استدلال کی نئی بنیاد
یہ ایک دور رس فکری انقلاب تھا جو بیسویں صدی کے نصف اول میں پیش آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو نظریاتی تبدیلیاں ہوئیں، ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ تھی کہ استدلال کا اصول (principle of reason) بدل گیا۔ اس فکری انقلاب سے پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جائز استدلال (valid argument) وہی ہے جو براہِ راست استدلال (direct argument) ہو، یعنی مشاہدہ اور تجربہ پر مبنی استدلال۔ مگر اب استنباطی استدلال (inferential argument) بھی یکساں طورپر جائز استدلال بن گیا۔ جب جوہری ذرّات (subatomic particles) ناقابل مشاہدہ ہونے کے باوجود صرف استنباطی استدلال کی بنیاد پر ایک سائنسی واقعہ تسلیم کر لیے گئے تو لازمی طور پر اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ استنباطی استدلال کی بنیاد پر خدا کا استدلال بھی عین اسی طرح جائز سائنسی استدلال ہے۔
علمائِ الٰہیات خدا کے وجود پر ایک دلیل وہ دیتے تھے جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے۔ یعنی جب ڈزائن ہے تو ضروری ہے کہ اس کا ایک ڈزائنر ہو۔ اس استدلال کو پہلے ثانوی استدلال (secondary rationalism) مانا جاتا تھا۔ مگراب جدید سائنسی انقلاب کے بعد یہ استدلال بھی اسی طرح ابتدائی استدلال (primary rationalism) کی فہرست میںآچکا ہے، جیسا کہ دوسرے معروف سائنسی استدلالات۔
3 - انھیں فکری مغالطوںمیں سے ایک مغالطہ وہ ہے جس کو ڈارونزم (Darwinism) کہا جاتا ہے۔ اس فکر کو موجودہ زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس نظریہ کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور تمام یونیور سٹیوں میں اس کو باقاعدہ نصاب میں داخل کیاگیا ہے۔ لیکن اس کا سائنٹفک تجزیہ کیجیے تو وہ ایک خوب صورت مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ ڈارونزم کے نظریہ کو دوسرے لفظوں میں عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کہاجاتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بہت پہلے زندگی ایک سادہ زندگی سے شروع ہوئی۔ پھر توالد وتناسل کے ذریعہ وہ بڑھتی رہی۔ حالات کے اثر سے اس میں مسلسل تغیر ہوتا رہا۔ یہ تغیرات مسلسل ارتقائی سفر کرتے رہے۔ اس طرح ایک ابتدائی نوع مختلف انواع (species) میںتبدیل ہوتی چلی گئی۔ اس لمبے عمل کے دوران ایک مادی قانون اس کی رہنمائی کرتا رہا۔ یہ مادی قانون ڈارون کے الفاظ میں نیچرل سلکشن تھا۔ اس نظریہ میں بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ دو مشابہہ نوع کا حوالہ دیتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لمبے حیاتیاتی ارتقا کے ذریعہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوگئی۔ مثلاً بکری دھیرے دھیرے زرافہ بن گئی،وغیرہ۔
یہ نظریہ بکری اور زرافہ کو تو ہمیں دکھاتا ہے، لیکن وہ درمیانی انواع اس کی فہرست میں موجودنہیں ہیں جو تبدیلی کے سفر کو عملی طورپر دکھائیں۔ نظریۂ ارتقا کے وکیل ان درمیانی کڑیوں کو مسنگ لنک (missing link) کہتے ہیں۔ لیکن یہ مسنگ لنک صرف ایک قیاسی لنک ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کے اعتبار سے سرے سے ان کا کوئی وجود نہیں۔
اس نظریہ کی مقبولیت کا راز صرف یہ تھا کہ وہ سیکولر اہل علم کو ایک کام چلاؤ نظریہ (workable theory) دکھائی دیا۔ لیکن کوئی نظریہ اس طرح کے قیاس سے ثابت نہیں ہوتا۔ کسی نظریہ کو ثابت شدہ نظریہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پشت پر معلوم حقائق موجود ہوںجو اس کی تصدیق کرتے ہوں، لیکن ڈارونزم کی تائید کے لیے ایسے حقائق موجود نہیں۔ مثال کے طورپر، ڈارونزم کے مطابق، حیاتی ارتقا کے لیے بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے۔ سائنسی دریافت کے مطابق موجودہ زمین کی عمر اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ کم ہے۔ایسی حالت میں بالفرض اگر ارتقاء حیات کا ڈرامہ ڈاروینی نظریہ کے مطابق پیش آیا ہو تو وہ موجودہ محدود زمین کے اوپر کبھی واقع نہیں ہوسکتا۔
زمین کی محدود عمر کے بارے میں جب سائنس کی دریافت سامنے آئی تو اس کے بعد ارتقاء کے وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ زندگی باہر کسی اور سیارہ پر پیدا ہوئی، پھر وہاں سے سفر کرکے زمین پر آئی۔ اس ارتقائی نظریہ کو انھوںنے مفروضہ طورپر پینس پرمیا (Panspermia) کا نام دیا۔ اب دور بینوں اور خلائی سفروں کے ذریعہ خلا میں کچھ مفروضہ سیاروں کی دریافت شروع ہوئی۔ مگر بے شمار کوششوں کے باوجود اب تک یہ مفروضہ سیارہ دریافت نہ ہوسکا۔
4 - اسی قسم کا فکری مغالطہ وہ ہے جس کو ہیومنزم (Humanism) کہاجاتا ہے۔ یعنی مبنی برانسان توجیہہ کائنات(human-based explanation of universe)۔ اس فلسفہ کے تحت خدا کے عقیدہ کو حذف کرکے صرف انسان کی بنیاد پر زندگی کی توجیہہ کی جاتی ہے۔ اس نظریہ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے— سیٹ کا خدا سے ٹرانسفر ہوکر انسان کو دے دینا:
Transfer of seat from God to man.
اس نظریہ کی حمایت میں بیسویں صدی عیسوی میں بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ انھیں میں سے ایک کتاب وہ ہے جو انگریزفلسفی جولین ہکسلے (وفات: 1975 )نے تیار کرکے شائع کی۔ کتاب کے موضوع کے مطابق، اس کا ٹائٹل یہ تھا:
Man stands alone
یہ کتاب پوری کی پوری صرف دعویٰ اور قیاس پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ مثلاً اس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اب انسان کو وحی کی ضرورت نہیں، اب انسان کی رہنمائی کے لیے عقل بالکل کافی ہے۔ مگر اس دعوی کی تائید میں کتاب کے اندر کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ امریکی سائنس داں کریسی ماریسن (وفات: 1951 ) نے خالص علمی انداز میں اس کتاب کا جواب دیا۔ یہ کتاب جولین ہکسلے کے دعوی کو بالکل بے بنیاد ثابت کرتی ہے:
Man does not stand alone
5 - بدھ ازم کو موجودہ زمانہ میں سیکولرطبقہ کے درمیان کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کو یہ مقبولیت کسی سائنسی بنیاد پر نہیں ہوئی ہے بلکہ صرف ایک مغالطہ کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ عام طور پر لوگ چیزوں کا سائنسی تجزیہ کرکے اس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس بنا پر اکثر لوگ مغالطہ آمیز فکر کا شکار ہوتے ہیں۔ بدھ ازم کی موجودہ مقبولیت بھی انھیں میں سے ایک ہے۔
بدھسٹ فلسفہ کے مطابق انسان نسل درنسل ایک لمبا سفر کررہا ہے۔ اس کی آخری منزل نروان ہے۔ اس آخری منزل تک پہنچنے کا ایک حتمی کورس ہے۔ یہ علت اور سبب کا کورس ہے۔ ہر عورت یا مرد اپنے عمل کے مطابق، ایک جنم کے بعد دوسرے جنم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، کبھی اچھی حالت میں اور کبھی بری حالت میں۔ اس نظریہ کو پنر جنم کہا جاتا ہے۔ اور پھر کئی ملین سال تک یہ سفر کرتے کرتے وہ نجات (salvation) تک پہنچتے ہیں جس کو بدھ ازم میں’’ نروان‘‘ کا نام دیاگیا ہے:
They all hold in common a doctrine of Karman (efftects), the law of cause and effect, which states that what one does in this present life will have its effect in the next life. (EB/VIII: 488)
یہ فلسفہ صرف ایک مغالطہ ہے۔ پنر جنم کا یہ نظریہ کہتا ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم میں کئے ہوئے کرم کے مطابق اگلے جنم میں اچھی حالت یا بری حالت میںپیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو ہرایک کو اپنے پچھلے جنم کا حال یاد رہنا چاہیے جس طرح جیل میں سزا پانے والے ایک قیدی کو اپنے پچھلے دنوں کا جرم یاد رہتاہے، یا ترقی پر پہنچنے والے ایک شخص کو اپنے پچھلے زمانہ کی وہ کوششیں یاد رہتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس عہدے تک پہنچا۔ لیکن جیسا کہ معلوم ہے، دنیا بھر میں بسنے والے عورتوں اور مردوں کو اپنے پچھلے جنم کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔
یہ واقعہ پنر جنم کے فلسفہ کو سراسر غیر علمی ثابت کررہا ہے۔ موجودہ زمانہ میں نفسیات کے تحت انسان کا نہایت تفصیلی مطالعہ کیاگیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یاد داشت (memory) انسان کی شخصیت (personality) کا لاینفک حصہ ہے۔ انسانی شخصیت کو اس کی یادداشت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پنر جنم کے معاملہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی کی شخصیت ایک جنم سے دوسرے جنم کی طرف اس طرح سفر کرتی ہے کہ اپنے پچھلے زمانہ کے بارے میں اس کی یادداشت اس کے ساتھ موجود نہیں ہوتی۔ کسی آدمی کے اگلے جنم میں اگر اس کی پچھلی شخصیت منتقل ہوتی ہے تو اس کی یاد داشت بھی اس کے ساتھ لازماً موجود رہنی چاہیے۔ یہ واقعہ اس پورے نظریہ کو سرتاسر بے بنیاد ثابت کررہا ہے۔
قبل سائنسی دور میں فرضی قیاس کے تحت اس قسم کا نظریہ مانا جاسکتا تھا۔ لیکن سائنسی دور میں وہ بالکل ناقابل قبول ہوچکا ہے۔ جدید سائنس نے جس طرح دوسرے تمام فرضی تصورات کو بے بنیاد ثابت کردیا ہے، اسی طرح پنر جنم کا تصور بھی اب بلا شبہہ بے بنیاد قرار پائے گا۔
6 - انھیں فکری مغالطوں میں سے ایک مغالطہ وہ ہے جو ویجیٹیرین ازم (vegetarianism) کے نام سے معروف ہے۔یہاں اِس معاملے کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔
لوہے اور پتھر جیسی چیزیں غیر ذی روح مادہ(dead matter) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے وجود کے لیے زندہ اجسام کی ضرورت نہیں۔ مگر انسان کی حیثیت ایک زندہ وجود کی ہے۔ زندگی کی بقا کے لیے زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے اسے ہر لمحہ زندگی بخش غذاؤں کی ضرورت ہے۔ یہ غذا انسان کو سبزی اورپھل اور اناج وغیرہ کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ ان غذائی اجزا کو کھا کر پیٹ میں ڈالنا ہی کافی نہیں۔ اس کے بعد ایک اور عمل درکار ہے جس کو عمل ہضم کہاجاتا ہے۔ یہ عمل ایک پیچیدہ نظام ہضم (digestive system) کے تحت انجام پاتا ہے۔ اس کے بعد ہی یہ غذائی اجزاء جسم کا جزء بنتے ہیں۔ اس ہضمیاتی عمل (digestive process) میں اصل حصہ زندہ بیکٹیریا کا ہوتا ہے۔ بیکٹیریا اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن وہ مکمل معنوں میں ایک زندہ وجود ہیں۔ یہ بیکٹیریا بے شمار تعداد میں انسان کے جسم میں داخل ہو کر ہضمیاتی عمل کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر بیکٹیریا کی مدد نہ ملے تو کوئی بھی غذا انسان کے لیے صحت بخش غذا نہ بن سکے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجئے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا ( 26 دسمبر 2007 ) کے صفحہ اول پر ایک نمایاں اور رنگین اشتہار چھپا ہے۔ اس کا عنوان جلی الفاظ میں یہ ہے— ڈیلی پیو، ہیلدی جیو:
Daily piyo, healthy jiyo
یہ ایک انٹرنیشنل مشروب کا اشتہار ہے جس کو صحت بخش مشروب (pro-biotic drink) بتایا گیا ہے اور اس کا نام یاکلٹ(Yakult) ہے۔ یہ 1935 میں بنایا گیا اور 30 ملکوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اب انڈیا میں بھی اس کا استعمال شروع کیا گیا ہے۔
اس اشتہار میں اس کی سائنٹفک تشریح کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں مفید بیکٹیریا بہت بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو ہضم کے عمل میں بے حد معاون ہوتے ہیں، وہ مختلف پہلوؤں سے انسان کو طاقت دیتے ہیں:
Yakult is a probiotic drink that contains special beneficial bacteria, lactobacillus casie strain shirota. Every 65 ml bottle of Yakult contains over 6.5 billion friendly bacteria. Yakult's bacteria are unique and reach the intestines alive to impart various health benefits. Yakult aids digestion, builds immunity, and prevents infection.
زندگی بخش بیکٹیریا ہر آن انسان کے جسم میں مختلف طریقوں سے داخل ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ مشروب اسی عمل کو تیز تر کرنے کی ایک تدبیر ہے۔
معلوم ہوا کہ لحمی غذا انسان کے لیے اختیاری بات نہیں، وہ انسان کی مجبورانہ ضرورت ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ غذا انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس معاملہ میں ویجٹیرین فوڈ اور نان ویجٹیرین فوڈ کی تقسیم صرف ایک اعتباری تقسیم ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ کیوں کہ اصل حقیقت کے اعتبار سے ہر غذا آخر کار ایک لحمی غذا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نان ویجیٹیرین فوڈ میں اس کا لحمی ہونا آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ ویجیٹیرین فوڈ میں بھی لحمی عنصر مکمل طورپر شامل رہتا ہے، اگر چہ وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ نان ویجیٹیرین آدمی حیوانِ کبیر (macro organism) کو اپنی غذا بناتا ہے اور نام نہاد ویجیٹیرین آدمی حیوانِ صغیر (micro organism) کو اپنی غذا بنا رہا ہے۔ بظاہر دونوں ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں