سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)
دعوت حق کی تاریخ میں دوگروپ کے لیے دو بڑا رول مقدرتھا۔ ایک وہ گروپ جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جس کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کے الفاظ آئے ہیں۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول ساتویں صدی عیسوی میں پوری طرح ادا کردیا، اخوانِ رسول کا رول باقی ہے جس کو بعد کے زمانے میں انجام پانا ہے۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دور میں انجام دیا تھا۔ اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے—سی پی ایس کی ٹیم اسی دوسرے رول کے لیے امیدوار گروپ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اب وہ وقت پوری طرح آچکا ہے جب کہ دوسرے دَور کا دعوتی رول عالمی سطح پر انجام دیا جائے۔ تمام قرائن اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کسی بھی سنجیدہ انسان کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل کام نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص غیر سیاسی تنظیم ہے۔ کسی بھی مادّی یا قومی اشو سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ براہِ راست طور پر اور نہ بالواسطہ طورپر۔ سی پی ایس کا واحد کنسرن یہ ہے کہ تمام انسانوں کو اُن کے حقیقی مقصدِ حیات سے باخبر کیا جائے۔ سی پی ایس کا نشانہ ہے—سائنسی دَور میں خدائی سچائی کا اعلانِ عام:
Proclamation of divine truth in modern scientific age.
انسانی تاریخ دو دوروں میں تقسیم ہے۔ ابتدائی زمانے سے لے کر پندرہویں صدی تک، سولھویں صدی سے لے کر موجودہ زمانے تک۔ (۱) پہلا زمانہ وہ ہے جب کہ دنیا میں توہّم پرستی (superstition) کا غلبہ تھا۔ (۲) دوسرے زمانے میں ساری دنیا میں سائنسی فکر کا غلبہ ہوگیا ہے۔پہلے دور کو قبل سائنس دَور (pre-scientific age) کہا جاسکتا ہے۔ اور دوسرے دَور کو عام طور پر بعدسائنس دَ ور (post-scientific age) کہا جاتا ہے۔
قبل سائنس دور میں انسان کو سب سے زیادہ بڑی چیز وہ دکھائی دیتی تھی جس کو مظاہر فطرت کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس زمانے کے انسان نے ہر اُس چیز کو معبود سمجھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا جو بظاہر بڑی اورنمایاں دکھائی دیتی تھی۔ مثلاً چاند، سورج، ستارے، پہاڑ اور دریا، وغیرہ۔یہی وہ زمانہ ہے جب کہ ساری دنیامیں بت پرستی رائج ہوئی۔ اس زمانے میں بُت، انسان کے لیے توحید کا مدّ مقابل بن گیے۔
ابراہیم بن آزر خدا کے ایک پیغمبر تھے۔ وہ چار ہزار سال پہلے عراق میں ظاہر ہوئے۔یہ زمانہ وہی تھا جس کو توہم پرستی کا زمانہ کہاجاتا ہے۔ اس زمانے میں تمام لوگ سورج، چاند اور ستارے جیسی نمایاں چیزوں کو معبود سمجھ کر ان کو پوجنے لگے تھے۔ قرآن (ابراہیم ۴) کے بیان کے مطابق، پیغمبر نے اُس دَور کے انسانوں کے بارے میں یہ تبصرہ کیا تھا: ربّ إنہنّ أضللن کثیراً من الناس(اے میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھٹکا دیا) یعنی لوگوں نے ان مظاہرِ فطرت کی ظاہری چمک کو دیکھ کر انھیں معبود سمجھ لیا۔
پچھلے ہزاروں سال کے دَوران خدا نے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ ان پیغمبروں کا مشترک مشن یہ تھا کہ وہ انسانوں کو مظاہر فطرت کی پرستش سے نکالیں اور اُن کو حقیقی خدا جو صرف ایک ہے، اس کا پرستار بنائیں۔ مگر انسان مظاہر پرستی کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوا۔ چھٹی صدی عیسوی کے آخر تک یہی صورت حال باقی رہی۔
آخر کار پیغمبرِ اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں خدا نے ان کو اپنا پیغمبر بنایا۔ ان کو یہ مشن سپرد کیا گیا کہ وہ خدا کی خصوصی مددسے قدیم بت پرستی کے دور کا خاتمہ کردیں۔آپ کے اِس مشن کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: ’’وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۸)
اِس آیت میں جس غلبہ (اظہار) کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے، یعنی دینِ شرک کو دلیل کی طاقت سے محروم کردینا اور دینِ توحید کو دلیل کی طاقت سے قائم کردینا۔ اس کام کو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے پوری طرح انجام دے دیا یہاں تک کہ قدیم دور کا خاتمہ ہوگیا اور شرک ایک غالب تہذیب کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔
مابعد سائنس دور میں حالات بالکل بدل گیے ہیں۔ سائنس کے بطن سے جدید صنعتی دَورپیدا ہوا۔ اِس صنعتی دور نے بے شمار قسم کے دل کش سامان حیات پیدا کیے۔ ان سامانوں کو حاصل کرنے کے لیے مال کی ضرورت تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانے میں پہلی بار مال کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام نے اِس طرح بیان کیا ہے: لکلّ أمۃ فتنۃ و فتنۃ امتی المال (الترمذی، کتاب الزہد،مسند احمد) یعنی ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہاں امت سے مراد امت کا زمانہ ہے ۔ یعنی میری امت کے زمانے میں مال سب سے زیادہ فتنے کا سبب بن جائے گا۔
شرک یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کو عظیم سمجھ کر اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا لیا جائے۔ پچھلے زمانے میں مظاہر فطرت سب سے بڑی چیز دکھائی دیتے تھے اس لیے انسان مظاہرِ فطرت کو سب سے بڑی چیز سمجھ کر ان کو پوجتا رہا۔ اب دَور سائنس میں مظاہرِ فطرت کی الہیاتی عظمت ختم ہوگئی ہے۔ اب نیے حالات نے مال کو سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ بڑی چیز بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب بت پرستی (Idol worship) کی جگہ دولت پرستی (money worship) نے لے لی ہے۔ اِس نیے دور کو دوسرے الفاظ میں مادیت(materialism) کہا جاتا ہے۔
مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر مذہب میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک نیا دورِ انقلاب آئے گا جب کہ خدائی سچائی ازسرِ نو ظاہر اور غالب ہوجائے گی۔یہ اظہار یا غلبہ فکری اعتبار سے ہوگا نہ کہ سیاسی اور معجزاتی اعتبار سے۔
مذاہب میں دورِ آخر کے جس انقلاب کی پیشین گئی کی گئی ہے اس سے مراد سائنسی دَور کا انقلاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی دور میں ایک تحریک اٹھے گی جو خدائی سچائی کو نیے حقائق کی روشنی میں ازسرِ نو مُبَرہن کردے گی۔ اس سے مراد کسی قسم کا سیاسی یا مادّی غلبہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ نظری دلائل کا زور دوبارہ خدائی سچائی کے حق میں ہوجائے گا۔ نیے حالات میں خدائی سچائی دوبارہ ایک ثابت شدہ سچائی بن جائے گی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اگر مظاہر شرک، توحید کا مدّ مقابل بنے ہوئے تھے تو اب دورِ حاضر میں مال کو توحید کے مدّ مقابل کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ پچھلے زمانے میں یہ ہوا کہ توحید کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے اور مظاہرِ فطرت کی پرستش کو دلائل کے ذریعے رد کردیا گیا۔ اب بعد کے زمانے میں یہ ہوگا کہ توحید کو وقت کے دلائل کے ذریعے مدلّل کیا جائے گا اور مال پر مبنی مادّی تہذیب وقت کے دلائل کے ذریعے غلط قرار پاجائے گی۔
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں: وددتُ انّا قدرأینا إخواننا، قالوا اولسنا اخوانک یا رسول اللہ۔ قال أنتم أصحابی وأخواننا الذین لم یأتو بعد۔(صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۸) یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان کو دیکھیں۔ انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، اور ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
اِس حدیث میں دو خاص گروہوں کا ذکر ہے— اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول۔ اصحابِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام کے ہم عصر ساتھی تھے۔ جنھوں نے آپ کے ساتھ مل کر دور اول میں خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کیا۔ اور اخوان رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد آنے والے زمانے میں اٹھیں گے اور اُس وقت خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کریں گے۔ اصحابِ رسول کا تعلق قبل سائنس دور سے ہے اور اخوانِ رسول کا تعلق بعد سائنس دور سے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک اسی بعد کے زمانے میں انجام پانے والے کام کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس کے لوگ گویا کہ اُس گروہ میں شمولیت کے امیدوار ہیں جس کو مذکورہ حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مشن بعدسائنس دور میں خدائی سچائی کے اُس مطلوب اظہار کے لیے اٹھا ہے جس کا ذکر پچھلی تمام مذہبی کتابوں میں کیا گیا تھا۔
اخوان رسول کی پہچان کیاہوگی۔ اخوان رسول کی سب سے زیادہ واضح پہچان یہ ہوگی کہ وہ بعدکے زمانے میں ٹھیک وہی کام انجام دیں گے جو اس سے پہلے اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زمانی فرق تو ضرور ہوگا لیکن دونوں کے درمیان کام کے اعتبار سے کوئی فرق نہ ہوگا۔
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں جو کام انجام دیا وہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں خدا کی طرف سے گواہی دینا کہاگیا ہے۔ قرآن میں اصحاب رسول کے لئے شہداء علی الناس (الحج : ۷۸) کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: انتم شہداء اللہ فی الارض (البخاری، کتاب الجنائز)
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی تحریکیں اٹھیں لیکن خالص دعوت الی اللہ کے لیے اصحاب رسول کے بعد اُن کے اندر کوئی بھی تحریک نہیں اٹھی۔ بعد کے زمانے میں ایسے لوگ تو پائے جاتے ہیں جنھوںنے دعوت اور تبلیغ کا لفظ استعمال کیا لیکن ان کے یہاں دعوت کا کوئی حقیقی تصور نہ تھا اور نہ انھوں نے عملی اعتبار سے وہ کام کیا جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت (غیر مسلموں میں تبلیغ) کا تصور شعوری طورپر حذف ہوگیا۔ حتی کہ مسلمانوں کی داخلی اصلاح کے کام کو دعوت کا کام سمجھا جانے لگا۔حالانکہ مسلمانوں میںکئے جانے والے کام کمیونٹی ورک ہیں نہ کہ دعوہ ورک۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پی ایس کی ٹیم اصحاب رسول کے بعد بننے والی پہلی ٹیم ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس بعد کی تاریخ میں بننے والی پہلی ٹیم ہے جو مکمل طورپر دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر اٹھی ہے۔ جس کی ذہنی تربیت یا فکری تشکیل خالص دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ سی پی ایس کی ٹیم ایک ایسی تحریک کے نتیجے میں بنی ہے جس تحریک میں پہلی بار قرآن کی دعوتی تفسیر تیار ہوئی۔ جس میں پہلی بارحدیث کی دعوتی شرح لکھی گئی۔ جس میں پہلی بار پیغمبر اسلام کی دعوتی سیرت مرتب ہوئی۔ جس میں پہلی باراصحاب رسول کے دعوتی رول کو نمایاں کیاگیا۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ اسلام کی سب سے بڑی طاقت اس کی دعوت ہے۔ جس میں پہلی بار وقت کے فکر ی مُستویٰ کے مطابق، اسلامی لٹریچر تیار کیا گیا۔جس میں پہلی بار جدید سائنسی تحقیقات سے مدلل کرتے ہوئے دعوتی اسلوب پر علم کلام تیار کیا گیا۔ جس میں پہلی بار اس حقیقت کا انکشاف کیاگیا کہ جدید دور اپنے تمام اجزاء کے ساتھ موافقِ دعوت دور ہے۔ جس میں پہلی بار یہ انکشاف کیا گیا کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ دشمن یا حریف کی حیثیت نہیں رکھتیں۔جس میں پہلی بار یہ تصور پیش کیاگیا کہ غیر مسلم ممالک ہمارے لیے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر قوم اور ہر زبان میں دعوت الی اللہ کے کام کو آخری حد تک انجام دے ۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کے تمام ملّی مسائل کا حل غیر مسلموں کے اوپر دعوتی ذمے داری کو انجام دینا ہے، کسی بھی دوسری تدبیر سے ان کے ملی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
اصحابِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ اصحاب رسول دراصل اِسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخی پراسس کاculmination تھے۔ یہ بات قرآن میں اشارے کے طورپر اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ موجودہے۔ مگر اصحابِ رسول کے بارے میں اس تاریخی منصوبہ بندی سے تمام تحریکیں بے خبر رہیں۔ اسلام کے بعد کی تاریخ میں بننے والے لٹریچر میں کہیں بھی اس کی نشاندہی نہیں ملتی۔ سی پی ایس کی پشت پر پیدا ہونے والا لٹریچر ہی وہ پہلا لٹریچر ہے جس نے اصحابِ رسول کے متعلق، اس تاریخی منصوبۂ خداوندی کی حقیقت کو نمایاں کیا اور سی پی ایس کی ٹیم کی ذہنی تشکیل کے لیے پہلی بار ایک تاریخی پس منظر فراہم کیا۔
جس طرح اصحاب رسول ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں بنے تھے۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل(process) شروع ہوا۔ اسی عمل کا کلمنیشن (culmination) سی پی ایس کی ٹیم ہے۔ اصحابِ رسول کے دعوتی عمل کے نتیجے میں جو انقلاب آیا اور اس کے نتیجے میں فکری ارتقا کاجو عمل شروع ہوا وہ سب اس لٹریچر میں پایا جاتا ہے جو سی پی ایس کی ٹیم کے وجود میں آنے کی بنیاد بنا۔ گویا اصحابِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن(culmination) تھے تو سی پی ایس کی ٹیم بعد کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس کی ٹیم میں جمع ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دور حاضر میں اخوانِ رسول کا رول کرسکے۔
ساتویں صدی عیسویں میں اصحابِ رسول کا جو گروہ بنا تھا وہ کسی قسم کے کرشمے کے ذریعے نہیں بنا تھا۔ اصحابِ رسول در اصل اعلیٰ ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ وہ قبل سائنس دور کی تمام بہترین روایات کے امین تھے۔ وہ اُس اعلیٰ خدائی منصوبے کا اظہار تھے جو حضرت ابراہیم سے شروع ہوا اور حضرت محمد پر ختم ہوا۔
یہی معاملہ اخوانِ رسول کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر ظہور ِ محمدی کے بعد بننے والی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جن کی شخصیت کی تعمیر دورِ سائنس کے تمام بہترین اجزاء کے ذریعے ہوئی ہو۔جو دینِ حق کے سائنسی اظہار کے نمائندہ بن گیے ہوں۔ ایسے ہی لوگ اخوانِ رسول کا درجہ پانے کے مستحق ٹھیریں گے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ اور وہ معرفت (realization) ہے۔ اصحابِ رسول کا دین گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول کا دین بھی گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم ہوگا۔ گہرے شعورِ معرفت سے مراد ہے سچائی کی ذاتی دریافت، وہ دریافت جو آدمی پر تمام حقیقتوں کے دروازے کھول دے۔ کائنات کا ہر جز جس کے لیے اس کی معرفت کی تصدیق بن جائے۔
خدا کو یہ مطلوب ہے کہ معرفت کی سطح پر خدا کے دین کا اظہار کیا جائے۔قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اظہار حق کے دو دور ہیں۔ پہلا دور وہ تھا جب کہ حق کا اظہار سادہ فطری منطق (natural logic) کی بنیاد پر کیاگیا۔ اس کا بیان قرآن میں اِس طرح ملتا ہے:
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںاور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںغور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا‘‘۔ (آل عمران ۹۴ــ ۹۵)
یہ معرفتِ حق کی وہ سطح ہے جب کہ آدمی تخلیق کی سادہ سطح پر مطالعہ کرکے خالق کو پالیتا ہے۔ وہ کائنات کے سادہ مطالعے کے ذریعے خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ فطرت کی سادہ سطح پر تخلیق کی معنویت کو جان لیتا ہے۔ اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرکے زندگی گزارنے لگتا ہے۔
معرفت حق کی دوسری سطح وہ ہے جو قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والی تھی۔ اس لیے اس کو استقبال کے صیغے میں بیان کیا گیا۔ زمانۂ نزولِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک مستقبل کی بات تھی لیکن اب وہ حال کی بات ہوچکی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت قرآن کے درج ذیل بیان سے واضح ہوتی ہے:
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر کیاگیا ہے اس کو دوسرے لفظوں میں تاریخِ دعوت کا دوسرا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا مرحلہ وہی ہے جس کو عام طورپر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے۔ پہلے دور میں فطری مشاہدے کی سطح پر انسان نے تخلیقِ خداوندی کو دیکھا تھا اور اس سے معرفت کی روشنی حاصل کی تھی۔ دوسرے مرحلے میں دور بینی اور خورد بینی مشاہدے کے ذریعے وہ تخلیقِ خداوندی کے گہرے رازوں کو دریافت کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پہلے دور میںفطرت کے فریم ورک (natural framework) میں خدا کی معرفت حاصل کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں انسان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ سائنسی فریم ورک(scientific framework) کے ذریعے خدا کی گہری اور برتر معرفت حاصل کرسکے۔ معرفتِ حق کے اِن دو اَدوار کو حدیث میں ایک تمثیل کی صورت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: مثل امتی مثل المطر لایدری اولہ خیر ام آخرہ ( الترمذی، کتاب الأدب، مسند احمد، جلد ۳،صفحہ ۱۳۰)
یعنی میری امت کی مثال بارش جیسی ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ اچھا ہوگا یا اس کا دوسرا حصہ ۔اس حدیث میں دراصل تاریخِ معرفت کے مذکورہ دونوں دوروں کو بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب ایمان پہلے دور میں فطرت کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں گے اور دوسرے دور کے اہلِ ایمان کو یہ موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ سائنس کے فریم ورک یا علم انسانی کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں اور دوسروں کے سامنے اس کو پیش کریں۔ ان دونوں دوروں میںایسے لوگ اٹھیں گے جو اپنے زمانے کے اعتبار سے حق کا اظہار کریں گے۔
پہلے زمانے کے لوگ فطری فریم ورک کے ذریعے یہ کام انجام دیں گے اور دوسرے زمانے کے لوگ انسانی علم کے فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے اظہار حق کے اس کام کو انجام دیں گے، یعنی جدید اصطلاح کے مطابق، سائنٹفک فریم ورک کے ذریعے— حدیث میں پہلے دور کے گروہ کو اصحاب رسول کہاگیا ہے اور دوسرے دور کے گرو ہ کے لیے اخوان رسول کے الفاظ آئے ہیں۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول کا زمانہ اگر چہ دو مختلف زمانہ ہوگا لیکن دونوں کا رول پوری طرح یکساں ہوگا، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دو رمیں انجام دیا تھا اور اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کا خصوصی رول کیا تھا، اس کو بتانے کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں: وکذلک جعلناکم امّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً۔ (البقرہ ۱۴۳) یعنی اور اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: أنتم شہداء اللہ فی الأرض (البخاری، کتاب الجنائز) یعنی تم زمین پر خدا کے گواہ ہو۔
اِس کے مطابق، اصحابِ رسول کی حیثیت ایک درمیانی گروہ (middle group) کی ہے۔ انھوںنے یہ کیا کہ انسانیت کے نام خدا کا پیغام رسول سے لیا اور اس کو دوسرے انسانوں تک بے کم وکاست پہنچا یا۔ اب اخوانِ رسول کی حیثیت بھی ایک درمیانی گروہ کی ہوگی۔ رسول کے ذریعے ملنے والا پیغام جو قرآن اور سنت کی شکل میں محفوظ ہے، اس کو بے کم و کاست لینا اور بعد کے زمانے کی انسانی نسلوں تک اس کو پہنچانا۔ اِس معاملے میںاصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کے درمیان اصلاً لسان (ابراہیم ۴) کا فرق ہوگا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے اسلوب اور زبان میںیہ دعوتی کام انجام دیا تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول اپنے زمانے کے عصری اسلوب میں اِس دعوتی کام کو انجام دیں گے۔
بعد کے زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طورپر اِس معیار پر پوری اترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کو بننے والے گروہوں میںکسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
دعوت کیا ہے۔ دعوت سے مراد وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں شہادت اور انذار وتبشیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی خدا کے تخلیقی نقشے سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ دعوت کا لفظ قرآن میں صرف غیر مسلموں میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے آیا ہے۔ کوئی شخص مسلمانوں میں کام کرے تو اس کو اصلاح اور تذکیر کہاجائے گا۔ ایسے کام کو دعوت اور تبلیغ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو اس میں دعوت اور تبلیغ کا باب حذف ہوگیا۔ چنانچہ پچھلے ہزار سال میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں غیر مسلموں میں دعوتی ذمے داری ادا کرنے کے پہلو سے اس کا ذکر موجود نہیں۔ ایسا کیوں ہوا۔ غالباً اس کا سبب یہ تھا کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان اپنے دورِ حکمرانی میں پہنچ گیے۔ اس کے بعد سیاست اور حکومت یا اس سے متعلق ابواب ہی ان کی توجہ کا مرکز بن گیے۔ یہاںتک کہ یہ ذہن اتنا عام ہوا کہ اب دوسرے ملّی مقاصد پر تحریکیں اٹھائی جاتی ہیں اوراس کو دعوت و تبلیغ کی تحریک سمجھ لیا جاتا ہے۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ بعد کے زمانے میں تیار ہونے والے اسلامی لٹریچر میں دعوت کا تصور حذف ہوگیا۔ تاہم یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے پیچھے ایک معلوم سبب کام کررہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عباسی دَور میں جب فقہ کی تدوین عمل میں آئی، اُس وقت مسلمان دنیا کے بڑے حصے میں سیاسی حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی امپائر قائم تھا۔
جب بھی اِس قسم کا کوئی سیاسی امپائر قائم ہوتا ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ دوسری قوموں سے اس کی رقابت (rivalry) قائم ہوجاتی ہے۔ بار بار دونوں کے درمیان چھوٹی یا بڑی لڑائیاں پیش آتی رہتی ہیں۔ اِس سیاسی پس منظر میں حالات کے تقاضے کے تحت، ایسا ہوا کہ فقہاء کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ تقسیم قائم ہوگئی کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے وہ علاقہ دارالاسلام ہے، اور جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں وہ علاقہ دارالحرب ہے۔
فقہ کی کتابوں میں بالکل محدّد انداز میں دارالحرب کی تعریف نہیں ملتی۔ تاہم عمومی طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ دارلحرب سے مراد وہ ملک ہے جس سے مسلمان یا تو عملاً بر سرِ جنگ ہوں یا وہ اُس ملک سے امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہی وہ ذہن ہے جس نے مسلمانوں کے عوام اور خواص کے ذہن سے دعوت کا تصور حذف کردیا۔ اب وہ غیر مسلموں کو حریف اور رقیب کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ اِس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج ۳) کے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔ لیکن غیرمسلم علاقے کو دارالحرب قرار دینے کا یہ فطری نتیجہ تھا کہ اُن علاقوں میں بسنے والے لوگ، مدعو کا درجہ نہ پاسکے۔
پچھلے ہزار سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت تیار ہونے والے لٹریچر میں بتایا گیا کہ غیر مسلم ہمارے لیے مدعو اور تمام غیر مسلم علاقے اسلامی نقطۂ نظر سے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے ہزار سال کے دوران مختلف زبانوں میں جو اسلامی کتابیں لکھی گئیں وہ اِس تصوّر سے پوری طرح خالی ہیں۔
تاہم جہاں تک دعوتی عمل (Dawah Process) کا تعلق ہے، وہ ہر زمانے میں خاموش طور پر جاری رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر طالبِ حق پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر حق کا متلاشی ہے۔ دوسری طرف قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ خدائی کلام کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے، چنانچہ فطرت اور کلامِ الٰہی کے باہمی تعامل کی بنا پر دعوت کا عمل خود اپنے زور پر ہمیشہ جاری رہا، اور اسی طرح وہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا پہلا خطاب ہمیشہ اپنے ہم عصر خواص سے ہوتا ہے۔ اِن خواص کے لیے قرآن میں مَلائِ قوم (الاعراف ۶۰)کا لفظ آیا ہے۔ اِس پیغمبرانہ نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کا عمل کس طرح کیا جائے۔ اس کا طریقہ ہمیشہ یہ ہوگا کہ غیر مسلم قوم کے خواص کو اپنا اوّلین مخاطب بنایا جائے گا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ بالواسطہ طورپر اس کے مخاطب بنتے چلے جائیں گے۔ یہی پیغمبرانہ طریقہ ہے۔ اِس کے بجائے عوام سے دعوت کے کام کا آغاز کرنا پیغمبرانہ نمونے سے انحراف کے ہم معنیٰ ہے۔
اِس ترتیب کی ایک خاص حکمت ہے۔ وہ یہ کہ خواص اپنے علم اور اپنے ذہنی مرتبے کے اعتبار سے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اعلیٰ حقائق کو سمجھ سکیں۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب داعی، خواص کی نسبت سے اسلام کو پیش کرتا ہے تو اپنے آپ اسلام کی ترجمانی اعلیٰ سطح پر ہونے لگتی ہے۔ اب اسلام اپنی برتر سطح پر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں کے لیے اعلیٰ سطح کے ایمان اور معرفت کے حصول کا سبب بنتا ہے۔
اِس کے برعکس، جب داعی نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ داعی کا طرزِ خطاب بدل جاتا ہے۔ اب اسلام کی نمائندگی نچلی سطح پر ہونے لگتی ہے۔ مثلاً اگر خواص آپ کے مخاطب ہوں تو آپ کہیں گے کہ اسلام کا آغاز سچائی کی دریافت (discovery) سے ہوتا ہے۔اِس کے برعکس، اگر آپ نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائیں تو وہاں آپ کاطرزِ خطاب بدل جائے گا۔ اب آپ یہ کریں گے کہ ان کو کلمہ پڑھوائیں گے اور کلمہ کے الفاظ کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی کے بعد یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے دعوت کا کام انجام دے دیا ۔
وہ چیز جس کو بدعت کہا جاتا ہے وہ زیادہ تراسی کا نتیجہ ہے۔ بدعت دراصل کم تر سطح پر اسلام کے اظہار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عرب اور برصغیر ہند میں فر ق کا یہی سبب ہے۔ عرب میں دعوت کا آغاز خواصِ قوم سے کیا گیا۔ چنانچہ وہاں بدعات کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اِس کے برعکس، برصغیر ہند میں صوفیاء نے عوام کو اپنا نشانہ بنایا۔ اسی کا براہِ راست نتیجہ وہ دینی خرابی ہے جس کو بدعت کہا جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت الی اللہ کا تصور ہی لوگوں کے ذہن سے حذف ہوگیا ۔ چنانچہ قرآن کی کوئی بھی تفسیر دعوتی انداز پر نہیں لکھی گئی۔ حدیث کی شرحوں میں سے کوئی بھی شرح دعوتی انداز پر لکھی جانے والی شرح نہیں ہے۔فقہ کو دیکھیے تو وہ بھی مکمل طورپر دعوت کے ابواب سے خالی ہے۔ علمِ کلام کی تدوین بھی دعوت کے انداز پر نہ کی جاسکی۔ پچھلی صدیوں میں جو بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں مثلاً الغزالی کی احیاء علوم الدین، ابن قیّم کی اعلام الموقعین، شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ، اقبال کی تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ(Reconstruction of Religious Thought in Islam) وغیرہ، کسی بھی کتاب کا موضوعِ بحث دعوت الی اللہ نہیں ہے۔
اسلامی لٹریچر کی تاریخ کا یہ منفی پہلو بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر وہ دعوتی فکر ہی نہیں بنا جس کی زمین پر حقیقی معنوں میں کوئی دعوتی تحریک اٹھے اور اس کے ذریعے کوئی دعوتی گر وپ بنے۔ بعد کی تاریخ میں سی پی ایس انٹرنیشنل واحد تحریک ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے اصول پر اٹھی اور پھر اس کی زمین پر خالص دعوتی مقاصد کے لیے ایک گروپ بن کر تیار ہوا جس کو سی پی ایس کی ٹیم کہا جاتا ہے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کا معاملہ ایک تقابلی مثال سے بخوبی طورپر واضح ہوجاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا تعلق افریقہ میں مسلم فتوحات سے ہے۔
عُقبہ بن نافع تابعی ۶۲۱عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۶۸۳میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ پیغمبر اسلام کے آخری زمانے میں پیدا ہوئے لیکن آپ سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔
عقبہ بن نافع تابعی یزید بن معاویہ کے دَور خلافت میں افریقہ کی مسلم فوجوں کے سپہ سالار تھے۔ وہ مغربی افریقہ کے ملکوں کو فتح کرتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گیے۔ شہرِ اَسفیٰ ان کی آخری منزل تھی۔ وہاں انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا اور اس کے پانی میںکھڑے ہو کر کہا:
اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخضتہ إلیہ حتی لا یعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا۔ یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔)
جیسا کہ معلوم ہے، افریقی ساحل کے دوسری طرف امریکا ہے۔ دونوں کے درمیان اٹلانٹک کا وسیع سمندر حال ہے۔ عقبہ بن نافع کے زمانے میں امریکا دریافت نہیں ہوا تھا۔ وہ بعد کو دریافت ہوا چنانچہ اس کو نئی دنیا کہا جاتا ہے۔
اِس واقعے کو علامتی طور پرلے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے گروہ نے ’’قدیم دنیا‘‘ میں اپنا دعوتی رول ادا کیا تھا، اب کمیونکیشن کے نیے دَور میں دوسرے گروہ کو ’’نئی دنیا‘‘ کے درمیان اپنا دعوتی رول ادا کرنا ہے۔ پہلے گروہ نے روایتی دور میںاپنا دعوتی رول ادا کیا تھا اب دوسرا گروہ سائنسی دور میں اپنا دعوتی رول ادا کرے گا۔ پہلے گروہ نے زمین کے مخصوص حصّے میںاپنادعوتی رول انجام دیا تھا۔ اب دوسرا گروہ زمین کے پورے حصے میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا۔ پہلے گروہ نے قدیم اسلوب میںاپنا دعوتی رول انجام دیا تھا، اب دوسرا گروہ جدید اسلوب میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا، وغیرہ۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوتی کام جنوری ۲۰۰۱ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اِس تنظیم کے صدر نے اِس دعوتی کام کو اِس سے بہت پہلے ۱۹۵۰ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارۂ اشاعتِ اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ کام مسلسل بلا انقطاع جاری رہا۔ ۱۹۷۰ میں اِسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۶ میں اس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹر نیشنل (۲۰۰۱) اسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدّت کے بعد اب خداکے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔
ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طورپر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسول کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اِسی طرح اخوانِ رسول بھی کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ ہوں گے بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اُس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے جس پر رسول اور اصحابِ رسول کھڑے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے د رمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں ہیں مگر وہ اخوانِ رسول کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں جو ما أنا علیہ وأصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو کر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔
تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گیے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہو چکے ہیں— پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیح کا حواری بننا، پیغمبرِ آخر الزماں کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے وہ تاریخ کا خاتمہ(end of history) ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اِس موقع کو پالیا اس نے سب کچھ پالیا۔ اور جس نے اس موقع کو کھودیا اس نے سب کچھ کھودیا۔
واپس اوپر جائیں