دو عظیم فکری انقلابات
Two Great Intellectual Revolutions
مذہبی نقطۂ نظر سے انسانی تاریخ میں دو بڑے فکری انقلابات پیش آئے ہیں۔ ایک انقلاب وہ ہے جو اپنی آخری صورت میں ساتویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ اِس انقلاب کے ہیرو وہ لوگ تھے جن کو اسلامی تاریخ میں ’اصحابِ رسول‘ کہاجاتا ہے۔ دوسرا فکری انقلاب لانے والوں کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اصحاب رسول نے شرک (polytheism) کے فکری غلبہ کو ختم کیا تھا اور توحید (monotheism) کے بند دروازوں کو کھولا تھا۔ اخوانِ رسول کے لیے یہ مقدر ہے کہ وہ موجودہ زمانے میں الحاد کے فکری غلبہ کو ختم کرکے دوبارہ توحید کو اس کا غالب مقام عطا کریں۔
امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو خصوصی تاریخی درجہ حاصل ہے— اصحابِ رسول، اور اخوانِ رسول۔ یہ دونوں پُراسر ار الفاظ نہیں ہیں اور نہ کسی پر اسرار فضیلت کی بنا پر اُن کویہ امتیازی درجہ عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں گروہ اسلام کی تاریخ میں دو بڑے کارنامے انجام دیں گے۔ اِسی کارنامے کی بناپر وہ بڑا درجہ پائیں گے— اصحابِ رسول کے کارنامے کا تعلق، اسلام کے دورِ اول سے ہے، اور اخوانِ رسول وہ لوگ ہیں جو اسلام کے دورِ آخر میں اپنا کارنامہ انجام دیںگے۔
اصل یہ ہے کہ تاریخ کے دو دور ہیں۔ پہلا، دورِ شرک اور دوسرا، دورِ الحاد۔ قدیم بادشاہت کے زمانے میں شرک کو ریاستی مذہب (state religion) کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اِس بنا پر قدیم زمانے میں مذہبی جبر (religious persecution) کے حالات پیدا ہوئے۔ اصحابِ رسول نے یہ کیا کہ غیرمعمولی جدوجہد اور قربانی کے ذریعے شرک کا رشتہ سیاسی اقتدار سے منقطع کردیا اور اِس طرح شرک کو مکمل طورپر ایک بے زور عقیدہ بنا دیا، اصحابِ رسول کا یہی وہ غیر معمولی عمل تھا جس کی بنا پر دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا دور آیا اور شرک محض ایک بے زور شخصی عقیدہ بن کر رہ گیا۔
بعد کے زمانے میں ایک نیا فتنہ پیداہوا جس کو سائنسی الحاد کہاجاسکتا ہے۔ الحاد (atheism) ہمیشہ سے دنیا میں پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں ملحد مفکرین کو یہ موقع ملا کہ وہ بظاہر سائنسی دلائل کے ذریعے الحاد کو نئی طاقت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ مثال کے طورپر ڈارون ازم (Darwinism) کو الحاد کی حمایت میں سائنسی دلیل کے طورپر پیش کرنا۔
موجودہ زمانے کا سائنسی الحاد اصلاً سائنسی الحاد نہیں ہے، بلکہ وہ مغالطہ آمیز قسم کے بظاہر سائنسی دلائل کی بنیاد پر الحادی فکر کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ اب اُن لوگوں کو اخوانِ رسول کا درجہ ملے گا جو اِس فریب کا پردہ چاک کریں اور الحاد کا رشتہ مفروضہ دلائل سے منقطع کردیں، اور اِس طرح الحاد کو بے دلیل اور علمی اعتبار سے بے وزن بنا دیں۔
پچھلے دور میںاصحابِ رسول نے جو کارنامہ انجام دیا، اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیکڑوں سال کے عمل کے دوران مخصوص تاریخی حالات پیدا کیے تھے۔ یہ تاریخی حالات وہ مواقع تھے جن کو اصحاب رسول نے سمجھا اور اُن کو دانش مندانہ طورپر استعمال کرکے مطلوب انقلاب برپا کیا۔ اِسی طرح بعد کے زمانے میں اخوانِ رسول کے ذریعے جو فکری انقلاب واقع ہوگا، اس کے لیے ضروری مواقع بھی خدا کی طرف سے پیدا کیے جانے والے ہیں۔ اخوانِ رسول کا کام بھی یہی ہے کہ وہ اپنے دور میں پیدا ہونے والے مواقع کو سمجھیں اوراُن کو دانش مندانہ طورپر استعمال کرکے اُس تاریخی عمل کو انجام دیں جس کو ظہور میں لانا اُن کے لیے مقدر کیاگیا ہے۔ ذیل میں دوسرے دور کے حالات کا مختصر طورپر ذکر کیا جاتاہے۔
جدید الحاد
الحاد (atheism) کوئی نیا ظاہرہ نہیں۔ قدیم زمانے میں بھی کسی نہ کسی صورت میں الحادی فکر پایا جاتا رہا ہے۔ لیکن قدیم زمانے میں الحاد کے لیے کوئی فکری بنیاد (rational base) موجود نہ تھی۔اِس لیے قدیم زمانے میں الحاد کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہوسکا۔
موجودہ زمانے میں جب سائنسی تحقیقات سامنے آئیں تو دورِ جدید کے ملحدین نے محسوس کیا کہ وہ سائنسی تحقیقات کو اپنے حق میں ایک علمی ثبوت کے طورپر استعمال کرسکتے ہیں۔ اِس طرح وہ فلسفہ وجود میں آیا جس کو سائنسی فلسفہ (scientific philosophy) کہاجاتا ہے۔ سائنسی فلسفہ کیا ہے۔ سائنسی فلسفہ دراصل مبنی بر سائنس الحاد (science-based atheism) کا دوسرانام ہے۔ اِس طرح بیسویں صدی عیسوی میں بہت سے فلسفی اٹھے جنھوں نے سائنسی تحقیقات کو ملحدانہ فلسفے کے حق میں استعمال کیا۔ اِس طرح وہ جدید الحاد وجود میں آیا جس کو سائنسی الحاد کہاجاسکتاہے۔ اِس موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ بطور مثال یہاں صرف ایک کتاب کا نام درج کیا جاتا ہے:
Julian Huxley, Religion Without Revelation (1967)
سائنسی الحاد، خالص منطقی اعتبار سے، ایک غیر علمی الحاد ہے۔ سائنسی الحاد کے داعیوں نے غیرعلمی طورپر سائنسی حقیقتوں کو اپنے حق میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ چناں چہ اِسی زمانے میں ایک اور طبقہ پیدا ہوا جو نسبتاً زیادہ سنجیدہ تھا۔ وہ سائنسی حقائق کے غیر علمی استعمال کے خلاف تھا۔ اِس دوسرے طبقے نے کوشش کی کہ سائنسی حقائق کو اس کے صحیح تناظر (perspective) میں پیش کیا جائے۔ یہ دوسرا طبقہ اپنے اعلان کی حد تک مذہبی نہیں تھا، وہ بظاہر سیکولر تھا۔ لیکن اُس نے یہ اہم کام انجام دیا کہ اس نے جدید ملحدین کو خالص علمی اعتبار سے مکمل طورپر رد کردیا۔ اِس معاملے کے چند خاص پہلو ہیں۔
1 - اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جدید سائنس (physical science) نے اپنا میدان تمام تر مادّی اشیاء کی تحقیق کو بنایا۔ اِس کے نتیجے میں بڑی بڑی مادی حقیقتیں دریافت ہوئیں اور مادی نظریات قائم ہوئے۔ اِس صورتِ حال کو استعمال کرتے ہوئے جدید ملحدین نے یہ کیا کہ انھوں نے سچائی کی مادّی تعبیر (material interpretation of truth) کا نظریہ وضع کیا۔ انھوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ حقیقت وہی ہے جو مادی اصطلاحوں میں بیان کی جاسکے، جو چیز مادی اصطلاحوں میں بیان نہ کی جاسکے، وہ حقیقت بھی نہیں۔ اِس نظریے کے رد میں کئی مفکرین نے قیمتی کتابیں لکھیں۔ بطور مثال ایک کتاب کا نام یہ ہے:
Bertrand Russell, Human Knowledge (1948)
2 - اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ فزیکل سائنس کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ دنیا میں جوواقعات ہوتے ہیں، اُن کے پیچھے کوئی سبب (cause)کارفرما ہوتا ہے۔ مثلاً پانی کو گرم کرنے سے اسٹیم کا وجود میں آنا۔ سائنس کے اس پہلو کو لے کر وہ الحاد موافق نظریہ وضع کیاگیا جس کو اصولِ تعلیل (principle of causation) کہاجاتا ہے۔ اِس نظریے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہماری دنیا میں جو واقعات وجود میں آتے ہیں، وہ کسی مادی سبب کا نتیجہ ہوتے ہیں، نہ کہ کسی خالق کی کارفرمائی کا نتیجہ۔ اِس نظریہ کی تردید میں متعدد قیمتی کتابیں لکھی گئیں۔ مثال کے طورپر اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہاں درج کیا جاتا ہے:
James Jeans, The Mysterious Universe (1930)
3 - اِس معاملے میں غالباً سب سے زیادہ گم راہ کن رول چارلس ڈارون (وفات:1882 ) کا ہے۔ اس نے حیاتیاتی نمونوں کے مطالعے کے دوران یہ پایا کہ مختلف حیاتیاتی نمونوں کے درمیان مشابہت (similarity) پائی جاتی ہے۔ اِس کو لے کر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ تمام ذی حیات اشیاء ایک ہی مشترک اصل سے نکلی ہیں۔ یہ تصور نظریۂ ارتقا(theory of evolution) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نظریہ جدید دور میں بہت زیادہ پھیلا۔ اس کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئیں، یہاں تک کہ جدید علمی حلقے میں اس کو عمومی مقبولیت (general acceptance) حاصل ہوگئی۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ نظریہ تمام تر علمی مغالطے پر قائم ہے۔ چناں چہ اس کے بارے میں سیکولر علماء نے تحقیق کی اور اِس نظریے کی تردید میں متعدد قیمتی کتابیں شائع ہوئیں۔ مثال کے طورپر اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے:
Arnold Lunn, Revolt Against Reason (1951)
دورِ جدید کے یہ اہلِ علم جن کو ہم نے سیکولر اہلِ علم کہا ہے، انھوںنے بہت بڑا تائیدی رول انجام دیا ہے۔ قدیم زمانے میں بہت سے لوگوں نے عظیم تائیدی رول انجام دیا تھا۔ انھوں نے وہ مواقع پیدا کیے تھے جن کو استعمال کرکے اصحابِ رسول نے شرک کے رد اور توحید کے اثبات کا تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اِسی طرح موجودہ زمانے کے مذکورہ سیکولر اہلِ علم نے ایک عظیم تائیدی رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے وہ مواقع پیدا کیے ہیں جن کو استعمال کرکے دوبارہ الحاد کے رد اور توحید کے اثبات کا مطلوب عمل انجام دیا جاسکے۔ بعد میں اٹھنے والے جس گر وہ کو حدیث میںاخوانِ رسول کہاگیا ہے، اُس کا کام غالباً یہی ہوگا کہ وہ جدید مواقع کو پہچانے اوران کو دانش مندانہ استعمال کے ذریعے دوبارہ الحاد کی تردید اور توحید کے اثبات کا مطلوب کارنامہ انجام دے۔
سائنس، الحاد کی تردید
جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، قدیم زمانے میں یہ مطلوب تھا کہ شرک کو رد کرکے توحید کا اثبات کیا جائے۔ یہ کارنامہ اصحابِ رسول نے اپنی کامل صورت میں ساتویں صدی عیسوی میں انجام دیا۔ انھوںنے اپنے زمانے میں پیدا شدہ مواقع کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے انسانی تاریخ میں ایک نئے عمل (process) کا مؤثر آغاز کیا۔ یہ عمل جاری رہا، یہاں تک کہ شرک، نظریاتی بنیاد (ideological base) سے محروم ہوگیا۔ اب وہ صرف ایک بے روح رسم کے طورپر کچھ توہم پسند لوگوں میں باقی ہے، عملی اعتبار سے وہ ایک زندہ قوت کے طورپر کہیں موجود نہیں۔
یہی معاملہ الحاد کا ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں الحاد بظاہر سائنسی دلائل کے زور پر ابھرا تھا۔ لیکن جلد ہی خود سیکولر حلقے میں ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے عملی طورپر الحاد کی بظاہر اِس سائنسی بنیاد کو ڈھا دیا اور حقیقت کے اعتبار سے الحاد کو ایک بے دلیل نظریے کی حیثیت دے دی۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں دوبارہ امکانی طورپر وہ موافق حالات پیدا ہوئے ہیں جن کو لے کر کچھ لوگ الحاد کو مکمل طورپر رد کردیں اور اس کے بجائے توحید کو ایک ثابت شدہ نظریہ بنادیں، اور اِس طرح وہ اُس رول کو انجام دیں جس کو اخوانِ رسول کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔
یہ حالات پیدا ہوچکے تھے اور میں اکثر ان کے بارے میں غور کرتا تھا۔ آخر کار 1963 میں ایک واقعہ پیش آیا جو میرے لیے گویا کہ ایک رہنما واقعے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس واقعے کا ذکر میں نے اپنی کتاب ’’ظہورِ اسلام‘‘ کے آغاز میں اس طرح کیا ہے:
’’ستمبر 1963 کی 21 تاریخ تھی۔ راقم الحروف ندوہ (لکھنؤ) کی مسجد میں تھا اور ظہر کی سنتیں پڑھ کر جماعت کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ذہن میں خیال گھوم رہا تھا کہ اسلام کے تعارف کے لئے آج ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جو وقت کی زبان اور اسلوب (modern idiom) میں لکھی گئی ہو اور جدید انسان کو مطالعہ کے لیے دی جاسکے۔ ’’کاش اللہ تعالیٰ مجھے اِس کتاب کے لکھنے کی توفیق دے‘‘ یہ تمنا بے ساختہ دعا کی شکل میں میری زبان سے نکلی اور اس کے بعد یکایک یہ انگریزی لفظ میری زبان پر تھا:
God Arises
یہ گویا کتاب کا نام تھا جو اچانک میرے ذہن میں وارد ہوا۔ اس سے پہلے کبھی یہ فقرہ میرے ذہن میں نہیں آیا تھا، حتی کہ کتاب کے نام کی حیثیت سے اس کی معنویت بھی اُس وقت پوری طرح واضح نہ تھی۔ شام کو عصرکی نماز کے بعد میں حسب معمول لکھنؤ کی نریندر دیو لائبریری گیا جو ندوہ کے قریب دریائے گومتی کے کنارے واقع ہے۔ وہاں ویبسٹر کی لغت میں لفظ Arises کے استعمال دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ بائبل کی ایک آیت میں استعمال ہوا ہے۔ پورا فقرہ یہ ہے:
Let God arise, let His enemies be scattered.
Let them also that hate Him flee before Him.
As smoke is driven away, so drive them away;
As wax melteth before the fire, so let
the wicked perish at the presence of God
(Psalm 68: 1-2)
’’خدا اٹھے، اس کے دشمن تتر بتر ہوں۔ وہ جو اس کا کینہ رکھتے ہیں، اس کے حضور سے بھاگیں، جس طرح دھواں پراگندہ ہوتا ہے، اسی طرح تو انھیں پراگندہ کر۔ جس طرح موم آگ پر پگھلتا ہے، شریر خدا کے حضور فنا ہوں‘‘۔
یہ میرے لیے ایک انسپریشن (inspiration) تھا۔ یہ گویا ایک قسم کا الہامی تجربہ تھا جو مسجد کے اندر اذان اور اقامت کے درمیان پیش آیا۔ اِس پر غور کرنے کے بعد میںنے سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ ہے، تاکہ میں پیدا شدہ جدید علمی مواقع کا جائزہ لوں اوراُن کو الحاد کی تردید اور توحیدکے علمی اثبات کے لیے استعمال کروں۔ یہ گویا سیکولر اہلِ علم کے پیدا کردہ علمی امکانات کو اسلامائزکرنا تھا۔ اور جدید دور میں اظہارِ دین کے اُس علمی واقعے کو بروئے کار لانا تھا جس کے امکانات وقوع میں آچکے ہیں، لیکن ابھی ان کو استعمال نہ کیا جاسکا۔
اِس موضوع پر میں پہلے بھی کام کر رہا تھا۔ لیکن مذکورہ تجربے کے بعد میرے شعور میں ایک نئی بیداری آئی اور میں اِس قابل ہوگیا کہ زیادہ حوصلے کے ساتھ اِس علمی خدمت کو انجام دوں۔ آخر کار، طویل کوشش کے بعد وہ کتاب وجود میں آئی جو مذکورہ تجربے کی روشنی میں گاڈ ارائزز (God Arises) کے نام سے 1985 میں شائع ہوئی۔ اِس سے پہلے یہ کتاب اردو اور عربی زبان میں چھپ چکی تھی۔ لیکن مذکورہ انگریزی ایڈیشن مزید اضافے کے ساتھ اس کا زیادہ جامع ایڈیشن تھا۔
اِس کے بعد یہی موضوع (modern challenges to Islam) میرا مستقل موضوع بن گیا۔ اس کے بعدمضامین اور کتابوں کی شکل میں میری سیکڑوں کوششیں مختلف زبانوں میں شائع ہوئیں۔ میری اِن تمام تحریروں کا موضوع مشترک طورپر صرف ایک تھا، اور وہ اسلام اور عصری تحدیات تھا۔ بعد کے زمانے میںبراہِ راست یا بالواسطہ طورپر یہی میری زندگی کا مستقل موضوع بن گیا۔
واپس اوپر جائیں