جنگ اور امن اسلام میں
اسلام میں جنگ اور امن کی حیثیت کیا ہے، اس سوال کا جواب پانے کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلامی مشن کا نشانہ کیا ہے۔ جنگ اور امن دونوں دو مختلف طریقِ کار ہیں، وہ بذات خود مقصد نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں اگر اس کا تعین ہو جائے کہ اسلامی مشن کا نشانہ کیا ہے تو اس کے بعد اپنے آپ اس کا تعین ہوجائے گا کہ اسلام کا طریقہ جنگ کاطریقہ ہے یا امن کاطریقہ۔
قرآن میں اس سوال کا واضح جواب دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک متعلق آیت یہ ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو خطاب کرتے ہوئے ایک عمومی حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وجاھدھم بہ جہادًا کبیرا (الفرقان ۵۲) یعنی اے محمد، لوگوں کے ساتھ تم قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔
قرآن ایک کتاب ہے، وہ کوئی گن یا تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب واضح طورپر پر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے، نہ کہ مسلح جدوجہد(armed struggle)۔
قرآن جب ایک نظریاتی کتاب ہے تو اس کے ذریعہ پر امن جدوجہد کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو بدلا جائے۔ لوگوں کی سوچ کو قرآنی سوچ بنایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، قرآن کا مشن زمین پر قبضہ کرنا نہیںہے بلکہ انسان کے ذہن پر قبضہ کرناہے۔ اسلام کا نشانہ ذہنی انقلاب ہے، نہ کہ لوگوں کو جسمانی اعتبار سے مغلوب کرنا۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ پیغمبراسلام نے اپنے مشن کو کس طرح جاری کیا تو واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا پورا مشن جس نشانہ پر چلایا وہ یہی تھا کہ لوگوں کے دل ودماغ کو بدلا جائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبر پراپنا کلام اس لئے اتارا تا کہ وہ لوگوں کو افکار کے اندھیرے سے نکال کر افکار کی روشنی میں لے آئے (الحدید ۹) ۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی اصلاح کے سلسلہ میں اصل اہمیت صرف ایک چیز کی ہے اور وہ اس کے دل کی اصلاح ہے (ألا وھی القلب) انسان کے دل کو بدل دو اور پھر اس کی پوری زندگی بدل جائے گی۔ پیغمبر اسلام کو مکہ میں جب پہلی وحی ملی تو اس وقت آپ نے وہاں کے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا کہ اے لوگو، میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ موت کے بعد آنے والے معاملہ کی تمہیں خبر دوں(أنا النذیر العریان) ۔اسی طرح مدینہ میں جب آپ غالب حیثیت میں داخل ہوئے اس وقت بھی آپ نے وہاں کے لوگوں سے یہی کہا کہ اے لوگو، اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ خواہ چھوہارے کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو(اتقوا النار و لو بشق تمرۃ)۔
قرآن اور سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام کا اصل نشانہ انسان کے ذہن کو بدلنا ہے۔ یہی اسلامی مشن کا اول بھی ہے اور یہی اس کا آخر بھی۔ مگر دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور خودتخلیقی نقشہ کے مطابق، ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایسا ہواکہ کچھ لوگ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گئے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ اس آخری حد تک گئے کہ انہوں نے آپ کے مشن کو ختم کرنے کے لئے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس کی بنا پر پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو اپنے دفاع میں وقتی طورپر ہتھیار اٹھانا پڑا۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثناء (exception) کی۔
پیغمبر اسلام کی پیغمبرانہ عمر ۲۳ سال ہے۔ اس ۲۳ سال میں قرآن وقفہ وقفہ سے حسب حالات اترتا رہا۔اس اعتبار سے اگر مدت کی تقسیم کی جائے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کا ایک حصہ وہ ہے جو تقریبًا ۲۰ سال کی مدت تک پھیلا ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جو مجموعی طورپر تقریبًا تین سال پر مشتمل ہے۔ ۲۰ سالہ مدت میں قرآن میں جو آیتیں اتریں وہ سب کی سب پر امن تعلیمات سے تعلق رکھتی تھیں، مثلاً عقیدہ، عبادت، اخلاق، انصاف، انسانیت، وغیرہ۔ جہاںتک جنگ کی آیتوں کا تعلق ہے، وہ صرف تین سال کی اس مدت میں اتاری گئیں جب کہ اہل اسلام کو عملاًمسلح جارحیت کا مسئلہ در پیش تھا۔
قرآن میں کل ۱۱۴ سورتیں ہیں۔ مجموعی طور پر قرآن میں کل آیتوں کی تعداد ۶۶۶۶ ہے۔ ان میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طورپر جنگ (قتال) سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس تناسب کے اعتبار سے قرآن میں جنگ سے تعلق رکھنے والی آیتوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے (precisely 0.6 percent) ۔
اس قسم کا فرق ہر ملک کے دستور میں اور ہر مذہبی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً بائبل (New Testament) میں بہت سی پر امن تعلیمات ہیں۔ اسی کے ساتھ مسیح کی زبان سے اس میں یہ قول بھی موجود ہے کہ میں صلح کروانے نہیں آیا ہوں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں:
I do not come to bring peace but a sword.
اسی طرح بھگوت گیتا میں بہت سی اخلاق اور حکمت کی باتیں ہیں۔ مگراسی کے ساتھ گیتا میں یہ بھی موجود ہے کہ کرشن نے ارجن سے اصرار کے ساتھ کہا کہ اے ارجن، آگے بڑھ اور جنگ کر۔ مگر ظاہر ہے کہ بائبل اور گیتا میںان اقوال کی حیثیت استثناء کی ہے، نہ کہ عموم کی۔
اسلام کی امن پسندی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام میں دشمن اور حملہ آور کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ یکطرفہ حملہ کے ذریعہ عملی طورپر جارحیت کی صورت پیدا کر دے تو اس وقت ایک ناگزیر برائی(necessary evil) کے طورپر دفاع کی ضرورت کے تحت جنگ کی جائے گی۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اُذنَ للذین یقاتلون بأنھم ظلموا (الحج ۳۹) یعنی جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ چھیڑ دی گئی ہے۔
مگر جہاں تک دشمن کا تعلق ہے، ان کے خلاف محض دشمنی کی بنا پر جنگی کارروائی کی اجازت نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت اہل اسلام کو ایک واضح ہدایت دیتی ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (فصّلت ۳۴)۔
اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی شخص تم کو دشمن نظر آئے تو اس کو اپنا ابدی دشمن نہ سمجھ لو۔ ہر دشمن انسان کے اندر تمہارا ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو اور اس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بناؤ، اس کے بعد تمہیں کسی سے دشمنی کی شکایت نہ ہوگی۔
اس معاملہ کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے۔ اس روایت میں پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو بتاتے ہوئے آپ کی اہلیہ عائشہ نے کہا: ماخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین امرین إلا اختار أیسرھما (صحیح البخاری) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب فرماتے تھے۔
یہ واضح ہے کہ طریق کار کی دو قسمیں ہیں۔ پرتشدد طریقِ کار (violent method) اور پر امن طریق کار (peaceful method)۔ اب دونوں کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی نزاعی معاملہ کے وقت پر تشدد طریق کار کو اپنانا مشکل انتخاب (harder option) ہے اور پر امن طریق کار کو اپنانا آسان انتخاب (easier option) ہے۔ اس کے مطابق، اسلام کی جنرل پالیسی یہ قرار پاتی ہے کہ جب بھی کسی فریق سے کوئی نزاع پیدا ہو تو اس سے مقابلہ کے لئے ہمیشہ پرامن طریق کار کا انتخاب کیا جائے، نہ کہ پر تشدد طریقِ کار کا۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ آزادی کو انسان کاایک ناقابل تنسیخ حق مان لیا گیا ہے تواب صرف پر امن طریق کار ہی کا انتخاب کیا جائے گا۔ کیوں کہ وقت کے مسلّمہ اصول کے مطابق، پر تشدد طریق کار کو اختیار کرنے میں تو یقینًا رکاوٹیں ہیں مگر پر امن طریق کار کو اختیار کرنے میںکوئی رکاوٹ نہیں۔
یہاں یہ اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں محدود نوعیت کی جو چند لڑائیاں پیش آئیں ان میں دراصل زمانی عامل (age-factor) کام کررہا تھا۔ یہ لڑائیاں ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوئیں۔ یہ زمانہ مذہبی جبر اور مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں موجودہ قسم کا مذہبی ٹالرنس نہیں پایا جاتا تھا۔ اس بنا پر توحید کے مخالفوں نے پیغمبراسلام کے خلاف جارحانہ کارروائی کرکے آپ کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ موجودہ زمانہ میں مذہبی آزادی ہر فرد اور ہر گروہ کا ایک مسلّم حق بن چکی ہے ۔ اس لئے موجودہ زمانہ میں مذہبی حقوق کے لئے جنگ کا کوئی سوال نہیں۔
اسلام میں امن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ہر ناخوش گوار صورت حال کو برداشت کرتے ہوئے حالت امن کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیاہے۔ فریقِ مخالف کی ایذا رسانی پر صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرنا اور اس کو ہر قیمت پر یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ باقی رکھنا اسلام کا اہم اصول ہے۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کیوں کہ اسلام کی تعمیری سرگرمیاں صرف پر امن اور معتدل ماحول ہی میں انجام دی جاسکتی ہیں۔ اس معاملہ میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ فریق ثانی کی طرف سے عملی جارحیت ہے۔
پیغمبر اسلام نے قدیم مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا۔ اس سلسلہ میں آپ تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس مدت میں مکہ کے مخالفین کی طرف سے بار بار زیادتیاں کی گئیں۔ مگر پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں نے ان زیادتیوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کیا۔ اسی صبر و اعراض کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ پیغمبراور آپ کے اصحاب نے جنگ سے بچنے کے لئے یہ کیا کہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان تین سو میل کا فاصلہ ہے۔ مگر مکہ کے مخالفین نے خاموشی اختیار نہ کی بلکہ انہوں نے باقاعدہ طورپر مدینہ پر اقدامی حملے شروع کردئے۔ ان حملوں کو سیرت کی کتابوں میں غزوہ کہا جاتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے غزوات کی تعداد ۸۳ شمار کی گئی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام اور مخالفین کے درمیان صرف تین بار باقاعدہ جنگ(fullfledged war) ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۸۰ غزوات میں پیغمبر اسلام نے اعراض اور حسن تدبیر کے ذریعہ دونوں فریقوں کے درمیان عملی مقابلہ کو ٹال دیا۔ صرف تین بار (بدر، احد، حنین) میں مجبورانہ حالات کی بنا پر آپ کوجنگی مقابلہ کرنا پڑا۔
جنگی مقابلہ سے اعراض کی اسی پالیسی کی ایک مثال وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ جب پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان جنگی صورت حال پیدا ہوگئی تو آپ نے یہ کوشش شروع کی کہ یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ جنگی حالات کو ختم کر دیا جائے اور دونوں فریقوں کے درمیان پر امن فضا کو بحال کیا جائے۔
اس مقصد کے لئے آپ نے اپنے مخالفین سے صلح کی گفت و شنید شروع کی جو دو ہفتہ تک جاری رہی۔ یہ گفت وشنید مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر ہوئی اس لئے اس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل دونوں فریقوں کے درمیان ایک امن معاہدہ تھا۔ گفت وشنید کے دوران پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ فریقِ ثانی اپنی ضد کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ چنانچہ آپ نے فریقِ مخالف کی یک طرفہ شرطوں کو مان کر ان سے امن کامعاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان تناؤ کو ختم کیا جائے اور نارمل فضا کو قائم کیا جائے تا کہ معتدل حالات میں دعوت و تعمیر کا وہ کام کیا جاسکے جو اصلاً اسلامی مشن کا مقصود تھا۔ چنانچہ حدیبیہ کا معاہدہ ہوتے ہی حالات معمول پر آگئے اور اسلام کی تمام تعمیری سرگرمیاں پوری طاقت کے ساتھ جاری ہوگئیں جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ اسلام پورے علاقہ میں پھیل گیا۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جنگ صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے، وہ غیرحکومتی افراد یااداروں کا کام نہیں۔ غیر حکومتی ادارے اگر کسی اصلاح کی ضرورت محسوس کریں تو وہ صرف امن کے دائرے میں رہ کر اپنی تحریک چلا سکتے ہیں ،تشدد کی حد میں داخل ہونا ان کے لئے ہر گز جائز نہیں۔
اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔ ایک یہ کہ غیر حکومتی تنظیموںکے لئے کسی بھی عذر کی بنا پر مسلح تحریک چلانا جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ قائم شدہ حکومت کے لئے اگر چہ دفاعی جنگ حکماًجائز ہے مگر اس کے لئے بھی اعلان کی شرط ہے، اسلام میں بلا اعلان جنگ قطعًا جائز نہیں ۔ ان دو شرطوں کو ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ گوریلاوار اور پراکسی وار دونوں ہی اسلام میں ناجائزہیں۔ گوریلا وار اس لئے کہ وہ غیر حکومتی تنظیموں کی طرف سے کی جاتی ہے اور پراکسی وار اس لئے کہ اس میں اگر چہ حکومت بھی شامل رہتی ہے مگراس کی شمولیت بغیر اعلان کے ہوتی ہے۔ اور اعلان کے بغیر جنگ کا جواز اسلامی حکومت کے لئے بھی نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فانبذ إلیھم علی سواء (الانفال ۵۸)۔
موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازمًا دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ نزاع کو متشددانہ ٹکراؤتک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اسی پالیسی کو قرآن میں صبر واعراض کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میںایک مستقل اصول کے طورپر فرمایا کہ الصلح خیر (النساء ۱۲۸)۔ یعنی باہمی نزاع کے وقت صلح کرکے نزاع کو ختم کر دینا نتیجہ کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ صلح یا مصالحت کا طریقہ اختیار کرنے سے یہ موقع مل جاتا ہے کہ اپنی طاقت کو ٹکراؤ میں ضائع کرنے سے بچایا جائے اور ان کو پوری طرح تعمیری کاموں میں لگایا جائے۔ اسی مصلحت کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لاتتمنوا لقاء العدو واسئلوا اللہ العافیۃ (البخاری) یعنی تم لوگ دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے امن مانگو۔
اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: کُلَّما اوقدوا نَارًا للحرب اطفاھا اللّٰہ (المائدہ ۶۴) یعنی جب کبھی وہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔
اس قرآنی آیت سے جنگ اور امن کے بارے میں اسلام کی اصل روح معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے لوگ باربار جنگ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا کے مخصوص نظام کا تقاضا ہے جو مسابقت (competition) کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ مگر اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ دوسرے لوگ جب جنگ کی آگ بھڑکائیں تو وہ یکطرفہ تدبیر کے ذریعہ اس آگ کو ٹھنڈا کردیں۔ گویا اہل اسلام کا طریقہ جنگ نہیں ہے بلکہ اعراض جنگ ہے۔ انہیں ایک طرف یہ کرنا ہے کہ جنگ کی حد تک جائے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ دوسری طرف ان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امن کے پیغامبر بنیں۔ وہ دنیا میںامن کے تاجر ہوں، نہ کہ جنگ کے تاجر۔
اسلام کی یہی اسپرٹ ہے جس کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کو جب مدینہ میں اقتدار ملا تو آپ نے ایسا نہیں کیا کہ لوگوں کو اپنا ماتحت بنانے کے لئے ان سے جنگ چھیڑ دیں۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ عرب میں پھیلے ہوئے قبائل سے گفت و شنید کرکے ان سے معاہدے کئے۔ اس طرح آپ نے پورے عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کو معاہدات کے ایک شیرازۂ امن میں باندھ دیا۔
اسلام کی تعلیم کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام ان اسباب کی جڑ کاٹ دینا چاہتا ہے جوجنگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔جنگ کرنے والا جنگ کیو ں کرتا ہے۔ اس کے دو بنیادی سبب ہیں۔ ایک ہے دشمن کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ اور دوسرا سبب ہے سیاسی طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ ان دونوں مقاصد کے لئے اسلام میں جنگ کا کوئی جواز موجود نہیں۔
جہاں تک دشمن کا معاملہ ہے، اس معاملہ میںجیسا کہ عرض کیا گیا، قرآن کی ایک آیت ابدی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کرو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (فصلت ۳۴)۔
