دعوہ ایکٹوزم
From Political Activism to Dawah Activism
مشہور محدث امام مالک بن انس (وفات: 179 ہجری) کا ایک قول اِن الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: لا یصلح اٰخر ہذہ الأمة، إلا بما صلح بہ أولہا (مسند الموطأ، رقم الحدیث: 783 ) یعنی اِس امت کے دورِ آخر کے لوگوں کی اصلاح بھی اُسی طرح ہوگی، جس طرح اِس امت کے دورِ اول کے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی-
امت کے لیے یہ طریقہ اصلاح کیاہے، اس کا اندازہ رسول اور اصحابِ رسول کے دور کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے- رسول اور اصحابِ رسول کے دور کو اسلام کا دورِ اول کہا جاسکتا ہے- اِس دور میں جو کچھ پیش آیا، اس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے- اِس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا- 13 سال تک آپ پُرامن انداز میں اپنے مشن کو چلاتے رہے- اِس مدت میں مکہ کے کچھ افراد نے اسلام قبول کیا، لیکن وہاں کی بڑی اکثریت آپ کی مخالف بن گئی- انھوںنے ہر صورت سے آپ کو ستانا شروع کردیا، یہاں تک کہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ رسول اور اصحابِ رسول یا تو مکہ سے ہجرت کرجائیں یا اہلِ مکہ کی طرف سے جارحانہ کارروائی کا سامنا کریں-
اُس وقت حضرت عمر فاروق اور دوسرے اصحاب نے کہا کہ اگر ہم سے جنگ کی جاتی ہے تو ہم جنگ کریں گے- پیغمبر اسلام نے حضرت عمر فاروق کو مخاطب کرتےہوئے فرمایا: یا عمر، إنا قلیل (سیرت ابن کثیر: 1/441) یعنی اے عمر، ہم تھوڑے ہیں- پیغمبر اسلام کا یہ جواب کوئی سادہ جواب نہ تھا- اِس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی فریقِ ثانی کے ساتھ ٹکراؤ کا وقت نہیں آیا- اللہ کے منصوبے کے مطابق، یہ ایک قبل از وقت بات ہوگی کہ ہم فریقِ ثانی سے لڑ جائیں- ابھی ہمیں صبر کرتے ہوئے حالات کو اُس نوبت تک پہنچانا ہے جہاں اللہ اُس کو پہنچانا چاہتا ہے-
دعوت اور نصرت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اِس معاملے میں جو ماڈل (model) قائم ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ پیغمبرانہ مشن کے دو بڑے حصے ہیں- پہلے حصے کا عنوان دعوت ہے، اور دوسرے حصے کا عنوان نصرت، یعنی اہلِ ایمان کو یہ کرنا ہے کہ پہلے وہ احساسِ ذمے داری کے تحت، دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں- وہ آخری حد تک پرامن رہتے ہوئے اپنے دعوتی مشن کو جاری رکھیں- وہ کسی حال میں رد عمل یا ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کریں- اِس کے بعد اہلِ ایمان کے ساتھ جو کچھ ہوگا، وہ تمام تر اللہ کی نصرت کے تحت ہوگا- اللہ کی نصرت کے تحت اہلِ ایمان کے لیے مزید مواقع کھلتے چلے جائیں گے- اہلِ ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ اِن مواقع کو پہچانیں اور دانش مندانہ طورپر ان کو استعمال کریں، یہاں تک کہ ان کا سفرِ دعوت اپنی آخری منزل تک پہنچ جائے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو نمونہ قائم ہوا، اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں نصرتِ الہی کے ظہور کے تین مرحلے ہیں- وہ مرحلے حسب ذیل ہیں:
1- نصرت باعتبارِ حفاظت (Nusrat in terms of security)
2- نصرت باعتبارِ پراسس (Nusrat in terms of process)
3- نصرت باعتبارِ فتح (Nusrat in terms of victory)
4- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنا دعوتی مشن شروع کیا تو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو یہ ہدایت دی گئی: یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ( 74:1-7 )- یہ قرآن کی سورہ المدثر کی ابتدائی آیتیں ہیں- یہ سورہ اگر چہ بالکل ابتدا میں نازل ہوئی، لیکن تلاوت کی ترتیب کے اعتبار سےوہ مصحف کے آخری حصے میں شامل ہے- اِن آیات میں پیغمبر اسلام کو جو ہدایت دی گئی، اس کا مطلب یہ تھا کہ تم پُر امن انداز میں دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہو- مشن کے بقیہ مراحل کا تعلق تمام تر اللہ کی نصرت سے ہے- تم انتظار کی پالیسی پر قائم رہو اور جب اللہ کی نصرت ظاہر ہو تو تم اس کے مطابق، اُس کو استعمال کرو-
نصرت باعتبارِ حفاظت
جیسا کہ عرض کیاگیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610عیسوی میں مکہ میںاپنا دعوتی مشن شروع کیا- آپ نے یک طرفہ طورپر امن کی روش اختیار کرتےہوئے اپنے مشن کو جاری رکھا- اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا- انھوںنے آپ کے ساتھ مخالفت کا طریقہ اختیار کیا- جب حالات بہت زیادہ شدید ہوگئے، اُس وقت بھی آپ نے ٹکراؤ سے مکمل اعراض کیا- یہاںتک کہ نبوت کے 13 سال بعد آپ مکہ چھوڑ کر مدینہ آگئے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ نے اور آپ کے اصحاب نے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا، بلکہ اپنے مقامِ عمل (work place) کو بدل دیا-
واقعات بتاتے ہیں کہ ہجرت کے بعد بھی مکہ کے مشرک سردار خاموش نہیں ہوئے، بلکہ انھوںنے یک طرفہ طورپر مسلّح جارحیت کا طریقہ اختیار کیا- انھوںنے باقاعدہ جنگی تیاری کرکے مدینہ پر حملہ کردیا- یہ واقعہ پیغمبر اسلام کی ہجرت کے 16 ماہ بعد پیش آیا- مدینہ سے تقریباً 80 میل دور بدر کے مقام ~پر دونوں فریقوں کے درمیان جنگ ہوئی- اِس جنگ کو تاریخ میں غزوہ بدر کہاجاتا ہے- یہ صرف یک روزہ جنگ تھی جو 17 رمضان 2 ہجری کو پیش آئی- اِس جنگ میں فریق ِ مخالف کی طرف سے ایک ہزار مسلح افراد تھے جو پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے- دوسری طرف 313 کی تعداد میں اصحابِ رسول تھے، جو کم تر جنگی تیاری کے باوجود اپنے دفاع کے لیے بدر کے مقام پر پہنچے تھے-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفسہ عملاً اِس جنگ میں شریک نہ تھے- البتہ آپ کے لیے میدانِ جنگ سے باہر وقتی طورپر ایک عریش (hut) بنایاگیا تھا- روایات میں آتا ہے کہ جب دونوں گروہوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ کا وقت آیا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گر پڑے- اُس وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے: اللہم إنک إن تہلک ہذہ العصابة من أہل الإسلام فلا تعبد فی الأرض أبدا (مسند أحمد :1/112) یعنی اے اللہ، اگر تو اِس گروہ کو ہلاک کردے تو اِس کے بعد زمین پر کبھی تیری عبادت نہ ہوگی-
اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کی دعا قبول فرمائی اور قرآن ( 3:124-125 ) کے بیان کے مطابق، میدانِ جنگ میں کئی ہزار کی تعداد میں فرشتے بھیجے- اِس کے بعد جو واقعہ پیش آیا، اُس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ( 3:123 )
یہ معاملہ جو غزوہ بدر کے وقت پیش آیا، وہ کوئی سادہ معاملہ نہ تھا- یہ وہی چیز تھی جس کو ہم نے نصرت باعتبار حفاظت سے تعبیر کیا ہے، یعنی منصوبۂ الہی کی تکمیل سے پہلے مخالفین نے یک طرفہ حملہ کرکے یہ کوشش کی کہ اصحابِ رسول کا خاتمہ کردیا جائے، مگر یہ قبل از وقت تھا- ابھی وہ وقت آنے والا تھا جب کہ اصحابِ رسول کی جماعت اپنا آخری دعوتی رول ادا کرے- اِس کے لیے ضروری تھا کہ اِس جماعت کو مخالفین کے حملے سے بچا کر محفوظ رکھا جائے-
اصل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے جب مکہ میں اپنا دعوتی مشن شروع کیا، اُسی وقت سے اللہ تعالی کا ایک منصوبہ زیر عمل آگیا- وہ منصوبہ یہ تھاکہ ایک مدت تک مختلف واقعات کے دوران پیغمبر اسلام اور آپ کی دعوتِ توحید کا خوب چرچا ہو، تاکہ مکہ اور اطرافِ مکہ کے لوگ اُس سے باخبر ہوجائیں- لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر اِس بارے میں تجسس (curiosity) پیدا ہوجائے اور پھر اُن کے اِس تجسس کو استعمال کرکے یہ موقع فراہم کیا جائے کہ لوگ بڑے پیمانے پر آپ کے مشن کو سمجھنے کی کوشش کریں-
نصرت باعتبارِ پراسس
پراسس کے اِ س معاملے کو قرآن میں رفعِ ذکر ( 94:4 ) کہاگیا ہے، یعنی لوگوں کے درمیان توحید کے مشن کا چرچا- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں اپنی دعوتی مشن کا آغاز کیا تو ہر دن نئے نئے واقعات پیش آتے رہے — کبھی آپ، لوگوں کے مجمع میں جاکر اُن کو قرآن سنارہے ہیں، کبھی مکہ کے کسی آدمی کے قبولِ اسلام پر مخالفین کی طرف سے اس پر تشدد کیا جارہاہے، کبھی کسی مسلمان کو حرمِ مکہ میں نماز پڑھنے سے روکا جارہاہے، کبھی باہر سے مکہ آنے والا کوئی شخص پیغمبراسلام سے اِس معاملے میں سوال وجواب کررہاہے، کبھی حج کا موسم ہے اور مختلف قبائل کے لوگ مکہ آرہے ہیں اور آپ وہاں جاکر اُن کے سامنے اپنے مشن کا تعارف پیش کررہے ہیں، کبھی آپ کا اور آپ کے خاندان کا بائکاٹ کیا جارہاہے، کبھی مکہ کے سرداروں کی ایذارسانی سے مجبور ہوکر اصحابِ رسول کا ایک قافلہ مکہ سے ہجرت کرکے حبش جارہا ہے، کبھی آپ اپنے مشن کے تحت طائف اوردوسرے مقامات پر جاتے ہیں، کبھی دار الندوہ میں پیغمبر اسلام کے خلاف مشورہ ہورہا ہے اور آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے، وغیرہ-
پھر جب مکہ میں 13 سال قیام کے بعد آپ مکہ سے 300 میل کی دوری پر واقع شہر مدینہ چلے جاتے ہیں تواِس تذکرے میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتاہے- اب غزوات اور سرایا اور جھڑپوں (skirmishes) جیسے واقعات کے نتیجے میں آپ کا اور آپ کے مشن کا چرچا تمام عرب میں، حتی کہ اطرافِ عرب میں پھیل جاتاہے- آپ کے مخالفین کی مخالفانہ کارروائیوں کے نتیجے میں بظاہر بہت سے واقعات ہورہے تھے جو مسلسل لوگوں کے علم میں آرہے تھے- اسی کے ساتھ ایک بلا اعلان عمل جاری تھا- یہ عمل اِن واقعات کے درمیان ایک انڈر کرنٹ یا زیر سطح عمل (under the surface process) کی حیثیت رکھتا تھا- وہ لوگوں کے اندر نہایت تیزی سے تجسس کی نفسیات پیدا کررہا تھا- لوگ فطری طور پر جاننا چاہتے تھے کہ یہ مشن کیا ہے اور اِس مشن سے وابستہ افراد کا معاملہ کیا ہے- تجسس کی یہ زیریں رو اللہ کے منصوبے کے مطابق، عین مطلوب تھی، کیوں کہ اُس سے پیغمبر اسلام کے مشن کے دعوتی مواقع مسلسل طورپر بڑھ رہے تھے- یہی وہ عمل ہے جس کو ہم نے نصرت باعتبار پراسس کا نام دیا ہے-
نصرت باعتبارِ فتح
ہجرت کے دوسرے سال اِس انڈرکرنٹ عمل پر تقریباً 20 سال گزر چکے تھے- نصرت باعتبار پراسس کا عمل اپنی تکمیل کے مرحلے تک پہنچ گیا تھا- اب ضرورت تھی کہ اِس پیداشدہ امکان کو بھر پور طورپر دعوت کے لیے استعمال (avail) کیا جائے- مگر مخالف فریق نے جنگ اور ٹکراؤ کا جو ماحول بنا رکھا تھا، اس کی موجودگی کی بنا پر اِس پیدا شدہ موقع کو استعمال کرنا عملاً ناممکن ہوگیا تھا- اِس لیے اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حکمت کے ساتھ ایک نیا منصوبہ بنایا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت مدینہ میں تھے- اللہ تعالی نے آپ کو خواب دکھایا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ جارہے ہیں- آپ نے یہ خواب اپنے اصحاب کو بتایا- اِس کو سن کر لوگ بہت خوش ہوئے- وہ عمرہ کے لیے مکہ جانے کی تیاری کرنے لگے- اِس کے مطابق، آپ یکم ذی القعدہ 6 ہجری کو عمرہ کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے- اُس وقت تقریباً 15 سو مہاجرین اور انصار آپ کے ساتھ تھے-اہلِ مکہ کو پیغمبر اسلام کے اِس سفر کی اطلاع ہوگئی- انھوںنے طے کیا کہ وہ کسی قیمت پر پیغمبر اسلام کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے- چناں چہ انھوں نے آگے بڑھ کر حدیبیہ کے مقام پر آپ کے قافلے کو روک دیا جو کہ مکہ سے 9 میل کے فاصلے پر واقع تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حدیبیہ میں پڑاؤ ڈال دیا- اِس کے بعد اہلِ مکہ کے نمائندے وہاں آنے لگے اور تقریباً دو ہفتے تک دونوں فریق کے درمیان گفت وشنید جاری رہی- اِس گفتگو کے دوران پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ آپ اہلِ مکہ سے یہ کہیں کہ ہمارے اور تمھارے درمیان ٹکراؤ اور جنگ کی جو صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، وہ ایک غیر مطلوب چیز ہے- اور ضروری ہے کہ اس کو ختم کردیا جائے- آخر کار یہ طے ہوا کہ فریقین کے درمیان صلح کا معاہدہ (peace treaty)ہوجائے-
صلح کا یہ معاہدہ جب کاغذ پر لکھا جانے لگا تو اہلِ مکہ کے نمائندہ سردار نے شدید انداز میں حمیتِ جاہلیہ( 48:26 ) کا مظاہرہ کیا- انھوں نے ضد اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کی یک طرفہ شرطوں کی بنیاد پر معاہدہ کیا جائے، حتی کہ انھوںنے اصرار کیا کہ ’’رسول اللہ‘‘ کے لفظ کو معاہدے کی تحریر سے مٹا دیا جائے- پیغمبر اسلام نے اہلِ مکہ کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طور پر مان لیا، صرف اِس لیے کہ اِس معاہدے کے ذریعے دونوں فریق کے درمیان امن کا ماحول قائم ہورہا تھا-
حدیبیہ کا معاہدۂ صلح اہلِ مکہ کی یک طرفہ شرطوں کی بنیاد پر ہوا تھا- چناں چہ صحابہ کے اندر اس کے خلاف شدید رد عمل پیداہوا- عمر فاروق نے کہا: لما نعطی الدنیة من دیننا (صحیح البخاری،رقم الحدیث:2731) یعنی ہم اپنے دین کے معاملے میں اِس ذلت آمیز معاہدے کو کیوں قبول کریں- ایک صحابی نے رسول اللہ سے کہا کہ آپ نے مدینہ میں اپنے ایک خواب کے حوالے سے ہم کو بتایا تھا کہ ہم عمرہ کرنے مکہ جارہے ہیں، پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ عمرہ کے بغیر درمیان سے لوٹ رہے ہیں- آپ نے جواب دیا کہ کیا میں نے یہ کہا تھا کہ ہم اِسی سال مکہ جاکر عمرہ کریں گے (أفأخبرتک أنا نأتیہ العام؟)- اِن تمام مخالفتوں کے باوجود آپ نے اہلِ مکہ سے امن کا معاہدہ کرلیا اور حدیبیہ سے مدینہ کے لیے واپسی کا فیصلہ فرمالیا-
معاہدہ حدیبیہ کی تکمیل کے فوراً بعد وہ سورہ اتری جو قرآن میں الفتح کے نام سے شامل ہے- اِس سورہ کا آغاز اِن الفاظ سے ہوتا ہے: اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا ( 48:1 ) یعنی ہم نے تم کو کھلی فتح دے دی- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سورہ اپنے اصحاب کو پڑھ کر سنائی تو ابتداء ً صحابہ کو یہ بیان بہت عجیب معلوم ہوا- عمر فاروق نے کہا: أو فتح ہو یا رسول اللہ- قال: نعم، والذی نفسی بیدہ إنہ لفتح (القرطبی 16/261) یعنی اے خدا کے رسول، کیا یہ کوئی فتح ہے- رسول اللہ نے فرمایا کہ ہاں، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقیناً وہ فتح ہے- اِسی طرح ایک اور صحابی نے کہا: ما ہذا بفتح- فقال: بل ہو أعظم الفتوح- (القرطبی 16/260) یعنی یہ تو کوئی فتح نہیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ فتح ہے، بلکہ سب سے بڑی فتح ہے-
معاہدہ حدیبیہ دراصل ایک تدبیر تھی- اُس نے عمل کے میدان کو بدل دیا- اِس سے پہلے اہلِ ایمان مجبور تھے کہ وہ ٹکراؤ اور جنگ کے میدان میں فریقِ ثانی سے مقابلہ کریں، لیکن اب اُن کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اپنی پوری قوت کو یکسوئی کے ساتھ دعوت کے میدان میں استعمال کریں- میدانِ عمل کی یہ تبدیلی بے حد اہم تھی- اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ صرف دو سال کے محدود عرصے میں اسلام پورے جزیرہ عرب میں پھیل گیا-
اِس نتیجے کو دیکھتے ہوئے مشہور تابعی ابن شہاب الزہری (وفات: 124 ہجری) نے کہا تھا کہ: لقد کان الحدیبیة أعظم الفتوح(القرطبی، 16/261) یعنی حدیبیہ اسلام میں سب سے بڑی فتح تھی- مگر یہ سادہ طورپر صرف نتیجے کی بات نہیں، بلکہ وہ منصوبہ (planning) کی بات تھی- یہ کوئی اتفاقی نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک گہری منصوبہ بندی کے ذریعے پیش آنے والا منصوبہ تھا- یہی وہ چیز ہے جس کو ہم نے نصرت باعتبار فتح کا عنوان دیا ہے-
یہ معاملہ دراصل نصرت بذریعہ پراسس کا معاملہ تھا-حدیبیہ سے پہلے تقریباً 20 سال تک بظاہر ٹکراؤ اور مخالفت کے جو واقعات پیش آرہے تھے، اُن کے ساتھ فطری طورپر ایک زیر سطح پراسس جاری تھا- اِس پراسس کو ایک لفظ میں، منفی تعارف کہاجاسکتا ہے- اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ شعوری یا غیر شعوری طورپر ہر ایک کے لیے اسلام ایک ایسی حقیقت بن گیا جو یہ تقاضا کررہا تھا کہ اُ س کو براہِ راست جاننے کی کوشش کی جائے- دوسرے لفظوں میں، اِس صورتِ حال نے بڑے پیمانے پر اسلام کے لیے دعوت کے مواقع پیدا کردئے، جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے-
معاہدہ حدیبیہ کا معاملہ بلا شبہہ ایک حکیمانہ منصوبہ بندی کا معاملہ تھا- یہ حکیمانہ منصوبہ بندی تمام تر فطرت کے قوانین پر مبنی ہے، اِس لیے ہر زمانے میں دوبارہ اس کا کامیاب تجربہ کیا جاسکتا ہے، جس طرح دورِ اول میں اس کا کامیاب تجربہ کیاگیا تھا ’’نصرت باعتبار فتح‘‘ کا معاملہ خصائص نبوی کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ اسوہ نبوی کا معاملہ ہے- اس کو ہر زمانے میں اُسی طرح دہرایا جاسکتا ہے جس طرح پیغمبر کے دوسرے نمونوں کو دہرایا جاسکتاہے-
حدیبیہ اور اسوہ رسول
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( 33:21 ) یعنی اللہ کے رسول میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے- اِس آیت میں ’اسوہ‘ کسی محدود معنی میں نہیں ہے، وہ پیغمبر کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے- پیغمبر اپنی پوری زندگی کے اعتبار سے، اہلِ ایمان کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے- اِس عموم میں استثنا صرف کسی ایسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کو صراحتاً پیغمبر کے ساتھ خاص کیاگیا ہو- مثلاً ازدواج کے معاملے میں بعض پہلوؤں سے آپ کے ساتھ استثنا کا معاملہ، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: خَالِصَةً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ( 33:50 )-
حقیقت یہ ہے کہ رسول کا ہر قول اورہر فعل امت کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہوگا، الا یہ کہ رسول کے کسی فعل کو صراحتاً رسول کی ذات کے ساتھ خاص کیاگیا ہو-اِس اصول کی روشنی میں معاہدہٴ حدیبیہ کا معاملہ بلا شبہہ ایک قابلِ تقلید اسوہ رسول کی حیثیت رکھتا ہے- جب بھی اور جہاں بھی وہ حالات پیدا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 6 ہجری میں پیدا ہوئے تھے، تواُس وقت اسوہ حدیبیہ اُسی طرح امت کے لیے قابلِ اتباع بن جائے گا، جس طرح وہ دورِ اول کے اہلِ ایمان کے لیے قابلِ اتباع بنا تھا-
معاہدہ حدیبیہ ایک فتح کا معاملہ تھا- فتح کا معاملہ صرف پیغمبر کے لیے خاص نہیں، وہ تمام امت کے لیے یکساں طورپر مطلوب ہے- قرآن میں بار بار فتح کو اہلِ ایمان کے لیے ایک عمومی مطلوب کی حیثیت سے بتایا گیا ہے- مثلاً: وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ( 61:13 ) جب فتح پوری امت کے لیے ایک مطلوب شے ہے تو فتح کی تدبیر بھی یقینی طورپر پوری امت کے لیے ایک مطلوب شے ہوگی- فتح اور تدبیر ِ فتح کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا-
یہاں تدبیر ِ فتح سے مراد سیاسی فتح (political victory) نہیں ہے، بلکہ نظریاتی فتح (ideological victory) ہے- موجودہ زمانے میں اِس نظریاتی فتح کا امکان پوری طرح پیدا ہوچکا ہے- مگر اِس نظریاتی فتح کو واقعہ بنانا صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ حکمتِ حدیبیہ کو سمجھا جائے اور آج کے حالات کے لحاظ سے اس کا استعمال کیاجائے-
حکمتِ حدیبیہ
حدیبیہ کے واقعے کو سیرت کی کتابوں میں غزوة الحدیبیہ کے عنوان کے تحت درج کیاجاتا ہے- اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حدیبیہ کا واقعہ دوسرے بہت سے غزوات میں سے ایک غزوہ تھا- حالاںکہ حدیبیہ کا واقعہ نہ غزوة تھا اور نہ دوسرے واقعاتِ نبوی کی طرح صرف ایک واقعہ- حقیقت یہ ہے کہ حدیبیہ کا واقعہ ایک اعلی درجے کا منصوبہ تھا- حدیبیہ کے واقعے کو، معروف معنی میں، غزوہ کہنا بلا شبہہ اس کا کم تر اندازہ (underestimation) کرنے کے ہم معنی ہے-
حکمتِ حدیبیہ دراصل ایک فطری قانون ہے- اِس قانون کا ذکر قرآن کی سورہ الفتح میں اِن الفاظ میں کیاگیا ہے: ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا ( 48:27 ) یعنی اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہ جانی-یہ قرآن کا ایک اسلوب ہے- اِس سے مراد اللہ کا علم غیب نہیں ہے، بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ، اُس وقت ایک صورتِ حال موجود تھی، لیکن اس کو جاننے کے لیے ربانی عقل درکار تھی، عام آدمی اُس کو سمجھ نہیں سکتا- عام آدمی ہمیشہ چیزوں کو فیس ویلو (face value) پر لیتاہے، عام آدمی صرف اُس بات کو جان پاتا ہے جو سطح پر ہوتی ہے- لیکن ربانی عقل رکھنے والا انسان اپنی بصیرت کے تحت اُس حقیقت کو جان لیتا ہے جو وہاں زیر سطح موجود ہوتی ہے-
6 ہجری میں عرب کے اندر یہ صورتِ حال تھی کہ بظاہر لوگ پیغمبر کے مخالف بنے ہوئے تھے، لیکن داخلی نفسیات کے اعتبار سے، ہر ایک کے اندر سکنڈ تھاٹ (second thought)آچکاتھا، یعنی شعوری یا غیر شعوری طورپر مذہبِ توحید کے بارے میں دلوں کے اندر نرم گوشہ (soft corner) کا پیدا ہونا- اِس کی ایک علامتی مثال خالد بن الولید (وفات: 21 ہجری) کا واقعہ ہے- وہ فتحِ مکہ سے کچھ پہلے ایمان لائے- وہ اپنے اُس وقت کے احساس کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں: قد شہدتُ ہذا المواطن کلَّہا على محمد صلى اللہ علیہ وسلم، فلیس فی مواطن أشہدہ إلا أنصرف وأنا أرى فی نفسی أنی موضع فی غیر شیٴ (حیاة الصحابة، جلد1، صفحہ 160)
خالد بن الولید کے اِن الفاظ کو اگر جنرلائز کیا جائے تو اُس وقت کے عربوں کی اکثریت کا احساس یہی ہوچکا تھا- اگر چہ خارجی سطح پر ٹکراؤ اور مخالفت کا ماحول نظر آتا تھا، لیکن داخلی نفسیات کے اعتبار سے بیش تر لوگ فقد صغت قلوبکما ( 66:4 ) کا نمونہ بن چکے تھے-
یہ صورتِ حال تھی جس کو استعمال (avail) کرنے کے لیے ایک عملِ اعتدال (process of normalization) درکار تھا، کیوں کہ معتدل ماحول کے بغیر اِس امکان کو استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا- یک طرفہ بنیاد پر معاہدہ حدیبیہ کرکے یہی معتدل ماحول بنایاگیا- اور اس کے بعد فطری طور پر وہ نتیجہ برآمد ہوا جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا( 110:1-2 )
ظاہرِ دنیا، باطنِ دنیا
صلح حدیبیہ 6 ہجری میں ہوئی- اِس واقعے کو قرآن میں فتح مبین ( 48:1 ) کہاگیا ہے- جس حکمت (wisdom) کے تحت حدیبیہ کا معاہدہ کیاگیا، اُس کا ذکر قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا ( 48:27 ) یعنی اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہ جانی، پس اللہ نے اس سے پہلے ایک فتحِ قریب ٹھہرادی-
قرآن کی اِس آیت میں بظاہر دنیا کا اور آخرت کا ذکر ہے، مگر اِس آیت کا ایک توسیعی مفہوم (extended sense) بھی ہے، جس کا اشارہ آیت کے اِس لفظ میں ملتاہے: یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا( 30:7 )- گویادنیا کا ایک ظاہر ہے اور ایک اس کا باطن ہے- مگر ظاہربیں لوگ صرف اس کے ظاہر کو جانتے ہیں، وہ اس کے باطن سے بے خبر رہتے ہیں، یعنی اکثر لوگ چیزوں کو ان کے فیس ویلو (face-value) پر لیتے ہیں، حالات کے گہرے پہلوؤں تک ان کی نظر نہیں پہنچتی-
یہ آیت قرآن میں صلح حدیبیہ کے سیاق میں اتری- اِس پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے آیت پر غور کیجئے تو اس سے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سطح (surface) پر جو کچھ نظر آتا ہے، وہ صرف حالات کا ظاہری پہلو ہوتا ہے، اِس کے سوا ایک اور چیز ہوتی ہے جو انڈرکرنٹ(undercurrent) ہوتی ہے- جس آدمی کے اندر ربانی بصیرت ہو، وہ سطح سے گزر کر انڈرکرنٹ امکانات کو دیکھ لے گا- وہ سطح کی باتوں کو نظر انداز کرے گا اور جوچیز انڈر کرنٹ ہے، اس کو دریافت کرکے اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے گا-
یہ ایک حکمتِ حیات ہے، یعنی سطح کی باتوں کو نظر انداز کرکے انڈر کرنٹ جو حالات ہیں، ان کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنا- معاہدۂ حدیبیہ اِسی حکمت کی ایک پیغمبرانہ مثال ہے- یہ مثال پیروانِ رسول کے لیے ایک ابدی ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے- پیروانِ رسول کو چاہیے کہ وہ رسول اللہ کے اِس نمونے کو اپنے حالات پر منطبق کریں اور اُس عظیم کامیابی کے حصے دار بنیں جو اِس حکمت پر اللہ نے مقدر کی ہے-
اکیسویں صدی میں حدیبیہ منصوبہ
اکیسویں صدی میں دوبارہ وہی حالات زیادہ بڑے پیمانے پر پیدا ہوگئے ہیں جو کہ پہلی صدی ہجری میں معاہدہ حدیبیہ کے وقت عرب میں پیدا ہوئے تھے- اکیسویں صدی میں دوبارہ پوری طرح وہ امکان پیداہوگیا ہے جب کہ معاہدہ حدیبیہ کی تاریخ کو عالمی سطح پر دہرایا جائے- اِس امکان کو اپنے حق میں واقعہ بنانے کی شرط دوبارہ وہی ہے جو دورِ اوّل میں پیش آئی، اور وہ ہے صابرانہ دانش مندی یا دانش مندانہ صبر-
موجودہ زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مغربی قومیں نئے ذرائع سے مسلح ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئیں- انھوںنے ہرجگہ اپنا دبدبہ قائم کردیا- یہ واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر اٹھارھویں صدی عیسوی میں پیش آیا- اُس وقت کی دنیا میں مسلمانوں کی بڑی بڑی سلطنتیں قائم تھیں — برصغیر ہند میں مغل ایمپائر، ایشیا اور افریقہ کے بڑے رقبے میں ترک ایمپائر، وغیرہ- مغربی قوموں نے مسلمانوں کی اِن سلطنتوں کو مغلوب کرلیااور ہر جگہ اپنا دبدبہ قائم کرلیا- اِس عمل کا نقطۂ آغاز متعین کرنا ہو تو وہ 1799 قرار پائے گا- اسی سال دو بڑے فیصلہ کُن واقعے ہوئے- ایک طرف، اِسی سال بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) میں مغربی طاقتوں نے ترکوں کے عظیم بحری بیڑہ (naval fleet) پر حملہ کرکے اس کو مکمل طور پر تباہ کردیا- اور دوسری طرف، اِسی سال برٹش فوج نے سلطان ٹیپو کی فوج کو کامل شکست دے دی- اِس کے بعد برٹش جنرل نے فاتحانہ جذبے کے ساتھ کہا تھا کہ— آج انڈیا ہمارا ہے(Today, India is ours!)-
اِس کے بعد انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلسل اِس طرح کے واقعات ہوتے رہے- مثلاً 1857 میں انڈیا میں مغل سلطنت کا خاتمہ، 1924 میں خلافتِ عثمانی کا خاتمہ، 1948 میں اسرائیل کا قیام، اور پھر دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے بعد نام نہاد امریکی امپیریل ازم (American Imperialism) کا ظہور، وغیرہ-
اِس طرح کے واقعات نے پوری مسلم دنیا میں شدید رد عمل پیدا کیا- ہرجگہ نفرت اور تشدد اور جہاد ایکٹوزم شروع ہوگیا- ہرجگہ کے مسلمانوں میں وہی جارحانہ کلچر وجود میں آگیا جس کی ترجمانی عرب شاعر خیر الدین الزرکلی (وفات: 1976) کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے:
ہاتِ صلاحَ الدین ثانیةً فینا جدّدی حِطّین أو شبہ حطینا
(صلاح الدین کو دوبارہ ہمارے درمیان لے آؤ- حطین یا حطین جیسا معرکہ دوبارہ گرم کرو)
واقعات بتاتے ہیں کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی دوسوسالہ مدت تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ’’جہاد ایکٹوزم‘‘ کی صدی تھی- تمام مسلم دنیا اِس جہاد ایکٹوزم میں شامل تھی، اِس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگ تقریر اور تحریر کی زبان میں نفرت اور تشدد کی بولی بول رہے تھے، اور بقیہ لوگ باقاعدہ ہتھیاروں کے ذریعے اپنے مفروضہ دشمن کے ساتھ باقاعدہ لڑائی چھیڑے ہوئے تھے، لیکن یہ دوسو سالہ مقابلہ آرائی یک طرفہ طورپر مسلمانوں کی مغلوبیت پر ختم ہوئی-
آج ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی بولی بول رہے ہیں— ہم مخالفین کی سازشوں سے گھرے ہوئے ہیں، ہم دشمنوں کی معاندانہ کارروائیوں کا شکار ہیں، وغیرہ- اِس موضوع پر آج کا مسلم پریس، عربی، فارسی، انگریزی اور اردو میں جو کچھ کہہ رہاہے، اس کا خلاصہ ایک جملے میں یہ ہےکہ — ہم محاصرہ کی حالت میں ہیں(We are under siege) -
زیرِ سطح امکانات
سطح پر بظاہر وہ حالات تھے جن کو عام طورپر اینٹی مسلم حالات کہاجاتاہے، لیکن عین اِسی مدت میں زیرِ سطح کچھ دوسری سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری تھیں- یہ سرگرمیاں وہ تھیں جو سماجی اور سیاسی اور علمی سطح پر جاری تھیں- اِن سرگرمیوں کے چیمپین بھی مغربی قوموں کے لوگ تھے-اِن سرگرمیوں کے نتیجے میں اِس مدت میں دنیا میں مذہبی آزادی آئی- جمہوریت کا دور آیا، امن (peace) کو خیر اعلی (summum bonum) کا درجہ دے دیاگیا، رواداری (tolerance) کو ایک عالمی مسلّمہ قرار دے دیا گیا، جدید تقاضوں کے تحت ساری دنیا میں ایک نیا ذہن پیدا ہواجس کو انسان دوست ذہن (human-friendly mind) کہا جاسکتا ہے-پھر اِسی کے ساتھ اِس مدت میں ٹکنالوجی کو غیرمعمولی ترقی ہوئی، پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، الیکٹرانک کلچر وجود میں آیا-پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ایک نیا دور پیدا کیا جس کو دورِ مواصلات کہاجاتا ہے-
اِسی کے ساتھ ایک اور ترقی بہت بڑے پیمانے پر وجود میں آئی جس کو علم یا سائنس کی ترقی کہاجاتا ہے- اِس ترقی نے فطرت کے اندر چھپے ہوئے حقائق انسان کے سامنے کھول دئے- علم کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں ظہور میں آئیں- یہ تبدیلیاں جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوئیں، وہ عین اسلام کے حق میں تھیں-اپنی حقیقت کے اعتبارسے، یہ اُس موافق دور کا ظہور تھا جس کی خبر پیشگی طورپر قرآن ( 41:53 )میں دی گئی تھی-
موافقِ اسلام دور
موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں ظہور میں آئی ہیں، وہ اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی انسائکلوپیڈیا بھی ان کا احاطہ نہیں کرسکتی- ان کے بیان کے لیے ایک پوری لائبریری کی ضرورت ہے- تاہم مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِن تبدیلیوں کی بناپر تاریخ انسانی میں پہلی بار ایک نیادور پیداہوا، ایک ایسا دور جس کا تصور قدیم انسان نہیں کرسکتا تھا- یہ دور اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مکمل طورپر ایک موافقِ اسلام دور ہے-
مزید یہ کہ دورِ جدید کے یہ عظیم امکانات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں- اِن امکانات کو استعمال کرنے کے لیے نہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ کوئی سیاسی ایمپائر قائم کرنے کی- اِن جدید مواقع کا یہ ایک حیرت انگیز پہلو ہے کہ ان کو مکمل طور پر پُر امن ذرائع (peaceful means) کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے- اِن جدید مواقع کو استعمال کرنے کے لیے کسی بھی مرحلے میں نہ جنگ کی ضرورت ہے اور نہ پولٹکل پاور کی-
سیکولر مثال
اِن صفحات میں جو بات کہی جارہی ہے، وہ صرف ایک مذہبی بات نہیں ہے، یہ دراصل ایک اصولِ فطرت (law of nature) ہے- خالق نے جن اصولوں کے تحت اِس دنیا کو بنایا ہے، اُن میں سے ایک اصول یہ بھی ہے- اِس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں سطح (on the surface) پر ہوتی ہیں جن کو ہر آدمی دیکھ سکتاہے، اور کچھ زیادہ بڑی چیزیں ہوتی ہیں، مگر وہ ہمیشہ زیر ِ سطح (under the surface) ہوتی ہیں- اِن دوسری چیزوں کو ہمیشہ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو بصیرت (wisdom) رکھنے والے ہیں- اِس دنیا میں زیادہ بڑی کامیابی صرف اُن لوگوں کے لیے مقدر ہے جو انڈرکرنٹ چیزوں کو دیکھ سکیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں-
اِس کی ایک مثال جاپان ہے- دوسری عالمی جنگ میں جاپان محوری گروپ (Axis powers) کے ساتھ تھا- اُس زمانے میں جاپان ایک تشدد پسند قوم کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن جنگ کے دوران امریکا نے جاپان پر ایٹمی حملہ کیا- اس نے جاپان کے دو شہر ہیروشیما(Hiroshima) اور ناگاساکی (Nagasaki) پر اگست 1945 میں دو ایٹم بم گرائے- یہ جاپان کے لیے ایک ہلاکت خیز تجربہ تھا- اِس کے بعد جاپان بظاہر پوری طرح ایک تباہ شدہ ملک بن گیا-
اُس وقت جاپان کا سیاسی لیڈر ہیروہٹو(Hirohito) تھا- ہیرو ہٹو ایک مدبر آدمی تھا- اس نے اپنی بصیرت سے یہ جانا کہ سرفیس پر جو حالات ہیں، وہ بظاہر جاپان کے لیے ناموافق ہیں، لیکن انڈر کرنٹ جو صورتِ حال ہے، وہ جاپان کے لیے ایک موافق امکان کی حیثیت رکھتی ہے-
اُس وقت کی دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں— روس اور امریکا- دونوں ملک بھاری مصنوعات (hardware) میں مشغول تھے اور ہلکی مصنوعات (software) کا میدان تقریباً خالی تھا- جاپان نے شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس حقیقت کو جانا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اِس مخفی امکان کو استعمال کرے-
اِس کے بعد جاپان نے دو کام کیے- ایک طرف، جاپان نے یہ کیا کہ اس نے امریکا سے ٹکراؤ کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا، اور اپنی ساری توجہ تعلیم اور صنعت کے میدان کی طرف موڑ دیا- اِس کے بعد جو ہوا، وہ یہ کہ تقریباً 30 سال کے اندر جاپان کی ایک نئی تاریخ وجود میں آگئی- جاپان نے نہ صرف جنگ کے نقصانات کی تلافی کردی، بلکہ اس نے اتنی ترقی کی وہ جدید دور میں اقتصادی سپرپاور(economic superpower) بن گیا- یہ معجزہ اِس طرح پیش آیا کہ جاپان نے سرفیس کے حالات کو نظر انداز کیا اور انڈر کرنٹ جو امکانات چھپے ہوئے تھے، ان کو استعمال کیا-
اِس معاملے کی دوسری مثال وہ ہے جو انڈیا میں پیش آئی- انڈیا میں تقریباً 200 سال تک برٹش حکومت قائم رہی- 1857 میں انڈیا میں آزادی کی لڑائی شروع ہوئی- یہ لڑائی ہتھیاروں کے بل پر شروع کی گئی تھی- اِس جنگ میں کچھ مسلم لیڈر اور کچھ ہندو لیڈر شریک تھے- آزادی کی یہ جنگ تقریباً 60 سال تک جاری رہی، مگر اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کسی اور صورت میں نہیں نکلا-آخر کار 1919 میں مہاتما گاندھی سیاست کے میدان میں آئے اور انھوںنے جنگ آزادی کی قیادت سنبھالی- اُس وقت انڈیا بظاہر ایک تباہ شدہ ملک بنا ہوا تھا، لیکن مہاتما گاندھی نے شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس حقیقت کو جانا کہ یہاں انڈر کرنٹ ایک اور صورتِ حال موجود ہے جو انڈیا کے لیے ایک موافق امکان کی حیثیت رکھتی ہے- شرط صرف یہ ہے کہ تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن کا طریقہ اختیار کیا جائے-
یہ انڈر کرنٹ امکان کیا تھا، وہ یہ تھاکہ جس زمانے میں برطانیہ انڈیا پر حکومت کررہا تھا، اُسی زمانے میں یورپ کے ملکوں میں شاہی خاندان راج کررہے تھے— اِن یورپی ملکوں میں اِن حکومتوں کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر تحریکیں اٹھیں- بڑے بڑے یورپی دماغوں نے یہ نظریہ پھیلایا کہ کسی خاندان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی ملک پر حکومت کرے- اِس سیاسی تحریک کے نتیجے میں ایک سیاسی اصول پورے یورپ میں ایک مسلّم اصول بن گیا- اِس اصول کو عام طورپر حکومتِ خود اختیاری (self-determination) کا اصول کہاجاتاہے:
The right of a people to decide upon its own form of government without coercion or outside influence.
یہ سیاسی انقلاب یورپ میں پہلے فکری سطح پر آیا- اس کے بعد اس نے عملی صورت اختیار کی- اِس سیاسی انقلاب کا پہلا عملی اظہارفرانس میں ہوا-یہ فرنچ ریولوشن (French Revolution) تھا جو 1789 میں پیش آیا- اِس انقلاب کے بعد فرانس میں شخصی بادشاہت ختم ہوگئی اور جمہوری حکومت قائم ہوگئی- دھیرے دھیرے یہ انقلاب پورے یورپ میں پھیل گیا-
مہاتما گاندھی نے اِس سیاسی مسلّمہ کو استعمال کیا- انھوں نے کہا کہ خود یورپ کے حالات بتاتے ہیں کہ اب بادشاہت کا دور ختم ہوچکا ہے اور ہر ملک کو حق ہے کہ وہ اپنے یہاں قومی حکومت قائم کرے- مہاتما گاندھی نے اِس اصول کو لےکر انڈیا کی تحریک آزادی کو نیا رخ دے دیا- انھوںنے تشدد کا طریقہ چھوڑ کر پورے معنوں میں پرامن طریقہ اختیار کیا، جس کو وہ اہنسا(non-violence) کہتے تھے-مہاتما گاندھی کی یہ پرامن جدوجہد جہد آزادی برٹش حکومت کے لیے نیا مسئلہ بن گئی- انھوں نے محسوس کیا کہ پہلے، جدوجہد آزادی کو دبانا آسان تھا- کیوں کہ وہ لوگ برٹش حکومت کے خلاف ہتھیار استعمال کرتے تھے- اِس طرح برٹش حکومت کو موقع ملتا تھا کہ وہ ان کے خلاف ہتھیار استعمال کرکے انھیں کچل دے- اِس تبدیلی نے برٹش حکمرانوں سے ہتھیار کے استعمال کا جواز چھین لیا- اِس صورت حال کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے- اُس زمانے میں ایک برٹش کلکٹر نے اپنے سیکریٹریٹ کو یہ تار بھیجا — براہِ کرم، بذریعہ ٹیلی گرام یہ بتائیے کہ ’’شیر‘‘ کو ہتھیار کے استعمال کے بغیر کیسے ہلاک کیا جائے:
Kindly wire instructions how to kill a tiger non-violently.
یہ ایک سیکولر مثال ہے کہ کس طرح ایک لیڈر نے اپنے زمانے کے انڈر کرنٹ حالات کو سمجھا اور کامیابی کے ساتھ اس کو استعمال کیا- حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اصول فطرت کا ایک اصول ہے- یہ ایک فطری امکان ہے جو ہمیشہ اور ہر صورتِ حال میں موجود رہتا ہے- اِس امکان کو ہر بڑے مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ سیکولر مقصد ہو یا مذہبی مقصد- یہی امکان موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے پوری طرح موجود ہے- ضرورت ہےکہ اس کو سمجھا جائے اور حقیقت پسندانہ انداز میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرکے حکیمانہ انداز میں اس کو استعمال کیا جائے-
فضلِ عظیم کا معاملہ
قرآن کی سورہ النساء میں ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہٗ لَہَمَّتْ طَّاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ اَنْ یُّضِلُّوْکَ ۭوَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ ۭ وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ۭ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا ( 4:113 ) یعنی اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو اُن میں سے ایک گروہ نے یہ ٹھان لیا تھا کہ وہ تم کو بہکاکر رہے گا، حالاں کہ وہ اپنے آپ کو بہکارہے ہیں، وہ تمھارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے- اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے اور تم کو وہ چیز سکھائی ہے جس کو تم نہیں جانتے تھے، اور اللہ کا فضل ہے تم پر بہت بڑا-
قرآن کی اِس آیت میں ’فضل‘ کا لفظ کسی پُراسرار معنی میں نہیں ہے- فضل کے لفظی معنی ہیں: زیادہ یا شئ مزید (additional thing)- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے علاوہ ایک مزید چیز دی گئی جو کہ ختم نبوت کارول ادا کرنے کی نسبت سے آپ کے لیے ضروری تھی، یعنی وہ اسباب یا مواقع جن کو استعمال کرکے آپ خاتم النبیین کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دے سکیں- مثلاً ہاجرہ اور اسماعیل کے ذریعے سے ایک نئی نسل کی تیاری جس کا ذکر قرآن کی سورہ ابراہیم ( 14 ) کی آیت نمبر 37 میں کیا گیاہے، یا ساسانی ایمپائر اور بازنتینی ایمپائر کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر دونوں کو کمزور کردینا، جس کا اشارہ قرآن کی سورہ الروم کی آیت نمبر 2 میں کیا گیا ہے- مذکورہ آیت ( 4:113 ) میں اِسی قسم کی نصرت مراد ہے، نہ کہ پُراسرار قسم کی کوئی شخصی فضیلت- نصرت کا یہ خصوصی معاملہ پیغمبر کے مشن کی نسبت سے تھا، نہ کہ پیغمبر کی ذات کی نسبت سے-
قرآن کی مذکورہ آیت میں علم کی تعلیم (وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ( سے مراد علمِ وحی نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد مذکورہ قسم کے موافق امکانات سے پیغمبر کو باخبر کر نا ہے- یہی اسلوب سورہ الفتح 48 )) میں اختیار کیاگیا ہے جہاں ’علم ما لم تعلموا‘ کا لفظ آیا ہے- سورہ الفتح کی اِس آیت میں علم سے مراد وہ موافق امکانات ہیں جو معاہدہ حدیبیہ کے اندر باعتبار نتیجہ چھپے ہوئے تھے-
