جنت کے دروازے پر
On the Threshold of Paradise
جنت کیا ہے۔ جنت کوئی پراسرار چیز نہیں۔ جنت دوسرے معلوم سائنسی واقعات کی طرح ایک معلوم سائنسی واقعہ ہے۔ جنت دراصل زمین کا کنورژن ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، زمین پہلے آگ کی صورت میں تھی۔ پھر وہ ٹھنڈی ہوکر موجودہ زمین بنی۔ گویا غیر زمین نے کنورٹ ہو کر زمین کی صورت اختیار کی۔ اسی طرح مستقبل میں ایک اور اعلیٰ درجے کا کنورژن ہوگا۔ اس وقت غیر جنتی زمین کنورٹ ہو کر جنتی زمین بن جائے گی۔
موجودہ دنیا میں تمام چیزیں کنورژن کے ذریعے وجود میں آتی ہیں۔ پانی کیا ہے، دو گیسوں کا کنورژن۔ درخت کیا ہے، غیر درخت کا کنورژن۔ مشین کیا ہے ، لوہے کا کنورژن۔ صنعتی دنیا کیا ہے، غیرصنعتی دنیا کا کنورژن۔ اسی طرح مستقبل میں ایک زیادہ بڑا کنورژن پیش آئے گا۔ اس وقت موجودہ غیرمعیاری زمین بدل کر معیاری زمین بن جائے گی، اسی کا نام مذہبی زبان میں جنت ہے۔ اس واقعے کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیاہے: یوم تبدل الارض غیر الارض (ابراہیم ۴۸)
When the earth is turned into another earth.
زمین پر کنورژن کا یہ عمل بار بار پیش آیا۔ زمین کے لیے کنورژن ایک معلوم فطری پراسس ہے۔ وہ ایک معلوم فطری واقعہ ہے۔ ایسی حالت میں جنت کو ماننا صرف ایک ہونے والے واقعے کو ماننا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی فیکٹری کے بارے میں کہا جائے کہ اس سے ۹۹۹ پروڈکٹ نکل چکے ہیں اور اب اس سے ہزارواں پروڈکٹ نکلنے والا ہے۔
جنت صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں۔ خود فطرت کے محکم قانون کے مطابق، جنت ایک ہونے والا واقعہ ہے۔ فطرت کا نظام جس قانون کے تحت چل رہا ہے اُس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا مسلسل ایک ارتقائی عمل سے گذر رہی ہے۔ جنت گویا اسی ارتقائی عمل کی آخری اور انتہائی صورت ہے۔ جنت ایک تخلیقی آغاز کی فطری انتہا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ کائنات بے حد وسیع ہے، اتنی زیادہ وسیع کہ انتہائی طاقتور دور بینوں کی دریافت کے باوجود ابھی تک اس کی وسعتوں کا اندازہ نہ ہوسکا۔ اس ناقابلِ پیمائش حد تک وسیع کائنات میں زمین ایک بے حد چھوٹا سیارہ ہے۔ کائنات کے مقابلے میں ہماری زمین اُس سے بھی زیادہ چھوٹی ہے جتنا کہ پوری زمین کے مقابلے میں ایک ذرّہ۔
زمین کا یہ کُرہ وسیع کائنات کے اندر ایک انتہائی نادر استثناء ہے۔ پوری کائنات میں زمین واحد ایسا مقام ہے جہاںاستثنائی طورپر پانی ، سبزہ ، ہوا اور آکسیجن جیسی چیزیں موجود ہیں۔ زمین پر زندگی ہے اور اسی کے ساتھ وہ چیز بھی موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ زمین کے اندر وہ ساری قیمتی چیزیں رکھ دی گئی ہیں جن کو استعمال کرکے انسان تہذیب و تمدن کی تعمیر کرتا ہے۔ زمین کے اندر تہذیب کے تمام اجزاء امکانی طور پر موجود ہیں۔ انسان کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اِس پوٹینشیل (potential) کو ایکچول (actual) بنائے۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو تہذیب کی تاریخ مسلسل طورپر ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف جارہی ہے۔ وہ ترقی کے ابتدائی مرحلے سے گذرکر ترقی کے اعلیٰ مرحلے کی طرف اپنا سفر طے کررہی ہے۔ تہذیب کے اس سفر کی تفصیل اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام تیار کردہ کتاب تاریخ البشریّۃ(The History of Mankind) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تہذیبِ انسانی کے اس سفر کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی سورہ الانشقاق میں بتایا گیا ہے کہ زمین پر رات اور دن کی صورت میں بار بار تبدیلی کا واقعہ ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح زمین پر زیادہ بڑا واقعہ بھی پیش آئے گا۔ چنانچہ فرمایا کہ : تم کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے۔ تو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ خدا کی طرف نہیں جھکتے:
You will surely move from one stage to another stage. What then is the matter with them, that they believe not? and when the Qur'an is read to them, they don't surrender before God. ( 84: 19-21 )
قرآن کی ان آیات میں انسان کی اسی تہذیبی تاریخ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کا ارتقاء معلوم طورپر بتا رہا ہے کہ انسانی تہذیب مسلسل ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس ترقی کا آخری نمونہ وہی ہوگا جس کو روحانی تہذیب یا جنت کہاگیا ہے۔
تہذیب کی تاریخ بتاتی ہے کہ معلوم طورپر، انسانی تہذیب تین بڑے اَدوار سے گزر چکی ہے۔ تمام قرائن بتا رہے ہیں کہ اب وہ اپنے سفر کے چوتھے اور آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ تہذیب کے یہ تین بڑے ادوار حسب ذیل ہیں:
۱۔حَجری تہذیب (Stone Civilization)
۲۔ زرعی تہذیب (Agricultural Civilization)
۳۔ صنعتی تہذیب (Industrial Civilization)
ہر شخص جانتا ہے کہ تہذیب کے یہ تین ادوار وقوع میں آچکے ہیں۔ تاہم فیوچر شاک (Future Shock) کے مصنف الوِن ٹافلر(Alvin Taffler) کا کہنا ہے کہ تہذیب کا چوتھا، اور شاید آخری دور مستقبل میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اس چوتھے دور کو الون ٹافلر نے سُپر انڈسٹریل ایج (Super Industrial Age) کہا ہے۔ یہ چوتھا دور، پچھلے ادوار کے مقابلے میں، مادّی سے زیادہ غیر مادی ہوگا۔ اس لیے زیادہ بہتر ہے کہ اس چوتھے دور کو روحانی تہذیب (Spiritual Civilization) کا نام دیا جائے۔
۱۔ اب پہلی تہذیب، حجری تہذیب کو لیجئے۔یہ تہذیب کا وہ دور ہے جب کہ انسان صرف یہ کرسکا تھا کہ زمین کی سطح پر بروقت جوچیزیںموجود ہیں ان کو اسی خام صورت میں استعمال کرے۔ ان موجودہ چیزوں میں پتھر سب سے زیادہ نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے علامتی طورپر اس دور کو حجری دورکہاگیا۔ اگر چہ ابتدائی تہذیب کے اس دور میں پتھر کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں استعمال میں آئیں جو پہلے سے زمین کی سطح پردستیاب تھیں۔ مثلاً لکڑی، حیوانات، باقاعدہ زراعت کے بغیر ملنے والی پیداوار، وغیرہ۔
جہاں تک انسان کا تعلق ہے، حجری تہذیب کے زمانے میں بھی انسان وہی تمام فطری اوصاف رکھتا تھا جو وہ آج رکھتا ہے۔ مثلاً بعد کی تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان کے برین میں ایک سو ملین بلین بلین پارٹیکل موجود ہیں۔ حجری دور کے انسان کے دماغ میں بھی اتنے ہی پارٹکل موجود تھے۔ مگر تعلیم و تربیت کی کمی کی بنا پر انسان ابھی اس قابل نہیں بنا تھا کہ وہ اپنے اندر چھپے ہوئے ان فطری امکانات کو استعمال کرسکے۔
۲۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ زمانہ آیا جس کو زرعی دو رکہاجاتا ہے۔ یعنی وہ د ور جس کو ہم نے زرعی تہذیب (Agricultural Civilization) کا نام دیا ہے۔ اس دور میں انسان نے مزید آگے بڑھ کر نیچر میںتصرف کا طریقہ دریافت کیا۔ اس دور میں آب پاشی، زراعت، مویشی کی پرورش، لوہے کا استعمال، پہیے دار گاڑی اور اس قسم کی دوسری چیزیں دریافت کیں۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر زندگی گزار سکے۔
۳۔ اس کے بعد تیسرا دور وہ ہے جس کو صنعتی دور یا صنعتی تہذیب کہا جاتا ہے۔ یہ تیسرا دور اُس وقت شروع ہوا جب کہ انسان نے حیوانی طاقت سے آگے بڑھ کر میکانیکل پاور کو دریافت کیا۔ اب انسان نے پانی کو اسٹیم پاور میں تبدیل کیا اور اسٹیم انجن بنائے۔ اسی طرح انسان نے پٹرول کو دریافت کیا اور پٹرول سے چلنے والی مشینیں بنائیں۔ اسی طرح اُس نے کمیونیکیشن کے نئے ذرائع دریافت کیے جس نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا۔
صنعتی دور میں انسان نے میکانیکل پاور کو استعمال کرکے بہت سی چیزیں بنائیں۔ مثلاً تیزرفتار سواری، تیز رفتار خبر رسانی، کاغذ اور چھَپائی کے طریقے، نئے اصولوں پر شہری تعمیر، تعلیم وترقی کا نیا نقطۂ نظر، وغیرہ۔ اس طرح حسن اور معنویت کی ایک نئی دنیا وجود میں آئی جس کو صنعتی تہذیب کہا جاتا ہے۔
تہذیب کا چوتھا دور وہ ہے جس کوالون ٹافلر نے سُپر انڈسٹریل ایج کا نام دیاہے۔ الون ٹافلر کے بیان کے مطابق، سُپر انڈسٹریل ایج کی خاص صفت یہ ہوگی کہ وہاں مکمل طورپر آٹو میشن (automation)کا رواج ہوگا۔ یعنی الیکٹرانکس کا استعمال اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ بیش تر کام خود بخود ہونے لگیں گے۔ عام حالات میں انسان کا چاہنا ہی اِس مقصد کے لیے کافی ہوجائے گا کہ اس کی تمام ضرورتیں خود بخود معیاری طورپر پوری ہوتی رہیں۔
آٹومیشن کا یہ نظام عین وہی چیز ہے جس کی پیشگی اطلاع جنت کے بارے میں دی گئی ہے۔ قرآن میں جنت کے بارے میں بتایاگیا ہے : ولکم فیہا ماتشتہی انفسکم ولکم فیہا ما تدعون (حٰم السجدہ ۳۱) یعنی تمہارے لیے جنت میں ہروہ چیز ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔
الون ٹافلر نے مستقبل کے اس دورکو سُپر انڈسٹریل ایج کہا ہے۔ وہ گویا جنتی کلچر کا دوسرا نام ہے۔یہ گویا جنت کی پیشگی خبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ سُپر انڈسٹریل ایج مستقبل کے اُس معیاری دور کو علمی اعتبار سے قابلِ فہم بنا دیتا ہے جس کو اوپر کی تقسیم میں اسپریچول سویلائزیشن کا نام دیاگیا ہے۔
بظاہر تہذیب کا یہ چوتھا دور زیر تعمیر ہے۔ یہی چوتھا دور وہ دور ہے جس میں غالباً اُس معیاری دنیا کا ظہور ہوگا جس کو مذہبی اصطلاح میں جنت (paradise) کہاگیا ہے۔ موجودہ تحویلی دَور (Transitional Period) گویا وہ حالت ہے جس کوزیرِ تعمیر جنت(Paradise in the making) کہا جاسکتا ہے۔
جنت گویا تہذیبی سفر کے آخری دور کا نام ہے۔ قانونِ فطرت کے تحت بننے والی یہ دنیا یقینا اپنے وقت پر بنے گی۔ یہ دنیا ایک معیاری دنیا ہوگی۔ اس دنیا میں ہر قسم کی محدودیت (limitation) اور ڈس ایڈوانٹیج (disadvantage) کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حُزن۔ یہاں نہ شور ہوگا اور نہ تکلیف۔ جنت کی یہ دنیا انسان کے اُن خوابوں کی تعبیر ہوگی جن کو وہ پہلے دن سے دیکھتا رہا ہے۔
اِسی کے ساتھ انسان کی ہستی میں نئی ترقیاں ظہور میںآئیں گی۔ یہ انسان کا نقطۂ عروج ہوگا، جہاں پہنچ کر انسان ایک کامل انسان بن جائے گا۔ اس کو وہ ابدی زندگی مل جائے گی جو بڑھاپا ،حادثہ، بیماری اور موت سے خالی ہوگی۔ یہ وہ معیاری دنیا ہوگی جہاں انسان اس پوزیشن میںہوگا کہ وہ اپنی ہستی کے تمام امکانات کو استعمال کرے۔ وہ کامل فُل فِل منٹ کا اعلیٰ تجربہ کرسکے۔
جنت گویا انسانی تہذیب کے ارتقائی عمل کا نقطۂ عروج (culmination) ہے۔ جنت اُس پرفیکٹ اور آئیڈیل دنیا کا ظہور ہے جس کا خواب ہمیشہ سے انسان دیکھتا رہا ہے۔ جنت میں پہنچ کر انسان تمام مصائب اور تمام مصیبتوں سے نجات پاجائے گا۔ جنت راحتوں اور خوشیوں کا وہ معیاری مقام ہوگا جس کے لیے کوئی فنا نہیں۔
مزید یہ کہ جنت کوئی ٹھہراؤ کی جگہ نہ ہوگی(الکہف: ۳۱)۔ جنت میں انسان کو ہر وقت نئی نئی دریافتیں ہوں گی، ایسی دریافتیں جن کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنت میں بورڈم نہیں ہوگا۔ کیوں کہ بورڈم وہاں ہوتا ہے جہاں نئی دریافتیں نہ ہو رہی ہوں۔ انسان کے لیے نئی دریافت خوشی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جنت میں ہر روز لامحدود حقائق کا کوئی نیا دروازہ کھُلتا رہے گا۔ اسی لیے جنت کی خوشی ایک ابدی خوشی ہوگی، نہ کہ صرف ایک وقتی خوشی۔
اس جنت کا بننا اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ زمین کا بننا اور زمین پر مختلف تہذیبوں کا وجود میں آنا۔ قدیم حجری دَور کے اندر زیادہ ترقی یافتہ زرعی دَور چھپا ہوا تھا جو اپنے وقت پر ظاہر ہوا۔ اسی طرح زرعی دور کے اندر زیادہ ترقی یافتہ صنعتی دَور چھپا ہوا تھا جو اپنے وقت پر ظاہر ہو کر سامنے آیا۔ اسی طرح صنعتی دَور کے اندر زیادہ ترقی یافتہ ، لطیف اور روحانی دور چھپا ہوا ہے جو اپنے وقت پر ظاہر ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے گا۔ اس روحانی دَور یا جنتی دور کا ظہور میں آنا عملی طور پر اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ پچھلے اَدوار کا ظہور میںآنا۔
جب جدید صنعتی دو رآیا تو زمین کو دوبارہ سجایا گیا۔ منصوبہ بند انداز میں اس کی تعمیر کی گئی۔ تمدنی ترقیوںنے زمین کو ایک نئی، زیادہ بہتر زمین بنادیا۔ اسی طرح جب تہذیبی ترقی کا آخری دور، روحانی دور آئے گا تو زمین کو مزید زیادہ بہتر اور زیادہ مکمل بنا دیا جائے گا۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں واضح اشارے موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا کہ: اُس وقت زمین زیادہ کشادہ کردی جائے گی(الانشقاق ۳) زمین کے صالح باشندے آزادانہ طورپر اس کے مالک بن جائیں گے (الزمر: ۷۴) حتیٰ کہ پوری کائنات اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اہلِ جنت کے چارج میں دے دی جائے گی (الحدید: ۲۱)
اسلامی روایات کے مطابق، زمین اپنی ابتدا میں جنوں کے چارج میں تھی۔ اس کے بعد وہ انسانوں کے چارج میں دی گئی۔ اب وہ آخری دور آنے والا ہے جب کہ زمین مکمل طورپر فرشتوں کے چارج میں دے دی جائے ۔ اُس وقت زمین میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں گی کہ وہ پورے معنوں میں ایک آئیڈیل ورلڈ اور پرفیکٹ ورلڈ بن جائے۔ زمین کے اس ارتقائی دور کی بابت قرآن میں اشارات موجود ہیں۔ مثلاً فرمایا کہ : یہ وہ دن ہوگا جب کہ زمین خدا کے نور سے جگمگا اُٹھے گی(الزمر ۶۹) آج زمین امکانی معنوں میں جنت ہے۔ کل یہ امکان واقعہ بن جائے گا۔ اور پھر زمین خوشیوں اور راحتوں کا ابدی مقام بن جائے گی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین کی موجودہ حالت آئیڈیل حالت نہیں ہے۔ زمین پر نیچر کا قائم کیاہوا لائف سپورٹ سسٹم بہترین حالت میں موجود ہے۔ زمین پر ہر قسم کے سامانِ حیات بہترین حالت میں موجود ہیں، مگر اسی کے ساتھ زمین پر ایک غیر آئیڈیل حالت پائی جاتی ہے۔ یہاںاچھے لوگوں کے ساتھ بُرے لوگ بھی موجود ہیں۔ برے لوگوں کی یہ موجودگی زمین پر ہر قسم کے فسادات کا سبب ہے۔ جب تہذیبی سفر کا آخری مرحلہ سامنے آئے گا تو زمین کی آبادی سے تمام برے لوگ چھانٹ کر الگ کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد زمین صرف اچھے لوگوں کے چارج میں آجائے گی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’اور ہم نے زبور میں موعظت کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے‘‘ (الانبیاء ۱۰۵) یہ بات جو قرآن میں بتائی گئی ہے وہ اب بھی تفصیل کے ساتھ بائبل (زبور) میں موجود ہے۔ اس کا ایک جُزو یہ ہے— پَر شریروں کی نسل کاٹ ڈالی جائے گی۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے:
The righteous shall inherit the land, and dwell in it forever (Psalm 37:29)
خلاصۂ کلام
مطالعہ بتاتا ہے کہ وسیع کائنات میں ہماری زمین ایک نادر استثناء ہے۔ وسیع خلا میں انتہائی بڑے بڑے ستارے اس سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں جتنا کہ تمام سمندروں کے کنارے ریت کے ذرے۔ مگر یہ تمام ستارے صرف آگ کے گولے ہیں۔معلوم طورپر ۱۳ بلین سال سے اب تک وہ اسی ایک حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس بظاہر ’’جامد‘‘ کائنات میں صرف ایک چیز غیر جامد ہے اور وہ ہماری زمین ہے۔ زمین میں استثنائی طورپر ایک ارتقائی عمل (evolutionary process) جاری ہے۔ زمین پر ایک کے بعدایک مختلف اسٹیج آرہے ہیں— ۱۰ بلین سال پہلے زمین صرف ایک آگ کا گولا (fire ball) تھی۔ اس کے بعد وہ سرد ہو کر ٹھنڈا سیارہ (cool planet) بنی۔ اس کے بعد اس کے اوپر پانی کا دور آیا۔ پھر زمین کی سطح پر سبزہ اور درخت اگے۔ پھر اس میں حیوانات پیدا ہوئے۔ اس کے بعد انسان کا ظہور ہوا۔ انسان کے ظہور کے بعد زمین پر تہذیبی ارتقاء کے ادوار آنے شروع ہوئے۔ انسان نے پہلے کم ترقی یافتہ دنیا(underdeveloped world) بنائی۔ اس کے بعد انسان ترقی یافتہ دنیا (developed world) بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ارتقائی عمل مسلسل جاری ہے۔ اور یہ کہنا بالکل فطری ہے کہ ابھی زمین پر ایک اور زیادہ بہتر دور آنے والا ہے جس کے بعد یہ زمین ایک معیاری دنیا (perfect world) کی صورت اختیار کرلے گی:
It is but natural to believe that one more stage is in the ofting, that of a perfect world.
جنت کوئی پر اسرار چیز نہیں، جنت معلوم ارتقائی پراسس کا آخری اسٹیج ہے۔ جہاں تک حیوانات میں عضویاتی ارتقاء (organic evolution) کی بات ہے وہ تو بلاشبہہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے۔ مگر غیر ذی روح دنیا میں دَوری ارتقاء (periodic evolution) ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ اس فطری قانون کے مطابق جنت پوری طرح ایک قابل فہم واقعہ ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً ۱۰ ملین سال پہلے ہماری زمین آگ کا ایک گولا (fireball) تھی۔ اس کے بعد وہ ایک سرد سیارہ(cool planet) بنی۔ پھر انسانی آبادی کے بعد یہاں وہ دنیا بنی جس کو زیرِ تعمیردنیا (underdeveloped world) کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں ایک اور ارتقائی مرحلہ آیا اور صنعتی انقلاب کے بعد وہ دنیا بنی جس کو ترقی یافتہ دنیا (developed world) کہا جاتا ہے۔
یہ چار دَور (periods) زمین پر آچکے ہیں۔ اب خود ارتقائی قانون کے مطابق زمین ایک اعلیٰ تر مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ گویا زمین کا آخری ارتقائی مرحلہ ہوگا۔ اس اعتبار سے اس کو معیاری دنیا (perfect world) کہا جاسکتا ہے۔ اس معیاری دنیا میں ہرقسم کی محدودیتیں (limitations) ختم ہوجائیں گی۔ خدائی اہتمام کے تحت یہاں کامل معنوں میں عادلانہ سماج (just order) بنایا جائے گا۔ برے لوگوں کو زمین سے ہٹا دیا جائے گا اور صرف اچھے لوگوں کو یہاں بسنے کی آزادی ہوگی۔ کثافت (pollution) کی تمام صورتیں ختم ہوجائیں گی۔ مصیبتوں (calamities) کا خاتمہ ہوجائے گا۔بیماری ،حادثہ ، بڑھاپا اور موت جیسے تمام ڈس اڈوانٹیج (disadvantage) ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے۔
موجودہ دنیا میں ہر کام سخت محنت کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ موجودہ دنیا میں محنت اور کامیابی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ جنت میں یہ صورت حال ختم کردی جائے گی۔ جنت میں ایسی نفیس تبدیلیاں واقع ہوں گی، جس میں ہر کام ایک پُر لطف مشغلے کی حیثیت اختیار کرلے گا (یٰس ۵۵)۔ جنت میں الگ سے تفریح (entertainment) کی ضرورت نہ ہوگی۔ کیوں کہ خود روزمرّہ کا کام ہی تفریح کا ذریعہ بن جائے گا۔
انسان فطرت کے زور پر ہزاروں سال سے جس مطلوب دنیا (desired world) کی ناکام تلاش کررہا تھا وہ دنیا اپنی کامل صورت میں اس کو مل جائے گی۔ انسان اس دنیا میں ہمیشہ کے لیے خوشیوں اور راحتوں بھری زندگی کو پالے گا۔ جسمانی محنت(physical labour) کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ صرف خوشگوار ذہنی سرگرمیاں (pleasant intellectual activities) تمام مطلوب نتائج کے حصول کے لیے کافی ہوجائیں گی۔
واپس اوپر جائیں