فلسطین کا مسئلہ
Realism Returns to Palestine
فلسطین کی جدید تاریخ 1948 سے شروع ہو تی ہے، جب کہ بال فور ڈکلریشن (Balfour Declaration) کے تحت فلسطین کی تقسیم عمل میں آئی۔یہ واقعہ برٹش ایمپائر کے زمانے میں ہوا۔ اِس تقسیم کے تحت جو ہوا، وہ یہ کہ سرزمینِ فلسطین کا تقریباً ایک تہائی حصہ یہود کو آبادکاری (settlement) کے لیے دیا گیا، جو کہ اُس وقت بیرونی علاقوں میں بسے ہوئے تھے۔ اور فلسطین کا تقریباً دو تہائی رقبہ عربوں کے حصے میں آیا، جو کہ پہلے سے وہاں موجود تھے۔
یہود کو یہ حق پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران محدود کوٹا سسٹم (limited quota system) کے تحت دیاگیا تھا۔ بعد کو اسرائیل کی جو توسیع عمل میں آئی، وہ بال فور ڈکلریشن کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ یقینی طور پر وہ عربوں کی اپنی غلط پالیسی کا نتیجہ تھی۔ مثلاً سوئز کمپنی کا پٹّہ (lease) جو 1968 میںاپنے آپ ختم ہورہا تھا، اُس کو 1956 میں یک طرفہ طورپر ختم کردینا۔ فطری طورپر اِس کے نہایت گمبھیر نتائج برآمد ہوئے ۔ اِسی طرح فلسطینی عربوں کا اپنی زمینوں کو زیادہ بڑی قیمت پاکر یہودیوں کے ہاتھ بیچ دینا، وغیرہ۔
یہود،یابنی اسرائیل
یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں۔یہ دراصل حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب سے نسبت رکھنے والے لوگ ہیں۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ عبرانی زبان میں اسرائیل کے معنی ہیں: اللہ کا بندہ، جیسا کہ اسماعیل کے معنی ہیں: اللہ کا سننا۔
حضرت ابراہیم کا زمانہ تقریباً چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے— اسماعیل اور اسحاق۔ اسماعیل، آپ کے بڑے بیٹے تھے، جو ہاجرہ کے بطن سے تھے۔ اور اسحاق آپ کے چھوٹے بیٹے ـتھے، جو آپ کی دوسری بیوی سارہ کے بطن سے تھے۔ حضرت ابراہیم نے خدا کے حکم سے اپنے بیٹے اسماعیل کو عرب میں آباد کیا۔ اور اپنے دوسرے بیٹے اسحاق کو خدا کے حکم سے فلسطین کے علاقے میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب تھے، جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ اِنھیں کی نسل بنی اسرائیل (Children of Israel) کہلائی۔ اپنے آبائی تعلق کی بنا پر، فلسطین، بنی اسرائیل کا وطن قرار پایا، جیسا کہ اِسی طرح کے آبائی تعلق کی بنا پر عرب، بنو اسماعیل کا وطن مانا جاتا ہے۔
یہودی مذہب ایک نسلی مذہب ہے۔ یہودی مذہب میں کنورژن (conversion) کا کوئی تصور نہیں۔ اِس لیے آج جتنے یہودی دنیا میں پائے جاتے ہیں، وہ سب کے سب براہِ راست طورپر حضرت یعقوب (اسرائیل) کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس نسبت کی بنا پر تمام یہودیوں کا مشترک وطن فلسطین ہے، جیسا کہ ان کے مورثِ اعلیٰ اسحاق اور یعقوب کا وطن فلسطین تھا۔ بنو اسماعیل کا وطن عرب قرار پانا، اور بنو اسحاق (بنی اسرائیل) کا وطن فلسطین قرار پانا، دونوں کا تقرر حضرت ابراہیم نے کیا، جو کہ براہِ راست خداکے حکم کے تحت تھا۔
قدیم زمانہ مذہبی معاملات میں عدم رواداری (intolerance) کا زمانہ تھا۔ یہود کو بار بار اِس طرح کے ناخوش گوار تجربات پیش آئے۔ چناں چہ ان کی ایک تعداد فلسطین چھوڑ کر باہر جاتی رہی۔ یہی یہودی تارکینِ وطن ہیں جن کو یہودی ڈائس پورا (Jews in diaspora) کہا جاتا ہے۔ ڈائس پورا کا مطلب ہے— وہ یہودی تارکینِ وطن، جو فلسطین کے باہر آباد ہوں:
Diaspora: Jews who lived outside of Palestine.
بالفور ڈکلریشن کے تحت، فلسطین واپسی کا فیصلہ اِنھیں ڈائس پورا میں رہنے والے یہودیوں کی بابت تھا۔
1948میں جب بیرونی علاقوں میں رہنے والے یہودیوںکی ایک تعداد فلسطین واپس آئی، تو اُس وقت عربوں کی طرف سے ان کے خلاف سخت قسم کے منفی ردّ عمل کا اظہار ہوا۔ عربوں کی سب سے بڑی تنظیم الاخوان المسلمون دراصل یہود کے خلاف منفی جذبات کے زیر اثر بنی۔ اُس وقت عرب رہ نماؤں کا یہ نعرہ تھا: سنرمیہم فی البحر (ہم ان یہودیوں کو سمندر میںدھکیل دیں گے)۔ تمام عرب اور غیرعرب مسلم رہ نما یہودیوں کے خلاف سر گرم ہوگئے، یہاں تک کہ پوری مسلم دنیا مخالفِ یہود جذبات سے بھر گئی۔ ہر قسم کے تشدد حتی کہ خود کُش بم باری کو یہودیوں کے خلاف جائز قرار دے دیا گیا۔ مگر یہودکے خلاف تمام سرگرمیاں کاؤنٹر پروڈکٹیو(counter productive)ثابت ہوئیں۔ اِن سرگرمیوں کا نقصان براہِ راست طورپر عربوں کے حصے میں آیا، اور بالواسطہ طورپر تمام دنیا کے مسلمانوں کے حصے میں۔
عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی یہ مخالفِ یہود پالیسی واضح طورپر اسلامی تعلیمات کے خلاف تھی۔ بال فور ڈکلریشن کے تحت، فلسطین کی تقسیم، یہودی تارکینِ وطن (Jews in diaspora) کے لیے اپنے وطن کی طرف واپسی کے ہم معنیٰ تھی۔ یہ بات واضح طورپر قرآن کی تعلیم کے عین مطابق تھی۔ قرآن کی سورہ نمبر 5 میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں یہود سے کہاگیا تھا: یا قوم ادخلوا الأرض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم (المائدۃ: 21 ) یعنی تم ارضِ مقدس میں داخل ہو جاؤ جس کو خدا نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے:
O my people, enter the holy land which God has assigned to you ( 5:21 )
یہ یہود کون تھے۔ یہ وہ یہودتھے جو اُس وقت سینا کے علاقے میں ڈائس پورا کے حیثیت سے رہ رہے تھے۔ اِس آیت میں ارضِ مقدس سے مراد فلسطین ہے۔ اِس آیت کا خطاب حضرت موسیٰ کے ہم عصر یہودی ڈائس پورا سے تھا ، جو فلسطین کے باہر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ’’جس کو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تمھاری یہ واپسی خدائی قانون، بہ الفاظِ دیگر، فطرت کے قانون کے عین مطابق ہوگی۔ کیوں کہ فطرت کے قانون کے مطابق، کسی بھی تارکِ وطن گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے اصل آبائی وطن کی طرف واپس چلاجائے۔
حضرت موسیٰ کے ساتھ جو بنی اسرائیل تھے، وہ کون تھے۔ وہ سب کے سب تارکینِ وطن کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا، حضرت ابراہیم نے اپنے خاندان کی ایک شاخ کو فلسطین کے علاقے میں آباد کیاتھا۔ اِنھیں میں حضرت یوسف پیدا ہوئے، جو حضرت یعقوب کے بیٹے تھے۔ حضرت یوسف کے ساتھ ایسے حالات پیش آئے کہ وہ مصر پہنچ گئے۔ اُس زمانے میں وہاں جس بادشاہ کی حکومت تھی، وہ حضرت یوسف پر مہربان ہوگیا اور اُن کو اپنی حکومت میں ایک بڑا عہدہ دے دیا۔
پھر حضرت یوسف کو جب مصر میں استحکام حاصل ہوا، تو انھوںنے اپنے اہل خاندان، بشمول اپنے والد حضرت یعقوب، سے کہا کہ آپ لوگ فلسطین چھوڑ کر مصر آجائیں۔ اِس طرح یہ لوگ مصر جاکر وہاں آباد ہوئے۔ وہاں ان کی نسل کافی بڑھی، یہاں تک کہ وہ مصر کی ایک با اثر قوم بن گئے۔
حضرت یوسف کے بعد مصر میں سیاسی انقلاب آیا، اور قدیم بادشاہ (Hyksos Kings) کے بجائے ایک نیا خاندان، مصر کا حکم راں بن گیا جس نے فرعون (Pharaoh) کو اپنے خاندانی لقب کے طورپر اختیار کیا۔ فرعون کی اِسی حکومت کے زمانے میں بنی اسرائیل پر مظالم شروع ہوئے، یہاںتک کہ حضرت موسیٰ پیدا ہوئے اور وہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر صحرائے سینا میں لے گئے۔ یہ بنی اسرائیل کے سفر کا پہلا مرحلہ تھا۔ اُن کے سفر کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ وہ دوبارہ اپنے آبائی وطن (فلسطین) میں داخل ہو جائیں اور وہاں جاکر آباد ہوں۔
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جن بیرونی یہودیوں کی واپسی کا منصوبہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت بنایاگیا تھا، وہ قدیم یہودی ڈائس پورا سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے بعد بال فور ڈکلریشن کے تحت، جن بیرونی یہودیوں کی واپسی کا منصوبہ بنا، وہ جدید یہودی ڈائس پورا سے تعلق رکھتا ہے۔
قبلۂ اوّل کی بازیابی کا مسئلہ
عام طورپر مسلمان، فلسطین کے موجودہ مسئلے کو، قبلۂ اوّل کی بازیابی کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد جب مدینہ میں ایک مسجد (مسجد ِنبوی) تعمیر کی، اور اس میں نماز باجماعت قائم کی، تو اُس وقت آپ نے یہودی طریقے کی پیروی کرتے ہوئے مسجد ِاقصیٰ کو اپنا قبلہ قرار دیا۔ یہ صورتِ حال تقریباً 16 مہینے تک قائم رہی۔ اِس کے بعد قرآن میں تحویلِ قبلہ کا حکم آیا، اور پھر آپ نے اس کی پیروی کرتے ہوئے، کعبہ کو نماز کے دائمی قبلہ کے طورپر اختیار کرلیا۔ اِس واقعے کے حوالے سے مسلمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ، قبلۂ اول کی بازیابی کا مسئلہ ہے۔ اِس اعتبار سے فلسطین کا مسئلہ محض ایک قومی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کا ایک خالص دینی مسئلہ ہے۔
یہ نظریہ سر تاسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کا تعلق، قبلۂ اوّل سے نہیں ہے۔ قرآن میں مسجد ِ اقصیٰ کا ذکر معروف معنوں میں، کسی مسجد کے نام کے طورپر نہیں آیا ہے۔ مسجد ِاقصیٰ کے معنٰی: دور کی مسجد (farthest place of worship) کے ہیں۔ اِس کو دور کی مسجد اِس لیے کہاگیا کہ وہ مکہ سے 765 میل (1232 کلومیٹر) کے فاصلے پر یروشلم میں واقع ہے۔ مسجد اقصیٰ سے مراد یروشلم کی یہودی عبادت گاہ ہے۔
اِس یہودی عبادت گاہ (ہیکل) کو حضرت سلیمان نے 957 قبل مسیح میںتعمیر کیا۔ اِس عبادت گاہ کو بابل (عراق) کے حکم راں نبوخذ نصر(Nebuchadrezzar II) نے 586 قبل مسیح میں مکمل طورپر ڈھادیا۔ ایک عرصے کے بعد یہودیوں نے یہ عبادت گاہ دوبارہ بنائی۔ اِس دوسری عبادت گاہ کو بھی رومیوں نے 70 عیسوی میں ڈھا کر کھنڈر کردیا۔اِس عمارت کی صرف ایک دیوار باقی رہ گئی ہے، جس کو دیوارِ گریہ (Wailing Wall) ، یا مغربی دیوار کہاجاتا ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت یہاں کوئی عمارت نہیںـتھی، بلکہ صرف ہیکل کی خالی جگہ (site) تھی۔ خلیفۂ ثانی عمر فاروق کے زمانے میں 638 عیسوی میں مسلمان یروشلم میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر نے ہیکل کی جگہ (site)پر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی۔ بعد کو اموی دور میں خلیفہ عبد الملک بن مروان (وفات: 705 ء) نے ہیکل کی جگہ 688 عیسوی میں موجودہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی۔
مسجد اقصیٰ کیمپس میں ایک اور عمارت ہے، جس کو قُبّۃ الصَّخرۃ (Dome of Rock) کہاجاتا ہے۔ یہاں قدیم زمانے سے یہودیوں کا مقدس صخرہ (چٹان) واقع تھا۔ اِسی صخرہ کے اوپر خلیفہ عبد الملک بن مروان نے 688 عیسوی میں موجودہ قبہ (گنبد) کی تعمیر کی۔ یہی مقدس چٹان، یا قبۃ الصخرہ، یہودیوں کا قبلہ تھا، اور یہی قبۃ الصخرہ، نہ کہ مسجد ِ اقصیٰ، ہجرت کے بعد عارضی طورپر پیغمبراسلام کا قبلہ بنا تھا۔ صخرہ سنگ خارا کی ایک چوکور چٹان ہے۔ اِس چٹان کو یہودی اپنے لیے مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، یہی وہ صخرہ ہے جس پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تھی۔اصلاً اِسی قبۃ الصخرہ کانام بیت المقدس ہے، اور توسیعی معنوں میں، قدیم یروشلم کے پورے علاقے کو بیت المقدس کہا جاتا ہے۔
مسجدِ اقصیٰ کو فلسطینی جدوجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان عام طورپر، مسجد اقصیٰ کو ’’قبلۂ اوّل‘‘ سمجھتے ہیں، حالاں کہ قبلۂ اوّل کاکوئی تعلق، مسجد اقصیٰ سے نہیں۔ قبلۂ اوّل اگر کوئی ہوسکتا ہے، تو وہ قبۃ الصخرہ (بیت المقدس) ہے، نہ کہ مسجد اقصیٰ۔ مزید یہ کہ پیغمبر اسلام جب مکہ میں تھے، تو آپ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ ہجرت کے بعد آپ نے تقریباً 16 مہینے تک، قبۃ الصخرہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی۔ اس کے بعد، خدا کے حکم کے مطابق، آپ دوبارہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے لگے۔ اِس اعتبار سے دیکھیے تو قبۃ الصخرہ درمیانی قبلہ ہے، نہ کہ پہلا قبلہ۔
اِس حقیقت کی روشنی میں دیکھیے تو ’’قبلۂ اول کی بازیابی‘‘ کا لفظ سرتا سر بے اصل ہے۔ اگر اِس مفروضہ بازیابی کو مسجد اقصیٰ سے منسوب کیا جائے تو مسجد ِاقصیٰ کبھی بھی پیغمبر اسلام کا قبلہ نہ تھی۔ ہجرت ( 622 ء) کے وقت وہاں صرف یہودی ہیکل کی خالی جگہ (site) تھی، نہ کہ موجودہ قسم کی کوئی مسجد۔ اور جہاں تک قبۃ الصخرہ کی بات ہے، اس کی بازیابی کاکوئی سوال نہیں۔ وہ پہلے بھی یہودی قبلہ تھا، اور اب بھی وہ یہودی قبلہ ہے۔ قبۃ الصخرہ کی بازیابی کا مطالبہ اُسی طرح غیر معقول ہے، جیسے مشرک گروہ کعبہ کی واپسی کا مطالبہ کرے، یہ کہہ کر کہ وہ کبھی اُن کے بتوں کا مرکز تھا۔
بالفور ڈکلیریشن کے تحت 1948 میں جب یہودی باہر سے آکر فلسطین میں بسنے لگے، تو اُس وقت عربوں کی طرف سے صرف ایک ردّ عمل سامنے آیا، اور وہ مسلح جہاد کا ردّ عمل تھا۔ عرب ممالک نے فلسطینیوں کو بہت بڑے پیمانے پر مالی امداد دینا شروع کیا۔ یہودی ریاست کے خلاف متشددانہ کارروائیوں کے ذریعے یہ کوشش کی جانے لگی کہ اس کا بالکل خاتمہ کردیا جائے۔ لیکن عربوں کو اپنے اِس متشددانہ منصوبے میں کوئی کامیابی حاصل نہیںہوئی۔
یہ بلا شبہہ عرب رہ نماؤں کی غلطی تھی۔ یہ عرب رہ نما اگر اسلامی تاریخ سے سبق لیتے، تو اُن کو معلوم ہوتا کہ ان کے لیے ایک اور زیادہ بہتر انتخاب (better choice) موجود ہے۔ وہ یہ کہ وہ اِن آنے والے یہودیوں کا ایک پڑوسی کی حیثیت سے استقبال کریں اور فلسطین کے ڈیولپ مینٹ میں ان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ یہ یہودی زیادہ تر مغربی ملکوں سے آئے تھے۔ ان کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی۔ وہ جدید علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ عربوں کے لیے ترقیاتی عمل میںبہترین پارٹنر بن سکتے تھے۔ مگر جذباتیت کے طوفان میںعرب رہ نما معاملے کے اِس مثبت پہلو کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
حالاں کہ اسلام کی تاریخ میں مسلم اور یہود کے درمیان اِس تعاون (collaboration) کی نہایت اعلیٰ مثال موجود تھی۔ بعد کے زمانے میں جب بڑی بڑی مسلم حکومتیں قائم ہوئیں، تو اُس زمانے میں مسلمانوں نے ایک نیا کام شروع کیا— قدیم علمی کتابیں جو یونانی اور دوسری زبانوں میں تھیں، اُن کا ترجمہ عربی زبان میں کرنا، اِس مقصد کے لیے مختلف ملکوں سے غیر عربی کتابیں بڑی تعداد میں منگائی گئیں۔ اِسی واقعے کو خواجہ الطاف حسین حالی (وفات: 1914) نے اپنی مسدّس میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
حریمِ خلافت میں اونٹوں پہ لد کر چلے آتے تھے مصر ویوناں کے دفتر
اِس مقصد کے لیے عباسی دورِ حکومت میں بغداد میں بہت بڑا دارالترجمہ قائم ہوا جس کو بیت الحکمت ( 832 ء) کہاجاتا تھا۔ اِسی طرح دولتِ فاطمیہ نے قاہرہ میں اِسی مقصد کے لیے دارالحکمت ( 1005 ء) قائم کیا۔ اِن اداروں کے تحت، بڑی تعداد میں قدیم کتابوں کے عربی ترجمے کیے گئے۔ اِس کے بعد جب عرب، اندلس (اسپین) میں داخل ہوئے، او روہاں اپنی حکومت بنائی، تو قرطبہ اور غرناطہ میںبڑے بڑے تعلیمی اور تصنیفی ادارے قائم کیے گئے۔ اِس طرح جو عربی ترجمے کیے گئے، وہ جلد ہی لاطینی زبان میں ترجمہ ہو کر یورپ میں پھیلے۔ یہ صرف ترجمے کا کام نہ تھا، بلکہ عین اُسی کے ساتھ مختلف شعبوں میںتحقیق کا کام بڑے پیمانے پر جاری رہا۔ اِس طرح جو علمی ترقیاں ہوئیں، اُس کے براہِ راست نتیجے کے طورپر یورپ میں نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کا واقعہ پیش آیا۔ اِس طرح اُس زمانے کے مسلمانوں نے قدیم روایتی دور اور جدید سائنسی دور کے درمیان پُل کا کام کیا۔
اِس واقعے کا اعتراف عام طورپر مغربی مؤرخین نے کیا ہے۔ مثال کے طور پر رابرٹ بریفالٹ (وفات: 1948 ) نے اِس معاملے میں عربوں کے رول کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ— یہ بہت زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ عربوں کے بغیر جدید صنعتی تہذیب سرے سے پیدا ہی نہ ہوتی:
It is highly probable that but for the Arabs, modern industrial civilization would never have arisen at all. (Robert Briffault, Making of Humanity, p. 190)
علم وتحقیق کے میدان میں عربوں نے یہ عظیم کارنامہ کس طرح انجام دیا، جب کہ اِس سے پہلے اِس قسم کے کسی علمی کارنامے کی روایت عربوں کے یہاں موجود نہیں تھی۔ جواب یہ ہے کہ یہ کارنامہ انھوںنے تعاون (collaboration) کی طاقت سے انجام دیا۔ اُس زمانے کے عربوں نے عراق اور مصر اور اسپین میں علم وتحقیق کے جو ادارے بنائے، اُس میں انھوںنے مسیحی اسکالر اور یہودی اسکالر کی خدمات بڑے پیمانے پر حاصل کیں۔ اِن اداروں میں عرب علماء اور غیر عرب اسکالر مل کر کام کرتے تھے۔ اِس تعاون کا نتیجہ وہ شان دار علمی تاریخ ہے، جو قرونِ وسطی کے زمانے میں بنی، اور جس کی بنیاد پر مغربی یورپ نے مزید اعلیٰ ترقی حاصل کی(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو— پروفیسر فلپ کے ہٹی کی کتاب: تاریخِ عرب (History of the Arabs) ۔
1948 کے بعد یہی امکان دوبارہ فلسطینیوں کے لیے پیدا ہوا تھا، لیکن جذبات سے مغلوب، عرب رہ نماؤں نے غلط رہ نمائی کرکے ان کو تعاون کے بجائے ٹکراؤ کے راستے پر ڈال دیا۔ ایک عظیم تاریخ بنتے بنتے رہ گئی۔اِس امکانی تاریخ کا ایک چھوٹا سا نمونہ عربوں کے زیر اقتدار فلسطین، اور یہود کے زیر اقتدار فلسطین کا تقابل کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہود کے زیر اقتدار فلسطین کا یہ حال ہے کہ جہاں 1948 میں خشک صحرا دکھائی دیتا تھا، وہاں آج زراعت اور باغ بانی (horticulture) کی سرسبز دنیا نظر آتی ہے۔ اِس کے برعکس، فلسطین کا جو حصہ عربوں کے زیر اقتدار ہے، وہاں اب بھی پس ماندگی کی وہی حالت ہے جو 1948 میں وہاں پائی جاتی تھی۔
فلسطین کے لوگ اپنے نادان عرب رہ نماؤں کی رہ نمائی میں ایک بے نتیجہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔ پہلے اُن کا نشانہ یہ تھا کہ وہ فلسطین کو1948 سے پہلے کی حالت پر لے جائیں۔ اب ان کا نشانہ فلسطین کو 1967 سے پہلے کی حالت کی طرف لے جانا ہے۔ یہ دونوں نشانے بلاشبہہ ناممکن ہیں۔ یہ تاریخ کے سفرکو پیچھے کی طرف لوٹانے کے ہم معنی ہے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا کبھی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ فلسطینیوں کے لیے پہلا انتخاب یہ تھا کہ وہ 1948 کے اسٹیٹس کو (statusquo) پر راضی ہوجائیں۔ اب ان کے لیے دوسرا ممکن انتخاب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو موجودہ اسٹیٹس کو پر راضی کر لیں۔ اگر انھوںنے اِس دوسرے انتخاب کو بھی کھودیا، تو اس کے بعد کوئی تیسرا انتخاب ان کے لیے کبھی پیش آنے والا نہیں۔ اب تیسرا انتخاب ان کے لیے صرف تباہی اور بربادی کا انتخاب ہے، نہ کہ زندگی اور کامیابی کا انتخاب۔
اسٹیٹس کو ازم (statusquoism) کا مطلب ہے— حالتِ موجودہ کو تبدیلی کے بغیر مان لینا۔ یہ کوئی کم زوری کی بات نہیں، یہ ایک اعلیٰ قسم کی دانش مندانہ پالیسی کا نام ہے۔ فطرت کے نظام کے مطابق، اِس دنیا میں ہمیشہ اور ہر ایک کے لیے کوئی نہ کوئی نزاعی مسئلہ موجود رہتا ہے۔ اِسی کے ساتھ خود نظامِ فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر صورتِ حال میںکام کرنے کے مواقع بھی موجود ہوں۔ ایسی حالت میںنتیجہ خیز پالیسی (result-oriented policy) یہ ہے کہ آدمی مسائل (problems) کو نظر انداز کرے اور مواقع(opportunities) کو استعمال کرے۔ نزاعی مسائل سے الجھنا ہمیشہ اِس قیمت پرہوتا ہے کہ مسائل تو ختم نہ ہوں، لیکن قیمتی مواقع استعمال ہونے سے رہ جائیں۔
فلسطین میں عرب رہ نما لمبی مدت سے کھوئی ہوئی زمین (land) کے لیے لڑ رہے ہیں۔ مگر نتیجے کے اعتبار سے دیکھئے تو اُن کی ساری کوششیں اور قربانیاں سرتاسر رائگاں ہوگئیں۔ وہ اپنے نشانے کے مطابق، زمین (land) تو حاصل نہ کرسکے، البتہ یہ نقصان اُن کے حصے میںآیا کہ وہ قیمتی مواقع کو استعمال (avail) کرنے سے محروم رہے۔
موجودہ زمانہ گلوبلائزیشن کا زمانہ ہے۔ قدیم زرعی دور میں ساری اہمیت زمین کی ہوا کرتی تھی، مگر جدید کمیونکیشن کے زمانے میں زمین ایک ثانوی اہمیت کی چیز بن گئی ہے۔ اب ساری اہمیت مواقع کی ہے، جو گلوبلائزیشن کے نتیجے میںہر شخص کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ اب ایک شخص بظاہر ایک محدود جگہ پر رہتے ہوئے بھی ساری دنیا کے مواقع کو اپنے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ ایسی حالت میں زمین (land) کے حصول کے لیے لڑنا، ایک قسم کی خلافِ زمانہ روش (anachronism) ہے، جو کبھی کسی کے لیے مثبت نتیجہ پیدا کرنے کا ذریعہ نہیںبن سکتی۔
فلسطین کی موجودہ صورتِ حال ایک بحران (crisis) کی صورتِ حال ہے۔ یہ صورتِ حال نہ عربوں کے لیے مفید ہے اور نہ اسرائیل کے لیے مفید۔دونوں کے بہترین مفاد میںیہ بات ہے کہ دونوں معتدل ذہن کے ساتھ مسئلے پر غور کریں اور صورتِ حال کو نارمل بنانے کے لیے کوئی نیا فیصلہ لیں۔ تاہم اِس معاملے میں دونوں فریق کو حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ کوئی ایسی شرط جو دونوں فریقوں کے لیے یکساں طورپر قابلِ قبول نہ ہو، وہ صرف ایک خیالی شرط ہوگی، نہ کہ حقیقت پسندانہ شرط۔
میری فہم کے مطابق، اِس معاملے کا قابلِ عمل حل صرف ایک ہے، وہ یہ کہ عرب حضرات اپنی طرف سے ہر قسم کے تشدد کو کامل طورپر چھوڑ دیں۔ یہ ایک لازمی شرط ہے۔ اِس شرط کو پورا کیے بغیر مسئلے کے حل کی بات کرنا، ایک خیالی دنیا میںسفر کرنا ہے، اورایسا سفر کبھی واقعہ نہیں بنتا۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، اس کو بھی ایک لازمی شرط کو پورا کرنا ہوگا، وہ یہ کہ اسرائیل، فلسطین میںمقیم عربوں کو وہی حقوق دے، جو اسرائیلی دستور کے رُو سے، اس کے حدود میںرہنے والے باشندوں کو حاصل ہیں۔یعنی عرب لوگ اسرائیل کے خلاف اپنے تشدد کو کامل طورپر چھوڑ دیں، اور اسرائیل اپنے دستور اور حقوقِ انسانی (human rights) کے عالمی اصول کے مطابق، فلسطینی عربوںکو مساوی بنیاد پر اُن کے تمام ضروری حقوق دے دے۔ یہ دو باتیں اگر اصولی طورپر مان لی جائیں، تو ان کی بنیاد پر پُر امن باہمی گفت وشنید (negotiation) کے ذریعے ایک عملی نظام بنایا جاسکتاہے۔
عام طورپر زمین برائے امن (land for peace) کی بات کی جاتی ہے، یعنی زمین دو اورامن لو۔ مگر اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر میںاِس تجویز کو قطعی طورپر ناقابلِ عمل سمجھتا ہوں۔ اِس معاملے میںجوچیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف حقوق برائے امن (right for peace) ہے، یہی اِس معاملے میںواحد قابلِ عمل فارمولا ہے۔ اِس فارمولے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اِس کو ماننے کی صورت میں عربوں کو فوری طورپر ایک نقطۂ آغاز (starting point) مل جائے گا۔ اِس وقت فلسطینی تحریک ایک بند گلی (blind alley) میں پھنسی ہوئی ہے۔ مذکورہ تجویز کو اختیار کرنے کی صورت میں یہ ڈیڈ لاک (deadlock) فوری طورپر ختم ہوجائے گا، اور عربوں کو یہ کھُلا موقع مل جائے گا کہ وہ ترقی کی شاہ راہ پر اپنا سفر شروع کردیں۔
فلسطین کے معاملے میں تمام دنیا کے مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں، ایک ہی بات کہتے رہتے ہیں، وہ یہ کہ اسرائیل قبضہ کی ہوئی زمین کو واپس کرے، تو فلسطینی اپنی متشددانہ کارروائیوں کو بند کردیں گے۔ اِس تجویز کو السّلام مع العدل (peace with justice) کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، بے شمار کوششوں کے باوجود یہ تجویز عمل میں نہ آسکی۔ اِس ناکامی کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ یہ فارمولا ایک غیر حقیقت پسندانہ فارمولا ہے، اور کوئی غیر حقیقت پسندانہ فارمولا، حقائق کی اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ دنیا فطرت کے اٹل قوانین پر چل رہی ہے۔ اِس دنیا میں وہی فارمولا کامیاب ہوسکتاہے، جس کو فطرت کے قوانین کی حمایت حاصل ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، عدل (justice) امن (peace) کا حصہ نہیں عدل کو امن کے ساتھ بریکٹ کرنا، گریمر کے اعتبار سے درست ہوسکتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ہر گز درست نہیں۔ کیوں کہ عدل جب بھی کسی کو ملتا ہے، وہ خود اپنی محنت سے ملتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ امن کے قیام سے کسی کو عدل حاصل ہوجائے۔
اصل یہ ہے کہ امن کے قیام سے جو چیز حاصل ہوتی ہے، وہ صرف مواقع کار ہیں۔ امن کسی شخص، یا گروہ کے لیے مواقع کا دروازہ کھولتا ہے۔ عدل کے حصول کا کام اِس کے بعد شروع ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ کھلے ہوئے مواقع کو استعمال کرکے اپنے لیے مطلوب عدل حاصل کیا جائے۔
خدا کے فضل سے میںنے تین بار فلسطین کا سفر کیا ہے۔ پہلی بار اگست 1995 میں، دوسری بار اکتوبر 1997 میں اور تیسری بار اکتوبر 2008 میں۔ اِس طرح میں یہ کہہ سکتاہوں کہ مجھے فلسطین کو براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ اِس کے علاوہ بہت سے فلسطینی مسلمانوں سے میری ملاقات ہوئی ہے، دہلی کے اندر اور دہلی کے باہر۔ فلسطین کے بارے میں، میں نے بہت سی کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ اپنے تجربات کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ فلسطینی قوم ایک زندہ قوم ہے۔ فلسطینی لوگ عام طورپر اعلیٰ صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ ’’علم اور جسم‘‘ دونوں میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ایسے جغرافی علاقے میں پرورش پاتے ہیں، جس کے بارے میں، قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: الّذی بارکنا حولہ (الإسراء: 1 ) یعنی جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے:
The environs of which, We have blessed.
فلسطینی لوگ اپنے ممتاز فطری اوصاف کی بنا پر بہت بڑے بڑے کام کرسکتے ہیں، وہ ہر میدان میں اعلیٰ ترقی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دورِ جدید کا یہ ایک انوکھا المیہ ہے کہ فلسطین کی یہ بالقوہ صلاحیت (potential) اُن کے حق میں بالفعل (actual) واقعہ نہ بن سکی۔
اِس المیہ کا واحد سبب یہ ہے کہ فلسطین کے لیڈروں نے فلسطینیوں کو نفرت اور تشدد کے راستے پر ڈال دیا۔ انھوںنے غلط طورپر زمین (land) کو سب کچھ سمجھ لیا۔ وہ زمین کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ اُن کو معلوم نہیں کہ ایک فلسطینی کی زندگی اُس زمینی خطّہ سے ہزاروں گُنا زیادہ قیمتی ہے، جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اگر یہ فلسطینی، جدید امکانات سے باخبر ہوتے، تو یقینا وہ جان لیتے کہ اِن امکانات کو استعمال کرکے وہ نہ صرف فلسطین کی سطح پر، بلکہ عالمی سطح پر بڑی بڑی ترقیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ پُرامن عمل اور متشددانہ عمل کا معاملہ کوئی سادہ معاملہ نہیں۔ یہ براہِ راست طورپر قانونِ فطرت کا معاملہ ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، پُرامن عمل انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتا ہے۔ جو گروہ ایسا کرے کہ وہ پُرامن ذرائع تک محدود رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری کرے، ایسا گروہ، فطرت کے قانون کے مطابق، دن بدن تخلیقی گروہ (creative group) بنتا چلا جائے گا۔ اِس کے برعکس، جو گروہ نفرت اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے، وہ فطرت کے قانون کے مطابق، دن بدن غیر تخلیقی گروہ (uncreative) بنتا چلا جائے گا۔
یہ فطرت کا اٹل قانون ہے۔ اِس میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔ پُر امن طریقِ کار ہمیشہ کسی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔ اِس کے برعکس، نفرت اور تشدد کا طریقہ ہمیشہ غیر تخلیقیت کی طرف لے جاتاہے۔ کوئی بھی دوسرا عمل اِس نقصان کی تلافی نہیںبن سکتا۔ قانونِ فطرت کے مطابق، اِس دنیا میں تمام کامیابیاں تخلیقی گروہ کے لیے مقدّر ہیں، اور تمام ناکامیاں غیر تخلیقی گروہ کے لیے۔
قضیۂ فلسطین کا حل
ابو سعید الخدری الانصاری (وفات: 74 ھ/ 693 ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ہیں۔ اُن سے 1170 حدیثیں مَروی ہیں۔ انھوں نے پیغمبر اسلام سے سنا ہوا ایک قول اِن الفاظ میں نقل کیا ہے: یخرج رجلٌ من أمتی یقول بسنّتی، ینزل اللہ عزَّ وجلّ لہ القطر من السماء وتُخرِج الارض برکتہا، وتُملأ الأرض منہ قسطاً وعدلاً کما مُلئت جوراً وظلماً، یعمل علی ہذہ الأمۃ سبع سنین، وینزل بیتَ المقدس (رواہ الطَّبرانی فی معجمہ الأوسط، جلد2، صفحہ 15 ) یعنی میری امت میں سے ایک آدمی نکلے گا۔ وہ میری سنت کے مطابق کلام کرے گا۔ اللہ تعالی اس کے لیے آسمان سے بارش نازل کرے گا۔ اور زمین اپنی برکت نکال دے گی۔ اور اس کے ذریعے سے زمین عدل اور قسط سے بھر دی جائے گی، جس طرح وہ ظلم اور جور سے بھر دی گئی تھی۔ وہ اِس امت میں سات سال تک کام کرے گا۔ اور وہ بیت المقدس میں اُترے گا۔
اِس حدیث رسول میں پیشگی طورپر یہ بتایا گیا ہے کہ تاریخ کے آخری زمانے میں ایک اہم واقعہ ہوگا۔ یہ واقعہ بیت المقدس (فلسطین) کے حوالے سے پیش آئے گا۔ یہ واقعہ اِس بات کی علامت ہوگا کہ قیامت بہت قریب آچکی ہے۔ ’’زمین اپنی برکتیں نکال دے گی‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں مواقع (opportunities) کی بہت زیادہ کثرت ہوجائے گی۔ اِن مواقع کو استعمال کرکے یہ ممکن ہوجائے گا کہ دنیا میں امن کی عمومی فضا قائم کی جاسکے۔
اِس حدیثِ رسول کی روشنی میں بیت المقدس، یا فلسطین کے مسئلے پر غور کیجیے۔ فلسطین کا مسئلہ اپنی موجودہ صورت میں، بیسویں صدی کے وسط میں پیدا ہوا۔ ابتدائی طورپر یہ مسئلہ عربوں کا ایک قومی، یا جغرافی مسئلہ تھا۔ لیکن تمام مسلمانوں کا مسئلہ بنانے کے لیے اس کو اسلامی مسئلے کی حیثیت سے نمایاں کیاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جو تحریکیں اٹھیں، وہ تقریباً سب کی سب، بر اہِ راست یا بالواسطہ طورپر، فلسطین کے مسئلے کا رد عمل تھیں— الاخوان المسلمون، حماس، القاعدہ، تحریک طالبان، وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔
اِس قسم کی مسلم تحریکیں جوموجودہ زمانے میں مختلف علاقوں میںاُٹھیں، ان کے مجموعے کو صحوۃ إسلامیۃ (Islamic Ressurgence) کہاجاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تحریکیں صحوۃ فلسطینیۃ(Palestinian Ressurgence) ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ اِن تحریکوں میں براہِ راست طور پر شامل ہے، یا بالواسطہ طورپر۔
فلسطین کا مسئلہ اپنی فعّال صورت میں 1948 میں شروع ہوا۔ اِس کے بعد تمام دنیا کے مسلم رہ نما منفی رد عمل میں مبتلا ہوگئے۔ مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تشدد کی تحریکیں چل پڑیں۔ اِس نفرت اور تشدد کا پہلا نشانہ اسرائیل تھا اور اس کے بعد برطانیہ اس کا نشانہ بن گیا، کیوں کہ برطانیہ (Biritish Empire) نے بال فور ڈکلریشن کے تحت، اسرائیل کو قائم کیا تھا۔ اس کے بعد نفرت اور تشدد کا یہ مسلم سیلاب امریکا (U.S.A.) کے خلاف متحرک ہوگیا، کیوں کہ امریکا، فلسطین کے اِشو پراسرائیل کی سرپرستی کرنے لگا تھا۔ اِس کے بعد مسلمانوں کے منفی جذبات کا رخ انڈیا جیسے ملکوں تک پھیل گیا جو اسرائیل سے مصالحت کا تعلق قائم کیے ہوئے تھے، یہاں تک کہ منفی جذبات سے بھرے ہوئے یہ مسلمان خود مسلم حکومتوں کے خلاف ہوگئے، کیوں کہ مسلم حکومتیں اسرائیل کے خلاف وہ انتہائی اقدامات نہیں کررہی تھیں جو مسلمان اُن سے چاہتے تھے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ’’ارض‘‘ ظلم و جور سے بھر دی جائے گی اور پھر اس کو قسط اور عدل سے بھرا جائے گا۔ یہ ایک تعبیری اسلوب ہے۔ اِس سے مراد یہی مذکورہ صورتِ حال ہے۔ موجودہ زمانے میںعملاً یہی پیش آیا ہے کہ ارضِ فلسطین کے حوالے سے ، ساری دنیا کے مسلمان نفرت اور تشدد میںمبتلا ہوگئے۔ اِسی نفرت اور تشدد کو ’’ظلم اور جور‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد حدیث کے مطابق، جو ہونا ہے، وہ یہ کہ ’’ارض‘‘ کو قسط اورعدل سے بھر دیا جائے۔ یہ امن کی تعبیر ہے۔ اِس حدیث میں قسط اور عدل سے مراد امن پر مبنی معتدل فضا ہے جو مسلمانوں کے لیے دعوت کے مواقع کو کھولنے والی ہے۔اسلام کا سب سے بڑا کنسرن (concern) دعوت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ نفرت اور تشدد کا ماحول دعوت کے دروازوں کو بند کردیتا ہے، اور امن اور معتدل تعلقات کا ماحول دعوت کے دروازوں کو کھولنے والا ہے۔
حدیث میں جس واقعے کی پیشین گوئی کی گئی ہے، اس کا تعلق نہ جنگ سے ہے اور نہ حکومت سے، یعنی اس مطلوب کے حصول کے لیے نہ تو جنگ کی جائے گی اور نہ وہ حکومت کی طاقت سے قائم ہوگا۔ یہ پورا معاملہ ایک نظریاتی معاملہ ہوگا، یعنی ایک منفی آئڈیالوجی دنیا میں نفرت اور تشدد کے حالات پیدا کرے گی۔ اِس کے مقابلے میں ایک مثبت آئڈیالوجی ابھرے گی، جو دنیا میں امن اور اعتدال کا ماحول قائم کرے گی۔
موجودہ زمانے میںفلسطین کا مسئلہ ساری مسلم دنیا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر نفرت اور تشدد کا عمومی ماحول پیداہوا۔ اس کا اصل سبب بلا شبہہ فلسطین کا مسئلہ تھا۔ ایسی حالت میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا ایک ایسا حل تلاش کیا جائے جو نفرت اور تشدد کے موجودہ ماحول کو ختم کرسکتاہو۔ یہ حل عربوں یا مسلمانوں کی امنگوں(aspirations) کے مطابق نہیں ہوسکتا۔ یہ حل لازمی طورپر مبنی بر حقیقت فارمولے ہی کے ذریعہ ہوسکتاہے۔ اس معاملے میں عادلانہ حل صرف وہ ہے جو امن قائم کرنے والا ہو، نہ کہ لوگوں کے جذبات کو تسکین دینے والا۔ اِسی بنیادی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کامذکورہ بالا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اِس تجزیے کی روشنی میںاِس مسئلے کا جو قابلِ عمل منصفانہ حل ممکن ہے، اس کو ذیل میںدرج کیا جاتاہے۔
اِس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ عرب اور غیر عرب مسلمانوں کی طرف سے اِس معاملے میںاب تک جو باتیں کہی جاتی رہی ہیں، اُس میں ہمیشہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلسطین کا اِشو، ظالم اور مظلوم کا اشو ہے، یعنی اسرائیل یک طرفہ طورپر ظالم ہے، اور عرب یک طرفہ طور پر مظلوم۔ مسئلے کا بے لاگ جائزہ بتاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک غیر حقیقی تقسیم ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اِس معاملے میں عرب اور اسرائیل، دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ دونوں میں سے کسی کا کیس بھی عدل اور معقولیت پر مبنی کیس نہیں ہے۔ دونوں فریق ایک دوسرے پر جو الزام دیتے ہیں، وہ خود اُس میں برابری کے درجے میں شریک ہیں۔ خالص اصول کی روشنی میں، دونوں میں سے کسی کا کیس بھی موجودہ حالت میں، حق پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں اِس سلسلے میںمختصر طورپر چند متعلق پہلوؤں کاذکر کیا جاتا ہے۔
1 - انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یہود کے درمیان ایک تحریک اٹھی جس کو صہیونی تحریک (Zionism) کہاجاتا ہے۔ صہیون (Zion) دراصل یروشلم میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے۔ اِس پہاڑی کو یہودی لوگ مقدس مانتے ہیں اور اس کو وہ یہودی قومیت کا مرکزی نشان سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر ہرزل (Theodor Herzl) کی قیادت میں 1890 میں صہیونی تحریک شروع ہوئی۔ اِس کا پہلا انٹرنیشنل اجلاس 1897 میں سوئزر لینڈ کے شہر باسل (Basel) میں ہوا۔ صہیونی تحریک کا مقصد یہ تھا کہ یہودی ڈائس پورا (Jews in diaspora) کو فلسطین واپس لانا، اور یہاں ان کی نیشنل اسٹیٹ قائم کرنا۔ اِس تحریک کے نتیجے میں بال فور کمیشن قائم ہوا، اور اس کی سفارش کے مطابق، 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔
عرب رہ نماؤں نے متفقہ طورپر یہودی ڈائس پورا کی فلسطین واپسی کی مخالفت کی۔ یہ مخالفت اِس حد تک پہنچی کہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف متشددانہ جہاد شروع کردیا۔ یہ مخالفانہ تحریک بڑھتی رہی۔ ساری دنیا کا مسلم پریس، اور ساری دنیا کا مسلم مائنڈ عمومی طورپر اِس سے متاثر ہوگیا۔ کوئی بھی قابلِ ذکر مسلمان نہ تھاجو یہ کہے کہ یہودی ڈائس پورا کو فلسطین آنے کا حق ہے، جس طرح تمام تارکین وطن کو اپنے وطن واپس آنے کا حق ہوتا ہے۔
دوسری طرف، یہودیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ فلسطین میںجو عرب آباد تھے، ان کی بڑی تعداد اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطین چھوڑ کر باہر چلی گئی۔ یہ لوگ عرب ڈائس پورا (Arabs in diaspora) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن عربوں کو بھی اُسی طرح اپنے وطن واپس آنے کا حق ہے، جس طرح یہودیوں کو اپنے وطن واپس آنے کا حق تھا۔ لیکن یہودی، عربوں کے اِس حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
اِس طرح اِس معاملے میں دونوں گروہ مشترک طورپر ایک ہی غلطی کا شکار ہیں۔ عرب رہ نما، یہودی ڈائس پورا کو واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اِسی طرح یہودی رہ نما، عرب ڈائس پورا کو واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اب جو فریق یہ چاہتا ہو کہ اس کو اس کا یہ جائز حق ملے، اس کو سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے سابقہ موقف کی غلطی کا کھلا اعتراف کرے اور پھر دل سے فریقِ ثانی کو اِس معاملے میں اس کا حق دینے پر راضی ہوجائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس طرح کے متنازعہ معاملے میں دوسرے کا حق تسلیم کرنے ہی سے اپنا حق ملتا ہے۔ اگر آپ دوسرے کا حق تسلیم نہ کریں، تو آپ کو اپنا حق بھی ملنے والا نہیں۔
2 - 1948 میں بال فور ڈکلریشن کے مطابق، اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، تو اُس وقت یہود کو فلسطین کا نصف سے کم حصہ ملا تھا۔ بال فور تقسیم کے مطابق، عربوں کے پاس فلسطین کا نصف سے زیادہ حصہ تھا، جس میں یروشلم بھی شامل تھا۔ اسرائیل کا موجودہ توسیعی رقبہ 1967 کی عرب- اسرائیل جنگ کے بعد بنا ہے۔ اِس لحاظ سے بین اقوامی اصول کے مطابق، اسرائیل کی جائز حدودوہی ہیں جو 1948 میںاس کو حاصل تھیں۔ موجودہ توسیعی رقبہ، اسرائیل کا جائز حصہ نہیں۔ 1948 میں قائم ہونے والا اسرائیل، بین اقوامی طورپر ایک مسلّمہ ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ موجودہ توسیعی رقبہ، اسرائیل کے لیے غیر قانونی قبضہ (illegal occupation) کی حیثیت رکھتا ہے۔
عرب قیادت یہ مطالبہ کررہی ہے کہ اسرائیل اپنی 1967 کی حد پر واپس چلا جائے۔ عربوں کا یہ مطالبہ خالص اصولی اعتبار سے درست ہے، مگر عملی طورپر وہ ممکن نہیں۔کیوں کہ عرب رہ نما خود بھی اِس سے پہلے 1956 میں وہی فعل کرچکے ہیں جس کا ارتکاب، اسرائیل کی طرف سے 1967 میں ہوا۔ اِس لیے ’البادی أظلم‘ کے اصول کے مطابق، اِس بحرانی صورتِ حال کو پیدا کرنے کی زیادہ بڑی ذمے داری عرب قیادت پر آتی ہے۔ ایسی حالت میں عرب اور اسرائیل، دونوں کے درمیان کوئی حقیقی فرق نہیں۔ جب دونوں فریق یکساں طورپر ایک ہی غلطی کا شکار ہوں، تو کوئی ایک فریق دوسرے فریق کو ذمے دار ٹھہرانے کا حق کھو دیتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، اِسی نوعیت کی ایک سنگین غلطی وہ تھی جو اِس سے پہلے خود عرب قیادت سوئز کے معاملے میں کرچکی ہے۔ سوئز نہر (Suez Canal)ایک مصنوعی نہر ہے جو میڈی ٹیرینین (Mediterranean) کو ریڈ سی (Red Sea) سے ملاتی ہے۔ یہ نہر یورپین کمپنیوں نے (1859-69) بنائی تھی۔ پھر حکومتِ مصر نے اس کو برٹش اور فرنچ کمپنی (Suez Canal Co.) کو 99 سال کے لیے پٹّہ (lease) پر دے دیا۔ معاہدے کے مطابق، یہ پٹّہ 1968 میں ختم ہورہا تھا۔
لیکن عرب رہ نما اُس زمانے میںرومانوی جوش کا شکار تھے۔ اِس ماحول میںیہ ہوا کہ مصر کے سابق صدر جمال عبد الناصر(وفات: 1970 ) نے 1956 میں یک طرفہ طورپر اِس معاہدے کو ختم کردیا اور یورپین کمپنی کو بے دخل کرکے نہر سوئز کو حکومتِ مصر کے براہِ راست قبضے میں لے لیا۔
اِس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوا کہ برطانیہ اور فرانس دونوں سخت برہم ہوگئے۔ انھوںنے مصر کے خلاف انتقامی کارروائی کا منصوبہ بنایا۔ برطانیہ اور فرانس نے اس معاملے میں خاموشی کے ساتھ اسرائیل کی مدد کی اور اسرائیل کے ذریعے مصر پر 1967 میں باقاعدہ حملہ کرادیا۔ 1967 کی اِس جنگ میں مصر کو زبردست شکست ہوئی۔ اس کے بعد اسرائیل نے اپنا رقبہ تقریباً پانچ گنا حد تک بڑھا لیا۔
نہر سوئز کے معاملے میں حکومتِ مصر کی یہ کارروائی بین اقوامی قانون کے سر تا سر خلاف تھی۔عرب قیادت اگر صرف بارہ سال انتظار کرتی، تو 1968 میں نہر سوئز اس کو اپنے آپ مل جاتی، جس طرح ہانگ کانگ پٹہ کے تحت، حکومتِ برطانیہ کے قبضے میں تھا۔ لیکن چین نے اِس معاملے میں پیشگی طورپر قبضے کی کارروائی نہیںکی، بلکہ معاہدے کی مدت کے ختم ہونے کا انتظار کیا، چناں چہ 1997 میں جب یہ معاہدہ ختم ہوا تو فطری طورپر ہانگ کانگ، چین کو واپس مل گیا۔
1956 میں صدر جمال عبد الناصر کا نہر سوئز پر قبضہ کرنا کوئی شخصی فعل نہ تھا، بلکہ تمام عرب قیادت اِس میں شریک تھی۔ اِس واقعے نے عرب قیادت اور اسرائیل دونوں کو ایک سطح پر کھڑا کردیا ہے۔ عرب قیادت مطالبہ کررہی ہے کہ اسرائیل نے 1967 میں فلسطین کی مزید زمین پر ناجائز قبضہ (illegal occupation) کرلیاہے۔حالاں کہ خود عرب قیادت نے 1956 میں اِسی طرح نہرسوئز پر ناجائز قبضہ (illegal occupation) کرلیا تھا۔
خالص انصاف کی رُو سے دیکھا جائے، تو معاہدے کی خلاف ورزی، یا ناجائز قبضے کے معاملے میں عرب قیادت اور اسرائیل، دونوں ایک ہی فعل کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب دو فریق یکساں طورپر ایک ہی غلطی کا شکار ہوں، تو کسی ایک فریق کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ دوسرے فریق کو مجرم ٹھہرائے، جب کہ وہ خود بھی اُسی جرم میں مبتلا ہو۔
اگر کوئی ایک فریق یہ چاہتا ہو کہ وہ دوسرے فریق کی غلطی کی اصلاح کرے، تو مطالبہ کرنے والے فریق کو سب سے پہلے خود اپنی غلطی کا کھلے طورپر اعتراف کرنا چاہیے۔ اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کیے بغیر، دوسرے کی غلطی کا اعلان کرنا ایک مضحکہ خیر کارروائی ہے، وہ نہ کوئی درست کام ہے اور نہ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہونے والا ہے۔
3 - عرب رہ نما، بلکہ تمام مسلم رہ نما مسلسل طورپر یہ کہتے رہے ہیں کہ اسرائیل ایک ظالم ریاست ہے۔ وہ فلسطینی عربوں کے اوپر بم برساتا ہے۔ اسرائیلی فوج ان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناتی ہے، مگر عین اُسی وقت خود عرب اور غیر عرب مسلمان تشدد کا یہی فعل کررہے ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیل کو اپنے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، بلکہ وہ جس کو اسرائیل کا حلیف دیکھتے ہیں، اس کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، حتی کہ جہاں ان کے لیے بم اور گولی کا موقع نہیں ہوتا، وہاں وہ خود کش بم باری کے ذریعے ان کو جان اور مال کی ہلاکت میں مبتلا کررہے ہیں۔ مسلم رہ نما، عرب اور غیر عرب دونوں، اسرائیل کے تشدد کا تو خوب تذکرہ کرتے ہیں، لیکن وہ کبھی عربوں اور مسلمانوں کے تشدد کی مذمت نہیںکرتے۔
اِس صورتِ حال نے مسلم قیادت اور اسرائیل دونوں کو ایک سطح پر کھڑا کردیا ہے۔ دونوں یکساں طورپر دہشت اور تشدد پھیلانے کے ذمے دار ہیں۔ ایسی حالت میں دونوں نے اپنے آپ کو دوسرے فریق کے خلاف بولنے سے اخلاقی طورپر محروم کرلیاہے۔ اب اگر دونوں میں سے کوئی فریق، دوسرے کو پُر امن بنانا چاہتا ہے، تو سب سے پہلے اس کو خود پر امن بننا پڑے گا۔ اور اِس معاملے میں پرامن بننے کی پہلی شرط یہ ہے کہ خود اپنے لوگوں کے دہشت اور تشدد کی کھلی مذمت کی جائے۔ اپنے لوگوں کی غلطی پر خاموش رہنا، اور دوسرے لوگوں کی طرف سے اُسی قسم کی غلطی پر بولنا، ایک مجرمانہ فعل ہے۔ اِس کا کوئی مثبت نتیجہ خدا کی اِس دنیا میں نکلنے والا نہیں۔
خلاصہ
اوپر کے تجزیے سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ فلسطین کے معاملے میں عرب اور اسرائیل کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ اُن میں سے ایک فریق یک طرفہ طورپر ظالم ہے اور دوسرا فریق یک طرفہ طورپر مظلوم۔ اِس معاملے میں صحیح تقسیم یہ ہے کہ اصولی طورپر دونوں فریق یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک فریق جس فعل کاالزام دوسرے فریق کو دے رہا ہے، وہ خود بھی ٹھیک اُسی فعل میں مبتلا ہے۔
ایسی حالت میں فلسطین میں امن کا قیام اُسی وقت ہوسکتا ہے، جب کہ دونوں فریق حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کریں، اور اس معاملے میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق سے جو کچھ لینا چاہتا ہے، وہ خود بھی دوسرے فریق کو وہی چیز دینے کے لیے تیار ہو۔ یہ بلا شبہہ لینے اور دینے (give and take) کا معاملہ ہے۔ اِس معاملے میں یہی واحد مبنی بر حقیقت پالیسی ہے۔ کوئی دوسرا فارمولا اِس معاملے میں ہر گز قابلِ عمل نہیں۔
واپس اوپر جائیں