دعوت الی اللہ کے تین دَور
دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن میں اِنذار اور تبشیر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے: رسُلاً مبشّرین ومنذرین لئلاّ یکون للنّاس علی اللہ حجّۃٌ بعد الرّسل (النساء: 165 ) یعنی ہم نے لوگوں کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے، خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف حجت باقی نہ رہے۔
پیغمبروں نے دعوت الی اللہ کاجو کام کیا، وہ اصلاً یہ تھا کہ ہر زمانے کے انسان کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) سے آگاہ کیا جائے،لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ موجودہ دنیا تم کو بطور انعام نہیں ملی ہے، بلکہ بطور امتحان ملی ہے۔ اِس دنیا میں تمھارے قول و عمل کا ریکارڈ درج کیا جارہا ہے۔ اگلی مستقل دنیا میںاِس ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے لیے یا تو جنّت کا فیصلہ کیاجائے گا، یا جہنّم کا۔ دعوت الی اللہ کی اِس طویل تاریخ کے تین بڑے دور ہیں۔ مطالعے کی آسانی کے لیے اُن کو حسب ذیل تین اَدوارکی صورت میں بیان کیاجاسکتا ہے:
1 - پیغمبروں کا دور
2 - اصحابِ رسول کا دور
3 - اخوانِ رسول کا دور
پیغمبروں کا دور
پیغمبروں کا دور آدم سے شروع ہوا، جو کہ پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی، اور یہ دورآخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، خدا کے یہ پیغمبر ہر نسل میں اور ہر علاقے میں لوگوں کو خدائی سچائی (divine truth)کا پیغام دیتے رہے (الفاطر: 24 )۔ یہ پیغام اصلاً توحید اور آخرت کا پیغام تھا۔ اِس پیغمبرانہ دعوت کا جو عمومی انجام ہوا، اُس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: یا حسرۃً علی العباد، مایأتیہم من رسولٍ إلاّ کانوا بہ یستہزؤن (یٰس: 30)۔ یعنی بندوں پر افسوس ہے۔ اُن کے پاس جب بھی کوئی پیغمبر آیا، تو انھوں نے اُس کو حقیر سمجھا اور اس کا مذاق اُڑایا ۔
پیغمبروں کے ذریعے دعوت کا یہ سلسلہ حضرت ابراہیم تک جاری رہا۔ حضرت ابراہیم 260 قبل مسیح میں عراق کے شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے 175 سال کی عمر پائی۔ وہ لمبی مدت تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے، لیکن لوگوں نے آپ کی بات نہ مانی۔ آخر کار وہ عراق سے نکل کر دوسرے مقامات کی طرف چلے گئے۔ جب وہ عراق سے نکلے تو اُن کے ساتھ صرف دو انسان تھے۔ ایک، اُن کے بھتیجے لوط اور دوسرے، ان کی بیوی سارہ۔
پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا کیوں ہوا۔ اِس کا جواب حضرت ابراہیم کی آخری زمانے کی ایک دعا میں اِن الفاظ میںملتا ہے: ربّ إنّہنّ أضللن کثیراً من الناس (إبراہیم: 36 ) اِس آیت کی تشریح اُس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جس میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلُّ مولود یُولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہوّدانہ أوینصرانہ أویمجّسانہ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز ) ۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا سب سے پہلے اپنے قریبی ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ اُس کا بچپن اور اس کی جوانی جس ماحول میں گزرتی ہے، اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوتی رہتی ہے۔ اس کے بعد جب اس کے سامنے کوئی پیغمبر آتا ہے اور اُس کو خدائی سچائی کا پیغام دیتا ہے تو ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ اُس کو سمجھ نہیں پاتا۔ یہی کنڈیشننگ اُس زمانے میں دعوت کی راہ میں سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اُن کے لیے ناممکن ہوگیا تھا کہ وہ اپنی کنڈیشننگ سے باہر آکر ایک نئے پیغام کو خالی الذہن ہوکر سنیں اور آزادانہ طورپر اس کو سمجھ کر اُس کو قبول کرلیں۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے دعوتی عمل کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ شہروں اور انسانی آبادیوں سے دُور کھُلے صحرا میں ایک نئی نسل تیار کی جائے، جو انسانی تمدن کی کنڈیشننگ سے پاک اور غیر متاثر ذہن کے تحت پیغمبرانہ دعوت کو سنے اوراس کو قبول کرسکے۔ اِسی منصوبہ بندی کے تحت ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اُن کی ماں ہاجرہ کے ساتھ موجودہ مکہ کے پاس غیر آباد صحرا میں لاکر بسا دیا، یعنی ایک ایسی جگہ جہاں کوئی تمدن یا کوئی انسانی کلچر لوگوں کی کنڈیشننگ کے لیے موجود نہ تھا۔
اصحابِ رسول کا دَور
عرب کے صحرا میں جو قوم تیار ہوئی، اس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ توالد وتناسل کے ذریعے اِس قوم کی تیاری میں تقریباً ڈھائی ہزار سال لگ گئے۔ یہ منفرد قسم کے لوگ تھے۔ صحرائی تربیت کے اِس معاملے کو پروفیسر فلپ ہٹی (وفات: 1978 )نے نرسری آف ہیروز (nursery of heroes) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ صحرائی تربیت کا یہ طریقہ اِس لیے اختیار کیا گیا، تاکہ کنڈیشننگ سے پاک لوگ(deconditioned people) پیدا کئے جاسکیں۔
کنڈیشننگ سے محفوظ ہونے کی بنا پر بنو اسماعیل اپنے اصل نیچر پر قائم رہے۔ اُن کے اندر انسانی اوصاف بدرجۂ اتم محفوظ حالت میںموجود تھے۔ یہی انسانی اوصاف تھے جن کو قدیم عرب کے لوگ المرُوء ۃ(manliness) کہتے تھے۔
ڈھائی ہزار سالہ صحرائی تربیت کے بعد بنو اسماعیل کی جو قوم تیار ہوئی، وہ اُس وقت کی پوری آباددنیا میں ایک منفرد قوم تھی۔ اُس وقت دنیا کا یہ حال تھا کہ تمام قوموں میںشرک کلچر چھاگیا تھا۔ شہری آباد یوں میں بسنے والے تمام عورت اور مرد مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔ شرک کا تصور اُن کے دل و دماغ میں اِس طرح سما گیا تھا کہ اُس کے خلاف سوچنا، اُن کے یے ناممکن ہوگیا تھا۔ اگرچہ سرحدی علاقوں کے اثرات سے بنواسماعیل میںبھی جُزئی طورپر شرک اور بُت پرستی آگئی تھی، لیکن یہ محض رواج کی سطح پر تھی، بنو اسماعیل کے اندر اس کی گہری جڑیں موجود نہ تھیں۔ اِس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے۔
امرء ُ القیس عرب کا ایک ممتاز شاعر تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570ء) سے تیس سال پہلے 540 ء میںاُس نے وفات پائی۔ وہ بظاہر ایک بت پرست قبیلے میں پیدا ہوا، لیکن دوسرے عربوں کی طرح، بت پرستی کے بارے میں گہرا یقین اس کے اندر موجود نہ تھا۔ امرء القیس کے باپ کو قتل کردیا گیاتھا۔ وہ قاتل سے اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے بت ذُو الخلَصہ کے پاس گیا اور عرب رواج کے مطابق، اُس نے فال نکال کر اِس معاملے میں بت کی رائے معلوم کرنا چاہا کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو قتل کروں یا نہ کروں۔ جواب آیا کہ نہیں۔ اِس پر امرء القیس غصّے میں آگیا اور اُس نے بت کو اپنی کمان سے مار کر کہا:
لو کنتَ یا ذا الخلص الموتورا مثلی، وکان شیخک المقبورا
لم تنہ عن قتل العُداۃ زُوراً
یعنی اے ذو الخلصہ، اگر تیرے ساتھ ایسا ہوتا کہ تیرے بزرگ کو قتل کیا گیاہوتا، تو ہر گز تو ایسی غلط بات نہ کہتا کہ مجرموں کو قتل نہ کیا جائے۔
قدیم ُحنفاء
بنو اسماعیل کی یہ نسل جو ڈھائی ہزار سالہ صحرائی تربیت کے ذریعے بنی، وہ تاریخ بشری میں ایک نئی نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اِس نسل کی بڑی اکثریت ایسے عورتوں اور مردوں پر مشتمل تھی جو بنیادی طورپر اپنی فطرت پر قائم تھے، اور اِس بنا پر وہ نئی بات کو قبول کرنے کی امتیازی صفت رکھتے تھے۔ اِن میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اِس صفت میں نسبتاً زیادہ نمایاں تھے۔ یہ لوگ گویا کہ اپنی فطرت کے زور پر پچاس فی صد سچائی کو پہلے ہی پاچکے تھے۔ اِن لوگوں کو قدیم عرب میں ُحنفاء کہاجاتا تھا۔
حنیف یا حنفاء سے مراد وہ انسان ہے جو متلاشی ٔ حق (truth seeker) ہو۔ قدیم عرب میں ایسے بہت سے لوگ تھے۔ انھیں میں سے ایک قُس بن ساعدہ (وفات: 600 ء) تھے۔ ان کے اندر خطابت کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ اِسی طرح ایک اور صاحب تھے، جن کا نام زید بن عمرو بن نُفیل (وفات: 606 ء) تھا۔ وہ بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ : الّٰہم إنّی لو أعلم أحبّ الوجوہ إلیک عبدتُک بہ، ولٰکنّی لا أعلم(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 154 )۔ یعنی اے خدا، اگر میں جانتا کہ تیری عبادت کا بہتر طریقہ کیا ہے تو میں اُسی طرح تیری عبادت کرتا، لیکن میں اُس کو نہیں جانتا:
O God, if I knew how you whished to be worshipped, I would so worship you; but I do not know.
اِنھیں حنفاء میں سے ایک ورقہ بن نوفل (وفات: 611 ء) تھے۔610 ء میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی، تو اُس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے۔ مگر جب انھوںنے آپ کی زبان سے وحی کی بات سنی تو انھوںنے فوراً آپ کی تصدیق کی، تاہم اس کے چند مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ابو بکر بن ابی قحافہ بھی انھیں حنفاء میں سے ایک تھے، جنھوںنے کسی تردّد کے بغیر آپ کی دعوت کو قبول کرلیا۔ نبوت سے پہلے خود محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بھی اِسی قسم کے ایک حنیفِ کامل تھے، یعنی خالص حق کے متلاشی۔ قرآن کی سورہ نمبر 93 میں اس حقیقت کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحی: 7 )۔
مؤرخین نے عام طور پر تسلیم کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس کامیابی کا راز کیا تھا۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ آپ کو اعلیٰ کردرا رکھنے والے جان دار ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ملی، جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ یہ اصحابِ رسول بنی اسماعیل کے منتخب افراد تھے۔ اِس قسم کی ٹیم اِس سے پہلے کسی پیغمبر کو حاصل نہ ہوئی۔ اِن میں سے ایک ایک آدمی گویا کہ ایک ہیرو تھا۔ یہ اعلیٰ افراد، سادہ طورپر محض ’’صحبت‘‘ کی بنا پر نہیں ملے، وہ دراصل اُس ڈھائی ہزار سالہ منصوبۂ خداوندی کا نتیجہ تھے جو ایک نئی نسل پیدا کرنے کے لیے حضرت ابراہیم اور ہاجرہ اور اسماعیل کی غیر معمولی قربانی کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں، یہ گروہ اخراجِ امت (آل عمران: 110 ) کا تاریخی نتیجہ تھا، نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت کا پُراسرار نتیجہ۔
اخوانِ رسول کا دور
حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وددتُ أنّا قد رأینا إخوانَنا۔ قالوا: أولسنا إخوانک یا رسولَ اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الّذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، کتاب الطّہارۃ) یعنی میری تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں (اِخوان) کو دیکھتے۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے اصحاب ہو، اور وہ ہمارے اخوان ہیں جو بعد کو آئیں گے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، دورِ اوّل کے اصحابِ رسول ایک لمبے تاریخی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔ اِسی طرح دورِ ثانی کے اخوانِ رسول بھی ایک خصوصی تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میںآنے والے لوگ ہیں۔ گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو دونوں گروہوں کے درمیان ظاہری فرق کے باوجود کامل مشابہت پائی جاتی ہے۔
دورِ اوّل کے اصحابِ رسول، بنو اسماعیل کی اُس نسل سے نکلے تھے جس کو تمدنی ماحول سے دور رکھ کر صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے عمل سے گزارا گیا، اور اِس طرح متعصبانہ ذہن سے پاک کرکے اُن کو ان کی اصل فطرت پر لایا گیا۔ اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ دین ِ فطرت کا پیغام سنیں اور کسی نفسیاتی پیچیدگی (complex)کے بغیر اُس کو قبول کرلیں۔
