اعظم گڑھ کا سفر
ایک پروگرام کے تحت، اعظم گڑھ (یوپی) کا سفر ہوا۔ میرے سوا اِس سفر میں ہماری ٹیم کے پانچ افراد اور شریک تھے— مولانا محمد ذکوان ندوی، مسٹر رامش صدیقی، سعدیہ خان، نغمہ صدیقی، ڈاکٹرفریدہ خانم۔ ہم لوگ 29 دسمبر 2008 کی شام کو دہلی سے اعظم گڑھ گئے، اور 2 جنوری 2009 کو دہلی واپس آئے۔ یہ سفر دہلی- اعظم گڑھ ایکسپریس کے ذریعے ہوا۔ دہلی سے اعظم گڑھ کی مسافت تقریباً آٹھ سو کلو میٹر ہے۔ اِس سفر کا انتظام مسٹر شکیل احمد خاں (مقیم شارجہ) نے کیا تھا۔
اعظم گڑھ میرا وطن ہے۔ وہاں میرے خاندان کے کچھ لوگ رہتے ہیں۔ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے یہ سفرہوا۔ پچھلے تقریبا پچاس برس سے میرا طریقہ یہ تھا کہ میں شادیوں میں شرکت نہیں کرتا تھا۔ کیوں کہ میں شادیوں میں شرکت کو وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔ حال میں مجھے ایک حقیقت کی دریافت ہوئی جو لمبی مدت سے مجھ پر مخفی تھی، وہ یہ کہ شادی کی تقریب دو چیزوں کا نام ہے— ایک، شادی اور دوسرے، اجتماع (gathering) ۔ میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ اِن دونوں پہلوؤں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا چاہیے۔ شادی کی تقریب اور اس کی دھوم سے اب بھی مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔ لیکن ایسے موقع پر لوگوں کا جو اجتماع ہوتا ہے، وہ ایک داعی کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِسی نظریے کے تحت ہم لوگ وہاں گئے۔ ہمارے ساتھ پانچ کارٹن میں اسلامی لٹریچر تھا۔ ہمارے ساتھیوں نے وہاں لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اُن کو ہمارے یہاں کی مطبوعہ اسلامی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔
دہلی سے اعظم گڑھ کے لیے ہمارا سفر جس ٹرین کے ذریعے ہوا، اُس کا نام ’’کیفیات ایکسپریس‘‘ تھا۔ ٹرین کا یہ نام اعظم گڑھ کے ایک مسلم شاعر کیفی اعظمی (وفات: 2002 ) کے نام پر رکھا گیا ہے۔ وہ مشہور فلم اسٹار شبانہ اعظمی کے والد تھے۔ اِس ٹرین کے ذریعے دہلی اور اعظم گڑھ کے درمیان پہلی بار براہِ راست سفر ممکن ہوگیا ہے۔
حال میں پاکستان کی ایک ٹیلی ویژن کمپنی (Geo TV) نے ٹیلی فون پر میرا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اُن کا ایک سوال یہ تھا کہ انڈیا میںمسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ تعصب کیا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت انھوں نے یہ دیا کہ شبانہ اعظمی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میں نے بمبئی کے ہندوعلاقے میں ایک رہائشی فلیٹ لینا چاہا تھا، لیکن اُس کے مالکان نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم کسی مسلمان کو فلیٹ نہیں دے سکتے۔
میں نے انٹرویور سے کہا کہ یہ اشتعال انگیز حدتک بے معنی بات ہے۔ شبانہ اعظمی اور ان کی فیملی نہایت عزت کے ساتھ انڈیا میں رہتی ہے۔ ان کو کئی نیشنل ایوارڈ دیاگیا ہے۔ اُن کے والد کے نام پر باقاعدہ ایک ایکسپریس ٹرین جاری کی گئی ہے۔ ایسی حالت میں اُن کا یہ کہنا بالکل لغو بات ہے ۔ اور اگر بالفرض ایسا کوئی واقعہ بمبئی میں پیش آیا ہو تو وہ ایک استثناء (exception) ہوگا، اور ایک استثنائی واقعے کو جنرلائز (generalize) کرنا بلاشبہہ ایک مجرمانہ فعل کی حیثیت رکھتا ہے۔
دہلی سے ہم لوگ شام کو تقریباً آٹھ بجے روانہ ہوئے اور اگلے دن بارہ بجے اعظم گڑھ پہنچے۔ اِس سفر میں میرے ساتھیوں نے کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اُنھیں اسلامی لٹریچر دیا۔ اِن میں ٹرین کا ٹکٹ کلیکٹر بھی شامل ہے۔ ہماری ٹیم کے لیے یہ سفر عملاً سفری کلاس (class on wheel) کے ہم معنیٰ تھا۔ میں اپنے ساتھیوں سے مختلف قسم کے موضوعات پر بات کرتا رہا۔
ایک موضوع یہ تھا کہ کنڈیشننگ اور ڈی کنڈیشننگ کیا ہے۔ میںنے کہا کہ ہر عورت اور مرد کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ ماحول کے اثر سے کوئی منفی یا غیر منفی یا غیر واقعی بات اس کے ذہن میں آجاتی ہے۔ آدمی اگر اس پر سوچے یا دوسروں سے اس کا چرچا کرے تو وہ بات اس کے تھنکنگ پراسس میں شامل ہوجائے گی اور پھر دھیرے دھیرے وہ اس کے ذہن کا ایک مستقل جز بن جائے گی۔ اِسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اِس قسم کی بات کو فوراً ہی اپنے ذہن سے نکال دے۔ ذہن سے نکالنے کی اِسی تدبیر کا نام ڈی کنڈیشننگ ہے۔
میںنے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ حال میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو کمپیوٹر سائنس کے ایکسپرٹ ہیں۔ اُن سے میں نے کئی اہم باتیں کہیں، مگر وہ ان کو اخذ (grasp) نہ کرسکے۔ میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ ان کی دنیوی کامیابی نے شاید اُن کو احساسِ برتری (superiority complex) میں مبتلا کردیا ہے۔ اِس بنا پر وہ میری بات کو ماننے پر تیار نہیں ہورہے ہیں۔
میں نے اپنے اِس احساس کو دوسروں سے بیان نہیں کیا، بلکہ اُس پر سوچنے لگا۔ میرا مزاج یہ ہے کہ میں کسی کے بارے میں اس کی نیت کو لے کر رائے قائم نہیں کرتا، بلکہ خالص عقلی انداز میں اس کی توجیہہ کرتاہوں۔ چناں چہ میں نے اِس واقعے کو لے کر سوچنا شروع کردیا۔ آخر کار مجھ پر ایک نئی حقیقت کھلی جو اِس سے پہلے میرے اوپر پوری طرح واضح نہ تھی۔ وہ یہ کہ فطری تقسیم کے مطابق، ذہانت کی دو قسمیں ہیں— فکری ذہانت(intellectual intelligence) اور پروفیشنل ذہانت (professional intelligence) ۔ اُس وقت مذکورہ صاحب سے میں نے جو بات کہی، اُس کا تعلق فکری ذہانت سے تھا، مگر وہ اپنی ذہنی ساخت کے اعتبار سے پروفیشنل ذہانت والے آدمی تھے۔ ایسا آدمی ٹکنکل پوائنٹ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، لیکن فکری بات کو سمجھنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ اپنی گفتگو میں اِس فرق کو ملحوظ رکھے۔ غالباً اِسی بات کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: کلِّم الناسَ علی قدر عقولہم-یعنی لوگوں سے ان کے فہم کے مطابق بات کرو۔
مذکورہ واقعے کے مطابق، کنڈیشننگ کا سبب اکثر حالات میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کسی واقعے کو غلط زاویہ نگاہ (wrong angle) سے دیکھتا ہے اور اس کے مطابق، اپنی ایک رائے قائم کرلیتا ہے جو واقعے کے مطابق نہیں ہوتی۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ چیزوں کو ہمیشہ صحیح زوایۂ نگاہ (right angle) سے دیکھنے کی کوشش کرے۔ اور اگر کوئی غلط رائے اس کے ذہن میںآجائے تو وہ فوراً اپنا محاسبہ (introspection) کرے اور اِس طرح اپنے ذہن کو درست کرے۔ یہ محاسبہ بے رحمانہ محاسبہ ہونا چاہیے، ورنہ ڈی کنڈیشننگ کا عمل درست طورپر انجام نہ پاسکے گا۔
آج ( 29 دسمبر 2008) کے اخبار میں ایک خبر یہ تھی کہ مشہور امریکی رائٹر سموئل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington)کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 81 سال ـتھی۔ ان کو اپنی ایک کتاب کی بنا پر کافی شہرت ملی۔ اِس کتاب کا نام یہ تھا:
The Clash of Civilization and the Remaking of World Order (1996)
سموئل ہنٹنگٹن کے یہ خیالات پہلے ایک آرٹکل کی صورت میںفارین افیرس (Foreign Affairs) میگزین میں چھپے ۔ اس کے بعد مزید اضافے کے ساتھ اُس کو کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ مصنف نے اپنی اِس کتاب میں بتایا تھا کہ مغربی دنیا اور اسلامی دنیا کے درمیان ٹکراؤ (conflict) ناگزیر ہے جس طرح اِس سے پہلے وہ صلیبی حملہ(crusade) کی شکل میں پیش آیاتھا۔ 11 ستمبر2001 کو کچھ مسلم انتہا پسندوں نے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملہ کرکے اس کو تباہ کر دیا اور اس کے بعد برابر اِس طرح کے واقعات پیش آتے رہے تو سمجھ لیاگیا کہ ہنٹنگٹن کے بیان کے مطابق، مغربی دنیا اور اسلامی دنیا کے درمیان دوسری کروسیڈ شروع ہوچکی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹکراؤ کسی نہ کسی صورت میں پیش آچکا ہے، لیکن یہ ٹکراؤ اسلام اور مسیحیت کے درمیان نہیں ہے، بلکہ وہ مسلم قوم اور مسیحی قوم کے درمیان ہے۔ وہ ایک قومی ظاہرہ ہے نہ کہ معروف معنوں میں کوئی مذہبی ظاہرہ۔
راستے میں شاہ گنج کا ریلوے اسٹیشن آیا۔ یہاں ٹرین رکی تو شاہ گنج سے متعلق بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ شاہ گنج میں پہلے سے بڑی لائن (broad guage) تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں اسٹیشن کے قریب ریلوے لائن کے کنارے کھڑا تھا۔ اِس دوران ایک ایکسپریس ٹرین وہاں سے گزری تو اچانک میری زبان سے نکلا— خدا کی قدرت کا دوڑتا ہوا نشان۔ ٹرین جب میدانی علاقوں سے گزرتی ہے تو ریلوے لائن کے دونوں طرف پھیلے ہوئے قدرتی مناظر میرے لیے ایمان میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔
آزادی سے پہلے (1945) اِسی شاہ گنج سے میں نے ایک انوکھا سفر کیا تھا۔ میں اپنے گاؤں سے پیدل روانہ ہو کر شاہ گنج پہنچا۔ یہ میرے تلاشِ حق کا زمانہ تھا۔ میں چل رہا تھا اور میری زبان پر یہ شعر جاری تھا:
چلا ہے شوق بے خبر، جنوں میں جانئے کدھر نہ کوئی منزلِ سفر، نہ قید کچھ مقام کی
شاہ گنج اسٹیشن سے میں ایک ایکسپریس ٹرین سے سوار ہوا جو اُس وقت سیدھی لاہور (پاکستان) جاتی تھی۔ یہ ایک عجیب سفر تھا۔ میرے پاس غالباً واپسی کا کرایہ بھی نہ تھا۔ میرے ہاتھ میں صرف ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ لیکن میں ایک نامعلوم شوق کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ میرا یہ سفر جزئی طورپر سوامی وویکا نند (وفات: 1902 ) کے سفر سے مشابہ تھا۔ وہ 1893 میں بحری جہاز کے ذریعے کلکتہ سے امریکا (شکاگو) کے لیے روانہ ہوئے۔ اِس سفر میںاُن کے ایک دوست نے ایک طرف کے کرایے کا انتظام کردیا تھا اور سوامی وویکا نند کے پاس واپسی کے کرایے کے لیے پیسے نہ تھے۔ امریکا کے ایک شخص کے تعاون سے سوامی وویکا نند اپنے وطن (کلکتہ) واپس آئے۔ اِسی طرح میں لاہور کی ایک ٹیلرنگ شاپ (B. Lilaram & Sons) کے تعاون سے اعظم گڑھ واپس آیا۔ اِس سفر کی بعض باتیں راقم الحروف کی کتاب ’’ہند-پاک ڈائری‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
30 دسمبر 2008 کو ہم لوگ اعظم گڑھ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے۔ پہلے یہاں میٹر گیج (metre gauge) ہوا کرتی تھی۔ اب یہاں شاہ گنج اور مئو کے درمیان براڈ گیج (broad gauge) بن گئی ہے۔ اب یہاں سے کئی گاڑیاں دور کی مسافت (distant destination) تک کے لیے جاتی ہیں۔مثلاً اعظم گڑھ سے دہلی کے لیے اور اعظم گڑھ سے بمئی کے لیے، وغیرہ۔ لیکن جہاں تک اسٹیشن کی عمارت کا تعلق ہے، اُس میں کوئی بڑی توسیع نہیں ہوئی ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ محکمہ ریلوے کی طرف سے یہاں ایک بڑا ریلوے اسٹیشن بننے والا ہے۔
اعظم گڑھ ریلوے اسٹیشن پر ڈاکٹر احمد صفی انصاری اور مسٹر ظہیر الاسلام ظلی موجود تھے۔ یہ لوگ اِس علاقے کے ذمے دار افراد ہیں اور مفید سماجی کام انجام دے رہے ہیں۔ اِس علاقے میں دونوں حضرات کو معزّز حیثیت حاصل ہے۔ اِن لوگوں کے ذریعے اِس علاقے میں کئی پروگرام ہوئے۔
اِس بار میں تقریباً چالیس سال کے بعد اِس علاقے میں آیا تھا۔ اِس سے پہلے مجھے بار بار اعظم گڑھ کے ریلوے اسٹیشن سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک بار میں اعظم گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ کی ونڈو پر کھڑا ہوا تھا۔ ایک دیہاتی آدمی ٹکٹ لینے کے لیے آیا۔ اُس کے پاس نوٹ نہیں تھے۔ وہ اپنی مٹھی میں بہت سی ریزگاری لیے ہوئے تھا۔ اُس نے ونڈو پر جب ٹکٹ لینے کے لیے ریز گاری پیش کی تو ونڈو کے پیچھے بیٹھا ہوا کلرک غصہ ہوگیا۔ اُس نے یہ کہہ کر اُس کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا کہ اتنی ساری ریزگاری میں کب تک گنوں گا۔ میںنے اپنی جیب سے نوٹ نکالے اور اُس دیہاتی آدمی سے کہا کہ یہ نوٹ تم لے لو اور اپنی ریزگاری مجھے دے دو۔آدمی کچھ بولا نہیں،وہ خاموشی سے وہاں سے ہٹ کر باہر چلا گیا۔اُس دیہاتی آدمی سے دوبارہ میری گفتگو نہ ہوسکی۔ میںنے سوچا کہ اُس آدمی نے ایسا کیوں کیا۔میری سمجھ میں آیا کہ اِس کا سبب بے اعتمادی (mistrust) ہے۔ آج کل کے حالات کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے اوپر اعتماد باقی نہیں رہا۔ اُس دیہاتی آدمی نے غالباً یہ سمجھا کہ میں اُس کو جعلی نوٹ دے کر اس کی ریزگاری حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بے اعتمادی بلا شبہہ موجودہ زمانے میں ہمارے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اپنے تجربے کے مطابق، یہاں میں ایک بات لکھنا چاہوں گا۔ جب کوئی ادارہ یا کوئی تنظیم کسی شخصیت کو اپنے یہاں بلاتی ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے شکایت لے کر واپس آتے ہیں۔ میں عرصے تک اِس پر غور کرتا رہا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اپنے موجودہ سفر میں میں نے اس کی حقیقت کو سمجھا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ اگرچہ شکایت دوسروں کی کرتے ہیں، لیکن غلطی خود ان کی اپنی ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی آپ کو اپنے علاقے میں آنے کی دعوت دیتا ہے، جیسا کہ میرے ساتھ اِس سفر میں ہوا، تو فطری اصول کے اعتبار سے وہ صرف دو چیزیں آپ کو فراہم کرتا ہے— ایک، انفراسٹرکچر (infrastructure)، یعنی سفری انتظام، قیام کی سہولتیں اور ضروری اسباب کی فراہمی، وغیرہ، اس کو انفراسٹرکچر کہا جاسکتا ہے۔ دوسری چیز جو مدعو شخصیت کو اُس سے ملتی ہے، وہ اُس کی علاقائی ساکھ (goodwill) ہے، جو مدعو شخصیت کے لیے بے حد کار آمد ہوتی ہے۔ فطری طورپریہی دو چیزیں ہیں جو دعوت دینے والا ادارہ آپ کو فراہم کرتاہے۔ اِس کے بعد دوسری چیز وہ ہے جس کا تعلق آپ کے اپنے پروگرام سے ہے۔ یہ آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا کام ہے کہ وہ آپ کے پروگرام کی منصوبہ بندی کریں۔ اِس معاملے میں آپ کی منصوبہ بندی جتنی زیادہ اچھی ہوگی، اتنا ہی زیادہ آپ کا پروگرام بھی کامیاب ہوگا۔ اگر آپ کا پروگرام زیادہ کامیاب نہ ہو تو اس کا سبب خود اپنی منصوبہ بندی میں ڈھونڈئیے۔ دوسروں کو ہرگز اُس کا ذمّے دار نہ ٹھیرائیے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ غیرضروری طورپر شکایت کی نفسیات میں مبتلا ہوجائیں گے۔ اور اِس قسم کی شکایت بلا شبہہ عقل کے خلاف بھی ہے اور انسانی شرافت کے خلاف بھی۔
اعظم گڑھ ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک گاؤں ہے۔ اس کا نام پَلَھنی ہے۔ آزادی سے پہلے کے زمانے میں ایک کوی (شاعر) نے ایک طنزیہ کہانی کو نظم کیا تھا۔ اس میں بتا گیا تھا کہ اعظم گڑھ کے ایک دیہاتی آدمی نے اپنے بیٹے کو انگریزی تعلیم دلوائی۔ اس کے بعد اُس کے بیٹے کو بمبئی میںایک اعلیٰ عہدہ مل گیا۔ باپ کو اِس خبر سے خوشی ہوئی۔ وہ ٹرین کے ذریعے سفر کرکے بمبئی گیا۔ وہاں جب وہ دفتر میں پہنچا اور اپنے بیٹے سے ملا تو بیٹا اُس وقت سوٹ بوٹ میں ملبوس تھا، اُس نے اپنے دیہاتی باپ سے اِس طرح اعراض کیا جیسے کہ وہ اس کو پہچانتا نہیں۔ باپ کو اِس واقعے سے بہت تکلیف ہوئی۔ وہ واپس ہوکر بمبئی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا، لیکن اُس کے پاس واپسی کا کرایہ نہ تھا۔ اتفاق سے ایک انگریز اُس کو مل گیا۔ انگریز کو اس کی حالت پر ترس آیا۔ اُس نے کہا کہ چلو میں تم کو ٹکٹ دلوا دیتا ہوں۔ اُس نے دیہاتی آدمی سے جگہ کا نام پوچھا۔ اُس نے کہا کہ پلھنی۔ وہ انگریزونڈو پر گیا اور کلرک سے کہا:
اک ٹکٹ پلھنی کا ہونا مانگتا جس سے بڈھا گھر کو جانا مانگتا
یہ بات سن کر کلرک نے کہا کہ پلھنی نام کا تو کوئی ریلوے اسٹیشن موجود نہیں، پھر بڑی مشکل سے معلوم ہوا کہ پلھنی سے مراد اعظم گڑھ ہے۔ انگریز نے اپنی طرف سے پیسہ ادا کرکے اعظم گڑھ کا ایک ٹکٹ لیا اور دیہاتی آدمی کو واپس اعظم گڑھ بھیج دیا۔
اعظم گڑھ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں ایک مسلم نواب تھے، اُن کانام اعظم شاہ تھا۔ اُن کے نام پر تقریباً 1665 ء میں شہر اعظم گڑھ بسایا گیا۔ نواب اعظم شاہ کی فیملی کے لوگ اب بھی شہر کے ایک حصے میں رہتے ہیںجس کا نام سِدھاری ہے۔ میرے استاد مولانا نجم الدین اصلاحی (وفات: 1994 ) اپنے آخری زمانے میں اِسی سدھاری کی مسجد میں رہتے تھے۔ مولانا نجم الدین اصلاحی کی دو کتابیں مشہور ہیں— یادگارِ سلف، مکتوباتِ شیخ الاسلام۔
اعظم گڑھ ریلوے اسٹیشن سے ہم لوگ دو بڑی کاروں کے ذریعے قافلے کی صورت میں شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں کئی ایسے مقامات آئے جن سے زمانہ ماضی کی کچھ یادیں تازہ ہوگئیں۔ مثلاً راستے میں سڑک کے کنارے ایک قدیم اسکول ہے جو مشن اسکول (قائم شدہ1884 ) کے نام سے مشہور ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن کے زمانے میں ایک بار میں اِس اسکول کے سامنے سے گزرا۔ میںنے دیکھا کہ وہاں طلبا کی بھیڑ ہے۔ وہ ایک ونڈو کے سامنے لائن لگائے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں طلبا کو انعامات تقسیم کیے جارہے ہیں۔ خوش فہمی کے تحت میں بھی اِس لائن میں کھڑا ہوگیا۔ چلتے ہوئے جب میں ونڈو کے پاس پہنچا تو اندر بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا— آئڈنٹٹی کارڈ دکھاؤ۔ میںنے کہا کہ میرے پاس تو کوئی آئڈنٹٹی کارڈ نہیں۔ اِس کے بعد اُس نے مجھ کو ونڈوسے ہٹا دیا۔
اُس وقت تو میں نے سادگی کے تحت ایسا کیا تھا۔ بعد کو میں نے سوچا کہ ایسا ہی معاملہ آخرت میں پیش آنے والا ہے۔ وہاں بھی لوگوں کو خدا کے انعامات تقسیم کیے جائیں گے۔بھیڑ کا ہر شخص چاہے گا کہ اس کو یہ خدائی انعام حاصل ہوجائے، اُس وقت ایسا ہوگا کہ کچھ لوگ جن کے پاس استحقاقی کارڈ ہوگا، اُن کو انعام تقسیم کرنے والے فرشتے مبارک باد دیتے ہوئے انعام عطا کریں گے اور بہت سے لوگ وہ ہوں گے جن کے ساتھ استحقاقی کارڈ موجود نہ ہوگا اور وہ اُس دن خدائی انعام کو پانے سے محروم رہ جائیں گے۔ یہ صرف خدا کو معلوم ہے کہ آخرت کے دن کون مستحق قرار پائے گا، اور کون ابدی طورپر استحقاق سے محروم ہو کر قابلِ رد قرار دے دیاجائے گا۔
آگے بڑھے تو وہ مقام آیا جس کو لال ڈِگّی کہاجاتا ہے۔ یہاں شہر اور ٹونس (Tawans) ندی کے درمیان ایک لمبا اوراونچا بند ہے جو انگریزی حکومت کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ اِس مقام سے میری ایک گہری یاد داشت وابستہ ہے۔ اِس یاد کو میں نے اپنے ایک مضمون میںاِس طرح لکھا تھا:
’’ہم اس وقت ایک ہول ناک طوفان کے سرے پر کھڑے ہیںجس نے چند ہفتوں کے اندر اعظم گڑھ کی تقریباً پانچ سو بستیوں کو ویران کردیا ہے۔ شہر کا یہ حال تھا کہ دریا کے پانی نے اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ جس کے درمیان پورا شہر بالکل ایک جزیرہ بن گیا تھا۔ بند کے آس پاس رہنے والے لوگ اپنے گھروں کو اِس طرح خالی کررہے تھے کہ اُن کے گھروں کی گرتی ہوئی دیواریں اُن کو رخصت کررہی تھی۔ اِس سیلاب نے پچھلے سو برس کے ریکارڈ توڑ دیے۔
اعظم گڑھ شہر کے گرد ایک بہت بڑا بند ہے جو برٹش دور میں 1871 کے تاریخی سیلاب کے بعد بنایا گیا تھا۔ اِس بند سے اُس وقت شہر کی قسمت بندھی ہوئی تھی۔ اِس بند کے دوسری طرف شہر کی عام سطح سے کئی گز اونچا پانی لگا ہوا تھا۔ ہر گھر میںاسی کا چرچا تھااور ہر شخص کی زبان پر اسی کا تذکرہ تھا، یہاںتک کہ 26 اور 27 جولائی 1955 کی درمیانی رات کو ضلع کلکٹر کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے یہ اعلان ہوا— ’’لال ڈگی کا بند ابھی ٹوٹنا چاہتا ہے۔ آپ لوگ اپنی جانوں کو بچانے کے لیے اونچی جگہوں پر چلے جائیں‘‘۔ اُس وقت رات کے ایک بجے تھے۔ سارا شہر جاگ اٹھا اور عجیب سنسنی پھیل گئی۔ لوگ اپنے کچے اور پکے گھروں سے نکل کر بند کی طرف دوڑے۔ سیکڑوں آدمیوں نے پھاوڑا اور بوریا لے کر اُس جگہ مٹی ڈالنی شروع کردی، جہاں سے بند پھٹ گیاتھا۔ ایسے ایسے لوگ جنھوں نے شاید زمین پر کبھی ننگے پاؤں قدم بھی نہ رکھا ہوگا، وہ اپنے سروں پر مٹی کا ٹوکرا لے کر ڈھو رہے تھے۔ درجنوں پیٹرومیکس کی روشنی میں ساری رات کام ہوا اور دوسرے دن دوپہر تک ہوتا رہا۔ بالآخر انجینئر نے کہہ دیا کہ اب بند قابو سے باہر ہے۔ آخر کار بارہ بجے دن کے بعد بند ٹوٹ گیا اور پانی سڑکوں پر بہنے لگا۔ سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ دکانیں بند ہوگئیں۔ لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف بھاگ رہے تھے اور پانی ان کے پیچھے اِس طرح دوڑ رہا تھا کہ گویا وہ اُن کا پیچھا کررہا ہے۔ زندگی کے مسائل سمٹ کر بس سیلاب کے گرد جمع ہوگئے ، اور چند دنوں کے لیے شہر میں قیامت کا منظر دکھائی دینے لگا۔‘‘ (قرآن کا مطلوب انسان، صفحہ 61 )
آگے بڑھتے ہوئے ہم لوگ شبلی نیشنل کالج کے کیمپس میں داخل ہوئے۔ یہاں کالج کے گیسٹ ہاؤس میں میرے لیے اور میرے ساتھیوں کے لیے قیام کا انتظام کیاگیا تھا۔یہ گیسٹ ہاؤس جدید طرز پر بنایا گیا ہے۔ اُس میں ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ اِس گیسٹ ہاؤس کے کمروں کو رزرو کرنے کے لیے ہم اِس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر افتخار احمد کے پاس گئے۔ اُن کو جب میرا نام بتایاگیا تو انھوں نے کہا کہ اُن سے اور ان کی ٹیم سے کوئی کرایہ نہیں لیا جائے گا۔ جب تک وہ یہاں ہیں،وہ ہمارے مہمان ہیں۔ میزبان نے بتایا کہ گیسٹ ہاؤس کے اِن کمروں کا یومیہ کرایہ پندرہ ہزار روپئے ہے۔
اِس تعلیمی ادارے کو مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے 1883 میں قائم کیا تھا۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی خاندانی زمین اس کے لیے وقف کی تھی اور اس کے لیے اپنے رشتے داروں کو بھی راضی کیا تھا۔ پہلے یہ شبلی نیشنل اسکول کے طورپر قائم ہوا تھا۔ اب ترقی کرکے وہ ایک بڑے ڈگری کالج کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اِس وقت اُس کے تین بڑے شعبے ہیں— پرائمری اسکول، ہائی اسکول، ڈگری کالج۔ شبلی نیشنل کالج کے گیسٹ ہاؤس میں مولانا نظام الدین اصلاحی اور جامعۃ الفلاح (بلریا گنج) کے کئی اساتذہ ملاقات کے لیے آگئے۔ اُن سے دیر تک گفتگو ہوئی۔ اِسی گیسٹ ہاؤس میں ڈاکٹر خورشید احمد سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔
30 دسمبر 2008 کو دوپہر کے کھانے کا انتظام سیتا پور آنکھ اسپتال (ہرّا کی چُنگی) کے سامنے ایک مقام پر کیا گیا تھا۔اِس موقع پر بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمارے ساتھیوں نے یہاں ایک بڑے میز پر اردو، ہندی اور انگریزی زبان میں چھپا ہوا دعوتی لٹریچررکھ دیا۔ لوگوں نے اس کو نہایت شوق سے لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ سارا لٹریچر ختم ہوگیا۔ اِس موقع پر کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر مطالعے کے لیے دیاگیا۔
30 دسمبر 2008 کو شام کے کھانے کا انتظام ڈاکٹر خورشید احمد کے مکان (9 ۔ بدرقہ) پر تھا۔ یہ مکان میرے بڑے بھا ئی عبد العزیز خاں (وفات: 1988 ) نے بنوایا تھا۔ ایک عرصے تک میرا قیام اِسی مکان میں رہا ہے۔ اِس مکان سے میری کئی یادیں وابستہ ہیں۔ ایک قابلِ ذکر واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے—میرے بھائی صاحب نے جب یہ مکان خریدا تو وہاں پڑوس میںایک ہندو ٹھیکے دار کا مکان تھا۔ دونوں کے درمیان ایک خالی جگہ تھی۔ میرے بھائی نے یہ گھر ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر گوڑ سے خریدا تھا۔ اُس وقت یہ گھر ناتمام تھا۔ بعد کو میرے بھائی نے موجودہ حالت میں اس کی تعمیر مکمل کرائی۔اُس گھر سے متصل ایک خالی زمین تھی۔ اس کا رقبہ 50x27 فٹتھا۔ میرے بھائی کا خیال تھا کہ یہ زمین اُن کی اپنی زمین ہے اور وہ گھر کے ساتھ شامل ہے۔ چناں چہ انھوں نے اِس زمین کی گھیرابندی کرکے اُس کو اپنے گھر میں شامل کرلیا اور اس میں کچھ پودے لگا دیے۔
میرے بھائی کے پڑوس میں ایک ہندو ٹھیکے دار کا مکان تھا۔ انھوں نے اِس پر اعتراض کیا۔ انھوںنے کہا کہ یہ زمین میری ہے۔ آپ کو اِس کی گھیرا بندی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اِس طرح اِس زمین پر دونوں کے درمیان ایک نزاع قائم ہوگئی۔
یہ جن سنگھ کا زمانہ تھا۔ ہندو ٹھیکے دار جن سنگھ کے مقامی لیڈروں کے پاس گئے اور اُن سے شکایت کی کہ میرے پڑوس میںایک مسلمان ہے، اُس نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ سن کر جن سنگھ کے لوگ بھڑک اٹھے۔ وہ اپنے حامی نوجوانوں کی ایک بھیڑ لے کر ہمارے بھائی کے گھر کے سامنے پہنچ گئے اور سڑک پر کھڑے ہو کر اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے۔
اُس وقت ہمارے بھائی کے پاس لائسنس یافتہ دو بندوقیں تھیں، نیز اُن کے آفس میںکام کرنے والے ایک درجن سے زیادہ لوگ اُس وقت وہاں موجود تھے۔ ہمارے بھائی نے نہ بندوق اٹھائی اور نہ اپنے آدمیوں کو ساتھ لیا۔ وہ تنہا باہر نکل کر سڑک پر پہنچے۔ یہاں بھی انھوں نے بھیڑ سے خطاب نہیں کیا، بلکہ پہلا سوال یہ کیا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ اِس کے بعد ایک صاحب آگے آئے۔اُن کا نام مسٹر سونڈ تھا۔ وہ مجمع کی قیادت کررہے تھے۔ ہمارے بھائی نے اُن سے سڑک پر کوئی بات نہیں کی۔ انھوں نے مجمع سے کہا کہ آپ لوگ یہاں ٹھیرئیے۔ اِس کے بعد وہ مسٹر سونڈ کو اپنے ساتھ لے کر اندر دفتر میں آگئے۔ دفتر میں دونوں کرسی پر بیٹھے۔ اِس کے بعد بھائی صاحب نے اُن سے بات شروع کی۔ انھوں نے پوچھا کہ آپ لوگ کیوں یہاں آئے۔ مذکورہ لیڈر اُس وقت غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ آپ نے ہمارے ایک بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے۔ اِس لیے ہم لوگ یہاں آئے ہیں۔ میرے بھائی نے ٹھنڈے انداز میںکہا کہ دیکھئے، زمین پیپر پر ہوتی ہے اور ہمیشہ پیپر ہی سے زمین کا فیصلہ ہوتا ہے۔ آپ ایسا کیجئے کہ زمین سے متعلق میرے پیپر مجھ سے لے لیجئے، اور ٹھیکے دار صاحب کے پاس جو پیپر ہیں، وہ اُن سے لے لیجئے۔ اُس کے بعد آپ اطمینان سے گھر چلے جائیے، پھر آپ ہم دونوںکے پیپر دیکھئے۔ پیپر دیکھنے کے بعد آپ جو فیصلہ کردیں، وہ مجھ کو منظور ہوگا۔
یہ بات سن کر مسٹر سونڈ کا غصہ ختم ہوگیا۔ وہ اطمینان کے ساتھ باہر آئے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ— تم لوگ واپس جاؤ۔ خان صاحب نے خود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ ہم جو فیصلہ کریں گے، وہ اُس کو مان لیں گے۔ اِس کے بعد مسٹر سونڈ دونوں کاغذات کو چند دن دیکھتے رہے۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ ہندو ٹھیکے دار کی مانگ غلط ہے۔ پیپر کے مطابق، یہ زمین پوری کی پوری خاں صاحب کی ہے۔ چناں چہ انھوں نے مکمل طورپر میرے بھائی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہ زمین آج بھی 9 -بدرقہ روڈ کا ایک حصہ ہے۔ اِس سفر کے دوران میںنے اِس زمین کو دوبارہ دیکھا۔
محلہ بدرقہ کا مکان ہمارے بھائی نے خرید کر حاصل کیا تھا۔ اِس سے پہلے وہ اِسی علاقے کے ایک اور مکان میں رہتے تھے۔ یہ مکان کرایے پر تھا اور اِس کا نام ’’باقی منزل‘‘ تھا۔ باقی منزل کے ایک کمرے میں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اعظم گڑھ میں میری بیوی کی ایک سہیلی تھیں، اُن کا نام رضیہ تھا۔ رضیہ کے شوہر اور باپ دونوں وکیل تھے۔ معاشی اعتبار سے بظاہر اُن کا تعلق ایک آسودہ فیملی سے تھا۔
ایک دن میں کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ واپس آکر جب میں باقی منزل میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں میری بیوی سابعہ خاتون (وفات 2006 )بیٹھی ہوئی تھیں۔ داخل ہوتے ہی انھوں نے جو پہلی بات کہی، وہ یہ تھی کہ رضیہ کہتی ہیں کہ تمھارے شوہر کوئی معاشی کام نہیں کرتے۔ وہ اپنے بڑے بھائی کی کمائی پررہتے ہیں۔ ان کی زندگی تو اِس طرح گزر جائے گی، لیکن اُن کے بعد تمھارا اور تمھارے بچوں کا کیا حال ہوگا۔ اُس وقت میری بیوی کمرے میں ایک چار پائی پر بیٹھی ہوئی تھیں اور میں وہاں ان کے پاس کھڑا تھا۔ میںنے کھڑے کھڑے جواب دیا۔ مجھے وہ الفاظ اب تک یاد ہیں جو میںنے اُس وقت کہا تھا ۔ میں نے کہا کہ— رضیہ سے کہہ دو کہ یہ کشتی اپنے تمام سواروں سمیت بس اللہ کے حوالے ہے۔
یہ الفاظ جو اچانک میری زبان سے نکلے تھے، غالباً الہامی الفاظ تھے۔ میری بعد کی پوری زندگی اِن الفاظ کی تصدیق بن گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کہ قرآن کے یہ الفاظ پوری طرح میری زندگی پر صادق آتے ہیں: ومَن یتوکّل علی اللہ فہو حسبہ ( الطلاق: 3 )
اعظم گڑھ کے زمانۂ قیام میں اعظم گڑھ کی سڑکوں پر میں بار بار چلتا رہاہوں۔ اِن سڑکوں سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ مثلاً ایک واقعہ وہ ہے جو 15 اگست 1947 کی رات کو پیش آیا۔ جیسا کہ معلوم ہے، 15 اگست 1947 کی رات ہندستان کو برطانیہ سے سیاسی آزادی ملی۔ اِسی لیے اِس موضوع پر چھپنے والی ایک کتاب کا نام یہ ہے— آدھی رات کی آزادی:
