دورِ سائنس اور مذہب
انسان اپنے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پاتا ہے، جہاں تخلیق(creation) ہے، لیکن اِس تخلیق کا خالق (Creator) بظاہر یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اِس دنیا میں ڈزائن ہے، لیکن بظاہر اِس دنیا میں ڈزائنر (designer) نظر نہیں آتا۔اِس دنیا میں واقعات ہورہے ہیں، لیکن واقعات کو وجود میں لانے والا آنکھوں سے اوجھل ہے۔ پوری کائنات ایک عظیم انڈسٹری کی طرح کام کررہی ہے، لیکن اِس انڈسٹری کا انجینئر کسی خورد بین یا دور بین کے ذریعے دکھائی نہیں دیتا۔
انسان کو اِسی سوال کا جواب دینے کے لیے دنیامیں پیغمبر ظاہر ہوئے۔ پیغمبروں نے ہر زمانے میں انسان کو بتایا کہ یہاں محسوسات کے پیچھے ایک غیر محسوس ہستی موجود ہے۔ یہ خدا ہے، اُس کو مانو اور اس کی عبادت کرو۔ گویا کہ پیغمبروں کا رول ایک اعتبار سے، ایک قسم کا استنباطی رول (inferential role) تھا، یعنی انھوں نے انسان کو بتایا کہ تم کو چاہیے کہ تم اپنی عقل کو استعمال کرو اور دکھائی دینے والی چیزوں سے استنباط کرکے، نہ دکھائی دینے والے خدا پر اپنے یقین کی بنیاد قائم کرو۔
پیغمبروں نے اپنے اِس استنباطی رول کو مستند بنانے کے لیے یہ کیا کہ انھوں نے معجزے دکھائے۔ قرآن میں یہ بات اِن الفاظ میںآئی ہے: إنّا أرسلنا رُسُلنا بالبیّنات ( 57:25 )یعنی پیغمبروں نے خرقِ عادت معجزے دکھائے، تاکہ انسان یہ یقین کرسکے کہ پیغمبر جو خبر دے رہے ہیں، وہ ایک درست خبر ہے۔مثال کے طور پر پیغمبر موسیٰ پندرھویں اور سولھویں صدی قبل مسیح کے درمیانی زمانے میں مصر میں آئے۔ اُس وقت وہاں فرعون(Ramesses II) حکومت کررہا تھا۔ فرعون نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ ( 7:106 )۔فرعون کے اِس مطالبے پر پیغمبر موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈالا، جو زندہ اژدہا بن کر زمین پر چلنے لگا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 610 ء میں پیغمبر کی حیثیت سے مکہ میں ظاہر ہوئے۔ آپ سے پہلے جو پیغمبر آئے، اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے پیغام کی صداقت کے طورپر مذکورہ قسم کے معجزے دکھاتے رہے۔ لیکن پیغمبر اسلام، جو سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے، ان کے بعد خارقِ عادت معجزات کا طریقہ ختم کردیاگیا ( 17:59 )-پیغمبر ِ اسلام کے بعد کسی پیغمبر کا آنا موقوف ہوگیا، اور اِسی کے ساتھ خارقِ عادات معجزات پیش کرنے کا سلسلہ بھی۔ اب پیغمبرانہ دعوت غیر پیغمبر داعیوں کے ذریعے دنیا میں جاری ہے، لیکن اب کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔اِس کا سبب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک طرف یہ ہوا کہ دینِ حق اپنی اصل حالت میں پوری طرح محفوظ ہوگیا، یہاں تک کہ اب اُس میں کسی تحریف یا تبدیلی کا امکان نہیں۔ اب پیغمبرانہ مذہب کا متن بھی محفوظ ہے اور وہ زبان بھی محفوظ ہے جس میں یہ متن اوّلاً نازل ہوا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ معجزے کا بدل کیا ہے۔ پہلے دعوت کی صداقت معجزے کے ذریعے متحقّق کی جاتی تھی، اب دعوت کی صداقت کو متحقق کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ یہ ذریعہ جدید سائنس ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس، قدیم معجزے کا بدل ہے ۔ آج سائنس ٹھیک وہی استدلالی رول انجام دے رہی ہے، جو قدیم زمانے میں معجزات کے ذریعے انجام پاتاتھا۔
مذہب کے حق میں استدلال کے یہ دونوں دَور قرآن میں واضح طورپر بتادئے گئے ہیں۔ پہلے دورِ استدلال کے بارے میں قرآن میں یہ آیت ہے: إنَّا أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ ( 57:25 )یعنی ہم نے پیغمبروں کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے معجزے دئے۔ دوسرے دورِاستدلال کو قرآن میں مستقبل کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ( 41:53 )
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میںہوا۔ آپ کے ظہور کے تقریباً ایک ہزار سال بعد جدید سائنس ظاہر ہوئی۔ جدید سائنس کا یہ ظہور محض اتفاقی نہ تھا، وہ پیغمبراسلام کے لائے ہوئے انقلاب کا ایک براہِ راست نتیجہ تھا۔ پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے انقلاب کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اُس نے پہلی بار شرک کے غلبے کو ختم کردیا۔ شرک کے غلبے کے خاتمے کے بعد تاریخ میںایک نیا پراسس شروع ہوا۔ اِس پراسس کے نقطۂ انتہا کا دوسرا نام سائنس ہے۔
شرک کیا ہے۔ شرک دراصل نیچر ورشپ (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ انسان نے قدیم زمانے میں فطرت کے مظاہر کو پرستش کا موضوع بنا دیا تھا۔ اِس طرح شرک، نیچر کی تحقیق اور تسخیر کے عمل کے سلسلے میں ایک قسم کا ذہنی مانع (mental block) بن گیا تھا۔ کیوں کہ جس چیز کو آپ پرستش کا موضوع بنا لیں، اُس کو عین اُسی وقت آپ تحقیق کاموضوع نہیں بناسکتے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل شروع ہوا۔ انسان نیچر کی تحقیق میںمصروف ہوگیا۔ یہ تحقیق مسلسل جاری رہی، یہاں تک کہ وہ دریافتیں شروع ہوئیں، جن کو سائنسی دریافتیں کہا جاتا ہے۔ فطرت کے اندر چھپے ہوئے راز معلوم واقعات بن کر سامنے آنے لگے۔ یہ عین وہی چیز تھی جس کو قرآن میں آفاق اور انفُس میں آیات کے ظہور سے تعبیر کیا گیا تھا۔ جدید سائنس دراصل نیچرل سائنس کا دوسرا نام ہے، اور یہ بلاشبہہ قرآن کی پیشین گوئی کا جواب بن کر ظاہر ہوئی ہے۔
اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید سائنس قدیم طرز کے معجزات کا بدل ہے۔ جدید سائنس، دینِ حق کا علمِ کلام (Theology)ہے۔ جدید سائنس اُس دین کو علمِ انسانی کے معیار پر ثابت شدہ بنا رہی ہے، جس کو قدیم زمانے میں خارقِ عادت معجزات کے ذریعے ثابت شدہ بنایا جاتا تھا۔
واضح ہو کہ جدید سائنس کے دو پہلو ہیں۔ ایک نظریاتی سائنس (theoretical science) اور دوسرے، ٹکنکل سائنس (technical science)۔ نظریاتی سائنس، جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے حقائقِ کون یا حقائقِ کائنات کو دریافت کررہی ہے۔ اِس کے مقابلے میں ،ٹکنکل سائنس اس کے عملی پہلو کا نام ہے۔ ٹکنکل سائنس کے ذریعے جدید مشینی تہذیب وجود میںآئی ہے۔ اِس مقالے میں ہماری بحث ٹکنکل سائنس سے نہیں ہے، بلکہ نظریاتی سائنس سے ہے۔ موجودہ زمانے میں نظریاتی سائنس کا ایک مشہور سائنس داں اسٹفن ہاکنگ(Stephen Hawking) ہے۔ اِس موضوع پر اسٹفن ہاکنگ کی کئی کتابیں چھپ کر شائع ہو چکی ہیں۔
یہ بات ایک حدیثِ رسول میںاِن الفاظ میں ملتی ہے: ما من الأنبیاء نبیّ إلا أعطی من الاٰیات ما مثلُہ اٰمن علیہ البشر۔ وإنّما کان الّذی أوتیتُہ وحیاً أوحاہ اللہ إلیَّ۔ فأرجوا أن أکون أکثرھم تابعاً یومَ القیامۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4981) نبیوں میں سے ہر نبی کو ایسی نشانیاں دی گئیں، جن کو اُس زمانے کے لوگ مانتے تھے۔ اور مجھ کو وحی (قرآن) کا معجزہ دیاگیا۔ اِس لیے میںامید کرتاہوں کہ قیامت میں مجھ پر ایمان لانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میںعلم انسانی کا ارتقا بہت کم ہوا تھا، اِس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ خود علمِ انسانی کے مسلّمات کے حوالے سے دینِ حق کی صداقت کو مدلل کیا جائے۔ اِس لیے قدیم زمانے میں پیغمبروں کے ذریعے خارقِ عادت معجزات دکھائے گئے۔ یہ معجزات معاصر انسان کے مانوس دائرے کے اعتبار سے ہوتے تھے۔ مگر قرآن کے بعد دنیا میں جوانقلاب آیا، اس کے بعد بتدریج ایسا ہوا کہ علمِ انسانی میں غیر معمولی ترقی ہوئی۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ خود علمِ انسانی کے مسلّمات کی سطح پر دین ِ حق کو مدلل کرکے پیش کیا جاسکے۔
دونوں دور میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ معجزہ معاصر انسان کو اپنے عجز کا تجربہ کراتا تھا، لیکن اُس میں یہ پہلو شامل نہ تھا کہ مدعو کو خود اپنے مسلّمات کی سطح پر دینِ حق کی دلیل نظر آنے لگے۔ بعد کے زمانے میں جب علمی مسلمات کی سطح پر استدلال ممکن ہوگیا تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ اِس قسم کا استدلال مقابلۃً ایک عمومی اور عالمی استدلال بن جائے گا۔ اِس طرح یہ ممکن ہوجائے گا کہ بعد کے زمانے میں ہر انسانی گروہ پیغامِ نبوت کی اہمیت کو سمجھے اور خود اپنے مسلّمات کی روشنی میں اُس پر یقین کرسکے۔ اِس کا ایک فائدہ فطری طور پر یہ ہوگا کہ بعد کے زمانے میں اِس پیغام کو ماننے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان بھی زیادہ بڑھ جائے گا۔
قدیم معجزاتی دلیل اور جدید سائنسی دلیل دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں ہی استنباط (inference) کی سطح پر دینی عقائد کی دلیل فراہم کرتے ہیں۔ قدیم زمانے میں جب ایک پیغمبر حسّی معجزہ دکھاتا تھا تو ایسانہیں ہوتا تھا کہ معجزہ ایک آئینہ ہو، جس میں پیغمبر کا اصل دعویٰ مشاہداتی طورپر نظر آنے لگے۔ جو کچھ ہوتا تھا، وہ یہ کہ معجزہ دیکھ کر مدعو یہ استنباط کرسکتا تھا کہ جب یہ شخص ایک ایسا واقعہ کررہا ہے جس پر دوسرے انسان قادر نہیں، تو ضرور اِس شخص کو خدا کی نصرت حاصل ہے۔
یہی معاملہ سائنسی دلیل کا بھی ہے۔ سائنسی دلیل میں ایسا نہیں ہوتا کہ پیش کردہ دلیل براہِ راست معنوں میںاصل دعوے کا مظاہراتی ثبوت بن جائے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ پیش کردہ دلیل بالواسطہ معنوں میں یہ موقع دیتی ہے کہ استنباطی طورپر وہ اصل دعوے کو قابلِ فہم اور قابلِ یقین بنا دے۔ تاہم جدید سائنسی دلیل میں ایک مزید پہلو موجود ہے، جس کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ پیش کردہ دلیل بالواسطہ معنوں میں یہ موقع دیتی ہے کہ استنباطی طور پر وہ اصل دعوے کو قابلِ فہم اور قابلِ یقین بنادے۔تاہم جدید سائنسی دلیل میں ایک مزید پہلوموجود ہے، جس کی بنا پر اس کو آرگومینٹ پلس (argument plus) کہا جاسکتا ہے، وہ یہ کہ جدید سائنسی دلیل خود مدعو کے عقلی مسلّمہ (rational axiom) کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔
یہ فرق اُس جدید علم کی بنا پر پیدا ہوا ہے، جس کو نیوکلیرسائنس کہاجاتا ہے۔ قدیم فزیکل سائنس، عالمِ کبیر (macro world) کی سطح پر مبنی تھی۔ مگر بیسویں صدی میں اس کے اندر ترقی ہوئی، اور ایک نئی سائنس وجود میں آئی جس کو نیوکلیر سائنس کہاجاتا ہے۔ نیوکلیر سائنس کے تحت، انسان اِس قابل ہوگیا کہ وہ عالمِ صغیر (micro world) تک رسائی حاصل کرسکے، جب کہ اِس سے پہلے وہ صرف عالمِ کبیر تک محدود تھا- اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر حقیقی چیز اپنا ایک مادّی جسم رکھتی ہے جس کو ناپا اور تولا جاسکے، لیکن عالمِ صغیر کی دریافت نے یہ صورتِ حال بدل دی۔ اب یہ معلوم ہوا کہ چیزیں اپنے آخری تجزیے میںاتنا زیادہ ’’صغیر‘‘ ہوجاتی ہیں کہ اُن کو صرف امکانی لہروں(waves of probability) کا نام دیا جاسکتا ہے۔
عالمِ صغیر کے بارے میں اِس نئی دریافت نے علم میں جو انقلاب پیدا کیا، اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ علمی استدلال کا معیار بدل گیا۔ اب یہ معلوم ہوا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول استدلال ہے، جتنا کہ غیر استنباطی استدلال یا براہِ راست استدلال ۔ کیوں کہ علم کا دریا اب جس مقام پر پہنچا تھا، وہاں براہِ راست استدلال کا طریقہ قابلِ عمل ہی نہ رہا۔ اب لازم ہوگیا کہ استنباطی استدلال کو بھی معقول استدلال کا درجہ دیا جائے، تاکہ نئے دریافت کردہ عالمِ صغیر کے قوانین کو مرتب کیا جاسکے۔
علمِ انسانی میں اِس ارتقا کے بعد یہ ممکن ہوگیا ہے کہ مذہبی عقائد کو عین اُسی سطح پر ثابت شدہ بنایا جاسکے، جس سطح پر مادّی دنیا کی چیزوں کو ثابت شدہ بنایا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ —— دنیا میں ڈزائن کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ یہاں ایک ڈزائنر موجود ہے، اپنی نوعیت کے اعتبار سے ویسا ہی ایک معقول استدلال ہے، جیسا کہ مادّی دنیا کے بارے میں سائنسی استدلالات ۔
چند مثالیں
یہاں ہم اِس نوعیت کی چند مثالیں درج کریں گے۔ اِن مثالوں سے اندازہ ہوگا کہ کس طرح جدید سائنس، قدیم طرز کے معجزات کا بدل فراہم کررہی ہے۔ کس طرح اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ دینی حقائق، جو پچھلے زمانے میں خارقِ عادت معجزات کی سطح پر پیغمبر کے معاصرین کے سامنے پیش کیے جاتے تھے، اُن کو اب خود علمِ انسانی کے معروف مسلّمات کی بنیاد پر پیش کیاجاسکے۔ گویا کہ اب جدید علمِ کلام نے قدیم معجزے کی جگہ لے لی ہے۔ آج کے ایک داعی کو اپنی دعوت کے حق میں معجزہ دکھانا نہیں ہے، بلکہ اُس کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ وقت کے علمی مسلّمات کی روشنی میں اپنی دعوت کو مدلل کرے۔ وہ جدید ذہن کو خود اُس معیار پر ایڈریس کرسکے جس کا اعتراف وہ پہلے سے کیے ہوئے ہے۔
1 - مذہب کے اعتبار سے سب سے پہلا مسئلہ وجودِ خداوندی کے اِثبات کا ہے۔ اِس معاملے میں علمِ انسانی میں ایک نیا ارتقائی واقعہ وجود میں آیا ہے۔ پہلے، خدا کو صرف عقیدے کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ اب وہ انسانی سائنس کے دائرے کی چیز بن چکا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ جدید سائنس نے خدا کے وجودکو ایک سائنسی دلیل کی حیثیت دے دی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، سائنس کے مطالعے کا موضوع خدایا خالق کا وجود نہیں ہے۔ سائنس کاموضوع نیچر یا تخلیق (creation) کا مطالعہ ہے۔ سائنسی مطالعے کے ابتدائی دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام چیزیں معلوم اسباب کے تحت وجود میں آتی ہیں، اِس لیے کسی مسبّب کو مطالعے کا موضوع بنانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بعد کے سائنسی مطالعے نے اِس نظریے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔سائنس کے تفصیلی مطالعے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ نیچر یا کائنات میں ہر وقت ان گنت واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ہر واقعے میں نیچر کے سامنے بے شمار انتخابات (options) ہوتے ہیں، لیکن نیچر ہر موقع پر اُسی انتخابات کو لیتی ہے جو سب سے زیادہ بامعنٰی ہو۔
اِس مطالعے نے سائنس دانوں کو یہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ اِس کائنات کے پیچھے ایک ذہین دماغ (intelligent mind) یا ریاضیاتی دماغ(mathematical mind) ہے۔ نیچر کے پیچھے ایک برتر ذہانت کی موجودگی کو مانے بغیر اس کی توجیہہ ممکن نہیں۔ اِس معاملے کو ایک سائنس داں نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— کائنات کا مادّہ ایک ذہین مادّہ ہے:
The stuff of the world is mind-stuff.
2 - قدیم زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ خدا کو ماننے کی صورت میں اُس کو ابدی ماننا پڑتا ہے، جب کہ ہمیں اس کا براہِ راست کوئی علم نہیں۔ مگر کائنات ہمارے لیے ایک معلوم اور مشہود چیز کی حیثیت رکھتی ہے، پھرخدا کو ابدی ماننے کے بجائے کیوں نہ خود کائنات کو ابدی مان لیاجائے۔ لیکن بگ بینگ (Big Bang) کی دریافت کے بعد اِس قسم کے عقیدے کو ماننا ناممکن ہوگیا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، 2006 کا فزکس نوبل پرائز دو امریکی پروفیسروں کو مشترک طورپر دیاگیا۔ یہ دونوں پروفیسر بگ بینگ کے سائنسی نظریے پر کام کررہے تھے اور اُس پر انھوں نے ایک کتاب چھاپی تھی۔ دونوں پروفیسروں کے نام یہ ہیں:
John C. Mather (60), George F. Smoot ( 61 )
امریکا کے ادارہ ناسا نے 1989میں ایک راکٹ بیرونی خلامیں بھیجا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ بگ بینگ دھماکے سے نکلنے والے ریڈی ایشن (Cosmic Background Radiation) کا مطالعہ کرے اور اس کا فوٹو لے کر زمین پر بھیجے۔ اس راکٹ کا نام یہ تھا:
Cosmic Background Explorer
اِس تحقیق کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ کرنے سے بگ بینگ کے نظریے پر مزید روشنی پڑی ہے۔ اُس نے اِس نظریے کو اسٹرانگ سپورٹ(strong support) دی ہے، اور کائنات کی عمر کا حتمی تعیّن کردیا ہے۔ اِس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بگ بینگ کا واقعہ 13 بلین سال پہلے ہوا۔ رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں:
It helped pinpoint the age of the universe, and supported the Big Bang theory of its birth (The Times of India, October 4, 2006, p. 17 ).
