والد ِ محترم کی وفات
18 اپریل 2007 کو راقم الحروف (محمدذکوان ندوی) کے والدعثمان صاحب کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر
ان کی صحت عموماً ٹھیک رہتی تھی۔ تاہم جنوری 2007 میں ان کو ٹھنڈک لگ گئی اور پھر وہ بڑھ کر خطرناک شکل اختیار کرگئی۔ کوئی علاج اس میں مفید ثابت نہ ہوسکا۔تکلیف کی شدت کی وجہ سے وہ کئی ماہ سے بالکل لیٹ نہیں سکتے تھے۔ ان کی ساری رات دعا اور مناجات میں بیٹھ کر گذرجاتی تھی۔آخری دونوں میں ان کی صحت بہتر ہوگئی تھی۔ 3 اپریل کو برادرِ محترم مولانا امان اللہ قاسمی کے پاس وہ جے پورگئے ہوئے تھے۔ وہاں پہنچ کر ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آگیا ۔اس کی وجہ سے ان کی تکلیف مزید شدت اختیار کرگئی۔
لکھنؤ پہنچ کر ان کی طبیعت میںایک عجیب اطمینان پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں تھے۔ البتہ کمزوری اب بہت بڑھ گئی تھی۔ او ران پر ایک طرح کی یکسوئی کی کیفیت طاری تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اب ان کو دنیا کی کسی چیز سے کوئی دل چسپی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ سخت بے چینی کے عالم میں انھوں نے مجھ سے کہا کہ اب مجھے کسی اور چیز کی فکر نہیں ہے۔ بس دعا کرو کہ ایمان پر خاتمہ ہوجائے۔ میںنے اطمینان دلانا چاہا تو کہنے لگے کہ کیا خبرخدا کے یہاں کیا معاملہ ہو، خدا بہت بے نیاز ہے۔
ان کی تکلیف بڑھتی جارہی تھی، مگر شدید تکلیف کے باوجود وہ سراپا صبر وشکر بنے ہوئے تھے۔ دعا اور استغفار کے سوا اور کوئی لفظ میںنے ان کی زبان سے نہیں سُنا۔ بیماری کے ذریعے خدا نے ان کو عجز کے شعوری مقام تک پہنچا دیا تھا۔ اور شعوری سطح پر عجز کا تجربہ بلا شبہہ سب سے بڑی چیز ہے۔ بار بار وہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کہتے تھے کہ—خدایا، میںنے جان لیا کہ سب کچھ صرف تیرے اختیار میں ہے، کچھ بھی اپنے بس میں نہیں۔خدایا، میں اِس سے زیادہ تکلیف کا مستحق ہوں۔ تو ارحم الراحمین ہے۔ مجھ پر رحم فرمااور مجھ کو معاف کردے۔ مغرب کے بعد سے ان کی زبان پر مسلسل ذکر اور دعا کے الفاظ جاری تھے۔ یا ربّ لک الحمد کما ینبغی لجلال وجہک ولعظیم سلطانک ۔ جزَی اللّٰہ عنّا محمدًا ما ہو اہلُہ صلی اللہ علیہ وسلم۔یہ ان کی پسندیدہ دعا تھی۔ یہ دعا بار بار ان کی زبان پر آرہی تھی۔
عشاکے بعدان کے اندر بولنے کی طاقت بہت کم رہ گئی تھی۔ وہ صرف اشارے سے کوئی بات کہہ سکتے تھے۔ ان کی آنکھیں مسلسل طورپر بند تھیں۔ میںان کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اچانک وہ آنکھیں پھاڑ کر اوپر دیکھنے لگے۔ میںنے سورہ یاسین کی تلاوت شروع کردی۔ ابھی میں علیٰ صراطٍ مستقیم تک پہنچا تھا کہ ان کی روح نکل گئی۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
ان کی تعلیم اگر چہ کالج میں ہوئی تھی، لیکن وہ مکمل طورپر دینی مزاج کے آدمی تھے۔ مادیت سے ان کو دل چسپی نہیںتھی۔ سادگی اور زہد ان کی فطرت کا حصہ تھا۔ وہ بہت صاف گو آدمی تھے۔ مزاجی طور پر ان کے اندر غصہ بہت تھا، مگر وہ حق کے آگے جھکنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ اپنے چھوٹوں سے بھی معافی مانگنے میں وہ کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ خداکی یاد اور شکر کی وہ ایک زندہ مثال تھے۔ ہر دن اُن پر ایسا لمحہ ضرور طاری ہوتا تھا جب کہ وہ سراپا شکر بن جاتے۔ خدا کی یاد ان کی زبان سے ابلنے لگتی، آنکھیں نم ہوجاتیں اور پھر وہ ایک ایک نعمت کو سوچ سوچ کر اس پر خدا کا شکر ادا کرتے۔
ان کی زندگی کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو اپنی اولاد کے دینی مستقبل کی فکر تھی۔ یہ ان کا سب سے بڑا کنسرن تھا کہ ان کی اولاد صراطِ مستقیم پر قائم رہے اور اس کی زندگی آخرت رُخی زندگی ہو۔ اِسی کو وہ اپنا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے تھے اور رات دن اسی فکر میں جیتے تھے۔ نماز کے معاملے میں وہ ہم لوگوں کے ساتھ بالکل رعایت نہیں کرتے تھے۔ خدا کی نعمتوں کو یاد دلا کر وہ کہتے کہ ہم پر خدا کے بے پناہ احسانات ہیں۔ کیا احسان شناسی کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے سامنے جھک کر اس کا شکر اور اس کا اعتراف کریں۔ان کا طریقہ لاڈ پیار کا طریقہ نہیں تھا۔ انھوںنے ہمیشہ ہم لوگوں کو ڈانٹ کر رکھا۔ وہ ہم لوگوں کو ہمیشہ اِس کی تعلیم دیتے تھے کہ مادیت کے فتنے سے بچنا اور ہر لمحہ آخرت کو اپنے سامنے رکھنا۔انھوں نے ہم لوگوں کے لیے کبھی پراپرٹی بنانے اور بینک بیلنس کرنے کی فکر نہیں کی۔ وہ کہتے تھے کہ میرا کام صرف تعلیم و تربیت ہے۔آگے تم لوگ خود محنت کرو اور خدا کے اوپر بھروسہ رکھو۔ وہ دعوتی مزاج کے آدمی تھے۔وہ بہت تاکید کے ساتھ بار بار مجھ سے کہتے تھے کہ میں دینی تعلیم صرف اس لیے دلا رہا ہوں تاکہ خدا تم سے دین کا کام لے اور تم کو انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ ان کی زبان پر ہمیشہ یہ دعا جاری رہتی تھی کہ— خدایا، قیامت تک آنے والی میری نسلوں سے تودین کا کام لے لے۔ ربَّنَا ہَبْ لَنَا مِن أزواجِنَا وذُرّیّاتِنَا قُرَّۃَ أَعیُن، واجْعلناَ للمتقین إمامًا (الفرقان:
یہ انھیں کی دعا اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ میں الرسالہ کے دعوتی مشن سے وابستہ ہوسکا۔ وہ کہتے تھے کہ اب خدا نے تم کو اُس کام میں لگا دیا ہے جس کے لیے میں نے تم کو پڑھایا تھا۔وہ ایک ذہین اور وسیع الفکر آدمی تھے۔ انھوں نے پہلی بار جب مولانا وحید الدین خاں صاحب کی ایک مختصر تحریر پڑھی تو مجھ سے کہا کہ — مولانا کا کیس، معروف معنوں میں، ہر گز کسی انحراف کا کیس نہیں ہے۔ ان کا کیس حسد کا کیس ہے۔ جو شخص اتنے اعلیٰ درجے کی ربّانی تحریر لکھے، لوگ ضرور اس سے حسد کریں گے۔ لوگ کسی ایسی چیز کا اعتراف نہیں کرپاتے جس کا اعتراف اپنی نفی کے ہم معنی ہو، اس لیے وہ اپنی بے اعترافی کو چھپانے کے لیے داعی ٔ حق کی جھوٹی مخالفت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ انبیاء کی پوری تاریخ اس تلخ حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔
ان کا معمول تھا کہ وہ فجر کے بعد ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ انھوں نے تفسیرِقرآن کے کئی دور پورے کر لیے تھے۔ اِدھر کئی برس سے وہ اہتمام کے ساتھ ’تذکیرالقرآن‘ کا مطالعہ کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’تذکیر القرآن‘ پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اپنی ساری عمر ضائع کردی ہواور اب مجھ کو خدا کی معرفت کا راستہ ملا ہے۔ گویا میں پہلی بار معرفتِ خداوندی کا تجربہ کررہا ہوں۔
میرے لیے اطمینان کی سب سے بڑی بات یہی ہے کہ وہ اِس دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اس دنیا کی رفاقت اور جدائی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل رفاقت صرف آخرت کی رفاقت ہے۔ ان کی وفات نے موت کو میرے لیے ایک زندہ حقیقت بنادیا ہے۔ یہی اِس حادثے کا سب سے بڑا سبق ہے۔ خدا کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان کو اپنے مومن بندوں میں شامل کرے گا۔ اور ان کو جنت کے ابدی باغوں میں جگہ عطا فرمائے گا۔ (
واپس اوپر جائیں