صبح ِکشمیر
1917 میں روس میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد اِس کمیونسٹ حکومت نے مسلسل یہ کوشش شروع کی کہ وہ اطراف کے علاقوں میں کمیون ازم کو برآمد (export) کرے۔ اِنھیں میں سے ایک نشانہ تاشقند کا ملک تھا جس کا دار السلطنت سمر قند تھا۔ اُس زمانے میں ایک کمیونسٹ رائٹر نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی تھی، جو ’’صبح سمر قند‘‘ کے نام سے شائع ہوئی:
Joshua Kunitz, Dawn Over Samarkand, 1935, 350 pages, The Van Rees Press, New York
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کشمیر میں اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ اِس دور کو درست طور پر ’’صبح کشمیر‘‘ (Dawn Over Kashmir) کہا جاسکتا ہے۔ کشمیر میں یہ دور کسی خارجی سبب سے نہیں، بلکہ خود اہلِ کشمیر کے اندر ابھرنے والی نئی سوچ کے زیر اثر وجود میںآیا ہے۔ اکتوبر 1989میں کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی۔ اُس کے بعد کشمیر میں جو تباہی پیش آئی، اس کے حوالے سے وہاں ایک کتاب شائع کی گئی تھی۔ اِس کتاب کا نام ’’زخمی کشمیر‘‘ (Wounded Kashmir) تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہاں ایک نئی کتاب چھاپی جائے، جس کا نام صحت مند کشمیر (Healthy Kashmir) ہو۔ الرسالہ کا زیر نظر شمارہ، گویا کہ کشمیر کے اِسی نئے صحت مند دور کا ترجمان ہے۔
فطرت کا قانون اور تاریخ کا تجربہ دونوں یہ بتاتے ہیں کہ خدا کی اِس دنیا میں تخریبی آغاز کی ایک حد (end) ہے، لیکن اِس دنیا میں تعمیری آغاز کی کوئی حد نہیں۔ 1947میں تقسیم ہند کے بعد کچھ ناعاقبت اندیش لیڈروں نے خود ساختہ تصورِ جہاد کے تحت کشمیر میں تخریبی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ قانونِ فطرت کے تحت اب اِس تخریبی جدوجہد کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اب کشمیر میں، کشمیر کی تاریخ کا نیا سفر شروع ہوچکا ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت لازماً یہ واقعہ پیش آنا ہے کہ یہ تعمیری سفر مسلسل جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری منزل پر پہنچ جائے۔
تخریب کے بعد تعمیر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنا دعوتی مشن شروع کیا۔ مکہ میں آپ کے مشن کو سخت مزاحمت کا سامنا پیش آیا۔ حالات کے تقاضے کے تحت 622 عیسوی میں آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مکہ کے برعکس، مدینہ میں آپ کو نہایت موافق حالات ملے۔ مدینہ میں کسی رکاوٹ کے بغیر اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ مدینہ میں ایسا کیوں ہوا، اِس کا جواب حضرت عائشہ کی ایک روایت میں ملتا ہے: کان یوم بُعاث یوماً قدّمہُ اللہ لرسولہ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3777) یعنی جنگ بُعاث، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لیے ایک خدائی رحمت کی حیثیت رکھتی تھی:
The battle of Bu’ath was a blessing in disguise for the Prophet of Islam.
مدینہ (یثرب) میں دو بڑے قبیلے تھے — اَوس اور خزرج۔ قبائلی مزاج کے مطابق، اِن دونوں کے درمیان اکثر ٹکراؤ ہوتا رہتا تھا۔ ہجرت کے پانچ سال پہلے دونوں قبیلوں کے درمیان ایک خوں ریز جنگ ہوئی۔ اِس جنگ کو ’’جنگِ بُعاث‘‘ کہا جاتا ہے۔
اِس جنگ میں دونوں قبیلوں کے افراد بڑی تعداد میں مارے گئے۔ اِس کے بعد اہلِ یثرب کے اندر سکنڈ تھاٹ (second thought) پیدا ہوا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ سمجھنے لگے کہ اُنھیں با عزت زندگی حاصل کرنے کے لیے تشدد پرمبنی آئڈیالوجی کے بجائے، امن پر مبنی آئڈیالوجی درکار ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کہ اسلام کی دعوت مدینہ پہنچی اور وہ تیزی سے لوگوں کے دلوں میں داخل ہوگئی۔
تقریباً یہی صورتِ حال ریاست جموں وکشمیر میں پیش آئی ہے۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد اِس ریاست میں جلسوں اور مظاہروں کی صورت میں ’’جہادِ کشمیر‘‘ شروع ہوا۔ ایک عرصے کے بعد اِس تحریک نے تشدد کی صورت اختیار کرلی۔ ایک طرف، کشمیری مجاہدین تھے اور دوسری طرف، انڈین آرمی۔ یہ ایک نامساوی تصادم تھا۔ چناں چہ فطری طور پر ایسا ہوا کہ کشمیر کے لوگ بڑی تعداد میں مارے گئے۔ مسلح تصادم کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے، اُس نے کشمیر کو ہر پہلو سے شدید نقصان پہنچایا۔ تعلیم اور سیاحت اور اقتصادیات اور دوسرے سماجی ادارے ناقابلِ تلافی حد تک تباہ ہوگئے۔
اِس صورت حال کو دیکھ کر اہلِ کشمیر کا ضمیر جاگ اٹھا۔ اُن کے اندر بڑے پیمانے پر نظر ثانی (rethinking) کا عمل جاری ہوگیا۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اب اہلِ کشمیر نے مسلح ٹکراؤ کو چھوڑ دیا، اور انھوں نے پُرامن دعوت کا طریقہ اختیار کرلیا۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں قدیم طرز کی ملٹنسی (militancy) تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اب اہلِ کشمیر، ون مین ٹو مشن (one man, two mission) کا کلچر اختیار کررہے ہیں۔ ایک طرف، وہ تعلیم اور تجارت جیسے شعبوں میںاپنا مستقبل تلاش کررہے ہیں، اور دوسری طرف، وہ پرامن دعوت کو اپنا دینی فرض سمجھ کر دعوت الی اللہ کا کام کررہے ہیں۔
پیغمبرانہ ماڈل
حضرت یوسف ایک اسرائیلی پیغمبر تھے۔ اُن کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ وہ کنعان (فلسطین) میں پیدا ہوئے، پھر مخصوص حالات کے تحت وہ مصر پہنچے۔ یہاں اُس وقت ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ حضرت یوسف کے اِس قصے کو قرآن میںاحسن القصص (best story) کہا گیا ہے۔ اِسی طرح، حضرت محمد ایک اسماعیلی پیغمبر تھے۔ ان کا زمانہ تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ آپ کے زمانے میں ایک مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کو اسلام کی تاریخ میں صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ قرآن میں اِس واقعہ کو فتح مبین ( 48: 1 ) کہاگیا ہے۔
یہ دونوں واقعات دو پیغمبروں کے نمونے ہیں۔ اِن دونوں واقعات سے مشترک طورپر معلوم ہوتاہے کہ زندگی کی جدوجہد کا کامیاب فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا یہ ہے — سیاسی معاملے میں یک طرفہ صلح، اور دعوت کے میدان میں پُرامن جدوجہد:
Political statusquoism, Dawah activism
حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ بادشاہ نے حضرت یوسف کو یہ پیش کش کی کہ وہ بادشاہ کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے انتظام (administration) کا عہدہ قبول کرلیں۔ قرآن میں اِس کے لیے دینِ ملِک ( 12:76 ) کے الفاظ آئے ہیں، اور بائبل میں اس کی بابت یہ الفاظ ہیں: سو تو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے، میں بزرگ تر ہوںگا:
You shall be over my house, and all my people shall be ruled according to your word; only in regard to the throne, will I be greater than you. (Genesis, 41: 40 )
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ میں 610 عیسوی میںہوئی۔ اُس زمانے میں قریش کو عرب میں قیادت کا مقام حاصل تھا۔ پیغمبر اسلام نے قریش سے امن کا معاہدہ کیا، جو اسلام کی تاریخ میں، معاہدۂ حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ اِس معاہدے کے تحت، پیغمبر اسلام نے قریش کی قائدانہ حیثیت کو تسلیم کرلیا، اور قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مانتے ہوئے آپ نے اُن سے 10 سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) کرلیا۔ اِس معاہدے کے مطابق، قریش کی قائدانہ حیثیت برقرار رہی، اور آپ کو پرامن دعوت کے لیے کھلے مواقع مل گئے۔
یہی اجتماعی کام کا پیغمبرانہ ماڈل ہے۔ اہلِ کشمیر اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو اِسی پیغمبرانہ ماڈل کی پیروی کرنی ہے۔ یہی واحد ماڈل ہے جس کی پیروی کرکے مسلمان دنیا میں عزت اور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اِس کے سوا کوئی دوسرا ماڈل اِس دنیا میں قابلِ عمل نہیں۔
اِس کے مطابق، اہلِ کشمیر اور دنیا کے تمام مسلمانوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ نفرت اور تشدد کا طریقہ مکمل طورپر چھوڑدیں۔ وہ مسلح جدوجہد (armed struggle) کے لفظ کو اپنی ڈکشنری سے ہمیشہ کے لیے نکال دیں۔ وہ نفرت پر مبنی لٹریچر کو جلا دیں، وہ ٹکراؤ کی سیاست کو کامل طورپر چھوڑ دیں، وہ اپنے تمام ہتھیاروں کو ہمیشہ کے لیے دریا میں پھینک دیں، وہ دوسرے انسانوں کے حریف (rival) بننے کے بجائے، دوسرے انسانوں کے خیر خواہ (well-wisher) بن جائیں، وہ دل سے انسان دوست کلچر (human-friendly culture) کو اختیار کرلیں، ایسا کرنا اپنی خواہش پر چلنے کے بجائے، خدا کی صراطِ مستقیم پر چلناہوگا، اور جو لوگ اپنی خواہش کا اتباع چھوڑ دیںاور وہ خدا کی صراطِ مستقیم کے پیرو بن جائیں، وہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا کی سعادت بھی مقدر ہے اور آخرت کی سعادت بھی۔
سنتِ رسول کے خلاف
1947 کے بعد کشمیر میں پُرشور کشمیری جدوجہد شروع ہوئی۔ ابتداء ً وہ جلسہ جلوس اور پرامن مظاہرہ کی شکل میں تھی، مگر اِن کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اِس کے بعد کشمیریوں میں تشدد کا مزاج پیدا ہوگیا۔ اکتوبر 1989 میں کشمیریوں نے پرامن طریقِ کار کو چھوڑ کر مسلح طریقِ کار کا راستہ اختیار کرلیا۔ اب ہر طرف گن کلچر اور بم کلچر نظر آنے لگا۔
کشمیری تحریک کے اِس نئے موڑ سے صرف چند ماہ پہلے میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں 29 جون 1989 کو سری نگر کے ٹیگور ہال میں میری ایک تقریر ہوئی۔ اِس تقریر کا آڈیو کیسٹ اب بھی موجود ہے۔ اِس تقریر میں، میں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کیا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک عرب بدو مدینہ آیا۔ وہاں اس نے مسجد نبوی کو گندا کردیا۔ صحابہ نے اس کو پکڑ کر اس کی سرزنش کرنا چاہا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس سے منع کردیا۔ آپ نے کہا کہ جہاں اس نے گندا کیا ہے، وہاں تم پانی بہا کر اس کو صاف کردو (صحیح البخاری ، رقم الحدیث: 5679 )۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس سلوک کا عرب بدو پر بہت زیادہ اثر ہوا۔ اِس کے بعد اس نے اپنے قبیلے میں جاکر لوگوں کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا تو اس کا قبیلہ اتنا متاثر ہوا کہ جلد ہی پورا قبیلہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ اِس واقعے کو بیان کرنے کے بعد میں نے کہا کہ یہ پیغمبر اسلام کا طریقہ ہے۔ پیغمبر اسلام نے اپنا مقصد پانی بہا کر حاصل کیا تھا، آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ اپنا مقصد خون بہا کر حاصل کریں۔ ایسا ہونا خدا کی اِس دنیا میں کبھی ممکن نہیں۔
بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ 29 جون 1989 کو اللہ کی توفیق سے جو الفاظ میں نے کہے تھے، وہ کشمیر میں ایک واقعہ بن گئے۔ کشمیریوں کی مسلح جدوجہد سے صرف اُن کے نقصان میں اضافہ ہوا، اس سے ان کو کوئی مثبت فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ کشمیر کے مسلمان یوٹرن (U-turn) لیں، وہ پرتشدد قومی جدوجہد کے بجائے پر امن دعوتی جدوجہد کو اپنا نشانہ بنائیں۔
تاریخ کو انتظار ہے
قرآن کی سورہ یونس میں یہ آیت آئی ہے: واللہ یدعوا إلی دار السلام ( 10:25 ) یعنی اللہ بلاتا ہے امن کے گھر کی طرف(And God calls to the home of peace.)
اِسی طرح، قرآن کی سورہ آل عمران میں یہ آیت آئی ہے: أفغیردین اللہ یبغون، ولہ أسلم مَن فی السماوات والأرض طوعاً وکرہاً، وإلیہ یُرجعون ( 3: 83 ) یعنی کیا وہ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالاں کہ اللہ کے دین کے تابع ہے، وہ سب کچھ جو زمین اور آسمان میں ہے، اور سب کو اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا مطلوب دین امن کا دین ہے۔ ستاروں اور سیاروں کی دنیا میں کامل امن قائم ہے۔ اِسی طرح، نباتات اور حیوانات کی دنیا میں بھی امن کا کلچر موجودہے۔ یہی امن کا کلچر انسان سے بھی مطلوب ہے۔ اسلام کا مدعا یہ ہے کہ لوگ اِس امن کلچر پر قائم ہوں، کیوں کہ تمام مثبت سرگرمیاں اُسی سماج میں کامیابی کے ساتھ جاری ہوتی ہیں جہاں امن کا ماحول قائم ہو۔موجودہ زمانے میں ایک طرف، عالمی میڈیا کا دور آیا۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ عین اِسی زمانے میں ساری دنیا کے مسلمان جہاد کے نام پر مسلح جدوجہد (armed struggle) میںمشغول ہوگئے۔ اِن سرگرمیوں کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ ساری دنیا میں اسلام، تشدد کا مذہب (violent religion) سمجھا جانے لگا۔
یہ بے حد سنگین صورتِ حال ہے۔ اِس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اسلام کی اِس منفی تصویر (negative image) کو بدلا جائے۔ عالمی میڈیا کو امیج بلڈنگ (image building) کا ذریعہ بنایا جائے، یعنی اسلام کو اِس حیثیت سے نمایاں کیا جائے کہ وہ لوگوں کو مذہبِ تشدد (religion of violence) کے بجائے، مذہبِ امن (religion of peace) نظر آنے لگے۔
اب آخری وقت آگیا ہے کہ مسلمانو ں میں کم از کم کوئی ایک گروہ ایسا اٹھے جو اسلام کی متشددانہ تصویر کو بدلے، جو اِس بات کا ذریعہ بنے کہ خدا کا دین لوگوں کو امن اور رحمت کا دین دکھائی دینے لگے، جو اب تک لوگوں کو صرف نفرت اور تشدد کا دین نظر آرہا ہے۔ یہ موجودہ زمانے کی ایک عظیم ترین سعادت ہے۔ جو مسلم گروہ اِس سعادت کا حق دار بنے گا، وہ بلاشبہہ دنیا اور آخرت میں اللہ کے عظیم انعامات کا مستحق قرار پائے گا۔اِس مقصد کو کوئی ایسا مسلم علاقہ انجام دے سکتا ہے جو بر وقت عالمی میڈیا میں آچکا ہو۔ موجودہ زمانے میں کئی ایسے مسلم علاقے ہیں جو عملاً عالمی میڈیا میں آچکے ہیں۔ لیکن حالات بتاتے ہیں کہغالباً صرف ایک مسلم علاقہ ہے جو اِس واقعے کو ظہورمیں لاسکتاہے۔
راقم الحروف کے اندازے کے مطابق، یہ علاقہ ریاست جموں وکشمیر ہے۔ مختلف اسباب سے یہ علاقہ بالفعل عالمی میڈیا میں آچکا ہے۔ مگر ابھی وہ متشددانہ اسلام (violent Islam) کے اعتبار سے، عالمی میڈیا میں ہے۔ اب جو کچھ کرنا ہے، وہ صرف یہ کہ اہلِ کشمیر اپنی اِس حیثیت کو دریافت کریں اور اس کو مثبت معنوں میں وہ اسلام کی امیج بلڈنگ کے لیے استعمال کریں۔
یہ عظیم سعادت اہلِ کشمیر کو اُس وقت حاصل ہوگی، جب کہ وہ اپنے ہتھیاروں کو دریا میں پھینک دیں، اور اعلان کے ساتھ دنیا کو یہ بتادیں کہ اب انھوں نے متشددانہ کلچر کو چھوڑ دیا ہے۔ اب انھوںنے سوچ سمجھ کر پُرامن طریقہ اختیار کرلیاہے، جو کہ اصل اسلام کا طریقہ ہے۔ اہلِ کشمیر کا یہ فیصلہ فی الفور عالمی میڈیا کے لیے ایک بریکنگ نیوز (breaking news) بن جائے گا۔ یہ ایک عظیم کریڈٹ ہے جو کسی مستحق گروہ کا انتظار کررہا ہے، اور اہلِ کشمیر بلا شبہہ یہی گروہ بن کر اِس کریڈٹ کا استحقاق حاصل کرسکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ( 632 ء) کے بعد وہ حالات پیدا ہوگئے۔ جب کہ عرب میں اسلام کی امیج (image) اُس سے مختلف نظر آنے لگی جو کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں تھی۔ اُس وقت حضرت ابو بکر صدیق اٹھے۔ انھوںنے کہا: أینقص الدین، وأنا حیٌّ (ہدایۃ الرُواۃ لابن حجرالعسقلانی، رقم الحدیث:3031 ) کیا دین میں نقص آئے گا، حالاں کہ میں زندہ ہوں۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اور حالات بہت جلد درست ہوگئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اہلِ کشمیر کھڑے ہو کر یہ کہیں کہ— ہم اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتے کہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھا جائے۔ ہم دوبارہ دنیا کو بتائیں گے اسلام رحمت اور امن کا مذہب ہے۔ جس دن اہلِ کشمیر متحد ہو کر یہ کہیں گے، اُسی دن اللہ کی مدد ٹوٹ پڑے گی اور اسلام دوبارہ مذہبِ امن کی حیثیت سے عالمی سطح پر اپنی جگہ حاصل کرلے گا۔
کشمیر دھماکہ(Kashmir explosion)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 622 عیسوی میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت سے پہلے آپ نے فرمایا تھا کہ: أمرت بقریۃ تأکل القری، یقولون یثرب، وہی المدینۃ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1748)یعنی مجھ کو ایک ایسی بستی کا حکم دیا گیاہے جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی۔ لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ مدینہ کے لیے اللہ نے مقدر کیا تھا کہ وہ دعوتِ توحید کے لیے فلیش پوائنٹ (flash-point) بنے۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا، مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد توحید کا دین (اسلام) بہت جلد ایک عالمی دین بن گیا۔
موجودہ زمانے میں اسلام کی تصویر(image) ایک متشددانہ مذہب کی بن گئی ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں، اسلام کی یہی منفی تصویر ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اب اکیسویں صدی میںآخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ اسلام کی پرامن تصویر دنیا کے سامنے آئے۔میڈیا کے دور میں اِس مقصد کے لیے ایک بریکنگ نیوز (breaking news) درکار ہے۔ سپربریکنگ نیوز ہی اکیسویں صدی میں، اسلام کو دوبارہ ایک پر امن مذہب کی صورت میں دنیا کے سامنے نمایاں کرسکتی ہے۔
غور کیا جائے تو آج کی دنیا میں کشمیر وہ واحد مقام ہے جہاں سے اِس بریکنگ نیوز کا آغاز ہوسکتا ہے۔ پچھلے برسوں میں کشمیر میں اسلام کے نام پر متشددانہ تحریک چلی، تاہم اس کا ایک مثبت پہلو ہے۔ اس کی وجہ سے یہ ہوا کہ میڈیا کے دور میں کشمیر عالمی نیوز میں آگیا۔ اب اگر کشمیر میں پُر امن اسلام کی دعوت ابھرے تو اچانک یہ ہوگا کہ کشمیر عالمی میڈیا کے لیے ایک بریکنگ نیوز بن جائے گا۔ کشمیر وہ مقامِ تعارف بن جائے گا جہاں سے دنیا کو اِس واقعہ کی خبر ملے کہ اسلام امن کا مذہب ہے، وہ تشدد کا مذہب نہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ کشمیر کے لیے اِس کریڈٹ کا ملنا مقدر ہوچکا ہے۔ آج اسلام کو ایک پُر امن دھماکہ (peaceful explosion) کی ضرورت ہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ غالباً کشمیروہ مقام ہے جس کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں اسلام کے اِس پر امن دھماکے کا مقام بنے۔ یہ بلاشبہہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کا تاریخ کو آج سب سے زیادہ انتظار ہے۔
امن کی اہمیت
قرآن کی سورہ النساء میں ارشاد ہوا ہے: الصلح خیر ( 4: 128 ) یعنی صلح زیادہ بہتر ہے۔ صلح کیا ہے، صلح دراصل امن کے نتیجے کا دوسرا نام ہے۔ جہاں صلح ہے، وہاں امن ہے اور جہاں صلح نہیں، وہاں امن بھی نہیں۔ اِس اعتبار سے، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام میں امن کو خیر اعلیٰ کا درجہ حاصل ہے۔
عام طورپر لوگ انصاف(justice) کو بڑی چیز سمجھتے ہیں، مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ انصاف کی حیثیت صرف ایک تصوراتی معیار کی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ تصوراتی معیار عملاً کس طرح حاصل ہو۔ اِس کا جواب صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ امن کے ذریعے۔ امن کا یہ فائدہ ہے کہ اس کے ذریعے مواقع کھلتے ہیں۔ انصاف کسی کو خود بخود نہیں ملتا۔ انصاف کسی گروہ کو صرف اُس وقت ملتاہے، جب کہ وہ مواقع کو پہچانے اور اس کو دانش مندانہ طور پر استعمال (avail) کرے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے مقامات ہیں جہاں لوگ انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر اِن میں سے ہر ایک اپنا مطلوب انصاف پانے میں ناکام ہے۔ اِس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے طریقِ کار(method) کی غلطی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں ساری اہمیت طریقِ کار کی ہے۔ کوئی صحیح مقصد بھی غلط طریقِ کار کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اصول اتنا زیادہ عام ہے کہ اس میں اہلِ کشمیر یا کسی غیر اہلِ کشمیر کا کوئی استثنا (exception) نہیں۔
کوئی گروہ جو انصاف کا طالب ہو، اُس کو سب سے پہلے اپنے یہاں امن قائم کرنا چاہیے۔ امن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اُس کو ہر حال میں قائم کرنا ضروری ہے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت دینی پڑے۔امن کبھی دو طرفہ بنیاد پر قائم نہیں ہوتا، امن ہمیشہ یک طرفہ صبر کی بنیاد پر قائم ہوتاہے۔ اِس کے سوا، امن کے قیام کا کوئی اور طریقہ نہیں۔
فطرت کا نظام، مواقع (opportunities) پر مبنی ہے۔ فطرت کے نظام کے تحت ہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ مواقع وافر مقدار میں موجود رہتے ہیں۔ نفرت اور تشدد کا ماحول اِن فطری مواقع کے لیے ٹریپ ڈور (trap door) کی حیثیت رکھتا ہے۔ فطرت کا تقاضا ہے کہ آدمی سب سے پہلے نفرت اور تشدد کے ٹریپ ڈور کو ہٹائے۔ اِس ٹریپ ڈور کے ہٹتے ہی مواقع ایک سیلاب کی طرح امڈ پڑتے ہیں۔ یہ مواقع اپنی نوعیت کے اعتبار سے، سیکولر بھی ہوتے ہیں اور دینی بھی۔
مواقع کا سیکولر استعمال یہ ہے کہ لوگ تعلیم اور اقتصادیات جیسے تعمیری شعبوں میںسرگرم ہوجائیں اور کھلے ہوئے مواقع کو استعمال کرکے وہ ہر قسم کی ترقیاں حاصل کریں۔ مواقع کا دینی استعمال یہ ہے کہ اہلِ ایمان اِن مواقع کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال کریں، وہ دعوت کے مشن میں سرگرم ہو کر اپنے آپ کو اعلیٰ خدائی انعامات کا مستحق بنائیں— اس معاملے میں اہلِ کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ اُن کے لیے یہ عظیم موقع ہے کہ وہ اپنی ریاست میںامن قائم کریں اور لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچا کر، خدا کے عظیم انعامات کے مستحق بنیں۔
کشمیر کا مستقبل
1947 کے بعد ریاست جموں و کشمیر ایک پرابلم اسٹیٹ (problem state) بن گیا۔ انسائکلوپیڈیا برٹانکا (1984) نے اِس واقعے کو تاریخ کا اتفاق (accident of history) بتایا ہے(EB 9/32) ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ 1947 کے بعد ریاست جموں وکشمیر میں جو کچھ ہوا، وہ سادہ معنوں میں صرف ’’تاریخ کا اتفاق‘‘ نہ تھا، بلکہ وہ خدا کا ایک فیصلہ (verdict of God) تھا۔ بظاہر اِس اتفاقی واقعے کے پیچھے خدا کی ایک عظیم مصلحت نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ اکیسویں صدی میں، ریاست جموں وکشمیر اِس حقیقت کا عنوان بنے کہ اسلام تشدد کا مذہب (religion of violence) نہیں، اسلام پورے معنوں میں، امن کا مذہب (religion of peace) ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسائل (problems) انسانی زندگی میں ہمیشہ مثبت رول ادا کرتے ہیں۔ مسائل کے بغیر انسانی زندگی جمود (stagnation) کا شکار ہوجاتی ہے۔ مسائل کسی انسانی گروہ کو، تخلیقی گروہ (creative group) بناتے ہیں۔ مسائل، انسانوں کے اندر نئی سوچ پیدا کرتے ہیں۔ مسائل ہمیشہ بہتر مستقبل کی تمہید ہوتے ہیں۔ مسائل کی حیثیت زندگی میں، زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ جو مسائل پیش آئے، وہ اس کی بہتری کے لیے تھے، اور یہ بہتری ریاست میں اب واقعہ بنتے ہوئے نظر آرہی ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے حالات نے وہاں کے لوگوں کے اندر اپنے بارے میں نظر ثانی کا ذہن پیدا کیا ہے۔ اب ریاست کے لوگ پہلے کے مقابلے میں، زیادہ حقیقت پسند ہوگئے ہیں۔ انھوںنے تشدد کے بجائے امن کی طرف اپنا نیا سفر شروع کردیا ہے۔ وہ منفی سوچ (negative thinking) سے باہر آگئے ہیں، اور وہ مثبت سوچ (positive thinking) کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ ماضی کے تجربے کی روشنی میں، انھوںنے رومانوی سیاست کو چھوڑ دیا ہے، اور حقیقت پسندانہ تعمیر کے راستے پر اپنا نیا سفر شروع کردیا ہے۔ انھوں نے بے فائدہ ہنگاموں کے بجائے، نتیجہ خیز عمل کا راز دریافت کرلیا ہے — یہ اعلیٰ اوصاف بلا شبہہ کشمیر کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔
امن کی طاقت زیادہ
2 دسمبر 2009 کی شام کو دہلی میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان مسٹر بٹ سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ مشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ وہ آج کل افغانستان میں رہتے ہیں۔ وہ وہاں اسلام اور امن کے موضوع پر کام کررہے ہیں۔ وہ پشتو اور فارسی زبان اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِس لیے وہ کامیابی کے ساتھ وہاں پُر امن دعوت کا مشن پھیلا رہے ہیں۔
انھوںنے بتایا کہ ایک بار ان کی ملاقات کچھ افغانی انتہا پسندوں سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے افغانی انتہا پسندوں سے کہا کہ آپ لوگ خود کش بم باری کیوں کرتے ہیں۔ افغانی انتہاپسندوں نے کہاکہ ہمارے دشمن کے پاس جو ہتھیار ہے، اُس کا جواب ہمارے پاس نہیں، اِس لیے ہم مجبور ہو کر خود کش بم باری کرتے ہیں۔انھوںنے کہا کہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس جو ہتھیار ہے، اس کا جواب اُن کے پاس نہیں۔ فارسی زبان میں یہ گفتگو اِس طرح تھی:
افغانی : جوابِ اسلحۂ آنہا پیشِ ما نیست،
مسٹربٹ : جوابِ اسلحۂ شُما پیشِ آنہا نیست
انھوں نے کہا کہ آپ تشدد کی طاقت استعمال کررہے ہیں، لیکن اسلام کے مطابق، امن کی طاقت اُس سے زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ اللہ یعطی علی الرّفق، مالا یعطی علی العنف (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2593) یعنی خدا پُرامن عمل پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ متشددانہ عمل پر نہیں دیتا۔ اِس معاملے کی عملی مثال اسلام کی ابتدائی تاریخ میں موجود ہے۔ احد کا غزوہ 3 ہجری میں پیش آیا۔ اِس میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس کے بعد 6ہجری میں آپ نے فریقِ ثانی سے امن کا معاہدہ کرلیا، جو معاہدۂ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گویا وائلنٹ ایکٹوزم کے بجائے پیس فل ایکٹوزم کو اختیار کرنا تھا۔ اِس کا نتیجہ، قرآن کے الفاظ میں، فتحِ مبین ( 48: 1 )کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ متشددانہ بم پر نظریاتی بم کی برتری کی ایک مثال ہے۔
چشمے کا سبق
کشمیر کے ایک سفر میں، میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ میںکچھ کشمیری ساتھیوں کے ہم راہ شہر سے باہر گیا۔ وہاں کھلی ہوئی وادی تھی۔ سامنے کے پہاڑ سے چشمے بہہ کر آرہے تھے اور وادی میں بہتے ہوئے وہ آگے کی طرف چلے جارہے تھے۔ اِن چشموں کے راستے میں بار بار پتھر کے ٹکڑے آرہے تھے، لیکن چشمہ ان پتھروں سے ٹکرائے بغیر اپنا راستہ بدل کر آگے کی طرف بڑھ جاتا تھا۔ میں وہاں بیٹھ گیا اور خاموشی کے ساتھ بہتے ہوئے چشمے کے اِس منظر کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے اپنے کشمیری ساتھیوں سے کہا کہ دیکھئے، پانی کے یہ چشمے ٹکراؤ سے بچتے ہوئے اپنا سفر جاری کئے ہوئے ہیں۔اگر آپ چاہیں کہ اِس کے برعکس، آپ ٹکراؤ کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کریں تو آپ کبھی اِس میں کامیاب نہ ہوسکیں گے، یہ خدا کا قانون ہے اور خدا کے قانون میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیںہوتی( 35: 43 ) ۔
پھر میں نے کہا کہ اِس دنیا میں خدا کا قانون عدم ٹکراؤ کے اصول پر قائم ہے۔ خلاکے تمام ستارے اور سیارے ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ اِس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ کوئی تعمیری مقصد صرف پُرامن طریقِ کار کے ذریعے حاصل ہو، اِس دنیا میں پرتشدد طریقِ کار کے ذریعے کوئی بھی مفید نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔میں نے کہا کہ اہلِ کشمیر نے 1947 کے بعد اپنے مقصد کے حصول کے لیے جو طریقہ اختیار کیا، وہ نفرت اور تشدد کا طریقہ تھا۔ ایسا طریقہ خدا کی اِس دنیا میں مکمل طورپر ایک غیر فطری طریقہ ہے۔ ایسے کسی طریقے کے لیے پیشگی طورپر فطرت کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہ ہو۔
جمعہ کا دن، فساد کا دن
ایک کشمیری مسلمان سے ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ میں نے قرآن کو پڑھا ہے۔ قرآن کی سورہ الجمعہ میں بتایا گیا ہے کہ: اے مسلمانو، جب تم جمعہ کی نماز پڑھ لو تو تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو، اور تم اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو:
When the prayer is ended, then disperse in the land and seek of God's grace, and remember God much, that you may be successful. ( 62: 10 )
قرآن کی اِس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ ہندو نے کہا کہ آپ کے قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ آپ جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلیں تو آپ، لوگوں کو خدا کی رحمت بانٹیں، اور آپ لوگوں کا حال یہ ہے کہ آپ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلتے ہیں تو آپ نعرہ اور جلوس کی سیاست چلاتے ہیں، نفرت کی باتیں کرتے ہیں اور لوگوں کے اوپر پتھر پھینکتے ہیں۔ ایسا کرکے آپ لوگ خود اپنے دین کے خلاف کام کررہے ہیں۔
یہ تبصرہ صرف کشمیر کے مسلمانوں پر نہیں، بلکہ وہ ساری دنیا کے مسلمانوں پر صادق آتا ہے۔ آج کل ہر ملک کے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ انھوںنے جمعہ کے دن کو نفرت اور تشدد کی باتوں کا دن بنالیا ہے۔ اُن کا تقریباً ہر رہنما جمعہ کے اجتماع کو اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔
یہ بہت خطرناک علامت ہے۔ یہ خدا کے دین کو اپنے قومی اور سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ یہ عین وہی چیز ہے جس میں یہود اپنے دورِ زوال میں مبتلا ہوئے۔ قرآن کے مطابق، یہ روش یہود کے لیے خدا کے غضب کا سبب بنی۔ اگر مسلمان اِس روش کو اختیار کریں تو وہ یقینی طور پر اس کے شدید انجام سے بچ نہیں سکتے۔ اِس معاملے میں کسی بھی قوم کا کوئی استثنا نہیں۔
عمر ضائع ہوگئی
کشمیر کے ایک مشہور عالم کا واقعہ ہے۔ ان کو ’’مفکر ِ کشمیر‘‘ کہاجاتا تھا۔ وہ کشمیر کی سیاسی تحریک میں ایک رہنما کی حیثیت سے شامل تھے۔ 13 دسمبر 1990 کو کشمیر میں ان کو کچھ مسلم نوجوانوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 87 سال تھی۔
28 نومبر 2011 کی ایک ملاقات میں کشمیر کے ایک مسلمان نے مجھ کو بتایا کہ مذکورہ عالم کی وفات سے کچھ پہلے انھوںنے راقم الحروف کی کتاب ’’الاسلام‘‘ اُن کوپڑھنے کے لیے دی تھی۔ بعد کی ایک ملاقات میں مذکورہ عالم نے کہا کہ مجھے اِس کتاب سے پورا اتفاق ہے۔ اِس کتاب کو پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں نے اپنی ساری عمر ضائع کردی۔ کاش، یہ کتاب مجھے پہلے مل گئی ہوتی۔
مذکورہ عالم کا یہ قول اہل کشمیر کے لیے اُن کی طرف سے ’’کلمٔہ باقیہ‘‘ (آخری نصیحت) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مذکورہ عالم کی زندگی میں اہلِ کشمیر نے اُن کے سیاسی مشورے کو اختیار کیا تھا۔ اب اہلِ کشمیر کو چاہیے کہ وہ اسی طرح ان کے اسلامی مشورے کو اختیار کرلیں، یعنی اہلِ کشمیر تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن کا طریقہ اختیار کرلیں۔ وہ سیاست کے طریقے کو چھوڑ کر پُرامن دعوت کا طریقہ اختیار کرلیں۔ ایک فارسی شاعر کی زبان سے مذکورہ عالم کی روح اہلِ کشمیر سے کہہ رہی ہے کہ — میں سیاست سے پرہیز نہ کرسکا، تم لوگ سیاست سے پرہیز کرو:
من نہ کردم، شما حذر بہ کنید!