بگ بینگ کا نظریہ ابتدائی طورپر بیسویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں دریافت ہوا۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ کائنات کا آغاز ایک عظیم انفجار (explosion) سے ہوا۔ اس کے بعد اِس نظریے پر کام ہوتا رہا، یہاں تک کہ اب یہ نظریہ ایک ثابت شدہ واقعہ بن چکا ہے۔
بگ بینگ کا نظریہ، علم العقائد یا تھیالوجی کے اعتبار سے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اِس سے خالص انسانی علم کی سطح پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وقتِ خاص پر پیدا ہوئی۔ اس کی یہ پیدائش ایک بہت بڑے دھماکے کے ذریعے ہوئی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طورپر نہیںہوسکتا۔ اس کو وقوع میں لانے کے لیے ایک خارجی عامل (external factor) درکار ہے۔ اس طرح بگ بینگ کا واقعہ اِس نظریے کے حق میں ایک مضبوط منطقی سپورٹ بن گیا ہے کہ اِس کائنات کو ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا۔ بِگ بینگ کا واقعہ معلوم ہونے کے بعد اس کی کوئی دوسری نظریاتی توجیہہ ممکن نہیں۔
3 - کائنات کی ترکیب اِس طرح ہوئی ہے کہ یہاں ہر صداقت (truth) کا مادّی مظاہرہ (physical demonstration) پایا جاتا ہے۔ اِس طرح ایک غور کرنے والے انسان کے لیے تمام غیر مرئی صداقتیں (invisible truths) مرئی سطح (visible level) پر قابلِ فہم بن جاتی ہیں۔ اِس قسم کی مثالوں میں سے ایک مثال وہ ہے جس کو موجودہ زمانے کی فلکیاتی اصطلاح میں بلیک ہول (Black Hole) کہاجاتا ہے۔ بلیک ہول کا نظریہ تقدیر اور تدبیر، یا انسانی آزادی اور خدائی جبر کے درمیان نازک تعلق کو قابلِ فہم بنا رہا ہے۔
فلکیات (astronomy) کے جرمن عالم کارل(Karl Schwarzschild) نے 1907 میں اپنے قیاس کے تحت یہ پیشین گوئی کی کہ خلامیںایسے بڑے بڑے ستارے ہوسکتے ہیں جن کی قوتِ کشش اتنی زیادہ ہو کہ وہ اپنی روشنی کو بھی روکے ہوئے ہوں اور ان کی روشنی باہر نہ آسکتی ہو۔ چوں کہ انسان کسی چیز کو صرف روشنی کی مدد سے دیکھ سکتا ہے، اِس لیے یہ عظیم ستارے خلا میں موجود ہونے کے باوجود انسان کے لیے ناقابلِ مشاہدہ ہیں۔ اِس نظریے پر تحقیق جاری رہی، یہاں تک کہ فلکیات دانوں نے ایسے ستاروں کی امکانی موجودگی پر اتفاق کرلیا، اور ایسے ستاروں کا نام ’بلیک ہول‘ رکھا گیا۔
الٰہیات کے میدان میں قدیم زمانے سے یہ بحث جاری ہے کہ اِس دنیا میں انسان آزاد ہے، یا مجبور۔ بظاہر انسان اِس دنیامیں اپنے آپ کو آزاد پاتا ہے، لیکن جب خدا قادرِ مطلق ہے تو یہ بات ناقابلِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ خدا کی قدرتِ کاملہ کے درمیان انسان کو خود مختاری حاصل ہو۔ اِس تصور پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ اردو شاعر میر تقی میر (وفات: 1810 ) نے اِسی بات کو اِس طرح نظم کیا ہے:
ناحق ہم مجبوروں پر، یہ تہمت ہے مختاری کی چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
مگر یہ اعتراض ایک غیر منطقی اعتراض ہے۔ کیوں کہ خدا کو اگر ہر قسم کا اختیار حاصل ہے تو اُس کو یقیناً یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی مقام پراپنی قدرت کو محدود کرلے۔ وہ کامل اختیار رکھتے ہوئے عارضی مصلحت کی بنا پر اپنے اختیار کو وقتی طورپر روک لے۔ یہ قیاس بظاہر ایک نظری قیاس ہے، لیکن بلیک ہول کی دریافت نے اِس قیاس کے لیے مظاہراتی سطح پر ایک عملی تصدیق فراہم کردی۔ بلیک ہول کا نظریہ اِس قیاس کو قابل فہم بنا رہا ہے۔
ایمسٹرڈم (نیدر لینڈس) میں ماہرین ِ طبیعیات (physicists) کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اِس موقع پر فزکس کا نوبل پرائز پانے والے ایک سائنس داں مسٹر جیمس واٹسن (James Watson Cronin) نے اپنے مقالے میں بتایا کہ ہماری کائنات کا 96 فی صد حصہ سیاہ مادّہ (dark matter) پر مشتمل ہے۔ اُس کی روشنی یا ریڈی ایشن ہم تک نہیں پہنچتا، اِس لیے ہم اُس کو براہِ راست طورپر دیکھ نہیں پاتے:
Dark matter can not be detected directly, because it does not emit or reflect light or radiation.