موجودہ سائنسی دور بھی اِسی قسم کا ایک دور ہے۔ اِس زمانے میں دوبارہ عالمی سطح پر جدید نسلوں کی سائنسی ڈی کنڈیشننگ کی گئی۔ اِس طرح ایسے لوگ تیار ہوئے، جو قدیم طرز کی روایتی سوچ سے آزاد تھے۔ وہ خالص فطرت کی سطح پر چیزوں کو سمجھ سکتے تھے۔ اِنھیں لوگوں کے لیے یہ مقدر کیاگیا تھا کہ وہ اسلام کودوبارہ معرفت کی سطح پر پائیں اور انقلابی ذہن کے ساتھ اس کو قبول کرلیں۔
یہی بات موجودہ زمانے میں اِس طرح ہوئی کہ جب دنیا میں سائنس کا تجرباتی متھڈ رائج ہوا، تو لوگ قدیم تصورات پر نظر ثانی کرنے لگے۔ پہلے قیاس اور توہمات کی بنیاد پر رائیں قائم کی جاتی تھیں، اب تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے رائیں قائم کی جانے لگیں۔ اِسی کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک متھڈ(sientific method) کہاجاتا ہے۔ اِس سائنٹفک متھڈ کے رواج نے موجودہ زمانے میں قدیم اندازِ فکر کو بدل دیا، اور لوگ چیزوں کو سائنسی انداز میں ازسرِ نو جانچ کردیکھنے لگے۔ اِسی واقعے کو ہم نے یہاں سائنسی ڈی کنڈیشننگ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ سائنسی ڈی کنڈیشننگ موجودہ زمانے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اِس کے نتیجے میں موجودہ زمانے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی ہے، جس طرح قدیم عرب میں صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایک نئی نسل بنی تھی۔ موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ روایتی بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتے ہیں۔ اِسی بنا پر وہ کسی نئی سچائی کو سمجھنے کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
ڈھائی ہزار سال پہلے صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے عرب میںایسے لوگ پیدا ہوئے تھے، جو باپ دادا سے ملی ہوئی مذہبی روایات سے باہر آکر سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں سائنسی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایسے لوگ بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، جو اپنے آبائی مذہب کے خول سے باہر آکر سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِس طرح کے لوگ ساری دنیا میں پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر یہاں اِس قسم کے دو ممتاز مغربی افراد کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اِن میں سے ایک مشہور سائنس داں سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ) تھا۔ وہ اگر چہ روایتی مسیحی خاندان میں پیدا ہوا، لیکن سائنسی مطالعے کے بعد وہ مسیحیت کے روایتی خول سے باہرآگیا۔ نیوٹن کے ایک سوانح نگار پیٹر (Peter Ackroyd) کی ایک کتاب اِس موضوع پر 2006 میں شائع ہوئی ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Isaac Newton — A Secret Faith
مصنف نے اِس کتاب میں نیوٹن کے بارے میں لکھا ہے:
Newton also believed that the true religion was derived from the sons of Noah, and had been transmitted by Abraham, Isaac and Moses. Pythagoras was a convert to this religion, and passed it on to his own disciples. Christ was a witness to that primitive faith in his simple commandments to love God and to love one's neighbor. In a later document Newton declared that we must worship 'the only invisible God' and venerate the 'one mediator between God & man the man Christ Jesus'. At the peril of our souls 'we must not pray to two Gods'. We must not worship Christ. Christ had been filled with divine spirit, but he was not God. (p. 54 )
دوسری مثال فرانسس ہر برٹ بریڈ لے (وفات: 1924 ) کی ہے۔ وہ مشہور برٹش فلسفی ہے۔ وہ بھی اِسی قسم کے افراد کی ایک مثال ہے، جو اگرچہ قدیم مذہبی روایات کے ماحول پیداہوئے، لیکن سائنسی تعلیم اور سائنسی غور وفکر نے ان کو مجبور کیا کہ وہ قدیم روایتی خول سے باہر آکر کھلے ذہن کے تحت سوچیں اور بے آمیز سچائی کی تلاش کریں۔
فرانسس ہر برٹ بریڈ لے کی ایک کتاب (Appearance and Reality) ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1893 میںشائع ہوئی۔ اس نے اپنی اِس کتاب میں لکھا ہے کہ آج انسان کو ایک سائنٹفک مذہب (scientific religion) کی ضرورت ہے۔ قدیم روایتی طرز کا مذہب آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ بریڈ لے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آج کے انسان کو ایسا مذہب چاہیے، جس کا پیغمبر نیوٹن ہو، اور جس کی مقدس کتاب پرنسپیا (Principia) ہو، یا یہ کہ اُس کا پیغمبر آئن سٹائن ہو، اور اُس کا الٰہیاتی نظریہ آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت (General theory of relativity) ہو، بلکہ بریڈلے کا مطلب صرف یہ تھا کہ آج کے زمانے میں وہی مذہب انسان کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے جو سائنٹفک جانچ (scientific scrutiny) میں پورا اُترے۔
اِس قسم کے افراد میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تلاش کی آخری منزل تک پہنچے۔ ان میں سے ایک مثال ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادّھیائے کی ہے۔ وہ ایک بڑے ہندو اسکالر تھے۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے۔ وہ بنگال کے ایک روایتی ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعد کو ان کی تعلیم نے ان کو پورے معنوں میں نان کنفارمسٹ(non-conformist) بنا دیا۔ انھوں نے آزاد ذہن کے تحت، مختلف مذاہب کامطالعہ کیا۔ انھوں نے مختلف مذہبی شخصیتوں کو پڑھا۔ آخر میں اپنے کھلے ذہن کی بنا پر وہ اِس اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ تمام مذہبی شخصیتیں غیر تاریخی شخصیتیں ہیں۔ اِن میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
اِس معاملے میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے انھوںنے 1904حیدر آباد (انڈیا) میںایک لیکچر دیا تھا۔ اِس لیکچر میں انھوںنے واضح طورپر کہا کہ دوسری تمام مذہبی شخصیتیں مائتھالاجکل فیگر (mythological figure) کی حیثیت رکھتی ہیں، اِس عموم میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اِس بات کا ذکر کرتے ہوئے، انھوںنے اپنے تحریری لیکچر میںیہ تاثر سے بھرا ہوا جملہ کہاتھا:
Oh, what a relief to find, after all, a truly historical Prophet to believe in.
جدید حنفاء
جس طرح قدیم عرب میں حنفاء پیدا ہوئے تھے، اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی بہت سے حنفاء پیدا ہوئے۔ یہ جدید حنفاء وہ لوگ تھے جو تعصبات سے آزاد ہو کر امکانی طورپر اسلام کی صداقت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار تھے۔ اِس قسم کی مثالیں موجود ہ زمانے میں کثرت سے سامنے آئیں۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں اِس نوعیت کی چند مثالوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے ٹامس کارلائل (وفات: 1881 ) ایک مشہور انگریزی مصنف اور مورخ ہیں۔ ان کی مختلف کتابیں ہیں۔ اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے:
On Heroes, Hero-Worship (1841)
ٹامس کارلائل نے اپنی اِس کتاب میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے اور ان کو تمام پیغمبروں کا ہیرو بتایا ہے۔
مشہور لبنانی پروفیسر فلپ ہٹی (وفات: 1978) نے اپنی کتاب تاریخِ عرب (History of the Arabs) میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے کہ دوسرے پیغمبروں کے برعکس، محمد تاریخ کی مکمل روشنی میں پیداہوئے:
Muhammad was born withing the full light of history (p. 111 )
فرانس کے ڈاکٹر مورس بوکائی (پیدائش: 1920 ) نے عربی زبان سیکھی اور قرآن کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تمام مذہبی یا الہامی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے، جس کی صداقت جدید سائنسی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس موضوع پر انھوںنے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
The Bible, the Quran and Science
امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ (پیدائش:1932 ) نے 572 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ یہ کتاب 1991 میں پہلی بار چھپی۔ اِس کتاب میں مصنف نے تاریخ کے ایک سو ایسے افراد کے حالات لکھے ہیں، جنھوںنے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ایک سو ایسے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں انھوں نے نمبر ایک پر جس کا نام درج کیا ہے، وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کتاب کا نام یہ ہے:
The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History
انڈیا کے ایک مؤرخ مسٹر ایم این رائے (وفات: 1954 ) نے اسلام پر ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کا نام ہے— اسلام کا تاریخی رول (The Historical Role of Islam) ۔ یہ کتاب پہلی بار 1939 میں چھپی۔ مصنف نے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے انقلاب کا ذِکر ان الفاظ میں کیا ہے— تمام معجزوں میں سب سے زیادہ بڑا معجزہ:
The Most Miraculous of all Miracles. (p. 4)
اِس طرح کے حنفاء جدید دور میں بڑی تعداد میں پیدا ہوئے۔ اُن میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنھوں نے واضح طورپر مذکورہ قسم کا اعتراف کیا۔ اِن کے علاوہ اِس گروہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی نکلے جنھوں نے بطور خود قرآن کا ترجمہ پڑھ کر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا۔ مثلاً ہنگری کے ڈاکٹرعبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے لیو پولڈ محمد اسد، برطانیہ کے محمد مارما ڈیوک پکتھال، اور لارڈ ہیڈلے فاروق، وغیرہ۔
جدید سائنسی دور نے موجودہ نسلوں کے اندر ایک نیا ذہن پیدا کیا، جو عین اسلام کے موافق تھا۔ وہ ہے روحِ تجسس (spirit of inquiry)۔انگلش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970 ) نے خاص اِسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے— وِل ٹو ڈاؤٹ (Will To Doubt)۔ اِس طرح کی کتابوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جدید ذہن کی نمایاں صفت یہ ہے کہ سائنس کی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے لوگوں کا روایتی فکر ختم ہوگیا۔ وہ یہ چاہنے لگے کہ چیزوں کو تاریخی اور سائنسی معیار پر جانچ کر وہ اس کی سچائی کو جانیں اور پھر اس کو قبول کریں۔
موجودہ زمانے کا یہ ذہنی انقلاب عین اسلام کے حق میں تھا۔ کیوں کہ تمام مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو کامل طورپر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے تمام مذاہب تبدیلی کا شکار ہوکر علمی اور تاریخی اعتبار سے غیر مستند بن چکے ہیں۔ اِس بنا پر جدید ذہن کے لیے مذہبوں کے درمیان صرف ایک ہی چوائس باقی رہا ہے، یہ اسلام کا چوائس ہے جو استثنائی طورپر الہامی مذہب کے مستند متن (authentic version) کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس طرح جدید تاریخ میں دوبارہ عین وہی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جو ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں عرب میں تھی، یعنی انسانوں کے ایک ایسے گروہ کا وجود میں آجانا جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کی بنا پر غیر شعوری اعتبار سے اسلام کے قریب آچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ آج کے انسان کے اِس لاشعور کو شعور میں تبدیل کیا جائے۔ ایک سفر میں ایک جاپانی اسکالر نے مجھ سے کہا کہ جاپانی لوگ بالقوّہ مسلمان ہیں:
Japanese are potentially Muslims.
میں کہوں گا کہ موجودہ زمانے میں تمام انسان بالقوہ طورپر مسلم بن چکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ جدید سائنسی معیار پر اسلامی دعوت کا کام کیا جائے اور اِس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنایا جائے۔ اِسی جدید نسل سے وہ لوگ نکلیں گے جو خدائی سچائی کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کرکے وہ جماعت بنائیں، جس کو حدیث میں ’اخوان رسول‘ کہاگیا ہے۔
اخوانِ رسول کا یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ یہ اُسی طرح ایک معلوم تاریخی واقعہ ہوگا، جس طرح اصحابِ رسول کا معاملہ ایک تاریخی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔اصحابِ رسول کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پیغمبرانہ اسلوب پر ایک دعوتی عمل کے ذریعے وجود میں آئے تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں بھی پیغمبرانہ اسلوب پر ایک دعوتی عمل درکار ہے، جس کے ذریعے نئی نسل کے لوگ خدائی سچائی کو دریافت کرکے وہ گروہ بنیں گے، جس کو حدیث میںاخوانِ رسول کہاگیا ہے۔
عظیم ترین شہادت
حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم (کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال) میں چند روایتیں آئی ہیں۔ اِن روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ تاریخ کے آخری دور میں ایک دجّالی زمانہ آئے گا، یعنی پُر فریب نظریات اور توجیہات کا زمانہ۔ لوگوں کی بڑی تعداد اُس سے مسحور ہوجائے گی۔ اُس وقت ایک شخص اٹھے گا جس کے لیے حدیث میں ’’رجلٌ ہو خیرا لناس‘‘ اور ’’رجل من المؤمنین‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ شخص اُس وقت کے دجالی فتنے کا مقابلہ کرکے اس کا خاتمہ کرے گا۔ اور سچائی کا اظہار اِس طرح کرے گا کہ لوگ دجّالی فتنے سے باہر آکر سچائی کو پہچان سکیں۔ یہ تاریخِ دعوت کا ایک عظیم معاملہ ہوگا۔ اِسی بنا پر اس کو حدیثِ رسول میں: أعظم النّاس شہادۃً عند ربّ العالمین سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی خدا وند ِ عالم کے نزدیک لوگوں کے سامنے حق کی عظیم ترین شہادت ۔
عظیم ترین شہادت سے مراد، حق کا عظیم ترین اظہار ہے۔ حق کا یہ اظہار خود علمِ انسانی کی سطح پر ہوگا، جس کو سائنسی دور نے پہلی بار ممکن بنا دیاہے۔ یہی وہ عظیم دعوتی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 41 میں اِس طرح کیاگیا ہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق و فی أنفسہم حتی یتبین لہم أنّہ الحق (حٰمٓ السجدۃ: 53 ) یعنی آئندہ ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں (signs) دکھائیں گے، آفاق میںبھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر پوری طرح کھل جائے گا کہ یہ حق ہے۔
مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر اِس معاملے پر غور کیجیے۔ اِس سے معاملے کی جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میںدعوتی عمل کیا گیا اوراس کے نتیجے میںایک عظیم واقعہ پیش آیا، ٹھیک وہی حالات آج دوبارہ پیدا ہوچکے ہیں۔ اور زمانی فرق کی رعایت کرتے ہوئے آج دوبارہ اُسی عمل کو دہرایا جائے گا اور پھر اس کا وہ مطلوب نتیجہ ظاہر ہوگا جس کی پیشگی خبر حدیثِ رسول میں دی جاچکی ہے، یعنی بصیرتِ زمانہ کا حامل ایک شخص اٹھے گا۔ اس کو خدا کی خصوصی نصرت حاصل ہوگی۔ وہ زمانے کی مکمل رعایت کرتے ہوئے پیغمبرانہ اسلوب پر دعوتی عمل جاری کرے گا۔
اِس دعوتی عمل کے نتیجے میںیہ ہوگا کہ ایک طرف، وقت کے پُر فریب نظریات کا پردہ چاک ہوجائے گا اور لوگ سچائی کو بے نقاب حالت میں دیکھ سکیں گے۔ دوسری طرف، یہ ہوگا کہ بہت سے وہ افراد جو حق کے متلاشی بنے ہوئے تھے اور اپنے سائنسی ذہن کی سطح پر، سچائی کی معرفت حاصل کرنا چاہتے تھے، اُن کو یہ معرفت حاصل ہوگی۔ اِس طرح اللہ ولیّ الذین آمنوا یُخرجہم من الظلمات إلی النّور (البقرۃ: 257 ) کا واقعہ دوبارہ تاریخ میں ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔
یہی وہ گروہ ہے جس کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیاگیا ہے۔ یہ لوگ تاریخِ دعوت کا آخری حصہ ہوں گے۔ جدید ذرائع کو استعمال کرکے وہ عالمی سطح پر کلمۂ اسلام کو ہر گھر میں داخل کردیں گے۔ اِس کے بعد تاریخِ بشری کا پہلا دور ختم ہوجائے گا اور پھر تاریخِ بشری کا وہ دوسرا دور ہوگا، جب کہ تمام انسان خدا وند ِ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے، تاکہ وہ اپنے ابدی انجام کے بارے میں خدائی عدالت کا فیصلہ سن سکیں۔ ایسا بہر حال ہوگا، اور اب ایسا ہونے میں زیادہ دیر نہیں۔
واپس اوپر جائیں