مراسلت نمبر— ۳
ماہ نامہ افکارِ ملّی کے سب ایڈیٹر مولانا غطریف شہباز ندوی کا ایک مضمون ماہ نامہ زندگی ٔ نو (نئی دہلی) کے شمارہ جنوری ۲۰۰۶ میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا: ’’اجتہاد، عصرِ حاضر کی ایک دعوتی ضرورت‘‘۔
اِس مضمون میں انھوں نے ایک ایسی بات لکھی تھی جو میرے مطالعے کے مطابق، بالکل فرضی تھی۔ میں نے انھیں اس سلسلے میں ایک خط بھیجا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ماہ نامہ زندگیٔ نو کے شمارہ جنوری ۲۰۰۶ میں آپ کا ایک مضمون بعنوان: ’’اجتہاد، عصرِ حاضر کی ایک دعوتی ضرورت‘‘ چھپا ہے۔ اپنے اس مضمون میں آپ نے دار الدعوہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے تحت آپ نے یہ الفاظ لکھے ہیں: ’’ڈاکٹر یوسف القرضاوی پوری دنیا کو دار الدعوۃ قرار دیتے ہیں۔ محمد محروس مدرس الاعظمی بھی اسی نظریے سے اتفاق کرتے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۳۲ )
میں نے مذکورہ دونوں صاحبان کی کئی تحریریں پڑھی ہیں۔ اپنے مطالعے کے مطابق، میں نے ان کی کسی تحریرمیں دار الدعوہ کا تصوّر نہیں پایا۔ براہِ کرم اِن دونوں صاحبان کی اُن کتابوں کے نام اور ان کا صفحہ نمبرتحریر فرمائیں جن میں انھوں نے دار الدعوہ کے تصور کا ذکر کیا ہے، تاکہ اس سے رجوع کرکے اس بات کو معلوم کیا جاسکے۔
نئی دہلی ، ۴ جنوری ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
کافی انتظار کے باوجود اُن کی طرف سے اِس خط کا کوئی جواب نہیںآیا۔ اس کے بعد انھیں یاد دہانی کے طورپر دوسرا خط روانہ کیا گیا۔ اِس دوسرے خط کا مضمون یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس سے پہلے آپ کو ایک خط مؤرخہ ۴جنوری ۲۰۰۶ روانہ کرچکا ہوں۔ مگر ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیںآیا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ڈاکٹریوسف القرضاوی اور محمد محروس مدرس الاعظمی پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں۔ میرے مطالعے کے مطابق، یہ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اِن حضرات نے یا کسی اور عالم نے صراحتاً ایسا نہیں لکھاہے۔ اگر آپ کے علم میں ایسے علماء ہیں تو بر اہِ کرم مطلع فرمائیں کہ انھوں نے ایسا کس کتاب میںلکھا ہے۔براہِ کرم اس سلسلے میں اپنے جواب سے مطلع فرمائیں۔
نئی دہلی ، یکم فر وری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے دو خط روانہ کرنے کے بعد ان کا ایک خط مجھ کو ملا۔ وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام جناب حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب حفظہ اللہ وتولاہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند دن پہلے والا نامہ موصول ہوا، جس میں آپ نے موجودہ دنیا کو دار الدعوۃ قرار دینے سے متعلق، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور محمد محروس مدرس الاعظمی کے حوالے کے سلسلے میں استفسار فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ یوسف القرضاوی صاحب کے فتاویٰ کی دو جلدیں (اردو ترجمہ) مرکزی مکتبہ اسلامی نے شائع کی ہیں۔ پہلی جلد پر مولانا جلال الدین عمری کا مقدمہ ہے۔ مقدمہ میںانھوںنے یہ بات ڈاکٹر قرضاوی کے بارے میں لکھی ہے کہ وہ موجودہ پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں اور دار الاسلام اور دار الحرب کی فقہی تقسیم پر نظر ثانی کی رائے رکھتے ہیں۔
مولانا عمری کے اس بیان پر تکیہ کرکے راقم نے زندگی ٔنو والے مضمون میں ڈاکٹرقرضاوی کی طرف یہ بات منسوب کردی ہے۔ محمد محروس مدرس الاعظمی کا تذکرہ راقم کی غلطی ہے۔ اور مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے۔ ان کا حوالہ دار الاسلام اور دار الحرب کے سلسلے میں دیا جانا تھا۔
عید الاضحی کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہوگئی ہے اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آپ کی بیش قیمت تالیفات سے برابر استفادہ کرتا رہتا ہوں۔ اگر چہ کہیں کہیں اختلاف کی جسارت بھی کرڈالی ہے لیکن اس سے انشاء اللہ آپ کبیدہ خاطر نہ ہوںگے۔ حاشا و کلا یہ ہر گز مقصود بھی نہیں۔ اگر کہیں سوئے ادب ہوگیا ہو تو میں اُس کے لیے معافی کا خواستگار ہوں۔
۱۶ جنوری ۲۰۰۶ء والسلام غطریف شہباز ندوی
ان کے اِس خط کو پڑھ کر میںنے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے اور آپ کو آپ کی اعلیٰ صلاحیت کے مطابق، دینی خدمت کا موقع عطا فرمائے۔
مولانا جلال الدین عُمری کی تحریر کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے، وہ مکمل نہیں ہے۔ براہِ کرم ان کے اصل الفاظ اور کتاب کا صفحہ نمبر دونوں روانہ فرمائیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
نئی دہلی، ۱۸ فروری ۲۰۰۶ دعاگو وحید الدین
ان کے پہلے خط کو پڑھ کر میں نے مذکورہ کتاب میں اس کا کوئی حوالہ نہ پایا تو میں نے انھیں دوبارہ درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے اپنے خط مؤرخہ ۱۶ جنوری ۲۰۰۶ میں لکھا تھا کہ: ’’یوسف القرضاوی صاحب کے فتاوی کی دو جلدیں (اردو ترجمہ) مرکزی مکتبہ اسلامی، نے شائع کی ہیں۔ پہلی جلد پر مولانا جلال الدین عمری کا مقدمہ ہے۔ مقدمے میں انھوں نے یہ بات ڈاکٹر قرضاوی کے بارے میں لکھی ہے کہ وہ موجودہ پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں‘‘۔
میں نے ’’فتاویٰ یوسف القرضاوی‘‘ نامی مذکورہ کتاب کی پہلی جلد حاصل کی اور اس میں مولانا جلال الدین عمری کے پیش لفظ کو دیکھا، مگر اس میں نہ تو دار الدعوہ کا لفظ موجود ہے اور نہ یہ بات کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی موجودہ پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ آپ نے یہ بالکل بے اصل بات آخر کس طرح لکھ دی۔
۲۰فروری ، ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے اِس خط کے بعد ان کا ایک خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ادھر آپ کے کئی والا نامے ملے۔ امید ہے کہ میرا جواب بھی آپ کو موصول ہوا ہوگا۔ حال ہی میں میرے مطالعے میں ایک کتاب آئی ہے: ’’الإسلام والتعایش السلمی مع الآخر‘‘۔ (للدکتور طٰہٰ جابر علوانی) صدر ادارہ المعہد العالمی للفکر الاسلامیواشنگٹن، امریکا، صفحات ۱۰۲) اِس کے اخیر کے دو صفحات آپ کی خدمت میں فیکس کررہا ہوں،ان میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو دنیا کے ’’دار دعوت‘‘ ہونے کے سلسلے میںآپ کا موقف ہے اور خاکسار بھی اسی سے اتفاق رکھتا ہے۔
۲۱ فروری، ۲۰۰۶ نئی دہلی والسلام غطریف شہباز ندوی
ان کے اس خط کے بعد میں نے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۲۱ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ اس کے ساتھ آپ نے ایک عربی کتاب کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی روانہ کی ہے۔ اِس صفحے کو پڑھنے سے بات واضح نہیں ہوتی۔ میںاصل کتاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ براہِ کرم اصل عربی کتاب مجھے عاریتاً عنایت فرمائیں۔ آپ مولانا محمد حسان ندوی کو یہ کتاب دے دیں۔ وہ مجھ کو کتاب پہنچا دیںگے۔ میں اس کو پڑھنے کے بعد کتاب آپ کو لوٹا دوں گا۔
نئی دہلی، ۲۷ فروری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
کافی انتظار کے بعد جب مجھے ان کا کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے درج ذیل خط انھیںروانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ نے اپنے مطبوعہ مضمون میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں۔ میںنے حوالے کے ساتھ یہ واضح کیا کہ آپ کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ موصوف کی کسی کتاب میں دار الدعوہ کا یہ تصور نہیں پایا جاتا ۔ مگر آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیے بغیر ایک اور ناقص حوالہ پیش کردیا۔یہ ڈاکٹر طٰہٰ جابر العلوانی کی کتاب ’’الإسلام والتّعایش السّلمی مع الآخَر‘‘ کے دوصفحات (صفحہ نمبر درج نہیں) کی فوٹو کاپی ہے۔
مجھے ابھی تک اصل عربی کتاب نہیں ملی۔ تاہم آپ نے کتاب کے دو صفحات کی جو فوٹو کاپی بھیجی ہے اس کو میں نے بغور پڑھا ۔دوبارہ میں کہوں گا کہ ان مُرسَلہ صفحات سے آپ کا یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر العلوانی کے یہاں دار الدعوہ کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اِس کتاب میں ایک مقام پردارِ دعوت کا لفظ موجود ہے، مگر صرف لفظ کی موجودگی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مصنف کے یہاں وہ تصور موجود ہے جس کو دار الدعوہ کہاگیا ہے۔
آپ نے مرسلہ صفحات کے حسب ذیل جملے کی طرف اشارہ کیا ہے: ثم تنقسم الأرض من حیث کونہا داراً إلیٰ ’’دار إجابۃ‘‘ و ’’دار دعوۃ‘‘ وکلاہما ’’دارإسلام‘‘ (پھر زمین بحیثیت ایک دار کے، دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، دارِ اجابت اور دارِ دعوت، اور دونوں دارِ اسلام ہیں)۔
مصنف کے اِس جملے میں دارِ دعوت کا لفظ ضرور ہے، لیکن اصل عبارت میں اس کا مفہوم بالکل واضح نہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ زمین دارِ اجابت اور دار دعوت میں منقسم ہے، اور یہ دونوں ہی دار، بیک وقت دار اسلام ہیں۔ یہ جملہ صرف مصنف کے کنفیوژن کو بتاتا ہے۔ دار دعوت اور دار اسلام کی اصطلاحیں دو مختلف مِنطقوں کے درمیان فرق کو بتانے کے لیے ہیں، لیکن جب دونوں اصطلاحوں کو ایک کہہ دیا جائے تو دونوں کے درمیان فرق سِرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اِسی کا نام کنفیوژن ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے کسی مفروضہ مفہوم کے تحت، دار دعوت کا لفظ تو استعمال کیا، مگر اُن پر یہ واضح نہیں تھا کہ دارِ دعوت حقیقتاً کیا ہے۔ دارِ دعوت یا دار الدعوہ در اصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ غیر مسلموں کی نسبت سے مسلمانوں کی جو ذمّے داری ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان ان کے اوپر دعوت الی اللہ کے عمل کو انجام دیں۔ لیکن جب دارِ دعوت اور دار اسلام دونوں کو ایک کہہ دیا جائے تو دار الدعوہ کی وہ نوعیت ہی گُم ہوجاتی ہے جس کی وضاحت کے لیے یہ اصطلاح وضع کی گئی ہے۔
اصل یہ ہے کہ دماغ میں جب وضوح (clarity) ہو تو آدمی ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کرکے دیکھنے کے قابل ہوتا ہے، لیکن جب دماغ میں کنفیوژن ہو تو آدمی فرق کو نہیں سمجھ پاتا اور وہ ایک قسم کے فکری تضاد میں مبتلا رہتا ہے۔ مثلاً ایسا آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ برّ صغیر ہند، دو منطقوں میںتقسیم ہے۔ انڈیا دارِ دعوت ہے اور پاکستان دار اسلام، اور پھر دونوں بیک وقت دار الاسلام ہیں۔ اِس قسم کی بات کہنے والے کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ امتحان کی اصطلاح میں مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ یعنی وہ انڈیا کی شرعی نوعیت سے بھی بے خبر ہے اور پاکستان کی شرعی نوعیت سے بھی بے خبر۔
میںعرض کروں گا کہ یہ کوئی صحیح علمی طریقہ نہیںکہ آدمی ایک بیان دے اور پھر جب وہ بیان غلط ثابت ہوجائے تو وہ اپنی غلطی کا کھُلا اعتراف نہ کرے بلکہ غیر متعلق باتیں بول کر یہ ظاہر کرے کہ اس کا بیان درست تھا۔ اس قسم کی روش نفسیات کی اصطلاح میں، کمزور شخصیت(weak personality) کا ثبوت ہے۔ جو آدمی کمزور شخصیت کا حامل ہو اس کو اپنی اِس روش کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا علمی ارتقا مستقل طورپر رُک جائے اور وہ اعلیٰ فکری ترقی کا تجربہ نہ کرسکے۔
نئی دہلی، ۹مارچ ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
اِس خط کے بعد مولانا غطریف شہباز ندوی کی طرف سے ان کا ایک خط ملا۔ اپنے اس خط میں انھوں نے اعتراف کرکے اِس بحث کو ختم کردیا تھا۔ ان کا یہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب مد ظلہم العالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ موصول ہوا۔ اس ناچیز کے لیے آپ نے زحمت اٹھائی اس کا شکریہ۔ آپ نے جو کچھ تحریر فر مایا ہے میں اس کے لفظ لفظ سے متفق ہوں۔ اس سے پہلے ایک خط میں اپنی یہ غلطی صاف طور پر قبول کرچکا ہوں کہ دنیا کے دار دعوت ہونے کے سلسلے میں یوسف القرضاوی وغیرہ کی طرف جو بات میں نے منسوب کردی تھی وہ میری غلطی تھی۔ ہاں ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ بعض علما، قدیم فقہاء و علماء کے برعکس، دنیا کو دو داروں دار الاسلام و دار الحرب میں تقسیم کرنے کے سلسلے میں کچھ نئے انداز سے سوچنے لگے ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر محمد محروس مدرس الاعظمی کے مضمون کی اردو تلخیص کا ایک تراشہ بھی آپ کی خدمت میں راقم نے روانہ کیا تھا۔ اس مسئلے میں آپ کے استثناء کے ساتھ باقی اکثر علماء کوئی نئی بات کہنی بھی چاہتے ہیں تو گول مول انداز میں کہتے ہیں۔ ایسی ہی بعض تحریروں کے مطالعہ سے غلطی سے راقم نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ بعض علماء دنیا کو دار الدعوہ سمجھنے اور کہنے لگے ہیں۔ یہ بات اگر بعض علماء کی نسبت سے صحیح بھی ہو تب بھی بغیر حوالہ کے ایسا کہنا درست نہ تھا۔
بذریعہ فیکس طٰہ جابر العلوانی کی تحریر کا جو صفحہ میں نے روانہ کیا تھا اُس کا مقصد اپنی کسی بات کی پچ کرنا نہیں تھا بلکہ آپ کے سامنے صرف یہ رکھنا تھا کہ بعض جدید عرب علماء بھی اِس انداز میں سوچتے ہیں۔ باقی علوانی کی اِس تحریر پر آپ کا نقد نہایت مضبوط ہے۔ آپ کا یہ فرمانا بھی بالکل بجا ہے کہ موجودہ دور کے تمام علماء و فقاء اس موضوع پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ خاکسار کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی اکثریت قدیم فقہی لٹریچر اور مصطلحات کی اسیر ہے۔ وہ اس نپے تلے فقہی چوکھٹہ سے باہر آنے کی ہمت نہیں کرپاتے، لہذا ان کی ساری بحث دار الکفر دارالاسلام، پھر دار الکفر کی مزید تقسیمات دار العہد، دار الامن ودار الحرب وغیرہ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ نتیجہ میں کنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے۔
آپ چوںکہ نئے انداز سے سوچنے کی ہمت اور اجتہادی بصیرت رکھتے ہیں اور عصری اسلوب میں اپنی بات کہنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ لھٰذا آپ کی تحریروں میں غموض اور ابہام کی جگہ شجاعت اور وضاحت پائی جاتی ہے۔ جو ایک پڑھے لکھے قاری کو اپیل بھی کرتی ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجئے کہ عرب ہوں یا عجم، مسلم امت ان چیزوں کو ابھی تک محض روایتی انداز میں دیکھنے اوربرتنے کی عادی ہے۔ عام علماء اور وہ لوگ جو مزعومہ تحریکات اسلامیہ سے وابستہ ہیں دعوت دعوت تو ضرور چلاتے ہیں، لیکن وہ دعوت کو آخرت سے جوڑنے اور اسے ہر صاحبِ ایمان کی ذاتی، دینی ، انسانی و اخلاقی ذمہ داری کے بجائے ’’امامتِ عالم اورقیادت عالم‘‘ کے مزعومہ تصورات سے ہی جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں۔ لھٰذا دعوت ان کے ہاں بھی ذمہ داری سے زیادہ فخر و مباہات کی نفسیات کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ ’’ہم ہی خیر امت ہیں‘‘ ایک دعوے کے طور پر دہرایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ انقلابی تحریکات، اسلام سے زیادہ مسلم قومیت کے خود ساختہ تصور کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اسلامی دعوت کی صحیح اور واضح ترین نمائندگی صرف آپ کی فکر کرتی ہے۔
مسلمان ،تحریکی لوگ ہوں یا علماء سب آپ سے مخاصمانہ رویہ برتتے ہیں اِس لیے وہ آپ کی دعوت اور فکر سے بھی عام مسلمانوں کو کاٹ دینے کی کوشش دانستہ کرتے رہتے ہیں۔
آپ اسے مبالغہ یا کذب بیانی خیال نہ فرمائیں۔ موجودہ علماء و مفکرین میں مجھے سب سے زیادہ آپ کی ہی تحریریں پسند ہیں۔ مسلم -سیاسی فکر، قانون بین الاقوامی، مسلمانوں کے غیر مسلم دنیا سے تعلقات کی نوعیت (مسالمہ یا محاربہ) وغیرہ، مختلف موضوعات پر خاکسار کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا ہے۔ آپ بھی رہنمائی فرمائیں۔
والسلام غطریف شہبار ندوی
ان کا یہ خط ملنے کے بعد میںنے انھیں ایک مختصر تحریر روانہ کی جو یہاں نقل کی جاتی ہے:
بر ادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۶ ملا، شکریہ۔ اب اِس موضوع پر آپ سے خط وکتابت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۷؍ اپریل ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں