موت سے بے خبری کیوں
میں آل انڈیا ریڈیو سُن رہا تھا۔ اُس پر ایک انڈین رائٹر کا ریکارڈ کیا ہوا انٹرویو آرہا تھا۔ چندمہینے پہلے اِس رائٹر کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس کی موت کے بعد جب میں نے دوبارہ ریڈیو پر اس کی آواز سنی، تو اچانک ایسا محسوس ہوا کہ وہ رائٹر پہلے موجودہ دنیا میں بول رہا تھا، اب وہ دوسری دنیامیں چلا گیا ہے اور وہاں سے بول رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں ریکارڈ کی ہوئی آواز علامتی طورپر اِس حقیقت کا مظاہرہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی عمر کے ایک دَور سے نکل کر، اپنی عمر کے دوسرے دور میں پہنچ جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ علمِ انسانی کے تمام شعبے اِس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ موت کے بعد انسان ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ کسی نہ کسی صورت میں دوبارہ زندگی پالیتا ہے۔ مثلاً حیاتیاتی سائنس کے جدید مطالعے کے مطابق، انسان کا جسم ایک سو ٹریلین سے زیادہ سیل (cells) کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ سیل مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے سیل آتے رہتے ہیں۔ جسم کے اندر یہ عمل مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ گویا کہ انسان جسمانی اعتبار سے ہر چند سال کے بعد مرجاتا ہے اور دوبارہ زندگی پالیتا ہے۔
بار بار کی جسمانی موت کے باوجود انسان کی شخصیت (personality) بدستور قائم رہتی ہے۔مثلاً انسان کا حافظہ(memory) جیسے پہلے تھا، ویسا ہی وہ بعد کو باقی رہتا ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوا کہ جسم کسی انسان کی صرف ایک سواری (vehicle) ہے۔ سواری بدل جاتی ہے، لیکن انسان کی شخصیت بدستور اپنی اصل حالت پر باقی رہتی ہے۔ اِس حقیقت کو حیاتیات کے ایک مغربی عالم نے اِن الفاظ میں بیان کیا :
Personality is changelessness in change.
ایسی حالت میںانسان پر موت کا وارد ہونا، صرف یہ معنٰی رکھتا ہے کہ انسان سفر کرکے موجودہ دنیا سے ایک اور دنیا میں پہنچ گیا۔اِس لحاظ سے دیکھیے تو انسان کو موت کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا چاہیے، بلکہ اُس کو سب سے زیادہ موت ہی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ کیوں کہ موت ایک نئی دنیا کی طرف چھلانگ ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ انسان، موت کے بعد کے صورتِ حال کے لیے تیاری کرے۔ اس کی سوچ ہر اعتبار سے موت رُخی سوچ (death-oriented thinking) بن جائے۔
موت کسی آدمی کے لیے سب سے زیادہ یقینی واقعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر آدمی کو بار بار موت کی یاددہانی کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ ہر آدمی اپنے گھر میں اور اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، مگر عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص موت کو لے کر نہیں سوچتا۔ ہر آدمی اِس طرح زندگی گزار رہا ہے، جیسے کہ اُس کو مرنا نہیں ہے، بلکہ اس کو ہمیشہ کے لیے اِسی دنیا میں زندہ رہنا ہے۔ پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص نہ مرے۔ اِس کے باوجود انسان موت کے واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ وہ موت کی حقیقت کا اعتراف صرف اُس وقت کرتا ہے، جب کہ خود اُس پر موت آجائے۔ اور مجبورانہ فیصلے کے تحت وہ موت کے دروازے میں داخل ہوجائے۔
ایک آدمی جب سفر کرتا ہے، خواہ اُس کا سفر ٹرین سے ہو، یاکار سے ہو، یا ہوائی جہاز سے ہو، توو ہ اِس سوچ کے تحت سفر کرتا ہے کہ چند گھنٹے کے بعد اُس کا سفر ختم ہوجائے گا اور وہ ایک نئے مقام پر پہنچ جائے گا۔ اِس مقصد کے تحت وہ اپنے سفر کی تیاری کرتا ہے۔ وسیع تر معنوں میں انسان کا معاملہ بھی ایک سفر کا معاملہ ہے۔ ہر انسان زندگی سے موت کی طرف سفر کررہا ہے، لیکن کوئی بھی شخص اِس دوسرے سفر کے معاملے میں موت کو لے کر نہیں سوچتا۔ ہر آدمی اس طرح اپنی زندگی کا سفر طے کررہا ہے جیسے کہ یہی سفر اُس کے لیے ابدی سفر ہے، وہ اِسی موجودہ صورت میں ہمیشہ باقی رہے گا۔
میرا آبائی وطن اعظم گڑھ (یوپی) ہے۔ آزادیٔ ہند سے پہلے کے دور میں وہاں ایک راجا ہَرکھ چند تھے۔ انھوں نے شہر کے مین روڈ پر اپنے لیے ایک بہت بڑی کوٹھی بنوانا شروع کیا۔نقشے کے مطابق، یہ ایک تین منزلہ کوٹھی تھی۔ چوتھی منزل پر ایک خصوصی کمرہ تھاجس میں اُنھیں اپنی اہلیہ کے ساتھ قیام کرناتھا۔ اِس کوٹھی میںانھوںنے بہت زیادہ پیسہ خرچ کیا۔ یہ بہت مضبوط قسم کی ایک قلعہ نما کوٹھی تھی۔اس کی دیواروں اور چھت پر ہر طرف نہایت اعلیٰ پیمانے پر آرٹ ورک کیا گیا تھا۔ یہ کوٹھی بہت لمبی مدت تک بنتی رہی، یہاں تک کہ اُس کی آخری تکمیل سے پہلے 1946 میں راجا ہرکھ چند کا انتقال ہوگیا، اور وہ اِس کوٹھی میں قیام نہ کرسکے۔
یہی معاملہ ہر انسان کا ہے۔ ہر آدمی اپنی زندگی کا منصوبہ اِس طرح بناتا ہے، جیسے کہ اس کو ابدی طورپر اپنے اِس منصوبے کے مطابق زندگی گزرانا ہے۔ جیسے کہ اس کے اور اُس کی اِس بنائی ہوئی دنیا کے درمیان کبھی جدائی ہونے والی نہیں۔
یہ ایک سنگین سوال ہے کہ تمام انسان موت کے بارے میں کیوںاتنا زیادہ غافل رہتے ہیں۔ وہ وسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن خود اپنی موت کے بارے میں اُنھیں کبھی خیال نہیں آتا۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب کسی آدمی کی تدفین کے بعد قبرستان سے لَوٹتے ہیں، تو اُس وقت خدا کا ایک فرشتہ قبر کے پاس آتا ہے۔ وہ قبر کی مٹی اٹھا کر لوٹنے والے لوگوں کی طرف پھینکتا ہے اور کہتا ہے کہ جاؤ غافل ہو جاؤ، جاؤ دوبارہ تم اپنی دنیا میں مشغول ہوجاؤ(للہ تعالی ملک مؤکل بالمقابر، فإذا دُفن المیت، وسوی علیہ، وتحولوا لینصرفوا، قبض قبضۃ من تراب القبر، فرمی بہا أقفیتہم، وقال: انصرفوا إلی دنیاکم، وانسوا موتاکم) ذکرہ السیوطی فی الحبائک، رقم الحدیث: 413
اِس حدیثِ رسول میں تمثیل کی زبان میں ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ یہ تمثیل کی زبان میں فرشتوں کی طرف سے گویا کہ ایک نکیر ہے۔ لوگ ایک انسان کو اپنے سامنے مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ وہ اس کی تجہیز اور تکفین میں شریک ہوتے ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جو زمین میں چل پھر رہا تھا، وہ قبر میں دفن ہوگیا، لیکن اِس واقعے سے وہ اپنے لیے کوئی سبق نہیں لیتے۔ موت کے اِس واقعے سے پہلے وہ جس طرح غفلت کی زندگی گزار رہے تھے، اُسی قسم کی غفلت کی زندگی وہ اب بھی گزارتے رہتے ہیں۔یہی واقعہ پوری تاریخ میں پیش آرہا ہے۔ ساری انسانی تاریخ میں کچھ استثنائی افراد کو چھوڑ کر، کوئی انسان نظر نہیں آتا جو موت کے معاملے کو گہر ائی کے ساتھ سمجھے اور اُس سے اپنے لیے سبق لے۔
اِس عمومی غفلت کا راز کیا ہے۔ یہ راز پروگریمنگ (programming) کے نظریے سے سمجھ میں آتا ہے۔ پروگریمنگ کا مطلب ہے کسی معاملے کی پیشگی طورپر طے شدہ ترتیب:
A pre-arranged plan of procedure.
سائنسی مطالعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ خود اپنے ذہن کی پروگریمنگ کے تحت کرتا ہے۔ یہ پروگریمنگ فطری طورپر ہر انسان کے ذہن میں موجود ہوتی ہے۔ مثلاً بھوک لگنا، پیاس لگنا، نیند آنا، وغیرہ، سب اپنے ذہن کی فطری پروگریمنگ کے تحت پیش آتے ہیں۔ آدمی کی یہ صفت ہے کہ وہ ہمیشہ پروپروگریمنگ (pro-programming) کے تحت سوچتا ہے، وہ اینٹی پروگریمنگ (anti-programming) کے تحت نہ سوچتا ہے اور نہ عمل کرتا ہے۔ اینٹی پروگریمنگ سوچ دراصل اینٹی سیلف سوچ کا نام ہے، اور اینٹی سیلف سوچ بلا شبہہ تمام کم یاب چیزوں میں سب سے زیادہ کم یاب چیز ہے۔ یہ پروگریمنگ حالات کے زیراثر جزئی طورپر بدل سکتی ہے، لیکن شعوری طور پر اپنی پروگریمنگ کے خلاف سوچنا، انتہائی حد تک ایک دشوار کام ہے۔
میرے ساتھ ایسا ہوا کہ ایک بار میں مانچسٹر (انگلینڈ) گیا۔ وہاں میں لمبی مدت تک مقیم رہا۔ مانچسٹر ایسے جغرافی علاقے میں ہے، جہاں کبھی رات لمبی ہوتی ہے اور دن چھوٹا، اور کبھی دن لمبا ہوتا ہے اور رات چھوٹی۔ میں جس زمانے میں وہاں گیا تھا، اس زمانے میں وہاں رات بہت چھوٹی ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں دن زیادہ لمبا۔ چناںچہ ایسا ہوتا تھا کہ ہم نے مغرب کی نماز ادا کی، اس کے جلد ہی بعد عشا کا وقت آگیا، اور پھر عشا کی نماز کے بعد جلد ہی فجر کا وقت آگیا۔ اِس طرح رات کو وہاں سونے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ وہاں ہم رات کے وقت جاگتے تھے اور دن کے وقت سوتے تھے۔
چناں چہ مقامی حالات کے دباؤ کے تحت، مانچسٹر کے زمانۂ قیام میں سونے اور جاگنے کے بارے میں میرے ذہن کی پروگریمنگ وقتی طور پر بدل گئی ۔ پھر جب میں انڈیا واپس آیا، تو اِس بدلی ہوئی پروگریمنگ کی بنا پر مجھے یہاں رات کو نیند نہیں آتی تھی، بلکہ دن کو نیند آتی تھی۔ یہ صورت ِ حال ایک عرصے تک باقی رہی۔ اس کے بعد میری پروگریمنگ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آئی۔
جیسا کہ معلوم ہے، کمپیوٹر میں پروگریمنگ کا طریقہ رائج ہے۔ جیسی پروگریمنگ کی جاتی ہے، اسی کے مطابق، کمپیوٹر اپنا کام کرتا ہے۔ یہی معاملے زیادہ بڑے پیمانے پر انسانی دماغ کا ہے۔ فطرت کی طرف سے اِس طرح ہر انسانی دماغ کی پروگریمنگ کردی گئی ہے۔ اس کے مطابق، ہر عورت اور مرد اپنی زندگی کے تمام کام کرتے رہتے ہیں۔ وہ اِسی حال میں جیتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں۔
ہر انسان صرف محدودیت تک جیتا ہے اور اس کے بعد وہ مرجاتا ہے۔لیکن عجیب بات ہے کہ کوئی بھی انسان موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ہر عورت اور مرد بار بار دوسروں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ کئے رہتے ہیں۔ دوسروں کو مرتا ہوا دیکھنے کے باوجود ہر آدمی اِس احساس میں جیتا ہے، جیسے کہ خود اُس پر موت آنے والی نہیں۔
اِس کا سبب پروگریمنگ کا معاملہ ہے۔ فطرت نے انسانی دماغ کی جو پروگریمنگ کی ہے۔ اس میں سب کچھ ہے، لیکن ایک چیز اس پروگریمنگ میں موجود نہیں، اور وہ موت ہے۔ انسانی دماغ کی پروگریمنگ میں بھوک ہے، پیاس ہے، نیند ہے اور دوسری تمام چیزیں ہیں، لیکن پروگریمنگ کی اِس فہرست میں موت سرے سے شامل نہیں۔یہی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اس طرح جیتا ہے جیسے کہ اس پر موت آنے والی نہیں۔ اپنے داخلی شعور کے اعتبار سے ہر آدمی ابدیت (eternity) کے احساس میںجیتا ہے۔ اپنے ذاتی احساس کے اعتبار سے ہر آدمی اپنے آپ کو ابدی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ اپنے تمام معاملات کی منصوبہ بندی اس طرح کرتا ہے، جیسے کہ اس کو ہمیشہ کے لیے موجودہ دنیا میں رہنا ہے۔
اِس معاملے میں انسان کی مثال ایک ایسے کمپیوٹر کی ہے جس کی پروگریمنگ میں موت (death) کا لفظ یا اس کا تصور شامل نہ کیاگیا ہو۔ ایسا کمپیوٹر آپ کو ہر بات بتائے گا، لیکن جہاں تک موت کا تعلق ہے، وہ اس بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتاسکے گا۔ کمپیوٹر اپنی پروگریمنگ کے مطابق کام کرتا ہے۔ کوئی لفظ یا کوئی تصور جو کمپیوٹر کی پروگریمنگ میںشامل نہ کیا گیا ہو، اگر آپ اُس لفظ یا تصور کے بارے میں کمپیوٹر سے سوال کریں، تو کمپیوٹر اُس کا جواب نفی کی صورت میں دے گا۔ مثلاً کمپیوٹر کی اسکرین پر یہ جملہ لکھا ہوا سامنے آجائے گا:
Your search did not match any document.
ڈی این اے (DNA) حیاتیاتی سائنس کی ایک نئی شاخ ہے۔ موجودہ زمانے میں اُس پر بہت زیادہ کام ہوا ہے اورانسانی شخصیت کے بارے میں انوکھی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ڈی ای اے کا فُل فارم یہ ہے:
Deoxyribonucleic Acid
جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ڈی این اے، یا جینٹک کوڈ (genetic code) میں کسی انسان کی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی اور بڑی معلومات درج ہوتی ہیں۔ کوئی انسان کیسے دیکھے گا، کیسے سنے گا، کیسے مسکرائے گا، کیسے کلام کرے گاوغیرہ، تمام معلومات پوری تفصیل کے ساتھ اُس میں کیمیائی حروف (chemical letters) کی صورت میںدرج رہتی ہیں۔ یہ معلومات انسانی زندگی کے تقریباً تین بلین مختلف موضوعات (3 billion different subjects) سے متعلق ہوتی ہے۔ ایک انسان کے جنیٹک کوڈ میں اتنی زیادہ معلومات ہوتی ہیں کہ اُن کو اگر ڈی کوڈ(decode) کرکے لکھا جائے تو اس کے لیے موجودہ انسائکلو پیڈیا بریٹانکا جیسی انسائیکلوپیڈیا کی ایک ہزار جلدیں درکار ہوں گی۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کسی انسان کے جنیٹک کوڈ میںانسائکلو پیڈیائی معلومات ہونے کے باوجود اُس میں موت (death) کے بارے میں کچھ بھی موجود نہیں۔ انسانی شخصیت کے اِس دفتر میںاُس کے بارے میں تمام تفصیلات درج ہیں، لیکن اُس میں موت کا کوئی اندراج نہیں۔ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موت کے معاملے کو خدا نے انسان کی اپنی اختیاری دریافت کے خانے میں رکھ دیا ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے باہر نکل کر اپنی موت کے بارے میں سوچے اور اس کے مطابق، اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔
نیند کی مثال لیجیے۔ نیند اور موت کے درمیان ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔ اِس فطری حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: النّوم أختُ الموت (نیند موت کی بہن ہے) کسی شخص کو جب نیند آتی ہے تو وہ بے خبر ہوجاتا ہے، اِس طرح موت بھی بظاہر آدمی کو بے خبر کردیتی ہے۔ لیکن نیند اور موت کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے۔ نیند کا وقت ہر ایک کے لیے مقرر ہے، لیکن موت کا معاملہ کسی کے لیے اِس طرح کی توقیتِ فطری (natural timing) کے ساتھ مقرر نہیں، موت بالکل نامعلوم طور پر اچانک آجاتی ہے۔ کوئی بچپن میں مرجاتا ہے، کسی کی موت جوانی میں آتی ہے اور کسی کی موت بڑھاپے میں۔
نیند اور موت کا یہ فرق ایک گہری حقیقت کو بتا رہاہے۔ یہ حقیقت کہ نیند ہر آدمی کی پروگریمنگ کا فطری حصہ ہے، لیکن موت آدمی کی پروگریمنگ کا فطری حصہ نہیں۔ موت جب بھی آتی ہے، خدا کے براہِ راست فیصلے کے تحت آتی ہے۔ یہ خدا ہے جو خود اپنے فیصلے کے تحت، کسی کی موت کو مقدم کردیتا ہے اور کسی کی موت کو مؤخر۔ موت کا تعلق نہ آدمی کی اپنی سوچ سے ہے، اور نہ اس کی فطری پروگر یمنگ سے۔
جب کسی شخص کی موت واقع ہوتی ہے تو اِس کا مطلب خاتمۂ حیات نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظاہری موت کے باوجود اصل انسان اُس وقت بھی زندہ ہوتا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ موت دراصل ایک منتقلی (transfer) کا معاملہ ہے۔ موت اُس خصوصی لمحے کا نام ہے، جب کہ انسان ایک مرحلۂ حیات (period of life) سے گزر کر دوسرے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مسافر اگلے اسٹیشن پر ایک سواری کو چھوڑ دے اور اس کے بعد دوسری سواری کے ذریعے اپنا مستقل سفر جاری رکھے۔
پروگریمنگ کے اِس ظاہرہ (phenomenon) کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے بارے میں انسان کی غفلت کیوں ہے۔ کیوں ایسا ہے کہ انسان اپنے روز مرّہ کے سفر کی پلاننگ ٹائم لمٹ(time limit) کو دھیان میں رکھتے ہوئے کرتاہے، لیکن زندگی کا سفر جو بظاہر موت پر ختم ہورہا ہے، اس کی پلاننگ وہ اِس عام اصول کے مطابق نہیں کرتا۔ کوئی عورت اور مرد اپنی زندگی کا سفر وقت پر مبنی پلاننگ (time based planning) کے تحت نہیںکرتے، یعنی وہ اِس طرح نہیں سوچتے کہ چند دن میں تومرنا ہے، پھر زیادہ سامان اکھٹا کرنے کی کیا ضرورت۔ وہ تکاثُر (more and more) کی نفسیات میں جیتے جیتے رہتے ہیں، یہاںتک کہ اچانک مرجاتے ہیں۔ انسانیت کی پوری تاریخ میںایسا ہی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
یہ معاملہ اُس وقت سمجھ میں آتا ہے جب کہ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) کی روشنی میں اس کا مطالعہ کیا جائے۔ الہامی علم (revealed knowledge) کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خدا نے جب انسان کو پیدا کیا تو پہلے ہی دن اس کو ابدی صورت میں پیدا کیا۔ خدا نے انسان کو پیدا کیا تو پہلے ہی دن اس کو ابدی صورت میں پیدا کیا۔ خدا نے انسان کو ایک لامحدود مائنڈ دیا اور اس میں ہر قسم کی معلومات بھر دیں۔ ڈی این اے (DNA) کے جدید مطالعے سے یہ بات سائنسی طورپر ثابت ہورہی ہے۔
کہاجاتا ہے کہ ایک انسانی دماغ میں جو اعصاب (nerves) ہیں، وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو پھیلایا جائے تو گلوب کے چاروں طرف ان کو تقریباً 25 بار لپیٹا جاسکتا ہے۔اِس تخلیق کے مطابق، ہر انسان پیدائشی طورپر یہ شعور لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک ابدی وجود ہے۔ اس کا سفر موت پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ موت کے بعد بھی مسلسل طورپر جاری رہتا ہے۔ ہر انسان اسی ابدیت کے شعور میں جیتا ہے۔ داخلی احساس کے تحت ہر انسان کی شخصیت ابدیت کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔
اِس بات کو دوسرے لفظوں میںاس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خالق نے بطور واقعہ انسانی فطرت کی جو پروگریمنگ کی ہے، وہ ابدیت (eternity) کے حوالے سے کی ہے، یعنی جینے کے معاملے میں انسان کی جو نفسیات ہوتی ہے، وہ اُس سے مکمل طورپر مختلف ہوتی ہے جو ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر کے وقت ہوتی ہے۔ ٹرین یا ہوائی جہاز کے سفر میں انسانی ذہن کی پروگریمنگ محدود وقت کو لے کر ہوتی ہے۔ جب کہ زندگی کے معاملے میں انسانی ذہن کی پروگریمنگ زمان اور مکان کی محدودیت سے بالکل ماورا (beyond time and space) ہوتی ہے۔
نیچر کی یہی پروگریمنگ موت کے بارے میں انسان کی موجودہ نفسیات (psyche) کا اصل سبب ہے۔ انسان انسان جب بھی کسی کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اس کے لیے اپنی نفسیات کے اعتبار سے ایک اجنبی واقعہ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی فطرت کی پروگریمنگ اس کو بتارہی ہوتی ہے کہ میںایک ابدی شخصیت (eternal personality) رکھنے والا آدمی ہوں۔ اِس طرح اپنے بارے میں اس کا شعورِ ابدیت (sense of eternity) اِس میں رکاوٹ بن جاتا ہے کہ وہ موت کے اِس خارجی واقعے کو اپنے اوپر منطبق (apply) کرے۔ وہ اپنی نفسیات کے تحت ایسے کسی واقعہ کو ’’غیر‘‘ کا واقعہ (someone else's phenomenon) سمجھ کر اسے نظر انداز کردیتا ہے۔
ایسی حالت میں زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خود اپنے خلاف سوچنے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ وہ پروگریمنگ کے اِس معاملے سے اوپر اٹھے۔ وہ اپنی زندگی کے قبل از موت دور، اور بعد از موت دورمیں فرق کرے، اور پھر اپنی زندگی کے لیے مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کرسکے۔ اِس طرزِ فکر کو ایک لفظ میں انفصالی طرزِ فکر (detached thinking) کہاجاسکتا ہے۔ ایک شاعر نے اِس قسم کی سوچ کو تجرید تصور کا نام دیا ہے۔ اس کا شعر یہ ہے:
ہے داد کے قابل، میری تجرید تصور کرتا ہوں تجھے غیر کی محفل سے جُدا یاد
اِس فطری نقشے کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ کسی انسان کے لیے اپنی زندگی کی مطابقِ واقعہ منصوبہ بندی صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اس کی منصوبہ بندی مبنی بر موت منصوبہ بندی (death- based planning) ہو، یعنی وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرے کہ اس کا عرصۂ حیات(life span) موت سے پہلے کے دَورسے لے کر موت کے بعد کے دور تک پھیلا ہوا ہے۔ تمثیل کی زبان میں کہاجاسکتا ہے کہ موجودہ زندگی کسی انسان کے لیے ایک عارضی سفر ہے، اور موت گویا وہ اسٹیشن ہے جہاں اتر کر وہ اپنے مستقل دورِ حیات میں پہنچنے والا ہے۔
اِس اصول کو سامنے رکھ کر جب غور کیا جائے تو الہامی علم (revealed knowledge) دوبارہ ہم کو رہ نمائی دیتا ہے۔ اِس رہ نمائی کے مطابق، موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات تیاری کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات تیاری کے مطابق اپنا مستقل انجام پانے کا مرحلہ۔ گویا کہ ہماری موجودہ زندگی ایک قسم کے امتحان ہال میں گزررہی ہے۔ یہاں کی ہر چیز پرچۂ امتحان (test paper) ہے۔ یہاں جو کچھ ہمارے ساتھ پیش آتا ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا بُرا، وہ سب کا سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے پرچۂ امتحان ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی بھی چیز جو انسان کو ملتی ہے، وہ اُس کے لیے نہ انعام ہے اور نہ سزا۔ انعام اور سزا دونوں کا معاملہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات سے متعلق ہے، وہ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات سے متعلق نہیں۔
یہی انسانی زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ ہر عورت یا مرد کو اِسی حقیقت کے مطابق، اپنی زندگی کا نقشہ بنانا ہے۔ فطرت کی پروگریمنگ کے مطابق، انسان موجودہ زندگی ہی کو اپنی مستقل زندگی سمجھ لیتا ہے۔ حالاں کہ موجودہ زندگی صرف ایک عارضی زندگی ہے۔ جس طرح کوئی طالبِ علم عارضی طورپر امتحان ہال میں کچھ وقت گزارتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہے، اِسی طرح انسان موجودہ دنیا میں عارضی طورپر آیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی اصل دنیا کی طرف لوٹ جائے گا۔
موجودہ دنیا میں مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کے لیے اینٹی پروگریمنگ سوچ یا آؤٹ آف پروگریمنگ سوچ کی ضررت ہے۔ بظاہریہ ایک بے حد مشکل کام معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ اینٹی پروگریمنگ سوچ ایک دو طرفہ سوچ کا نام ہے۔ اِس میں آدمی کو ایک طرف موجودہ عارضی مدتِ حیات کے اعتبار سے سوچنا پڑتا ہے، اور عین اُسی وقت ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بعد ازموت ابدی مدتِ حیات کے اعتبار سے سوچے۔ مگر یہ دو طرفہ سوچ انسان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ انسانی دماغ کی صلاحیت (capacity) اتنی زیادہ ہے کہ وہ ہر قسم کی متضاد سوچ کا احاطہ کرسکتا ہے۔ اِسی حقیقت کو ایک برطانی مفکر (Walt Whitman) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
I am large enough to contain all these contradictions.
انسان کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی پسند کے دوسرے معاملات میں اِسی متضاد طرزِ فکر کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اینٹی پروگریمنگ سوچ انسان کے لیے کوئی ناممکن سوچ نہیں، وہ ہر عورت اور مرد کے لیے پوری طرح ممکن ہے۔ اب ہر عورت اور مرد کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی موجودہ عارضی زندگی کو کس نہج پر گزارتا ہے، ایسے نہج پر جو اُس کو اپنے ابدی دورِ حیات میں جنت میں پہنچانے والا ہے، یا جہنم میں۔
جدید تہذیب مادّی راحت (material comfort) کے تصور پر قائم ہے۔ جدید تہذیب کے تحت انسانی زندگی کا جونقشہ بنا ہے، اُس میں صرف آج (today) کا تصور ہے، اُس میں کل (tomorrow) کا تصور نہیں۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ — خوب کام کرو اور خوب عیش کرو:
Work hard, party hard
اِس جدید ذہن کا کلمہ یہ ہے— ابھی اور اِسی وقت (right here, right now) ۔موجودہ زمانے میں اِس نظریے پر بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ جدید میڈیا تمام تر اِسی تصور پر چلایا جاتا ہے۔ بطور مثال یہاں صرف ایک آرٹکل کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا ( 27 جنوری2008 ) میں ایک آرٹکل اِس موضوع پر چھپا ہے۔ اس کے لکھنے والے کا نام ڈونا(Donna Devane) ہے۔ یہ آرٹکل حسب ذیل عنوان کے تحت مذکورہ اخبار میں شائع ہوا ہے:
Be happy here and now.
زندگی کو کامیاب بنانے کا یہ تصور فطرت کے نقشے کے بالکل خلاف ہے۔ ڈی این اے(DNA) اور جنیٹک کوڈ(genetic code) کے مطابق، انسان کی زندگی پورے معنوں میں ایک ابدی زندگی ہے۔ وہ آج سے لے کر کل تک پھیلی ہوئی ہے۔ فطرت کے تخلیقی نقشے کے مطابق، یہ ایک خطرناک قسم کا ناقص تصورِ حیات ہے کہ آج کو لیا جائے اور کل کے بارے میں کچھ نہ سوچا جائے۔ جب ڈی این اے کی دریافت بتاتی ہے کہ انسان ایک مسلسل حیاتیاتی سلسلے کا نام ہے، تو انسان کے لیے مفید طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا نقشہ ابدیت (eternity) کو لے کر بنائے، نہ کہ صرف وقتی لمحہ (moment) کو لے کر ۔
یہ ایک عام بات ہے کہ لوگ دوسروں کو مرتاہوا دیکھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ مجھے خود بھی مرنا ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ آخر وقت تک موت کو بھولے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اچانک اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اِس معاملے کی وضاحت کے لیے یہاں ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ روسی کرنجیا (Russy Karanjia) انڈیا کے ایک مشہور صحافی تھے۔ وہ پارسی فیملی میں پیداہوئے۔ وہ سنسنی خیز صحافت (sensational journalism) کے امام تھے۔ ان کو فرینک مورس، شیام لال اور خوش ونت سنگھ کے درجے کا صحافی سمجھا جاتا تھا۔ انھوںنے دوسری عالمی جنگ میں وارکرسپانڈنٹ (war correspondent) کاکام کیا تھا۔ انھوں نے 1941 میں اپنا ہفت روزہ انگریزی اخبار بلٹز (Blitz) جاری کیا۔ اُن کے اخبار پر یہ ماٹو (motto) لکھا رہتا تھا: Free, Frank, and Fearless
روسی کرنجیا کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے تھے۔مثلاً جواہر لال نہرو، مارشل ٹٹو، صدر جمال عبد الناصر اور ایران کے رضا شاہ پہلوی، وغیرہ۔ اُن پر دوبار ہارٹ اٹیک ہوا۔ یکم فروری 2008 کو ان کی موت بمبئی کے ایک اسپتال میں ہوئی۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 92 سال تھی۔ ٹائمس آف انڈیا (2 فروری 2008 ) کی رپورٹ کے مطابق، اپنی موت سے پہلے انھوںنے جس واحد احساس کا ذکر کیا، وہ یہ تھا:
The only thing he complained about was that, the nurses skirts were not short enough.
روسی کرنجیا اُس وقت بسترِ مرگ پر تھے۔ اُس وقت وہ موت کے دروازے پر پہنچ چکے تھے۔ لیکن اُس وقت بھی اُن کے دماغ میں جو چیز چھائی ہوئی تھی، وہ یہ کہ اسپتال کی نرسوں کا اسکرٹ زیادہ چھوٹا نہ تھا جس سے اُن کے جسم کے زیادہ حصّے دکھائی دیں۔ حالاں کہ اُس وقت بطور حقیقت یہ چاہیے تھا کہ وہ موت کے بعد والے حالات کو سوچیں۔ اِس بے شعوری کا سبب یہ تھا کہ موت کے بعد والے حالات کے متعلق سوچنے کے لیے ضرورت تھی کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے اوپر اٹھ کر سوچ سکیں۔ مگر شعوری ناپختگی کی بنا پر وہ ایسا نہ کرسکے۔ اِس لیے آخر وقت تک وہ موت کی حقیقت سے بے خبر رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے مشن کو اِنذار کا مشن بتایا گیا ہے، یعنی لوگوں کی بے خبری کو توڑنا اور انھیں حقیقتِ حال سے باخبر کرنا۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں دیکھیے تو انذار سے مراد یہی معاملہ ہے۔ انسان کے جنیٹک کوڈ میں چوں کہ موت (death) کا اندراج نہیں۔ موت ہر انسان پر براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ اِس لیے کوئی آدمی اِس معاملے کو اُسی وقت سمجھ سکتا ہے، جب کہ وہ برتر سوچ کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ پیغمبر کا مشن یہی ہے کہ ہر عورت اور مرد کے اندر وہ اِس برتر سوچ کی صلاحیت پیدا کرے۔ تاکہ ہر انسان موت سے پہلے موت کی حقیقت کو جان لے۔ وہ موت سے پہلے وہ ضروری تیاری کرے، جو اُس کو موت کے بعد کی زندگی میں کامیاب بنانے والی ہو۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ لوگ بار بار موت کے واقعات کو دیکھـتے ہیں، لیکن موت کے معاملے پر وہ زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موت اُنھیں صرف خاتمۂ حیات کے ہم معنی نظر آتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس سے بے خبر رہتے ہیں کہ موت ایک نئے زیادہ با معنیٰ دورِ حیات کا آغاز ہے۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی کا پورا نقشہ بدل جائے۔ ان کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور یہ بن جائے کہ وہ اپنی موت کے بعد کی زندگی کو زیادہ کامیاب بنا سکیں۔
اِس اعتبار سے دیکھیے تو موت زندگی کی مثبت سرگرمیوں کے لیے سب سے زیادہ طاقت ور محرک (incentive) بن جائے گی۔ موت کی یاد آدمی کو بے عمل (inactive) نہیں بناتی، موت کی یاد آدمی کو زیادہ سرگرم (active) بنا دیتی ہے۔ موت آدمی کے اندر یہ سوچ پیدا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عمل کرو، کیوں کہ موت کے بعد عمل کا موقع باقی نہیں رہے گا۔ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ موت مواقعِ عمل کا خاتمہ ہے۔ اِس اعتبار سے موت کا رول محرکِ عمل کا رول ہے، نہ کہ مانعِ عمل کا رول۔
اصل یہ ہے کہ انسان کو اس کے پیدا کرنے والے نے ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ اس کو ابدی صلاحیت والا دماغ دیا۔ اس کے دماغ کی پلاننگ ہر اعتبار سے ابدیت کی بنیاد پر کی گئی۔ اِس اعتبار سے انسان کی اصل قیاہ گاہ جنت کی ابدی دنیا ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد انسان کو ایک محدود مدت کہ لیے موجودہ دنیا میں رکھا جاتا ہے۔ دنیا کا یہ عارضی قیام اس کے ٹسٹ کے لیے ہے۔ موجودہ دنیا کی عارضی مدت میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون شخص اس ٹسٹ میں پورا اترتا ہے اورکون شخص اس میں پورا نہیں اترتا۔ جو عورت یا مرد اس ٹسٹ میں پورے اتریں گے، ان کو منتخب کرکے جنت میں بسا دیاجائے گا۔ اور جو عورت یا مرد اس ٹسٹ میں پورے نہ اتریں ، ان کو قابلِ رد (rejected lot) قرار دے کر الگ کردیا جائے گا۔
موت دراصل ایک ابدی سفر کا صرف ایک درمیانی اسٹیشن ہے۔ موت انسان کے ابدی تسلسل کا درمیانی انقطاع نہیں، بلکہ وہ خود تسلسلِ حیات کا ایک لمحاتی حصہ ہے— موت کا کوئی وقت نہیں، اور نہ موت کی کوئی مدت ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی موت کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا۔ موت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وہ ہماری اپنی پروگریمنگ کا حصہ نہیں، وہ براہِ راست خدا کی طرف سے آنے والا ایک فیصلہ ہے۔ خدا نے موت کے وقت کی خبر کسی انسان کو نہیںدی، نہ براہِ راست طورپر اور نہ بالواسطہ طورپر۔
یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا اور نہ وہ اس کا کوئی شعور رکھتا۔ آدمی جیتا رہتا ہے، یہاںتک کہ اچانک مرجاتا ہے۔ فطرت کی پروگریمنگ کے مطابق، ہر انسان بطور واقعہ ابدی بن گیا ہے۔ انسان کی اس ابدیت کو کوئی توڑنے والا نہیں۔ البتہ خدا جب دیکھتا ہے کہ آدمی کے ٹسٹ کی مدت پوری ہوگئی، تو وہ خوداپنے فیصلے کے تحت اِس عمل میںمداخلت کرتا ہے۔ وہ انسان کو موجودہ دنیا سے نکال کر بعد کی ابدی دنیا میں پہنچادتیا ہے۔ اِسی وقفۂ انتقال (transfering period) کا نام موت ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے موت ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے (transportation) کا معاملہ ہے، نہ کہ زندگی کے خاتمے کا معاملہ۔
یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ زندگی میں کامیابی کے لیے ہر عورت اور مرد کو اپنے اندر ایک خصوصی صلاحیت پیدا کرنا ہے، یہ ہے اینٹی پروگریمنگ سوچ۔ یہ گویا کہ خود اپنے خلاف سوچنے کا معاملہ ہے۔ جو لوگ اس انقلابی طرزِ فکر میں کامیاب ہوں، وہی اس معاملے کو سمجھیں گے، وہی ایسا کرسکیں گے کہ اپنی پروگریمنگ کے خلاف سوچ کر موت کے معاملے کو جانیں اور قبل از موت مرحلۂ حیات میں، بعداز موت مرحلۂ حیات کی تیّاری کریں۔
فرانس کے صدر نکولس سارکوزی (Nicholas Sarkozy) جنوری 2008 میں انڈیا آئے۔ 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ کی تقریب میںوہ خصوصی مہمان کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس کے بعد اپنے دورۂ ہند کے آخری مرحلے میں وہ دہلی سے آگرہ گئے، تاکہ وہاں مشہور تاریخی عمارت تاج محل کو دیکھ سکیں۔ ان کے سفر آگرہ کی جو رپورٹ اخبار میں آئی ہے، ا س میں ایک سبق آموز جُز شامل ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر فرانس جب تاج محل کو دیکھ چکے تو ان کے سامنے حسب معمول گسٹ بک (Guest Book) لائی گئی تاکہ وہ اس پر اپنا تاثر درج کرسکیں۔صدر فرانس نے اختصار کے ساتھ اس میں ایک لفظ لکھا۔ یہ فرانسیسی زبان میں اُروواغ (Uruvor) تھا۔ اس فرانسیسی لفظ کا مطلب ہے: جلد ہی پھر ملیں گے (See you soon, again) ۔
میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک شخص کے ذاتی احساس کی بات نہیں۔ یہ لفظ پوری انسانیت کی نمائندگی کررہا ہے۔ تاج محل کو اگر جنت کا نمائندہ سمجھا جائے تو یہ جملہ پوری انسانیت کے احساس کو بتا رہا ہے۔ اِس دنیا میں پیداہونے والے تمام انسان اپنے داخلی احساس کے تحت اپنے دماغ میںایک جنتی دنیا کا خواب لئے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوابوں کی اِس دنیا کی تعمیر کرسکے۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسان کو پیدا کرنے کے بعد خدا نے اس کو جنت میں رکھا۔ اس وقت یہ جنت اس کو صرف عارضی مشاہدے کے لیے دی گئی تھی۔اس عارضی مشاہدے کے بعد انسان کو موجودہ دنیا میں بسا دیاگیا اور یہ اصول مقرر کیاگیا کہ ہر انسان کی زندگی کا ریکارڈ دیکھا جائے گااور آخر میں انتخابی بنیاد (selective basis) پر اس کے لیے جنت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اِس خدائی منصوبے کے تحت، انسان موجودہ دنیا میں آباد کیا گیا ہے۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ فطرت کی پروگریمنگ کے تحت، انسان ابدی احساس میں جی رہا ہے، اس کی پروگریمنگ کے اندر موت کا تصور شامل نہیں۔ لیکن آزمائشی پیریڈ کے اعتبار سے اس کو موت کا تجربہ کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے شعور کو حرکت میں لاکر اپنے اندر ایک خصوصی صلاحیت پیدا کرے۔ یہ صلاحیت اینٹی پروگریمنگ سوچ کی صلاحیت ہے۔ ہر ایک کو یہ کرناہے کہ وہ اپنی پروگریمنگ سے باہر آکر اپنے معاملے کو جانے۔ وہ پروگریمنگ میںشامل نہ ہونے کے باوجود موت کے معاملے کو دریافت کرے۔ اس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہر آدمی اپنی زندگی کی صحیح منصوبہ بندی کرے اور ابدی کامیابی کا مستحق ٹھہرے۔
موجودہ پروگریمنگ کے زیراثر آدمی یہ کررہا ہے کہ وہ اِسی موجودہ دنیا میں اپنے لئے جنت کی تعمیر میںلگا ہوا ہے۔ یہ گویا کہ سفر کو منزل سمجھ لینا ہے، اور ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ موجودہ دنیا میں آدمی جو بھی تعمیر کرے گا اچانک موت اُس کا خاتمہ کردے گی۔ آدمی سب کچھ موجودہ دنیا میں چھوڑ کر اگلی دنیا کی طرف بالکل خالی ہاتھ چلا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا ہر انسان کے لیے ایک سفرکا معاملہ ہے۔ آپ ٹرین سے سفر کریں یا ہوائی جہاز سے، آپ اپنے کو مسافر سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ سکون کے ساتھ اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ اگر آپ سفر کومنزل سمجھ لیں اور سفر کے دوران وہ تمام سہولتیں حاصل کرنا چاہیں جو صرف حالتِ قیام میںحاصل ہوتی ہیں، تو آپ کا سفر سخت تکلیف کا سفر بن جائے گا، خواہ آپ ٹرین یا ہوائی جہاز کے فرسٹ کلا س میں سفر کررہے ہوں۔
یہی اِس دنیا میںہر عورت اور مرد کا معاملہ ہے۔ جو عورت اور مرد اِس حقیقت کو سمجھ لیں، وہ آخرکار کامیاب زندگی کے مستحق قرار پائیں گے۔ اور جو لوگ اِس حقیقت کو نہ سمجھیں وہ صرف یہ کریں گے کہ فطرت کی طرف سے ملا ہوا قیمتی موقع کھو دیں، جب کہ یہ موقع دوبارہ کسی کو ملنے والا نہیں۔موت اِس حقیقت کا اعلان ہے کہ موجودہ زندگی میں انسان کو جو مختلف چیزیں ملی ہوئی تھیں، وہ بطور استحقاق نہ تھیں، بلکہ وہ صرف پرچہ ہائے امتحان (test papers) کے طورپر تھیں۔ موت کا آنا امتحان کے وقت کا ختم ہوجانا تھا۔ مدتِ امتحان کے ختم ہوتے ہی وہ تمام چیزیں بھی انسان سے چھِن گئیں جو اس کو بطور امتحان ملی تھیں۔
اِس طرح موت ہر انسان کو یہ بتاتی ہے کہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں تم بالکل اکیلے ہو جاؤ گے۔ اُن تمام چیزوں میںسے کوئی بھی چیز تمھارا ساتھ نہ دے گی، جو موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میںتم کو حاصل تھی۔ یہ صورتِ حال بے حد سنگین ہے۔ یہ صورتِ حال آدمی کو متنبہ کررہی ہے کہ تم موت کے بعد کے مرحلہ ٔ حیات کے لیے تیاری کرو۔ اگر تم ضروری تیاری کے بغیر موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں داخل ہوگئے، تو اچانک تم اپنے آپ کو انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں پاؤ گے۔ تم اچانک دیکھو گے کہ موجودہ زندگی میں جو کچھ تم کو حاصل تھا، وہ سب تمھارا ساتھ چھوڑچکا ، اور اب نئے مرحلۂ حیات میں جینے کے لیے جو کچھ درکار ہے، وہ سرے سے تم کو حاصل ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں