معرفت — مقصد ِ انسانیت
علماء نے معرفت کو واجبِ اوّل بتایا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ معرفت مقصدِ انسانیت ہے۔ موت سے پہلے کی زندگی آغازِ معرفت کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی تکمیلِ معرفت کی زندگی۔ موجودہ دنیا میں ایک انسان ابتدائی دریافت کے درجے میں خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ آخرت کی دنیا میں وہ کامل دریافت کے درجے میں خدا کی معرفت حاصل کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفتِ خداوندی ایک فکری عمل (intellectual process) ہے۔ یہ فکری عمل موجودہ دنیا میں شروع ہوتا ہے اور پھر وہ ابدی طورپر آخرت کی دنیا میں جاری رہے گا۔
قرآن کی سورہ نمبر 51 میں بتایا گیا ہے کہ جن اور انس کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے (الذاریات: 56 )۔ اِس آیت میں عبادت سے مراد معرفتِ الٰہی ہے۔ آیت کی یہ تفسیر عبداللہ بن عباس اور علی بن ابی طالب کے قول پر مبنی ہے۔یہی جن وانس کا مقصد تخلیق ہے۔ اِس مقصد کا تقاضا تھا کہ جن وانس کو وہ صلاحیت کمال درجے میں عطا کی جائے جس کے ذریعے وہ اعلیٰ درجے میں معرفتِ خداوندی کو حاصل کرسکیں۔ چناں چہ جن وانس کو ایک طرف وہ اعلیٰ دماغی صلاحیت دی گئی جو اِس عظیم مقصد کے لیے مطلوب تھی۔ اور اِسی کے ساتھ خارجی اعتبار سے، اُن کو وہ وسائل دئے گئے جو اِس مقصد کی تکمیل میں مدد گار بن سکیں۔
معرفت کے لفظی معنی ہیں — اِدراک (realisation) ، یعنی کسی چیز کو کامل درجے میں پہچاننا۔معرفت کو دوسرے لفظوں میں شعوری دریافت (intellectual discovery) کہہ سکتے ہیں۔ یہ دریافت کسی وقتی واقفیت کا نام نہیں ہے، یہ ایک لمبے سفر کا نام ہے۔ انسان کو جس خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے، اس کی صفت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ اگر تمام درخت قلم بنا دئے جائیں اور تمام موجود سمندروں اور مزید سات سمندروں کو روشنائی (ink) بنا دیا جائے اور پھر خدا کے کلمات کو لکھنا شروع کیا جائے تو تمام سمندر ختم ہوجائیں گے، لیکن خدا کے کلمات ختم نہ ہوں گے (لقمان: 27 )۔ جس خدا کے کمالات اتنے زیادہ ہوں، اس کی دریافت ایک وقتی واقفیت نہیں ہوسکتی، یہ بلا شبہہ دریافت کا ایک لامتناہی سفر ہے جس کا آغاز تو متعین ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اختتام متعین نہیں۔
خدا کی معرفت کا یہ مطلب نہیں کہ مراقبہ (meditation) کرکے تصور کی دنیا میں ذاتِ الٰہی کی جھلکیاں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ اِسی طرح وجد (ecstasy) بھی معرفت کے ہم معنیٰ نہیں۔ معرفت ایک اعلیٰ شعوری حالت ہے جو تخلیقاتِ الٰہیہ میں غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کے مطابق، معرفت کی تعریف (definition) یہ ہے کہ ایک بندہ، رب العالمین کو اُن عظمتوں کے ساتھ دریافت کرے کہ وہی اُس کے لیے اس کی ساری محبتوں کا مرکز بن جائے (البقرۃ: 165 )، اور اس کی خشیت کے جذبات تمام تر اُسی کے ساتھ وابستہ ہو جائیں (التوبۃ:18 )۔
محبت اور خشیت دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک بندہ جب تدبر اور تفکر کے ذریعے خالقِ کائنات کو اس کی صفاتِ کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کے دل میں بے پناہ حدتک اپنے رب کا اعتراف پیدا ہوجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ جب وہ اِس حقیقت کو دریافت کرتا ہے کہ دینے والا خدا ہے، اُس کے سوا کوئی اور دینے والا نہیں تو اس کے دل کی گہرائیوں میں یہ اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر میں خدا کی رحمتوں سے محروم ہوجاؤں تو زمین وآسمان میں میرا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسنِ تقویم (التین:4 ) کے ساتھ پیدا کیا۔ اس کو وہ تمام دماغی صلاحیت عطا کردی جس کے ذریعے وہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرسکے۔ دوسری طرف، خارجی دنیا (nature) کے اندر معرفت کے تمام اَجزا مخفی صورت میں رکھ دئے۔ اب انسان کا یہ کام ہے کہ وہ معرفت کے اِن چھپے ہوئے اجزا کو دریافت کرے اور اعلیٰ معرفت کا تجربہ کرکے اپنے اندر ربانی شخصیت (divine personality)بنائے۔
معرفت کا یہ عمل ایک مسلسل دریافت کا عمل تھا۔ اِس کے لیے ضرورت تھی کہ ایک پوری تہذیب (civilization) وجود میں آئے، جو معرفت کے چھپے ہوئے حقائق کو انسان کے لیے کھول دے۔ آج تہذیب کے نام سے ہم جس تاریخی واقعے کو جانتے ہیں، وہ اگرچہ مادّی تہذیب (material civilization) ہے، لیکن اپنی حقیقی نوعیت کے لحاظ سے یہ دراصل ربانی تہذیب (divine civilization) ہے۔ موجودہ تہذیب دراصل اُس واقعے کا ظہور ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر 41 میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتّی یتبیّن لہم أنہ الحق (حٰمٓ السجدۃ: 53 )
معرفت کا یہ سفر بہت پہلے جنات کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی اور اس کے انتظام (management) کے لیے فرشتوں کو پیدا کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس مخلوق کو پیدا کیا جس کو جن کہاجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، جن کی تخلیق آگ سے ہوئی (الحجر: 27 ) جن کوآگ سے پیدا کرنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جن کی سرگرمیوں کا دائرہ سیاروںکی دنیا سے لے کر ستاروں کی دنیا تک پھیلا ہواہے۔ اِس کے مقابلے میں، بعد کو انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی (الأعراف: 21 )۔ اِس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ انسان کی سرگرمیوں کا مرکزبنیادی طورپر سیارۂ زمین (planet earth)ہوگا۔
معرفتِ خداوندی کا حصول دراصل تخلیق میں چھپے ہوئے ربانی اسرار کی دریافت پر مبنی تھا۔ یہی دریافت وہ چیز ہے جو انسان کو خالق کائنات کا تعارف کراتی ہے۔ اِس سے بندہ اور خدا کے درمیان وہ اعلیٰ شعوری تعلق قائم ہوتا ہے جس کو معرفت کہاگیا ہے۔ دریافت کا یہی تاریخی عمل ہے جس کو ہم نے تہذیب (civilization) کا نام دیاہے۔
اِس تہذیبِ معرفت کو وجود میں لانے کا کام سب سے پہلے جن کے سپرد کیا گیا۔ مگر جیسا کی روایات میں آیا ہے، جن کے گروہوں نے آپس میں لڑائیاں کیں اور بہت زیادہ فساد برپا کیا۔ وہ تہذیبِ معرفت کا عمل شروع کرنے میں ناکام رہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معزول کردیا۔ اور ان کی جگہ انسان کو زمین پر بسایا گیا، تاکہ وہ تہذیبِ معرفت کو وجود میں لانے کا مطلوب عمل شروع کرسکیں۔
تہذیبِ معرفت کو عمل میں لانا مکمل طورپر علم و آگہی کا عمل ہے۔ وہ شعور کی سطح (intellectual level) پر انجام پاتا ہے۔ تمام سمندروں کو سیاہی بنانا اور تمام درختوں کو قلم بنانا، جس کا ذکر قرآن میں کیاگیا ہے، اس میں غالباً اِسی کی طرف اشارہ ہے۔ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ ’’مطالعہ اور کتابت‘‘ کے ذریعہ اِس عمل کو شروع کرے۔ پیغمبروں نے انسان کو اِس عمل کی طرف متوجہ کیا۔ اِس کا ذکر غالباً قرآن کی اُس آیت میں موجود ہے جس میں تعلیم بالقلم کو رب کی معرفت کا ذریعہ بتایا گیا ہے (القلم: 4)۔ مگر انسانیت کا قافلہ پیغمبروں کی ہدایت پر چلنے میں ناکام رہا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی امت برپا کی۔ اِس امت کا اولین کام یہ تھا کہ وہ تہذیبِ معرفت کے اِس مطلوب عمل کو جاری کرے۔ امت کی طویل تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی بہت جلد سیاسی اقتدار کے راستے پر چل پڑی۔ امت کے افراد نے مسلم ایمپائر قائم کیا، لیکن وہ ربانی تہذیب کا مطلوب ایمپائر قائم نہ کرسکے۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم صوفیا نے معرفت کے حصول کا یہ کام انجام دیا، لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔ صوفیا نے جو کام کیا، وہ تصوف کا کام تھا، اورتصوف اور معرفت دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ تصوف ایک مبنی بر قلب (heart-based) عمل ہے، جب کہ معرفت ایک مبنی بر ذہن (mind-based) عمل ہے۔ صوفیا کی یہ اجتہادی غلطی تھی کہ انھوںنے قلب کو معرفت کا خزانہ سمجھ لیا اور وہ قلب پر مفروضہ محنت کرتے رہے، جب کہ قلب صرف گردشِ خون کا مرکز ہے، نہ کہ معرفت کا مرکز۔
اِس اجتہادی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفیا کا گروہ خدا کی شعوری معرفت کی دریافت سے محروم رہا۔ انھوں نے بطور خود جس وجد یا دیدارِ الٰہی کو دریافت کیا، وہ صرف ایک واہمہ تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی دریافت۔ بدقسمتی سے بعد کے زمانے کے اکثر مسلم علماء بھی اِسی صوفیانہ نظریے سے متاثر ہوگئے۔وہ بھی متصوفانہ اشغال کو معرفت کا ذریعہ سمجھتے رہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفیا اور علماء دونوں حقیقی معرفت سے بے خبر رہے۔ اِ س کا ثبوت یہ ہے کہ پوری مسلم تاریخ میں غالباً کوئی عالم یا صوفی معرفت کے موضوع پر کوئی قابلِ ذکر کتاب تیار نہ کرسکا۔ جن کتابوں کو لوگ معرفت کی کتاب سمجھتے ہیں، وہ حقیقۃً تصوف کی کتابیں ہیں، نہ کہ معرفت کی کتابیں۔
معرفت کے بنیادی اصول خدا کی کتاب میں دئے گئے تھے اور اس کے تائیدی شواہد (supporting evidences) فطرت(nature) میں رکھ دئے گئے تھے۔ اب یہ انسان کا کام تھا کہ وہ فطرت کے شواہد کو دریافت کرے اور اُس کو لوگوں کے لیے ایک معلوم واقعہ بنائے۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اہلِ ایمان (believers) اِس کام کو انجام نہ دے سکے۔ پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ اُن کے ساتھ کوئی مضبوط ٹیم نہ بن سکی جو اِس کام کو انجام دیتی۔ پیغمبر ِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن پھیلا اور ایک پوری امت آپ کے مشن سے وابستہ ہوگئی، لیکن یہاں بھی ایسا ہوا کہ امتِ محمدی بہت جلد سیاسی اقتدار میں مشغول ہوگئی۔ پہلے انھوں نے اپنا سیاسی ایمپائر بنایا اور جب یہ ایمپائر ٹوٹا تو وہ جہاد کے نام پر اُس کو دوبارہ حاصل کرنے میں لگ گئے۔ اِس طرح لمبی تاریخ گزر گئی اور اہلِ ایمان اِس ضروری کام کو انجام نہ دے سکے۔
آیاتِ معرفت کو کھولنے کے کام کے لیے اہلِ ایمان فرسٹ آپشن(first option) کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے یہ کام مطلوب طورپر انجام نہیں دیا تو اس کے بعد غیر اہلِ ایمان (non-believers) کو سکنڈ آپشن (second option) کے طورپر منتخب کیا گیا۔ یہ سکنڈ آپشن مغربی قوموں کا تھا۔غالباً اِنھیں قوموں کو قرآن میں یاجوج اور ماجوج (الأنبیاء: 96 ) کہاگہا ہے۔ اِس معاملے میں غیر اہلِ ایمان کو بطور سکنڈ آپشن منتخب کرنے کا اشارہ غالباً صحیح البخاری کی ایک روایت میں ملتا ہے۔ اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: إنّ اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والیسر، باب إن اللہ یؤیّد الدین بالرجل الفاجر) یعنی بے شک، اللہ اِس دین کی تائید فاجر انسان سے کرے گا۔
ربانی معرفت: ایک مطالعہ
ایک حدیثِ قدسی اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: کنتُ کنزاً، فأحببتُ أن أُعرف، فخلقتُ خلقاً، فعرّفتہم بی، فعرفونی (میں ایک خزانہ تھا بغیر پہچانا ہوا، پھر میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پھر میں نے ایک مخلوق کو پیدا کیا، پھر اُن کو میں نے اپنی پہچان کرائی، تو انھوں نے مجھے پہچان لیا)۔
اِس روایت کو تقی الدین احمد بن تیمیہ (وفات: 728 ھ) اور اُن کے ہم فکر علماء نے ضعیف یا بے اصل بتایا ہے۔ لیکن کچھ دوسرے علماء کا کہناہے کہ اس کو معنی کے اعتبار سے بے اصل نہیں کہا جاسکتا۔ علی بن محمد نور الدین الملا القاری (وفات: 1014 ھ) نے لکھا ہے: معناہ صحیح مستفاد من قولہ تعالیٰ (وما خلقت الجنّ والإنس إلا لیعبدون) أی لیعرفونی، کما فسّرہ ابن عباس رضی اللہ عنہا( کشف الخفاء، 2/1011) یعنی اِس روایت کا مفہوم درست ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اِس قول سے مستفاد ہے کہ ’’میں نے پیدا کیا جن اور انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے‘‘۔ یعنی وہ میری معرفت حاصل کریں، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت کی تفسیر میں کہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی معرفت کسی انسان کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ بلا شبہہ معرفت کا حصول ہی کسی انسان کا سب سے بڑا گول (goal) ہے۔ اِس کے سوا، کوئی بھی دوسری چیز اتنی بڑی نہیں کہ وہ انسان کا گول بن سکے۔ دوسری مطلوب چیزیں اِس معرفت کے تقاضے کے طورپر پیدا ہوتی ہیں۔ معرفت اصل ہے، اور بقیہ تمام چیزیں اِسی اصل کا نتیجہ۔
معرفت کا یہ سفرانسانِ اول کی پیدائش کے ساتھ شروع ہوا، اور وہ ابدتک مسلسل جاری رہے گا۔ اِس سفر کا آغاز ہے، لیکن اِس کی کوئی انتہا نہیں۔ آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ آدم کو پیغمبر کا درجہ دے کر، اللہ تعالیٰ نے آدم کو معرفت کا علم بھی دے دیا۔ اِس کے بعد یہ علم نسل درنسل انسانیت کے درمیان جاری رہا۔
خدا کے تمام پیغمبر اِسی کام میں انسان کی رہنمائی کے لیے آئے۔ پیغمبر گویا کہ معرفت ِ الٰہی کے مستند گائڈ(authentic guide) کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک پیغمبر آتے رہے، مگر بہت کم افراد ایسے تھے جو پیغمبر سے ہدایت لیں یا پیغمبر کا ساتھ دیں۔ لوگ نہ دکھائی دینے والے خدا (unseen god) کی معرفت حاصل نہیں کرپاتے تھے، اِس لیے وہ دکھائی دینے والے خدا (seen god) کو پوجتے رہے۔ انسان کی یہی کمزوری ہے جس نے قدیم زمانے میں فطرت پرستی (nature worship) کا کلچر پیدا کیا۔ یہ معرفت کا پہلا دور تھا جو حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم تک جاری رہا۔ اِس قدیم دور کی طرف اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: ربّ إنّہنّ أضللن کثیراً (ابراہیم: 36 )۔
دوسرا مرحلہ
معرفت کا دوسرا مرحلہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام (وفات:1985 ق م) سے شروع ہوتا ہے۔ وہ قدیم عراق کے شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ اللہ کی ہدایت کے مطابق، ان کے ذریعے ایک نیا منصوبہ شروع کیا گیا۔ وہ منصوبہ تھا، ایسی نسل تیار کرنا جو ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک ہو۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے عرب کے صحرا میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسایا۔ یہاں صحرائی ماحول میں تقریباً ڈھائی ہزار سال تک توالد وتناسل کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ نسل تیار ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہاجاتا ہے۔ اِسی نسل میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب 570 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ اِس واقعے کا اشارہ قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس (آل عمران:110 )
ایک مستشرق پروفیسر ڈی ایس مارگولیتھ (وفات: 1940 ) نے اِس اسماعیلی نسل کو ہیروؤں کی نسل (a nation of heroes) کہاہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسماعیل کے درمیان کام کرکے ان کو تیار کیا اور ان کے ذریعے ایک بڑی ٹیم بنائی۔ یہی وہ ٹیم ہے جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ اِس ٹیم نے ساتویں صدی عیسوی میں اگلے دورِ معرفت کا آغاز کیا۔
تیسرا مرحلہ
اصحابِ رسول نے غیر معمولی قربانیوں کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ اِس انقلاب کو ایک لفظ میں، دورِ شرک کا خاتمہ اور دورِ توحید کا آغاز کہاجاسکتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف عرب میں، بلکہ عرب کے باہر دنیا کے دو بڑے ایمپائر، ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کا خاتمہ کیا جو انسانی فکر کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ انھوںنے فطرت (nature) کو معبودیت کے مقام سے ہٹایا اور اکتشافِ فطرت کا دروازہ کھولا، جس کے نتیجے میں آخر کار جدید سائنسی دور ظہور میں آیا۔
اصحابِ رسول کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے وحیِ الٰہی (قرآن) کو ایک محفوظ کلام کی حیثیت دے دی جو کہ اِس سے پہلے کبھی کسی آسمانی کتاب کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ امتِ محمدی کا یہ ایک اہم کارنامہ ہے کہ اس نے ایک ہزار سال تک قرآن کو مستند ترین اندازمیں محفوظ رکھا اور اس کو انیسویں صدی عیسوی تک پہنچا دیا۔ انیسویں صدی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوگیا اور یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کے نسخے کامل صحت کے ساتھ بڑی تعداد میں چھاپ کر ساری دنیا میں پھیلا دئے جائیں۔ اب اشاعتِ قرآن کا یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر ہوچکا ہے کہ اُس میں اب نہ ضیاع کا اندیشہ ہے اور نہ کسی قسم کی تبدیلی کا اندیشہ۔
چوتھا مرحلہ
تہذیبِ معرفت کا چوتھا مرحلہ دراصل تیسرے مرحلے میں پیش آنے والے انقلابی پراسس کی تکمیل (culmination) ہے۔ یہ تکمیل مغربی قوموں کے ذریعے انجام پائی، جن کو قرآن میں یاجوج اور ماجوج (الأنبیاء: 96 ) کہاگیا ہے۔ سفرِ معرفت کے تیسرے مرحلے کے ہیرو اہلِ ایمان (believers) تھے۔ معرفت کے چوتھے مرحلے کو انجام دینے کا کام غیر اہلِ ایمان (non-believers) سے لیاگیا۔ اِس واقعے کی طرف اشارہ ایک حدیثِ رسول میں موجود ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: إنّ اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب إنّ اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
اِس حدیثِ رسول میں ’’فاجر‘‘ سے مراد غیر اہلِ ایمان (non-believers) ہیں۔ غالباً یہی غیر اہلِ ایمان تھے جن کو قرآن اور حدیث میں یاجوج اور ماجوج کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ غیر اہلِ ایمان وہ مغربی قومیں ہیں جو یورپ کی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد ابھریں۔ مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کروسیڈس (Crusades) کی طویل جنگ میں مغربی قوموں کی ہار کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ کروسیڈس کی طویل جنگ چودھویں صدی عیسوی میں ختم ہوئی۔ اور اِسی چودھویں صدی میں مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز ہوا۔
کروسیڈس کی طویل جنگ میں ایک طرف مسلم حکومتیں تھیں اور دوسری طرف تقریباً پورا مسیحی یورپ اِس طویل جنگ میں مسیحی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی۔ یہ شکست اُن کے لیے ایک عظیم شاک (super shock) کے ہم معنی تھی۔ اِس کے بعد مغربی قوموں میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ اُنھیں اپنے عمل کا میدان مسلّح کروسیڈس (armed crusades) کے بجائے، اسپریچول کروسیڈس (spiritual crusades) کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ یہ اسپریچول کروسیڈس دھیرے دھیرے فطرت (nature) کی تسخیر تک پہنچ گئی۔
اِس کے نتیجے میں مسیحی قوموں کو سائنس اور صنعت کے میدان میں غیر معمولی طاقت حاصل ہوئی۔ وہ دوبارہ نئی طاقت کے ساتھ نہ صرف مسلم، بلکہ پوری دنیا پر چھاگئے — اکتشافِ معرفت کے پراسس کا آغاز اہلِ ایمان نے کیا تھا، اِس آغاز میں غیر اہلِ ایمان نے تائیدی رول ادا کیا اور اس کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچا دیا۔
پچھلے چند سوسالوں میں مغربی محققین اور مغربی سائنس دانوں نے جو کام انجام دیا ہے، وہ سائنس برائے سائنس کے جذبے کے تحت انجام دیاگیا ہے۔ وہ اپنے آپ میں اور براہِ راست طورپر حق کی معرفت نہیں ہے۔ اِس کام کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے طالبینِ معرفت کے لیے بنیادی معلومات (data) فراہم کردیا ہے۔ اِن معلومات کو لے کر معرفت کی ایک پوری انسائکلو پیڈیا تیار کی جاسکتی ہے، جس کے ذریعے دینی حقائق انسان کے اپنے علمی مسلّمہ کی سطح پر مدلل ہوسکیں۔
موجودہ زمانے میں جو سائنسی دریافتیں ہوئی ہیں، وہ حقیقۃً تخلیقِ خداوندی میں چھپے ہوئے قوانین کی دریافتیں ہیں۔ اِن دریافتوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اسلامی عقائد کا نظام جو پہلے وحی والہام پر مبنی سمجھا جاتا تھا، اب وہ انسان کے خود اپنے علمی مسلّمہ کی بنیاد پر قائم ہوگیا ہے۔
چوتھے دور میں معرفت کا جو سفر طے ہوا، اس کے کئی پہلو تھے — اِکتشافِ فطرت کے ذریعے آفاق وانفس کی نشانیوں کی دریافت، کمیونکیشن کے ذرائع کا ظہور میں آنا، لوگوں میں تجسس کی اسپرٹ (spirit of enquiry) کا پیدا ہونا، عالمی انٹریکشن کا وہ عمل جس کو گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے، مذہبی جبر (religious persecution) کا ختم ہونا اور ساری دنیا میں مذہبی آزادی(religious freedom) کا دور شروع ہونا، تاریخی تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوجانا کہ دوسری تمام الہامی کتابیں غیر محفوظ اور غیر مستند ہوچکی ہیں، محفوظ اور مستند کتاب کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے، ساری دنیا میں مذہبی مفاہمت (religious understanding) کی فضا کا قائم ہونا،قرآن اور اسلام کا بڑے پیمانے پر نیوز(news)میں آنا، پولٹکل ایمپائر نہ ہوتے ہوئے، زیادہ بڑے پیمانے پر فکری ایمپائر (ideological empire) کا قیام ممکن ہوجانا، وغیرہ۔
پانچواں دور
معرفت کا پانچواں دور وہ ہے جب کہ پیدا شدہ انقلابی مواقع کو استعمال کرکے ایک طرف اعلیٰ درجۂ معرفت حاصل کیا جائے اور دوسری طرف اللہ کا پیغام ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے۔ یہ کام قیامت سے پہلے آخری دورِ انسانیت میں انجام پائے گا۔ اِس دور کی پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لا یبقی علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الاسلام (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 6 ) یعنی زمین کے اوپر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا، مگر اللہ اُس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
آخری دور کا یہ واقعہ غالباً دو طریقے سے انجام پائے گا۔ ایک، یہ کہ کلمۂ اسلام یا کلامِ الٰہی (word of God) کے اندر اقتصادی مفاد(commercial interest) پیدا کیا جائے گا۔ لوگ عمومی طورپر خدا کی بات کو پھیلانے لگیں گے، حتی کہ اشاعتِ اسلام کے اِس عمل میںغیر مسلم بھی شریک ہوجائیںگے۔موجودہ زمانے میں یہ واقعہ بالفعل پیش آرہا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ظہور میں آنے کے بعد ساری دنیا میں مختلف صورتوں سے اسلام کے پیغام کی اشاعت ہورہی ہے۔ بڑے بڑے پبلشر اسلام کا لٹریچر چھاپ کر پھیلا رہے ہیں، اور ٹی وی کے بڑے بڑے ادارے اسلام کے پروگرام نشر کررہے ہیں۔ سیمناروں اور کانفرنسوں کی صورت میں پوری دنیا میں ہر جگہ بہت بڑے پیمانے پر اسلام کا چرچا ہورہا ہے، وغیرہ۔
کلمۂ اسلام کی اشاعت کا دوسرا ذریعہ امتِ محمدی ہے۔ امتِ محمدی کے افراد جدید معیار پر اشاعتِ اسلام کا کام انجام دیں گے۔ اِس دور میں امت کا ایک منتخب گروہ خصوصی طورپر اشاعتِ اسلام کے اِس عمل کی توفیق پائے گا۔ غالباً یہی وہ گروہ ہے جس کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) کا لفظ دیاگیا ہے۔
پانچویں دور میں اعلیٰ معرفت کے حصول کی طرف قرآن میں اشارہ موجود ہے۔ یہ اشارہ قرآن کی اِس آیت میں پایا جاتا ہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (حم السجدۃ: 53 ) یعنی آئندہ ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر بخوبی یہ امر واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں جدید سائنس کی اُن دریافتوں کی طرف اشارہ ہے جو خاص طور پر انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سامنے آئی ہیں۔ یہ دریافتیں فطرت میں چھپے ہوئے قوانینِ الٰہی کی دریافت ہیں۔ اِن دریافتوں نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ انسان کے خود اپنے علمی مسلمہ (scientific criterion) پر خدائی سچائی کو مدلل کیا جاسکے۔
چھٹا دور
معرفت الٰہی کا چھٹا دور آخرت کا دور ہے۔خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دور ہیں — قیامت سے پہلے کا دور، اور قیامت کے بعدکا دور۔ قیامت سے پہلے کا دور عارضی دورِ حیات ہے۔ اور قیامت کے بعد کا دورِ حیات ابدی دورِ حیات۔ قیامت سے پہلے کے دور میں انسانوں کا انتخاب کیاجارہا ہے۔ قیامت کے بعد کے دور میں تمام انسانوں کو اُن کے پچھلے ریکارڈ کے مطابق، آخرت کی دنیا میں آباد کیا جائے گا۔
قیامت سے پہلے کے دور میں معرفت کے حصول کا جو پراسس شروع ہوا، اس کی تکمیل آخرت کے دور میں انجام پائے گی۔ موجودہ دنیا میں معرفت کا حصول صرف زمان ومکان (space and time) کے اندر محدود طورپر انجام پاسکتا تھا۔ لیکن آخرت کی دنیا میں معرفت کا سفر زمان ومکان سے ماورا (beyond space and time) لامحدود طورپر انجام پائے گا۔ موجودہ دنیا میں یہ عمل صرف غیرمعیاری (imperfect) درجے میں انجام پاسکتا تھا، آخرت کی دنیا میں یہ عمل معیاری (perfect) طورپر تکمیل کے درجے میں انجام پائے گا۔
معرفت کا حصول انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اِس سفرِ معرفت کا آغاز موجودہ دنیا میں ہوا، اِس سفرِ معرفت کی تکمیل آخرت میں جنت کی دنیا میں انجام پائے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کو ہر چیز بقدر ضرورت دی گئی تھی (ابراہیم: 34 )، آخرت کی جنت میں انسان کو تمام چیزیں بقدر اشتہاء دی جائیں گی (حم السجدۃ: 31 )۔
اِس جنت کی وسعت کو بتاتے ہوئے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وسارعوا إلی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السموات والأرض، أعدّت للمتقین (آل عمران: 133 ) یعنی دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے۔ (30 جنوری 2010 )
واپس اوپر جائیں