بھوپال کا سفر
مدھیہ پردیش الرسالہ اکیڈمی کی دعوت پر بھوپال کا سفر ہوا۔ ۳ نومبر ۲۰۰۱ کو انڈین ایرلائنز کی فلائٹ نمبر 7134 کے ذریعہ دہلی سے بھوپال پہنچا۔ اور سات نومبر کو بھوپال سے دوبارہ انڈین ایر لائنز کے ذریعہ دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ اس سفر کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔
اس سفر کا پہلا قابلِ ذکر تجربہ وہ ہے جو دہلی ایر پورٹ پر پیش آیا۔ میںنے اپنا ٹکٹ کاؤنٹر پر دیا تو پیچھے بیٹھی ہوئی خاتون نے اس کو دیکھنے کے بعد کہا کہ اس ٹکٹ پر آپ کو مزید رقم ادا کرنا ہے، ایک طرف کے سفر کے لئے ۱۹۰ روپئے اور دونوں طرف کے سفر کے لئے ۳۸۰ روپئے۔ یہ اضافہ یکم نومبر سے کیا گیا ہے۔
یہ میرے لئے ایک عجیب صورت حال تھی، کیوں کہ میں سفر میںعام طورپر اپنے ساتھ رقم نہیں رکھتا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس رقم موجود نہیں ہے، پھر مجھے کیا کرنا چاہئے۔ خاتون نے مجھے ڈیوٹی آفیسر کے پاس بھیج دیا۔ وہاں مسٹر کے۔ سی گاندھی موجود تھے جو دہلی ایر پورٹ پر شفٹ مینیجر ہیں۔ ان سے میں نے اپنا مسئلہ بتاتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے بورڈنگ کارڈ ایشو کردیں۔ واپسی میں بھوپال ایر پورٹ پر میں مطلوب رقم جمع کردوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی پراویزن موجود نہیں اس لئے ہم مجبور ہیں کہ ہم آپ سے یہیں رقم وصول کریں۔
میں نے پریشانی کے انداز میں اپنے بیگ کے کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو اس میں ۱۵۰ روپئے رکھے ہوئے مل گئے۔ میں نے مسٹر گاندھی سے کہا کہ میرے پاس اس وقت صرف ۱۵۰ روپئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ کوئی حرج نہیں، اور پھر انہوں نے اپنی طرف سے چالیس روپئے شامل کر کے ۱۹۰ روپئے کی رسید بنائی اور میرا بورڈنگ کارڈ مجھے دے دیا۔ میں نے کہا کہ آپ اپنا پورا پتہ بتا دیں تا کہ یہ رقم میںآپ کو پہنچا دوں۔ مگر اصرار کے باوجود انہوں نے اپنا پتہ نہیں بتایا۔ دہلی واپسی کے بعد میں نے یہ رقم ونگ کمانڈر یوسف خان صاحب کے ذریعہ انہیں پہنچا دی۔
اس مزید رقم کا راز یہ تھا کہ انڈیا کی دونوں ایر لائنز کے پاس جو ہوائی جہاز ہیں وہ زیادہ تر لیز(lease) پر ہیں۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو امریکہ میں چار ہوائی جہازوں کو ہائی جیک کرکے جو ٹکرایا گیا، یہ اضافہ اس کے بہت سے منفی نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے۔ اس حادثہ کے بعد مالک کمپنیوں نے انشورنس کی رقم بہت زیادہ بڑھا دی تاکہ متوقع نقصان کی تلافی کی جاسکے۔ اب انڈین ایر لائنز نیز ایرانڈیا کے لئے اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی کہ وہ انشورنس کے نام پر کرایہ میں اضافہ کریں۔ یہ ان بے شمار مسائل میں سے ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے جو ۱۱ ستمبر کے ناعاقبت اندیشانہ فعل کے بعد پیش آیا۔
انسانی تاریخ میں غالباً یہ پہلا واقعہ تھا کہ کوئی ایک حادثہ ایسا ہو جس کے اثرات کسی نہ کسی طرح دنیا کے تمام انسانوں تک پہنچ جائیں۔
سنن ابی داؤد (کتاب الفتن) اور مسند احمد میں یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ آخری زمانہ میں جو فتنے اٹھیں گے ان میں سے ایک فتنہ دُھَیما ہوگا جو اس وقت کے کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اس کو اس کا ایک تھپڑ لگ جائے(ثم فتنۃ الدھیما لا تدع احدا من ھذہ الامۃ الا لطمتہ لطمۃً )۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ فتنۂ دھیما سے مراد یہی موجودہ فتنہ ہے یا مستقبل میں آنے والا کوئی دوسرا فتنہ۔
انڈین ایر لائنز کی فلائٹ میگزین سواگت (نومبر ۲۰۰۱) کا شمارہ راستہ میں دیکھا۔ اس کے ایک مضمون کا عنوان تھا ــــــ’’دوسرا چانس نہیں‘‘۔
There is no second chance.
مضمون نگار نے یہ بات سڑکوں کے سفر کے بارے میں لکھی تھی، مگر یہی بات وسیع تر معنوں میں زندگی کے سفر کے لئے بھی درست ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو صرف ایک بار آنے کا موقع ملا ہے۔ آدمی خواہ اس موقع کو درست طورپر استعمال کرکے جنت میں داخلہ کا استحقاق حاصل کرلے یاوہ اپنے آپ کو ابدی طورپر ناکام بنالے۔
بھوپال ایر پورٹ پر ساڑھے تین بجے پہنچا، یہاں الرسالہ کے قارئین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مسٹر الطاف صدیقی اور دوسرے بہت سے ساتھیوں کے علاوہ شہر کے ایک ممتاز صنعت کار مسٹرراجیندر سنگھ، وغیرہ بھی ایر پورٹ پر موجود تھے۔ ایر پورٹ سے روانہ ہوئے تو ہمارا قافلہ دور تک ایک خوبصورت سڑک سے گذرتا رہا۔ یہ نو تعمیر سڑک گویا مستقبل کے ہندستان کی علامت تھی۔ آخر کار ہم لوگ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کے مکان پر پہنچے۔ یہاںبہت سے لوگ جمع ہوگئے، جن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔
مسٹر راجیندر سنگھ اس دور کی ایک مثال ہیں جب کہ ہندستان میں ہندو ۔مسلم تفریق موجود نہ تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے رہتے تھے۔ مسٹر راجندر سنگھ نے بتایا کہ جب وہ تقریباً چھ سال کے تھے تو ان کے گھر پران کے کچھ رشتہ دار آئے۔ اس وقت ایک مسلمان (ڈاکٹر مقبول) بھی وہاں موجود تھے۔ مسٹر راجیندر سنگھ نے ہندو روایت کے مطابق، سب کے پاؤں چھوئے، مگر انہوں نے مسلمان کا پاؤں نہیں چھوا۔ اس بنا پر ان کے والد صاحب نے انہیں ہلکے ہاتھ سے مارا۔ اور کہا کہ یہ سب تمہارے بزرگ ہیں، اورتم کو سب کے پاؤں چھونا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے دوسروں کی طرح مسلمان کا بھی پاؤں چھوا۔
گفتگو کے دوران مسٹر الطاف احمد صدیقی نے کام کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہا کہ کام عبادت ہے(work is worship) ۔ اس پر مسٹر راجیندر سنگھ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں کے لئے تو یہ مقولہ درست ہے، مگر کیا مسلمانوں کے لئے بھی ایسا ہی ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں، صرف اس اضافہ کے ساتھ کہ انسان جو کام کرے وہ رضائے الٰہی کی نیت اوراس کے حکم کی پیروی میں کرے۔
شام کی اس مجلس میں ملاقات کے لئے جو لوگ آئے ان میں سے ایک انور حسین آزاد صاحب تھے۔ وہ ۱۹۹۱ سے الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ الرسالہ سے آپ نے اپنی ذات کے لئے کیا سیکھا؟ انہوں نے کہا کہ یہ سیکھا کہ ’’مجھے زمین پر چلنا آگیا‘‘۔ اب میں الرسالہ کی تعلیم کے مطابق، صبر کے فارمولا کو استعمال کرتا ہوں، اور اللہ کے فضل سے مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ میں نے کہا کہ صبر کا فارمولا الرسالہ کا فارمولا نہیں ہے، وہ فطرت کا فارمولا ہے۔ اور فطرت کا فارمولاایک اٹل قانون ہے جس کو اختیار کئے بغیر چارہ نہیں۔ صبر کو اگر آپ اصول کے طورپر اختیار نہ کریں تو آپ کو منافقانہ طورپر اسے اختیار کرنا پڑے گا، کیوں کہ صبر کے بغیر آپ اس دنیا میں جی نہیں سکتے۔
آنے والوں میں اس علاقہ کےS.H.O. مسٹر ڈنڈوتیا(9826088602) بھی تھے۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ لوگوں کو عام طورپر پولس سے شکایت ہوتی ہے، مگر مجھے پولس سے کوئی شکایت نہیں۔ ان شکایتوں کو غلط فہمی کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ میرے نزدیک پولس کے لوگ بھی انسان ہیں۔ ان کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے۔ وہی انسانی فطرت ان کے اندر بھی ہے جو دوسرے انسانوں کے اندر ہے۔ اس سلسلہ میں میں نے اپنا ایک سبق آموز تجربہ بتایا۔
میں نے کہا کہ دہلی میںایک بار ایک بڑے پولس افسر مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ وہ نہایت احترام کے ساتھ مجھ سے ملے، اور اپنا ٹیلی فون نمبر دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی میری کوئی ضرورت ہو تو مجھے اس نمبر پر یاد کرلیں۔ اس ملاقات کے کچھ دنوں بعد میںنے اخلاقی طورپر انہیں ایک ٹیلی فون کیا۔ جب وہ لائن پر آئے تو خلاف عادت میری زبان سے یہ جملہ نکل گیا: میںآپ کا فرینڈ بول رہا ہوں۔ یہ الفاظ سنتے ہی وہ نہایت سخت اور درشت الفاظ میں بولنے لگے۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔حیرانی کے ساتھ ریسیور رکھ دیا۔
میرا مزاج اللہ کے فضل سے یہ ہے کہ انتہائی ناخوشگوار تجربہ بھی میری مثبت سوچ کو درہم برہم نہیں کرتا۔ چنانچہ میںنے غیر متاثر ذہن کے تحت اس عجیب واقعہ پر سوچنا شروع کیا۔ جلد ہی میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پولس افسر کے مذکورہ غیر متوقع رد عمل کا غالباً سبب یہ ہے کہ انہیں مجرم قسم کے لوگ ٹیلی فون کرتے ہوں گے اور اپنے آپ کو فرینڈ بتا کر انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے۔ اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد میں نے انہیں دوبارہ ٹیلی فون کیا۔ اب میں نے فوراً ان کو اپنا نام بتادیا۔ میرا نام سنتے ہی وہ نہایت احترام کے ساتھ بولنے لگے۔ انہوں نے ادب کے انداز میں کہا: مولانا صاحب، میں آپ کی کیا سیوا کرسکتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اسی طرح ایک انسان ہے جس طرح کوئی دوسرا شخص ہوسکتا ہے۔ آپ ہر انسان کوانسان سمجھئے۔ ہر انسان کے ساتھ انسان والا معاملہ کیجئے۔ اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
۷؍اکتوبر کی شام کو یہاں اچاریہ نریندر دیو لائبریری کے ہال میں ایک جلسہ ہوا۔ اس میں شہر کے تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ حاضرین کی تعداد ناظمین جلسہ کی توقع سے زیادہ تھی۔ چنانچہ موجود کرسیاں سب بھر گئیں، اور درمیان میں مزید کرسیوں کا انتظام کرنا پڑا۔
یہ جلسہ اسکول ٹوڈے میگزین کی طرف سے کیا گیا تھا۔ تقریر کا موضوع تھا: مذہب اور تعلیم۔ میں نے تقریباً ایک گھنٹہ کی تقریر میں موضوع کی وضاحت کی ۔ میںنے کہا کہ تعلیم کو عام طورپر جاب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ تعلیم کا ثانوی فائدہ ہے۔ تعلیم کا اصل مقصد انسان کو باشعور بنا نا ہے۔ اسی طرح مذہب محض رسمی اعمال کا نام نہیں ، مذہب در اصل زندگی کی سائنس ہے۔ اس طرح مذہب اور تعلیم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تعلیم آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ مذہب کو زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے، اور مذہب آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ سچی اسپرٹ کے ساـتھ تعلیم یافتہ بنے۔
اخیر میں سوال و جواب کا وقفہ تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ نے تعلیم کی اہمیت اجاگر کی ہے، لیکن اگر تعلیم کا بھگوا کرن ہو تو آپ نئی نسل کو کیا مشورہ دیں گے۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر‘‘ کی بنیاد پرکوئی رائے نہیں دی جاتی۔ ابھی تو ہمارے ملک میں بھگوا تعلیم رائج نہیں ہوئی، اور میرے اندازے کے مطابق، وہ کبھی رائج ہونے والی نہیں۔ لیکن بالفرض اگر کبھی عملاً ایسا ہو تو اس وقت اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ ابھی یہ سوال قبل ازوقت ہے۔ انڈیا میں اصل مسئلہ امریکی کَرن کا ہے، نہ کہ بھگوا کرن کا۔
ایک اور سوال یہ تھا کہ ورتمان میں راج نیتی میں دھرم کا جو مشرن کرکے راج نیتی کو دوشت کیا جارہا ہے اس کے بارے میںکوئی اپائے بتائیے۔ اس کے جواب میں میں نے کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ سیاست میں مذہب کو شامل کیا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے اس کا جو نتیجہ نکلتا وہ یہ تھا کہ بھرشٹا چار اس ملک سے ختم ہو جاتا۔ جو چیز ہورہی ہے وہ مذہب کو سیاست میں شامل کرنا نہیں ہے، بلکہ سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کو استعمال کرنا ہے۔
جناب محمد انور جمال صاحب سے ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے صرف یہ نہیں دیکھنا ہے کہ آپ کے نزدیک اس کا جواب کیا ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ سننے والے پر اس کا اثر کیا پڑے گا۔ میں نے اس معاملہ کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر جب مکہ سے نکل کر مدینہ کے لئے روانہ ہوئے تو مشرکین نے اپنے آدمی دوڑائے کہ وہ آپ کو پکڑیں۔ اس سلسلہ میں ایک آدمی آپ دونوں کے قریب آگیا۔ وہ غالباً دونوں میں سے کسی کو پہچانتا نہ تھا۔ اس نے حضرت ابو بکر سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے۔ اس سوال کا صحیح جواب یہ تھا کہ محمد بن عبداللہ۔ مگر حضرت ابو بکر نے یہ جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ رجل یہدینی (ایک شخص جو مجھ کو راستہ دکھاتا ہے)۔ ان الفاظ کو سن کرسائل نے یہ سمجھاکہ یہ راستہ دکھانے والا کوئی گائڈ ہے اور وہ واپس چلا گیا۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلام کرتے ہوئے صرف یہ نہیں دیکھنا ہے کہ آپ کے اپنے نزدیک درست بات کیا ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ سننے والے پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ ۳ نومبر کی شام کو آچاریہ نریندر دیو لائبریری کے ہال میں جو پروگرام تھا، اس میں میرے علاوہ ایک ممتاز ہندو نے تقریر کی جو اعلیٰ حکومتی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں اپنی ایک رائے بار بار پیش کر چکا ہوں لیکن اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ اس کو میں اس مجمع میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ ہندستان کے فرقہ وارانہ مسائل کا حل یہ ہے کہ لوگ ’’بہو دھرمی‘‘ بن جائیں، یعنی بیک وقت کئی مذہب کو ماننے والے۔ وہ ایک ہی وقت میں کئی مذاہب کو تسلیم کریں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میرا ذاتی مسلک یہی ہے۔ میں نے مسجد میں نماز بھی پڑھی ، گرجا گھر بھی جاتا ہوں اور مندر بھی۔ انہوں نے اپنے اس مسلک کو اپنی تقریر میں کھلے لفظوں میں بیان کیا۔
جلسہ کے حاضرین میںبیشتر تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ایک مقامی بزرگ نے بتایا کہ جو مسلمان اس جلسہ میں شریک تھے وہ بھوپال کے وہ لوگ تھے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سب سے زیادہ دینی حمیّت رکھنے والے لوگ ہیں۔ان کی تاریخ یہ رہی ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں کسی مخالفانہ بات کو بالکل برداشت نہیں کرتے بلکہ جرأتمندی کے ساتھ فوراً اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر آج کے اس جلسہ میں مذکورہ ہندو مقرر کی بظاہر ’’اشتعال انگیز بات‘‘ کو انہوں نے اس طرح اعتدال کے ساتھ سنا جیسے کہ وہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔ حتیٰ کہ مذکورہ ہندو مقرر کی بات پر صرف ایک شخص نے سوال کیا اور وہ ایک ہندو نوجوان تھا۔
یہ میرے نزدیک مسلمانوں میںایک خوشگوار تبدیلی کی علامت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کے مسلمانوں میں وہ صحت مند تبدیلی آچکی ہے جو قانون فطرت کے تحت موجودہ دنیا میں ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یعنی ناخوشگوار بات کو بھی معتدل انداز میں سننا، خلاف ِ مزاج معاملہ میں بھی ضبط و تحمل کا رویہ اختیار کرنا۔
مولانا محمد صدیق قاسمی سے گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ اکثر لوگوں کی ناکامی کا سبب صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ عدم قناعت ہے۔ زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات کے اعتبار سے ممکن دائرہ میں اپنے عمل کا آغاز کرے، اور آج جو کچھ اس کو مل رہا ہے اس پر راضی رہتے ہوئے مزید کے لئے مستقبل کا انتظار کرے۔ مگر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس قناعت کو اختیار نہیں کرتے۔ مستقبل میں ملنے والی چیز کو حال میں پانے کے لئے وہ ایک ایسی چھلانگ لگادیتے ہیں جو آخرکار انہیں مایوسی اور ناکامی کے سوا کہیں اور پہنچانے والی نہیں۔
ہندی روزنامہ دینک بھاسکر (۴؍ نومبر ۲۰۰۱ء) میں کل شام کی تقریر کی رپورٹنگ ہوئی۔ یہ رپورٹ اطمینان بخش تھی۔ وہ تقریباً بالکل صحیح تھی جو عام اخباری مزاج کے خلاف ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ کوئی اخبار خواہ وہ اردو کا ہویا ہندی کا یا انگریزی کا، اپنی پالیسی کے اعتبار سے متعصب یا غیرمتعصب نہیں ہوتا۔ اصل چیز جو اخباروں کی رپورٹنگ میں فرق پیدا کرتی ہے وہ اس کااسٹاف ہے۔ اگر اخبار میں زیادہ تعلیم یافتہ لوگ ہوں تو اس کی رپورٹنگ درست ہوگی اور اگر کم تعلیم یافتہ لوگ ہوں تو اس کی رپورٹنگ ناقص ہو جائے گی۔
مسٹر راجیندر سنگھ بھوپال کے ایک صنعتکار ہیں۔ انہوں نے بھوپال میں زندگی کا آغاز اس طرح کیا کہ انہوں نے بھوپال کی سڑکوں پر تھری وہیلر چلایا تا کہ وہ اپنی تعلیم کے اخراجات حاصل کرسکیں۔ اس طرح انہوں نے ذاتی محنت سے سول انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ موجودہ ترقی تک پہنچے۔ انہوں نے اپنی بزنس کا اصول یہ بتایا: دوسروں سے کم قیمت مگر دوسروں سے بہتر کوالیٹی۔
مسٹر راجیندر سنگھ نے ایک ملاقات میں کہا کہ اگر آج کے مسلمانوں کا ذہنی کینواس(canvas) بڑا ہوجائے تو کوئی ان کی ترقی کو روک نہیں سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل کے مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ تھوڑی معلومات کے باوجود وہ اسلام کی بات کرتے ہوئے مدعیانہ انداز میں بولنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے خیال میں اتنا گم رہتے ہیں کہ ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ سننے والے پر ان کے اس انداز کا الٹا اثر پڑے گا۔
میرے نزدیک یہ بات بالکل درست ہے۔ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کے اندر آفاقی ذہن بناتا ہے۔ مگر آج کل کے مسلمان اپنی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر تنگ نظری کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ خود اپنی بنائی ہوئی دنیا میں جیتے ہیں۔ انہیں اپنے سے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں۔ مسلمانوں کا یہی مزاج، موجودہ زمانہ میںاسلام کی بدنامی کا سبب ہے، نہ کہ اسلام کی اصولی تعلیمات ۔ اسلام کے اشاعتی سیلاب کو جس چیز نے روک دیا ہے وہ مسلمانوں کا یہی غیر آفاقی مزاج ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی تحریروں اور تقریروںسے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ان کی اپنی کمیونٹی ہی ان کا کنسرن (concern)ہے۔ وسیع تر انسانیت ان کا کنسرن ہی نہیں۔
مولانا محمد مسیح عالم جامعی بھوپال کی ایک مسجد کے امام ہیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس میں میری طرف یہ رائے منسوب کی گئی ہے کہ مسلمان بابری مسجد سے دستبردار ہوجائیں۔ میں نے کہا کہ استغفر اللہ ، میں نے کبھی بھی مسجد سے دستبرداری کی بات نہیں کی۔ اور نہ ہوش وہواس کے ساتھ میں ایسا کہہ سکتا ہوں۔ میں نے جو بات کہی تھی وہ مسلمانوں کے طریقۂ کار سے دستبرداری کی ہے، نہ کہ مسجد سے دستبرداری کی۔ میں نے ۶دسمبر سے پہلے بھی یہی کہا تھا اور اب بھی یہی کہتا ہوں کہ مسلمان بابری مسجد کے مسئلہ کو پر امن دائرہ میں حل کریں۔ وہ اس مسئلہ پر مظاہرہ کا انداز اختیار نہ کریں جو فریق ثانی میں اشتعال پیدا کرکے مسئلہ کو مزید پے چیدہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔
مولانا محمد مسیح عالم نے میری بات کو سن کر کہا کہ ہندستان میں جمہوریت کا نظام ہے اور جب تک جمہوری طریقہ پر اس کا مظاہرہ نہ کیا جائے، ایوان بالا تک وہ بات نہیں پہنچتی ۔ اس لئے موجودہ زمانہ میں مظاہروں کا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ میں نے کہا کہ جو لوگ مظاہرہ کے طریقہ کو درست سمجھتے ہیںوہ اس پر عمل کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ مگر کسی کو بھی اس کی آزادی نہیں کہ وہ میرے اوپر جھوٹا الزام لگائے۔ یعنی میں طریقۂ کار کو چھوڑنے کی بات کروں اور وہ یہ مشہور کرے کہ میں خود مسجد کو چھوڑنے کی بات کررہا ہوں۔
ایک صاحب ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ ان کاتعارف کراتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ مولانا نور الہدیٰ قاسمی ہیں۔ وہ جامعہ اسلامیہ عربیہ کے استاذ ہیں اور آپ کے ناقد بھی ہیں۔ میںنے کہا کہ عربی مقولہ ہے کہ:’’من ھو ناصحک خیرلک ممن ھو مادحک‘‘جو شخص تم کو نصیحت کرنے والا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہاری تعریف کرنے والاہے۔ میں نے کہا کہ تنقید اور تنقیص میں فرق ہے۔ تنقید ایک صحت مند عمل ہے۔ اس کے برعکس تنقیص ایک گناہ ہے۔ تنقید نام ہے علمی تجزیہ کا، جب کہ تنقیص عیب جوئی اور الزام تراشی کانام ہے۔
مولانا نور الہدیٰ صاحب نے فرمایا کہ آپ کی تحریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ جہاد بمعنٰی قتال کو ضروری نہیں سمجھتے، حالانکہ جہاد مسلمانوں کے لئے فرض ہے۔ خاص طورپر افغانستان جیسے ملکوں میں۔
میں نے کہا کہ جہاد بلاشبہہ ایک شرعی حکم ہے۔ مگر جہاد فرض مطلق نہیں۔ تمام علماء کے نزدیک جہاد بمعنیٰ قتال حسن لغیرہ ہے، وہ حسن لذاتہ نہیں۔ جہاد کا عمل شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اگر جہاد کے عمل کا نتیجہ اُلٹی صورت میں نکلے تو حکماً فرض ہونے کے باوجود عملاً جہاد نہیں کیا جائے گا۔
مثال کے طورپر مکی دور میں مسلمانوں پر جو حالات تھے وہ افغانستان سے بھی زیادہ سخت تھے۔ چنانچہ جب بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تو اس وقت کے مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺسے قریش کے خلاف جنگ کی اجازت طلب کی۔ مگرآپ نے اس کی اجازت نہ دی اور فرمایا: إنی لم أومر بالقتال۔
اسلام میں جہاد ایک اعلیٰ عمل ہے۔ مگرجہاد برائے مقصد ہے، جہاد برائے جہاد نہیں۔ مثال کے طورپر افغانستان میں جب روسیوں سے جنگ ختم ہوگئی اور روسی فوج افغانستان سے واپس چلی گئی تواس کے بعد افغانی مسلمانوں کو وہی کرنا چاہئے تھا جو دور اول کے مسلمانوں نے مدینہ میں کیا۔ یعنی ایک فریق کو سیاسی عہدہ دے کر دوسرے فریق کا پیچھے ہٹ جانا۔ اس وقت مدینہ میں دو گروہ تھیــــــ مہاجرین اور انصار۔ ابتداء ً دونوں گروہ خلافت کے دعوے دار تھے۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ خلافت کا نظام صرف اس وقت قائم ہوتا ہے جب کہ ایک فریق دوسرے فریق کے حق میں دستبردار ہوجائے۔ جیسا کہ معلوم ہے، انصار کا پہلے یہ کہنا تھا کہ : منا امیر و منکم امیر۔ مگر عملی حقائق کی بنا پر وہ ’’الأئمۃ من قریش‘‘ کے فارمولا پر راضی ہوگئے ۔ انصار کے لیڈر سعد بن عبادہ نے یہ قربانی دی کہ وہ مدینہ چھوڑ کر شام چلے گئے اور وہاں دس سال تک رہ کر وہیں وفات پاگئے۔ ان کی اس سیاسی ہجرت کا سبب یہ تھا کہ اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو وہ ’’اپوزیشن‘‘ کی علامت بنے رہتے اور خلافت کا استحکام مشکل ہوجاتا۔ میں نے کہا کہ جہاد فی سبیل اللہ، حدیث کے الفاظ میں اہل فراست کا کام ہے، وہ اہل جذبات کا کام نہیں۔
جمال صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ زندگی نام ہے معیار سے کم (less than ideal) پر راضی ہونے کا۔ اکثر ناکامیاں، خواہ فرد کی ہوں یا قوم کی، اس لئے پیش آتی ہیں کہ لوگ اپنے ذہن میں جو خیالی معیار بنا لیتے ہیں اس سے کم پر وہ راضی نہیں ہوتے۔ جب کہ موجودہ دنیا میں معیار کا حصول ممکن ہی نہیں۔ اس لئے ایسے لوگوں کے لئے کامیابی کا حصول بھی ممکن نہیں ہوتا۔
سعودی عرب میںاس وقت جو نظام ہے وہ معروف اصطلاح کے مطابق، ملوکیت کا نظام ہے۔ یہ نظام یقینی طورپر خلافت کے معیاری نظام سے کمتر ہے۔ مگر سعودی عرب کے مسلمان اور دنیا بھر کے مسلمان اس نظام پر راضی ہوگئے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ سعودی عرب موجودہ زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے زبردست فائدہ کا سبب بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں جب صنعتی دور آیا تو مسلمان معاشی اعتبار سے ساری دنیا میںپچھڑ گئے۔ کیوں کہ مخصوص اسباب سے وہ صنعتی دور میں داخل نہ ہوسکے۔ ایسی حالت میں سعودی عرب کا مستحکم نظام مسلمانوں کی اس عالمی پسماندگی کی تلافی بن گیا۔ اگرسعودی عرب میں مستحکم نظام نہ ہوتا تو اس کا وہی انجام ہوتا جو تیل کی بے پناہ دولت کے باوجود لیبیا اور نائجیریا اور عراق جیسے ملکوں کا ہوا۔
۴نومبر کی صبح کو ساڑھے دس بجے اردو اکیڈمی کے ہال میں ایک پروگرام تھا۔ اس کا عنوان تھا: اسلام میں امن کی آئیڈیالوجی۔ اس موضوع پر میں نے ایک مختصر تقریر کی۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں میںنے بتایا کہ اسلام کی اصل پالیسی امن کی پالیسی ہے۔ اسلام میں جنگ صرف دفاع کے لئے جائز ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ جنگ سے اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہوں۔
جلسہ کے آغاز میں اس قرآنی آیت کی تلاوت کی گئی تھی: لاتستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ ادفع بالتی ھی أحسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کأنہ ولی حمیم(حٰم السجدہ) اس آیت کی روشنی میں میں نے کہا کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دشمن اور حملہ آور میں فرق کیا گیا ہے۔ جہاں تک حملہ آور کا تعلق ہے، قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (البقرہ ۱۹۰) مگر دشمن کے معاملہ میں جو حکم ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ اس کے مطابق، مسلمان ایسا نہیں کرسکتے کہ وہ کسی کو دشمن بتا کر اس کے خلاف جنگ چھیڑ دیں۔ آپ کے نزدیک کوئی فرد یا گروہ دشمن ہے تب بھی اس کے مقابلہ میں پُر امن نصیحت کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا، نہ کہ پُر تشدد کارروائی کا۔
ایک صاحب نے ایک گفتگو کے دوران کہا کہ مسلمان کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ یہ کہہ کر انہوں نے قرآن وحدیث کے حوالے بیان کرنا شروع کئے۔ مسلمان کیا ہے، اس کو بتانے کے لئے انہوں نے قرآن کی آیتیں پیش کیں۔ اس کے برعکس دوسری قوموں کو بتانے کے لئے انہوں نے ان کے عمل کا نمونہ پیش کیا۔ یہ ایک غیر منصفانہ تقابل تھا۔ اس میں عمل کا تقابل آئیڈیل سے کیا گیا تھا۔ صحیح تقابل یہ ہے کہ یا تو دونوں کے عمل کو لیا جائے یا دونوں کے نظریات کو۔
انہوں نے پرجوش طورپر کہا کہ مسلمان ایک پُر امن امت ہیں۔ البتہ ان کے خلاف دہشت گردی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تم جیو اور ہمیں بھی جینے دو۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم خود تو جیو اور ہمیں ہلاک کرو۔ میرے نزدیک یہ صرف ایک جوشیلا بیان ہے۔ موجودہ صورت حال کے مطابق، یہ کہنا درست ہوگا کہ تم کو ہمیں مارنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم تو خودکشی کرکے اپنے آپ کو خود ہی ہلاک کررہے ہیں۔
۴نومبر کی شام کو مسٹر راجیندر سنگھ کی رہائش گاہ پر ایک خصوصی اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں شہر کے اعلیٰ طبقہ کے لوگ شریک تھے۔ اس میں زیادہ تر ہندو حضرات تھے۔ لوگوں کی فرمائش پر پہلے میںنے ایک مختصر تقریر کی اور اس کے بعد سوال وجواب کی صورت میں یہ مجلس دیر تک چلتی رہی۔
میں نے اپنی تمہیدی تقریر میں جو باتیں کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اپنے مطالعہ و تجربہ سے میں نے زندگی کا ایک سادہ فارمولا بنایا ہے۔ وہ یہ کہـــــاپنے آپ کو جانو، او رپھر تم تمام دنیا کو جان لوگے۔
Discover yourself and you will be able to discover the whole world.
یہاں لوگوں نے جو سوالات کئے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ امریکہ اور افغانستان کے جھگڑے میں ہندستانی مسلمانوں کی پالیسی کیا ہونا چاہئے۔ میں نے کہا کہ اس طرح کے معاملہ میں ہندستانی مسلمانوں کی پالیسی وہی ہوگی جو ہماری نیشنل پالیسی ہے۔ اگر کسی مسلمان کی رائے نیشنل پالیسی سے الگ ہو تو اس کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اختلاف کو لے کر عوامی سیاست چلائے۔ اس کو صرف یہ حق ہے کہ وہ ان لوگوں سے ملے جو نیشنل پالیسی بناتے ہیں، اور ان کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کرے۔ اختلافی رائے کو لے کر ہنگامہ آ رائی کرنانہ شرعی اعتبار سے درست ہے اور نہ عقلی اعتبار سے۔
ایک ہندو تاجر نے یہ سوال کیا کہ میں مرغی فارم چلاتا ہوں ، مرغیوں کا معاملہ یہ ہے کہ ایک عمر کے بعد وہ ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ایسی مرغیوں کو ہم بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ حالانکہ ہم کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ ان مرغیوں کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ میںنے کہا کہ میں خود طبعی طورپر ایک وجیٹیرین ہوں۔ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم فطرت کی جس دنیا میں رہتے ہیں وہ ویجیٹیرین نہیں۔ میں وجیٹیرین ہوتے ہوئے پانی اور ہوا اور سبزی ، غرض ہر چیز کے ساتھ بے شمار زندگیوں کو اپنے اندر داخل کرتا رہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس دنیا میں آپ اپنی پسند کے مطابق نہیں رہ سکتے۔ یہاں آپ کے لئے پسند اور ناپسند کا چوائس نہیں ہے بلکہ قابل عمل اور ناقابل عمل کے درمیان چوائس ہے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ آپ ناکارہ مرغیوں کو مارکیٹ میں بیچ دیں۔ کیوں کہ اس کے سواکوئی اور قابل عمل صورت آپ کے لئے ممکن نہیں۔
میں نے کہا کہ مہاتما گاندھی پورے معنوں میں اہنسا وادی تھے۔ ان کے آشرم میں ایک گائے زخمی ہوگئی۔ علاج کے باوجود وہ اچھی نہ ہوسکی۔ یہاں تک کہ زندگی اس کے لئے ایک مستقل مصیبت بن گئی۔ مہاتما گاندھی سے لوگوں نے اس کے بارے میں رائے پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اس کو گولی مار کر ہلاک کر دو کیوں کہ اس کو زندہ رکھنا اس کو زیادہ بڑی مصیبت کے لئے چھوڑنا ہے۔
جناب الطاف احمد صدیقی صاحب (۷۰ سال) جو ہم سب لوگوں کے لئے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ ۱۹۶۰ سے پان کھانے کے عادی تھے۔ وہ رات دن میں تقریباً چوبیس پان کھاتے تھے۔ پان کا ڈبہ ہمیشہ ان کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر اجازت دیں تو میں آپ سے ایک گذارش کروں اور وہ یہ کہ آپ پان کھانا چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ دھیرے دھیرے چھوڑ دوں گا۔ میں نے کہا کہ عادت یا تو فوراً چھوڑی جاتی ہے یا وہ کبھی نہیں چھوٹتی۔ اس لئے آپ اس انگریزی مقولہ پر عمل کیجئے۔
There is no better time to start than this very minute.
میں نے کہا کہ پان کھانے میں کوئی ثواب نہیں ہے۔مگر پان چھوڑنا آپ کے لئے بہت بڑا ثواب ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیسے؟
میںنے کہا کہ قرآن میں مال کے اسراف سے منع کیا گیا ہے اور اسراف یہ ہے کہ غیر ضروری مد میں اپنا مال خرچ کیا جائے۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ: من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ‘‘ (آدمی کے اچھے مسلمان ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دے) ایسی حالت میں اگر آپ خدا اور رسول کے حکم کی تعمیل میں پان کوچھوڑ دیں تو بلاشبہہ وہ آپ کے لئے ثواب بن جائے گا۔ جب کہ پان کھانا صرف ایک غیر ضروری عادت ہے اور غیر ضروری عادت پر ثواب ملنے کا کوئی سوال نہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے اس مشورہ کو مان لیا، اور اس مجلس میں پان کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ اور اپنا پان کا ڈبہ میرے حوالہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس فیصلہ پرثابت قدم رکھے۔
۴نومبر کی شام کو کھانے کا دستر خوان بچھایا گیا تو میں نے ایک صاحب سے کہا کہ دیکھئے دسترخوان پر کھانے کے کتنے آئیٹم ہیں۔ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ دو، پھر کچھ دیر بعد جواب دیا کہ تین، اور پھر آخر میں کہا کہ چھ۔ میں نے کہا کہ بولنے کا آغاز چپ رہنا ہے۔ پہلے چپ رہ کر سوچئے اور اس کے بعد بولیے۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ روایتوں میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فلاں فلاں کھانا پسند تھا۔ اس سلسلہ میں میرے ذہن میں عرصہ سے یہ سوال تھا کہ ان روایات میں ہر اس کھانے کا ذکر ہے جو اس زمانہ میں مدینہ میں رائج تھے۔پھر جب رسول اللہ کو ہر کھانا پسند تھا تو وہ کون سا کھانا ہے جو آپ کو پسند نہ تھا۔ پسند ایک انتخابی پسند کا نام ہے۔ جب ہر موجود چیز کے بارے میں پسند کی روایت ہو تو وہ انتخابی پسند نہیں بنتی۔
یہ سوال عرصہ سے میرے ذہن میں تھا۔ پھر میرے ساتھ ایک تجربہ گذرا۔ اس تجربہ کے بعد ان روایتوں کا مفہوم میری سمجھ میں آیا۔ عرصہ ہوا میںایک مرتبہ راجستھان کے علاقہ ’میرات‘ گیا۔یہاں مسلمانوں کی ایک آبادی تھی۔ وہ لوگ نہ صرف جاہل تھے بلکہ کلچر کے اعتبار سے نہایت پسماندہ تھے۔ میرے ساتھ دو اور عالم تھے۔ ہم لوگ وہاں پہنچے تو مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ تلاش کے بعد وہ آدمی ملا جس کے یہاں ہم لوگ مہمان بننے والے تھے۔ وہ ہم لوگوں کو ایک گھر کی چھت پر بٹھا کر چلا گیا۔ ہم لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھی او رچھت پر بیٹھ گئے۔ میرے ساتھیوں کا خیال تھا کہ وہ آدمی چائے لینے کے لئے گیا ہے۔ مگر کافی دیر ہوگئی وہ چائے لے کر نہ آیا۔ یہاں تک کہ عشاء کا وقت ہوگیا اورہم لوگوں نے عشاء کی نماز پڑھی۔ مگر اب بھی آدمی کا پتہ نہ تھا۔ کافی دیر کے بعد وہ ہمارا کھانالے کر آیا ۔ یہ کھانا صرف دو چیزوں پر مشتمل تھاــــــارہر کی سادہ دال اور گلگلہ۔ یہ عجیب و غریب کھانا دیکھ کر میرے دونوں ساتھی غصہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ بندۂ خدا اتنی دیر کے بعد کھانا لایا ہے اور وہ بھی ارہر کی دال اور گلگلہ جن کا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں۔اس وقت میری فطرت نے رہنمائی کی اور میں اچانک خوب تعریف کرکے اس کو کھانے لگا۔ میری زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے۔ یہ بہترین کھانا ہے۔ اس سے اچھا کوئی کھانا نہیں۔ یہ گویا فطرت کی زبان سے میرے سوال کا جواب تھا۔ اس تجربہ کے بعد میں نے سمجھا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اس وقت مدینہ میں کھانے کی چیزوں کی شدید قلت تھی۔ خاص طورپر مہاجرین کو اکثر بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ اب یہ ہوتا تھا کہ کسی انصاری کو معلوم ہوا کہ لوگ بھوکے ہیں۔ وہ رسول اللہ کے پاس آتا۔ آپ کو اور کچھ دوسرے صحابہ کو لے کر اپنے گھر جاتا تاکہ ان کو کھانا کھلائے۔ وہاں گھر میں اکثر صرف ایک یا دو سادہ آئیٹم ہوتا تھا۔ وہ انصاری شرمندگی کے ساتھ اپنا سادہ کھانا اندر سے لے کر آتا اور رسول اللہ کے سامنے رکھ دیتا۔ اب رسول اللہﷺ تعریف کرکے اس کو کھانا شروع کردیتے۔ یہ حقیقتاً کھانے کی تعریف نہ ہوتی تھی بلکہ وہ صاحب خانہ کی شرمندگی کو دور کرنے کا ایک انداز تھا۔ یہ در اصل ایک اخلاقی کلمہ ہوتا تھا، نہ کہ تعریف طعام کا کلمہ۔ اس راز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے اس کو پسندیدہ کھانے کے ساتھ جوڑ دیا اور خود اپنے غیر مطلوب شوقِ طعام کے لئے اس کو ایک شرعی جواز بنا لیا۔
مولانا شمس الدین ندوی نے مجلس میںایک سوال کیا کہ احادیث میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ جہاں تک میرا خیال ہے، عام طورپر اس کے دو اسباب ہوتے تھے۔ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معمولاً کم کھانا پسند کرتے تھے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پیٹ کے تین حصے کرو۔ ایک حصہ کھانے کے لئے، ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ خالی۔دوسرا سبب یہ ہے کہ مدینہ میں ہجرت کے بعد آبادی میںاچانک اضافہ ہوگیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں کھانے کی چیزوں کی قلت ہوگئی تھی۔ اس بنا پروہاں کی آبادی کے لئے عمومی طورپر قلتِ خوراک کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ دوسروں کی طرح رسول اللہ اور مہاجرین بھی اس مسئلہ سے دوچار ہوئے۔
مولانا اختر قاسمی نے فرمایا کہ الرسالہ کا یہ پیغام ہے کہ مسلمانوں کے اندر داعیانہ ذہن پیدا ہو۔ اب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہندستان کی مسلم جماعتوں کے ذمہ دار بھی الرسالہ کی زبان ہی میں بات کرنے لگے ہیں۔ جب صورت حال یہ ہے تو کیوں نہ ہم دعوت کے عنوان پر کوئی مشترک لائحہ عمل تیار کریں اور اس کی پہل کیوں نہ اسلامی مرکز کی جانب سے ہو۔
میں نے کہا کہ یہ تجویز بظاہر اچھی ہے۔ مگر موجودہ حالات میں وہ قابل عمل نہیں۔ ہماری قوم میں وہ عملی صلاحیت موجود نہیں جو متحدہ عمل کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ملک کے تمام دینی مدارس کا مقصد ایک ہے مگر بار بار کی کوشش کے باوجود ان کے درمیان متحدہ لائحہ عمل تیار نہ کیا جاسکا۔ یہی انجام آپ کی تجویز کردہ کوشش کا بھی ہوگا۔
میں نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ حیدرآباد میں ملک کے مختلف دینی مدارس کے ذمہ داروں کا ایک مشاورتی اجتماع ہوا ۔ میں بھی ا س میں شریک تھا۔ وہاں یہ تجویز پیش کی گئی کہ تمام مدارس کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کی جائے۔ مثلاً نصابِ تعلیم میں یکسانیت تاکہ اسکول و کالجوں کی طرح مدارس کے طلبہ بھی ایک مدرسہ کو چھوڑ کر دوسرے مدرسہ میں بآسانی داخلہ لے سکیں۔ اساتذہ کی تنخواہوں کے درمیان یکسانیت ہو۔ مالیات کی فراہمی کا مشترک بورڈ ہو۔ مختلف مدارس کے درمیان وفاقی تنظیم ہو، وغیرہ۔ مگر دو دن کی بحث کے باوجود ان تجویزوں پر اتفاق نہ ہوسکا۔
آخر میں مجھے بولنے کا موقع دیا گیا۔ جب میں کھڑا ہوا تو میرا حال یہ تھا کہ میرا دل تڑپ رہا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ میں نے کہا کہ لوگوں کے درمیان اتفاق نہ ہونا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کے سینوں میں اللہ کا خوف نہیں۔ پھر میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہو کہ یہاں لوگوں کے درمیان اچانک ایک کالا سانپ نکل آئے تو ہر شخص متفق ہو کر یہ کہے گا کہ سانپ سے بچو، سانپ سے بچو۔ میں نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا کہ شدت خوف رایوں کے تعدد کو ختم کردیتا ہے۔ اگر لوگوں کے اندر اللہ کا خوف ہوتا تو یقینا رایوں کا اختلاف اپنے آپ ختم ہو جاتاجس طرح کوئی بڑا دنیوی خطرہ دیکھ کر رایوں کا اختلاف ختم ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں اتحاد کی کوشش کا آغاز ’اتحاد کانفرنس‘ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر سب سے پہلے اللہ کا خوف اور آخرت کی پکڑ کا احساس پیدا کیا جائے۔ اس کے بعد ہی کوئی حقیقی اتحاد وجود میں آسکتا ہے۔
مولانا اختر قاسمی نے پوچھا کہ فتویٰ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں طرح طرح کے فتوے جاری کئے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایسا کریں، ایسا نہ کریں۔ ایسے فتوے کس حد تک درست ہیں۔
میںنے کہا کہ فتویٰ کا مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایک عالم کے پاس آیا۔ اس نے عالم کے سامنے اپنا ایک مسئلہ بیان کیا۔ اور اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کا حکم جاننا چاہا۔ اس طرح کے سوال پراپنے علم کے مطابق، شرعی حکم بتانا یہ فتویٰ ہے۔
مگر ہمارے یہاں فتویٰ کی ایک اور قسم رائج ہوگئی ہے جو یقینی طورپر غیر شرعی ہے۔ وہ یہ کہ کوئی مفتی یا مفتیوں کا کوئی بورڈ بطور خود یہ فتویٰ جاری کرتا ہے کہ جس کی داڑھی ایک مشت سے چھوٹی ہو اس کے پیچھے لوگوں کے لئے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فلاں ملک اسلام دشمن ہے اس کی مصنوعات کو خریدنا جائز نہیں، وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کا فتویٰ حقیقتاً فتویٰ نہیں، وہ یکطرفہ طورپر ہدایت جاری کرنا ہے اور اس قسم کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار ایک قائم شدہ حکومت کو ہے، نہ کہ کسی مفتی کو۔
صحابہ اور تابعین کی مثال بتاتی ہے کہ وہ حاکمانہ ہدایت کبھی جاری نہیں کرتے تھے۔ اس کے بجائے وہ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تھے۔ مثلاً اگر لوگ داڑھی کی سنت میں غفلت برت رہے ہوں تو صحابہ و تابعین کی سنت کے مطابق، ایسے لوگوں کے درمیان دعوت و تبلیغ کا کام کرنا چاہئے، نہ کہ بائیکاٹ کا فتویٰ صادر کرنا۔ مزید یہ کہ باعتبار نتیجہ اس قسم کا فتویٰ سراسر لاحاصل ہے۔ انسان کی اصلاح قلب و ذہن کے بدلنے سے ہوتی ہے، نہ کہ فتاویٰ جاری کرنے سے۔ خود ہندستان کی مثال بتاتی ہے کہ اہل بدعت کے خلاف لمبی مدت تک فتاویٰ جاری کرنے کے باوجود کوئی مسلمان بدعت سے تائب نہیں ہوا، مگر تبلیغی جماعت کی دعوتی کوششوں سے بہت سے بدعتی اپنے فعل سے تائب ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والوں نے فتویٰ کے بجائے نصیحت و تربیت کا انداز اختیار کیا۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کے دل بدلے اور وہ بدعات سے تائب ہوگئے۔
مولانا محمد صدیق قاسمی نے بتایا کہ ان کی ملاقات بھوپال کے ایک عالم سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انہوں نے الرسالہ اور صاحب الرسالہ کے خلاف سخت رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے صاحب الرسالہ کے بارے میں کہا کہ انہوں نے امت کے سواد اعظم سے الگ اپنا ایک تصور دین بنا یا ہے۔ اور دین میں اس قسم کی انفرادیت بلاشبہہ گمراہی ہے۔
مولانا صدیق قاسمی نے یہ سن کر نہایت نرم انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے الرسالہ کے کچھ شمارے پڑھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر مزید سوال و جواب کے بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے ادھر ادھر کی باتیں سن کر یا اردو کے بعض اخبارات میں تنقیدی مضامین پڑھ کر یہ رائے بنائی ہے۔ مولانا صدیق قاسمی نے ان سے کہا کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے کا یہ انداز سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ آپ متعین و محدد اندازمیں بتائیں کہ الرسالہ میں کون سی بات قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ وہ کوئی ایک بھی متعین و محدد مثال نہ دے سکے۔
موجودہ زمانہ کے لوگوں میں یہ عام مزاج بن گیا ہے کہ وہ کسی کے خلاف رائے زنی کے لئے صرف یہ کافی سمجھتے ہیں کہ اس کے بارے میں کچھ مخالفانہ الفاظ بول دیں۔ وہ تنقید اور تنقیص کا فرق نہیں سمجھتے، وہ الزام اور استدلال کے درمیان فرق کو نہیں جانتے۔ یہ بلاشبہہ تمام برائیوں سے زیادہ بڑی برائی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کے لوگ زوال کے کس درجہ تک پہنچ چکے ہیں۔ دلیل کے ساتھ اعتراف کسی شخص کے زندہ ہونے کی پہچان ہے۔ اسی طرح بے دلیل انکار کسی شخص کے مردہ ہونے کی سب سے بڑی پہچان ہے۔
۵ نومبر ۲۰۰۱ء کو صبح کی نماز میں ہمارے امام صاحب نے سورہ ’’البیّنہ‘‘ کی تلاوت کی۔ اس میں انہوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی’’وما تفرق الذین اوتوا الکتاب إلا من بعد ما جاٲتھم البینۃ (اور اہل کتاب متفرق نہیں ہوئے مگر بعد اس کے کہ جب ان کے پاس کھلی دلیل آگئی)۔
اس آیت کو سن کر میں نے سوچا کہ تفرق کو بتانے کے لئے قرآن میں یہ خاص انداز کیوں اختیار کیا گیا۔ اس پر غور کرتے ہوئے سمجھ میں آیا کہ بیّنہ کے ظہور کا فطری نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ لوگوں کا تفرق ختم ہوجائے۔ وہ متحد ہو کر ثابت شدہ حق کے گرد اکٹھا ہوجائیں۔ مگر جو چیز ہوئی وہ بالکل اس کے برعکس تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ بیّنہ (ثابت شدہ حق) کاظہور ایک ایسی چیز ہے جو اہل کتاب، بالفاظ دیگر، حق پرستی کے مدعیوں کے لئے ایک فیصلہ کن آزمائش بن جاتا ہے۔ اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ سچے حق پرست یہ کہہ کر اس کے ساتھ جڑ جاتے ہیں کہ یہ تو وہی چیز ہے جس کا ہم پہلے سے انتظار کررہے تھے۔ اس کے برعکس جھوٹے مدعیوں کے لئے وہ انہیں اکسپوز (expose) کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے آنچ سونے کو سونا ثابت کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے اور جو غیر سونا ہے وہ غیر سونا ثابت ہو کر رہ جاتا ہے۔
جناب انور حسین آزاد (۵۲ سال) سے ۵؍اکتوبر کی صبح کو ملاقات ہوئی۔ وہ ۱۹۹۱ سے الرسالہ پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے میں صرف جذباتی انداز میں سوچنا جانتا تھا۔ الرسالہ کے مطالعہ نے مجھے سوچنے کا صحیح طریقہ بتایا۔ اس وقت میرے سامنے آج کا ہندی اخبار دینک بھاسکر تھا۔ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہندی اخبارات پہلے سادہ زبان میں نکلتے تھے جو گویا ہندی اسکرپٹ میں اردو ہوتی تھی۔ مگر آج وہ شدھ ہندی زبان میں نکلتے ہیں۔ اس تبدیلی کا راز یہ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے مسلم مقرر پیدا ہوئے جو پرجوش انداز میں لاؤڈاسپیکر پر چیختے تھے اور ہندوؤں کو خطاب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ تم کو کچھ نہیں آتاتھا ہم نے تم کو مہذب بنایا، ہم نے تم کوآزادی کا لفظ دیا، ہم سے تم نے انقلاب کا لفظ پایا، ہم سے تم نے زندہ باد و مردہ باد کہنا سیکھا، وغیرہ۔ مسلم مقررین کی اس طرح کی تقریروں کا رد عمل ہونا بالکل فطری تھا۔ چنانچہ رد عمل کے طورپر ہندی اخبارات کی زبان دھیرے دھیرے بدل گئی۔ پہلے اگر حالات نے اس کا اردو کرن کیا تھا تو اب ضد کی نفسیات کے تحت اس کا سنسکرت کرن ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں ہمارے اوپر ایک اردو شاعر کا شعر صادق آتا ہے:
ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
۵ نومبر کی صبح کو قیام گاہ پر بہت سے لوگ اکٹھا ہوگئے۔ ان سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ جناب محمد عمران بھوپال کے ایک تاجر ہیں ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ صحیح تفکیر کا راز یہ ہے کہ آپ ذہنی انتشار اور سوال کے فرق کو جانیں۔
You have to differentiate between question and confusion.
میں نے کہا کہ میرے تجربے کے مطابق، بیشتر تعلیم یافتہ لوگ شاید اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ وہ ساری زندگی ایسے سوالوں کے حل میں گذار دیتے ہیں جو دراصل سوال ہی نہیں ۔ وہ صرف ذہنی انتشار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اپنی اس غلطی کی بناپر وہ سچائی کی دریافت سے محروم رہتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں ہماری عمر اتنی مختصر ہے کہ ہم اس ذہنی تعیش کا تحمل نہیں کرسکتے۔
میں نے کہا کہ سوال اور ذہنی انتشار میں فرق یہ ہے کہ حقیقی سوال اپنی ذہنی محدودیت کے اعتراف کے ساتھ کیا جاتا ہے اور ذہنی انتشار یہ ہے کہ آدمی اپنی محدودیت سے بے خبر رہ کر ایسے سوالوں کے حل میں الجھ جائے جس کی آخری حقیقت تک پہنچنا انسان کے لئے اس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔ حقیقی یقین کی بنیاد اپنی محدودیت کا اعتراف ہے۔ ا س کے مقابلہ میں ذہنی انتشار یہ ہے کہ آدمی اپنی محدودیت سے بے خبر بنا ہوا ہو۔
۵نومبر ۲۰۰۱ ء کو گیارہ بجے بھوپال کے ایک ادارہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا نام ’’شُوبھم وکلانگ سماج سیوا سمیتی‘‘ ہے۔ یہ ادارہ معذور بچوں کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ اس وقت یہاں مختلف مذاہب کے ۷۵ بچے اور بچیاں موجود ہیں۔ یہاں ان کو تعلیم دلائی جاتی ہے اور انہیں مختلف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ خود کفیل ہو کر سماج میں معمول کی زندگی گذار سکیں۔ یہ ادارہ 1980 سے قائم ہے۔ وہ پہلے کرایہ کی عمارت میں تھا۔ اب وہ ایک خوبصورت ذاتی بلڈنگ میں قائم ہے۔ اب تک بہت سے بچے اور بچیاں اس ادارہ میں تعلیم وتربیت پاکر کامیابی کے ساتھ خود کفیل زندگی گذاررہے ہیں۔
بچوں اور اساتذہ کے سامنے میری ایک تقریر ہوئی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ معذور بچوں کے لئے قرآن میں ’محروم‘‘ (الذاریات ، المعارج) کا لفظ آیا ہے۔ یہ معذور بچے اللہ کے خاص بندے ہیں۔ وہ گویا دنیا میں اللہ کے سفیر ہیں۔ وہ واقعہ کی زبان میں کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو، میری طرح تم بھی معذور ہوسکتے ہو۔ تم کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے تم کو معذور نہیں بنایا۔ اس شکر کی ایک عملی صورت یہ ہے کہ تم ان معذور بچوں کی مدد کرکے ان کی معذوری کی تلافی کرو۔ دوسری بات میں نے یہ کہی کہ معذوری سادہ طورپر صرف محرومی نہیں بلکہ وہ ایک ایڈوانٹج ہے۔ معذوری آدمی کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ بے فائدہ مشغولیتوں سے بچ کر اپنے آپ کو صرف کار آمد قسم کی مشغولیت میں لگائے۔
وکلانگ سماج سیوا سمیتی کے ایک طالب علم آنندی سنگھ راجپوت ہیں۔ ان کی عمر ۲۲ سال ہے۔ وہ ہائی اسکول پاس کر چکے ہیں۔ وہ ایک ٹانگ سے معذور ہیں اور لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں۔ انہوں نے اسی حالت میں محنت کرکے ہائی اسکول پاس کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر وقت ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہتا ہوں۔ میں کسی سے اپنے کو کم نہیں سمجھتا۔ وہ ایک پاؤں سے معذور ہونے کے باوجود نہایت مصروف زندگی گذارتے ہیں۔
۵ نومبر کو دوپہر کا کھانا جناب محمد حسین صاحب کے یہاں تھا۔ انہوں نے کافی لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ صاحب خانہ نے کہا کہ میں نے خاص طورپر ایسے لوگوں کو بھی مدعو کیا تھا جو اکثر آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہاں تقریباً ۱۵ منٹ تک لوگوں کو خطاب کرنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر حمیداللہ ندوی نے بعد میں بتایا کہ وہاں آنے والے کئی نوجوانوں سے ان کی گفتگو ہوئی۔ ان نوجوانوں نے کہا کہ یہاں آنے سے پہلے تک ہم مولانا اور الرسالہ کے مخالف تھے۔ ان کے بارے میں ہم منفی رائے رکھتے تھے۔ مگر آج تھوڑے وقت میں انہوں نے جو بات کہی اس نے ہماری سوچ کو بدل دیا اور ہمارے اختلاف کو ختم کردیا۔ ان میں سے ایک نوجوان جو مقامی طورپر ایک ٹی وی چینل چلاتے ہیں انہوں نے کہا کہ رمضان کے پورے مہینہ میں وہ الرسالہ سے اقتباس لے کر اس کو ٹی وی کے ذریعہ لوگوں تک پہنچائیں گے۔
آج شام کو تین بجے ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کی رہائش گاہ پر خواتین کا جلسہ ہوا۔ کافی خواتین اس میں شریک ہوئیں۔ ان کے گھر کے نیچے کا حصہ اور اوپر کا حصہ دونوں بھر گیا۔ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ نیچے اوپر دونوں جگہ آواز پہنچانے کا انتظام کیا گیا تھا۔
تقریر سے پہلے قرآن کی تلاوت کی گئی۔ اس میں یہ آیت تھی۔ ’’والذین آمنوا أشد حبا للّٰہ (البقرہ ۱۶۵) میںنے اس آیت کو لے کر تقریر شروع کی ۔ میں نے کہا کہ اس کے مطابق، حُبِّ شدید صرف ایک اللہ سے ہونا چاہئے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ اپنی سب سے قیمتی چیز ’’محبت‘‘ اللہ کو نہ دیں تو اللہ اپنی قیمتی چیز ’’جنت‘‘ آپ کو کیوں دے گا۔اگر آپ کو اپنے ایمان کا اندازہ کرنا ہو تو اس کا معیار یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ آپ کے دل میں سب سے زیادہ محبت کس کے لئے ہے، اللہ کے لئے یا کسی اور کے لئے۔ اگر سب سے زیادہ محبت بیٹے یا بیٹی یا کسی اور چیز کے لئے ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس آیت کے مطابق، آپ کا ایمان مطلوب معیار پر پورا نہیں اترتا۔
اس کے بعد میں نے کچھ احادیث کی روشنی میں بتایا کہ آپ کو کس اخلاق اور کردار کے ساـتھ دنیا میں رہنا چاہئے، گھر کے اندر بھی اور گھر کے باہر بھی۔
میں نے کہا کہ مشہور سنگر محمد رفیع کا ایک گانا ہے جو سارے ماں باپ کو بہت پسند آتا ہے۔ اس گانے کو سن کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ اس گانے میں ایک باپ اپنی بیٹی کو شادی کے بعد رخصت کرتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بیٹی سے یہ کہتا ہے:
بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
عام طور پر ماں اور باپ اس کو بہت پسند کرتے ہیں۔ مگر میں اس شعر کو غیر فطری سمجھتا ہوں۔ ہرماں باپ کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اپنی بیٹی کو جو پیار انہوں نے اپنے گھر میں دیا ہے وہی پیار اسے غیر کے گھر میں بھی ملے، یہ فطرت کے خلاف ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ خود یہی ماں باپ دوسرے گھر کی بیٹی کو وہ پیار نہیں دیتے جو اسے اپنے گھر میں شادی سے پہلے ملا ہوا تھا۔
زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ماں باپ اپنی بیٹی کو یہ سکھائیں کہ اپنے میکے میں جو محبت تم کو ملی تھی وہ خونی رشتے کی بنا پر اپنے آپ ملی تھی۔ سسرال میں یہ محبت تم کو اپنے حسن عمل کی بنا پر ملے گی۔ جو شادی شدہ لڑکی اس فرق کو سمجھ لے اس کو اپنے سسرال سے کبھی شکایت نہیں ہوسکتی۔
۵نومبر کی شام کو ’’ہندی بھون‘‘ میں اس سفر کا سب سے بڑا اجتماع ہوا۔ شہر کے تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہاں تقریر کا عنوان تھا ’’جہاد، ایک پری چرچا‘‘۔ مجھ سے پہلے ایک مقرر نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ قرآن میں بہت سی آیتوں میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کافروں سے جنگ کرو۔ اس تقریر نے وہاں کے ماحول میں ایک زبردست تجسس کی فضا قائم کردی۔ نیز افغانستان اور امریکہ کے حالیہ واقعات کے نتیجہ میں جہاد مسلسل طورپر نیوز میں آگیا ہے۔ اس طرح جہا د کا موضوع گویا وقت کا ایک برننگ اشو بن گیا۔
اس طرح کے ماحول میں جہاد کے موضوع پر یہ تقریر ہوئی۔ اللہ کی توفیق سے میں نے خالص قرآن وسنت کی روشنی میں جہاد کی تشریح کی۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ کچھ لوگ قرآن کی چند آیتوں کو لے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن جنگ و جدال کی کتاب ہے۔ مثال کے طورپر لندن کے اخبار ٹائمس نے اسلام کے بارے میں اپنے ایک مضمون کا عنوان ان الفاظ میں قائم کیاـــایک مذہب جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے۔
A religion that sanctions violence.
میں نے کہا کہ قرآن میں کل ۶۶۶۶ آیتیں ہیں ، جب کہ قتال سے تعلق رکھنے والی آیتیں تقریباً چالیس ہیں۔ گویا ایک فیصد سے بھی کم۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۶۶۰۰ سے زیادہ قرآنی آیتیں وہ ہیں جن میں سچائی، اخلاق، امانتداری، عدل، انسانیت اور روحانیت جیسی اعلیٰ قدروں کی تعلیم ہے۔ اورایک فیصد سے بھی کم وہ آیتیں ہیں جن میں قتال کی بات کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ قتال کی یہ آیتیں دفاع کے مسئلہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ ہے۔ جارحانہ جنگ یا ’’مصلحانہ جنگ‘‘ اسلام میں نہیں۔ اسلام میں مصلحانہ دعوت ہے، نہ کہ مصلحانہ جنگ۔اصلاح بلاشبہہ اسلام میں مطلوب ہے مگر اسلام میں اصلاح کے لیے تبلیغ کا طریقہ ہے ، نہ کہ جنگ کا طریقہ۔
بھوپال کے مسٹر وِنَے ترپاٹھی (Tel.: 0755 766244) ایک فری لانسر ہیں۔ انہوں نے ہسٹری میںاور جنرلزم میں ایم اے کیا ہے۔ ۶نومبر کی صبح کو وہ میری قیام گاہ پر آئے اور تفصیلی انٹرویو لیا۔ ذاتی مطالعہ اور تجربے سے لے کر اسلام اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل تک انہوں نے مختلف سوالات کئے، جن کا میں نے اپنے انداز میں جواب دیا۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ آج کل ہر آدمی آتنک واد (ٹریرزم) کا نام لیتا ہے۔ مگر ٹریرزم کیا ہے، اس کو شاید ابھی تک واضح انداز میں بتایا نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آتنک واد کے خلاف ساری کوششیں بے فائدہ ثابت ہو رہی ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ گن ورسس گن کا معاملہ ہے۔ اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ گن کو گن کے ذریعہ کچل دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ گن ورسس آئیڈیالاجی کا مسئلہ ہے۔ آپ اس کو جوابی آئیڈیالاجی ہی سے کچل سکتے ہیں۔ گن اور بم آتنک واد کو ختم کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتے۔
میں نے کہا کہ اسلام کی روشنی میں، آتنک واد در اصل غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کا ہتھیار اٹھا نا ہے۔ اسلام کے مطابق، صرف قائم شدہ حکومت ہی کو اسلحہ کے استعمال کاحق ہے۔ غیر حکومتی اداروں کو کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار کے استعمال کاحق حاصل نہیں۔ غیر حکومتی اداروں کو اپنے حق کے لئے پر امن طریق کار کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد چلانا چاہئے۔
آتنک واد یہ ہے کہ غیر حکومتی تنظیمیں اپنے حقوق کے نام پر ہتھیار اٹھا لیں اور اس کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے کر جائز ٹھہرا ئیں۔ ان لوگوں کو آتنک واد سے روکنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ان کی سوچ کو بدلا جائے۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ جہاد کا نام دینے سے آپ کی ملیٹنسی جائز نہیں ہوجاتی۔
۶؍ نومبر کی صبح کو گیارہ بجے عارف عزیز صاحب (۶۰ سال) میری قیام گاہ پر آئے۔ وہ اردو روزنامہ ’’ندیم‘‘ میں نمائندہ خصوصی ہیں۔ انہوں نیتفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں میں نے یہ آیت پڑھی : و إن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا (آل عمران ۱۲۰) اس قرآنی اصول سے ثابت ہوتا ہے کہ آج ہم جس مسئلہ سے دوچار ہیں اس کا سبب سازش کی موجودگی نہیں بلکہ صبروتقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔
اس قرآنی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل پیدا کی صورت میں ان لوگوں کے خلاف شکایت و احتجاج کرنا جو بظاہر مسائل پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں، یہ سراسر قرآنی تعلیم کے خلاف ہے۔ قرآن کا بتایا ہوا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم خود اپنا جائزہ لیں۔ اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ شکایت اور احتجاج میں مشغول ہونا اپنے نقصان میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ اصل کام یہ ہے کہ اپنے اندر تقویٰ و صبر کی صفت پیدا کی جائے۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔
ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ لمبے عرصے سے کچھ نا اہل مسلم رہنما مسلمانوں کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ ہندستان میں کٹر وادی ہندو دوسرا اسپین بنا نا چاہتے ہیں۔ آزادی کے بعد جب یہاں فرقہ وارانہ فسادات ہونے لگے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ دیکھو ملک میں دوسرا اسپین بننے کا عمل شروع ہوگیا۔ اس وقت میں نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ بات سراسر بے بنیاد ہے۔ ۱۹۴۷ میں یہاں مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی، اب یہاں مسلمانوں کی تعداد بھوپال کے دینک بھاسکر (۱۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء) کے جائزہ کے مطابق، ۲۲ کروڑ چونسٹھ لاکھ ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا اسپین بنانے کا منصوبہ یا تو تھا ہی نہیں یا وہ عملاً ناکام ہوگیا۔
