سوال وجواب
سوال
آپ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ:’’حدیث کی کتابوں میں ابواب الفتن کے تحت بیان کردہ روایات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگی طورپر فرمادیا تھا کہ تم اپنے حکمرانوں کے خلاف خروج (بغاوت) نہ کرنا۔ تم ہر حال میں صبر کے اصول پر قائم رہنا۔ تم کسی بھی عذر کو لے کر حکمرانوں سے لڑائی نہ کرنا، بلکہ اپنی بکری اور اونٹ میں مشغول ہوکر اپنے ضروری دینی فرائض کو ادا کرتے رہنا‘‘ (فکر اسلامی، صفحہ 153 ) لیکن بہت سی روایات میں آپ کے اس نقطہ نظر کے برعکس ہدایات ملتی ہیں۔ مثال کے طورپر صحیح ابن حبان میں ہمیں یہ حدیث پڑھنے کو ملتی ہے:
1۔ عن عبد اللہ بن خبّاب عن أبیہ قال کنّا قعوداً علی باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فخرج علینا، قال اسمعوا، قلنا قد سمعنا، قال اسمعوا، قلنا قد سمعنا، قال اسمعوا، قلنا قد سمعنا، قال إنّہ سیکونُ بعدی أمراء فلا تصدّقوہم بکذبہم و لا تعینوہم علی ظلمہم، فإنّہ مَن صَدَّقہم بکذبہم وأعانہم علی ظلمہم، لم یرد علیّ الحوض (صحیح ابن حِبّان ۔ حدیث نمبر 284 ، صفحہ 193 )
’’حضرت عبد اللہ بن خبا ب اپنے والد حضرت خباب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہاکہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ہمارے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا سنو، ہم نے عرض کیا یقینا ہم نے سُنا۔ آپ نے فرمایا سنو، ہم نے کہا یقینا ہم نے سُنا۔ آپ نے فرمایا، سنو، ہم نے کہا یقینا ہم نے سنا۔ آپ نے فرمایا، بے شک میرے بعد حکمراں ہوں گے، تم ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرنا اور نہ ہی ان کے ظلم کی اعانت کرنا، کیوں کہ جس نے ان کے جھوٹ کو سچ قرار دیا اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کی، وہ میرے پا س حوضِ کوثر پر نہیںآئے گا‘‘۔
اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی جھوٹی باتوں کا فریب دینے والا اور ظلم کرنے والا حکمراں تمھارے اوپر مسلط ہوجائے تو اس کی کسی طرح کی بھی حمایت واعانت نہ کرو۔
2۔ قرآن میںآیا ہے کہ ایک مظلوم شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آوازِ حق بلند کرے اور اس دوران اگر مظلوم کی زبان سے کچھ ناشائستہ الفاظ نکل جائیں تو اللہ تعالیٰ اس کی پکڑ نہیں کرتا ،کیوں کہ وہ مظلوم کی مظلومیت کو جانتا ہے اور اس کی آہ وفغاں کو سنتا ہے، اس لئے وہ درگزر سے کام لیتا ہے اور وہ ظالم کے خلاف اس کی فریاد کو قبول کرتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
لا یحب اللہُ الجہرَ بالسّوء مِنَ القولِ الاّ من ظُلم، وکان اللہ سمیعًا علیمًا (النساء: 148 ) یعنی اللہ بد گوئی کو پسندنہیں کرتا مگر یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ظالم بادشاہ کا ظلم روکنے کے لئے اس کے سامنے انصاف کی بات کہناافضل جہاد بتایا گیاہے: عن أبی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اَفضلُ الْجہادِ کلمۃ عدل عند سلطان جائر (أبو داؤد، کتاب الملاحم، باب الأمر والنہی؛ الترمذی، کتاب الفتن، باب أفضل الجہاد کلمۃ عدل؛ ابن ماجہ، کتاب الفتن، با ب الأمر بالمعروف)
’’حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات کہنا ہے‘‘۔
کچھ لوگ اِس حدیث کو دعوت الی اللہ کے معنی میں لیتے ہیں مگر حدیث کے سیاق اور الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر ایساہوتا تو پھر متنِ حدیث میں کلمۂ عدل ( انصاف کی بات ) کے بجائے ’’کلمۂ حق‘‘ (حق کی بات) کا فقرہ ہوتا۔ نیز حدیث کا آخری فقرہ ’’سلطان جائر‘‘ (ظالم بادشاہ) بھی آیا ہے جو اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہاں ’’کلمۂ عدل‘‘ سے مراد دعوت الی اللہ نہیں، بلکہ ایک ظالم حکمراں کو ظلم سے روکنا مراد ہے اور اس کے سامنے عدل اور انصاف کی بات کہنا ہے تاکہ وہ بھی اپنی رعایاسے عدل اور انصاف کا معاملہ کرے۔
اِس طرح ان واضح دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ ظلم اور بربریت کے خلاف علمِ بغاوت اٹھانا اور حق اور انصاف کی خاطر اٹھ کھڑا ہونا کوئی غیر شرعی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ ایساکرنا عین شریعتِ اسلامی کے مطابق معلوم ہوتاہے۔ لیکن اگر اس ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ ظلم کی حمایت اور اعانت تصور کی جائے گی۔ نیز ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ظالم حکمراں کو تقویت دینے کے لئے اس کے ساتھ چلے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے باہر سمجھا جائے گا:
عن أوس بن شرحبیل أنہ سمع رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من مشی مع ظالم لیقوّیہ وہو یعلم أنہ ظالم فقد خرج من الاسلام۔ (رواہ البیہقی؛ مشکوۃ، باب الظلم، الفصل الثالث)
حضرت اوس بن شرحبیل سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، جو شخص کسی ظالم کو تقویت پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ چلے اور وہ یہ جانتا ہو کہ وہ ایک ظالم ہے تو وہ شخص اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
اِس ساری تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ آ پ کی کتاب ’’فکر اسلامی‘‘ کے حوالے سے اوپر دئے گئے اقتباس اور مندرجہ بالا دوسری احادیث کے درمیان جو نمایاں اختلاف نظر آتا ہے، اُن کے درمیان کس طرح تطبیق دی جائے گی (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر)
جواب
اگر کوئی حکم راں آپ کو ظالم نظرآئے تو شرعی اعتبار سے، اس کے خلاف عمل کی دو صورتیں ہیں — خروج، اور نصیحت۔ خروج کا مطلب ہے مسلّح بغاوت، اور نصیحت کا مطلب ہے پُرامن خیر خواہی۔ میرے مطالعے کے مطابق، ظالم کے خلاف مسلح بغاوت حرام ہے۔ مگر جہاں تک خیر خواہانہ نصیحت کا معاملہ ہے، وہ عین جائز ہے، بشرطیکہ وہ مثبت نتیجہ پیدا کرنے والی ہو۔
ظالم حکم راں کے خلاف مسلح خروج اِس لیے حرام ہے کہ وہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوتا ہے، اور جو چیز الٹا نتیجہ پیدا کرے، وہ نہ عقل کے مطابق درست ہوسکتی ہے اور نہ دین کے مطابق۔ میں ذاتی طورپر مسلح بغاوت کے خلاف ہوں، مگر جہاں تک خیر خواہانہ نصیحت کی بات ہے، میں ہمیشہ اس پر عامل رہا ہوں۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب — ’’ہند-پاک ڈائری‘‘۔
اِس معاملے میں آپ نے جو حدیثیں نقل فرمائیں ہیں، اُن سے آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ اِن حدیثوں میں وہی بات کہی گئی ہے جس کا میں خو د ہمیشہ قائل رہا ہوں۔ قرآن اور حدیث سے آپ نے جو حوالے دئے ہیں، ان کی وضاحت نمبر وار ذیل میں درج کی جاتی ہے:
1۔ ابنِ حبان کی جو روایت آپ نے نقل کی ہے، اُس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی حکم راںمبینہ طور پر ظالم ہو تو اہلِ ایمان کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اس کے جھوٹ کو سچ بتانے لگیں، بلکہ اُنھیں اس کے جھوٹ کو جھوٹ بتانا چاہیے۔ یہ واضح طورپر ایک پر امن اظہارِ خیال کا معاملہ ہے، نہ کہ متشددانہ ٹکراؤ کا معاملہ۔ اور اِس قسم کے پر امن اور خیر خواہانہ اظہارِ خیال سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ ’’ظلم پر اعانت‘‘ کا مطلب صرف یہ ہے کہ اہلِ ایمان کسی مبینہ ظالم کا آلۂ کا رنہ بنیں، بلکہ وہ اُس سے الگ رہیں اور اس کے لیے اصلاح کی دعا کرتے رہیں۔
2۔ سورہ النساء کی جو آیت آپ نے نقل کی ہے، اس میںواضح طور پر ’’قول‘‘ کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ کسی قسم کے عملی تصادم کی بات۔ اِس آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ ایک شخص اگر مظلوم ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ پر امن قول کے دائرے میں رہتے ہوئے ظالم کے خلاف بولے ۔ یہ عین وہی بات ہے جس کو میںبار بار لکھتا رہا ہوں۔
3۔ تیسرے نمبر پر آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، وہ کسی مبینہ ظالم کے خلاف ’’کلمہ‘‘ یا قول کی اجازت دیتی ہے، نہ کہ عملی تصادم کی اجازت۔ ایک شخص اگر مبینہ طورپر ظالم ہو تو اہلِ ایمان کو بلا شبہہ یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف امن اور انصاف اور خیرخواہی کی شرائط کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ اِس حدیث میں بھی واضح طورپر ’’کلمہ‘‘ کی اجازت ہے، نہ کہ ٹکراؤ اور جنگ کی اجازت۔
4۔ چوتھے نمبر پر آپ نے جو حدیث نقل کی ہے، وہ بھی واضح طورپر ’’مَشی‘‘کے بارے میں ہے، نہ کہ جنگ کے بارے میں، یعنی اگر کوئی شخص مبینہ طورپر ظالم ہو تو ظلم پر اس کا ساتھ دینا اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں۔ایسے مواقع پر اہلِ ایمان کو صرف یہ کرنا ے کہ وہ ظالم کے حق میں دعا کریں، وہ اس کوخیر خواہانہ انداز میں نصیحت کریں، وہ مکمل طورپر امن کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔
آپ نے لکھا ہے کہ ’’اگر ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ ظلم کی حمایت اور اعانت متصور کی جائے گی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خاموشی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ حدیث کے مطابق، وہ استطاعت کا معاملہ ہے، یعنی اِس طرح کے معاملے میں دخل دینے کا اصول یہ ہے کہ اس کے نتیجہ (result) کو سامنے رکھا جائے۔ اگر دخل دینے سے نتیجہ برعکس نکلتاہو تو صرف دعا کی جائے گی۔ دعا کے سوا کوئی اور عملی اقدام نہیںکیا جائے گا۔ اِس معاملے کو آپ مشہور حدیث ’’من رأی منکم منکراً الخ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب کون النہی عن المنکر من الإیمان)کے مطالعے سے بخوبی طورپر سمجھ سکتے ہیں۔
ماہ نامہ جامِ نور (نئی دہلی) کے سوال نامے کا جواب
کیاپارلیمنٹ کو تسلیم کرنا خدا کی حاکمیت کا انکار ہے
موجودہ زمانے میںکچھ لوگوں نے اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سیاسی تعبیر بلاشبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ اِس کے نتیجے میں بہت سے خود ساختہ مسائل پیدا ہوئے۔ مثلاً اِن لوگوں نے اپنی خود ساختہ تعبیر کی بنا پر یہ اعلان کیا کہ — پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا خدا کی حاکمیت کا انکار ہے۔
یہ بات بلاشبہہ لغویت کی حد تک غلط ہے۔ اِس نظریے کا ماخذ خود سیاسی تعبیر کرنے والوں کا اپنا ذہن ہے، نہ کہ اسلام کی اپنی تعلیمات۔ اسلام کی وہی تعبیر درست تعبیر ہے جو قرآن اور سنت سے نہ ٹکراتی ہو، اور مذکورہ قسم کا تصور بلا شبہہ قرآن اور سنت سے ٹکراتا ہے۔یہاں میںاِس سلسلے میں تین مثالیں دوں گا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قدیم مصر میں ایک مشرک بادشاہ حکومت کرتاتھا۔ یہ ایک شاہی خاندان (dynasty) تھا، جس کو ہکساس کنگڈم (Hyksos Kingdom) کہاجاتا تھا۔ پیغمبر یوسف نے اس کے اقتدار (sovereignty) کو تسلیم کیا اور اس کے تحت ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا۔ یہ مثال اہلِ اسلام کے لیے ایک رہنما مثال ہے، کیوں کہ اسلام میں تمام پیغمبروں کو رہنماکی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے (الأنعام: 90)۔
دوسری مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو وہاں دار الندوہ کو قبائلی حاکمیت کی حیثیت حاصل تھی۔ آپ نے دار الندوہ کی اِس حیثیت کو عملاً تسلیم کیا۔ اِسی بنا پر آپ کو مکہ میں رہنے کا موقع ملا۔ اگر آپ دار الندوہ کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرتے تو آغازِ نبوت ہی میں مکہ سے آپ کا اخراج کردیا جاتا۔
اِسی طرح مکی دور میں صحابہ کی ایک جماعت نے پڑوسی ملک حبش (Abyssinia)کی طرف ہجرت کی۔ وہاں اُس وقت ایک مسیحی بادشاہ نجاشی (Negus)حکومت کرتا تھا۔ صحابہ کی اِس جماعت نے نجاشی کے اقتدار کو تسلیم کیا۔ اِس بنا پر صحابہ کی جماعت کو حبش میں قیام کرنے کا موقع ملا۔ صحابہ کی اِس جماعت نے حبش کا یہ سفر رسول اللہ صلی اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ یہ زمانہ کلی ریاست (totalitarian state) کا زمانہ تھا۔ اُس زمانے میں اِس کے سوا کوئی دوسری صورت ممکن نہ تھی۔
جمہوری حکومتوں میں الیکشن کا بائیکاٹ
اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ — جمہوری حکومتوں میں الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ بات بھی سر تاسر بے بنیاد ہے۔ اِن حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کیا ہے، اس کے باوجود وہ اِس قسم کا خود ساختہ مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت، اسلام کے عین موافق ہے۔ اس کا بائیکاٹ کرنا دیوانگی کے سوا اور کچھ نہیں۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے ایک منشور (declaration) جاری کیا۔ اِس منشور میں رسول اللہﷺنے جو دفعات شامل کی تھیں، اُن میں سے ایک دفعہ یہ تھی: للیہود دینہم وللمسلمین دینہم۔ یہ عین وہی چیز تھی جس کو موجودہ زمانے میں جمہوری اصول کہاجاتاہے۔
جمہوریت، لادینیت کا نام نہیں ہے، بلکہ جمہوریت شرکتِ اقتدار (power-sharing) کا نام ہے۔ جمہوریت کا کوئی تعلق کسی مذہبی عقیدے سے نہیں ہے۔ جمہوریت کی تعریف اکثریتی حکومت (majority rule) کے الفاظ میں کی جاتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مشترک قومی دائرے میں آبادی کی اکثریت کے اعتبار سے فیصلے کیے جائیں، اِس طرح کہ اقلیت کے انسانی حقوق بھی پوری طرح محفوظ رہیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کرنے والے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جمہوری حکومت چوں کہ لادینی حکومت ہوتی ہے، اِس لیے اہلِ اسلام کو اُس کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اِس قسم کی بات نہ صرف دیوانگی ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنانے کے ہم معنی ہے۔ اِس قسم کی بات ہرگز اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جہاںتک عقیدے کا معاملہ ہے، آپ کسی سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ لیکن جہاں تک سیاسی ڈھانچے کی بات ہے، اس میں مسلمانوں کو آخری حد تک سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ایسے حالات میں سمجھوتہ نہ کرنا، سیاسی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے۔ اور خود کشی کسی بھی اعتبار سے اسلام میں جائز نہیں۔
الیکشن کا بائیکاٹ اور پارلیمنٹ کی مخالفت
جو لوگ الیکشن کا بائیکاٹ کریں اور پارلیمنٹ کی مخالفت کی بات کریں، وہ ہر گز مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ اُن کا کیس اسلام کا کیس نہیںہے، بلکہ بے بصیرتی کاکیس ہے۔ جو لوگ بے بصیرتی کے باوجود رہنمائی کے میدان میں قدم رکھیں، وہ صرف مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنیں گے۔ ایسے لوگ ایک عرب شاعر کے اِس شعر کا مصداق ہیں:
إذا کان الغراب رئیس قوم سیہدیہم إلی دار البوار
یعنی جب کوّا کسی قوم کا سردار بن جائے تو یقینا وہ اُن کو لے جاکر تباہی کے گڑھے میں گرا دے گا۔
اب یہ سوال ہے کہ جمہوری حکومتوں میں مسلمان اپنی مذہبی زندگی اور سیاسی پوزیشن کو کسی طرح بہتر بناسکتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان، اسلام کے اُس اصول کو اپنائیں جس کو قرآن کی سورہ نمبر 94 میںاِس طرح بیان کیاگیا ہے: إنّ مع العسر یُسراً (الإنشراح: 6 ) یعنی مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسائل (problems)کے ساتھ ہمیشہ مواقع (opportunities) موجود رہتے ہیں۔ اِس لیے نہ صرف انڈیا میں، بلکہ ہر جگہ مسلمانوں کو یہی اصول اپنانا چاہیے، وہ یہ کہ — وہ مسائل کو نظر انداز کریں اورمواقع کو استعمال کریں:
Ignore the problems and avail the opportunities.
میںاپنے تجربے اور اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ جو لوگ انڈیا کو مسائل کا ملک سمجھتے ہیں، وہ صرف اپنے خود ساختہ تصورات کو جانتے ہیں، اُن کو نہ انڈیا کی خبر ہے اور نہ حالاتِ زمانہ کی خبر۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا میںمسلمانوں کے لیے ہر قسم کے مواقع کھلے طورپر موجود ہیں، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ 57 مسلم ملکوں سے بھی زیادہ۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ مسلمان اِن مواقع کو جانیں اور اُن کو استعمال کریں۔
اِس پہلو کی تفصیل میں نے اپنی ایک کتاب میں کی ہے۔ اس کا نام ’’ہندستانی مسلمان‘‘ ہے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
Indian Muslims: A Positive Outlook
واپس اوپر جائیں