سوال وجواب
سوال
آج کل گراس روٹ (grassroots) کا بہت چرچا ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گراس روٹ سے کام کرنے کا طریقہ ٹھوس طریقہ ہے۔ یہی اصلاحی کام کا زیادہ صحیح طریقہ ہے۔لیکن آپ کا طریقہ بظاہر اِس سے مختلف نظرآتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ گراس روٹ لیول (grassroot level) سے کام کرنے کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔ ایسا کیوں ہے، اور اِس معاملے کی حقیقت کیا ہے۔ (محمد ذکوان ندوی، نئی دہلی)
جواب
گراس روٹ لیول سے کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی سطح سے کام کیاجائے، یعنی اصلاحی کام کا آغاز گاؤں سے کرنا، یا غریب بستیوں سے کرنا، یا بے پڑے لکھے عوام سے کرنا۔ اِس طریق کار میں کچھ فائدے ضرور ہیں، لیکن یہ کام کا زیادہ نتیجہ خیز طریقہ نہیں۔ نچلی سطح کے لوگوں کو گراس روٹ سمجھنا، ایک غلط مفروضہ ہے۔ صحیح یہ ہے کہ گراس روٹ انسان کا ذہن ہے، یعنی انسان کی سوچنے کی صلاحیت کا مرکز۔
مذکورہ مفروضے کے مطابق، بہت سے بڑے بڑے لوگوں نے گراس روٹ سے کام کیا ہے، مگر اُن کے اپنے نشانے کے مطابق، ان کے کام کا کوئی بڑا نتیجہ نہیںنکلا۔ مثال کے طورپر مدر ٹریسا (وفات: 1997 ) کا نام اِس معاملے میں بہت زیادہ مشہور ہے، لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ ان کی موت روحانی کرب (agony) کے عالم میں ہوئی۔ آخر وقت میں وہ اپنے کام سے غیر مطمئن تھیں۔ کیوں کہ جس نشانے کو سامنے رکھ کر انھوں نے کام شروع کیا تھا، وہ نشانہ ان کو حاصل نہیں ہوسکا۔ یہی حال اُن تمام بڑے بڑے مصلحین (reformers) کا ہے جنھوں نے اپنے خیال کے مطابق، مفر وضہ گراس روٹ سے کام شروع کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کے تمام اعمال کا مصدر اور منبع اس کا ذہن (mind) ہے۔ آدمی جیسا اپنے ذہن سے سوچتا ہے، ویسا ہی وہ عمل کرتا ہے۔ اِس لیے آدمی کا ذہن (mind) انسانی زندگی میں گراس روٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی بات فطری نقشے کے مطابق ہے۔ ہم اپنا کام اِسی فطری نقشے کے بنیاد پر کررہے ہیں۔ ہم انسان کے ذہن کو تمام انسانی اعمال کے لیے گراس روٹ سمجھتے ہیں۔ اِس لیے ہماری تمام کوشش یہ ہے کہ انسان کا ذہن بدلے، انسان کی سوچ بدلے، انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر پیدا ہو۔ سوچ بدلے گی تو زندگی بدلے گی، اور اگر سوچ نہ بدلے تو کچھ بھی بدلنے والا نہیں۔
سوال
عام طور پر یہ سمجھتا ہے کہ شادی یا نکاح کے معاملے میں اسلام کا طریقہ ارینجڈ میریج (arranged marriage) کا طریقہ ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں اِس طریقے کو روایتی (traditional) طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل کے نوجوانوں کا یہ خیال ہے کہ شادی یا نکاح زندگی کا ایک بے حد اہم معاملہ ہے، اِس لیے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا یہ ماننا ہے کہ اُنھیں اس معاملے کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ اِس دوسرے طریقے کو عام طورپر لَو میریج (love marriage) کہاجاتا ہے۔ اِس معاملے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں (رابعہ، کرناٹک)۔
جواب
موجودہ دنیا عقل کا امتحان ہے۔جو آدمی سوچ سمجھ کر کام کرے گا، وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص محض جذبات کے تحت کام کرے گا، وہ ناکام ہوگا۔ جہاںتک شادی کاتعلق ہے، شادی لَو میریج کا نام نہیں۔ لو اَفیئر(love affair)یا لَو میریج کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ صرف سطحی جذباتیت کا خوب صورت نام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شادی یا نکاح اپنے لیے ایک لائف پارٹنر حاصل کرنے کا نام ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ نکاح کے معاملے کو اِسی نقطۂ نظر سے دیکھیں۔ اِس معاملے میں وہ جذباتی مغلوبیت کے تحت کوئی کام نہ کریں، بلکہ خالص عقلی فیصلے کے تحت کام کریں۔
لَو افیئر یا لو میریج صرف وقتی جذباتیت کا نتیجہ ہوتی ہے، جب کہ نکاح کا تعلق عورت یا مرد کی پوری زندگی سے ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں دانش مندانہ فیصلہ ہمیشہ کے لیے آدمی کی زندگی کو خوش گوار بنادیتا ہے۔ اِس کے برعکس، جذباتی فیصلہ ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی کو تلخ بنادیتا ہے۔ اِس دنیا میں عقلی فیصلے کا نتیجہ کامیابی ہے اور جذباتی بہاؤ کا نتیجہ ناکامی۔
سوال
ایک دینی حلقے سے جُڑے ہوئے لوگوں کے درمیان تدبر قرآن اورفہم قرآن کی باتیں ممنوع قرار دے دی گئی ہیں۔ان کے نزدیک عوام کے لیے قرآن صرف تلاوت کی شے ہے، تدبر قرآن اور فہم قرآن صرف علماء کا حق ہے۔ اِن دنوں عوام کو قرآن فہمی سے روکنے کے لیے اِن حضرات کے ذریعے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ — ’’صحابہ کرامؓ نے فرمایا کہ ہم نے پہلے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا (تعلّمنا الإیمان، ثمّ تعلّمنا القرآن) ‘‘۔ پھر اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ ایمان کو پختہ کئے بغیر قرآن فہمی کی کوشش گم راہی کا سبب بن سکتی ہے۔جب اللہ تعالیٰ خود قرآن میں تدبّر کرنے کا حکم دیتا ہے تو اِس قسم کی حدیثوں کی حقیقت کیا ہے۔ آخر یہ حضرات عوام کو قرآن سے دور کرنے کی کوشش کیوں کررہے ہیں۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے میں ہم لوگوں کی رہ نمائی کریں، شکریہ (محمد خورشید اکرم سوز، کیلاش نگر، مہاراشٹر)۔
جواب
آپ نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے، وہ صحیح اسناد سے ثابت ہے۔ لیکن صحابی کے اِس قول کی وہ تشریح درست نہیں جس کو آپ نے کچھ لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے نقل کیا ہے۔ صحابی کے اِس قول میںایمان سے مراد معرفت ہے، اور قرآن سے مراد شریعت۔ یہ بالکل درست ہے کہ اسلام میں پہلا دعوتی عمل یہ ہے کہ لوگوں کے اندر معرفت پیدا کی جائے، یعنی لوگوں کی سوچ کو بدلا جائے، لوگوں کو ذہنی اعتبار سے تیار کیاجائے۔ اِس ذہنی تیاری کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ لوگ اسلام کے عملی احکام کو اپنی زندگی میںاختیار کریں۔
تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معرفت کے حصول کا ذریعہ بھی قرآن ہی ہے۔ کوئی اور خود ساختہ طریقہ نہیں۔ قرآن ہی کی رہ نمائی میںیہ کیا جائے گا کہ لوگوں کو بدلا جائے۔ لوگوں کے اندر معرفت پیدا کی جائے جس کو ایمان کہاگیا ہے۔ قرآن سے باہر معرفت کے حصول کاکوئی اور طریقہ وضع کرنا ایک بدعت ہے، اور بدعت سے کبھی کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
’تذکیر القرآن‘ اِسی اصول پر لکھی گئی ہے۔ تذکیرالقرآن میں قرآن کے اُن پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے جو معرفت یا شعورِ ایمان کو پیدا کرنے والے ہیں۔ تذکیر القرآن کے جس صفحے کو بھی آپ کھولیں، آپ یہ حکمت اس کے اندر پائیں گے۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ تذکیر القرآن کے ذریعے لوگوں کے اندر شعورِ ایمان پیدا کیا جائے۔ شعور ایمان کا پیدا ہونا گویا کہ استعداد کا پیدا ہونا ہے۔ اور جب استعداد پیدا ہوجائے تو اس کے بعد خود ہی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ شریعت کے عملی احکام کو اپنی زندگی میںاختیار کرلیتے ہیں۔
سوال
اسلامی شریعت کے مطابق، یہ مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ قیامت کے دن خدا ظاہر ہوگا۔ وہ اچھے لوگوں کو جنت میں جگہ دے گا اور برے لوگوں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ بہت سے لوگ اِس پر اعتراض کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا تو ارحم الراحمین ہے، پھر خدا رحمت والا خداہونے کے باوجود کیوں لوگوں کو ابدی جہنم میں داخل کرے گا (رجت ملہوترا، نئی دہلی)۔
جواب
قیامت کے جزا اور سزا کا تعلق رحمت سے نہیں ہے، بلکہ عدل سے ہے۔ یہ خدا کے عدل کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے عمل کے مطابق، جزا یا سزا دے۔
قیامت میںجن لوگوں کے لیے جہنم کا فیصلہ کیاجائے گا، وہ ان کے اندھے پن کی بنا پر ہوگا۔ کیوں کہ انھوںنے نعمتوں کا بھر پور استعمال کیا، لیکن انھوں نے منعم کا اعتراف نہیں کیا۔
خدا نے ان کو اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ یہ پیدا کرنے والا کون ہے۔ خدا نے اُن کو سیارۂ ارض (planet earth) جیسی جگہ رہنے کے لیے دی، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ یہ استثنائی زمین کس نے بنائی۔ خدا نے سورج کے ذریعے روشنی اور حرارت کا انوکھا انتظام کیا، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ یہ انوکھا انتظام کرنے والا کون ہے۔ خدا نے اُن کے لیے آکسیجن کی مسلسل فراہمی کا انتظام کیا، لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ فراہمی کس کی طرف سے ہورہی ہے۔ خدا نے زمین سے اُن کے لیے طرح طرح کی غذائیں نکالیں، لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ کون ہے جو یہ سب کررہا ہے۔ خدا نے دریاؤں اور سمندروںکو پانی سے بھر دیا، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ اِس زندگی بخش نعمت کو فراہم کرنے والا کون ہے۔ خدا نے دنیا میں انسان کے لیے وہ تمام چیزیں فراہم کیں، جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، لیکن انھوںنے یہ نہیں سوچا کہ اِس لائف سپورٹ سسٹم کو دینے والا کون ہے۔
وہ لوگ جو نعمتوں کو استعمال کریں، لیکن وہ منعم کا اعتراف نہ کریں، ایسے لوگوں کو قرآن میںاندھا اور بہرا (الإسراء: 72 ) بتایا گیا ہے۔ جہنم دراصل اِنھیں اندھے اور بہرے لوگوں کے لیے ہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میںاندھے اور بہرے بن کر رہیں، جن کا حال یہ ہو کہ وہ نہ اپنی عقل سے سوچیں، اورنہ اپنی آنکھ سے دیکھیں، اور نہ اپنے کان سے سُنیں، ایسے لوگوں کا انجام بلاشبہہ یہی ہوسکتا ہے کہ ان کو ما بعد موت دورِ حیات (post-death period) کے ابدی مرحلے میں خدا کی اِن رحمتوں سے محروم کردیا جائے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں میں حصے دار نہ بن سکیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن میں اہلِ جہنّم (الأعراف: 179 ) کہاگیا ہے۔
سوال
May name is Yusuf Vorajee, I am 35 years old. I am a born and bred south African. I hail from a town called Lenasia, a suburb of Johannesburg. I have had the privilege of a good Islamic upbringing. When I was 21 years of age I decided to pursue the study of Islam seriously. The only option available to me at the time was to go to a local dar al-ulum affiliated to the madrasah in Deoband. I studied in this institution for 7 years, but was always at loggerheads with the authorities regarding issues of teaching methodology, curriculum content, interpretation of sources etc.
After I qualified, however, then I came into real conflict with the 'ulama fraternity after I refused to submit to the dictates of the 'ulama uncritically. I have subsequently been ostracized by the 'ulama, rendered unemployable and labeled a deviant.
During this time (over 7 years plus the period of my studies), one of the sources by which I drew solace was your writings. Whenever I was asked to speak in a Musjid I spoke from your books.
At present I find myself in a “spiritual mess”. I have literally been ostracized by the “ruling” ‘ulama body here who exert every influence over most of the Islamic organizations. I have continuosly been refused work at “their” madaaris and Islamic schools and anywhere else. I am not called upon to deliver khutbas, jumu'ah or otherwise any longer, I have no avenues from which to articulate my thought. Friends I had from my madrasah days avoid me. I read extensively and continue studying on my own, and have grown beyond the narrow outlook of the traditional ulema fraternity. It’s not possible for me to move away to a different place or locality as I have a widowed mum and an ailing widowed grandmother to take care of, and I am an only child. I am also married and have two beautiful children alhamdulillah. Because of this total isolation and ostracism, I feel abandoned by Allah (SWT) and there are days when I question my faith, times when I felt shaken to my core. When I contemplate my predicament, I am able to understand and accept it on an intellectual level, and have intellectual responses; but I can’t come to terms with it emotionally or spiritually, and I am in serious need of a spiritual guide and mentor.
I do realize that you are extremely busy but if you could spare a few minutes for me so that I may solicit advice from you albeit electronically I would be most grateful. Also I humbly request you to make du'a for me. (Yusuf Vorajee, South Africa)
جواب
According to my experience, I would make some suggestion to you:
1. First of all, you will have to study all of my books, also you will have to be a regular reader of my monthly magazine “Al-Risala”, published from Islamic Centre, New Delhi, India. This magazine and other of my writings are also available on the internet (www.alrisala.org).
2. According to my analysis, all of your problems are the result of one thing alone. And that is your idealism. You are an idealist, and idealists always try to translate their ideals into their social matters, but it is not possible. This problem is not due to the existence of some bad people, it is directly a result of the law of nature.
The only solution to your problem is that you must adopt a realistic approach towards all your problems. That is, be ideal in your personal matters, but when it comes to social matters, you have to adopt a practical policy. The formula of practical policy is very simple. You have to differentiate between what is possible and what is impossible. According to this formula, I would suggest that, you should adjust with the madrasa and masjid people of your locality. I am sure that there are opportunities for you, in both masjid and madrasa, but at the same time there are some problems for you in such a situation, my advice to you is — ignore the problems, and avail the opportunities.
It is my experience that, people always adopt this realistic formula in their family life, but they are reluctant to adopt the same realistic formula in their social life. The price of not accepting realistic approach is that you become double standard.
I hope these lines will suffice for you. May God bless you to achieve success in life.
واپس اوپر جائیں