اس سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ میںاسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کی دشمنی کو ختم کیا جائے، نہ کہ خود دشمن کو۔ اس کے مطابق، کوئی دشمن حقیقی دشمن نہیں ہوتا۔ ہر دشمن انسان کے اندر بالقوۃ طورپر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس لئے اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ یک طرفہ حسن سلوک کے ذریعہ اس چھپے ہوئے انسان تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ وہ حسن سلوک کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنالیں۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں دشمن اور حملہ آور کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔دشمن کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس سے نفرت کا معاملہ نہ کیا جائے بلکہ حسن تدبیر کے ذریعہ اس کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کی جائے۔ البتہ اگر کسی کی طرف سے یک طرفہ طورپر حملہ کر دیا جائے تو ایسے حملہ آور کے مقابلہ میںدفاع کے طورپر جنگ کرنا جائز ہے۔ یہ حکم قرآن کی جن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا (البقرہ ۱۹۲) یعنی اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑوجو تم سے لڑتے ہیں ، اورزیادتی نہ کرو۔
اس طرح کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ کوئی فریق یک طرفہ طورپر اہل اسلام کے خلاف جارحانہ حملہ کردے۔ اس قسم کی عملی جارحیت کے بغیر اسلام میںجنگ کی اجازت نہیں۔
جنگ اور امن کے معاملہ میں اسلام کا جو بنیادی اصول ہے وہ قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے: فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم (التوبہ ۷) یعنی پس جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں تم بھی ان سے سیدھے رہو۔ اس قرآنی حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کے درمیان باہمی تعلقات کااصول یہ ہے کہ اگر دوسرا فریق امن پر قائم ہو تو اہل اسلام کو بھی لازماً امن کی روش اختیار کرنی ہوگی۔ اہل اسلام ایسا نہیں کرسکتے کہ فریقِ ثانی کی پر امن روش کے باوجود کوئی عذر لے کر اس کے خلاف جنگی کارروائی کرنے لگیں۔ اس معاملہ میں عملی جارحیت کے سوا کوئی بھی دوسرا عذر قابل قبول نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۵۷۰ء میں مکہ میںہوئی۔ ۶۱۰ء میں آپ کو نبوت ملی۔ اس کے بعد آپ ۲۳ سا ل تک پیغمبر کی حیثیت سے دنیا میں رہے۔ اس ۲۳ سالہ مدت کے ابتدائی ۱۳ سال آپ نے مکہ میں گزارے اور بعد کے ۱۰ سال مدینہ میں۔ قرآن کی کچھ سورتیں مکی دو رمیں نازل ہوئیں اور کچھ سورتیں مدنی دور میں ۔ اس پیغمبرانہ مدت میں آپ نے کیا کیا۔
آپ نے لوگوں کو اقرأ باسم ربک الذی خلق(العلق) اور اس قسم کی دوسری غیر حربی آیتیں سنائیں۔ آپ لوگوںسے یہ کہتے رہے کہ ایھا الناس قولوا لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا۔
آپ نے لوگوں کو دعا اور عبادت کے طریقے بتائے۔ لوگوں کو اخلاق اورانسانیت کی تعلیم دی۔ لوگوں کو بتایا کہ دوسرے لوگ جب تم کو ستائیں تب بھی تم صبر واعراض کے ساتھ زندگی گزارو۔ آپ نے قرآن کوایک اصلاحی کتاب اور ایک دعوتی کتاب کے طور پر لوگوں کے درمیان عام کیا۔ آپ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ دار الندوہ (مکہ کی پارلیمنٹ) میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کے بجائے جنت میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ آپ نے لوگوں کواپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ کعبہ جیسی مقدس عمارت میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے ہوں تب بھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کئے بغیر تم اپنامشن پُرامن طورپر شروع کر سکتے ہو۔ آپ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ آدمی اشتعال انگیز حالات کے درمیان اپنے آپ کو لوگوں کے خلاف نفرت سے بچائے اور پر امن رہ کر لوگوں کی خیرخواہی کا کام انجام دے، وغیرہ۔
پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی میں اس قسم کے جو غیر متشددانہ کام کئے وہ سب بلا شبہہ عظیم اسلامی کام تھے۔بلکہ یہی نبوت کا اصل مشن ہے۔ اور جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وہ صرف ایک استثنائی ضرورت ہے، اسی لئے فقہاء نے جنگ کو حسن لغیرہ بتایا ہے۔
Not for the sake of Islam, but due to some practical reasons.
واپس اوپر جائیں