Freedom At Midnight
مگر یہ تجربہ نہایت وقتی تھا۔ الجمعیۃ ویکلی میںاِس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے میںنے لکھا تھا کہ 15 اگست 1947کی رات کو خوشیوں کے جو چراغ جلائے گئے تھے، وہ سب اگلی صبح کو بجھ چکے تھے۔ یہ چراغ دوبارہ نہیں جلائے گئے۔ مولانا اقبال احمد خاں سہیل (وفات: 1955 ) نے آزادی کے اوپر اِس سے پہلے بہت سے اشعار کہے تھے۔ لیکن آزاد ی کے بعد اُنھیں سخت مایوسی ہوئی۔ چناںچہ انھوںنے بعد کو حسب ذیل شعر لکھا:
شب ِ غم کاٹ دی تھی، جس کے جاں پرور تصور میں
چھپی ہے شب کے پردے میں، وہ صبحِ زر نگار اب تک
میری نوجوانی کے زمانے میںاعظم گڑھ کے شبلی نیشنل کالج میںایک صاحب اُس کے شعبۂ انگریزی میں استاد تھے۔تعلیم کے اعتبار سے اُن کامضمون انگلش لٹریچر تھا، لیکن خیالات کے اعتبار سے وہ کمیونسٹ تھے۔ دن کے وقت وہ کالج میں پڑھاتے تھے اور شام کو اعظم گڑھ کے چوک میں سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر کمیونسٹ اخبار بیچتے تھے۔ گویا کہ دن کے وقت وہ ایک پروفیسر تھے اور شام کے وقت وہ ایک ہاکر۔ اُس وقت وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ— دیکھو، میں کالج کا پروفیسر ہوں اور یہاں سڑک کے اوپر کھڑے ہو کر کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بیچ رہا ہوں۔ ایسی پارٹی کی کامیابی کو کون روک سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کمیون ازم کا نظام ساری دنیا میں قائم ہو کر رہے گا۔
آج میں سوچتا ہوں تو کالج کے مذکورہ استاذ کی بات صرف ایک بے بنیاد خوش فہمی معلوم ہوتی ہے۔ کمیونسٹ نظام 1917 میں روس میں قائم ہوا۔ یہ ایک کُلّیت پسند نظام تھا۔ اُس زمانے میں پریس اور میڈیا کے ذریعے مسلسل پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا کہ کمیونسٹ روس میں سرخ جنت بسی ہوئی ہے۔ لیکن 1991 میں جب سوویت روس ٹوٹ کر بکھر گیا اور اس کے گرد آہنی دیواریں باقی نہ رہیں، تو ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ سرخ جنت کے اندر صرف سرخ جہنم بسی ہوئی تھی۔
یہی واقعہ نام نہاد اسلام پسندوں کے ساتھ پیش آیاہے۔ اسلام پسندلوگ بھی اپنے خود ساختہ نظریے کے تحت ساری دنیا میں اسلام کا سیاسی نظام بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن یہ خواب ابھی تک ٹوٹا نہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کا سیاسی نظریہ ابھی تک صرف نظریاتی دور میں ہے۔ اُس نے ابھی تک کسی عملی نظام کی صورت اختیار نہیں کی۔ اِسی لیے بہت سے نوجوان ابھی تک اس کے نظریاتی سحر میں جی رہے ہیں۔ عملی نظام کی صورت اختیار کرنا اورعملی نظام کی ناکامی کی صورت میں اس کا منفی انجام دیکھ لینے کا واقعہ اُن کے اوپر ابھی تک نہیں گزرا۔
1947 کے بعد کئی سال تک میں اعظم گڑھ میں مقیم تھا۔ اُس وقت میں اپنے بڑے بھائی عبدالعزیز خاں کے ساتھ باقی منزل (محلہ بدرقہ) میں رہتا تھا۔ بچپن سے میرے مزاج میں شدت پسندی تھی۔ اپنے اِس مزاج کی بنا پر اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مجھے کسی سے اختلاف ہوتا تو میں نہایت شدید انداز میں اُس پر تنقید کرتا تھا۔ مگر اسی کے ساتھ میرے اندر خود احتسابی کا مزاج بھی بہت زیادہ تھا۔ چناں چہ تنقید کے بہت جلد بعد مجھے احساس ہوجاتا تھا کہ میری بات اگر چہ درست تھی، لیکن میں نے اپنی رائے کو ظاہر کرنے کے لیے جو سخت انداز اختیار کیا، وہ بہ اعتبار انداز درست نہ تھا۔ میرا یہ احساس اتنا شدید ہوتا تھا کہ میں فوراً یہ کوشش کرتا تھا کہ میں اُس آدمی سے مل کر اُس سے معافی مانگوں۔
میرے ایک ساتھی مولانا احمد محمود اصلاحی اُس زمانے میں اعظم گڑھ میں رہتے تھے۔ انھوں نے ایک بار میرے اِس مزاج کا ذکر کرتے ہوئے کچھ لوگوں سے کہا کہ — یہ اگر کسی کے یہاں بے وقت ملنے کے لیے آئیں تو سمجھ لو کہ وہ اُس سے معافی مانگنے کے لیے آئے ہیں۔
میرے مزاج کی یہ شدت اکثر ایسے معاملات میں ظاہر ہوتی تھی جن کا تعلق سماجی اخلاقیات یا آدابِ حیات سے ہو۔ مثلاً کسی کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنا وقت ضائع کررہا ہے، یا کسی کو دیکھا کہ وہ فضول خرچی کررہا ہے، یا کسی نے وعدہ کیا اور اُس نے اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا، یا کسی شخص نے مقرر وقت پر اپنے کام کو انجام نہیں دیا، یا کسی شخص نے بات چیت میں کوئی بے اصولی کی بات کہہ دی، اِس طرح کے معاملات میں اکثر میں بہت شدید ہوجاتا تھا اور نہایت سخت انداز میں اس کی گرفت کرتا تھا، چاہے وہ شخص چھوٹا ہو یا بڑا۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوتا تھا کہ مجھے درست بات کہنے کا حق ہے، لیکن مجھے درست بات کے نام پر سخت کلامی کرنے کا حق نہیں۔ یہی احساس مجھے بار بار مجبور کرتا تھا کہ میں لوگوں سے اپنے شدتِ کلام کی معافی مانگوں۔
اعظم گڑھ میں جب میں شبلی نیشنل کالج کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھیرا ہوا تھا، اُس وقت مجھے اِس کالج سے متعلق ایک واقعہ یاد آیا۔ یہ واقعہ میری زندگی کا ایک بے حد سبق آموز واقعہ ہے۔
یہ 1966 کی بات ہے جب کہ میں اعظم گڑھ میں مقیم تھا اور انگریزی زبان اور انگریزی علوم کے حصول میں بہت زیادہ غرق تھا،ا ُس زمانے میں مجھے یہ احساس ہوا کہ میں جدید مغربی افکار کو سمجھوں۔ برطانیہ کا مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970 ) کو مغربی فکر کا امام سمجھا جاتا ہے۔ میںنے چاہا کہ میں برٹرینڈ رسل کی کتابوں کو پڑھوں۔ اس کی تلاش میں میں شبلی کالج کی لائبریری میں گیا۔ وہاں ایک الماری میں برٹرینڈرسل کی کتابوںکا ایک سیٹ رکھا ہوا تھا۔ میں نے لائبریرین سے کہا کہ میںاِن کتابوں کو پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ بہ یک وقت اِن میں سے کتنی کتابیں مجھے دے سکتے ہیں۔ لائبریرین نے کہا کہ یہاں اِن کتابوں کو کوئی پڑھتا نہیں ہے، یہ صرف یہاں رکھی ہوئی ہیں۔ آپ پورا سیٹ لے جائیے۔ پڑھ کر واپس کر دیجئے گا۔
میں تمام کتابوں کو لے کر واپس اپنے گھر آگیا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ اُس رائٹر کی کتابیں ہیں جو موجودہ زمانے میں سب سے بڑا ملحد (atheist) انسان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سن کر میری بیوی متوحش ہوگئیں۔ انھوںنے کہا کہ اب آپ ضرور گم راہ ہوجائیں گے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ برٹرینڈ رسل اِس دور کا سخت ترین ملحد ہے۔ اِس لحاظ سے، اس کی تصنیفات کو پڑھنا عام ذوق کے مطابق، خطرے سے خالی نہیں تھا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ میں رسل کی دنیا میں داخل ہو کر اُس سے اِس طرح نکلا کہ میرا ایمان پہلے سے زیادہ پختہ ہوچکا تھا۔ برٹرینڈرسل کی کتابوں کو پڑھ کر میںنے جوکچھ پایا، اُس کا مختصر ذکر میں نے اپنی کتاب’’مذہب اور سائنس‘‘ میں کیا ہے۔ یہ کتاب اردو کے علاوہ، عربی اور انگریزی زبان میں بھی چھپ چکی ہے۔ میرے مذکورہ علمی تجربے کو اِس کتاب میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اپنی عمر کے ابتدائی دور میں جب میںاعظم گڑھ میں مقیم تھا تو اکثر میں دار المصنفین جایا کرتا تھا، جو میرے گھر سے بہت قریب تھا۔ یہ علمی ادارہ مولانا شبلی نعمانی نے اپنے آخری زمانے میں قائم کیا تھا۔ اِس ادارے سے میری دلچسپی کا سبب زیادہ تر دو ہوا کرتا تھا—اہلِ علم سے ملنا، اور یہاں کے کتب خانے سے استفادہ کرنا۔
اُس وقت مولانا مجیب اللہ ندوی (وفات: 2006 ) یہاں بہ طور رفیق رہا کرتے تھے۔ ایک بار مولانا مجیب اللہ ندوی سے اِس موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی کہ آدمی کو کب لکھنے کا کام کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے استاد مولانا سید سلیمان ندوی (وفات: 1953 ) سے یہ سوال کیا تھا۔ انھوںنے اِس کاجواب اِن الفاظ میں دیا تھا— اتنا پڑھو، اتنا پڑھو کہ ابلنے لگے۔ اس کے بعد لکھو۔
اُس زمانے میں مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی (وفات: 1974 ) دار المصنفین کے ناظم تھے۔ وہ یہاں تنہا رہا کرتے تھے۔ اُن کی صرف ایک صاحب زادی تھیں۔ ایک بار انھوںنے بتایا کہ میںنے اپنی لڑکی کی شادی کی تو اُس موقع پر میں نے نہ بارات بلائی اور نہ کوئی اور رواجی کام کیا۔ میںنے ایک لڑکے سے سادہ طورپر اپنی بیٹی کا نکاح کردیا۔اُس وقت میرے بینک کے کھاتے میں پانچ ہزار روپئے تھے۔ میں نے پانچ ہزار روپئے کا ایک چیک لکھا اور اپنی لڑکی کو دے دیا اور کہا کہ تم لوگ جس طرح چاہو، اِس پیسے کا استعمال کرو۔ یہی میری کل پونجی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ نکاح کا بہترین طریقہ ہے۔ مگر اِس طرح کی کوئی دوسری مثال میرے علم میںنہیں آئی۔ لوگ عام طورپر یہ کرتے ہیں کہ شادیوں میں بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں۔ یہ سارا خرچ صرف نمائشی رسموں کے لیے ہوتا ہے۔ اِس کا کوئی فائدہ کسی کو نہیں پہنچتا۔ موجودہ زمانے میں شادیوں میں جس طرح بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں، وہ بلا شبہہ تبذیر مال کے ہم معنیٰ ہیں، اور قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ تبذیر کا کام کریں، وہ شیطان کے بھائی ہیں (الإسراء: 27 )۔
اعظم گڑھ کے زمانۂ قیام میں میرا سارا وقت کتابوں کے مطالعے میں گزرتا تھا۔ اُس زمانے میں میرا حال یہ تھا کہ میں نہ صرف اپنے گھر پر یا لائبریوں میں کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا، بلکہ راستہ چلتے ہوئے بھی میرے پاس کتاب ہوتی تھی اور دونوں ہاتھ میں لیے ہوئے میں اس کو پڑھتا رہتا تھا۔ میری عادت تھی کہ میں ہمیشہ ٹریفک اصول کے مطابق، بالکل بائیں طرف (extreme left) چلتا تھا۔ میری ماں زیب النسا (وفات: 1985 ) کو معلوم ہوا کہ میں راستہ چلتے ہوئے کتاب پڑھتا ہوں تو انھوںنے کہا کہ یہ شخص ضرور ایک دن سڑک پر کسی سواری سے ٹکرا کر مرے گا۔
دار المصنفین کا کتب خانہ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کی کوششوں سے قائم ہوا تھا۔ اِس کتب خانے میں قرآن کی عربی تفاسیر، حدیث کی کتابیں اور اسلامی تاریخ کے موضوع پر عربی زبان میں تقریباً تمام مستند کتابیں موجود تھیں۔ اِس طرح مجھے ایک ہی کتب خانے میں اسلام کے بنیادی موضوعات پر گہرے مطالعے کا موقع مل گیا۔
کارل مارکس (وفات: 1883 ) کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اُس نے اقتصادیات اور اُس کے متعلق موضوعات کا تفصیلی مطالعہ جرمنی کے کتب خانے میں کیا تھا۔ اُس زمانے میں اُس کے انہماک کا حال یہ تھا کہ صبح کو جب لائبریری کا دروازہ کھلتا تو کارل مارکس پہلا شخص تھا جو اُس کے اندر داخل ہوتا۔ اِسی طرح شام کو جب لائبریری کا دروازہ بند ہوتا تو کارل مارکس آخری شخص تھا جو اُس سے باہر نکلتا تھا۔ دارالمصنفین کے کتب خانے میں مطالعے کے دوران میرا بھی عرصہ دراز تک یہی حال رہا۔
دوپہر کے وقت لنچ (lunch) کے لیے کتب خانہ بند کیا جاتا تھا۔ میں نے وہاں کے لائبریرین سے کہہ دیا تھا کہ آپ باہر سے دروازہ بند کرکے چلے جائیں اور مجھ کو کتب خانے کے اندر چھوڑ دیں۔ اُس زمانے میں مجھے دوپہر کے کھانے کا وقت نہیں ملتا تھا۔ اِس بنا پر کبھی کبھی بھوک سے مجھے چکر آجاتا تھا۔ اُس زمانے کا ایک واقعہ میں نے اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’دار المصنفین (اعظم گڑھ) کے کتب خانے کا وسطی کمرہ ہے۔ چاروں طرف تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، علمِ کلام اور لغت کی ایک درجن سے زیادہ الماریاں دیواروں سے لگی ہوئی رکھی ہیں۔ ایک بجے دن کا وقت ہے۔ کتب خانے کے بیرونی دروازے بند ہوچکے ہیں اور تمام لوگ دوپہر کے وقفے میں اپنے اپنے ٹھکانوں کو جاچکے ہیں۔ مکمل تنہائی کا ماحول ہے۔ ایک طرف میں ہوںاور دوسری طرف کتابیں۔ مسلسل مطالعے کی وجہ سے اُس وقت میری کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے کسی نے میرے سارے بدن کا خون نچوڑ لیاہو۔ تفسیر ابن جریر کی ایک جلد دیکھ کر میں اٹھا کہ اُس کو الماری میں رکھ کر دوسری کتاب نکالوں، مگر اٹھا تو کم زوری کی وجہ سے مجھے چکر آگیا اور میں سمت بھول گیا۔ یہ میرا مدت کا جانا پہچانا کمرہ ہے، مگر تھوڑی دیر تک میں وہاں اس طرح کھڑا رہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کدھر جاؤں اور کس الماری سے کتاب نکالوں۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ کتابوں کی متعلقہ الماری فلاں سمت میں موجود ہے‘‘ (صفحہ 14 )۔
دار المصنفین میں ہال نما ایک بڑا کمرہ ہے جس میں دار المصنفین سے متعلق علماء کی تاریخی یادگاریں رکھی ہوئی ہیں۔ اِنھیں میں سے ایک لکڑی کا پاؤں ہے جس کو مولانا شبلی نعمانی نے حادثے کے بعد استعمال کیا تھا۔ 1907 میں ایسا ہوا کہ شکار کے لیے بھری ہوئی بندوق چل گئی جس کی وجہ سے اُن کا بایاں پاؤں شدید طور پر زخمی ہوگیا، اور بالآخر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق، اُس پاؤں کو کاٹ دیاگیا۔اِس واقعے کے بعد مختلف شعراء نے حسنِ تعلیل کے طورپر نظمیں لکھیں۔ مولانا اقبال احمد خاں سہیل نے بھی اِس پر کچھ اشعار لکھے تھے۔ اُن کا ایک شعر یہ تھا:
تھا اہلِ عدم کو بھی اشتیاقِ پابوس اک پاؤں وہاں بھی چاہیے تھا جانا
مولانا شبلی نعمانی نے اِس طرح کے حسنِ تعلیل کو پسند نہیں کیا۔ انھوں نے اِس معاملے میں اپنے جذبات کا اظہار اپنے ایک فارسی شعر میں اس طرح کیا تھا:
شبلی ٔ نامہ سیہ را بہ جزائے عملش پابریدند و صدا خاست کہ سر می باید
دوسرے شعراء نے اِس معاملے کو جس طرح نظم کیا تھا، وہ صرف مضمون بندی یا حسنِ تعلیل کے طورپر تھا۔ لیکن مولانا شبلی نعمانی نے اِس واقعے پر جو شعر لکھا، وہ اِس معاملے میںایک مومن کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ مومن کبھی دوسروں کی تعریف سے غلط فہمی میں نہیں پڑتا۔ عین اُس وقت جب کہ لوگ اس کی تعریف کررہے ہوتے ہیں، اس کی اندرونی نفسیات اُس کو اپنی بے حقیقتی یاد دلاتی ہے۔
ڈاکٹر محمد اقبال (وفات: 1938 ) کو دار الصنفین سے اور مولانا سید سلیمان ندوی سے گہرا تعلق تھا۔ اقبال کا خیال تھا کہ اُخروی جنت ایک روحانی جنت ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ — جنت اور جہنم اَحوال ہیں، مقامات نہیں :
Heaven and Hell are states, not localities.
ڈاکٹر اقبال اور سید صاحب کے درمیان ایک بار جنت کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ اقبال کا کہنا تھا کہ جنت روحانی ہے۔ اِس کے برعکس، سید صاحب کہتے تھے کہ جنت مادی ہے۔ کافی بحث کے بعد دونوں کے درمیان اتفاق نہ ہوسکا۔ آخر کار، سید صاحب نے کہا— ٹھیک ہے، آپ اپنی روحانی جنت میں جائیے گا اور ہم ان شاء اللہ اپنی مادّی جنت میں جائیں گے۔
جنت کے بارے میں اقبال کا مذکورہ نظریہ صرف ایک فلسفیانہ تصور تھا، حقیقت سے اُس کا کوئی تعلق نہیں۔ قرآن کے واضح بیانات اِس تصور کے خلاف ہیں۔ مثلاً قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ارشاد ہوا ہے : ’’اور خوش خبری دے دو اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک کام کیے، اِس بات کی کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جب بھی اُن کو اُن باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا، تو وہ کہیں گے— یہ وہی ہے جو اِس سے پہلے ہم کو دیاگیا تھا۔ اور ملے گا اُن کو اُس سے ملتا جلتا ‘‘( البقرۃ: 25 )۔
حقیقت یہ ہے کہ روحانی جنت کا تصور قرآن کے خلاف بھی ہے اور انسانی فطرت کے خلاف بھی۔ یہ خداکی رحمت سے بعید ہے کہ وہ دنیا میں مومن کو ایسی ذمے داریوں میں ڈالے جس کو انجام دینے کے لیے اُس سے مادی نعمتیں چھوٹ جائیں، لیکن آخرت میں جب وہ مومن کو اس کے عمل کا انعام دے تو وہ صرف پُر اسرار روحانی جنت کی شکل میں ہو۔ مادّی قربانی کا انعام بھی مادی نعمت کی صورت میں ہونا چاہیے۔ یہ انسانی فطرت کا ایسا تقاضا ہے جس سے کوئی بھی شخص مستثنیٰ نہیں۔
30 دسمبر 2008 کو میں اپنی ٹیم کے کچھ افراد کے ساتھ شبلی نیشنل کالج کے گیسٹ ہاؤس میںتھا۔ جامعۃ الفلاح (بلریا گنج، اعظم گڑھ) کے کچھ اساتذہ، مولانا نظام الدین اصلاحی کے ہم راہ ملاقات کے لیے آئے۔ ان حضرات سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ پھر انھوں نے ہم لوگوں کو جامعۃ الفلاح آنے کی دعوت دی۔ میں نے اِس دعوت کو قبول کرلیا اور اِس کے مطابق، اگلے دن صبح کو مولانا نظام الدین اصلاحی کے ساتھ جامعۃ الفلاح کا سفر ہوا۔
جامعۃ الفلاح عربی اور دینی تعلیم کا ایک مشہور ادارہ ہے۔ جامعۃ الفلاح پہنچ کر اس کے مختلف شعبوں کودیکھنے کا اتفاق ہوا اور یہاں اساتذہ اور طلبا سے ملاقاتیں ہوئیں۔اِس تعلیمی ادارے کا آغاز 1954 میں ایک معمولی مکتب سے ہوا تھا۔ اِس کے بعد حکیم محمد ایوب (وفات: 2004 ) اور دوسرے اصحاب کی مسلسل کوشش سے وہ اب ایک بڑے جامعہ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اِس وقت جامعہ کے دو بڑے حصے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں۔ ایک حصے کا تعلق طلبا سے ہے، اور دوسرے حصے کا تعلق طالبات سے۔ دونوں میں عالمیت اور فضیلت تک تعلیم ہوتی ہے۔ طلبا کی مجموعی تعداد تقریباً چار ہزار ہے۔ طلبا کے مقابلے میں طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔
جامعۃ الفلاح میں میرے دو خطابات ہوئے۔ ایک، طلبا کے درمیان اور دوسرا، طالبات کے درمیان۔ طلبا سے خطاب کا انتظام یہاں کے بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔ طلبا اور اساتذہ دونوں یہاں موجود تھے اور پورا ہال مکمل طورپر بھرا ہوا تھا۔ طلبا کے سامنے خطاب کرتے ہوئے میں نے جو کچھ کہا، اُس کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
میرے سامنے نوجوان طلبا بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ جب میںنوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو میرا دل بھر آتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ خدا نے نوجوانوں کی شکل میں اپنی زمین پر کچھ پھول کھلائے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ یہ پھول مہکیں اور دنیا کو اپنی خوش بو سے معطر کردیں۔ میںنے کہا کہ اِس مدرسے کا نام الفلاح ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی مدرسے کا سب سے زیادہ درست نا م ہے۔ کیوں کہ مدرسہ آدمی کو حقیقی فلاح کاراز بتاتا ہے۔ میںنے کہا کہ آپ کو سب سے پہلے شعوری طورپر یہ جاننا چاہیے کہ آپ نے یہاں آکر زندگی کا صحیح آغاز پالیا ہے۔ آپ نے یہاں آکر علم سے اپنی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ اوریہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کا آغاز علم (اقرأ) سے ہوا ہے۔ جس آدمی نے زندگی کا صحیح آغاز پالیا، وہ ضرور اس کے صحیح انجام تک پہنچے گا۔ اِسی حقیقت کو ایک مغربی مفکر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے— میرے آغاز کار کا طریقہ شروع سے آغاز کرنا ہے:
My way is to begin from the beginning.
اِس موقع پر طلبا کی نسبت سے جو باتیں میں نے بتائیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ حصولِ علم کے لیے روحِ تجسس (spirit of inquiry) لازمی طورپر ضروری ہے۔ آپ لوگوں کو اپنے اندر تجسس کی اسپرٹ نہایت گہرائی کے ساتھ پیدا کرنا چاہیے۔ پھر میںنے کہا کہ زندگی کی کامیابی کے لیے حضرت علی کا ایک قول بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ قول یہ ہے: قیمۃ المرء مایُحسنہ:
The value of a person lies in excellence.
اِس کے بعد کلّیۃ البنات میںجامعہ کی طالبات سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔یہ طالبات نہایت ڈسپلن کے ساتھ جامعہ کے ایک حصے میں بٹھائی گئی تھیں۔ میںنے اپنی تقریر میںایک مغربی مفکر کے اِس قول کو دہرایا— ہر بڑے کام کے آغاز میں ایک عورت موجود ہوتی ہے:
There is a woman at the beginning of all great things.
اِس کی تفصیل کرتے ہوئے میںنے کہا کہ آپ کا یہ مدرسہ آپ کو اِسی قسم کی عظیم خاتون بنانے کے لیے قائم کیاگیا ہے۔ میںنے کہا کہ تاریخ کی عظیم خاتون عائشہ صدیقہ تھیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ مدرسۂ نبوت کی ایک کامیاب طالبہ تھیں۔ تجربے سے معلوم ہوتاہے کہ عورت کے اندر اخذ (grasp)کی صلاحیت مَردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اُس کا ایک ثبوت حضرت عائشہ کی مثال ہے۔
صحیح البخاری کی روایت کے مطابق، حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام پالیسی کو بتاتے ہوئے کہا: ما خُیِّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار أیسرہما (صحیح البخاری، کتاب الأدب)۔ یہاں قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ رسول اللہ نے لفظی طورپر کبھی یہ بات نہیں کہی تھی۔ اِس کے باوجود عائشہ نے رسول اللہ کی پالیسی کے بارے میں اِس اہم اصول کو اخذ کیا۔ اِس قسم کی اخّاذیت کا ثبوت کسی مرد کے یہاں نہیں ملتا۔
میں نے کہا کہ انگریزی کا ایک مقولہ ہے— لیڈیز فرسٹ (ladies first) ۔ اِس مقولے کی سب سے اعلیٰ مثال پیغمبرانہ تاریخ میں ہے، اور وہ حضرت ہاجرہ کی مثال ہے۔ یہ دراصل ہاجرہ کی عظیم قربانی تھی جس کے ذریعے ہیروؤں کی وہ نسل (nation of heroes) ظہور میں آئی جس میں رسول اور اصحابِ رسول جیسے اعلیٰ افراد پیداہوئے۔ یہ ایک عظیم تاریخی عمل (process) تھا جس کا آغاز ایک عورت کی بے مثال قربانی سے ہوا ۔
میں نے کہا کہ ہر عورت کے لیے اِس دنیا میں ایک بڑا رول مقدر ہوتا ہے۔ اِس رول کو ادا کرنے کی صرف ایک خاص شرط ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو ڈسٹریکشن (distraction) سے بچانا۔ ہر وہ چیز جو آپ کو اپنے مقصد ِ اعلیٰ کی طرف کامل توجہ دینے سے ہٹائے، وہ ڈسٹریکشن کا ذریعہ ہے۔ مثلاً شاپنگ، آؤٹنگ، فیشن، تقریبات اور اولاد، وغیرہ۔ اسلام کے مطابق، اولاد ایک آزمائش (التّغابن: 15 ) ہے۔ اولاد کے بارے میں والدین کی ذمے داری اُن کی حقیقی ضرورت کو پورا کرنا ہے، نہ کہ اُن کو قلبی محبت کا مرکز بنانا۔قلبی محبت کا مرکز صرف خداوند ِ ذوالجلال ہے، نہ کہ اولاد۔
ہر انسان کے اندر پلس پوائنٹ کے ساتھ ایک مائنس پوائنٹ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ عورت کا ہے۔ عورت کے اندر پلس پوائنٹ کے ساتھ ایک مائنس پوائنٹ موجود ہے، اور وہ اُس کا آرائش پسندانہ مزاج ہے۔ عورت کو اپنی اِس کم زوری کے بارے میں شعوری طورپر زیادہ بیدار ہونا چاہیے۔ ورنہ ایسا ہوگا کہ عورت کے اوپر اُس کا آرائش پسندانہ مزاج غالب آجائے گا اور وہ زندگی میںاپنا تعمیری رول ادا کرنے سے قاصر رہے گی۔
جامعۃ الفلاح کے پروگرام میںشرکت کے بعد ہم لوگ بذریعہ کار بڈھریا گئے۔اعظم گڑھ شہر سے بڈھریا کا فاصلہ 27 کلومیٹر ہے۔ بڈھریا میرا آبائی وطن ہے۔ راستے میں سڑک کے کنارے چند مقامات آئے۔ اُن میں سے ایک پھریہا تھا۔ پھریہا اعظم گڑھ کا وہ گاؤںہے جہاں 1863 میں مشہور مفسر قرآن مولانا حمید الدین پیدا ہوئے۔ مولانا حمیدالدین نے پھریہا کی تعریب کرکے اُس کو فراہا بنایا اور پھر اس میں یائے نسبت شامل کرکے اپنے نام کے ساتھ فراہی لکھنا شروع کیا۔تعریب کا یہ ذوق اِس علاقے میں کافی بڑھا اور کئی گاؤں کے لوگوں نے اس کی تقلید کی۔ مثلاً سیدھا کے لوگ اپنے کو مستقیمی لکھنے لگے۔ چھاؤں کے لوگ اپنے کو ظلّی لکھنے لگے۔ اَساڑھا کے لوگ مطری لکھنے لگے، وغیرہ۔
مولانا حمید الدین فراہی کا انتقال 1930 میں ہوا۔ میں نے اُن کو دیکھا نہیں۔ لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُن کے دو خاص شاگردوں سے مجھے حصول علم کا موقع ملا— مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1998 )، اور مولانا اختر احسن اصلاحی (وفات: 1985 )۔مولاناحمید الدین فراہی کے بارے میں کئی لوگوں نے اُن کے مختصر تذکرے شائع کیے ہیں۔ مثلاً سید سلیمان ندوی، مولانا امین احسن اصلاحی، وغیرہ۔ لیکن مولانا حمید الدین فراہی پر زیادہ جامع کتاب ڈاکٹر شر ف الدین اصلاحی (مقیم اسلام آباد، پاکستان) نے ’’ذکرِ فراہی‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ یہ کتاب 840 صفحات پرمشتمل ہے۔ اِس کتاب کی تیاری میں تقریباً 18 سال صرف ہوئے ہیں۔ میرے پاس کتاب کا وہ نسخہ ہے جو 2001 میں دائرۂ حمیدیہ (مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ) سے شائع ہوا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اِس کتاب کا ایک ایڈیشن دار التذکیر (لاہور) نے شائع کیا ہے۔ اِس میں مصنف نے کچھ اضافے بھی کیے ہیں۔
پھریہا کا گاؤں ایک سڑک کے کنارے واقع ہے۔ یہ سڑک انگریزوں کے زمانے میں بنائی گئی تھی۔ لیکن پھریہا سے ہمارے گاؤں تک پختہ سڑک نہ تھی۔ اب یہاں اچھی سڑک بن گئی ہے۔ ہماری گاڑی اِس سڑک پر گزرتے ہوئے وہاں پہنچی جہاں کُنور ندی واقع ہے۔ یہ ندی ہمارے گاؤں کی سرحد پر ہے۔ اِس ندی کے اوپر ایک پُل ہے۔ اُس وقت یوپی میں پہلی بار برطانی اقتدار کے تحت کانگریسی وزارت بنی تھی۔ مولانا اقبال احمد خاں سہیل اِس صوبائی اسمبلی کے ایک رکن تھے۔ اُن کی کوششوں سے 1937 میں یہاں ایک پل بنایا گیا۔
اُس وقت میں نواجوانی کی عمر میں تھا۔ یہ پل بنا تو میں نے اس کے بارے میں یہشعر لکھا تھا:
بحمدللہ کہ ایں جسرِ عظیم الشاں مکمل شد زسعی ٔ مولوی اقبال احمد خاں مکمل شد
اُس زمانے میں یہ پل میرے لیے غارِ حرا کے مانند بن گیا۔ میں صبح وشام یہاں آتا اور پل کی فصیل پر بیٹھ کر سورج کے نکلنے اور سورج کے ڈوبنے کا منظر دیکھتا رہتا۔ پل کے نیچے دریا بہہ رہا ہوتا تھا۔چاروں طرف دور تک درخت اور کھیت کے سرسبز مناظر تھے جن کے اوپر چڑیاں اڑتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ اوپر نیلے آسمان کا پُرشکوہ منظر ہوتا تھا۔ یہاں میں دیر تک اکیلا بیٹھا رہتا تھا اور فطرت کے مناظر میں کھویا ہوا اُس کو دیکھتا رہتا تھا۔ یہ پل گویا کہ میرے لیے تلاشِ حق کے طویل سفر کا ایک ابتدائی مرحلہ تھا۔ فطرت کی یہ دنیا میرے لیے ایک کھلی تربیت گاہ کے ہم معنی بن گئی۔
کنور ندی کے اِس پل سے آگے بڑھ کر ہم گاؤں میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے ہمارے سامنے وہ اسکول تھاجس کے سالانہ جلسے میں شرکت کے لیے مجھے بلایا گیا تھا۔ ہمارے گاؤں میںتقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاکٹر عبد العلی کے خاندان نے ’’درس گاہِ اسلامی‘‘ کے نام سے ایک مکتب قائم کیا تھا۔ اس میںاب کافی توسیع ہوچکی ہے۔ میری ابتدائی تعلیم اِسی درس گاہ میں ہوئی۔ میرے بچپن کے زمانے میں یہاں مولانا فیض الرحمن اصلاحی (وفات: 1972 ) اُس کے معلم تھے۔ وہ مدرسۃ الاصلاح کے بانی مولانا محمد شفیع (وفات: 1945 ) کے صاحب زادے تھے۔ اُن سے میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اِس کے بعد میرے چچا صوفی عبد المجید خاں (وفات: 1949 ) نے مزید تعلیم کے لیے مجھے مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ ) میں داخل کرایا۔
اِس گاؤں کے کنارے ہمارے خاندان کے لوگ رہتے تھے۔ یہ ایک بڑا علاقہ تھا جس میں باغ وغیرہ شامل تھا۔ موجودہ زمانے کے تقاضے کے تحت جب ہمارے خاندان کے لوگ گاؤںسے نکل کر شہروں میں چلے گئے تو یہ پورا علاقہ تقریباً غیر آباد ہوگیا۔ میرے بھتیجے مسٹر شکیل احمد خاں انجینئر جو شارجہ میں رہتے ہیں، اُن سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ ہمارے خاندان والوں نے خود تو اپنے بچوں کو پڑھایا، لیکن انھوں نے کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا۔ اب آپ یہ کیجئے کہ ہمارے خاندان کے گھر اور باغ کو ملا کر جو ایک بڑی جگہ موجود ہے، وہاں ایک معیاری اسکول قائم کردیجئے۔ یہ بات مسٹر شکیل احمد خاں کی سمجھ میں آگئی۔ انھوں نے طے کر لیا کہ یہ کام اُنھیں کرنا ہے۔ چناں چہ انھوں نے لمبی کوشش کے بعد 2000 ء میں یہاں ایک اسکول کی بنیاد رکھ دی۔ پھر ان کو خود خاندان کے ایک فرد ڈاکٹر احمد صفی انصاری کا مقامی تعاون حاصل ہوگیا، جنھوں نے اپنے آپ کو اِس تعمیری کام میں وقف کردیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہاں ایک اچھا انگلش میڈیم اسکول وجود میںآچکا ہے۔اِس اسکول کے قیام میں مسٹر یمین الاسلام خاں انجینئر (صاحب زادہ مولانا اقبال احمد خاں سہیل) کا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ اُن کے تعاون کے بغیر اِس کام کو انجام دینا سخت مشکل تھا۔
1971 میںجب میں پاکستان گیا تو وہاں کے ایک اخبار میں میںنے پاکستان کے بارے میں ایک مضمون دیکھا۔ اِس مضمون میں ترتیب کے ساتھ تین لوگوں کی تصویر چھپی ہوئی تھی—ڈاکٹر محمد اقبال، محمد علی جناح اورنواب زادہ لیاقت علی خاں۔ ہر تصویر کے سامنے تین جملے الگ الگ لکھے ہوئے تھے:
He thought, He fought, He sacrificed.
کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے گاؤں کے اِس اسکول کا بھی ہے۔ اِس اسکول کا تصور راقم الحروف نے دیا۔ اِس کے بعد مسٹر شکیل احمد خاں نے اِس کی بنیاد رکھی، اور پھر ڈاکٹر احمد صفی انصاری نے اس کو مکمل کیا، اِس طرح اِن تینوں آدمیوں کو لے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
He thought, He founded, He finalized.
مسٹر شکیل احمد خاں وغیرہ نے اِس اسکول کا نام یہ رکھا ہے— ضیاء الدین خاں میموریل اسکول۔ اِس اسکول کا الحاق سی بی ایس سی بورڈ(دہلی) سے ہوچکا ہے۔ اِس اسکول میں اطراف کے تقریباً900 لڑکے اور لڑکیاںتعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اسکول کے پاس طلبا کی آمد ورفت کے لیے اِس وقت 9 بسیں ہیں، اِن بسوں کے ذریعے 70 کلومیٹر کے دائرے میں اطراف کے علاقوں سے طلبا اور طالبات اسکول میںآتے ہیں۔
31 دسمبر 2008 کو اسکول کا سالانہ جلسہ (annual function) تھا۔ اس کا اسٹیج اسکول کے وسیع کیمپس میں نہایت پُر رونق انداز میں بنایا گیا تھا۔ اِس پروگرام میں گاؤں کے لوگوں کے علاوہ، طلبا کے سرپرست اور متعلقین حضرات بھی شریک تھے۔ اِس موقع پر اسکول کے طلبا اور طالبات نے مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے۔ یہ پروگرام اردو اور ہندی کے علاوہ، زیادہ تر انگریزی زبان میں تھے۔ طلبا اور طالبات نے غیر معمولی طورپر شان دار انداز میں اس کو پیش کیا، جو بلاشبہہ اسکول کے اساتذہ اور ذمہ دارحضرات کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ تھا۔
یہ فنکشن دیر تک چلتا رہا۔ آخر میں میرا خطاب تھا۔ میںنے اپنی تقریر میں بہادر شاہ ظفر (وفات: 1862 ) کے اِس شعر کو پڑھا:
فیض گر چاہتا ہے، فیض کے اسباب بنا پُل بنا، چاہ بنا، مسجدوتالاب بنا
میں نے کہا کہ ہمارے خاندان نے یہاں یہ چاروں چیزیں بنائیں— پل بھی، کنواں بھی، اور مسجد بھی اور تالاب بھی۔ لیکن یہاں مطلوب رونق پیدا نہ ہوسکی۔ آج یہاں ہر طرف رونق دکھائی دیتی ہے۔ یہ تعلیمی ادارے کا نتیجہ ہے۔ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کو ہوگئی ہے۔ موجودہ زمانے کے اکثر معاملات تعلیم سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ اِس لیے زندگی میںبیداری اور سرگرمی لانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اچھے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں۔ مولاناالطاف حسین حالی (وفات: 1914 ) جو سرسید احمد خاں (وفات: 1898 ) کے شاگرد تھے، انھوں نے اِس حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا تھا:
بس اب وقت کا حکمِ ناطق یہی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے، تعلیم ہی ہے
بڈھریا (بَرہرہ) میرا آبائی وطن ہے۔ لمبے عرصے کے بعد جب میں یہاں آیا تو اِس سے متعلق بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ میرے خاندان کی تاریخ یہ ہے کہ تقریباً پانچ سو سال پہلے میرے مورثِ اعلیٰ حسن خاں سُوات(قدیم افغانستان) سے گھوڑے پر سوار ہوکر انڈیا آئے۔ پہلے وہ جون پور آئے۔ یہاں ایک افغانی خاندان حکومت کرتا تھا۔ اُس کو شاہانِ شرقی کہا جاتا تھا۔ بعد کو ضیاء الدین خاں کے زمانے میں یہ خاندان جون پور سے اعظم گڑھ آیا اور بڈھریا میں آباد ہوا۔ اِسی گاؤں میں میری پیدائش ہوئی۔
جب میں سنِ شعور کو پہنچا تو اکثر میں سوچتا تھا کہ میرے مورثِ اعلیٰ جب افغانستان سے چلے تو راستے میںان کو بر صغیر ہند کے بہت سے بڑے بڑے شہر ملے، لیکن وہ کسی شہر میں آباد نہیںہوئے، بلکہ چلتے چلتے آخر کار وہ بڈھریا میں آباد ہوگئے جو کہ ایک دور اُفتادہ (remote) اور غیر ترقی یافتہ گاؤں تھا۔ اُس کی حکمت میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ لیکن اب میں سوچتا ہوںتو اِس واقعے میں خداکی عظیم حکمت دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہمارے مورثِ اعلیٰ کسی بڑے شہر میں آباد ہوگئے ہوتے تو میرا بھی وہی حال ہوتا جو عام طور پر دوسرے مسلم مفکرین کا ہوا ہے۔ اُن کا ذہن شہر ی حالات کے تحت بنا، فطری حالات میں جو ذہن سازی ہوتی ہے، اُس کا انھیںتجربہ نہ ہوسکا۔
اِس معاملے پر جب میںغور کرتا ہوں تو مجھے اپنے حالات میں اور بنو اسماعیل کے قدیم حالات میں عجیب مشابہت دکھائی دیتی ہے۔ چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم اپنے وطن عراق سے نکلے۔ راستے میں بہت سے شہر ملے، لیکن وہ اِن میں سے کسی شہر میں آباد نہیںہوئے۔ چلتے چلتے وہ قدیم مکہ کے صحرا میں پہنچے اور یہاں ہاجرہ اور اسماعیل کو آباد کردیا۔ اسی صحرائی ماحول میں رفتہ رفتہ بنو اسماعیل کی نسل بنی جو مخصوص حالات کی بنا پر اپنی اصل فطرت پر قائم تھی۔ اِس نسل سے رسول اور اصحابِ رسول پیدا ہوئے۔ اِسی گروہ میں سے وہ لوگ تیارہوئے جن کو بدر کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ’عصابہ‘ کا لقب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ— خدایا، اگر تو اِس عصابہ کو ہلاک کردے تو اِس کے بعد زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی (اللہم إن تہلک اہذہ العصابۃ، لا تُعبد فی الأرض أبداً)
اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں تمام واقعات اسباب کے پردے میں ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول کا مطلب یہ تھا کہ ایک لمبے تاریخی عمل (historical process) کے بعد یہ عصابہ بنا ہے، اگر یہ لوگ ہلاک ہوجائیں تو دوبارہ ایک لمبا تاریخی عمل درکار ہوگا۔ اور اِس قسم کا تاریخی عمل اِس دنیا میں کبھی ٹھیک اُسی طرح قابلِ اعادہ (repeatable) نہیں ہوتا۔
بنو اسماعیل پر مشتمل عصابہ قدیم روایتی ماحول میں بنا تھا۔ میں جب اپنے حالات پر غور کرتا ہوں تو تعجب خیز طورپر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ میری زندگی میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے اِسی قسم کا عمل نئے حالات کی نسبت سے دوبارہ پیش آیا ہے۔
میرے مورثِ اعلیٰ بھی دور کے ایک ملک افغانستان سے روانہ ہوئے۔ درمیان میںوہ بڑے بڑے شہروں کو چھوڑتے ہوئے ایک دور افتادہ گاؤں (بڈھریا) پہنچے اور یہاں آباد ہوئے۔ قدیم حجاز جس طرح ایک صحرائے فطرت تھا، اُسی طرح بڈھریا کا علاقہ بھی ایک صحرائے فطرت کے ہم معنی تھا، اِس فرق کے ساتھ کے قدیم صحرا ایک خشک صحرا تھا، اور موجودہ صحرا ایک سرسبز صحرا۔ بڈھریا میں میری پیدائش ہوئی تو میرے حالات نے آغاز ہی سے مجھ کو حق کا متلاشی بنا دیا۔ لمبے عرصے کی تلاش کے بعد آخر کار میرے ساتھ دریافتِ حق کا وہ معاملہ ہوا جس کو قرآن میں: ووجدک ضالاً فہدی (الضحیٰ: 7 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس دریافت کے بعد میں نے اللہ کی توفیق سے اپنا دعوتی مشن شروع کیا۔ ابتدائی طورپر میرے گھر والوں نے میرا ساتھ دیا۔ اُس کے بعد دھیرے دھیرے ایک دعوتی ٹیم بنی جس کے افراد نہ صرف دہلی میں، بلکہ دنیا کے مختلف مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ میرے گھر والے اگر میرے لیے بلاتشبیہہ اہلِ بیت ہیں تو میرے ساتھی میرے لیے بلاتشبیہہ اصحاب کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِس طرح تعجب خیز طور پر یہ واقعہ پیش آیا کہ عصر حاضر میں قدیم عصابہ کی طرح ایک جدید عصابہ وجود میںآیا۔ یہ جدید عصابہ استثنائی طورپر دو صفتوں کا حامل ہے۔ ایک طرف حدیث کے الفاظ میں، اس کو بصیرت زمانہ حاصل ہے اور دوسری طرف وہ استثنائی طورپر دعوت الی اللہ کا بے آمیز شعور رکھتا ہے۔
جب میں اِن باتوں کو سوچتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے ، جیسے خاتمۂ تاریخ (end of history) سے پہلے آنے والے دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی واقعہ بن رہی ہے، یعنی اصحابِ رسول کے بعد جدید تاریخ میں غالباً وہ دوسرا گروہ وجود میں آیا ہے جس کو پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوانِ رسول سے تعبیر کیا تھا۔
بڈھریا میرا مسقطِ رأس(birth place) ہے۔ یکم جنوری 1925 کو جب کہ میں پیدا ہوا، اُس وقت بڈھریا صرف ایک دور افتادہ (remote) معمولی گاؤں تھا۔ سیاسی سرگرمیاں یا تمدنی ترقیاں ابھی تک یہاں نہیں پہنچی تھیں۔ میری ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے میں ہوئی۔ یہاں میرے استاذ مولانا فیض الرحمن اصلاحی تھے۔ میرے بچپن اور جوانی کی پوری عمر اِسی ماحول میں گزری۔
میری زندگی کا سب سے انوکھا واقعہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں کس طرح دعوت الی اللہ میرا مشن بن گیا۔ اُس وقت میرے خاندان میں زیادہ تر شعر و شاعری کا ماحول تھا۔ ہم لوگ اکثر بیت بازی کیا کرتے تھے۔ 1938 میں میرے چچا صوفی عبد المجید خاں نے مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر)میں میرا داخلہ کرایا تو یہاں بھی کوئی شہری ماحول نہ تھا۔ مدرسے کا تعلیمی ماحول بھی تمام تر نظمِ قرآن کے مخصوص فراہی فکر پر مبنی تھا۔ اِس پوری مدت میں کہیںبھی میںنے یہ بات نہیں سنی کہ غیر مسلموں کے درمیان دعوتی کام کرنا لازمی طورپر مسلمانوں کی شرعی ذمے داری ہے۔ مدرسے میں اور مدرسے کے باہر میں نے اسلامیات کا جو مطالعہ کیا، اُس میں بھی دعوت کا یہ تصور حذف تھا۔ قرآن کی تفسیروں میں سے کوئی بھی تفسیر دعوت الی اللہ کے تصور کے تحت نہیں لکھی گئی۔ حدیث کے مجموعوں میں جو تراجمِ ابواب ہیں، اُن میں سے کسی بھی کتاب میں دعوت کو ترجمہ باب نہیں بنایا گیا ہے۔ فقہ کے موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں، اُن میں بھی سیاسی اور غزواتی پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ مسلم تاریخ میں جو بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں، اُن میں بھی سارے ابواب ہیں، مگر اُس میں دعوت کا باب موجود نہیں۔ مثلاً الغزالی، ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ دہلوی، وغیرہ کی کتابیں۔ ایسی حالت میں یہ ایک انتہائی انوکھی بات ہے کہ کس طرح بعد کے دور میں دعوت الی اللہ میری زندگی کا واحد مشن بن گیا۔
اسی طرح میری زندگی کا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ میرے زمانے میں، مسلم دنیا میں ہر طرف، ادبی ذہن چھایا ہوا تھا۔ ادب اور شاعری کا اسلوب غالب اسلوب کی حیثیت رکھتا تھا۔یہ ذہن اتنا زیادہ عام تھا کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کے روایتی طبقہ اور انگریزی داں طبقہ کے درمیان کوئی فرق موجود نہ تھا۔ مسلمانوں کا یہ عمومی ذہن آج تک بدستور قائم ہے۔ ایسی حالت میں یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں کس طرح میں پوری مسلم ملت میںایک واحد استثنا بن گیا۔ میرے اندر سائنٹفک تھنکنگ پیدا ہوئی۔ میں نے حوصلہ شکن ماحول میں انگریزی زبان سیکھی۔ میں نے جدید علوم کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اور یہ سب کچھ صرف اِس لیے تھا کہ میں عصری ذہن کے سامنے اسلام کی دعوت کو موثر انداز میں پیش کرسکوں، حتی کہ عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر تیار کرنا ہی میرا اصل موضوع بن گیا۔
میرے ساتھ یہ جو استثنائی معاملہ پیش آیا، اُس پر جب میں غور کرتا ہوں تو اِس کی کوئی بھی توجیہہ اِس کے سوا سمجھ میں نہیں آتی کہ اُس کو قرآن کے الفاظ میںاجتباء(انتخاب) کا ایک معاملہ سمجھا جائے۔ اجتباء کے لفظی معنیٰ ہیں— چن لینا (to choose) ۔ اجتباء کے بارے میں قرآن کا تصور یہ ہے کہ خدا، دعوت الی اللہ کے مقصد کے لیے کسی انسان کو چن لیتا ہے، پھر اُس کے لیے ایسے اسباب فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے میں دعوت الی اللہ کے کام کو مطلوب اندازمیں کرسکے۔ دعوت کا کام کوئی سادہ کام نہیں۔ یہ موجودہ دنیا میں خدا کی نمائندگی کا کام ہے۔ اِس قسم کی نمائندگی بلاشبہہ اِس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ یہ کام صرف وہی انسان کرسکتا ہے جس کو خداوند ِ ذوالجلال کی خصوصی نصرت اور توفیق حاصل ہوئی ہو۔
اجتباء کا لفظ مختلف صورتوں میں قرآن میں 10 بار استعمال ہوا ہے۔امام راغب الاصفہانی (وفات: 1108 ء) نے لکھا ہے کہ قرآن کے مطابق، اجتباء کا معاملہ پیغمبر اور غیر پیغمبر دونوں کے ساتھ پیش آتا ہے(المفردات، صفحہ 87 ) ۔اجتباء کے اِس معاملے کا تعلق صُلحاء اور اَتقیاء سے نہیں ہے۔ اُن کا معاملہ ایک مختلف معاملہ ہے۔ اجتباء کا تعلق دراصل اُس مخصوص عمل سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت قرار دیا ہے (الحج:40 )، یعنی دعوت الی اللہ کا عمل۔
میری شخصیت کا ارتقاء جو بڈھریا اور سرائے میر اور اعظم گڑھ جیسے ماحول میں ہوا، وہ اتنا زیادہ انوکھا ہے کہ بظاہر اس کو اجتباء کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ میری پیدائش کا ایک واقعہ شایداِسی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ میری والدہ زیب النساء (وفات: 1985 ) بتاتی تھیں کہ بڈھریا کے گاؤں میں میری پیدائش ہوئی۔ جس صبح کو میں پیدا ہونے والا تھا، اُس کی رات کو میری ماں نے یہ خواب دیکھا کہ میں پیدا ہوا ہوں، پھر ایک بہت بڑا ہاتھی آتا ہے۔ وہ اپنی سونڈ سے اٹھا کر مجھ کو اپنی پیٹھ پر رکھ لیتا ہے اور مجھ کو جنگل کی طرف لے کر چلا جاتا ہے۔ میری ماں خواب میں کہتی ہیں کہ دیکھو، اتنا اچھابچہ تھا اور اُس کو ہاتھی اٹھا لے گیا۔
اب سوچتا ہوں تو میری سمجھ میں آتا ہے کہ یہ غالباً بلا تشبیہ اُسی قسم کا ایک واقعہ تھا جس کا ذکر قرآن میں حضرت موسی کے بچپن کے حوالے سے اِن الفاظ میں آیا ہے: واصطنعتک لنفسی (طٰہٰ: 41 ) مجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ مذکورہ خواب غالباً اِس بات کی علامت تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی دعوت کے لیے بچپن ہی سے میرا انتخاب فرمالیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت سے اِس حصے کے تمام مرحلے انجام پاتے رہے۔
اِس معاملے کا مزید انوکھا پن یہ ہے کہ یہ پورا معاملہ مجھے ’’کبّرنی موتُ الکُبراء‘‘ کا مصداق معلوم ہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ میں انتہائی قسم کا ایک ضعیف انسان ہوں۔ میںاپنے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے اپنے اندر عجز کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ میری اہلیہ سابعہ خاتون (وفات: 2006) جو 63 سال تک میرے ساتھ رہیں، وہ اکثر میرے بارے میں یہ کہا کرتی تھیں کہ آپ کو لکھنے پڑھنے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔ ایسے ایک بے قیمت انسان کے لیے کیسے یہ ممکن ہوا کہ وہ عصری اسلوب میںاسلامی لٹریچر تیار کرے اور پھر ایسے اسباب مہیا ہوں کہ یہ لٹریچر مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر تمام دنیا میں پھیل جائے۔
میں نے کئی بار اپنے اِس احساس کو اپنے ساتھیوں کے سامنے ایک کہانی کی صورت میں بیان کیا ہے۔ وہ کہانی یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک راجا تھا۔ اُس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کاانتقال ہوا تو اس کے بعد یہ سوال ہوا کہ راج گدّی پر کس کو بٹھایا جائے۔ درباریوں نے فیصلہ کیا کہ صبح سویرے ہم لوگ باہر جنگل کی طرف جائیں گے، وہاں پہلا جو انسان ملے گا، اُس کو ہم اپنا راجہ مان لیں گے اور اس کو راج گدی پر بٹھا دیں گے۔ درباریوں نے ایسا ہی کیا۔ صبح سویرے وہ جنگل میں پہنچے تو وہاں اُنھیں ایک غریب لکڑہارا دکھائی دیا، جو لکڑی چننے کے لیے وہاں آیا تھا۔ درباری اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ آج سے تم ہمارے راجا ہو۔ لکڑ ہارے نے کہا کہ میرے ساتھ مذاق نہ کرو، میں تو صرف ایک غریب لکڑہارا ہوں۔ لیکن درباری نہیں مانے۔ انھوں نے اِس لکڑہارے کو پکڑا۔ وہ اس کو شاہی محل میں لائے اور اس کو راج گدی پر بٹھادیا۔
میںنے کہا کہ ایسا ہی کچھ معاملہ میرے ساتھ پیش آیا ہے۔ موجودہ زمانہ ایک بالکل بدلا ہوا زمانہ تھا۔ قدیم دو راگر روایتی دور تھا تو موجودہ دور سائنسی دور۔ ضرورت تھی کہ جدید دور کے اعتبار سے، وقت کے اسلوب میں خدا کے دین کی موثر دعوت پیش کی جائے۔ پچھلے دو سو سال کے اندر اللہ تعالیٰ نے مسلم ملت کے اندر بہت سے اعلیٰ دماغ رکھنے والے افراد پیدا کیے۔ ایسے اعلیٰ دماغ اِسی لیے پیدا کیے گئے تھے کہ وہ جدید تقاضوں کی روشنی میں اسلامی دعوت کا کام کریں۔ لیکن یہ اعلیٰ دماغ رکھنے والے افراد دوسرے میدانوں میں کود پڑے، وہ خالق کی امید کو پورا نہ کرسکے۔ ایسے حالات میں مذکورہ واقعے کی طرح یہاں بھی شاید یہی معاملہ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم دنیا میں جاؤ اور ایک فلاں ’’لکڑہارے‘‘ کو اِس کام کے لیے چن لو اور اس کو ہر قسم کا سپورٹ دو، تاکہ کامل عجز کے باوجود وہ دورِ جدید میں دعوت کا کام انجام دے سکے۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے یہ کہانی بیان کی اور کہا کہ قدیم لکڑہارے کا قصہ تو غالباً صرف ایک قصہ تھا، لیکن میرے لیے وہ ایک صد فی صد حقیقت ہے۔ یہ دراصل اِس معاملے میں دوسرے اعلیٰ صلاحیت والے افراد کی ناکامی تھی جس نے میرے جیسے عاجز اور بے قیمت انسان کو یہ موقع دیا کہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرتیں مجھے حاصل ہوں اور میں دورِ جدید میں دعوت الی اللہ کا مطلوب کام کرسکوں۔
مدرسۃ الاصلاح کے ذمے داروں کو معلوم ہوا کہ میں اعظم گڑھ آرہا ہوں تو انھوں نے ٹیلی فون کے ذریعے مولانا محمد ذکوان ندوی سے ربط قائم کیا۔ اس کے بعد مدرسۃ الاصلاح کا ایک پروگرام بنا۔پروگرام کے مطابق، مدرسۃ الاصلاح کے دو اساتذہ مولانا انیس احمد اصلاحی، مولانا سرفراز احمد ندوی بڈھریا آئے۔ ان کے ساتھ 31 دسمبر2008 کی شام کو مدرسۃ الاصلاح کا سفر ہوا۔ یہ سفر بذریعہ کار ہوا۔ ہمارے ساتھ سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم کے افراد بھی شامل تھے۔
مدرسۃ الاصلاح 1908 میں قائم ہوا۔ اِس علاقے کے ایک مسلم زمین دار نے مدرسے کے لیے ایک بڑی زمین وقف کردی۔ اِسی زمین پر مدرسۃ الاصلاح کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بانی مولانامحمد شفیع (وفات: 1945) تھے، جو ایک قریبی گاؤں سیدھا سلطان پور کے رہنے والے تھے۔ مولانا اقبال احمد خاں سہیل کے تذکرے کے تحت بتایا گیا ہے کہ ابتدائی دور میں اُن کی عربی اور فارسی تعلیم کے لیے مولانا محمد شفیع صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میری براہِ راست ملاقات مولانا محمد شفیع صاحب سے نہیں ہوئی، البتہ میں اُن کے صاحب زادگان کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اُن سے میرے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی، مولانا عبد الرحمن پرواز اصلاحی، وغیرہ۔ مدرسۃ الاصلاح کے تعارف نامے میں بتایا گیا ہے کہ— مولانا شبلی نعمانی نے اس کے ابتدائی اَغراض ومقاصد اور طریقۂ کار کا اجمالی خاکہ تیار کیا۔ مولانا حمید الدین فراہی نے اس کے ابتدائی دور سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بحیثیت ناظم مدرسۃ الاصلاح کی خدمت کی۔ مولانا فراہی نے اس کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کی اور اس کے لیے نصاب تعلیم مقرر کیا۔
مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہونے کے بعد ایک شخص جو پہلی چیز محسوس کرتا ہے، وہ یہاں کی سادگی ہے۔ ہم لوگ مدرسے کے مختلف حصوںمیں گئے۔ ہر جگہ ہم نے نمایاں طورپر جو چیز دیکھی، وہ اس کی سادگی تھی۔ یہاں کے لوگ بھی سادہ اور متواضع نظر آئے۔ مدرسۃ الاصلاح کا یہ ماحول غالباً اُس کے بانیوں کے تصور کی بناپر ہے۔ یہ روایت وہاں اب تک باقی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی کو یہاں کی غربت اور سادگی سب سے زیادہ پسند تھی، اور انھوں نے اس کو قائم رکھنے کی سخت تاکید کی تھی۔ مولانا حمید الدین فراہی اُس زمانے میں دار العلوم حیدر آباد میں پرنسپل تھے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اُن کو مدرسۃ الاصلاح کے متعلق اپنے ایک خط مورخہ 19 اپریل 1910 میں لکھا کہ: ’’کیا تم چندروز سرائے میر کے مدرسے میں قیام کرسکتے ہو۔ میں بھی شایدآؤں۔اُس کا نظم ونسق درست کردیا جائے۔ اُس کو گروکُل کے طورپر خالص مذہبی مدرسہ بنانا چاہیے، یعنی سادہ زندگی، قناعت اور مذہبی خدمت اس کا مطمحِ زندگی ہو‘‘ (مکاتیبِ شبلی، جلد 2، صفحہ 33 )
مجھ کو 1938 میں مدرسۃ الاصلاح میں داخل کیاگیا۔ اُس وقت یہ مدرسہ چند چھوٹی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ اب وہاں کئی بڑی بڑی عمارتیں بن گئیں ہیں۔ مثلاً اُس وقت یہاں کا کتب خانہ (دار المعلومات) صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ اب یہاں کتب خانے کے لیے ایک مستقل عمارت بن گئی ہے جس میں کتب خانہ قائم ہے۔
اِس دار المعلومات سے میری کئی یادیں وابستہ ہیں۔ یہاں میں تقریباً روزانہ آتا تھا اور کتابوں اور جرائد کا مطالعہ کرتا تھا۔ اُس وقت یہاں مصر کا ایک عربی جریدہ آتا تھا۔ اُس کا نام ’’المقتطَف‘‘ تھا۔ اُس میں ایک بار ایک دل چسپ چیز چھپی تھی۔ اُس میں ایک عمل بتایاگیا تھا جس کے مطابق، آدمی اپنے مستقبل کے بارے میںجان سکتا تھا۔ وہ عمل یہ تھا کہ مخصوص تعداد میں ’’ابراکادابیسن کاتن‘‘ کہو۔ ا س کے بعد ایک خاص عمل کرکے اپنا نتیجہ نکالو۔ اُس وقت امتحان کا زمانہ تھا اور جلد ہی مجھے سالانہ امتحان دینا تھا۔ میںنے مذکورہ عمل کو دہرایا۔ اُس کے بعد اِن الفاظ میں نتیجہ نکلا: ستنجح نجاحاً کبیراً (تم جلد ہی ایک بڑی کامیابی حاصل کروگے)۔ اِس کے بعد امتحان ہوا تو میں اپنے درجے میں فرسٹ آیا۔ یہ صرف ایک اتفاق تھا، ورنہ کسی بھی عمل کے ذریعے مستقبل کو جاننا ممکن نہیں۔
31 دسمبر 2008 کو مغرب کی نماز کے بعد مدرسے کی وسیع مسجد میں طلبا اور اساتذہ کا ایک اجتماع ہوا۔ اِس موقع پر مجھے خطاب کے لیے یہ عنوان دیاگیا تھا—عصرِ جدید اور نوجوانوں کی ذمے داریاں۔ اِس موضوع پر میںنے تقریباً ایک گھنٹہ تقریر کی۔ میں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ دورِ جدید کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ دورِ جدید کے ذہن کو معلوم کیا جائے۔ اِس معاملے میں علامہ الشاطبی نے اپنی کتاب میں درست طورپر لکھا ہے کہ استدلال نام ہے خصم کے مسلمّۂ عقلی پر اس کو ایڈریس کرنے کا۔ اِس لیے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آج کے انسان کو موثر طورپر اسلام کا پیغام پہنچائیں تو آپ کو سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ آج کے انسان کا طرزِ فکر کیا ہے اور کون سا طرزِ استدلال اس کے لیے قابلِ قبول استدلال بن سکتا ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کے زمانہ قیام کی بہت سی یادیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اِس سفر نامے کے ذیل میں اُن میں سے کچھ کا تذکرہ کردیا جائے۔گاؤں کے مدرسے میں میرے استاد مولانا فیض الرحمن اصلاحی تھے۔ میںنے اِسی مدرسے میں عربی اور فارسی کی تعلیم شروع کردی تھی۔ اسی زمانے میں میںنے عربی کی کئی کتابیں پڑھیں۔ مثلاً کتاب النحو، کتاب الصرف (مولانا عبد الرحمن، امرت سری)۔ اِسی طرح میںنے یہاں فارسی کی کئی کتابیں پڑھیں۔ مثلاً گلستاں اور بوستاں (شیخ سعدی شیرازی)۔ اُس زمانے میں یہ سب کتابیں مجھ کو ایک معمّہ کی طرح نظر آتی تھیں۔ اُس زمانے میں میرے اندر نہ عربی کا کوئی ذوق پیدا ہوا تھا اور نہ فارسی کا کوئی ذوق۔
1938 میں مجھے مدرسۃ الاصلاح میں داخل کرایا گیا۔ یہاں میں نے دوبارہ عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کیا۔ اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے کہ میں اندھیرے سے نکل کر اجالے میں آگیا ہوں۔ اب ہر مضمون میری سمجھ میںآنے لگا، یہاں تک کہ میں امتحانات میں اچھے نمبر سے پاس ہونے لگا۔
اِس ذاتی تجربے سے میں نے یہ جانا کہ تعلیم کے لیے ایک پورا ماحول درکار ہوتا ہے۔ عربی علوم کی تعلیم کے لیے مدرسے کا ماحول ضروری ہے۔ اِسی طرح انگریزی علوم کی تعلیم کے لیے کالج اور یونی ورسٹی کا ماحول ضروری ہے۔ انفرادی طورپر پڑھنے سے نہ کسی کو عربی علوم میں درک حاصل ہوسکتا ہے اور نہ انگریزی علوم میں۔ اِس عموم میں استثنا ہوسکتا ہے، لیکن ایسا استثنا صرف ایک نادر استثنا (rare exception) ہے۔
مدرسۃ الاصلاح کی زندگی کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو میں نے اپنی کتاب ’’دین وشریعت‘‘ میں درج کیا ہے۔ وہ واقعہ اِس طرح ہے:
’’غالباً 1940 کی بات ہے۔ ہمارے علاقے میں سخت خشک سالی ہوئی۔ برسات کا موسم گزرتا جارہا تھا۔ مگر بارش کا کہیں پتہ نہ تھا۔ کسان روزانہ صبح اٹھتے ہی آسمان کی طرف دیکھتے تھے، مگر بادل کا ایک ٹکڑا بھی کہیں نظر نہ آتا تھا۔ بالآخر جب مایوسی حد کو پہنچ گئی تو یہ تحریک ہوئی کہ استسقاء کی نماز پڑھی جائے۔ مدرسۃ الاصلاح سے تقریباً دو کیلو میٹر دورایک میدان میں مدرسہ کے طلبہ اور اساتذہ اور اطراف کی بستیوں کے مسلمان جمع ہوئے۔ مرحوم مولانا محمد سعید صاحب جو اس وقت مدرسۃ الاصلاح میں استاد تھے اور جن سے میں نے حدیث پڑھی تھی، انھوںنے استسقاء کی نماز پڑھائی اور آخر میں بارش کے لئے دعا کی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ ہم لوگ سخت چلچلاتی ہوئی دھوپ میں سفر کرکے وہاں پہنچے تھے اور اس حال میں نماز ادا کی تھی کہ جسم پسینے سے شرابور ہورہا تھا۔ مگر نماز سے فارغ ہو کر جب ہم لوگ واپس ہوئے تو راستے ہی میں بارش شروع ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے درختوں کے نیچے پناہ لی اور کچھ لوگ بھیگتے ہوئے اپنے گھروں کو بھاگے۔
اس تجربے میں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں خدا کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ واقعہ میرے اِس عقیدہ کا ایک حسّی مظاہرہ بن گیا کہ ’’مانگو تو پاؤ گے، دروازہ کھٹکھٹاؤ تو وہ تمھارے واسطے کھولاجائے گا‘‘۔ اس وقت میری عمر 20 سال کے قریب تھی جب کہ انسان چیزوں کو نہایت شدت کے ساتھ اخذ کرتا ہے۔ چناں چہ یہ تجربہ میرے شعور کا مستقل جز بن گیا۔ وہ میری پوری شخصیت میں اس طرح شامل ہوگیا کہ پھر وہ کبھی مجھ سے جدا نہ ہوسکا۔
اس طرح کے تجربات صرف دینی مدرسہ کے ماحول میں پیش آتے ہیں۔ اِس طرح مدرسہ علم کے حصول کے ساتھ روحانی تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مدرسہ کے ماحول میں آدمی کو بار بار اعتماد علی اللہ اور معرفتِ آخرت کی خوراک ملتی رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مدرسہ کے ماحول میں تیار ہونے والا انسان علم اور روحانیت دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے، نہ کہ یک طرفہ قسم کا انسان، جیسا کہ عام طور پر سیکولر تعلیم گاہوں میں پایا جاتا ہے۔
مدرسہ کی یہ تربیت میرے لئے زندگی کے بعد کے دور میں میرا سب سے بڑا سرمایہ بنی رہی۔ کسی بڑے کام کا حوصلہ اللہ پر اعتماد کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہی سرمایہ مدرسہ سے مجھ کو حاصل ہوا۔ مجھے اپنے مقصد حیات کے اعتبار سے مادی ذرائع سے زیادہ اللہ پر بھروسہ کرنا تھا۔ اس قسم کے مشکل فیصلہ پر قائم رہنا میرے لئے زیادہ تر اسی مدرسی تربیت کی بناپر ممکن ہوسکا۔ احیائِ دعوت کا مشن جو میں نے اپنی زندگی میںاختیار کیا، وہ حدیث کی زبان میں معروف دین کے مقابلے میں اجنبی دین کے لئے کھڑا ہونا تھا۔ یہ بلا شبہہ اس آسمان کے نیچے سب سے زیادہ مشکل مشن ہے۔ اِس میں آدمی کو اکیلا ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ پہاڑوں اور سمندروں کو عبور کرنا آسان ہے، مگر اجنبی دین کو لے کر چلنا آسان نہیں۔ اللہ کے فضل سے میں اس دشوار ترین منصوبے پر ہر قسم کی رکاوٹوں اور ناموافق حالات کے باوجود قائم رہا، یہاں تک کہ فضاتبدیل ہوگئی۔ اس انجام کو دیکھنے کے لئے مجھے 40 سال کا صبر آزما انتظار کرنا پڑا۔ اور اس قسم کا انتظار اعتماد علی اللہ کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔‘‘(صفحہ 144-145)
میرے زمانہ تعلیم میں مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1998 ) مدرسۃ الاصلاح کے صدر مدرس تھے۔ میرے تجربے کے مطابق، مولانا موصوف ایک بہترین مدرس تھے۔ وہ اگر مدرسے میں مستقل قیام کرتے تو وہ زیادہ بڑا کام کرسکتے تھے۔ تقسیم ملک (1947) کے وقت وہ پاکستان چلے گئے اور وہیں اُن کا انتقال ہوگیا۔ میرے نزدیک، مولانا موصوف کا مدرسۃ الاصلاح چھوڑ کر پاکستان جانا کوئی درست فیصلہ نہ تھا۔ اگروہ آخر وقت تک مدرسے میں قیام کرتے تو وہ تعمیر ِ افراد کی صورت میںملت کو زیادہ بڑا فائدہ پہنچا سکتے تھے۔
مولانا امین احسن اصلاحی کے اندر ایک خاص صفت تھی جو میں نے اپنے تجربے میں کسی اور استاد کے اندر نہیں پائی، وہ ہے تدریس کے دوران ذہنی تربیت کی غذا دیتے رہنا۔ اِس نوعیت کا ایک نمایاں واقعہ یہاں راقم الحروف کی کتاب ’’دین وشریعت‘‘ سے نقل کیا جاتا ہے:
ٓ’’مدرسۃ الاصلاح میں قرآن خصوصی طورپر داخلِ نصاب تھا۔ یہاں مجھے یہ موقع ملا کہ میں مشہور عالمِ دین اور مفسر مولانا امین احسن اصلاحی (صاحبِ تدبر قرآن) سے براہِ راست قرآن کی تعلیم حاصل کروں۔ مولانا محترم اُس مدرسے میں استادِ تفسیر بھی تھے اور صدر مدرس بھی۔ ایک روز درس قرآن کے دوران قرآن کے تیسویں پارہ کی یہ آیت سامنے آئی: أفلا ینظرون إلی الإبل کیف خلقت (الغاشیۃ: 17 )۔ استاد محترم مولانا امین احسن اصلاحی نے اِس موقع پر طلبہ سے سوال کیا کہ اونٹ کے سُم پھٹے ہوتے ہیں یا وہ جڑے ہوئے ہوتے ہیں، یعنی وہ بیل کی مانند ہوتے ہیں یا گھوڑے کی مانند۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریباً 20 طالبِ علم تھے، مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل سے کبھی ایک جواب دیتا اور کبھی دوسرا جواب۔
اس کے بعد استاد محترم نے ایک تقریر کی۔ انھوںنے کہا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم لوگ اونٹ کے سُم کی نوعیت کے بارے میں نہیں جانتے۔ پھر انھوںنے عربی زبان کا یہ مقولہ سنایا: ’’لا أدری‘‘ نصف العلم (میں نہیں جانتا، آدھا علم ہے) اس کی تشریح کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اِس معاملے میں تمھارے پاس آدھا علم موجود ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لئے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سُم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لاادری کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سُم کو غور سے دیکھتے اور پھر تم اپنے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔‘‘ (صفحہ 140 )
مدرسے کا یہ واقعہ میرے لئے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملے میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں ا س کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میںنے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (Spirit of Inquiry) ۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سائنسی دریافتوں کا آغاز شبہات (doubts) سے ہوا۔ سائنس داں ایک واقعے کو دیکھتا ہے، پھر اس کے اندر ایک شبہہ پیداہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ وہ اس کی تحقیق میں لگ جاتا ہے۔ آخر کار وہ ایک ایسی حقیقت کو دریافت (discover) کرتا ہے جو اِس سے پہلے اس کو معلوم نہ تھی۔ برٹرینڈ رسل کی کتاب وِل ٹو ڈاؤٹ (Will to Doubt) خاص اِسی موضوع پر لکھی گئی ہے۔
اِس معاملے کی ایک مثال بھاپ کی طاقت (steam power) کی دریافت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برٹش سائنس داں جارج اسٹفنسن (George Stephenson) ایک دن اپنے گھر پر تھا۔ اُس نے دیکھا کہ اس کے گھر والے ایک برتن میں پانی گرم کررہے ہیں۔ جب اُس کا درجہ حرات ایک خاص نقطے پر پہنچا تو اندر سے اُبال آیا اور برتن کے اوپر رکھا ہوا ڈھکن اٹھ گیا۔ اُس کو دیکھ کر جارج اسٹفنسن اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس نے جاننا چاہا کہ برتن میں ابال کیوں آیا اور ڈھکن اوپر کیوں اٹھ گیا۔
اِس پر غور کرتے ہوئے وہ اِس دریافت تک پہنچا کہ پانی کادرجۂ حرارت جب 100 ڈگری سے زیادہ ہوجاتا ہے تو پانی کے سالمات (molecules) ٹوٹنے لگتے ہیں۔ اس کے ایٹم (atoms) منتشر ہونے لگتے ہیں۔ اِس ایٹمی انتشار (atomic disintegration) سے جو طاقت پیدا ہوتی ہے، اس کا نام اسٹیم پاور (steam power) ہے۔جارج اسٹفنسن نے اِس اسٹیم پاور کو دریافت کرکے اس کو انجن میں استعمال کیا اور اس طرح اس نے پہلی بار 1814 میں ایک دخانی انجن (locomotive) کو چلایا۔
دینی مدارس میں عام طورپر تقدس (holiness) کا مزاج چھایا ہوا ہوتا ہے۔ جہاں تقدس آیا، وہاں پُراسراریت آگئی۔ اِس ماحول میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ چیزوں کو مقدس سمجھ لیتے ہیں۔ وہ اُن پر مزید غور فکر کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ اِس طرح تقدس کا مزاج فکری ارتقا کے لیے قاتل بن جاتا ہے۔ فکری ارتقا کا آغاز شبہہ(doubt) سے ہوتا ہے۔ شبہہ سے آغاز کرکے آدمی حقیقت کی شعوری دریافت تک پہنچتا ہے۔جہاں شبہہ کو عیب سمجھ لیا جائے، وہاں ذہنی ارتقا کا آغاز بھی نہیں ہوگا۔
مدرسۃ الاصلاح ریلوے لائن کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں یہ ریلوے لائن برٹش دور میں 1901 میں بچھائی گئی تھی۔ میرے ایک استاد مولانا نور الہدی اصلاحی (وفات: 1972 )تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ہماری کلاس چل رہی ہے۔ اِس دوران ریلوے اسٹیشن سے انجن کی سیٹی کی آواز آئی اور پھر مخصوص آواز کے ساتھ ٹرین چلنے لگی۔ اُس وقت مولانا نورالہدی اصلاحی اپنا یہ شعر پڑھتے تھے:
پُو سے سیٹی دیا اور پھر چل پڑی رِل گڑی، رِل گڑی، رِل گڑی
اُس زمانے کا جو ماحول تھا، اُس کی یہ ایک مثال ہے۔ اپنی نوجوانی کی عمر میں، میں ریلوے کے بارے میں اِس سے زیادہ اور کچھ نہ جان سکا۔ بعد کو میں نے جواہر لال نہرو (وفات: 1969 ) کی کتاب (آٹو بیاگریفی) پڑھی۔ اُس میں مصنف نے لکھا تھا کہ انگریزوں نے انڈیا میں جو ریلوے لائن بچھائی ہے، وہ ریلوے نہیں ہے، بلکہ یہ لوہے کی زنجیریں ہیں۔ ان کو انگریزوں نے انڈیا کو اپنی غلامی میں جکڑنے کے لیے بچھایا ہے۔
آزادی سے پہلے کے دور میں، میں ریلوے کے بارے میں اتنا ہی جان سکا تھا۔ اُس زمانے میں ہر طرف اِسی قسم کی منفی باتیں چھائی ہوئی تھیں جو دوسروں کی طرح میرے ذہن کی بھی کنڈیشننگ کررہی تھیں۔ بعد کو جب میںنے براہِ راست طورپر چیزوں کا مطالعہ کیا تو میں نے ذاتی دریافت کے ذریعے یہ جانا کہ برٹش جو نو آبادیاتی نظام کے تحت انڈیا میں آئے، وہ ایک تاریخی عمل کا جز تھے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، انڈیا میں اُن کا آنا جدید سائنس اور انگریزی زبان کا انڈیا میں آنا تھا۔ جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب (The Discovery of India) میں لکھا ہے کہ عرب جو ہندستان میں آئے، وہ یہاں ایک شان دار کلچر (brilliant culture) لے کر آئے۔ اِسی طرح برٹش جو انڈیا میں آئے، وہ انڈیا میںایک شان دار سائنس لے کر آئے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اُن کا انڈیا میں آنا تاریخ کا ایک مثبت واقعہ تھا، نہ کہ معروف معنوں میں کوئی منفی واقعہ۔
انڈیا میں جو بڑے بڑے عربی مدارس ہیں، اُن سب میں مشترک طورپر ایک نقص پایا جاتا ہے، وہ یہ کہ یہ تمام مدارس، تعلیم برائے مسلک کے اصول پر قائم کیے گئے ہیں۔ جب کہ صحیح یہ ہے کہ مدارس کو تعلیم برائے تعلیم کے اصول پر قائم کیاجائے۔ ہر مدرسے کا اپنا ایک مسلک ہے اور یہی مسلک اس کی تمام تعلیمی سرگرمیوں میں چھایا رہتا ہے۔ مدرسۃ الاصلاح کا اِس معاملے میں کوئی استثنا نہیں۔ مدرسۃ الاصلاح کا مسلک مولانا حمید الدین فراہی کے تصورِ نظمِ قرآن پر قائم ہے۔ نظم قرآن کی الگ سے جو بھی حیثیت ہو، لیکن اس کو مدرسے کا مسلک قرار دینا ہرگز درست نہیں۔
اہلِ علم عام طورپر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مدارس میں تعلیم پائے ہوئے افراد کے اندر عام طورپر تعصب اور کٹر پن کا مزاج ہوتا ہے، جب کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم پائے ہوئے افراد کے اندر عام طورپر تعصب اور کٹرپن کا مزاج نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہی ہے کہ مدارس میں ’’تعلیم برائے مسلک‘‘ کا اصول رائج ہے، جب کہ سیکولر ادارے’ تعلیم برائے تعلیم‘‘ کے اصول پر چلائے جاتے ہیں۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔’’تعلیم برائے مسلک‘‘ کا ایک بہت بڑا نقصان ہے، وہ یہ کہ اِن اداروں میں آزادانہ تفکیر کا ماحول نہیں ہوتا۔ اور آزادانہ تفکیر کا خاتمہ ہمیشہ ایک بھاری قیمت پر ہوتا ہے، وہ یہ کہ ایسے ماحول میں تخلیقی فکر (creative thinking) ختم ہوجاتی ہے۔ تخلیقی فکر کا نشو ونما نہ پانا اتنا بڑا نقصان ہے جس کی تلافی کسی بھی دوسری چیز سے ممکن نہیں۔
مدرسۃ الاصلاح سے رات ہی کو ہم لوگ بڈھریا واپس آئے، جو تقریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہم نے بڈھریا میں رات گزاری۔ یکم جنوری 2009 کی صبح کو ہم لوگ قافلے کی صورت میں چھاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ چھاؤں میں ہم لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور یہاں کئی گھنٹے قیام کیا۔
چھاؤں، ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤں ہے۔ یہاں کا پروگرام مسٹر شکیل احمد خاں نے بنایا تھا۔ پروگرام کے مطابق، ہم کو چھاؤں میںکچھ دیر قیام کرنا تھا۔ چھاؤں میں ایک سبق آموز واقعہ پیش آیا۔ میرے ساـتھیوں نے چاہا کہ میں اس کو دیکھوں اور اس کو اپنے سفر نامے میں شامل کروں۔
چھاؤں تک پختہ سڑک بن گئی ہے۔ ہماری گاڑی چلتے ہوئے مسٹر شاہد کے فارم ہاؤس پر پہنچی۔ یہ فارم ہاؤس 18 بیگہ زمین کے رقبے پر بنایا گیا ہے۔ اُس کو دیکھ کر میںنے کہا کہ میں نے دہلی کے آس پاس کئی فارم ہاؤس دیکھے ہیں، مگر یہ فارم ہاؤس مجھے اُن سے بہتر نظر آتا ہے۔ یہاں پر ایک وسیع اور خوب صورت تالاب ہے۔ مختلف قسم کے پھولوں اور پھلوں کے درخت یہاں موجود ہیں۔ شہروں جیسی فضائی آلودگی (air pollution) یہاں موجود نہیں۔ خالص ہوا، سنہری دھوپ، فطرت کا ماحول اور مکمل سکون، اِس طرح کی چیزوں نے اِس مقام کو جنت کا ایک تعارف بنادیا ہے۔ فضا میں اڑتی ہوئی چڑیاں اس کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کررہی تھیں۔ یہاں میں نے ماحول کی نسبت سے کچھ باتیں کہیں جو ویڈیو کی صورت میں اُسی وقت ریکارڈ کرلی گئیں۔ مسٹر شاہد کے بھائی مسٹر ظہیر الاسلام یہاں موجود تھے، انھوں نے ہمارے ساتھ ہر قسم کا تعاون کیا۔
میں نے کہا کہ مسٹر شاہد میرے عزیز ہیں۔ اُن کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔ بعض اسباب کی بناپر وہ گھر کو چھوڑ کر بمبئی چلے گئے تھے۔ اُس وقت ظاہری اعتبار سے اُن کے پاس نہ بزنس کرنے کے لیے کوئی سرمایہ تھا اور نہ سروس کرنے کے لیے کوئی ڈگری۔ بظاہر وہ کسی خصوصی صلاحیت کے مالک بھی دکھائی نہ دیتے تھے۔ بمبئی پہنچ کر انھوں نے ایک مزدور کی حیثیت سے اپنا کام شروع کیا، اور وہ تھا گھروں میں پینٹنگ (painting) کرنا۔ وہ اپنا کام نہایت محنت اور توجہ کے ساتھ کرتے تھے۔ چناںچہ اُن کا کام بڑھا، یہاں تک کہ انھوںنے اپنی کمپنی بنا لی۔ اب اُن کا یہ کام ایک بڑے کاروبار کی صورت اختیارکر چکا ہے۔ اُن کا کام اتنا اچھا ہوتا ہے کہ ہر طبقے کے لوگ ان سے اپنا کام لیناپسند کرتے ہیں۔ اپنے کام کے اعتبار سے اُن کو مارکیٹ میں زبردست اعتماد حاصل ہوچکا ہے۔
اِسی کے ساتھ مسٹر شاہد کے اندر اخلاقی صفات بھی پوری طرح پائے جاتے ہیں۔ انھوںنے اپنی کمائی کو فضول ضائع نہیںکیا۔ انھوںنے اپنے آبائی گاؤں (چھاؤں) میںجدید طرز کا ایک فارم ہاؤس بنایا۔ یہ فارم ہاؤس ایک قسم کی صحت گاہ ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی اپنے آپ کو فطرت کی دنیا میں پاتا ہے۔ یہاں منفی احساسات اور ذہنی ٹنشن جیسی چیزیں اپنے آپ ختم ہوجاتی ہیں۔ میں نے اور میرے ساتھیوں نے یہاں چند گھنٹے گزارے۔میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ فارم ہاؤس خاموش زبان میںایک پیغام دے رہا ہے، وہ یہ کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی ترقی کے مواقع پوری طرح موجود ہیں۔ ضرورت صرف دانش مندانہ منصوبہ بندی کی ہے۔ اگر دانش مندی اور منصوبہ بند عمل کا ثبوت دیا جائے تو اِس ملک میں ہر قسم کی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ہندستان میں اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یہاں کے مسلمان کیا کریں۔ میں کہوں گا کہ مسلمان صرف یہ کریں کہ وہ خدا کا شکر ادا کریں۔ مسلمانوں کے لیڈروں نے پچھلے سو سال کے اندر مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل سے دوچار کیا ہے۔ لیکن خدا کی اِس دنیا میں مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی نادانی اس کا خاتمہ نہیںکرتی۔چناں چہ مسلم رہنماؤں کی مسلسل نادانیوں کے باوجود اب بھی یہاں قیمتی مواقع موجود ہیںجن کو استعمال کرکے مسلمان ہر قسم کی ترقی حاصل کرسکیں۔ اِس صورتِ حال میں مسلمانوں کو صرف شکر کرنا ہے۔ شکایت اور احتجاج جیسی چیزوں کے لیے یہاں کوئی جواز موجود نہیں۔
یکم جنوری 2009 کو جب کہ میں چھاؤں کے اِس فارم ہاؤس میں بیٹھا ہوا تھا، گاؤں کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ وضع قطع کے لحاظ سے بظاہر وہ خوش حال دکھائی دیتے تھے۔ حسب معمول میںنے اُن سے کہا کہ اپنے کچھ تجربات بتائیے۔ انھوں نے کہا تجربات کیا، آپ کو معلوم ہے کہ آج کل مسلمانوں کے ساتھ کتنا ظلم ہورہا ہے۔ مسلمانوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جارہے ہیں۔ میں نے ان سے زیادہ بات نہیں کی۔
میں سوچنے لگا کہ مثبت واقعات کے درمیان آدمی منفی بات کیوںکرتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے قدموں کے نیچے نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھ کر رائے نہیں بناتے۔ وہ دور کی خبروں کو لے کر اپنی رائے بناتے ہیں۔اِس بنا پر وہ دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھنے والے بن جاتے ہیں۔ جاننے کے باوجود وہ نہ جاننے والوں کی طرح بولنے لگتے ہیں۔یہ انسان کی عجیب کم زوری ہے کہ منفی باتیں اس کو خوب دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن مثبت باتوں کو دیکھنے کے لیے وہ اندھا بن جاتا ہے۔
چھاؤں کے فارم ہاؤس کا موجودہ استعمال صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لیے مفت تفریح (free entertainment) کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ عزیزوں اور دوستوں کے علاوہ، ممتاز افراد بھی یہاں آتے ہیں اور تفریح کے کچھ لمحات گزار کر چلے جاتے ہیں۔ میرا احساس ہے کہ یہ اِس مقام کا صرف ایک کم تر استعمال ہے۔ موجودہ زمانے کے اعتبار سے اِس مقام کو کئی تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہاںایک معیاری اسکول قائم کیا جائے، جیسا کہ بڈھریا میں قائم کیا گیا ہے، یا یہاں ایک اچھا اسپتال بنایا جائے جہاں جدید طرز پر لوگوں کے لیے علاج کا انتظام ہو، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں صنعتی کثافت (industrial pollution) کی بناپر شہروں کی فضا نہایت خراب ہوگئی ہے۔ لوگ مجبورانہ طورپر شہروں میں رہتے ہیں، ورنہ عام طورپر شہروں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ شہر اب رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں اگر فطرت کی اِس دنیا میں اسکول اور اسپتال جیسی چیزیں بنائی جائیں تو لوگ دور دور سے یہاں آئیں گے۔ وہ اس کی بڑی بڑی قیمت دے کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔اِس طرح اِس مقام پر جب لوگوں کا آنا جانا ہونے لگے گا تو اُس سے ایک اور زیادہ بڑے فائدے کے مواقع نکل آئیں گے اور وہ ہے دعوت الی اللہ، یعنی یہاں آنے اور جانے والوں کے درمیان دعوتی ملاقاتیں، یہاں دعوتی لکچر کا انتظام، دعوت کے مقصد کے تحت لائبریری اور ریڈنگ روم، لوگوں کو دعوتی کتابیں فراہم کرنا، وغیرہ۔
دوپہر کے کھانے کے بعد ہم لوگ چھاؤں سے اعظم گڑھ کے لیے روانہ ہوئے۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد ہم لوگ شبلی نیشنل کالج کے گیسٹ ہاؤس میں پہنچے۔ یہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے ظہر کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے مختلف نشستوں میں اپنے کچھ تجربات بیان کیے۔ یہ تجربات تقریر کی صورت میں تھے۔ وہ اُسی وقت ریکارڈ کرلیے گئے۔ ڈاکٹر احمد صفی انصاری اِس پورے سفر میں ہمارے ساتھ تھے۔ان کا پورا تعاون ہم کو حاصل تھا۔
یکم جنوری 2009 کی شام کو عصر کے بعد اعظم گڑھ سے دہلی کے لیے روانگی کا پروگرام تھا۔ لیکن معلوم ہوا کہ ’’کیفیات ایکسپریس‘‘ بہت زیادہ لیٹ ہے۔ اِس لیے ڈاکٹر احمد صفی انصاری کی دعوت پر ہم لوگ گیسٹ ہاؤس سے روانہ ہو کر اُن کے مکان،محلہ ریدوپورپہنچے۔ یہ مکان شہر کے کنارے کھلی جگہ پر واقع ہے۔ یہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے رات کا کھانا کھایا۔ یہاں ہماری ٹیم کے لوگوں کے علاوہ خاندان کے کئی افر اد اکھٹا ہوگئے۔ ان کے سامنے مختلف موضوعات پر دیر تک بات ہوتی رہی۔
میں نے جو باتیں کہیں، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ اکثرلوگ پُرخوری (overeating) کا شکار رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی (وفات: 1943 ) سے اُن کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ آپ اکثر کم خوری کی نصیحت کرتے ہیں۔ اِس کا طریقہ کیا ہے۔ کیسے آدمی کو یہ معلوم ہو کہ اُس نے ضرورت کے بقدر کھانا کھالیا ہے اور اب مزید کھانا پُرخوری کہلائے گا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے کہا کہ کھانا کھانے کے دوران ایک مرحلہ آتا ہے، جب کہ آدمی کا دل چاہتا ہے کہ مزید کھانا کھائیں یا نہ کھائیں۔ یہی مرحلہ کم کھانے کا مرحلہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اُس وقت اپنا ہاتھ روک لے اور مزید کھانا نہ کھائے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی یہ بات بالکل درست تھی۔ اِس معاملے میں سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آدمی جب کھانا کھاتا ہے اور ضرورت کے بقدر اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو شعوری طورپر فوراً اُس کو اِس کی خبر نہیں ہوتی۔ شکم سیری کے معاملے کو شعوری طورپر سمجھنے میں تقریباً بیس منٹ لگ جاتے ہیں:
It takes your body about 20 minutes to signal to your brain that it is full. So eat slowly, and stop when you feel half full. (The Times of India, September 28, 2007)
یہاںایک مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ایک صاحب کی بہت تعریف کی جوان کے نزدیک موجودہ زمانے میں اسلام کے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔ یہ صاحب تقریریں کرتے ہیں اور اپنی تقریر میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن سے مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں فخر کی غذا ملتی ہے۔ مسلمان خوش ہو کر ان کے جلسے میں تالیاں بجاتے ہیں۔ میں نے مذکورہ مسلم نوجوان سے دو باتیں کہیں۔میں نے اُن سے پوچھا کہ جن کو آپ اسلام کا ہیرو بتاتے ہیں، کیا ان کے جلسے میں تالیاں بجائی جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں، میں خود بھی تالیاں بجاتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی جماعت میں خطاب فرماتے تھے۔ کیا صحابہ وہاں تالیاں بجاتے ـتھے۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ جو کام صحابہ نے نہیں کیا، وہ آپ لوگ کرتے ہیں اور اس کو اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں، یہ تو بلا شبہہ ایک بدعت ہے اور بدعت کو حدیث میں ضلالت (گمراہی ) کہاگیا ہے۔ ایسی تقریر قابلِ مذمت ہے، نہ کہ قابلِ تعریف۔
دوسرا سوال میں نے ان سے یہ کیا کہ مذکورہ مسلم اسپیکر کی آپ اتنی زیادہ تعریف کرتے ہیں۔ آپ یہ بتائیے کہ ان کی تقریریں سننے یا ان کے پروگرام دیکھنے سے خود آپ کی شخصیت میں کیا تبدیلی ہوئی:
What change do you feel has come to your personality after listening to his speeches.
مذکورہ مسلم نوجوان نے میرے اس سوال کو اِس طرح سنا جیسے کہ ان کے لئے یہ ایک عجیب سوال ہو۔ وہ میرے اِس سوال کے جواب میں اپنی شخصیت کے اندر کسی تبدیلی کا حوالہ نہ دے سکے۔ میں نے کہا کہ مذکورہ مقرر کو آپ اسلامی داعی کہتے ہیں۔ زیادہ صحیح الفاظ میں وہ اسلام کے نام پر تفریح مہیا کرنے والے (Islamic entertainer) ہیں۔ ان کی تقریریں سننا ایسا ہی ہے جیسے تفریح کے لئے کوئی فلم دیکھنا۔ اس قسم کے پروگرام مقرر اور سامع دونوں کے لئے ایک گناہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ایسے پروگراموں میں شرکت بھی گناہ ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا تعاون دینا بھی گناہ ۔
میں نے کہا کہ اسلامی تقریر کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس کو سن کر لوگوں کو اپنی برتری کی غذا ملے، وہ تالیاں بجائیں۔ کوئی شخص ان کو اپنا ہیرو دکھائی دینے لگے۔ اس کے برعکس، اسلام کی تقریر وتحریر کا معیار یہ ہے کہ اس سے لوگوں کے اندر ذاتی محاسبہ (introspection) کی سوچ جاگے۔ اس سے لوگوں کے اندر خدا کا خوف اور آخرت کی پکڑ کا احساس پیدا ہو۔ اس سے لوگوں کی سوچ میں اور ان کے عمل میں بدلاؤ آنے لگے۔ اس سے لوگوں کو دینی غذا ملے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ جس تقریر و تحریر سے لوگوں کو اس قسم کا ذاتی فائدہ حاصل نہ ہو وہ صرف ایک ذہنی تفریح ہے، اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔
میں نے کہا کہ اگر آپ بزنس کریں توآپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بزنس کا معیار آمدنی (income) ہے۔ جس بزنس کا یہ حال ہوکہ ساری محنت کے باوجود آپ کو اس سے کوئی آمدنی نہ ملے، ایسا بزنس صرف وقت اورمال کا ضیاع ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی بزنس۔ میںنے کہا کہ ایسے بزنس کو ہر آدمی چھوڑ دے گا۔ یہی معاملہ آپ کو مذکورہ قسم کے پروگرام کے بارے میں کرنا چاہیے۔
میںنے کہا آپ جیسے لوگ بزنس کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اِس لئے بزنس کے معاملے کو خوب سمجھتے لیتے ہیں۔ لیکن اسلام کے معاملے میں آپ سنجیدہ نہیں، اس لئے اسلام کی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اسلام کے نام سے آپ صرف اپنے قومی فخر کو جانتے ہیں، نہ کہ خود اسلام کو۔
ڈاکٹر احمد صفی انصاری کے گھر سے روانہ ہوکر ہم لوگ اعظم گڑھ ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ واپسی میں ہماری گاڑی بارہ گھنٹے لیٹ ـتھی۔ یہ تاخیر کہر (fog)کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ہم لوگ اسٹیشن پہنچے توگاڑی آچکی تھی۔ ہم لوگ گاڑی پر سوار ہوگئے۔ اعظم گڑھ اسٹیشن سے ہم دہلی کے لیے روانہ ہوئے تو رات کے تقریباً بارہ بج چکے تھے۔ یہ رات کا وقت تھا، اِس لیے زیادہ وقت سونے میں گزرا۔اگلے دن 2جنوری 2009 کو رات ایک بجے ہم لوگ دہلی پہنچے۔ ہم لوگ اسٹیشن سے باہر آئے تو یہاں ہمارے ساتھی کار کے ساتھ موجود تھے۔ ہم اُن کے ساتھ روانہ ہو کر دوبارہ نظام الدین ویسٹ پہنچ گئے۔
واپس اوپر جائیں