جیمس واٹسن نے مزید کہا کہ — ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کائنات کو جانتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر چیز کے صرف 4 فی صد حصے کو جان سکتے ہیں:
We think we understand the universe, but we only understand four percent of everything. (The Times of India, September 23, 2007, p. 20)
4 - قرآن خدا کی طرف سے آئی ہوئی ایک محفوظ کتاب ہے۔ قرآن کے آغاز ہی میں یہ آیت شامل ہے: ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ( 2:2 ) یعنی یہ خدا کی کتاب ہے۔ اِس میںکوئی شک نہیں۔ اِس کے ساتھ قرآن کا یہ اعلان تھا کہ وہ ابدی طورپر سارے انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت ہے۔ وہ کسی زمانے یا کسی مقام کے لیے نہیں ہے، بلکہ ہر دور اور ہر انسانی گروہ کے لیے ہے۔
قرآن کے اِس دعوے کی صداقت کے لیے ضروری تھا کہ بعد کے زمانے کے حالات اس کی تصدیق کرتے رہیں۔ بعد کے زمانے میں ایساکوئی واقعہ پیش نہ آئے جو اِس بیان کی تردید کرنے والا ہو۔ قرآن کا یہ بیان حیرت انگیز طورپر اِس معیار پر پورا اترا ہے۔ راقم الحروف نے اِس موضوع سے متعلق اس کے مختلف پہلوؤں پر کئی مضامین اور کتابیں تیار کی ہیں۔ مثلاً تاریخی پہلو، نفسیاتی پہلو، حیاتیاتی پہلو اور سائنسی پہلو، وغیرہ۔ یہاں اِس سلسلے میںصرف ایک مثال نقل کی جاتی ہے۔
قرآن کی سورہ یونس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پندرھویں صدی قبل مسیح میں خدا نے مصر کے فرعون (Ramesses II) کو سمندر میں غرق کیا۔ کیوں کہ اُس نے خدا کے پیغمبر موسیٰ کا انکار کیا تھا۔ اُس وقت خدا نے کہا تھا کہ — آج ہم تمھارے جسم کو محفوظ کردیں گے، تاکہ وہ تمھارے بعد آنے والوں کے لیے ایک نشانی بنے: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَۃً ( 10: 52 )۔
ساتویں صدی کے رُبع اوّل میں جب قرآن میں یہ آیت اُتری تو اِس واقعے پر دو ہزار سال سے زیادہ مدت گزر چکی تھی۔ اُس زمانے میں نہ پرنٹنگ پریس تھا اور نہ کمیونکیشن، اور نہ معلوم تاریخ میں اِس کا کوئی ریکارڈ موجود تھا۔ چناںچہ تمام لوگ اِس واقعے کو بھول چکے تھے۔ اُس زمانے میں کوئی بھی شخص نہ اِس واقعے کو جانتا تھا اور نہ اُس کو یہ خبر تھی کہ کبھی فرعون کا جسم ظاہر ہو کر قرآن کی اِس آیت کی تصدیق کرنے والا ہے۔اِس آیت کے نزول کے ہزار سال بعد انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں سائنس نے ایسے طریقے دریافت کیے، جن کے ذریعے قدیم اَجسام کی تاریخ ٹھیک ٹھیک طور پر معلوم کی جاسکے۔ مزید یہ کہ سائنس کی ترقی نے لوگوں کے اندر بہت بڑے پیمانے پر تجسس کا ذہن پیداکیا۔ لوگ ہر میدان میںنئی نئی چیزیں دریافت کرنے کے لیے عالمی سطح پر سرگرم ہوگئے۔
اِسی دوران مغربی یورپ کے کچھ اسکالر مصر پہنچے۔ انھوںنے قاہرہ کے قریب واقع اَہرام کی تحقیق شروع کی۔ طویل کوشش کے بعد انھوںنے دریافت کیا کہ اہرام کے اندر مصر کے قدیم بادشاہوں کے مردہ اجسام مومیائی حالت میں موجود ہیں۔ چناں چہ خصوصی اہتمام کے ساتھ اِن اجسام کو نکالا گیا۔ اِس کے بعد ان اجسام کی جانچ شروع ہوئی۔ سائنس کے جدید طریقوں کے مطابق، ان کی عمر کا تعیّن کیاگیا۔ اِس تحقیق کے دوران حیرت انگیز طورپر معلوم ہوا کہ مصر کے قدیم بادشاہ فرعون کی لاش ایک اہرام میںموجود تھی۔ سائنسی ٹکنیک کے ذریعے جب اس کی عمر کا پتہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت موسیٰ کا ہم زمانہ شاہِ مصر فرعون کا جسم ہے، جس کی بابت قرآن میں 14 سو سال پہلے اعلان کیاگیا تھا کہ وہ محفوظ حالت میں موجود ہے، اور مستقبل میں وہ انسان کے علم میںآجائےگا۔
اِس حقیقت کاعلم اِس سے پہلے کسی بھی انسان کو حاصل نہ تھا۔ قرآن میںاِس کا صراحتاً ذکر ہونا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن اُس خدا کی کتاب ہے جو ساری باتوںکو جانتا ہے(عالم الغیب والشہادة)۔ اس نے اپنے علم کے تحت قرآن میںیہ آیت اُتاری۔ اِس واقعے میں واضح طورپر جدید سائنس، قرآن کے کتابِ الٰہی ہونے کی تصدیق بن گئی۔
فرانس کے ڈاکٹر موریس بکائی (وفات:1998 ) نے 1975 میں اپنے ساتھیوں کے ہم راہ مصر کا سفر کیا، اور قاہرہ کے میوزیم میںجاکر وہاں براہِ راست طورپر اِس محفوظ جسم کا مشاہدہ کیا۔ اِس واقعے پر پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد انھوںنے اپنی کتاب میںنہایت حیرت کے ساتھ یہ الفاظ درج کیے ہیں— وہ لوگ جو مقدس کتابوں کی سچائی کے لیے جدید ثبوت چاہتے ہیں، وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میںشاہی ممیوں (Mummies)کے کمرے کو دیکھیں۔ وہاں وہ قرآن کی اُن آیتوں کی شان دار تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے بحث کرتی ہیں:
Those who seek among modern data for proof of the veracity of the Holy Scriptures, will find a magnificent illustration of verses of the Quran dealing with the Pharaoh’s body by visiting the Royal Mummies Room of the Egyptian Museum, Cairo!
5 - دین کے عقائد میںسے ایک بنیادی عقیدہ رسالت کا عقیدہ ہے، یعنی یہ عقیدہ کہ انسان کی رہنمائی کے لیے خدا کی طرف سے ہر زمانے میں پیغمبر آئے۔ اِس سلسلے کے آخری پیغمبر محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ رسالت کے عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے رہنما اصول خود اپنی عقل سے دریافت نہیں کرسکتا۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اِس معاملے میں خدا کے پیغمبروں پر یقین کرے اور اُن سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کرے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف خدا کے آخری پیغمبر ہیں، بلکہ آپ پر جوخدا کی ہدایت آئی، وہ اپنی کامل شکل میں اور اپنی اصل حالت میں پوری طرح محفوظ ہے۔ پیغمبر اسلام پر جو پہلی وحی اتری تھی، وہ سورہ العلق کی صورت میں قرآن میں موجود ہے۔ اِس ابتدائی وحی میں اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ: اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ( 96:3-5 ) یعنی پڑھ، اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے۔ انسان کو اُس چیز کا علم دیا جس کا علم اُس کو نہ تھا۔
اِس آیت میں گویا کہ اِس بات کا اعلان ہے کہ انسان خود سے اپنی رہنمائی وضع نہیں کرسکتا۔ دنیوی زندگی کے شعبے مثلاً زراعت، باغ بانی اور انجینئرنگ، وغیرہ کے معاملے میںوہ اپنے تجربات کے ذریعے کچھ علم حاصل کرسکتا ہے، جوانسان کی موجودہ زندگی کی ضرورتوں سے متعلق ہیں۔ لیکن انسان کی ابدی رہنمائی کے لیے جو برتر علم درکار ہے، اُس کو انسان خود سے حاصل نہیں کرسکتا۔ زندگی کے اِس برتر شعبے میں اُس کے لئے پیغمبرانہ رہنمائی سے مدد لینا ضروری ہے۔
قدیم زمانے میں جو بڑے بڑے فلسفی پیدا ہوئے، اُن سب کا موضوع یہی تھا کہ انسانی زندگی کے لیے رہنمایانہ اصول دریافت کیے جائیں، لیکن کئی ہزار سال تک بڑے بڑے دماغوں کی کوششوں کے باوجود فلسفہ اِس قسم کی کسی رہنمائی کو دریافت نہ کرسکا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسفیانہ کاوشوں نے انسان کو جو چیز دی، وہ صرف کنفیوژن (confusion) تھا، نہ کہ کوئی یقینی رہنمائی۔
کارل مارکس (وفات: 1883) نے فلسفے کی ناکامی پر ایک کتاب لکھی جس کا نام یہ تھا— فلسفے کا افلاس (Poverty of Philosophy) ۔ یہ کتاب کارل مارکس نے اپنے مخصوص نقطۂ نظر کے اعتبار سے لکھی تھی، لیکن عمومی اعتبار سے بھی یہ درست ہے کہ فلسفیانہ غور وفکر، جو تمام تر عقل کی بنیاد پر ہوتا ہے، وہ انسان کو رہنمائی کے ابدی اصول دینے کے معاملے میں پوری طرح ناکام ہے۔ فلسفیانہ شعبے کی یہی ناکامی تھی جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ موجودہ سائنس کے ظہور کے بعد فلسفے کا دَور ختم ہوگیا۔ اب فلسفے کی حیثیت زیادہ تر ایک تاریخی شعبے کی ہے، نہ کہ زندہ شعبۂ علم کی۔
یہی معاملہ باطنیّت (mysticism) کے ساتھ پیش آیا۔ باطنی نقطہ نظر کے حاملین کا خیال تھا کہ وہ باطنیّت کے تجربے کے ذریعے سچائی کو دریافت کرسکتے ہیں، مگر ایسا نہ ہوسکا-
باطنیت کیا ہے، اس کی تعریف اِس طرح کی جاتی ہے:
Mysticism: The doctrine that it is possible to attain the higher truth through contemplation and love without the medium of human reason, or without any other external source.
مسٹی سزم کی تاریخ کئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ بے شمار لوگوں نے مسٹی سزم کے ذریعے سچائی کو پانا چاہا، لیکن لمبے تجربے کے بعد معلوم ہواکہ مسٹی سزم کے ذریعے آخری چیز جو انسان کو ملتی ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ وَجد(ecstasy) ہے۔ مگر سچائی کے معاملے میں وَجد کی کوئی حقیقت نہیں۔ انسان کے وجود میں سب سے بڑی چیز شعور یا ذہن ہے۔ اِس لیے سچائی کو پانے والا وہی شخص ہے جو ذہن یا شعور کی سطح پر سچائی کو پائے، نہ کہ وجد کی سطح پر۔ وجد دراصل بے شعور ی کی ایک حالت ہے جس کوبے خودی کے خوب صورت لفظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ سچائی دراصل شعور کی سطح پر حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کا نام ہے۔
شعور کی سطح پر حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کی ایک مادّی مثال بجلی کے بلب اور پا ور ہاؤس میں ملتی ہے۔ بلب ابتدائی حالت میں ایک بے نور شے ہے۔ اس کے اندر نہ خود روشنی ہے اور نہ وہ دوسروں کو روشنی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن جب پاور ہاؤس سے اس کا کنکشن قائم ہو جاتا ہے تو اچانک وہ ایک روشن وجود بن جاتا ہے۔ اب وہ خود بھی روشن ہوتا ہے اور دوسروں کو روشنی دینے کی صلاحیت کا مالک بن جاتا ہے۔سچائی کو پانے کا معیار کیا ہے، وہ اِس مادّی واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ سچّائی کو پانا شعوری معنوں میں ایک روشنی کو پانا ہے۔ مسٹی سزم اِس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ مسٹی سزم سے آدمی کو جو چیز ملتی ہے، وہ صرف بے شعوری ہے، نہ کہ شعور۔ اور انسان جیسی باشعور ہستی کے لیے بے شعوری کبھی حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کے ہم معنٰی نہیں بن سکتی۔اِس معاملے میں آخری چیز جس کا نام لیا جاسکتا ہے، وہ سائنس ہے۔ جدید سائنس نے بلا شبہہ انسان کو بہت سی چیزیں دی ہیں۔ مثلاً ٹیلی کمیونکیشن اور کنزیومرگڈس (consumer goods)، وغیرہ۔ مگر جہاں تک سچائی کا معاملہ ہے، سائنس نے خود ہی یہ اعلان کردیا ہے کہ سچائی کی دریافت اس کا میدانِ عمل نہیں۔
ایک مغربی اسکالر نے درست طورپر لکھا ہے کہ علم کا میدان بہت وسیع ہے۔ علم کی دوقسمیں ہیں۔ چیزوں کا علم (knowledge of things) ، اور سچائی کا علم (knowledge of truth)۔ اہلِ علم کے درمیان بلا اختلاف یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ سائنس کا دائرہ صرف چیزوں کے علم تک محدود ہے۔ سچائی کا علم سائنس کے دا ئرے سے مکمل طورپر باہر ہے۔ ایسی حالت میںیہ کہنا صحیح ہوگا کہ سائنس اِس مقابلے میں بطور امیدوار بھی شامل نہیں۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کا راستہ متعین کرنے کے لیے گہرے علم کی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو ڈاکٹر الیکسس کیرل نے اپنی کتاب انسانِ نامعلوم (Man the Unknown) میں بخوبی طورپر واضح کیا ہے۔ مگر اِسی کے ساتھ یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ انسان خود اپنی کوششوں سے اِس ناگزیر علم کو دریافت نہیں کرسکتا۔ ایک طرف، علم کا ناگُزیر ہونا اور د وسری طرف، انسان کا اس ناگزیرعلم کو دریافت کرنے کے لیے نا اہل ہونا، بتاتا ہے کہ اِس معاملے میںانسان کوایک خارجی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے پیغمبر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہہ پیغمبرہی وہ انسان ہے جو خدا کے نمائندے کی حیثیت سے ہمارا حقیقی رہنما ہے۔ ( 25 دسمبر 2007)
واپس اوپر جائیں