ڈائری 1986
27 جنوری 1986
پروفیسر علی اشرف(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی) سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا: میں ہر مہینہ باقاعدہ الرسالہ پڑھتا ہوں۔اس سے پہلے 1980ءمیں آپ کی تمام کتابیں خرید کر پڑھ چکا ہوں۔ بعض کتابیں ایک سے زیادہ بار بھی پڑھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تحریروں میں جو فکر پیش کیا ہے اس سے مجھے صد فی صد اتفاق ہے۔اب تک کے مطالعے میں مجھے آپ کی صرف ایک بات کھٹکی ہے اور وہ آپ کا وہ مضمون ہے، جس کاعنوان ہے: حسنین: تاریخ کے دو علامتی کردار(ظہور اسلام، صفحہ 90)۔
اس مضمون کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا گویا آپ یہ تلقین کر رہے ہیں کہ انسان کو برائی (evil) کے مقابلے میں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔اس کو برائی کے مقابلے میں اپنا سر جھکا کر بیٹھ جانا چاہیے۔
میں نے کہا کہ مجھے برائی کے خلاف اقدام کرنے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسے اقدام پراعتراض ہے جب کہ اقدام سے نقصان ہوجائے مگر برائی وہیں کی وہیں باقی رہے۔
میں نے کہا کہ میرا اختلاف برائی کے خلاف اقدام سے نہیں ہے بلکہ میرا اختلاف ایسا اقدام سے ہے جو نتیجہ خیز ہونے والا نہ ہو۔قبل از وقت اقدام یا تیاری کے بغیر اقدام ہمیشہ بے فائدہ ہوتا ہے۔اور اقدام کی یہی وہ قسم ہے جس سے مجھے اختلاف ہے۔برائی کے خلاف عملی اقدام صرف اس وقت کرنا چاہیے جب کہ اقدام کے ضروری اسباب فراہم ہوگئے ہوں۔بصورتِ دیگر برائی کے خلاف نصیحت اور تلقین کی سطح پرکام کیا جانا چاہیے، نہ کہ عملی اقدام کی سطح پر۔
پروفیسر علی اشرف صاحب نے میری اس وضاحت سے اتفاق کیا۔
28 جنوری 1986
مسز شکیلہ خاں(پیدائش1940ء) 1980سے الرسالہ پڑھتی ہیں، اوراس کے ساتھ ان کے شوہر آ ر یو خان بھی۔انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ کے کئی پرچے منگاتی ہوں اور ان کو دوسروں تک پہنچاتی ہوں۔میں جانتی ہوں کہ الرسالہ بہت اچھی چیز ہے ،مگر کبھی بہت اچھی چیز بھی لوگوں کو اچھی دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ گنبد کھڑا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ اینٹیں اس کی نیومیں دفن ہونے پر راضی ہوں۔انہوں نے اپنے بارے میں تاثر کے ساتھ کہا کہ’’ میں وہ نیو(foundation) بننا چاہتی ہوں جس پر کوئی گنبد کھڑا ہو سکے‘‘۔
انہوں نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت حقیقت پسند (realist)ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک مسئلہ پیدا ہوا ۔میں بہت جھنجھلائی۔میرے شوہر نے سمجھا یا کہ اس وقت ہم صرف صبر ہی کر سکتے ہیں۔جو کچھ ہو سکتا ہے وہ بعد کو ہو سکتا ہے۔ان کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا کہ ’’بعد کو سب کچھ ہوگا مگر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔اسی طرح ایک بار وہ اپنے ایک رشتے دار کے یہاں گئیں۔وہاں انہیں کچھ دن ٹھہرنا تھا۔وہاں لوگوں کے رہنے سہنے کے طریقے انہیں غلط نظر آئے۔اس پر انہیں غصہ آیا۔وہ چاہتی تھیں کہ لوگوں سے لڑ جائیں۔ان کے شوہر نے کہا کہ یہ تمہارا گھر نہیں ہے،یہ دوسرے کا گھر ہے۔یہاں تم کو برداشت کرکے رہنا ہوگا۔اس گھر میںکچھ نہیں بدلے گا، اگر بدلوگی تو تم بدلوگی۔اسی طرح انہوں نے اپنے شوہر کی ایک بات ان الفاظ میں نقل کی:’’اگر اپنی غلطی کو درست ثابت (justify)کروگی تو کبھی ترقی نہیں کروگی۔ترقی کرنے کے لیے اپنی غلطی کو ماننا پڑتا ہے‘‘۔
29 جنوری 1986
27 جنوری 1986 کو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز(تغلق آباد) میں مسٹر اصغر علی انجینئر کی ایک تقریر تھی۔اس کا عنوان تھا:
Islam and Contemprorary Problems
مسٹر اصغر علی انجینئر ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں حالات بدل گئے ہیں،اس لیے اسلام کی از سرنو تعبیر(بالفاظ دیگر نظرثانی) ہونی چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن منزل (goal) کی بات نہیں کرتا بلکہ صراط کی بات کرتا ہے۔صراط کا مطلب ان کے نزدیک پراسس ہے۔گویا اسلام میں کوئی حکم آخری طور پر طے شدہ نہیں ہے۔مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ صراط کے معنی پراسس کیسے ہیں۔انہوں نے اس کی کوئی لغوی دلیل نہیںدی۔حالانکہ دلیل کے بغیر مجرد بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک گھنٹے کی تقریر میںانہوں نے کوئی ایک بھی ایسی واضح مثال نہیں دی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حالات میں ایسا فرق ہو گیا ہے کہ اب اسلامی حکم میں تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام کے نکاح وطلاق کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں اسلام میں فری انکوائری کے اصول کو رائج کرنے پر زور دیا۔یہ ایک بڑا عجیب تضاد ہے۔مقرر موصوف نے جو مثال پیش کی اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں عمل(practice) غیراسلامی ہو گیا ہے۔مگر اس کی بنیاد پر وہ اسلام کے اصولوں کے بارے میں فری انکوائری کی وکالت کر رہے ہیں۔جب کہ امرواقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی خرابی اصول پر عدم پابندی سے ہوئی ہے ۔تو فری انکوائری اس بات پرہونی چاہیے کہ اصول اور عمل میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے، نہ یہ کہ اصولوں پر فری انکوائری کا عمل کیا جائے۔
30جنوری 1986
آج اتفاقاً لال قلعہ (دہلی) کی طرف جانا ہوا۔اس عظیم قلعہ کوپانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں (1592-1666ء)نے بنوایا تھا۔قلعہ کی وسیع عمارتیں اور 75 فٹ اونچی دیواریں سرخ پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ان کو دیکھ کر عجیب تاثر قائم ہوتا ہے۔
تین سو سال پہلے یہ قلعہ دنیا کی ایک طاقتور سلطنت کا مرکز تھا۔’’سلطان دہلی کو اس وقت کتنی بڑی حیثیت حاصل ہوگی‘‘ لال قلعہ کو دیکھ کر میری زبان سے یہی جملہ نکلا۔مگر عجیب بات ہے کہ لال قلعہ بننے کے بعد ہی مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔اس کی وجہ افراد کی کمی تھی۔مغل حکمرانوں کے پاس پتھر کافی مقدار میں تھے،جن سے وہ ایک عظیم قلعہ بنا سکیں،مگر ان کے پاس جاندار افراد نہ تھے جن سے وہ ایک عظیم سیاسی نظام بنا سکیں۔
