حضرت نوح کا پیغمبرانہ رول
حضرت نوح،حضرت آدم کے بعد آنے والے پیغمبر ہیں۔ وہ حضرت آدم کی دسویں پشت میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کی زندگی میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا۔ وہ عظیم طوفان (Great Flood) اور کشتی (Ark) کا واقعہ تھا۔ یہ خصوصی واقعہ اللہ کے منصوبے کے تحت ظاہر ہوا۔ یہ واقعہ قبل از تاریخ دور (pre-historical period) میں پیش آیا۔بظاہر اللہ کو یہ منظور تھا کہ حضرت نوح کا واقعہ بعد تاریخ دور (post-historic period) میں دریافت ہواور وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے لیے نشانی (sign) بنے، جس سے وہ اپنی زندگی میں سبق حاصل کریں۔
حضرت نوح کا واقعہ مدوّن تاریخ (recorded history) میں موجود نہیں۔ حضرت نوح کے واقعے کو جاننے کے صرف دو ماخذ ہیں — قرآن اور بائبل۔ یہاں دونوں متعلق حوالے نقل کئے جاتے ہیں۔ قرآن کی سورہ نمبر 71 کا نام ’نوح‘ ہے۔ اِس سورہ کا ترجمہ یہ ہے:
شروع اللہ کے نام سے جو بڑامہربان، نہایت رحم والاہے
’’ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کردو، اس سے پہلے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آجائے۔ اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوںیہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ تمھارے گناہوں سے درگزر کرے گا اور تم کو ایک متعین وقت تک باقی رکھے گا۔ بے شک جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ٹالا نہیں جاتا۔کاش ، تم اس کو جانتے۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا۔ مگر میری پکار نے ان کی دوری ہی میں اضافہ کیا۔ اور میں نے جب بھی ان کو بلایا کہ تو انھیں معاف کردے تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے اوپر اپنے کپڑے لپیٹ لیے اور ضد پر اَڑ گئے اور بڑا گھمنڈکیا۔پھر میں نے ان کو برملا پکارا۔ پھر میں نے ان کو کھلی تبلیغ کی اور ان کو چپکے سے سمجھایا۔ میں نے کہا کہ اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا، اور تمھارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا،اور تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا، اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا۔ تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے لیے عظمت کے متوقع نہیں ہو۔ حالاں کہ اس نے تم کو طرح طرح سے بنایا۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔ اور ان میں چاند کو نور اورسورج کو چراغ بنایا۔ اور اللہ نے تم کو زمین سے خاص اہتمام سے اگایا۔ پھروہ تم کو زمین میں واپس لے جائے گا۔اور پھر اس سے تم کو باہر لے آئے گا۔ اور اللہ نے تمھارے لیے زمین کو ہموار بنایا۔ تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب،انھوں نے میرا کہا نہ مانا اور ایسے آدمیوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے گھاٹے ہی میں اضافہ کیا، اور انھوں نے بڑی تدبیریں کیں۔ اور انھوں نے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا۔اور تم ہر گز نہ چھوڑنا وَدکو اور سُواع کو اور یَغوث کو اور نَسرکو۔ اور انھوں نے بہت لوگوں کو بہکادیا۔اور اب تو ان گمراہوں کی گمراہی میں ہی اضافہ کر۔اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کئے گئے، پھر وہ آگ میں داخل کردئے گئے۔پس انھوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔ اور نوح نے کہا کہ اے میرے رب، تو ان منکروںمیں سے کوئی زمین پربسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تونے ان کو چھوڑدیاتو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا، وہ بدکار اور سخت منکر ہی ہوگا۔ اے میرے رب، میری مغفرت فرما،اور میرے ماں باپ کی مغفرت فرمااور جو میرے گھر میں مومن ہوکر داخل ہو، تو اس کی مغفرت فرما۔اور سب مومن مردوں اور مومن عورتوں کو معاف فرمادے اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر‘‘۔( 71:1-27 )
قرآن کی سورہ ہودمیں حضرت نوح اور ان کے مشن کے بارے میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ قرآن کی اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ اب تمھاری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا، سوا اس کے جو ایمان لاچکا ہے۔ پس تم ان کاموں پر غمگین نہ ہو جو وہ کر رہے ہیں۔ اور ہمارے رو برو اور ہمارے حکم سے تم کشتی بنائو اور ظالموں کے حق میں مجھ سے بات نہ کرو، بے شک یہ لوگ غرق ہوں گے۔ اور نوح کشتی بنانے لگا۔ اور جب اس کی قوم کا کوئی سردار اس پر گزرتا تو وہ اس کی ہنسی اڑاتا، انھوں نے کہا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں۔ تم جلد جان لوگے کہ وہ کون ہیں جن پر وہ عذاب آتا ہے جو اس کو رسوا کردے اور اس پر وہ عذاب اترتا ہے جو دائمی ہے۔یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور طوفان ابل پڑا، ہم نے نوح سے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی، سوا ان اشخاص کے جن کی بابت پہلے کہا جاچکا ہے اور سب ایمان والوں کو بھی۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہوجائو، اللہ کے نام سے اس کا چلنا ہے اور اس کا ٹھہرنا بھی۔ بیشک میرا رب بخشنے والا، مہربان ہے۔ اور کشتی پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان ان کو لے کر چلنے لگی۔ اور نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا جو اس سے الگ تھا۔ اے میرے بیٹے، ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور منکروںکے ساتھ مت رہ۔اس نے کہا میں کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھ کو پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا کہ آج کوئی اللہ کے حکم سے بچانے والا نہیں، مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے۔ اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔ اور کہا گیا کہ اے زمین، اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان، تھم جا۔ اور پانی سکھادیا گیا۔ اور معاملہ کا فیصلہ ہوگیا اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ دور ہو ظالموں کی قوم۔اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اے میرے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میںسے ہے، اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے۔ اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔ خدا نے کہا اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں نہیں۔ اس کے کام خراب ہیں۔ پس مجھ سے اس چیز کے لئے سوال نہ کرو جس کا تمھیں علم نہیں۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ بنو۔ نوح نے کہا کہ اے میرے رب، میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اور اگر تو مجھے معاف نہ کرے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں برباد ہوجائوں گا۔کہا گیا کہ اے نوح، اترو، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر اور ان گروہوں پر جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور (ان سے ظہور میں آنے والے) گروہ کہ ہم ان کو فائدہ دیں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک درد ناک عذاب پکڑلے گا‘‘۔( 11: 36-48 )
حضرت نوح کا ذکر بائبل کی کتاب پیدایش (Genesis) میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ یہاں اس کا متعلق حصہ نقل کیا جاتاہے:
’’ نوح راست باز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خداکے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔نوح کے تین بیٹے تھے: سم، حام اور یافث۔اب زمین خدا کی نگاہ میں بگڑ چکی تھی اور ظلم وتشدد سے بھری ہوئی تھی۔خدا نے دیکھا کہ زمین بہت بگڑ چکی ہے، کیوں کہ زمین پر سب لوگوں نے اپنے طور طریقے بگاڑ لیے تھے۔چناںچہ خدا نے نوح سے کہا: میں سب لوگوں کا خاتمہ کرنے کوہوں، کیوںکہ زمین ان کی وجہ سے ظلم سے بھر گئی ہے۔ اس لیے میں یقینا نوع انسان اور زمین دونوں کو تباہ کرڈالوں گا۔ لہذا توگوپھر کی لکڑی کی ایک کشتی بنا۔ اُس میں کمرے بنانا اور اُسے اندر اور باہر سے رال سے پوت دینا۔تو ایسا کرنا کہ کشتی تین سو ہاتھ لمبی، پچاس ہاتھ چوڑی اور تیس ہاتھ اونچی ہو۔تو اس کی چھت سے لے کر ہاتھ بھر نیچے تک روشن دان بنانا۔ کشتی کے اندر تین درجے بنانا، نچلا، درمیانی اور بالائی، اور کشتی کا دروازہ کشتی کے پہلو میں رکھنا۔ دیکھ میں زمین پر پانی کا طوفان لانے والا ہوں، تاکہ آسمان کے نیچے کا ہر جان دار یعنی ہر وہ مخلوق جس میں زندگی کا دم ہے، ہلاک ہوجائے۔ سب جو روئے زمین پر ہیں، مرجائیں گے۔لیکن تیرے ساتھ میں اپنا عہد باندھوں گا اور تو کشتی میں داخل ہوگا۔ تو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔ اور تو تمام حیوانات میں سے دو دو کو جو نر اور مادہ ہوں، کشتی میں لے آنا، تاکہ وہ تیرے ساتھ زندہ بچیں۔ ہر قسم کے پرندوں، جانوروں اور زمین پر رینگنے والے جانداروں میں سے دو دو تیرے پاس آئیں تاکہ وہ بھی زندہ بچیںاور تو ہر طرح کی کھانے والی چیز لے کر اپنے پاس جمع کرلینا، تاکہ وہ تیرے اور اُن کے لیے خوراک کا کام دے۔نوح نے ہرکام ٹھیک اُسی طرح کیا جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا‘‘۔ (Genesis 6: 9-22)
’’تب خداوند نے نوح سے کہا: تو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کشتی میں چلا جا، کیوںکہ میں نے اس نسل میں تجھے ہی راستباز پایا ہے۔ تو تمام پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور مادہ اور ناپاک جانوروں میں سے دو دو نر اور مادہ ساتھ لے لینا اور ہر قسم کے پرندوں میں سے سات سات نر اور مادہ بھی لینا تاکہ ان کی نسلیں زمین پر باقی رہیں۔میں سات دن کے بعد زمین پر چالیس دن اور چالیس رات پانی برساؤں گا اور ہر اُس جان دار شے کو جسے میں نے بنایا ہے، مٹادوں گا۔ اور نوح نے وہ سب کیا جس کا خداوند نے اُسے حکم دیا تھا۔ نوح چھ سو برس کا تھا جب زمین پر پانی کا طوفان آیا۔ اور نوح اور اس کے بیٹے اور اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی بیویاں طوفان کے پانی سے بچنے کے لیے کشتی میں داخل ہوگئے۔ پاک اور ناپاک دونوں قسم کے جانوروں اور پرندوں اور زمین پر رینگنے والے جانوروں کے دو دو نر اور مادہ، خدا کے حکم کے مطابق، نوح کے پاس آئے اور کشتی میں داخل ہوئے۔ اور سات دن کے بعد طوفان کا پانی زمین پر آگیا۔جب نوح کی عمر کے چھ سوویں برس کے دوسرے مہینے کی سترھویں تاریخ تھی، اُس دن زمین کے نیچے سے سارے چشمے پھوٹ نکلے اور آسمان سے سیلاب کے دروازے کھل گئے۔ اور زمین پر چالیس دن اور چالیس رات لگاتار مینہ برستا رہا۔اُسی دن نوح اور اُس کی بیوی اپنے تین بیٹوں، سِم، حام اور یافت اور اُن کی بیویوں سمیت کشتی میں داخل ہوئے۔ اور ہر قسم کے چھوٹے بڑے جنگلی جانور ، مویشی، زمین پر رینگنے والے جانور، پرندے اور پروں والے جاندار اُن کے ساتھ تھے۔ یہ تمام جوڑے جن میں زندگی کا دم تھا، نوح کے پاس آئے اور کشتی میں داخل ہوگئے۔ خداکے نوح کو دیئے ہوئے حکم کے مطابق جو جان دار اندر آئے، وہ نر اور مادہ تھے۔ تب خداوند نے کشتی کا دروازہ بند کردیا۔چالیس دن تک زمین پر طوفان جاری رہا اور جوں جوں پانی چڑھتا گیا، کشتی زمین سے اوپر اٹھتی چلی گئی۔پانی زمین پر چڑھتا گیا اور بہت ہی بڑھ گیا اور کشتی پانی کی سطح پر تیرتی رہی۔ پانی زمین پر اس قدر چڑھ گیا کہ سارے آسمان کے نیچے کے تمام اونچے پہاڑ ڈوب گئے۔ پانی بڑھتے بڑھتے پہاڑوں سے بھی پندرہ ہاتھ اوپر چڑھ گیا۔ زمین پر ہر پرندہ، ہر جانور اور ہر انسان گویا ہر جاندار فنا ہوگیا۔ خشکی پر کی ہر شے جس کے نتھنوں میں زندگی کا دم تھا، مرگئی۔ روئے زمین پر کی ہر جاندار شے نابود ہوگئی، کیا انسان، کیا حیوان، کیا زمین پر رینگنے والے جاندار اور کیا ہوا میں اُڑنے والے پرندے، سب کے سب نابود ہوگئے۔ صرف نوح باقی بچا اور وہ جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھا۔اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک چڑھتا رہا‘‘۔ (Genesis 7: 1-24)
’’لیکن خدا نے نوح اور تمام جنگلی جانوروں اور مویشیوں کو جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے، یاد رکھا اور اُس نے زمین پر ہوا چلائی اور پانی رک گیا۔ اب سمندر کے چشمے اور آسمان کے سیلاب کے دروازے بند کردئے گئے اور آسمان سے مینہ برسنا تھم گیا اور پانی رفتہ رفتہ زمین پر سے ہٹتا گیا اور ایک سو پچاس دن کے بعد بہت کم ہوگیا اور ساتویں مہینہ کے سترھویں دن کشتی اراراط کے پہاڑوں میں ایک چوٹی پر ٹک گئی۔ دسویں مہینہ تک پانی گھٹتا رہا اور دسویں مہینہ کے پہلے دن پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آنے لگیں۔چالیس دن کے بعد نوح نے کشتی کی کھڑکی کھول کر ایک کوّے کو باہر اُڑا دیا جو زمین پر کے پانی کے سوکھ جانے تک ادھر اُدھر اُڑتا رہا۔ تب اُس نے ایک فاختہ کو اڑا دیا، تاکہ یہ دیکھے کہ زمین پر سے پانی ہٹا ہے یا نہیں۔ لیکن اُس فاختہ کو اپنے پنجے ٹیکنے کو جگہ نہ مل سکی، کیوں کہ ابھی تمام روئے زمین پر پانی موجود تھا۔ چناں چہ وہ نوح کے پاس کشتی میں لوٹ آئی۔ تب اُس نے اپناہاتھ بڑھا کر اُسے تھام لیا اور کشتی کے اندر لے لیا۔ مزید سات دن انتظار کرنے کے بعد اُس نے پھر سے اُس فاختہ کو کشتی سے باہر بھیجا۔ شام کو جب وہ اُس کے پاس لوٹی تو اُس کی چونچ میں زیتون کی ایک تازہ پتی تھی- تب نوح جان گیا کہ پانی زمین پر کم ہوگیاہے۔ وہ سات دن اور رُکا اور فاختہ کو ایک بار پھر اُڑایا، لیکن اب کی بار وہ اُس کے پاس لوٹ کر نہ آئی۔ نوح کی عمر کے چھ سو برس کے پہلے مہینہ کے پہلے دن تک زمین پر موجود پانی سوکھ گیا۔ تب نوح نے کشتی کی چھت کھولی اور دیکھا کہ زمین کی سطح خشک ہوچکی ہے اور دوسرے مہینہ کے ستائیسویں دن تک زمین بالکل سوکھ گئی۔تب خدا نے نوح سے کہا: اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں اور اُن کی بیویوں سمیت کشتی سے باہر نکل آ- اور تمام جانور اور زمین پر رینگنے والے سبھی جاندار، سب پرندے اور ہر وہ شے جو زمین پر چلتی پھرتی ہے، اپنی اپنی جنس کے مطابق کشتی سے باہر نکل آئے۔تب نوح نے خداوند کے لیے ایک مذبح بنایا اور سب چرندوں اور پرندوں میں سے جن کا کھانا جائز تھا، چند کو لے کر اُس مذبح پر سو ختنی قربانیاں چڑھائیں۔ جب اُن کی فرحت بخش خوشبو خداوند تک پہنچی تو خداوند نے دل ہی دل میں کہا: میں انسان کے سبب سے پھر کبھی زمین پر لعنت نہ بھیجوں گا حالاںکہ اُس کے دل کا ہر خیال بچپن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور آئندہ کبھی تمام جانداروں کو ہلاک نہ کروں گا، جیسا میں نے کیا۔جب تک زمین قائم ہے تب تک بیج بونے اور فصل کاٹنے کے اوقات، خشکی اور حرارت، گرمی اور سردی،اور دن اور رات کبھی موقوف نہ ہوں گے‘‘۔ (Genesis, 8: 1-22 )
تبصرہ
حضرت نوح کا جو مشن تھا، وہی تمام پیغمبروں کا مشن تھا۔حضرت آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے پیغمبر دنیا میں آئے، اُن سب کا واحد مشن یہ تھا کہ وہ انسان کو اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے آگاہ کریں۔ وہ ان کو یہ بتائیں کہ موجودہ دنیا ایک دار الامتحان (testing ground) ہے- یہاں انسان کو آزادی دے کر یہ امتحان لیا جارہا ہے کہ کون شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور وہ کون شخص ہے جو اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے- یہ معاملہ ایک متعین وقت (appointed time) تک کے لیے ہے- اس کے بعدقیامت آئے گی اور قرآن کے الفاظ میں، موجودہ دنیا کو بدل کر ایک اور دنیا (13:48)بنائی جائے گی، جہاں امتحان میں کامیاب ہونے والے ابدی جنت میں جگہ پائیں گے اور امتحان میں ناکام ہونے والوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا-
حضرت نوح نے اپنی قوم کو لمبی مدت تک ہر طرح سمجھایا- اس کے بعد یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نےآپ کی بات مانی اور زیادہ لوگوں نے آپ کی بات کو ماننے سے انکار کردیا- اس کے بعد وہ وقت آیا جب کہ یہ ظاہر ہوگیا کہ اب مزید کوئی ماننے والا نہیں ہے، بلکہ معاشرہ اتنا زیادہ بگڑ چکا ہے کہ اس میں جو شخص پیداہوگا، وہ صرف غیر صالح بن کر اٹھے گا-
اُس وقت حضرت نوح نے اللہ کے حکم کے مطابق، دعا کی اور پھر وہ واقعہ پیش آیا جس کو طوفانِ نوح کہا جاتا ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی۔ حضرت نوح اورر ان کے ماننے والے لوگ اِس کشتی میں سوار ہوئے اور بقیہ تمام لوگ طوفان میں غرق کر دئے گئے۔ صالح لوگوں کو بچا کر ابدی جنت کا مستحق قرار دیاگیا اور غیر صالح لوگ ہلاک ہو کر ابدی جہنم کے مستحق بن گئے۔
طوفانِ نوح کے اِس معاملے کی حیثیت ایک تاریخی مثال کی تھی۔ اللہ نے حضرت نوح کے واقعے کی صورت میں یہ مثال قائم کردی کہ آخری زمانے میں جب انسانی تاریخ کے خاتمے کا وقت ہوگا، اُس وقت دوبارہ اسی طرح کاایک اور زیادہ بڑا زلزلہ خیز طوفان آئے گا جس کو قرآن میں قیامت کا نام دیاگیا ہے۔ قیامت کے بعد خدائی منصوبے کے مطابق، حیاتِ انسانی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ یہ آخرت کا دور ہوگا جو کہ کامل بھی ہوگا اور ابدی بھی۔
حضرت آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اللہ نے حضرت آدم کو جو شریعت دی تھی، اُن کی بعد کی نسلیں اُس شریعت پر باقی رہیں، مگر دھیرے دھیرے ان کے اندر زوال آیا۔ یہ زوال شخصیت پرستی (personality cult) کی صورت میں پیدا ہوا۔
ابتداء ً یہ ہوا کہ وہ اپنے بزرگوں، ودّ، سُواع، یغوث، یعوق، نسر ( 71:23 ) کے مرنے کے بعد ان کی تعظیم کرنے لگے۔ تعظیم کے بعد ان کے اندر اپنے بزرگوں کی تقدیس کا عقیدہ پیداہوا۔ دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ انھوں نے اپنے اِن بزرگوں کے مجسمے بنائے اور پھر ان کی عبادت شروع کردی۔
جب بگاڑ کی یہ حد آئی تو اللہ نے ان کے درمیان اُنھیں کی قوم سے پیغمبر نوح کو پیدا کیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق، پیغمبر نوح، حضرت آدم کی دسویں نسل میں پیدا ہوئے۔ حضرت نوح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طورپر لمبی عمر دی ، یعنی 950 سال۔ قرآن کی سورہ نوح ( 71 )میں حضرت نوح کی دعوت کا خلاصہ بتایا گیا ہے۔ دوسرے انبیا کی طرح حضرت نوح کی دعوت بنیادی طورپر دوچیزوں کی طرف تھی — توحید، اور آخرت۔
مگر قوم کا بگاڑ اتنا زیادہ بڑھ چکا تھا کہ چند لوگوں کو چھوڑ کر بقیہ افراد آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ قرآن میں اُن کی طرف سے جو قول نقل کیاگیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’انھوںنے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا۔ تم ہرگز نہ چھوڑنا ودّ کو اور سواع کو اور یغوث کو اور یعوق کو اور نسر کو‘‘- ( 71: 23 )
یہ صورتِ حال ہمیشہ غلط تقابل (wrong comparison) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ قومِ نوح کے سامنے ایک طرف، ان کا حال کا پیغمبر تھا جواُن کو بظاہر ایک عام آدمی کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ دوسری طرف، ان کے ماضی کے قومی اکابر تھے، جن کے گرد اُن کےقُصّاص (story tellers) نے مفروضہ کہانیوں کا خوش نما ہالہ بنا رکھا تھا۔ اِس خود ساختہ تقابل میں اُن کو حضرت نوح ایک معمولی انسان نظر آتے تھے( 11:27 )۔ اس کے بر عکس، ماضی کی شخصیتیں ان کو بہت بڑی دکھائی دیتی تھیں۔ یہی غلط تقابل تھا جس نے اُن کے اندر وہ بے اصل یقین (false conviction) پیدا کردیا جس کی بنا پر وہ اپنے معاصر پیغمبر کا انکار کردیں۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قوم کے اندر اب مزید کوئی فرد ایمان لانے والا نہیں ہے تو اللہ نے یہ فیصلہ کیا کہ اُس علاقے میں ایک عظیم سیلاب لایا جائے جس میں صالح افراد بچالیے جائیں اور غیرصالح افراد سب کے سب ہلاک کردئے جائیں۔ اثریاتی شواہد کے مطابق، قومِ نوح کا مسکن دجلہ اور فرات کے درمیان کا وہ علاقہ تھا جس کو تاریخ میں میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہاجاتا ہے۔
کشتی نوح کا معاملہ
پیغمبر کا انکار کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ جو لوگ پیغمبر کا انکار کریں، وہ اِس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ اِس دنیامیں اللہ کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ اِس مہلت کو کھو دیتے ہیں کہ وہ خدا کی اِس دنیا میں رہنے کا مزید موقع پاسکیں۔ چناں چہ مختلف قسم کے عذاب کے ذریعے اُن کو ہلاک کردیا جاتا ہے ( 29:40 )۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے مخاطبین کے ساتھ اِس معاملے میں الگ طریقہ اختیار کیا گیا، یعنی ایک عظیم سیلاب (Great Flood) کے ذریعے غیر صالحین کو ہلاک کردینا اور جو صالح افراد ہیں، اُن کو ایک کشتی کے ذریعے بچالینا۔ اِس خصوصی مصلحت کو قرآن کی دو آیتوں میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: وجعلناہا اٰیۃً للعالمین ( 29:15 )یعنی ہم نے ا س(کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے: ولقد ترکناہا اٰیۃً فہل من مدّکر ( 54:15 ) یعنی ہم نے اُس (کشتی) کو ایک نشانی کے طور پر باقی رکھا، پھر کوئی ہے سوچنے والا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت نوح کے معاملے میں کشتی کا طریقہ اِس لیے اختیار کیاگیا، تاکہ وہ محفوظ رہے اور بعد کے لوگوں کے لیے علامتی طورپر وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو جاننے کا ذریعہ بنے۔
کشتی اور طوفان کا طریقہ
حضرت نوح کی قوم میسو پوٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں آباد تھی۔ اللہ کے حکم کے تحت، وہاں بہت بڑا سیلاب آیا۔ معلوم تاریخ کے مطابق، یہ اپنی نوعیت کا واحد سیلاب تھا۔ جب سیلاب کا پانی اونچا ہوا اور حضرت نوح کی کشتی اس میں تیرنے لگی تو وہ مختلف سمتوں میں جاسکتی تھی، مگر کشتی نے خدائی حکم کے تحت، ترکی کا رخ اختیا رکیا۔ بظاہر اس کا سبب یہ تھا کہ میسوپوٹامیا سے قریب ترین پہاڑی سلسلہ جہاں گلیشیر بنتے ہوں، وہ جودی یا ارارات کا سلسلۂ کوہ تھا۔ تقریباً 16 سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے کشتی نوح ترکی کے مشرق میں واقع جودی پہاڑ پر پہنچی اور وہاں ٹھہر گئی۔
سیلاب کا پانی اترنے کے بعد یہاں کشتی کے لوگ کشتی سےباہر آگئے۔ ان میں تین خاص افراد حضرت نوح کے تین بیٹے تھے — حام، سام، یافث۔ بعد کی انسانی نسل اصلاً حضرت نوح کے انھیں تین بیٹوں کے ذریعے چلی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کے ایک بیٹے یافث (Japheth) یورپ کے علاقے میں آباد ہوئے اور آپ کے دوسرے بیٹے حام (Ham) افریقہ میں آباد ہوئے۔ اور آپ کے تیسرے بیٹے سام (Shem) ایشیا کے علاقے میں آباد ہوئے۔حضرت نوح کے زمانے تک جو انسانی نسل تھی، وہ براہِ راست طورپر حضرت آدم کی نسل تھی۔ حضرت نوح کے بعد جو انسانی نسل دنیا میں پھیلی، وہ زیادہ تر حضرت نوح کے انھیں تین بیٹوں کے ذریعے پھیلی۔
حضرت نوح کی کہانی
حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں جو لوگ بچ گئے تھے، وہ بعد کو دنیا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے۔ دھیرے دھیرے ان کی نسلیں بڑھیں اور پورے کرۂ ارض پر پھیل گئیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ عظیم سیلاب (Great Flood) کی کہانی لے کر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر قوم کے اندر ایک عظیم طوفان کی کہانی کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے۔ لمبے عرصے تک حضرت نوح اور ان کے واقعات صرف ایک افسانہ (myth) سمجھے جاتے رہے۔ تاہم چوں کہ بائبل اور قرآن میں اُن کا ذکر موجود تھا، اِس لئے لوگوں کے ذہن میں، خاص طورپر یہودی علما او ر عیسائی علما کے ذہن میں، یہ سوال برابر باقی رہا کہ اگر حضرت نوح کا قصہ ایک حقیقی قصہ ہے تو اس کا تاریخی ثبوت کیا ہے۔اِس کی تلاش اور تحقیق مسلسل جاری رہی۔ چوں کہ حضرت نوح کا واقعہ بائبل میں تفصیل کے ساتھ آیا تھا، اس لیے وہ یہودی علما اور مسیحی علما کی دلچسپی کا موضوع بن گیا۔ بڑے پیمانے پر اِس موضوع کی تحقیق ہونے لگی، خاص طورپر اُس علاقے کی تحقیق جس کو بائبل میں حضرت نوح کا اور ان کی قوم کا علاقہ بتایا گیا تھا۔
بائبل اور قرآن کا فرق
حضرت نوح اور ان کی کشتی کا ذکر بائبل میں بھی آیا ہے اور قرآن میں بھی، مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ بائبل میں کشتی نوح کا ذکر صرف ماضی کے ایک قصہ کے طورپر آیا۔ قرآن میں واقعہ بیان کرنے کے علاوہ، ایک اور بات بتائی گئی ہے، وہ یہ کہ حضرت نوح کی کشتی اللہ تعالیٰ کے خصوصی انتظام کے تحت محفوظ رکھی گئی اور بعد کے زمانے میں ظاہر ہو کر وہ لوگوں کے لئے سبق بنے گی۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیتیں یہاں درج کی جاتی ہیں:
فأنجیناہ وأصحاب السفینۃ وجعلناہا اٰیۃً للعالمین ( 29: 15 ) یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس (کشتی) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔
ولقد ترکنا ہا آیۃً فہل من مدّکر ( 54: 15 ) یعنی ہم نے اس (کشتی) کو نشانی کے طورپر باقی رکھا، تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا۔
إنا لما طغا الماء حملناکم فی الجاریۃ۔ لنجعلہا لکم تذکرۃً وتعیہا أذن واعیۃ ( 69:11-12 )یعنی جب پانی حد سے گزر گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں سوا ر کیا، تاکہ ہم اس (کشتی) کو تمھارے لیے یاددہانی کا ذریعہ بنادیں اور یاد رکھنے والے کان اس کو یاد رکھیں۔
قرآن کی یہ آیتیں ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں اتریں۔ اُس وقت ساری دنیامیں کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت نوح کی کشتی کس مقام پر محفوظ ہے، عرب سے عجم تک ہر ایک کے لیے یہ واقعہ پوری طرح ایک غیر معلوم واقعہ تھا۔
ایسی حالت میں قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ نوح کی کشتی محفوظ ہے اور وہ مستقبل میں بطور نشانی ظاہر ہونے والی ہے۔ اِس اعلان کی حیثیت ایک غیر معمولی پیشین گوئی کی تھی۔ ہزار سال سے زیادہ مدت تک کشتی نوح کے بارے میں بدستور لاعلمی کی حالت باقی رہی۔ بیسویں صدی کے آخر میں پہلی بار ہوائی تصویر کشی (arial photograhpy) کے ذریعے معلوم ہوا کہ ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑ کے اوپر کشتی جیسی ایک چیز موجود ہے۔
کشتی نوح کایہ ظہور خداکے ایک عظیم منصوبے کا حصہ ہے، بظاہر وہ انسانی تاریخ کے خاتمے کا ایک ابتدائی اعلان ہے۔ کشتی نوح علامتی طورپر بتارہی ہے کہ دوبارہ ایک آخری اور زیادہ بڑا طوفان آنے والا ہے۔ اِس طوفان کے بعد انسان کا ایک دورِ حیات ختم ہوجائے گا اور انسانی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوگا۔ پہلا دور عارضی تھا اور دوسرا دور ابدی ہوگا۔ پہلے دور حیات کا مقام موجودہ دنیا تھی، دوسرے دورِ حیات کا مقام آخرت کی دنیا ہوگی۔
قرآن میں بتایاگیا تھا کہ حضرت نوح کی کشتی محفوظ ہے-اِس کا محفوظ ہونا بے مقصد نہیں ہوسکتا، اِس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ کشتی اِس لیے محفوظ کی گئی ہے، تا کہ وہ بعد کو قیامت سے پہلے ایک تاریخی نشانی کے طور پر ظاہر ہو- اب سوال یہ ہے کہ کشتی نوح کے اس ظہور کی کیا صورت ہوگی- غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً کشتی نوح کے اِسی ظہورِ ثانی کا واقعہ ہے جس کو قرآن اور حدیث میں ’’دابة‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے-
غالباً کشتی نوح کے ظہور کا یہی واقعہ ہے جس کو قرآن میں دابّہ ( 27: 82 ) کے ظہور سے تعبیر کیاگیا ہے۔ دابہ دراصل کشتی نوح کا تمثیلی نام ہے۔ دابہ کے لفظی معنی ہیں — رینگنے والا۔ کوئی بھی چیز جو رینگنے کی رفتارسے چلے، اس کو دابہ کہاجائے گا۔ کشتی نوح پانی کے اوپر رینگ کر چلی تھی، اس لیے یہ قیاس کرنا درست ہوگاکہ تمثیلی طورپر اس کو دابہ کہہ دیا گیا۔
کشتی نوح
ترکی کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جو کسی دوسرے ملک کو حاصل نہیں، وہ یہ کہ ترکی وہ ملک ہے جو دورِ اول کے پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کی آخری منزل بنا۔جیسا کہ عرض کیاگیا ، تقریباً 5 ہزار سال پہلے حضرت نوح کے زمانے میں ایک بڑا طوفان آیا۔ اُس وقت حضرت نوح اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ کشتی قدیم عراق) میسوپوٹامیا) سے چلی اور ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع کوہِ ارارات (Ararat Mountain) کی چوٹی پر ٹھہر گئی۔
اِس واقعے کا ذکر بائبل میں اور قرآن میں نیز مختلف تاریخی کتابوں میں بشکلِ کہانی موجود تھا، لیکن کسی کو متعین طورپر معلوم نہ تھا کہ وہ کشتی کہاںہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ بعد کے زمانے میں مسلسل برف باری کے دوران یہ کشتی برف کی موٹی تہ (glacier) کے اندر چھپ گئی۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جگہ جگہ گلیشیر پگھلنے لگے۔ چناں چہ ارارات پہاڑ کے گلیشیر بھی پگھل گئے۔ اس کے بعد کشتی قابلِ مشاہدہ بن گئی۔
بیسویں صدی کے آخر میں کچھ لوگوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کرتے ہوئے پہاڑ کے اوپر اِس کشتی کو دیکھا۔ اِس طرح کی خبریں برابر آتی رہیں ، یہاں تک کہ 2010 میں یہ خبر آئی کہ کچھ ماہرین پہاڑ پر چڑھائی کرکے ارارات کی چوٹی پر پہنچے اور کشتی کا براہِ راست مشاہدہ کیا، پھر انھوںنے کشتی کا ایک ٹکڑا لے کر اس کی سائنٹفک جانچ کی۔
اِس سائنٹفک جانچ سے معلوم ہوا کہ کشتی کی عمر متعین طورپر چار ہزار آٹھ سو سال ہے، یعنی وہی زمانہ جب کہ معلوم طورپر طوفانِ نوح آیا تھا:
A group of Chinese and Turkish evangelical explorers said they believe they may have found Noah’s Ark—four thousand metres up a mountain in Turkey. The team say they recoverd wooden specimes from a structure on Mount Ararat in eastern Turkey that carbon dating proved was 4,800 years old, around the same time the Ark is said to have been afloat. (The Times of India, New Delhi, April 28, 2010)
قرآن میں کشتی نوح کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اُن میں سے ایک وہ ہے جو سورہ العنکبوت میں پایا جاتا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: فأنجیناہ وأصحابَ السفینۃ، وجعلناہا اٰیۃً للعالمین ( 29:15 )یعنی پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو بچا لیا۔ اور ہم نے اس(کشتی) کو سارے عالم کے لیے ایک نشانی بنادیا:
Then we saved him and those who were with him in the Ark, and made it a sign for mankind.
حضرت نوح کی کشتی تاریخِ انبیا کی قدیم ترین یادگار ہے۔ قرآن کے مذکورہ بیان کے مطابق، اِس قدیم ترین یادگار کو محفوظ رکھنا اِس لیے تھا، تاکہ وہ بعد کے زمانے کے لوگوں کے علم میں آئے اور اُن کے لیے دینِ حق کی ایک تاریخی شہادت بنے۔
مگر یہ سادہ بات نہ تھی، اِس عالمی واقعے کو ظہور میں لانے کے لیے بہت سی شرطیں درکار تھیں۔ اِس کے لیے ضروری تھا کہ کشتی کا اِستوا( 11:44 )ایک ایسے ملک میں ہو جو اپنے جائے وقوع کے لحاظ سے عالمی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو، کشتی نوح کے ظہور کا واقعہ ایک طے شدہ وقت پر پیش آئے، جب کشتی نوح ظاہر ہو تو عالمی کمیونکیشن کا دور آچکا ہو، یہ واقعہ جب ظہور میں آئے تو اُس وقت گلوبل سیاحت (global tourism) کا دور بھی آچکا ہو، پرنٹنگ پریس کا زمانہ آچکا ہو، تاکہ خدا کی کتاب (قرآن) کے مطبوعہ نسخے لوگوں کو دینے کے لیے تیار کئے جاسکیں، دنیا کھلے پن (openness) کے دور میں پہنچ چکی ہو، اِسی کے ساتھ دنیا سے کچھ چیزوں کا خاتمہ ہوچکا ہو۔ مثلاً مذہبی جبر، کٹر پن (rigidity)، علاحدگی پسندی (separatism)،تنگ نظری (narrow-mindness) ، وغیرہ۔
ترکی کے پہاڑ (ارارات) پر کشتی نوح کا موجود ہونا استثنائی طورپر ایک انوکھا واقعہ ہے۔ گلیشیر کاپگھلنا جب اِس نوبت کو پہنچے ، جب کہ پوری کشتی ظاہر ہوجائے اور وہاں تک پہنچنے کے راستے بھی ہموار ہوجائیں تو بلاشبہہ یہ اتنا بڑا واقعہ ہوگا کہ ترکی نقشہ سیاحت (tourist map) میں نمبر ایک جگہ حاصل کرلے گا۔ ساری دنیا کے لوگ اِس قدیم ترین عجوبہ کو دیکھنے کے لیے ترکی میں ٹوٹ پڑیں گے۔
اِس طرح اہلِ ترکی کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ساری دنیا تک خدا کے پیغام کو پہنچادیں۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب کہ ترکی میں آنے والے سیاحوں کے لیے قرآن سب سے بڑا گفٹ آئٹم (gift item) بن جائے گا جس میں پیشگی طور پر کشتی نوح کی موجود گی کی خبر دے دی گئی تھی۔
حضرت نوح کی تاریخی کشتی
حضرت نوح کی کشتی لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ بعد کو وہ اگر کسی کھلی جگہ پر رہتی تو بہت جلد وہ بوسیدہ ہو کر ختم ہوجاتی۔ مگر جودی کا علاقہ سخت سردی کا علاقہ تھا۔ کشتی کے ٹھہرنے کے بعد یہاں مسلسل طورپر برف باری(snow fall) کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشتی کے اوپرگلیشیر کی موٹی تہہ جم گئی۔ اس طرح کشتی برف کے موٹے تودے کے نیچے دب کر فرسودگی کے عمل سے محفوظ رہی۔
فطرت کا ایک قانون ہے جس کو ارضیات کی اصطلاح میں فاسلائزیشن (fossilization) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ فاسل (fossil) سے بنا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب کوئی چیز زمین کے نیچے لمبی مدت تک دبی رہے تو وہ مخصوص کیمیائی عمل (chemical process) کے ذریعے تدریجی طورپر اپنی ماہیت تبدیل کرلیتی ہے، وہ لکڑی یا ہڈی کے بجائے پتھر جیسی چیز بن جاتی ہے- فاسلائزیشن کا یہ عمل کم وبیش ایک ہزار سال میں پورا ہوتا ہے اور جب یہ عمل پورا ہوجائے تو وہ چیز اپنی اصل صورت کو باقی رکھتے ہوئے پتھر جیسی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ اِس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وجود کو ہمیشہ باقی رکھے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنے منصوبے کے مطابق، حضرت نوح کی کشتی کو محفوظ رکھنا تھا۔ اُس وقت جو سیلاب آیا، وہ ایک بڑے علاقے میں پھیلا ہوا تھا، غالباً دجلہ وفرات (عراق) کے علاقے سے لے کر ترکی کی مشرقی سرحد تک۔ اس سیلاب کے اوپر کشتی بہہ رہی تھی۔ خدا کے فیصلے کے تحت کشتی سیلاب میں بہتے ہوئے جودی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئی۔ یہاں لمبی مدت تک وہ عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں پوری کشتی فاسل (fossil) میں تبدیل ہوگئی۔
خدائی منصوبے کی تاریخی شہادت
حضرت نوح کی کشتی ہزاروں سال تک گلیشیر کے نیچے محفوظ رہی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کشتی پوری کی پوری ایک فاسل (fossil) بن گئی۔ اِس کے بعد ابتدائی طورپر انیسویں صدی عیسوی کاآخری زمانہ آیا، جب کہ گلوبل وارمنگ (global warming) کا دور شروع ہوا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں یہ ہوا کہ پہاڑوں کے اوپر جمے ہوئے برف کے بڑے بڑے تودے (گلیشیر) دھیرے دھیرے پگھلنے لگے۔ آخرکار یہ ہوا کہ جمی ہوئی برف کا بڑا حصہ پگھل گیا اور وہ پانی کی صورت میں بہہ کر سمندروں میں چلا گیا۔ اس کے بعد برف کے نیچے ڈھکی ہوئی کشتی کھل کر سامنے آگئی۔
دابہ سے مراد یہی کشتی نوح ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت کے الفاظ بہت با معنی ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ : أوّل ما یبدوا منہا رأسہا (التفسیر المظہری 7/133 ) دابہ جب نگلے گا توسب سے پہلے اس کا سر ظاہر ہوگا۔
یہ تمثیل کی صورت میں اُس واقعےکا نہایت درست بیان ہے جو کشتی نوح کے ساتھ پیش آیا۔ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جب برف پگھلنے لگی تو فطری طورپر کشتی کے اوپر کا حصہ کھلا اور پھر دھیرے دھیرے پوری کشتی سامنے آگئی۔
کشتی نوح پر غور کیجئے تو اس کا پورا معاملہ ایک خدائی منصوبہ معلوم ہوتا ہے- — حضرت نوح کی قوم کی ہلاکت کے لیے ایک بڑے سیلاب کا طریقہ اختیار کرنا، پھر کشتی نوح کا ایک متعین رخ پر سفر کرتے ہوئے جودی پہاڑ پر پہنچنا، پھر اس کا گلیشیر کے نیچے دب جانا، پھر فاسلائزیشن کے عمل کے ذریعے اس کا مستقل طورپر محفوظ ہوجانا، پھر گلوبل وارمنگ کے ذریعے اس کا کھل کر سامنے آجانا، پھر بیسویں صدی کا دور آنا، جب کہ پرنٹنگ پریس اور جدید کمیونکیشن اور عالمی سیاحت اور اِس طرح کے دوسرے اسباب کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا کہ کشتی نوح کو پیغمبروں کی تاریخ کے ایک پوائنٹ آف ریفرنس کے طورپر لیا جائے اور جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے پیغمبروں کی دعوت کو سارے عالم تک پہنچا دیا جائے- — کشتی نوح کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے جس کا اشارہ قرآن کے اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: بسم اللہ مجرٖہا ومُرسٰہا ( 11: 41 )۔
ارضیاتی شواہد
موجودہ زمانے میں ارضیات (Geology) کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقات کی گئی ہیں۔ اِن تحقیقات کے نتیجے میں ایک حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ عراق اور ترکی کے درمیان کا جو علاقہ ہے، اُس میں کئی ہزار سال پہلے بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ یہ سیلاب اتنا بڑا تھا کہ اس نے اُس وقت کی آباد دنیا کو پوری طرح تباہ کردیا ۔ اس موضوع پر بہت سی تحقیقات چھپ چکی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم تحقیق درج ذیل کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے جس کو دو مصنفین نے تیار کیاہے:
Noah's Flood: The New Scientific Discoveries About the Event that Changed History, by William Ryan and Walter Pitman, Published: 1999 by Simon & & Schuster, USA, 320 pages
اِن تحقیقات سے یہ بات علمی طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ ہزاروں سال پہلے ایک عظیم سیلاب آیا، لیکن محققین اپنے سیکولر (secular) ذہن کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ مختلف قوموں میں اور اِسی طرح بائبل میں نوح کا جو قصہ بیان ہوا ہے، وہ بعد کو اِسی تاریخی واقعے کو لے کر وضع کیا گیا ہے۔ اُن کے نزدیک یہ تاریخی واقعہ کو کہانی کاروپ دینا (mythicization) ہے، حالاں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ مانا جائے کہ ارضیاتی تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے، وہ عظیم سیلاب کے بارے میں اُس واقعے کی تاریخی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے بائبل اور قرآن میں موجود تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بائبل اور قرآن کے نزول کے زمانے میں حضرت نوح اور ان کے عہد میں آنے والے طوفان کے بارے میں تاریخی طورپر کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ قرآن کے بیان میں مزید یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ مستقبل میں حضرت نوح کی کشتی ظاہر ہوگی اور وہ حضرت نوح کے معاملے کی تاریخی تصدیق کرے گی ( 54:15 ) ۔
ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے کہ ارضیاتی تحقیق سے جو بات ثابت ہوئی ہے، اس کو بائبل اور قرآن کی تاریخی تصدیق (historical verification)سمجھا جائے، نہ کہ برعکس طورپر یہ کہا جائے کہ قدیم زمانے میں جو عظیم سیلاب آیا تھا، اُس کی بنیاد پر لوگوں نے فرضی کہانی بنا لی۔
Discovery of Human Artifacts Below Surface of Black Sea Backs Theory by Columbia University Faculty of Ancient Flood, By Suzanne Trimel Columbia University, NYC. Columbia University marine geologists William B.F. Ryan and Walter C. Pitman 3rd inspired a wave of archaeological and other scientific interest in the Black Sea region with geologic and climate evidence that a catastrophic flood 7,600 years ago destroyed an ancient civilization that played a pivotal role in the spread of early farming into Europe and much of Asia. The National Geographic Society offered astonishing evidence on Wednesday ( 9-13-00 ) to support Ryan's and Pitman’s theory: the discovery of well-preserved artifacts of human habitation more than 300 feet below the Black Sea surface, 12 miles off the Turkish coast. " This is stunning confirmation of our thesis," Dr. Ryan said from his office at Columbia's Lamont-Doherty Earth Observatory on Tuesday. " This is amazing. It's going to rewrite the history of ancient civilizations because it shows unequivocally that the Black Sea flood took place and that the ancient shores of the Black Sea were occupied by humans." Inspiring a re-examination of the role of climate in human history, Drs. Ryan and Pitman's findings in 1996 suggested that the terrifying and swift flood may have cast such a long shadow on succeeding cultures that it inspired the biblical story of Noah's ark. Drs. Ryan and Pitman argued their provocative theory in a 1999 book, “Noah's Flood: The New Scientific Discoveries About the Event That Changed History” (Simon & Schuster). Ryan and Pitman theorized that the sealed Bosporus strait, which acted as a dam between the Mediterranean and Black seas, broke open when climatic warming at the close of the last glacial period caused icecaps to melt, raising the global sea level. With more than 200 times the force of Niagara Falls, the thundering water flooded the Black Sea, then no more than a large lake, raising its surface up to six inches per day and swallowing 60,0000 square miles in less than a year. (www.earth.columbia.edu)
تاریخی سبق
سیکولر علما کے لیے عظیم انقلاب (Great Flood) یا ارارات کے پہاڑ کے اوپر کشتی کی دریافت محض تاریخ کا ایک سبجکٹ ہے، مگر قرآن کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ تمام انسانوں کے لیے بہت بڑے سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ حضرت نوح کے زمانے میں جو طوفان آیا تھا، وہ بعد کو آنے والے زیادہ بڑے طوفان کے لیے ایک پیشگی خبر ہے۔ یہ دریافت گویا ایک وارننگ ہے کہ لوگ متنبہ ہوجائیں اور اُس وقت کے آنے سے پہلے وہ اس کے لیے ضروری تیاری کرلیں۔
حضرت نوح دورِ تاریخ سے پہلے کے پیغمبر ہیں، اِس لیے مدوّن تاریخ میںاُن کا حوالہ موجود نہیں۔ مگرقرآن کا بیان ہے کہ نوح کی کشتی کو خدا باقی رکھے گا، تاکہ وہ بعد والوں کے لیے نشانی ثابت ہو( 54:15 )۔ عظیم طوفان اور ارارات پہاڑ کے اوپر کشتی کی دریافت قرآن کے اِس بیان کی ایک تاریخی تصدیق (hostorical verification) کی حیثیت رکھتی ہے۔
سبق کا پہلو
ایک 'طویل روایت میں فرشتے کی زبان سے یہ الفاظ آئے ہیں: محمدٌ فَرْقٌ بین الناس (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6852)فرق کا لفظی مطلب ہے: الفصل بین الشیئین- )دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا( ۔یعنی محمد، انسانوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔
اِس حدیثِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایسا مشن جاری ہوگا جو صالح اور غیر صالح افراد کو ایک دوسرے سے جدا کردے، تاکہ اللہ ایک گروہ کے لیے انعام کا فیصلہ فرمائے اور دوسرے گروہ کے لیے سزا کا فیصلہ۔
یہ بات صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نہیں ہے، یہی معاملہ تمام پیغمبروں کا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے، وہ سب اِسی مقصد کے لیے آئے، تاکہ ان کے ذریعے ایک ایسی تحریک چلائی جائے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے چھانٹ دے، صالح افراد الگ ہوجائیں اور غیر صالح افراد الگ، تاکہ اِس کے بعد ایک معلوم حقیقت کے طورپر لوگوں کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کردیا جائے۔
قدیم زمانے میں جو انبیا آئے، اُن میں سے کم از کم دو ایسے پیغمبر ہیں جنھوں نے اِس معاملے میں ایک تاریخی شہادت (historical evidence) چھوڑ ی جو لوگوں کے لیے مستقل طورپر منصوبہ الٰہی کے بارے میں تاریخی یاد دہانی (historical reminder) کا کام کرتی رہے۔
اِس معاملے میں ایک تاریخی مثال وہ ہے جس کا تعلق حضرت موسیٰ سے ہے۔ حضرت موسیٰ نے قدیم مصر میںاپنا دعوتی کام انجام دیا۔ اس کے نتیجے میں آخر کار وہ وقت آیا، جب کہ دو گروہ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے- — ایک، بنی اسرائیل کا گروہ، جس نے حضرت موسی کے پیغام کو قبول کیا اور دوسرے، فرعون اور اس کے ساتھی، جنھوں نے حضرت موسیٰ کے پیغام کو رد کردیا۔ اِس کے بعد قانونِ الٰہی کے مطابق، ایسا ہوا کہ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی الگ کرکے بچا لئے گئے، اور فرعون اور اس کے ساتھی سمندر میں غرق کردئے گئے۔
اِس معاملے کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب آخری وقت آگیا اور فرعون غرق ہونے لگا، اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: فالیوم ننجّیک ببدنک لتکون لمن خلفک آیۃ ( 10: 92 ) یعنی آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے، تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے۔
اللہ تعالیٰ کا یہ قول پورا ہوا اور حضرت موسیٰ کے ہم عصر فرعون کی لاش کو حنوط کاری (mummification) کے ذریعے اہرامِ مصر میں محفوظ کردیا گیا۔ فرعون کا یہ جسم اہرامِ مصر میں موجود تھا۔ انیسویں صدی کے آخر میں کچھ مغربی ماہرین نے اس کو نکالا اور کاربن ڈیٹنگ (carbon datinhg) کے ذریعے اس کی تاریخ معلوم کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جسم اُسی فرعون کا ہے جو حضرت موسیٰ کا معاصر (contemporary) تھا۔
فرعون کے جسم کا اِس طرح محفوظ رہنا کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک تاریخی واقعے کی علامتی مثال ہے۔ فرعون کا یہ جسم جو قاہرہ (مصر) کے میوزیم میں محفوظ ہے، وہ اپنی خاموش زبان میں یہ بتا رہا ہے کہ آخر کار انسان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، وہ یہ کہ خدائی منصوبے کے تحت، صالح بندوں کو غیرصالح بندوں سے الگ کردیا جائے اور پھر صالح بندوں کو ابدی جنت میں عزت کی جگہ دی جائے اور غیرصالح لوگوں کو ابدی جہنم میں ذلت کی زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
اس قسم کی دوسری مثال حضرت نوح کی ہے۔ حضرت نوح قدیم عراق (Mesopotamia) کے علاقہ میںآئے۔ وہ بہت لمبی مدت تک وہاں کے لوگوں کو بتاتے رہے کہ اللہ نے تم کو پیدا کرکے آزاد نہیں چھوڑ دیا ہے، بلکہ وہ تمھارا امتحان لے رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کون اپنی آزادی کا صحیح استعمال کررہا ہے اور کون غلط استعال کررہاہے۔
جب امتحان کی مدت پوری ہوگی تو خدا کا فیصلہ ظاہر ہوگا اور اچھے انسان اور برے انسان دونوں چھانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کردئے جائیں گے۔ اس کے بعد اچھے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے گا اور برے لوگوں کو جہنم میں۔
طوفان سے پہلے حضرت نوح نے اللہ کے حکم سے پیشگی طورپر ایک بڑی کشتی بنالی تھی۔ حضرت نوح اور آپ کے ماننے والے لوگ کشتی میں سوار ہوگئے۔ یہ لوگ اس کشتی کے ذریعے سیلاب کے اوپر تیرتے ہوئے محفوظ رہے۔
اُس وقت اللہ نے جو کہا تھا، اس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: قیل یا نوح اہبط بسلام منا وبرکات علیک وعلی أمم ممن معک، و أمم سنمتعہم ثم یمسہم منا عذاب ألیم ( 11:48 )
یہ بات پانچ ہزار سال پہلے کی ہے، جب کہ دنیا میں نہ کوئی تہذیب تھی اور نہ کوئی ٹکنالوجی۔ یہ بات اگرچہ بائبل اور قرآن میں بتائی گئی تھی، لیکن لوگ اس کو مذہبی افسانہ (religious myth) سمجھتے تھے،مگر عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں یہ دونوں باتیں ایک معلوم واقعہ بن گئیں۔ ایک طرف، عراق اور شام کے علاقے میں ایسے آثار ملے جو بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک بہت بڑا سیلاب آیاتھا، اور دوسری طرف کشتی نوح جو بھاری برف کے نیچے دبی ہوئی تھی، وہ برف کے پگھلنے سے سامنے آگئی۔ یہ واقعہ ترکی کی مشرقی سرحد پرواقع پہاڑ کے اوپر پیش آیا۔
بیسویں صدی کے وسط تک اِس پورے معاملے کو فرضی کہانی سمجھا جاتا تھا، مگر اب خالص تاریخی شواہد کی بنا پر یہ مان لیا گیا ہے کہ اس علاقے میں ایک ایسا بڑا سیلاب آیا تھا جو نہ اس سے پہلے کبھی آیا اور نہ اس کے بعد۔ یہاں اِس سلسلے میں تفسیر ماجدی سے ایک حوالہ نقل کیا جاتا ہے:
The story of Noachion deluge, so long dismissed as legendary, has at last come to be recognized as 'hisotorical disaster' for which material evidence has bee found in the soil of Ur. (Woolly, ‘Abraham’, p. 170)
Archaelogical evidence has established the reality of the Flood. ( Marston, ‘The Bible Comes Aline’, p. 33 )
Both Sumerian and Hebrew legends speak of a flood which destroyed the habitable world as they knew it. (Lt. Col. Wagstaff, a distinguished explorer)
یہی معاملہ کشتی نوح کا ہے۔ قدیم زمانے میں کشتی نوح کا معاملہ ایک مذہبی افسانہ سمجھا جاتا تھا، مگر اب وہ ایک تاریخی واقعہ بن چکا ہے۔
کوئی بھی شخص ترکی کی مشرقی سرحد پر واقع پہاڑی سلسلے کے اوپر ہوائی پرواز کرکے کشتی کو دیکھ سکتا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ یہ مقام ٹورسٹ میپ (tourist map) میں خصوصی جگہ حاصل کرلے۔خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ترک گورنمنٹ اِس علاقے کو سیاحتی مقام کے طور پر ڈیولپ کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے-
اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جب انسانی تاریخ کے خاتمہ کا وقت آئے گا اورآخرت کا دور شروع ہوگا تو فرشتہ اسرافیل صور پھونکے گا۔ یہ صور آواز کی صورت میںنئے دور کی آمد کا اعلان ہوگا۔ کشتی نوح کا ظہور اسی قسم کا ایک واقعہ ہے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ صور اسرافیل کے ذریعے جس حقیقت کا اعلان زبانِ قال کی صورت میں کیا جائے گا، کشتی نوح زبانِ حال کی صورت میں اُسی حقیقت کو بیان کرے گی۔
Two members of the search team that claims to have found Noah’s Ark on Mount Ararat in Turkey responded to skepticism by saying that there is no plausible explanation for what they found other than it is the fabled biblical boat that weathered a storm that raged 40 days and 40 nights and flooded the entire Earth. Noah's Ark Ministries International (NAMI) held a press conference April 25, 2010 in Hong Kong to present their findings and say they were “ 99 .9 percent sure” that a wooden structure found at a 12,000-ft. elevation and dated as 4,800 years old was Noah’s Ark. Noah's Ark Ministries International is a subsidiary of Hong Kong-based Media Evangelism Limited, founded in 1989 to publish multimedia for evangelizing. " We don't have anything to hide." says Clara Wei, who is a team member. She says that massive wooden planks, some 20 meters long, were found in wooden rooms and hallways buried in the ice atop Mount Ararat in Eastern Turkey. People could not carry such heavy wood to such a height, nor can vehicles access such a remote location on the mountain. Turkish officials from Agri Province, the location of Mount Ararat, also attended this week’s press conference in Hong Kong. Lieutenant governor Murat Güven and Cultural Ministries Director Muhsin Bulut, both provincial officials, believe the discovery is likely Noah’s Ark, according to the announcement posted on the team's website. Culture and Tourism Minister of Turkey, Ertugrul Gunay, welcomed the finding and said it could boost tourism, according to local newspaper today's Zaman. (www.csmonitor.com)
کشتی نوح یا دابہ
قرآن کی سورہ النمل میں یہ آیت آئی ہے: وإذا وقع القول علیہم أخرجنا لہم دابۃً من الأرض تکلمہم أن الناس کانوا باٰیاتنا لا یوقنون ( 27: 82 ) یعنی جب اُن پر بات آپڑے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابہ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
قرآن اور حدیث دونوں میں بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا۔ دابہ کا ظہور گویا انسانی تاریخ کے ایک دور کا خاتمہ اور دوسرے دور کے آغاز کی علامت ہوگا۔ دابہ کا ظہور عملاً سارے انسانوں کے لیے آخری اتمامِ حجت کے ہم معنی ہوگا۔ اس کے بعد وہی واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہوگا جو حضرت نوح کے زمانے میں پیش آیا تھا، یعنی دوبارہ ایک بڑے طوفان کے ذریعے انسانوں میں سے صالح افراد کو بچالینا اور غیر صالح افراد کو ہلاک کردینا۔
حدیث کی کتابوں میں دابہ کے بارے میں جو روایتیں آئی ہیں، اُن میں زیادہ مستند اور معتبر روایت وہ ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔ اِس میںصرف یہ بتایاگیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایک دابہ نکلے گا (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 158 )۔
اِس روایت میں اُن باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہے جو دوسری روایتوں میںآئی ہے۔مثلاً دابہ کے ساتھ موسی کا عصا ہونا اور سلیمان کی انگشتری ہونا، وغیرہ- ان دوسری روایات میں کافی تعارض پایا جاتاہے، اس لیے محقق علما نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کے علاوہ، دوسری روایتوں کو عام طورپر ضعیف یا موضوع بتایا ہے- مثلاً امام رازی، علامہ آلوسی، علامہ البانی، وغیرہ- اس معاملے میں صحیح مسلک یہ ہے کہ دابہ کو صرف دابہ کے معنی میں لیا جائے اور اس سے منسوب بقیہ تفصیلات کو غیرمعتبر سمجھ کر اُن کو نظر انداز کردیا جائے-
دابہ کی تحقیق
دابہ کے لفظی معنی ہیں رینگنے والا (creeper) -اپنے استعمال کے اعتبار سے، دابہ کا لفظ حیوان کے لیے خاص نہیں ہے، وہ کسی بھی ایسی چیز کے لیے ~ بولاجاتا ہے جو رینگنے کی رفتار سے چلے- یہ استعمال عربی زبان اور غیر عربی زبان دونوں میں پایا جاتا ہے-
مثلاً کہا جاتا ہے: دبّ الشراب فی عروقہ (مشروب کا اثر رگوں میں سرایت کرگیا )- اسی طرح کہا جاتا ہے کہ: دبّ الجدول (نہر میں پانی کا جاری ہونا)- اسی طرح کہاجاتا ہے: دبّ السُّقم فی الجسم _(جسم میں بیماری کا سرایت کرنا)-اسی لیے ایک مخصوص آلہ ٔحرب کو ’دبّابة‘ کہا جاتا ہے-
اِس مقصد کے لیے دبابہ کا لفظ قدیم زمانے سے رائج ہے- قدیم زمانے میں دشمن کے قلعے تک پہنچنے کے لیے یہ کرتے تھے کہ معکوس یو (inverted U) کی شکل میں ایک گاڑی بناتے تھے جس کے نیچے پہیہ لگا ہوتا تھا- فوجی اس کے اندر داخل ہوجاتا اور پہیہ کے ذریعے اس کو چلاتا ہوا قلعے کی دیوار تک پہنچ جاتا اور پھر قلعے کی دیوار میں نقب لگا کر اس کے اندر داخل ہوجاتا - اس آلہ ٔ حرب کو دبابہ کہا جاتا تھا-
دبابہ کی یہ قدیم ٹیکنک آج کے مشینی دور میں بھی رائج ہے- اِسی اصول کے مطابق، موجودہ زمانے میں ٹینک (tank) بنائے گئے ہیں- موجودہ مشینی ٹینک کو بھی دبابہ کہاجاتا ہے، یعنی وہ حربی گاڑی جو پہیے پر چلتی ہوئی دشمن کے قلعہ تک پہنچ جائے-
دبابہ کی تشریح ;کے تحت یہی بات عربی لغات میں آئی ہے- مثلاً لسان العرب کے الفاظ یہ ہیں: الدّبابةُ: آلة تُتَّخذ من جلود وخشبة، یدخل فیہا الرجال، ویقرّبونہا من الحصن المحاصر لینقبوہ، وتقیم ما یرمون بہ من فوقہم- وفی حدیث عمر رضى اللہ عنہ قال: کیف تصنعون بالحصون؟ قال: نتخذ دبّاباتٍ یدخل فیہا الرجال- (371/1)
رینگنے کا لفظ اپنے اِسی توسیعی مفہوم میں ہر زبان میں استعمال ہوتاہے- مثلاً گھنےکہر میں ٹرین آہستہ رفتار سے چلتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ٹرین رینگ رہی ہے- امریکا کے ناولسٹ جیمس بالڈون (James Baldwin) نے اپنی ایک کہانی میں کشتی کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہیں— پرانی کشتی پانی کے اوپر گھونگھے کی رفتار سے رینگ رہی ہے:
The old boat creaps over the water no faster than a snail.
1- قرآن کی سورہ النمل کی آیتِ دابہ میں ’تکلم‘ بمعنی ینطق نہیں ہے، بلکہ وہ یدلّ کے معنی میں ہے، یعنی دلالت کرنا،شہادت دینا- لفظ ’کلام‘ کے مادّہ کا یہ استعمال خود قرآن میں دوسرے مقام پر موجود ہے- مثلاً سورہ الروم میں ارشاد ہوا ہے: أم أنزلنا علیہم سلطاناً فہو یتکلّم بما کانوا بہ یشرکون( 30:35 ) یعنی کیا ہم نے اُن پر کوئی سند اتاری ہےکہ وہ اُن کو خدا کے ساتھ شرک کرنے کو کہہ رہی ہے-
جس طرح سورہ الروم کی اِس آیت میں کلام بزبانِ حال کے معنی میں آیا ہے، اِسی طرح سورہ النمل کی مذکورہ آیت میں کلام کا مادہ کلامِ حال کے معنی میں آیا ہے، یعنی دونوں ہی آیتوں میں کلام کا مادہ زبانِ حال کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، نہ کہ زبانِ قال کے مفہوممیں-
آیت کا آخری ٹکڑا یہ ہے:
-2 أنّ الناس کانوا باٰیاتنا لایوقنون ›— یہاں آیات (signs) سے کیا مراد ہے- اِس کی وضاحت قرآن کی اِس آیت سے ہوتی ہے: قیل یا نوح اہبط بسلام منا وبرکات علیک وعلى أمم ممن معک وأمم سنمتعہم ثم یمسّہم منا عذاب ألیم ( 48:11 )-
اِس آیت میں ’’مسِّ عذاب‘‘کا ذکر ہے- اسی کے ساتھ یہاں ایک اور چیز محذوف ہے، وہ یہ کہ کچھ افراد بچالئے جائیں گے جس طرح کشتی نوح کے افراد بچا لئے گئے اور دوسرے لوگ جو عذاب کے مستحق تھے، وہ ہلاک کردئے گئے—— سفینہ کا لفظ حضرت نوح کی کشتی کو بتاتا ہے اور دابہ کا لفظ اُس کشتی کے رول کو-
قرآن کی آیتِ دابّہ کے حسب ذیل تین حصے ہیں:
1 . وإذا وقع القول علیہم ۔
2 . أخرجنا لہم دابۃ من الأرض ۔
3 . تکلمہم أن الناس کانوا باٰیاتنا لایوقنون) 27: 82 )۔
آیت کے پہلے حصے کا تعلق اللہ کے فیصلے سے ہے، یعنی دابہ کا خروج اُس وقت ہوگا جب کہ اللہ تعالی موجودہ دنیا میں انسانی تاریخ کے خاتمے کا فیصلہ فرما دے۔ آیت کے دوسرے حصے کا تعلق قدرتی حالات سے ہے، یعنی فطری اسباب کے تحت ایسے حالات کا پیداہونا جب کہ دابہ (کشتی نوح) کا برفانی کور (cover)ہٹ جائے اور وہ پورے طورپر لوگوں کے سامنے آجائے۔
