حضرت ابراہیم کی امامت
حضرت ابراہیم تقریباً چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے- وہ تینوں سامی مذاہب — یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے مشترک پیشوا مانے جاتے ہیں-حضرت ابراہیم کے بارے میں قرآن میں عالمی امامت کا اعلان ان الفاظ میں کیاگیاہے : وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا( 2:124 )یعنی جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو ابراہیم نےاُن کو پورا کردکھایا- اللہ نے کہامیں تم کو تمام انسانوں کا امام بناؤں گا-
حضرت ابرہیم کا ذکر بائبل (عہد نامہ قدیم) میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے- حضرت ابراہیم کی امامت کے بارے میں قرآن کی مذکورہ آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بائبل میں بھی ان الفاظ میں آئی ہے— اور زمین کی سب قومیں اس کے وسیلے سے برکت پائیں گی:
All the nations of the earth shall be blessed in him. (Genesis 18:18)
قرآن اور بائبل کے بیان سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو عالمی امامت کا درجہ دیا- یہ عالمی امامت کیا تھی، اس کے بارے میں یہودی علما ،مسیحی علما اور مسلم علما تقریباً سب کے سب بے خبری میں مبتلا ہیں- وہ اِس کو صرف ایک پراسرار(mysterious) مفہوم میں لیے ہوئے ہیں، حالاں کہ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا- اس کی عظمت صرف اُس وقت واضح ہوتی ہے جب کہ اس کو تاریخ کی زبان میں بیان کیا جائے-
منصوبہ تخلیق
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے بعد انسانی نسلوں کی ہدایت کے لیے اولاً پیغمبر بھیجنا شروع کیا- حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم تک بڑی تعداد میں پیغمبر آئے، لیکن دنیا میں مطلوب حالت قائم نہ ہوسکی- وہ مطلوب حالت یہ تھی کہ ایک طرف، دین ِ خداوندی کا مستند متن محفوظ ہوجائے- اور دوسری طرف انسان کودین ِ خداوندی کے معاملے میں کامل آزادی حاصل ہو- دین کے معاملے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ باقی نہ رہے-مگر مختلف اسباب کے تحت ایسا ہوا کہ انسانی زندگی میں ایک برعکس حالت قائم ہوگئی- اِس کو ایک لفظ میں، استبدادیت(despotism) کہا جاسکتا ہے- اِس کے نتیجے میں دنیا میں ہرجگہ انسانی زندگی میں استبدادی ماڈل (despotic model) رائج ہوگیا- اِس ماڈل کے تحت انسانی زندگی کے تمام معاملات مُستَبِد حکمراں (despotic rulers) کے تحت آگئے- یہ مستبد حکمراں اپنےمزاج کے تحت ہر نئی چیز کے دشمن ہوتے تھے- وہ ہر نئی تحریک کو پوری طاقت سے کچل دیتے تھے، تاکہ لوگوں کے اوپر ان کی حکمرانی غیرمشروط طورپر قائم رہے-
اِسی نظام کا ایک ظاہرہ وہ تھا جس کو قرآن میں فتنہ ( 8:39 )کہاگیا ہے- اِس ظاہرے کا سیکولر نام مذہبی جبر ہے- اِسی مذہبی جبر کی بنا پر قدیم زمانے میں لوگوں کو مذہب توحید اختیار کرنے کی اجازت نہ تھی، کیوں کہ وہ حکمراں کے اختیار کردہ مذہب کے خلاف ہوتا تھا- اِسی بنا پر قدیم زمانے میں موحدین کو قتل کردیا گیا یا آگ میں جلادیا گیا-اِسی بنا پر اصحاب کہف (Seven Sleepers) اپنی بستی کو چھوڑ کر ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، وغیرہ- قدیم زمانے میں اِس قسم کے جو شدید واقعات پیش آئے، اس کا سبب کوئی سیاسی اختلاف نہ تھا، بلکہ اس کا سبب تمام تر صرف مذہبی اختلاف تھا-
نیا عمل
حضرت ابراہیم کے زمانے میںاللہ نے تاریخ میں ایک نیا عمل (process)جاری کیا- یہ عمل انسان کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر کیا گیا- اِسی کے ساتھ اسباب کے ماحول کو پوری طرح برقرار رکھا گیا- اِس صورتِ حال کی بنا پر اِس خدائی عمل کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر (element of doubt) شامل ہوگیا- یہی وجہ ہے کہ مذاہب ثلاثہ کے علما خداکے اِس منصوبے کو سمجھ نہ سکے- حضرت ابراہیم کی امامت کا معاملہ علماءِ مذاہب کے لیے ایک پراسرار معاملہ بنا رہا-
مذاہبِ ثلاثہ کے علما اِس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہیں- وہ اِس واقعے کی کوئی ایسی توجیہہ دریافت نہ کرسکے جو اِس معاملے میں اُن کو یقین پر کھڑا کرنے والی ہو- انھوںنے اپنے ذہنی سانچہ (mind-set)کے اعتبار سے، بعض توجیہات کیں، مگر انھوں نے دیکھا کہ اِن توجیہات کو تاریخ کی تصدیق حاصل نہیں ہورہی ہے، اس لیے وہ اِس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گئے-
مثلاً کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم کے ذریعہ دنیا کو توحید کی مستند آئڈیالوجی ملی- مگر یہ بات حقیقتِ واقعہ کے خلاف ہے، کیوں کہ دنیا کو توحید کی آئڈیالوجی قرآن کے ذریعے حاصل ہوئی، نہ کہ صُحفِ ابراہیم ( 87:19 ) کے ذریعے، جو کہ عملاً اب گم شدہ صحائف کی حیثیت رکھتے ہیں- کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ حضرت ابراہیم کے ذریعے ساری دنیا میں خدائی حکومت قائم ہوئی، مگر تاریخ میں ایسے کسی واقعے کا ذکر نہیں جب کہ ساری دنیا میں خدائی حکومت قائم ہو اور حضرت ابراہیم اس میں صدر کی حیثیت رکھتے ہوں، وغیرہ- اِس قسم کی تمام توجیہات لوگوں کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں، اُن کا خدا کے نقشہٴ تخلیق سے کوئی تعلق نہیں-
اِس معاملے میں خدا کا منصوبہ کیا تھا، اس کو قرآن اور حدیث کے مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے- قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت آئی ہےجس کو اکمالِ دین ( 5:3 ) کی آیت کہا جاتا ہے- اِس آیت میں اکمالِ دین سے مراد شرعی احکام کی فہرست کا مکمل کرنا نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد اہلِ دین کے لیے خوف کی حالت کا خاتمہ ہے- یہی وہ بات ہے جس کو آیت میں اِن الفاظ میں کہاگیا ہے: اَلْیَوْمَ یَىِٕسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْن ( 5:3 ) یعنی آج منکرین تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے، پس تم اُن سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو-
قرآن کی مذکورہ آیت میں کسی وقتی واقعے کا ذکر نہیں ہے، اِس میں ایک تاریخی حقیقت کا اعلان کیاگیاہے- یہ آیت حجة الوداع (10ہجری) کے موقع پر نازل ہوئی- اِس آیت کا نزول دراصل تاریخ کے ایک دور کے خاتمے اور تاریخ کے دوسرے دو رکے آغاز کا اعلان تھا- یہ اعلان اب پوری طرح واقعہ بن چکا ہے- اگر چہ اہلِ مذاہب اپنے خود ساختہ ذہن کی بنا پر اِس حقیقت سے بے خبر رہے-
اسباب اور انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے جو خدائی منصوبہ بندی کی گئی ، اس کا خاص نشانہ یہ تھا کہ دنیا میں مذہبی جبر کا مکمل خاتمہ ہوجائے، ہر انسان کو یہ موقع ہو کہ وہ مذہب کے معاملے میں اپنے انتخاب (choice) کے لیے مکمل طورپر آزاد ہوجائے- یہ منصوبہ بندی مکمل طورپر ایک غیرسیاسی منصوبہ بندی تھی- اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا، نہ نظری اعتبار سے اور نہ عملی اعتبار سے-
حضرت ابراہیم کے ذریعے جومنصوبہ بندی کی گئی، اس کے دو پہلو تھے — ایک یہ تھا کہ مطلوب صورتِ حال کا ایک ابتدائی نمونہ (prototype) تیار کرنا- اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ میں ایسا عمل (process) جاری کرنا جو آخر کار ایک نئے دور کو وجود میں لائے، جب کہ مذکورہ ابتدائی اور وقتی نمونہ ایک عالمی انقلاب کی صورت اختیار کرلے اور اِس طرح تمام دنیا کے انسانوں کے لیے عمومی طورپر اور مستقل طورپر یہ امکان کھل جائے کہ وہ کسی بھی جبر کے بغیر ہر قسم کی مذہبی سرگرمیوں کے لیے آزاد ہوں- اپنے ذاتی عقیدے کے معاملے میں بھی اور دوسروں کے درمیان اپنے عقیدے کی اشاعت کے معاملے میں بھی-
وہ چیز جس کو اوپر ابتدائی نمونہ (prototype) کہا گیاہے، اس کی مثال حضرت یوسف کے ذریعے قائم کی گئی- حضرت یوسف، حضرت ابراہیم کے گریٹ گرینڈ سن (great grandson) تھے- وہ فلسطین اور شام کے درمیان ایک گاؤں (کنعان) میں پیدا ہوئے- اس زمانے میں مصر ایک ترقی یافتہ ملک تھا- یہاں ایک خاندان حکومت کرتا تھا، جس کو ہکساس بادشاہ (Hyksos Kings) کہاجاتا ہے- حضرت یوسف کے زمانےمیں یہاں جو بادشاہ حکومت کررہا تھا، اس کا نام یہ تھا— اپوفس (Apophis) -یہ بادشاہ استثنائی طورپرایک منفرد مزاج کا آدمی تھا- وہ شخصی طور پر ایسی صفات کا حامل تھا جو مطلوب منصوبے کے لیے ایک موزوں کردار کی حیثیت رکھتی تھیں- یہی وجہ ہے کہ خدائی منصوبے کے تحت حضرت یوسف کو کنعان سے نکال کر قدیم مصر کی راجدھانی ممفس (Memphis ) پہنچایا گیا- یہاں ایسے اسباب پیدا ہوئے جن کے تحت حضرت یوسف اُس وقت کے مصری بادشاہ کے دربار میں پہنچے- بادشاہ حضرت یوسف کی صلاحیت سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ اُس نے اپنے ایک فیصلے کے تحت، حضرت یوسف کو مصر کے خزائن (وسائل ارض) کا انچارج بنادیا ( 12:55 )-
حضرت یوسف کا یہ قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں یکساں طورپر تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیاہے- اِس سلسلے میں بائبل کا بیان یہ ہے کہ بادشاہ نے کہا— میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی- فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب میں بزرگ تر ہوں گا:
Only in regard to the throne, I will be greater than you. (Genesis 41:40)
حضرت یوسف کے ذریعے مصر میں جو مثال قائم ہوئی، وہ دراصل اُس عمومی اور عالمی حالت کا ایک ابتدائی نمونہ تھا جو حضرت ابراہیم کے جاری کردہ تاریخی عمل کے نتیجے میں بعد کو زیادہ بڑے پیمانے پر قائم ہونے والا تھا- حضرت یوسف کے ذریعے قدیم مصر میں یہ مثال قائم ہوئی کہ اگر حاکم کے محدود سیاسی اقتدارکو تسلیم کرلیاجائے اور اُس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے تو کس طرح ایک انسان کے لیے ہر قسم کے مذہبی دروازے کھل جاتے ہیں- یہ گویا سیاسی ادارہ (political institution) اور غیر سیاسی اداروں (non-political institutions) کے درمیان علاحدگی کا معاملہ تھا- یہ علاحدگی اللہ کے منصوبے کےعین مطابق تھی- یہی وجہ ہے کہ اِس معاملے کو قرآن میں احسن القصص ( 12:3 ) کہاگیا ہے، یعنی بہترین قصہ (best story) -
قرآن کی اِس آیت میں ’’بہترین قصہ‘‘ سےمراد دراصل بہترین ماڈل (best model) ہے- اللہ تعالی کے نزدیک انسان کی اجتماعی زندگی کا بہترین ماڈل وہی ہے جس کا ایک ابتدائی نمونہ حضرت یوسف کے ذریعے ساڑھے تین ہزار سال پہلے قدیم مصر میں قائم کیاگیا- اِس معاملے کو دوسرے الفاظ میں، اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ قدیم مستبدانہ ماڈل (despotic model) کی جگہ جمہوری ماڈل (democratic model)کو دنیا میں رائج کرنا- کچھ لوگ جمہوری نظام کو لادینی نظام کہتے ہیں، مگر یہ درست نہیں- جدید جمہوری نظام دراصل سیکولرزم کے اصول پر قائم ہے- اس کے مطابق، جمہوریت عدم مداخلت کی پالیسی (policy of non-interference)کا دوسرا نام ہے، یعنی سیاسی اقتدار کے ادارے کا اِس پر راضی ہوجانا کہ وہ اپنے حدود کو انتظامیہ (administration) تک محدود رکھے گا- انتظامِ ملکی سے باہر جو ادارے ہیں، وہ اپنے دائرے میں مکمل طورپر آزاد ہوں گے- مثلاً تعلیم، صحافت، اشاعتی ادارے، اقتصادی سرگرمیاں، مذہب، دعوت وتبلیغ، وغیرہ- اِس میں وہ تمام پُرامن سرگرمیاں شامل ہیں جن کو موجودہ زمانے میں غیر سیاسی سرگرمیاں (non-political activities)یا این جی اوز (NGOs) کی سرگرمیاں کہاجاتاہے-
نئی نسل کی تیاری
اِس سلسلے میں دوسری زیادہ بڑی منصوبہ بندی جو حضرت ابراہیم کے ذریعے چار ہزار سال پہلے شروع کی گئی، اس کا مرکز قدیم مکہ تھا- حضرت ابراہیم نے اپنی ایک دعا میں یہ الفاظ کہے تھے: رب إنہنّ أضللن کثیراً ( 14:35 )- اِن الفاظ میں دراصل اُس دور کا ذکر تھا جس کو ماقبل ابراہیم دور (pre-Abraham age)کہا جاسکتا ہے- اِس قدیم دور میں شرک تمام انسانی آبادیوں میں ایک عمومی کلچرکی حیثیت اختیار کرچکا تھا، حتی کہ تاریخ میں اس کا تسلسل قائم ہوگیا- مزید یہ کہ مشرکانہ کلچر کو قدیم زمانے کی حکومتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی-
اِس حکومتی حمایت کی بناپر ایک شدید تر صورتِ حال پیدا ہوگئی- وہ تھا — اعتقادی شرک کے ساتھ اس میں حکومتی تشدد کا شامل ہوجانا- اعتقادی شرک اور سیاسی اقتدار کے اِس اتحاد کی بنا پر وہ صورتِ حال پیدا ہوئی جس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہاجاتا ہے-
اِس نظامِ جبر کو ختم کرکے نظامِ آزادی کو دنیا میں لانا ایک لمبا تاریخی منصوبہ تھا- اِس کے لیے صرف آئڈیالوجی کافی نہیں تھی، اِس کے لیے ضرورت تھی کہ ایک مطلوب ٹیم وجود میں آئے- یہ ٹیم ایک آئیڈیالوجی کے تحت متحد ہو، تمام ضروری شرطوں کو اختیار کرتے ہوئے یہ ٹیم ایک ہمہ گیر جدوجہد کرے، وہ انسانی تاریخ میں ایک نئے انقلابی عمل (revolutionary process) کا آغاز کرے، انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے وہ اپنا سفر شروع کرے اور پھر اللہ کی خصوصی تدبیر (management) کے ذریعے وہ اپنے منتہا (culmination) تک پہنچ جائے- اٹھارھویں صدی میں جو سیاسی انقلاب آگیا اور جس کے نتیجے میں جمہوری ماڈل دنیا میں رائج ہوا، وہ حضرت ابراہیم کے ذریعے جاری کردہ اِسی عمل کی تکمیل کی حیثیت رکھتا تھا-
رسول اور اصحابِ رسول کی مثال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی - اُس وقت سارا عرب اسلام کے ماتحت آچکا تھا- پیغمبر اسلام اِس عرب ریاست کے سربراہ تھے- آپ نے ایک با اختیار صدر مملکت کی حیثیت سے یہ اعلان کیا کہ:لا فضل لعربی على عجمی ، ولا لعجمی على عربی ، ولا لأحمر على أسود ، ولا لأسود على أحمر ، إلا بالتقوى (مسند أحمد، رقم الحدیث: 24204) یعنی کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے- کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت نہیں، اور نہ کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت ہے، سوا تقوی کے-یہ تاریخ میں حصولِ جمہوریت کا پہلا باضابطہ اعلان تھا- اِس ریاستی اعلان کا مطلب یہ تھا کہ نظریاتی اعتبار سے، اب غیر جمہوری دور کا خاتمہ ہوگیا اور جمہوری دور کا اصولی طورپر آغاز ہوگیا- اِس طرح تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا جو انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے بتدریج بعد کی تاریخ میں جاری رہا-
اِسی اعلانِ جمہوریت کاایک عملی مظاہرہ وہ تھا جو اِس اعلان کے تقریباً 10 سال بعد حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں پیش آیا-اُس وقت حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں مصر کا ملک مدینہ کی ریاست میں شامل ہوچکا تھا-اُس وقت مصر میں ایک واقعہ ہوا، وہ یہ کہ ایک عرب مسلمان اور ایک مصری مسیحی کے درمیان ایک مسئلے پر نزاع ہوئی- عرب مسلمان جو گورنر کا بیٹا تھا، اس نے مسیحی کو کوڑا مار دیا- یہ مسیحی مصر سے چل کر مدینہ آیا- اُس نے خلیفہ عمر فاروق سے شکایت کی- خلیفہ نے گورنر اور اس کے بیٹے دونوں کو مدینہ بلوایا- جب وہ لوگ آگئے تو خلیفہ نے مصر کے مسیحی کو ایک کوڑا دیا اور کہا کہ گورنر کے بیٹے کو مارو- مسیحی نے کوڑا اپنے ہاتھ میں لیا اور گورنر کے بیٹے کو مارنا شروع کیا- جب وہ اچھی طرح مار چکا تو اس کے بعد خلیفہ نے مذکورہ عرب مسلمان کے باپ عمروبن العاص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: متى استعبدتم الناس وقد ولدتہم أمہاتہم أحرارا (سیرة عمر بن الخطاب، علی محمد الصلاّبی،1/306) یعنی اے عمرو، تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا، جب کہ ان کی ماؤں نے اُن کو آزاد پیداکیا تھا-
جس وقت یہ واقعہ ہوا، اُس وقت خلافت ایک ایمپائر بن چکی تھی جس کے حدودِ مملکت ایشیا سے افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے- ایسی حالت میں خلیفہ کے الفاظ محض ایک شخص کے الفاظ نہ تھے، بلکہ وہ وقت کی سب سے بڑی سلطنت کی طرف سے گویا بین اقوامی پالیسی کا اعلان تھا- یہ پالیسی تاریخ میں سفر کرتی رہی- انسانی آزادی کو برقرار رکھتےہوئے وہ تاریخ کو ایک نیا شیپ (shape) دیتی رہی، یہاں تک کہ یہ عمل یورپ تک پہنچ گیا- فرانس کے مشہور جمہوری مفکر روسو (J. J. Rousseau) کی کتاب سوشل کنٹریکٹ (Social Contract) 1762 میں شائع ہوئی- اِس کتاب میں جمہوریت (democracy) کی آئڈیالوجی کو پیش کیاگیا تھا- روسو نے اپنی کتاب کا آغاز جس جملے سے کیا، وہ گویا خلیفہ عمر فاروق کے مذکورہ قول کا اعادہ تھا- روسو کی کتاب کا ابتدائی جملہ یہ تھا— انسان آزاد پیدا ہوا تھا، مگر میں اس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھتا ہوں:
Man was born free, but I see him in chains.
جمہوریت کی یہ تحریک 1789 میں ایک باقاعدہ سیاسی واقعہ بن گئی، جب کہ یورپ میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو انقلاب فرانس (French Revolution)کہاجاتا ہے- انقلاب فرانس نے اصولی طور پر بادشاہت (kingship) کے نظام کا خاتمہ کردیا اور جمہوریت کو ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے بالفعل قائم کردیا- یہ تاریخی عمل 1948میں آخری طورپر مکمل ہوگیا، جب کہ اقوامِ متحدہ (UNO) کا باضابطہ قیام عمل میں آیا اور دنیا کی تمام قومیں باضابطہ طورپر اقوامِ متحدہ کی ممبر بن گئیں- اِس ادارے کے تحت دنیا کی تمام قوموں نے اِس عہد نامے پر دستخط کردئے- اِس کا مطلب یہ تھا کہ استبدادی ماڈل اب آخری طورپر غیر مطلوب ماڈل قرار پاگیا اور جمہوری ماڈل کو عملاً مسلمہ ماڈل کی حیثیت دے دی گئی-
جمہوری ماڈل
جمہوریت کی تعریف (definition) عام طور پر اِس طرح کی جاتی ہے — عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے:
Government of the people, by the people, for the people
یہ تعریف جمہوریت کے صرف ظاہری ڈھانچے کو بتاتی ہے- اِس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ جمہوریت کے حقیقی فوائد کیا ہیں اور انسانی زندگی کے حق میں اس کے دور رس نتائج کیا پیدا ہوئے- جمہوریت اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، اُس سے بہت زیادہ ہے جیسا کہ وہ مذکورہ تعریف کے مطابق، نظر آتی ہے-
جمہوریت کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس نے اُن تمام رکاوٹوں کو ختم کردیا جو قدیم غیر جمہوری نظام کے تحت انسان پرعائد تھیں- جمہوریت نے کامل معنوں میں، انسان کو فکر وخیال کی آزادی دے دی- انسان اپنے فطری وجود کے اعتبار سے، امکانات کی ایک کائنات اپنے اندر رکھتا ہے- اِن انسانی امکانیات (potentials) کو انفولڈ (unfold) کرنے کے لیے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے کامل آزادی- قدیم زمانے میں اِس انسانی آزادی پر پابندی لگی ہوئی تھی، اِس کا یہ نتیجہ تھا کہ قدیم زمانے میں انسان کوئی بڑی ترقی نہ کرسکا، نہ مذہبی اعتبار سے اور نہ سیکولر اعتبار سے-
موجودہ زمانے میں جمہوریت کا دور آیا تو اسی کے ساتھ کامل آزادی کا دور آگیا- اِس آزادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی تمام فطری صلاحیتیں انفولڈ ہونے لگیں- وہ تمام ترقیاں جن کے مجموعے کو تہذیب (civilization) کہاجاتا ہے، وہ دراصل اِسی انفولڈنگ (unfolding) کا نتیجہ ہیں- اِسی کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دنیامیں مذہبی آزادی کا دور آیا- فطرت کے اندر چھپی ہوئی سائنسی حقیقتوں کی دریافت ہوئی- انسان کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی دولت ملی - تاریخ میں پہلی بار وہ انقلاب آیا جس کو عالمی کمیونکیشن (global communication) کہاجاتا ہے، وغیرہ-
جدید تہذیب کی یہ تمام ترقیاں اسلام کے عین موافق تھیں- انھوں نے دین ِ خداوندی کی اشاعت کے ایسے دروازے کھول دئے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں کھلے تھے- جدیدتہذیب نے اِس کو ممکن بنایا کہ اسلام کی حقیقتوں کو علمِ انسان کی اعلی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے- اِن نئی دریافتوں کی بناپر یہ ممکن ہوا کہ انسان اعلی سطح کی معرفت کا تجربہ کرسکے- اِسی کے ذریعے یہ ممکن ہوا کہ اللہ کے پیغام کی اشاعت کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے- اِسی جدید تہذیب کی بنا پر تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا کہ عالمی سطح پر ایک دعوہ ایمپائر (Dawah empire) قائم کیا جاسکے، وغیرہ-
یہ سب کچھ جو دورِ جدید میں ہوا، وہ اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق ہوا- وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کی آزادی کو ہر حال میں باقی رکھا جائے- جو کام بھی کیا جائے، وہ انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے کیاجائے- خدا کے اِسی تخلیقی منصوبے کی بنا پر ایسا ہوا کہ تہذیبی ترقیوں کے ساتھ انسان کے لیے یہ موقع باقی رہا کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے، خواہ اس کے نتیجے میں فساد کی صورتیں پیدا ہوجائیں- یہ دوطرفہ صورتِ حال موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی بصیرت کا امتحان تھی- یہاں ضرورت تھی کہ مسلمانوں کے رہنما اُس صلاحیت کا ثبوت دیں جس کو خدا کی کتاب میںفرقان ( 9:29 ) کہاگیا ہے، یعنی ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کرکے دیکھنا-
اِس موقع پر مسلم رہنماؤںکو یہ کرنا تھا کہ وہ مغربی تہذیب اور اہلِ مغرب کی قومی سیاست دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں- مغربی تہذیب، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مغربی تہذیب نہیں ہے، بلکہ وہ خدائی تہذیب (divine civilization) ہے- وہ فطرت میں چھپے ہوئے خدائی قوانین کی دریافت کے ذریعے وجود میں آئی ہے- وہ قوانین ِ فطرت کا انسانی سطح پر ظہور ہے- فطرت کے قوانین جب انسانی ٹکنالوجی میں ڈھل جائیں تو اسی کا نام تہذیب ہوتاہے- جدید تہذیب کو سمجھنے کے لیے اُسی طرح اس کو مغرب کے قومی پہلو سے الگ کرکے دیکھنا چاہئے، جس طرح اسلام کومسلمانوں کے قومی پہلو سے الگ کرکے دیکھا جاتاہے-
دورِ جدید کے مسلم رہنما اگر اِس بصیرت کے حامل ہوتے کہ وہ جدید تہذیب اور مغربی قوم، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھتے تو یقیناً وہ پالیتے کہ جدید تہذیب اُن کے لیے ایک خدائی نعمت ہے، وہ حضرت یوسف کے ’احسن القصص‘ کا عالمی اظہار ہے، وہ حضرت ابراہیم کے جاری کردہ عمل (process) کا بر اہِ راست حصہ ہے، وہ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کے ذریعے لائے جانے والے انقلاب کا تکمیلی مرحلہ ہے- جدید تہذیب کے ذریعے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے وہ عالمی مواقع آخری حد تک کھول دئے ہیں، جب کہ پیغمبر اسلام کی ایک پیشین گوئی کو واقعہ بنایا جاسکے- آپ کی اِس پیشین گوئی کو مختصر طورپر اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے— ادخال الکلمة فی کل البیوت-
اوپر کے صفحات میں تاریخ کا جو جائزہ پیش کیا گیاہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ خدائی منصوبہ کیا تھا جس کو قرآن میں امامتِ ابراہیم کہاگیاتھا اور جس کے بارے میں بائبل میں یہ الفاظ آئے تھے کہ — زمین کی سب قومیں اس کے وسیلے سے برکت پائیں گی-
اِس خدائی اعلان کا مطلب یہ تھاکہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے اللہ تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کرے گا جو آخر کار اِس انجام تک پہنچے گا کہ انسانی زندگی میں سیاسی جبر کا فتنہ کامل طورپر ختم ہو جائے اور جمہوریت کے تحت ایک ایسا سیاسی نظام بنے گا جس میں دوبارہ زیادہ بڑے پیمانے پر اور عالمی سطح پر وہ حالت قائم ہوجائے گی جو حضرت یوسف کے زمانے میں قدیم مصر میں وقتی طورپر اور محدود طورپر قائم ہوئی تھی، یعنی سیاسی حکمراں کا اقتدار ’’تخت‘‘ تک محدود رہے گا- ’’تخت‘‘ کے سوا تمام غیر سیاسی شعبے مکمل طورپر آزاد ہوجائیں گے- ہر انسان کو یہ موقع ہوگا کہ وہ کامل معنوں میں مذہبی آزادی کی فضا میں جیے- وہ اپنے چوائس (choice)کے مطابق، جس مذہبی عقیدے کو چاہے، اختیار کرے، وہ عبادت کے جس طریقے کو چاہے،اس کے مطابق، عبادت کرے- مذہب کی تبلیغ واشاعت پر کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، انسان کو مکمل معنوں میں مذہبی آزادی حاصل ہو، اِس واحد شرط کے سوا کوئی اور شرط اس کے لیے موجود نہ ہو کہ وہ دوسرے انسانوں کو کسی بھی قسم کی عملی جراحت (physical injury) نہیں پہنچائے گا- انسان کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے یہی واحد ممکن ماڈل تھا جس کو اللہ کے منصوبے کے تحت بروئے کار لایا گیا-
اِس مذہبی آزادی میں یہ بات بھی اپنے آپ شامل ہے کہ تمام مواقعِ کار جوسیکولر لوگوں کو حاصل ہوں گے، وہ سب کے سب مکمل طورپر اہلِ مذہب کو بھی حاصل ہوں گے- مواقع کے استعمال میں مذہبی انسان اورغیر مذہبی انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جائے گا-
ایک مسئلے کی وضاحت
انسانی زندگی کی تشکیل کا جو نقشہ اوپر بیان کیا گیا ہے، بظاہر اس میں حکومت یا سیاسی اقتدار کا معاملہ شامل نہیں ہے، لیکن بالواسطہ طورپر وہ یقیناً اس میں شامل ہے- اِس فرق کا سبب یہ ہے کہ اگر حکومت کے معاملے کو مذکورہ نقشہ میں شامل کیا جائے تو پورا خدائی منصوبہ تخلیق عملاً معطّل ہو کر رہ جائے گا- اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں شعبوں میں کوئی مثبت کام نہ ہوسکے گا، نہ عبادت اور دعوت کے شعبے میں اور نہ سیاست اور حکومت کے شعبے میں-
اِس کا سبب یہ ہے کہ مذکورہ دونوں شعبوں کی حیثیت ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے- عقیدہ اور عبادت اور دعوت کا معاملہ اُس میدان سے تعلق رکھتا ہے جہاں آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ پُرامن طورپر اپنی تمام سرگرمیوں کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکے- اِس کے برعکس، سیاست کا دائرہ ایک ایسا دائرہ ہے جہاں داخل ہوتے ہی فوراً دوسرے فریق سے نزاع پیدا ہوجاتی ہے- سیاست کے دائرے میں ہمیشہ کوئی فرد یا گروہ اتھارٹی کی پوزیشن میں ہوتا ہے، اِس لیے سیاست کے دائرے میں داخل ہونا عملاً پولٹکل اتھارٹی سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتا ہے- یہ ٹکراؤ اِس ماحول کو ختم کردیتاہے جب کہ ایک شخص عقیدہ اور عبادت اور دعوت کے میدان میں موجود مواقع کو استعمال (avail)کرسکے-
خدا کے منصوبہ تخلیق میں اِس مسئلے کا حل یہ مقرر کیا گیا کہ سیاسی اقتدارکے شعبے کو عقیدہ سے وابستہ کرنے کے بجائے اس کو سماجی حالات (social conditions) سے وابستہ کردیا جائے، یعنی کسی وقت سماج کے جو حالات ہوں اور انسانوں کے درمیان جس سیاسی ڈھانچے پر اتفاق ہوسکتا ہے، اس کو اختیار کرلیا جائے- یہ صورتِ حال جاری رہے گی، یہاں تک کہ سماج کے حالات بدل جائیں اور سیاسی ڈھانچے کے بارے میں کوئی دوسرا نقشہ لوگوں کے لیے قابل قبول بن جائے-
اِس حکمت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَأمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ ( 42:38 ) یعنی ان کا معاملہ اُن کے آپس کے مشورے کے تابع ہے- اِس آیت میں ’امر‘ سے مراد اقتدار کا معاملہ ہے- اِس آیت سے یہ اصول اخذ ہوتاہے کہ سیاسی اقتدار کا معاملہ کسی مخصوص عقیدے کے تابع نہ ہو، بلکہ وہ لوگوں کی آزاد رائے کے تابع ہو- آج کل کی زبان میں یہ کہا جاسکتاہے کہ سیاسی ادارے کا معاملہ عوامی الیکشن کے تابع ہے- فری اینڈ فیر الیکشن (free and fair election) کے ذریعے جو لوگ منتخب ہوں گے، اُن کو حق ہوگا کہ وہ اُس وقت تک حکومت کا نظام چلائیں جب تک لوگوں کی رائے بدل نہ جائے اور سماجی حالات کا یہ تقاضا ہو کہ اقتدار کی زمام کچھ دوسرے لوگوں کے حوالے کی جائے-یہی وہ حقیقت ہے جو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: کما تکونون ؛ کذلک یؤمر علیکم( البیہقی ، رقم الحدیث : 7391) یعنی جیسے تم ہوگے، ویسے تمھارے حکمراں ہوں گے- دوسرے الفاظ میں یہ کہ حکمراں کا تعین کسی مخصوص عقیدے کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ اس کا تعین لوگوں کی رائے (vote)کے ذریعے کیا جائے گا-
یہ ایک قسم کے سماجی بندو بست (social settlement)کا معاملہ ہے- اِس کا فائدہ یہ ہے کہ زندگی کے دونوں شعبوں (سیاسی اور غیر سیاسی) میں امن کا قیام ممکن ہوجاتاہے- عقیدہ اور عبادت اور دعوت کے میدان میں لوگوں کو موقع مل جاتاہے کہ وہ پُر امن طورپر اپنی تمام سرگرمیوں کو جاری رکھیں، وہ اپنے حق میں مواقع کا بھر پور استعمال کریں- دوسری طرف، سماج کے ہر گروہ کو یہ موقع حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ سماج کے اندر اپنے افکار کی پر امن اشاعت کرسکے اور پھر اگلے الیکشن کے موقع پر، حسبِ حالات، وہ اپنی پرامن کوششوں کا فائدہ اٹھائے — انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے سماجی بندوبست کا اِس سے بہتر کوئی نظام ممکن نہیں-
خاتمہ کلام
جیسا کہ عرض کیا گیا، اللہ تعالی کا یہ منصوبہ تھاکہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ میں ایک ایسا عمل (process) جاری کیا جائے جس کے نتیجے میں سیاست کے جبری ماڈل (despotic model)کا خاتمہ ہوجائے اور اس کے بجائے سیاست کا جمہوری ماڈل (democratic model) عمومی طورپر رائج ہوجائے- اِس مطلوب ماڈل کا ایک ابتدائی نمونہ (prototype) حضرت یوسف کے ذریعہ قدیم مصر میں محدود طورپر قائم کیاگیا تھا- اِسی کے ساتھ حضرت ابراہیم کے ذریعے ایک وسیع تر عمل جاری کیا گیا جو مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اپنے منتہا تک پہنچا- انیسویں صدی اور بیسویں صدی مذکورہ ابراہیمی عمل کی تکمیل کی صدی ہے- اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں اور یہ عمل اب اِس حد تک مکمل ہوچکا ہے کہ آج تمام مواقع دعوت الی اللہ کے حق میں پوری طرح کھل چکے ہیں- اب ہر اعتبار سے، وہ وسائل اور مواقع حاصل ہوچکے ہیں، جب کہ کسی رکاوٹ کے بغیر فکری سطح پر اللہ کے دین کا عالمی اظہار اپنی مطلوب صورت میں کیا جاسکے-
مگر اسلام کی تاریخ کا شاید یہ سب سے بڑا المیہ ہےکہ اِس دور میں جو بڑے بڑے مسلم ذہن پیدا ہوئے، وہ اِس واقعے سے بالکل بے خبر رہے- نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اِس دور میں پیدا شدہ عظیم مواقع کو استعمال بھی نہ کرسکے- اِس المیہ کا سبب بنیادی طورپر صرف ایک تھا، اور وہ ایک اتفاقی مطابقت (coincidence) ہے- اِس اتفاقی مطابقت کا یہ نتیجہ تھا کہ تاریخ کا عظیم ترین امکان غیراستعمال شدہ امکان (unavailed opportunity) بن کر رہ گیا-
اِس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مذکورہ ابراہیمی عمل کی تکمیل ہوئی تو یہ اٹھا رھویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ تھا- عین اُس زمانے میں ایک حادثہ پیش آگیا- وہ حادثہ یہ تھا کہ اِسی زمانے میں مغربی قوموں نے بڑی بڑی مسلم سلطنتوں کو توڑ دیا اور پوری مسلم دنیا میں اپنا سیاسی اور تہذیبی دبدبہ قائم کرلیا- یہ حادثہ مسلمانوں کی قومی نفسیات کے لیے ایک ایٹمی دھماکے سے بھی زیادہ بڑے دھماکے کی حیثیت رکھتا تھا- چناں چہ اِس دور کے تمام مسلمان، غالباً کسی استثنا کے بغیر، شدید طورپر منفی رد عمل کاشکار ہوگئے- وہ مغربی قوموں سے نفرت کرنے لگے- انھوںنے مغربی قوموں کے خلاف فکری یا عملی جنگ چھیڑ دی- یہ رد عمل اتنا شدید تھا کہ مغربی قوموں کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ خود کش بم باری (suicide bombing) کو بھی اپنے لیے جائز سمجھنے لگے-
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں پیدا ہونے والا مسلم لٹریچر،تقریباً سب کا سب، اِسی نفرت کی نفسیات سے بھرا ہوا ہے- اِس لٹریچر کے مطابق، موجود ہ زمانے کے مسلمانوں کا جو ذہن بنا، وہ یہ تھا گویا کہ ساری مغربی دنیا صرف ایک کام میں مشغول ہے— مسلمانوں کے خلاف سازش اور دشمنی- اِس معاملے کی ایک علامتی مثال ایک عرب عالم کی کتاب ہے، جس کا ٹائٹل یہ ہے:
أجنحـة المکـر الثـلاثـة وخوافیہا: التبشیر، الإستشراق، الإستعمار)صفحات: ( 776
عبد الرحمن حسن حبنکة المیدانی(دارالقلم، دمشق:2000)
اجتماعی توبہ کی ضرورت
یہ صورتِ حال بلاشبہہ توبہ کی متقاضی ہے، یعنی منفی سوچ کو ترک کرکے مثبت سوچ کی طرف واپس جانا- اب تمام مسلمانوں کے لیے اُس عمل کا وقت آگیا ہے جس کا حکم قرآن میں اِن الفاظ میں دیاگیا تھا: وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ( 24:31 ) یعنی اے ایمان والو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ-
قرآن کی اِس آیت میں جس چیز کا حکم دیاگیا ہے، اس سے مراد اجتماعی توبہ (collective repentance) ہے- موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ مذکورہ قسم کا منفی ذہن تمام مسلمانوں کا قومی ذہن بن گیا ہے- مسلمانوں کی تمام قومی پالیسیاں اِسی منفی ذہن کے مطابق بنتی ہیں- اِس معاملے میں مسلمان اتنازیادہ متحد الخیال ہیں جیسے کہ اِس معاملے میں تمام مسلمانوں کا اجماع (consensus) ہوگیا ہو- اِس وقت سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کے اِس عمومی قومی ذہن کو بدلا جائے- یہی موجودہ مسلمانوں کی اصلاح کا نقطہ آغاز ہے- اِس ذہن کے باقی رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان کوئی بھی نتیجہ خیز اصلاحی کام نہیں کیا جاسکتا-
واپس اوپر جائیں