مذہب اور عقلیات
قدیم ترین زمانے سے مذہب کے دائرے میں یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ مذہب کے عقائد کو عقلی اصولوں کے مطابق، صحیح ثابت کیا جائے۔ مذہب میں چوں کہ خدا کے عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اِس لیے فطری طورپر بڑے بڑے دماغ اِس میں مصروف رہے ہیں کہ وہ عقلی دلائل کی بنیاد پر خدا کے وجود کو ثابت شدہ بنائیں۔ خدا ہماری دنیا کا خالق اور مالک ہے۔ اِس اعتبار سے بلا شبہہ یہ تمام کاموں میںسب سے زیادہ بڑا کام ہے کہ خدا کے وجود کو انسانی عقل کے معیار پر ثابت شدہ بنایا جائے۔ انسان ہمیشہ عقل کی روشنی میں سوچتا ہے، اِس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان اپنی عقل کے معیار پر خدا کی معرفت حاصل کرے، تاکہ خدا کے بارے میں وہ اُس اعلیٰ یقین کا درجہ پاسکے جو خداوندِ عالم کی نسبت سے مطلوب ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ پوری انسانی تاریخ اِس معاملے میں ایک مایوس کُن تصویر پیش کرتی ہے۔ بڑے بڑے دماغوں کی کوششوں کے باوجود یہ مقصد اپنے مطلوب معیار پر حاصل نہ ہوسکا۔ اِس کا دوسرا عظیم تر نقصان یہ ہے کہ پوری تاریخ میں، کچھ استثنائی افراد کو چھوڑ کر، عام طورپر انسان خدا کی اعلیٰ معرفت سے محروم رہا ہے۔ خدا کا نام لینے والے تو بے شمار تعداد میں موجود رہے ہیں، اور آج بھی موجودہیں، لیکن وہ انسان جو خدا کی اعلیٰ معرفت سے بہرہ ور ہو، جس کو خدا کی معرفت اُس اعلیٰ درجے میں حاصل ہو، جو سینے کے اندر ایک طوفان برپا کردیتی ہے، جو دل ودماغ کے اندر ایک زلزلہ کے ہم معنیٰ بن جاتی ہے، جب کہ انسان کی زبان سے حمدِ خداوندی کا وہ کلمہ نکلے جو کائناتی میزان کو بھر دینے والا ہو، انسانی تاریخ، تھوڑے سے افراد کو چھوڑ کر، ایسے خدا پرست افراد سے خالی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان کو اس کے اعلیٰ معیارِ عقل پر خدا کے عقیدہ کو اس کے لیے قابلِ ادراک نہ بنایا جاسکا۔
مذہب اور عقلیات کی یہ کہانی فلاسفہ (philosophers) سے شروع ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غوروفکر میں مشغول رہے ہیں۔ اِن لوگوں نے چاہا کہ وہ خدا کے عقیدے کو اعلیٰ تعقّل کی سطح پر قابلِ فہم بنائیں۔ لیکن وہ سب کے سب اِس مقصد میں ناکام رہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اِن فلسفیوں کے پاس غور وفکر کے لیے جو فریم ورک (framework) تھا، وہ ایک محدود فریم ورک تھا۔ اِس محدود فریم ورک کے تحت، اُنھیں خداکے عقیدے کو ایک ثابت شدہ حقیقت بنانا تھا، لیکن اُن کا محدود فریم ورک، خدا کو اپنے تصور میں لانے کے لیے بالکل ناکافی تھا۔ اِس لیے غیر معمولی فکری کوشش کے باوجود، وہ خدا کے بارے میں اعلیٰ معرفت کا شعور دینے میں ناکام رہے۔
مثال کے طورپر تمام فلاسفہ کا مشترک ذہن اپنے فلسفیانہ فریم ورک کی بنا پر یہ تھا کہ وہ اعلیٰ حقیقت کو ایک غیر شخصی وجود (impersonal being) تصور کرتے تھے۔ اِس بنا پر انھوں نے خدا کو عالمی روح(world spirit) یا عالمی تصور (world idea) جیسا نام دیا۔ مثلاً برکلے اورکانٹ اور ہیگل، وغیرہ۔ اِس تصور کے تحت، وہ فلسفیانہ فکر پیدا ہوا، جس کو آئڈیل ازم(idealism) کہاجاتا ہے۔ فلسفیانہ الٰہیات(philosophical theology) کا دوسرا نام آئیڈیل ازم ہے۔
اِس کے بعد ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کا دور آیا۔ عباسی خلافت کے زمانے میں ایک نیا علم پیداہوا، جوعلمِ کلام(theology) کہاجاتاہے۔ جو لوگ اِس علم میں مشغول ہوئے، وہ متکلمین (theologists) کے نام سے مشہورہیں۔ متکلمین اسلام کے اِس گروہ نے ازسرِ نو یہ کوشش کی کہ وہ مذہبی عقیدہ، یا خدائی عقیدہ کو عقل کی اصطلاحوں میں بیان کریں۔ لیکن ان کی کم زوری یہ تھی کہ اُن کے پاس فریم ورک کے نام سے جو چیز موجود تھی، وہ دوبارہ یونانی منطق (Greek logic) تھی۔
یونانی منطق، دراصل قیاسی منطق (syllogism) کا دوسرا نام ہے۔ یہ منطق کا وہ طریقہ ہے، جو سائنسی منطق (scientific logic) کے ظہور میںآنے سے پہلے استعمال ہوتا تھا۔ مسلم متکلمین کے پاس دلیل قائم کرنے کے لیے یہی قدیم منطق قابلِ حصول تھی۔ یہ منطق، تعقل پسند انسان کو مطمئن کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ اِس بنا پر مسلم متکلمین بھی عقلیاتِ اسلام کے سفر کو زیادہ آگے نہ بڑھا سکے۔ وہ بھی اِس معاملے میں اُسی طرح ناکام ثابت ہوئے، جس طرح اُن سے پہلے فلاسفہ (philosophers) اِس معاملے میں ناکام ثابت ہوچکے تھے۔
اِس کے بعد انیسویں صدی اوربیسوی صدی میں جدید سائنس (modern science)کا زمانہ آیا۔ اِس زمانے میں فطرت میں چھپے ہوئے نئے حقائق دریافت ہوئے۔ اِن حقائق نے تاریخ میں پہلی بار وہ علمی بنیاد فراہم کی، جس کی مدد سے الٰہیات (theology) کو ازسرِ نو سائنسی الٰہیات (scientific theology) کے طورپر مرتب کیا جاسکے۔ سائنسی الٰہیات کے ظہور نے اِس بات کو آخری حد تک ممکن بنا دیا کہ خدا پرستانہ عقائد کو خود اُس علمی معیار پر مدلل کیا جاسکے، جس کو انسان کے نزدیک مسلّمہ عقلی معیار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
مگر عجیب بات ہے کہ یہ جدید سائنسی امکان اپنی اعلیٰ ترین صورت میں سامنے آیا، لیکن اُس کو الٰہیات کے شعبے میںاستعمال نہ کیا جاسکا۔ جدید سائنس کے ظہور کے بعد علم کے سیکڑوں شعبوں میںایک انقلاب آگیا۔ ہر شعبے میں یہ کوشش کی گئی کہ علوم کو جدید سائنسی معیار پر ڈیولپ کیا جاسکے۔ علمِ خلیّات (cytology) سے لے کر علمِ فلکیات (astronomy) تک بے شمار علمی شعبوں کو سائنسی ترقی کا درجہ ملا، لیکن الٰہیات کا علم اِس اعتبار سے ایک مستثنیٰ علم بنا رہا۔
بیسویں صدی ، سائنس کی زبردست سرگرمیوں کی صدی ہے، مگر الٰہیات کے اعتبار سے یہ صدی کسی حقیقی سرگرمی سے خالی نظر آتی ہے۔ میرے علم کے مطابق، بیسویں صدی میں دو ایسے آدمی اٹھے، جو ایک طرف تو پورے معنوں میں سائنٹسٹ تھے، اور دوسری طرف، بظاہر وہ اِس بات کا شعور رکھتے تھے کہ اب وقت آگیا ہے کہ الٰہیات کو جدید سائنس کی بنیاد پر مرتب کیا جائے۔ اور اِس طرح، الٰہیات کو وہی درجہ دے دیا جائے جو درجہ دوسرے علومِ انسانی کو حاصل ہے۔ یہ دو آدمی حسب ذیل تھے:
سرجیمز جینزSir James Jeans (1877-1946)
ڈاکٹر عبد السلام Dr. Abdus-Salam (1926-1996)
سر جیمز جینز اور ڈاکٹر عبد السلام، دونوں نے جدید الٰہیات کے موضوع پر کچھ جُزئی، لیکن اہم کام انجام دیا۔ مثلاً سر جیمزجینز نے اپنی کتاب (The Mysterious Universe, 1930) میں خالص سائنسی تجزیہ (Scientific analysis)کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کائنات اتنی زیادہ با معنیٰ ہے کہ وہ الل ٹپ (at random) طورپر وجود میں نہیں آسکتی، یقینا وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وجود میںآئی ہے۔ سر جیمز جینز نے لکھا ہے کہ کائنات کا خالق ایک ریاضیاتی ذہن (mathematical mind) معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عبد السلام ایک پروفیشنل سائنٹسٹ تھے۔ نظریاتی فزکس (theoretical physics) میںانھوں نے کیمبرج یونی ورسٹی (لندن) سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ جدید الٰہیات کے اعتبار سے اُن کا کام بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جس ریسرچ پر اُن کو فزکس کا نوبل پرائز (1979) ملا، وہ الٰہیات کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ زیر نظر موضوع پر ڈاکٹر عبد السلام کی ایک کتاب (Ideal and Realities) ہے، جو پہلی بار 1984 میں چھپی ۔
سرآئزک نیوٹن (وفات: 1727 ) کے زمانے سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چار بنیادی طاقتیں (forces) ہیں، جو پوری کائنات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ آئن سٹائن (وفات: 1955 ) نے اِس تعداد کو گھٹانا چاہا، لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے خالص ریاضیاتی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقتیں چار نہیں ہیں، بلکہ تین ہیں۔ اِس تحقیق پر اُن کو فزکس کا نوبل پرائز دیاگیا۔ بعد کو نظریاتی فزکس کے مشہوربرٹش پروفیسر اسٹفین ہاکنگ (پیدائش: 1942 )نے اِس تعداد کو مزید گھٹایا، اور یہ ثابت کیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقت صرف ایک ہے۔ اِس طاقت کو انھوں نے واحد ڈور(single string) کا نام دیا۔
اِس طرح خالص سائنٹفک ریسرچ کے ذریعے یہ ثابت ہوا کہ کائنات میں تعدّد (plurality) نہیں ہے، بلکہ توحید (oneness) ہے۔ گویا کہ کائنات کا نیچر مؤحّدانہ (monotheistic) ہے، اس کا نیچر مشرکانہ (polytheistic) نہیں ہے۔ اِس سائنٹفک تحقیق میں ڈاکٹر عبد السلام کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انھوں نے پہلی بار ’’چار طاقتوں‘‘ کے نظریے کو توڑا، اور سائنسی طورپر ’’ایک طاقت‘‘ کو ماننے کا راستہ ہموار کیا۔
سرجیمز جینز اور ڈاکٹر عبدالسلام، دونوں یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ وہ سائنسی الٰہیات (scientific theology) کو مرتب کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیں۔ لیکن دونوں اِس موضوع پر صرف جُزئی کام کرسکے، وہ اِس موضوع کا تکمیلی باب نہ لکھ سکے۔بظاہر دونوں کا عذر ایک تھا۔ دونوں ہی اپنی اکیڈمک سرگرمیوں اور پروفیشنل مشغولیت سے اتنا زیادہ وابستہ رہے کہ اُن کو سائنسی الٰہیات کے موضوع پر مزید کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ موضوع، دوسرے تمام اہم موضوعات کی طرح، مکمل ڈیڈی کیشن (dedication) کا تقاضا کرتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی اِس کام کی یہ ضروری قیمت نہ دے سکا۔ اِس لیے دونوں میں سے ہرایک اِس کام کو انجام دینے سے قاصر رہا۔
اسلام کو عقلی بنیاد (rational basis) دینے کے لیے کچھ اور لوگوں نے کتابیں تصنیف کیں۔ لیکن اصل ضرورت کے اعتبار سے یہ کتابیں کسی حقیقی اہمیت کی حامل نہ تھیں۔ اصل مقصد جدید سائنٹفک مائنڈ کو ایڈریس کرنا تھا، مگر اِن کتابوں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
1 - حجۃ اللہ البالغۃ،شاہ ولی اللہ دہلوی
2 - تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ڈاکٹر محمد اقبال
(The Reconstruction of Religious Thought in Islam)
3 - قصّۃ الإیمان، بین العلم والفلسفۃ والقرآن، شیخ ندیم الجسر
4 - قرآن اور علمِ جدید، ڈاکٹر محمد رفیع الدین
میں نے اِن کتابوں کا، اور اِس طرح کے دوسرے بہت سے مضامین اور مقالات کا مطالعہ کیا۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ یہ تمام کتابیں اصل مسئلے کی نسبت سے بہت ناقص ہیں۔ وہ ایک طاقت ور چیلنج کا صرف کم زور جواب ہیں۔ یہاں پہنچ کر میرے اندر ایک نیا احساس جنم لینے لگا۔ میںنے کئی ایسے خواب دیکھے، جو اِس بات کا اشارہ تھے کہ غالباً قضائِ الٰہی کا یہ فیصلہ ہے کہ اپنی تمام کم زوریوں کے باوجود، میں اِس خدمت کو انجام دوں۔
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنما کسی نہ کسی ردّ عمل کے تحت اٹھے۔ ان کی زندگی کا کورس رد عمل کی نفسیات کے تحت بنا۔ مگر میرا معاملہ ایک استثنائی معاملہ تھا۔ کسی قسم کے رد عمل نے میری زندگی کا کورس متعین نہیں کیا، بلکہ فطرت کا ایک واقعہ تھا، جس نے میری زندگی کا رخ متعین کیا۔
یہ واقعہ 27 جولائی 1955 کو پیش آیا۔ اُس وقت میںاعظم گڑھ (یوپی) میںتھا۔ اِس سال اُس علاقے میں نہایت شدید بارش ہوئی تھی۔ قریبی ندی ٹونس (Tons River)کا پانی پھیل کر شہر کی آبادی تک پہنچ گیا۔ برٹش دور میں یہاں 1871 میں شہر کے کنارے ایک بہت بڑا بند بنایا گیا تھا۔ یہی بند سیلاب سے حفاظت کا واحدذریعہ تھا۔ مگر اِس سال سیلاب کا پانی اتنا زیادہ بڑھا کہ لال ڈِگی کا یہ بند اُس کو روکنے کے لیے ناکافی ثابت ہوا۔ یہ میرے لیے ایک بھیانک تجربہ تھا۔ اِس تجربے کو میں نے اُسی زمانے میں قلم بند کیا تھا جو اخبار ’’دعوت‘‘ (نئی دہلی) کے شمارہ 5 ستمبر 1955 میں چھپا تھا۔ اُس میں، میںنے اپنے اِس مشاہدے کو اِن الفاظ میں لکھا تھا:
’’ 26 اور 27 جولائی 1955 کی درمیانی رات کو ضلع کلکٹر (اعظم گڑھ) کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلان ہوا— ’’لال ڈگی کا بند ابھی ٹوٹنا چاہتا ہے۔ آپ لوگ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے اونچی جگہوں پر چلے جائیں‘‘۔ اُس وقت رات کے ایک بجے تھے۔ سارا شہر جاگ اٹھا اور عجیب سنسنی پھیل گئی۔ لوگ اپنے کچے اور پکے گھروں سے نکل کر بند کی طرف دوڑے۔ سیکڑوں آدمیوں نے پھاوڑا اور بوریا لے کر اُس جگہ مٹی ڈالنی شروع کردی، جہاں سے بند پھٹ گیاتھا۔ ایسے ایسے لوگ جنھوں نے شاید زمین پر کبھی ننگے پاؤں قدم بھی نہ رکھا ہوگا، وہ اپنے سروں پر مٹی کا ٹوکرا لے کر ڈھو رہے تھے۔ درجنوں پیٹرومیکس کی روشنی میں ساری رات کام ہوا اور دوسرے دن دوپہر تک ہوتا رہا۔ بالآخر انجینئر نے کہہ دیا کہ اب بند قابو سے باہر ہے۔ آخر کار بارہ بجے دن کے بعد بند ٹوٹ گیا اور پانی سڑکوں پر بہنے لگا۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ دکانیں بند ہوگئیں۔ لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف بھاگ رہے تھے اور پانی ان کے پیچھے اِس طرح دوڑ رہا تھا کہ گویا وہ اُن کا پیچھا کررہا ہے۔ زندگی کے مسائل سمٹ کر بس سیلاب کے گرد جمع ہوگئے ، اور چند دنوں کے لیے شہر میں قیامت کا منظر دکھائی دینے لگا۔‘‘ (قرآن کا مطلوب انسان، صفحہ 61 )
فطرت کا یہ واقعہ میرے لیے قیامت کی یاد دہانی کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ گویا، بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت تھی جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ اِس واقعے کو دیکھ کر جو تاثر میرے اوپر ہوا، وہ میری پوری زندگی پر چھا گیا۔ اِس کے بعد میری تقریروں اور تحریروں میں اِنذارِ آخرت کا پہلو نمایاں وصف کے طورپر شامل ہوگیا۔ میرے استاد مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1998 ) سے ایک شخص نے پوچھا کہ قرآن کا خلاصہ کیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا کہ— سرگذشتِ انذار۔ میںسمجھتا ہوں کہ یہ بات بلا شبہہ د رست ہے، اور جو لوگ میری تقریر اور تحریر سے واقف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ میری تقریر اور تحریر میں یہی انداز غالب نظر آتا ہے۔
اِسی طرح میری زندگی میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے نے میری تحریر میں سائنسی اسلوب کو گہرائی کے ساتھ شامل کردیا۔ فروری 1955 کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعتِ اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک اجتماع ہوا۔ اِس موقع پر اسلام کے عقلی اثبات پر راقم الحروف کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد جب اعلان کیا گیا کہ وہ چھپی ہوئی صورت میں یہاں بک اسٹال پر موجود ہے، تو انسانوں کا ایک ہجوم اُس کو لینے کے لیے اسٹال پر ٹوٹ پڑا۔ تقریر کے مطبوعہ نسخے ہاٹ کیک (hot cake)کی طرح فروخت ہوگئے۔ بعدکو یہ تقریر پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔ اردو میںاُس کا نام تھا ’’نئے عہد کے دروازے پر‘‘، ہندی میں ’’نو یُک کے پرویش دُوار پر‘‘ اور انگریزی میں:
On the Threshold of a New Era
اِس مقالے کی ترتیب کے دوران میںنے جومطالعہ کیا، اُس سے دعوت کا ایک پہلو زیادہ واضح ہو کر سامنے آیا، وہ یہ کہ جدید سائنسی دریافتوں نے جو نیا مواد (data) فراہم کیا ہے، وہ ہم کو موقع دیتا ہے کہ ہم زیادہ مدلل اور موثر انداز میں دعوتِ حق کا کام کرسکیں۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو سائنس گویا کہ اسلام کا علمِ کلام (theology) ہے۔ سائنسی دریافتوں نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ حق کی دعوت کو ایسے اسلوب میں پیش کیا جائے، جو جدید انسان کے لیے قولِ بلیغ ( 4: 63 ) کے ہم معنیٰ بن جائے۔
اِسی زمانے میں مجھ پر قرآن کی ایک آیت کا مفہوم زیادہ واضح انداز میں کھُلا۔ یہ آیت قرآن کی سورہ حم السجدہ میں ہے، مگر عجیب بات ہے کہ پچھلے زمانے میں قرآن کی تفسیریں کثیر تعداد میں لکھی گئیں، لیکن اِس آیت کی گہری معنویت مفسرین سے اوجھل رہی۔ اِس آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’عن قریب لوگوں کو ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر یہ کھل جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘ (41: 63) ۔قرآن کی اِس آیت میں دراصل اُس دور کی پیشین گوئی ہے جس کو جدید سائنسی دور کہاجاتا ہے۔ جدید سائنس میں فطرت (nature) کو مطالعے کا موضوع بنایا گیا۔ یہ فطرت پوری کی پوری، خدا کی تخلیق ہے۔ اِس تخلیق کے اندر خالق کی نشانیاں (signs of God)بے شمار تعداد میں موجود تھیں، مگر وہ مخفی انداز میں تھیں۔ جدید سائنس (modern science) نے اِن نشانیوں کو کھولا، یہاں تک کہ یہ نشانیاں انسانی معلومات کے دائرے میںآگئیں۔
فطرت کی اِن نشانیوں کے دوپہلو تھے۔ ایک، اُن کا ظہور۔ اور دوسرے، تبیینِ حق کے لیے اُن کا استعمال۔ اِس معاملے میں پہلا کام سائنس دانوں کو کرنا تھا۔انھوں نے غیر معمولی کوشش کے ذریعے اِس کام کو بھر پور طور پرانجام دے دیا۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی، اِنھیں سائنسی دریافتوں کی صدی ہے۔ یہ دریافتیں کتابوں کی صورت میںچھپ کر ہر جگہ پھیل گئیں۔اِس کے بعد اِس سلسلے میں دوسرا کام یہ تھا کہ مسلم علماء اور اہلِ علم اِن معلومات سے واقفیت حاصل کریں اورمطلوب علمی انداز میں یہ بتائیں کہ یہ معلومات کس طرح اسلامی عقائد کے لیے استدلال کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ قرآن کی پیشگی خبر کے باوجود دورِ جدید میں اٹھنے والے مسلم علماء اور اہلِ علم اِس جدید امکان سے بے خبر رہے اور نتیجۃً وہ اُس کو تبیین حق کے لیے استعمال بھی نہ کرسکے۔
حدیث میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں درجہ بتایاگیا ہے، یعنی ختمِ نبوت کے بعد بھی الہامِ خداوندی کا ایک درجہ باقی ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کو خصوصی رہنمائی دیتا رہتا ہے۔ یہ خواب کا ذریعہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر بہت سی باتیں خواب کے ذریعے کھلیں۔ یہ بات بھی مجھ پر خواب کے ذریعہ واضح ہوئی کہ تبیینِ حق کے اِس اہم کام کے لیے مجھ کو اٹھنا ہے، اپنے تمام تر عجز کے باوجود اللہ کے بھروسے پر مجھ کو یہ کام انجام دینا ہے۔ اِسی ذیل کا ایک تجربہ وہ ہے جو گویا کہ مجھے بین النوم والیقظہ پیش آیا:
ستمبر 1963 کی 21 تاریخ تھی۔ راقم الحروف ندوہ (لکھنؤ) کی مسجد میں تھا اور ظہر کی سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ذہن میں یہ خیال گھوم رہا تھا کہ اسلام کے تعارف کے لئے آج ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو وقت کی زبان اور اسلوب میں لکھی گئی ہو اور جدید انسان کو مطالعہ کے لئے دی جاسکے۔ ’’کاش اللہ تعالیٰ مجھے اِس کتاب کے لکھنے کی توفیق دے‘‘۔ یہ تمنا بے ساختہ دعا کی شکل میں میری زبان سے نکلی اور اس کے بعد یکایک یہ انگریزی لفظ میری زبان پر تھا: God Arises
یہ گویا کتاب کا نام تھا جو اچانک میرے ذہن میں وارد ہوا۔ اِس سے پہلے کبھی یہ فقرہ میرے ذہن میںنہیں آیا تھا، حتی کی کتاب کے نام کی حیثیت سے اس کی معنویت بھی اس وقت پوری طرح مجھ پر واضح نہ تھی۔ شام کو عصر کی نماز کے بعد میںحسب معمول نریندر دیو لائبریری گیا جو ندوہ کے قریب دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ وہاں ویبسٹر (Webster)کی لغت میں لفظ arises کے استعمالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ بائبل کی ایک آیت میں استعمال ہوا ہے۔ پورا فقرہ یہ ہے:
Let God arise, let His enemies be scattered,
Let them also that hate Him flee before Him,
As smoke is driven away, so drive them away;
As wax melteth before the fire, so let the
Wicked perish at the presence of God.
(Psalms 68: 1-2)
خدا اٹھے۔ اس کے دشمن تتر بتر ہوں۔ وہ جو اس کا کینہ رکھتے ہیں، اس کے حضور سے بھاگیں۔ جس طرح دھواں پراگندہ ہوتا ہے، اسی طرح تو انھیں پراگندہ کر۔ جس طرح موم آگ پر پگھلتا ہے، شریر خدا کے حضور فناہوں۔
زبور کی یہ دعا حقیقۃً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئی ہے۔ یہ اسی منصوبۂ الٰہی کا ذکر ہے جو قرآن میں سورہ صف (آیت: 8-9 ) اور سورہ فتح (آیت: 28 ) میں وارد ہوا ہے۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ جس عظیم الشان سطح پر اپنے دین کا اظہار کرنے والا تھا، اسرائیلی پیغمبر (داؤد) کی زبان سے بشکل دعا اس کو کہلایا گیا۔ حضرت داؤد نبی آخر الزماں سے ڈیڑھ ہزار برس قبل پیداہوئے تھے۔
اِس طرح گویا اذان اور اقامت کے درمیان مسجد کے اس تجربے میں مجھ کو کتاب کا نام اور اس کا موضوع دونوں بتادیا گیا۔ عمر کی چھٹی دہائی میں پہنچنے کے بعد میری بہترین تمنا یہ تھی کہ میںاسلام پر ایک کتاب تیار کرسکوں جو اردو اور عربی کے علاوہ انگریزی میں God Arises کے نام سے شائع ہو۔
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ — اے میری امت، خداکے دین کو، وقت کے افکار کی طرف سے بہت بڑا چیلنج در پیش ہے۔ اٹھو، اور اِس چیلنج کا موثر جواب دے کر، خدا کے دین کو دوبارہ سرفرازی عطا کرو۔
عالمِ تصور میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ پیغمبر نے بار بار اپنی امت کو پکارا، لیکن امت کا کوئی شخص نہیں اٹھا، جو اس پکار پر لبیک کہے۔ آخر کار، میں اپنے عاجز قدموں کے ساتھ اٹھتا ہوں، اور کہتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول، اگر چہ میںآپ کا ایک کم زور امتی ہوں، لیکن میںخدا کے بھروسے پر اِس کام کو انجام دوں گا، اور پھر خدا کے رسول، دوبارہ وہی بات کہتے ہیں جو آپ نے مکہ میں اُس وقت کہی تھی، جب کہ آپ کی پکار کے بعد بڑوں میں سے کوئی نہیں اٹھا، اور بنو ہاشم کے ایک نوجوان نے کہا تھا کہ میںآپ کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں۔ اُس وقت آپ نے فرمایا: أنتَ یا علی، أنتَ یا علی۔
عالمِ تصور میں، خدا کے رسول کا یہ جواب پاکر میرا حوصلہ بڑھا، اور میں نے طے کرلیا کہ مجھے یہ کام انجام دینا ہے۔ میرا سہارا صرف ایک احساس تھا، جو حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ تھا— انسان سے تو یہ کام نہیں ہوسکتا، مگر خدا سے ہوسکتا ہے۔
میں نے جب یہ فیصلہ کیا کہ مجھے سائنسی دریافتوں کی مدد سے جدید اسلامی لٹریچر تیار کرنا ہے، تو یہ میرے لیے کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ یہ میرے جیسے انسان کے لیے ہمالیہ پہاڑ کو اپنے سر پر اٹھانے سے زیادہ مشکل تھا۔ اِس مقصد کے لیے مجھے انگریزی زبان میں بھر پور قدرت حاصل کرنا تھا۔ جدید افکار (modern thought) کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم کو گہرائی کے ساتھ پڑھنا تھا۔ جدید الحاد کا موقف کیا ہے، اس کو براہِ راست مطالعے کے ذریعے جاننا تھا۔
اُس زمانے میں، میںنے مختلف شہروں کے سفر کیے۔ مختلف شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف لائبریروں سے کتابیں حاصل کیں۔ اُس زمانے میں میری دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ میں ہر وقت پڑھتا رہتا تھایہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے کتاب میرے ہاتھ میں ہوتی تھی اور میں اس کو کھول کر پڑھتا رہتا تھا۔ میری ماں زیب النسا (وفات: 1985 ) اکثر یہ کہتی تھیں کہ یہ شخص کسی نہ کسی دن سڑک پر چلتے ہوئے کسی گاڑی سے ٹکرا جائے گا اور سڑک ہی پر اس کی موت واقع ہوجائے گی۔ میرے اِس دیوانہ وار مطالعے کی کسی نے بھی حوصلہ افزائی نہیں کی، لیکن میں ہر چیز سے بے پروا ہو کر اپنے کام میں لگا رہا۔
آزادیٔ ہند (1947) کے بارے میں ایک کتاب ہے جو دو مصنفین نے مشترک طورپر لکھی تھی۔اِن میں سے ایک شخص برطانیہ کا تھا، اور دوسرا فرانس کا۔ اِس کتاب کا نام ہے۔ آدھی رات کی آزادی(Freedom at Midnight) ۔
اپنی اِس کتاب کی تیاری میں مذکورہ دونوں مصنفین نے بے شمار چیزوں کا مطالعہ کیا۔ کتاب کے چھپنے کے بعد ایک انٹرویو میںانھوںنے کہا تھا:
We lived like hermits, and we produced ‘Freedom at Midnight’
اسلام پر عصری اسلوب (modern idiom) میں کتاب تیار کرنے کے لیے میرا بھی یہی حال ہوا۔ مذکورہ مثال کو لیتے ہوئے میںیہ کہوں گا کہ — میںنے رہبان کی مانند زندگی گزاری، اور میں نے خدا کے موضوع پر اپنی کتاب تیار کی:
I lived like hermit, and I produced my book on God.
جیسا کہ عرض کیاگیا، موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے فطرت کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ گویا کہ خدائی نشانیاں ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ آفاق اور انفس میںایاتِ الہی کے ظہور کے ہم معنیٰ ہیں ( 41: 53 ) ۔ اِس سلسلے میں اپنے مطالعے کے نتائج کو میںنے اپنی مختلف کتابوں میںتفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں مختصر طورپر چند مثالیں درج کی جاتی ہیں
1 - قدیم فلاسفہ اپنے فلسفیانہ فریم ورک کی بنا پر شخصی خدا (personal God) کے طورپر خدا کا ادراک نہیں کرپاتے تھے۔ چناں چہ انھوںنے خدا کو غیر شخصی خدا (impersonal God) بتایا۔ مگر غیر شخصی خدا صرف ایک خیالی خدا تھا، وہ (cosmic rays) یا قوتِ کشش(gravity) کے مانند تھا۔ خدا کے عقیدے کی حیثیت سے اس کی کوئی معنویت نہ تھی۔
لیکن سائنس کی تحقیقات کے بعد ایک نئی دنیا انسان کے سامنے آئی، ایک ایسی دنیا جو لازمی طورپر یہ تقاضا کررہی تھی کہ کائنات کے وجود و بقا کے پیچھے ایک زندہ شعور ہے، نہ کہ صرف مادّی عمل۔ اِس طرح سائنس دانوں نے خدا کا نام لیے بغیر، خدا جیسی ایک ہستی کا اعتراف کرلیا۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل کتاب کا مطالعہ کیجئے:
Sir Fred Hoyle, The Intelligent Universe (1983)
اِس طرح، غیر شخصی خدا (Impersonal God) کے فلسفیانہ قیاس کے لیے کوئی علمی بنیاد (Scientific base) باقی نہ رہی۔ سائنس کی نئی دریافتوں نے بتایا کہ خالص علمی اور عقلی اعتبار سے شخصی خدا (personal God) کا تصور زیادہ قابل فہم ہے۔
2 - یہی معاملہ علّۃ العِلل (cause of the causes) کا ہے۔ قدیم متکلمین نے درست طورپر خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے علّۃ العلل کا نظریہ پیش کیا تھا، لیکن ہزار برس پہلے کے زمانے میں جو معلومات انسان کو حاصل تھیں، اُن کے مطابق، علّۃ العلل کی حیثیت صرف ایک قیاس کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی عیسوی میں فلکیاتی تحقیقات کے دوران ایک نئی دریافت ہوئی، جس کو بگ بینگ کہاجاتا ہے۔ بگ بینگ کا نظریہ اب ایک ثابت شدہ نظریہ بن گیا ہے۔
بگ بینگ کے نظریے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تقریباً پندرہ بلین سال پہلے ایک کائناتی گولا (cosmic ball) تھا۔ یہ کائناتی گولا موجودہ کائنات کے تمام ذرات (particles) پر مشتمل تھا۔ اِس کاسمک بال کے باہر، ہر طرف صرف خلا پایا جاتا تھا۔ پھر اچانک ایک وقتِ خاص پر اِس کاسمک بال کے اندر ایک انفجار (explosion) ہوا اور پھر دفعتاً اس کے اَن گنت ذرات وسیع خلا میں پھیل گئے۔ پھر دھیرے دھیرے لمبے عمل کے دوران موجودہ کائنات بنی۔
بگ بینگ کی اِس دریافت کے بعد قدیم متکلمین کا علۃ العلل کا نظریہ محض قیاسی نظریہ نہیں رہا، بلکہ وہ ایک ایسا نظریہ بن گیا ہے، جس کی پشت پر ایک خالص سائنسی بنیاد موجود ہے۔ کاسمک بال میں انفجار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی خارجی عامل (factor) موجود تھا جس کی مداخلت سے یہ انفجار وجود میں آیا۔ کیوں کہ طبیعیاتی قوانین کے مطابق، خود بخود یا کسی داخلی سبب سے ایسا انفجار ہر گز ممکن نہ تھا۔ اِس طرح، علّۃ العلل کا نظریہ اب ایک ثابت شدہ نظریہ بن چکا ہے، نہ کہ صرف ایک قیاسی نظریہ۔
3 - کائنات میں بظاہر بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ اِس تنوع کی بنا پر شرک کا عقیدہ پیدا ہوا۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ جب تخلیق میں تنوع ہے، تو اس کا خالق بھی کئی ہونا چاہیے۔ نیوٹن کے زمانے میں یہ نظریہ قائم کیاگیا کہ چار طاقتیں ہیں جو پورے عالم کو کنٹرول کرتی ہیں۔ وہ چار طاقتیں ہیں:
1 - قوتِ کشش (gravitational force)
2 - برقی مقناطیسی قوت(electromagnetic force)
3 - طاقت ور نیوکلیر قوت(strong nuclear force)
4 - کم زور نیو کلیر قوت(weak nuclear force)
یہ قدیم سائنسی نظریہ بظاہر شرک کے عقیدے کی موافقت کررہا تھا۔ لیکن سائنس داں اِس قسم کے چار نظریے پر مطمئن نہ تھے۔ ان کو نظر آتا تھا کہ کائنات میںبہت زیادہ ہم آہنگی (harmony) پائی جاتی ہے۔ ایسی ہم آہنگ کائنات میںچار طاقتوں کا نظریہ انھیں بے جوڑ نظر آتا تھا۔ چناں چہ سائنس دانوں کی تحقیق جاری رہی، یہاں تک کہ یہ ثابت ہوگیا کہ کائنات کو کنٹرول کرنے والی طاقت صرف ایک ہے۔ اِس دریافت کو سنگل اسٹرنگ تھیوری (single string theory) کہاجاتا ہے۔
اِس جدید سائنسی دریافت نے شرک (polytheism) کے نظریے کا علمی طورپر خاتمہ کردیا۔ اب علم اور عقل کی بنیاد صرف توحید (monotheism)کے نظریے کو حاصل ہے۔ اب توحید کا نظریہ ایک ثابت شدہ سائنسی نظریے کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ سادہ طور پر صرف ایک مذہبی عقیدہ۔
4 - قدیم زمانے میں علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو اِس طرح ثابت کرتے تھے کہ — کائنات کا مطالعہ بتاتاہے کہ یہاں ہر چیز میںکامل ڈزائن پایا جاتا ہے۔ اور جہاں ڈزائن (design) ہو، وہاں ڈزائنر (designer) کا وجود بھی اپنے آپ ثابت ہوجاتا ہے:
When there is a design, there is a designer. and when the designer is proved, God is also proved.
یہ استدلال خالص منطقی اعتبار سے ایک درست استدلال تھا، لیکن قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ یہ ثانوی (secondary) درجے کا استدلال ہے۔ وہ اوّل درجے کا استدلال نہیں۔ کیوں کہ یہ استدلال ایک استنباط (inference) پر مبنی تھا، نہ کہ براہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر۔
سائنسی تحقیق جب تک عالمِ کبیر (macro world) تک محدود تھی، اُس وقت تک یہ استدلال بظاہر درست نظر آتا تھا۔ کیوںکہ اُس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ تمام حقیقی چیزیں اپنا مادّی جسم رکھتی ہیں، اِس بنا پر وہ قابلِ مشاہدہ (visible) ہیں۔ گویا کہ جو چیز دور بین یا خورد بین کے ذریعے نہ دیکھی جاسکتی ہو، وہ کوئی حقیقی چیز بھی نہیں۔لیکن بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات، عالمِ کبیر سے گزر کر عالمِ صغیر (microworld) تک پہنچ گئیں۔ یہ سائنس کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب تھا۔ اِس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہاں ایسی چیز بھی موجود ہوسکتی ہے، جونہ خورد بین سے دیکھی جاسکے اور نہ دور بین سے۔ اِس طرح کی چیزوں کو مشاہداتی ذرائع سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی چیز کے وجود کو صرف استنباط (inference) کے ذرائع سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
سائنس کی اِس ترقی کے بعد یہ ہوا کہ معقول استدلال (valid argument) کا قدیم تصور ختم ہوگیا ۔ اب علمی طورپر یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال (inferential argument) بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست مشاہدے کی بنیاد پر قائم کیا ہوا استدلال۔
واپس اوپر جائیں