پائنٹ آف ریفرنس
7 فروری 2004 کو ترکی کی باسفورس یونیورسٹی (استنبول) کے پروفیسر ڈاکٹر مارک لنڈلے (Mark Lindley)کی قیادت میںترک طالبات کا ایک وفد اسلامی مرکز میںآیا۔ ان طالبات کے نام حسب ذیل ہیں:
Gagla Orpen
Gunes Muhafiz
Eda Dedelns
Aysegul Turan
ان لوگوں نے راقم الحروف سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں گفتگو کی۔ اور جدید سیاق میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ان سے جو گفتگو ہوئی اس کو کسی قدر اضافے کے ساتھ یہاںنقل کیا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570 کو مکہ میںہوئی۔ 610 ء میں آپ کو خدا کی طرف سے پہلی وحی آئی۔ اس طرح ساتویں صدی عیسوی کی ابتداء میںاسلام کا آغاز ہوا۔ نبوت ملنے کے بعد آپ 13 سال تک مکہ میں رہے۔ اس کے بعد 622 ء میں آپ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ چلے گیے۔ وہاںآپ دس سال رہے۔ 632 ء میں آپ نے مدینہ میںوفات پائی۔
اس طرح آپ کے پیغمبرانہ مشن کی مدت 23 سال ہے۔ اس مدت میں قرآن وقفہ وقفہ سے آپ کے اوپر اترتا رہا، اسی کے ساتھ آپ نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی نمائندگی کی۔ آپ کے قول اورعمل کے اسی محفوظ ریکارڈ کو حدیث اور سنت کہاجاتا ہے۔ اسلام کی پہلی جنریشن میںیہی قرآن اورحدیث اسلام کو سمجھنے کا واحد ذریعہ تھا۔ جو شخص بھی اسلام کو سمجھنا چاہتا اس کے لیے ایک ہی پائنٹ آف ریفرنس (point of reference) تھا اور وہ وہی مقدس متن تھا جس کو قرآن اورحدیث کہا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اسلام میںایک اور چیز شامل ہوئی اور وہ اسلام کی تاریخ ہے۔ اسلام کو ماننے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اس وقت کی آباد دنیا کے بیش تر حصوں میں پھیل گیے۔ ان مسلمانوں نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ اسلام کی ایک تاریخ بنائی۔ انھوںنے بہت سی بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں۔ مثلاً دولت بنو امیہ، دولت عباسیہ، دولت فاطمیہ، اور پھر دولت مغلیہ، دولت عثمانیہ اور دولت اندلسیہ۔ ان کے علاوہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں مختلف علاقوں میں اتنی زیادہ تعداد میں قائم ہوئیں جن کی گنتی سو سے بھی اوپر جاتی ہے۔ تاریخ بننے کا یہ زمانہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔
اسلام کے ساتھ تاریخ کے اس اضافہ نے ایک نیا مسئلہ پیدا کیا۔ اب یہ ہوا کہ بعد کے زمانے میں جو لوگ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے ان کے لیے پائنٹ آف ریفرنس عملاً بد ل گیا۔ اب قریبی پائنٹ آف ریفرنس (immediate point of reference) تاریخ بن گیا نہ کہ قرآن اورحدیث۔ قرآن اور حدیث اسلام کا بے آمیز ماخذ تھا۔ جب کہ تاریخ میں بعد کی مسلم نسلوں کی آمیزش شامل ہوگئی۔
اب جو شخص اسلام کو اس کی واقعی حیثیت میںسمجھنا چاہے اس کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ بعد کی بننے والی تاریخ سے گزر کر پہلے دور میںپہنچے اور اسلام کو براہِ راست خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرے۔
موجودہ مسلم تاریخ، اسلام کو سمجھنے کا مستند ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تاریخ قدیم ذوق کے مطابق، انتخابی (selective) انداز میں لکھی گئی ہے۔ قدیم زمانے میں تاریخ نگاری کا جو طریقہ رائج تھا وہ یہ تھا کہ سیاسی واقعات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ سیاست یا سیاست سے متعلق واقعات ہی کے بیان کا نام تاریخ تھا۔ چنانچہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مسلم مورخین نے بھی اسلام کی تاریخ اس نہج پر مرتب کی۔
ابن خلدون ( وفات: 1406 ) نے اس نہج کو بدلنے کی کوشش کی مگر اس وقت تک تاریخ نگاری کا کام اپنی تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ تمام کتابیں اسی قدیم نہج پر لکھی جاچکی تھیں۔ اس لیے یہ نہج بدستور باقی رہا۔ اب اس غلطی کی واحد تلافی یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کو تاریخ کے بجائے قرآن اورحدیث کی روشنی میں سمجھا جائے جو کہ اس کا زیادہ مستند اور مکمل ماخذ ہے جب کہ بعد کے مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخ، اسلام کو سمجھنے کے سلسلے میں ایک جزئی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال لیجیے۔ اسلام پر بعد کے دور میں کتابیں لکھی گئی ہیںان سب میں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے پیغمبر اسلام کے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد سلسلہ وار اگلے واقعات درج کیے جاتے ہیں۔ مگر تاریخ کی ہر کتاب میں ایک مشترک کمی موجود ہے۔ اور وہ ہے پیغمبر اسلام کی غیر سیاسی زندگی کا تذکرہ بہت کم ہونا اور آپ کی زندگی کے سیاسی حصہ کا تذکرہ بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ کیا جانا۔
مکہ کی 13 سالہ مدت میں پیغمبراسلام کی زندگی میں بہت سے واقعات پیش آئے مگر یہ سب کے سب غیر سیاسی نوعیت کے واقعات تھے، چنانچہ ان کا ذکر بہت مختصر طورپر ان تاریخی کتابوں میں ملتا ہے۔ اس کے برعکس مدینہ میںآپ صرف دس سال تک رہے مگر ان دس سالوں کے واقعات بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ ان کتابوں میں ملتے ہیں۔ یہی فرق ہے جس کی بنا پر لوگوں کی نظر میں پیغمبر اسلام کی حیثیت پیغمبر شمشیر (Prophet of sword) کی بن گئی۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کی فکری تشکیل اسی تاریخ کے زیر اثر ہوئی۔ ہر ایک کے افکار میںاسی تاریخ کا نقشہ دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طورپر اقبال نے کہا:
ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
To every vein of falsehood every Muslim was a knife.
ایک بار میں ایک مسلم پروفیسر کے لکچر میںشریک تھا۔ یہ لکچر انڈیا کے ایک شہر میںہوا۔ لکچر کے بعد حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ انڈیا میں مسلمان اقلیت میںہیں۔ ایسی حالت میں ہمارے لیے اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔ مسلم پروفیسر نے کچھ دیر سوچا اور اس کے بعد کہا کہ اس سوال کا جواب بہت مشکل ہے۔ اس لیے کہ اسلام میں پوزیشن آف اسٹرنتھ (Position of Strength) کا ماڈل تو موجود ہے مگر اسلام میں پوزیشن آف ماڈیسٹی(Position of modesty) کا ماڈل موجود نہیں۔
مذکورہ مسلم پروفیسر نے یہ بات اس لیے کہی کہ اسلام کے حوالے سے وہ صرف بعد کو بننے والی تاریخ کو دیکھ رہے تھے نہ کہ براہِ راست قرآن اور سنت کو۔ اگر وہ تاریخ میں اٹکے بغیر پیغمبر کے زمانے کو دیکھتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اسلام پورا کا پورا پوزیشن آف ماڈسٹی ہی کا ماڈل تھا۔ پیغمبر اسلام نہ صرف ابتدا کے 13 سال کی مدت میں کامل طورپر ماڈسٹی کا نمونہ بنے رہے بلکہ بعد کے زمانے میں جب جنگ اور فتح کے واقعات پیش آئے اس وقت بھی آپ کی روش ماڈسٹی کی روش تھی۔ مثال کے طورپر 8ہجری میں جب مکہ فتح ہوا اور آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ اپنے اونٹ کی پیٹھ پر اس طرح جھکے ہوئے تھے جیسے کہ آپ سجدے کی حالت میں ہوں۔
مسلمانوں میں بعد کے زمانے میں جو ذہن پیدا ہوا وہ توحید کا ایک غلط تصور تھا۔ عام طورپر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم موحد ہیں، ہمارا سر ایک خدا کے سوا کسی اور کے آگے جھکنے والا نہیں۔ اس جملے میں ایک مغالطہ چھپا ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ توحید کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا سر ایک خدا کے سوا کسی اور کے سامنے نہ جھکے مگر یہ بات عبادت کے پہلو سے ہے نہ کہ اخلاق کے پہلو سے۔ عبادت کے پہلو سے مومن کا سر صرف ایک خدا کے سامنے جھکتا ہے مگر اخلاق کے پہلو سے اس کو ہر انسان کے مقابلہ میں تواضع (modesty) کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سامنے جھکنا فخر یا اکڑ کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ وہ احساسِ عجز کی بنا پرہوتا ہے اور عجز اور تواضع کی نفسیات جس آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ خدا کے سامنے جھکے اور انسان کے سامنے اکڑ دکھائے۔ اس کی نفسیات دونوں جگہ اس کو جھکا دے گی۔ وہ دونوں ہی پہلوؤں سے ایک متواضع انسان بن جائے گا۔
یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کے سامنے جھکنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ جو شخص بظاہر خدا کے سامنے جھکنے کا مظاہرہ کرے مگر جب انسان سے معاملہ پیش آئے تو وہ فخر اور اکڑ کی روش اختیار کرے ایسے آدمی کے بارے میں کہاجائے گا کہ وہ خدا کے سامنے بھی نہیں جھکا۔ خدا کے آگے جھکنے کے نام سے اس نے جو کچھ کیا وہ ایک مصنوعی مظاہرہ تھا نہ کہ کوئی حقیقی عمل۔
جو لوگ پیغمبر اسلام کی سیرت کوتاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں ان کا تصور یہ بنتا ہے کہ پیغمبراسلام گویا پیغمبر شمشیر (Prophet of sword) تھے، لیکن پیغمبر اسلام کی زندگی کو جاننے کا یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا صحیح اور مستند ریکارڈ وہ ہے جو قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ یہاں اس سلسلے میںکچھ مثالیں قرآن اور حدیث سے نقل کی جاتی ہیں۔
قرآن میں پیغمبر اسلام کی اصل حیثیت کو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: وما أرسلناک إِلاّ رحمۃ للعالمین ( الأنبیاء: 107 ) یعنی خدا نے اپنے پیغمبر کو دنیا والوں کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ رحمت (mercy) کا لفظ ایک جامع لفظ ہے۔ اس میں اس نوعیت کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً شفقت ،نرمی، محبت، ٹالرنس، ہمدردی، وغیرہ۔
اس طرح قرآن میں پیغمبر اسلام کوخطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: فذکّر إنما أنت مذکّر، لست علیہم بمسیطر (الغاشیہ: 21-22 ) یعنی تم لوگوں کو یاد دہانی کراؤ۔ تم صرف یاد دہانی کرنے والے ہو، تم لوگوں کے اوپر داروغہ نہیں ہو:
You are only a warner, you are not an enforcer.
پیغمبر اسلام کی یہی تصویر حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً پیغمبر اسلام نے اپنے بارے میں کہا: بعثتُ لأتمّم مکارم الأخلاق۔یعنی میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کروں:
I was sent to establish a society based on higher moral values.
واقعات کے اعتبار سے اسلام کی تاریخ تین دوروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ دورِ نبوت، دورِاقتدار، دورِ زوال۔ دورِ نبوت وہ ہے جس کواسلام کی پہلی جنریشن کہاجاسکتا ہے۔ اس زمانے کے مسلمان خدا کی دریافت کے تحت مسلمان بنے تھے۔ اس زمانے کے مسلمانوں میں جو اسپرٹ تھی اس کو ایک لفظ میں تقویٰ اسپرٹ کہا جاسکتا ہے۔ ان کے اندر وہ تمام اعلیٰ صفات تھیں جو تقویٰ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہیں۔ یعنی خدا پرستی، سنجیدگی، ذمہ داری کا احساس، حقیقت پسندانہ مزاج، مثبت طرزفکر، انصاف، انسانی مساوات، وغیرہ۔
دوسرا دور وہ ہے جب کہ مسلمانوں کی سلطنت بن گئی اور زمین کے بڑے رقبہ میںان کی سیاسی بالا دستی قائم ہوگئی۔ اس دور کے مسلمانوں میںوہ صفات پیدا ہوگئیں جو اقتدار کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً فخر، تکبر، عیش پسندی، غیر ذمہ داری، احساس برتری، وغیرہ۔
مسلم تاریخ کا تیسرا دور مغربی قوموں کے اسی عروج سے شروع ہوتا ہے جس کو نو آبادیاتی نظام کہا جاتا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی سیاسی بر تری ختم ہوگئی۔ وہ ایک قسم کی زیر دستی کی حالت میںپہنچ گیے۔ ان حالات میں ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوئی جس کو پیرا نوئیا (Paranoia) کہاجاتا ہے۔ یعنی ’پدرم سلطان بود‘ کی نفسیات۔ وہ اس احساس میں جینے لگے کہ کچھ لوگوں نے ان کی عظمت کو ان سے چھین لیا ہے۔
اس نفسیات کے نتیجے میںان کے اندر وہ کمزوریاں پیدا ہوئیں جو زوال کا شکار ہونے والی قوموں کے اندر پیدا ہوتی ہیں یعنی، احساس محرومی، شکایت، احتجاج، ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھنا۔ یعنی ہر واقعہ کو منفی رخ سے دیکھنا، ہر طرف سازش نظر آنا۔ انسانوں کا خیر خواہ نہ ہونا، نمائشی فخر، فرضی تمناؤں میں جینا، بہت جلد مشتعل ہوجانا، معمولی بات پر تشدد پر اتر آنا۔ اپنے سوا ہر ایک کو غلط سمجھنا، وغیرہ۔
کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کے قانون پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بطور مثال وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے۔ آج کی دنیا میں صنفی مساوات(gender equality) کا تصور چھایا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں آج کا ذہن چار شادی کے اصول کو تسلیم نہیں کرسکتا۔
مگر یہ صرف ایک غلطی فہمی ہے۔ اسلام میں ایک نکاح کا اصول ہی اصل ہے، ایک سے زیادہ شادی کی اجازت استثنائی صورت حال کے لیے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ ایک کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کا طریقہ ہے نہ کہ کوئی عمومی قانون۔
اصل یہ ہے کہ بعض اوقات معاشرے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوجاتی ہے۔ مثلاً جنگ پیش آنے کی حالت میں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب عورتیں معاشرے میں سرپلس (surplus) ہوجائیں تو اس وقت ان کے لیے کیا اصول مقرر کیا جائے۔ اس بارے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ سرپلس ہونے کی صورت میں جو عورتیں غیر شادی شدہ حالت میں رہنا چاہیں ان کو اس کی اجازت ہے لیکن جو عورتیں نکاح کی خواہش مند ہوں وہ ایک سے زیادہ کی تعداد میں مردوں کے نکاح میںآجائیں اور اس طرح اپنی بقیہ زندگی شرافت کے ساتھ گزاریں۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ عورتوں اورمردوں کی تعداد میں فطرت ایک برابری (equilibrium) قائم رکھتی ہے۔ اگر کوئی ہنگامی صورت پیش نہ آئے تو معاشرے کے اندر عورتوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہوتی ہے جتنی کہ مردوں کی تعداد۔ اس لیے عام حالت میں مردوں کے لیے ایک ہی شادی کا حکم ہے۔
عام حالت میں اگر کوئی مرد ایک سے زیادہ شادی کرتا ہے تو وہ ایک ایسا فعل کرتا ہے جو اس کے لیے حد سے تجاوز کرنے کے ہم معنی ہے۔ کیوں کہ ایسا کرکے وہ فطرت کے مساویانہ نظام میںخلل ڈالتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کے حق میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے دوسرے کی ضرورت میںرکاوٹ بنتا ہے۔ اس لیے اسلام میںایک سے زیادہ شادی کی اجازت صرف ہنگامی حالت میں ہے نہ کہ عام حالت میں۔
واپس اوپر جائیں