اس کے بعد شاہی خاندان میں اقتدار کی لڑائیاں شروع ہو گئیں۔شاہی افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔صوبائی حاکموں میں مرکز سے بغاوت کا رجحان پیدا ہوگیا۔اس صورت حال سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا۔وہ دھیرے دھیرے پورے ملک پر قابض ہو گئے۔
لال قلعہ کو دیکھ کر یہ سب باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔میں نے اپنے دل میں کہا:قوم کے افراد میں اگر جان نہ ہو تو پتھروں کی دیواریں قوم کو بچانے والی ثابت نہیں ہوتیں۔جس قلعہ کو مغل حکمرانوں نے اپنے ابدی اقتدار کی علامت سمجھا تھا وہ ان کے اقتدار کا قبرستان بن کر رہ گیا— طاقت کا اصل راز جاندار افراد ہیں اور یہی وہ متاع ہے جودنیا میں ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
31 جنوری 1986
قرآن میں حکم دیا گیا ہےکہ قرآن کی آیتوں پر غور کرو۔اس سے واضح ہے کہ قرآن کا ایک حصہ سطور (lines) میں ہے اور اسی کا دوسرا حصہ بین السطور (between the lines)میں۔اس بین السطور والے قرآن کو صرف غور کرکے پایا جا سکتا ہے۔اگر قرآن کا ایک حصہ غیرملفوظ طور پر اس کے بین السطور میں نہ ہوتا تو قرآن پر غور کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔
مجھ پر ایک تجربہ گزرا۔یہ تجربہ ایک مثال ہے جو اس معاملے کو واضح کر رہا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو قسم کے پانی بنائے۔ایک میٹھا اور دوسرا کھاری(فاطر، 35:12 ) ۔اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ زمین میں مختلف پھل پیدا ہوتے ہیں۔سب کو ایک پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔مگر سب برابر نہیں۔ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے(الرعد، 13:4 )۔
ان آیتوں پر غور کرتے ہوئے اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ان میں ایک ایسا مفہوم پارہا ہوں جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں۔یعنی اللہ کی ایک نئی صفت۔میرے ذہن میں آیا کہ انسان کسی چیز کے مزے کو چکھ کر جانتا ہے۔آدمی اگر چیز کو زبان سے نہ چکھے تو وہ اس کے مزے کو نہ جان سکے۔
خدا کھانے پینے سے ماورا ہے۔خدا نے کبھی کسی چیز کو نہیں چکھا۔پھر اس کو چیزوں کا مزا کیسے معلوم ہوا۔یہ غور کرتے ہوئے اچانک مجھ پر خدا کی ایک نئی صفت منکشف ہوئی۔یہ صفت کہ وہ چکھے بغیر چیزوں کے مزے کو جانتا ہے۔خدا اس انوکھی طاقت کا مالک ہے کہ وہ چیزوں کو انسان کی طرح زبان سے نہ چکھے،اس کے باوجود وہ پوری طرح جانے کہ کس چیز کا مزہ کیا ہے اور کس چیز کا مزہ کیا۔
1فروری 1986
3ستمبر1984کو مسٹرمسعود احمد بنارسی سے میری ایک گفتگو ہوئی تھی۔گفتگو کا موضوع سکھوں کاآزاد صوبہ (پنجابی صوبہ) تھا۔میں نے کہا کہ آزاد پنجابی صوبہ کبھی نہیں بنے گا۔انہوں نے اس سے سخت اختلاف کیا۔انہوں نے کہا کہ تین سال میں سکھوں کا آزاد پنجابی صوبہ ضرور بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر میرا یہ اندازہ صحیح نہیں نکلا تو میں آپ کو ایک لاکھ روپے ادا کروں گا۔انہوں نے اپنے قلم سے میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Within three years Punjab will have an independent Khalistan. Bet Rs. one lakh.
آج ہندوستان ٹائمس (1فروری 1986) میں،میں نے مسٹر خشونت سنگھ کا ایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھے وہ واقعہ یاد آیا جو اوپر نقل کیا گیا ہے۔مسٹر خشونت سنگھ کے مضمون کا عنوان ہے:بیوقوفوں کی ایک قوم(A Nation of Fools) ۔اس مضمون میں مسٹر خشونت سنگھ نے اس پوری سیاست کو احمقانہ سیاست بتایا ہے۔انہوں نے پنجاب کی تازہ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
I disapprove of their actions. This is no kar seva but kursee-seva. (Gurcharan Singh) Tohra (d. 2004) wants to stick to his kursee, they want it for themselves.
انہوں نے پنجاب کی سیاست پر اردو کا حسب ذیل شعر چسپاں کیا ہے:
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے ادھر بھی عقل کے دشمن ادھر بھی دیوانے
3فروری 1986
آج کانپورکے دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔ایک ندوی عالم تھے اور دوسرے تاجرتھے۔ وہ دونوں تبلیغی جماعت کے چلہ میں گجرات جا رہے ہیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہاکہ اس وقت امت میں دو قسم کے کام چل رہے ہیں۔ایک اصلاحی اور دوسرا مطالباتی۔پہلے کو داخلی انداز کار اور دوسرے کو خارجی انداز کار کہہ سکتے ہیں۔قرآن وسنت سے جہاں تک میں سمجھا ہوں،صرف داخلی انداز کار ہی صحیح انداز کار ہے۔خارجی انداز کار کی تصدیق قرآن نہیں کرتا۔
پھر میں نے کہا کہ داخلی انداز کار کا اصول اگر مسلمانوں کی کسی جماعت میں پایا جاتا ہے تووہ صرف تبلیغی جماعت ہے۔تبلیغی جماعت، احتجاج اور مقابلہ اور تجاویز کا طریقہ اختیار نہیں کرتی جو موجودہ زمانہ میں دوسری مسلم جماعتیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہ تمام تر مسلمانوں کی داخلی اصلاح پر زور دیتی ہے۔اور داخلی اصلاح ہی بلا شبہ اصل قرآنی کام ہے۔
میں نے کہا کہ مستقبل میں اگر کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو صرف داخلی انداز کار سے نکل سکتا ہے۔ خارجی انداز کار سے قطعاً کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔خواہ اس قسم کی تحریکیں ایک ہزار سال تک چلتی رہیں۔
4فروری 1986
دومسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ ایس آئی ایم آئی(SIMI) سے تعلق رکھتےہیں۔پھر انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلم مسائل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ کون سے مسلم مسائل؟ انہوں نے کہا کہ مثلاً یہ کہ:
’’ہندوستان کی کورٹ ہمارے شرعی قانون کو چیلنج کرنا چاہتی ہے‘‘
میں نے کہا کہ آپ کے اس جملے میں دو غلطیاں ہیں۔آپ کورٹ کے بارےمیں فرما رہے ہیں کہ وہ شرعی قانون کو بدلنا چاہتی ہے۔حالانکہ کورٹ کا یہ کام ہی نہیں۔قانون کو بدلنا قانون ساز اسمبلی کا کام ہے، نہ کہ کورٹ کا۔کورٹ تو صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ بنے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دے۔وہ قانون کومنطبق کرنے کے لئےہوتی ہے، نہ کہ حقیقتاً قانون کو بنانے کے لیے۔
دوسری بات یہ کہ عدالت کا کوئی اقدامی رول نہیں ہوتا۔یعنی وہ خود سے آکر آپ کے اوپر کوئی قانون نافذ نہیں کرتی۔آپ جب اس کے یہاں جا کر کہتے ہیں کہ فلاں قانون کے مطابق میرے معاملے کا فیصلہ کرو تو وہ شہادتوں کو سننے کے بعد متعلقہ قانون کو آپ کے معاملے پرمنطبق کر دیتی ہے۔
مثال کے طور پر شاہ بانو کے کیس میں خود مذکورہ مسلم خاتون نے عدالت سے کہا کہ میرے معاملے میں کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 125 کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو اس نے فیصلہ دیا۔اس کے برعکس، اگر مسلم خاتون یہ دعوی کرتی کہ میرے معاملے میںمسلم شرعی قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو کورٹ مسلم پرسنل لا کے مطابق فیصلہ دیتی۔اس معاملے میں واضح طور پر مسئلہ کسی کورٹ کی طرف سے نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ خود مسلمانوں کی طرف سے پیدا ہوا ہے جو اپنے معاملات کا فیصلہ ملکی قانون کے تحت کرانا چاہتے ہیں۔
5فروری 1986
نظام الدین(نئی دہلی) میںہمارے دفتر سے ملا ہوا ایک پارک ہے۔اس پارک میں ایک لمبا سیمل کا درخت (silk-cotton tree) ہے۔اس درخت کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔اس میںروزانہ رات کو گدھ آ کر بیٹھتے تھے۔لوگوںنے پٹاخہ چھوڑ کر ان کو بھگانے کی کوشش کی،مگر وہ نہیںبھاگے۔ آخرکار کارپوریشن نے اس کا حل یہ نکالا کہ درخت کی تمام شاخیں کاٹ دی گئیں۔
یہ واقعہ1985ء کے آغاز میں ہوا۔شاخیں کاٹنے کے بعد درخت کا منظر یہ تھا۔تاڑ کی مانند ایک لمبا خالی تنا فضا میں کھڑا ہوا دکھائی دیتا تھا۔البتہ کاٹنے والوںنے یہ کیاکہ بالکل اوپر ایک آخری شاخ چھوڑ دی۔یہ شاخ تقریباً دو میٹر لمبی تھی۔
اب اس درخت کے کٹنے پر ایک سال پورا ہو چکا ہے۔آج اس بظاہر خشک تنے کا منظر دوسرا ہے۔قدیم شاخوں کے کٹنے کے بعدنیچے سے اوپر تک تنے کے چاروں طرف نئی شاخیں اور پتیاں نکلیں،یہاں تک کہ وہ ان سے ڈھک گیا۔اب وہ خشک تنا نہیںبلکہ وہ ایک پورا درخت ہے جو سرسبزو شاداب حالت میں کھڑا ہوا ہے۔تاہم اس شادابی میں ایک استثنا ہے اور وہ اسی شاخ کا ہے جس کو کاٹنے والے نے چھوڑ دیا تھا۔یہ شاخ آج بھی ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ایک سال پہلے تھی۔ایک پتلی سی لکڑی اور اس کے اوپر چند سوکھی پتیاں۔درخت کی نئی شاخیں خوب سرسبزوشاداب نظر آتی ہیں،مگر یہ قدیم شاخ ایک مرجھائی ہوئی موٹی ٹہنی کا منظر پیش کرتی ہے۔
یہ قدرت کا ایک سبق ہے۔اس دنیا میں جس کو کاٹا جائے وہی دوبارہ ظہور کرتا ہے۔جس کی سرسبزی کو مٹایا جائے وہی زیادہ سرسبزو شاداب ہو کر زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔یہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاںنہیں میں ہے کا امکان ہے۔جہاں موت کے اندر زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔
6فروری 1986
ڈاکٹرشعیب احمد قاسمی(پرنسپل طیبہ کالج جے پور) ملاقات کے لیےتشریف لائے۔انہوں نے بتایا کہ جے پور میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔اس کا ایک جلسہ ہوا اور اس کی صدارت کے لیے ہندوستان کے ایک مشہور ترین عالم کو بلایا گیا۔
اس جلسہ میں ادارہ کے ذمہ دار نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ دوسرے کورسوں کے علاوہ ٹیکنیکل کورس بھی رکھیں اور اس کے ذریعے ٹیکنیشین(technicians) تیار کریں۔مذکورہ عالم تقریر کے لیے کھڑے ہوئےتو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہاں ٹیکنیشین (technicians) کی نہیں بلکہ اکسپرٹ(experts)کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ مولانا کی یہ تقریر بہت پسند کی گئی۔
میں نے کہا کہ یہ محض ایک خطابت ہے۔یہ کوئی گہری بات نہیں۔حضرت عمر اور حضرت علی دونوں جلیل القدر صحابی تھے۔مگر حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ میں معاملات درست تھے اور حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں معاملات بگڑ گئے۔کسی نے حضرت علی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ حضرت علی نے جواب دیا:’’عمر کے ساتھی میرے جیسے لوگ تھے،میرے ساتھی تمہارے جیسے لوگ ہیں‘‘(تاریخ ابن خلدون، جلد1، صفحہ 264 )۔باالفاظ دیگر عمر کے زمانہ میں’’اکسپرٹ‘‘ کے ساتھ’’ٹیکنیشین‘‘ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اب ’’اکسپرٹ‘‘ ہیں مگر’’ٹیکنیشین‘‘ موجود نہیں۔ایک اکسپرٹ کے تحت لاکھوں ٹیکنیشین درکار ہوتے ہیں تب ایک نظام چلتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بربادی کا سب سے بڑا سبب مذکورہ بالا قسم کی پرجوش تقریریں ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان یونیورسٹی بناتے ہیں، مگر وہ ابتدائی سطح پر جدید تعلیم کا انتظام نہیں کرتے۔ وہ خلافت اور حکومت قائم کرنے کے لیے دوڑتے ہیں،مگر معاشرہ تیار نہیں کرتے۔عالمی انقلاب کی باتیں ان کو بہت پسند آتی ہیں،مگر افراد کے اندر انقلاب لانے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا ہر آدمی’’گنبد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچتا ہے،مگر’’بنیاد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچنا انہیں کم تر درجہ کی بات معلوم ہوتی ہے۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے ہوائی قلعے تو خوب بن رہے ہیں،مگر حقیقی قلعہ تعمیر کرنے میں وہ اب تک کامیاب نہ ہو سکے۔
7فروری 1986
ایک مضمون نظر سے گزرا۔اس کا عنوان تھا’’عمامہ اور اتباع سنت‘‘۔مضمون نگار نے محدث ابو بکر بیہقی (وفات 1066ء) کی شعب الایمان کے حوالے سے عمامہ کی فضیلت میں ایک روایت نقل کی ہے۔پھر اطاعت رسول اور اتباع سنت کی اہمیت ثابت کرتے ہوئے عمامہ باندھنے پر زور دیا ہے۔
عمامہ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً ثابت ہے۔لیکن قولاً کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جس سے عمامہ پہننے کی اہمیت ثابت ہوتی ہو۔عمامہ کی فضیلت میں جو بھی روایتیں ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں، وہ سب کی سب غیر ثابت شدہ ہیں،ایک بھی صحیح حدیث نہیں۔سنن الترمذی کے شارح عبدالرحمن مبارکپورى لکھتے ہیں : لَمْ أَجِدْ فِی فَضْلِ الْعِمَامَةِ حَدِیثًا مَرْفُوعًا صَحِیحًا وَکُلُّ مَا جَاءَ فِیہِ فَہِیَ إِمَّا ضَعِیفَةٌ أَوْ مَوْضُوعَةٌ(تحفة الأحوذی للمبارکفورى، جلد 5، صفحہ 339 )۔ یعنی، عمامہ کی فضیلت میں کوئی صحیح مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی، اس تعلق سے جو حدیثیں بھی ہیں، وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔
مثلاً ایک روایت یہ ہے:عَلَیْکُمْ بِالْعَمَائِمِ فَإِنَّہَا سِیمَاءُ الْمَلَائِکَةِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13418)۔ یعنی، تم پر پگڑیاں پہننا لازم ہے،کیوں کہ یہ فرشتوں کی پہچان ہے۔ اس حدیث کا ایک راوی مجہول ہے(الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 1، صفحہ 359 ) اور علامہ ابن طاہر پٹنی (وفات 1578ء)نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے (تذکرة الموضوعات، صفحہ 155 )۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: الْعَمَائِمُ تِیجَانُ الْعَرَبِ (مسند الشہاب، حدیث نمبر 68 )۔ یعنی، پگڑیاں عرب کا تاج ہیں۔یہ روایت بھی باعتبار اسناد ضعیف ہے (المقاصد الحسنہ للسخاوی، حدیث نمبر 717 )۔
یہ بات بطور واقعہ صحیح ہے کہ قدیم عرب میں پگڑی پہننا شرافت اور عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اُس دور میںپگڑی آدمی کی سنجیدگی اور وقار کا نشان تھی۔اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بھی پگڑی کا استعمال کیا۔مگرمیرا خیال ہے کہ عمامہ باندھنا عادت عرب ہے ،نہ کہ سنتِ رسول، یہ تاج العرب ہے، نہ کہ تاج الاسلام ۔
8فروری 1986
شری ڈی این آول6فروری کو ہمارے دفتر میں آئے۔وہ اس وقت دہلی میں اپنے لڑکے کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ اردو بخوبی جانتے ہیں۔چنانچہ میں نے ان کو اپنی نئی کتاب ’’اللہ اکبر‘‘ بطور تحفہ دی۔ تیسرے دن 8فروری کو کتاب واپس آ گئی۔میں نے سمجھا کہ شاید بغیر پڑھے ہوئے انہوں نے واپس بھیج دی ہے۔مگر اس کے ساتھ ان کا ایک خط بھی تھا۔اپنے اس خط میںانہوں نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے نہایت بامعنیٰ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا:
’’آپ کی کتاب’’اللہ اکبر‘‘ مجھے پرسوں عطا ہوئی تھی۔میں اس کے مطالعہ میں اس قدر کھو گیا کہ آج صبح تک اس کو سارا پڑھ کر ہی دم لیا۔یہ بھی قادر مطلق کی شان ہے، ورنہ 288 صفحات کی کتاب کو اتنی جلدی پڑھ لینا کوئی آسان کام نہ تھا‘‘۔
یہ کتاب میں نے انہیں واپسی کی شرط پر نہیں دی تھی،تاہم انہوں نے کتاب کو بہت ہی حفاظت کے ساتھ ورق کے اوپر کاغذ لگا کر پڑھا اور ویسے کا ویسا ہی واپس کر دیا۔
پچھلے برسوں میں،میں نے بہت سے مسلمانوں کو ہدیۃً یہ کتاب دی ہے۔اور ان سے یہ کہا ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے بعد ایک خط میں اپنے تاثرات لکھ کر بھیج دیں۔مگر جہاں تک یاد ہے غالباً کسی ایک مسلمان نے بھی اب تک ایسا خط نہیں بھیجا۔
اس طرح کے مختلف تجربات ہیں جس کی روشنی میں ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان بالکل بے جان قوم ہو چکے ہیں۔اس کے مقابلے میں ہندو ایک زندہ قوم ہیں۔کاش اسلام کے خلاف تعصب کی دیواریں ڈھ جائیں اور وہ موجودہ دور میں خدا کے دین کے علم بردار بن سکیں۔
9فروری 1986
آج تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ ملنے کے لیے آ ئے۔وہ بکارو اسٹیل(بہار) میں کام کرتے ہیں۔ان میں ایک صاحب انجینئر تھے۔گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ ہمارا مشن اور تبلیغ کا مشن اصلاً ایک ہے۔فرق یہ ہے کہ تبلیغ عوام(masses)کے لحاظ سے کام کرتی ہے اور ہم ذہین طبقہ (intellectual class) کے لحاظ سے کام کررہے ہیں۔
انجینئر صاحب نے کہا کہ تبلیغی جماعت دونوں طبقہ کے لیے کام کر رہی ہے۔مثلاً آپ دیکھیے کہ ہماری جماعت جو بکارو سے آئی ہے اس میں میرے سمیت چار انجینئرہیں۔
یہ ایک زبردست غلط فہمی ہے۔لوگ ڈگری ہولڈرس اور انٹیلکچولس کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ ایسی بات کہتے ہیں۔حالاں کہ یہ دونوں ہم معنیٰ الفاظ نہیں۔انٹیلکچول سے مراد وہ شخص ہے جو غیرمعمولی ذہین ہو اور مسائل پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچتا ہو۔جب کہ ڈگری یافتہ ہر وہ شخص ہے جو کسی تعلیمی ادارہ سے ایک متعین کورس کو مکمل کرنے کے بعد ڈگری حاصل کر لے۔
انٹیلکچولس پڑھے لکھے لوگوں میںبھی ہوتے ہیںاوربے پڑھے لکھے لوگوں میںبھی۔یہ لوگ معاملات کو تفکری انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔فکروفہم ان کی غذاہوتی ہے۔وہ کسی بات کو اسی وقت مانتے ہیں جبکہ اس کو ان کی فکری سطح پر قابل فہم بنا دیا گیا ہو۔
10فروری 1986
8-10 فروری 1986 کو غالب اکیڈمی(نئی دہلی) میں ایک سہ روزہ سیمینار ہوا۔اس کا موضوع اردو صحافت تھا اور اس کو اردو اکادمی نے منظم کیا تھا۔راقم الحروف نے بھی اس میں ایک مقالہ پڑھا۔
ایک ہندو صحافی دہلی سے ’’مستانہ جوگی‘‘ نام کا اردو اخبار نکالتے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میری پرورش لاہور میں ہوئی۔میں صرف اردو زبان جانتا ہوں۔مگر میرےبچوں کا حال یہ ہے کہ صرف ہندی اور انگریزی جانتے ہیں۔وہ اردو بالکل نہیں پڑھ سکتے۔یہی حال اب نئے ہندوستان میں بہت سے مسلم خاندانوں کا ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے اردو پرچوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ہندی پرچے نکال رکھے ہیں۔مثلاً’’شمع‘‘ اردو کا ماہنامہ ہے۔مگر اسی کے ما تحت اس نے’’ششما‘‘ نام سے ہندی ماہنامہ نکال رکھا ہے۔اسی طرح اور بہت سے پرچے اردو کے ساتھ ہندی ایڈیشنز جاری کیے ہوئے ہیں۔تاکہ اگر اردو کی کشتی ڈوبے تو وہ ہندی کی کشتی پر سوار رہ سکیں۔مگر یہی بات آپ کسی ہندی پرچے میں نہیں پائیںگے۔یعنی کوئی ہندی پرچہ ایسا نہیں ہے جس نے ہندی کے ساتھ اردو کا پرچہ جاری کر رکھا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل ہندی کے ساتھ ہے۔
میرا خیال ہے کہ تاریخ کے بارے میں اس قسم کے اندازے اکثر صحیح نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر تقسیم کے بعد عام خیال یہ تھا کہ ملک میں اردو کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔مگر چالیس سال بعد بھی اردو ختم نہیں ہوئی۔بلکہ آزادی کے وقت اور آج کی صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو اردو کافی بڑھی ہے۔
دوسری بات ایک اور ہے جس کو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔ہندوستان میںلکھنے والی اردو ضرور کم ہوئی ہے،مگر بولی جانے والی اردو میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ہندوستان کے ٹیلی وژن میں جو زبان استعمال ہوتی ہے،وہ واضح طور پر اردو ہوتی ہے ،نہ کہ ہندی۔حقیقت یہ ہے کہ زبانوں کا تسلسل ختم ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اردو بلا شبہ کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں