خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۳
۱۔ انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائدنہ مسٹر کرشنا موہن مشرا نے ۱۶اگست۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر اِس بات سے تھاکہ مذہبی اختلافات کے بارے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔ انھیں بتایاگیا کہ اسلام ہر حال میں امن چاہتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اختلافات کو برداشت کرو۔ اِس سے زیادہ اگر کچھ کرنا ہے تو پُر امن بات چیت(peaceful dialouge) کرو۔ اسلام میں تشدد کسی بھی حال میں جائز نہیں۔
۲۔ ڈنمارک کے ایک اخبار میں ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ کو پیغمبر اسلام کے بارے میں کچھ کارٹون شائع ہوئے۔ جس کے بعد ساری دنیا میں مسلمانوں نے سخت مظاہرہ کیا۔ اس سلسلے میں سعودی ٹیلی ویژن کی ایک ٹیم فروری ۲۰۰۷ کو ڈنمارک گئی۔ وہاں انھوں نے مختلف لوگوں کے ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیے۔ اس سلسلے میں سعودی ٹیلی ویژن کی طرف سے اسلامی مرکز کے دفتر میں ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم سیرتِ رسول کے موضوع پر دو انگریزی کتابیں ڈنمارک لے جاکر وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔ کیرن آرم اسٹرانگ کی سیرت پر کتاب دو سو، اور اسلامی مرکز کی چھپی ہوئی کتاب پیغمبر انقلاب (انگریزی) دوسو۔ اس کے مطابق، ان کو پیغمبر انقلاب کی مطلوب کاپیاں بذریعہ ہوائی جہاز بھیج دی گئیں۔ ان کتابوں کو سعودی ٹیلی ویژن نے ڈنمارک میں تقسیم کیا۔
۳۔ نئی دہلی کے انگریزی میگزین لائف پازیٹیو کے زیرِ اہتمام انڈیا ہیبٹیٹ سنٹر (نئی دہلی) میں ایک نیشنل سیمنار ہوا۔ اِس کا موضوع این لائٹن مینٹ (Enlightenment) تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور اس کے آخری اجلاس۵دسمبر ۲۰۰۵ میں مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ این لائٹن مینٹ کے مختلف مفہوم ہیں—فلسفیانہ، مذہبی اور روحانی۔ لیکن روزمرہ کی زندگی کے اعتبار سے اس کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ آدمی ذہنی اعتبار سے اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ منفی تجربے کو بدل کر اُسے مثبت تجربہ بنا سکے۔
۴۔ د ور درشن (نئی دہلی) نے صدر اسلامی مرکز کے ایک تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ یہ ریکارڈنگ ۷دسمبر ۲۰۰۵کو دور درشن کے اسٹوڈیو میں ہوئی۔ مسٹر راجیو مہروترا اس کے انٹرویور تھے۔یہ انٹرویو پورے آدھ گھنٹے کا تھا۔ یہ پورا انٹرویو الرسالہ اور صاحبِ الرسالہ کے بارے میں تھا۔ سوالات کے دوران بتایاگیا کہ ہمارا مشن پیس اور اسپریچولٹی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایاگیا کہ قر آن میں صرف اساسی تعلیمات ہیں۔ حالاتِ زمانہ کے لحاظ سے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اسلام میں ہر وہ اجتہاد جائز ہے جو شریعت کی بنیادی تعلیمات سے نہ ٹکراتا ہو۔ ایک سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ فتویٰ کا مطلب شخصی رائے ہوتا ہے۔ فتویٰ کی حیثیت عدالتی حکم کی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ فتویٰ دینے میں مفتی غلطی بھی کرسکتا ہے۔ یہ تمام سوالات وجوبات انگریزی زبان میں تھے۔
۵۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے قانون داں حضرات کی ایک تنظیم سرچ(Search) کے نام سے قائم ہے۔ ۹ دسمبر ۲۰۰۵ کو اس کے تحت، انڈیا انٹرنیشنل میں ایک سیمینار ہوا۔ اس کے صدر جسٹس کرشنا آئر تھے۔ اِس موقع پر خطاب کے لیے صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گی۔ اِس موقع پر انھوں نے پینتالیس منٹ کی ایک تقریر کی:
Image and Reality of Islam
تقریر کے بعد سوال وجواب ہوا۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔
۶۔ آزادیٔ ہند(۱۹۴۷) کے بعد ہندستان میں ، خاص طورپر پنجاب اور ہریانہ کے علاقے میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گیے۔ اس موقع پر مہاتما گاندھی اٹھے۔ ۱۹ دسمبر ۱۹۴۷ کو وہ میوات کے علاقہ گھاسیڑہ گیے۔ یہاں اَطراف کے دس ہزار مسلمان اکھٹا ہوئے۔ مہاتما گاندھی نے تقریر کرتے ہوئے کہ انڈیا آپ کا وطن ہے، آپ کو یہاں بے خوف ہوکر رہنا چاہیے۔ اس کے بعد مسلمانوں میںاستحکام آگیا۔ اِس تاریخی دن کی یاد میں ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ کو گھاسیڑہ میں ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کا انتظام ڈاکٹر راجیندر پرشاد اور مولانا شیر محمد امینی وغیرہ نے کیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور امن اور اتحاد کی اہمیت پر ایک تقریر کی۔
۷۔ ۲۲ دسمبر۲۰۰۵ کو آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی(شعبۂ اردو) کے اسٹوڈیو میں صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیاگیا۔ اس کے انٹرویور مسٹر انوار احمد تھے۔ آدھ گھنٹے کے اِس انٹرویو کا موضوع صد راسلامی مرکز کی حیات اور اُن کا مشن تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ کو عام طورپر ماڈرن مولوی سمجھا جاتا ہے، کیا یہ صحیح ہے۔ بتایاگیا کہ ماڈرن مولوی ایک صحیح چیز کا غلط نام ہے۔ اصل یہ ہے کہ حدیث کے مطابق، عالِم کو اپنے زمانے سے باخر ہونا چاہیے (أن یکون بصیراً بزمانہ)علماء عام طورپر صرف مدرسے کی تعلیم پر اکتفاء کرتے ہیں۔ میں نے یہ کیا کہ مدرسے کی باقاعدہ تعلیم کے بعد پرائیویٹ طور پر انگریزی پڑھی اور پھر جدید علوم کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس کے بعد میں نے اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ اعتماد ہوسکے۔
۸۔ ۹ جنوری اور۱۰ جنوری ۲۰۰۶کو حج اور عید الاضحی کے تعلق سے کئی ٹی وی چینل نے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا— اسٹار نیوز، دور درشن، آج تک، ای ٹی وی۔ دور درشن نے اپنے تین چینل کے لیے ریکارڈنگ کی۔ ہر انٹرویو میں حج اور عید الاضحی کے بارے میں وضاحت کی گئی۔ انٹرویو میں بتایا گیا کہ یہ تہوار اِس لیے ہیں تاکہ عبادت اور قربانی اور انسانی قدروں کو لوگوں میں فروغ دیا جائے۔
۹۔ برون کمار(Mr. Barun Kumar) نئی دہلی میں ایم۔ اے۔ جنرل ازم کا کورس کررہے ہیں۔ (Tel: 9873031260) انھوں نے یونیورسٹی پروگرام کے تحت، ۱۲ جنوری ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کی تصویر تشدد پسند مذہب کی ہوگئی ہے۔ اِس کا الزام عام طورپر میڈیا کو دیا جاتا ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ اس کے ذمے دار خود مسلمان ہیں۔ میڈیا، سنسنی خیز خبروں کو منتخب کرتا ہے۔ مسلمان اگر سنسنی خیز خبریں ظہور میں نہ لائیں تو ان کی رپورٹنگ بھی میڈیا میں نہیں ہوگی۔
۱۰۔ سعودی عرب کے عربی روزنامہ عُکاظ کے نمائندہ فہیم الحامد نے ۱۸ جنوری ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ ہمارا مرکز امن اور ٹررازم کے اِشو پر کیا کام کررہا ہے۔ اِس سلسلے میں انھیں ضروری معلومات دی گئیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ ہندستان کی حکومت اور انڈین کمیونٹی دونوں حقیقت پسند لوگ ہیں۔ اس لیے یہاں اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی غیر ضروری مسئلہ نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ سعودی کنگ کا سفرِ ہند نہایت مفید ثابت ہوگا۔ اس سے انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات اور زیادہ بہتر ہوجائیں گے۔
۱۱۔ایک عرب میڈیا کمپنی (Al-baath, News Paper, Aleppo-Syria) کی ٹیم نے ۲۰ جنوری ۲۰۰۶کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور دکتور محمد بسّام النعسّان (Dr. M.B. Na'assan) تھے۔ سعودی حکمراں ملک عبد اللہ ۲۶ جنوری۲۰۰۶ کو دہلی آنے والے ہیں۔ اِسی نسبت سے یہ انٹرویو تھا۔ مختلف سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور انڈیا کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں، اور اِس دَورے کے بعد یقینی طورپر اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہندستانی مسلمانوں کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انڈیا میں سیکولر نظام ہے جو مسلمانوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اسلامی مرکز اور CPS اور الرسالہ مشن کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایاگیا کہ ہمارا مقصد اسلام کی پُر امن اور مثبت تعلیمات کا تعارف ہے۔ ہندستان میں پُر امن اسلامی دعوت کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم وسیع پیمانے پر اسلامی دعوت کا کام کررہے ہیں۔
۱۲۔ انسٹی ٹیوٹ آف گاندھین اسٹڈیز، واردھا کے تحت، تعارفِ مذاہب کا ایک پروگرام ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ۲۵جنوری ۲۰۰۶ کو پورا دن انھیں دیا گیا۔ اس طرح اسلام کے تفصیلی تعارف کا موقع ملا۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ لوگوں نے بہت پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ایک صاحب نے کہا:
Today we have re-discovered the religion of Islam.
اِس موقع پر کامٹی کے حلقۂ الرسالہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ یہ لوگ کامٹی میں منظّم انداز میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔ ان لوگوں نے واردھا کے پروگرام کا مکمل ویڈیو ریکارڈ بھی تیارکیا۔ اس سلسلے میں ایک دن ناگپور شہر میں گذرا۔ یہاں بھی ملاقات اور گفتگو کے انداز میں کئی لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور اسلام کے بارے میں سوالات کی وضاحت کا موقع ملا۔ سفر میں ہر جگہ انگریزی لٹریچر بھی لوگوں کو دیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف گاندھین اسٹڈیز میںاس سے پہلے بھی اس قسم کے دوپروگرام ہوچکے ہیں۔ موجودہ پروگرام اس نوعیت کا تیسرا پروگرام تھا۔ پچھلے دونوں پروگراموں کی روداد سفرنامے کے تحت، الرسالہ میں شائع ہوچکی ہے۔ موجودہ پروگرام کی روداد بھی انشاء اللہ سفر نامے کے تحت، ماہ نامہ الرسالہ میںشائع کی جائے گی۔
۱۳۔ نئی دہلی (پَر گتی میدان) میںانٹرنیشنل بُک فئر ہوئی۔ وہ ۲۷جنوری ۲۰۰۶ سے لے کر ۴ فروری ۲۰۰۶ تک جاری رہی۔ اِس بُک فئر میں گُڈورڈ (Goodword) اور سی۔پی۔ایس۔ کی طرف سے اسٹال لگایا گیا۔ لوگ بڑی تعداد میں یہاں آئے۔ سی۔پی۔ ایس۔ کی ٹیم کے افراد ہر وقت وہاں موجود رہتے ـتھے۔ بڑے پیمانے پر لوگوں سے اسلام کے موضوع پر تبادلۂ خیال ہوا۔ لوگوں کو دعوتی بروشر تقسیم کیے گیے۔ اس کے علاوہ لوگوں نے انگریزی اور اردو اور ہندی میں چھپی ہوئی اسلام پرکتابیں حاصل کیں۔ اِس موقع کے لیے خصوصی طورپر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جوشخص ایک سو روپیے کی کتابیں خریدے گا، اُس کو ماہ نامہ الرسالہ ایک سال کے لیے فری جاری کیا جائے گا۔ اِس اسکیم کے تحت بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ عام طور پر لوگوں نے سی۔ پی۔ایس۔ کے مشن سے گہرا اتفاق ظاہر کیا۔ لوگوں کو جب سی۔پی۔ایس۔ کے دعوتی بروشر دئے گیے تو انھوں نے اُس کو اِس طرح لیا جیسے وہ اِسی کی تلاش میں تھے۔ غیر مسلم حضرات خصوصاً نوجوان مَردوں اور عورتوں نے انگریزی اور ہندی قرآن بہت بڑی تعداد میں حاصل کیے۔
۱۴۔ ورلڈ کاؤنسل آف ریلیجنس (World Council of Religious) کے زیرِ اہتمام ۲۹ جنوری ۲۰۰۶ کو ایک کنونشن ہوا۔ اس کنونشن کا انعقاد نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (روم نمبر ۲) میںکیا گیا۔ اِس میںمختلف بڑے مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Promoting Commonalities among diverse faiths for world peace.
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے تصور پر مبنی ہیں۔ کیوں کہ امن کے بغیر کوئی تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو کسی بھی حال میں ہتھیا راٹھانے کی اجازت نہیں۔
۱۵۔ حسب معمول ۵ فروری ۲۰۰۶ کو اتوار کا اسپریچول کلاس ہوا۔ یہ کلاس نظام الدین ویسٹ مارکیٹ میں مرکزکی بلڈنگ میں ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ پابندی کے ساتھ جنوری ۲۰۰۱ سے جاری ہے۔ ۵فر وری کی کلاس کی حسب معمول ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہوئی۔ اِس میں درس کا موضوع توحید تھا۔ اس میں سی۔پی۔ایس کا مشن اِن الفاظ میں بتایاگیا :
Our mission is to proclaim the glory of God
۵فروری کے اسپریچول کلاس میں زیادہ لوگ آئے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حالیہ بک فئر کے موقع پر سی۔ پی۔ ایس کی ٹیم نے لوگوں کو ہفتے وار اسپریچول کلاس کا تعارف کرایا تھا، اور لوگوں کو دعوت دی تھی کہ وہ یہاں آسکتے ہیں۔ چناں چہ بہت سے نئے لوگ ۵ فروری کے کلاس میںشریک ہوئے۔
۱۶۔ ٹائم لائف(Time-Life) کے نمائندہ مسٹر احمد حسن قدوائی (Tel. 9873107411) نے ۶فر وری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کاایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں تھا۔ اس سلسلے میں انھیں قرآن اور حدیث کی روشنی میںضروری معلومات دی گئیں۔
۱۷۔ دور درشن (نئی دہلی) پَر ۹ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلام مرکز کی ایک تقریر لائیوٹیلی کاسٹ کے تحت، نشر کی گئی۔ وہ ۱۰ محرم اور حضرت حسین کی یاد پر تھی۔ تقریر میں بتایا گیا کہ ۱۰محرم۶۱ ھجری کو حضرت حسین کی شہادت کی صورت میں جو واقعہ ہوا وہ تاریخی اعتبار سے خود حضرت حسین کی طرف سے کسی جارحیت کے سبب سے نہ تھا۔ حضرت حسین، پُر امن مشن کے تحت مکّہ سے روانہ ہوئے تھے۔ مگر کوفہ (عراق) کی سرحد پر شِبر بن جَوشن نے انھیں لڑنے پر مجبور کردیا۔ اس زمانے میں اگر ٹیلی فون موجود ہوتا تو یہ جنگ نہ ہوتی۔ کیوں کہ حضرت حسین یا یزید کی فوج کا افسر کوفہ سے دمشق ٹیلی فون کرکے یزید سے پوچھتا اور یزید یقینی طورپر ان کو جنگ سے روک دیتا۔ اِس جنگ کی یزید کو کوئی خبر نہ تھی۔ بعد کو جب اس کو خبر ملی تو اُس نے اِس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔
۱۸۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۶ کو حسب معمول اتوار کا اسپریچول کلاس ہوا۔ اب اِس کلاس میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ حسب معمول اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ تقریر کا موضوع زکوٰۃ تھا۔ لوگوں نے بہت دل چسپی کے ساتھ سُنا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ زکوٰۃ کی مد میں سال میں ڈھائی فیصد کی رقم ایک علامتی چیز ہے۔ وسیع تر مفہوم میں زکوٰۃ زندگی کے کامل تزکیہ وتطہیر کا نام ہے۔ زکوٰۃ کا توسیعی پہلو قرآن کی ایک مکی سورہ میں اس طرح آیا ہے: وہم للزکوۃ فاعلون(المؤمنون: ۴)۔ اِس آیت میں یؤدّون کے بجائے فاعلونکا لفظ آیا ہے۔ یعنی تزکیہ کا فعل کرنا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ایسے اسباب ہیں جو ہر وقت انسان کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ اِس آلودگی سے بچا کر اپنے آپ کو مُزَکّٰی (پاکیزہ) بنانا، اسلامی زندگی کا اصل نشانہ ہے۔ زکوٰۃ اسی عمل کے لیے ایک علامتی فعل ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو دنیوی آلودگی سے بچائیں اور اپنے اندر پاکیزہ شخصیت کی تعمیر کریں وہی آخرت میں جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
۱۹۔ اسلامی مرکز میں ملک اور ملک کے باہر سے غیر مسلم افراد برابر آتے رہتے ہیں۔ اُنھیں اسلامی لٹریچر دیا جاتا ہے، اور اسلام کے موضوعات پر ان کے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیاجاتا ہے۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۶ کو حسب ذیل تین افراد مرکز میں آئے:
Brahma Rupa, U.S.a. (Tel: 989937114)
Jemal, Italy. (Tel: 9873239980)
Allon, Israel
پہلے دونوں صاحبان فی الحال گُڑگاؤں میں ہیں، ان لوگوں سے نہایت تفصیل کے ساتھ اسلام کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوئی۔ ان کا ایک سوال خدا کے تصور کے بارے میں تھا۔ بتایاگیا کہ آرین مذاہب میں خدا کا تصور وحدتِ وجود (monoism) کے تصور پَر مبنی ہے۔ لیکن اسلام میں توحید (monotheism) کا تصور ہے۔ اِسی طرح جہادکے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جہاد اصلاً پُر امن دعوتی جدوجہد کانام ہے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی جہاد کے نام پر جو متشددانہ عمل کیا جارہا ہے اس کا جہاد سے کوئی تعلق نہیں۔ اِسی طرح اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں ان کے سوالات کا جواب دیا گیا۔
۲۰۔ ٹائمس آف انڈیا (بمبئی) کی نمائندہ مسز بیلا جے سنگھانی نے ۱۵ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ڈنمارک کے اخبارJyllands Posten میں شائع شدہ کارٹون (۳۰ ستمبر ۲۰۰۵) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اس قسم کے نزاعی مسائل پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کو پُر امن انداز تک محدود رکھا جائے۔ کسی بھی حال میں تشدد کا طریقہ نہ اختیار کیا جائے۔ کارٹون کی حیثیت ایک تفنّن آمیز آئٹم(comic item) کی ہے۔ لوگ ایسی چیزوں کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتے۔ بالفرض اگر کچھ لوگوں کے نزدیک کارٹون قابل اعتراض تھا تب بھی اس کے لئے پُر شور احتجاج درست نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ چنانچہ یہ کارٹون انٹرنٹ پر آگیا۔ پہلے یہ قابلِ اعتراض آئٹم اگر ایک ملک کے تھوڑے سے لوگوں نے دیکھا تھا تو اب انٹرنٹ کے ذریعے وہ تمام دنیا کے لوگوں تک آگیا۔
۲۱۔ بی سی لندن نے ۱۶ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔یہ انٹرویو لندن اور دہلی کے درمیان ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ انٹرویو لینے والے مسٹر راجیش جوشی تھے۔ سوالات کا تعلق مسلمانان ہند کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ تعلیم ہے۔ مسٹر محمد علی جناح نے مسلمانوں کی بہبود کے لئے چودہ نکاتی پروگرام بنایا تھا۔ اب گورنمنٹ نے ۱۵ نکاتی پروگرام بنایا ہے۔ مگر میرے نزدیک اس قسم کے پروگراموں کا کوئی خاص فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملے گا۔ مسلمانوں کی ترقی کا سنگل پائنٹ پروگرام تعلیم ہے۔ مسلمانوں میں اگر اچھی تعلیم آجائے تو بقیہ تمام مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔
۲۲۔ سینئر انڈیا (Senior India) نئی دہلی کے نمائندہ مسٹر منوج کرشنا (Tel: 9868655357)نے ۱۶ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع تھا—ہندستانی مسلمانوں میں تبدیلی کی لہر۔ سوالات کے دَوران بتایا گیا کہ آزادی کے بعد ہندستان کے مسلمان بے یقینی کی حالت میں مبتلا ہوگیے تھے۔ انھیں کوئی لائن آف ڈائریکشن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ میںنے ۱۹۶۵ سے باقاعدہ طورپر اس معاملے میں مسلمانوں کو رہنمائی دینا شروع کی۔ لمبی جدوجہد کے بعد اب مسلمانوں میں بہت زیادہ شعوری بیداری آچکی ہے۔ پہلے وہ انڈیا کو ایک پرابلم کنٹری سمجھتے تھے۔ اب وہ اِس ملک کو مواقع کی سرزمین سمجھتے ہیں اور تعلیم وترقی کے ہرمیدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مدارس کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاگیا کہ مدارس کے نظام میں بھی بدلاؤ شروع ہوگیا ہے۔ تقسیم کی تحریک کے نتیجے میں مسلمان علیحدگی کو بڑی چیز سمجھ بیٹھے تھے۔ اب وہ جان رہے ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑی چیز انٹرایکشن اور مقابلہ ہے۔
۲۳۔ نئی دہلی کے اسٹار نیوز (ٹی وی) نے ۱۷ فروری ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا دو انٹرویو لیا۔ ایک لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت تھا، اور دوسرا اسلامی مرکز کے دفتر میں ویڈیو ریکارڈنگ کے طورپر۔ انٹرویور مسٹر راجیش کوشِک تھے۔ دونوں انٹرویو کا موضوع اُس کارٹون سے متعلق تھا جو ڈنمارک کے ایک اخبار میں ستمبر ۲۰۰۵ میں چھپا تھا۔ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اِس معاملے کا ایک پہلو وہ ہے جو نظری حیثیت رکھتا ہے، اور دوسرا پہلو وہ ہے جو طریقِ کار سے متعلق ہے۔ نظری حیثیت سے ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ جس چیز کو درست سمجھے اس کا اظہارکرے۔ یہ ہر فرد اور ہر گروہ کا حق ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ کارٹون کے موضوع پر مظاہرہ کرنے والے اپنے حق کا استعمال کررہے ہیں۔ لیکن طریقِ کار کے معاملے میں کسی بھی فرد یا گروہ کو تشدد تک جانے کی اجازت نہیں، نہ براہِ راست طورپر اور نہ بالواسطہ طور پر۔ مثلاً یہ اعلان کرنا کہ جو شخص کارٹونسٹ کو مارڈالے گااس کو سونے میں تول دیا جائے گا۔ یا ایسے حالات پیدا کرنا کہ فائرنگ ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔ بلڈنگ کو جلانا، اپنی آزادی کے نام پر دوسروں کی آزادی میں خلل ڈالنا وغیرہ۔ یہ سب انتہا پسندی کے طریقے ہیں۔ اور انتہا پسندی درست نہیں، نہ اسلام کے مطابق، اور نہ عقل کے مطابق۔
۲۴۔ ۱۹ فروری 2006 کو حسبِ معمول 1، نظام الدین ویسٹ مارکیٹ میں ہفتے وار اسپریچول کلاس ہوا۔ اس میں تقریر کا موضوع ڈنمارک کے اخبار میں شائع شدہ کارٹون کا مسئلہ تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر میں بتایا گیا کہ کارٹون کے مسئلے پر مشتعل ہونا اور مظاہرے کرنا، اسلامی تعلیم کے مطابق نہیں۔ اِس طرح کی چیزوں کو نظر انداز کرنا چاہیے نہ کہ ان کو لے کر پُر تشدد مظاہرے کیے جائیں۔ مسلمان ایک داعی گروہ کا نام ہے، اور داعی گروہ اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ ایسے مظاہرے کرے جس کے نتیجے میں داعی اور مدعو کے درمیان دوری پیدا ہوجائے اور اسلام لوگوں کی نظر میں ایک بدنام مذہب بن جائے۔ مزید بتایا گیا کہ ساتویں صدی عیسوی میںاسلامی انقلاب کے بعد جو تاریخی پراسس جاری ہوا، اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ دعوہ ورک کے نیے امکانات سامنے آگئے۔ اب ہمارا کام اِن امکانات کو استعمال کرنا ہے نہ کہ منفی کارروائیوں سے ماحول کو اتنا خراب کرنا کہ دعوہ ورک مشکل ہوجائے تقریر کے آخر میں آدھ گھنٹہ سوال اور جواب کے لیے دیا گیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ صبر واعراض کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر ہم لوگ صبر واعراض کا طریقہ اختیار کریں تو لوگ اور زیادہ دلیر ہوجائیں گے اور ہم کو بزدل سمجھ لیں گے۔ جواب میں بتایا گیا کہ یہ سوچ صحیح نہیں ہے۔ صبر واعراض بے عملی کا نام نہیں بلکہ وہ ایک منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ صبر واعراض کا مطلب اپنے لیے وقفۂ تعمیر حاصل کرنا ہے۔ ایک سوال یہ تھا کہ رسول اور اصحابِ رسول نے اُس وقت صبر کا طریقہ اپنایا جب کہ وہ تعداد میں بہت کم تھے۔ آج مسلمان عددی اعتبار سے ایک بلین ہوگیے ہیں۔ کیا ایسی حالت میں بھی صبر واعراض کا طریقہ اپنایا جائے گا۔ جواب میں کہا گیا کہ یہ مسئلہ تعداد کا نہیں ہے بلکہ اصول کا ہے۔ صبر واعراض ایک ابدی اصول ہے وہ ہر حال میں اختیار کیا جائے گا خواہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ۔ جس طرح نماز ہر حال میں پڑھی جائے گی خواہ مسلمان کم ہوں یا زیادہ۔
واپس اوپر جائیں