سوال جواب
سوال
آپ کا ایک خط ماہنامہ تذکیر کے مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں شائع ہوا ہے جو آپ نے عبدالسلام اکبانی صاحب کو لکھا ہے۔ اس میں آپ نے اس تقریر کا حوالہ دیا ہے جو آپ نے دہلی میں کانسٹی ٹیوشن کلب کے ایک سیمینار میں کی۔ اس میں آپ نے دو قومی نظریے کو علامہ اقبال اور جناح صاحب کے ذہن کی پیداوار قرار دیا اور یہ دلیل دی کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ’’اے میری قوم‘‘ کہا۔یعنی حاضرین کا عقیدہ یا مذہب چاہے الگ الگ ہو، ایک بستی یا ایک جغرافیائی وحدت میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے وہ ایک قوم تھے۔
آپ نے یہ بھی بتایا کہ آپ کے بعد بلراج مدھوک کی تقریر تھی۔ انھوں نے دو قومی نظریے کا قرآن میں موجود ہونا بتایا کہ مسلمانوں نے یہ نظریہ قرآن ہی سے لیا ہے اور یہ کہ قرآن انسانوں کے درمیان تفریق سکھاتا ہے اور یہ کہ وحید الدین صاحب قرآن کے اس چہرے پر وہائٹ واش کررہے ہیں۔ تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے الزام لگایا کہ مدھوک صاحب نے قرآن کا کوئی حوالہ دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا۔ مدھوک صاحب سے لوگ دلیل مانگنا چاہتے تھے مگر وہ دامن چھڑا کر غائب ہوگئے۔
اس سلسلے میں بندہ کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ قرآن تو جگہ جگہ ایمان والوں کو یاایُّہا الذین آمنوااور کفر والوں کو یا ایُّہا الکٰفرونکہہ کر پکارتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ کیا مؤمن اور فاسق برابر ہوسکتے ہیں۔ پھر قرآن خود جواب دیتا ہے ہرگز نہیں (سورہ السجدہ) ۔ وہ کہتا ہے تم جس کو پوجتے ہو اس کو ہمارا رسول نہیں پوجتا اور جس کو وہ پوجتا ہے اس کو تم نہیں پوجتے۔ ہمارے رسول اور اس کے ساتھیوں کا اپنا دینِ خالص، اورتمہارے لیے تمہارا دین (سورہ الکٰفرون)۔قرآن کہتا ہے کہ مسلمین اور مجرمین کو کیا ہم ایک سطح پر رکھیں؟تمہیں کیا ہوگیا کیسا غلط گمان ہے تمہارا (سورہ القلم)۔ قرآن میںاللہ کافروں کو حزبُ الشیطٰن کہتا ہے اور مومنوں کو حزب اللہ کہہ کر ان کو انعام کی بشارت دیتا ہے (سورہ مجادلہ) اور سورہ توبہ میں اعلان کرتا ہے کہ مشرکین نجس ہیں اور یہ جو اپنے آپ کو حرم کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے ان کو اگلے سال سے حرم کعبہ کے قریب بھی نہ آنے دینا اور جو ایمان نہیں لاتے ان سے قتال کریں اور آپ ہیں کہ کافروں اور مومنوں کو ایک ہی قوم ثابت کرنے کی سعی لاحاصل میں ہلکان ہورہے ہیں۔ (محمد صدیق، اسلام آباد)
جواب
۱۔ قرآن سے جب یہ ثابت ہوجائے کہ پچھلے نبیوں نے اپنے غیر مسلم مخاطبین سے کہا تھا کہ:’’اے میری قوم‘‘ تو یہی اسوہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ قرار پائے گا۔ کیوں کہ قرآن میں رسول اللہ کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ: تم بھی وہی کرو جو پچھلے انبیا نے کیا — فبہداہم اقتدہ (الأنعام ۹۰)
روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی یہی کیا۔ چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر آپ کے مخالفین نے آپ کے اوپر پتھر مارا جو آپ کے چہرے پَر لگا، اس سے آپ کے چہرے سے خون جاری ہوگیا۔ اُس وقت آپ نے ایک پچھلے رسول کے اُسوہ پر عمل کیا۔ عبد اللہ بن مسعود اس واقعے کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کأنی أنظر إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحکی نبیّا من الأنبیاء ضَرَبہُ قَومُہ وہو یمسح الدَّم عن وجہہ ویقول: ربّ اغفر لقومی فإنہم لا یعلمون (صحیح مسلم، بشرح النووی جلد ۱۲ ، ۱۵۰)یعنی ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ نبیوں میں سے ایک نبی کا حال بیان کررہے ہیں جس کو اُس کی قوم نے مار کر زخمی کیا۔ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے: اے اللہ! تو میری قوم کو معاف فرمادے کیوں کہ وہ جانتے نہیں‘‘۔
اس معاملے میں جو کچھ میں نے کہا ہے وہ نص پر مبنی ہے۔ جب کہ آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ تمام تر قیاس اور استنباط پر مبنی ہے۔ اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ قیاس اور استنباط کے ذریعے کسی نص کی تردید نہیں ہوتی۔
۲۔ اس معاملے میں آپ جیسے لوگوں کی اصل مشکل یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو مستقل طورپر دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے— مسلم اور کافر۔ اس تقسیم کی بنا پر آپ لوگوں کے نزدیک ایک طرف ابدی معنوں میں ایک قوم، مسلم قوم بن گئی ہے اور دوسری طرف ابدی معنوں میںایک قوم، غیرمسلم قوم۔ یہ تقسیم سراسر غلط ہے۔ نہ مسلمان کسی نسلی گروہ کا نام ہے اور نہ کافر کسی نسلی گروہ کا نام۔ دونوں ہی کا مدار اس پر ہے کہ کس کو معرفتِ خداوندی ملی اور کس کو معرفتِ خداوندی نہیں ملی۔ اس لیے مسلسل ایسا ہوگا کہ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں اسلام سے دور ہوتی رہیں گی اور غیر مسلموں میں سے لوگ سچائی کی دریافت کرکے مسلم بنتے رہیں گے۔ اس لیے یہ بالکل فطری بات ہے کہ قومیت کا مدار مذہب پر نہ ہو بلکہ ہوم لینڈ پرہو ۔ کیوں کہ مذہب کی تقسیم بدلتی رہتی ہے، جب کہ ہوم لینڈ کی تقسیم عموماً نہیں بدلتی۔
۳۔ آپ جیسے بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں ’’نسل آدم تمدنی عروج پر پہنچ گئی تھی‘‘۔ یہ ایک فرضی دعویٰ ہے، جس کی تصدیق نہ قرآن سے ہوتی ہے اور نہ تاریخ سے۔ قرآن میں پچھلی اُمتوں کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وعمروہا اکثر ممّا عمروہا (الروم ۹) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ رسالت کے مقابلے میں پچھلے زمانے کے لوگ زیادہ بڑے پیمانے پر تمدنی ترقی حاصل کر چکے تھے۔
جہاں تک تاریخ کی بات ہے تو اِس قسم کا دعویٰ واضح طورپر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ رسول اللہ کا زمانہ قبل سائنس دور(pre-scientific era) سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ حالات پیش آئے جن کو بعد سائنس دَور (post-scientific era) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قبل سائنس دور میںانسانی تمدن جس درجے پر تھا، اُس کے مقابلے میں بعد سائنسی دور میں انسانی تمدن سیکڑوں گُنا زیادہ ترقی کرچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’تمدنی عروج‘‘ کا مذکورہ دعویٰ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال
میں کافی عرصے سے تقریباً جب سے ہوش سنبھالا تب ہی سے حق کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ یقینا کسی چیز کو پانے کے لیے محنت پہلی شرط ہے۔ اس حق کی تلاش میں تمام دینی جماعتوں کو دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا مگر کہیں بھی دل پوری طرح مطمئن نہ ہوا۔ میری عادت ہے کہ میں خاموش مطالعہ کیا کرتا ہوں، بے جا بحث ومباحثہ اور طعن وتشنیع میرا مزاج نہیں۔ اس طرح میں نے کچھ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا کر دیکھنا چاہا کہ یہ جماعت کیا چاہتی ہے، ان کے کیا عزائم ہیں، ان میں اصولوں کی کتنی پابندی ہے۔ الغرض یہاں آکر میرا مجھے مقصود حاصل ہوا۔ مطالعے کا شوق بہت ہے۔ اسی طرح ہر قسم کا لٹریچر، کتابیں وغیرہ پڑھتا ہوں۔ پھر ایک روز ایک کتابوں کی دکان پر آپ کی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ نظر سے گزری تو فوراً خرید لی۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ شاید میں انھیں باتوں کی تلاش میں تھا۔ آپ کی اور کتابیں بھی مطالعہ کی ہیں۔ آپ کی تحریروں میں غزوۂ بدر کی مدد و نصرت ظاہر ہوتی نظر آتی ہے۔ اور پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے انسان اپنی فطرت سے باتیں کررہا ہو۔ محترم! میری باتوں کا ضرور جواب دیں۔ (محمد اسحاق بلوچ، پاکستان)
جواب
آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا اُس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی جتنی بھی تحریکیں ہیں وہ سب ردّ عمل کی تحریکیں ہیں۔ یعنی کسی مخصوص صورت حال کا ردّعمل۔ مثلاً ایک جماعت کے لوگ کسی مقام پر دیکھیں کہ وہاں کے لوگوں کو کلمہ بھی یاد نہیں اور اس سے متاثر ہو کر کلمہ اور نماز کی تحریک چلا دیں تو ایسی تحریک صرف اُن لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرے گی جو خود بھی اِسی قسم کے مسلمانوں کے بارے میں سوچتے رہے ہوں۔ ایسی کسی تحریک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو کوئی دلچسپی نظر نہیں آئے گی۔ اسی طرح کچھ لوگ دیکھیں کہ مسجدوں میں لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر وہ مسائل نماز سے واقف نہیں اور پھر اس پر وہ مسائل عبادت میں اصلاح کی تحریک چلادیں تو ایسی تحریک صرف اُن لوگوں کو اپیل کرے گی جو خود بھی فقہی مسائل میں مسلمانوں کی بے شعوری کا احساس اپنے دل میں لیے ہوئے ہوں۔ اس کے بجائے وہ لوگ جو جدید الحادی افکار کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہوں اُنھیں اصلاح مسائل کی تحریک سے کوئی دل چسپی نہیں ہوگی۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ دیکھیں کہ کسی مسلم ملک میں وہاں کے مسلم حکمراں شرعی قانون کا نفاذ نہیں کررہے ہیں اور وہ اس معاملے کو لے کر اِن مسلم حکمرانوں سے سیاسی ٹکراؤ شروع کردیں تو ایسی کوئی تحریک صرف اُن لوگوں کے لیے پُر کشش ثابت ہوگی جن کا ذہن خودبھی روزانہ اخبارات پڑھ پڑھ کر اس قسم کے سیاسی مسائل میں الجھا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو لوگ فطرت کی سطح پر جیتے ہوں، جو اپنے فطری سوالا ت کا جواب پانا چاہتے ہوں اُنھیں مذکورہ قسم کی سیاسی تحریک کی طرف کو ئی رغبت نہ ہوگی۔
الرسالہ مشن مذکورہ قسم کی تحریکوں سے بالکل مختلف ہے۔ الرسالہ مشن کسی قسم کے ردّ عمل کے طور پر نہیں اٹھا۔ وہ فطرت کے ابدی تقاضوں کی بنیاد پر اُٹھا ہے۔ اس لیے الرسالہ مشن میں صرف اُن لوگوں کو دل چسپی ہوگی جو اسلام کو اُس کی ابدیت کے تناظر میں سمجھنا چاہتے ہوں۔ جواُس اسلام کو جاننا چاہتے ہوں جو اُن کی فطرت میں چھپے ہوئے ابدی احساسات کو مطمئن کرسکے۔ اِس لیے یہی ہوگا کہ ہر تحریک میں کچھ مخصوص لوگ ہی آئیں گے۔تمام لوگ نہ الرسالہ مشن میں شامل ہوسکتے ہیں اور نہ دوسری مسلم تحریکوں میں۔
الرسالہ کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں، اُن کی مخالفت کا سبب عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ الرسالہ میں مسلمانوں کے مفروضہ اکابر پر تنقید کیوں ہوتی ہے۔ اس مخالفت کا سبب کسی شرعی تعلیم پر مبنی نہیں ہے۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی بڑی تعداد ’’دینِ اکابر‘‘ پَر جی رہی ہے۔ انھوں نے دین کو اپنے مفروضہ اکابر کے واسطے سے پایا ہے۔ اُن کا یہی خود ساختہ ذہن ان کی مخالفت کا اصل سبب ہے۔ مگر امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ذہن اکابر اور غیر اکابر کی تقسیم سے آزاد ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کو اس کی ابدی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اکابر اور غیر اکابر سے اوپر اُٹھ کر یہ جاننا چاہتے ہوں کہ خدااور رسول کی سطح پر کیا چیز حق ہے اور کیا چیزباطل ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف الرسالہ میں تسکین ملے گی۔ الرسالہ کے سوا کہیں اور اُنھیں تسکین ملنے والی نہیں۔
سوال
’’فقہی مقالات‘‘ کے نام سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ایک کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک مقالہ ’’جہاد دفاعی یا اقدامی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس مقالے کو میں نے غائر نگاہ کے ساتھ پڑھا بھی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ کہ اسلام میں جہاد اقدامی ہے۔ اور ایک مومن ومسلم کے لیے جہاد بمعنٰی قتال اس وقت تک فرض ہے جب تک کہ دنیا میں غیرقوموں کا غلبہ موجود ہے۔ تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ نے جہاد کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا، اس کا حاصل میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے ملک میں تبلیغ کی اجازت دے دے تو اس کے بعد اس سے جہاد کرنا جائز نہیں رہتا۔ اگر یہی آپ کا مقصد ہے تو احقر کو اس سے اتفاق نہیں۔ تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ صرف اس کا نام نہیں کہ غیر مسلم حکومت تبلیغ پر قانونی پابندی عائد کردے، بلکہ کسی غیر مسلم حکومت کا مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر شوکت ہونا بذات خود دین حق کی تبلیغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں : ’’لہٰذا کفار کی اس شوکت کو توڑنا جہاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے‘‘۔ (ص۔ ۳۰۱، فقہی مقالات، جلد سوم) (حافظ ابو الحِکم محمددانیال، بہار)
جواب
جہاد (بمعنٰی قتال) کا کوئی تعلق نہ مانعین دعوت کے خلاف لڑنے سے ہے اور نہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ شوکتِ اسلام (بالفاظ دیگر شوکتِ مسلمین) کے قیام کی راہ میں حائل ہوں ان کے خلاف لڑائی کی جائے۔ یہ سب جہاد کی خود ساختہ تعبیریں ہیں جن کا قرآن وحدیث سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاد اصلاً پُر امن دعوتی جدوجہد کا نام ہے۔ یہ بات قرآن کی اِس آیت سے واضح طورپر ثابت ہوتی ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً (الفرقان: ۵۲ ) یعنی غیر مسلموں پر قرآن کے ذریعے دعوت و تبلیغ کی پُر امن جدوجہد کرو۔ جہاں تک قتال (جنگ) کا تعلق ہے، وہ اسلام میں صرف ایک مقصد کے لیے جائز ہے، اور وہ حملے کی صورت میںدفاع ہے۔ اس دفاع کی بھی دو لازمی شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ دفاع کا کام صرف ایک قائم شدہ حکومت کرے گی۔ کسی غیر حکومتی گروہ کو کسی بھی حال میں مسلّح جہاد کی اجازت نہیں۔
آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ شوکتِ اسلام کا لفظ بولتے ہیں، حالاں کہ اس سے مراد صرف شوکتِ مسلمین ہوتا ہے۔ جہاں تک شوکتِ اسلام کا تعلق ہے، وہ ابدی طور پر بالفعل قائم ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اسلام کے موافق جو دلائل ظاہر ہوچکے ہیں اُن کو ہر زمانے میں استعمال کرتے رہیں۔ اور جہاں تک شوکتِ مسلمین کا تعلق ہے، وہ سیاسی اعتبار سے آج ۵۷ مسلم ملکوں میں قائم ہے۔ مگر یہ ۵۷ مسلم ملک، بشمول پاکستان، شوکتِ اسلام کا ذریعہ نہ بن سکے۔
سوال
جناب کی ہر تحریر ہر اورجملہ سبق آموز ہے۔ صرف مسلمان ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر قوم ، ہر ملت کے افراد کے لیے ۔ قرآن مبین کے علاوہ روئے زمین پر جتنی کتابیں سطور نگار نے پڑھیں، آخر کتاب ختم کرنے کے بعد بات کی وضاحت ہوتی ہے یا پھر خلاصہ کلام پر ۔لیکن اس کے برعکس جناب کا ہر پیراگراف نصیحت سے لبریز ہے۔ سطور نگار آںجناب سے التجا کرتا ہے کہ جناب کے سارے مقالات جو آپ نے اجتماعات میں پڑھے ہیں وہ سب بھی ایک کتابی شکل میں منظر عام پر آجائیں تو نوع انسانی کے لیے مفید ثابت ہوں (محمد ہاشم رنگونی، لندن)
جواب
آپ نے جو تجویز پیش کی ہے وہ پہلے ہی عمل میں آچکی ہے۔ راقم الحروف کے مقالات اور مضامین، انفرادی اصلاح اور اجتماعی اصلاح، دونوں کے بارے میں چھپ چکے ہیں۔ آپ ان کو حاصل کرکے ان کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اصل چیز کتاب چھاپنا نہیں ہے، بلکہ کتاب کو پھیلانا ہے۔ آپ جیسے لوگ اپنی ذمّے داری صرف یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب چھاپنے کی تجویز پیش کرتے ہیں مگر یہ صحت مند سوچ نہیں۔ صحت مند سوچ یہ ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ کتابیں تو چھپ چکی ہیں۔ اب ہماری یہ ذمّے داری ہے کہ ہم ان کتابوں کو لوگوںمیں پھیلائیں۔
میرا تجربہ ہے کہ لوگ دوسروں کے سامنے تجویزیں تو خوب پیش کرتے ہیں مگر یہ نہیںسوچتے کہ اس معاملے میں خود اُن کی اپنی ذمّے داری کیا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ فلاں موضوع پر کتاب تیارکرکے اس کو چھاپئے۔ میں نے کہا کہ میںنے بہت سے دینی موضوعات پر کتابیں تیار کرکے چھاپی ہیں، ان کے سلسلے میں آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ میںنے کہا کہ آپ پہلے چھپی ہوئی کتابوں کو پھیلا کر اپنی ذمے داری ادا کیجئے۔ اس کے بعد نئی کتابوں کی تجویز پیش کیجئے۔ اس قسم کا ذہن کوئی صحت مند ذہن نہیں۔
سوال
عرب سے واپس آنے کے بعد میری دلی خواہش تھی کہ میں الرسالہ مشن کے لیے کام کروں۔ یہاں آکر ایک صاحب سے کاروبار میں شرکت کی تو رہی سہی پونجی بھی گنوا بیٹھا۔ ۱۹۹۰ میں شوگر (ذیابیطس) ہوگئی، ساتھ ہی بعض دیگر عوارض نے گھیر لیا، مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ صحت بھی متاثر ہوئی۔ ان دنوں سخت نقاہت اور کمزوری کا شکار ہوں۔ یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کسی مشن کے ساتھ دامے، درمے اور قدمے چلنے کے لیے اچھی صحت اور کسی حد تک معاشی حالت بہتر ہونا ضروری ہے، ورنہ سخنے تک ہی محدود ہونا پڑتا ہے۔
بحمدا للہ تعلیم یافتہ طبقے میںآپ کے قدردانوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ جن لوگوں نے گیارہ ستمبر (۹؍۱۱) کے بعد پاکستانی صدر پرویز مشرف کا قوم سے خطاب سنا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی کی مذمت، جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی اصطلاحات وغیرہ کے بارے میں آپ نے جو لکھا یا تلقین کی، کم وبیش الفاظ کے نئے جامے کے ساتھ دہرایا گیا تھا۔ جو بھی معتدل مزاج کے ساتھ سوچے گا اور ملت کا حقیقی خیر خواہ ہوگا وہ تسلیم کرے گا کہ آپ کی سوچ اور فکر ہی صحیح اسلامی سوچ ہے۔ (ماشاء اللہ) اور اس پر عمل ہی سے مسلمانوں کے موجودہ مصائب اور پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ دیگر راستے بربادی کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ الرسالہ کے باقاعدہ قاری ہیں۔ (حفیظ الرحمن قریشی، لاہور)
جواب
اکثر لوگ یہی غلطی کرتے ہیں کہ وہ سروس وغیرہ کے ذریعے پیسے کماتے ہیں اور پھر کوئی ایسا شخص اُنھیں مل جاتا ہے جو اُن سے کہتا ہے کہ پیسہ تمہارا، اور محنت ہماری۔ اس طرح آؤ ہم دونوں مل کر کاروبار کریں۔مگر یہ طریقہ تقریباً ہمیشہ ناکام ثابت ہوتا ہے۔ اور پھر صاحب سرمایہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس طرح کی تجارتی شرکت کو میں عملی طور پر درست نہیں سمجھتا۔ ایسی شرکت ہمیشہ ناکامی پر ختم ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ تجارت ہر شخص نہیں کرسکتا۔ اور جو شخص عرصے تک سروس کرکے اس سے ریٹائر ہو وہ تو تجارت جیسے کام کے لیے بالکل نااہل ہوجاتا ہے۔
اب یہ ہوتا ہے کہ جب ایک سروس والا آدمی سرمایہ دیتا ہے اور تجارتی ذہن والا آدمی کام کرتا ہے تو بہت جلد غیر شعوری طورپر محنت کرنے والے آدمی کے اندر یہ ذہن بنتا ہے کہ سارا کام میںکرتاہوں اور یہ شخص صرف ایک بار کچھ پیسے لگا کر کاروبار میں مستقل حصّے دار بن گیا ہے۔ اس طرح دونوں میں دوری کا بیج پڑ جاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے اختلاف اور علیٰحدگی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ علیٰحدگی ہمیشہ محنت کرنے والے کی موافقت میں ہوتی ہے اور پیسہ لگانے والے کے خلاف۔ اس بنا پر میری رائے ہے کہ اگر کسی کے پاس مذکورہ قسم کا سرمایہ ہوتووہ اپنے سرمایے کو بینک میں رکھ دے مگر وہ اس سے کاروباری شرکت کا معاملہ ہر گز نہ کرے۔
سوال
میںنے بہت ساری کتابیں، دینی رسالے، بخاری شریف، صحیح مسلم شریف، تاریخ اسلام اور معنٰی سے قرآن بھی پڑھا ہے۔لیکن میں اُن کو سمجھ نہیں پاتی تھی ۔ صرف عقیدے کے اعتبارسے میں اسلام میں شامل تھی لیکن الرسالہ پڑھنے کے بعد اسلام میرے لیے re-discover ہوا، اور میں سنجیدگی سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ گویا مجھے معرفت الٰہی کا راستہ مل گیا۔
آپ کی کتاب پڑھنے سے پہلے میں بن لادن اور صدام جیسے لوگوں کو Islamic Hero اور Terrorist کو اسلامی مجاہدین سمجھتی تھی۔ غیر مسلم سے نفرت کرتی تھی۔ حالانکہ میری 60 فیصدسہیلیاں غیر مسلم ہیں۔ جب میں Hostel میں تھی تب وہ لڑکیاں میرے ساتھ نماز ادا کرتیں، کبھی کبھار رمضان کے ایک دو روزے بھی رکھ لیتی تھیں۔ وہ لوگ قرآن مجھ سے مانگتیں تو میں ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی۔لیکن الرسالہ سے مجھے پتہ چلا کہ اسلام کیا ہے، اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ حدیث کو سمجھنے میں مدد ملی۔Dawah & Community Work میں فرق سمجھ میں آیا۔ رسول کی سیرت سمجھ میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے ظاہری صفات کو دیکھنے اور اُن پر غور کرنے کا ذہن بنا۔ انشاء اللہ جب بھی میں practice شروع کروں گی تو میں اپنی سہیلیوں کو ہندی قرآن اور الرسالہ ہندی کی کاپیاں دوں گی۔ میری سہیلیاں اسلام کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ الرسالہ کے ذریعے اُن کو جواب دینے کی capability آئی۔ صحیح میں اللہ کے فضل سے میری de-conditioning ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کے مشن میں بے انتہا آپ کی مدد کرے اور مجھے خشوع والا ایمان نصیب کرے اور اُس پر خاتمہ کرے، آمین۔ دادا جان کی پُرانی الماری سے مجھے ۱۹۸۰ سے لے کر ۱۹۹۶ تک کا الرسالہ ملا ہے۔ آپ کی مزید کچھ کتابیں مجھے منگوانا ہے۔ (ڈاکٹر رابعہ، مہاراشٹر)
جواب
دوسری دینی کتابیں جو آپ نے پڑھیں اور ان میں آپ کو اطمینان حاصل نہیں ہوا اور ماہنامہ الرسالہ کے مطالعے سے آپ کو اطمینان حاصل ہوا۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ ماہنامہ الرسالہ میں دینی بات ہے اور دوسری کتابوںمیں دینی بات نہیںہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی جگہ دینی باتیں ہیں۔ دونوں میں جو فرق ہے وہ خود دینی بات کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ وہ اسلوب کے اعتبار سے ہے۔ دوسرے علماء کی دینی کتابوں میں بھی دین ہی کی بات ہوتی ہے۔ مگر وہ قدیم روایتی انداز میں ہوتی ہے جب کہ ماہنامہ الرسالہ میں دین کی بات جدید عصری اسلوب(modern idiom) میں ہوتی ہے۔
اس فرق کی بنا پر ایسا ہے کہ دوسرے علماء کی کتابیں ان لوگوں کو خوب پسند آتی ہیں جو قدیم روایتی ذہن رکھتے ہیں۔ لیکن جو لوگ عصری افکار سے واقف ہیں اور اسلام کو جدید انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں اُن کو اپنے ذہن کی تسکین صرف ماہنامہ الرسالہ میںہوتی ہے۔ کیوں کہ ماہنامہ الرسالہ میں جو مضامین چھپتے ہیں وہ سب کے سب زمانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے ہیں۔اُن میں بالقصد ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جو آج کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
قدیم اسلوب کیا ہے اور جدید اسلوب کیا۔ اس فرق کو سادہ طورپر اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قدیم اسلوب کے مطابق، یہ بھی پورے معنوں میں ایک دلیل ہے کہ لکھنے والا یہ لکھے کہ ’’حضرت کا یہ ملفوظ ہے، علماء نے ایسا لکھا ہے، اکابر کی یہ رائے ہے‘‘ وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں جدید اسلوب یہ ہے کہ جو بات کہی جائے وہ جدید معیار کے مطابق، دلیل کی زبان میں کہی جائے۔ گویا کہ دونوں میں جو فرق ہے وہ مغزِ کلام کے اعتبار سے نہیں بلکہ اسلوب کلام کے اعتبار سے ہے۔
سوال
قرآن کریم میں ہے کہ غیب کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں معلوم۔ مگر فرعون کو معلوم تھا کہ ایک لڑکا اس کو ختم کرنے والا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے (انیس فضل، سکندر آباد)
جواب
روایاتمیںیہ بات آئی ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا یا نجومیوں نے اس کو بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو فر عون کی سلطنت کو ختم کردے گا۔ مگر یہ بات درست نظر نہیں آتی۔ واضح ہو کہ قرآن یا حدیث میں ایسے کسی خواب یا نجومی کی پیشین گوئی کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ بات صرف اسرائیلی روایات (بائبل، تالمود) میں آئی ہے۔ انھیں اسرائیلی روایت سے نقل ہوکر وہ ہماری تفسیروں میں بھی آگئی ہے۔ مگر علمی طورپر یہ بنیاد اس کو ماننے کے لیے کافی نہیں۔
بظاہر جو بات صحیح ہے وہ یہ تھی کہ حضرت یوسف نے اپنے زمانے میں اپنے خاندان کو کنعان سے بلایا اور مصر آکر وہ وہاں کے زرخیز علاقوں میں آباد ہوگئے۔ ان کی نسل بڑھتی رہی یہاںتک کہ چند صدیوں میں وہ لوگ نہایت زور آور ہوگئے۔ حضرت یوسف کے تقریباً پانچ سو سال بعد مصر میں قومی انقلاب ہوا اور وہاں قبطی حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے بادشاہ نے فرعون کا لقب اختیار کیا۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو بنی اسرائیل کا فروغ اپنے لیے ایک سیاسی خطرہ نظر آیا۔ اس نے مختلف طریقوں سے بنی اسرائیل کے زور کو توڑنے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک بنی اسرائیل کی محدود نسل کشی بھی ہے۔ اگر یہ نسل کشی مطلوب نوعیت کی ہوتی تو جلد ہی بنی اسرائیل کا وجود مٹ جاتا، اور حضرت موسیٰ کے زمانے میں خروج کی نوبت ہی نہ آتی۔
سوال
میںآپ کے الرسالہ کا قریب پانچ سال سے مطالعہ کررہا ہوں۔ آپ کے positive approach کا قائل ہی نہیں بلکہ موجودہ حالات میں اس کو بہت ضروری سمجھتا ہوں۔
لیکن کیا کسی چیز کو صحیح ٹھہرانے کے لیے کسی اور کو غلط کہنا ضرور ی ہے۔ کیا کسی کی تعریف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرے کی برائی کی جائے۔ جولائی ۲۰۰۴ کا الرسالہ میرے مطالعے میں ہے۔ کچھ سوالات ہمارے ذہن میں آئے ہیں۔ امید کرتا ہوں آپ الرسالہ ہی کے ذریعے جواب دیں گے،مشکور ہوں گا۔
۱۔کیا آپ اپنے صحیح مشن کی طرف بغیر مولانا مودودی، ڈاکٹر اقبال اور علّامہ یوسف القرضاوی کو بُرا بھلا کہے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
۲۔ کیا دین اسلام کو صرف آپ ہی نے ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے، باقی علماء گمراہ ہیں۔
۳۔ کسی جماعت کو کریڈٹ یا discredit دینے کا حق کس کو ہے۔ ایک شخص کو، عوام کو یا کسی ایجنسی کو۔
ہوسکتا ہے یہ سوالات آپ کی نظر میں اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن وہ ہمارے لیے کافی اہمیت کا باعث ہیں (سید غیاث الدین، رانچی)
جواب
یہ میرے اوپر ایک بے بنیاد الزام ہے کہ میں کسی کو برا بھلا کہتا ہوں۔ میری کسی بھی تحریر سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ میں نے کبھی وہ کام کیا ہے جس کو برا بھلا کہنا بتایا جاتا ہے۔ میں جو کچھ کرتا ہوں وہ تجزیاتی تنقید ہوتی ہے اور دونوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک سر تا سر ناجائزہے اور دوسرا جائز۔ حقیقت یہ ہے کہ میری تحریروں پر اس قسم کا تبصرہ وہی شخص کرسکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ برا بھلا کہنے اور تجزیاتی تنقید کرنے میں کیا فرق ہے۔
کسی کو برا بھلا کہنا ایک حرام فعل ہے۔ اس فعل کو وہی شخص کرسکتا ہے جو خدا کی پکڑ کا خوف نہ رکھتا ہو۔ جہاں تک علمی تنقید کا تعلق ہے، وہ زندہ لوگوں کی علامت ہے۔ چنانچہ علمی تنقید اسلام کے ہر دور میں جاری رہی ہے۔ اصحاب رسول، تابعین، تبع تابعین، فقہاء، علماء، رہنما اور مفکرین اور مصنفین، ہر گروہ میں اور ہمیشہ علمی تنقید کارواج رہا ہے۔ آپ چاہیں تو اس کی تاریخی تفصیل راقم الحروف کی کتاب دین انسانیت میں دیکھ سکتے ہیں۔ حتٰی کہ آپ نے اپنے سوال میں جن شخصیتوں کے نام لیے ہیں خود ان کی نثر ونظم میں بھی کثرت سے تنقید کی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کے بہت سے تنقیدی اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:
وضع میںتم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہُنود یہ مسلماں ہیں جنھیںدیکھ کے شرمائیں یہود
سوال
ایک بڑی جماعت ہے جس کا نام ’’جماعت المسلمین‘‘ ہے۔ مسلمانوں کی یہ جماعت اس بات پر بہت زور دیتی ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی نہیں بلکہ فرقہ بندی شرک ہے، لعنت ہے، کفر ہے اور عذاب ہے بلکہ فرقہ بندی حرام بھی ہے— ولاتفرقوا (القرآن)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ۷۲ فرقے جہنم میں جائیںگے اور ایک فرقہ جنتی ہے ،اور وہ ’’الجماعۃ‘‘ ہے۔
کتاب اللہ اور فرمانِ رسول کے مطابق، ـتمام مسلمانوں کو جماعت المسلمین سے جڑنا چاہیے اور اُس کے امیر کی اطاعت کرنی چاہیے اور تمام فرقوں سے علیٰحدہ رہنا چاہیے۔
تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم۔ فاعتزل تلک الفرق کلہا (متفق علیہ) مزید برآں جماعت المسلمین کہتی ہے کہ اسلام نے اجتماعیت کو فر ض قر ار دیا ہے۔ علیکم بالجماعۃ وإیاکم والفرقۃ (ابو داؤد)
اور امیر کی بیعت نہ کرنے والا جاہلیت (کفر) کی موت مرتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلم کو جماعت المسلمین کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے۔ من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃً (صحیح مسلم)
لہذا حکم رسول کے بموجب، جماعت المسلمین کے علاوہ تمام فرقوں سے دینی معاملات میں علیٰحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ تاکہ ہر مسلم کی موت اسلام پر ہو نہ کہ فرقہ وارانہ مذاہب پر۔ مزید براں کہ جماعت المسلمین کے افراد اپنی جماعت کے علاوہ کسی مسلمان کو مسلم نہیں سمجھتی اور تمام دینی امور مثلاً صلوٰۃ، نمازِ جنازہ، شادی بیاہ اور رویت ہلال وغیرہ میںامت سے الگ رہتی ہے۔
براہِ کرم آپ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں کہ آیا اس قسم کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا یہ عقیدہ غُلو میں داخل ہے جس سے قرآن نے سختی سے روکا ہے (لا تغلوا فی دینکم) (عبد اللطیف، کراچی)
جواب
مجھ کو قرآن وحدیث کا جو علم ہے اس کی روشنی میں میں کہوں گا کہ یہ خود سب سے بڑا گناہ ہے کہ کچھ لوگ بطورِ خود ایک جماعت بنائیں اور اس کا نام’’الجماعت ‘‘ رکھ کر یہ کہیں کہ یہی وہ’’الجماعت‘‘ ہے جس کا ذکر حدیثِ رسول میںآیا ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں شامل ہو وہ حق پر ہے اور جو اس میں شامل نہ ہو وہ باطل پر ہے۔ اس قسم کا فعل جماعت بندی یا فرقہ بندی ہے، اور یہی وہ تفرق ہے جس سے قرآن اور حدیث میں منع کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ لوگ ہمیشہ اُمت کے مجموعے سے جُڑے رہیں، وہ امت کے مجموعے کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم نہ کریں۔ میرے نزدیک امت سے وابستہ رہنے کی تاکید جو حدیث میں کی گئی ہے وہ دُنیوی اتحاد کے اعتبار سے ہے۔ دنیا میں مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بحیثیت امت کمزور نہ ہوجائیں، اِس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر رہیں۔ اختلاف کی حالت میں اُس کے اوپر کوئی دینی فتویٰ نہ لگائیں بلکہ اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے معاملے کو خدا کے اوپر ڈال دیں۔ اسی لیے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ: لا نکفّر من أہل القبلۃ۔ یعنی جو شخص قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرے اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
جہاں تک اُس ’’الجماعت‘‘ کی بات ہے جو آخرت میں جہنم سے محفوظ رہے گی اور جنت میں جگہ پائے گی، اُس کا تعلق کسی خود ساختہ جماعت یا فرقے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک ایسے گروہ ِ افراد سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’الجماعۃ‘‘ قرار پائے۔
مذکورہ حدیث میں جس ’’الجماعۃ‘‘ کا ذکر ہے اس سے مراد معروف معنوں میں کوئی تنظیم نہیںہے۔ کسی خود ساختہ جماعت کو ’’الجماعۃ‘‘ کہنا اپنے آپ کو اِس خطرے میں ڈالنا ہے کہ ایسے لوگ کبھی ’’الجماعت‘‘ (فرقۂ ناجیہ) میں شامل نہ کیے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میںالجماعت سے مراد متفرق افراد کا گروہ ہے نہ کہ کوئی منظم جماعت، جو صدر اور سکریٹری کے تحت وجود میں آتی ہے۔ اس مطلوب الجماعت کی پہچان یہ ہے کہ وہ مَن کان علی ما أنا علیہ وأصحابی(ابوداؤد) کا مصداق ہو۔ یعنی وہ پوری سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ رسو ل اور اصحاب رسول کو اپنا اُسوہ بنائے۔ وہ ہر معاملے میں یہ دیکھے کہ دورِ اوّل میں جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو رسول اور اصحابِ رسول نے اُس موقع پر کس قسم کی روش اختیار کی۔ اورپھر رسول اور اصحاب رسول کے یہاں جو روش ملے اُس کو کسی تاویل کے بغیر اختیار کرلے۔
آپ نے اپنے خط میں جس جماعت کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہہ اُس برائی کا شکار ہے جس کو قرآن اور حدیث میں غُلو کہا گیا ہے۔ جب آپ کسی کو ایسی حالت میں دیکھیں جو آپ کے نزدیک بُرائی ہے تو آپ کو صرف یہ حق ہے کہ پوری خیر خواہی اور دل سوزی کے ساتھ اس کو نصیحت کریں، اور اپنی تنہائیوں میں اس کے لیے رو کر دعا کریں۔ ضروری دلائل کے ساتھ اس کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اپنی بری روش کو چھوڑ دے۔ اس قسم کی پُر امن اور خیر خواہانہ نصیحت کا حق ہر شخص کو ہے۔ لیکن جب کوئی شخص نصیحت سے آگے بڑھ کر یہ کرے کہ وہ برائی کرنے والے پر حُکم لگانے لگے، وہ برائی کرنے والے کا بائیکاٹ کرے، وہ برائی کرنے والے کے خلاف تشدد کو جائز سمجھے تو یہ دوسری صورت غلو کی صورت ہوگی اور غلو بلا شبہہ اسلام میں جائز نہیں۔
سوال
ایک مقرر صاحب نے دورانِ خطاب آپ کے بارے میں کہا کہ آپ جہاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ محدثین کرام نے کتاب الجہاد وغیرہ باب باندھے لیکن کتاب الدعوات وغیرہ جیسے باب نہیں باندھے۔ یہ ایک آپ کا تنقیدی پہلو ہے اورعلماء سوء وغیرہ کہہ رہے تھے کہ ایسے عالم کا اعتراض کوئی معمولی نہیں ۔ گویا ان کی تنقید کا انکاری پہلو انکار جہاد ہے اور رسول ﷺ پر تنقید کرنا ، آپ پر عیب لگانے کے برابر، اور آپؐ پر تنقید کرنے کے برابر ہے۔
ہم اس کی وضاحت چاہتے ہیں۔ چونکہ آپ دین اسلام کی خاطر اتنی کتابیں تالیف وتصنیف کرتے ہیں۔ پھربھی آپ پر یہ الزام حقیقی ہے یا آپ سے سہو ہوا ہے اور آپ بتقاضۂ بشریت تسلیم کرتے ہیں کہ مجھ سے فلاں غلطی ہوئی۔ (عتیق الرحمن قریشی، کرناٹکی)
جواب
میں نے جو بات لکھی ہے اس کا تعلق حدیث سے نہیں ہے بلکہ اُس کا تعلق تدوین حدیث سے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث ہیں خود اُن میں کثرت سے دعوت یا دعوت کے متعلق موضوعات کا بیان موجود ہے۔ مگر تدوین کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن لوگوں نے احادیث کو مرتب اور مدوّن کیا۔ اس اعتبار سے یہ ایک واقعہ ہے کہ حدیث کے موجودہ مجموعوں میں اُن کے مرتبین نے کتاب الدعوۃ والتبلیغ کا باب قائم نہیں کیا۔ ان مجموعوں کے اندر ہم کثرت سے ایسی حدیثیں پاتے ہیں جن میں دعوت کا پہلو موجود ہے۔ میں نے اپنی کتابوں اور تحریروں میں ایسی احادیث کو کثرت سے نقل کیا ہے۔ مگر جہاں تک مرتبین حدیث کی بات ہے، اُنھوں نے احادیث کو مرتب کرتے ہوئے دوسرے ابواب تو قائم کیے مگر کتاب الدعوہ والتبلیغ کی فصل قائم نہیں کی۔
اس معاملے میں جو کچھ میںنے کہا ہے وہ ایک علمی بات ہے۔ اگر کسی صاحب کا خیال ہے کہ میرا قول درست نہیں تو وہ حدیث کے مجموعوں کا حوالہ دیکھ کر بتائیں کہ ان میں کتاب الدعوۃ والتبلیغ کہاں ہے۔ ایسا کہنا صرف بے بنیاد (سب وشتم) ہے۔ وہ کوئی علمی اعتراض نہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۴ ’’واردھا کا سفر‘‘ ابھی ابھی تمام ہوا۔ صفحہ ۲۰ پرآپ نے لکھا ہے کہ ’’گوتم بدھ دراصل ذو الکفل کی بدلی ہوئی صورت ہے‘‘۔ مگر بظاہر یہ نظریہ ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے۔‘‘…
میرے نزدیک قصہ یوں ہے کہ گوتم بدھ کا تعلق کپل وستو سے تھا۔ دہلی یا دلی کی نسبت سے دہلوی، دلی والی یا دلی والا بولنا سمجھنا عام ہے اسی طرح کپل والا کو ذوالکفل کا مترادف سمجھ کر گوتم بدھ کی طرف بعض علماء و مفسرین کا ذہن گیا ہے۔ دوسرے گوتم بدھ کی سیرت اور تعلیمات پر نگاہ رکھتے ہوئے مولانا گیلانی (مؤلف سوانح قاسمی) ’’النبی الخاتم‘‘ میںیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اللہ پاک نے طلوع اسلام سے پہلے ایشیا کے بہت بڑے خطے کو مشرکانہ افکار سے پاک کرنے اور توحید کا پیغام عام کرنے کے لیے گوتم بدھ سے کام لیا تاکہ اسلام کے لیے مستقبل کی زمین ہموار ہورہے اور تاریخی اعتبار سے ایسا ہی ہوا‘‘ اس لیے استنباطاً یا قیاساً انھیں (گوتم بدھ کو) اس زمرے میں شامل ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے جس کی طرف آپ نے مذکورہ بالا صفحے پر اشارہ فرماتے ہوئے اسے ناقابل فہم قرار دیا ہے۔ براہِ مہربانی اس کی وضاحت کریں۔ (محمد رضوان احمد خاں، شیخ پورہ، بہار)
جواب
جو لوگ گوتم بدھ کو پیغمبر بتاتے ہیں ان کے پاس اس کے لیے کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں۔ ذوالکفل سے دور کی لفظی مشابہت کوئی قابل قبول ثبوت نہیں ہوسکتی۔ مزید یہ کہ گوتم بُدھ کے یہاں صرف انسانی اخلاقیات کی تعلیم ہے۔ خدا کے وجود یا توحید کا تصور ان کے یہاں موجود نہیں ہے۔ ایسی حالت میں گوتم بُدھ کو پیغمبر بتانا محض ایک لفظی نکتہ ہے، نہ کہ کوئی دلیل۔
اس قسم کی دلیل کو اگر معتبر مانا جائے تو یہ کوئی سادہ بات نہ ہوگی۔ آپ ایسا نہیں کرسکتے کہ ایک اُصولِ استدلال کو آپ اپنے لیے استعمال کریں اور جب اس اصول استدلال کو لے کر دوسرا شخص اپنے حق میں کوئی دلیل قائم کرے تو اس کو ماننے سے انکار کردیں۔ غالباً آپ کو معلوم ہوگا کہ لفظی مشابہت کے اس طریقۂ استدلال کو لے کر لوگوں نے ہر غلط عقیدے کو قرآن میں دریافت کرلیا ہے اور مزید اس قسم کی دریافت کا سلسلہ جاری ہے۔
سوال
پوجیہ ور مولانا صاحب! آداب وتسلیمات
کتاب ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں حضرت با یزید بُسطامی ؒ کا جیون چرتّر پڑھا۔اس میں آیا ہے: ’’کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ رات کو نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمایا کہ مجھے عالَمِ مَلکوت (یعنی عالم ارواح) کے چکر لگانے سے فرصت نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ لوگوں کی اعانت کرتا رہتا ہوں۔‘‘
اس جواب سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ عالم ملکوت کے چکر رات بھر کیوں لگاتے رہتے تھے؟ کِرپا کرکے اس کو سمجھانے کی مہربانی کریں۔ اس کی پرارتھنا ہے۔ کَسٹ کے لیے چھما چاہتا ہوں۔ سب کو سادَر سلام، پَرنام۔
آپ کا کرپا پاتر رام دیو
GH-4/276, Paschim Vihar
New Delhi- 110063
جواب
بھائی رام دیو جی! آداب وتسلیمات
آپ کا خط مورخہ ۱۴ جولائی ۲۰۰۵ ملا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کو روحانیت کے سبجیکٹ میں انٹرسٹ ہے۔ خدا اس معاملے میں آپ کی بھرپور مدد کرے۔
میں بھی روحانیت کا ایک طالب علم ہوں۔ اگر چہ میں کوئی پروفیشنل صوفی نہیں ہوں۔ مگر روحانیت میری فطرت میں بسی ہوئی ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ میں روحانیت میں جیتا ہوںاور روحانیت میں صبح و شام کرتا ہوں۔
میرا تجربہ ہے کہ لوگ روحانیت کے نام پر ایک اور چیز کو لیے ہوئے ہیں۔ وہ روحانیت کے نام سے روحانیت کی صرف ایک کمتر صورت (reduced form) کو جانتے ہیں۔
تذکرۃ الاولیاء اور اس طرح کی دوسری تمام کتابیں روحانیت کو جاننے کا صرف ناقص ذریعہ ہیں۔ یہ کتابیں دو قسم کی غیر متعلق باتوں سے بھری ہوئی ہیں—فرضی تمثیلات، اور فرضی کہانیاں۔ آپ نے ایک صوفی کے ’’ملکوتی سفر‘‘ کے بارے میں جو بات لکھی ہے، وہ محض ایک بے بنیاد کہانی ہے۔ اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ پرنٹنگ پریس اور جدید میڈیا کے زمانے سے پہلے ہر جگہ قصہ گو (story tellers) ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگ انوکھی کہانیاں بنا بنا کر لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ یہ گویا قدیم زمانے میں تفریح (entertainment) کا ایک سادہ ذریعہ تھا۔ بعد کو یہ کہانیاں لکھ لکھ کر کتابوں میں جمع ہو گئیں۔ پھر وقت گذرنے کے بعد وہ مقدس ہوگئیں۔ مسیحی روایات میں اِن کہانیوں کو ’’مقدس فریب‘‘ (pious fraud)کہا جاتا ہے۔ اور اسلام میں ان کو ’’موضوعات‘‘ کہاگیا ہے۔ ہندو کلچر میں بھی اس قسم کی بے اصل کہانیاں بھری ہوئی ہیں جن کو ’’دیومالائی کہانیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہم سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچولٹی (CPS)کے تحت صحیح روحانیت کو زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس روحانیت کو آپ سائنٹفک روحانیت (Scientific spirituality) کہہ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے بہت سی کتابیں شائع کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ہفتے ہمارے یہاں اسپریچول کلاس نیز دوسرے پروگرام ہوتے ہیں۔ ہماری اس تحریک کے ساتھ بہت سے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے فضل سے روحانی احیاء کا یہ کام مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں