خبرنامہ اسلامی مرکز— 207
1 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر گوالیار میں 60واں نیشنل بک فئر منعقد ہوا۔ یہ بک فئر 4 اگست 2010 سے 9 اگست 2010 تک جاری رہا۔ اِس میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے حصہ لیا۔ یہاں یہ واحد اسلامک اسٹال تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں اسٹال پر آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ مقامی اخبارات نے اس کی خبریں شائع کیں۔ ہندی اخبار ’’پریوار ٹوڈے‘‘ (6 اگست 2010 ) نے صدر اسلامی مرکزکے کام کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
ekSykuk oghnqیhu [kku iqLrdksa ds ek/;e ls fiNys ipkl o"kZ ls 'kkfUr vkSj HkkbZpkjs dk lans'k ns jgs gSaA
2 - اگست- ستمبر 2010 (رمضان 1431 ہجری) میں جنوبی ہند کا سفر ہوا۔ یہ سفر 20 اگست 2010 کو شروع ہوا اور 5 ستمبر 2010 کو ختم ہوا۔ آندھرا پردیش کے حیدرآباد ، محبوب نگر، کریم نگر اور ریاست کرناٹک کے شہر گل برگہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے پاس ماہ نامہ الرسالہ کے 2000 شمارے اور ’’صوم رمضان‘‘ کی 8000 کاپیاں تھیں جو وہاں کے تعلیم یافتہ افراد کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مقامی لوگوں نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ کافی لوگ الرسالہ کے ممبر بنے اور پرانے ممبروں نے اپنی خریداری کی تجدید کی -
3 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے مہاراشٹر کے تاریخی شہر ناگ پور میں 62 واں نیشنل بک فئر منعقد ہوا۔ یہ بک فئر 24 ستمبر 2010 سے 3اکتوبر 2010 تک جاری رہا۔ اس میں گڈ ورڈ بکس نے حصہ لیا۔ یہاںیہ واحد اسلامک اسٹال تھا۔ دعوتی اعتبار سے یہ بک فئر بہت کامیاب رہا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے یہاں سے اسلامی مرکز کی کتابیں اور ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ بک فئر کے دوران 27 اگست 2010 کو ’’سمّان سماروہ‘‘ ہوا۔ پستک میلہ سمیتی کی طرف سے شہر ناگپور کے 16 لوگوں کو مختلف فیلڈ (لٹریچر وصحافت) میں نمایاں کام کرنے پر ایوارڈ دیا گیا۔ اِس موقع پر سبھی شرکاء کو خاص طورپر بک فئر کے سکریٹری چندر بھوشن اور سابق یونین منسٹر اور ایم پی مسٹر ولاس روا (Vilasroa Muttemwar) کو ہندی ترجمہ قرآن کی ایک ایک کاپی دی گئی۔ (شاہ عمران حسن)
4 - فرینکفرٹ (جرمنی) میں 6-10 ستمبر 2010 ایک انٹرنیشنل بک فئر ہوا۔ اِس میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔ یہاں صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ کو تین انٹرنیشنل پبلشرز نے مختلف زبانوں — جرمن، فرنچ، مَلے میں شائع کرنے کا وعدہ کیا۔ اس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
-5 دور درشن (نئی دہلی) کے نیشنل چینل کے تحت اس کے آڈی ٹوریم میں 25 ستمبر 2010کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام 2 اکتوبر کی نسبت سے مہاتما گاندھی کے بارے میں تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Non-violence and Relevance of Gandhian Principles.
یہ ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اِس میں ٹاپ کے پینلسٹ شامل تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں شرکت کی اور موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے شرکاء کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور ’’پرافٹ آف پیس‘‘ مطالعے کے لیے دی گئی جس کو لوگوں نے بہت شوق سے لیا۔
6 - نئی دہلی کے اسٹار ٹی وی اور این ڈی ٹی وی نیز کئی اخباروں نے 30 ستمبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو بابری مسجد کے حالیہ فیصلے کے بارے میں تھا۔ اِس میں بتایا گیا کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مسلمان اب معاملے کو حکومت کے حوالے کردیں، تاکہ باہمی امن قائم ہو ا ور تعمیری کاموں کے مواقع کھل جائیں۔
7 - بابری مسجد ورڈکٹ (30 ستمبر2010) کے بعد صدر اسلامی مرکز نے اِس موضوع پر ایک مضمون تیار کیا جو اِس شمارے میں موجود ہے۔ یہ مضمون نئی دہلی کے اردو اخبار ’’راشٹریہ سہارا‘‘ (8 اکتوبر2010) اور ٹائمس آف انڈیا ( 12 اکتوبر 2010 ) میں شائع ہوا۔ ہندو مسلم دونوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگوں میں اس کو بے حد پسند کیا گیا۔ اِس سے اندازہ ہوتاہے کہ الرسالہ کا دعوتی فکر اب وقت کی آواز بن چکا ہے۔ اِس سلسلے میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اپنے تاثرات بھیجے۔ یہاں صرف دو تاثر نقل کیے جارہے ہیں:
ک The article is very well written. Maulana’s solution alone will lead to peace between the two communities and put an end to this issue. (Swami Nikhilananda, New Delhi)
ک This is to convey my appreciation of your fine essay, 'Babri Masjid Revisited' in 'The Times of India' of 12 October 2010.(Vasumathi Krishnasami, Bangalore)
8 - امریکا کے لیے 2 اکتوبر 2010 کی صبح کو صدر اسلامی مرکز نے ایک خطاب کیا۔ اِس کو ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے امریکا کے مختلف شہروں میں سناگیا۔ یہ ایک گھنٹہ کا خطاب تھا جو انگریزی زبان میں ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Establishing contact with God.
خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے تک جاری رہا۔
9 - جیسا کہ معلوم ہے، سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت 2-3 اپریل 2010 کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں الرسالہ مشن کے ممبران کا ایک دعوتی اجتماع (Dawah Meet) ہوا تھا۔ اِس اجتماع سے غیر معمولی طور پر دعوتی اور تربیتی فائدہ ہوا۔ اِس میں بہت سے ایسے افراد تھے جو الرسالہ مشن کے تحت لمبی مدت سے عملاً دعوتی کام کررہے ہیں،مگر انھوں نے کبھی صاحبِ مشن (مولانا وحیدالدین خاں صاحب) سے براہِ راست ملاقات نہیں کی تھی۔ اس کے باعث ان کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات تھے۔ اجتماع میں شرکت کے بعد انھوںنے بتایا کہ مولانا کو دیکھ کر ہی ہمارے تمام سوالات ختم ہوگئے اور دعوت کی نئی اسپرٹ ہمارے اندر پیدا ہوگئی۔ اِس سلسلے میں مختلف ساتھیوں کے کچھ تاثرات مختصراً یہاں اردو اور انگریزی زبان میں نقل کئے جاتے ہیں:
ک دعوہ میٹ واقعی معنوں میں Angels Meet تھی۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام جس درد و کرب کے ساتھ الرسالہ مشن سے وابستہ یہ افراد پہنچا رہے ہیں، وہ صحابہ کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ دعوت الی اللہ کے میدان میں بیش بہا قربانیوں کے باوجود ان کو کوئی فخر نہیں، بلکہ احساس ذمہ داری سے ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اہلِ جنت کی یہی نشانی ہے — ایمان باللہ، عمل صالح اور تواضع۔ اِس مجلس میں کلمہ شہادت کو پہلی بار شعوری طور پرمولانا کے ساتھ تجدید کرنے کا تاریخی موقع نصیب ہوا۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ یہ منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے اور وجود لرز رہا تھا۔ مولانا نے جب روتے ہوئے کہا: ’’اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں، میری ہڈیاں پگھل چکی ہیں‘‘ تو میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ اِس بوڑھے آدمی نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتار کر ہم پر ڈال دیا ہے۔ یہ احساس مجھ پر اس قدر غالب رہا کہ میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ Dawah Meet نے مجھے وادی کشمیر میں میر سید علی ہمدانی کے دعوتی مشن کو دوبارہ زندہ کرکے اسے عالمی سطح تک پہنچانے کے عزائم دئے۔میٹنگ کے بعد جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تونئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک جاپانی خاتون (Yukie Matsuoka) سے دلچسپ انٹریکشن ہوا۔ میں نے خاتون کو قرآن کا انگریزی ترجمہ gift کیا۔ اس کو سینے سے لگا کر وہ خوشی سے جھوم اٹھی: “This is for me!” جیسے ایک ماں اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پاکر خوشی اور مسرت کااظہار کرتی ہے۔ میرے ساتھی اشک بار آنکھوں سے کہہ رہے تھے: ’’ہم مجرم ہیں، ہم مجرم ہیں‘‘ (حمید اللہ حمید، ایم اے، بیروہ، کشمیر)
ک دعوہ میٹ میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب نے اپنی خصوصی تقریر کے آغاز میں کہا کہ یہ دعوہ کانفرنس سادہ معنوں میں صرف الرسالہ ریڈرس کی کانفرنس نہیںہے، بلکہ وہ الرسالہ اینجلس (angels) کی کانفرنس ہے۔اِس تاریخی اجلاس نے بلا تشبیہ حجۃ الوداع کی یاد تازہ کردی۔ مولانا نے بتایا کہ انھوںنے ساٹھ سال پہلے ایک تنظیم جس کا نام ’’انصار اللہ‘‘ تھا، قائم کیاتھا۔ اِس ٹیم میں اس وقت صرف مولانا اکیلے تھے۔ آج ساٹھ سال کی مسلسل محنت اور دعاؤں کے نتیجے میں انتہائی سنجیدہ اور باشعور لوگوں کی ایک طاقت ور ٹیم وجود میں آچکی ہے۔ مولانا نے حاضرین کانفرنس سے یہ امید ظاہر کی کہ یہ ٹیم اخوان رسول کی مانند ادخالِ قرآن جیسے عظیم ترین کام کو بخوبی طورپرانجام دے گی۔مولانا نے مزید کہا کہ اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں، ساٹھ سال کی مسلسل محنت کے بعد میری ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میں جلد ہی اپنے رب کے پاس چلا جاؤں، لیکن آپ لوگوں کو آخری سانس تک اپنے آپ کو اس مشن سے وابستہ رکھنا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اِس سچے مشن کو پانا سچ مچ خدائی مدد ہے۔ یہی وہ مشن ہے جس کی مدد کا خدا نے وعدہ کیا ہے۔ ٹیم کے ہر ممبر کے چہرے پر روحانیت اور سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ بیش تر حاضرین اس موقع پر اپنے آنسو روک نہیں پارہے تھے۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی روحانی احساس گزرا۔میں نے 11 جنوری 2006 کو عرفات کے میدان میں خدا کے سامنے حاضری دی تھی۔ وہی ربانی کیفیت ہمیں آج یہاں محسوس ہورہی تھی۔ صاحب مشن کے ساتھ ہم ایک لامحدود روحانی دریا میں نہا رہے تھے ، ایسا محسوس ہورہا تھا،جیسے ہم فرشتوں کی صحبت میں بیٹھے ہوئے ہوں، جیسے ہم خداوند ذوالجلال کی ابدی رحمتوں کے سائے میں آگئے ہوں۔(ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
ک دعوہ میٹ ایک عجیب اجتماع تھا۔ میںنے بہت سے مسلم اور غیر مسلم اجتماع میں شرکت کی ہے۔ مگرمذکورہ اجتماع کاپورا ماحول اور وہ کیفیتیں جو شرکاء پر طاری تھیں، اس کو میری آنکھوں نے نہ کبھی دیکھا اور نہ میرے جیسے انسان کے لیے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہے۔ یہ واحد اجتماع تھا جس میں ہر طرف میںنے صرف اللہ کی عظمت کا چرچا سنا، اللہ کی عظمت کے سوا دوسری کسی عظمت سے یہ اجتماع مکمل طورپر خالی تھا۔ یہ اجتماع غیر معمولی طورپر اثر انگیز تھا۔ سارے لوگ تڑپ رہے تھے اور رورہے تھے، اس فکر میں کہ کیسے تمام انسانوں تک خدا کا کلام (قرآن) پہنچادیاجائے۔ خود صدر اسلامی مرکز کا حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے، جسم کانپ رہا تھا، اس احساس میں کہ ’’ہم سب سے بڑے ظالم ہیں، کیوں کہ ہم نے انسانوں سے ان کی جنت چھین رکھی ہے‘‘۔ اس اجتماع میں جن چیزوں نے مجھے ششدر کردیا، اس میں ایک دہلی سی پی ایس ٹیم کی تواضع (modesty) تھی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ثانی اثنین خاں، مولانا محمد ذکوان ندوی، نغمہ صدیقی، استتھی ملہوترا، رجت ملہوترا، نودیپ کپور، وغیرہ ایسے انسان ہیں جنھوںنے اپنی انا کو کچل دیاہے۔ میری زندگی میں یہ پہلا اجتماع تھا جس میں چیئر کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، جس میں خود منتظمین کے بڑے اور اہم افراد زمین پر اور سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ خود مولانا صاحب راؤنڈ میز کی ایک کامن چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے دعوتی تجربات سن رہے تھے، اس طرح جیسے لوگ اُن کو گہرا علم دے رہے ہوں۔ کوئی شخص جس نے مولانا کو کبھی نہ دیکھا ہو، وہ یقینا اس روز مولانا کو نہیں پہچان سکتاتھا۔یہ بلا شبہہ الرسالہ اور مولانا کی تربیت کا ثمرہ ہے جس نے سی پی ایس دہلی کی ٹیم کو متواضع (modest) با مقصد اور بے غرض بنا دیا ہے۔ایک دوسرا واقعہ جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، وہ اِس اجتماع میں علماء کی موجودگی تھی۔ میرے دماغ میں یہ بات تھی کہ الرسالہ زیادہ تر جدید حلقہ میں پڑھا جاتا ہے، علماء الرسالہ نہیں پڑھتے۔ مگر کانفرنس کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ یہاںبڑی تعداد میں علماء موجود تھے۔ یہ سارے علماء نہایت سنجیدہ اور با صلاحیت ہیں۔ میں نے سارے علماء سے ملاقات کی۔ میںنے پایا کہ سارے علماء الرسالہ کے گہرے قاری ہیں اور الرسالہ مشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ ان لوگوں نے یہ اعتراف کیا کہ مولانا نے قرآن اور سیرت کے ایسے پہلوؤں کو کھولا ہے جن کو ہمارے علم کے مطابق، مولانا سے پہلے کسی عالم نے نہیں کھولا۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا بے آمیز تصور،خدا کی اعلیٰ شعوری معرفت، دنیا کے دار الانسان یا دار الدعوہ ہونے کی حیثیت، وغیرہ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر علماء نوجوان ہیں جو علمی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی سنجیدہ ہیں۔ میںنے اس سے پہلے کسی عالم کو نہیں پایا جو اتنا سنجیدہ ہو، جو مستقل دعوتی فکرمیں جیتا ہو اور بالکل کھلے طورپر ڈسکشن کا مزاج رکھتا ہو۔ الرسالہ مشن سے وابستہ یہ علماء اِس اعتبار سے ایک استثناء (exception) تھے۔ یہ یقینا خدا کی خصوصی نصرت ہے۔ یہ علماء ملک کے بڑے بڑے مدرسوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ندوی، قاسمی، سلفی، عمری ہر طبقے کے علماء موجود تھے۔ (حافظ ابو الحکم محمد دانیال ،بی ایس سی، پٹنہ،بہار)۔
ک دعوہ میٹ میں شرکت کا دن میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔ اِس میں مجھے دعوت کے موضوع پر مولانا کی ایمان افروز تقریریں سننے کا موقع ملا۔ اس میں لانچ کئے گئے ’القرآن مِشن‘ کے مقاصد اور اِدخالِ کلمہ کے مفہوم پر مولانا نے اظہارِ خیال کیا۔ ان کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ دعوت الی اللہ کا درد ان کے رگ وریشے میں سیرایت کرگیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اسلام کی جدید تاریخ میں مولانا کا مقام ایک استثنائی مقام ہے۔ مولانا نے جس طرح دعوت الی اللہ کو اپنا supreme concern بنایا ہے، وہ بلا تشبیہ اسی پیغمبرانہ بصیرت کا حصہ ہے جس کا اظہار ہمیں حجۃ الوداع کے موقع پر ملتا ہے۔ جب پیغمبر اسلام نے میدان عرفات میں اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوے پوچھا تھا کہ کیا تم لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میںنے خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیا ، تو سب نے بیک زبان کہا تھا کہ ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے دور کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع جو رسولِ خدا کی زندگی کا آخری خطبہ تھا، اس کے اندر چھپا ہوا دعوت کا پیغام اپنی بے آمیز صورت میں ہمارے اہلِ علم ودانش پر آشکارا نہ ہوسکا۔ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مولانا وحید الدین خاں کے ذریعے اب اس پیغام اور اس حکمتِ ربانی کو دنیا پر افشا کردیا ہے۔ (احمد شناس، جموں وکشمیر)
ک I can say that the Dawah Meet-2010 was the third turning point in my life. The first, when I discovered the Truth sometime in 1993–1994 and the second, when I met Maulana Wahiduddin Khan for first time in Delhi in 1994.The meet gave me, for the first time, the clear and unambiguous mission of true Dawah. Now I have a very clear mission to spread the word of God to one and all without any exception. Maulana used the word of seven billion roohen (souls) as the target of our mission. This meet provided me again the first time the opportunity to meet so many daees at one place. The effect of interaction and exchange of ideas was overwhelming. The lectures by Maulana clarified many doubts related to a daee’s position as regards the mad’u. The importance of talif-e-qalb was explained beyond any doubt. The urgency of purpose and nearness of the Day of Judgment was more than explained by Maulana Sb's heart-touching lectures. Now the only purpose of our lives, till the end, will be to communicate the word of God to all the souls inhabiting the earth, Insha Allah. (Sajid Anwar Roorki, UP)
ک I consider myself extremely lucky in getting a chance to attend the Dawah Meet 2010. Listening to the Maulana Wahiduddin Khan and so many “Al-Risala angel” (and interacting with some of them)was a hugely enriching experience. Yet again, the importance of discovering Allah and sharing the discovery with people around was driven home to us. We got to learn that dawah is not just about delivering the Quran and other material to the madu, it's about having true love and deep sympathy in your heart for them as well as praying for them. Any negligence in this regard would be at the cost of Jannah, the ultimate cost indeed. And the price to pay for meaningful dawah work is to change one’s lifestyle, behavior and character. Another very important thing we learnt was that one has to discover the starting point to do dawah work and start with what is possible. The dai can't afford to wait any longer as the alarm of qayamat has already been sounded.Taleef-e-qalb of the madu is of the utmost importance. There is no limit to it. One has to be prepared to go to great lengths to please the madu and make a place in their heart. The da‘is work may appear difficult but it can be made easy with dua and tawakkul.When the Maulana told us that he hoped we were the Ikhwan-e-Rasul (brothers of the messenger) mentioned in a hadith we couldn’t but feel thrilled and exhiliarated. (Anwar Imam Ghazali, Patna, Bihar)
ک As far my impressions of Da‘wah meet 2010 is concerned, I would say I fail to find words for it. Ever since I was first introduced to Maulana’s literature in 1976, it has always served as a great source of inspiration and motivation. His writing awakened me to the greater purpose of my own life: Da‘wah work. It has become my primary mission and one that I wish to continue to work for tirelessly for the rest of my life. However, no matter how much self-motivation we may have, we all need a battery charge now and then. The Da‘wah Meet provided this recharge for me. Listening to Maulana’s words, and also meeting and hearing from so many others who are engaged in this work in India and around the world, provided me with new motivation and reinvigorated the Da‘wah. The Prophet mentioned that towards the end of time, there will emerge a group known as the “Ikhwan-e-Rasul” that will do this work. It is my sincere hope that those engaged in this work under Maulana’s leadership can become eligible to be part of that group that the Prophet spoke of so highly. (Khaja Kaleemuddin, USA)
واپس اوپر جائیں