۶؍نومبر کی دوپہر کو ہندی روزنامہ ’’دینک بھاسکر‘‘ (بھوپال) کے نمائندہ وید ورت گری میری قیام گاہ پر آئے (Tel.: 0855 551601, 02, 03) ۔ انہوں نے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ میں نے کہا کہ میرا مشن یہ ہے کہ ملک میں ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو تناؤ ہے وہ ختم ہو۔ اس تناؤ کی موجودگی میں کوئی بھی تعمیری کام نہیں ہوسکتا۔ ملک کی تعمیر یا ملک کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے بہت سے تعمیری کام ضروری ہیں۔ اور تعمیری کام درست طورپر صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب کہ ملک میں میل ملاپ اور باہمی خوشگواری کا ماحول پیدا ہو۔
میں نے کہا کہ میں نے غور کرنے کے بعد پایا کہ ہندستان میں باہمی کشیدگی کا سب سے بڑا سبب جلوس ہیں۔ ہندو کلچر میں اور ہندو روایات میں جلوس کی بہت اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے مذہبی جلوس نکلتے رہـتے ہیں۔ یہ جلوس سڑکوں سے گذرتے ہوئے کسی ایسے مقام پر پہنچتے ہیں جہاں مسلمانوں کی مسجد ہے۔ اب مسلمانوں کو محسوس ہوتا ہے کہ جلوس کے گانے اور باجے سے مسجد کا تقدس مجروح ہورہا ہے۔ جلوس کے نعرے مسلمانوں کو مشتعل کردیتے ہیں۔ وہ جلوس والوں سے مانگ کرتے ہیں کہ اپنا روٹ بدلو۔ اور جب وہ روٹ نہیں بدلتے تو دونوں میں ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے جس کا نام فرقہ وارانہ فساد ہے۔
میں نے مسلسل کوشش کے ذریعہ یہ فارمولا دیا کہ فساد کا روک اعراض ہے۔ یعنی جلوس کو نہ روکو، اور فساد بھی نہ ہوگا۔ اب مسلمانوں نے اس فارمولا کواختیار کر لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں فرقہ وارانہ فساد تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
۶؍نومبر کی دوپہر کو ہندی ماہنامہ شکھر وارتا (بھوپال) کے اگزیکیٹیو ایڈیٹر مسٹر منوہر چورے آئے (Tel. 554951) ۔ انہوں نے اپنے میگزین کے لئے تفصیلی انٹرویو لیا۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں لیڈر شپ ختم ہوگئی ہے۔ ایسا کیوں ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مسلمانوں میں لیڈر شپ ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ بدل گئی ہے۔ یعنی پرانی لیڈر شپ کی جگہ نئی لیڈر شپ آگئی ہے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اس سے پہلے کچھ نااہل پولیٹکل لوگ ان کے لیڈر بنے ہوئے تھے۔ مسلمان اب ان لیڈروں کو چھوڑ چکے ہیں۔ اب پولیٹکل لیڈر کی جگہ نیچر لیڈر ان کا رہنما بن گیا ہے۔ پولیٹکل لیڈر ان کو بہکاتا تھا، نیچر لیڈر ان کو فطرت کے مطابق رہنمائی دے رہا ہے۔ اب مسلمانوں نے فطرت کی رہنمائی میںاپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ انسان کی فطرت اپنے آپ ترقی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے اندر اپنے آپ یہ مزاج ہے کہ مواقع کو استعمال کرکے اپنا مقصد حاصل کرو۔ مسلمانوں کے نااہل لیڈر مسلمانوں کی اس فطرت کو دبائے ہوئے تھے۔ اب نااہل لیڈروں سے نجات پانے کے بعد ان کی فطرت جاگ اٹھی ہے اور ان کو حقیقت پسندانہ انداز میں رہنمائی دے رہی ہے۔ چنانچہ مسلمان آزادی کے بعد چالیس سال تک جو ترقی نہ کرسکے تھے وہ ترقی انہوں نے پچھلے پندرہ سالوں میں حاصل کرلی۔ تعلیم، اقتصادیات اور دوسرے تعمیری شعبوں میں وہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آج ہندستان کا مسلمان ہر لحاظ سے ترقی کررہا ہے۔ اس کا منظر آپ ہندستان کے ہر شہر، ہر گاؤں میں دیکھ سکتے ہیں۔ بھوپال کو جن لوگوں نے ۱۹۴۷ کے وقت دیکھا تھا، ان سے پوچھئے، وہ بتائیں گے کہ ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج بھوپال سو گنا ترقی کر چکا ہے ۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے جب یہاں ریاست قائم تھی اس وقت یہاں مبنی بر زمین اقتصادیات کا دور تھا۔ زمین چونکہ حاکم ریاست کے قبضہ میں تھی، اس لئے تمام اقتصادی امکانات ایک شخص یا ایک خاندان کے پاس تھے۔ بقیہ لوگوں کے لئے صرف یہ صورت تھی کہ وہ ریاست کے ملازم بن جائیں، اور ملازمت میں کبھی بھی زیادہ ترقی ممکن نہیں۔
آزادی کے بعد سارے ملک کی طرح بھوپال میں بھی ایک نئی تبدیلی ہوئی۔ اب یہاں مبنی برصنعت اقتصادیات کا دور آگیا۔ صنعتی دور حقیقتاً اقتصادی انفجار (economic explosion) کازمانہ تھا۔ سابق نظام کے برعکس اب اقتصادی ترقی ہر ایک کے لئے اتنی ہی قابلِ حصول ہوگئی جتنی کہ پہلے وہ حاکم فیملی کے کسی فرد کے لئے قابلِ حصول ہوتی تھی۔ یہ ہے جدید بھوپال میں عمومی ترقی کا راز۔
۶ نومبر کی شام کو ڈاکٹر حمیداللہ ندوی کی رہائش گاہ پر لوگ جمع ہوگئے۔ یہاں لوگوں کے سامنے مختلف مسائل پر اظہار خیال جاری رہا۔
ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان بہت سے اسلامی احکام کو بھول گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک تالیف قلب ہے۔ تالیف قلب کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کو اموال زکوٰۃ کے آٹھ حصوں میں سے ایک حصہ قرار دیا گیا۔ تالیف قلب کا تعلق صرف مال سے نہیں ہے بلکہ اخلاق اور برتاؤ جیسی چیزوں سے بھی ہے۔
بھوپال میں جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے دو نوجوان یہ تھیـــــ زاہد محمد خاں اور عابد محمد خاں۔ یہ لوگ زینتھ ایجوکیشن اینڈ کیریر پرموشن سوسائٹی چلاتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک میگزین نکالتے ہیں جس کا نام ’’صالحہ‘‘ ہے۔ یہ دونوں سنجیدہ اور صالح نوجوان ہیں اور ملت کے لئے کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ میری مجلسوں میں برابر آتے رہے۔ ان دونوں نوجوانوں کی ایک صفت مجھے بہت پسند آئی۔ وہ خاموشی کے ساتھ میری باتوں کو سنتے تھے۔ وہ نہ سوال کرتے تھے، اور نہ کسی بات پر حجت کرتے تھے۔ میں نے کہا کہ ہماری قوم کے اندر اگر صرف ایک صفت آجائے، وہ زندگی کے اس راز کو سمجھ لیں کہ نہ بولنے کا نام بھی بولنا ہے اور نہ کرنے کا نام بھی کرنا ہے تو ہماری ملت کے مسائل پچاس فیصد اپنے آپ حل ہوجائیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ نقصان ملّت کو ان لوگوں نے پہنچایاہے جو نہ بولنے کے وقت بولے اور نہ کرنے کے وقت کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے۔
۷ نومبر کی صبح برادرم محمد محفوظ فلاحی (پیدائش ۱۹۶۲) سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک ذہین اور فعّال نوجوان ہیں۔ وہ جامعۃ الحکمت کے بانی بھی ہیں اور اس کے استاذ بھی۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ حکمت کی تعریف بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ زندگی گذارنے کا دانشمندانہ طریقہ، اسی کا نام حکمت ہے۔
میں نے کہا کہ آپ نے حکمت کی صحیح تعریف کی۔ پھر میں نے اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ علم کے دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو معلومات ہے اور اس کا دوسرا پہلو وہی ہے جس کوآپ نے دانش کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔معلومات سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو ہر آدمی سادہ کوشش کے ذریعہ جان لیتا ہے۔ مگر دانش سے مراد وہ چیز ہے جس کو جاننے کے لئے خصوصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ معلومات کی حیثیت اگر خام مال کی ہے تو دانش کی حیثیت تیار شدہ سامان کی۔
میں نے کہا کہ ظاہری سطح پر جو چیزیں ہوتی ہیں ان کو جاننے کا نام معلومات ہے۔ مثلا آج کل اخبارات معلومات کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی اخبارات یا میڈیا کے ذریعہ دنیا کے بارے میں واقفیت حاصل کرتا ہے۔ اس سے تمام لوگوں کے اندر اخباری ذہن بن گیا ہے۔ اخباروں میں جو رپورٹیں آتی ہیں اسی کو وہ جانتے ہیں اور اسی سے وہ اپنی رائے بناتے ہیں۔
یہ میرے نزدیک ایک خطرناک حالت ہے۔ اس لئے کہ اخبار یا میڈیا کی حیثیت انڈسٹری کی ہے۔ ان کا مقصد نیوز کو فروخت کرنا ہے۔ ایسی حالت میں وہ انہی خبروں کو سامنے لاتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ قابل فروخت ہوں۔ اور عام انسانی مزاج یہ ہے کہ اس کو سنسنی خیز باتوں سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ اچھی خبروں سے کم دلچسپی لیتے ہیں اور بری خبروں کو زیادہ شوق کے ساتھ سنتے اور پڑھتے ہیں۔ عوام کے اس مزاج نے اخبار اور میڈیا کو بری خبروں کی اشاعت کی ایجنسی بنا دیا ہے۔
اس سلسلہ میں میں نے اپنا ایک دلچسپ تجربہ بیان کیا۔میںاکثر بی بی سی لندن کی ہندی سروس کو سنتا ہوں۔ وہ اپنی خبروں کے اخیر میں اپنے سامعین کے منتخب خطوط پڑھ کر سناتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے ایک خط پڑھ کر سنایا۔ یہ خط ماریشش کے ایک ہندو نے لکھا تھا۔ اس نے شکایت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ ہندی بولنے والے علاقے کی خبریں نشر کرتے ہیں مگر آپ کے ہندی پروگرام میں ماریشش کی کوئی خبر نہیں ہوتی حالانکہ یہاں ہندی بولنے والے لوگ بہت ہیں۔بی بی سی کے اناؤنسر نے خط کو سنانے کے بعد کہا کہ ہم تو بری خبروں کو جمع کرکے آپ تک پہنچاتے ہیں۔ ماریشش میں سب اچھی خبریں ہوتی ہیں اور میڈیا کے اصول کے مطابق، اچھی خبر کوئی خبر نہیں:
Good News is not news.
میں نے کہا کہ موجودہ مسلم دنیا میں ہمارے جو قائدین ہیں وہ میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر اٹھے ہیں۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی مسلم قائد نہیں جو قرآن کی دی ہوئی بڑی خبر(النبأ العظیم) کی بنیاد پر اٹھا ہو۔ ایسی حالت میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری مسلم قیادتیں کس قدر بے حقیقت ہیں۔ وہ میڈیا کی دی ہوئی بری خبروں کو لے کر لیڈری کر رہے ہیں جو صرف ایک فیصد خبر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ننانوے فیصد خبریں اچھی ہیں مگر وہ میڈیا میں نہیں آئیں، اس لئے وہ لیڈری کا اشو بھی نہیں بنتیں۔
یہی وہ صورت حال ہے جس نے پوری دنیا میںــــــانڈیا سے لے کر عرب تک ہر مسلمان کو منفی سوچ میں مبتلا کر دیاہے۔ اور منفی سوچ سے زیادہ مہلک کوئی چیز کسی فرد یا قوم کے لئے نہیں۔
محمد محفوظ فلاحی صاحب نے کہا کہ آپ کی کتابوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ امت میں کام کا موجودہ نہج زیادہ تر جذباتی سوچ پر چل رہا ہے۔ آپ کے نزدیک امت کے احیاء کا نہج اس سے مختلف ایک اور انداز میں ہونا چاہئے۔
اس مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مطالعہ اور تفکیر کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے، الف سے آغاز اور دوسرا ہے یاء سے آغاز۔ اس فرق کو نہ جاننے کی وجہ سے اکثر لوگ یاء سے اپنے ذہنی سفر کا آغاز کردیتے ہیں، اور وہ پھر بھٹکاؤ کے سوا اور کہیں نہیں پہنچتے۔
میں نے کہا کہ خواہ عبادت کو سمجھنے کا معاملہ ہو یا سیاست کو سمجھنے کا ۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قرآن کا مطالعہ کیا جائے۔ قرآن کا مطالعہ کرکے اصولی احکام کو متعین کیا جائے۔ اس کے بعد حدیث کا مطالعہ کرکے ان اصولوں کی مزید مستند تفصیل متعین کی جائے۔ اس کے بعد سیرت کا مطالعہ کرکے مستند عملی نظیر معلوم کی جائے۔ اس طرح ان تینوں قسم کے مطالعہ کے ذریعہ اسلام کا بنیادی معیار مقرر کیا جائے اور پھر اس معیار کی روشنی میں بعد کی اسلامی تاریخ کو سمجھا جائے۔
مگر اکثر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ بعد کے نظائر کو لے کر اسلام کی تصویر بنانے لگتے ہیں۔ یہ معکوس طریقۂ مطالعہ کبھی درست نتیجہ تک پہنچانے والا نہیں ہوسکتا۔
ایک گفتگو کے دوران ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ ء کو امریکہ میں جہاز کو بلڈنگ سے ٹکرانے کا جو واقعہ ہوا اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیل گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری امریکی ٹی وی سی این این پر ہے۔ کیوں کہ یہ سی این این ہی تھا جس نے نیویارک کے ایک مقامی حادثہ کو ٹی وی کے ذریعہ ساری دنیا میں ایک ایک گھر میں پہنچا دیا۔
میں نے کہا کہ یہ اپنی ذمہ داری کو دوسرے کے اوپر ڈالنا ہے۔ یہ ایک قسم کی بددیانتی (dishonesty) ہے۔ میںنے کہا کہسی این این کوئی خبر بنانے کی فیکٹری نہیں ہے، وہ وقوع میں آنے والی خبروں کو نشر کرنے کا ایک نظام ہے۔ آپ جب ایک خبر کی تخلیق کریں گے تو سی این این ضرور اس کو لے گا۔ کیوں کہ اسی پر اس کی انڈسٹری کا انحصار ہے۔ سی این این کا مقصد خبر کو رپورٹ کرنا ہے۔ آپ ایک خبرکو وجود میں لائیں گے تو سی این این ضرور اس کو لے کر اس کی رپورٹ کرے گا تاکہ وہ اپنی انڈسٹری کو چلا سکے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سی این این ایسا نہ کرے تو آپ خود اپنے آپ کو ایسی خبر کی تخلیق سے روکیں۔ موجودہ قسم کی شکایت کا کوئی فائدہ نہیں۔
ایک مسلم نوجوان نے کہا کہ میں آپ کا الرسالہ پڑھتا ہوں مگر آپ کی ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ جہاد سے پہلے تیاری ضروری ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ اسلام کے دور اول میں جو غزوہ ٔ بدر ہوا اس کے لئے مسلمانوں نے کیا تیاری کی تھی۔ دشمنوں کے مقابلہ میں یہ غزوہ گویا بلا تیاری کے ہوا۔
میںنے کہا کہ آپ نے برعکس بات کہی۔ غزوہ ٔ بدر تو سُپر تیاری کے بعد ہوا تھا۔ آپ اس سلسلہ میں سورہ آل عمران اور سورہ أنفال کی متعلق آیتوں کا مطالعہ کیجیے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب یہ خبر پہنچی کہ مشرکین کی فوج مدینہ کی طرف بڑھ رہی ہے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مقابلہ کے لئے نکلنے کا ارادہ فرمایا۔ مگر سازو سامان کی کمی کی بنا پر مسلمانوں کی ایک جماعت راضی نہ تھی۔ حتیٰ کہ قرآن کے مطابق، انہوں نے رسول اللہ سے اس معاملہ میں جدال کیا۔وہ سمجھتے تھے کہ موجودہ حالت میں مشرک فوج سے لڑنے کے لئے نکلنا موت کے لئے نکلنا ہے۔ پھر اللہ نے وحی کے ذریعہ فرمایا کہ تم لوگ مقابلہ کے لیے نکلو۔ ہم اس مہم میں تمہاری مدد کے لئے بڑی تعداد میں فرشتے لگاتار بھیجیں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ بدر کی لڑائی معروف خیال کے مطابق، تین سو تیرہ کی تعداد نے نہیں لڑی بلکہ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں فرشتوں کا لشکر بھی مدد کے طورپر شامل تھا۔ فرشتوں کی یہی مدد ہے جس نے بدر کی جنگ میںکامیابی کو یقینی بنا دیا۔ موجودہ زمانہ میں جو مسلمان کمتر تیاری کے ذریعہ طاقت ور قوموں سے جنگ چھیڑے ہوئے ہیں ان کے لئے اس قسم کی کوئی خدائی بشارت موجود نہیں، اس لئے موجودہ عدم تیاری کی حالت میں ان کے لئے لڑنا بھی جائز نہیں۔
میرا یہ جواب دو اور دو چار کی طرح واضح تھا، مگر مذکورہ مسلم نوجوان نے سننے کے بعد آخر میں کہا کہ دعا کیجئے میرا یہ خلجان رفع ہوجائے۔ میں نے کہا کہ اتنی واضح دلیل سامنے آنے کے بعد اب آپ کے لئے اعتراف ہے، نہ کہ رفع خلجان کی دعا۔
ڈاکٹر حمید اللہ ندوی (ریڈر شعبۂ عربی، بھوپال یونیورسٹی) کا مکان جہاں میں ٹھہرا تھا، وہ صرف ایک مکان نہیں بلکہ وہ ایک پیغام بھی ہے۔ یہ ایک خوبصورت نو تعمیر مکان ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی نے یہاں ایک پلاٹ خریدا اور کسی صاحب سے اس کا ایک نقشہ نبوایا۔ اس نقشہ کو انہوں نے مشورہ کے لئے مسٹر راجیندر سنگھ کو دکھایا۔ وہ سِول انجینئر بھی ہیں اور یہاں کے ایک ممتاز صنعت کار بھی۔ مسٹر راجیندر سنگھ نے کہا کہ کیا یہ آپ کے مکان کا نقشہ ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی نے کہا کہ ہاں۔ مسٹر راجیندر سنگھ نے کہا کہ پھر آپ کو اس کے لئے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ میرا کام ہے اور میں ہی اس کو انجام دوں گا۔
مسٹر راجیندر سنگھ نے اس کے بعد نیا بہتر نقشہ بنایا اور پھر اپنے آدمیوں کو تعمیر کے کام پر لگا دیا۔ انتہائی مصروفیت کے باوجود وہ خود اس کی نگرانی کرنے لگے۔ انہوں نے اپنے ماربل کے ساتھ اس کے لئے بھی ماربل منگوایا ۔ انہوں نے نہ صرف اپنا پورا ہنر مکان کی تعمیر میں لگایا بلکہ اپنا پیسہ بھی اس میں خرچ کیا۔ کسی بھی قسم کے معاوضہ کے بغیر انہوں نے یہ کام اس طرح کیا جیسے کہ وہ ان کا اپنا کام ہو۔ یہاں تک کہ انہوں نے چھوٹے سے پلاٹ میں خوبصورت دو منزلہ مکان تیار کردیا۔ یہ سارا کام انہوں نے اس قدر بے لوثی کے ساتھ کیا کہ لفظی طورپر بھی انہوں نے کبھی اس کا اظہار کرنا پسند نہیں کیا۔
اس کو دیکھ کر میں نے کہا کہ ڈاکٹر حمید اللہ ندوی اگر کسی معیاری مسلم ملک میں ہوتے اور کوئی مسلم ماہر تعمیر بلا معاوضہ ان کی مدد کرنا چاہتا تو اس سے زیادہ وہ اور کیا کرسکتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ ہندستان انسانوں کا ایک ملک تھا مگر کچھ نا اہل لیڈروں نے اس کو غلط طورپر مسلم دشمنوں کا ملک سمجھ لیا۔ یہی وہ غلطی ہے جس نے ان بھیانک نتائج کی صورت اختیار کی جس کی شکایت مسلمان ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک کررہے ہیں۔
بھوپال کی ایک مسجد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فجر کی نماز ادا کی۔ دوسری رکعت کے آخر میں امام صاحب نے قنوت نازلہ پڑھی۔ اس میں ’’کفار‘‘ کے لئے بد دعا تھی۔وہ بددعا کے کلمات کہتے ہوئے یہاں پہنچے: اللھم دمر دیارھم، اللھم أھلکھم کما أھلکت عاداًوثموداً۔
یہ عربی الفاظ سن کر میں تھرا اٹھا۔ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس لیے کہ اس قسم کی دعا کرنے کے نہایت ہولناک تقاضے ہیں۔ اس قسم کی دعا کا وقت وہ ہے جب کہ اہل ایمان اتمام حجت کے بعد کفارومشرکین کی بستیوں سے ہجرت کرکے باہر چلے گئے ہوں۔ میںنے سوچا کہ مسلمانوں کے اصاغر و اکابر لمبی مدت سے اپنی مسجدوں میں اس قسم کی بددعائیں کر رہے ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ان کی یہ بد دعا قبول نہیں ہوئی۔ اگر یہ بد دعا قبول ہو جاتی تو تدمیر اور اہلاک کا عذاب آنے کی صورت میں خود بد دعا کرنے والے مسلمان بھی ہلاکت کا نشانہ بن جاتے۔ کیوں کہ وہ خود بھی انہی بستیوں میں مخلوط طورپر آباد ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے الرسالہ والوں اور غیر الرسالہ والوں کے درمیان ایک عجیب فرق پایا ہے۔ الرسالہ کے قارئین دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مثبت باتیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جولوگ الرسالہ کے قاری نہیں ہیں وہ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ منفی باتیں کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔
میں نے کہا کہ اس معاملہ کو آپ ایک مثال سے سمجھئے۔ ایک لڑکی جب اپنے میکے میں ہو جہاں صرف اس کا باپ، اس کی ماں، اس کا بھائی اور اس کی بہن ہو، ایسی حالت میں اگر آپ لڑکی سے گھر کی کوئی برائی کریں تو وہ فوراً اس کا دفاع کرے گی۔ وہ کہے گی کہ ہمارے گھر میں سب ٹھیک ہے، یہاں شکایت کی کوئی بات نہیں۔ مگر یہی لڑکی جب شادی ہونے کے بعد اپنے سسرال میں جاتی ہے اور وہاں ساس اور بہو کا جھگڑا پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس لڑکی سے سسرال کی کوئی شکایت کیجئے تو فوراً وہ اس کو درست مان لے گی۔
میں نے کہا کہ اس مثال سے آپ دونوں کے درمیان فرق کے معاملہ کو سمجھ سکتے ہیں۔ الرسالہ کے علاوہ مسلمانوں کے جو پرچے نکلتے ہیں، خواہ وہ ہندستان کے ہوں یا ہندستان کے باہر کے، خواہ وہ اردو کے پرچے ہوں یا اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے مسلم پرچے، تمام پرچوں کا یہ حال ہے کہ وہ غیر مسلم قوموں کی شکایت سے بھرے رہتے ہیں۔ جو عورت یا مرد ان پرچوں کو پڑھتے ہیں ان کا ذہن وہی بنتا ہے جو ایک خاتون کا ذہن سسرال کے ماحول میں بنتا ہے۔ الرسالہ کا معاملہ اللہ کے فضل سے اس سے مختلف ہے۔ الرسالہ اپنے قارئین میں مثبت سوچ پیدا کرتا ہے۔ وہ واقعات میں نفرت کے بجائے محبت کے پہلو ابھارتا ہے۔ الرسالہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی قوم اور غیر قوم کی نظر سے دیکھنے کے بجائے تمام لوگوں کو انسان کی نظر سے دیکھیں۔ اس بنا پر الرسالہ کے قاری کے اندر وہ مزاج بنتا ہے جو ایک خاتون کے اندر اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اپنے میکے میںاپنے خونی رشتوں کے درمیان ہو۔
بھوپال سے انگریزی زبان میں ایک ماہانہ میگزین نکلتا ہے۔ اس کا نام ایوریسیا ٹائمس (Eurasia Times) ہے۔ ایک صاحب نے اس کا شمارہ (نومبر ۲۰۰۱) دیا۔اس شمارہ میں ایک مضمون کا عنوان یہ تھاـــــــــدہشت گردی کا مقابلہ اسرائیل کے انداز میں:
Fighting terrorism, Israel style.
اس میںبتایا گیا تھا کہ دہشت گردی سے مقابلہ کا ایک طریقہ وہ ہے جو اسرائیل نے اختیار کیا ہے، یعنی دہشت گردی کے جواب میں دہشت گردی۔ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ ایک مضمون لکھئے جس کا عنوان ہوــــــــدہشت گردی کا مقابلہ اسلام کے انداز میں :
Fighting terrorism, Islam style.
آپ اس مضمون میں بتائیے کہ اسلام کا طریقہ دہشت گردی کے بم کو ڈیفیوز کرنے کا ہے،نہ کہ بم کے اوپر بم مارنے کا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں یہی حکیمانہ طریقہ اختیار فرمایا۔
بھوپال کے قیام کے دوران وہاں تقریباً دس پروگرام ہوئے۔ ایک پروگرام میں میں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام پالیسی یہ تھی کہ جب دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو آپ کا طریقہ اختیار أیسر (easier option) کا ہوتا تھا، نہ کہ اختیار أعسر (harder option) کا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمان جہاں جہاں جہاد کے نام سے متشددانہ لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں، ہر جگہ ان کے لیے پُر امن طریقِ کار کا انتخاب ممکن تھا۔ مگر انہوں نے ہر جگہ پرتشدد طریق کار کا انتخاب کیا جو سراسر سنت نبوی کے خلاف تھا۔ اسی لیے ان کے حصہ میں تباہی کے سوا اور کچھ نہ آیا۔
میں نے کہا کہ بیسویں صدی میں گاندھی اور نیلسن منڈیلا نے اسلام کا طریقہ (اختیار أیسر) اپنا کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ عین اُسی وقت اس کے برعکس طورپر مسلمانوں نے یہ کیا کہ اسلام کے طریقہ کے خلاف (اختیار اعسر ) کو اپنا کر اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دیا۔
بھوپال کے دوران قیام میں جو پروگرام ہوئے وہ برابر میڈیا میںآتے رہے۔ اخبارات میں بھی اور ٹیلی ویزن میں بھی۔ مثلاً دینک نئی دنیا (۶نومبر ۲۰۰۱) میں ایک تقریر کی رپورٹنگ چھپی۔ اس کا عنوان یہ تھا ــــــــسچائی کی تلاش کے لیے کوشش کرتے رہنا ہی جہاد ہے:
lPpkbZ dh ryk'k ds fy, dksf'k'k djrs jguk gh ftgkn gSA
اسی طرح دینک بھاسکر کے شمارہ (۴ نومبر ۲۰۰۱) میںایک پروگرام کی رپورٹ چھپی۔ اس کا عنوان یہ تھاـــــاسلام لڑائی کا مذہب نہیں:
bLyke yM+kbZ dk et+gc ughaA
بھوپال میں میں ۳ نومبر کو پہنچا تھا۔ ۷ نومبر کو وہاں سے واپسی ہوئی۔ اس دوران بار بار شہر کے مختلف حصوں میں جانے کا موقع ملا۔ ان مشاہدات اور تجربات سے اندازہ ہوا کہ نوابی دور کے مقابلہ میں آج یہاں کے مسلمان ہر اعتبار سے کئی گنا زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔ اس ترقی کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ یہاں کے مسلمانوں کے سینے میں شکر کا چشمہ رواں ہو، مگر اپنے تجربہ کے مطابق، میں نے یہاں کے کسی مسلمان کو شکر خداوندی کے جذبہ سے سرشار نہیں پایا۔
ریاست کے دور میں نواب کی تعمیر کی ہوئی تاج المساجد کی قدیم تصویر آج بھی موجود ہے۔ اس تصویر میں یہ مسجد ایک کھنڈر کی مانند نظر آتی ہے مگر آج یہ تاج المساجد ایک عظیم کامپلیکس کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ہر مسجد اور ہر مدرسہ اور ہر مسلم ادارہ پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ آج یہاں کے مسلمانوں کے پاس اتنی زیادہ کاریں ہیں جن کا تصور بھی ۱۹۴۷ میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سر وسوں اور تجارتوں میں مسلمان پہلے کے مقابلہ میں نمایاں حد تک زیادہ جگہ حاصل کرچکے ہیں۔ ایک مسلم اجتماع میں میں نے کہا کہ کیا آپ میں سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ کا خاندان ۱۹۴۷ میں جہاں تھا اب وہ اس سے پیچھے چلا گیا ہے۔ مگر کوئی ایک شخص بھی یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ میرا احساس ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں ساری دنیا میں جو چیز مفقود ہے وہ شکر کا جذبہ ہے۔ ہر آدمی کا سینہ فرضی شکایتوں سے بھرا ہوا ہے۔ کسی مسلمان کے سینے میں شکر کا دریا بہتا ہوا نظر نہیں آتا، جب کہ شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔
۷ نومبر کو جب میں واپسی کے لئے روانہ ہوا تو میری قیام گاہ (مکان ڈاکٹر حمید اللہ ندوی) پر کچھ خواتین اکٹھا ہوگئیں۔ ان سے خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ سب کو میری ایک نصیحت ہے۔ وہ یہ کہ آپ لوگ بے شکایت زندگی گذاریں۔ میں نے کہا کہ زندگی نام ہے، شکایتوں کے درمیان شکایت سے خالی ہوکر رہنا۔
میں نے کہا کہ موجودہ دنیا کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہاں بار بار ایک کو دوسرے سے شکایتیں پیدا ہوں۔ شکایت خدا کے تخلیقی نقشہ کا ایک حصہ ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ آپ کا امتحان لیاجائے۔ جب بھی آپ کو کسی سے شکایت پیدا ہو تو اُس کو انسان سے نہ جوڑیئے بلکہ یہ سمجھ لیجئے کہ وہ امتحان کا ایک پرچہ ہے جو براہِ راست اللہ کی طرف سے آپ کے پاس آیا ہے۔ اس جانچ میں کامیاب ہونے کا واحد راز یہ ہے کہ آپ شکایت کو بے شکایت میں تبدیل کردیں۔ شکایت کو شکایت کے طورپر لینا امتحان میں ناکام ہونے کا ثبوت ہے اور شکایت کو بے شکایت بنا دینا امتحان میں کامیابی کا ثبوت ۔
واپسی کے وقت میں بھوپال ایر پورٹ پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایرپورٹ کے ایک کارکن مسٹر عبد الغفور خاں(Tel.: 548121) میرے پاس آئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے اخبار میں آپ کے بھوپال کے پروگرام کی رپورٹ چھپی ہے۔ میں نے اس با تصویر رپورٹ کو پڑھا ہے۔ اس سے میںنے آپ کو پہچانا۔ اس کے بعد انہوں نے بھوپال سے چھپنے والے اُس ہندی اخبار کی مذکورہ کاپی دی اور کہا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے۔ میں نے کہا کہ آپ کا شکریہ، کوئی ضرورت ہوئی تو ان شاء اللہ آپ کو زحمت دی جائے گی۔
میں اپنے ساتھیوں سے کچھ دینی باتیں کر رہا تھا۔ ایک سردارجی ہمارے پاس آئے اور کھڑے ہوکر میری باتیں سننے لگے۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھ کو خدا کے ایک سچے بندے دکھائی دیتے ہیں۔ میںآپ کی باتوں سے بہت پربھاوت ہواہوں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا کارڈ دیا۔ وہ بھوپال میں رہتے ہیں۔ ان کا نام مسٹر تَرُن سنگھ نام دھاری (Tel.: 0755 -465511) ہے۔ انہوں نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا:
I am a bearer cheque for you.
سات نومبر ۲۰۰۱ کو بھوپال سے دہلی کے لئے واپسی ہوئی۔ شہر سے روانہ ہوکر ایر پورٹ پہنچا۔ یہاں بہت سے لوگ اکٹھا ہوگئے۔ ایک اجتماع کی صورت بن گئی۔ جہاز کسی قدر لیٹ تھا۔ چنانچہ یہ غیر رسمی اجتماع دیر تک جاری رہا۔
یہاںایک سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ دنیا میں ہر چیز جو آدمی کو ملی ہوئی ہے وہ اس کے لئے ایک پرچۂ امتحان ہے۔ یہی جاب (job) کا معاملہ بھی ہے۔ جاب بھی حقیقتہً ذریعۂ رزق نہیں ہے بلکہ وہ ایک پرچۂ امتحان ہے۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی آدمی آپ کا جاب چھینے تو وہ صرف آپ کا ایک ٹیسٹ پیپر چھینے گا، وہ آپ کا فیوچر آپ سے چھین نہیں سکتا۔
بھوپال سے انڈین ایر لائنس کی فلائٹ کے ذریعہ دہلی واپس آیا۔ دوران پرواز ایک بار سنائی دیا کہ ایک مسافر خاتون پریشانی کے عالم میں چیخ رہی ہے۔ وہ انگریزی میں بار بار کہہ رہی تھی:
O God, any doctor, help me, please.
یہ سات نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے۔ قصہ یہ ہے کہ مذکورہ خاتون کا چھوٹا بچہ دورانِ پرواز اچانک بے ہوش ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مذکورہ خاتون چیخنے چلانے لگی۔ دوران پرواز جہاز کے اندر کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ مگر جہاز کے کارکنوں نے خاتون سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں، ایر پورٹ پر پہنچتے ہی آپ کے لیے طبّی انتظام کردیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے دورانِ پرواز ہی ٹیلی فون کے ذریعہ ایر پورٹ پر خبر کر دی۔ جہاز جب دلّی ایر پورٹ پر اُترا تو وہاں پہلے ہی سے ایک کار کھڑی ہوئی تھی۔ جہاز کے رُکتے ہی فوراً مذکورہ خاتون اوراُس کے بچہ کو اتار کر گاڑی میں بٹھایا گیا اور اس کو تیزی سے قریب کے اسپتال میں پہنچا دیا گیاــــــ یہ اُس چیز کا کرشمہ تھا جس کو جدید کمیونیکیشن کہا جاتا ہے۔
سفر سے واپسی کے بعد بھوپال سے ڈاکٹر حمید اللہ ندوی کا خط مورخہ ۲۹ نومبر ۲۰۰۱ ء ملا۔ اس کا کچھ حصہ یہاںنقل کیا جاتا ہے۔
اجتماع کے بہت خوشگوار نتائج پیدا ہوئے ان میں سے کچھ کو یہاں مختصراً لکھتا ہوں:
جب رمضان آیا تو ہمارے نئے نوجوان ساتھی عابد خان، زاہد خان صاحبان جو ایک ٹی وی چینل سے جڑے ہوئے ہیں، ان لوگوں نے رمضان میں روزانہ میری تفسیر ریکارڈ کرواکر نشر کرنا شروع کر دیا ۔ یہ بات پہلے سے ذہن میں تھی مگر مجھے زیادہ یقین نہیں تھا۔ آپ کی تشریف آوری سے کچھ دن پہلے اندور کے ایک جلسہ میں میری تقریر تھی۔ اتفاق سے اس میں ٹی وی چینل کے مسلمان مالک بھی شریک تھے تب بات اور زیادہ پختہ ہوگئی۔ یہ سلسلہ خدا نے بہت کامیاب کیا۔
تأثرات کا عالم یہ ہے کہ ہمارے مشرّف حسین صاحب جو تأثر دینے میں بہت غیر جانبدار ہیں، انہوں نے کہاکہ اس سفر میں ایسا ہوا کہ مولانا صاحب نے گویا سرداران قریش کو دعوت پیش کردی۔ الطاف صدیقی صاحب نے کہا کہ ہر سیکنڈ اور ہر منٹ فائدہ سے بھر پور تھا اور ہر طبقہ کے خواص نے اس بار مولانا سے جتنا فائدہ اٹھایا اتنا کبھی نہیں اٹھایا۔ ڈاکٹر گوتم نے کہا کہ مولانا نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ سارنگ جی کا آپ کے پروگرام کے بارے میں کہنا ہے کہ شہر کے ہر ورگ کا کِریم اور انٹیلیکچول طبقہ بھوپال میں میرے سامنے کبھی اس طرح اکٹھا نہیں ہوا نہ اتنا زیادہ پربھاوت ہوا۔ محمد حسین صاحب شیلٹر (شاہجہاں باد) نے تو آپ کے سامنے ہی اپنا تأثر بیان کر دیا تھا کہ جن مخالفین کو ہم نے کھانے پر بلایا تھا وہ آئے ہی نہیں (جاء الحق و زھق الباطلکی سی کیفیت ہو گئی)۔ اشفاق مشہدی ندوی جو کہ راشٹریہ سہارا اخبار کے نمائندہ ہیں وہ میرے گھر پر مبارکباد دینے آئے۔ انہوں نے کہا کہ اب میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ ’’مولانا‘‘ دعوت کا اسی طرح ماحول بناتے ہیں جس طرح کسان پہلے زمین پر محنت کرتا ہے پھر وہ بیج ڈالتا ہے۔ پھر اس حکمت کے ساتھ پوری فصل تیار ہوجاتی ہے۔ راجیندر سنگھ صاحب نے کہا کہ اس بار میںمولانا کا پورے طورپر مرید ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ میری رہائش گاہ پر جتنے لوگ آئے تھے سب متاثر ہوئے خاص طور پر کمشنر صاحب نے کہا کہ ایسے ہوتے ہیں صحیح سوچ بنانے والے۔
راجیندر سنگھ صاحب وہ باتیں بھی دہراتے ہیں جو آپ نے ان کے گھر کی خواتین سے کہی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بھی اسی اصلاحی انداز کو اختیار کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی جملہ میں آپ نے ایسی بات کہہ دی جو خواتین کو بہت زیادہ پربھاوت کرنے والی تھی ۔
پریم نرائن گپتا جی نے کہا کہ مولانانے بھوپال کو ایک پوتر ماحول میں نہلا دیا۔جناب شکیل رضا صاحب کا تاثر بھی آپ کے سامنے ہے جنہوں نے دعوت کی تھی۔ عمران صاحب اس بار اور زیادہ متاثر ہوئے۔
یہ پروگرام ہم نے بہت زیادہ اندیشوں اور خطرات کے ماحول میں کیا تھا۔ ہم نے آپ کی آمد اور آپ کے پروگرام کے لئے کبھی اتنے اندیشے اور خطرے محسوس نہیں کئے جتنا کہ اس بار۔ واقعہ یہ ہے کہ مخالفین نے طے کر لیا تھا کہ وہ ضرور کوئی بڑی گڑبڑی پیدا کریں گے، مگر خدا نے وہ قدرت دکھائی کہ ألقیٰ فی قلوبھم الرعب کا معاملہ ہوگیا۔
اس میں ایک اور بڑا اہم فائدہ جو ہوا وہ بھی ذکر کروں گا۔ زینتھ ایجو کیشن اینڈ کیریر ویلفیر سوسائٹی کے لڑکے جیسا کہ پہلے میں نے ذکر کیا تھا، بھوپال کے نوجوانوں کے ایک بڑے طبقہ پر اثر رکھتے ہیں، وہ دو سال پہلے تک پُر تشدد طریقہ کے قائل تھے۔ وہ میرے پاس اس نیت سے آئے کہ علماء ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتے اور نہ ہی انہیں مطمئن کر پاتے ہیں۔ قریب چھ ماہ کی محنت کے بعد اللہ نے ان کو بدل دیا تھا۔ وہ مثبت طریقہ پر کام کرنے لگے۔ اور پھر پہلے میرے نام کے ساتھ میرے مضامین چھاپنے لگے۔ جو میگزین (ہندی) وہ نکالتے ہیں اس میں صلاح کار کے طورپر میرا نام دے دیا اور آپ کے مضمون صرف مأخوذ لکھ کر (میری اجازت سے) چھاپنے کی جرأت کر لی۔ اب آپ کے دورہ کے بعدکیا ہوا، اب وہ ہوا جس کی میں امید نہیں کر سکتا تھا۔ وہ یہ کہ دعوت نامے میں انہوں نے دعاۃ کے نام کے ساتھ سوسائٹی کے نام میں اپنا نام شامل کروادیا۔ آپ کی مخالفت پروگرام سے پہلے ۲۸؍ اکتوبر کو صوفیہ مسجد کے علاقہ میں تالاب کے کنارے محلہ کھانوں گاؤسا میں ہوئی تب وہ اندور میں تھے۔ انہوں نے اندور سے ہی مجھے مطلع کیا کہ اس طرح کی مخالفانہ میٹنگ ہورہی ہے۔ پھر آپ کی آمد کے ایک دن پہلے محلّہ بدھوارہ میں میٹنگ ہوئی۔ وہ لوگ براہِ راست سیدھے میٹنگ میں پہنچ گئے اور کہا کہ ہم ہیں مولانا حمیداللہ اور مولانا وحید الدین خاں کے ساتھ۔ سوچ لو کہ کیا تم کو گڑبڑ کرنا ہے۔ اِدھر یا اُدھر فیصلہ ہوجائے گا۔ وائس چانسلر مسٹر ہرش وردھن تیواری کی بات تو آپ نے سن لی۔ انہوں نے کہا تھا کہ جو کتابیں آپ نے ان کو دیں اسے انہوں نے تین گھنٹے تک پڑھااور اسلام کو سمجھ لیا۔عابد خاں اور زاہد خاں صاحبان نے بھی اس اجتماع سے بہت اچھا اثر قبول کیا۔ عورتوں کا جلسہ بہت زیادہ کامیاب رہا۔ یہ جلسہ Women Islamic Studies Circle کی طرف سے تھا جس کی صدر میری اہلیہ اور ذمہ دار تینوں بیٹیاں اور خاص طورپر سیما، سعدیہ، صائمہ اور ان کی کچھ سہیلیاں ہیں۔ ایک رکن سہیلی کا نام بھی سیما ہے۔
خواتین کے جلسہ میں میرے مکان کے اوپر نیچے دونوں ہال اور سارے کمرے بھرے ہوئے تھے۔ لوگوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا کہ عورتوں نے کامل خاموشی کے ساتھ پوری تقریر سنی۔ زیادہ تر عورتوں کا تأثر یہ تھا کہ دین کی باتیں اس طرح فطری انداز میں کوئی نہیں سمجھاتا۔ مولانا اختر قاسمی صاحب کی خوش دامن صاحبہ اپنے گھر پر جاکر روئیں کہ یہ باتیں ہیں عمل کرنے کی۔ اور آپ نے دیکھا کہ جلسے کے بعد سب عورتیں کتنی خاموشی کے ساتھ بغیر شور کے کس طرح باوقار طریقے سے گئیں ۔ آپ اندر کے کمرہ میں جہاں تشریف رکھتے تھے آپ نے کوئی شور کی آواز نہیں سنی۔ یہ سب اللہ کا فضل وکرم اور احسان ہے۔
(حمید اللّٰہ ندوی)
واپس اوپر جائیں