فکر ِ مغرب
فکر ِ مغرب (western thought) کیا ہے- فکر ِ مغرب اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، سائنسی طرز فکر (scientific thinking)کا نام ہے، اور سائنسی طرزِ فکر پورے معنوں میں ایک درست طرز فکر ہے- وہ بجائے خود اسلامی فکر نہیں ہے، لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک موافقِ اسلام طرز فکر ہے- وہ اسلام کے حق میں ایک مؤید علم (supporting knowledge) کی حیثیت رکھتا ہے- اصل مغربی فکر نہ غیر اسلامی فکر ہے اور نہ وہ کسی بھی اعتبار سے، اسلام دشمن فکر ہے-
قرآن کی سورہ الاحقاف میں یہ آیت آئی ہے: قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَــہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۭ اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَآ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ( 46:4 ) یعنی کہو کہ کیا تم نے غورکیا اُن چیزوں پر جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو- مجھے دکھاؤ کہ انھوںنے زمین میں کیا بنایا ہے، یا آسمانوں میں ان کی کچھ شرکت ہے- میرے پاس اِس سے پہلے کی کوئی کتاب لے آؤ، یا کوئی علم جو چلا آتاہو، اگر تم سچے ہو-
مفسر ابن کثیر (وفات: 774 ہجری) نے درست طور پر لکھا ہے کہ قرآن کی اِس آیت میں دو قسم کے علم کو بطور مستند علم (authentic knowledge) تسلیم کیا گیاہے — ایک، علمِ نقلی اور دوسرا علمِ عقلی- علمِ نقلی سے مراد مبنی بر وحی علم ہے اور علم عقلی سے مراد وہ علم ہے جو عقلِ انسانی پر مبنی ہو- تاہم علمِ عقلی سے مراد صرف وہ علم نہیں ہے جو عباسی دور کے معتزلہ اور متکلمین کے درمیان پایا جاتا تھا، بلکہ توسیعی طورپر اُس سے مراد سائنسی دور کا وہ جدید علم بھی ہے جس کو عقلی علم (rational knowledge) کہاجاتا ہے-
اِس جدید عقلی دور کا آغاز اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (Galieo Galilei) سے ہوا- گلیلیو کی وفات 78 سال کی عمر میں 1642 میں ہوئی- گلیلیو پہلا شخص ہے جس نے دور بین (telescope) کا استعمال کیا- گلیلیو کو جدید سائنس کا بانی (founder of modern science) کہاجاتا ہے- گلیلیو سے پہلے دنیا میں زمین مرکزی نظریہ (geo-centric theory) کو مانا جاتا تھا، جس کو ٹالمی (Claudius Ptolemy) اور ارسطو (Aristotle) کی حمایت حاصل تھی- گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین مرکزی نظریہ غلط ہے اور اِس کے مقابلے میں وہ نظریہ درست ہے جس کو آفتاب مرکزی نظریہ (heleo-centric theory) کہا جاتا ہے-
اِس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عقلی دور یا سائنسی دور شروع ہوا- اِس دور میں عقلی ثبوت کا یہ معیار قرار پایا کہ قابلِ اعتماد علم صرف وہ ہے جو قابلِ تصدیق علم (verifiable knowledge) ہو- دور بینی مشاہدہ نے زمین مرکزی نظریہ کی تصدیق نہیں کی، اِس لیے علمی دنیا میں اُس کو رد کردیاگیا، جب کہ دور بینی مشاہدہ نے آفتاب مرکزی نظریہ کی تصدیق کردی، اِس لیے وہ عقلی طورپر درست قرار پایا-
سائنس دراصل اِسی قابلِ تصدیق علم (verifiable knowledge) کا اصطلاحی نام ہے- اہلِ سائنس نے علمِ وحی (revealed knowledge) کا انکار نہیں کیا، البتہ انھوں نے علم وحی کو اپنے دائرہ تحقیق سے باہر قرار دیا، کیوں کہ وہ ان کے نزدیک قابلِ تصدیق نہ تھا-
اِس کے بعد علم کی دنیا میں ایک تقسیم (bifurcation) کا طریقہ وجودمیں آگیا- اب علمِ وحی کا دائرہ الگ ہوگیا اور عقلی علم یا سائنسی علم کا دائرہ الگ- یہ تقسیم بجائے خود غلطی نہ تھی- اِس کی بنا پر اہلِ سائنس کو یہ موقع ملا کہ وہ آزادانہ طورپر اپنی تحقیق کو جاری رکھ سکیں- اِس طرح سائنس کی تحقیق کا دائرہ اُس دنیا سے ہوگیا جس کو فطرت (nature) کہاجاتا ہے- اِسی لیے سائنس کو دوسرے الفاظ میں، فطری علم (natural science) یا مادّی علم (physical science) کہاجاتا ہے-
تائیدی علم
سائنسی علم براہِ راست طورپر اسلامی علم نہ تھا، لیکن بالواسطہ طورپر وہ اسلام کے لیے ایک تائیدی علم کی حیثیت رکھتا تھا- عقل کی صلاحیت کو لے کر سائنسی دنیا میں جو تحقیقات ہوئیں، اُس سے اسلام کو بہت زیادہ فائدے حاصل ہوئے- اِس اعتبار سے، سائنس کا پورا علم، اسلام کے لیے تائیدی علم کی حیثیت رکھتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اُس حدیث رسول کی مصداق ہے جو پیشین گوئی کی زبان میں اِن الفاظ میں آئی ہے: إن اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3062)-
فطرت میں سائنسی تحقیق کے ذریعے جو دریافتیں وجود میں آئیں، وہ خاص طورپر دو اعتبار سے، اسلام کے لیے غیر معمولی تائید کی حیثیت رکھتی تھیں- ایک قسم کی تائید وہ تھی جو اُس سائنس کے ذریعے حاصل ہوئی جس کو نظریاتی سائنس (theoretical science) کہاجاتا ہے- اور اسلام کے لیے دوسری تائید وہ تھی جس کو اصطلاحی طورپر انطباقی سائنس (applied science) کہاجاتا ہے-
نظریاتی سائنس نے یہ کیا کہ اس نے فطرت (nature) میں چھپے ہوئے وہ قوانین دریافت کیے جو اب تک غیر معلوم تھے- اِن قوانین کے بارے میں اشارات قرآن میں موجود تھے، لیکن قرآن میں ان کی تفصیل موجود نہ تھی- اہلِ ایمان کو ابھارا گیا کہ وہ زمین و آسمان میں غور کرکے اِن تفصیلات کو دریافت کریں، جو کہ ان کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ ہیں- لیکن بعد کے زمانے کے مسلمان یہ کام نہ کرسکے- آخر کار، اللہ تعالی نے اہلِ سائنس کے ذریعے یہ کام لیا- اللہ تعالی کا یہی منصوبہ ہے جس کو قرآن میں مستقبل کی پیشین گوئی کے طورپر اِس طرح بیان کیا گیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ( 41:53 )
اِس معاملے کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے: وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً مُّبٰرَکًا ( 50:9 )یعنی ہم نے آسمان سے مبارک پانی اتارا- قرآن کی اِس آیت میں اُس آفاقی تطہیر کا ذکر ہے جس کو موجودہ زمانے میں ازالہ نمک (desalination)کہاجاتا ہے- پانی کا ذخیرہ جو سمندروں میں جمع ہے، اُس میں تحفظاتی مادہ (preservative) کے طورپر تین فی صد نمک ملا ہوا ہے- یہ نمکین پانی انسان کے لیے ناقابلِ استعمال ہے- یہاں فطرت کے قانون کے مطابق، ایک عظیم آفاقی عمل ہوتا ہے جس کے ذریعے سمندر کا پانی نمک سے الگ ہوکر اوپر فضا میں جاتا ہے اور پھر بارش کی صورت میں خالص پانی زمین کی طرف لوٹتا ہے جس کو انسان اپنی ضرورتوں کے لیے استعمال کرتا ہے-قرآن میں، مبارک کے لفظ کی صورت میں اُس کا اشارہ موجود تھا، لیکن اس کی تفصیل ہزار سال بعد جدید سائنس نے معلوم کی، وغیرہ-
انطباقی سائنس (applied science) کے ذریعے اسلام کوبہت سے تائیدی ذرائع حاصل ہوئے- مثلاً پرنٹنگ پریس اور کمیونکیشن- اِن جدید سائنسی دریافتوں کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ اسلام کی اشاعت کا کام عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے- اللہ تعالی کو اول دن سے یہ مطلوب تھا کہ دین ِ حق کو دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچایا جائے، لیکن جدید ذرائع کے وجود میں آنے سے پہلے اِس کا امکان ہی نہ تھا- تاریخ میں پہلی بار یہ امکان جدید انطباقی سائنس کے ذریعے پیدا ہواہے-
عالمی دعوت کا امکان
حدیث میں اسلامی دعوت کے ایک امکان کو اِس طرح بیان کیاگیا ہے: لایبقی على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ کلمة الإسلام (مسند احمد، رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کی سطح پر کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے-
اِس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں صدی میں جب کہ اسلام کا ظہور ہوا، اُس وقت سے یہ اسلامی دعوت کا نشانہ تھا کہ اسلام کا کلمہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام مردوں اور عورتوںتک پہنچ جائے- مگر ایک ہزار سال تک یہ نشانہ عملاً پورا نہ ہوسکا، کیوں کہ اسباب کی اِس دنیا میں اِس نشانے کو پورا کرنے کے لیے عالمی ذرائع درکار تھے، جو کہ پچھلے ادوار میں موجود نہ تھے- دورِ جدید میں سائنس نے پہلی بار یہ موافق ذرائع فراہم کیے-اِس اعتبار سے دیکھئے تو مذکورہ حدیث کی تشریح اِن الفاظ میں کرنا درست ہوگا کہ — بعد کے زمانے میں ایسا ہوگا کہ اللہ کی توفیق سے ایسے اسباب وجود میں آئیں گے جن کو استعمال کرکے یہ ممکن ہوجائے گا کہ اہلِ ایمان اسلام کے کلمہ کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچا دیں-
منفی رائے کا سبب
مغرب اور فکرمغرب کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان منفی رائے پائی جاتی ہے- عام طورپر مسلمان مغرب اور فکر مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں-اِسی بنا پر موجودہ زمانے کے تمام مسلمان اہلِ مغرب سے نفرت کرتے ہیں اور مغربی علم سیکھنے کو ایک ناپسندیدہ فعل قرار دیتے ہیں- مگر مسلمانوں کی یہ رائے حقیقت پر مبنی نہیں ہے، وہ تمام تر متعصبانہ فکر (biased thinking) کا نتیجہ ہے-
اصل یہ ہے کہ جس زمانے میں مغربی علم وجود میں آیا، اُسی زمانے میں ایک اور واقعہ وجود میں آیا جس کو مغربی استعمار (western colonisation) کہا جاتا ہے- اِسی زمانے میں مغربی قوموں، خاص طورپر برطانیہ اور فرانس، نے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں اپنا سیاسی غلبہ قائم کرلیا- یہ ممالک اُس وقت مسلم سلطنت کا حصہ تھے- اِس سیاسی واقعے نے مسلمانوں کے اندر اہلِ مغرب کے خلاف شدید نفرت پیدا کردی- اِس کے بعد جب 1948 میں برطانی حکومت نے فلسطین کی تقسیم کی اور پھر امریکا، عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کا حامی بن گیا، تو اِس کے نتیجے میں اہلِ مغرب کے خلاف مسلمانوں کی نفرت اپنی آخری حد پر پہنچ گئی- یہ نفرت ابتداء ً قومی سطح پر ہوئی اور پھر اِس کے بعد مسلمان ہر اُس چیز سے نفرت کرنے لگے جو مغرب کی طرف سے آئی ہو-
دو چیزوں میں فرق نہ کرنا
کہا جاتا ہے کہ — نفرت آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے- یہی واقعہ مغرب کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا- نفرت کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر جو متعصبانہ ذہن پیدا ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہ کرسکے — مغربی علم اور اہلِ مغرب کی عملی کمزوریاں - یہ کمزوریاں ہر قوم میں لازماً پیدا ہوتی ہیں، حتی کہ خود مسلمانوں میں بھی-
اہلِ مغرب کی جدید تاریخ کا ایک حصہ وہ تھا جو سائنسی علم یا عقلی علم (rational knowledge) سے تعلق رکھتا تھا، کیوں کہ اسلام خود پورے معنوں میں ایک عقلی مذہب (rational religion) ہے- جدید سائنسی علم کا یہ حصہ پوری طرح اسلام کے موافق تھا- اِسی کے ساتھ بشری کمزوری کی بنا پر دو اور ظاہرے وجود میں آئے جو عام طورپر ہر قوم میں وجود میں آتے ہیں— ایک، حقیقتوں کی غلط توجیہہ (misinterpretation) اور دوسرے، آزادی کا غلط استعمال (misuse of freedom)- یہ دونوں چیزیں بلاشبہہ قابلِ اعتراض تھیں، مگر وہ اہلِ مغرب کی انسانی کمزوریاں تھیں، وہ خود مغربی سائنس کا حصہ نہ تھیں- مگر مسلمان اپنے تعصب کی بنا پر اِس فرق کو سمجھ نہ سکے، وہ غلط توجیہہ یا آزادی کے غلط استعمال کی طرح خودمغربی سائنس کو بھی منفی نظر سے دیکھنے لگے-
مثال کے طور پر مغربی دنیا میں برہنگی (nudity) کا کلچر ہے- یہ بات بطور واقعہ درست نہیں ہے، مگر اس کا تعلق فکرِ مغرب سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق آزادی کے غلط استعمال سے ہے- اللہ تعالی نے امتحان کی مصلحت کی بنا پر انسان کو آزادی دی ہے- انسان کو خود اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے یا چاہے تو وہ اس کا درست استعمال کرے- تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا رہا ہے، اِسی طرح موجودہ زمانے میں بھی- البتہ موجودہ زمانے میں ڈگری کے اعتبار سے اس میں اضافہ ہوگیا ہے- اِسی طرح مغربی دنیا میں شراب کا رواج بھی آزادی کے غلط استعمال سے تعلق رکھتا ہے- خود فکر مغرب سے اس کا براہِ راست کوئی تعلق نہیں، وغیرہ-
اِس سلسلے میں دوسرا معاملہ غلط توجیہ (misinterpretation) کا ہے- موجودہ زمانے میں مغربی دنیا میں کئی نظریات وجود میں آئے- مثلاً ڈارون ازم (Darwinism)، فرائڈازم (Freudism) اور مارکس ازم (Marxism)، وغیرہ- یہ نظریات بلا شبہہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف تھے، مگر یہ نظریات فکر مغرب کا براہِ راست حصہ نہیںہیں، بلکہ وہ زندگی کی غلط توجیہہ سے وجود میں آئے ہیں- ہم کو یقیناً دلائل کی بنیاد پر اِن نظریات کی تردید کرنا چاہیے، مگر یہ درست نہیں کہ ہم اِن نظریات کے حوالے سے خود فکر مغرب کو غلط سمجھنے لگیں-
اِس قسم کی برائی ہر معاشرے میں پائی جاتی ہے، حتی کہ خود مسلم معاشرے میں بھی- اسلام کے ابتدائی زمانے میں جن لوگوں نے حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی کو شہید کیا، ان کا کیس یہی تھا کہ انھوںنے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا- اِس طرح موجودہ زمانے میں آزاد مسلم ملکوں میں خود مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہتے ہیں- یہ بھی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے، وہ خود اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں-
یہی معاملہ غلط توجیہہ کا ہے- اسلام کے ابتدائی زمانے میں خوارج کا جو ظاہرہ پیدا ہوا، وہ اسلام کی غلط توجیہہ کا نتیجہ تھا- اِسی طرح موجودہ زمانے میں اسلام کی سیاسی تعبیر بھی قرآن وحدیث کی غلط توجیہہ کے نتیجے میں وجود میں آئی-
عصری ذہن
عام طو رپر مسلمان عصری ذہن کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں- اس کا سبب وہی ہے جس کو الناس أعداء ما جہلوا کہاجاتا ہے، یعنی بے خبری کی بنا پر کسی کو اپنا دشمن سمجھ لینا- عصری ذہن کے بارے میں عادلانہ رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندانہ ذہن کے تحت اس کا تجزیہ کیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے، عصری ذہن کا کیس کیا ہے-
عصری ذہن کی اصل مغربی ذہن ہے- مغربی ذہن یورپ کی نشاةِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد پیدا ہونے والے ذہن کا نام ہے- اُس دور میں کچھ ایسے افراد یورپ میں اٹھے جنھوں نے فطرت (nature) کا مطالعہ غیر روایتی انداز میں شروع کیا- اِس سلسلے میں پہلا نمایاں نام اٹلی کے سائنس داں گلیلیو (وفات: 1642)کا ہے- گلیلیو تاریخ کا پہلا شخص ہے جس نے فلکیات کے مطالعے میں دور بین (telescope) کا استعمال کیا- یہ 1609 کا واقعہ ہے- اُس زمانے میں روایتی تصور یہ تھا کہ زمین مرکز میں ہے اور سو رج اس کے گرد گھومتا ہے- گلیلیو نے اپنے دور بینی مشاہدے میں جن حقیقتوں کو دریافت کیا، اُن سے یہ اخذ ہوتا تھا کہ سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے-
سترھویں صدی کے آغاز میں عام طورپر روایتی طرز فکر کا غلبہ تھا- اُس وقت گلیلیو کا یہ اعلان ایک دھماکہ خیز واقعہ ثابت ہوا-اُس وقت مسیحی چرچ یورپ میں روایتی طرز فکر کا نمائندہ تھا- مسیحی پوپ کو یورپ کا بے تاج بادشاہ (uncrowned king) سمجھا جاتا تھا- چناں چہ مسیحی چرچ اور سائنس دانوں کے درمیان زبردست ٹکراؤ پیش آیا- اِس ٹکراؤ میں سائنس دانوں کو فتح ہوئی-
مسیحی چرچ کے اختیار کا دائرہ دن بدن سمٹنے لگا، یہاں تک کہ 1929 میں حکومتِ اٹلی اور مسیحی پوپ کے درمیان وہ معاہدہ ہوا جس کو لیٹران معاہدہ (Lateran Treaty) کہاجاتا ہے- اِس معاہدے کے مطابق، مسیحی چرچ اِس پر راضی ہوگیا کہ اس کا دائرہ اختیار روم کے ایک مختصر علاقہ ویٹکن (Vatican) تک محدود رہے گا جس کا کُل رقبہ صرف 109 ایکڑ ہے-
اِس طرح تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جس کو سائنس کا دور کہا جاتا ہے- اگر اِس واقعے کو مذہبی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو اِس دور کو ایمان بالغیب کے بجائے ایمان بالشہود کا دور کہاجائے گا- اِس دور میں فطرت کا مطالعہ مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کیا جانے لگا- اِس کے نتیجے میں فطرت کے اندر چھپے ہوئے بے شمار رموز دریافت ہوئے جو اب تک انسان کے لیے غیردریافت شدہ بنے ہوئے تھے-اِس کے نتیجے میں نئی ٹکنالوجی، نئی صنعتیں، نئے ذرائع ووسائل انسان کی دسترس میں آگئے-
یہ نئی مسحور کن دنیا تمام تر آبجیکٹیو مطالعہ (objective study) کے ذریعے انسان کی دسترس میں آئی تھی- اِس میں مبنی بر وحی مطالعہ کا بظاہر کوئی دخل نہیں تھا- یہ دور بظاہر سائنس دانوں کی تحقیقات کے نتیجے میں پیدا ہوا- اِس دور کا ایک عملی نتیجہ یہ تھا کہ قابلِ پیمائش (measurable) کو ناقابلِ پیمایش (non-measurable) سے الگ کر دیا گیا- اِس کے نتیجے میں علمی دنیا میں فکر کا وہ طریقہ رائج ہوا جس کو موضوعی طریقِ مطالعہ (objective method of study) کہاجاتا ہے- اِس طریقے کی عملی کامیابی کی بنا پر اس کو موجودہ دور میں رواجِ عام حاصل ہوگیا-
سائنس دانوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ اُن کا طریقِ مطالعہ تمام حقائق کو جاننے کے لیے واحد کارآمد طریقہ ہے- اِس کے برعکس، انھوں نے کھلے طورپر یہ تسلیم کیا کہ سائنس پورے علم حقیقت کا احاطہ نہیں کرتی، وہ حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality.
سائنسی طریقِ مطالعہ اپنی عملی کامیابی، نہ کہ نظری صداقت کی بنا پر موجودہ زمانے میں بہت زیادہ عام ہوگیا، حتی کہ فلاسفہ اور مفکرین نے بھی اِسی طرزِ فکر کو اختیار کرلیا- اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جس طرح فطرت (nature) کا مطالعہ موضوعی انداز میں کرتے تھے، اسی طرح وہ مذہب کا مطالعہ بھی موضوعی انداز میں کرنے لگے- وہ مذہب کو الہامی ظاہرہ (revealed phenomenon) تسلیم کرنے کے بجائے، اس کو صرف ایک سماجی ظاہرہ (social phenomenon) سمجھنے لگے- وہ اپنے مزاج کے مطابق، پیغمبراور پیغمبر کے کام کا اُسی طرح تجزیہ کرنے لگے جس طرح وہ مادی چیزوں کا تجزیہ کررہے تھے-
جدید مفکرین کا یہ طریقہ از روئے حقیقت درست نہ تھا، لیکن اس کا سبب عناد یا سازش نہ تھی، بلکہ وہ اُن کے اختیار کردہ طریقِ مطالعہ کا نتیجہ تھا- اگرچہ یہ طریقہ مذہب کے خلاف تھا، مگر وہ کسی بد نیتی کا نتیجہ نہ تھا- وہ بطور خود اِسی کو درست طریقِ مطالعہ سمجھتے تھے- سنجیدگی کے ساتھ ان کا یہ یقین تھا کہ یہ طریقہ جس طرح مظاہر فطرت کے مطالعے میں کامیاب ثابت ہوا ہے، اِسی طرح وہ وحی والہام کے مظاہر کے مطالعے میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے-
سائنس دانوں نے جو کام کیا،وہ تائید (support) کے اعتبار سے، اہلِ اسلام کے لیے انتہائی مفید تھا، لیکن مسلم ذہن اپنی منفی سوچ کی بناپر اِس فرق کو سمجھ نہ سکا- انھوں نے نئے دور میں پیدا ہونے والی مغربی تہذیب کو کلی طور پر اسلام دشمنی کا کیس قرار دے دیا، حالاں کہ اگر وہ اِس معاملے میں غیر جانب دارانہ انداز میں اہلِ مغرب کے کیس کو سمجھتے تو وہ جان لیتے کہ اہلِ مغرب کا کام، خود پیغمبر اسلام کی پیشین گوئی کے مطابق، باعتبار نتیجہ، تائید دین کی حیثیت رکھتا تھا، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے تخریبِ دین کا معاملہ نہ تھا-
حرفِ آخر
موجودہ زمانے میں اہلِ مغرب کا کنٹری بیوشن (contribution) بہت زیادہ ہے، سیکولر اعتبار سے بھی اور اسلامی اعتبار سے بھی- یہ ایک واقعہ ہے کہ اہلِ مغرب کی کوششوں سے ایک نئی دنیا وجود میں آئی ہے، جس کو جدید تہذیب (modern civilization) کہاجاتا ہے- جدید تہذیب اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے، منصوبہ خداوندی کا ایک حصہ ہے-
اللہ تعالی کو یہ مطلوب تھا کہ فطرت میں چھپے ہوئے قوانین دریافت کیے جائیں- فطرت کے تخلیقی امکانات کو انفولڈ (unfold) کیا جائے- مادی دنیا میں چھپے ہوئے آلاء اللہ (wonders of God) کو علمِ انسانی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ خدا کا دین روایتی دور سے نکل کر سائنسی دور تک پہنچے، تاکہ خدا کی معرفت کے اعلی پہلو انسان پر کھلیں، تاکہ قرآن کے مخفی ’عجائب‘ معلوم واقعہ بن جائیں- یہ سب کچھ اللہ تعالی کو مطلوب تھا اور مغربی تہذیب کے ذریعے اِسی مطلوبِ الہی کی تکمیل ہوئی ہے-
اِس دنیا میں مثبت پہلو (positive aspects)کے ساتھ ہمیشہ کچھ منفی پہلو (negative aspects) شامل رہتے ہیں- اِس کے باوجود اِس کی ضرورت ہوتی ہے کہ تاریخ کی مثبت تعبیر تلاش کی جائے- مثال کے طورپر اسلام کے عہدِ اول میں اہلِ ایمان کی پہلی جنریشن کے درمیان خوں ریز لڑائی ہوئی، جو کہ بلاشبہہ ایک منفی واقعہ تھا، مگر اِس منفی واقعےکے باوجود اسلام کے مثبت انقلابی رول کا اعتراف کیا جائے گا- اِسی طرح، اہلِ مغرب کے ترقیاتی کارناموں کے ساتھ اگر کچھ منفی پہلو شامل ہیں تو اِس بنا پر ہرگز ایسا کرنا درست نہ ہوگا کہ مسلمان اہلِ مغرب کے بارے میں منفی ذہن کا شکار ہوجائیں اور وہ اہلِ مغرب کے مثبت کارناموں کا اعتراف نہ کریں-
اِس قسم کا منفی رویہ خود مسلمانوں کی اپنی ذات کے لیے شدید نقصان کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ اِس قسم کا منفی رویہ حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہ کرنا ہے اور حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہ کرنا بلاشبہہ دنیا کے پہلو سے بھی ہلاکت خیز ہے اور آخرت کے پہلو سے بھی-
واپس اوپر جائیں