خبرنامہ اسلامی مرکز — 209
1 - نئی دہلی میں 3-14 اکتوبر 2010 کے درمیان کامن ویلتھ گیم (CWG-2010)کا انعقاد ہوا۔ گیم کے دوران بڑے پیمانے پر کھلاڑیوں اور شرکا کو سی پی ایس کی طرف سے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ ہمارے ساتھی جو کھیل گاؤں (نئی دہلی) میں دعوتی لٹریچر لے کر گئے تھے، ان میں سے ایک ساتھی نے اِس سلسلے میں سی پی ایس کے ایک ممبر سے اِن الفاظ میں اپنا تاثر بیان کیا:
Glory be to God, all the things are turning out very well beyond imagination and the distribution is in full swing.
2 - نئی دہلی کے اسلامک کلچرل سنٹر میں اردو پریس کلب (نئی دہلی) کی طرف سے 15 اکتوبر2010 کو ایک سیمنار ہوا۔ اِس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے۔ اس کا عنوان یہ تھا — نیشنل ازم کو کیسے فروغ دیا جائے:
How to Promote Nationalism
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس سیمنار (seminar)میں شرکت کی اور موضوع پر 15 منٹ کی ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ حبّ وطن انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اِس معاملے میں مسلمانوں کے اندر نیا ذہن نوآبادیاتی دور میں پان اسلام ازم (Pan-Islamism) کی تحریک کے تحت پیدا ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قومیت کا تعلق مذہب سے ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی (وفات: 1957 )نے اِس نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ— فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں:
In present age, nationhood is based on homeland.
مگر اِس بیان سے مسلمانوں کا ذہن بدل نہ سکا، کیوں کہ مسلم علماء نے یہ کہہ دیا کہ مولانا مدنی نے جو کچھ کہا، وہ انشا نہ تھی، بلکہ خبر تھی۔ ضرورت ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کے ذہن کی اصلاح کی جائے، ورنہ مسلمان ہر ملک میں غیر وفادار بن کر رہ جائیں گے۔
3 - الرسالہ مشن سے وابستہ ایک ساتھی نے امام حرم مکی شیخ عبد الرحمن السدیس سے ایک خصوصی پروگرام کے دوران مکہ میں ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ملاقات کے وقت انھوں نے دیکھا کہ امام حرم کے مطالعے کی میز پر صدر اسلامی مرکز کی کتاب الإسلام یتحدی رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھی نے امام صاحب سے پوچھا کہ آپ شیخ وحید الدین کو جانتے ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ شیخ وحیدالدین دورِ جدید کے عظیم داعی اور مفکر ہیں، ان سے کون ناواقف ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دعوتِ اسلامی کے احیاء اور اسلام اور دورِ جدید کی نسبت سے شیخ وحید الدین نے جو کام کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک تجدیدی کام ہے۔ ہمارے ساتھی نے ان کوبتایا کہ شیخ وحید الدین کی تفسیر کا عربی ایڈیشن مصر سے شائع ہوچکا ہے۔ اِس سلسلے میں تذکیر القرآن (عربی) کا ایک سیٹ امام حرم کو صدر اسلامی مرکز کی طرف سے حسب ذیل خط کے ساتھ ( 22 اکتوبر 2010) کو دستی طورپر روانہ کیا گیا:
إلی فضیلۃ الشیخ د؍عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ
فیطیب لی أن أرفق طیہ نسخۃ من ’’التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم‘‘ (3 مجلدات) وہو أہم وأضخم ما نقل إلی العربیۃ من مؤلفاتی أخیراً. وقد قام بترجمتہ من لغۃ الأردو الأخ أبوصالح أنیس لقمان الندوی وتولی تقدیمہ ونشرہ الأستاذ د؍عبد الحلیم عویس من دار الوفاء القاہریۃ منذ حوالی سنۃ ونصف.
وإذا کان کتابی ’’الإسلام یتحدی‘‘ موجہاً إلی العقل المعاصر عامۃ لإثبات أحقیۃ مبادیٔ الإسلام وخلود رسالتہ فی مواجہۃ تیارات الفکر العلمانی الحدیث؛ فإننی حاولت من خلال تفسیری المتواضع ہذا أن أذکّر المسلمین خاصۃ وہم أمناء علی کتاب اللّٰہ برسالتہم ومسؤولیتہم تجاہہ. ومن ثم یدور ہذا التفسیر حول نقطۃٍ مرکزیۃ ہی ’’الدعوۃ‘‘ والتی تجدونہا مناسبۃ فی کل سطر من سطورہ. فالقرآن الکریم ہو کتاب ’’الدعوۃ إلی اللہ‘‘ أولاً وأخیراً. والامۃ الإسلامیۃ ہی قبل کل شـیئ وبعد کل شیئ’’أمۃ دعوۃ‘‘ وبالتالی علیہا أن تلتمس کل الطرق الحکیمۃ والسلمیۃ المتاحۃ وکل الأسالیب المعاصرۃ والفعالۃ لأجل تبلیغ دعوۃ القرآن إلی البشریۃ جمعاء.
وإننی إذ أہدی ہذا الکتاب إلی فضیلتکم؛ راجیاً أن یحظی بحسن القبول عندکم؛ أسأل اللّٰہ تعالی أن یوفقنا جمیعاً إلی السعی الحثیث الجاد لإدخال کلمتہ إلی کل بیت ’’مدر أو وبر‘‘؛ کما ورد فی حدیث مسند الإمام أحمد. (أخوکم فی اللہ وحید الدین خان)
4 - حکومتِ شارجہ (عرب امارات) کی جانب سے شارجہ ایکسپو سنٹر میں 26 اکتوبر تا 6 نومبر 2010 کے درمیان ایک انٹرنیشنل بک فیر منعقد ہوا۔ اس کا افتتاح شارجہ کے حکمراں دکتور السلطان بن محمد علی القاسمی ( 71 سال) نے کیا۔ اِس بک فیر میں نئی دہلی کے گڈ ورڈ بکس نے حصہ لیا۔ اسٹال پر بڑی تعداد میں لوگ آئے۔ انھوںنے خاص طورپر، صدر اسلامی مرکز کے انگریزی ترجمہ قرآن اور پرافٹ آف پیس کو بے حد پسند کیا اور اس کو شوق سے خریدا۔
5 -یکم نومبر 2010 کو مولانا مکرم حسین قاسمی اور مولانا محمد ذکوان ندوی نے لکھنؤ کے ایک عقدِ نکاح میں شرکت کی۔ یہاں انھوں نے لوگوں کو ماہ نامہ الرسالہ اور دعوتی لٹریچر برائے مطالعہ دیا۔اس موقع پر بہرائچ (یوپی) کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ جیوتی وسترالے کے مالک مسٹر شرما نے قرآن کو دیکھ کر اپنی غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ — لمبے عرصے سے میں قرآن کو پڑھنا چاہتا تھا، مگر اب تک میں اس کو حاصل نہ کرسکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اب میں ضرور قرآن کو پڑھوں گا۔
6 -دور درشن (نئی دہلی) کے اردو ٹی وی چینل کی ٹیم نے 10 نومبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو حج اور قربانی کے موضوع پر تھا۔ سوالات کے دوران موضوع کی وضاحت کی گئی۔
7 - نظام الدین ویسٹ (نئی دہلی) کے کمیونٹی سنٹر میں 14 نومبر 2010 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام کمیونٹی کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کو ایک اعزازی ایوارڈ دینے کے لیے کیاگیا تھا۔ اِس موقع پر بڑی تعداد میں ہندو اورمسلم افراد موجود تھے۔ ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
8 - وائی ایم سی اے (Young Men’s Christian Association) کی طرف سے 17 نومبر2010 کو اس کے کیمپس گول مارکیٹ (نئی دہلی) میں ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار حقوق اطفال (child rights) کے موضوع پر تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریرکی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
9 - خان مارکیٹ (نئی دہلی) میں 22 نومبر 2010 کو ہمارے ساتھیوں نے وہاں جاکر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ لوگوں نے اس کو بے حد شوق سے لیا۔
10 - نئی دہلی کے سینٹ ایگنلس فادر اسکول (St. Agnel’s Father School) میں 23 نومبر 2010 کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام کیرلا کے اسوسی ایشین آف کرسچن فلاسفرس آف انڈیا (ACPI) کی طرف سے شائع کردہ انسائکلوپیڈیا آف فلاسفی (دو جلدیں) کے افتتاح کے موقع پر کیاگیاتھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں علم کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔ پروگرام کے صدر سپریم کورٹ کے جسٹس مارکنڈے کاٹجو (Makandey Katju)تھے۔ انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
Maulana Wahiduddin Khan is a role model for India.
اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف کرسچن اسکولوں کے پرنسپل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو اور مسیحی افراد شریک تھے۔ان لوگوں کو پرافٹ آف پیس اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
11 - سی پی ایس کے کچھ لوگ 24 نومبر 2010 کو نئی دہلی کے لال قلعہ گئے۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے زائرین (visitors) کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
12 - روڑکی (اتراکھنڈ) کے آئی آئی ٹی کالج میں 28 نومبر 2010 کو مسٹر ساجد انور نے سی پی ایس کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے دعوتی لٹریچر کے لیے ایک بک کارنر (Book Corner)قائم کیا۔ انھوں نے یہاں کے طلبا اور اساتذہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
13 - سہارن پور سی پی ایس برانچ نے 28 نومبر 2010 کو ایک دعوتی پروگرام کیا۔ اِس میں بطور چیف گیسٹ سوامی چنمیہ آنند (صدر، وویکا نند ٹرسٹ، گروکل، ہری دوار) کو بلایا گیا تھا۔ اِس پروگرام کا موضوع امن اور اسلام تھا۔ اِس پروگرام میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات نے شرکت کی۔ ان لوگوں کو قرآن کا ہندی اور انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ سوامی پریم وکرم نے اپنے لوگوں کو بطور خود قرآن کا ترجمہ دیا۔ اِس موقع پر سوامی اگنی ویش نے صدر اسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کا ہندی ترجمہ حاصل کیا۔
14 - نئی دہلی کے سائی انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں 29 نومبر 2010 کو اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
صدر اسلامی مرکز نے انگریزی زبان میں موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام میں انڈیا کے مختلف اسکولوں کے پرنسپل نے شرکت کی۔ یہاں لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
15 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی کے تاریخی گراؤنڈ جے پال سنگھ اسٹیڈیم میں 3 دسمبر سے 12 دسمبر 2010 کے درمیان ایک نیشنل بک فیر منعقد ہوا۔ اِس بک فیر میں نئی دہلی سے گڈ وڈ بکس نے حصہ لیا۔ بڑی تعداد میں وزٹرس اسٹال پر آئے۔ بک اسٹال کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔
16 - نئی دہلی کے بھائی ویر سنگھ ساہتیہ سدن (گول مارکیٹ) کے ہال میں 8 دسمبر 2010 کو ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار گورنمنٹ آف انڈیا کے ڈپارٹمنٹ آف کلچر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اِس کا موضوع یہ تھا:
International Seminar on Guru Granth Sahab.
اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں شرکت کی اور انگریزی زبان میں اسلام کے تعارف پر ایک تقریر کی۔ اِس سیمنار میں سِکھ کمیونٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی طرف سے ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
17 - کشمیر کے انگریزی میگزین (Kashmir Scan) کی نمائندہ مزسماء ثابت نے 16 دسمبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع صدر اسلامی مرکز کی زندگی اور اُن کا مشن تھا۔ سوالات کے دوران تفصیل سے دونوں پہلوؤں کے بارے میں بتایا گیا۔
18 - ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) میں مسلسل صدر اسلامی مرکز کے مضامین شائع ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں قارئین کے تاثرات سی پی ایس کو موصول ہوتے ہیں۔ یہاں اُن میں سے دو تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
I have gone through the ‘Speaking Tree’ column of Times of India with the caption ‘Big Birds of the Storm’ (TOI, Dec. 23 , 2010) Your ability to present the cardinal truths in simple language is commendable. I specially appreciate your efferots to enlighten the common man with such great rich spiritual practices which would enhance universal brother-hood and eternal peace in the world. Please accept my sincerest gratitude for the superior job you are doing in the interest of mankind. (Naresh Garg, Managing Trustee, Delhi)
ک Thank you very much for such a beautiful article! Today what I learned from this article was very inspiring for me.Many people tried to explain me how to maintain calmness, but I could not maintain, and this article ('Big Birds of the Storm) did such a work that none ever did anytime! This article was really very good and very inspiring, I will really forward this article (Big Birds of the Storm) to schools and colleges. (Sagar Agarwal, Delhi)
19 - قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر بڑے پیمانے پر غیر مسلموں کے درمیان پھیلایا جارہا ہے۔ لوگ خوشی کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں اُن میں سے چند تاثرات نقل کئے جاتے ہیں:
ک I feel so indebted for the great gift I have been waiting, The Quran I just received today at midday, may God bless you abundantly and your team for this great mission, I was not able to read Quran as many I came across were in either Arabic or Roman but now I can read on my own. I am so happy. (Hillary Olola, Homabay, Nairobi, Kenya)
ک I have a great regard for the religion of Islam and particularly, for Maulana Wahiduddin Khan, who interprets the Holy Quran, the Sahih Hadith & the life of the Prophet Muhammad in the most simple and practical manner. (Srinivasan Balakrishnan, Jamshedpur, Jharkhand)
ک I truly believe that Maulana Wahiduddin Khan's understanding of Islam is wonderful and truly beneficial, he is one of the reasons that I have fell in love with Islam all over again. He will most definitely be one of the scholars I continue to read, and if his methodology was firmly promoted all over the world, I believe that many of those Muslims with ideological political agendas can come to see the truth of Islam and Prophet Message, insha Allah. I love Maulana Wahiduddin Khan's understanding of the ahl-Kitab and the respect he shows for other religions. May Allah continue to bless Maulana Wahiduddin Khan and I look forward to becoming a student of his teachings and methodologies. Maulana Wahiduddin Khan’s understanding of true Islam is what the world needs! (Mike Westerfield, Panama, Florida, USA)
ک Maulana Wahiduddin Khan is one of the Islamic scholars that caused Islam to be presented in the modern era. The sole reason behind this is that he presented Islam in a logical and scholarly way. (Muhammad Bilal, Pakistan)
20 - سی پی ایس کی طرف سے مختلف لائبریریوں کو اسلامی کتابیں بھیجی جارہی ہیں۔ لوگ اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول کرکے اپنی لائبریری میں جگہ دیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہاں ایک خط نقل کیا جارہا ہے:
ک Thank you very much for sending us a set of books from the Centre for Peace and Spirituality International, authored by Maulana Wahiduddin Khan. After the customary review by the Library Book Selection committee, it will be added to our library for utilization of our readers. It is indeed a pleasure to add such well-written books to our library. (Br. Vidyachitanya, Ramakrishna Mission Library, New Delhi)
21 - سی پی ایس کی طرف سے معروف اجتماعی مقامات — ہوٹل، ہاسپٹل، ریلوے اسٹیشن، ائرپورٹ، وغیرہ پر قرآن کے اسٹینڈ رکھے جارہے ہیں۔ لوگ یہاں سے بخوشی قرآن کا انگریزی ترجمہ حاصل کرتے ہیں۔
22 - القرآن انسٹی ٹیوٹ (امین آباد، لکھنؤ) کی طرف سے بڑے پیمانے پر صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قراژن غیر مسلموں تک پہنچایا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تمام معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
23 - حلقہ الرسالہ (بمبئی) کے ساتھیوں نے نومبر 2010 میں ایک مخصوص دعوتی پروگرام بنایاہے۔ یہ ممبئی کی فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے اسٹارس (film stars) اور نمائندہ لوگوں سے دعوتی ملاقات کا پروگرام ہے۔ یہ لوگ فرداً فرداً انڈسٹری کے لوگوں سے مل کر ان کو دعوتی لٹریچر پہنچا رہے ہیں۔ انڈسٹری کے کئی اردو داں حضرات نے اپنے پتے پر ماہ نامہ الرسالہ بھی جاری کیا ہے۔ مثلاً مسٹر قادر خان، وغیرہ۔
24 - نئی دہلی کے ٹی وی چینل زی سلام کے اسٹوڈیو میں 24 جولائی 2010 سے صدر اسلامی مرکز کے اسلامی پروگرام کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ اس پروگرام کی اینکر مز شگفتہ یاسمین صاحبہ ہیں۔ دسمبر 2010 تک 35 مختلف اسلامی موضوعات پر صدر اسلامی مرکز کے پروگرام ریکارڈ ہو کر نشر ہوچکے ہیں۔ یہ پروگرام سوال وجواب کی شکل میں ہوتا ہے۔
25 - عربی زبان کے مشہور مصری ادیب اور مصنف ڈاکٹر عبد الصبور شاہین ( 82 سال) کا 26 ستمبر2010 کو قاہرہ میں انتقال ہوگیا۔ صدر اسلامی مرکز کی کتاب الإسلام یتحدی کا عربی ترجمہ اُنھیں کے براہِ راست تعاون سے تیار کیاگیا تھا۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے حسب ذیل مضمون میں اِس معاملے کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے:
Dr. Abdussabour Shahin (1928-2010)
While hastily turning the pages of the Kuwaiti magazine Al-Mujtama‘ last week, a familiar face stopped me - it was the image of my and millions’ dear teacher Dr Abdussabour Shahin, but the news printed along the photograph was shocking: he died on 26 September 2010 and was buried in Cairo next day after the funeral prayer at his beloved ‘Amr Ibn Al-‘Aas mosque, Egypt’s first mosque built after the Islamic conquest. He had delivered Friday sermons in this very mosque for years until stopped by the authorities. Dr Abdussabour was one of the greatest names in the contemporary Middle East - a teacher, philosopher and linguist. Author of over 70 books, some multi-volume, he was a familiar face on Arabic channels and in Islamic conferences. He was professor of linguistics in Cairo University’s Darul Uloom College and taught in a number of Arabic universities on deputation. He was elected to the Majlis Shoura, the upper house of Egyptian parliament. But the exceptional honour he received was to be the Imam Jumu‘ah of ‘Amr ibn Al-‘Aas mosque where great personalities, like Shaikh Muhammad Al-Ghazali, had traditionally delivered the Friday sermon attended by tens of thousands of people who used to travel to that mosque from various corners of Cairo and nearby Giza. He was a master of French language too and translated many books of the Algerian thinker Malek Bennabi as well as the epoch-making book of Abdullah Draz on morals in Islam. I consider him my real teacher in life. Although I studied in Darul Uloom, but he did not teach me there as he taught in the Arabic department while I was in the department of Islamic history. I had wanted to translated my father’s book, Ilm-e Jadeed ka challenge’ (God Arises) and asked the great ‘alim Shaikh Abdullatif Draz who was a former Vice Chancellor of Al-Azhar and treated me like his son. His suggestion was to go to Dr Abdussabour Shahin as he was the best person for this job. He at once phoned Dr Shahin who, in turn, readily agreed. This was in the early days of 1968. Next, I went to see him with the translation of a few pages of the book. He did not like the translation but liked the content. His disapproval of my translation was repeated again and again and I used to tell him that next day I will bring a better translation. His pet reply was: ‘No, it will be the same again’. Then he used to ask me to explain to him reading the original and he himself used to write those lines. Thus, we continued this onerous task for perhaps eight or nine months with barely a page or so completed in a day. I
used to go to him every evening by trolley bus all the way from Abbasia to his flat on the Qasr al-'Aini Street - a distance of may be 45 minutes each way, spend two-three hours with him and then return to my hostel by around midnight. Thus the book was completed. He soon went to teach in Kuwait University and took the manuscript with him. Soon, the book was published in best possible way titled Al-Islam Yatahadda which made waves in the Arab world and still continues to do four decades later. It helped thwart the secular and westernization onslaught and paved the way for Islamic revival in the Middle East. I soon left Cairo for Libya and from there moved to UK but kept in touch with my teacher who taught me what Arabic is. If I know any amount of Arabic writing, perhaps the best in the Subcontinent, the credit goes to him alone. He was very particular about words and expressions. He was a brave, fearless and highly eloquent Muslim thinker who did not shy away from expressing himself in most difficult situations. I last saw him last year in Makkah during the Dialogue Conference held by King Abdullah. He looked frail, yet attentive and loving as ever. He embraced me, saying ‘‘Habibi’’ - my dear… That was the last time I saw him. May Allah fill his grave with light and award him for his services to Islam and Muslims who will remember him for long. (by Dr. Zafarul Islam Khan, The Milli Gazette, New Delhi, 1-15 Novermber 2010, . 16 )
واپس اوپر جائیں