جنت کا دروازہ
شہنشاہ جہاں گیر (وفات:1627 ) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ایک بار وہ کشمیر گیا۔کشمیر کے خوب صورت مناظر کو دیکھ کر جہاں گیر نے کہا — دنیا میں اگر کوئی جنت ہے تو وہ صرف کشمیر ہے:
اگر فردوس بر روئے زمین است ہمین است و ہمین است و ہمین است
یہ شعر اس مفہوم میں درست نہیں کہ کشمیر خود جنت الفردوس کی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ ایک اور معنی میں یہ شعر درست ہے، وہ یہ کہ کشمیر قدر ت کی طرف سے مہیا کردہ ایک پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) ہے۔ اِس پوائنٹ آف ریفرنس کے حوالے سے کوئی شخص جنت کی پہچان حاصل کرسکتا ہے اور اس کے حوالے سے کوئی شخص اپنے آپ کو جنت میں داخلے کا مستحق بنا سکتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جب جنت کی نعمتیں ملیں گی تو وہ کہیں گے کہ ایسا ہی رزق ہم کو دنیا میںملا تھا، اورجنت کا رزق دنیا کے رزق کے متشابہہ ہوگا:
Whenever, they are given fruit to eat, they will say, ‘This is what we were provided with before’, they were given similar things. ( 2: 25 )
موجودہ دنیا اپنی تخلیق کے اعتبار سے، جنت کا تعارف ہے ( 47: 6 ) ۔ جنت کی دنیا ایک مکمل دنیا (perfect world) ہے، اور موجودہ دنیا جنت کی مانند ایک غیر مکمل دنیا (imperfect world)۔ یہ بات پورے سیارۂ ارض کے لیے درست ہے۔ تاہم، زمین کے بعض مقامات ایسے ہیں جہاں زمین کی یہ حیثیت بہت زیادہ نمایاں ہے۔ یہ زیادہ ممتاز طور پر جنت کی یاد دلانے والی ہے۔ انھیں مقامات میں سے ایک مقام بلاشبہہ ریاست جموں وکشمیر ہے۔ کشمیر کو درست طورپر ’’کشمیر، جنت نظیر‘‘ کہاجاتا ہے۔
ایک آدمی جس کے اندر جنت کا شعور زندہ ہو، وہ جب کشمیر کے خوب صورت مناظر کو دیکھے گا تو وہ پکار اٹھے گا کہ — خدایا، تو نے مجھے عارضی جنت کا منظر دکھا دیا، اب تو مجھے ابدی جنت میں داخل کردے۔ اِس اعتبار سے، کشمیر بلا شبہہ ایک عظیم پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ کشمیر کو دیکھ کر ایک باشعور انسان وہ دعا کرسکتا ہے جس کو حدیث میں، اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کرنا کہاگیاہے۔
مگر اس دعا کے لیے موافق ماحول ضروری ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول میں کسی کے اندر یہ ربانی دعا ابل نہیں سکتی۔ کشمیر میں نفرت اور تشدد کا کلچر چلانے کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ کشمیر کو ایک عظیم نعمت سے محروم کردیا جائے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول میں لوگوں کی زبان سے صرف بد دعا نکلے گی، نہ کہ کوئی ربانی دعا۔ ایسے ماحول میں لوگوں کا دماغ منفی افکار کا جنگل بن جائے گا، جب کہ مذکورہ قسم کی اعلیٰ ربانی دعا کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا دماغ مثبت افکار کا باغ بنا ہوا ہو۔
قرآن کے مطابق، جنت کامل معنوں میں ایک امن کی جگہ ہے ( 10: 25 )۔ جنت گویا امن کلچر کا چمنستان ہے۔ ایسی جنت میں تشدد پسند لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تشدد اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک نفسیاتی آگ ہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میںآگ والی نفسیات کے ساتھ جئیں، اُن کے لیے شدید اندیشہ ہے کہ وہ آخرت میں بھی آگ کی دنیامیں ڈال دئے جائیں۔
قرآن کے مطابق، جنت کے باشندے کامل طور پر امن پسند ہوں گے ( 36: 66 )۔ وہاں ہرانسان کے دل میں دوسرے انسان کے لیے صرف امن اور محبت کے جذبات ہوں گے۔ ایسی حالت میں جنت میں بسانے کے لیے صرف انھیں لوگوں کا انتخاب کیاجائے گا جنھوں نے موت سے پہلے کی دنیا میں اِس امن پسندانہ مزاج کا ثبوت دیا ہو۔ موجودہ دنیا ایک انتخاب گاہ (selection ground) ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جارہا ہے جو کامل طور پر امن پسند ہوں اور جنت کے پرامن سماج میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ یہ وہ سب سے بڑی حقیقت ہے جو اہلِ کشمیر کو بھی سوچنے کی دعوت دیتی ہے، اور اِسی طرح دوسرے مقام کے لوگوں کو بھی۔
ناشکری کا کلچر
تشدد (violence) کیا ہے، تشدد ناشکری کا کلچر ہے۔ شکایت سے تشدد پیدا ہوتا ہے اور تشدد آدمی کے اندر سے شکر کی نفسیات کا مکمل طورپر خاتمہ کردیتاہے۔ ابلیس نے آغازِ حیات میں چیلنج کرتے ہوئے کہاتھا کہ میں انسانوں کو شکر کے راستے سے ہٹا دوں گا اور بیش تر انسانوں کو میں شکر نہ کرنے والا بنا دوں گا: ولا تجد أکثرہم شاکرین ( 7:17 )۔
اِس اعتبار سے دیکھئے تو تشدد کوئی سادہ بات نہیں۔ جس سماج میں تشدد کا کلچر ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہاں کے لوگوں پرشیطان غالب آگیا ہے۔ شیطان نے اُن کو بہکا کر، پہلے شکایت اور پھر تشدد کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ تشدد ایک شیطانی کلچر ہے، اور تشدد جہنم کا دروازہ کھولنے والا ہے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو ابلیس کو حکم دیا کہ وہ انسان کے آگے جھک جائے، مگر ابلیس، انسان کے آگے نہیں جھکا۔ ابلیس، جنات کا سردار تھا۔ ابلیس کو اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بہت سی چیزیں حاصل تھیں، مگر ایک چیز کے نہ ملنے پر وہ شکر کے راستے سے ہٹ گیا۔ یہی ناشکری ہے، اور ناشکری بلا شبہہ ابلیس کی پیروی ہے۔
جب بھی کوئی فرد یا گروہ شکر کے راستے سے ہٹتا ہے اور نفرت اور تشدد کے راستے پر چلتا ہے تو اس کا سبب ہمیشہ کوئی ایک شکایت ہوتی ہے۔ اُس وقت بھی عملاً ایسا ہوتاہے کہ آدمی کو 99 چیز ملی ہوئی ہوتی ہے، لیکن ایک چیز کے نہ ملنے کو وہ اتنا بڑا مسئلہ بنا لیتا ہے کہ وہی ایک چیز اس کے دماغ پر چھا جاتی ہے۔ اسبابِ شکر کے ہجوم میں وہ شکایت کا جنگل بن جاتاہے۔ یہ طریقہ بلا شبہہ شیطان کا طریقہ ہے، خواہ اس کو کتنے ہی خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو۔
کشمیر یا اِس طرح کے دوسرے مقامات پر جہاں مسلمان سیاسی شکایت کو لے کر بے فائدہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ سب اِس کی مثالیں ہیں۔ اِن مقامات پر ایسا نہیں ہے کہ مسلمان کلّی محرومی کا شکار ہوگئے ہوں۔ یہ لوگ کسی جزئی شکایت پر غیر ضروری طور پر حساس ہوگئے ہیں۔ یہی غیرضروری حساسیت ان کا اصل مسئلہ ہے۔ اگر وہ اِس غیر ضروری حساسیت کو ختم کردیں تو اچانک وہ محسوس کریں گے کہ ان کو اتنا زیادہ ملا ہوا ہے کہ انھیں شکر کی تحریک چلانا چاہیے، نہ کہ ناشکری اور شکایت کی تحریک۔
تشدد کی تزئین
تشدد (violence) کامل معنوں میں ایک تخریبی عمل ہے۔ پوری تاریخ بتاتی ہے کہ تشدد کے ذریعے کبھی بھی کسی فرد یا گروہ کو کوئی مثبت کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جب بھی کسی فرد یا گروہ نے تشدد کا طریقہ اختیارکیا تو اس کے حصے میں صرف تباہی آئی، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی تعمیر۔اِس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ لوگ بار بار تشدد کا فعل کرتے ہیں، لوگ بار بار متشددانہ کارروائی کرتے ہیں۔ اِ س کا سبب شیطانی تزئین (Satanic beautification) ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ شیطان کا خاص طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک غلط کام کو خوب صورت الفاظ میں پیش کرتا ہے، وہ فساد کو اصلاح کا نام دیتاہے( 15: 39 )۔ اِس طرح شیطان لوگوں کے ذہن کو متاثر کرتاہے۔ وہ لوگوں کو اِس فرضی یقین میںمبتلا کرتاہے کہ جو کچھ تم کرنے جارہے ہو، وہ تشدد نہیں ہے، بلکہ وہ مقدس جہاد ہے۔ وہ شہادت کا راستہ ہے جو تم کو سیدھے جنت تک پہنچانے والا ہے۔ اِس طرح شیطانی تزئین کا شکار ہو کر لوگ تشدد کا عمل کرنے لگتے ہیں۔ وہ ایک غلط کام کررہے ہوتے ہیں، لیکن شیطان اُن کو بتاتا ہے کہ یہ ایک اچھا کام ہے۔
اِس شیطانی تزئین سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ اپنے عمل کو نتیجہ (result) کے اعتبار سے جانچا جائے۔ جو متشددانہ عمل تباہی کے انجام تک پہنچ رہا ہو، جس سے ملے ہوئے مواقع برباد ہوتے ہوں، اُس کے بارے میں یہ یقین کرلیا جائے کہ وہ شیطان کی تزئین کا نتیجہ ہے اور پھر توبہ واستغفار کرکے اُس سے دوری اختیار کرلی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد اپنے آپ میں ایک نا مطلوب فعل ہے۔ تشدد کبھی کوئی اصلاح پیدا نہیں کرتا، وہ صرف مزید نقصان کا سبب بنتاہے۔ تشدد ایک حیوانی فعل ہے، وہ کوئی انسانی فعل نہیں۔ تشدد ہمیشہ نفرت اور عداوت سے پیدا ہوتاہے۔ اپنے اندر سے نفرت اور عداوت کی سوچ کو ختم کردیجئے۔ اِس کے بعد کبھی شیطان آپ کے اوپر قابو نہ پاسکے گا۔ تشدد جیسے فعل سے آپ کامل طورپر محفوظ ہوجائیں گے۔
ملکہ سبا کا قصہ
قرآن کی سورہ النمل میں ملکۂ سبا کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ ملکہ سبا (Queen of Sheba) کا زمانہ حضرت سلیمان کا زمانہ ( 932 ق م)ہے۔ اس کی حکومت قدیم یمن کے ساحلی علاقے میں قائم تھی۔ حضرت سلیمان، شام وفلسطین کے حکمراں تھے۔ حضرت سلیمان نے ایک مکتوب ملکہ سبا کو لکھا کہ تم یا تو سرینڈر کرو، یا ہماری فوج کشی کا سامنا کرو۔ اِس کے جواب میں ملکہ سبا نے سرینڈر کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس کا سبب بتاتے ہوئے اُس نے کہا : ’’بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس کو تباہ کردیتے ہیں اور وہ اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں، اور یہی یہ لوگ کریں گے‘‘۔( 27:34 )
ملکہ سبا کے اِس واقعے سے یہ سبق ملتاہے کہ جب کسی ایسی صورت حال کا سامنا ہو جس میں ممکن انتخاب صرف دو چیزوں کے درمیان ہو— تباہی اور مصالحت، تو ایسی صورتِ حال میں، تباہی کے بجائے، مصالحت (adjustment) کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ اُس وقت یہی اسلام کا طریقہ ہوگا۔
ملکہ سبا نے معاملے کو خالص حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا۔ اس نے یہ رائے قائم کی کہ اگر ہم سلیمان کی طاقت سے ٹکرائیں تو زیادہ امکان یہ ہے کہ ہم ہاریں گے اور پھر ہمارے ساتھ وہی کیا جائے گا جو ہر غالب قوم، مغلوب قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، اگرہم اطاعت قبول کرلیں تو ہم تباہی سے بچ جائیںگے۔ اِس طرح ہمارے تمام مفادات محفوظ رہیں گے۔
اِس واقعے میں ایسے تمام مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے جو کشمیر جیسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ ایسے مقامات کے مسلمانوں کی سیاسی پالیسی کیا ہونا چاہیے، وہ پالیسی یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بے فائدہ ٹکراؤ سے بچائیں، تاکہ وہ حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرسکیں۔ وہ ایسا نہ کریں کہ جو ملنے والا نہیں ہے، اُس کو پانے کی کوشش میں وہ ملے ہوئے کو بھی برباد کردیں۔
دورِ تشدد کا خاتمہ
دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے زمانے میں کئی ملکوں نے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۔ مثلاً برطانیہ، جرمنی، جاپان، وغیرہ۔ مگر جنگ کے خاتمے پر اِن سب ملکوں نے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن جدوجہد کا طریقہ اختیار کرلیا۔ یہ واقعہ کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔ یہ دراصل اِس بات کا اعلان تھا کہ اب انسانی تاریخ اُس مرحلے میں پہنچی ہے، جب کہ تشدد کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا ہے۔ اب انسان کے لیے صرف ایک ہی آپشن ہے اور وہ پرامن طریقِ کار کا آپشن ہے۔کوئی بھی عمل نتیجہ کی بنیاد پر کیاجاتاہے۔ جو عمل مثبت نتیجہ نہ پیدا کرے، وہ بلاشبہہ اِس قابل ہے کہ اس کو چھوڑ دیاجائے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہی واقعہ پیش آیا۔ جو قومیں اِس جنگ میں شریک تھیں، انھوںنے اِس جنگ میں جان ومال کی بے شمار قربانیاںدیں، مگر نتیجے کے اعتبار سے، یہ قربانیاں ہر ایک کے لیے لا حاصل ثابت ہوئیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دورِ جدید میں جو ہتھیار ایجاد کئے گئے، وہ جنگ کے لیے مانع (deterrent) بن گئے ہیں، وہ جنگ کے لیے محرک (incentive) کی حیثیت نہیں رکھتے۔ مثال کے طورپر جرمنی اور جاپان نے دوسری عالمی جنگ میں، جنگ کا طریقہ اختیار کرکے بہت زیادہ نقصان اٹھایا تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد انھوں نے اپنی قومی جدوجہد کے لیے جنگ کا طریقہ چھوڑ دیا اور اس کے بجائے امن کا طریقہ اختیار کرلیا۔ اِس کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی اِس کے باوجود ہوئی کہ جرمنی نے اپنے ملک کا ایک حصہ مشرقی جرمنی (East Germany) کھودیا تھا، اور جاپان اپنے ایک بڑے جزیرہ اوکی ناوا (Okinawa) سے محروم ہوگیا تھا۔
کشمیر اور دوسرے علاقے، جہاں مسلمان تشدد کی تحریک چلا رہے ہیں، اُنھیں اِن واقعات سے سبق لینا چاہیے۔ یہ واقعات محض کسی ملک کے واقعات نہیں ہیں، وہ فطرت کے قانون کو بتاتے ہیں۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ جو لوگ نفرت اور تشدد کے راستے پر چلیں،اُن کے حصے میں آخر کار صرف محرومی آئے، اور جو لوگ امن اور محبت کے راستے پر چلیں، اُن کو ہر قسم کی کامیابی حاصل ہو۔
تخریبی سیاست
مغربی دنیا کے ایک مشہور مسلم مقرر نے وہاں کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ — ظالم حکمراں کے خلاف بغاوت، خدا کے لیے وفاداری ہے:
Rebellion to a tyrant, obedience to God.
یہ جملہ اسلام کی سیاسی تعبیر (political interpretation) کے تحت بننے والے ذہن کی نمائندگی کرتا ہے۔ مسلمانوں کی جدید نسل عام طور پر، اس سیاسی تعبیر سے متاثر ہے۔ آج کی دنیا میں جگہ جگہ اسلامی انقلاب کے نام پر جو ہنگامے جاری ہیں، وہ اِسی سیاسی فکر کا نتیجہ ہیں۔
اِس قسم کی نام نہاد انقلابی سیاست ہر گز اسلامی سیاست نہیں۔ اگر شدید لفظ استعمال کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ اسلام کے نام پر ایک شیطانی سیاست ہے۔ اِس سیاست کا بانی ٔ اول خود شیطان ہے۔ آج جو لوگ اِس قسم کی سیاست کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، وہ بلا شبہہ شیطان کی پیروی کررہے ہیں، نہ کہ اسلام کی پیروی۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ تخلیقِ انسانی سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اُس وقت وہاں آدم کے سوا دو مخلوق اور موجود تھی — فرشتے اور جنات۔ اللہ نے حکم دیا کہ تم لوگ آدم کے آگے جھک جاؤ۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کی تعمیل کی، لیکن ابلیس (جنات کا سردار) نے اللہ کے اِس حکم کو ماننے سے انکار کیا، وہ اللہ کا باغی بن گیا۔
یہ انسانی تاریخ میں ، اتھارٹی (authority)کے خلاف بغاوت کا پہلا واقعہ تھا۔ یہ سیاسی بغاوت یا پالٹکس آف اپوزیشن (politics of opposition) بلا شبہہ شیطان کی سنت ہے۔ اتھارٹی سے ٹکرائے بغیر اپنا کام کرنا، یہ ملائکہ کا طریقہ ہے۔ اور اتھارٹی سے ٹکراؤ کرکے پالٹکس آف اپوزیشن کا ہنگامہ کھڑا کرنا، شیطان کا طریقہ۔ عجیب بات ہے کہ شیطان کی یہ منفی سیاست پوری تاریخ میں مسلسل طورپر جاری رہی ہے، اہلِ ایمان کے درمیان بھی اورغیر اہلِ ایمان کے درمیان بھی۔ اِسی منفی سیاست کا یہ نتیجہ ہے کہ انسانی تاریخ، تعمیر کی تاریخ بننے کے بجائے، تخریب کی تاریخ بن گئی۔
فطرت کے خلاف
انسانی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے جو سرگرمیاں کی جاتی ہیں، ان کو تحریک (movement) کہاجاتا ہے۔ اِس دنیا میں تحریک کی دو صورتیں ہیں— مبنی بر ذہن تحریک، مبنی بر نظام تحریک (mind-based activism, system-based activism)
تحریک کا وہ انداز جو فطرت کے مطابق ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے— مبنی بر ذہن تحریک۔ اِس کے برعکس، مبنی بر نظام تحریک، فطرت کے یا خالق کے تخلیقی منصوبے کے خلاف ہے۔ اِس فرق کی بناپر ہمیشہ ایسا ہوگا کہ مبنی بر نظام تحریک ہمیشہ ناکام ہوگی اور مبنی بر ذہن تحریک ہمیشہ کامیاب۔ آج کی دنیا میں جو نفرت اور تشدد پایا جاتا ہے، وہ صرف اِس قانونِ فطرت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
موجودہ زمانے میں،کشمیر اور دوسرے مقامات پر جو تحریکیں چلائی گئیں، اُن میں سے کوئی تحریک ایسی نہیں ہے جو ذہن (mind) کو نشانہ بنا کر چلائی گئی ہو۔ وہ سب کی سب نظام (system) کو نشانہ بنا کر چلائی گئیں۔ اِس لیے اُن کا یہ منفی انجام ہوا کہ اِس طرح کی ہر تحریک کا نتیجہ صرف تباہی کی صورت میں برآمد ہوا — سیکڑوں سال کی روایات ٹوٹ گئیں، لوگوں کے درمیان نفرتیں پیدا ہوئیں جو آخر کار تشدد تک جاپہنچیں۔ باہمی خیر خواہی کا ماحول ختم ہوگیا، وغیرہ۔
مبنی برنظام تحریک غیر فطری تحریک ہے۔ صحیح تحریک وہ ہے جو اصلاحِ ذہن کی بنیاد پر چلائی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ نظام کا الگ سے کوئی وجودنہیں۔انسان کے مجموعے ہی کا دوسرا نام نظام ہے۔ انسان اگر فرداً فرداً اصلاح یافتہ ہو جائیں تو اُن کے مجموعے سے جو نظام بنے گا، وہ فطری طورپر ایک اصلاحی نظام ہوگا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اصلاح کی تحریک فرد سے شروع ہوتی ہے، نہ کہ نظام سے۔ جو تحریک نظام کی اصلاح کے نام پر شروع کی جائے، وہ اپنے آغازہی سے دو طبقوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرے گی، اور جہاں نفرت اور ٹکراؤ پایا جائے وہاں عملاً اصلاح کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے۔
صالح تحریک، غیر صالح تحریک
ہر آدمی کے اندر ایک شیطان چھپا ہوا ہے۔ یہ شیطان، نفرت کا بم (hate bomb)ہے۔ ہر آدمی امکانی طورپر نفرت کا بم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ نفرت کا یہ بم عام حالات میں، انسان کے اندر سویا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کسی طرح اُس کو جگا دیا جائے، تو اچانک وہ بے پناہ ہو کر بھڑک اٹھتا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس معاملے میں کسی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
اِس صورتِ حال کا مطلب دوسرے لفظوں میں، یہ ہے کہ ہر انسان ایک انتہائی آتش گیر (highly inflammable) مادّہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی سماج میں اگر دس ہزار آدمی ہیں، تو وہ گویا کہ دس ہزار چلتے پھرتے آتش گیر مادّے کا مجموعہ ہیں۔ یہ دراصل ذاتی مفاد (personal interest) ہے جو لوگوں کو مزاجاً متشدد ہونے کے باوجود، مجبورانہ طور پر امن پسند بنائے رہتا ہے۔ ایسی صورت میں قیادت (leadership) کا کام ایک بے حد مشکل کام ہے۔ جس قائد کے پاس صرف شکایت اور احتجاج کا نعرہ ہو، اُس کو ہر گز میدان میںنہیں آنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا منفی نعرہ لوگوں کو بھڑکائے گا اور آخرکار، سماج کا وہ حال ہوجائے گا، جیسے ایک مقام پر بہت سے آتش گیر مادّے ہوں اور وہ اچانک بھڑک اٹھیں۔
قائد پر لازم ہے کہ اگر اس کے پاس محبت کا نعرہ ہے، تب تو وہ اپنی تحریک لے کر سماج میں آئے۔ اور اگر اُس کے پاس صرف نفرت اور شکایت کی باتیں ہوں، تو اس کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ اجتماعی تحریک ہر گز نہ شرو ع کرے۔ اس کے بجائے، وہ اپنے آپ کو اپنے گھر کے اندر محصور کرلے۔ یہی اس کے لیے نجات کی واحد صورت ہے۔
اجتماعی تحریکیں دو قسم کی ہوتی ہیں— مثبت تحریک، اور منفی تحریک۔ مثبت تحریک وہ ہے جو ذاتی ذمّے داری (duty) کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک صالح تحریک ہے۔ منفی تحریک وہ ہے جو حقوق طلبی اور احتجاج کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔ ایسی تحریک ایک غیر صالح تحریک ہے۔ صالح تحریک کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے، اور غیر صالح تحریک ہمیشہ بُرے انجام پر ختم ہوتی ہے۔
اصلاحی عمل کا نقطۂ آغاز
قدیم زمانے میں جب یہود پر سیاسی زوال آیا تو اُن کے اندر یہ مزاج پیداہوا کہ وہ لڑکر دوبارہ فلسطین میں اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔ اُس وقت، بائبل کے بیان کے مطابق، یہود کے پیغمبر یرمیاہ نے اُن سے کہا— بادشاہ اور اس کی والدہ سے کہو کہ عاجزی کرو اور نیچے بیٹھو، کیوں کہ تمھاری بزرگی کا تاج تمھارے سر پر سے اتار لیا گیا ہے:
Say to the king and to the queen mother, “Humble yourselves; sit down, for your rule shall collapse, the crown of your glory.” (Jeremiah 13: 18)
یہاں یہود کی مثال کی صورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ قوموں پر عروج کے بعد زوال آتا ہے، سیاسی بالادستی کے بعد انھیں سیاسی زیردستی کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہ معاملہ قانونِ فطرت کے تحت پیش آتا ہے۔ اُس وقت قوم کو چاہیے کہ وہ اِس تبدیلی کو تسلیم کرے۔ کیوں کہ اُس وقت اِس تبدیلی کو تسلیم نہ کرنا اپنے آپ کو مزید تباہی کی طرف لے جانے کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ سیاسی اقتدار (political power)کسی گروہ کی قومی اجارہ داری (monopoly)نہیں۔ سیاسی اقتدار کا حصول اس کی ضروری اہلیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قوم کے اندر جب تک صلاحیت پائی جائے، سیاسی اقتدار بھی اُس کو حاصل رہے گا۔ صلاحیت کے فقدان کے بعد سیاسی اقتدار بھی اس سے چھن جائے گا۔ جب ایسا ہو تو قوم کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اپنے اندر ضروری صلاحیت پیدا کرے، نہ کہ وہ فریق ثانی کے خلاف بے فائدہ جنگ چھیڑ دے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ما بقوم میں تغیر ہمیشہ مابأنفس میں تغیر کا نتیجہ ہوتا ہے ( 13:11 )۔ مابقوم سے مراد اجتماعی حالت ہے، اور ما بأنفسسے مراد انفرادی حالت۔ جب بھی کسی قوم کی اجتماعی سطح پر زوال آئے تو اس کو اپنے افراد کی سطح پر اس کا سبب ڈھونڈنا چاہیے۔ کیوں کہ قوم کے افراد کی حالت کو بدلنے کے بعد ہی قوم کی اجتماعی حالت بدل سکتی ہے، اس کے بغیر ہر گز نہیں— عمل کا آغاز افراد کی سطح سے ہوتا ہے، نہ کہ اجتماع کی سطح سے۔اجتماع کی سطح پر جو آغاز ہوتا ہے، وہ صرف لیڈری ہے، نہ کہ کوئی حقیقی عمل۔
کشمیریت کی طرف واپسی
کشمیریت کیا ہے، کشمیریت دراصل صوفیت کا دوسرا نام ہے۔ کشمیری کلچر کا مطلب ہے، صوفی کلچر۔ کشمیر شاید پوری دنیا میں واحد مقام ہے جہاں اسلام صرف صوفیوں کے ذریعے آیا اور صوفیوں کے ذریعے پھیلا۔ اِس لیے کشمیر میں کشمیریت کو قائم کرنا، دراصل صوفیت کو قائم کرنا ہے۔ صوفیت اور روحانیت دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ صوفیت تمام تر امن اور محبت سے عبارت ہے۔ صوفیت اِس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ امن اور محبت کے کلچر کا دوسرا نام ہے۔
صوفی کلچر کیا ہے، خود صوفیوں کی زبان میں، وہ صلحِ کُل (peace with all) کا نام ہے۔ یہی صوفی کلچر، مسلم اور مسلم کے درمیان بھی مطلوب ہے، اور مسلم اور غیر مسلم کے درمیان بھی۔
کشمیر کے لوگ پچھلے سیکڑوں سال سے اِسی صوفی کلچر پر قائم تھے۔ وہاں کا پورا ماحول امن اور محبت اور سماجی ہم آہنگی کے اصول پر مبنی تھا۔ کشمیر کے لوگ نفرت اور تشدد سے بالکل ناآشنا تھے۔ کچھ بیرونی عناصر نے کشمیر کے لوگوں کو بہکا کر اُن کو اِس کشمیری کلچر سے ہٹا دیا۔ نفرت اور تشدد کے کلچر نے کشمیریوں کو کوئی مثبت چیز نہ دی، البتہ اس کا نقصان یہ ہوا کہ کشمیریوں سے اُن کا سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ چھن گیا، اور وہ یہی صوفیانہ کلچر تھا جو ہمیشہ سے کشمیر کی علامت بنا ہوا تھا، یعنی امن اور محبت کا کلچر۔
یہ کشمیر کی خوش قسمتی تھی کہ پچھلے چند سو سالوں میں یہاں باہر سے جو مسلم صوفی آئے، یا مقامی طورپر جو صوفی پیداہوئے، وہ سب کے سب امن اور محبت کا پیغام دینے والے تھے۔ اِس کے نتیجے میں کشمیر میں زبردست اِنقلاب آیا۔ کشمیر میں اسلام کو غیر معمولی طورپر فروغ حاصل ہوا۔
مثال کے طور پر شیخ نور الدین نورانی (وفات: 1439 ء)کشمیر کے صوفیوں میں سے ایک صوفی تھے۔ کشمیر کے لوگوں میں عام طورپر وہ ’’علَم دارِ کشمیر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہندو لوگ انھیں پیار سے ’’نند رِشی‘‘ کہتے تھے۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں طورپر مقبول تھے۔
شیخ نور الدین نورانی سچی کشمیریت کی علامت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ— اگر تو دانش مند ہے تو ہندو اور مسلمان کو الگ الگ انسان نہ سمجھ، یہی خدا سے ملنے کا راستہ ہے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ چناں چہ ان کا کلام کشمیر کے ایک شاعر نے ’رِشی نامہ‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ نورالدین نورانی کے نزدیک انسان کی ایک ہی پہچان تھی،وہ یہ کہ انسان انسان سے محبت کرے۔ ان کے نزدیک انسان سے محبت ہی خدا کی پہچان کا راستہ ہے۔
شیخ نور الدین نورانی کے قیمتی اقوال میں سے ایک قول یہ ہے کہ— میں نے تلوار توڑ دی اور اُس سے درانتی بنالی۔ یہ قول شیخ نورانی کے فکر کا خلاصہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے لوہا بنایا جس میں خصوصی طاقت ہے، مگر لوہا اس لیے نہیں ہے کہ آپ اس کو تشدد کے لیے استعمال کریں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ لوہے کو تعمیر انسانیت کے لیے استعمال کریں۔ آپ لوہے سے تلوار کے بجائے درانتی بنائیں جو زراعت کے کام آتی ہے۔لیکن اکتوبر 1989 سے کشمیر میں ایسے لوگ اُبھرے جو برعکس اصول پر یقین رکھتے تھے۔ انھوں نے برعکس طور پر یہ کیا کہ اپنی ’’درانتی‘‘ کو توڑ کر اُس سے ’’تلوار‘‘ بنالی۔ انھوں نے جہاد کے نام پر پوری ریاست میں نفرت اور تشدد پھیلادیا۔
جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں پہلے دن سے نام نہاد کشمیری تحریک کو بے اصل سمجھتا رہا ہوں۔ میرا کہنا یہ رہا ہے کہ اِس طرح کے واقعات تاریخ کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں، نہ کہ موجودہ قسم کی تحریک کے ذریعے۔ میرا ماننا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ انڈیا کی آزادی کے وقت ہی ہوچکا ہے۔ اب نہ اُس کو باقاعدہ جنگ کے ذریعے بدلا جاسکتا ہے اور نہ گوریلا وار کے ذریعے۔ اِس قسم کی ہر کوشش مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔ اُس کو مزید دہرانا، صرف اپنے نقصان میں اضافے کے ہم معنیٰ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ انڈیا ہر اعتبار سے پاکستان سے بہت زیادہ ترقی کررہا ہے۔ ایسی حالت میں کشمیر کے لیے بہترین چوائس انڈیا ہے، نہ کہ پاکستان۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ جُڑنا، ایک ترقی یافتہ ملک کے ساتھ جڑنا ہے۔ اور پاکستان کے ساتھ جڑنا، ایک ایسے ملک کے ساتھ جڑنا ہے جو ابھی تک ترقی کی طرف اپنا سفر بھی شروع نہ کرسکا۔
1989 میں ملٹنسی (militancy) شروع ہونے سے پہلے، کشمیر کو وہاں کی زبان میں،’’پیروار‘‘ (صوفیوں کی سرزمین) کہاجاتا تھا۔ کشمیر کے ایک مسلمان نے بڑے درد کے ساتھ کہا کہ —پہلے کشمیریوں کا حال یہ تھا کہ وہ مرغی کو بھی ذبح کرنا نہیں جانتے تھے، مگر 1989 کے بعد ان کا یہ حال ہوا کہ وہ انسان کو ذبح کرنے لگے۔ بلبل شاہ اور شاہ ہمدان جیسے صوفیوں نے کشمیر میں جو کلچر رائج کیا، وہ مکمل طورپر امن کلچر تھا۔ کشمیری لوگ اپنے مزاج کے اعتبار سے تشدد سے بالکل ناواقف تھے۔ کشمیریوں کے اِس امن پسندانہ مزاج کو بتانے کے لیے ایک صوفی کا یہ شعر بالکل درست تھا:
ما قصۂ سکندر ودارا، نہ خواندہ ایم از ما بجز حکایتِ مہر وفا مپرس!
مگر انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ اگر اس کو بھڑکایا جائے تو وہ بھڑک اٹھتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر کشمیر میں یہی بھڑکانے کا کام کیا، مگر یہ وقتی تھا— واقعات بتاتے ہیں کہ کشمیرکے لوگ اب اپنی اصل فطرت کی طرف واپس آرہے ہیں۔
اب آخری وقت آگیا ہے کہ کشمیر کے لوگ ماضی کی طرف لوٹیں، وہ اپنے بھولے ہوئے سبق کو یاد کریں، وہ اپنی زندگی کو دوبارہ صوفیانہ روایت پر قائم کریں، وہ کشمیر کو دوبارہ امن اور محبت کا کشمیر بنادیں، جیسا کہ وہ اپنے ماضی میں تھا۔ یہی کشمیریت ہے۔ اِسی کشمیریت کی طرف واپسی میں کشمیر کی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔
مشتے بعد از جنگ
1968 میں راقم الحروف نے کشمیر کی سیاست کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اِس مضمون کا ایک سبق آموز حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’اپنا حق وصول کرنے کا وقت وہ ہوتا ہے جب کہ فیصلے کا سِرا اپنے ہاتھ میں ہو، مگر ہمارے لیڈر اُس وقت ہوش میںآتے ہیں، جب کہ اُن کا کیس اخلاقی کیس بن چکا ہو— یہ احساس مجھے اکثر اُس وقت ہوتا ہے جب کہ میں کشمیری لیڈر شیخ محمد عبد اللہ کی تقریر پڑھتا ہوں۔ ان کی موجودہ سیاسی مہم مجھے ’مشتے بعد از جنگ‘ سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ 1947 میں وہ اِس پوزیشن میں تھے کہ اگر وہ حقیقت پسندی اختیار کرتے تو وہ خود اپنی مرضی کے مطابق، اپنے حق میں فیصلہ لے سکتے تھے۔ مگر انھوں نے فیصلے کے وقت کو غیر حقیقت پسندانہ خوابوں میں کھو دیا۔ اب جب کہ فیصلے کا سرا اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے تو اب وہ چیخ و پکار کر رہے ہیں، حالاں کہ اب اِس چیخ وپکار کی حیثیت محض اخلاقی دُہائی کی ہے، اور اخلاقی دہائی اِس دنیا میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ قومی معاملات میں جب فیصلے کا سرا ایک بار ہاتھ سے نکل جائے تو مسئلہ بے حد سنگین ہوجاتاہے۔ پھر تو زمین اور آسمان کی گردشیں ہی اُس کو بدل سکتی ہیں۔ قومی قیادت ایک ایسا کام ہے جو صرف اُن لوگوں کے کرنے کا ہے جو حال کے اندر مستقبل کو دیکھ سکیں۔ باقی وہ لوگ جن کی نگاہیں صرف ماضی اور حال تک جاتی ہوں اور مستقبل اُنھیں صرف اُس وقت نظر آئے جب کہ وہ واقعہ بن کر ان کے اوپر ٹوٹ پڑا ہو، ایسے لوگ قوموں کی قیادت نہیں کرسکتے، البتہ وہ اپنے غیر دانش مندانہ اقدامات سے قوموں کو مسائل میں الجھانے کا فرض ضرور انجام دے سکتے ہیں‘‘ ۔(الجمعیۃ ویکلی، دہلی، 8 جون 1968 ، صفحہ 4)
یہ الفاظ تقریباً 45 سال پہلے لکھے گئے تھے۔ اِن الفاظ کی واقعیت اب ایک ثابت شدہ حقیقت بن چکی ہے۔ اہلِ کشمیر کو اِس تجربے سے سبق لینا چاہیے۔ اُن کو یہ غلطی ہرگز نہیںکرنا چاہیے کہ وہ قدیم طرز کی ناکام سیاست کو نئے نئے ناموں کے ساتھ بدستور جاری رکھیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ اہلِ کشمیر اپنے مستقبل کی تعمیر کے معاملے پر از سرِ نو غور کریں اور حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ اپنی قومی پالیسی کی از سرِ نو تشکیل کریں۔ پالیسی وہی ہے جو عملاً پائدار (sustainable) ہو، جو پالیسی پائدار نہ ہو، وہ پالیسی ہی نہیں۔ وہ صرف وقت اور توانائی کا ضیاع ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔
زمانے کے خلاف
1947 کے بعد کشمیر میں جو تحریک چلائی گئی، اس کا مقصدتھا کشمیر کو علاحدہ پاکٹ بنانا۔ یہ بلاشبہہ ایک خلافِ زمانہ روش (anachronism) ہے۔ موجودہ زمانہ بین الاقوامی تعلقات کا زمانہ ہے۔ ایسی حالت میں، علاحدہ پاکٹ بنانا ایک خلافِ زمانہ روش کی حیثیت رکھتاہے۔
اِس معاملے میں ایک عبرت ناک مثال پاکستان کی ہے۔ پاکستان اِسی علاحدگی کے تصور پر بنایا گیا۔ 1947 سے پہلے پاکستان کے مسلم لیڈر یہ کہتے تھے کہ علاحدہ پاکٹ بنانا ہمارے قومی وجود کے لیے ضروری ہے۔ مگر جب پاکستان بن گیا تو یہ ہوا کہ پاکستان کے اکثر تعلیم یافتہ افراد ’’مملکتِ خداداد‘‘ (پاکستان) کو چھوڑ کر امریکا اور یورپ کے ملکوںمیں چلے گئے۔ پاکستان میں اُن کو اصرار تھاکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں، لیکن دوسرے ملکوںمیں جاکر انھوںنے وہاں کی قومیت اختیار کرلی— امریکا میں امریکی قومیت، فرانس میں فرانسیسی قومیت، برطانیہ میں برطانی قومیت، جرمنی میں جرمن قومیت، وغیرہ۔
کشمیر میں جو لوگ کشمیر کو علاحدہ سیاسی پاکٹ بنانے کی کوشش کررہے ہیں، انھیں پاکستان کے اِس عبرت ناک انجام سے سبق لینا چاہیے۔ اُنھیں اِس سے بچنا چاہیے کہ وہ غیر حقیقی نعروں پر اپنی تحریک اٹھائیں اور بعد کو حالات کے دباؤ کے تحت وہ خود اپنے نعروں کے خلاف عمل کرنے لگیں۔
گھیٹو ذہنیت کا نقصان
آج کل کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ تقریباً تمام مسلمان منفی سوچ (negative thinking) میں جی رہے ہیں۔ مذہبی مسلمان اور سیکولر مسلمان دونوں یکساں طورپر اِسی قسم کی منفی سوچ رکھتے ہیں، اُن کے مرد بھی اور ان کی عورتیں بھی۔ کسی مسلمان سے بات کیجیے، مسلمانوں کے کسی جلسے میں جائیے، کسی مسلم ادارے کا معائنہ کیجیے، مسلمانوں کا کوئی اخبار یا میگزین پڑھیے، ہر جگہ آپ کو یہی منفی سوچ دکھائی دے گی۔منفی سوچ ہمیشہ کسی اور کے خلاف ہوتی ہے، مگر یہ ایک سنگین حقیقت ہے کہ منفی سوچ کا نقصان خود منفی سوچ والوں کو ہوتا ہے، نہ کہ اُن لوگوں کو جن کے خلاف منفی انداز میں سوچا جارہا ہے۔ یہ فطرت کا قانون ہے، اور اِس قانون میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
منفی ذہنیت (negative mentality) کا مطلب ہے، گھیٹو ذہنیت(ghetto mentality)۔ اِس طرزِ فکر کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ دوسروں سے کٹ جاتے ہیں۔ وہ علاحدگی پسندی کے خول میں جینے لگتے ہیں۔ اِس طرح دوسروں کے ساتھ اُن کا انٹریکشن (interaction) ختم ہوجاتا ہے۔ اِس گھیٹو آئڈیالوجی کا بھیانک نتیجہ پس ماندگی اور پچھڑے پن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
زندگی کا راز علاحدگی پسندی میں نہیں ہے، بلکہ انٹریکشن میں ہے۔ زندگی کا راز لوگوں سے قریب ہونے میں ہے، لوگوں سے دور ہونے میں نہیں ہے۔ زندگی کا راز دوسروں کا خیر خواہ بننے میں ہے، دوسروں سے نفرت کرنے میں نہیں ہے۔ زندگی کا راز مثبت طرزِ فکر میں ہے، منفی طرزِ فکر صرف ہلاکت کا ذریعہ ہے، نہ کہ تعمیر وترقی کا ذریعہ۔
تاریخ کے فیصلے کو بدلنا
کعبہ کو تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ میں بنایا تھا۔ اُس وقت کعبہ مستطیل (rectangle) صورت میں تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے قریش مکہ نے کعبہ کی نئی تعمیر کی۔ اُس وقت انھوں نے کعبہ کی لمبائی کو کم کرکے اس کو مربّع (square) صورت میں تعمیر کیا۔ کعبہ اِس مربع صورت میں آج تک موجود ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اہلیہ عائشہ سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کعبہ کی عمارت کو دوبارہ میں ابراہیمی بنیاد پر بناؤں، مگر آپ اِس سے باز رہے، کیوں کہ عملی اسباب کے تحت اب ایسا کرنا زیادہ بڑی برائی (greater evil) کا سبب بنتا ہے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:1583 )
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس واقعے سے ایک اہم اصول معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ تاریخ کے پہیے کو دوبارہ الٹی طرف نہیں چلایا جاسکتا:
The wheel of history cannot be put in the reverse gear.
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس پیغمبرانہ واقعے سے فطرت کا ایک قانون معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ تاریخ کا سفر ہمیشہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی طرف ہوتا ہے۔
تاریخ میں یو ٹرن (U turn) لینا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ تاریخ کے سفر کو مستقبل سے حال کی طرف اور حال سے ماضی کی طرف جاری کردے۔ تاریخ کے معاملے میں موجود صورت حال (statusquo) کو مان کر منصوبہ بنایا جاتا ہے، نہ کہ اس کا انکار کرکے۔
کعبہ کی تاریخ اِس معاملے کی ایک مثال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کے اِس قانون کو تسلیم کرتے ہوئے سابق ابراہیمی بنیاد پر کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بعد کو عبد اللہ بن زبیر (وفات: 692 ء) کا زمانہ آیا تو انھوں نے کعبہ کی عمارت کو توڑ کر اس کو دوبارہ ابراہیمی بنیاد پر بنایا، لیکن عبد اللہ بن زبیر کی وفات کے فوراً بعد حجاج بن یوسف الثقفی (وفات: 714 ء) نے اس کو توڑ دیا اور دوبارہ کعبہ کو اس کی سابق بنیاد پر تعمیر کردیا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس سنتِ رسول سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ اِس لیے وہ بار بار اِس سنتِ رسول کی خلاف ورزی کرتے ہیںاور اس کے نتیجے میں وہ صرف اپنی تباہی میں مزید اضافہ کرلیتے ہیں۔
بیسویں صدی کے ربع اول میں خلافت تحریک، بیسویں صدی کے نصف ثانی میں فلسطینی تحریک، بیسویں صدی کے نصف آخر میں کشمیری تحریک اور اِس قسم کی دوسری تحریکیں اِسی کا ثبوت ہیں۔ اِن تحریکوں کے لیڈروں نے تاریخ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش کی، مگر تاریخ کا فیصلہ نہیں بدلا، البتہ نادانی کی اِس سیاست نے مسلمانوں کی تباہی میں مزید اضافہ کردیا—وہ لمحہ جب کہ تاریخ کا فیصلہ ہورہا ہو، اُس وقت آپ اپنی دانش مندانہ پالیسی کے ذریعے فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، لیکن جب فیصلہ ہوگیا تو اُس کے بعد فیصلے کو بدلنے کی کوشش کرنا عملاً خود کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔
ناممکن کی سیاست
موجودہ زمانے کے مسلم رہنما ہر جگہ سیاست کے ہنگامے جاری کئے ہوئے ہیں۔جہاںبھی کچھ مسلمان ہیں، وہاں اِس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔ مگر یہ تمام سیاسی ہنگامے مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہورہے ہیں۔ اِس کا مشترک سبب یہ ہے کہ یہ تمام مسلم رہنما ناممکن کی سیاست چلا رہے ہیں، یعنی ایک ایسی چیز کے نام پر سیاست جو سرے سے قابلِ حصول ہی نہیں۔ ایسی سیاست کا نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ وہ عملاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
موجودہ زمانے میں اِس قسم کی سیاست ہر مسلم علاقے میں دیکھی جاسکتی ہے — فلسطین میں یہ نعرہ کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرو اور وہاں دوبارہ عرب حکومت قائم کرو۔ اِسی طرح کشمیر میں یہ سیاست کہ وہاں سے انڈیا کا غلبہ ختم کیا جائے اور کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا جائے۔ اِسی طرح سنکیانگ (چین) اور فلپائن جیسے مقامات پر یہ مطالبہ کہ یہاں دوبارہ مسلم رول قائم کرو، جیسا کہ وہ پہلے وہاں قائم تھا، وغیرہ۔
اِس قسم کی ہر سیاست ناممکن کی سیاست ہے۔ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ ہر گزملنے والا نہیں۔ اِس قسم کی ناممکن سیاست کا واحد انجام یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ بھی چھن جائے اور مزید کچھ حاصل نہ ہو۔ ناممکن کی سیاست عقل کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔ سیاست کے معاملے میں عقل اور اسلام دونوں کا تقاضا صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اس کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ جہاں مثبت نتیجہ ملنے کی امید نہ ہو، وہاں ملے ہوئے پر قناعت کرنا ہے، نہ کہ نہ ملے ہوئے کے لیے لڑائی چھیڑنا۔ ناممکن کی سیاست ہمیشہ صرف لیڈروں کے لیے مفید ہوتی ہے، عوام کے لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
ناممکن کی سیاست لیڈر کے لیے استحصال (exploitation) کی سیاست ہے اور عوام کے لیے صرف نادانی کی سیاست۔ ناممکن کی سیاست کے لیے کم سے کم جو لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے، وہ خود کشی کی سیاست ہے۔ خود کشی سے کم کوئی لفظ اِس تباہ کن سیاست کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں۔ مزید یہ کہ ناممکن کی سیاست صرف ایک فرد کی خود کشی نہیں ہے، بلکہ وہ پوری قوم کی خود کشی ہے۔
آئڈیل اور پریکٹکل
اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کو جب کوئی حقیقت پسندانہ مشورہ دیاجائے تو وہ فوراً ایک آئڈیل بات کہہ دیں گے — مگر انصاف کا تقاضا یہ ہے، حقوقِ انسانی (human rights) کا قانون تو یہ کہتا ہے، انسانی اقدار (human values) کے اعتبار سے تو ایسا ہونا چاہیے، وغیرہ۔ اِس قسم کی باتیں صرف آئڈیل ازم (idealism)کی باتیں ہیں۔ اِس دنیا میں کبھی آئڈیل ازم نہیں چلتا، اِس دنیا میں ہمیشہ وہی ہوتاہے جو عملی اعتبار سے قابلِ حصول ہو۔
اِس معاملے میں اصل قابلِ لحاظ بات یہ نہیں ہے کہ ہمارے اپنے معیار کے مطابق، کیا ہونا چاہیے۔اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق کیا ہوسکتاہے۔ یہ مسئلہ کسی نظری معیار کا مسئلہ نہیں ہے، یہ مسئلہ تمام تر یہ ہے کہ اِس دنیا میں کیاچیز عملاًقابلِ حصول ہے اور کیا چیز عملاً قابلِ حصول نہیں۔ خالق کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، اِس دنیا میں ہر انسان کو آزادی حاصل ہے۔ ہم دوسرے کی آزادی کو منسوخ نہیں کرسکتے۔
ہمارے لیے قابلِ عمل بات صرف یہ ہے کہ ہم دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنے عمل کا منصوبہ بنائیں، ہم دوسروں کو عمل کا موقع دیتے ہوئے اپنے لیے عمل کا موقع نکالیں۔ یہی زندگی کی حکمت ہے۔ اِس حکمت (wisdom) کی موافقت سے دنیا میں امن قائم ہوتاہے۔ اِس حکمت کی موافقت نہ کرنا، نفرت اور تشدد کو فروغ دینا ہے، اور نفرت اور تشدد صرف مسئلے میںاضافہ کرنے والا ہے، نہ کہ اس کو ختم کرنے والا۔یہ فطرت کا ایک اٹل اصول ہے۔ اِس معاملے میں کسی کا کوئی استثنا نہیں۔ جو لوگ فطرت کے اِس نظام کی خلاف ورزی کریں، ان کے لیے اِس دنیا میں صرف تباہی مقدر ہے، خواہ انھوںنے اپنے غیر فطری عمل کو کتنا ہی زیادہ خوب صورت نام دے رکھا ہو۔
پیغمبر کی رہنمائی
حضرت علی بن ابی طالب چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔40 ہجری ( 661 عیسوی) میں ان کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت حسن بن علی کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرلی۔ مگر اُس وقت مسلمان دو گروہ میں بٹ گئے تھے۔ ایک گروہ حضرت حسن کے ساتھ تھا، اور دوسرا گروہ حضرت معاویہ کے ساتھ۔ دونوں گروہوں میں اختلافات اتنے زیادہ بڑھے کہ دونوں گروہوں میں جنگ کی صورت پیدا ہوگئی۔ اُس وقت حضرت حسن کے ساتھ چالیس ہزار مسلح افراد تھے۔ اگر جنگ ہوتی تو دونوں طرف کے ہزاروں آدمی مارے جاتے۔ حضرت حسن نے اِس ٹکراؤ کو پسند نہیں کیا۔ چناں چہ وہ یک طرفہ طورپر عہدے سے دست بردار ہوگئے اور خلافت کا عہدہ حضرت حسن نے معاویہ کے حوالے کردیا۔ حضرت حسن کی یہ روش اُس وقت کے مسلمانوں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف سخت بیانات دئے۔ ایک مسلمان نے آپ کو خطاب کرتے ہوئے کہا: یا عارَ المسلمین (اے مسلمانوں کے لیے ننگ وعار)۔ حضرت حسن نے اس کے جواب میں کہا: العارُ خیرٌ من النار (ننگ وعار آگ سے بہتر ہے) البدایۃ والنہایۃ، جلد 8، صفحہ 18-19 ۔
حضرت حسن کی اِس مصلحانہ روش کو عام مسلمانوں نے پسند نہیں کیا، کیوںکہ اُن کے نزدیک، یہ ذلت اور پسپائی کی روش تھی۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگی طورپر اِس روش کی تصدیق فرمائی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت حسن جب چھوٹے تھے، تو آپ نے اُن کے بارے میں پیشین گوئی کے انداز میں فرمایا تھا: إن ابنی ہٰذا سیّد، ولعل اللہ أن یصلح بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2704) یعنی یہ میرا بیٹا سردار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہ کے درمیان صلح کرادے۔
اِس واقعے سے زندگی کی ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک روش جو عام مسلمانوں کی نظر میں ذلت اور پسپائی کی روش ہو، وہی روش پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں درست قیادت کی ایک اعلیٰ مثال کی حیثیت رکھتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملات میں ذلت اور پسپائی کے الفاظ جاہلیت کے الفاظ ہیں۔ اسلامی طریقہ یہ ہے کہ اِس طرح کے معاملات کو نتیجہ (result) کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، نزاعی معاملات میں صرف وہ طریقہ صحیح طریقہ ہے جو ٹکراؤ اور تشدد سے بچانے والا ہو۔ اِس کے برعکس، جو طریقہ ٹکراؤ اور تشدد کی طرف لے جائے، وہ بلاشبہہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ اہلِ ایمان پر لازم ہے کہ وہ اِس طرح کے معاملے میں ٹکراؤ سے اعراض والا طریقہ اختیار کریں، خواہ ظاہر بیں لوگوں کو وہ ذلت اور پسپائی کا طریقہ دکھائی دیتا ہو۔
اِس واقعے میں اُن تمام مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے، جہاں کشمیر جیسے حالات پیش آرہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں کے مسلمان مذکورہ قسم کی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ ایسے تمام مسلمانوں کے لیے مذکورہ واقعہ ایک رہنما واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مسلمان اگر قومی عزت اور قومی وقار کی اصطلاحوں میں سوچتے ہیں تو اُنھیں فوراً اپنی اِس سوچ کو چھوڑ دینا چاہئے، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں انھیں یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ ہر حال میں امن اور مصالحت کا طریقہ اختیار کریں گے، نہ کہ ٹکراؤ اور تشدد کا طریقہ۔ حضرت حسن کے الفاظ میں، اِس طرح کی صورتِ حال میں تشدد کا طریقہ اختیار کرنا، جہنم کا طریقہ ہے، اور امن کا طریقہ اختیار کرنا جنت کا طریقہ ۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں، حضرت حسن بن علی مسلمانوں کے درمیان غیر مقبول ہوگئے۔ اِس کا سبب کیا تھا۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ وہ لو پروفائل (low-profile) میں بولتے تھے۔ عوام کا یہ عجیب مزاج ہے کہ وہ ایسے افراد کو اپنا قائد بنالیتے ہیں جو ہائی پروفائل (high-profile) میں بولیں، اور جو شخص لو پروفائل میں بولے، وہ اُن کے درمیان صرف ایک غیر اہم شخص بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر عقل اور اسلام دونوں کا یہ فیصلہ ہے کہ خدا کی اِس دنیا میں، ہائی پروفائل میں بولنے والے لوگوں کا انجام تباہی ہو، اور لو پروفائل میں بولنے والوں کا انجام کامیابی۔ اسلام کی صراطِ مستقیم پر صرف وہ لوگ ہیں جو لو پروفائل میں بولنے والے رہنما کا ساتھ دیں۔ اللہ کی نصرتیں صرف ایسے لوگوں کے لیے ہی مقدر ہیں ۔
اتباعِ یہودیت
صہیونیت (Zionism) موجودہ زمانے کے یہودیوں کی سب سے بڑی تحریک ہے۔ یہ تحریک 1897 میں شروع ہوئی۔ اس کا مقصد تھا — فلسطین میں دوبارہ یہودی ریاست قائم کرنا:
Zionism: Political and cultural movement seeking to re-establish Jewish national state in Palestine.
دوسرے لفظوں میں یہ کہ صہیونیت، زمین مرکزی سیاست (land-based politics) کا دوسرا نام ہے۔ موجودہ زمانے کے یہودی اپنی تمام طاقت، اپنا تمام سر مایہ، اپنے تمام وسائل اِس سیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، اِسی یہودی اُسوہ کا اتباع کررہے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سرگرمی براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر اِسی مبنی برزمین سیاست (land-based politics) کا نمونہ ہے۔ ہر جگہ کے مسلمانوں نے اِسی قسم کی تحریک چلائی کہ وہ زمین کے ایک خطے پر قبضہ کریں اور وہاں اپنی حکومت قائم کریں۔ پاکستان، فلسطین، کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، اراکان، فلپائن، سنکیانگ، وغیرہ۔ ساری دنیا کے مسلمان اِس مبنی بر زمین سیاست میں یا تو عملاً شریک ہیں، یا وہ اِس انداز میں سوچتے ہیں، یا اپنی تقریر اور تحریر میں اِسی کا چرچا کرتے ہیں۔
یہ بلاشبہہ یہودی طریقہ کا اتباع ہے۔ اِس قسم کے قومی اور سیاسی جھگڑے، خواہ وہ اسلام کے نام پر کئے جائیں، لیکن وہ اسلام نہیں۔ وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی سیاست ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی کی سرگرمیاں ہیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اِس قسم کی قومی اور سیاسی سرگرمی کو مطلق طورپر ترک کردیں، وہ اپنے ملی عمل کی ازسرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ اِس قسم کی قومی سیاست کا کوئی مثبت انجام نہ اب تک برآمد ہوا ہے اور نہ آئندہ برآمد ہونے والا ہے۔
اسلام کا جامع تصور
کچھ لوگ اسلام کا جامع تصور پیش کررہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اسلام میں صرف عقیدہ اور عبادت اور اخلاق شامل نہیں ہیں، بلکہ پولٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے، وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک تخریبی تصور ہے۔ موجودہ زمانے کی مسلم ملیٹنسی (Muslim militancy) اِسی نام نہاد جامع تصور کی براہِ راست پیداوار ہے۔
آپ اسلام کے عقیدے کو مانیں، اسلامی طریقے پر عبادت کریں، اسلام کے اخلاقی اصولوں کی پابندی کریں تو یہ آپ کا ایک ذاتی عمل ہوتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی اور کے ساتھ آپ کا ٹکراؤ پیش نہیں آتا، لیکن جب آپ اپنا نشانہ یہ بنائیں کہ مجھے زمین پر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے تو یہ نشانہ فوراً آپ کو دوسرے سے ٹکرا دیتا ہے۔ اس لیے کہ پولٹکل اقتدار کوئی خالی سیٹ نہیں ہے جس پر جاکر آپ بیٹھ جائیں۔ پولٹکل اقتدار ہمیشہ کسی کے قبضے میں ہوتا ہے،اِس لیے پولٹکل گدّی کو حاصل کرنے کے لیے فوراً دوسروں سے ٹکراؤ پیش آتا ہے۔ اِس طرح آپ کا سیاسی نشانہ آپ کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ آپ اقدام کرکے قابض لوگوں سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ نظریہ قدرتی طورپر دو گروہوں کے درمیان تشدد اور ٹکراؤ کی صورت پیدا کردیتا ہے—موجودہ زمانے میں مختلف مقامات پر جو مسلم ملیٹنسی جاری ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسلام کے اِسی نام نہاد جامع تصور کا نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اصلاً اپنے آپ کو خدا کے احکام کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جہاں تک اجتماعی نظام میں اسلام کے سیاسی اور قانونی احکام کے نفاذ کا سوال ہے، وہ تمام تر حالات پر منحصر ہے۔ سماج اگر اِن احکام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتو پُر امن کوششوں کے ذریعے اِن احکام کی بجا آوری کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ اسلام کا اصول، تکلیف بقدرِ وسع ( 2: 286 ) کا اصول ہے۔
امر ِموعود، امر ِمقصود
قرآن کی سورہ النور میں اجتماعی زندگی کے بارے میں ایک حکم بیان ہوا ہے۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میںاقتدار عطا کرے گا، جیسا کہ اُن سے پہلے لوگوں کو اقتدار عطا کیا تھا، اوراُن کے لیے ان کے اُس دین کو جمادے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کے خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے، تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں‘‘ ( 24: 55 ) ۔
قرآ ن کی اِس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر سیاسی اقتدار کی حیثیت امر ِموعود کی ہے، نہ کہ امرِ مقصود کی۔ مسلمانوں کے لیے اپنے عمل کا نشانہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ایمان اور عملِ صالح کی صفات پیدا کریں، وہ اپنی ساری توجہ اِسی داخلی نشانے پر لگادیں۔
جہاں تک زمین پر سیاسی غلبہ کا معاملہ ہے، اس کا تعلق تمام تر اللہ تعالی سے ہے۔ قرآن کے مطابق، زمین پر سیاسی غلبہ کا فیصلہ براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اُسی کو ملتا ہے جس کے لیے اللہ نے اس کا فیصلہ کیا ہو( 3: 26 )۔
اِس سے معلوم ہوا کہ سیاسی نظام کے قیام کو نشانہ بنا کر عمل کرنا، ایک مبتدعانہ عمل ہے۔ وہ دین کے نام پر بے دینی ہے۔ وہ اسلام کے نام پر اسلام سے انحراف کرنا ہے۔ اِس قسم کی کوشش کو کبھی خدا کی نصرت نہیں ملے گی، اِس لیے ایسی کوشش کبھی کامیاب ہونے والی نہیں ۔
یک طرفہ رپورٹنگ
قرآن کی سورہ التطفیف میں، ناپ تول میں کمی کو ایک مجرمانہ فعل بتایا گیاہے۔ یہاں متعلق آیات کا ترجمہ نقل کیا جاتاہے: خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو وہ پورا لیں۔ اور جب وہ اُن کو ناپ کر یا تول کر دیں تو گھٹا کر دیں:
Woe to those who give short measure, who demand of other people full measure for themselves, but when they give by measurment or weight to others, they give them less. ( 83: 1-3 )
قرآن کی اِس آیت میں جس اخلاقی برائی کا ذکر ہے، اُس سے مراد محدود طورپر صرف ناپ تول کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق زندگی کے تمام اجتماعی معاملات سے ہے۔ موجودہ زمانے میں اِس تطفیف کی ایک تباہ کُن صورت وہ ہے جس کو یک طرفہ رپورٹنگ کہاجاسکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ برائی مسلمانوں کے اندر بہت زیادہ عام ہے۔ مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے یہ کرتے ہیں کہ جب بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی ٹکراؤ ہو تو وہ صرف غیر مسلموں کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کو بیان کرتے ہیں، اور مسلمانوں نے اپنی طرف سے جو کچھ کیا تھا، اُس کو وہ حذف کردیتے ہیں۔ وہ غیر مسلموں کی جوابی کارروائی کو بیان کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کی طرف سے کئے جانے والے اقدام کو بیان نہیں کرتے۔
اِس طرح کے معاملات میں کہنے والے اکثر یہ کہتے ہیں کہ کوئی آپ کے گھر میں گھس آئے تو آپ کیا کریں گے۔ اِسی کا نام یک طرفہ رپورٹنگ ہے، کیوںکہ کوئی گھسنے والا اچانک نہیں گھستا، بلکہ پہلے گھر والے اپنی کسی کارروائی سے اس کو مشتعل کرتے ہیں، اس کے بعد کوئی گھسنے والا اُن کے گھر میں گھستا ہے۔ اِس کا حل اپنے حصے کی اشتعال انگیزی کو روکنا ہے، نہ کہ گھسنے والے کے خلاف بے فائدہ چیخ و پکار کرنا۔ اِسی طرح کی صورتِ حال کے بارے میں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: الفتنۃ نائمۃ، لعن اللہ من أیقظہا (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث:5975 ) یعنی فتنہ سویا ہوا ہے۔ اللہ اُس شخص پر لعنت کرے جو اِس سوئے ہوئے فتنے کو جگائے۔
اِس یک طرفہ رپورٹنگ (one-sided reporting) کا یہ بھیانک انجام ہوا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ صرف مظلوم ہیں، اور دوسرے لوگ صرف ظالم۔ اِس ناقص رپورٹنگ کا مزید نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان منفی سوچ (negative thinking) میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ وہ دوسری قوموں کو دشمن سمجھ کر اُن سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ انسانوں کے بارے میں وہ نفرت کی نفسیات میں جیتے ہیں، نہ کہ محبت کی نفسیات میں۔
اِس یک طرفہ رپورٹنگ کی برائی صرف یہ نہیں ہے کہ وہ حقیقت کے اعتبار سے، خلافِ واقعہ ہے۔ اِس کا شدید تر نقصان یہ ہے کہ اُس نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو منافقت میں مبتلا کردیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ دوسری قوموں سے الگ ہو کر اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ اپنے مادّی مفاد کے تحت اُن کو بار بار دوسری قوموں سے مصالحانہ تعلق قائم کرنا پڑتاہے۔ چناں چہ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ نفرت کی اِس سوچ کو باقی رکھتے ہوئے دوسری قوموں سے سماجی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دل میں نفرت رکھتے ہوئے وہ لوگوںکے ساتھ دوستانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔ یہ بلا شبہہ دو عملی ہے، اور دو عملی ہی کا دوسرا نام منافقت ہے۔
یک طرفہ رپورٹنگ، یعنی کسی واقعے کے ایک پہلو کو بیان کرنا اور دوسرے پہلو کو بیان نہ کرنا کوئی سادہ بات نہیں ۔ اِس کے بے شمار نقصانات ہیں— اِس طرح کی رپورٹنگ سے آدمی کے اندر غیرسنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی صلاحیت اس کے اندر سے ختم ہوجاتی ہے۔ وہ قومی عصبیت میں مبتلا ہو جاتاہے۔ معاملات میں حقیقت پسندانہ مزاج اس کے اندر باقی نہیں رہتا۔ دوسروں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ اس کے اندر سے ختم ہوجاتا ہے۔ وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس کے اندر پہلے شکایتی مزاج پیدا ہوتاہے، اس کے بعد وہ لوگوں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ آخر میں وہ متشددانہ کارروائی کو اپنے لیے جائز سمجھ لیتاہے— شراب اگر جسمانی اعتبار سے، اُمّ الخبائث ہے، تو یک طرفہ رپورٹنگ سوچ کے اعتبار سے، ام الخبائث کی حیثیت رکھتی ہے۔
عمومی فتنہ
قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: واتقوا فتنۃً لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصّۃً۔یعنی ڈرو اُس فتنے سے جو خاص اُنھیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے غلط کاری کے مرتکب ہوئے ہیں:
Beware of an affliction that will not smite exclusively those among you who have done wrong.( 8: 25 )
قرآن کی اِس آیت میں ’فتنہ‘ سے مراد خدائی فتنہ نہیں ہے، بلکہ انسانی فتنہ ہے، یعنی اشتعال کی وہ صورتِ حال جو ایک انسان یا بعض انسانوں کے ناعاقبت اندیشانہ عمل کے ذریعے پیداہوئی ہو۔ اِس طرح کی صورتِ حال جب کسی سماج میں پیدا ہو جائے تو اُس کے بعد وہاں جو شورش برپا ہوگی، اس کا برا انجام انتخابی طور پر پیش نہیں آئے گا، بلکہ اس کا برا انجام عمومی طورپر پورے سماج کو بھگتنا پڑے گا۔
مثال کے طورپر ایک شہر میں غیر مسلموں کی ایک عبادت گاہ ہے۔ وہاں لاؤڈاسپیکر پر اُن کا کوئی پروگرام ہورہا ہے۔ اب اگر کچھ مسلمانوں کو اِس پر شکایت پیدا ہو، وہ غیر مسلم عبادت گاہ میں جاکر اُن سے لاؤڈاسپیکر بند کرنے کے لیے کہیں، مگر وہ لوگ اس کو بند نہ کریں۔ اِس پر مسلمان غصہ ہوجائیں اوروہ اُن کے لاؤڈاسپیکر کو توڑ کر پھینک دیں، تو یہ معاملہ کسی حد پر نہیں رکے گا، بلکہ جب یہ خبر پھیلے گی تو غیر مسلموں کی پوری کمیونٹی شدید رد عمل کا شکار ہو جائے گی۔ وہ مسلم کمیونٹی کے خلاف جذباتی کارروائی کرے گی۔ اِس کارروائی کا نشانہ صرف وہی مسلمان نہیں بنیں گے جنھوں نے لاؤڈاسپیکر کو توڑا تھا، بلکہ اس مقام کی پوری مسلم کمیونٹی اس کی زد میں آجائے گی۔
اِسی طرح مثلاً غیر مسلموں کا ایک جلوس نکلتا ہے۔ وہ ایسی سڑک سے گزرنا چاہتا ہے جہاں مسلمانوں کی مسجد واقع ہے۔ اب کچھ مسلمان سامنے آجاتے ہیں۔ وہ جلوس والوں سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ تم لوگ اپنے جلوس کا راستہ بدلو۔ اِس سے ہماری مسجد کی بے حرمتی ہوگی۔ اب مسلمان، پولس سے یہ مانگ کرتے ہیں کہ وہ مداخلت کرے اور جلوس کی روٹ (route) کو بدلوائے۔ مگر پولس، مسلمانوں کی مانگ کے مطابق جلوس کی روٹ کو نہیں بدلواتی۔ اب مسلمان مزید غصہ ہوجاتے ہیں۔ وہ پولس پر پتھر مارتے ہیں۔ اس کے بعد پولس مشتعل ہوجاتی ہے۔ وہ مسلمانوں کی بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ان پر گولی چلاتی ہے۔ پولس کی اس گولی کا شکار وہ مسلمان ہوتے ہیں جنھوںنے پولس کو پتھر مارا، اور وہ بھی جنھوں نے پولس کو پتھر نہیں مارا۔
یہی معاملہ اُن مقامات کا ہے جہاں زیادہ بڑے پیمانے پر یہ صورتِ حال پیش آرہی ہے۔ مثلاً کشمیر اور فلسطین، وغیرہ۔ اِن مقامات پر بھی یہی ہوتا ہے کہ پہلے مسلمان، پولس یا فوج پر پتھر مارتے ہیں۔ اس کے بعد پولس یا فوج مسلمانوں کے اوپر گولی چلاتی ہے یا ہوائی جہاز سے وہ ان کے اوپر بم گراتی ہے۔ اِس طرح کے واقعات میں عملاً یہی ہوتا ہے کہ جو مسلمان براہِ راست طورپر اِس فعل میں ملوث نہیں ہوتے، وہ بھی جوابی کارروائی میں فوج کی گولی ا ور بم کا نشانہ بنتے ہیں،یعنی ملوث ہونے والے مسلمان بھی اور ملوث نہ ہونے والے مسلمان بھی۔
اِس طرح کے تمام واقعات پر قرآن کی مذکورہ آیت چسپاں ہوتی ہے۔ ایسے واقعات کو لے کر یہ احتجاج کرنا کہ فریقِ ثانی کی جوابی کارروائی میں قصور وار مسلمان اور غیر قصوروار مسلمان دونوں زد میں آئے، اور یہ انسانی حقوق (human rights) کے خلاف ہے۔ اِس طرح کا احتجاج سرتا سر باطل ہے۔ قرآن ایسے کسی احتجاج کی تصدیق نہیں کرتا۔ اِس طرح کے واقعات میں ایسا ہونا بالکل فطری ہے کہ قصور وار کے ساتھ غیر قصور وار بھی مارے جائیں۔
قرآنی اصول کے مطابق، اِس طرح کے معاملے میں وہ لوگ ذمے دار قرار پاتے ہیں جنھوں نے ابتدائی طورپر اشتعال انگیزی کی کارروائی کی( 9: 13 ) ۔ اِس آیت کے مطابق، مسلم رہنماؤں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ مسلم معاشرے میں اشتعال کا ماحول پیدا نہ ہونے دیں، نہ یہ کہ اشتعال کے بعد کے واقعات کو لے کر وہ شکایت اور احتجاج کا ہنگامہ برپا کریں۔ ایسی روش کا دہرا نقصان ہے۔ ایک یہ کہ ایسے لوگ خدا کے غضب کا شکار ہوں، مزیدیہ کہ صورت حال کی کبھی اصلاح نہ ہو، اور وہ ہمیشہ ’’ذلت اور مسکنت‘‘ کے اِسی حال میں مبتلا رہیں۔
ردّ ِعمل اسلام میں نہیں
بہت سے لوگ جنگ اور تشدد میںمبتلا ہیں، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ اُن سے کہا جائے کہ تم یہ تباہ کُن کام کیوں کررہے ہو، تو وہ یہ جواب دیں گے کہ— یہ تو ایک فطری ردّ عمل ہے۔ جب کسی گروہ کے خلاف ظلم اور نا انصافی کا واقعہ پیش آئے گا، تو اس کے اندر ضرور جوابی ردّ عمل (reaction) پیدا ہوگا۔ وہ گن اور بم استعمال کرے گا، یہاںتک کہ آخر کار وہ خودکُش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر ہمارے متشددانہ ردّ عمل کو ختم کرنا ہے، تو فریقِ ثانی کی طرف سے کیے جانے والے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ ہماری طرف سے متشددانہ کارروائیوں کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ ردّ عمل (reaction) کو ختم کرنا ہے تو پہلے عمل (action) کو ختم کیجیے۔ اِس معاملے میںیک طرفہ نصیحت سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔
ردّ عمل کا یہ فلسفہ سرتاسر غیر فطری ہے۔ ایسے لوگوں کی اصل غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ذہنوں میں عمل کا غلط معیار قائم کرلیا ہے۔ عمل کا صحیح معیار یہ ہے کہ عمل کے بعد پیش آنے والے نتیجہ (result) کو دیکھا جائے۔ صحیح عمل کی پہچان یہ ہے کہ وہ عمل کرنے والوں کے لیے مفید نتیجہ پیدا کرے۔ جو عمل مفید نتیجہ پیدا نہ کرے، وہ سرے سے قابلِ ترک ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عمل یا تو مفید نتیجہ پیدا کرتا ہے، یا وہ عمل کرنے والوں کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں تیسری کوئی صورت نہیں۔ عملی اقدام وہی درست ہے جو نتیجہ خیز ہو۔ جو عملی اقدام نتیجہ خیز نہ ہو، وہ صرف اپنی تباہی میںاضافے کے ہم معنیٰ ہے، اور اپنی تباہی میں اضافہ کبھی کسی دانش مند کا کام نہیں ہوسکتا۔
کسی عمل کے مقابلے میں جذباتی ردّ عمل، اُس عمل کا جواب نہیں۔ عمل کا حقیقی جواب یہ ہے کہ پہلے صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، مثبت ذہن کے ساتھ نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جائے، پھر ٹکراؤ کے بجائے تعمیر کے اصول پر اپنے عمل کا آغاز کیا جائے۔ یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
دوسرا شجر ِ ممنوعہ
آدم پہلے انسان تھے۔ پیدائش کے بعد اُن کو جنت میں رکھاگیا۔ وہاں اُن کو ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ لیکن جنت میں ایک شجرممنوعہ (forbidden tree) تھا۔ آدم سے کہا گیا کہ جنت میں تم آزادانہ طور پر رہ سکتے ہو، لیکن اِس شجر ِ ممنوعہ کے قریب مت جانا، ورنہ تم کو جنت سے نکال دیا جائے گا۔ اِسی طرح موجودہ دنیا میں بھی ایک شجر ممنوعہ ہے، اور وہ تشدد ہے:
There was a forbidden tree in Paradise. There is also a forbidden tree in this world, and that is violence.
جو لوگ تشدد میں ملوث ہوں، اُن کو اپنے اِس جرم کی یہ بھاری قیمت دینی پڑے گی کہ وہ جنت میں داخلے سے محروم کردئے جائیں۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم اور اُن کی بیوی حوا جب کرۂ ارض پر بسائے گئے تو یہاں آغاز ہی میں ایک حادثہ پیش آیا۔ آدم کے دو بیٹوں ، قابیل اور ہابیل کے درمیان نزاع ہوئی، یہاں تک کہ قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اِس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا کہ : ’’جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اِس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اُس نے سارے آدمیوں کو قتل کر ڈالا‘‘ ۔ ( 5: 32 )
قرآن میں اِس قسم کے سخت الفاظ کسی بھی دوسرے جرم کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ سنگین جرم یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف جارحانہ تشدد کرے۔ اِس معاملے میں اگر کوئی استثنا ہے تو وہ ایک منظم حکومت یا ایک باقاعدہ عدالت کے لیے ہے۔ عام انسان کے لیے اِس معاملے میںکوئی استثنا نہیں۔
تشدد کی یہ سخت ممانعت اِس لیے ہے کہ تشدد فطری نظام کے خلاف ہے۔ خالق کا قائم کردہ فطری نظام یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کو آزادانہ طورپر کام کرنے کا موقع ملے، لیکن تشدد اور جارحیت سے یہ فطری نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ تشدد خالق کے فطری نظام میں مداخلت ہے۔ اور اِس قسم کی مداخلت بلا شبہہ سب سے زیادہ سنگین جرم کی حیثیت رکھتی ہے۔
موجودہ دنیا میں تشدد اورجارحیت سے پاک ماحول کس طرح بنایا جائے، اِس کا جواب صرف ایک ہے— اللہ سے ڈرنے والوں کو اپنے اوپر یہ ذمے داری لینا ہے کہ وہ یک طرفہ طورپر صبر کریں، وہ تشدد کے تجربے کے باوجود عملاً بے تشدد بن جائیں۔ صرف اِسی طرح تشدد سے پاک ماحول دنیا میں بن سکتا ہے۔ قرآن کی سورہ المائدہ میں بتایا گیا ہے کہ جب قابیل نے ہابیل کو مارنا چاہا تو ہابیل نے کہا: لئن بسطتَ إلیَّ یدک لتقتلنی، ما أنا بباسط یدیَ إلیک لأقتلک،إنّی أخاف اللہ ربَّ العالمین ( 5: 28 )یعنی اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے اپناہاتھ اٹھاؤ گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لیے تم پر اپنا ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ میں ڈرتا ہوں اللہ سے، جو سارے جہان کا رب ہے۔
تشدد پر یک طرفہ صبر کی یہ آخری مثال ہے جو آدم کے بیٹے ہابیل نے قائم کی۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعد کے زمانے میں سیاسی بگاڑ پیدا ہوگا، مگر تم اپنے حکم رانوں سے ہر گز ٹکراؤ نہ کرنا۔ ایک صحابی نے پوچھا کہ اگر وہ خود ہمارے گھر میں ہم کو مارنے کے لیے آجائیں تو ہم کیا کریں۔ آپ نے جواب دیا : فلیکن کخیر ابنَی آدم (سنن أبی داؤد، رقم الحدیث: 4259) یعنی تم آدم کے دوبیٹوں میں سے اچھے بیٹے بن جاؤ، یعنی خواہ تم دوسروں کے ہاتھ سے قتل ہوجاؤ، مگر تم خود دوسروں کو قتل کرنے کی کوشش نہ کرو۔
تشدد کی دو قسم ہے — ایک، غیر فعّال تشدد (passive violence) ۔ اور دوسرا، فعّال تشدد (active violence)۔ غیر فعّال تشدد یہ ہے کہ آپ دوسروں کو ظالم بتا کر ان سے نفرت کریں۔ اور فعال تشدد یہ ہے کہ آپ دوسروں کو ظالم بتا کر اُن کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کردیں۔ یہ دونوں صورتیں اسلام میں یکساں طورپر گناہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
آپ دونوں میں سے جس تشدد کا ارتکاب کریں، آپ شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کے مرتکب قرار پائیں گے۔ دونوں قسم کے تشدد کے درمیان صرف ظاہر کا فرق ہے، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
ماضی کو بھلانا
قر آن میں عفو ودر گزر کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے( 42: 43 )۔ عفو ودر گزرکا مطلب ہے، گزرے ہوئے دنوں کو بھلادینا۔ جو کچھ ماضی میں ہوا، اس کو حال میں یاد رکھنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کا مطلب ہے— گزری ہوئی مصیبت کو تلخ یاد کی صورت میں بدستور زندہ رکھنا۔ یہ طریقہ اسلام کے خلاف بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔ اسی بات کو برنارڈ شا (Bernard Shaw) نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا— سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان وہ ہے جس کے پاس بھلانے کے لیے کچھ نہ ہو:
The most uneducated man is one who has nothing to forget.
موجودہ زمانے میں جن مقامات پر مسلمان، تشدد کی کارروائیوں میں مشغول ہیں، وہ مسلسل قربانیوں کے باوجود اپنے مطلوب نتیجے کو حاصل نہ کرسکے۔ اِس کے باوجود وہ اپنے لاحاصل تشدد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے ماضی کے تلخ واقعات کو نہ بھلانا۔ اِن مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ماضی کے تلخ واقعات کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ وہ اِسی کے بارے میں لکھتے ہیں اور اِسی کے بارے میں بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزرے ہوئے واقعات مسلسل طورپر ان کو مشتعل کئے رہتے ہیں۔
یہ طریقہ اسلام اور عقلِ انسانی دونوں کے خلاف ہے۔ اِن علاقوں کے مسلمانوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ گزرے ہوئے منفی واقعات کو مکمل طورپر بھلا دیں، وہ اُن کو اللہ کے خانے میں ڈال دیں۔ اِس طرح وہ اِس قابل ہوجائیں گے کہ وہ اپنے معاملات پر حقیقت پسندانہ انداز میں سوچیں اور نتیجہ خیز طور پر اپنے عمل کی زیادہ درست منصوبہ بندی کرسکیں۔
نقصان برائے آزمائش
قرآن کی سورہ البقرہ میں، انسانوں کے بارے میں اللہ کی ایک سنت کو بتایا گیا ہے۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے، کچھ ڈر اور بھوک سے، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو، جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ — ہم اللہ کے ہیں اور ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر اُن کے رب کی عنایتیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو صحیح راہ پر ہیں‘‘۔ ( 2: 155-157 )
موجودہ دنیا کا نظام اِس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں لوگوں کو طرح طرح کے نقصانات کا تجربہ ہوتاہے۔ یہ نقصانات بظاہر کسی انسان کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اُسی انسان کو نقصان کا ذمے دار سمجھ کر اس کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ نفرت بڑھتے بڑھتے تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔ مگر یہ سوچ سنتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ اِسی لیے نفرت اور تشدد کا کوئی مثبت انجام ایسے لوگوں کو نہیں ملتا۔
صحیح یہ ہے کہ جب کوئی نقصان پیش آئے تو اس کا الزام دوسروں کو نہ دیا جائے، بلکہ خود اپنا محاسبہ (introspection) کیا جائے۔ دنیا کے اِن نقصانات کے حوالے سے آخرت کو یاد کیا جائے۔ اِن نقصانات کو خدائی یاد دہانی (divine warning) سمجھا جائے اور اپنی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اِس طرح کے نقصانات کو اگر خدا کے قائم کردہ نظامِ فطرت کے خانے میں ڈالا جائے تو اُس سے لوگوں کے اندر مثبت ذہن بنے گا۔ ایسا کرنے سے لوگ کھوئے ہوئے کے غم کو لے کر مایوسی کا شکار ہونے سے بچ جائیں گے اور اُس سے سبق لے کر از سرِ نو اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں گے۔
جس طرح ہر پیدا ہونے والے پر موت آتی ہے، اور زندہ رہنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اِس موت کو بھلا دیں، اُسی طرح، ہر پائی ہوئی چیز کو کبھی نہ کبھی کھونا پڑتاہے۔ اِس معاملے میں آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھوئی ہوئی چیز کو اُسی طرح بھلادے، جس طرح وہ مرنے والے کو بھلا دیتاہے۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک چیز کھوئی جاتی ہے تو فطرت کے نظام کے تحت، دوسری ہزاروں چیزیں موجود رہتی ہیں جو اب بھی انسان کو حاصل ہیں۔ ایسی حالت میں، کھوئے ہوئے کونہ بھلانے کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ آدمی کے اندرسے شکر کا جذبہ رخصت ہوجاتا ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ وہ کھوئی ہوئی چیز کے غم میں ملی ہوئی چیزوں کا شکر ادا کرنے سے محروم ہورہا ہے۔ یہ گویا دنیا کے حقیر نقصان پر آخرت کے عظیم نقصان کا خطرہ مول لیناہے۔ یہ عارضی محرومی کی خاطر اپنے آپ کو ابدی محرومی کا مستحق بنانا ہے، اور بلا شبہہ کوئی مومن اِس تباہ کن روش کا تحمل نہیں کرسکتا۔
کوئی نقصان، نقصان نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ 13 سال کے بعد آپ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ یہ غزوہ مدینے سے باہر جبل احد کے پاس ہوا تھا۔ اِس غزوہ میں 70 صحابہ شہید ہوگئے۔
غزوہ احد کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ بنو دینار کی ایک مسلم خاتون السُمیرا بنت قیس کے گھر کے تین افراد اِس غزوہ میں مارے گئے تھے— ان کے باپ، ان کے شوہر، ان کے بھائی۔ جب اس خاتون کو خبر دی گئی کہ تمھارے گھر کے تین افراد اِس جنگ میں شہید ہوگئے تو اس نے پوچھا: فما فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا)۔ اس کو بتایا گیا کہ آپ محفوظ اور سلامت ہیں۔ اس کے بعد وہ چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی۔ جب اس نے آپ کو دیکھا تو اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: کلُّ مصیبۃ بعدک جَلَلٌ (آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے، اے خدا کے رسول) السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، جلد 3، صفحہ 51
یہ صرف ایک صحابی خاتون کا ایک قول نہیں۔ یہ ایک صحابیہ کے اسوہ کی روشنی میں، امتِ محمدی کے ہر فرد کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ایک صاحبِ ایمان کو، ایمان کے بعد اتنی بڑی دولت مل جاتی ہے کہ اس کے بعد ہر نقصان اس کو ہیچ نظر آنے لگتا ہے۔
جب ایک شخص کو سچائی کی دریافت ہوتی ہے اور وہ ایک مومن انسان بن جاتا ہے تو یہ اس کے لیے کوئی سادہ معاملہ نہیں ہوتا۔ اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس کو حقیقت ِاعلیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی۔ اس نے اللہ رب العالمین کو پالیا۔ اس کو خاتم النبیین کی دریافت ہوگئی۔ اس کو قرآن کی شکل میں، اپنی زندگی کا ربانی ہدایت نامہ مل گیا۔ وہ فرشتوں کی صحبت کا مستحق بن گیا۔ اُس نے اُس صراطِ مستقیم کو جان لیا جس کو اختیار کرکے آدمی خدا کی رحمتوں کے سائے میں آجائے اور آخر کار وہ ابدی جنت میں پہنچ جائے۔
اِس قسم کے آدمی کے لیے کوئی نقصان نقصان نہیں، کیوں کہ ہر نقصان کے باوجود اُس کو اتنا بڑا خزانہ ملا ہوا ہوتا ہے جو ہر نقصان کو اس کے لیے بے حقیقت بنا دیتا ہے۔ ایک سچا صاحبِ ایمان ہمیشہ یافت (finding) میں جیتا ہے۔ اِس احساس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ محرومی یا مایوسی کا لفظ سچے اہل ایمان کی ڈکشنری سے اِس طرح گم ہوجاتا ہے، گویا کہ وہ موجود ہی نہیں۔اِسی حقیقت کی بنا پر اسلام میں مایوسی کو حرام قرار دیاگیا ہے۔ مایوسی کو حرام قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب اِس دنیا میں مایوسی کے اسباب نہیں تو کسی شخص کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ مایوسی کے احساس میں زندگی گزارے۔
خدا میں جینا
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا کیس ایک لفظ میں یہ ہے کہ —وہ خدا میں جینے والے نہیں بنے، وہ غیر خدا میں جی رہے ہیں۔ یہی واحد سبب ہے جس نے تمام مسلمانوں کو منفی سوچ (negative thinking) میں مبتلا کردیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں منفی سوچ اتنی زیادہ عام ہے کہ مشکل ہی سے اس میں کسی عورت یا مرد کا استثنا نظر آئے گا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا لکھنا اور بولنا، سب کا سب ان کی منفی سوچ کا اظہار ہے۔
منفی سوچ کا سبب کیا ہے۔ منفی سوچ دراصل شکایت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ ہر مسلمان کسی نہ کسی کے خلاف شکایت کا جذبہ لئے ہوئے ہے —فلاں نے زمین پر قبضہ کرلیا، فلاں نے اپنی فوجیں مسلم ملک میں اتار دیں، فلاں نے اسلام کی بے حرمتی کردی، فلاں نے ہم کو انصاف نہیں دیا، فلاں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، وغیرہ۔ آج کل ہر مسلمان اِس قسم کی شکایتوں میں جیتا ہے۔ اِنھیں شکایتوں نے ہر مسلمان کو منفی سوچ میں مبتلا کردیا ہے۔ مگر منفی سوچ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ منفی سوچ کا مطلب دراصل یہ ہے کہ —انسان نے کسی اور چیز کو وہ اہمیت دے دی جو اہمیت اُسے خدا کو دینا چاہیے:
Making one's concern something else other than God.
خدا کو پانا سب سے بڑی چیز کو پانا ہے۔ جس آدمی کو خدا کی دریافت (discovery) ہوجائے، اس کی سوچ اتنی زیادہ بلند ہوجاتی ہے کہ ہر دوسری چیز اس کی نظر میں حقیر بن جاتی ہے۔ کسی چیز کا کھونا یا پانا دونوں اس کی نظر میں یکساں ہوجاتے ہیں۔ وہ اِس نفسیات میں جینے لگتا ہے کہ — تم جو چیز چاہو، مجھ سے چھین لو، لیکن تم خدا کو مجھ سے نہیں چھین سکتے:
You can take away from me whatever you want, but you cannot take God away from me!
یہ نفسیات ایک مومن کو انتہائی حد تک مثبت سوچ (positive thinking)والا انسان بنادیتی ہے۔ کسی کے خلاف نفرت یا مایوسی کا ایک ذرہ بھی اس کے اندر باقی نہیں رہتا۔
وقت ضائع نہ کیجئے
انسان دنیا میں کس لیے آیا ہے— وہ اِس لیے نہیں آیا ہے کہ یہاں وہ اپنی پسند کی حکومت قائم کرے۔ وہ یہاں صرف اِس لیے آیا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو خالق کی پسند کے مطابق بنائے۔ انسان کو موجودہ دنیا میں صرف چند سال کی عمر ملی ہے۔ چند سال کی اِس مدت میں کوئی دوسرا کام کرنا، اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے ضائع کرلینا ہے۔ صحیح استعمال صرف وہ ہے جو موت کے بعد کام آئے۔ موت کے بعد صرف وہ انسان کامیاب قرار دیا جائے گا جس نے موت سے پہلے کی زندگی میں اپنے آپ کو خالق کی پسند کے مطابق بنایا ہو۔
خالق کی پسند کیاہے، کشمیر جیسا علاقہ اس کا ایک زندہ نمونہ ہے۔ کشمیر کی وادیوں میں جاری چشمے خالق کی پسند کا اعلان کررہے ہیں۔ یہاں کے ہرے بھرے درخت اپنی خاموش زبان میںخالق کی پسند کو بتارہے ہیں، یہاں کی فضاؤں میں اڑتے ہوئے پرندے خالق کی پسند کا چرچا کررہے ہیں، یہاں کے خوب صورت پہاڑوں میں خالق کی پسند کا نغمہ گونج رہا ہے۔ یہاں کی مسحور کُن فضاؤں میں ہرطرف خالق کی پسند کا جلوہ دکھائی دیتاہے۔ کشمیر گویا فطرت کی زبان میں خالق کا کلام ہے۔ کشمیر کے ماحول میں انسان خالق کے پڑوس کا تجربہ کرتاہے۔
کشمیر کی سرزمین میں پیدا ہونے والے ہر انسان کا پہلا فرض ہے کہ وہ خالق کی اِس زندہ کتاب کو پڑھے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ جو لوگ یہ کام نہ کریں، اُن کے لیے موت کے بعد صرف یہ انجام سامنے آئے گا کہ وہ ابد تک حسرت میں جیتے رہیں۔ اُن کے حصے میں صرف یہ مایوسانہ سوچ آئے کہ اُن کا کیس صرف مواقع کے استعمال سے محرومی کا کیس تھا:
Mine was a case of missed opportunities.
دنیا میں کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آدمی یہاں اپنی شخصیت کو جنتی شخصیت بنائے، تاکہ آخرت میں اس کو اللہ کی ابدی جنت میں داخلہ ملے۔ موجودہ دنیا جنت کی تعمیر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ وہ جنتی شخصیت کی تعمیر کی جگہ ہے۔ اِس دنیا میں جنتی شخصیت کی تعمیر ہی وہ کام ہے جس کے لیے انسان کو عمل کرنا چاہیے: لمثل ہذا، فلیعمل العاملون( 37: 61 ) ۔
پتھر سے قرآن تک
ایک کشمیری مسلمان نے کہا کہ— اکتوبر 1989 سے اکتوبر 2011 تک ہم نے ایک لمبا راستہ طے کیا ہے۔ پہلے ہم آرمی کے اوپر پتھر مارتے تھے، اب ہم آرمی کے سامنے قرآن پیش کرتے ہیں۔ایک کشمیری مسلمان کے یہ الفاظ کشمیر میں آنے والے نئے دورِ انقلاب کو بتارہے ہیں، وہ کشمیر میں ایک نئے آغاز کی علامت ہیں۔ ایک بار جب تاریخ میں ایک صحت مند عمل (healthy process) شروع ہوجائے تو وہ جاری رہتاہے، یہاں تک کہ وہ اپنی منزل تک پہنچ جائے۔
مذکورہ کشمیری مسلمان کے الفاظ کامطلب یہ ہے کہ — کشمیری مسلمان پہلے بے شعوری میں جی رہے تھے، اب انھوں نے شعور میں جینا سیکھ لیا ہے۔ کشمیری مسلمان پہلے نفرت میں جی رہے تھے، اب انھوںنے محبت میں جینا شروع کردیا ہے۔ کشمیری مسلمان پہلے انسان کو اپنا حریف سمجھتے تھے، اب انھوں نے انسان کو اپنا مدعو سمجھنا شروع کردیا ہے۔ کشمیری مسلمان پہلے تشدد میں جی رہے تھے، اب انھوں نے امن میں جینے کا راز دریافت کرلیا ہے۔ کشمیری مسلمان پہلے شیطان کے کلچر کو اختیار کئے ہوئے تھے، اب انھوں نے فرشتوں کے کلچر پر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
شیطان کا کلچر کیا ہے، اللہ نے آدم (انسان) کو پیدا کیا اور ابلیس سے کہا کہ انسان کا اعتراف کرو۔ ابلیس نے ایک خود ساختہ عذر لے کر انسان کا اعتراف کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے برعکس، فرشتوں نے اللہ کے حکم کے مطابق، فوراً آدم کا اعتراف کرلیا۔ گویا شیطان نے آدم کی طرف پتھر پھینکے اور فرشتوں نے اِس معاملے میں اپنے لیے خدا کے کلام کا انتخاب کیا۔
اِس دنیا میں یہی انسان کا امتحان ہے۔ جو لوگ دوسرے کی طرف پتھر پھینکیں، وہ امتحان میں ناکام ہوئے۔ اس کے برعکس، جو لوگ دوسروں کا استقبال خدا کے کلام سے کریں، وہ کامیاب ٹھہرے، کیوں کہ انھوں نے وہ طریقہ اختیار کیا جو فرشتوں کا طریقہ ہے— کشمیر کے مسلمانوں کا یہ نیا فیصلہ، کشمیر کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ یہ تاریک رات کے بعد روشن صبح کے طلوع کا اعلان ہے۔
قرآن کی طاقت
قرآن دلوں کو مسخر کرنے والی کتاب ہے۔ تاریخ میں کثرت سے اِس کی مثالیں موجود ہیں جب کہ قرآن نے کسی فرد یا گروہ کے اندر اپنی نظریاتی طاقت سے، انقلاب پیدا کردیا۔ قرآن، خداکی کتاب ہے اور انسان، خدا کی مخلوق۔ قرآن کی یہی وہ صفت ہے جس نے قرآن کے اندر انسانوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت پیدا کردی ہے۔
اِس معاملے کی ایک تاریخی مثال مصر ہے۔ دور اول کے مسلمان جب مصر میں داخل ہوئے، اُس وقت مصر کے لوگ قبطی زبان بولتے تھے، اور وہ شرک کے مذہب پر قائم تھے۔ قرآن کے اثر سے انھوں نے نہ صرف اپنے مذہب کو تبدیل کیا، بلکہ انھوں نے قرآن کی زبان (عربی) کو بھی اپنی زبان بنا لیا۔
مصریات کے ایک برٹش مورخ سر آرتھر کیتھ (Sir Arthur Keith) نے اِس واقعے کا ذکر اِن الفاظ میں کیا ہے — مصر کے لوگ تلوار سے مفتوح نہیں ہوئے، بلکہ وہ قرآن سے مفتوح ہوئے:
The Egyptians were conquered not by the sword, but by the Quran.
قرآن دوبارہ اپنے اِس فاتحانہ کردار کو اداکرسکتا ہے، بشرطیکہ قرآن کو ماننے والے غیر قرآنی سرگرمیوں کو چھوڑ دیں اور وہ قرآن کے پرامن پیغام کو دنیا کے لوگوں تک پہنچا دیں۔
اسلام کی بہار
جون 1989میں ، میں نے کشمیر کا سفر کیا تھا۔ ایک کشمیری مسلمان نے بتایا کہ اِس سفر کے دوران میںنے سری نگر کی ایک مجلس میں کہا تھا کہ — کشمیر میں مجھ کو اسلام کی بہار دکھائی دیتی ہے۔ کشمیر کے بارے میںیہ بات میں نے کشمیر کے بالفعل (actual) کو لے کر نہیں کہی تھی، یہ بات میں نے کشمیر کے بالقوہ (potential) کو لے کر کہی تھی۔
کچھ نادان لیڈروں نے کشمیریوں کے جذبات کو بھڑکا کر یہاں سیاست کی گرم ہوائیں چلادیں، لیکن یہ بات کشمیریوں کے اصل مزاج کے مطابق نہیں۔ کشمیری لوگ اپنے مزاج کے اعتبارسے، امن پسند لوگ ہیں۔ اگر اُن کو صحیح رہنمائی مل جائے تو یقینی طورپر یہاں ایسا ہوگا کہ خزاں کے موسم کی جگہ بہار کا موسم آجائے۔ تشدد کی گرم ہواؤں کے بجائے یہاں امن کی ٹھنڈی اور خوش گوار ہوائیں چلنے لگیں۔ یہاں دوبارہ سیاسی اسلام کے بجائے، ربانی اسلام کا دور دورہ ہوجائے۔
کشمیر میں اسلام کی بہار آنے کا پورا امکان ہے،لیکن یہ امکان اپنے آپ واقعہ نہیں بن سکتا۔ اِس کے لیے ضرورت ہے کہ اسلام کی پرامن تعلیمات کو یہاں کے لوگوں میں عام کیا جائے۔ لوگوں کے درمیان شعوری تعمیر نو (intellectual re-engineering) کی تحریک چلائی جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ نفرت اور تشدد اُن کے لیے کوئی انتخاب نہیں۔ اُن کے لیے انتخاب صرف ایک ہے، اور وہ امن اور محبت ہے۔ اِسی میں ان کی دنیا کی کامیابی چھپی ہوئی ہے اور اِسی میں اُن کی آخرت کی کامیابی بھی۔
کشمیر کا خواب
ایک مسلم نوجوان اگست 2008 میںنئی دہلی سے کشمیر گئے۔ وہاں وہ تین ہفتہ رہے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ روزانہ اپنی ڈائری لکھتے ہیں۔ وہ کشمیر سے واپس آئے تو انھوںنے مجھ کو اپنی ڈائری دکھائی۔ ان کی اِس ڈائری کا ایک اندراج یہ تھا:
’’4 اگست 2008 کی ایک رات کو میرا قیام کشمیر کے ایک تعلیمی ادارہ میں تھا۔ وہاں ادارے کے ایک طالب علم بھی موجود تھے۔ صبح کو میں بیدار ہوا تو مذکورہ طالب علم نے ماہ نامہ الرسالہ سے متعلق اپنا ایک خواب بیان کیا، جو اُنھیں کے الفاظ میں اِس طرح تھا: ’’میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص ہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی سفید داڑھی ہے۔ وہ ان پڑھ ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ — مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ ، مجھے الرسالہ کا ممبر بناؤ۔‘‘
اِس خواب میں مذکورہ بوڑھا آدمی گویا کشمیر کی روح ہے۔ کشمیر کی روح چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ جو منفی افکار میرے درمیان پھیلائے جارہے ہیں، اُن سے میں بے زار ہوں، ان کو بند کرو۔ میرے درمیان الرسالہ کو پھیلاؤ، میرے درمیان الرسالہ والے مثبت افکار کو عام کرو۔
کشمیر میں اکتوبر 1989 میں متشددانہ تحریک کا آغاز ہوا۔ اِس متشددانہ تحریک کے دوران کشمیر میں جان و مال کا بے حساب نقصان ہوا ہے۔ اِس خود ساختہ جہاد نے کشمیر کو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔
اب کشمیر کی سلامتی کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ کشمیر میںاُن افکار کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے جس کا پیغام ماہ نامہ الرسالہ میں مسلسل طورپر دیا جارہا ہے۔ اِسی میں کشمیر کے لیے زندگی ہے۔ اِس کے سوا جو کچھ ہے، وہ موت اور تباہی کے سوا کچھ اور نہیں۔ نام نہاد کشمیری تحریک سے کچھ لیڈروں کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن خود کشمیر یا کشمیری عوام کا اس میں کچھ فائدہ نہیں— اب آخری وقت آگیا ہے کہ اِس معاملے میں نظرثانی کی جائے اور جذباتیت کو چھوڑ کر حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
دعوتی طرزِ فکر
ایک کشمیری مسلمان ہمارے دعوتی مشن سے وابستہ ہیں۔ انھوںنے ٹیلی فون پر بتایا کہ 23 ستمبر 2010 کو کشمیر میں پبلک انٹریکشن(Public Interaction) کے عنوان کے تحت حکومت کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں انڈین آرمی کے اعلیٰ افسران اور مقامی مسلمان موجودتھے۔ اِس پروگرام کے مہمانِ خصوصی مسٹر گُردیپ سنگھ، جنرل کمانڈنگ آفیسر (GCO) اور مسٹرانل پانڈے (بریگیڈیر) تھے۔ مذکورہ ساتھی نے بتایا کہ اِس موقع پر ایک کشمیری مسلمان نے اپنا ذاتی تاثر بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مسئلہ ٔ کشمیر کو تجارت بنا لیا ہے، یہ لوگ اب کشمیر کے نام پر صرف سیاسی تجارت کررہے ہیں۔ میں نے مذکورہ مسلمان سے کہا کہ میں نے بھی قرآن ( 61:10-11 ) کے مطابق، ایک تجارت شروع کی ہے۔ اِس کے بعد ہمارے ساتھی پبلک انٹریکشن کے اِس پروگرام میں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر لے کر پہنچے۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو مطالعہ کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ انھوںنے مسٹر گردیپ سنگھ اورمسٹر انل پانڈے کو ترجمہ قرآن کے علاوہ، ہمارے یہاں سے شائع ہونے والی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ مطالعہ کے لیے دی ۔ اِس کے بعد مسٹر گردیپ سنگھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ حال میں، قرآن برننگ کے اشو کو لے کر آپ لوگوں نے کشمیر میں ہنگامہ کیا، جس کے نتیجے میں یہاں 17 نوجوان ہلاک ہوگئے۔ مسٹر گردیپ سنگھ نے قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہا کہ آپ لوگ قرآن کے نام پر تشدد (violence) کرتے ہیں۔ مجھ کو بتائیے کہ قرآن کی کس آیت میں تشدد کا حکم دیاگیا ہے۔ اِس سوال پر تمام مسلمان خاموش رہے۔
اگر آدمی کے اندر دعوتی ذہن موجود ہو تو وہ اِس قسم کے ہر موقع کو دعوت کے لیے استعمال کرے گا، وہ ایسے موقع پر اللہ کے بندوں کو اللہ کے کلام کا تحفہ پیش کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر آدمی کا ذہن دعوتی طرز فکر سے خالی ہو تو اس کو ایسا ہر دعوتی موقع محض ’’سیاست‘‘ کا ایک اسٹیج معلوم ہوگا۔ ایسے موقع پر دوسروں کو دینے کے لیے اس کے پاس صرف نفرت کا تحفہ ہوگا، نہ کہ محبت کا تحفہ۔
دور جدید: دورِ مدعو
قدیم زمانے میں عالمی سیاحت (tourism) کا کوئی تصور نہ تھا۔ اِس لیے کہ قدیم زمانے میں سفر کے ذرائع موجود نہیں تھے۔ موجودہ زمانے کو دورِ مواصلات (age of communication) کہاجاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سفر کے وسائل اور جغرافیہ کے علم کی بنا پر ایسا ہوا کہ سفر بہت زیادہ بڑھ گیا۔ لوگ بڑی تعداد میں اِدھر سے اُدھر جانے لگے، یہاں تک کہ کہاجانے لگا کہ موجودہ زمانے میں پوری دنیا ایک عالمی گاؤں (global village) بن گئی ہے۔
دعوت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسفار کی کثرت کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ محض مسافروں کی نقل وحرکت (mobility)نہیں، بلکہ وہ مدعو کی نقل وحرکت ہے۔ جدید کمیونکیشن سے پہلے داعی اور مدعو کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ مدعو خود تیز رفتار سواریوں کے ذریعے سفر کرکے داعی کے پاس پہنچ رہا ہے۔ مختلف اسباب سے، داعی اور مدعو کے درمیان مادی اور ذہنی فاصلے ختم ہوچکے ہیں۔ اِس اعتبار سے، جدید دور کو مدعو کا دور کہاجائے تو وہ بالکل درست ہوگا۔
یہ صورت حال پوری دنیا میں پیش آئی ہے۔ مگر جو علاقے سیاحتی علاقے کہے جاتے ہیں، ان کے بارے میں یہ بات مزید اضافے کے ساتھ درست ہے۔ اِنھیں علاقوں میں سے ایک علاقہ ریاست جموں وکشمیر ہے۔ کہاجاتا ہے کہ جموں وکشمیر میں جتنی زیادہ آبادی ہے، تقریباً اتنے ہی سیاح (tourist) وہاں ہر سال پہنچتے ہیں، ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو یہ خصوصی موقع حاصل ہے کہ وہ مدعو کے اس گروہ کو اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ اِس کام کے لیے سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ قرآن کا ترجمہ اور دوسری اسلامی کتابیں اُن کو پڑھنے کے لیے دی جائیں۔ مدعو کا یہ گروہ ریاست جموں وکشمیر کے ہر علاقے میں موجود رہتاہے۔ اگر کشمیری مسلمانوں کے اندر دعوت کی اسپرٹ زندہ ہو تو وہ اپنے قریبی مقامات پر ہر صبح وشام دعوت کے مواقع پا جائیں گے۔
دو بہتر میں سے ایک
دعوت الی اللہ کا مشن ایک خدائی مشن (divine mission) ہے۔ ایسے ایک مشن کے لیے قرآن میں، إحدی الحسنیین ( 9:52 ) کی خوش خبر دی گئی ہے، یعنی اس کے لیے یہ مقدر ہے کہ دو میں سے ایک بہتر (one of the two best things) اُس کو ضرور حاصل ہو۔ پہلا بہتر نظریاتی ہے، اور دوسرا بہتر عملی۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہ سچے خدائی مشن کے لیے دو میں سے ایک کامیابی مقدر ہے— یا تو کامیابی بہ معنی تبلیغ، یا کامیابی بہ معنیٰ انقلاب۔
موجودہ زمانے میں جن مقامات پر جہاد کے نام سے تشدد کا کلچر چلایا گیا، وہاں فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ ایسے لوگ اٹھیں جو اُس کی اصلاح کی کوشش کریں، جو اِن مسلمانوں کو اُن کی غلطی سے آگاہ کریں، جو اُن کو تشدد سے امن کی طرف بلائیں، جو اُن کو بتائیں کہ تمھارا کام لوگوں کو حق کی دعوت دینا ہے، نہ کہ اُن سے ٹکراؤ کرنا۔ تمھارا ایمانی فریضہ ہے کہ تم، لوگوں کے ساتھ مدعو کا سلوک کرو، نہ کہ دشمن کا سلوک۔تم کو چاہیے کہ تم اپنے ماحول میں خیر خواہی کا کلچر چلاؤ، نہ کہ نفرت اور رقابت کا کلچر۔ اِس قسم کی مہم دوسرے مسلم علاقوں میں بھی ضروری ہے اور کشمیر میں بھی ضروری۔
اِس قسم کی مہم اِس یقین کے ساتھ شروع کی جاسکتی ہے کہ اس کے لیے ناکامی کا کوئی سوال نہیں۔ اِس مہم کے کارکنوں کے لیے یقینی طورپر دو میں سے ایک انجام مقدر ہے — یا تو وہ لوگوں تک اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہوں گے اور اللہ کے یہاں اُس کا عظیم انعام حاصل کریں گے، یا ایساہوگا کہ لوگ ان کی بات کو مان لیں اور وہ عملی اعتبار سے اپنی زندگی کو بدلنے پر راضی ہوجائیں۔
یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ’إحدی الحسنیین‘ کہاگیا ہے، یعنی یا تو نظریاتی اعتبار سے، دعوتِ حق کی کامیابی، یا عملی اعتبار سے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کی کامیابی۔
غیر نہیں، مدعو
عام طورپر لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو ’’اپنے‘‘ اور ’’غیر‘‘ میں تقسیم کرتے ہیں، مگر اسلام کا طریقہ یہ نہیں۔ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ انسانوں کو مدعو کی نظر سے دیکھا جائے۔ اپنے اور غیر کی تقسیم میں، اپنا قابلِ محبت نظر آتا ہے، اور دوسرا قابلِ نفرت دکھائی دینے لگتاہے۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اِس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ اپنے عقیدہ کے اعتبار سے، وہ داعی ہیں اور دوسرے تمام انسان ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ داعی- مدعو کی تقسیم میں کوئی غیر نہیں رہتا، بلکہ سارے انسان اپنے نظر آنے لگتے ہیں۔
آج کل عام طورپر مسلمانوں کاحال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں کو اپنا حریف (rival)بنائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ دوسری قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں تو تمام انسان ان کو اپنے نظر آنے لگیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی شخص کے جنازے کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہودبھی ہماری طرح انسان ہیں (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 1312)۔ مسلمان اِس اسوۂ رسول کو اختیار کرلیں تو تمام قوموں کے لوگ ان کو اپنے نظر آنے لگیں گے— کشمیریوں کو ہندو اپنا نظر آئے گا، عربوں کو اسرائیلی اپنا دکھائی دے گا، مغربی ملکوںمیں مقیم مسلمان وہاں کے عیسائیوں کو اپنا سمجھنے لگیں گے، وغیرہ۔
دوسروں کو اپنا سمجھنے کا مطلب دوسروں کا خیر خواہ بننا ہے۔ ایک تاجر ہر انسان کو اپنا کسٹمر سمجھتا ہے۔ اِس مزاج کے نتیجے میں تاجر کے اندر ہر ایک کے لیے دوستانہ سلوک (friendly behaviour) پیدا ہوتا ہے۔ اِسی طرح مسلمان اگر اپنے کو داعی اور دوسروں کو مدعو سمجھیں تو ان کے اندر دوسروں کے لیے خیر خواہی (well-wishing) کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اُن کے اندرتمام انسانوں کے لیے دوستانہ کلچر (friendly culture) پرورش پائے گا۔ اِس کے نتیجے میں ان کی دنیا کے معاملات بھی درست ہو جائیں گے اور آخرت میں بھی وہ خدا کی رحمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔
نظریے کی طاقت
روس میں اشتراکی انقلاب 1917 میں پیش آیا۔ اِس سے پہلے روس میں بادشاہ کی حکومت تھی جس کو زار (Czar) کہاجاتا تھا۔ اُس وقت کمیونسٹ پارٹی نے زار کے خلاف ایک نظریاتی جنگ شروع کی۔ یہ نظریاتی جنگ بہت تیزی سے پورے ملک میں پھیلنے لگی۔
برطانیہ نے اِس کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھا۔ چناں چہ کرنل بیلی (Colonel F M Bailey) کی قیادت میں ایک وفد روس بھیجا گیا۔ یہ وفد وہاں تاجر کے روپ میں گیا تھا۔ اِس وفد نے روس کے حالات کا جائزہ لے کر جو رپورٹ حکومتِ برطانیہ کو پیش کی، اُس کا ایک جملہ یہ تھا — اشتراکی نظریات جو یہاں پھیلائے جارہے ہیں، وہ زار کی پوری فوج سے زیادہ خطرناک ہیں:
Communist ideas are far more dangerous than the entire army of king Czar.
تاریخ میں اِس طرح کے متعدد واقعات ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ فوجی طاقت کے مقابلے میں، نظریے کی طاقت زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ اسلام کی تاریخ اِس حقیقت کی ایک ممتاز مثال ہے۔ قدیم تاریخ میں اسلام کی کامیابی ہمیشہ نظریہ یا آئڈیالوجی (ideology)کی بنیاد پر ہوئی ہے، نہ کہ تلوار یا فوجی طاقت کی بنیاد پر۔
مثال کے طور پر تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل کے حملے نے عباسی سلطنت کو مغلوب کرلیا۔ یہ غلبہ اتنا شدید تھا کہ مسلمانوں کی فوجی طاقت اس کے مقابلے میں غیر موثر ثابت ہوئی۔ اُس وقت اسلام کی نظریاتی طاقت ابھری۔ صرف نصف صدی کے اندر یہ واقعہ پیش آیا کہ تاتاری قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ اسلام کے دشمن، اسلام کے دوست بن گئے۔
اسلام کی اِس نظریاتی طاقت کو ایک مستشرق نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی، جہاں اُن کی تلوار ناکام ہوچکی تھی:
The religion of Muslims has conquered, where their arms had failed.
شہادتِ حق، دعوتِ حق
کلمہ شہادت، اسلام میں داخلے کا دروازہ ہے۔ ایک شخص جب اسلام کی سچائی کو دریافت کرتا ہے اور اس کے اندر یہ جذبہ جاگتا ہے کہ وہ حشر کے دن اللہ کے سامنے ایک مسلم کی حیثیت سے حاضر ہو تو وہ اپنی زبان سے یہ کلمہ ادا کرتاہے: أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ، وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں۔ اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں)۔
اِس کلمہ کے دو پہلو ہیں— شہادت، اور انطباقی شہادت (applied shahadah) ۔ شہادت کا ابتدائی مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی ذات کے اعتبار سے، اِس بات کا اعلان کرے کہ اِس کائنات کا خالق اور مالک صرف ایک اللہ ہے، وہ اِس حقیقتِ اعلیٰ کا گواہ (witness) بن جائے۔ اِس شہادت کا دوسرا پہلو انطباقی شہادت ہے، یعنی دوسرے انسانوں کو اِس حقیقت سے باخبر کرنا۔ اِس بات کی کوشش کرنا کہ جس حقیقتِ اعلیٰ کو اُس نے دریافت کیا ہے، اُس حقیقتِ اعلیٰ سے کوئی بھی شخص بے خبر نہ رہے۔ یہ وہی کام ہے جس کو دوسرے الفاظ میں، دعوت الی اللہ کہا جاتاہے۔ دعوت کا عمل جب اپنی انتہائی صورت میں انجام پائے، تو اِسی کا دوسرا نام شہادت یا گواہی ہے۔
دعوت الی اللہ کا کام ایمان سے الگ کوئی کام نہیں۔ جب کسی شخص کو حقیقی طورپر ایمان حاصل ہوتا ہے، تو فطری طورپر وہ اِس کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے کہ جس سچائی کو اُس نے جانا ہے، اُس سچائی کو دوسرے لوگ بھی جان لیں۔ زندگی کا جو مقصد اُس نے دریافت کیاہے، وہ مقصد دوسرے لوگوں کے لیے بھی ان کی دریافت بن جائے۔ دنیا اور آخرت کی سعادت کا جو راز اُس پر کھلا ہے، اس سے دنیا کے دوسرے لوگ محروم نہ رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہادت اگر ذاتی دریافت کا معاملہ ہے، تو انطباقی شہادت دوسروں کو اِس دریافت میں شریک کرنے کا معاملہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے میدان میں اپنے اصحاب کو گواہ بناتے ہوئے اُن کے سامنے ایک تاریخی خطاب کیا تھا۔ یہ خطاب اصحابِ رسول کے واسطے سے پوری امتِ محمدی کے لیے ہے۔ اِس خطاب میںآپ نے فرمایا تھا: إنّ اللہ بعثنی رحمۃً للناس کافّۃً، فأدّوا عنّی (معرفۃ الصحابۃ لأبی نُعیم، رقم الحدیث: 3438 ) یعنی اللہ نے مجھ کو دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم میری طرف سے تمام انسانوں کو میرا پیغامِ رحمت پہنچا دو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز تاریخ میں گونجتی ہوئی تمام مسلمانوں تک پہنچ رہی ہے۔ اِسی طرح وہ اہلِ کشمیر سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ —اے کشمیر کے مسلمانو، تم میرے مشن کو پورا کرو اور تمام انسانوں تک میرا پیغام پہنچانے میںمیرے مدد گار بن جاؤ۔ کیا کشمیر کے مسلمان پیغمبراسلام کی اِس آواز پر لبیک کہیں گے۔
شاہ ہمدان مشن
میر سید علی ہمدانی (وفات: 1384 ء) کو ریاست جموں وکشمیر میں ’’معمارِ کشمیر‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ کشمیری مسلمان عام طورپر اُن کو ’’امیر ِ کبیر‘‘ کہتے ہیں۔ امیر کبیر 1379ء میں ایران سے کشمیر آئے۔ انھوںنے کشمیر میں اسلام کی تاریخ بنائی۔موجودہ کشمیر زیادہ تر، اُنھیں کی دعوتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کشمیر کے لوگ اُنھیں کے مشن پرقائم تھے۔ 1947میں بر صغیر ہند میں جو انقلاب آیا، اُس کے ردّ عمل کے طورپر کشمیر میں سیاسی تحریک اٹھی۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سیاسی تحریک اپنے نتیجے کے اعتبار سے، کشمیریوں کے لیے صرف نقصان کا باعث ثابت ہوئی۔ تاہم اِس نقصان کا ایک مثبت پہلو ہے، وہ یہ کہ سیاسی ہنگاموں کا منفی انجام کشمیریوں کے لیے ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)ثابت ہوا ۔اب کشمیری مسلمانوںمیں یہ ذہن پیدا ہوا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی طرف لوٹیں۔ وہ دوبارہ شاہ ہمدان کی طرح پُرامن دعوت کو اپنا نشانہ بنائیں۔ اِس نئے ذہن کو شاہ ہمدان کے مشن کا اِحیاء (Revival of Shah Hamadan’s Mission) کہا جاسکتا ہے۔
میر سید علی ہمدانی ایران میں پیدا ہوئے، وہ ایرانی بادشاہ تیمور لنگ (وفات: 1405ء) کے ہم عصر تھے۔ شاہ تیمور اُن سے کسی بات پر ناراض ہوگیا اور ان کو ایران سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اب امیر کبیر کے لیے ایک راستہ یہ تھا کہ وہ تیمور لنگ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک چلائیں، مگر امیر کبیر نے اِس قسم کے سیاسی تصادم سے مکمل طورپر پرہیز کیا۔ وہ اپنے چالیس ساتھیوں کو لے کر اپنے وطن ہمدان سے نکلے۔ اِس طرح، افغانستان ہوتے ہوئے یہ قافلہ 1379 ء میں کشمیر پہنچا۔
امیر کبیر کا پروگرام نہ شاہ تیمور کے خلاف رد عمل کے طورپر بنا اور نہ کشمیری مسلمانوں کے وقتی حالات سے متاثر ہو کر۔ اُس وقت کشمیر میں ایک مسلم راجہ سلطان قطب الدین کی حکومت تھی۔ اس کے اندر بہت سی اعتقادی اور عملی خرابیاں موجود تھیں۔ امیر کبیرنے سلطان کو ناصحانہ انداز کے خطوط بھیج کر اس کو اصلاحِ حال کی طرف متوجہ کیا، تاہم انھوں نے اس کو اقتدار سے ہٹانے اور اس کی جگہ صالح حکمراں کو لانے کی کوئی مہم نہیں چلائی۔ امیر کبیر نے ان تمام عوامل سے اوپر اٹھ کر سوچا اور خود اپنے مثبت فکر کے تحت اپنا پروگرام بنایا۔ یہ تمام تر ایک خاموش عملی پروگرام تھا۔ امیر کبیراور ان کے ساتھی ریاست کے مختلف حصوں میں پھیل گئے اور پُر امن طور پر وہ یہاں کے باشندوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے لگے۔ انھوں نے کشمیریوں کی زبان سیکھی، یہاں کے حالات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کیا، اجنبی دیس میں اپنے لیے جگہ بنانے کی مصیبتیں اٹھائیں۔ اِس طرح صبر وبرداشت کی زندگی گزارتے ہوئے انھوںنے اپنے پُرامن دعوتی مشن کو جاری رکھا۔
کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ کشمیر میں آپ لوگ شاہ ہمدان کے پُر امن دعوتی مشن کو زندہ کریں۔ شاہ ہمدان کو کشمیر میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے دعوت کو اپنا واحد مشن بنایا ۔ شاہ ہمدان کے زمانے میں مختلف قسم کے مسائل کشمیر میں موجود تھے، سیاسی بھی اور غیر سیاسی بھی۔ لیکن انھوں نے اِن تمام مسائل کو نظر انداز کیا اور دعوت الی اللہ کو اپنا واحدنشانہ بنایا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں کشمیر میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
مذکورہ کشمیری مسلمان نے کہا کہ شاہ ہمدان کے زمانے میں، کشمیر میں بڑی تعداد میں غیر مسلم پائے جاتے تھے۔آج تو یہاں سب کے سب مسلمان ہیں، پھر ہم کن لوگوں کے اوپر دعوتی کام کریں۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں انٹرنیشنل دعوہ ورک کے اعلیٰ مواقع پائے جاتے ہیں۔ انڈیا کی آرمی جو بڑی تعداد میں کشمیر میں موجود ہے، اس کا ہر فرد آپ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کشمیر ایک سیاحتی مقام ہے، اِس لیے ساری دنیا کے سیّاح (tourists) کشمیر میں مسلسل آتے ہیں۔ اِس کے علاوہ، کشمیر میں اب بھی ہندوؤں کی ایک تعداد موجود ہے، جن کو کشمیر میں پنڈت کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح یہاں کے قدیم مندروں میں ہر سال بڑی تعداد میں یاتری آتے ہیں۔یہ سارے لوگ آپ کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ لوگوں کے اندر اگر دعوتی شعور پیداہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ کشمیر میں ہر طرف بہت بڑی تعداد میں مدعو پائے جاتے ہیں۔اِسی کے ساتھ کشمیر میں دعوت کا ایک اور میدان کھلا ہواہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو جدید افکار کی بنا پر اسلام کے بارے میں ذہنی بے اطمینانی کا شکار ہوگئے۔یہ لوگ بھی آپ کے لیے قیمتی مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر مسلموں کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ —اسلام کو آپ اُن کی دریافت (discovery) بنائیں، اور مسلمانوں کے لیے آپ کو یہ کرنا ہے کہ اسلام کو آپ اُن کی دریافتِ نو (re-discovery) بنائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے مسلمانوں کو ڈبل خوش قسمتی کے مواقع حاصل ہیں۔ کشمیر کو جنت نظیر کہاجاتاہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کشمیریوں کو دنیا کی جنت دے دی۔ دوسری طرف، اللہ تعالیٰ نے کشمیر میں دنیا بھر کے مدعو بھیج دئے، تاکہ کشمیر کے مسلمان دعوتی کام کرکے آخرت کی جنت بھی حاصل کریں۔ موجودہ زمانہ پرنٹنگ پریس کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دعوتی کام انتہائی حد تک آسان ہوچکا ہے۔ قرآن کا ترجمہ، اور اسلام پرچھوٹی اور بڑی کتابیں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو اپنے ساتھ رکھئے اور ہر موقع پر اُنھیں لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیجئے۔ اِسی طرح دوسرے تمام مواقع کو اسلام کی پُرامن اشاعت کے لیے استعمال کیجئے، خاص طورپر قرآن کا ترجمہ لوگوں کو دیجئے اور اللہ کے یہاں دعوت کا انعام حاصل کیجئے— شاہ ہمدان نے دعوت کے ذریعے کشمیر میں کامیابی حاصل کی تھی، آپ دوبارہ کشمیر میں دعوت کے ذریعے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
اہلِ کشمیر میدانِ حشر میں
جموں وکشمیر کے ایک سفر میںمیرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ یہ واقعہ ماہ نامہ الرسالہ (جولائی، 1978) میںاِس طرح چھپا ہے: ’’مرزا محمد اعظم (پیدائش 1940 ) راجوری میں فارسٹر (forester) ہیں۔ وہ باہر سے جب کبھی گھر آتے تو اپنے بچوں کے لیے مٹھائی وغیرہ لاتے۔ ستمبر 1975 کا واقعہ ہے۔ ایک دن وہ گھر میں داخل ہوئے تو کسی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ لا سکے۔ حسب معمول بچے ان کے گرد جمع ہوگئے۔ ان کے 6 سالہ بچے ارشد محمود طارق نے اپنی پہاڑی زبان میں کہا — اگر تُساں اَساں وسطے کجھ نی آندہ، پھر تس کُمھانے وسطے آئے (اگر آپ ہمارے لیے کچھ نہیں لائے تو پھر آپ کس لیے یہاں آئے)۔ بچے کا یہ جملہ مرزا محمد اعظم کو تیر کی طرح لگا۔ انھوںنے سوچا کہ بہت جلد میں اِسی طرح خدا کے یہاں جانے والا ہوں۔ اگر خدا یہ کہہ دے کہ میرے لیے تم کچھ نہیں لائے تو پھر تم یہاں کس لئے آئے ہو، اُس وقت میرے پاس کیا جواب ہوگا‘‘۔ (صفحہ 22 )
اِس واقعے میں اہلِ کشمیر کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ کشمیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ باہر سے آتے ہیں— مغربی سیاح، ہندو یاتری اور انڈین آرمی ، وغیرہ۔ اِن لوگوں کی مجموعی تعداد سالانہ تقریباً 30 لاکھ ہوتی ہے۔ یہ لوگ گویا کہ خدا کے بھیجے ہوئے مدعو ہیں۔ وہ اہلِ کشمیر کے پاس اِس لیے آتے ہیں، تاکہ اہلِ کشمیر اُن کو خدا کا پیغام پہنچائیں، وہ اُن کو خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے آگاہ کریں۔
یہ بے حد نازک صورت حال ہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ قیامت برپا ہو اور اہلِ کشمیر سب کے سب، میدانِ حشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہوں۔ اُس وقت اگر اللہ، اہلِ کشمیر سے پوچھے کہ تمھارے پاس میں نے اتنی بڑی تعداد میں ایسے انسان بھیجے جو سچائی سے بے خبر تھے۔ تمھارے پاس میرا بھیجا ہوا قرآن تھا، تم نے اُن کو سچائی سے باخبر کرنے کے لیے کیاکیا۔ اگر اہلِ کشمیر کے پاس خدا کے اِس سوال کا مثبت جواب نہ ہو اور خدا، اہلِ کشمیر سے کہہ دے کہ — جب تم نے میرا کام نہیں کیا تو تم یہاں کس لیے آئے ہو۔ میدانِ حشر میں اگر اِس طرح کا واقعہ پیش آئے تو اُس وقت اہلِ کشمیر کا کیا حال ہوگا۔ اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ اہلِ کشمیر سب سے زیادہ اس سوال پر سوچیں اور ایک دن ضائع کئے بغیر وہ دعوت الی اللہ کے کام کو انجام دینے میں لگ جائیں، تاکہ موت سے پہلے تمام لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں