صحیح طرزِ فکر
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گفتگو کے دوران کنفیوژن کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ یہ ایک حد اہم مسئلہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ 99 فیصد سے زیادہ لوگ کنفیوزڈ تھنکِنگ (confused thinking) میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں جس کو رائٹ تھنکنگ (right thinking) کہا جاتا ہے۔ رائٹ تھنکنگ دراصل سدادِ فکر (sound thinking) کا دوسرا نام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ آرٹ آف تھنکنگ میں مہارت حاصل کرے۔ اس کے بغیر اس کی پوری زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے گی، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
کنفیوژن کا یہ مسئلہ صرف انسان کا مسئلہ ہے۔حیوانی دنیا (animal world) اس مسئلے سے آشنا نہیں۔ کوئی بھی حیوان اپنی زندگی کا کورس متعین کرنے کے لیے کبھی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوتا۔ چیونٹی سے لے کر شیر تک اورمچھلی سے لے کر چڑیا تک ہر حیوان کارویہ ہمیشہ درست رویہ ہوتا ہے۔ ہر حیوان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہے۔ حیوانات کے اس قابلِ رشک پہلو کو ٹی وی پر اینمل ورلڈ (Animal World) کے پروگرام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حیوانات معیاری حد تک ٹھیک وہی کرتے ہیں جو کہ ازروئے واقعہ انھیں کرنا چاہیے۔
اس کے مقابلے میںانسان کو دیکھئے تو یہاں بالکل مختلف منظر دکھائی دے گا۔ انسان فکری بے راہ روی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس فرق کا بنیادی سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ تنظیمِ فکر(thought management) ہے۔ حیوانات میں تنظیم فکر کامل طورپر موجود ہے۔ جب کہ انسان میں تنظیم فکر کا فقدان ہے۔
یہاں دوبارہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حیوان اور انسان میں یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حیوان اپنی جبلت (instinct) سے کنٹرول ہوتا ہے، اس کی جبلت اس کے اندر تنظیم فکر کی یقینی ضمانت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میںانسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان آزادانہ طورپر سوچتا ہے اور خود اپنی آزادی (free will) کے تحت رائے قائم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو اپنی فکری تنظیم خودہی انجام دینا ہے۔ اس کو خود اپنے فیصلے کے تحت اپنے آپ کو فکری ڈسپلن کا پابند بنانا ہے۔
انسان کے اندر فکری تنظیم (thought management) کا عمل (process) کیوں سُکڑتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان معلومات کے جنگل کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے اندر وہ فکری استعداد موجود ہو جس کے ذریعے وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant)کے فرق کو جانے۔ وہ غیر متعلق باتوں کو چھوڑتے ہوئے متعلق باتوں پر اپنی نظر جمائے رہے۔ یہی وہ واحد آرٹ ہے جو انسان کے لیے صحت فکر کا ضامن ہے۔
چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ ڈارون ازم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ زندگی کا ظہور جب ارتقا (Evolution) کے ذریعے ہوا تو اب خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مگر یہ صرف مغالطہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ اولاً تو ابھی تک کوئی ثابت شدہ واقعہ نہیں۔اور اگر بالفرض وہ واقعہ ہو تب بھی وہ خالق کے عقیدے کی تردید نہیں۔ نظریۂ ارتقا زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ خالق کا طریقہ خصوصی تخلیق(special creation) نہیں، بلکہ ارتقائی تخلیق (evolutionary creation) ہے۔ نظریۂ ارتقا کا تعلق تخلیق کے پراسس (process of creation) سے ہے، نہ کہ خود خالق سے۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسلام ابدی مذہب نہیںہوسکتا۔ کیوں کہ زندگی کے حالات بدلتے رہـتے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ازسرِ نو رہنمائی دی جائے۔ مگر یہ صرف فکری کنفیوژن کی بات ہے۔ کیوں کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے صرف اساسات (basics) کا مجموعہ ہے۔ اور اساسات میں کبھی تبدیلی نہیںہوتی۔ جن چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے وہ غیر اساسی چیزیں (non-basics) ہیں۔ اور غیر اساسی چیزوں میں تبدیلی کے اس مسئلے کے لیے اسلام میں اجتہادکا طریقہ رکھا گیا ہے جو یقینی طورپر اس مسئلے کا مکمل حل ہے۔
بہت سے لوگ مدر ٹریسا کو ماڈل سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ادھوری سوچ کا نتیجہ ہے۔ مدر ٹریسا علامت ہے انسان کی جسمانی تکلیف کو دور کرنے کی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی جسمانی تکلیف دور کرنا ایک مفید کام ہونے کے باوجود وہ اصل کام نہیں۔ اس لیے کہ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہوتے ہی وہ دوسری شدید تر فکری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مثلاً تکبر، حسد، انتقام، اقتدار پسندی، خود غرضی، عصبیت، بے اعترافی اور سرکشی، وغیرہ۔
تجربہ بتا تا ہے کہ انسان اگر مسائل کے درمیان ہو تو اس کے اندر تواضع (modesty) پرورش پاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے نو پرابلم انسان بنا رہتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی تکلیف کو دور کرنا صرف ایک جزئی کام ہے۔ زیادہ بڑا کام یہ ہے کہ انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر (right thinking) کا مادہ پیدا کیا جائے، اس کو اس کے روحانی ارتقا (spiritual development) میں مدد دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مدر ٹریسا اپنے مشن کے ابتدائی مرحلے میں حالت اطمینان میں ـتھیں، مگر وہ اپنے مشن کے آخری مرحلے میں مایوس ہو کر مریں۔ کیوں کہ جب مدر ٹریسا کے ادارے کو کافی شہرت اوردولت مل گئی تو ان کے ’’تندرست‘‘ ساتھیوں نے ان کو ایسی پریشانی میں مبتلا کردیا جس کا تجربہ ان کو اپنے ’’مریض‘ ‘ ساتھیوں سے نہیں ہوا تھا۔
1947 سے پہلے کے دور میں اقبال اور جناح جیسے لوگوں نے یہ سوچا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ کے مقابلے میں علیٰ حدہ مسلم لینڈ مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ہے۔ مگر جب یہ علیٰ حدہ مسلم لینڈ بن گیا تو معلوم ہوا کہ اس علیٰ حدہ مسلم لینڈ میںاس سے بھی زیادہ مسائل ہیں جتنا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ میں ہیں، یا ہوسکتے تھے۔ اس اندوہ ناک انجام کا سبب یہ ہے کہ اقبال اور جناح جیسے لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ پاکیزہ معاشرے کا تعلق پاکیزہ انسان سے ہے۔ پاکیزہ معاشرہ اس طرح نہیں بن سکتا کہ کسی لینڈ کو سیاسی اعتبار سے الگ کرکے اس کا نام پاکیزہ لینڈ رکھ دیا جائے۔
اس معاملے میںانسان کی ایک سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ پاتا۔ چناں چہ علیٰ حدگی پسندگی کی جو سیاست پاکستان کی صورت میں اندوہ ناک حد تک ناکام ہوچکی ہے۔ اب کشمیر کے مسلمان ٹھیک اسی سیاست کو دہرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر خواہ آزاد کشمیر بنے یا پاکستانی کشمیر، دونوں حالتوں میں اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حالات کے اعتبار سے کشمیر کے لیے بہترین پالیسی یہ تھی کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے ہندستان کے ساتھ مل کر رہے۔ ہندو- مسلم مشترک سماج کشمیر کی ترقی کے لیے زیادہ مفید ہے۔
سدادِ فکر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی واقعات کو تقابلی انداز میں دیکھ سکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو شیکسپئر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
In comparison that we understand.
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاںایک مثال دوں گا۔ ایمرجنسی کے بعد 1970 میں انڈیا کا جنرل الیکشن ہوا۔ اس وقت جے پرکاش نرائن نے نان کانگریس ازم کی تحریک چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس راج ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ انھوں نے نعرہ دیا کہ کانگریس کو ہٹاؤ، ملک میں ٹوٹل ریولیوشن لاؤ۔ ایمرجنسی کی وجہ سے عوام بہت برہم تھے۔ چناں چہ نان کانگریس ازم کا نعرہ کامیاب ہوا اور کانگریس، الیکشن میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے بعد نئی دہلی میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومتی تبدیلی جے پرکاش نرائن کے پروگرام کے عین مطابق تھی۔
مگر جہاں تک حقیقی سطح پر سماجی اور قومی حالات کا معاملہ ہے اس میں کچھ بھی تبدیلی نہیںآئی، بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوگیا۔ حتیٰ کہ خود جنتا پارٹی کی حکومت اپنا ٹرم پورا نہ کرسکی اور ڈھائی سال کے اندر ہی ختم ہوگئی۔
واپس اوپر جائیں