آیت کے تیسرے حصے کا تعلق انسان سے ہے، یعنی جب ایسا ہوگا تو یہ انسان کی ذمے داری ہوگی کہ وہ اِس واقعے کو لے کر اس کی تاریخ لوگوں کے سامنے بیان کرے، اِس واقعے میں سبق کا جو پہلو ہے، اس سے لوگوں کو باخبر کرے۔آیت کا تیسرا حصہ جو انسان سے متعلق ہے، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کو ماننے والے اس وقت اٹھیں اور قرآن کو تمام لوگوں تک پہنچائیں، کیوں کہ دابہ (کشتی نوح) کا ظہور قرآن کی پیشین گوئی کی تصدیق ہوگی۔
یہ واقعہ لوگوں کے لئے اِس بات کی دعوت ہوگا کہ وہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھ کر پڑھیں اور اس کے ذریعے اُس پیغام کو جو اللہ کی طرف سے پیغمبر وں کے ذریعہ بھیجا گیا تھا،اُس کو ایک ثابت شدہ صداقت کی حیثیت سے قبول کرلیں-
کشتی کا انتخاب کیوں
صورِ اسرافیل قیامت کا ناطق اعلان ہے اور کشتی نوح (دابّہ) قیامت کا غیر ناطق اعلان- صورِاسرافیل جس حقیقت کو بول کر بتائے گا، اسی حقیقت کا اعلان خاموش زبان میں کشتی نوح (دابہ) کے ذریعے کیاجائے گا-
اِس مقصد کے لئے کشتی کا انتخاب کیوں کیا گیا- حسب ذیل پہلوؤں پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں کشتی ہی اس مقصد کا سب سے زیادہ بہتر ذریعہ بن سکتی تھی:
1- سنت اللہ کے مطابق، کشتی کے لئے لفظِ دابّہ کی صورت میں ایک ملتَبَس نام (disguised name) درکار تھا اور کشتی کے لئے لفظِ دابّہ کی صورت میں ایک ملتبس نام نہایت آسانی سے حاصل ہوتا ہے-
2- مطلوب مقصد کے لئے ایک ایسی چیز درکار تھی جو طوفان میں تیر کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے- یہ کام صرف کشتی کے ذریعےہوسکتا تھا-
3- اِس کام کے لئے ایک ایسا ذریعہ درکار تھا جو کچھ لوگوں کو بچائے اور کچھ لوگوں کو تباہ کردے- یہ کام بھی صرف کشتی کے ذریعے ممکن تھا-
4- اِس کام کے لئے ایک ایسی چیز کی ضرورت تھی جو ہزاروں سال تک برف کے نیچے دب کر باقی رہےاور بعد کو ظاہر ہوکر وہ لوگوں کے سامنے آئے-
5- کشتی کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ وہ کیمیائی عمل کے تحت فاسل (fossil)بن کر محفوظ رہے، تاکہ وہ بعد والوں کے لئے ایک نشانی بنے-
یہ تمام صفات کشتی میں موجود تھیں- مزید یہ کہ اللہ کی سنت ( 8: 6 ) کے مطابق، کشتی وہ واحد چیز تھی جس کے لیے دابّہ کی صورت میں ایک ملتبس نام (disguised name) مل سکتا تھا- اللہ کی سنت کے مطابق، کشتی کا حوالہ کشتی کے نام سے دینا مطلوب نہیں تھا، بلکہ اس کا حوالہ ایک ایسے بالواسطہ نام کے ذریعہ دینا مطلوب تھا جس کو صرف غور کرکے سمجھا جاسکتا ہو- اِس کے لیے دابہ نہایت موزوں نام تھا، کیوں کہ کشتی بھی پانی پر رینگتی ہے اور دابّہ کے لفظی معنى ہیں رینگنے والا-
قرآن میں ہے کہ جب وقت آئے گا تو ہم، لوگوں کے لئے زمین سے ایک دابہ (رینگنے والا) نکالیں گے ( 27:82 )- یہ الفاظ بہت خوبی کے ساتھ اصل واقعہ کو بتاتے ہیں- کیوں کہ کشتی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ تھا کہ اس کے اوپربرف کی بہت موٹی تہ جم گئی- پھر گلوبل وارمنگ کے زمانے میں برف پگھلنا شروع ہوئی تو دھیرے دھیرے کشتی کھل کر سامنے آگئی- ’’رینگنے والی چیز‘‘کا زمین سے نکلنا بالکل لفظی طورپر اِس واقعہ کی تصویر کشی کررہا ہے-
قرآن میں دابہ کا ذکر جہاں آیا ہے، وہاں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ دابہ لوگوں سے ’’کلام‘‘ کرے گا اور یہ خبردے گا کہ لوگوں نے اللہ کی آیتوں (signs) پر یقین نہیں کیا- قرآن میں دابہ کے بارے میں اتنا ہی بتایا گیا ہے- قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ لوگ دابہ کی بات سنیں گے تو اس کے بعد تمام لوگ اس کو ماننے والے بن جائیں گے- قرآن سے یہ تو ثابت ہے کہ دابہ لوگوں سے ’’کلام‘‘ کرے گا، لیکن یہ بات قرآن میں نہیں ہے کہ لوگ دابہ کے کلام کو سن کر اُس کے مومن بن جائیں گے-
اِس سے مستنبط ہوتا ہے کہ دابہ (کشتی نوح) کا ظہور دوبارہ اُسی نوعیت کا ہوگا جیسے کہ نوح کے زمانے میں ہوا تھا- حضرت نوح کی دعوت وتبلیغ سے ان کے زمانے کے بہت کم لوگ اُن پر ایمان لائے- اِسی طرح یہی معاملہ بعد کے زمانے میں بھی پیش آئے گا، یعنی دوسری بار بھی صرف کچھ لوگ اس سے اثر قبول کریں گے اور زیادہ لوگ اس کو نظر انداز کردیں گے-
حقیقت یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں دابہ (کشتی نوح) کا ظہور صرف اعلان کے لئے ہوگا- اس کے نتیجے میں ایسا نہیں ہوگا کہ تمام لوگ اس کے مومن بن جائیں اور دنیا میں کوئی خدا کا انکار کرنے والا باقی نہ رہے-
پیغمبرانہ یادگاریں
حضرت نوح سے حضرت محمد تک خداکے بہت سے پیغمبر دنیا میں آئے- اُن میں سے تین پیغمبر ایسے ہیں جن کی مادی یادگاریں آج بھی دنیا میں موجود ہیں- یہ تین پیغمبر ہیں— حضرت نوح، حضرت ابراہیم اور حضرت محمد- تین پیغمبروں کی یہ مادی یادگاریں علامتی طورپر دعوت کے تین دور کو بتاتی ہیں- پہلی مادی یادگار حضرت نوح علیہ السلام کی ہے، جو ایک کشتی کی صورت میں آج بھی موجود ہے- یہ کشتی علامتی طورپر بتاتی ہے کہ ایسا ہونے والا نہیں کہ انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، بلکہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کو آخر کار دو گروہ میں تقسیم کیا جائے گا-
یہ تقسیم لوگوں کے ریکارڈ (record) کے مطابق ہوگی- اور پھر اچھے ریکارڈ والوں کے لیے جنت کا فیصلہ کیا جائے گا اور برے ریکارڈ والوں کے لیے جہنم کا فیصلہ- دوسری مادی یادگار حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے جو کعبہ کی صورت میں آج بھی مکہ میں موجود ہے-
کعبہ علامتی طورپر اُس غیرمعمولی منصوبہ بندی (extraordinary planning) کی یادگار ہے جب کہ یہاں کے صحرائی علاقہ میں حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسایا اور پھر توالد اور تناسل کے لمبے دور کے بعد وہ نسل تیار ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہاجاتاہے- رسول اوراصحابِ رسول اسی نسل کے منتخب افراد تھے- یہ ایک استثنائی گروہ تھا جس کو ایک مستشرق نے ہیروؤں کی قوم (a nation of heroes) کہا ہے-
تیسری مادی یادگار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو مدینہ کی مسجد نبوی کی صورت میں موجود ہے- مسجد نبوی کے اندر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر واقع ہے-
حضرت محمد اور آپ کے اصحاب کی غیر معمولی کوشش سے انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا- اس نئے دور کو دورِ شرک کا خاتمہ اور دورِ توحید کا آغاز کہا جاسکتا ہے- حضرت محمد اور آپ کے اصحاب نے انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process)کا آغاز کیا- اِس کے نتیجہ میں وہ انقلابی واقعہ پیش آیا جس کو قرآن میں اظہارِ دین ( 28:48 ) کہاگیا ہے-
اظہارِ دین سے مراد کوئی سیاسی اظہار نہیں ہے، اِس سے مراد زیادہ وسیع نوعیت کا ایک ہمہ جہتی اظہار ہے- اس کے نتیجہ میں وہ عالمی واقعہ پیش آیا جس کو انفجارِ مواقع (opportunity explosion) کہاجاسکتا ہے-
حضرت محمد اور آپ کے اصحاب کے ذریعے تاریخ میں جو عمل (process) شروع ہوا، وہ اکیسویں صدی عیسوی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا ہے- اِس انقلاب کے مختلف پہلو ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، توحید کے حق میں سائنسی شواہد، عالمی کمیونکیشن، گلوبل موبلٹی (global mobility) ، پرنٹنگ پریس،سیاست کا ڈی سینٹرلائزیشن (decentralization of political power) ، اداروں کا دور (age of institutions)، وغیرہ-
اِنھیں جدید مواقع میں سے ایک یہ ہے کہ نئے حالات کے نتیجہ میں حضرت نوح کی کشتی ظاہر ہوکر لوگوں کے سامنے آگئی جو کہ کئی ہزار سال تک برف کی بھاری تہہ کے نیچے چھپی ہوئی تھی-
دابہ کا نکلنا
قرآن کی سورہ النمل میں قیامت سے پہلے کی ایک نشانی کا ذکر اِن الفاظ میں کیاگیاہے: وإذا وقع القول علیہ أخرجنا لہم دابّۃ من الأرض تکلّہم أن الناس کانوا باٰیاتنا لایوقنون( 27:82 ) اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک دابّہ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہمارے نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
قرآن کی یہ آیت 1400سال سے غیر واضح بنی ہوئی تھی، لیکن حضرت نوح کی کشتی کے بارے میں حال میں جو معلومات سامنے آئی ہیں، اس کی روشنی میں محفوظ طور پر یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ دابہ سے مرادغالباً حضرت نوح کی کشتی ہے، یعنی پانی کے اوپر رینگنے والا دابہ۔ قرآن میں حضرت نوح کی کشتی کو ایک نشانی (آیت) کہاگیا ہے۔ اِسی طرح قرآن میں دابہ کو بھی ایک آیت کہاگیا ہے۔ کشتی نوح اور دابہ کے درمیان یہ مشابہت بہت بامعنی ہے۔ آغازِ انسانی سے اللہ نے یہ انتظام کیا کہ ہر دور میں خدا کے پیغمبر آئیں اور انسان کو بتائیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا تخلیقی منصوبہ (creation plan) کیا ہے، مگر انسان نے اپنی سرکشی کی بنا پر یہ کیا کہ اس نے پیغمبروں کو نظر انداز کیا، حتی کہ انسانیت کی مدون تاریخ (recorded history) میں پیغمبروں کا اندراج نہ ہوسکا، پیغمبر عقیدہ کا معاملہ بن گئے، نہ کہ تاریخی طورپر ثابت شدہ حقیقت کامعاملہ۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان نے بظاہر تخلیق (creation) کو جانا، مگر وہ مقصد تخلیق (purpose of creation) سے بالکل بے خبر رہا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ایسا ہوگا کہ اِس مِتھ (myth) کو توڑ دیا جائے گا۔ اور اِس مِتھ کو توڑنے کا ذریعہ ایک پیغمبر کی ایک تاریخی نشانی کا ظہور ہوگا، جس کا ذکر بائبل اور قرآن دونوں میں موجود ہے۔اِس طرح مذہبی عقیدہ ایک علمی مسلّمہ بن جائے گا-
جیسا کہ عرض کیا گیا، دابہ کا لفظی مطلب ہے رینگنے والا۔حضرت نوح کی کشتی پانی پر رینگنے والی سواری تھی۔ وہ طوفان کے اوپر چلتی ہوئی ترکی کے سرحدی پہاڑ ارارات (Ararat) پر پہنچ گئی۔
اب اکیسویں صدی میں کشتی نوح کا یہ معاملہ ایک واقعہ بن کر سامنے آگیا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ وہ پوری طرح منظر عام پر آجائے اور پھر زبانِ حال سے کلام کرکے لوگوں کو بتائے کہ پیغمبر کی جس نشانی کا تم انکار کرتے رہے، وہ اب تمھارے سامنے عیاناً موجود ہے۔
حضرت نوح نے براہِ راست طورپر اپنی قوم سے اور بالواسطہ طورپر تمام انسانیت کو بتایا تھا کہ اللہ کے منصوبے کے مطابق، مقصدِ تخلیق کیا ہے۔ سیارہ ارض پر انسان کا قیام ایک مقرر مدت تک ہے ( 71:4 ) یعنی ایک مقرر وقت (apppointed time)تک دنیا میں حالتِ امتحان میں رہنا اور اس کے بعد آخرت میں اللہ کے سامنے حساب کے لئے پیش کردیا جانا۔ یہی زندگی کی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت نوح نے اور دوسرے پیغمبر وں نے انسان کو بتایا، لیکن انسان نے اس پیغمبرانہ انتباہ (warning) کو اپنے ریکارڈ سے خارج کردیا۔
دابہ کے ظہور کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی، لیکن دونوں جگہ اس کا ذکر مستقبل کی پیشین گوئی کے طورپر ہے، اِس لیے دابہ کے بارے میں شارحین اور مفسرین کی مختلف رائیں ہیں۔ دابہ کے بارے میںمزید مطالعے کے بعد اب میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں، اس کو میں نے اِس مضمون میں درج کردیا ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق، یہی رائے مجھ کو زیادہ درست معلوم ہوتی ہے: ہذا ما عندی، والعلم عند اللہ-
اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق، کئی بار ایسا ہوا کہ کسی پیغمبر کی قوم پر انکار کے نتیجے میں عذاب آیا۔ مگر دوسرے تمام پیغمبروں کے معاملے میں جو صورت اختیار کی گئی، وہ یہ تھی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا فیصلہ ہوا تو پیغمبر کے ماننے والوں سے کہاگیا کہ تم بستی کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ جب وہ بستی کو چھوڑ کر دور کے علاقہ میں گئے تو مقامی طورپر شدید طوفان یا زلزلہ کے ذریعے منکر قوم کو تباہ کردیا گیا، مگر حضرت نوح کی قوم کے معاملے میں ایک بالکل مختلف طریقہ اختیا رکیا گیا۔
حضرت نوح نے لمبی مدت تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام پہنچایا۔ کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور زیادہ تر لوگ منکر بن گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو حکم دیا کہ تم ایک بڑی کشتی بناؤ۔ اس میں اہلِ ایمان کو اور اسی کے ساتھ مویشیوں کے جوڑوں کو سوار کرو۔ جب یہ سب ہوگیا اور لوگ کشتی میں سوار ہوچکے تو بہت بڑا سیلاب آیا۔ پانی زمین سے بھی نکلا اور آسمان سے بھی برسا۔ پانی کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اس کی سطح پہاڑی کی چوٹی تک پہنچ گئی۔
اِسی مختلف انداز کی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت نوح کی کشتی بعد کی انسانی نسلوں کے لیے محفوظ رہے۔ اِس کی وجہ سے یہ ہوا کہ کشتی زمین سے اوپر اٹھ کر پہاڑ کی بلندی تک پہنچ گئی۔
کشتی نوح کے بارے میں جو بات قرآن میں کہی گئی ہے، اس کی مزید تفصیل دابہ والی آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ اِس آیت میں یہ الفاظ ہیں: تکلّمہم أن الناس کانوا باٰیاتنا لا یوقنون ( 27:82 )-اِس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ دابہ بتائے گا کہ لوگ اللہ کی نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے۔
اِس آیت میں آیات) نشانیوں) سے مراد پچھلے ادوار میں اللہ کے پیغمبروں کا ظہور ہے۔ اللہ کا ہر پیغمبر اللہ کی طرف سے ایک نشانی ہوتا تھا، مگر قدیم زمانے میں پیغمبروں کے معاصرین نے پیغمبروں کا انکار کیا۔ اِس واقعے کا ذکر قرآن میں اِس طرح کیاگیا ہے: ’’جو رسول بھی اُن کے پاس آیا، وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے‘‘۔( 36:30 )
پیغمبروں کا آیتِ الٰہی ہونا اُن کے مخاطبین کے لیے مجرد ایک نظری شہادت (theoretical evidence) کے ہم معنی ہوتا تھا، اِسی لیے وہ ان کی تکذیب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ پیغمبر اور پیغمبری کے حق میں ایک مادی شہادت (material evidence) قائم ہو، اور—کشتی نوح بمعنی دابہ غالباًاِسی قسم کی ایک مادی شہادت کا درجہ رکھتی ہے۔
موجودہ زمانے میں کشتی نوح ظاہر ہو کر بزبانِ حال یہ کہہ رہی ہے کہ اے انسانو، تم نے پیغمبر نوح اور ان کے خدائی مشن کا انکار کیا۔ تم نے اپنی تاریخ سے اُن کو اِس طرح حذف کیا جیسے کہ کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ اب عیاناً وہ تمھارے سامنے اِس طرح ظاہر ہوچکی ہے کہ اس کا انکار تمھارے لیے ممکن نہیں۔ نظری شہادت کا معاملہ اختیاری اعتراف کی حیثیت رکھتاتھا، مگر مادی شہادت کا معاملہ جبری اعتراف کا درجہ رکھتا ہے۔ اب انسان کے لیے اِس بات کا کوئی منطقی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ پیغمبر اور پیغمبرانہ مشن کے معاملے میں انکار کا طریقہ اختیار کرے۔
موجودہ زمانے میں کشتی نوح کا ظہور دین ِ خداوندی کے لیے ایک عظیم تاریخی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ واقعہ تمام تر مسیحی علما اور یہودی علما کی تحقیقات کے ذریعے انسانی علم میںآیا۔ کیوں کہ قرآن کے علاوہ، کشتی نوح کا ذکر بائبل (Old Testament) میں موجود تھا، اِس لیے وہ مسیحی علما اور یہودی علما کا موضوعِ تحقیق بن گیا۔ انھوںنے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اس کی تحقیق کی اور پھر اپنے نتائج ِتحقیق کو شائع کرکے اس کو عام کردیا۔
قرآن اور بائبل کے بیان کا فرق
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِس معاملے میں بائبل کے بیان اور قرآن کے بیان میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ بائبل میں کشتی نوح (Noah's Ark) کا ذکر تفصیل سے آیا ہے، مگر ایک بات بائبل میں سرے سے موجود نہیں، اور وہ یہ پیشین گوئی ہے کہ کشتی نوح بعد کے زمانے میں ظاہر ہوگی اور وہ اللہ کی آیت (نشانی) بنے گی۔ کشتی نوح کے اِس پہلو کا ذکر قرآن میں ایک سے زیادہ بار آیا ہے، لیکن بائبل میں وہ سرے سے موجود نہیں۔
یہ اِس بات کا اشارہ تھا کہ قرآن کے مومنین بعد کے زمانے میں کشتی نوح کو تلاش کریں اور اس کو دریافت کرکے بعد کے لوگوں کے لیے اس کو حجت بنادیں۔ یہ کام وہ لوگ کرسکتے تھے جن کے اندر سائنسی تحقیق کا ذوق ہو، مگر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ سائنسی تحقیق کے ذوق سے مکمل طورپر خالی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مسیحی اور یہودی علما اِس معاملے کی تحقیق نہ کرتے تو شاید تاریخِ نبوت کے اِس معاملے سے انسان ابھی تک بے خبر رہتا۔
کشتی نوح کا ظاہر ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ قیامت سے پہلے قیامت کی آمد کا اعلان ہے۔ یہ اُس تاریخی واقعے کا اعلان ہے کہ خالق نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے اپنی مرضی سے باخبر کیا، مگر انسان نے اِس کو نظر انداز کیا۔ یہ تخلیقِ خداوندی اور تاریخ انسانی کے درمیان فرق کو ختم کرنے کا اعلان ہے جس کو انسان نے قائم کررکھا تھا، یعنی خالق کے مقرر کردہ منصوبہ تخلیق کو نظر انداز کرکے زمین پر زندگی گزارنا۔
قیامت کا دن حقیقت کے کلّی ظہور کا دن ہے۔ اِس سے پہلے کشتی نوح (Noa’s Ark) کا ظہور حقیقت کے جزئی ظہور کا دن ہوگا۔ کشتی نوح کا ظہور علامتی طورپر بتائے گا کہ دنیا کے خالق نے انسان کے لیے جو نقشۂ حیات مقرر کیا تھا اور پیغمبروں کے ذریعے جس کا علم بھیجا تھا، انسان نے اس کو کامل طورپر نظر انداز کیا، حتی کہ اس کو اپنی تاریخ سے حذف کردیا۔ کشتی نوح کا ظہور اِس حذف شدہ تاریخ کو دوبارہ سامنے لانے کے ہم معنی ہوگا۔
یہی وہ وقت ہوگا جب کہ خدا کی محفوظ کتاب قرآن کو تمام انسانوں کے سامنے لایا جائے، کیوں کہ قرآن واحد کتاب ہے جس میں پیغمبروں کی تاریخ اور خدا کے منصوبۂ تخلیق کو واضح طورپر بتایا گیاہے۔ کشتی نوح کا ظہور تاریخ انسانی کے ایک گم شدہ باب کی دریافت ہوگا اور قرآن تاریخ کے اِس گم شدہ باب کا مستند بیان (authentic statement) ۔
کشتی نوح اور ترکی
جیسا کہ عرض کیا گیا، حضرت نوح کی کشتی عراق (میسوپوٹامیا) کے علاقہ سے روانہ ہوئی- وہ اپنے چاروں طرف مختلف مقامات کی طرف جاسکتی تھی، لیکن اس نے ایک خاص رخ پر اپنا سفر کیا- پھر وہ چلتی ہوئی ترکی کے مشرقی سرحد پر واقع ایک پہاڑ کے اوپر ٹھہر گئی-
ایسا کیوں ہوا- حضرت نوح کی کشتی کے لئے مختلف آپشن (option) موجود تھے، لیکن اس نے صرف ایک ہی آپشن لیا اور وہ ترکی کے پہاڑ کا آپشن تھا- ایسا بلا شبہہ خدا کی ہدایت پر ہوا- اِس معاملے کو اتفاقی واقعہ کے طورپر نہیں لے سکتے- ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اس کو خالق کے منصوبے کے تحت پیش آنے والا واقعہ سمجھیں-
—اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح کی کشتی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو جو رول مطلوب ہے، اس رول کے لئے زیادہ موزوںمقام اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر، ترکی (Turkey) تھا-اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم تھا کہ بعد کے زمانے میں ترکی ایک مسلم ملک بنے گا- اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ترکی ایسا ملک ہے جو مشرقی دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان جنکشن (junction) کی حیثیت رکھتا ہے-
اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ مختلف اسباب سے ترکی میں ساری دنیا کے سیاح کثرت سے آئیں گے- اسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یہ بھی معلوم تھا کہ مسلم ملکوں کی لمبی فہرست میں ترکی وہ واحد ملک ہوگا جو مذہبی کٹرپن (religious fanaticism) سے خالی ہوگا اور اس بنا پر وہ سب سے زیادہ موزوں ملک ہوگا جہاں سے کشتی نوح کا مطلوب رول ادا کیا جاسکے-
یہ مطلوب رول کیا ہے- وہ بلا شبہہ دعوت ہے، یعنی اللہ کے تخلیقی منصوبہ سے تمام مرد اور عورت باخبر ہوجائیں- اِس مقصد کے لئے کشتی نوح ایک تاریخی شہادت (historical evidence) کی حیثیت رکھتی ہے- وہ اُس خدائی منصوبہ کی ایک تاریخی یادگار ہے جس کا ظہور حضرت نوح کے ذریعہ ہوا- کشتی نوح براہِ راست طورپر حضرت نوح کی تاریخ کی مادی شہادت ہے اور بالواسطہ طورپر تمام نبیوں کی تاریخ کی مادی شہادت-
اللہ تعالیٰ کو مطلوب تھاکہ قیامت سے پہلے تمام انسانوں کے سامنے اس بات کا محسوس اعلان ہوجائے کہ انسان کے بارے میں اللہ کا منصوبۂ تخلیق کیا تھا- کشتینوح اس خدائی منصوبہ تخلیق (creation plan of God) کی ایک ناقابلِ انکار شہادت ہے- اور مختلف اسباب سے اِس شہادت کی ادائیگی کے لئے سب سے زیادہ موزوں مقام ترکی تھا-
ضرورت ہےکہ تمام دنیا کے مسلمان عموماً اور ترکی کے مسلمان خصوصاً اس خدائی منصوبے کو سمجھیں اور اس منصوبے کی تکمیل کے لئے وہ سارا اہتمام کریں جو اس کے لئے ضروری ہو- مثال کے طورپر وہ کشتی نوح کے مقام کو ایک اعلیٰ درجہ کے ٹورسٹ اسپاٹ (Tourist Spot) کے طورپر ڈولپ (develop) کریں- وہ وہاں آمد ورفت کی تمام سہولتیں مہیا کریں- پھر وہاںاعلیٰ معیار پر وہ یہ انتظام کریں کہ وہاں تربیت یافتہ افراد موجود ہوں، لائبریری موجود ہو- وہاں قرآن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں برائے ڈسٹری بیوشن یا برائے فروخت موجود ہو- وہاں اِس بات کا اعلیٰ انتظام کیا جائے کہ کشتی نوح کے حوالے سے پیغمبرانہ مشن لوگوں کے سامنے اطمینان بخش صورت میں آسکے- گویا کہ کشتی نوح کے ظہور کا یہ مقام صرف ایک کشتی کے ظہور کا مقام نہ رہے، بلکہ وہ پورے معنوں میں جدید ترین معیار کا ایک دعوتی سنٹر بن جائے-
خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، ہماری زمین کے لئے دو سیلاب مقدر تھا —— ایک، حضرت نوح کے زمانے کا سیلاب اور دوسرا، وہ جو تاریخ بشری کے خاتمے پر پیش آئے گا- کشتی نوح پہلے سیلاب کے لئے تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتی ہے، اور دوسرے سیلاب کے لئے اس کی حیثیت تاریخی ریمائنڈر (historical reminder) کی ہے-
اکیسویں صدی عیسوی کے ربعِ اول میں کشتی نوح (دابہ) کا ظہور گویا اِس بات کی وارننگ ہے کہ لوگو، تیاری کرو، کیوں کہ آخری طوفان کا وقت قریب آگیا ہے-
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس خدائی منصوبے کو سمجھیں اوراس کی تکمیل کرکے اللہ کے یہاں اجرِ عظیم کے مستحق بنیں- حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں سال تک برف کے تودے میں دبے رہنے کے بعد کشتی نوح کا ظاہر ہونا صورِ اسرافیل سے پہلے کے دور کا سب سے بڑا واقعہ ہے- اِس کے بعد اگلا واقعہ صرف صورِ اسرافیل ہوگا جو گویا اِس بات کا آخری اعلان ہوگا کہ عمل کرنے کا وقت ختم ہوچکا اور عمل کا انجام پانے کا دور آگیا-
عالمی دعوت کی پیشین گوئی
ایک روایت کےمطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایبقى على ظہر الأرض بیت مدر ولا وبرإلا أدخلہ اللہ کلمةَ الإسلام، بعزّ عزیز أو ذلّ ذلیل (مسند احمد،رقم الحدیث: 24215) یعنی زمین کے اوپر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا، مگر اللہ وہاں اسلام کا کلمہ داخل کردے گا، عزت والے کو عزت کے ساتھ اور ذلت والے کو ذلت کے ساتھ:
The day will come when the word of God will enter in every home, big or small of the globe, willingly or unwillingly.
اِس حدیث میںیہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ مستقبل میں ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ یہ ممکن ہوجائے کہ خدا کا کلمہ (word of God) زمین پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچ جائے- عالمی دعوت کا یہ واقعہ کوئی پُراسرار واقعہ نہیں ہے- فطرت کے قانون کے مطابق، یہ واقعہ انسانوں کے ذریعہ معروف وسائل کے تحت انجام پائے گا، نہ کہ فرشتوں کے ذریعے یا کسی طلسماتی طریقے کے ذریعے-
اللہ کو جب کوئی کام مطلوب ہوتا ہے تو اُس کی طرف سے موافق حالات فراہم کئے جاتے ہیں، مگر کوئی اعلان نہیں کیا جاتا - یہ انسان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے فطرت کے اشارے کو سمجھے اور اس کو مطلوب مقصد کے لیے استعمال کرے- اس کی ایک مثال بارش کا معاملہ ہے- بارش اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، لیکن یہ کسان کا کام ہے کہ وہ بارش کے خاموش پیغام کو سنے اور اس کو زراعت کے لیے استعمال کرے-
یہی معاملہ دعوت کا ہے- موجودہ زمانہ بالکل نیا زمانہ ہے- اِس زمانے میں بہت سی ایسی چیزیں وجود میں آئی ہیں جو انتہائی حد تک دعوت الی اللہ کے لیے موافق ہیں- مثلاً مذہبی آزادی، پرنٹنگ پریس، سیاحت اور دوسرے مقاصد کے تحت انسانوں کی عالمی حمل ونقل، جدید کمیونکیشن، پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے ذرائع، اسفار کی سہولتیں، وغیرہ-
اِس قسم کے واقعات خاموش زبان میں اعلان کررہے ہیں کہ اللہ کے ماننے والو، اٹھو، حدیث میں جس عالمی دعوت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، اس کے مواقع آخری حد تک کھل چکے ہیں- اِن مواقع کو استعمال کرو- اِن مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کے پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچادو، تاکہ زمین پر بسنے والا کوئی بھی مرد یا عورت اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) سے بے خبر نہ رہے-
قدیم زمانے میں کوئی بڑا کام حکومت کی حمایت کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، کیوں کہ تمام مواقع حکومت کے قبضے میں ہوتے تھے- موجودہ زمانے میں یہ ہوا ہے کہ مواقع (opportunities) کو سیاسی اقتدار سے الگ کردیاگیا ہے-
قدیم زمانہ اگر حکومت کا زمانہ تھا تو موجودہ زمانہ اداروں (institutions) اور آرگنائزیشن (organizations) کا زمانہ ہے- اب اداروں اور تنظیموں کے ذریعے زیادہ بڑے پیمانے پر وہ سب کیا جاسکتا ہے جو حکومت کے ذریعےصرف جزئی طورپر متوقّع ہوتا تھا- اِسی طرح آج یہ ممکن ہوگیا ہے کہ قدیم پولٹکل ایمپائر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر دعوہ ایمپائر قائم کیاجائے-قدیم حالات میں پولٹکل ایمپائر صرف محدود جغرافی علاقہ میں قائم ہوسکتا تھا- جدید حالات میں ای ایمپائر (e-empire) کسی رکاوٹ کے بغیر پورے کرہ ارض کی سطح پر قائم کیا جاسکتا ہے- یہ عالمی امکانات بلاشبہہ صرف دعوت الی اللہ کے لئے پیدا کئے گئے ہیں-
امت محمدی کا مشن
امت محمدی کا مشن کیا ہے۔ وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے — پیغام محمدی کو ہر زمانہ میں اور ہرقوم میں پہنچاتے رہنا۔ نسل درنسل اس کو جاری رکھنا، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔یہی امتِ محمدی کا واحد مشن ہے۔ یہی امت محمدی کا اصل فریضہ ہے۔
امتِ محمدی کی دنیا وآخرت کی سعادت اسی دعوتی مشن کی انجام دہی پر منحصر ہے۔اِس کے سوا کوئی اور کام ان کو فلاح و سعادت سے ہم کنار کرنے والا نہیں، نہ موجودہ دنیا میں اور نہ آخرت کی دنیا میں۔
حضرت نوح کی اہمیت
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی کشتی کو آیت (sign) کا درجہ دے دیا: ولقد ترکناہا اٰیةً فہل من مدکر( 15: 54 ) یعنی ہم نے کشتی کو ایک نشانی کے طورپر باقی رکھا، تو کیا ہے کوئی نصیحت لینے والا-
اِس تذکیری مقصد کے اعتبار سے حضرت نوح کا انتخاب سب سے زیادہ موزوں انتخاب ہے- حضرت نوح قبل تاریخ دور میں پیدا ہوئے، اِس لئے ہزاروں سال تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ خالص تاریخی اعتبار سے حضرت نوح کاکوئی وجود نہیں-
ایسی حالت میں بائبل اور قرآن میں حضرت نوح اور ان کی کشتی کا ذکر کوئی سادہ بات نہ تھی- اِس کی حیثیت نامعلوم تاریخ کے بارے میں ایک پیشین گوئی (prediction) کی تھی-
اِس اعتبار سے دیکھئے تو کشتی اور طوفانِ نوح کا بطور ایک تاریخی واقعہ دریافت ہونا بے حد اہم ہے- وہ ثابت کرتا ہے کہ انسانی زندگی کی نوعیت کے بارے میں قرآن کا بیان بالکل درست ہے- پیغمبروں نے جس آخرت اور اس کے محاسبہ کی خبر دی تھی، وہ بالکل صحیح خبر تھی- دابہ کا ظہور گویا اِسی حقیقت کا ایک خاموش اعلان ہے-
اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان بیدار ہو- وہ دابہ کی خاموش آواز کو سنے، وہ قرآن کا دوبارہ مطالعہ کرے- وہ خدا کے تخلیقی نقشہ(creation plan of God) کو سامنے رکھ کر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے- شواہد بتاتے ہیں کہ انسانی تاریخ بظاہر اپنے خاتمہ کے دور میں پہنچ چکی ہے-
اب اپنی اصلاح کے لیے انسان کے پاس بہت کم وقت باقی رہ گیا ہے- لوگوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اُس وقت کی تیاری کریں جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: فإذا جاء أجلہم لا یستأخرون ساعةً ولا یستقدمون ( 34: 7 ) یعنی جب اُن کا وقت آجائے گا تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے-
آخرت کا اعلان
خدا نے موجودہ زمین (planet earth) کو انسان کے عارضی قیام کے لئے بنایا ہے- اس کی ایک مدت مقرر ہے-زمین کا لائف سپورٹ سسٹم (life support system) بھی اِسی محدود مدت کے اعتبار سے بنایا گیاہے-
خدا کے علم کے مطابق، جب یہ محدود مدت پوری ہوگی تو اس کے فوراً بعد صور پھونک دیا جائے گاجو اِس بات کا اعلان ہوگا کہ انسانی تاریخ کا پہلا دور ختم ہوچکا، اب وہ وقت آگیا ہے، جب کہ انسان کے لئے دوسرے دورِ تاریخ کا آغاز کردیا جائے-
منصوبہ خداوندی کے مطابق، اس کے بعد اِس دنیا کو توڑ کر ایک اور زیادہ بہتر دنیا بنائی جائے گی- اِس دوسری دنیا میں صرف وہ لوگ جگہ پائیں گے جو موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو اس کا مستحق امیدوار (deserving candidate) ثابت کرچکے ـتھے-
خدا کو یہ مطلوب ہے کہ صور پھونکے جانے سے پہلے کچھ ایسی نشانیاں ظاہر ہوں جو پیشگی طور پر انسان کو یہ خبر دیں کہ موجودہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور دوسری دنیا شروع ہونے والی ہے- تم اپنی غلطیوں کی اصلاح کرلو اور اگلی دنیا میں داخل ہونے کے لئے تیار ہوجاؤ-
اس مقصد کے لئے خدا نے پیشگی طورپر الارم (alarm) دینے کا جو انتظام کیا ہے، اس کو ویک اَپ کال (wake-up call) کہہ سکتے ہیں-اِس الارم یا ویک اَپ کال کی دو خاص نشانیاں ہیں — ایک، فطرت میں ، اور دوسری تاریخ میں- حالات بتاتے ہیں کہ دونوں قسم کے الارم بج چکے- اگرچہ اس کو سننا صرف اُن لوگوں کے لئے ممکن ہے جو خاموش آواز کو سننے کی صلاحیت رکھتے ہوں-
فطرت کے الارم کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ ہماری زمین میں زندگی کے جو وسائل (resources) رکھے گئے تھے، وہ نہایت تیزی سے ختم ہورہے ہیں- یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ وسائل اب بظاہر خاتمہ کی آخری حد پر پہنچ چکے ہیں- یہ بات قرآن میں پیشگی طور پربتادی گئی تھی کہ دنیا میں جو وسائلِ حیات ہیں، وہ محدود ہیں، نہ کہ لامحدود ( 15:21 )-
موجود زمانے میں جس طرح ہر چیز تحقیق (research) کاموضوع بنی ہوئی ہے، اسی طرح فطرت کے وسائل (natural resurces) پر بھی بڑے پیمانے پر رسرچ ہورہی ہے- اس سلسلے میں کافی میٹریل چھپ کر سامنے آچکا ہے- یہاں ہم اِس نوعیت کی چند کتابوں کا حوالہ درج کرتے ہیں:
1. The Limits to Growth by Donella H. Meadows, Dennis L. Meadows, Jorgen Randers Universe Books, 1972, pp. 205 , Printed in the USA
2. The End of Nature by Bill Mc Kibben, Anchor, 1989, pp. 195 , printed in the USA
3. Beyond the Limits Donella Meadows, Dennis Meadows, Jorrgen Randers, Chelsea Green, 1992, Pages 320, Printed in the USA
مذکورہ بالا کتابیں اوراس طرح کی دوسری کتابیں بتاتی ہے کہ فطرت (nature) کے وسائل ابتدا ہی سے محدود ہیں- انسان نے، خاص طورپر موجودہ ترقی کے زمانے میں، ان وسائل کا لامحدود استعمال کیا، جس کا تحمل ہماری محدود دنیا نہیں کرسکتی تھی- اب یہ وسائل اتنا زیادہ کم ہوچکے ہیں کہ ہر طرف سسٹینیبل ڈیولپمینٹ (sustainable development) کی باتیں ہو رہی ہیں- مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سسٹینیبل ڈولپمنٹ کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ وسائل کے خاتمہ کا معاملہ ہے-
وسائل کا یہ خاتمہ اتنا زیادہ حتمی بن چکا ہے کہ بعض سائنس دانوں مثلاً اسٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking) نے یہ تجویز کیاہے کہ انسانی نسل کو اگر باقی رکھنا ہے تو ہم کو خلائی بستیاں (space colonies) بنانا چاہیے- مگر ظاہر ہے کہ یہ صرف ایک سائنٹفک جوک (scientific joke) ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی قابلِ عمل تجویز-
قیامت کے الارم کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کو تاریخی پہلو کہا جاسکتا ہے- اس تاریخی پہلو کی غالباً سب سے زیادہ نمایاں مثال نوح کی کشتی (Ark of Noah) کا ظہور ہے- کشتی نوح کے ظہور کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے- وہ تاریخی شہادت (historical evidence) کی زبان میں پیغمبرانہ مشن کا ایک علامتی بیان ہے-
کشتی نوح یا دابّہ گویا زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت نوح اور اسی طرح خداکے دوسرے بہت سے پیغمبر دنیا میں آئے، لیکن انسان نے ان کو اتنا زیادہ نظر انداز کیا کہ اپنی مدوّن تاریخ (recoded history) میں ان کا اندراج تک نہیں کیا-
یہ کشتی نوح یا دابّہ اُس تاریخ کو بیان کررہے ہیں جب کہ پیغمبر نے اپنے زمانے کے انسانوں کو آگاہ کیا کہ اگر انھوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی تو وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے، اور اب یہ واقعہ عملاً پیش آگیا-حقیقت یہ ہےکہ کشتی نوح یا دابّہ خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کا علامتی اظہار ہیں- وہ خداکے تخلیقی منصوبے کے بارے میں ایک زندہ شہادت (living evidence) کی حیثیت رکھتے ہیں-
محاسبہٴ آخرت کا اعلان
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول میں اترا- اُس وقت کشتی نوح کا ماضی بھی لامعلوم تھا اور اس کا مستقبل بھی لامعلوم- نزولِ قرآن کی ہزار سال سے بھی زیادہ مدت گزرنے کے بعد کشتی نوح کے ماضی کے بارے میں قرآن کا بیان کامل طورپر درست ثابت ہوا-
اِسی طرح یقینی ہے کہ کشتی نوح کے مستقبل کے بارے میں قرآن کا بیان کامل طورپر درست ثابت ہوگا- ماضی کے بارے میں قرآن کے بیان کا درست ثابت ہونا اپنے آپ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل کے بارےمیں بھی اُس کا بیان درست ثابت ہو- ایک پہلو سے قرآن کی اعتباریت (credibility) ثابت ہونے کے بعد دوسرے پہلو سے قرآن کی اعتباریت اپنے آپ درست ثابت ہوجاتی ہے-
حقیقت یہ ہے کہ کشتی نوح کا ظہور علامتی طورپر ایک پوری تاریخ کا ظہور ہے، یہ خدا کے تخلیقی منصوبہ اور اس کے مطابق پیغمبرانہ مشن کی صداقت کا مستند اعلان ہے- کشی نوح کا ظہور انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ — اے لوگو، محاسبہ کا وقت بہت قریب آچکا- خدا کے سامنے پیش ہونے کی تیاری کرو، اِس سے پہلے کہ تم کو خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے کھڑا کردیا جائے-
کشتی نوح کا ظہور سادہ طورپر صرف آرکیالوجی (archaeology) کا ایک آئٹم نہیں ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کا ایک ناگزیر حصہ ہے- کشتی نوح علامتی طورپر بتاتی ہے کہ پیدا کرنے والے نے انسان کو کس مقصد کے تحت پیدا کیا ہے، اور اِس مقصد کے تحت آخر کار اس کے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ ہونے والا ہے-
خلاصہٴ کلام
انسان کی تاریخ حضرت آدم سے شروع ہوتی ہے- اِس کے بعد ایک لمبا دور ہے جب کہ خدا کے منتخب بندے اٹھے- انھوں نے پیغمبر کی حیثیت سے لوگوں کو بتایا کہ تخلیق کے بارے میں خالق کا نقشہ کیا ہے- انسان کا خالق انسان سے کیا چاہتا ہے اورآخر کار انسان کا انجام کیا ہونے والا ہے- دعوت یا اعلان کا یہ کام لمبی مدت تک جاری رہا-
اِس کے بعد دوسرا دور وہ ہے جس کو انتباہ (alarm) کا دورکہا جاسکتا ہے، یعنی آنے والے وقت سے پیشگی طورپر لوگوں کو باخبر کرنا- انتباہ کا یہ کام کشتی نوح کے ظہور ِ ثانی یا دابہ کے حوالے سے انجام پانا تھا- بظاہر انتباہ کا یہ کام ہوچکا اور اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب کہ قبل از قیامت دور ختم ہو اور انسانی تاریخ اپنے خاتمہ (end) تک پہنچ جائے-
اِس کے بعد تیسرا دور شروع ہوگا جس کا آغاز صورِ اسرافیل سے ہوگا- اسلامی عقیدے کی رُو سے جب وہ وقت آجائے گا کہ اللہ کے علم کے مطابق، عمل کی مہلت ختم ہو گئی اور انجام کا دور آگیا، اُس وقت فرشتہ اسرافیل صور پھونکے گا اور پھر اچانک انسانی زندگی کا آخری اور ابدی دور شروع ہوجائے گا جس کی خبر تمام پیغمبروںنے دی تھی-
واپس اوپر جائیں