ہجر جمیل
قرآن کی سورہ نمبر ۷۳ میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: واصبر علی ما یقولون واہجرہم ہجراً جمیلاً (المزمل ۱۰) اُردو مترجمین نے اس آیت کے جو ترجمے کئے ہیں اُن میں سے چند یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
۱۔ اور سہتا رہ جو کہتے رہیں اور چھوڑ اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا (شاہ عبد القادر)
۲۔ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں اُن پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ۔ (اشرف علی تھانوی)
۳۔ اور سہتا رہ جوکچھ وہ کہتے رہیں اور چھوڑ دے اُن کو بھلی طرح کا چھوڑنا۔ (محمود حسن، دیو بندی)
۴۔ اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اُس پر صبر کر اور اُن کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔ (امین احسن اصلاحی)
اس آیت کاانگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو وہ اس طرح ہوگا:
Endure patiently what ever they say, and avoid them in a decent manner.
قرآن کی یہ آیت مکی دور میں اُتری۔ اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رسول اوراصحاب رسول نے اُن کے آبائی دین سے انحراف کیا ہے۔ اس بنا پر وہ لوگ رسول اور اصحاب رسول کو ستانے لگے۔ اُنہوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔ اس ماحول میں قرآن کی یہ آیت اُتری۔ اس میں خدا کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ تم لوگ صبر کرو اور ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کرو۔
ہجر جمیل کے لفظی معنیٰ ہیںــــ خوبصورتی کے ساتھ چھوڑنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ستانے والوں کے ساتھ حسن اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ ان کے معاملہ میں تمہارا طریقہ منفی رد عمل کا طریقہ نہیں ہوناچاہئے بلکہ مثبت رد عمل کا طریقہ ہونا چاہئے۔ تم کو چاہئے کہ اُن کے معاملہ میں در گذر کرو اور اُن کے برے انداز کے مقابلہ میں تم اُن کے ساتھ اچھا انداز اختیار کرو۔
مفسرین نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ صبر اور ہجر جمیل کا یہ حکم آیات قتال کے نزول کے بعد منسوخ ہوگیا ۔مگر یہ ایک غلط تفسیر ہے۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) کوئی مجبوری کا فعل نہیں ہے، یہ اہل ایمان کا ایک مثبت رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن منفی رد عمل کا تحمل نہیں کرسکتا۔ شکایت کی نفسیات شکر کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن یک طرفہ طورپر شکایت کے جذبات کو ختم کرتا ہے تاکہ اُس کے اندر شکر کا جذبہ مجروح نہ ہونے پائے۔ اسی طرح نفرت کی نفسیات محبت کے جذبہ کی قاتل ہے اس لیے مومن نفرت کی نفسیات کواپنے اندر پنپنے نہیں دیتا تاکہ اُس کے اندر محبت الٰہی کا جذبہ پوری طرح باقی رہے۔ اس کام کو کبھی سختی سے کرنا پڑتا ہے اور کبھی حسن تدبیر سے۔
ہجر جمیل (حسن اعراض) بظاہر دوسرے کے مقابلہ میں ہوتا ہے مگر اُس کا تعلق خود اپنی ذات سے ہے۔ مومن آخری حد تک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے اندر اعلیٰ اسلامی احساس ہمیشہ زندہ رہے۔ کسی بھی حال میں اُس کے اندر نقصان (erosion) نہ ہونے پائے۔
قرآن کے مطابق، اللہ نے کسی انسان کے اندر دو دل نہیں بنائے۔(الاحزاب ۴) یعنی انسان کے دل میں بیک وقت دو متضاد نفسیات پرورش نہیں پاسکتیں۔ جو دل انسان سے نفرت کرے، عین اُسی وقت وہ خدا سے محبت نہیں کرسکتا۔ جس دل کے اندر انسانوں کے بارے میں شکایات بھری ہوئی ہوں وہ دل کبھی خدا کے شکر سے سرشار نہیں ہوسکتا۔ جس آدمی کا سینہ انتقامی نفسیات کا جنگل بنا ہوا ہو وہ خدا سے طلبِ عفو کی لذت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ جو انسان ظلم کی یادوں میں جی رہا ہو وہ خدائے رحمن ورحیم کی یادوں کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر اور حسن اعراض مومن کے لیے ایک خود حفاظتی تدبیر ہے۔ یہ اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ اُس کے سینے میں غیر مومنانہ نفسیات کی پرورش ہونے لگے۔ اس لیے جب بھی ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو مومن کہہ اُٹھتا ہے کہ میںاس قسم کی منفی سوچ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہاںاس معاملہ کی مزید وضاحت کے لیے رسو ل اور اصحاب رسول کی زندگی سے حسن اعراض کی کچھ عملی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
۱۔ ابن اسحق کی روایت ہے کہ مکہ کے قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے تھے اور سبّ وشتم کرتے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے آپ کا نام محمد کے بجائے مذمّم رکھ دیا تھا۔ محمد کا مطلب ہے، تعریف کیا ہوا۔اس کے بجائے وہ آپ کو مذمّم (مذمت کیا ہوا) کہتے تھے۔ روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: ألا تعجبون لما صرف اللہ عنی من اذی قریش، یسبون ویہجون مذمما وأنا محمد۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۱، صفحہ ۳۷۹) یعنی کیا تم کو تعجب نہیں کہ اللہ نے مجھے قریش کی اذیت سے کس طرح بچا لیا، وہ سبّ وشتم کرتے ہیںاور مذمم کہہ کر ہجو کرتے ہیں، حالاں کہ میں محمد ہوں۔
پیغمبر اسلام کے اس قول کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ مثلاً قریش اگر یہ کہیں کہ ’’مذمّم مجنون ہے‘‘ تو رسول اللہ اس کا بُرا اثر نہ لیتے ہوئے یہ کہہ دیں گے کہ تمہاری یہ بات اُس کے اوپر پڑے گی جس کا نام مذمّم ہو،میرا نام تو محمد ہے۔ یہ حسن اعراض کی ایک لطیف مثال ہے۔ اس طرح مومن اپنے آپ کواس نقصان سے بچاتا ہے کہ کسی کی بدگوئی اُس کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے کا سبب بن جائے۔ مومن کا قول یہ ہوتا ہے کہ میں منفی جذبات کا تحمل نہیں کرسکتا۔
اس طرح کے حسن اعراض کی ایک دلچسپ مثال ڈاکٹر ذاکر حسین کے یہاں پائی جاتی ہے۔ ایک بار وہ دہلی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی چلا رہے تھے، اتفاق سے اُن کی گاڑی ایک اور شخص کی گاڑی سے معمولی طور پر ٹکرا گئی۔ اُن کی گاڑی میں رگڑ(dent) آگیا۔ اُس آدمی نے ابھی نئی گاڑی لی تھی۔ وہ گاڑی روک کر اُترا۔ ذاکر صاحب بھی اپنی گاڑی روک کر اُتر گئے۔ اُس آدمی نے ذاکر صاحب کی طرف غصہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ایڈیٹ(idiot) ۔ اس انگریزی لفظ کے معنیٰ ہوتے ہیں، احمق۔ ذاکر صاحب نے جوابی غصہ نہیں دکھایا۔ اُنہوں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے نرمی سے کہا:
Sir, I am not Mr. Idiot, I am Zakir Husain.
جناب، میں مسٹر ایڈیٹ نہیں ہوں۔ میں ذاکر حسین ہوں۔ یہ سُن کر اُس آدمی کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ساری(sorry) کہہ کر وہ خاموشی کے ساتھ اپنی گاڑی پر بیٹھا اور آگے کے لیے روانہ ہوگیا۔
۲۔ہجرت کے بعد حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اورآپ کے صحابہ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اُس وقت حدیبیہ کے مقام پر دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدۂ امن تیار کیا گیا ۔ اس معاہدہ کے وقت قریش نے ضد کا مظاہرہ بھی کیا اور تشدد کا مظاہرہ بھی۔ اُنہوں نے اصرار کیا کہ اُن کی یک طرفہ شرطوں پر معاہدہ کیا جائے۔ اصحاب رسول کواس سے بے حد تکلیف ہوئی۔ اس طرح کی شرطوں پر معاہدہ کرنا اُن کو بظاہر ایک ذلت کا معاہدہ معلوم ہوتا تھا۔ اُس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ:قریش آج جو خاکہ بھی پیش کریں گے، بشرطیکہ اُس میں صلہ رحمی کو ملحوظ رکھا گیا ہو ، میں ضرور اُس پر راضی ہوجاؤں گا (سیرت ابن ہشام ،الجزء ۳، صفحہ ۳۵۸) دشمن کی یک طرفہ شرطوں کو ماننا ایک سخت ناگوار معاملہ تھا۔ مگر آپ نے مذکورہ بات کہہ کر اس ناگوارکو ایک گوارا معاملہ بنا لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہجر جمیل کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔قدیم عربوں کے نزدیک صلہ رحمی بہت بڑی انسانی قدر سمجھی جاتی تھی۔ اور قطع رحمی کو وہ بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کا سوال ہی نہ تھا کہ وہ معاہدہ کے لیے ایسا خاکہ پیش کریں جس میں قطع رحم کی دفعہ رکھی گئی ہو۔ باعتبار حقیقت رسول اللہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں ہر قیمت پر قریش سے صلح کر لوں گا۔ اس بات کو کہنے کے باعزت طریقہ کے طورپر آپ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف سے صُلح کے ہر خاکہ کو منظور کرلوں گا بشرطیکہ اُس میں قطع رحم نہ پایا جاتا ہو ۔ حالاںکہ پیشگی طورپر یہ معلوم تھا کہ وہ قطع رحم کی شرط کبھی نہیں رکھیں گے۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو جلد ہی یہاں کے باشندوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اُس وقت مدینہ میںایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ بن اُبیّ تھا۔ وہ اپنے زمانہ کا ایک بڑا لیڈر تھا۔ وہ بھی اگر چہ اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگیا مگر اُس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حسد کا جذبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اکثر آپ کے خلاف شر انگیز باتیں کیا کرتا تھا۔
رسول اللہ ﷺنے اس معاملہ کا ذکر مدینہ کے ایک مسلمان اُسید بن حضیر سے کیا۔ اُنہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: یا رسول اللہ، ارفق بہ، فواللہ لقد جاء نا اللہ بک وان قومہ لینظمون لہ الخرز لیتوجّوہ، فانہ لیری أنک قد استلبتہ ملکاً۔ (سیرت ابن ہشام، الجزء ۳، صفحہ ۳۳۶) یعنی اے خدا کے رسول، اُس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے، خدا کی قسم، اللہ آپ کو ہمارے پاس لے آیا اور اُس کی قوم کے لوگ اُس کے لیے تاج تیار کر رہے تھے تاکہ وہ اُس کو اپنا بادشاہ بنائیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آپ نے اُس کا مقام اُس سے چھین لیا ہے۔
یہ حسن اعراض کی ایک حکیمانہ مثال ہے۔ ایک صورت یہ تھی کہ عبداللہ بن ابیّ کی شر انگیزی کا جواب سختی کے ساتھ دیا جاتا۔ صحابی نے گویا اپنے جواب میں یہ بتایا کہ اس معاملہ میں سختی کی ضرورت نہیں۔ حسن اعراض ہی اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔
۴۔ اوپر ہجرجمیل کی وہ مثالیں ہیں جو سطور میں ہوتی ہیں۔ اب ایک بین السطور کی مثال لیجئے۔ جب کسی معاملہ میں ہجر جمیل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اُس میںایک اور بات پوشیدہ ہوتی ہے جو اگر چہ زبان سے بولی نہیںجاتی مگر وہ حقیقی مطلوب کے طورپر اس میں شامل رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال حدیبیہ کا معاہدہ ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہفتہ قیام فرمایا۔ اس دوران قریش نے مختلف قسم کی زیادتیاں کیں۔ مثلاً ایک صحابی کو تنہا پاکر اُنہیں تیرمار کر ہلاک کردیا۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے، اتنے میں قریش کے کچھ لوگ آئے اور آپ پر تیربرسانے لگے۔ اس طرح کی اشتعال انگیز صورت حال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے دس سال کا امن معاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کی دفعات حضرت عمر پر سخت ناگوار تھیں۔ وہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا: یا أبابکر ألیس برسول اللہ ، قال: بلی، قال: أولسنا بالمسلمین، قال: بلیٰ، قال: أولیسوا بالمشرکین؟ قال: بلی، قال: فعلام نعطی الدنیۃ فی دیننا؟۔ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ۳؍۳۲۰)۔ یعنی اے ابوبکر، کیا محمد اللہ کے رسول نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا ہم مسلمان نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ کیا وہ مشرک نہیں، اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عمر نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں۔ روایات کے مطابق، حضرت عمر نے یہی بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہی۔
یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی زیادتیوں کے باوجود اُن کی یک طرفہ شرطوں پر دس سال کا جو امن معاہدہ کیا تھا، وہ ایک نہایت اہم اسلامی مصلحت کی بنا پر تھا۔ اور وہ مصلحت یہ تھی کہ دشمن سے معاہدہ امن کرکے معتدل حالات پیدا کئے جائیں تاکہ اسلامی دعوت کا عمل موثر طورپر جاری ہوسکے۔ مگر یہ نصیحت نہ امن معاہدہ کے اندر لکھی گئی اور نہ حضرت عمر اور دوسرے صحابہ کی شدید ناگواری کے باوجود آپ نے حدیبیہ کے مقام پر اس کا اعلان کیا۔
یہ ہجر جمیل (حسن اعراض) کا دوسرا پہلو ہے۔ یہ دوسرا پہلو ہمیشہ مخفی حالت میں ہوتا ہے۔ اس پہلو کو لفظوں میں پانا ممکن نہیں۔ اگر اُس کو لفظوں میں لکھا یا بولا جائے تو اُس کی ساری معنویت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حالت میں لوگوں کے لیے صرف دو میں سے ایک رویّہ درست ہے۔ یا تو وہ اتنا زیادہ ہوش مند ہوں کہ سطور کے اندر بین السطور کو پڑھ لیں۔ وہ اعلان کے بغیر اُس کی اہمیت کو دریافت کر لیں۔ جن لوگوں کے اندر اتنی ہوش مندی نہیں ہے اُن کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی بصیرت پر اعتماد کریں۔ وہ صرف اعتماد اور حسن ظن کی بنا پر یہ عقیدہ رکھیں کہ اُن کے رہنما نے جو بات کہی ہے اُس کے پیچھے ضرور کوئی گہری مصلحت ہوگی۔ ہمارا کام اپنے رہنما کی اتباع کرنا ہے، نہ کہ اُس کی دیانت داری (integrity) پر شک کرنا۔
۵۔ صُلح حدیبیہ بظاہر ایک ایسی صُلح تھی جو دشمن کے مقابلہ میں دب کر کی گئی۔ مگر اس کے اندر ایک غیر اعلان شدہ مقصد چھپا ہوا تھااور وہ تھا ـــــٹکراؤ کو ایوائڈ کرکے اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا۔ اگر یہ بات معاہدہ کے متن میں لکھ دی جاتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اُسی وقت اس کا اعلان کر دیتے تو صلح کے مقاصد سرے سے فوت ہوجاتے۔ اس قسم کے مقاصد ہمیشہ اعلان کے بغیر ہوتے ہیں، نہ کہ اعلان کے ساتھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ بعد کو جب اس کا عملی نتیجہ ظاہر ہوگیا، اُس وقت لوگوں نے جانا کہ اس صلح کے اندر کتنی بڑی مصلحت چھپی ہوئی تھی۔
یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے بعد کے زمانہ میں ان الفاظ میں بیان کی: ماکان فتح اعظم فی الإسلام من فتح الحدیبیۃ، ولکن الناس یومئذٍ قصررأیہم عمّا کان بین محمد وربّہ، والعباد یعجلون واللہ لا یعجل کعجلۃ العباد حتی یبلغ الامور ما أراد۔ (حیاۃ الصحابۃ، ۱؍۱۵۷) یعنی اسلام میں حدیبیہ کی فتح سب سے بڑی فتح تھی۔ لیکن معاہدہ کے دن لوگوں کو اس بات میں رائے قائم کرنے میں کوتاہی ہوئی جو محمد اورآپ کے رب کے درمیان تھا۔ انسان عجلت پسند ہے اور اللہ انسانوں کی طرح عجلت نہیںکرتا۔ یہاں تک کہ امور کو وہاں تک پہنچادے جو وہ چاہتاہے۔
۶۔ ہجر جمیل (حسن اعراض) سادہ طور پر محض ایک بچاؤ کی تدبیر نہیں، بلکہ وہ بامقصد انسان کی سوچی سمجھی ایک مستقل اخلاقی روش ہے۔ با مقصد انسان کے سامنے ایک متعین منزل ہوتی ہے، جہاں پہنچنا اُس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) ہوتا ہے۔ اس لیے وہ راستہ کے ہر اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے تاکہ وہ کسی رُکاوٹ کے بغیر اپنی آخری منزل تک پہنچ سکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، قدیم مکہ کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کو بہت زیادہ ستایا تھا۔ آپ پر اورآپ کے ساتھیوں پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ آپ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس ترک وطن کے بعد بھی وہ آپ کے خلاف مسلسل جارحیت کرتے رہے۔
آخر کار وہ وقت آیا جب کہ پیغمبر اسلام اللہ کی مدد سے مکہ کے فاتح بن گئے۔ اب وقت تھا کہ ماضی کے ظلم کی اُنہیں سزا دی جائے۔ عام رواج کے مطابق، اُن کو قتل کردینا عین جائز تھا۔ مگر پیغمبراسلام نے اُن لوگوں کے ساـتھ ہجر جمیل کی روش اختیار کی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب قریش کے یہ مجرمین آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا۔ اُنہوں نے کہا کہ: اخ کریم و ابن اخ کریم۔ (آپ شریف بھائی ہیں اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں)۔
پیغمبر اسلام نے اس کے بعد فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں تمہارے بارہ میں وہی کہوں گا جو پیغمبر یوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا۔ یعنی لاتثریب علیکم الیوم (یوسف ۹۲) آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا کہ : جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔ اس طرح آپ نے اُن تمام لوگوں کو آزادکردیا جو اس سے پہلے آپ کے خلاف کھلے دشمن بنے ہوئے تھے۔
پیغمبر اسلام کا یہ عمل ایک بامقصد انسان کے عمل کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ پیغمبر اسلام کا مقصد یہ تھا کہ آپ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کریں۔ مکہ کے لوگوں کو شرک سے نکال کر اُنہیں خدائے واحد کاپرستار بنائیں۔ اپنے دشمن انسان کو دوست انسان میں تبدیل کرکے، توجیہہ کی بنیاد پر وہ انقلاب لائیں جس کے لیے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔
پیغمبر اسلام کے یک طرفہ حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکّہ کے یہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ: فخرجوا کانما نشروا من القبور، فدخلوا فی الإسلام (حیاۃالصحابۃ ۱؍۱۷۵) یعنی پھر وہ لوگ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے کہ وہ قبروں سے نکلے ہوں اور وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
پیغمبر اسلام اگر اس کے برعکس اُن دشمنوں سے اُن کی ظالمانہ روش کا انتقام لیتے تو اس کے بعد یہ ہوتا کہ وہاں انتقام در انتقام کا دور چل پڑتا۔ ایک انتقام کے بعد دوسرا انتقام شروع ہوجاتا اور پھر حالات ایسا منفی رُخ اختیار کرلیتے کہ سارا تعمیری منصوبہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔
غیر فطری رد عمل
جب کوئی خلاف مزاج بات پیش آئے تو اُس کے مقابلہ میں آدمی کی روش کی دو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک جذباتی رد عمل کا طریقہ، اور دوسرا غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ۔ جذباتی رد عمل عین وہی چیز ہے جس کو میڈیکل اصطلاح میں الرجی (alergy) کہا جاتا ہے۔ الرجی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ الرجی نام ہے ،معتدل حالات میں غیر معتدل رد عمل کا۔
Abnormal reaction to normal things.
مثلاً اپنے خلاف تنقید کو سُن کر غصہ ہونا، اسی قسم کی ایک الرجی ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کی کسی بات پر تنقید کرتا ہے تو اُس کا معتدل اور فطری رد عمل یہ ہے کہ آپ کھلے ذہن کے ساتھ اُس کو سنیں اور کھلے ذہن کے ساتھ اُس پر غور کریں۔ اگر تنقید غلط ہے تو آپ کوچاہئے کہ آپ دلیل کے ساتھ اُس کا جواب دیں اور اگر تنقید درست ہے تو سیدھی طرح اُس کو مان لیں۔ اس کے برعکس تنقید کو سُن کر بگڑ جانا تنقید کا غیر معتدل اور غیر فطری انداز میں جواب دینا ہے۔ پہلی صورت مریضانہ ذہنیت کا ثبوت ہے اور دوسری صورت صحت مند ذہنیت کا ثبوت۔
اسی طرح مخالفانہ نعرہ کو سُن کر مشتعل ہو جانا، توہین کے کسی معاملہ پر بھڑک اُٹھنا، اپنے راستہ میں کوئی رکاوٹ دیکھ کر بگڑ جانا، اپنی سوچ کے خلاف سوچ کو برداشت نہ کرسکنا، یہ سب جذباتی رد عمل کی صورتیں ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد میں پڑے رہتے ہیں۔ وہ زندگی کے مثبت اور تعمیری رخ کا تجربہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرا طریقہ غیر جذباتی رد عمل کا طریقہ ہے۔ اسی کو قرآن میں ہجر جمیل کہا گیا ہے۔ یعنی جب اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات پیش آئے تو مشتعل نہ ہو کر ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس پر غور کرنا، اور سوچے سمجھے فیصلہ کے تحت معتدل انداز میں اس کا جواب دینا۔
اس معتدل جواب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ سادہ طورپر بس اُس کو نظر انداز کردیا جائے۔ یعنی وہی رویہ جس کو عام زبان میں اس طرح بیان کیا جاتا ہیــــــــــکتّے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح کبھی ہجر جمیل کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مخالف گروہ کی بدعملی کا جواب خوش عملی سے دیا جائے۔ اس کے پست اخلاق کے مقابلہ میں بر تر اخلاق کا طریقہ اختیار کرکے اس کو مغلوب کر لیا جائے۔ اسی طرح کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوسکتا ہے کہ دباؤ کی سیاست (pressure tactics) کا طریقہ اختیار کرکے اس کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔
ہجر جمیل کی کوئی ایک لگی بندھی صورت نہیں۔ حالات کے اعتبار سے اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ تاہم جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ سوچے سمجھے منصوبہ کی بنیاد پر ہوگی ، نہ کہ بلا سوچے سمجھے رد عمل کی حیثیت سے۔ اس کا بنیادی مقصد اعراض کرنا ہوگا، نہ کہ اُلجھ جانا۔ وہ ہمیشہ امن کے اصول پر ہوگی، نہ کہ تشدد کے اصول پر۔ اس کے پیچھے کبھی بھی نفرت اور انتقام کا جذبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف یہ جذبہ ہوگا کہ کسی نہ کسی طرح حسن تدبیر کے ذریعہ معاملہ کو ٹال دیا جائے تاکہ زندگی کی گاڑی معمول کے مطابق اپنے مطلوب رُخ پر چلنے لگے۔
ہجر جمیل کا نشانہ خارجی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی خود اپنی ذات ہوتی ہے۔ ہجر جمیل کا نشانہ یہ نہیں ہوتا کہ خود مسئلہ کا خاتمہ کردیا جائے۔ اُس کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ مسئلہ کو اپنے خلاف مسئلہ بننے سے روک دیاجائے۔
واپس اوپر جائیں