شریک ہے، مگر بے پناہ قربانیوں کے باوجود ابھی تک ایسا نہیں ہوا کہ فلسطین میں عربوں کی مطلوب حکومت قائم ہوجائے- لیکن جہاںتک سبق کا تعلق ہے، وہ فلسطین کی مثال میں بھی پوری طرح موجود ہے- فلسطین میں اگر بالفرض عربوں کی حکومت قائم ہوجائے تو عملاً وہ بھی ایک ناکام ریاست ہی ثابت ہوگی، کیو ں کہ فلسطینی عرب بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح صرف ایک انبوہ ہیں، نہ کہ تیار شدہ افراد- ایسی حالت میں بالفرض اگر فلسطین میں عربوں کی حکومت قائم ہوجائے تو فلسطین میں عملاً وہی ہوگا جو دوسرے عرب ملکوں میں ہورہا ہے، یعنی یا تو سخت قسم کی ڈکٹیٹر شپ (dictatorship) ، یا اگر بالفرض آزادی کا ماحول ہو تو خود فلسطینی مسلمانوں کے درمیان سخت قسم کی باہمی جنگ-
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں صرف ایک ہی محفوظ طریقہ باقی ہے، اوروہ ہے— اسٹیٹس کوازم کا طریقہ، یعنی حالتِ موجودہ کو یک طرفہ طور پر تسلیم کرلینا- موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو یہ کرناہے کہ وہ یک طرفہ طورپر نفرت اور تشدد کا طریقہ ختم کردیں- وہ اقدام کی نوعیت کی تمام سرگرمیوں کو مکمل طورپر بند کردیں- وہ یو ٹرن (U turn) لیتے ہوئے اپنے عمل کے میدان کو بدل دیں- وہ دوسروں سے ٹکراؤ کے بجائے خود اپنے افراد کی تعلیم وتربیت کی طرف لوٹ آئیں- وہ اپنی تمام طاقت کو ’’اقدام‘‘ کے بجائے ’’تیاری‘‘ پر مرتکز کردیں- موجودہ زمانے کے مسلمانوں کےلیے زندگی کا یہی واحد راستہ ہے- اِس کے سوا جو کچھ ہے، وہ صرف ہلاکت ہے، نہ کہ زندگی- ( 17 نومبر 2012)
واپس اوپر جائیں