اصل یہ ہےکہ اللہ تعالی نے پچھلے زمانوں میں ہزاروں سال کے دوران بہت سے پیغمبر بھیجے( 23:44 )- اِن پیغمبروں نے نبوت کا فریضہ پوری طرح انجام دیا، لیکن ان کا مشن صرف اعلانِ توحید تک پہنچا- اُن میں سے کسی کے زمانے میں نہ مطلوب قسم کی امت بنی اور نہ دینِ خداوندی کا متن محفوظ ہوسکا اور نہ توحید پر مبنی عمومی انقلاب آیا، جو کہ اللہ تعالی کو مقصود تھا-
یہی وجہ تھی جس کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لیے اللہ تعالی نے خصوصی اسباب فراہم کیے- اِن اسباب کو استعمال کرکے یہ ممکن ہوا کہ دنیا میں توحید پر مبنی انقلاب آئے اور دینِ خداوندی کی نئی تاریخ بنے- پیغمبر اسلام کے لیے وحی کے علاوہ، جو مزید موافق اسباب فراہم کیے گئے، اِنھیں کو قر آن میں فضل کہاگیا ہے، یعنی اضافی اسباب یا مزید نصرت- اللہ تعالی نے ایک لمبی مدت کے اندریہ اضافی اسباب فراہم کیے، یہاں تک کہ رسول اور اصحابِ رسول کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ اِن اسباب کو استعمال کرکے وہ اللہ تعالی کے منصوبے کی تکمیل کریں-
قرآن کی مذکورہ آیت میں ’وعلّمک ما لم تکن تعلم‘ اُس وحی کے لیے نہیں ہے جو قرآن کی سورت میں آپ پر نازل ہوئی- بلکہ اِس سے مراد وہ علم ہے جس کا تعلق مذکورہ موافق امکانات سے ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے خصوصی طورپر اِن موافق امکانات کی خبر دی، تاکہ آپ شعوری طورپر اِن امکانات سے واقف ہوں اور ان کو اپنے مشن کے حق میں استعمال کرسکیں-
6 ہجری میں پیغمبر اسلام اور قریش کے درمیان حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ ہوا تھا، وہ اس معاملے کی ایک واضح مثال ہے- جیسا کہ معلوم ہے، حضرت عمر فاروق کو اِس معاہدے پر سخت اختلاف ہوگیا تھا- اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے درمیان جوگفتگو ہوئی، اس کا ایک حصہ کتابوں میں اِس طرح نقل ہوا ہے: قال عمر: فأتیتُ أبابکر، فقلتُ یا أبابکر، ألیس ہذا نبی اللہ حقاً؟ قال: بلى- قلت: ألسنا على الحق وعدونا على الباطل؟ قال: بلى، قلتُ: فلم نعطی الدنیة فی دیننا إذاً؟ قال: أیہا الرجل، إنہ رسول اللہ ولیس یعصی ربہ، وہو ناصرہ، فاستمسک بغرزہ، فواللہ إنہ على الحق-(تفسیر ابن کثیر4/199) یعنی عمر فاروق کہتےہیں کہ پھر میں ابوبکر کے پاس گیا- میں نے کہا کہ اے ابوبکر، کیا رسول اللہ نبی برحق نہیں ہیں- انھوں نے کہا کہ ضرور آپ نبی برحق ہیں- میں نے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارا دشمن باطل پر ہے- انھوں نے کہا کیوں نہیں- میں نے کہا کہ پھر کیوں ہم اپنے دین کے معاملے میں ذلت کو اختیار کریں- ابوبکر نے کہا کہ اے شخص، وہ اللہ کے رسول ہیں- وہ کبھی اپنے رب کی خلاف ورزی نہیں کریں گے- اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا- تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو لازم پکڑو- خدا کی قسم، وہ حق پر ہیں-
دورِ جدید کی مثال
قرآن کی مذکورہ آیت میں اللہ کے جس ’فضل عظیم‘ کا ذکر ہے، اس کا ظہور صرف ایک بار نہیں ہوا، بلکہ خدا کی دوسری رحمتوں کی طرح وہ بھی تاریخ میں بار بار دہرایا جارہا ہے- موجودہ زمانے میں یہ فضل یا اضافی نصرت بہت بڑے پیمانے پر ظاہر ہوچکی ہے-اہلِ ایمان کا کام یہ ہے کہ وہ اس کو پہچانیں اور اس کو خدائی مشن کے حق میں بھر پور طورپر استعمال کریں-
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اِس لیے بھیجا، تاکہ وہ سارے عالم کوامرِ حق سے آگاہ کردے( 25:1 )- اِس آیت میں جس عالمی نشانے کا ذکر ہے، وہ اول دن سے مطلوب تھا، مگر اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق، اِس دنیا میں کسی نشانے کی تکمیل کراماتی طورپر نہیں ہوتی، بلکہ وہ اسباب کے ذریعے ہوتی ہے- اِس عالمی دعوتی نشانے کو انجام دینے کے لیے قدیم زمانے میں عالمی مواصلات کا نظام عملاً موجود نہ تھا، اِس بنا پر مطلوب نشانہ بھی قدیم زمانے میں پورا نہ ہوسکا-
اِس مقصد کے لیے اللہ تعالی نے تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری کیا- اِس پراسس کی تکمیل باقاعدہ طورپر انیسویں صدی میں ہوئی- انیسویں صدی اور اس کے بعد کی صدی میں وہ تمام اسباب وجود میں آگئے جو دینِ حق کی عالمی پیغام رسانی کے لیے ضروری تھے- آج جس چیز کو دورِ مواصلات کہاجاتاہے، وہ دراصل اِسی خدائی منصوبے کے تحت وجود میں آیا ہے-
یہ دورِ مواصلات اور اِس نوعیت کے دوسرے تائیدی ذ رائع گویا کہ دورِ جدید کے ’فضل عظیم‘ کی حیثیت رکھتے ہیں- ساتویں صدی عیسوی میں پیغمبر اسلام کو اُس زمانے کے اعتبار سے فضلِ عظیم یا موافق اسباب دئے گئے تھے، موجودہ زمانے میں پیغمبر کی امت کو دوبارہ جدید تقاضوں کے مطابق، فضلِ عظیم یا موافق اسباب عطا کیے گئے ہیں- اب امت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے زمانے کے فضلِ عظیم کو پہچانے اور اس کو استعمال کرکے اپنے آپ کو اللہ کی عظیم سعادتوں کا مستحق بنائے- POIU
واپس اوپر جائیں