خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۷
۱۔ بی بی سی (لندن) کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین زَین نے ۴؍اگست ۲۰۰۶ء کوصدر اسلام مرکز کا ایک انٹرویو رکارڈ کیا ۔ سوالات کا تعلق، اس مسئلے سے تھا کہ اسلام میں انٹر کاسٹ شادی کے بارے میں کیا حکم ہے۔ جوابات کے دوران بتایا گیا کہ یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سماجی مسئلہ ہے۔ اسلام میں مذہبی بنیاد پر کوئی کاسٹ سسٹم نہیں ہے۔ ایک کاسٹ اور دوسری کاسٹ کے درمیان شادی بالکل جائز ہے۔ فقہِ حنفی میں کُفو کی بنیاد پر جو مسئلہ ہے وہ بھی کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ سماجی ضرورت کے تحت بنا ہے۔ انڈیا کے مشہور عالم مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کُفو کے مسئلہ کے سخت مخالف تھے۔
۲۔ اٹلی (روم) سے ۵۵ عورتوں اور مَردوں کی ایک ٹیم نئی دہلی آئی۔ دوسری مصروفیات کے علاوہ انھوں نے کنا ٹ پلیس (نئی دہلی) میں ۵؍اگست ۲۰۰۶ کو ایک خصوصی اجتماع کیا۔ یہ اجتماع پارک ہوٹل کے ہال میں ہوا۔ ان کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اور تقریباً ایک گھنٹہ امن اور اسلام کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس کے بعدآدھ گھنٹہ سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اِس خطاب میں اسلام کا تعارف پیش کیا گیا۔ سوال جواب کے دوران،اسلام کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی گئی۔ تقریر کے بعد ان لوگوں نے خود سے یہ کیا کہ ترانے کے انداز میں ان کے لیڈر مسٹر ماریہ یہ کہتے— بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ، اللہ، اور لا الٰہ الا اللہ اور مجمع میں بیٹھے ہوئی تمام اطالوی عورت اور مرد اس کو بلند آواز سے دہراتے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ اور پورے پروگرام کی ویڈیو رکارڈنگ کی گئی۔ اس کا کیسٹ ہمارے دفتر میں موجودہے۔ ان لوگوں نے اسلام کی تمام تعلیمات سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے آخر میں یہ سوال کیا کہ اسلام جب اتنا پُرامن اور فطری صداقتوں کا حامل مذہب ہے تو پھر مسلمان اسلامی تعلیمات کے برعکس کیوں ہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام اور مسلمانوں میں فرق ہے۔ اسلام کو جاننے کے لیے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ موجودہ مسلم کمیونٹی کا۔
۳۔ نئی دہلی میں مقیم رٹائرڈ جنرل ڈاکٹر چھبّر نے اپنے طور پر اسلامی مرکز کی کتابیں پاکستان کے کچھ لوگوں کو بھجوائیں۔ ان میں سے ایک، جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد صاحب تھے۔ قاضی موصوف کو یہ کتابیں مل گئیں۔ ا س کے بعد انھوں نے جنرل چھبّر کے نام اپنے خط مؤرخہ ۵؍اگست ۲۰۰۶ میں اس کو اکنالیج کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں:
Kindly convey my heartly gratitude to Maulana Wahiduddin Khan sahib for sending his scholarly piece "Mutala-e-Seerat" to me, Indeed, this book is an invaluable addition to my reading shelf.
۴۔ جرمنی سے ایک خط اسلامی مرکز کے دفتر میں آیا ہے۔ وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
I wrote you few years back and I wanted to translate the book “Moral Vision of Islam” in German. Today I found someone who wants to publish the book “Islam and Peace”. Could you kindly send me a detailed biodata of Maulana Wahiduddin Khan, so I can pass it to the publishers. The link, which says something about Maulana Wahiduddin Khan cannot be opened. Please could you pass this on, after asking Maulana Sahib, whether he wants me to translate his book “Islam and Peace” in German. Few years ago he gave me the authority to translate his book “Vison of Islam”.
I would be very thankful, if you could answer me as quick as possible. 8, August 2006
(Samina Khan (Germany)
۵۔ دہلی میں دوردرشن پر ایک اردو چینل کا افتتاح کیاگیا ہے ۔۱۶؍اگست ۲۰۰۶ کو اس کا پہلا پروگرام ریکارڈ کیاگیا۔ یہ رکارڈنگ خان پور مارکیٹ کے ایک اسٹوڈیو میں ہوئی۔ اس میں تین افراد کو بلایا گیا تھا۔ میرے سوا، مولانا جلال الدین عمری اور تیسرے ایک ہندو تھے جن کا نام موہن جی داس تھا۔ یہ ایک پینل ڈسکشن تھا جس کا عنوان یہ تھا: مسلمان اور دہشت گردی۔ اینکر کا فریضہ ماجد دیوبندی صاحب نے ادا کیا۔ میںنے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک حقیقی امیج ہے، اور دوسری میڈیا امیج۔ یہ مسلمانوں کی میڈیا امیج ہے کہ وہ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ مگر حقیقی امیج ایسی نہیں۔ کچھ لوگ تشدد کا طریقہ ضرور اختیار کرتے ہیں لیکن بقیہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کھلے طورپر ان کی مذمت کریں۔ تاکہ تشدد کا فعل صرف چند مسلمانوں کا فعل سمجھاجائے نہ کہ پوری مسلم کمیونٹی کا۔
۶۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۲؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترمسلم مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ ـتھا کہ مسلمانوں کے مسائل کی جڑ ان کی اپنی نااہل قیادت ہے۔ اور نااہل قیادت مسلمانوں کے اوپر اس لیے مسلط ہوئی کہ مسلمان تعلیم میں پچھڑ گئے۔ اس لیے وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ وہ جذباتی نعروں کے پیچھے دوڑتے رہے۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھایا جائے، خاص طور پر جدید تعلیم میں۔
۷۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۲۳؍ اگست ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ خطاب کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
اِس موضوع پر پہلے ۴۵ منٹ کا خطاب ہوا۔ اس کے بعد ۱۵ منٹ تک سوال وجواب ہوا۔ پروگرام کے آخر میں لوگوں کو اسلامی کتابیں تقسیم کی گئیں۔ اور یہ بتایا گیا کہ ویب سائٹ کے علاوہ آپ لوگ زی جاگرن ٹی وی پر روزانہ صبح کو سات بج کر بیس منٹ پر صدر اسلامی مرکز کی تقریر سن سکتے ہیں۔
۸۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر رمیش شرما نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ تفصیلی انٹرویو ۲۵؍ اگست ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر وندے ماترم کے مسئلے سے تھا۔ چوں کہ مختلف تنظیموں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ۷ ستمبر ۲۰۰۶ کو پورے ملک میں وندے ماترم گایا جائے، اور ہر فرقے کے لوگ اس میں شریک ہوں۔ ۷ ستمبر ۲۰۰۶ کو اِس نظم کی اشاعت پَر سو سال پورے ہوجائیں گے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اِس معاملے میں ہندو اور مسلمان دونوں غلو کا شکار ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وندے ماترم گانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ اِس کے مؤیّدین یہ کہتے ہیں کہ وندے ماترم دیش بھگتی کی اسپرٹ جگانے کے لیے ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ وندے ماترم ایک سو سال سے برابر گایا جارہا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اسکول اور جلسے ہر جگہ ،مگر نتیجہ برعکس ہے۔ اِس مدت میں دیش بھکتی تو نہیں بڑھی، البتہ دولت بھکتی خطرناک حدتک بڑھ گئی ہے۔ ایسی حالت میں ۷ستمبر کا دن اِس معاملے پر ری اسیس منٹ(reassessment) کے طور پر منایا جانا چاہیے نہ کہ خوشی کے طور پر۔
۹۔ نئی دہلی کے بہائی ہاؤس آف ورشپ (لوٹس ٹمپل میں ۲۷؍اگست ۲۰۰۶ کو ایک اجتماع ہوا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Human being: The Living Dwelling Place of the Divine
اس کی دعوت پر اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اِس موضوع پر خطاب کیا۔ ایک بات انھوںنے یہ کہی کہ مذہبوں کے درمیان جھگڑا زیادہ تر کٹّر پن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کو اسلام میں غلو کہاگیا ہے۔ غلو کا مطلب ہے انتہا پسندی(extremism) ۔
۱۰۔ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۲۹؍ اگست ۲۰۰۶ کو ایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس میں کئی لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع ’کمیونل ہارمنی‘ تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے بھی اس کی دعوت پر اس پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتایا کہ ہندستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیسے لائی جاسکتی ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کسی بھی سماج میں اختلاف کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اختلاف سے ٹکرانے کے بجائے اس کو نظر انداز کریں۔ وہ ڈفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلے کو حل کریں۔ وہ کسی بھی حال میں احتجاج اور مظاہرہ اور تشدد کا طریقہ نہ اختیار کریں۔ اِس پروگرام میں سوامی اگنی ویش، تارا بھٹا چاریہ، پروفیسر کمار، وغیرہ شریک ہوئے۔
۱۱۔ جَن مت ٹی وی (نئی دہلی) کی نمائندہ مزورمانی (Jyoti Virmani) نے ۳۰؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو اِس سوال پر تھا کہ انشورنس کروانا، مسلمان کے لیے جائز ہے کہ نہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ ہر چیز کو جائز اور ناجائز کا مسئلہ بنانا، یہ خود اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ سب سے پہلے حالات کو دیکھا جاتا ہے۔ حالات کے مطابق، جو چیز قابل عمل ہو اس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ جو چیز قابل عمل نہ ہو اس پر فتویٰ دینا یہ خود اسلام کے خلاف ہے۔ کیوں کہ ایسا فتویٰ اپنے نتیجے کے اعتبار سے کوئی اصلاح کی بات نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی تصغیر کے ہم معنیٰ ہے۔
۱۲۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین نے ۳۱ ؍ اگست ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع ’حج سبسڈی، تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ حج سبسڈی، جو گورنمنٹ کی طرف سے دی جاتی ہے وہ بالکل جائز ہے، اس میں ناجائز کی کوئی بات نہیں ہے۔ تمام مسلم ملکوں میں یہ طریقہ رائج ہے۔ حالاں کہ مسلم رہنما ہر مسلم ملک کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہاں کے حکمراں اسلامی اصولوں پر حکومت کا نظام نہیں چلاتے۔ مسلمان اپنے دنیوی حقوق کے معاملے میں جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندستان کی حکومت اُسی طرح ہماری حکومت ہے جس طرح وہ ملک کے دوسرے باشندوں کی حکومت ہے۔ ایسی حالت میں حج سبسڈی کے بارے میں مسلم ممالک اور ہندستان کے درمیان فرق کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
۱۳۔ جَین ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ اِس اشو پر شور وغل کرنا اور اس کو شرعی مسئلہ بنانا درست نہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی ایک نظم میں برہمن کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
جب مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ اقبال کا یہ شعر بھی اتنا ہی قابل اعتراض ہے جتنا کہ وندے ماترم، تو مسلمان کہتے ہیں کہ اقبال نے جو کہا تھا وہ تو شعر وشاعری کی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بنکم چندر چٹرجی نے اپنے ناول ’آنند مٹھ‘ میں وندے ماترم کی شکل میں جو گیت شامل کیا وہ بھی تو ناول اور شعر و شاعری کی بات ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ یا تو دونوں کے خلاف ہنگامہ کریں یا دونوں کو نظر انداز کردیں۔
۱۴۔ شانتی گِری آشرم (نئی دہلی) کا سالانہ فنکشن ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کو تھا۔ شانتی گری آشرم کا مرکز کیرلا (تری وندرم) میں ہے۔ اس کے فاؤنڈر کُروناکراگرو ہیں۔ وہ ایک مسلم صوفی قریشیہ فقیر کے شاگرد مانے جاتے ہیں۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں کئی ممتاز افراد کی تقریر یں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں قرآن اور حدیث کی روشنی میںبتایا کہ امن اور انسانیت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ اِس موقع پر تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ان لوگوں کے درمیان اسلامک لٹریچر اور دعوہ بروشر تقسیم کیا گیا۔ کئی لوگوں سے اسلام کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔
۱۵۔ بی بی سی کے نمائندہ مسٹر عبد الباقی مرزا نے ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کی شام کو ایک انٹرویو رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو کار پر سفر کے دوران رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ جواب میں ایک بات یہ کہی گئی کہ وندے ماترم نہ گیتا میں آیا ہے اور نہ ویدوں میں۔ وہ صرف بنکم چندرچٹر جی کے ناول ’آنند مَٹھ‘ میں آیا ہے۔ اس لیے وہ کوئی مذہبی اِشو نہیں۔ یہ ایک پولٹکل اِشو ہے۔ ایسی حالت میں وندے ماترم پڑھنے کو مذہبی اہمیت دے کر اس کے خلاف ہنگامہ کرنا درست نہیں۔
۱۶۔ ۵ستمبر ۲۰۰۶ کو دور درشن (اردو) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ یہ انٹرویو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ انٹرویور مسٹر تحسین منور تھے۔ یہ پورا انٹرویو نظام الدین ویسٹ کے پارک میں رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق، اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام اوردورِ جدید میںکوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اسلام ایک ابدی مذہب ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میںبیان کیا جائے۔
۱۷۔ ہندی اخبار کے نمائندہ مسٹر کرشن موہن مشرا نے ۷ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ وندے ماترم کو پڑھانے پر اس لیے زور دیا جاتا ہے کہ اس سے ملک میں دیش بھکتی آئے گی۔ مگر سو برس سے وندے ماترم پڑھا جارہا ہے، مگر اب تک ملک میں دیش بھکتی کو فروغ حاصل نہ ہوسکا۔ ایسی حالت میں ضرورت ہے کہ اِس معاملے پر نظرِ ثانی کی جائے، نہ کہ اس کو پڑھانے کی دھوم مچائی جائے۔
۱۸۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اسی دن صبح ۹ بجے کے لائیوٹیلی کاسٹ میںنشر کیاگیا۔ آج ہی ۱۴ ستمبر کے اخباروں میںیہ خبر آئی ہے کہ مسیحی پوپ نے اپنی تقریر میںکہا کہ اسلام کے پیغمبر نے یہ تعلیم دی ہے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعے پھیلاؤ۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسلام میں تلوار کا استعمال صرف وقتی اور استثنائی طورپر دفاع کے لیے کیاگیا۔ اسلام کی اشاعت کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ حضرت مسیح نے کہا تھا کہ: ’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں، بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں‘‘۔ (متّٰی: ۳۵) حضرت مسیح کے اِس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تلوار کا مذہب لے کر آئے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام بھی تلوار کا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ وہ امن کا مذہب لے کر آئے۔
۱۹۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو اسلامی مرکز کے دفتر میں آئی اور صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویور مسٹر شارق تھے۔ یہ انٹرویو پوپ کے اُس بیان سے متعلق تھا جو ۱۴ ستمبر کے اخبارات میں چھپا ہے۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ پوپ کا بیان ایک کنفیوژن پر مبنی ہے۔ قرآن میں قتال کی بات ضرور کی گئی ہے مگر وہ صرف دفاع کے لیے ہے۔ پوپ نے یہ کیا کہ قتال کی بات کو اسلام کی تبلیغ سے جوڑ دیا۔
۲۰۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) کے نمائندہ مسٹر ثقلین امام نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسیحی پوپ کے اُس بیان سے تھا، جو ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو مختلف اخباروں میں شائع ہوا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں، وہ پچھلے مذاہب کا محفوظ ایڈیشن ہے۔ اسلام میں یہ اصول نہیں ہے کہ تلوار کے ذریعے اسلام کو پھیلایا جائے، بلکہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ— لاإکراہ فی الدین(البقرہ ۲۵۶) اسلام میں تلوار کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہے، کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔
۲۱۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ’’مقابلہ‘‘ چینل پر ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو لائیو ٹیلی کاسٹ تھا ۔ ان کا موونگ اسٹوڈیو دفتر کے سامنے روڈ پر آیا اور اِس طرح انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع مسیحی پوپ کا بیان تھا جو ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو میڈیا میں آیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ پوپ کا بیان ایک فکری چیلنج ہے، وہ کوئی مسلح حملہ نہیں۔ اس لیے اس کا جواب بھی فکری سطح پر دینا چاہیے۔ سڑکوں پر مظاہرہ کرنا، یا متشددانہ ردّ عمل ظاہر کرنا اس کا جواب نہیں۔
۲۲۔ ہندی روزنامہ دینک جاگرن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مسیحی پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ آزادیٔ تقریر کا زمانہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ زمانہ سائنٹفک استدلال کا زمانہ ہے۔ پوپ، یا اس قسم کے لوگ اپنی آزادیٔ رائے کے حق کو تو استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ زمانہ سائنٹفک استدلال کا زمانہ ہے۔ علمی دلیل کے بغیر رائے کا اظہار، زمانے کی اسپرٹ کے سراسر خلاف ہے۔
۲۳۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکرن کے نمائندہ مسٹر دویدی نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جواب کے تحت بتایا گیا کہ پوپ نے یہ بات اپنی ایک تقریر میں کہی، جس کا عنوان تھا— فیتھ اینڈ ریزن:
Faith and Reason
یہ عجیب بات ہے کہ انھوں نے اپنے سات صفحے کے لکچر میں یہ کہا کہ مذہب کی تعلیمات کو عقلی دلائل کی روشنی میں بیان کرنا چاہیے، لیکن خود انھوں نے اسلام پر جو منفی ریمارک دیا اس کی کوئی علمی دلیل اپنے طویل لکچر میں انھوںنے پیش نہیں کی۔
۲۴۔ انگریزی روزنامہ دکن ، ہیرالڈ کی نمائندہ مز شو بھا مکھرجی نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق ، زیادہ تر اِس سے تھا کہ پوپ بینڈکٹ نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی ہے۔ اس کے بعد اس معاملے میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اب پوپ کے خلاف اپنی احتجاجی مہم کوختم کردیں۔ البتہ یہ کام بدستور باقی ہے کہ پوپ نے اسلام کی نسبت سے جوسوالات اٹھائے ہیں ان کی مدلّل وضاحت کی جائے۔ مثلاً یہ کہ تشدد کا کوئی تعلق، اسلام سے نہیں۔ جو مسلمان متشددانہ تحریک چلاتا ہے وہ اسلام سے انحراف کرکے ایسا کررہا ہے۔
۲۵۔ زی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق پوپ بینڈکٹ کے حالیہ بیان سے تھا جس میں انھوںنے کہا تھا کہ اسلام کا کوئی مثبت کنٹری بیوشن انسانی تاریخ میں نہیں۔ اس کے جواب میں یہ بتایا گیا کہ پوپ کا یہ دعویٰ بالکل بے اصل ہے۔ اپنے سات صفحے کے پیپر میں انھوں نے اس کی کوئی دلیل نہیںدی۔ ان کا ایک دعویٰ یہ تھا کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا۔ بتایا گیا کہ اصل واقعہ اس کے برعکس ہے۔ اسلام اپنی نظریاتی طاقت سے پھیلا، نہ کہ تلوار کی طاقت سے۔ خود مغربی مصنفین نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً ٹامس کارلائل، اور ٹی ڈبلو آرنلڈ، وغیرہ۔ اس کے انٹرویور مسٹر راجیو (Rajeev Ranjan) تھے۔
۲۶۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔سوال کا تعلق ، زیادہ تر اس مسئلے سے تھا کہ مسیحی پوپ نے اسلام کے خلاف جو ریمارک دیا تھا اس پر اس نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ ایسی حالت میں اب اِس معاملے میں مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہونی چاہیے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ معافی کو فوراً قبول کرلیا جائے اور معاملے کو بالکل ختم کردیا جائے۔
۲۷۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر رائے (Amritanshu Rai) تھے۔ سوالات کا تعلق اِس مسئلے سے تھا کہ شریعت میں فتویٰ کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فتویٰ کا مطلب ایک مفتی کی ذاتی رائے ہے۔ کوئی مفتی اپنی یہ ذاتی رائے اُس وقت دیتا ہے جب کہ کوئی شخص خود اپنے ذاتی معاملے سے متعلق، مفتی کی رائے جاننا چاہے۔ ۔ یہ طریقہ، فتویٰ کا غلط استعمال ہے کہ مسئلہ کسی اور کا ہو اور سوال کوئی اور شخص کرے۔ اِسی طرح یہ بھی فتویٰ کا غلط استعمال ہے کہ مفتی اپنی حد سے باہر جاکر ایسے مسئلے میں فتوے جاری کرے جس کا تعلق، عدالت اور حکومت سے ہو۔
۲۸۔ دہلی کے ٹی وی چینل ۷ نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویور مسٹر جتارتھ (Jitarth) تھے۔ سوالات کا تعلق مسیحی پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جوابات کے تحت جو بات کہی گئی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ پوپ کے اِس بیان کے خلاف ویسا سخت رد عمل ہونے والا نہیں ہے جو ڈنمارک کے کارٹون کے خلاف ہوا تھا۔ ۱۵ ستمبر کو جمعہ کے عبادتی اجتماع کی وجہ سے وقتی طورپر کچھ مظاہرہ ہوگیا، لیکن الگ سے اِس اِشو پر کچھ ہونے والا نہیں۔
۲۹۔ الامین پبلک اسکول (کوچن) کے تحت، ۱۶ستمبر ۲۰۰۶ کو ایک انٹراسکول اسلامک کوئز (InterSchool Islamic Quiz) منعقد کیا گیا۔ اسکول کی فرمائش پر ان کو گُڈ ورڈ کی اسلامی کتابیں بھیجی گئیں۔ جو وہاں کامیاب طلبا کو بطور انعام دی گئیں ۔ اس سلسلے میں اسکول کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
We are gald to inform you that the Inter-School Religious Quiz, which was held on 16th Sept. 2006, was a grand success with three senior students from around 30 schools participating from various districts of Kerala. Al-Ameen Public School, Edappally, sponsored the individual trophies and the trophy for the winning schools along with cash prizes. Apart from these above prizes, all participants were given gift hampers consisting of the Quran with Malayalam translation, Islamic Books, World Atlas and Parker Pen. Escorting teachers of the various schools were given a set of Parker Pen.
Further an Islamic Quiz Competition was also held for the parents and escorting teachers of various schools and prizes were distributed for the winners.
We take this opportunity to thank your good self for your wholehearted contribution for this noble cause without which we would not have been able to make this programme a grand success.
May Allah Almighty reward you and give the best in this life and hereafter.
With regards,
(Mrs. Fahmida Fiaz) (Mrs. Jayaprabha Pradeep)
Religious Quiz Coordinator Principal
۳۰۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق، فتویٰ اور شریعت کے مسئلے سے تھا۔ جواب میںبتایا گیا کہ آج کل جس طرح فتوے کا استعمال کیا جارہا ہے وہ درست نہیں۔ آج کل کی زبان میں یہ فتویٰ ایکٹوزم ہے، اور اسلام کی تعلیم کے مطابق، کرنے کا اصل کام ایجوکیشن ایکٹوزم ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم۔
۳۱۔ ۲۳ستمبر ۲۰۰۶ کو انڈیا ہبی ٹیٹ سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار خدا کے موضوع پر تھا۔ اس سیمنار میںموضوع کے تین پہلو زیرِ بحث آئے— خدا کا وجود، خدا اورنیچر، عقیدۂ خدا کا اثر زندگی پر۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور وہاں مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی ٹیم نے یہاں لوگوں سے دعوتی ملاقات کی اور ان کے درمیان دعوتی بروشر تقسیم کیے۔
۳۲۔ انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر (نئی دہلی) میں لائف پازیٹیو کے تحت، ایک نمائش (Expo) منعقد کی گئی۔ وہ ۲۲ـ۲۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو ہوئی۔ اِس موقع پر مختلف اداروں کے اسٹال وہاں لگائے گیے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے بھی یہاں اسٹال لگایا گیا۔ کتابوں کے ساتھ یہاں ایک ٹی وی سیٹ بھی رکھا گیا تھا جس میں صدر اسلامی کی تقریر مسلسل دکھائی جاری تھی۔ کافی لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
۳۳۔ جھارکھنڈ کے ہندی روزنامہ ’’پربھات خبر‘‘ کے نمائندہ مسٹر نشانت بھاردواج نے اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۶ کو یہ انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیاگیا۔ یہ انٹرویو مسٹر گُرائینم کی کتاب کے بارے میں تھا۔ اِس کتاب میں کئی باتیں مسلم نقطۂ نظر کے خلاف لکھی گئی ہیں، مثلاً کامن سوِل کوڈ اور وندے ماترم وغیرہ۔ جواب میں کہاگیا کہ موجودہ دستور کی موجودگی میں اِس طرح کی باتیں قابلِ عمل نہیں۔ اور جو بات قابلِ عمل نہ ہو اُس پر لکھنا اور بولنا، صرف منفی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس سے صرف لوگوں کی سوچ بگڑتی ہے، لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بعض اوقات یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی بولنے کے بجائے چُپ رہے۔
واپس اوپر جائیں