تعارفِ قرآن
قرآن، خدا کی کتاب ہے۔قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں خدا کی طرف سے محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب پر عربی زبان میں اترا۔ قرآن اپنی اصل عربی زبان میں اب تک محفوظ ہے۔ قرآن، پورے معنوں میں، ایک محفوظ خدائی کتاب ہے۔ قرآن کے متن(text) میں نہ کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ کوئی اضافہ۔
قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ اُس میں انسان کا خالق براہِ راست انسان سے خطاب کرتا ہے۔ قرآن کا پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اُس کا خالق براہِ راست طورپر اس سے ہم کلام ہو کر کہہ رہا ہے کہ—اے انسان، یہ تیرا خدا ہے جو تیری قابلِ فہم زبان میں تجھ کو خطاب کررہا ہے۔ تو اس کلام کو سن اور اس کی اتباع کر۔ اِس اتباع میں تیری نجات ہے۔ اِس اتباع کے ذریعے تو اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں کامیاب بنا سکتا ہے۔
قرآن میں چھوٹی، بڑی 114 سورتیں ہیں۔ اُس کی آیتوں کی تعداد مجموعی طورپر 6236 ہے۔ قرآن کی ہر سورہ کے شروع میں (بہ استثنائِ سورہ التوبہ) یہ جملہ ہوتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم (شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے)۔ اِس طرح، قرآن کی ہر سورہ اور مجموعی طورپر پورا قرآن یہ بتاتا ہے کہ قرآن، خدا کی صفتِ رحمت کا اظہار ہے۔ قرآن کا نزول رحمتِ الٰہی کا نزول ہے۔ تاہم یہ رحمت بارش کی طرح نہیں ہے کہ اُس کا فائدہ اپنے آپ ہر عورت اور مرد کو مل جائے۔ قرآن کا فائدہ صرف اُس انسان کو ملے گا جو کامل سنجیدگی کے ساتھ اُس پر غور کرے، جو طالب بن کر اُس میں اپنے لیے ہدایت تلاش کرے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں اترا۔ اُس وقت کاغذ وجود میں آچکا تھا۔ یہ کاغذ بعض مخصوص درختوں کے ریشے سے لے کر دستی صنعت کے طورپر بنایا جاتا تھا۔ اُس کو پپائرس (Papyrus) کہا جاتا ہے۔ قرآن کا کوئی حصہ جب بھی اُترتا تو اُس کو اس کاغذ پر لکھ لیا جاتا تھا۔ اِس کاغذ کو عربی زبان میں قِرطاس ( 6: 7 )کہاجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ لوگ قرآن کو اپنے حافظے میں محفوظ کرلیتے تھے۔ کیوں کہ اُس وقت قرآن ہی واحد اسلامی لٹریچر تھا۔ قرآن کو نمازوں میں پڑھا جاتا تھا اور دعوہ ورک کے تحت اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ اِس طرح قرآن بیک وقت لکھا بھی جاتا رہا اور اِسی کے ساتھ اس کو یاد بھی کیا جاتا رہا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے تک قرآن کو محفوظ کرنے کا یہی طریقہ جاری رہا۔ آپ کی وفات 632 عیسوی میں ہوئی، اس کے بعد ابوبکر صدیق اسلام کے پہلے خلیفہ بنے۔ انھوں نے باقاعدہ اہتمام کے تحت، قرآن کا ایک مجلد نسخہ بنایا۔ یہ نسخہ قدیم زمانے کے کاغذ یا قرطاس پر بنایا گیا تھا۔ یہ مجلد قرآن چوکور صورت میں تھا۔ چناںچہ اس کو رَبعہ (square) کہا جاتا تھا۔ اِس طرح قرآن، خلیفۂ اول کے زمانے میں مجلد کتاب کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفّان کے زمانے میں اِس مجلد قرآن کے مزید نسخے تیار کیے گیے اور اس کو مختلف شہروں میں بھیج دیاگیا۔ یہ نسخے شہر کی جامع مسجدوں میں موجود رہتے تھے۔ لوگ اُن کو پڑھتے بھی تھے اور اُن سے مزید نسخے تیار کرتے تھے۔
کتابتِ قرآن کا یہ سلسلہ انیسویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ انیسویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور ساتھ ہی کاغذ بھی جدید صنعتی طریقے پر بڑی تعداد میں تیار کیا جانے لگا۔ اِس طرح انیسویں صدی میں قرآن کو باقاعدہ طورپر پرنٹنگ پریس کے ذریعے چھاپنے کا آغاز ہوگیا۔ چھپائی کے طریقوں میں مسلسل ترقی ہوتی رہی۔ اِسی کے ساتھ قرآن کے مطبوعہ نسخے بھی زیادہ بہتر طورپر تیار ہونے لگے۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے اتنے زیادہ عام ہوگیے ہیں کہ وہ ہر گھر میں اور ہر مسجد میں اور ہر لائبریری میں اور ہر مارکیٹ میں اِس طرح وافرمقدا رمیں موجود ہیں کہ ہر انسان قرآن کے چھپے ہوئے خوب صورت نسخے حاصل کرسکتا ہے، خواہ وہ کُرۂ ارض کے کسی بھی مقام پر ہو۔آج قرآن کا ایک مطبوعہ نسخہ اُسی نسخہ (ربعہ) کی عین نقل (true copy) ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں خلیفہ اوّل ابو بکر صدیق نے خصوصی اہتمام کے ذریعے تیار کرایا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن خدائی تنبیہ کی ایک کتاب ہے۔ وہ اَسباق اور نصیحت کا ایک مجموعہ ہے۔ قرآن، عام طرزِ تصنیف کے مطابق تیار نہیںہوا۔ زیادہ صحیح طورپر قرآن ایک بُک آف وزڈم ہے۔ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنے والا اگر قرآن کا صرف ایک صفحہ پڑھے، یا وہ اُس کا صرف ایک جملہ سُنے تب بھی اُس کو اُس میںایک مسیج مل جائے۔
قرآن ایک اعتبار سے، مُنعم کی طرف سے انعام کی یاد دہانی ہے۔ خدا نے انسان کو استثنائی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا۔ پھر اُس کو زمین جیسے سیارے پر بسایا، جہاں انسان کے لیے ہر قسم کا لائف سپورٹ سسٹم موجود ہے۔ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان، فطرت کے اِن انعامات سے استفادہ کرتے ہوئے منعم کو یاد رکھے۔ وہ انعامات کے خالق کا اعتراف کرے۔ انعامات کو استعمال کرتے ہوئے منعم کا اعتراف کرنا اور اُس کے تقاضے پورے کرنا، یہی ابدی جنت کا سرٹفکٹ ہے۔ اور انعامات کو استعمال کرتے ہوئے منعم کو فراموش کردینا، آدمی کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔ قرآن در اصل اِسی سب سے بڑی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔
قرآن کا اسلوبِ بیان بھی ایک منفرد اسلوبِ بیان ہے۔ قرآن کے اسلوبِ کلام کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اُس کا اسلوب ایک شاہانہ اسلوب ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے جیسے اُس کا مصنف ایک ایسے برتر مقام پر ہے جہاں سے وہ ساری انسانیت کو دیکھ رہا ہے۔ ساری انسانیت اُس کا کنسرن ہے۔ وہ اپنے مقامِ عظمت سے پوری انسانیت کو خطاب کررہا ہے۔ البتہ اِس خطاب کے دوران اُس کا رخ کبھی ایک گروہ کی طرف مُڑ جاتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کی طرف۔
قرآن کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اُس کا قاری کسی بھی لمحہ اُس کے مصنف سے کنسلٹ کرسکتا ہے۔ قرآن کا مصنف خدا ہے۔ وہ ایک زندہ خدا ہے۔ وہ سارے انسانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ براہِ راست طورپر ہر انسان کی بات کو سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتا ہے۔ اِس لیے قرآن کے قاری کے لیے ہر لمحہ یہ ممکن ہے کہ وہ خدا سے ربط قائم کرسکے۔ وہ خدا سے پوچھے اور خدا سے اپنے سوال کا جواب پالے۔
قرآن خالقِ کائنات کا تعارف ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے اِس کائنات کو پیدا کیا۔ وہی اُس کو مسلسل طورپر سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل تنہا اُسی کے قبضے میں ہے۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ابدی ہے۔ اس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔
خالق کے تعارف کے بعد قرآن میں خصوصی طورپر جو چیز بتائی گئی ہے، وہ خدا کی تخلیق کے بارے میں ہے۔قرآن کا موضوع یہ ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے انسان کو باخبر کرے۔ قرآن، آدمی کو وہ چیز بتاتا ہے جس کو وہ اپنی کوشش سے نہیں جان سکتا تھا۔ قرآن آدمی کے اِن بنیادی سوالات کا جواب دیتا ہے کہ — میں کون ہوں، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے، اِس دنیا سے میرے تعلق کی نوعیت کیا ہے جہاں میں اپنے آپ کو پاتا ہوں، زندگی کیا ہے، اور موت کیا ۔ موت سے پہلے مجھے کیا کرنا ہے، اور موت کے بعد میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ وہ کیا روش ہے جو مجھ کو ناکام بناتی ہے، اور وہ کیا روش ہے جو مجھ کو کامیابی عطا کرتی ہے۔ اِن سوالات کا تعلق خدا کے تخلیقی پلان سے ہے، اور قرآن کا مقصد یہی ہے کہ وہ انسان کو خدا کے اِس تخلیقی پلان سے آگاہ کرے۔
اِس اعتبار سے، پیغمبر کا تعلق براہِ راست طورپر قرآن سے جُڑا ہوا ہے۔ پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب کو پوری امانت کے ساتھ انسان تک پہنچا دیتا ہے۔پھر پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی رہ نمائی میں لوگوں کے درمیان اپنی پوری زندگی اِس طرح گزارتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے قرآن کا ایک عملی مظاہرہ (demonstration) بن جاتا ہے۔ قرآن اگر آئڈیالوجی کی کتاب ہے تو پیغمبر اِس آئڈیا لوجی کی ایک عملی تصویرہے۔ قرآن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی قرآن کو پڑھنے کے ساتھ، پیغمبر کے کلام اورپیغمبر کی زندگی کا مطالعہ کرے۔
قرآن کے بیان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ مگر انسان کی زندگی کو دو مختلف دوروں میں تقسیم کردیا گیا ہے — موت سے پہلے کا دوراور موت کے بعد کا دور — موت کے پہلے کا دور عمل کا دور ہے، اور موت کے بعد کا دور اپنے عمل کا انجام پانے کا دور۔
موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو مکمل طورپر آزاد پاتا ہے۔ مگر یہ آزادی برائے انعام نہیں ہے، بلکہ وہ برائے امتحان ہے۔ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں انسان کو آزادی دے کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون اپنے آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اپنی آزادی کو صحیح طورپر استعمال کرنا، گویا خود سے اپنے آپ کو خدائی ڈسپلن میں رکھنا ہے۔ ایسے لوگ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں ابدی جنتوں میں جگہ پائیں گے، اور جو لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں، وہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں جہنّم میں ڈال دیے جائیں گے۔ جنت، ابدی راحتوں کی جگہ ہے، اور جہنم، ابدی مصیبتوں کی جگہ۔
موجودہ دنیا انسان کے لیے ایک بے حد موافق دنیا ہے، یہاں کامل طورپر اُس چیز کا انتظام کیاگیا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتاہے۔ مگر قرآن کے مطابق، یہ دنیا ہمیشہ اِسی طرح رہنے والی نہیں۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خالق نے جس طرح ہر عورت اور مرد کی ایک عمر مقرر کردی ہے، اِسی طرح اِس دنیا کی بھی ایک مقرر عمر ہے۔ یہ سیارۂ زمین اور یہ شمسی نظام ہمیشہ اِسی طرح رہنے والے نہیں۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیاہے کہ خدائی عمل کے مطابق، جب مقرر مدت پوری ہوگی تو اس دنیا کواور اِس کے پورے نظام کو توڑ دیا جائے گا۔ اِس کے بعد، خدا اپنی قدرت سے ایک اور دنیا بنائے گا۔ یہ دوسری دنیا ایک کامل اور ابدی دنیا ہوگی۔ اِس دوسری دنیا کے قوانین موجودہ دنیا سے مختلف ہوں گے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی ملی ہوئی ہے، لیکن اگلی دنیا براہِ راست خدا کے کنٹرول میں ہوگی۔ اِس دوسری دنیا میںخدا عدل (justice) کو مکمل طورپر قائم کرے گا۔ اِس دوسری دنیا میں وہ تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیںگی جو موجودہ دنیا میں مصلحتِ امتحان کی بنا پر چھپی ہوئی تھیں۔
جو لوگ قرآن کے ذریعے سچائی کو دریافت کریں، اُن کو قرآن عمل کا دو نکاتی پروگرام دیتا ہے — اپنی زندگی میں خدا کی ہدایت کی کامل پیروی، اور دوسرے انسانوں کو اِس معلوم خدائی ہدایت سے باخبر کرنا۔
خدائی ہدایت کی پیروی کا آغاز معرفت یا خدائی حقیقت کی دریافت سے ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب قرآن کے ذریعے سچائی کو دریافت کرتا ہے تو اُس کے اندر ایک ذہنی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ اس کی سوچ بدل جاتی ہے۔ اس کے چاہنے اور نہ چاہنے کا معیار تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی اندر سے باہر تک ایک نئے ربانی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔
معرفتِ خداوندی کا یہ اظہار جن صورتوں میں ہوتاہے، اُس کو ذکر اورعبادت اور اخلاقِ حسنہ اور متقیانہ زندگی جیسے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ سچائی کی دریافت کوئی میکانیکل دریافت نہیں ہے، سچائی کی دریافت حقیقتِ حیات کی دریافت ہے۔ اور جس انسان کو زندگی کی حقیقت معلوم ہوجائے، وہ خود اپنی فطرت کے زور پر ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ سچائی کی دریافت کسی انسان کے لیے ایک جنم کے بعد دوسرا جنم لینا ہے۔ یہ نیا جنم ایک ایسے نمو پذیر درخت کے مانند ہے جو ہمیشہ بڑھتا رہے، جس کی ترقی کا سفر کبھی ختم نہ ہو۔
قرآن کے ذریعے جو لوگ سچائی کو دریافت کریں، ان کے عملی پروگرام کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے، یعنی خدائی سچائی سے دوسروں کو باخبر کرنا۔ یہ دعوتی عمل ایک بے حد سنجیدہ عمل ہے۔ وہ کامل ڈیڈی کیشن کا طالب ہے۔ اِسی پہلو سے اس کو جہاد بھی کہاگیا ہے۔ قرآن میں مومنینِ قرآن کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا ( 25: 52 ) یعنی قرآن کے ذریعے تم دوسروں سے جہادِ کبیر کرو۔
قرآن کے مطابق، جہاد کامل طورپر ایک غیر سیاسی عمل ہے۔ جہاد ایک ایسا عمل ہے جو شروع سے آخر تک کامل طور پر پُرامن طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ دعوتی جہاد کا نشانہ انسان کے دل کو اور اس کے دماغ کو بدلنا ہے۔ اور دل ودماغ میں تبدیلی صرف پرامن تبلیغ کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ کسی قسم کے جبر یا تشدد کے ذریعے۔
قرآن کی کچھ آیتوں میں قتال (جنگ) کا حکم بھی آیا ہے۔ تاہم قرآن کے مطابق، جنگ کی صرف ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ دفاع کی صورت ہے۔ دفاع (defence) کے سوا، کسی بھی دوسرے سبب کی بنا پر جنگ کرنا جائز نہیں۔ قرآن کے مطابق، زندگی میں امن کی حیثیت ایک عموم (rule) کی ہے، اور جنگ کی حیثیت صرف ایک نادر استثنا (rare exception) کی۔
قرآن میں جنگ سے متعلق کچھ آیتیں ہیں جو پورے قرآن کے مقابلے میں اُس کا ایک فی صد سے بھی کم حصہ ہیں۔ یہ آیتیں قرآن کے ابدی حکم کو نہیں بتاتیں، بلکہ وہ صرف ایک وقتی تدبیر کو بتاتی ہیں۔ یہ آیتیں اُس وقت اتریں ، جب کہ مومنین اور غیر مومنین کے درمیان حالتِ جنگ (state of war) قائم ہوگئی تھی۔ یہ حالت جنگ مخالف گروہ کی طرف سے مسلّح حملے کی بنا پر قائم ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ اِن حملوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی تدبیر سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح وہ ہمیشہ اِن حملوں کو ٹالتے رہے۔ صرف چند بار ایساہوا کہ اعراض کی ہر کوشش ناکام ہوگئی اور مجبورانہ طورپر جنگ کے میدان میں مقابلے کا طریقہ اختیار کیاگیا۔
خدا نے انسان کو اِس دنیا میں کامل آزادی عطا کی ہے۔ یہی آزادی انسانی سماج میں مختلف قسم کے مسئلے پیدا کرتی ہے۔ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کوئی اشتعال انگیز بات کرتا ہے جس سے دوسروں کو غصہ آجاتا ہے۔ کسی سے دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے، اس کے نتیجے میں دوسرے شخص کے اندر انتقام کا جذبہ جاگتا ہے۔ کوئی شخص کسی ذاتی سبب سے دوسرے سے نفرت کرتا ہے۔ اِس بنا پر دوسرا شخص بھی اُس سے جوابی نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ منفی تجربات کبھی اتنا زیادہ شدید ہوجاتے ہیں کہ ایک شخص یا دوسرے شخص کے درمیان، یا ایک گروہ یا دوسرے گروہ کے درمیان دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا ہر انسانی سماج میں ہوتاہے۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔
اِس صورتِ حال کے بارے میں قرآن واضح طورپر یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ ردّ عمل کا شکار نہ ہوں۔ وہ منفی رویّے کا جواب منفی رویّے سے نہ دیں، بلکہ وہ اس کا جواب مثبت انداز میں دیں۔ اِس مثبت جواب کو قرآن میں صبر اور اِعراض کہا گیا ہے۔
مثلاً قرآن میں مومنینِ قرآن کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب اُنھیں کسی کے اوپر غصہ آتا ہے تو وہ اس کو معاف کردیتے ہیں ( 42: 37 )۔ قرآن کی اِس ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ایک انسان کو دوسرے انسان سے جو تکلیف پہنچتی ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق ہے۔ خدا نے انسان کو آزادی دی ہے، اِس لیے اُس کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کر کے دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے۔ یہ صورت حال خدا کی قائم کردہ ہے، اِس لیے وہ قیامت سے پہلے ختم ہونے والی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اِس صورتِ حال کو فطری صورتِ حال سمجھے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے، بلکہ وہ اس کو اوائڈ کرتے ہوئے اپنی مطلوب زندگی گزارے۔ اِس صورت ِ حال کو بدلنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے اِس دنیا میں انسان کے لیے اعراض (avoidance) کے سوا کوئی اور چوائس بھی نہیں۔
اِس سماجی صورتِ حال کی آخری صورت وہ ہے جس کو دشمنی کہاجاتا ہے۔ دشمنی کی صورت ِ حال کے مقابلے کے لیے بھی قرآن اِسی مثبت رویّے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: ’’اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اُس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا‘‘ ( 41: 34 )قرآن کی اس آیت کے مطابق،دشمنی کوئی ابدی چیز نہیں۔ ہر دشمن آپ کا امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس لیے مومنینِ قرآن کو چاہیے کو وہ اِس امکان کو واقعہ بنائیں، وہ اپنے حسنِ عمل سے، دشمن کو دوستی میں تبدیل کردیں۔
سماج کا ایک ظاہرہ یہ بھی ہے کہ اُس کے اندر ہمیشہ مختلف افکار ونظریات کے لوگ رہتے ہیں، ایسے لوگ جن کا کلچر اور مذہب ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایسے سماج میں پرامن طورپر رہنے کا فارمولا کیا ہے۔ ایسے سماج کے لیے پُرامن فارمولا قرآن میں اِس طرح دیا گیا ہے — تمھارے لیے تمھارا دین ہے، اور میرے لیے میرا دین ( 109: 6 ) ۔
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، کثیر مذہبی سماج (multi-religious society)میں پُر امن طورپر رہنے کا فارمولا یہ ہے کہ — ایک کو اپناؤ اور دوسرے کا احترام کرو:
Follow one, and respect all.
قرآن کا مطلوب انسان ربانی انسان ( 3: 79 )ہے، یعنی وہ انسان جو اِس دنیا میں رب والا انسان بنے۔ جوخدا رخی زندگی گزارے۔ ربانی انسان بننے کے اِسی پراسس کو قرآن میں تزکیہ ( 2:129 ) کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، جنت اُنھیں افراد کے لیے ہے جو اِس دنیا میں اپنا تزکیہ کریں، جو مزکّیٰ انسان بن کر اگلی دنیا میں داخل ہوں ( 20: 76 ) ۔
تزکیہ کے معنیٰ ہیں — تطہیر (purification) ، یعنی اپنی شخصیت کو نامطلوب چیزوں سے پاک کرنا۔ شخصیت کو پاک کرنے کا یہ عمل ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک مومنِ قرآن کے اندر یہ عمل اس کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔پیدائشی طورپر ہر انسان مسٹر نیچر ہوتاہے، مگر دنیا کی زندگی میں روزانہ ایسے تجربات ہوتے ہیں جو اس کی فطری شخصیت کے اوپر منفی دھبے ڈالتے رہتے ہیں، غصہ اور نفرت اور حسد اور لالچ اور تعصب او رکبر اور بے اعترافی اور انتقام، یہ سب یہی منفی دھبے ہیں، جو انسان کی فطری شخصیت کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ محاسبہ (introspection) کے ذریعے اپنا تزکیہ کرتا رہے۔ وہ آلودہ شخصیت کو فطری شخصیت بناتا رہے۔ ہر آدمی کا ماحول اُس کو ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بنا دیتا ہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے دوبارہ اپنے آپ کو مسٹر نیچر بنائے۔ اِس مسٹر نیچر کا قرآنی نام ربّانی انسان ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں وہ لوگ جائیں گے جو موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ کریں ( 20:76 ) ۔ اِس تزکیہ کے بغیر کوئی عورت یا مرد جنت میں داخل ہونے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں