خبرنامہ اسلامی مرکز— 182
1 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 19 ستمبر 2007 کو حسب معمول ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف مقامات سے کیندریہ وِدّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
قرآن اور حدیث کی روشنی میں اِس موضوع پر اظہار خیال کیاگیا ۔ آخر میںکچھ سوالات کیے گیے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ مغربی کلچر میں فریڈم کو خیر اعلیٰ(Summum Bonum) مانا جاتا ہے، لیکن اسلام میں امن (peace) کو خیرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔
2 - راشٹریہ سہارا (ہندی) کے نمائندہ مسٹر کمار وجے نے 2 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انٹرویو جہادکے موضوع پر تھا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اُن کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
3 - آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) سے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو نشر کیاگیا ، اِس انٹرویو کا موضوع— نان وائلنس تھا۔ یہ انٹرویو صبح کے نشریے کے تحت، نشر کیاگیا۔
4 - اسٹار نیوز (نئی دہلی) کے نمائندے نے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع تھا: خط کے ذریعے عورت کو طلاق دینے کا مسئلہ۔ اِس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
5 - سرودھرم سنسد (Parliament of religions) کے اُدگھاٹن کے طورپر 5 اکتوبر 2007 کی شام کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (نئی دہلی) میںایک بڑا فکشن ہوا۔ اِس میں سوامی اگنی ویش، شری شری روی شنکر، اور فادر والسن تھمپو، وغیرہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بھی اِس میں شرکت کی اور تقریباً پندرہ منٹ کی ایک تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں سماجی اصلاح کے لیے ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے افراد نے بھی اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی بروشرز بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ یہ پروگرام اسلامک کلچر سنٹر کے بڑے آڈی ٹوریم میں ہوا۔ پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔
6 - نوئڈا کے ایک ٹی وی پرگیا ویژن (Pragya Vision) کی ٹیم نے 10 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کے انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ اس کے انٹرویور مسٹر طارق عالم خان تھے۔ انٹرویو کا موضوع— مذہب اور روحانیت تھا۔ اِس سلسلے میں اسلام اور صوفیوں کے نقطۂ نظر کو بتایا گیا۔
7 - سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 اکتوبر 2007 کو حسب معمول، ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف نوودے ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار(Basic Human Values in Islam) پر ایک تقریر کریں۔ اِس کے مطابق، انھوںنے وہاں اِس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کے آخر میں سامعین کی طرف سے سوالات کیے گیے، جن کا جواب دیاگیا۔ حاضرین نے اُس پر کافی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ آخر میں اُن کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی پمفلٹ تقسیم کیے گیے، جس کو انھوںنے نہایت شوق سے لیا۔
8 - ٹائمس ناؤ (Times Now) کے نمائندے نے 11 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر میں بم دھماکے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اِس طرح کا متشددانہ فعل ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ اسلام امن اور رحمت کا مذہب ہے، نہ کہ تشدد اور بے رحمی کا مذہب۔
9 - راشٹریہ سہارا، ہندی (نئی دہلی) کے نمائندہ وجے کمار نے 12 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر کے بم دھماکہ ( 11 اکتوبر 2007 ) کے موضوع پر تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلام میں معصوم لوگوں کو مارنا حرام ہے۔ جو لوگ اِس قسم کا متشددانہ فعل کررہے ہیں، وہ امن کی طاقت سے بے خبر ہیں۔ اسلام میںامن سب سے بڑی طاقت ہے، نہ کہ تشدد۔
10 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر قاسم ندوی نے 17 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو روزے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران قرآن اور حدیث کی روشنی میں روزے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
11 - انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 20 اکتوبر 2007 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا انتظام سی پی ایس اور گڈ ورڈ بکس کی طرف سے کیاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔اُس کا موضوع تھا— قرآن کا پیغام:
The Message of the Quran
اِس پروگرام میں تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے ۔ کچھ ہندو حضرات بھی وہاں موجود تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ یہاں آنے والوں کو اسلامی دعوت کے مطبوعہ انگریزی بروشر دیے گیے۔ یہاں گُڈورڈبکس کی طرف سے اسلامی کتابوں کا ایک بُک اسٹال بھی لگایا گیا تھا۔ لوگوں نے یہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
12 - 18 اکتوبر 2007کو صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط موصول ہوا ۔وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون ’’مسیحی ماڈل‘‘ کے خلاف اگست 2007کے مہینے میں یہاں سری نگر (کشمیر) کے بعض علما، واعظین اور ائمۂ مساجد کی طرف سے سخت ردّ عمل سامنے آرہا ہے اور اس سلسلے میں مقامی اخبارات میںایسے بیانات منظر عام پر آئے ہیں جن کا علم و دلیل اور زبان و ادب کی شائستگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن بیانات میںکہیں بھی یہ بات نہیں ثابت کی گئی ہے کہ آپ نے کہاں غلطی کی اور آپ کس طرح (العیاذ باللہ) اہانتِ رسول کے مرتکب ٹھہرے۔ لہذا جب ان کے پاس آپ کا نقطہ نظر غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ حق اُن لوگوں کا نہیں، آپ کا ساتھ دے رہا ہے۔ کیوں کہ آپ اپنی ہر بات کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور زیر نظر مضمون میں بھی آپ نے اسی اسلوب کو اختیار فرمایا ہے۔الرسالہ اکتوبر 2007 کا شمارہ نظر سے گزرا۔ اِس شمارے میں ’’دین اور منہاج‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز مضمون پڑھنے کو ملا۔ یہ مضمون علمی دلائل کے اعتبا رسے بہت ہی جامع اور مدلل ہے۔ میں نے اس مضمون کی ایک ایک سطر پر غور کیا اور اب میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ سے اختلاف کرنا کسی عام واعظ وامام تو کُجا، بڑے سے بڑے عالمِ دین کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے مولانا مودودی کے تصورِ دین پر جو جامع اور مدلل تنقید کی ہے، اس کا جواب نہ مولانا مودودی سے بن پایا اور نہ آج تک جماعت اسلامی کے علما میں سے کسی نے اس کا علمی جواب دینے کی جرأت کی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آپ کی یہ تحریریں آج بھی جواب کے لیے منتظر ہیں۔آپ بلا شبہہ علمی اورفکری اعتبار سے پورے عالمِ اسلام میںاپنی نوعیت کے واحد عالم ِ دین ہیں۔اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے علما کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر آپ کے اندر جو گوں نا گوں علمی وفکری، ذہنی و قلمی صلاحیتیں ہیں اور عصری ودینی علوم پر جو گہری نظراور دست رس آپ کو حاصل ہے، وہ کسی دوسرے عالمِ دین کے یہاں نہیں ملتی ہے۔ اِس لحاظ سے آپ کا علمی و فکری قد بہت اونچا اور بلند ہے اور بلاشبہہ آپ جیسے مصلح، داعی اور مفکر صدیوں کے بعد ہی پیداہوتے ہیں۔ الرسالہ اکتوبر 2007 کے اِس تازہ مضمون (دین اور منہاج) کی اِس بات نے مجھے خاص طورپر زیادہ متاثر کیا ہے کہ آپ نے اِس مضمون میںاپنے مخالفین، جن پر اگر ’’بدترین مخالفین‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں گے تو کم پڑ جائیں گے، ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ نفسِ مسئلہ کی طرف اپنے فکر و نظر اور قلم و ذہن کو مرکوز رکھا ہے، جب کہ نئی دہلی سے شائع ہونے والا ایک ماہ نامہ خاص طورپر آپ ہی کی بے جا اور سطحی مخالفت میں شائع ہوتاہے اور جس میں کثرت سے ایسی تحریریں شائع ہوتی ہیں جن میںزیادہ تر آپ کی ذات کو ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے اور آپ کے خلاف ہر لکھی جانے والی تحریر، خواہ اس میں علم و دلیل کا فقدان ہی کیوں نہ ہو اور اسلوب تحریر کتنا ہی غیر اخلاقی وغیر شرعی کیوں نہ ہو، اس کو صرف اِس وجہ سے خوش آمدید کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایک طرف، آپ کے مخالفین، الرسالہ مشن سے سخت خائف ہیں اور اس کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، وہاں دوسری طرف، اللہ تعالیٰ ’الرسالہ مشن‘ کے فروغ کے سلسلے میں غیب سے اسباب مہیا فرمارہا ہے اور وہ الرسالہ کے حلقۂ قارئین میں روز افزوں اضافہ کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تازہ اور دل چسپ مثال ملاحظہ کیجیے۔بریلوی مکتب فکر کا ایک ماہ نامہ ’’جامِ نور‘‘ دہلی سے شائع ہوتا ہے جس کے خصوصی شماروں میں آپ کے بھی کئی انٹرویو شائع ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اس کا ایک خصوصی شمارہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے اور اس شمارے میں بھی آپ کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا ہے۔اس کے آخر میں آپ نے اُس رسالے کے متعلق، اپنے تاثرات کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے: ’’ماہ نامہ جامِ نور میرے پاس آتا ہے، میں اس کو ایک اچھا رسالہ سمجھتا ہوں، میں یہی کہہ سکتاہوں کہ میری دعا ہے کہ ماہ نامہ جامِ نور ہمیشہ ترقی کرتا رہے اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بنے(ماہ نامہ جامِ نور، اپریل 2007 ، ص : 96 ) ۔ لیکن اِسی رسالے کے ایک اور شمارے میں ایک مستقل کالم (اظہارِ خیال) کے تحت، ایک قاری کا ایک جگہ آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں تعصب و تنگ نظری سے بھر پور یہ ریمارک اِس طرح شائع ہوا ہے:’’میں آپ کو شہر گُل برگہ کی بات بتاؤں کہ ایک اسٹال پر’’الرسالہ‘‘ کثیر تعداد میں پہنچتا ہے اور صف بستہ منتظرین اس کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا لے جاتے ہیں، حالاں کہ دس کی جگہ یہاں قارئین گیارہ روپیے دیتے ہیں، یہاں کی اکثر لائبریریوں میں جہاں کوئی رسالہ پہنچتا ہے ’’الرسالہ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، جب کہ اہلِ سنت کے کسی بھی رسالے سے لائبریریاں خالی ہیں۔ لائبریریوں میں مستقل آکر پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ دیگر رسائل کو چھوڑ کر’’ الرسالہ‘‘ ہی ایک دوسرے سے لے کر پڑھنے کے منتظر رہتے ہیں… میں پُر امید ہو کر یہ کہوں گا کہ جولائی کے الرسالہ پر بھی تبصرہ لکھیے جو اسلامی تعلیمات کے مخالف سوچ اور فکر سے پُر ہے‘‘(جامِ نور، ستمبر 2007، ص: 28 ) یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے اپنے اوپر دیے گئے اقتباس میں جامِ نور کی تعریف کی اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بننے کی دعا فرمائی ہے مگر دوسری طرف اس اقتباس میں خود آپ کے خلاف اور الرسالہ کے خلاف بے بنیاد طور پر رائے زنی کی گئی ہے۔ تاہم اس اقتباس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ جو مسلکی تعصب اور فرقہ بندی کے چنگل سے آزاد ہیں اور دل و دماغ کے اعتبار سے بیدار بھی ہیں، الرسالہ ایک بار پڑھنے سے وہ اُنھیں فطرت کی آواز اور اسلام کی روح معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کی طرف پلٹ جاتے ہیں اور اس کی خریداری کے لیے صف بستہ کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں ، یہ خوش آئند بات نہیں توکیا ہے۔ چوں کہ الرسالہ، اسلام کی دریافت ہے اور اس میں اسلام کی دعوت کو بے لوث اور حکیمانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح کی دعوت جب تحریک اور مشن کی شکل اختیار کرلیتی ہے تو اس وقت اس دعوتِ حق کو روکنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی ہے اور جو بھی دعوت الی اللہ کے راستے میں روڑے اٹکاتا اوررکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا وجود اور اس کا نام ونشان مٹا دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: یُریدُونَ لِیُطْفِؤا نُورَ اللہِ بِأَفوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِ ہٖ وَلَوکَرِہَ الْکافِرُونَ (الصّف: 8)اگرکوئی چاہے کہ سورج کو اپنی پھونکوں سے بجھادے تو یہ اس کی سراسر حماقت ہوگی۔ جس طرح سورج روشن رہے گااور روشنی دیتا رہے گا، اُسی طرح حق کی روشنی اپنا راستہ ڈھونڈ نکالے گی، خواہ اس کے مخالفین اسے بجھانے کے لیے کتنی بھی تدبیر اور ہتھکنڈے آزمائیں، مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے اس کی تکمیل ہوکر رہے گی۔ حق کی یہ روشنی دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے کو روشن کردے گی۔ تاہم یہ نصیحت صرف اس آدمی کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو حق کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہو اور حق کی تڑپ رکھتا ہو، ورنہ اندھے مخالفین کے لیے ساری تفصیلیں اور ساری شرحیں مبہم ہیں۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر )
13 - ایک خط: قابلِ احترام مولانا وحیدالدین خاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا موقرجریدہ الرسالہ باقاعدگی سے مل رہا ہے جس کے لیے بے حد ممنون ہوں۔ نومبر 2007 کے تازہ شمارے میں ’’اسمائِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم‘‘ کے موضوع پر آپ کا بصیرت افروز مضمون نہ صرف قابلِ تعریف اور فکر انگیزہے، بلکہ وہ اسمِ اعظم کے تعلق سے ہمیں ایک نئے زاویۂ فکر سے روشناس بھی کراتا ہے۔ آپ نے ٹھوس دلائل کے ذریعے سے اسمِ اعظم کی وضاحت جس طرح فرمائی ہے، اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر پھیلے ہوئے شکوک اور مفروضات کا ازالہ ہوجانا چاہیے۔ بہر حال آپ نے یہ بڑا نیک کام انجام دیا ہے۔ مبارک باد قبول فرمائی (سعید رحمانی، ایڈیٹر اخبارِ اُڑیسہ،کٹک، 22 اکتوبر، 2007)۔
14 - ایک خط: حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ خدا آپ پر اور آپ کے تمام اہل خانہ پر کرم کا معاملہ فرمائے، آمین۔ نومبر 2007 کا الرسالہ زیر مطالعہ ہے۔ پریشان ہوں کہ بات کیا اور کہاں سے شروع کروں کیوں کہ مجھے اپنی کم علمی کا پورا احساس ہے۔ ایک سند یافتہ عالم کے سامنے بات پیش کرنا اور بات ہے لیکن جب سامنے معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے والا اور اللہ کی طرف سے خیرِ کثیر (البقرۃ: 269 ) سے نوازا ہوا شخص ہو، تو قلم حرکت کرنے سے عاجز ہو جاتاہے۔ یوں آپ کی بیش تر تحریروں نے اکثر مجھ کو رُلایا ہے۔ تب بھی میں بہت رویا تھا جب آپ کی کتاب ’’الاسلام‘‘ کے عنوان ’’عبادت‘‘ (صفحہ 7) سے گزرا تھا۔ لیکن آج تو حد ہوگئی، کس جملے اور کون سے صفحے کی بات کروں۔ بے شک دنیا کے تمام الفاظ مل کر بھی اسمائِ حسنیٰ کی تعریف بیان نہیں کرسکتے، لیکن اس شمارے میں جیسے خدا نے لفظوں کو گویائی عطا کردی ہے۔یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس شمارے نے بہت سی روحوں کو رُلایا ہوگا اور اسمِ اعظم کو شعوری سطح پر پانے کا احساس زندہ کیا ہوگا۔ سچ کہوں تو اس شمارے کو ’’اسم اعظم اور خیرِکثیر نمبر‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایک خیرِ کثیر کے طالب کے لیے اِس خاص کتاب کا روزانہ مطالعہ معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے کے لئے بے حد معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس شمارے کی لاتعداد کاپیاں چھپواکر ایک ایک بندے تک پہنچا دوں (محمد وسیم اختر، بہادر گنج، بہار، 23 اکتوبر 2007 )۔
15 - 28 اکتوبر 2007کو بیروہ (کشمیر) میں حلقۂ الرسالہ کا ایک اجتماع ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر جناب غلام نبی کشافی نے ’’اسوۂ حسنہ اور مسیحی ماڈل‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ پیش کیا۔ اِس میں قرآن اور حدیث کے واضح دلائل کے ذریعے اِس سلسلے میں اٹھنے والے شبہات کا مدلل جواب دیا گیا۔ اِس میں بتایاگیا کہ ’دین‘ اور ’منہاج‘ کے معاملے میںالرسالہ کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو تمام علمائِ اسلام کا نقطۂ نظر ہے۔ اِس سلسلے میں محدثین اور علمائِ سلف کی تحریروں کے کئی حوالے پیش کیے گئے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ سیرتِ رسول کے موضوع پر مطبوعاتِ الرسالہ کے تحت، ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایسی حالت میں علمی طریقہ صرف یہ ہوگا کہ اِن مطبوعہ کتابوں کو سامنے رکھ کر اس معاملے میں کوئی رائے قائم کی جائے، نہ کہ صرف ایک بات کو لے کر اُس کے خلاف سطحی قسم کی بے معنی دھوم مچائی جائے۔
واپس اوپر جائیں